Surat Marium

Surah: 19

Verse: 49

سورة مريم

فَلَمَّا اعۡتَزَلَہُمۡ وَ مَا یَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ۙ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ ؕ وَ کُلًّا جَعَلۡنَا نَبِیًّا ﴿۴۹﴾

So when he had left them and those they worshipped other than Allah , We gave him Isaac and Jacob, and each [of them] We made a prophet.

جب ابراہیم ( علیہ السلام ) ان سب کو اور اللہ کے سوا ان کے سب معبودوں کو چھوڑ چکے تو ہم نے انہیں اسحاق و یعقوب ( علیہما السلام ) عطا فرمائے اور دونوں کو نبی بنا دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah gave Ibrahim Ishaq and Yaqub Allah, the Exalted, says; فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَهَبْنَا لَهُ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ ... So when he had turned away from them and from those whom they worshipped besides Allah, We gave him Ishaq and Ya`qub, and each one of them We made a Prophet. Allah, the Exalted, says that when the Friend of Allah (Ibrahim) withdrew from his father and his people for the sake of Allah, Allah gave him in exchange those who were better than them. He gave him Ishaq (Isaac) and Yaqub (Jacob), meaning his son, Ishaq, and Ishaq's son, Yaqub. This is as Allah said in another Ayah, وَيَعْقُوبَ نَافِلَةً and Yaqub, a grandson. (21:72) Also, Allah says, وَمِن وَرَاءِ إِسْحَـقَ يَعْقُوبَ and after Ishaq, of Yaqub. (11:71) There is no difference of opinion about Ishaq being the father of Yaqub. This is what is recorded in the Qur'an in Surah Al-Baqarah. أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِى قَالُواْ نَعْبُدُ إِلَـهَكَ وَإِلَـهَ ابَأيِكَ إِبْرَهِيمَ وَإِسْمَـعِيلَ وَإِسْحَـقَ Or were you witnesses when death approached Yaqub When he said unto his sons, "What will you worship after me!" They said, "We shall worship your God the God of your fathers, Ibrahim, Ismail and Ishaq." (2:133) Allah only mentioned Ishaq and Yaqub here to show that He made Prophets from among his descendants and successors in order to give him relief and happiness in his life. This is why Allah says, ... وَكُلًّ جَعَلْنَا نَبِيًّا and each one of them We made a Prophet. If Yaqub had not become a Prophet in the lifetime of Ibrahim, then Allah would not have limited the promise of Prophethood to him, but He would have mentioned his son Yusuf as well. For verily, Yusuf was also a Prophet, just as the Messenger of Allah said in a Hadith whose authenticity is agreed upon, when he was asked who was the best of people. He said, يُوسُفُ نَبِيُّ اللهِ ابْنُ يَعْقُوبَ نَبِيِّ اللهِ ابْنِ إِسْحَاقَ نَبِيِّ اللهِ ابْنِ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ الله The Prophet of Allah, Yusuf, the son of the Prophet of Allah Yaqub, the son of the Prophet of Allah Ishaq, the son of the Friend of Allah Ibrahim. In another wording of this Hadith, he said, إِنَّ الْكَرِيمَ ابْنَ الْكَرِيمِ ابْنِ الْكَرِيمِ ابْنِ الْكَرِيمِ يُوسُفَ بْنَ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيم Verily, the noble one is the son of the noble one, who is the son of the noble one, who is the son of the noble one. That is Yusuf, the son of Yaqub, the son of Ishaq, the son of Ibrahim. Concerning Allah's statement, وَوَهَبْنَا لَهُم مِّن رَّحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا

لا تعلق ہونے کا اعلان ۔ خلیل اللہ علیہ السلام ماں باپ کو رشتے کنبے کو قوم وملک کو اللہ کے دین پر قربان کرچکے سب سے یک طرف ہوگئے اپنی برات اور علیحدگی کا اعلان کر دیا تو اللہ نے ان کی نسل جاری کردی آپ کے ہاں حضرت اسحاق علیہ السلام پیدا ہوئے اور حضرت اسحاق کے ہاں یعقوب علیہ السلام ہوئے ۔ جیسے فرمان ہے ( وَيَعْقُوْبَ نَافِلَةً ۭ وَكُلًّا جَعَلْنَا صٰلِحِيْنَ 72؀ ) 21- الأنبياء:72 ) اور آیت میں ہے ( وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ 71؀ ) 11-ھود:71 ) یعنی اسحاق کے پیچھے یعقوب پس حضرت اسحاق حضرت یعقوب علیہ السلام کے والد تھے جیسے سورہ بقرہ کی آیت ( اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاۗءَ اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ ١٣٣؁ ) 2- البقرة:133 ) ، میں صاف لفظ ہیں کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے انتقال کے وقت اپنے بچوں سے پوچھا کہ تم سب میرے بعد کس کی عبادت کروگے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اسی اللہ کی جس کی عبادت آپ کرتے ہیں اور آپ کے والد ابراہیم اسماعیل اور اسحاق علیہ السلام ۔ پس یہاں مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس کی نسل جاری رکھی بیٹا دیا بیٹے کے ہاں بیٹا دیا اور دونوں نبی بنا کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کیں ۔ یہ ظاہر ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بعد آپ کے فرزند حضرت یوسف علیہ السلام بھی نبی بنائے گئے تھے ان کا ذکر یہاں نہیں کیا اس لئے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی نبوت کے وقت خلیل اللہ علیہ السلام زندہ نہ تھے یہ دونوں نبوتیں یعنی حضرت اسحاق علیہ السلام ویعقوب علیہ السلام کی نبوت آپ کی زندگی میں آپ کے سامنے تھی اس لئے اس احسان کا ذکر بیان فرمایا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب سوال ہوا کہ سب سے بہتر شخص کون ہے فرمایا ، یوسف بن یعقوب نبی اللہ بن اسحاق نبی اللہ بن ابراہیم نبی اللہ وخلیل اللہ ۔ اور حدیث میں ہے کریم بن کریم بن کریم بن کریم ، یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم ہیں ۔ علیہم الصلوۃ والسلام ۔ ہم نے انہیں اپنی بہت ساری رحمتیں دیں اور ان کا ذکر خیر اور ثنا جمیل کو دنیا میں ان کے بعد بلندی کے ساتھ باقی رکھا یہاں تک کہ ہر مذہب والے ان کے گن گاتے ہیں ۔ فصلوۃ اللہ وسلامہ علہیم اجمعین ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

49۔ 1 حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے بیٹے یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر بھی بیٹے کے ساتھ اور بیٹے ہی کی طرح کیا۔ مطلب یہ ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) توحید الٰہی کی خاطر باپ کو، گھر کو اور اپنے پیارے وطن کو چھوڑ کر بیت المقدس کی طرف ہجرت کر گئے، تو ہم نے انھیں اسحاق و یعقوب (علیہما السلام) سے نوازا تاکہ ان کی انس و محبت، باپ کی جدائی کا صدمہ بھلا دے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٥] ہجرت کے بعد اللہ کا ابراہیم (علیہ السلام) کو اولاد عطا کرنا :۔ جب آپ نے اللہ کی راہ میں اپنے گھر کو اور گھر والوں کو خیر باد کہتے ہوئے ہجرت اختیار کی تو اللہ نے ان کا نعم البدل اولاد کی شکل میں انھیں عطا فرمایا۔ جو بہرحال چھوڑے ہوئے رشتہ داروں سے بہتر تھے تاکہ غریب الوطنی کی وحشت دور ہو اور انس و سکون حاصل کریں، اولاد بھی ایسی جو سب نبی تھے۔ سیدنا اسحاق بھی نبی پھر ان کے بیٹے یعقوب بھی نبی پھر انہی کی اولاد سے یعنی بنی اسرائیل میں سینکڑوں نبی پیدا ہوئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ ۔۔ : وطن سے ہجرت اور مشرکین سے کنارہ کشی کے عوض اللہ تعالیٰ نے انھیں جو بیشمار نعمتیں عطا کیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ انھیں بڑی شان والا بیٹا اور پوتا یعنی اسحاق اور یعقوب ( علیہ السلام) عطا کیے، تاکہ ان کا دل لگ جائے اور بےوطنی سے وحشت نہ ہو۔ وَكُلًّا جَعَلْنَا نَبِيًّا : یہ آیت دلیل ہے کہ اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) ان کی زندگی ہی میں نبی بن چکے تھے، کیونکہ اگر بعد میں نبی بننا مراد ہوتا تو یوسف (علیہ السلام) کا بھی ذکر ہوتا، کیونکہ وہ بھی نبی تھے۔ بیٹے اور پوتے کی خوشی ہی کچھ کم نہیں ہوتی، کجا یہ کہ ان کی پہلے ہی خوش خبری بھی مل جائے (ہود : ٧١) اور اپنی آنکھوں سے انھیں نبوت کے عالی مقام پر فائز بھی دیکھ لیا جائے۔ یہاں اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ وہ ان کے پاس نہیں رہے۔ ان کا ذکر الگ آگے آ رہا ہے۔ 3 یہ آیت اس حقیقت کی بھی ایک مثال ہے کہ جو شخص اللہ کی خاطر کوئی چیز چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ اس سے کہیں بہتر چیز اسے عطا فرماتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ وَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ |"So, when he went away from them and what they worshipped besides Allah, We blessed him with Ishaq and Ya` qub.|" - 19:49. In the sentence preceding this sentence Hadhrat Ibrahim (علیہ السلام) had expressed the hope that on account of his prayers and devotion Allah Ta` ala would not abandon him. This hope, in fact, was a prayer to Allah to protect him from the pain of loneliness after he left his house and family. The sentence reproduced above describes the manner in which his prayer was granted. When Ibrahim (علیہ السلام) left his home and family and their idols, Allah Ta` ala rewarded him with a son, Ishaq (علیہ السلام) to compensate him for his loss. It was further revealed to him that this son would have long life and also beget a son by the name of Ya` qub. Granting of a son is proof that he (Ibrahim) was married by then. In brief it means that he was granted a better family, which consisted of prophets and pious people after he had left his father&s family.

فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۙ وَهَبْنَا لَهٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ ، اس جملے سے پہلے جملے میں ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ قول آیا ہے کہ میں امید کرتا ہوں کہ میں اپنے پروردگار سے دعا کرنے میں ناکام و نامراد نہیں ہوں گا۔ ظاہر یہ ہے کہ گھر اور خاندان سے جدائی کے بعد تنہائی کی وحشت وغیرہ کے اثرات سے بچنے کی دعا مراد تھی مذکورہ جملہ میں اس دعا کی قبولیت اس طرح بیان فرمائی گئی ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کے لئے اپنے گھر، خاندان اور ان کے معبودوں کو چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی مکافات اس طرح فرمائی کہ ان کو صاحبزادہ اسحٰق (علیہ السلام) عطا فرمایا اور ساتھ ہی اس کا عمر دراز پانا اور صاحب اولاد ہونا بھی لفظ یعقوب بڑھا کر ذکر فرما دیا اور صاحبزادہ کا عطا ہونا اس کی دلیل ہے کہ اس سے پہلے نکاح ہوچکا تھا، تو اس کا حاصل یہ ہوا کہ باپ کے خاندان سے بہتر ایک مستقل خاندان دے دیا جو انبیاء صلحاء پر مشتمل تھا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا اعْتَزَلَہُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ ۝ ٠ۙ وَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ ۝ ٠ۭ وَكُلًّا جَعَلْنَا نَبِيًّا۝ ٤٩ وهب الهِبَةُ : أن تجعل ملكك لغیرک بغیر عوض . يقال : وَهَبْتُهُ هِبَةً ومَوْهِبَةً ومَوْهِباً. قال تعالی: وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] ، إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ( و ہ ب ) وھبتہ ( ف ) ھبۃ وموھبۃ ومو ھبا بلا عوض کوئی چیز دے دینا یا کچھ دینا قرآن میں ہے : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب ) بخشے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر اسماعیل اور اسحاق بخشے ۔ إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا یعنی فر شتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ نبی النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک . ( ن ب و ) النبی بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٩) چناچہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان لوگوں اور ان بتوں سے علیحدہ ہوگئے تو ہم نے ان کو حضرت (اسحاق (علیہ السلام) بیٹا اور (حضرت یعقوب (علیہ السلام) پوتا عطا کیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:49) کلا۔ ای کل واحد من اسحاق و یعقوب و ابراہیم۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 تاکہ اس کا دل ان میں لگ جائے اور غربت وطن کی وحشت نہ ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ اسماعیل (علیہ السلام) کا اس جگہ ذکر نہ فرمانا اس وجہ سے ہے کہ اول تو وہ اوروں سے اول عطا ہوچکے تھے، بعد والوں کے ذکر سے قبل والے کا ذکر خود ہی مفہوم ہوجاتا ہے، دوسرے ان کا ذکر مستقل طور پر آئندہ قریب آنے والا ہے۔ تیسرے ابراہیم (علیہ السلام) کے ذکر سے جیسا عرب کا استجلاب قلب ہوا اسحاق و یعقوب (علیہما السلام) کے ذکر سے اہل کتاب کا استجلاب قلب مناسب ہے، اور اسی نکتہ کی وجہ سے اس کے متصل موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر آتا ہے، پھر اس کے بعد اسماعیل (علیہ السلام) کا آوے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہجرت اور ان پر اللہ تعالیٰ کا انعام۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دعائیں کرتے ہوئے عراق کی سرزمین سے رخصت ہوئے۔ یہاں ان کی دو دعاؤں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ پہلی دعا یہ تھی کہ میں اپنے رب کی خاطر سب کچھ چھوڑ رہا ہوں وہی ہجرت کے دوران میری رہنمائی فرمائے گا۔ ( الصّٰفٰت : ٩٩) دوسری دعا انھوں نے یہ کی کہ میرے رب ! مجھے نیک اولاد عطا فرما۔ اس دعا کے صلہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو خوشخبری دی گئی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بیٹا اور پوتا عنایت کرے گا اور دونوں کو نبی بنائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنی بےپناہ رحمت سے نوازا اور ان کے نام اور کام کو شہرت دوام بخشی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بھی دعا کی تھی۔ میرے رب مجھے حکمت و دانائی اور قوت فیصلہ عطا فرمانے کے ساتھ نیک لوگوں کی رفاقت عنایت فرما۔ میری یہ بھی دعا ہے کہ موت کے بعد میرا تذکرہ دنیا میں خیر کے ساتھ ہوتا رہے۔ (الشعراء : ٨٣، ٨٤) اسی دعا کا صلہ ہے کہ دنیا کے تمام آسمانی مذاہب اور ہر دور کے مذہبی لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا پیشوا مانتے ہیں۔ ان کے ساتھ تعلق کا اظہار کرنا اپنے لیے قابل افتخار سمجھتے ہیں اور ہر کوئی ان کا تذکرہ اچھے الفاظ میں کرتا ہے۔ یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا تذکرہ شاید اس لیے نہیں کیا گیا کیونکہ ان کا ذکر دو آیات کے بعد آرہا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نا صرف حضرت اسحاق سے عمر میں بڑے تھے بلکہ ان کا مرتبہ اور مقام بھی حضرت اسحاق سے بڑا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حضرت اسحاق ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے ہیں۔ یہ سارہ سے پیدا ہوئے ‘ جو پہلے بانجھ تھیں اور یعقوب حضرت اسحاق کے بیٹے ہیں ‘ لیکن یعقوب (علیہ السلام) کو بھی ابراہیم (علیہ السلام) کا بیٹا سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ دادا کی زندگی میں پیدا ہوئے تھے اور دادا کے زیر تربیت رہے تھے ۔ گویا وہ براہ راست ان کے بیٹے تھے۔ انہوں نے براہ راست حضرت ابراہیم سے دین سیکھا اور پھر اپنی اولاد کو سکھایا۔ یہ بھی اپنے باپ کی طرح نبی تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(فَلَمَّا اعْتَزَلَھُمْ وَمَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَھَبْنَا لَہٗ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ ) پھر وہ جب ان لوگوں سے اور ان چیزوں سے کنارہ ہوگئے جن کی وہ عبادت کرتے تھے تو ہم نے انھیں اسحاق اور یعقوب عطا کردیے (اسحق ان کے بیٹے تھے اور یعقوب اسحاق کے بیٹے تھے) ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مشہور بیٹوں میں سے ایک بیٹے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) بھی تھے جن کا ذکر سورة بقرہ میں کعبہ شریف بنانے کے سلسلہ میں گزر چکا ہے اور ابھی چار آیات کے بعد آ رہا ہے۔ (وَکُلًّا جَعَلْنَا نَبِیًّا) اور ہم نے ان دونوں (اسحق و یعقوب) کو نبی بنایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

36:۔ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان سے اور ان کے معبودوں سے کنارہ کش ہوگئے۔ تو اللہ تعالیٰ سے فرزند کے لیے دعا کی چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک بیٹا اسحاق عطا فرمایا اور اسحاق کو یعقوب عطا کیا۔ علیہم الصلوۃ والسلام اور ان دونوں کو نبوت عطا فرمائی اور ان کی اولاد کو برکت دی۔ ” لِسَانَ صِدْقٍ الخ “ لسان سے مجازاً کلام مراد ہے اور مرکب اضافی سے لوگوں کی مدح و ثنا مراد ہے۔ یعنی ہم نے دنیا میں ان کا اچھا ذکر ان کی یادگار بنادیا۔ کہ دنیا کہ تمام لوگ ہر زمانے میں ان کو اچھائی سے یاد کرتے ہیں۔ لسان الصدق الثناء الحسن الباقی علیھم اخر الابد قالہ ابن عباس (بحر ج 6 ص 194) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

49 پھر جب ابراہیم علیہال سلام ان کافروں سے اور ان کے معبودان باطلہ سے علیحدہ ہوگیا جن کو وہ اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے تھے تو ہم نے اس کو اسحق اور یعقوب عطا فرمائے یعنی بیٹا بھی دیا اور پوتا بھی اور ان دونوں میں سے ہر ایک کو ہم نے نبی کیا اور دونوں کو نبوت عطا فرمائی۔ یعنی جن لوگوں سے اللہ تعالیٰ کے لئے ہجرت کر کے گئے تھے اللہ تعالیٰ نے ان سے بہتر رفیق اور خدمت گار عطا فرمائے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی اللہ کی راہ میں ہجرت کی اپنوں سے دور پڑے اللہ نے ان سے بہتر اپنے دیئے انسیت کو یہاں اسماعیل کا ذکر نہ فرمایا کہ وہ ان کے پاس نہ رہے۔ 12 خلاصہ ! یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر اہل عرب کو متاثر کرنے والا تھا اور اسحق و یعقوب کا ذکر اہل کتاب کے لئے کیا اور حضرت اسماعیل کا ذکر آگے آتا ہے۔