Surat Marium

Surah: 19

Verse: 41

سورة مريم

وَ اذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ اِبۡرٰہِیۡمَ ۬ ؕ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیۡقًا نَّبِیًّا ﴿۴۱﴾

And mention in the Book [the story of] Abraham. Indeed, he was a man of truth and a prophet.

اس کتاب میں ابراہیم ( علیہ السلام ) کا قصہ بیان کر بیشک وہ بڑی سچائی والے پیغمبر تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ibrahim's Admonition of His Father Allah, the Exalted, tells His Prophet, Muhammad, وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ... And mention in the Book, Ibrahim. "Recite this to your people who are worshipping idols and mention to them what happened with Ibrahim, the intimate Friend (Khalil) of the Most Beneficent. These idol worshippers (Arabs) are his descendants and they claim to follow his religion. ... إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا Verily, he was a man of truth, a Prophet. Inform them that he was a truthful Prophet. Tell them about what took place with his father and how he forbade him from worshipping idols."

بتوں کی پوجا ۔ مشرکین مکہ جو بت پرست ہیں اور اپنے آپ کو خلیل اللہ کا متبع خیال کرتے ہیں ان کے سامنے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بیان کیجئے ۔ اس سچے نبی نے اپنے باپ کی بھی پرواہ نہ کی اور اس کے سامنے بھی حق کو واضح کردیا اور اسے بت پرستی سے روکا ۔ صاف کہاکہ کیوں ان بتوں کی پوجا پاٹ کر رہے ہوں جو نہ نفع پہنچا سکیں نہ ضرر ۔ فرمایا کہ میں بیشک آپ کا بچہ ہوں لیکن اللہ کا علم جو میرے پاس ہے آپ کے پاس نہیں آپ میری اتباع کیجئے میں آپ کو راہ راست دکھاؤں گا برائیوں سے بچادوں گا ۔ ابا جی یہ بت پرستی توشیطان کی تابعداری ہے وہی اس کی راہ سمجھاتا ہے اور وہی اس سے خوش ہوتا ہے ۔ جیسے سورہ یاسین میں ہے ( اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَيْكُمْ يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَ ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ 60؀ۙ ) 36-يس:60 ) ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے انسانوں کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور آیت میں ہے ( اِنْ يَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلَّآ اِنَاثًا ۚ وَاِنْ يَّدْعُوْنَ اِلَّا شَيْطٰنًا مَّرِيْدًا ١١٧؁ۙ ) 4- النسآء:117 ) ، یہ لوگ تو عورتوں کو پکارتے ہیں اور اللہ کو چھوڑتے ہیں دراصل یہ سرکش شیطان کے پکارنے والے ہیں آپ نے فرمایا شیطان اللہ کا نافرمان ہے ، مخالف ہے ، اس کی فرمابرداری سے تکبر کرنے والا ہے ، اسی وجہ سے راندہ درگاہ ہوا ہے اگر تو نے بھی اس کی اطاعت کی تو وہ اپنی حالت پر تجھے بھی پہنچادے گا ۔ ابا جان آپ کے اس شرک وعصیان کی وجہ سے مجھے تو خوف ہے کہ کہیں آپ پر اللہ کا کوئی عذاب نہ آجائے اور آپ شیطان کے دوست اور اس کے ساتھی نہ بن جائیں اور اللہ کی مدد اور اس کا ساتھ آپ سے چھوٹ نہ جائے ۔ دیکھو شیطان خود بیکس بےبس ہے اس کی تابعداری آپ کو بری جگہ پہنچا دے گی ۔ جیسے فرمان باری ہے ۔ ( تَاللّٰهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 63؀ ) 16- النحل:63 ) یعنی یہ یقینی اور قسمیہ بات ہے کہ تجھ سے پہلے کی امتوں کی طرف بھی ہم نے رسول بھیجے لیکن شیطان نے ان کی بداعمالیاں انہیں مزین کر کے دکھلائیں اور وہی ان کا ساتھی بن گیا لیکن کام کچھ نہ آیا اور قیامت کے دن عذاب الیم میں پھنس گئے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 صدیق صدق (سچائی سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ بہت راست باز، یعنی جس کے قول وعمل میں مطابقت اور راست بازی اس کا شعار ہو۔ صدیقیت کا یہ مقام، نبوت کے بعد سب سے اعلٰی ہے ہر نبی اور رسول بھی اپنے وقت کا سب سے بڑا راست باز اور صداقت شعار ہوتا ہے، اس لئے وہ صدیق بھی ہوتا ہے۔ تاہم ہر صدیق، نبی نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں حضرت مریم کو صدیقہ کہا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تقویٰ و طہارت اور راست بازی میں بہت اونچے مقام پر فائز تھیں تاہم نبیہ نہیں تھیں۔ امت محمدیہ میں بھی صدیقین ہیں۔ اور ان میں سر فہرست حضرت ابوبکر صدیق (رض) ہیں جو انبیاء کے بعد امت میں خیر البشر تسلیم کئے گئے ہیں۔ رَ ضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٧] سیدنا ابراہیم کے قصہ کا روئے سخن بالخصوص قریش مکہ کی طرف ہے۔ جو اپنے آپ کو دین ابراہیم کا پیروکار بتاتے تھے۔ انھیں بتایا یہ جارہا ہے کہ وہ مشرک نہیں بلکہ توحید پرست تھے۔ انہوں نے اپنے مشرک آباء واجداد کی تقلید کو چھوڑ دیا تھا۔ تمہیں بھی چھوڑ دینا چاہئے۔ مشرک قوم اور مشرک باپ نے طرح طرح کی دھمکیاں دیں مگر انہوں نے شرک کی باتیں تسلیم کرنے پر گھر بار چھوڑنے اور ترک وطن کو ترجیح دی۔ ایک تم ہو جو اپنے شرک پر اتنے مصر ہو کہ توحید پرستوں کو اذیتیں دے دے کر انھیں ہجرت پر مجبور کردیا ہے۔ پھر تمہارے اس اتباع دین ابراہیمی میں کون سی صداقت ہے ؟ [٣٨] اور سیدنا ابراہیم تو قول کے سچے اور اپنی عملی زندگی میں بھی راست باز انسان تھے اور صدیق ہونے کے علاوہ وہ نبی بھی تھے۔ بعض لوگ اسی آیت سے استدلال کرکے بخاری کی درج ذیل حدیث کی صحت کا انکار کردیتے ہیں : سیدنا ابراہیم کے تین جھوٹ والی حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب :۔ && سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : کہ سیدنا ابراہیم نے کبھی جھوٹ نہ بولا سوائے تین مرتبہ کے۔ دو مرتبہ تو اللہ کے واسطے ان کا یہ کہنا کہ انی سقیم اور یہ کہنا کہ (بَلْ فَعَلَه ٗٗ ڰ كَبِيْرُهُمْ ھٰذَا فَسْـَٔــلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ 63؀) 21 ۔ الأنبیاء :63) یہ دونوں اللہ کے لئے تھے اور آپ نے فرمایا کہ ایک دن وہ اور (ان کی بیوی) سارہ اس حال میں جارہے تھے کہ ایک ظالم بادشاہ پر ان کا گزر ہوا۔ کسی نے بادشاہ سے کہا کہ یہاں ایک شخص آیا ہے جس کے ساتھ اس کی خوبصورت بیوی بھی ہے۔ اس بادشاہ نے سیدنا ابراہیم کو بلوا بھیجا اور سارہ کی بابت پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ سیدنا ابراہیم نے کہہ دیا : && یہ میری بہن ہے && پھر وہ سارہ کے پاس گئے اور کہا : سارہ ! اس وقت روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں ہے اور اس ظالم نے مجھ سے پوچھا تھا تو میں نے کہہ دیا کہ یہ میری (دینی) بہن ہے۔ پس تم مجھے جھوٹا نہ کرنا && (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب قول اللہ (وَاتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِيْمَ خَلِيْلًا ١٢٥۔ ) 4 ۔ النسآء :125) ١۔ ان تین جھوٹوں میں سے دو کا ذکر تو قرآن کریم میں موجود ہے۔ بتوں کو توڑا تو آپ نے تھا لیکن پوچھنے پر کہہ دیا کہ اس بڑے بت نے انھیں توڑا ہے اس طرح جب ان کی قوم جشن منانے نکلی اور آپ کو ساتھ لے جانے کو کہا تو آپ نے کہہ دیا کہ میں بیمار ہوں۔ پھر اسی وقت جاکر ان کے بت بھی توڑ ڈالے تو پھر بیمار کیسے تھے ؟ کیا یہ باتیں خلاف واقعہ نہیں تھیں ؟ لہذا معترضین کا اصل رخ قرآن کی طرف ہونا چاہئے نہ کہ حدیث کی تکذیب کی طرف۔ ٢۔ رسول اللہ نے خود ابتداء وضاحت سے یہ الفاظ فرما دیئے کہ && سیدنا ابراہیم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا && یہ ان کے فی الواقع صدیق ہونے کی بہت بڑی شہادت ہے کہ ان سے ١٧٥ سالہ زندگی میں تین سے زیادہ مرتبہ جھوٹ سرزد نہیں ہوا۔ اب آپ اپنی زندگی کے شب و روز پر نگاہ ڈالئے کہ آپ ساری زندگی میں نہیں بلکہ صرف ایک دن رات میں کتنی مرتبہ جھوٹ بولتے ہیں اور دانستہ بھی اور نادانستہ بھی اور پھر خود ہی فیصلہ کرلیجئے کہ اگر ایک شخص سے ١٧٥ سال کی زندگی میں تین سے زیادہ جھوٹ سرزد نہ ہوں تو اس کو صدیق کہا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ پھر ان تینوں واقعات کے لئے ٹھوس بنیادیں بھی موجود ہیں۔ یعنی ان میں دو جھوٹ تو آپ نے مشرکین پر حجت قائم کرنے اور کلمہ حق کو سربلند کرنے کے بولے جیسا کہ حدیث بالا سے ثابت ہے اور تیسرا جس کا ذکر حدیث میں ہے وہ آپ نے اپنی جان بچانے کے لئے بولا تھا۔ شاہ مصر کا دستور یہ تھا کہ وہ حسین عورت کو زبردستی چھین لیتا۔ اگر اس کے ساتھ اس کا خاوند ہوتا تو اسے مروا ڈالتا اور اگر اس کے ساتھ بھائی یا کوئی دوسرا رشتہ دار ہوتا تو اس سے عورت تو چھین لیتا مگر اس کی جان سے درگزر کرتا تھا۔ اب اگر سیدنا ابراہیم نے اپنی جان بچانے کی خاطر جھوٹ بولا بھی تھا (حالانکہ وہ بھی ایک طرح سے جھوٹ نہیں بنتا جیسا کہ حدیث کے الفاظ بتا رہے ہیں) آخر اس میں قیامت کون سی آگئی ؟ جان بچانے کی خاطر اگر مردار تک کھا لینا جائز ہے تو جھوٹ بولنا کیوں جائز نہیں ہوسکتا۔ وہ کون سی شریعت ہے جس میں اس قدر سختی روا رکھی گئی ہو۔ جان بچانے کے لئے تو اللہ نے کلمہ کفر تک کہہ دینے کی بھی اجازت دے دی ہے بشرطیکہ دل میں کوئی ایسی بات نہ ہو (٣٨: ١٤) تو پھر کیا جھوٹ بولنا اس سے بھی بڑا جرم ہے ؟ جھوٹ گناہ اس صورت میں ہے جب اس کی زد کسی کے حقوق پر پڑتی ہو اور جتنی زیادہ زد پڑتی ہو اتنا ہی زیادہ کبیرہ گناہ بنتا جاتا ہے۔ ہمیشہ سچ بولنا اور جھوٹ سے بچنا شریعت کا ایک بڑا بھاری کلیہ ہے لیکن استثناء اس میں بھی موجود ہے جبکہ اصلاح اور خیر کا پہلو نمایاں ہو اور شریعت کی نگاہوں میں وہ فی الواقع اصلاح اور خیر ہو۔ مثلا میاں بیوی کے درمیان صلح کرانے کے لئے شریعت نے باتیں بنانے اور جھوٹ بول کر صلح کرا دینے کو گناہ نہیں بلکہ مستحسن قرار دیا ہے۔ اسی طرح جہاد میں دشمن کو ہراساں کرنے کے لئے بھی ایسی باتوں کی اجازت ہے۔ حالانکہ لغوی لحاظ سے ان باتوں پر بھی لفظ کذب کا اطلاق ہوسکتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۧوَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِبْرٰهِيْمَ : اس سورت کا اصل موضوع توحید و نبوت اور حشر کے واقعات بیان کرنا ہے۔ توحید کے منکر دو قسم کے لوگ تھے، ایک یہود و نصاریٰ جنھوں نے عیسیٰ اور عزیر ( علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دے لیا اور اس طرح شرک میں مبتلا ہوگئے، چناچہ پچھلی آیات میں مریم اور مسیح (علیہ السلام) کا قصہ بیان کرکے ان کے غلط عقائد کی تردید فرمائی۔ دوسرے مشرکین عرب، جو بت پرستی میں مبتلا تھے اور اس غلط عقیدے کے باوجود ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر قائم ہونے کے دعوے دار تھے۔ یہاں سے ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کرکے ان کی تردید مقصود ہے، تاکہ معلوم ہو کہ کس طرح ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور قوم کو بت پرستی سے نکالنے کی کوشش کی اور بالآخر وطن اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر اللہ کی راہ میں ہجرت کی، مگر تم ہو کہ ایک طرف تو ان کی اولاد میں سے ہو اور ان کے دین پر ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہو، لیکن دوسری طرف بت پرستی کی لعنت میں گرفتار ہو اور توحید کی آواز اٹھانے والوں کو وطن سے نکل جانے پر مجبور کر رہے ہو۔ اگر واقعی تم ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کے پیرو ہو تو اس شرک پر عمل پیرا ہونے اور توحید پرستوں سے دشمنی کا کیا مطلب ؟ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا : ” صِدِّيْقًا “ ” صِدْقٌ“ سے مبالغہ ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو صدیق اس لیے فرمایا کہ وہ بات میں بہت سچے تھے اور اپنے رب کے ساتھ معاملے میں بھی سچے تھے۔ اللہ کی خاطر گھر سے بےگھر ہونا، آگ میں جلنے کو گوارا کرنا، وطن سے بےوطن ہونا، پردیس میں اپنی عزت و ناموس کے خطرے میں ہونے کو برداشت کرنا، بیوی بچے کو بےآباد سنگلاخ وادی میں چھوڑنا، اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے کے حکم کی تعمیل، اسّی (٨٠) برس کی عمر میں ختنے کا حکم ہونے پر فوراً عمل کرنا، یہ ان کے ہر معاملہ میں صدق کی چند مثالیں ہیں۔ ” صِدِّيْقًا “ کی مزید تفسیر کے لیے دیکھیے سورة نساء (٦٩) اور یوسف (٤٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Meaning of Siddiq صِدِّيقًا نَّبِيًّا (Siddiq (a man of truth), a prophet - 19:41) The word صِدِّيقً (Siddiq) is a Qur&anic term which has been defined differently by different scholars. Some say it is applied to one who has never told a lie in his life. Others describe Siddiq (صِدِّيقً ) as one who is truthful in his beliefs, words and deeds. In other words his utterances truly reflect his beliefs, and his actions in turn match with his beliefs and words. Ruh ul-Ma` ani and Mazhari have adopted the latter meaning of the word. Then there are different degrees of صِدِّیقِیَت (Truthfulness) i.e. those who fall within this definition are placed at different pedestals. Only a prophet (نَبِی یَا رَسُول ) can be a true صِدِّيقً. While every prophet is gifted with this attribute, not everyone who has it is a prophet. A believer who follows in the footsteps of his prophet and attains this exalted position of صِدِّيقً (truthfulness) can also be called Siddiq. The Holy Qur&an itself has given the title of صِدِّيقًہ to Sayyidah Maryam (علیہا السلام) ، despite the view of the overwhelming, majority that she was not a prophet, and that a woman cannot be a prophet.

خلاصہ تفسیر اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اس کتاب (یعنی قرآن) میں (لوگوں کے سامنے حضرت) ابراہیم (علیہ السلام) کا (قصہ) ذکر کیجئے (تاکہ ان کو توحید و رسالت کا مسئلہ زیادہ منکشف ہوجاوے) وہ (ہر قول فعل میں) بڑے راستی والے (تھے اور) پیغمبر تھے (اور وہ قصہ جس کا ذکر کرنا اس جگہ مقصود ہے اس وقت ہوا تھا) جب کہ انہوں نے اپنے باپ سے (جو کہ مشرک تھا) کہا کہ اے میرے باپ تم ایسی چیز کی کیوں عبادت کرتے ہو جو نہ کچھ سنے اور نہ کچھ دیکھے اور نہ تمہارے کچھ کام آسکے (مراد بت ہیں حالانکہ اگر کوئی دیکھتا سنتا کچھ کام آتا بھی ہو مگر واجب الوجود نہ ہو تب بھی لائق عبادت نہیں چہ جائے کہ ان اوصاف سے بھی عادی ہو تو وہ بدرجہ اولیٰ لائق عبادت نہ ہوگا) اے میرے باپ میرے پاس ایسا علم پہنچا ہے جو تمہارے پاس نہیں آیا (مراد اس سے وحی ہے جس میں احتمال غلطی کا ہو ہی نہیں سکتا پس میں جو کچھ کہہ رہا ہوں قطعاً حق ہے جب یہ بات ہے) تو تم میرے کہنے پر چلو میں تم کو سیدھا رستہ بتلاؤں گا (اور وہ توحید ہے) اے میرے باپ تم شیطان کی پرستش مت کرو (یعنی شیطان کو اور اس کی عبادت کو تو تم بھی برا سمجھتے ہو اور بت پرستی میں شیطان پرستی بالیقین لازم ہے کہ وہی یہ حرکت کراتا ہے۔ اور کسی کی ایسی اطاعت کرنا کہ حق تعالیٰ کے مقابلے میں بھی اس کی تعلیم کو حق سمجھے یہی عبادت ہے پس بت پرستی میں شیطان پرستی ہوئی اور) بیشک شیطان (حضرت) رحمان کا نافرمانی کرنے والا ہے (تو وہ کب اطاعت کے لائق ہوگا) اے میرے باپ، میں اندیشہ کرتا ہوں (اور وہ اندیشہ یقینی ہے) کہ تم پر کوئی عذاب نہ آپڑے (خواہ دنیا میں یا آخرت میں) پھر تم (عذاب میں) شیطان کے ساتھی ہوجاؤ (یعنی جب اطاعت میں اس کا ساتھ دو گے تو نفس عقوبت میں بھی اس کا ساتھ ہوگا گو شیطان کو دنیا میں عذاب نہ ہوا اور اس شیطان کی معیت اور مشارکت فی العقوبت کو کوئی اپنی بھلائی چاہنے والا پسند نہ کرے گا۔ ابرہیم (علیہ السلام) کی یہ تمام تر نصائح سن کر) باپ نے جواب دیا کہ کیا تم میرے معبودوں سے پھرے ہوئے ہو اے ابراہیم (اور اس لئے مجھے بھی منع کرتے ہو یاد رکھو) اگر تم (اب بتوں کی مذمت سے اور مجھ کو ان کی عبادت سے منع کرنے سے) باز نہ آئے تو میں ضرور تم کو مار پتھروں کے سنگسار کر دوں گا (پس تم اس سے باز آجاؤ) اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مجھ (کو کہنے سننے) سے برکنار رہو، ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا (بہتر) میرا سلام لو (اب تم سے کہنا سننا بےسود ہے) اب میں تمارے لئے اپنے رب سے مغفرت کی (اس طرح) درخواست کروں گا (کہ تم کو ہدایت کرے جس پر مغفرت مرتب ہوتی ہے) بیشک وہ مجھ پر بہت مہربان ہے (اس لئے اسی سے عرض کروں گا جس کا قبول فرمانا یا نہ فرمانا دونوں مختلف اعتبار سے رحمت اور مہربانی ہے) اور (تم اور تمہارے مذہب جب میری حق بات کو بھی مانتے تو تم میں رہنا فضول ہے اس لئے) میں تم لوگوں سے اور جن کی تم خدا کو چھوڑ کر عبادت کر رہے ہو ان سے (بدناً بھی) کنارہ کرتا ہوں (جیسا قلباً پہلے ہی سے برکنار ہوں، یعنی یہاں رہتا بھی نہیں) اور (اطمینان سے علیحدہ ہو کر) اپنے رب کی عبادت کروں گا (کیونکہ یہاں رہ کر اس میں بھی مزاحمت ہوگی) امید (یعنی یقین) ہے کہ اپنے رب کی عبادت کر کے محروم نہ رہوں گا (جیسا بت پرست اپنے باطل معبودوں کی عبادت کر کے محروم رہتے ہیں، غرض اس گفتگو کے بعد ان سے اس طرح علیحدہ ہوئے کہ ملک شام کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے) پس ان لوگوں سے اور جن کی وہ لوگ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے ان سے (اس طرح) علیحدہ ہوگئے (تو) ہم نے ان کو اسحاق (بیٹا) اور یعقوب (پوتا) عطا فرمایا (جو کہ رفاقت کے لئے ان کی بت پرست برادری سے بدرجہا بہتر تھے) اور ہم نے (ان دونوں میں) ہر ایک کو نبی بنایا اور ان سب کو ہم نے (طرح طرح کے کمالات دے کر) اپنی رحمت کا حصہ دیا اور (آئندہ نسلوں میں) ہم نے ان کا نام نیک اور بلند کیا ( کہ سب تنظیم اور ثناء کے ساتھ ذکر کرتے ہیں اور اسحٰق کے قبل اسماعیل ان ہی صفات کے ساتھ عطا ہوچکے تھے) معارف و مسائل صدیق کی تعریف : صِدِّيْقًا نَّبِيًّا، لفظ صدیق بکسر صاد قرآن کا ایک اصطلاحی لفظ ہے اس کے معنے اور تعریف میں علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ بعض نے فرمایا کہ جس شخص نے عمر میں کبھی جھوٹ نہ بولا ہو وہ صدیق ہے اور بعض نے فرمایا کہ جو شخص اعتقاد اور قول و عمل ہر چیز میں صادق ہو یعنی جو دل میں اعتقاد ہو ٹھیک وہی زبان پر وہ اور اس کا ہر فعل اور ہر حرکت و سکون اسی اعتقاد اور قول کے تابع ہو۔ روح المعانی اور مظہری وغیرہ میں اسی آخری معنے کو اختیار کیا ہے اور پھر صدیقیت کے درجات متفاوت ہیں۔ اصل صدیق تو نبی و رسول ہی ہوسکتا ہے اور ہر نبی و رسول کے لئے صدیق ہونا وصف لازم ہے مگر اس کا عکس نہیں کہ جو صدیق ہو اس کا نبی ہونا ضروری ہو بلکہ غیر نبی بھی جو اپنے نبی و رسول کے اتباع میں صدق کا یہ مقام حاصل کرلے وہ بھی صدیق کہلائے گا۔ حضرت مریم کو خود قرآن کریم نے امہ صدیقہ کا خطاب دیا ہے حالانکہ جمہور امت کے نزدیک وہ نبی نہیں، اور کوئی عورت نبی نہیں ہو سکتی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِبْرٰہِيْمَ۝ ٠ۥۭ اِنَّہٗ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا۝ ٤١ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤١) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیجیے وہ اپنے ایمان کے ساتھ بڑے راست بازی اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ (وَاذْکُرْ فِی الْْکِتٰبِ اِبْرٰہِیْمَط اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا ۔ ) ” صِدِّیقًا نَبِیًّا ایک نئی ترکیب ہے ‘ جو قرآن حکیم میں یہاں پہلی مرتبہ آئی ہے۔ یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اور آیت ٥٦ میں حضرت ادریس (علیہ السلام) کو صِدِّیقاً نَبِیًّا فرمایا گیا ہے ‘ جبکہ آیات ٥١ اور ٥٤ میں بالترتیب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو رَسُولاً نَّبِیًّا کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ گویا یہ دو الگ الگ تراکیب ہیں اور ظاہر ہے کہ ہر ایک کا اپنا الگ مفہوم ہے۔ اگرچہ میرے علم کی حد تک ان الفاظ یا تراکیب کی طرف کسی نے توجہ نہیں کی ‘ بلکہ مجھے اس وقت سخت حیرت ہوئی جب میں نے ایک معروف عالم دین اور مفسر قرآن سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ کیا واقعی ایسا ہے ؟ یعنی کیا واقعی قرآن میں دو انبیاء کے بارے میں صِدِّیقًا نَبِیًّا اور دو کے بارے میں رَسُوْلًا نَّبِیًّا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ؟ وہ خود قرآن کی مکمل تفسیر لکھ چکے تھے مگر اس طرف ان کا دھیان ہی نہیں گیا تھا۔ بہر حال میں چاہتا ہوں کہ یہ نکتہ جس حد تک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر منکشف فرمایا ہے اس حد تک میں دوسروں تک پہنچا دوں۔ ان دو تراکیب کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے تو سورة الفاتحہ کی یہ آیات مدنظر رکھیں جن میں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں : (اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ) ” اے اللہ ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا ‘ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا “۔ اور پھر سورة النساء کی اس آیت پر غور کریں جس میں ان لوگوں کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا ہے : (وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓءِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْنَیْ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَج وَحَسُنَ اُولٰٓءِکَ رَفِیْقًا ) ۔ اس آیت میں ان لوگوں کے چار درجات بیان ہوئے ہیں جو مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان میں سب سے اوپر انبیاء کا درجہ ہے ‘ پھر صدیقین کا ‘ پھر شہداء کا اور نیچے base line پر صالحین ہیں ‘ یعنی نیک دل ‘ مخلص مسلمان جو صادق القول اور صادق الایمان ہیں۔ اگر نیچے سے اوپر کی طرف ارتقاء کے حوالے سے دیکھاجائے تو base line پر پہلا درجہ مؤمنین صالحین کا ہے۔ اگر کوئی اس درجہ سے ترقی کرے گا تو اس کے لیے درجہ شہادت ہے اور پھر اس سے اوپر درجہ صدیقیت۔ اس لحاظ سے درجہ صدیقیت گویا کسی بھی انسان کے لیے روحانی ترقی کے مدارج میں بلند ترین درجہ ہے ‘ کیونکہ اس کے اوپر نبوت کا درجہ ہے ‘ جو اکتسابی نہیں ‘ سراسر وہبی ہے اور اب وہ دروازہ نوع انسانی کے لیے مستقل طور پر بند ہوچکا ہے۔ ِصدیقینّ اور شہداء کے فرق کو سائیکالوجی کی دو جدید اصطلاحات کے ذریعے اس طرح سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مختلف مزاج پر پیدا فرمایا ہے۔ مزاج اور رویے کے اعتبار سے جدید سائیکالوجی انسانوں کو بنیادی طور پر دو گروہوں میں تقسیم کرتی ہے۔ جو لوگ مجلس پسند ہوں ‘ تنہائی سے گھبراتے ہوں ‘ ہر وقت سیر سپاٹے کرنے ‘ لوگوں سے ملنے جلنے اور خوش گپیوں میں خوش رہتے ہوں ‘ انہیں بیروں بیں (exroverts) کہا جاتا ہے۔ ان کے برعکس تنہائی پسند ‘ غور وفکر کرنے والے ‘ اپنے خیالوں میں مگن رہنے اور محفلوں سے حتی المقدور اجتناب کرنے والے لوگ دروں بین (introverts) کہلاتے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک تیسری کیفیت ان دو رویوں کے خوبصورت توازن سے پیدا ہوتی ہے۔ چناچہ ایسے لوگ جن کی شخصیات میں مذکورہ دونوں رویے توازن کے ساتھ موجود ہوں وہ ambiverts کہلاتے ہیں ‘ لیکن ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہے کہ ایک شخص میں دونوں رویے توازن کے ساتھ موجود ہوں۔ اس لیے ambiverts قسم کے لوگ عملاً بہت ہی کم ہوتے ہیں اور عمومی طور پر دنیا میں مزاج کے اعتبار سے مندرجہ بالا دو اقسام کے لوگ ہی پائے جاتے ہیں۔ دروں بین (introverts) قسم کے لوگ غور و فکر کی عادت کے باعث فطرت کے حقائق کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ کائنات کے بارے میں سوچ بچار کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی آفاقی آیات ان سے ہم کلام ہوتی ہیں اور اس سلسلے میں اہم حقائق ان پر منکشف ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی فطرت سلیمہ اور عقل سلیم کی راہنمائی میں اللہ کو بھی پہچان لیتے ہیں ‘ آخرت کی ضرورت اور حقیقت کو بھی سمجھ لیتے ہیں اور یہ بھی جان جاتے ہیں کہ بندگی صرف اللہ ہی کی کرنی چاہیے۔ لیکن بندگی کا طریقہ کیا ہو ؟ اس کا انہیں علم نہیں ہوتا۔ اس کے لیے وہ اللہ سے راہنمائی کی التجا کرتے ہیں : (اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ) (الفاتحہ) ۔ یہ لوگ دراصل صدیقین ہوتے ہیں اور ان کی شان یہ ہے کہ جونہی کوئی الہامی دعوت ان تک پہنچتی ہے وہ اسے اس انداز میں لپک کر قبول کرتے ہیں گویا مدت سے اسی کے منتظر بیٹھے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے قبول اسلام کا واقعہ اس حقیقت پر شاہد ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ میں نے جس کے سامنے بھی ایمان کی دعوت پیش کی اس نے کچھ نہ کچھ تو قف ضرور کیا ‘ سوائے ابوبکر (رض) کے۔ یعنی آپ (رض) نے ایک لمحے کے لیے بھی توقف نہیں کیا اور دعوت پر ایسے لبیک کہا جیسے وہ اس کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ البتہ بیروں بین (extroverts) قسم کے لوگ چونکہ خود کو کھیل کود ‘ سیرو شکار ‘ میل ملاقات وغیرہ میں مصروف رکھتے ہیں ‘ اس لیے ان کا طبعی میلان غور و فکر کی طرف نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ کسی الہامی دعوت کو سمجھنے میں ہمیشہ دیر کردیتے ہیں ‘ اور جب وہ کسی ایسے معاملے کی طرف متوجہ بھی ہوتے ہیں تو اکثر جذباتی انداز میں ہوتے ہیں۔ لیکن جب وہ کسی نظریے یا دعوت کو قبول کرلیتے ہیں تو عام طور پر زیادہ متحرک اور فعال ثابت ہوتے ہیں اور یوں مسابقت میں بظاہر introverts سے آگے نکل جاتے ہیں۔ چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو حضرت ابو بکرصدیق (رض) نے جہاں ایک لمحے کے توقف کے بغیر قبول کرلیا وہاں حضرت عمر اور حضرت حمزہ (رض) کو اس طرف متوجہ ہونے میں چھ سال لگ گئے۔ حضرت عمر (رض) تو بنو عدی میں سے تھے اور آپ (رض) کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بظاہر زیادہ قربت نہیں تھی ‘ مگر حضرت حمزہ (رض) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سگے چچا اور دودھ شریک تھے۔ وہ بچپن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھیلے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت محبت بھی کرتے تھے ‘ لیکن اس سب کچھ کے باوجود چھ سال تک آپ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کی طرف کبھی سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا اور جب ایمان لائے تو حادثاتی اور جذباتی انداز میں لائے۔ ایک روز شکار سے واپس آئے تو ابھی گھر میں داخل بھی نہیں ہوئے تھے کہ لونڈی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ابوجہل کی گستاخی کے بارے میں خبر دی۔ بس یہ سنتے ہی آگ بگولا ہوگئے۔ گھر جانے کے بجائے سیدھے ابوجہل کے پاس پہنچے۔ جاتے ہی اس کے سر پر کمان دے ماری اور اسے للکارا کہ آج سے میں بھی ایمان لے آیا ہوں ‘ تم میرا مقابلہ کرسکتے ہو تو آؤ میدان میں ! ایسے ہی حضرت عمر (رض) بھی جذباتی انداز میں ایمان لائے۔ گھر سے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (معاذ اللہ ! ) قتل کرنے کے ارادے سے نکلے۔ جذبات کی رو میں ہی بہن اور بہنوئی سے جا الجھے۔ بہن کی غیر معمولی استقامت دیکھی تو سوچنے پر مجبور ہوئے اور جب سنجیدگی سے غور کیا تو یکدم دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ پھر کیا تھا ؟ وہی شمشیر برہنہ جو قتل کے ارادے سے لے کر نکلے تھے ‘ گردن میں لٹکائے غلاموں کی طرح در نبوت پر حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرلیا۔ بہر حال اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ دروں بین (introverts) قسم کے لوگ صدیقین اور بیروں بین (extroverts) مزاج کے افراد شہداء ہوتے ہیں۔ انسانی مزاج کا یہ فرق انبیاء کی شخصیات میں بھی پایا جاتا ہے۔ کچھ انبیاء کا مزاج صدیقین سے مناسبت رکھتا ہے اور کچھ کا شہداء سے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بارے میں روایات ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شکار کے بہت شوقین تھے اور اسی شوق میں کئی کئی دن گھر سے باہر رہتے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دو مرتبہ آپ ( علیہ السلام) سے ملنے کے لیے گئے ‘ مگر آپ ( علیہ السلام) کے گھر سے باہر ہونے کی وجہ سے دونوں مرتبہ باپ بیٹے کی ملاقات نہ ہوسکی۔ اسی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مزاج بھی جلالی تھا۔ آپ ( علیہ السلام) نے مصر میں ایک آدمی کو مکاّ رسید کیا تو اس کی جان ہی نکل گئی۔ انسانی مزاج کی اس تشریح کے اعتبار سے میرا خیال ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت ادریس (علیہ السلام) کی شخصیات صدیقیت کے ساتھ مناسبت رکھتی تھیں ‘ اس لیے وہ صدیق نبی قرار پائے ‘ جبکہ حضرت اسماعیل اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شخصیات شہداء جیسی تھیں ‘ چناچہ وہ رسول نبی کہلائے۔ اس سلسلے میں یہ نکتہ بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ رسالت اور شہادت کے الفاظ کی آپس میں خصوصی مناسبت ہے۔ ہر رسول کو اپنی قوم کی طرف شاہد بنا کر بھیجا گیا۔ کار رسالت یعنی دعوت و تبلیغ اور اتمام حجت میں عمل کا پہلو غالب ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بھی سورة الاحزاب میں فرمایا گیا : (یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا ) ” اے نبی ! بلاشبہ ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور خبردار کرنے والا “۔ اسی طرح سورة النساء میں بھی ہم پڑھ چکے ہیں : (فَکَیْفَ اِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا ۔ ) ” پھر کیا حال ہوگا جب ہم لائیں گے ہر امت میں سے ایک گواہ اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ کو ہم لائیں گے ان پر گواہ “۔ اس ساری وضاحت کاُ لبّ لباب یہ ہے کہ مذکورہ آیات میں شہداء کا مزاج رکھنے والے انبیاء کو رَسُولاً نَّبِیًّا اور صدیقیت کے مزاج کے حامل انبیاء کو صِدِّیقاً نَبِیًّا کے لقب سے یاد فرمایا گیا ہے۔ سورة الحدید کے مطالعے کے دوران اس کی آیت ١٩ : (اُولٰٓءِکَ ہُمُ الصِّدِّیْقُوْنَق وَالشُّہَدَآءُ عِنْدَ رَبِّہِمْ ط) کے حوالے سے اس موضوع پر ان شاء اللہ مزید گفتگو ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26. From here the address is directed towards the people of Makkah, who had forced their own near and dear relatives to emigrate from their homes, just as Prophet Abraham (peace be upon him) had been exiled by his own father and brethren. The story of Prophet Abraham (peace be upon him) has been selected for this purpose because the Quraish professed to accept him as their religious leader and were proud of being his descendants.

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :26 یہاں سے خطاب کا رخ اہل مکہ کی طرف پھر رہا ہے جنہوں نے اپنے نوجوان بیٹوں ، بھائیوں ، اور دوسرے رشتہ داروں کو اسی طرح خدا پرستی کے جرم میں گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا جس طرح حضرت ابراہیم کو ان کے باپ اور بھائی بندوں دیس سے نکال دیا تھا ۔ اس غرض کے لیئے دوسرے انبیاء کو چھوڑ کر خاص طور پر ابراہیم کے قصے کا انتخاب اس لیئے کیا گیا کہ قریش کے لوگ ان کو اپنا پیشوا مانتے تھے اور انہی کی اولاد ہونے پر عرب میں اپنا فخر جتایا کرتے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤١۔ ٥٠:۔ تفسیر سدی اور سیرۃ ابن اسحاق میں حضرت ابرہیم (علیہ السلام) کی پیدائش کا قصہ جو لکھا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے نمرود نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک بڑا روشن ستارہ آسمان پر نکلا ہے اس وقت کے نجومیوں سے اس نے اپنا یہ خواب بیان کیا انہوں نے جواب دیا کہ اس سال ایک لڑکا ایسا پیدا ہوگا کہ اسکے سبب سے تیری سلطنت غارت ہوجائے گی اس خواب کی تعبیر کے خوف سے بستی کے سب مردوں کو اپنے ساتھ لے کر نمرود بستی کے باہر چلا گیا اور سب عورتوں کو بستی کے اند چھوڑ دیا تاکہ اس سال مرد و عورت میں مباشرت اور کوئی اولاد پیدا نہ ہو، مگر جب آزر بستی میں آئے تو ان سے نہ رہا گیا انہوں نے اپنی بی بی سے مباشرت کی اور حضرت ابراہیم کا حمل رہا نجومیوں نے پھر نمرود کو خبر دی کہ اس لڑکے کا حمل قرار پاچکا ہے لیکن حضرت ابرہیم ( علیہ السلام) کی ماں کو دیکھنے میں حمل نہیں معلوم ہوتا تھا آخر حضرت ابرہیم پیدا ہوئے اور نمرود کے خواب سے سات برس کی عمر تک ان کی ماں نے ان کو ایک تہ خانہ میں پالا پہلے تو حضرت ابرہیم کی ماں نے اپنے خاوند آزر سے بھی حضرت ابراہم کا حال چھپایا اور یوں کہہ دیا کہ ایک مرا ہوا بچہ پیدا ہوا تھا کیوں کہ جب نجومویں نے نمرود کو اس بچہ کے حمل قرار پاجانے کی خبر دی تھی تو نمرود نے حکم دے دیا تھا کہ اس سال جو بچہ پیدا ہو وہ مار ڈالا جائے اس خوف سے حضرت ابرہیم کی ماں نے اپنے خاوند سے بھی حضرت ابراہیم کے حال کو چھپایا کہ نمرود کی خوشامد سے کہیں آزر اس بچہ کا حال ظاہر کر کے اس بچہ کو قتل نہ کرا دے اس تہ خانہ کے رہنے کے زمانہ میں ان کی ماں نے ایک رات ان کو تہ خانہ سے باہر نکالا تھا اور جب ہی انہوں نے چاند ستاروں کو غروب اور طلوع کے وقت دیکھ کر ھذاربی کہا تھا جس کا ذکر سورة انعام میں ہے غرض جب نمرود کے خواب کو سات برس گزر گئے اور بچوں کو مار ڈالنے کا حکم بھی نمرود نے موقوف کردیا اور حضرت ابرہیم ( علیہ السلام) خوب باتیں کرنے لگے تو ایک روز حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی ماں نے آزر سے محبت دلانے کیلئے حضرت ابراہیم کی باتوں کا اور حضرت ابرہیم کی پیدائش کا حال کہا آزر نے حضرت ابراہیم کو تہ خانہ میں جا کر دیکھا اور جتلایا کہ میں تمہارا باپ ہوں حضرت ابرہیم نے کہا اے میرے باپ تمہارا پیدا کرنے والا کون ہے آزر نے کہا نمرود حضرت ابرہیم نے کہا نمرود کو کس نے پیدا کیا۔ حضرت ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کی پھر اسی طرح سولہ برس کی عمر تک حضرت ابراہیم اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے بحث کرتے رہے اور طرح طرح سے بت پرستی کی برائی ان کو سمجھاتے رہے ان ہی بحثوں میں کی ایک بحث کا ان آیتوں میں ذکر ہے جب ان بحثوں سے وہ لوگ نہ مانے تو سولہ برس کی عمر میں حضرت ابراہیم نے ان کے بت توڑ ڈالے اور اسی الزام میں نمرود نے پہلے تو حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو چند روز قید میں رکھا پھر قید سے ایک روز ان کو اپنے روبرو بلایا اور بحث ہوئی جس کا ذکر سورة بقرہ میں گزرا جس میں حضرت ابرہیم ( علیہ السلام) نے نمرود سے کہا کہ میرا خدا تو ہر روز مشرق سے سورج نکالتا ہے تجھ میں کچھ قدرت ہے تو سورج کو مغرب سے نکال اس بحث میں لاجواب ہو کر پھر نمردو نے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا یہ قصہ سورة انبیاء میں آئے گا اولو العزم رسولوں میں پہلے رسول حضرت نوح ہیں دوسرے حضرت ابرہیم ( علیہ السلام) بغیر الوالعزم دو رسول حضرت ہود ( علیہ السلام) اور حضرت صالح ( علیہ السلام) حضرت نوح ( علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے بیچ کے زمانہ میں گزرے ہیں۔ جامع الاصول میں ہے کہ حضرت نوح ( علیہ السلام) اور حضرت ابرہیم ( علیہ السلام) کے بیچ کے زمانہ میں مدت بارہ سو چالیس برس کی ہے اللہ کے حکم کی فرمانبرداری حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) میں بہت تھی حکم آتے ہی اسی برس کی عمر میں اپنے ہاتھ سے اپنا ختنہ کیا جس کا ذکر صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) کی روایت سے ہے ١ ؎۔ اپنے بیٹے حضرت اسمعیل ( علیہ السلام) کی ذبح کرنے کو جھٹ مستعد ہوگئے جس کا ذکر والصافات میں آئے گا مہمان نوازی حضرت ابراہیم کی مشہور ہے مکہ کے مشرک لوگ اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر کہتے تھے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے اوپر کی آیتوں میں ان کو بت پرستی کے وبال سے ڈرا کر ان آیتوں میں ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرمایا تاکہ ان لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ ابراہیم (علیہ السلام) بت پرستی سے کس قدر بیزار تھے پھر یہ لوگ بت پرستی میں گرفتار ہو کر اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر کیوں کر بتلا سکتے ہیں غرض باپ کی بت پرستی سے بیزار ہو کر ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے کہا کہ جن بتوں کو تم پوجتے ہو نہ ان کے کان ہیں جو تمہارا کوئی مقصد وہ سنیں نہ ان کی آنکھیں ہیں جو تمہاری پوجا کی حالت کو وہ دیکھیں پھر کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ بت تمہارا کون سا مقصد پورا کرسکتے ہیں اگر تم میرا کہنا مانو تو میں تم کو عبادت کا سیدھا راستہ بتا سکتا ہوں جن نیک لوگوں کی مورتوں کو تم پوجتے ہو ان نیک لوگوں کو تو تمہاری اس پوجا کی خبر تک بھی نہیں یہ تو شیطان کا کام ہے کہ جیسا وہ خود گمراہ ہے اوروں کو بھی ویسا کرنا اور اپنا گروہ بڑھانا چاہتا ہے اے میرے باپ میں ڈرتا ہوں کہ شیطان کے کہنے پر چلنے اور شیطان کا ساتھی قرار پا جانے سے تم پر اللہ کی طرف سے کوئی آفت نہ آجائے ابرہیم (علیہ السلام) کے باپ آزر نے براہیم (علیہ السلام) کی یہ باتیں سن کر کہا معلوم ہوتا ہے ابرہیم تم ہمارے ٹھاکروں سے پھرے ہوئے ہو اگر تم اپنی اس حالت کو نہ چھوڑو گے تو میں تم کو پتھروں سے کچل ڈالوں گا جاؤ کچھ دنوں تک تم مجھ کو اپنی صورت نہ دکھاؤ باپ کی یہ باتیں سن کر ابراہیم (علیہ السلام) نے باپ کو رخصتی کا سلام کیا اور یہ کہا کہ اے باپ میں تم سے اور تمہارے بتوں سے کنارے ہوجاتا ہوں مگر میں جہاں رہوں گا تمہارے حق میں دعا خیر کرتا رہوں گا اور مجھ کو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ میری دعا رائیگاں نہ جائے گی آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کے واسطے اپنے ماں باپ اور قوم کو چھوڑا تو ان کو اولاد اور اولاد کی اولاد والا کیا اور ان سب کو نبی کر کے ان کا ذکر خیر دنیا میں باقی رکھا۔ صحیح بخاری وغیرہ میں معراج کی جو روایتیں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ابرہیم (علیہ السلام) کا رتبہ اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٤٧٣ ج ١ کتاب الانبیا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:41) واذکر۔ فعل امر۔ واحد مذکر حاضر۔ اور تو ذکر کر (اپنی قوم سے) یعنی اہل مکہ سے ۔ فی الکتب۔ ای فی القران۔ ابراہیم ای قصۃ ابراہیم مع ابیہ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ ان کے باپ کے ساتھ۔ صدیقا۔ بہت سچا ۔ جو کبھی جھوٹ نہ بولے۔ صدق سے بروزن فعیل مبالغہ کا صیغہ ہے۔ منصوب بوجہ خبر کان۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 اس سورة کا اصل موضوع توحید و نبوت اور حشر کے واقعات بیان کرنا ہے۔ تو حسد کے منکر دو قسم کے لوگ تھے ایک یہود و نصاری جنہوں نے حرت عیسیٰ اور عزیر کو اللہ کا بیٹا قرار دے لیا و راس طرح سڑک میں مبتلا ہوگئے۔ چناچہ پچھلے رکوع میں حضرت مریم اور مسیح کا قصہ بیان کر کے ان کے غلط عقائط کی تردید فرمائی۔ دوسرے مشرکین عرب جو بت پرستی میں مبتلا تھے اور بایں عقیدہ حضرت ابراہیم کے دین پر ہونے کے مدعی تھے۔ یہاں سے حضرت ابراہیم کا قصہ بیان کر کے ان کی تردید مقصود ہے تاکہ معلوم ہو کہ کس طرح حضرت ابراہیم نے اپنے باپ اور قوم کو بت پرستی سے نکالنے کی کوشش کی اور بالآخر وطن اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر خدا کی راہ میں ہجرت کی مگر تم ہو کہ ایک طرف تو ان کی اولاد میں سے ہوا اور ان کے دین پر ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہو لیکن دوسری طرف بت پرستی کی لعنت میں گرفتار ہو اور توحید کی آواز اٹھانے والوں کو وطن سے نکل جانے پر مجبور کر رہے ہو۔ اگر تم واقعی حضرت ابراہیم کے دین کے پیرو ہو تو یہ شرک اور توحید پرستوں سے دشمنی چہ معنی وارد ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 41 تا 50 یابت اے میرے ابا جان۔ سوی سیدھا، برابر۔ عصی نافرمان۔ ان یمسک یہ کہ تجھے پہنچے۔ یہ کہ تجھے پکڑے۔ اراغب کیا تو منہ پھیرتا ہے۔ (کیا تو رغبت رکھتا ہے۔ ) لم تنتہ تو باز نہ آیا۔ ارجمن میں ضرور پتھر ماروں گا۔ اھجرنی مجھے تنہا چھوڑ دے۔ ملی ایک وقت، مدت۔ استغفر میں دعائے مغفرت کروں گا۔ حفی مہربان۔ اعتزل میں الگ ہوتا ہوں۔ میں چھوڑتا ہوں۔ ادعوا میں پکاروں گا۔ شقی محروم۔ وھبنا ہم نے عطا کیا۔ لسان صدق سچی زبان، ذکر جمیل، علی نہایت بلند۔ اللہ تعالیٰ کی صفت تشریح : آیت نمبر 41 تا 50 سورة مریم میں حضرت عیسیٰ حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کیا جا رہا ہے حضرت ابراہیم جو خلیل اللہ اور ابوالانبیا کا شرف رکھتے ہیں انہوں نے ایک اسے گھرانے میں آنکھ کھولی تھی جہاں دنیاوی عزت و عظمت مال و دولت اور طرح کا عیش اور آرام تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد جن کا نام آذر تھا وہ اپنے ہاتھ سے مٹی اور پتھر کے خوبصورت بت بنایا کرتے تھے۔ ان کے اس کمال فن کی وجہ سے نمرود بادشاہ کے دربار میں وہ ایک اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ اپنے ہاتھوں سے بت بنا کر ان کے سامنے خود بھی سجدے کرتے اور دوسروں کو بھی اس گمراہی کے راستے پر ڈالتے تھے ۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ بچپن ہی سے یہ دیکھتے آ رہے تھے کہ آذر اور اس زمانے کے لوگ صرف پتھر یا مٹی کے بت ہی نہیں بلکہ چاند سورج اور ستاروں کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان لوگوں کو چاند سورج ستاروں اور بتوں کی عبادت و بندگی کرتے دیکھتے تو یہی سوچتے تھے کہ یہ چیزیں کیا ہمارا معبود ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں ؟ کیونکہ چاند سورج اور ستارے تو روزانہ نکلتے ہیں اور ڈوب جاتے ہیں غائب ہوجاتے ہیں یقینا یہ کسی اور کے تابع ہیں چناچہ ایک دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کہہ اٹھے کہ یہ سب چیزیں میرے معبود نہیں ہو سکتے میں اس ایک رب کی طرف اپنا رخ پھیرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین چاند، سورج اور ستاروں کو پیدا کیا ہے۔ جو ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور میں ہر طرف سے منہ پھیر کر صرف ایک اللہ کا بندہ ہونے کا اقرار کرتا ہوں یہ درحقیقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وہ سچی فطرت تھی جس نے ان کو یہ سب کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے ذریعے حضرت ابراہیم کی رہنمائی فرمائی۔ ایک دن آپ نے نہایت ادب و احترام کے ساتھ اپنے والد سے اس طرح گفتگو فرمائی جس میں اپنے والد کو برا بھلا کہنے کے بجائے ان معبودوں اور عقیدوں کی برائی بیان کی جن کی وہ عبادت بندگی کرتے تھے چار مرتبہ ” یا ابت “ (اے میرے ابا جان) فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ والدین اگرچہ کافر ہی کیوں نہ ہوں ان کے ادب و احترام کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد آذر سے کہا اے ابا جان آپ جن بتوں کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہیں یہ تو اندھے بہرے گونگے ہیں ان کو چھوڑیئے اور اللہ نے مجھے جو کچھ علم عطا فرمایا ہے اس کی پیروی کیجیے اسی سے نجات ہوگی فرمایا کہ یہ چاند سورج اور ستارے ان میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں ہے جن کو معبود بنایا جاسکے اے ابا جان میری بات مانئے اگر آپ نے اس گمراہی کے راستے کو چھوڑ کر میری بات کو مان لیا تو اس سے نہ صرف دنیا میں بکلہ آخرت میں بھی نجات نصیب ہو جائیگی اور ہر طرح کی بھلائیاں آپ کو عطا کی جائیں گی۔ حضرت ابراہیم نے کھل کر کہا کہ ان بتوں اور غیر اللہ کی عبادت درحقیقت شیطان کی پیروی ہے وہ شیطان جو اللہ کا سخت نافرمانی ہے مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ آپ کی گرفت نہ کرلیں اور آپ کسی کام کے نہ رہیں اور کھلم کھلا شیاطن کے ساتھی اور رفیق بن جائیں۔ یہ تمام باتیں حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) نے نہایت ادب و احترام اور نرمی سے کہی تھی کیونکہ انبیاء کرام کا یہی طریقہ رہا ہے کہ وہ کسی کو دھمکی اور دھونس میں لانے کے لئے سخت لہجہ اختیار نہیں کرتے بلکہ نرمی اور محبت سے دین کی سچائی اور صداقت کی طرف دعوت دیتے ہیں اس کے برخلاف جو لوگ دنیا داری اور جھوٹے معبودوں کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں وہ ذرا ذرا سی بات پر ھڑک اٹھتے اور دھمکیوں پر اتر آتے ہیں حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کی دو ٹوک باتوں کے جواب میں آذر نے جاہلانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا اے ابراہیم کیا تیرا یہ خیال ہے کہ میں تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑ دوں گا۔ ڈانتے ہوئے کہا کہ اگر تم ان باتوں سے باز نہ آئے تو میں تمہیں پتھر مار مار کر ہلاک کر ڈالوں گا۔ بہتر یہ ہے کہ تم میری نظروں سے دور ہوجاؤ۔ اتنی سخت اور دھمکی آمیز لہجے کے باوجود حضرت ابراہیم نے اپنے ادب اور احترام کے لہجے میں فرق نہ آنے دیا بلکہ یہ کہا کہ میں اپنے پروردگار سے آپ کے گناہوں کی معافی کے لئے درخواست کروں گا کیونکہ وہ اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف کرنے والا مہربان ہے۔ مجھ پر اس کی نظر کرم ہے شاید وہ اللہ میری دعاؤں کو آپ کے حق میں قبول کرلے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ملک عراق سے فلسطین کی طرف ہجرت فرما گئے اور کہنے لگے کہ میں تمہیں اور تمہارے معبودوں (جن سے میں بیزار ہوں) کو چھوڑ کرجاتا ہوں۔ فلسطین پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے اٹھارہ سال بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت اسحاق جیسا بیٹا عطا فرمایا حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے گھر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو پیدا کیا جن کا لقب اسرائیل تھا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اللہ نے بارہ بیٹے عطا فرمائے جن کو بنی اسرائیل (یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد) کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نہ صرف حضرت اسماعیل، حضرت اسحقٰ جیسے بیٹے عطا کئے بلکہ ان کے پوتے حضرت یعقوب اور بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) کو نبوت کی دولت سے سرفراز فرمایا۔ وہ باپ کتنے خوش نصیب تھے جن کی اولاد کو ان کی زندگی میں شان نبوت سے سرفراز فرمایا گیا اور سلسلہ نبوت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جا کر مکمل ہوا۔ چونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سینکڑوں نبی اور رسول آئے ہیں۔ بلکہ ایک روایت کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں سے چوبیس ہزار پیغمبر صرف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہوئے ہیں۔ اسلئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ابوالانبیاء کہا جاتا ہے۔ ان آیات کا خلاصہ یہ ہے۔ (1) والدین خواہ مسلم ہوں یا کافر ان کا ہر حال میں ادب و احترام کرنا لازم ہے۔ حضرت ابراہیم نے اپنے والد سے جو صرف کفر ہی نہ کرتے تھے بلکہ دوسروں کو گمراہ کرنے کے لئے بتوں کی طرف مائل کرنے میں اپنی صلاحیتوں کو لگائے ہوئے تھے ان سے سخت لہجے یا بےادبی کے انداز میں گفتگو اور تبلیغ نہیں فرمائی بلکہ ان کے ادب کا بھی پوری طرح خیال فرمایا۔ پوری گفتگو میں آخرت سے ڈرایا گیا لیکن کہیں بھی دھمکی یا جارحانہ انداز گفتگو کو نہیں اپنایا گیا۔ اگر غور کیا جائے تو پورے قرآن کریم میں سارے نبیوں کا اور رسولوں کا انداز مشفقانہ ہوا کرتا ہے اس میں دھمکی کا کوئی انداز نہیں ہوتا وہ صبر تحمل اور برداشت سے کام لیتے ہیں جب کہ مشرکین کفار اور فساق اور فجار کی گفتگو میں زبردستی دھاندلی دھونس اور دھمکی کا انداز نمایاں ہوا کرتا ہے جیسے نمرود ، فرعون اور آذر وغریہ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد کی سختی کا جواب سخت سے نہیں دیا بلکہ اخلاق کریمانہ کا مظاہرہ کرتے ہئے فرمایا کہ میں اللہ سے آپ کے گناہوں کی معافی کی درخواست ضرور کروں گا شاید میرا اللہ میری دعاؤں کو سن لے یہاں اس بات کو ذہن میں رکھ لیجیے کہ کافر والدین کا ادب و احترام تو لازم ہے لیکن ان کے لئے دعائے مغفرت کی اجازت نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ اس وقت فرمایا تھا جب آپ والد سے رخصت ہو رہے تھے لیکن بعد میں جب اللہ کا فیصلہ آگیا کہ کفار کے لئے دعائے مغفرت کرنے کی اجازت نہیں ہے تو آپ نے ان کے لئے دعائے مغفرت نہیں فرمائی۔ (2) دوسری بات یہ ہے کہ حقیقی علم وہی ہے جو اللہ نے حضرت انبیاء کرام کے ذریعے سے انسانوں کو عطا کیا ہے یہی راہ ہدایت اور راستے کی روشنی ہے۔ لیکن شیطان کا راستہ گمراہی اور ضلالت کا راستہ ہے جس میں کسی رطرح کی نجات نہیں ہے۔ (3) دین اسلام کی تبلیغ کا بہترین طریقہ حلم و تحمل صبر و برداشت اور دین کی سچائیوں کو پہنچانے کی مسلسل جدوجہد کرنا ہے۔ بےصبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے طریقے اختیار نہ کئے جائیں جن سے لوگوں کے ذہن دین اسلام کی طرف آنے کے بجائے اکھڑ جائیں۔ نرمی اور شفقت تبلیغ دین کی بنیاد ہے۔ جاہلانہ اور جارحانہ انداز گفتگو سے کبھی مفید نتائج نہیں نکلتے اسی لئے انبیاء کرام حلم و تحمل کے ذریعے دین کی سچائیوں کو دلوں میں اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (4) جب اللہ کے دین کے لئے قربانیاں دی جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اولاد صالح اور ہر طرح کی خیر و برکت سے نواز دیا کرتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور آل ابراہیم کو ہر طرح کی خیر و برکت سے نواز کر حضرت ابراہیم کو دنیا کے تمام اہل مذہب کا پیشوا اور رہنما بنا دیا ہے اور آج ساری دنیا کے مذاہب اپنے اپنے انداز پر حضرت ابراہیم کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو اپنا رہنما مانتے ہیں۔ عرب کے سارے قبائل کو اس بات پر ناز تھا کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ماننے والے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تعلیمات کو بھلا دیا تھا اسی لئے قرآن کریم کے ذریعے ان کی رہنمائی فرمائی گئی اور ان کو دین ابراہیمی کی طرف راغب فرمایا گیا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : تین شخصیات میں قدر مشترک یہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اولاد پیدا کرنے کی عمر سے گزر چکے تھے۔ حضرت مریم [ کا معاملہ سب کے سامنے ہے کہ وہ کنواری تھیں انہیں بیٹا پیدا ہونے کا تصور بھی نہیں آسکتا تھا۔ اس لیے حضرت زکریا (علیہ السلام) اور مریم [ کے تذکرہ کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کیا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت، ان کی بےمثال قربانیاں اور عظیم جدوجہد کا تذکرہ کرنے سے پہلے انھیں صدیق کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ نبی تمام کے تمام صدیق ہوتے ہیں مگر ابراہیم (علیہ السلام) کی صداقت سب سے اونچے مقام پر ہے۔ کیونکہ ہر نبی کسی ایک خوبی میں دوسرے انبیاء ( علیہ السلام) سے ممتازہوا کرتا تھا۔ جس کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے، کہ یہ رسول ہیں جنہیں ہم نے ایک دوسرے پر فضیلت دی البقرۃ : ٢٥٣۔ صدیق کے کئی معانی ہیں جن میں امتیازی معنٰی یہ ہے کہ قول و فعل میں یکسانیت ہونے کے ساتھ اس کے دل میں اپنے عقیدہ اور مشن کے بارے میں کسی لچک کا خیال نہ آئے۔ قول و فعل کی یکسانیت کے ساتھ دل کی صداقت کا یہ منفرد مقام ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بدرجہ اتم سرفراز فرمایا تھا۔ شاید اس لیے بھی انھیں صدیق کا لقب عطا کیا گیا کیونکہ انھوں نے اپنی زندگی میں تین باتیں ایسی کہی تھیں جن کا مفہوم بظاہر الفاظ کے کچھ خلاف دکھائی دیتا ہے اس بنا پر بالواسطہ تردید کی گئی ہے۔ امت کے اکثر اہل علم نے اس روایت کے ان الفاظ کو تعریض اور توریہ پر محمول کیا تاکہ حدیث کی اسناد پر اعتماد بحال رہے اور قرآن و سنت میں تعارض پیدا کیے بغیر خلیل خدا کی صداقت پر آنچ نہ آنے پائے بلکہ اس روایت سے بھی ان کی تائید و تصدیق ہوجائے۔ بعض علماء نے ان الفاظ ” لَمْ یَکْذِبْ اَبْرَاہِیْمُ اِلَّا ثَلَاثَ کَذِبَاتٍ “ کی حقیقی معنوں میں لیا ہے اور پھر اس کی وضاحت فرمائی ہے جو کہ عنقریب آپ کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ چند علماء ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے یہ کہا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو جھوٹا کہنے کی بجائے راوی کو جھوٹا کہنا زیادہ آسان اور بہتر ہے۔ ظاہر ہے تمام علماء نے نیک نیتی اور حضرت خلیل کی صداقت کی خاطر یہ انداز اختیار فرمایا ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق اجتہاد کرنے والے کو دو میں سے ایک ثواب ضرور مل جائے گا۔ بشرطیکہ نیک نیتی سے یہ کام کیا گیا ہو۔ قرآن مجید کا حضرت خلیل (علیہ السلام) کی حیات طیبہ کے مختلف گوشوں پر تفصیلی روشنی ڈالنے کا منشا یہ ہے کہ اہل عرب بالعموم اور قریش بالخصوص حضرت والا کی ذات بابرکات کے ساتھ اپنا تعلق بڑے فخریہ انداز میں بیان کرتے اور انکے متبع ہونے کا دعویٰ کرتے تھے، ساتھ ہی ساتھ یہ دعویٰ بھی کرتے کہ صرف ہم ہی ملت حنیف کے فدائی اور شیدائی ہیں۔ مشرکین عرب کے علاوہ یہود و نصاری بھی اپنی اپنی جگہ ان کو اپنا پیشوا گردانتے اور مانتے ہیں۔ (قُلْ صَدَقَ اللّٰہُ فَاتَّبِعُوْامِلَّۃَاِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًاوَمَاکَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) [ آل عمران : ٩٥] ” آپ اعلان فرما دیں کہ اللہ نے سچ فرمایا ہے۔ آپ یکسو ہو کر عبادت کرنے والے ابراہیم کے طریقہ کی اتباع کرتے جائیں۔ ابراہیم شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔ “ (مَا کَانَ اِبْرٰھِیْمُ یَھُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًاوَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) [ آل عمران : ٦٧] ” ابراہیم (علیہ السلام) نہ تو یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ تو یک سو مسلمان تھے اور نہ ہی وہ مشرکین میں سے تھے۔ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) صدیقیت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی حیات مبارکہ لوگوں کے سامنے بیان کرنا لازم ہے تفسیر بالقرآن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ قرآن مجید میں (٦٣) مرتبہ ہوا ہے۔ ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے سچے نبی تھے۔ (مریم : ٥٨) ٢۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو پہلے سے ہی ہدایت نواز رکھا تھا۔ (الانبیاء : ٥١) ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اکیلے ہی ایک جماعت تھے۔ (النحل : ١٢٠) ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بڑے نرم دل اور متحمل مزاج تھے۔ (التوبۃ : ١١٤) ٥۔ یقیناً ابراہیم (علیہ السلام) بڑے متحمل مزاج، نرم دل اور اللہ تعالیٰ کی رجوع کرنے والے تھے۔ (ھود : ٧٥) ٦۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) امت محمدیہ کے مقتدیٰ ہیں۔ (آل عمران : ٩٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٦٣١ ایک نظر میں پہلے سبق کے آخر میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کی حقیقت بیان کی گئی ‘ اور بتایا گیا کہ جو لوگ ان کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں ‘ وہ محض وہم و گمان اور قصے ‘ کہانیوں پر یقین رکھتے ہیں۔ بڑی گمراہی میں مبتلا ہیں اور ان کہانیوں سے بعض گمراہ اہل کتاب استدلال کرتے ہیں۔ اس کے بعد یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصے کا ایک حصہ دیا جاتا ہے جس میں عقائد شرکیہ کی گمراہی اور بطلان کو واضح کیا گیا ہے۔ عرب اور مشرکین مکہ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ مشرکین مکہ کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ اس گھر کے متولی ہیں جس کی تعمیر حضرض ابراہیم و اسماعیل علیھا السلام نے فرمائی تھی۔ حضرت ابراہیم اپنے اس قصے کی اس کڑی میں نہایت ہی حلیم الطبع کردار والے نظر آتے ہیں اور اللہ کی مشیت پر راضی ہونے والے شخص ہیں۔ ان کی شخصیت کے یہ خدوخال ان کے الفاظ ‘ ان کے انداز کلام سے بھی اچھی طرح معلوم ہوتے ہیں جن کی حکایت قرآن کریم نے عربی میں بیان کی ہے۔ نیز ان کے اقدامات سے اور والد کی جہالت کے مقابلہ کے سلسلے میں ان کے رویہ سے بھی ان کی شخصیت واضح ہو رہی ہے۔ لیکن اللہ کی طرف سے ان کے اس کردار اور ان کے ان اوصاف کا صلہ بھی ان کو خوب ملا۔ ان کے مشرک باپ اور مشرک فیملی کی جگہ اللہ نے ان کو ایسی صالح اولاد دی جن سے ایک بڑی امت پیدا ہوئی۔ اس امت میں بڑے بڑے انبیاء و صالحین پیدا ہوئے لیکن ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کردیا۔ اور خواہشات نفسانیہ کی پیروی کرنے لگے اور اس راہ سے وہ منحرف ہوگئے ‘ جو ان کے لیے ان کے باپ ابراہیم نے تجویز کیا تھا۔ اور انہوں نے حضرت ابراہیم کا دین تک ترک کردیا اور مشرکین مکہ انہی لوگوں کے سر خیل تھے ۔ اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو صدیق اور نبی کہا۔ صدیق سے یہ بھی مفہوم کہ وہ بہت ہی سچے تھے اور یہ بھی نکلتا ہے کہ وہ بہت تصدیق کرنے والے تھے۔ دونوں معنی حضرت ابراہیم کی شخصیت کے ساتھ مناسب ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

توحید کے بارے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے والد سے مکالمہ ان آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ ہے آپ کا وطن بابل کے علاقہ میں تھا جہاں نمرود کی حکومت تھی وہاں کے لوگ بت پرست تھے خود آپ کا گھرانہ بھی بت پرست تھا۔ ان کا باپ بھی بت پرست تھا جس کا نام آزر تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی قوم کو توحید کی دعوت دیتے تھے بت پرستی چھوڑنے کی تلقین فرماتے تھے۔ اپنے والد کو بھی انہوں نے توحید کی دعوت دی اور بت پرستی چھوڑنے کے لیے کہا سورة اعراف میں ہے (وَاِذْ قَالَ اِبْرَاھِیْمُ لِاَبِیْہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِھَۃً اِنِّیْٓ اَرَاکَ وَ قَوْمَکَ فِیْ ضَلٰالٍ مُّبِیْنٍ ) (اور جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کیا تم بتوں کو معبود بناتے ہو بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھ رہا ہوں) یہاں سورة مریم میں حضرت ابراہیم کے مکالمہ کا تذکرہ فرمایا جو ان کے باپ سے ہوا تھا انھوں نے باپ سے کہا کہ اے میرے باپ یہ تم جن چیزوں کی عبادت میں لگے ہوئے ہو یہ بت جن کی تم پرستش کرتے ہو یہ تو تم سے بھی گئے گزرے ہیں تم تو سنتے ہو اور دیکھتے ہو اور کچھ نہ کچھ کسی کو فائدہ پہنچا سکتے ہو لیکن یہ بت تو نہ سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ کسی قسم کا کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ کوئی تکلیف دور کرسکتے ہیں ان کی عبادت کرنا تو سراپا بےوقوفی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے اپنے باپ سے مزید کہا کہ دیکھو حق اور حقیقت واضح ہونے کے لیے چھوٹا بڑا ہونے کی کوئی قید اور شرط نہیں میں اگرچہ تمہارا بیٹا ہوں لیکن خالق کائنات جل مجدہ نے مجھے وہ علم عطا فرمایا ہے جو تمہارے پاس نہیں آیا مجھے اس نے توحید سیکھائی ہے جو صحیح راہ ہے آخرت کے عذاب سے بچانے والی ہے تم میری بات مانو میں تم کو اسی سیدھے راستہ کی رہبری کروں گا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا کہ یہ شرک کی راہیں اور بت پرستی، غیر اللہ کی پوجا یہ سب شیطان کی نکالی ہوئی اور بتائی ہوئی چیزیں ہیں اس کی بات ماننا اس کی عبادت ہے شیطان اپنی بھی عبادت کراتا ہے اور بتوں کی بھی، تم شیطان کی بات مت مانو وہ تو رحمن جل مجدہ کا نافرمان ہے جو اس کا ساتھی بنے گا اسے بھی رحمن جل مجدہ کی نافرمانی پر جمائے گا اس کا ساتھی ہونے پر عذاب بھگتنا پڑے گا، اے میرے باپ میں ڈرتا ہوں کہ تم پر رحمن کی طرف سے کوئی عذاب نہ آجائے اور یہ شیطان کی دوستی جو دنیا میں ہے تمہیں اس کے ساتھ آخرت کے دائمی عذاب میں نہ جھونک دے اور نہ تمہاری دنیا والی دوستی وہاں کی دوستی یعنی عذاب میں شریک ہونے کا ذریعہ نہ بن جائے (وہاں تو سب دوزخی آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے لیکن چونکہ یہ دشمنی یہاں کی دوستی کی وجہ سے سامنے آئے گی اس لیے اسے بھی علی سبیل المشاکلہ (فَتَکُوْنَ للشَّیْطٰنِ وَلِیًّا) سے تعبیر فرمایا) یہ باتیں سن کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد نے کوئی اچھا اثر نہیں لیا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جواب دیا کیا تم میرے معبودوں سے ہٹنے والے ہو یعنی میرے معبودوں سے دور ہو ان کی عبادت کے قائل نہیں ہو ؟ اور نہ صرف یہ کہ تم ان کی عبادت سے دور ہو مجھے بھی ان کی عبادت سے روک رہے ہو اب تک جو کہا اب کے بعد اگر تو اپنی باتوں سے باز نہ آیا تو میں تجھے پتھر مار مار کر ختم کر دوں گا۔ پس میرا تیرا کوئی تعلق نہیں، مجھے ہمیشہ کے لیے چھوڑ دے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اچھا تمہیں میرا سلام ہے (یہ وہ سلام نہیں جو اہل ایمان کو کیا جاتا ہے بلکہ جاہلوں سے جان چھڑانے کے لیے محاورہ میں سلام کے الفاظ کہہ دیے جاتے ہیں یہ اسی طرح کا سلام ہے جیسا کہ سورة فرقان میں فرمایا : (وَاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا) ساتھ ہی ابراہیم (علیہ السلام) نے یوں بھی فرمایا کہ میں اپنے رب سے تمہارے لیے مغفرت کی دعا کروں گا میرا رب مجھ پر بہت مہربان ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے چونکہ مغفرت کی دعا کرنے کا وعدہ فرما لیا تھا۔ اس لیے باپ کے لیے مغفرت کی دعا کی جس کا سورة شعراء میں ذکر ہے (وَاغْفِرْ لِاَبِیْٓ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَ ) (اور اے میرے رب میرے باپ کو بخش دے بلاشبہ وہ گمراہوں میں سے ہے) سورة توبہ میں ہے (فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ اِنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّا مِنْہُ ) (پھر جب ان پر یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ اللہ کا دشمن ہے اسے ایمان لانا نہیں ہے تو پھر اس سے بیزاری اختیار فرمائی) سورة توبہ کی آیت بالا کے ذیل میں ہم نے جو کچھ لکھا ہے اس کا مراجعہ کرلیا جائے۔ (انوار البیان جلد دوم)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

31:۔ جواب شبہہ ثالثۃ :۔ یہ تیسرے شبہہ کا جواب ہے یہود و نصاریٰ اور مشرکین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کارساز سمجھ کر پکارتے تھے تو اس کا جواب دیا گیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جو انبیاء (علیہم السلام) کے جد امجد ہیں وہ خود اپنے باپ سے کہہ رہے ہیں کہ غیر اللہ کو مت پکارو۔ وہ تمہیں نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اس لیے وہ کس طرح متصرف و مختار اور معبود بن سکتے ہیں ؟ حضرت زکریا (علیہ السلام) صرف یہود اور عیسیٰ اور مریم (علیہم السلام) کو تو صرف نصاریٰ پکارتے تھے۔ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہود و نصاریٰ اور مشرکین عرب سب متصرف سمجھ کر پکارتے تھے۔ اس لیے اب ان کی الوہیت کی نفی کا شبہہ دور فرمایا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

4 1 اور اے پیغمبر اس قرآن کریم میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بھی ذکر کیجیے بلاشبہ وہ بڑا سچا اور نبی تھا۔ یعنی توحید و رسالت کے سلسلہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بھی واقعہ بیان کیجیے چونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ذات گرامی تمام قوموں میں مسلم تھی۔ کفار مکہ تو آپ کی اولاد ہی میں تھے اہل کتاب بھی آپ کی عظمت اور بزرگی کے قائل تھے اس لئے توحید اور رسالت کے بارے میں ان کے واقعہ کو بڑا دخل ہے اور چونکہ صدیقیت کو نبوت مستلزم نہیں جیسے حضرت مریم کو فرمایا وامہ صدیقہ لیکن سب جانتے ہیں کہ حضرت مریم نبیہ نہیں تھیں اس لئے یہ ضروری نہیں کہ جو صدیق ہو وہ نبی بھی ہو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) صدیق بھی تھے اور نبی بھی تھے اور حدیث ثلاث کذبات اس آیت کے منافی نہیں کیونکہ وہاں کذبات کے وہ معنی نیں ہیں جو بظاہر سمجھے جاتے ہیں۔