Surat Marium

Surah: 19

Verse: 4

سورة مريم

قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ وَہَنَ الۡعَظۡمُ مِنِّیۡ وَ اشۡتَعَلَ الرَّاۡسُ شَیۡبًا وَّ لَمۡ اَکُنۡۢ بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا ﴿۴﴾

He said, "My Lord, indeed my bones have weakened, and my head has filled with white, and never have I been in my supplication to You, my Lord, unhappy.

کہ اے میرے پروردگار! میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور سر بڑھاپے کی وجہ سے بھڑک اٹھا ہے لیکن میں کبھی بھی تجھ سے دعا کرکے محروم نہیں رہا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي ... He said: "My Lord! Indeed my bones have grown feeble..." meaning, "I have become weak and feeble in strength." ... وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا ... and gray hair has Ashta`al on my head, means the gray hair has burned into the black hair. The intent is to inform of weakness and old age, and its external and internal traces. Concerning Allah's statement, ... وَلَمْ أَكُن بِدُعَايِكَ رَبِّ شَقِيًّا and I have never been unblessed in my invocation to You, O my Lord! This means, "I have not experienced from You except that You would respond to my supplication and that You would never refuse me in whatever I ask of You." Concerning His statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 یعنی جس طرح لکڑی آگ سے بھڑک اٹھتی ہے اسی طرح میرا سر بالوں کی سفیدی سے بھڑک اٹھا ہے مراد ضعف وکبر (بڑھاپے) کا اظہار ہے۔ 4۔ 2 اور اسی لیے ظاہری اسباب کے فقدان کے باوجود تجھ سے اولاد مانگ رہا ہوں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] اشتعل الراس کا لفظی معنی سر کا شعلہ مارنا ہے مگر یہ بطور محاورہ استعمال ہوا ہے اور یہ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب بڑھاپے کی وجہ سے سر کے بال سفید اور چمکدار ہونے لگیں۔ [٦] اس کا ایک مطلب تو وہ ہے جو ترجمہ میں مذکور ہوا۔ یعنی جب بھی میں نے تجھ سے دعا کی وہ ہمیشہ قبول ہوتی رہی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اے پروردگار جب بھی تو نے مجھے کسی کام کے کرنے کے لئے پکارا تو میں ہمیشہ بجا لاتا رہا اور کبھی شقی ثابت نہیں ہوا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ رَبِّ اِنِّىْ وَهَنَ الْعَظْمُ ۔۔ : ’ الْعَظْمُ “ اگرچہ واحد ہے مگر مراد جنس ہے، یعنی میری جو ہڈی بھی ہے کمزور ہوگئی ہے۔ اگر جمع کا لفظ بولتے ” اَلْعِظَامُ “ یعنی ہڈیاں، تو اس سے ہڈیوں کا کوئی مجموعہ بھی مراد ہوسکتا تھا۔ ” َاشْتَعَلَ الرَّاْسُ “ سارے سر کے بال سفید ہونے کو آگ کے شعلے مارنے سے تشبیہ دے کر آگ کا لفظ حذف کردیا اور بڑھاپے کی وجہ سے سر کو شعلے مارنے والا بنادیا، اسے استعارہ کہتے ہیں۔ ان الفاظ میں اپنی انتہائی کمزوری کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے، کیونکہ وہ کمزوروں پر زیادہ رحم فرماتا ہے۔ یہ دعا کے آداب میں سے ایک ادب ہے۔ وَّلَمْ اَكُنْۢ بِدُعَاۗىِٕكَ رَبِّ شَقِيًّا : ” کَانَ “ ہمیشگی کے لیے ہوتا ہے، اس پر نفی آنے سے نفی کی ہمیشگی مراد ہوتی ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا، اس لیے ترجمہ ” میں کبھی بےنصیب نہیں ہوا “ کیا گیا ہے۔ اس میں اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کے ہمیشہ لطف و کرم کا واسطہ دے کر دعا کی ہے، خصوصاً اس بات کا واسطہ دے کر کہ تو نے مجھے ہمیشہ دعا قبول ہوجانے کی عادت ڈال دی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کا ذکر کرکے دعا کرنا بھی دعا کے آداب میں شامل ہے، جیسا کہ سورة فاتحہ میں عرض مطلب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا) [ الأعراف : ١٨٠ ] ” اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، سو اسے ان کے ساتھ پکارو۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّ‌أْسُ شَيْبًا |"Here I am that bones within me have turned feeble, and the head has flared up grey with old age.|" - 19:4 Human body becomes weak with the aging of bones, because it is the bones which keep the body firm and upright. When bones lose their strength, the whole body turns weak. The literal meaning of اشْتَعَالَ is a sudden burst of fire. Here the word is used as a simile for grey hair covering the head like a glow of fire. Mention of one&s needs in supplication is desirable Here Sayyidna Zakariyya (علیہ السلام) before making his supplication, mentioned about his weakness and old age by referring to his bones. One of the reasons for this was, as pointed out in the translation, that in his peculiar circumstances i.e. his old age and physical weakness, it was not appropriate for him to ask for a child. Another reason given by Imam Qurtubi in his commentary is, that for possible acceptance of supplication it is better to mention one&s weakness, destitution and inadequacy. For this reason religious scholars have emphasized that one should recount Allah Ta` ala&s blessings and his own exigency before making his supplication.

اِنِّىْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّيْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَيْبًا : کمزوری ہڈیوں کی ذکر فرمائی کیونکہ وہی عمود بدن ہیں، جب ہڈی ہی کمزور ہوجائے تو سارے بدن کی کمزوری ہے۔ اشتعال کے لفظی معنی بھڑک اٹھنے کے ہیں اس جگہ بالوں کی سفیدی کو آگ کی روشنی سے تشبیہ دے کر اس کا پورے سر پر پھیل جانا مقصود ہے۔ دعا میں اپنی حاجت مندی کا اظہار مستحب ہے۔: اس جگہ دعا سے پہلے حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اپنے ضعف و کمزوری کا ذکر کیا، اس کی ایک وجہ تو وہ ہے جس کی طرف خلاصہ تفسیر میں اشارہ کیا گیا ہے کہ ان حالات کا مقتضا یہ تھا کہ اولاد کی خواہش نہ کروں۔ ایک دوسری وجہ امام قرطبی نے تفسیر میں یہ بھی بیان فرمائی کہ دعا مانگنے کے وقت اپنے صنف و بدحالی اور حاجتمندی کا ذکر کرنا قبولیتِ دُعا کے لئے اقرب ہے اسی لئے علماء نے فرمایا کہ انسان کو چاہیے کہ دعا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اپنی حاجتمندی کا ذکر کرے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ رَبِّ اِنِّىْ وَہَنَ الْعَظْمُ مِنِّيْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَيْبًا وَلَمْ اَكُنْۢ بِدُعَاۗىِٕكَ رَبِّ شَقِيًّا۝ ٤ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ وهن الوَهْنُ : ضعف من حيث الخلق، أو الخلق . قال تعالی: قالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي [ مریم/ 4] ، فَما وَهَنُوا لِما أَصابَهُمْ [ آل عمران/ 146] ، وَهْناً عَلى وَهْنٍ [ لقمان/ 14] أي : كلّما عظم في بطنها : زادها ضعفا علی ضعف : وَلا تَهِنُوا فِي ابْتِغاءِ الْقَوْمِ [ النساء/ 104] ، وَلا تَهِنُوا وَلا تَحْزَنُوا [ آل عمران/ 139] ، ذلِكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ مُوهِنُ كَيْدِ الْكافِرِينَ [ الأنفال/ 18] . ( و ھ ن ) الوھن کے معنی کسی معاملہ میں جسمانی طور پر کمزور ہونے یا اخلاقی کمزور یظاہر کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ قالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي[ مریم/ 4] اے میرے پروردگار میری ہڈیاں بڑھاپے کے سبب کمزور ہوگئی ہیں / فَما وَهَنُوا لِما أَصابَهُمْ [ آل عمران/ 146] تو جو مصیبتیں ان پر واقع ہوئیں ان کے سبب انہوں نے نہ تو ہمت ہاری ۔ وَهْناً عَلى وَهْنٍ [ لقمان/ 14] تکلیف پر تکلیف سہہ کر ۔ یعنی جوں جوں پیٹ میں حمل کا بوجھ بڑھتا ہے کمزور ی پر کزوری بڑھتی چلی جاتی ہے ولا تَهِنُوا فِي ابْتِغاءِ الْقَوْمِ [ النساء/ 104] اور دیکھو بےدل نہ ہونا اور کسی طرح کا غم کرنا ۔ اور کفار کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا ۔ ذلِكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ مُوهِنُ كَيْدِ الْكافِرِينَ [ الأنفال/ 18] بات یہ ہے کچھ شک نہیں کہ خدا کافروں کی تدبیر کو کمزور کردینے والا ہے ۔ عظم العَظْمُ جمعه : عِظَام . قال تعالی: عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ، وقرئ : عظاما «1» فيهما، ومنه قيل : عَظْمَة الذّراع لمستغلظها، ( ع ظ م ) العظم کے معنی ہڈی کے ہیں اس کی جمع عظا م آتی ہے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ہڈیاں ( بنائیں ) پھر ہڈیوں پر گوشت ( پوست ) چڑھا یا ۔ ایک قرات میں دونوں جگہ عظم ہے اور اسی سے عظمۃ الذراع ہے جس کے معنی بازو کا موٹا حصہ کے ہیں عظم الرجل بغیر تنگ کے پالان کی لکڑی عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے ہو یا عقل سے ۔ شعل الشَّعْلُ : التهاب النّار، يقال : شُعْلَةٌ من النّار، وقد أَشْعَلْتُهَا، وأجاز أبو زيد : شَعَلْتَهَا «2» ، والشَّعِيلَةُ : الفتیلة إذا کانت مُشْتَعِلَةً ، وقیل : بياض يَشْتَعِلُ ، قال تعالی: وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] ، تشبيها بِالاشْتِعَالِ من حيث اللّون، واشْتَعَلَ فلان غضبا تشبيها به من حيث الحرکة، ومنه : أَشْعَلْتُ الخیل في الغارة، نحو : أوقدتها، وهيّجتها، وأضرمتها ( ش ع ل ) الشعل ۔ آگ کا بھڑکنا یا بھڑکانا کہا جاتا ہے : شعلۃ من النار ۔ آگ کا شعلہ اور قد اشعل تھا کے معنی ہیں میں نے آگ بھڑکائی ۔ ابوزید کے نزدیک شعل تھا ( فعل مجرد ) کہنا بھی جائز ہے ۔ الشعیلہ جلتی ہوئی بتی ۔ بعض نے سفیدی کے چمکنے کے لئے بھی بیاض یشتعل کا محاورہ استعمال کیا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ؛ وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] اور سر ہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے شعلہ مارنے لگا ہے ۔ یہاں رنگت کے لحاظ سے بالوں کی سفیدی کو آگ کے ساتھ تشبیہ دے کر اشتعال کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ اشتعل فلان غضبا ۔ فلان غصہ سے بھڑک اٹھا یہاں غصہ کو حرکت کے لحاظ سے آگ کے بھڑکنے کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔ اور اسی سے اشعلت الخیل فی الغارۃ کا محاورہ ہے ۔ یعنی میں نے غارت گری کے لئے سواروں کو چاروں طرف پھیلا دیا ۔ جیسا کہ اوقد تھا و ھیج تھا واضرم تھا کے محاورات ہیں ۔ رأس الرَّأْسُ معروف، وجمعه رُؤُوسٌ ، قال : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] ، وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] ، ويعبّر بِالرَّأْسِ عن الرَّئِيسِ ، والْأَرْأَسُ : العظیم الرّأس، وشاة رَأْسَاءُ : اسودّ رأسها . ورِيَاسُ السّيف : مقبضه . ( ر ء س ) الراس سر کو کہتے ہیں اور اس کی جمع رؤوس آتی ہے ۔ قرآم میں ہے : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] اور سر بڑاھاپے ( کی آگ ) سے بھڑک اٹھا ہے ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] اپنے سر نہ منڈاؤ اور کبھی راس بمعنی رئیس بھی آتا ہے اور ارء س ( اسم تفصیل ) کے معنی بڑے سر والا کے ہیں اور سیاہ سر والی بکری کو شاۃ راساء کہتے ہیں اور ریاس السیف کے معنی دستہ شمشیر کے ہیں ۔ شيب الشَّيْبُ والْمَشِيبُ : بياض الشّعر . قال تعالی: وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] ، وباتت المرأة بلیلة شَيْبَاءَ : إذا افتضّت، وبلیلة حرّة «2» :إذا لم تفتضّ. ( ش ی ب ) الشیب والمشیب بڑھاپا بالوں کی سفیدی ۔ قران میں ہے : ۔ وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] اور بڑھاپے سے سر شعلہ مارنے لگا ۔ عورت نے شب زفاف گزاری یعنی جس میں اسکی بکارت زائل کی گئی ہو اس کے بر عکس باتت المرءۃ بلیلۃ حرۃ وہ رات جس میں اس کی بکارت زائل نہ کی گئی ہو ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ شقي الشَّقَاوَةُ : خلاف السّعادة، وقد شَقِيَ «2» يَشْقَى شَقْوَة، وشَقَاوَة، وشَقَاءً ، . قال عزّ وجلّ : فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقى[ طه/ 123] ( ش ق و ) اشقاوۃ ( بدبختی ) یہ سعادت کی ضد ہے اور شقی ( س) شقوۃ وشقاوۃ وشقاء کے معنی بدبخت ہونے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔: فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقى[ طه/ 123] وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف میں پڑے گا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤) اے میرے رب میرا جسم کمزور ہوگیا ہے اور میرے بال سفید ہوگئے ہیں اور اے میرے رب میں آپ سے کوئی دعا کرنے میں ناکام نہیں رہا ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا) یعنی بڑھاپے کے سبب میرے سر کے بال مکمل طور پر سفید ہوگئے ہیں۔ (وَّلَمْ اَکُنْم بِدُعَآءِکَ رَبِّ شَقِیًّا) چنانچہ آج میں بڑی ہمت کر کے تجھ سے ایک بہت ہی غیر معمولی دعا کرنے جا رہا ہوں۔ دنیوی حالات اور طبیعی قوانین کے اعتبار سے تو ایسا ہونا ممکن نہیں ‘ مگر تو چاہے تو ناممکن بھی ممکن ہوجاتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:4) رب۔ اصل میں یا ربی تھا۔ حرف ندائ ( یا) اور مضاف الیہ ( یضمیر واحد متکلم) کو اختصار کے لئے حذف کیا گیا۔ وھن۔ وھن یھن (ضرب) وھن سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب (میری ہڈی) کمزور ہوگئی ہے۔ عظم۔ ہڈی۔ عظام ہڈیاں۔ بروزن سھم، سھام۔ وھن العظم منی میری ہڈی کمزور پڑگئی ہے۔ اشتعل۔ باب افتعال سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب اشتعال کے معنی شعلہ بھڑکنے کے ہیں۔ اشتعل۔ اس نے آگ پکڑی۔ شعلہ نکلا۔ مجازًا رنگت کے لحاظ سے بڑھاپے کے بالوں کی سفیدی کو آگ سے تشبیہ دے کر اشتعال کا لفظ استعمال کیا ہے۔ شیبا۔ بڑھاپا۔ بالوں کی سفیدی۔ سر کے سفید ہونے کو شیب کہتے ہیں۔ شاب یشیب (ضرب) کا مصدر ہے۔ اشتعل الرأس شیبا۔ میرا سر بڑھاپے کی وجہ سے سفید ہوگیا ہے۔ شقیا۔ محروم۔ بدبخت۔ شقاوۃ سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے اشقیائجمع ۔ لم اکن۔ مضارع نفی حجد بلم۔ واحد متکلم۔ اکناصل میں اکون تھا لم کی وجہ سے نساکن ہوگیا۔ اجتماع ساکنین سے حرف علت و ساقط ہوگیا۔ اکن ہوگیا۔ لم اکن میں نہیں ہوا۔ (یعنی میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا) ولم اکن بدعائک رب شقیا۔ میرے پروردگار تجھ کو پکار کر میں (کبھی، نامراد نہیں ہوا۔ یعنی میں نے تجھ سے جب ہی دعا مانگی تو نے قبول فرمائی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی تو نے ہمیشہ میری وہ قبول فرمائی تو اب آخری وقت اور بڑھاپے کے عالم میں طمع پیدا ہوئی کہ تجھ سے دعا کروں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولم اکن بدعاءک رب شقیاً (٩١ : ٣) ” اور اے پروردگار میں کبھی تجھ سے دعا مانگ کر نامراد نہیں ہوا۔ “ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے بارے میں رب تعالیٰ کی یہ دعادت رہی ہے کہ جب بھی انہوں نے دعا کی ہے رب تعالیٰ نے منظور فرمائی ہے۔ جب وہ اپنے زمانہ جوانی اور قوت میں دعا میں نامراد نہیں رہے تو اب حالت ضعیفی میں تو وہ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ اللہ انہیں نامراد نہ کرے اور ان کی دعا کو قبول کرلے۔ یہ تھی حضرت زکریا (علیہ السلام) کی دعا اپنے رب کے جناب میں ، نہایت ہی خفیہ انداز میں اور عاجزی اور تضرع کے ساتھ ، الفاظ ، عانی ، ماحول اور اثرات پر اعتبار سے اس میں نرمی پائی جاتی ہے ، اور منظر پر نہایت ہی ادب اور شائستگی چھائی ہوتی ہے۔ اب جواب دعاء ملاحظہ ہو اور اس موقعہ پر مکالمات :۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ یہ ماقبل کا بیان ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے دعا میں اپنی جسمانی کمزوریاں بیان کی ہیں اول یہ کہ ان کا بدن بالکل کمزور ہوچکا ہے۔ دوم یہ کہ بڑھاپے کی وجہ سے ان کے سر کے بال سفید ہوچکے ہیں۔ جو شخص اس قدر عاجز ہو کہ ان کمزوریوں سے اپنے آپ کی حفاطت نہ کرسکے وہ کسی طرح دوسروں کا کارساز نہیں ہوسکتا۔ ” و لم اکن بدعائک “ با سببیہ ہے اور مصدر مفعول کی طرف مضاف ہے فاعل محذوف ہے اصل میں تھا بدعائی ایاک یعنی میں اس وجہ سے بدبخت نہیں ہوں کہ صرف تجھ ایک ہی کو پکارتا ہوں۔ بدبخت وہ ہے جو تیرے سوا غیروں کو بھی پکارتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

4 زکریا (علیہ السلام) نے عرض کی اے میرے پروردگار میری ہڈیاں بڑھاپے سے کمزور اور ضعیف ہوگئیں اور سر بڑھاپے کی سفیدی سے چمک اٹھا اور اے میرے پروردگار میں آپ سے کوئی چیز طلب کر کے اور مانگ کر کبھی محروم اور ناکام نہیں رہا۔ یعنی جو مانگا وہ ملا اور جو دعا کی وہ قبول ہوئی۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں ڈیک بڑھاپے کی یعنی بال سفید 12 بعض حضرات نے یوں ترجمہ کیا ہے کہ تیری طلب اور تیرے بلانے پر میں کبھی محروم نہیں رہا یعنی جس خدمت کے لئے آپ نے حکم دیا میں فوراً بجالایا اور کبھی آپ کے حکم کی تعمیل سے محروم نہیں رہا۔