Surat Marium

Surah: 19

Verse: 31

سورة مريم

وَّ جَعَلَنِیۡ مُبٰرَکًا اَیۡنَ مَا کُنۡتُ ۪ وَ اَوۡصٰنِیۡ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ مَا دُمۡتُ حَیًّا ﴿۪ۖ۳۱﴾

And He has made me blessed wherever I am and has enjoined upon me prayer and zakah as long as I remain alive

اور اس نے مجھے بابرکت کیا ہے جہاں بھی میں ہوں ، اور اس نے مجھے نماز اور زکوۃ کا حکم دیا ہے جب تک بھی میں زندہ رہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ ... And He has made me blessed wherever I be, Mujahid, `Amr bin Qays and Ath-Thawri all said that this means, "And He made me a teacher of goodness." In another narration from Mujahid, he said, "A person of great benefit." Ibn Jarir reported from Wuhayb bin Al-Ward, a freed slave of the Bani Makhzum tribe, that he said, "A scholar met another scholar who had more knowledge than himself. So he said to him, `May Allah have mercy upon you, what acts of mine should I perform openly!' The other replied, `Commanding good and forbidding evil, for verily, it is the religion of Allah, which He sent His Prophets with to His servants.' The scholars have indeed agreed upon the statement of Allah, وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ (And He has made me blessed wherever I be), Then it was said, `What was his blessing?' He (Wuhayb) replied, `Commanding good and forbidding evil wherever he was."' His saying, ... وَأَوْصَانِي بِالصَّلَأةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا and He has enjoined on me (Awsani) Salah and Zakah, as long as I live. This is similar to the statement of Allah to Muhammad, وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ And worship your Lord until there comes unto you the certainty (i.e. death). (15:99) Abdur-Rahman bin Al-Qasim reported from Malik bin Anas that he commented on Allah's statement, وَأَوْصَانِي بِالصَّلَأةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا (and He has enjoined on me (Awsani) Salah and Zakah, as long as I live). He said, "Allah informed him of what would be of his affair until his death. This is the firmest evidence against the people who deny Allah's preordained decree." Concerning Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 اللہ کے دین میں ثابت قدم، یا ہر چیز میں زیادتی، برتری اور کامیابی میرا مقدر ہے یا لوگوں کے لئے نافع، نیکی کے کام کرنے کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا۔ (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۙوَّجَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ ۠ : ” مُبٰرَكًا “ یہاں باب مفاعلہ مقابلے کے معنی میں نہیں بلکہ مبالغہ کے لیے ہے، یعنی بہت برکت والا۔ برکت کا معنی خیر کثیر ہے جو ” بِرْکَۃٌ“ سے ہے، جس کا معنی تالاب ہے جس میں بہت پانی ہوتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے لوگوں کے لیے بہت خیر و برکت اور نفع پہنچانے والا بنایا ہے۔ ‎وَاَوْصٰىنِيْ بالصَّلٰوةِ وَالزَّكٰوةِ : نماز اور زکاۃ کی خاص تاکید کی وجہ کے لیے دیکھیے سورة توبہ (٥، ١١) اس آیت سے معلوم ہوا کہ نماز، زکاۃ اور شریعت کے دوسرے احکام موت تک کسی کو معاف نہیں۔ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی فوت ہونے تک عبادت کا حکم ہوا، چناچہ فرمایا : (وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ ) [ الحجر : ٩٩ ] ” اور اپنے رب کی عبادت کر، یہاں تک کہ تیرے پاس یقین (موت) آجائے۔ “ موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت ملی تو توحید کی تاکید کے بعد نماز کا حکم ہوا۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (١٤) ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے اپنے اور اپنی اولاد کے لیے نماز کا پابند رہنے کی دعا کی۔ دیکھیے سورة ابراہیم (٤٠) جب اولوالعزم پیغمبروں کو کسی صورت نماز معاف نہیں ہوئی تو بعض صوفیوں کو کیسے معاف ہوگئی اور پیغمبروں کو صرف دل کی نماز کافی نہیں ہوئی تو انھیں کیسے کافی ہوگئی ؟ درحقیقت یہ لوگ اسی سورة مریم کی آیت (٥٩) کی حقیقی تصویر ہیں۔ 3 چونکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں پہلے سے یہ بات موجود تھی کہ کچھ لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کو معبود بنائیں گے، اس لیے انھیں ساری زندگی نماز اور زکاۃ کا حکم دیا، تاکہ سب لوگ جان لیں کہ جو خود کسی معبود کے سامنے نماز پڑھتا ہے وہ کسی صورت معبود نہیں ہوسکتا۔ (بقاعی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ |"And has enjoined Sa1ah and Zakah upon me.|" - 19:31. The word أَوْصَانِي is derived from the word وَصِیِّۃ (Wasiyyah) which normally means &to bequeath&, but when used in the context of issuing an order, it implies an emphatic command, and here it is used to put emphasis on a command of Allah. For this reason it is translated in the text as &enjoined&. Here Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) has said that Allah Ta’ ala had commanded him to offer Prayers and give the obligatory charity (Zakah), the intention being that he was commanded to observe both these duties with great diligence. Prayers and Zakah are two forms of worship which have been enjoined as obligatory in the Shar` iah (Laws) of all the prophets from Adam (علیہ السلام) to the last of the Prophets, Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . However, their details vary in different codes. In the Shar` iah of Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) prayers and Zakah were also made compulsory. It is true that ` Isa (علیہ السلام) was never wealthy; neither did he build a house for himself nor did he accumulate any material riches, then why was he enjoined to pay Zakah? The answer is that this injunction is of general application in that whosoever possesses a certain level of wealth (نصاب) is liable to pay Zakah. This injunction applied to ` Isa I as well i.e. whenever he acquired wealth upto the level of Nisab (نَصاب) he was required to pay Zakah, but if his wealth remains below Nisab throughout his life, he would never be liable to pay Zakah. This situation, therefore, is not in conflict with the general rules governing Zakah. مَا دُمْتُ حَيًّا |"As long as I am alive.|" - 19:31. It means that the injunction of prayers and Zakah is forever i.e. as long as I live. It is obvious that the reference here is to the life in this world, because these duties can be performed only here in this world.

(آیت) وَاَوْصٰىنِيْ بالصَّلٰوةِ وَالزَّكٰوةِ کسی چیز کا حکم جب زیادہ تاکید کے ساتھ کیا جائے تو اس کو وصیت کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس جگہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نماز اور زکوٰة کی وصیت فرمائی اس کا مفہوم یہی ہے کہ بڑی تاکید سے ان دونوں چیزوں کا مجھے حکم دیا۔ نماز اور زکوٰة، ایسی عبادتیں ہیں کہ آدم (علیہ السلام) سے لے کر خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک ہر نبی و رسول کی شریعت میں فرض رہی ہیں البتہ مختلف شریعتوں میں ان کی تفصیلات اور جزیات مختلف رہی ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں بھی نماز اور زکوٰة فرض تھے۔ رہا یہ معاملہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) تو کبھی مالدار ہی نہیں ہوئے، نہ گھر بنایا نہ کچھ جمع کیا پھر زکوٰة کا ان کو حکم دینا کس بناء پر ہے ؟ تو اس کا مقصد واضح یہ ہے کہ ان کی شریعت میں قانون یہ بنادیا گیا تھا کہ جس شخص کے پاس مال ہو اس پر زکوٰة فرض ہے، عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اس کے مخاطب ہیں کہ جب کبھی مال بقدر نصاب جمع ہوجاوے تو زکوٰة ادا کریں پھر اگر عمر بھی میں کبھی مال جمع ہی نہ ہو تو اس کے منافی نہیں۔ (روح) (آیت) مَا دُمْتُ حَيًّا، یعنی نماز اور زکوٰة کا حکم میرے لئے دائمی ہے جب تک زندہ ہوں ظاہر ہے کہ اس سے مراد وہ حیات ہے جو اس عالم دنیا میں زمین پر ہے کیونکہ یہ اعمال اسی زمین پر ہو سکتے ہیں اور یہیں سے متعلق ہیں آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد نزول کے زمانے تک رخصت کا زمانہ ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّجَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ ۝ ٠۠ ‎وَاَوْصٰىنِيْ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّكٰوۃِ مَا دُمْتُ حَيًّا۝ ٣١۠ۖ برك أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء . قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] ( ب رک ) البرک اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔ وصی الوَصِيَّةُ : التّقدّمُ إلى الغیر بما يعمل به مقترنا بوعظ من قولهم : أرض وَاصِيَةٌ: متّصلة النّبات، ويقال : أَوْصَاهُ ووَصَّاهُ. قال تعالی: وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة/ 132] وقرئ : وأَوْصَى «2» قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ [ النساء/ 131] ، وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت/ 8] ، يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ [ النساء/ 11] ، مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء/ 12] حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ ( و ص ی ) الوصیۃ : واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنے کے ہیں اور یہ ارض واصیۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیوستہ گیا ہ یعنی باہم گھتی ہوئی گھاس والی زمین کے ہیں اور اوصاہ ووصا کے معنی کسی کو وصیت کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة/ 132] اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی ۔ ایک قرات میں اوصی ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت/ 8] اور ہم نے انسان کو حکم دیا ۔ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء/ 12] وصیت کی تعمیل کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے ۔ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ [ المائدة/ 106] کہ وصیت کے وقت تم دو مر د ۔ وصی ( ایضاء) کسی کی فضیلت بیان کرنا ۔ تواصی القوم : ایک دوسرے کو وصیت کرنا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَتَواصَوْا بِالْحَقِّ وَتَواصَوْا بِالصَّبْرِ [ العصر/ 3] اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔ أَتَواصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طاغُونَ [ الذاریات/ 53] کیا یہ لوگ ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کرتے آئے ہیں بلکہ یہ شریر لوگ ہیں ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ زكا أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة . يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] ، إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس/ 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ، أي : مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله : «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد . وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان : أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی/ 14] . والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه . ( زک و ) الزکاۃ : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم/ 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی/ 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔ دوم أصل الدّوام السکون، يقال : دام الماء، أي : سكن، «ونهي أن يبول الإنسان في الماء الدائم» ۔ وأَدَمْتُ القدر ودوّمتها : سكّنت غلیانها بالماء، ومنه : دَامَ الشیءُ : إذا امتدّ عليه الزمان، قال تعالی: وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً ما دُمْتُ فِيهِمْ [ المائدة/ 117] ( د و م ) الدام ۔ اصل میں دوام کے معنی سکون کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ دام المآء ( پانی ٹھہر گیا ) اور ( حدیث میں یعنی کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے منع کیا گیا ہے تھوڑا سا پانی ڈالکر ہانڈی کو ٹھنڈا کردیا ۔ اسی سے دام الشئی کا محاورہ ہے یعنی وہ چیز جو عرصہ دراز تک رہے قرآن میں ہے : ۔ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً ما دُمْتُ فِيهِمْ [ المائدة/ 117] اور جب تک میں ان میں رہا ان ( کے حالات ) کی خبر رکھتا رہا ۔ إِلَّا ما دُمْتَ عَلَيْهِ قائِماً [ آل عمران/ 75] جب تک اس کے سر پر ہر قت کھڑے نہ رہو ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (وجعلنی مبارکاً اینما کنت اور مجھے بابرکت کیا جہاں کہیں بھی میں رہوں) مجاہد کا قول ہے ” مجھے اللہ نے نیکی اور بھلائی سکھانے والا بنایا ہے۔ “ دوسروں کا قول ہے۔ ” مجھے لوگوں کو نفع پہنچانے والا بنایا ہے۔ “ قول باری ہے (واوصانی بالصلوۃ والزکوۃ ما دمت حیاً اور نماز زکوۃ کی پابندی کا حکم دیا جب تک میں زندہ رہوں) ایک قول کے مطابق اس سے مال کی زکوۃ مراد ہے اور دوسرے قول کے مطابق گناہوں سے پاک کرنا مراد ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

18: یعنی جب تک میں اس دنیا میں زندہ رہوں گا مجھ پر نماز اور زکوٰۃ فرض رہے گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:31) ما دمت۔ فعل ناقص۔ واحد متکلم۔ ما دمت حیا۔ جب تک میں زندہ رہوں۔ حیابوجہ خبر کے منصوب ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی مجھ سے خلق کو دین کا نفع پہنچے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

23:۔ یہاں مرزائی اعتراض کرتے ہیں کہ اگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان پر زندہ ہیں تو وہ وہاں نماز کس طرح پڑھتے ہیں اور زکوۃ کس طرح دیتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ زندگی سے یہاں مطلق زندگی مراد نہیں بلکہ متعارف زندگی مراد ہے یعنی وہ زندگی جو روئے زمین پر بسر کی جائے۔ وانت تعلم انالظاھر المتبادر من المدۃ المذکورۃ مدۃ کونہ (علیہ الصلوۃ والسلام) حیا فی الدنیا علی ما ھو المتعارف و ذلک لا یشمل مدۃ کونہ (علیہ السلام) فی السماء (روح ج 16 ص 90) ۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ نماز تو وہ آسمان پر بھی پڑھ سکتے ہیں اس میں کوئی استحالہ نہیں۔ باقی رہا زکوۃ کا سوال تو وہ ان پر فرض ہی نہیں کیونکہ آسمان پر ان کے پاس دولت کہاں ؟

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

3 1 اور میں جہاں کہیں بھی ہوں مجھ کو اسی اللہ تعالیٰ نے برکت والا بنایا ہے اور اسی نے مجھ کو جب تک میں زندہ ہوں نماز پڑھنے اور زکوۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ یعنی برکت والا یہ برکت تبلیغ کی ہوگی کہ میں جس حالت میں بھی ہوں اس کے دین کی تبلیغ کرتا رہوں گا یا عام برکت مراد ہوگی جو انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا خاصہ ہے اور نماز پڑھنے اور زکوۃ ادا کرنے کا حکم دیا جب تک میں مکلف زندگی یعنی دنیوی زندگی کے ساتھ مقید ہوں اور اگر کوئی اور صورت پیش آجائے اور یہ دنیوی زندگی کسی اور زندگی میں تبدیل ہوجائے اس کے احکام دوسرے ہوں گے اور وہاں کی نماز اور زکوۃ کسی اور طرح کی ہوگی۔