Surat Marium

Surah: 19

Verse: 43

سورة مريم

یٰۤاَبَتِ اِنِّیۡ قَدۡ جَآءَنِیۡ مِنَ الۡعِلۡمِ مَا لَمۡ یَاۡتِکَ فَاتَّبِعۡنِیۡۤ اَہۡدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا ﴿۴۳﴾

O my father, indeed there has come to me of knowledge that which has not come to you, so follow me; I will guide you to an even path.

میرے مہربان باپ! آپ دیکھیے میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس آیا ہی نہیں تو آپ میری ہی مانیں میں بالکل سیدھی راہ کی طرف آپ کی رہبری کروں گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ ... O my father! Verily, there has come to me the knowledge of that which came not unto you. This means, "Even though I am from your loins and you see me as inferior to you because I am your son, know that I have received knowledge from Allah that you do not know and it has not reached you." ... فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا So follow me, I will guide you to the straight path. meaning, "a straight path that will carry you to the desired objective and save you from that which is dreaded (Hell)."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

43۔ 1 جس سے مجھے اللہ کی معرفت اور اس کا یقین حاصل ہوا، بعث بعد الموت اور غیر اللہ کے پجاریوں کے لئے دائمی عذاب کا علم ہوا۔ 43۔ 2 جو آپ کی سعادت کو ابدی اور نجات سے ہمکنار کر دے گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٠] یعنی علم وحی الٰہی، جس میں انسان کی دنیوی زندگی کے لئے مکمل ہدایات موجود ہوتی ہیں اور آخرت میں محاسبے کا تفصیلی ذکر ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَبَتِ اِنِّىْ قَدْ جَاۗءَنِيْ مِنَ الْعِلْمِ ۔۔ : ” مِنَ الْعِلْمِ “ میں ” مِنْ “ تبعیض کے لیے ہے، یعنی کچھ علم۔ دوسری بات میں بھی ان کی نرمی، دانائی اور حسن ادب دیکھیے۔ ” ابا جی “ کے لقب کے ساتھ مخاطب کیا، یہ نہیں کہا کہ آپ حد درجہ کے جاہل ہیں اور مجھے اللہ تعالیٰ نے صدیقیت اور نبوت کا عظیم مرتبہ عطا کیا ہے، بلکہ یہ کہا کہ میرے پاس کچھ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا اور وہ ہے سیدھے راستے کا علم، اس لیے اس میں میرے پیچھے چلنے میں عار محسوس نہ کریں۔ بیشک آپ باپ ہیں مگر یوں سمجھیں کہ میں اور آپ ایک سفر پر ہیں، مجھے راستے کا علم ہے اور آپ کو نہیں، تو آپ کو باپ ہونے کے باوجود میرے پیچھے چلنا ہوگا، تاکہ میں آپ کو صحیح منزل تک پہنچا دوں اور آپ غلط راستے پر چل کر بھٹکتے نہ پھریں۔ (زمحشری) اَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا : ” سَوِيًّا “ ” سَوِیَ یَسْوٰی “ (ع) سے ” فَعِیْلٌ“ کے وزن پر صفت کا صیغہ ہے، سیدھا برابر راستہ جس میں نہ زیادتی ہے کہ اس کی عبادت ہو جو اس کا حق دار نہیں اور نہ کمی کہ حق دار کی عبادت بھی نہ کی جائے۔ (قاسمی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَبَتِ اِنِّىْ قَدْ جَاۗءَنِيْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَاْتِكَ فَاتَّبِعْنِيْٓ اَہْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا۝ ٤٣ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ صرط الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . سرط السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من : سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام : 231- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه . ( ص ر ط ) الصراط ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو ( س ر ط) السراط کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔ سوا ( مساوات برابر) الْمُسَاوَاةُ : المعادلة المعتبرة بالذّرع والوزن، والکيل، وتَسْوِيَةُ الشیء : جعله سواء، إمّا في الرّفعة، أو في الضّعة، وقوله : الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار/ 7] ، أي : جعل خلقتک علی ما اقتضت الحکمة، وقوله : وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس/ 7] ، فإشارة إلى القوی التي جعلها مقوّمة للنّفس، فنسب الفعل إليها، وکذا قوله : فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، ( س و ی ) المسا واۃ کے معنی وزن کیل یا مسا حت کے لحاظ سے دو چیزوں کے ایک دوسرے کے برابر ہونے کے ہیں التسویۃ کے معنی کسی چیز کو ہموار کرنے ہیں اور آیت : ۔ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار/ 7] دو ہی تو ہے ) جس نے تجھے بنایا اور تیرے اعضاء کو ٹھیک کیا ۔ میں سواک سے مراد یہ ہے کہ انسان کی خلقت کو اپنی حکمت کے اقتضاء کے مطابق بنایا اور آیت : ۔ وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس/ 7] اور انسان کی اور اس کی جس نے اس کے قوی کو برابر بنایا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] جب اس کو ( صورت انسانیہ میں ) درست کرلوں اور اس میں ( اپنی بےبہا چیز یعنی ) روح پھونک دوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٣) میرے باپ میرے پاس اللہ کی طرف سے ایسا علم آیا ہے جو تمہارے پاس نہیں آیا وہ یہ کہ جو شخص غیر اللہ کے سوا کسی کی عبادت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دوزخ کا عذاب دے گا۔ سو اللہ کے دین میں میری پیروی کرو میں تمہیں ایک سیدھا دین اسلام کا راستہ بتاؤں گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣ (یٰٓاَبَتِ اِنِّیْ قَدْجَآءَ نِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَاْتِکَ ) ” مجھے اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی حقائق سے آگاہ کیا ہے۔ میرے پاس وہ ہدایت آئی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان سے ان الفاظ میں وعدہ فرمایا تھا : (فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ہُدًی۔۔ ) (البقرہ : ٣٨) ۔ (فَاتَّبِعْنِیْٓ اَہْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا ) ” آپ میرا کہنامانیے ‘ میرے پیچھے چلئے ‘ میں یقیناً سیدھے راستے کی طرف آپ کی راہنمائی کروں گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:43) اھدک۔ مضارع واحد متکلم ھدایۃ مصدر کضمیر مفعول واحد مذکر حاضر اھد اصل میں اھدی تھا یکو حذف کیا گیا ہے ۔ صراطا سویا۔ ای صراطا مستقیما۔ سیدھا راستہ۔ (میں تجھے سیدھا راستہ بتائوں گا) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ مرا اس سے وحی ہے جس میں احتمال غلطی کا ہو ہی نہیں سکتا۔ 3۔ اور وہ توحید ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یآبت انی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صراطا سویا (٩١ : ٣٤) ” ابا جان ‘ میرے پاس ایک ایسا علم ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا ‘ آپ میرے پیچھے چلیں ‘ میں آپ کو سیدھا راستہ دکھائوں گا “۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ایک والد اپنے ہدایت یافتہ بیٹے کے پیچھے چلے ‘ اگر ایک بیٹا نبی ہو اور اس کا اعلیٰ ذریعہ علم سے رابطہ ہو۔ اس صورت میں والد بیٹے کی نہیں بلکہ اس اعلیٰ شرچشمے کی اطاعت کر رہا ہوتا ہے اور ہدایت یافتہ ہوجاتا ہے۔ اس وضاحت کے بعد کہ بتوں کی بندگی کرنا ایک منکر فعل ہے اور یہ کہ میری دعوت کا سرچشمہ ذات باری ہے جبکہ والد جس موقف کو اپنائے ہوئے ہیں اس کا سرچشمہ کچھ اور ہے اب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) صراحت کے ساتھ بتاتے ہیں کہ والد صاحب ‘ آپ جس راہ پر چل رہے ہیں وہ شیطان کی راہ ہے ‘ جبکہ میں جس راہ کی طرف آپ کو بلارہا ہوں وہ رحمن کی راہ ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ اے باپ ‘ آپ پر اللہ کا غضب نازل نہ ہوجائے اور آپ اور آپ ہمیشہ کے لئے شیطان کے پیروکاروں میں شامل ہوجائیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

33:۔ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دعویٰ کی صداقت کی دلیل ہے یعنی میرے پاس اللہ کی وحی کے ذریعے ایسا علم ہے، جو تمہارے پاس نہیں ہے۔ اس لیے تم میرا اتباع کرو اور توحید کو مان لو۔ درا صل یہی سیدھی راہ ہے۔ ” لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰن الخ “ معبودان باطلہ کی عبادت کو شیطان کی عبادت اس لیے فرمایا کہ شیطان ہی انسان کو گمراہ کر کے اس سے شرک کراتا ہے، یا اس لیے کہ شیطان بزرگوں کی صورت اختیار کر کے مشرکین کو اپنی پوجا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ” یَا اَبَتِ اِنِّیْ اَخَافُ الخ “ یہ تخویف اخروی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

43 اے میرے باپ ! بلاشبہ میرے پاس وہ علم پہونچا ہے جو تیرے پاس نہیں آیا اور تجھ کو نہیں دیا گیا لہٰذا تو میری اتباع اور پیروی کر اور میرے کہنے پر چل میں سیدھی راہ کی طرف تیری رہنمائی کروں گا اور میں تجھ کو سیدھی راہ دکھائوں گا۔ یعنی میری معلومات کا ذریعہ وحی الٰہی ہے جس میں غلطی کا امکان نہیں اور تو اللہ تعالیٰ کی وحی سے محروم ہے لہٰذا تو میرا کہا مان تاکہ تو صحیح راہ پا سکے اور غلط اور گمراہی کی راہ سے بچ جائے۔