Surat Marium

Surah: 19

Verse: 5

سورة مريم

وَ اِنِّیۡ خِفۡتُ الۡمَوَالِیَ مِنۡ وَّرَآءِیۡ وَ کَانَتِ امۡرَاَتِیۡ عَاقِرًا فَہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۙ﴿۵﴾

And indeed, I fear the successors after me, and my wife has been barren, so give me from Yourself an heir

مجھے اپنے مرنے کے بعد اپنے قرابت والوں کا ڈر ہے میری بیوی بھی بانجھ ہے پس تو مجھے اپنے پاس سے وارث عطا فرما ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَايِي ... And verily, I fear Mawali after me, Mujahid, Qatadah and As-Suddi, all said, "In saying the word Mawali, he (Zakariyya) meant his succeeding relatives." ... وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 اس ڈر سے مراد یہ ہے کہ اگر میرا کوئی وارث میری مسند وعظ وارشاد نہیں سنبھالے گا تو میرے قرابت داروں میں اور تو کوئی اس مسند کا اہل نہیں ہے۔ میرے قرابت دار بھی تیرے راستے سے گریز و انحراف نہ اختیار کرلیں۔ 5۔ 2 ' اپنے پاس سے ' کا مطلب یہی ہے کہ گو ظاہری اسباب اس کے ختم ہوچکے ہیں، لیکن تو اپنے فضل خاص سے مجھے اولاد سے نواز دے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] سیدنا زکریا کی بیٹے کے لئے دعا کرنا :۔ یعنی لڑکا طلب کرنے سے میری اصل غرض یہ ہے کہ وہ میرا صحیح جانشین ثابت ہو۔ کیونکہ دوسرے میرے بھائی بند جو مجھے نظر آرہے ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو میرے بعد دعوت دین اور تبلیغ کے کام کو سنبھال سکے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنِّىْ خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَّرَاۗءِيْ ۔۔ :” الْمَوَالِيَ “ ” مَوْلٰی “ کی جمع ہے۔ یہاں مراد قریبی رشتے دار اور چچوں کے بیٹے ہیں جو اولاد نہ ہونے کی صورت میں وارث بنتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ مجھے ان میں سے کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جو اس لائق ہو کہ میرے مرنے کے بعد بنی اسرائیل کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے سکے اور میرا اور آل یعقوب کا علمی و عملی وارث بن سکے، جس سے تیرے دین پر عمل اور اس کی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رہ سکے، بلکہ مجھے ان سے خطرہ ہے کہ وہ دین کو بگاڑیں گے اور اپنی من مانیاں کریں گے، جیسا کہ سورة اعراف (١٦٩) میں بنی اسرائیل میں سے کتاب کے وارث بننے والے بعض لوگوں کا حال ذکر ہوا ہے۔ 3 بعض لوگ اس آیت کو انبیاء کی دنیاوی جائداد کی وراثت کی دلیل بناتے ہیں، حالانکہ ان آیات ہی میں اس کا رد موجود ہے، کیونکہ زکریا (علیہ السلام) ایسے وارث کی دعا کر رہے ہیں جو ان کا اور آل یعقوب کا وارث بنے۔ ظاہر ہے کہ اولاد تو اپنے باپ کی دنیوی جائداد کی وارث ہوتی ہے، پورے خاندان اور قوم کی وارث نہیں ہوتی، اس لیے یہاں علمی ورثہ ہی مراد ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لاَ نُوْرَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ ) [ بخاري، ، فرض الخمس، باب فرض الخمس : ٣٠٩٣، عن أبي بکر (رض) ]” ہمارا (یعنی انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ “ جو لوگ کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے فاطمہ (رض) کو فدک اور دوسری جائدادوں میں سے ورثہ نہیں دیا، انھیں سوچنا چاہیے کہ انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا عباس (رض) کو اور اپنی بیٹی عائشہ (رض) اور دوسری ازواج مطہرات کو بھی تو حصہ نہیں دیا اور دلیل کے طور پر یہ (مذکورہ بالا) حدیث پڑھی۔ پھر اگر انھوں نے حصہ نہیں دیا تو علی (رض) ہی اپنی خلافت میں عباس اور حسن و حسین (رض) کو اور امہات المومنین کو وہ حصہ دے کر اپنے فرض سے سبک دوش ہوجاتے، مگر ان کا ابوبکر (رض) کے فیصلے پر کار بند رہنا اس حدیث کی عملی تائید و تصدیق ہے۔ مزید دیکھیے سورة نمل کی آیت (١٦) ۔ وَكَانَتِ امْرَاَتِيْ عَاقِرًا : ” عَاقِرًا “ وہ ہے جس کے ہاں اولاد نہ ہوتی ہو۔ یہ لفظ مرد اور عورت دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ” کَانَت “ کا لفظ ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے، اس لیے ترجمہ ” شروع سے بانجھ ہے “ کیا گیا ہے۔ اتنے الحاح و اصرار سے اپنی ضرورت بیان کرنے کے بعد اپنی صلب سے وارث عطا کرنے کی دعا کی، جو ان کی اور آل یعقوب (علیہ السلام) کی نبوت، علم اور اوصاف حمیدہ کا وارث بنے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

مَوَالِيَ is the plural of مَولٰی . This word has many meanings in the Arabic language, one of them being a cousin, or other relations on the father&s side. Here the word has been used in this sense.

الْمَوَالِيَ ، مولیٰ کی جمع ہے۔ عربی زبان میں یہ لفظ بہت سے معانی کے لیے استعمام ہوتا ہے ان میں سے ایک معنی چچا زاد بھائی اور اپنے عصبات کے بھی آتے ہیں اس جگہ وہی مراد ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنِّىْ خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَّرَاۗءِيْ وَكَانَتِ امْرَاَتِيْ عَاقِرًا فَہَبْ لِيْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا۝ ٥ۙ خفی خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] ، ( خ ف ی ) خفی ( س ) خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔ مولي والمَوْلَى يقال للمعتِقِ ، والمعتَقِ ، والحلیفِ ، وابنِ العمِّ ، والجارِ ، وكلِّ من وَلِيَ أمرَ الآخرِ فهو وَلِيُّهُ ، ويقال : فلان أَوْلَى بکذا . أي أحری، الوالیٰ کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ غلام کو آزاد کرنے والا آزاد شدہ غلام حلیف عمر زاد بھائی پڑوسی ۔ اور ہر وہ شخص جو دوسرے کے معاملہ کا والی ہو وہ ابھی اس کا مولا کہلاتا ہے : الولاء میراث جو آزاد کردہ غلام سے حاصل ہوتی ہے اور احادیث میں ولاء کی اور اس کے ہبہ سے منع کیا گیا ہے ۔ الموالااۃ کے معنی متا بعت کے ہیں یعنی اشیاء کا یکے بعد دیگر واقع ہونا ۔ وراء ( وَرَاءُ ) إذا قيل : وَرَاءُ زيدٍ كذا، فإنه يقال لمن خلفه . نحو قوله تعالی: وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود/ 71] ، ( و ر ی ) واریت الورآء کے معنی خلف یعنی پچھلی جانب کے ہیں مثلا جو زہد کے پیچھے یا بعد میں آئے اس کے متعلق ورآء زید کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود/ 71] اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی ۔ عقر عقر عُقْرُ الحوض والدّار وغیرهما : أصلها ويقال : له : عَقْرٌ ، وقیل : ( ما غزي قوم في عقر دارهم قطّ إلّا ذلّوا) «4» ، وقیل للقصر : عُقْرَة . وعَقَرْتُهُ أصبت : عُقْرَهُ ، أي : أصله، نحو، رأسته، ومنه : عَقَرْتُ النّخل : قطعته من أصله، وعَقَرْتُ البعیر : نحرته، وعقرت ظهر البعیر فانعقر، قال : فَعَقَرُوها فَقالَ تَمَتَّعُوا فِي دارِكُمْ [هود/ 65] ، وقال تعالی: فَتَعاطی فَعَقَرَ [ القمر/ 29] ، ومنه استعیر : سرج مُعْقَر، وکلب عَقُور، ورجل عاقِرٌ ، وامرأة عاقر : لا تلد، كأنّها تعقر ماء الفحل . قال : وَكانَتِ امْرَأَتِي عاقِراً [ مریم/ 5] ، وَامْرَأَتِي عاقِرٌ [ آل عمران/ 40] ، وقد عَقِرَتْ ، والعُقْرُ : آخر الولد . وبیضة العقر کذلک، والعُقَار : الخمر لکونه کالعاقر للعقل، والمُعَاقَرَةُ : إدمان شربه، وقولهم للقطعة من الغنم : عُقْرٌ فتشبيه بالقصر، فقولهم : رفع فلان عقیرته، أي : صوته فذلک لما روي أنّ رجلا عُقِرَ رِجْلُهُ فرفع صوته «5» ، فصار ذلک مستعارا للصّوت، والعقاقیر : أخلاط الأدوية، الواحد : عَقَّار . ( ع ق ر ) العقر کے معنی حوض یا مکان کے اصل اور وسط کے ہیں اور اسے عقر بھی کہتے ہیں حدیث میں ہے (42) ماغزی قوم فی عقر دارھم قط الا ذلو ا کہ کسی قوم پر ان کے گھروں کے وسط میں حملہ نہیں کیا جاتا مگر وہ ذلیل ہوجاتی ہیں اور تصر یعنی محل کو عقرۃ کہاجاتا ہے ۔ عقرتہ اس کی عقر یعنی جڑپر مارا ۔ جیسا کہ راستہ کے معنی ہیں میں نے اس کے سر پر مارا اسی سے عقرت النخل ہے جس کے معنی ہیں میں نے کھجور کے درخت کو جڑ سے کاٹ دیا ۔ عقرت البعیر اونٹ کی کو نچیں کاٹ دیں اسے ہلاک کردیا عقرت ظھر البعیر اونٹ کی پشت کو رخمی کردیا انعقر ظھرہ اس کی پیٹھ زخمی ہوگئی قرآن میں ہے : فَعَقَرُوها فَقالَ تَمَتَّعُوا فِي دارِكُمْ [هود/ 65] مگر انہوں نے اس کی کو نچیں کاٹ ڈالیں تو صالح نے کہا کہ اپنے گھروں میں فائدہ اٹھالو ۔ ۔ فَتَعاطی فَعَقَرَ [ القمر/ 29] تو اس نے جسارت کرکے اونٹنی کو پکڑا اور اس کی کو نچیں کاٹ ڈالیں اور اسی سے بطور استعارہ کہاجاتا ہے ۔ سرج شعقر زخمی کردینے والی زین ۔ کلب عقور کاٹ کھانے والا کتا ، درندہ جانور رجل عاقر بانجھ مرد ۔ امرءۃ عاقر بانچھ عورت گو یا وہ مرد کے نطفہ کو قطع کردیتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانَتِ امْرَأَتِي عاقِراً [ مریم/ 5] اور میری بیوی بانجھ ہے ۔ اور میری بیوی بانجھ ہے ۔ قد عقرت وہ بانجھ ہوگئی ۔ العقر آخری بچہ بیضۃ العقر آخری انڈا عقار ( پرانی ) شراب کیونکہ وہ عقل کو قطع کردیتی ہے ۔ المعاقرۃ کے معنی ہیں شراب نوشی کا عادی ہونا اور قصر کے ساتھ تشبیہ دے کر بکریوں کی ٹکڑی کو بھی عقر کہاجاتا ہے ۔ رفع فلان عقیرتہ فلاں نے آواز بلند کی مروی ہے کہ ایک آدمی کی ٹانگ کٹ گئی وہ چلایا تو اس وقت سے بطور استعارہ عقر کا لفظ بلند آواز کے معنی میں ہونے لگا ہے ۔ عقاقیر جڑی بوٹیاں ۔ اس کا واحد عقار ہے ۔ وهب الهِبَةُ : أن تجعل ملكك لغیرک بغیر عوض . يقال : وَهَبْتُهُ هِبَةً ومَوْهِبَةً ومَوْهِباً. قال تعالی: وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] ، إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ( و ہ ب ) وھبتہ ( ف ) ھبۃ وموھبۃ ومو ھبا بلا عوض کوئی چیز دے دینا یا کچھ دینا قرآن میں ہے : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب ) بخشے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر اسماعیل اور اسحاق بخشے ۔ إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا یعنی فر شتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں ۔ لدن لَدُنْ أخصّ من «عند» ، لأنه يدلّ علی ابتداء نهاية . نحو : أقمت عنده من لدن طلوع الشمس إلى غروبها، فيوضع لدن موضع نهاية الفعل . قال تعالی: فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف/ 76] ( ل دن ) لدن ۔ یہ عند سے اخص ہے کیونکہ یہ کسی فعل کی انتہاء کے آغاز پر دلالت کرتا ہے ۔ جیسے قمت عند ہ من لدن طلوع الشمس الیٰ غروبھا آغاز طلوع شمس سے غروب آفتاب اس کے پاس ٹھہرا رہا ۔ قرآن میں ہے : فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف/ 76] تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا کہ آپ کو مجھے ساتھ نہ رکھنے کے بارے میں میری طرف سے عذر حاصل ہوگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے وانی خفت الموالی من ورائی مجھے اپنے پیھچے اپنے بھائی بندوں کی برائیوں کا خوف ہے ) مجاہد، قتادہ، ابو صالح اور سدی سے مروی ہے کہ الموالی عصبہ کو کہتے ہیں جو حضرت زکریا (علیہ السلام) کے بنو اعمام تھے۔ آپ کو دین کے بارے میں ان کی برائیوں کا خوف تھا اس لئے کہ وہ بنی اسرائیل کے بدترین لوگ تھے۔ نبوت کی میراث قول باری ہے (فھب لی من لدنک ولیا یرثنی ویرث من آل یعقوب ۔ تو مجھے اپنے فضل خاص سے ایک ورث عطا کر دے جو میرا وارث بھی ہو اور آل یعقوب کی میراث بھی پائے) آپ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ ایک بیٹا عطا ہوجائے جو میری موت کے بعد دین کے امور کی نگہداشت کرے اور اس پر عمل پیرا رہے۔ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ میرے چچا زاد بھائی کہیں دین کو بدل نہ ڈالیں۔ قتادہ نے حسن بصری سے قول باری (یرثنی و یرث من ال یعقوب) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ اس سے مراد حضرت زکریا (علیہ السلام) کی نبوت اور ان کا علم ہے۔ خصیف نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) ہے اولاد تھے، آپ کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا تھا۔ آپ نے اپنے رب سے ایک بچے کا سوال کیا اور فرمایا کہ یہ بچہ میرا وارث بھی ہو اور آل یعقوب کی میراث بھی پائے۔ یعنی اسے نبوت ملے۔ ابوصالح سے بھی اسی قسم کی تفسیر مروی ہے۔ حضرت ابن عباس نے یہ ذکر کیا کہ وہ بچہ مال کا وارث بنے گا اور آل یعقوب سے اسے نبوت کی میراث ملے گی۔ اس طرح حضرت ابن عباس نے نبوت پر میراث کے لفظ کے اطلاق کو درست قرار دیا ۔ اسی طرح یہ جائز ہے کہ قول باری (یرثنی) سے یہ مراد لی جائے کہ ” وہ میرے علم کا وارث بنے۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (العلماء ورثۃ الانبیاء وان الانبیاء لم یور ثوا دینا لا ولا درھما وانما ورثوا العلم ۔ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ انبیاء نے اپنی میراث میں دنیار و درہم نہیں چھوڑے انہوں نے اپنی میراث میں صرف علم چھوڑا ہے ) اسی طرح آپ کا ارشاد ہے (کونوا علی مشاعرکم … یعنی بعرفات … فانکم علی ارث من ارث ابراہیم۔ مناسک حج ادا کرنے کے مقامات پر پہنچو، یعنی عرفات میں، اس لئے کہ تم ابراہیم (علیہ السلام) کی میراث کے امین ہو۔ ) زہری نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا۔” میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ (لا نورث ماترکناصدقۃ، ہم کسی کو اپنی میراث کا وارث نہیں بناتے، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں گے وہ صدقہ ہوگا) زہری نے مالک بن اوس بن احدثان سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر نے چند صحابہ کرام کو جن میں حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف حضرت زبیر اور حضرت طلحہ تھے، یہ فرمایا : میں آپ حضرات کو اللہ کی قسم دے کر جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، پوچھتا ہوں کیا آپ لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا :” ہم کسی کو وارث نہیں بناتے ، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں گے وہ صدقہ ہوگا۔ “ ان حضرات نے حضرت عمر کے سوال کا جواب اثبات میں دای۔ صحابہ کی اس جماعت کی روایت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ انبیاء (علیہم السلام) کسی کو مال کا وارث نہیں بناتے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اپنے قول یرثنی (میرا وارث بنے) سے مال کی وراثت مراد نہیں لی ہے۔ اللہ کے ایک نبی کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ اس بارے میں پریشا ن ہوں کہ ان کی موت کے بعد ان کا مال کس طرح حق دار تک پہنچے گا۔ بلکہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کو حقیقی پریشانی یہ تھی کہ ان کے بنو اعمام ان کی موت کے بعد کہیں ان کے علوم اور ان کی کتاب پر قبضہ نہ جمالیں اور پھر ان میں تحریف و تبدیل کے ذریعے مال کمانا شروع کردیں اور اس طرح ان کے لائے ہوئے دین کو بگاڑ کر رکھ دیں اور لوگوں کو صحیح دین تک پہنچنے کی راہ میں حائل ہوجائیں۔ نذر عہد قدیم میں قول باری ہے (انی نذرت للرحمن صوماً فلن اکلم الیوم انسیاً میں ن ے رحمان کے لئے روزے کی نذر مانی ہے اس لئے آج میں کسی سے نہ بولوں گی) آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ترک کلام اور سکوت اختیار کرلینا اس زمانے میں عبادت میں شمار ہوتا تھا۔ اگر یہ بات اس طرح نہ ہوتی تو حضرت مریم (علیہ السلام) ترک کلام کی نذر نہ مانتیں اور نذر ماننے کے بعد اس پر عمل پیرا نہ ہوتیں۔ معمر نے قتادہ سے قول باری (انی نذرت للرحمٰن صوماً ) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ بعض قرأت میں ” صوما “ کی بجائے ” صمتاً “ ہے۔ صوم سے حضرت مریم کی مرادصمت یعنی خاموشی اور ترک کلام تھی۔ اس پر ان کا یہ قول دلالت کرتا ہے جو قرآن کے الفاظ میں اس طرح بیان ہوا ہے (فلن اکلم الیوم انسیاً ) یہ حکم اب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس روایت کی بنا پر منسوخ ہے جس میں ذکر ہے کہ آپ نے دن بھر رات تک خاموش رہنے سے منع فرمایا ہے۔ سدی کا قول ہے کہ اس زمانے میں جو شخص روزہ رکھتا وہ لوگوں سے گفتگو نہ کرتا تاہم حضرت مریم کو اپنے بارے میں اطلاع دینے کی اجازت دی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کو تین دنوں تک کلام کرنے سے روک رکھا تھا اور اسی چیز کو ان کے لئے ان کے بچے کی پیدائش کے قوت کی نشانی قرار دیا تھا۔ اس طرح حضرت زکریا (علیہ السلام) کو کسی مرضی یا گونگے پن کے بغیر ہی بات کرنے سے روک دیا گیا تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥۔ ٦) اور اپنے بعد اپنے وارثوں کے بارے میں اندیشے میں مبتلا ہوں کہ کہیں میرے علم اور تقوے کا میرے بعد کوئی وارث نہ ہو یا یہ کہ میرے ورثہ کم ہیں اور میری بیوی حسنہ ہمشیرہ ام مریم بنت عمران بن ماثان بانجھ ہے لہذا آپ خاص اپنی رحمت سے ایسا فرزند عطا فرمائیے جو کہ میرے خاص علوم میں میرا وارث بنے اور یعقوب (علیہ السلام) کے خاندان کے موروثی علوم میں ان کا وارث بنے اگر ان میں یہ علوم اور بادشاہت ہوں (حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا خاندان حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی ننھیال تھی) اور اس کا اپنا پسندیدہ اور نیکوکار بنائیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥ (وَاِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآءِ یْ ) مجھے اپنے ورثاء میں کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو میرے بعد ہیکل سلیمانی کا متولی اور میرا جانشین بننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ (وَکَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا فَہَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا) یہاں ” ولی “ لفظ بہت اہم ہے ‘ یعنی مجھے ایسا ساتھی عطا کر جو میرے مشن میں میرا دوست وبازو بن سکے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3. That is, I see none among my kinsmen, the family of Abiah, who is religiously and morally sound and capable of carrying on the work of the mission that has been entrusted to me.

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :3 مطلب یہ ہے کہ ابیاہ کے خاندان میں میرے بعد کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو دینی اور اخلاقی حیثیت سے اس منصب کا اہل ہو جسے میں سنبھالے ہوئے ہوں ۔ آگے جو نسل اٹھتی نظر آ رہی ہے اس کے لچھن بگڑے ہوئے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: یعنی میری کوئی اولاد تو ہے نہیں، اور میرے پیچھے میرے چچازاد بھائی اپنے علم اور تقوی کے اعتبار سے اس مقام پر نہیں ہیں کہ وہ میرے مشن کو آگے جاری رکھ سکیں، اس لئے مجھے ان سے اندیشہ ہے کہ وہ دین کی خدمت نہیں کرسکیں گے، لہذا مجھے ایسا بیٹا عطا فرمادیجئے جو میرے علوم نبوت کا وراث ہو، حضرت زکریا (علیہ السلام) کی اس دعا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے جواب میں بیٹا عطا فرمانے کا تذکرہ پیچھے سورۂ آل عمران (٣: ٣٨ تا ٤٠) میں بھی گزرچکا ہے ان آیتوں کے حواشی بھی ملاحظہ فرمالئے جائیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥۔ ٦ حضرت زکریا ( علیہ السلام) حضرت مریم کے خالو تھے چناچہ معراج کی صحیح بخاری کی مالک بن صعصعہ کی ١ ؎ حدیث میں یہ بات آچکی ہے کہ حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) خالہ زاد بھائی ہیں اگرچہ حضرت زکریا بیت المقدس کے متولیوں میں تھے لیکن صحیح مسلم کی ابوہریرہ (رض) کی روایت میں ہے کہ بڑھئی کا کام کرکے اپنے ہاتھ کی کمائی سے اپنی گزر کیا کرتے تھے ٢ ؎۔ اس لیے ان کے پاس کچھ ایسا مال متاع تو نہیں تھا صرف نبوت کے اپنے خاندان میں چلنے کے لیے لڑکے کی دعا مانگی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کی اور حضرت یحییٰ پیدا ہوئے یہ نام صرف حضرت یحییٰ دنیا میں زیادہ نہیں جلے لیکن بنی اسرائیل کے ہاتھ شہید ہوئے اس واسطے گویا ہمیشہ اپنے نام کے موافق زندہ ہیں بنی اسرائیل کا اس وقت کا بادشاہ ایک عورت سے شادی کرنا چاہتا تھا اور توریت کے حکم سے وہ نکاح جائز نہ تھا اس لیے حضرت یحییٰ نے اس بادشاہ کو اس نکاح سے منع کیا اس بادشاہ نے ضد کر کے حضرت یحییٰ کو شہید کر ڈالا۔ مستدرک حاکم میں عبداللہ بن زبیر (رض) کی معتبر روایت سے حضرت یحییٰ کے شہید ہونے کا پورا قصہ ہے اس قصہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر کی روایت سے یہ بھی ہے کہ حضرت یحییٰ جس جگہ شہید ہوئے تھے اس جگہ زمین میں سے خود بخود خون ابلتا تھا اسی عرصہ میں بخت نصر بنی اسرائیل پر چڑھائی کرکے آیا اور ستر ہزار آدمی بنی اسرائیل میں کے قتل کیے جاچکے تب وہ خون کا ابلنا بند ہوا۔ یہ قصہ مستدرک حاکم میں عبداللہ ابن عباس (رض) کی رویت سے بھی ہے ٣ ؎ اور اس کی سند ناقابل اعتراض ہے حاصل یہ کہ حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کے عوض میں اللہ تعالیٰ نے ستر ہزار آدمی کا قصاص لیا ٤ ؎۔ حضرت زکریا ( علیہ السلام) سے بھی بنی اسرائیل منحرف ہوگئے حضرت زکریا ( علیہ السلام) بنی اسرائیل بھی ان کی تلاش میں اس پیڑ کے پاس پہنچ گئے شیطان ملعون بھی وہاں آن موجود ہوا اور آرے کی صورت بنی اسرائیل کو سمجھائی بنی اسرائیل نے لوہے کا آرا بنایا اور مع پیڑ کے حضرت زکریا کو بیچ میں سے چیر کر دو ٹکڑے کر ڈالا۔ معتبر سند سے بروایت عبداللہ بن زبیر (رض) سیرت ابن اسحاق وغیرہ میں یہ قصہ تفصیل سے لکھا ہے ٥ ؎۔ حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی پیدائش ایک ہی سال کی ہے حضرت یحییٰ پر خالص توریت کی شریعت کا زمانہ ختم ہوگیا اب اس سے آگے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) (علیہ السلام) کو نبوت اور توریت اور انجیل کی ملی ہوئی نبوت کا زمانہ ہے حاصل کلام یہ ہے کہ زکریا ( علیہ السلام) کو جو اندیشہ تھا کہ ان کے پیچھے ان کے بھائی بند دین کو بگاڑ دیں گے اس کا ظہور زکریا (علیہ السلام) کی زندگی میں ہی ہوگیا کہ بےدینی کے سبب سے اپنے اور غیر سب نے مل کر دو نبیوں کو شہید کر ڈالا۔ سورة والذاریات میں حضرت ابرہیم (علیہ السلام) کی بی بی حضرت سارا کے بانجھ ہونے اور حضرت اسحاق علیہ السلا کے پیدا ہونے کی خوش خبری کا ذکر آئے گا اس سے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی اس روایت میں کسی راوی کا سہو پایا جاتا ہے جس روایت میں یہ ہے کہ سوائے زکریا (علیہ السلام) کی بانجھ بی بی کے اور کسی بانجھ عورت کے پیٹ سے اولاد نہیں ہوئی (واجعلہ رب رضیا) اس کا مطلب یہ ہے کہ یا اللہ وہ لڑکا ایسا ہو جو عمر بھر تیری مرضی کے موافق کام کرے۔ صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جس شخص سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے تو جبرئیل (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کی خبر پکار کر فرشتوں کو سنا دیتے ہیں جس سے آسمان و زمین میں اس نیک شخص کی محبت ہر کسی کو ہوجاتی ہے ٦ ؎۔ اس حدیث سے واجعلہ رب رضیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یا اللہ وہ لڑکا ایسا ہو جو عمر بھر تیری مرضی کے موافق کام کرے جس سے تو اس سے خوش ہو اور تیری خوش نودی کے سبب سے آسمان و زمین میں اس کی محبت پھیل جائے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٥٤٩ ج اباب المعراج ٢ ؎ صحیح مسلم ص ٢٦٨ باب ہن فضائل زکریا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ١٢ ٣ ؎ مستدرک حاکم ص ٥٩٢ ج ٢ قصۃ قتل یحییٰ (علیہ السلام) ٤ ؎ تفسیر الدر المنثورص ٢٦٤ ج ٤ ٥ ؎ تفسیر الدر المنثورص ٢٦٤ ج ٤ ٦ ؎ صحیح بخاری شریف ص ٨٩٢ ج ٣ بات المقت عن اللہ

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:5) الموالی۔ مولیٰ کی جمع ہے وہ رشتہ دار جو ذوی الفروض ہوں وارثان کے بچے ہوئے مال کے وارث ہوں۔ چچا کے بیٹے۔ عام وارث۔ عام رشتہ دار۔ جو اپنی اولاد نہ ہونے کے باعث وارث بنیں۔ انی خفت الموالی من ورائی۔ میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں کی طرف سے اندیشہ رکھتا ہوں (یعنی مجھے ڈر ہے کہ میری اپنی اولاد نہ ہونے کی صورت میں میرے دوسرے رشتہ دار میرے بعد میرے اس مرکز توحید کی خدمات اور دینی علوم عالی کے فرائض کے بجا لانے میں قاصر رہیں گے۔ اور اس طرح میری ساری عمر کی محنت کو نقصان پہنچے گا) ۔ عاقرا۔ بانجھ۔ عقارۃ مصدر۔ یہ کانت کی خبر ہے لہٰذا منصوب ہے۔ رضیا۔ رضی سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ بروزن فعیلبمعنی مفعول۔ پسندیدہ ای مرضیا عندک قولاوفعلا۔ یعنی قولاًو فعلاً تیرے نزدیک پسندیدہ ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 مطلب یہ ہے کہ ان میں مجھے کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جو اس لائق ہو کہ میرے بعد پیغمبری کے عظیم ال شان منصب پر فائز کیا جاسکے اور تیرے دین کی تبلیغ کا سلسلہ جاری ہے۔3 ابن جریر لکھتے ہیں کہ ان کی بیوی کا نام اشاع بنت فاقوذ تھا اور وہ حرت مریم کی والدہ حفہ کی بہن تھیں۔ قتیبی نے ان کا نام شاع بنت عمران لکھا ہے اور وہ حضرت مریم کی بہن تھیں۔ پہلے قول کے مطابق حضرت یحییٰ حضرت مریم کے اور دوسرے قول کے مطاب حضرت عیسیٰ کے خالہ زاد بھائی تھے اور حدیث معراج میں بھی ان دونوں کو ” ابنی خالہ “ فرمایا ہے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جیسا کہ اس سے پہلے عرض کیا ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے مریم [ کے پاس بےموسم پھل دیکھ کر اسی وقت اور اسی جگہ نیک بیٹے کی دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کو فرشتے کے ذریعہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری دی۔ یہاں زکریا (علیہ السلام) کی دعا کے تذکرہ میں یہ اضافہ موجود ہے کہ انھوں نے جب دعا کی تو وہ آہستہ الفاظ یعنی دبی زبان میں دعا کر رہے تھے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مریم [ کی موجودگی اور انتہائی غم، بےبسی کی وجہ سے انھوں نے دل ہی دل میں دعا کی۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کے انداز سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ دعا کرتے ہوئے آدمی کو اپنے رب کے حضور اپنی کم مائیگی اور بےبسی کا الفاظ میں بھی اظہار کرنا چاہیے۔ اس سے ایک طرف انسان کی طبیعت میں رقت پیدا ہوتی ہے اور دوسری طرف عقیدہ کی پختگی کا اظہار ہوتا ہے کہ میں محتاج ہوں اور میرا رب داتا ہے جس سے دعا کی قبولیت میں یقینی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے جب اس کیفیت کے ساتھ عاجزی اور بےبسی کی دعا کی الٰہی مجھے بیٹا عطا فرما جو تیرا محبوب اور میرا خلف الرشید بنے تو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت ان کی دعا قبول فرمائی اور ان کی زوجۂ مکرمہ کو صحت عطا کرتے ہوئے یحییٰ (علیہ السلام) عنایت فرمائے۔ جن کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ نیکی کے کاموں میں آگے بڑھنے والے، اپنے رب کی انتہائی توجہ اور عاجزی کے ساتھ عبادت کرنے اور اللہ تعالیٰ سے بہت ہی ڈرنے والے تھے۔ دعا میں حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اپنے اور آل یعقوب کے وارث کی حیثیت سے بیٹا طلب کیا تھا۔ وراثت پر بحث کرتے ہوئے اہل علم نے لکھا ہے یہاں وارثت سے مراد دنیوی وراثت نہیں ہے کیونکہ حضرت زکریا (علیہ السلام) محنت مزدوری کرکے اپنی ضروریات پوری کیا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایک غریب پیغمبر کو اپنی دنیوی وراثت کی کیا فکر ہوسکتی ہے ؟ یہاں وراثت سے مراد نبوت کا علم اور مشن ہے۔ جس کے انبیاء (علیہ السلام) داعی اور وارث ہوتے ہیں۔ اسی لیے زکریا (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں آل یعقوب کا ذکر کیا ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) خاندانی طور پر حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے تعلق رکھتے تھے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ موالی سے ان کی عصبات اور بنو العم مراد ہیں۔ یہ لوگ بےدین تھے اس لیے حضرت زکریا (علیہ السلام) نے نیک فرزند کے لیے دعا کی تاکہ وہ ان کے بعد دعوت دین کے کام کو جاری رکھے۔ انما کان موالیہ مھملین للدین فخاف بموتہ ان یضیع الدین فطلب ولیا یقوم بالدین بعدہ (قرطبی ج 11 ص 78) ۔ ” یرثنی و یرث من ال یعقوب الخ “ یہاں وراثت سے وراثت علم نبوت مراد ہے نہ کہ وراثت مال کیونکہ حضرات انبیاء (علیہم السلام) کے ترکہ میں وراثت جاری نہیں ہوتی۔ ان کا ترکہ قومی ملکیت ہوتا ہے۔ ای یرثنی من حیث العلم والدین والنبوۃ فان الانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام لا یورثون المال قال (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نحن معاشر الانبیاء لا نورث ماتکرناہ صدقۃ (ابو السعود ج 5 ص 767) ۔ اگر یہاں وراثت مال مراد ہوتی۔ جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں۔ تو پھر من آل یعقوب کہنے کی کیا ضرورت تھی کیونکہ آل یعقوب کے مال کے وارث اور بہت سے موجود تھے۔ اس لیے مطلب یہ ہے کہ ایسا بیٹا عطا کر جو میرے اور آل یعقوب کے علوم نبوت کا وارث ہو۔ ” سمیا “ یعنی ہم نام یا ہم صفت اللہ تعالیٰ نے زکریا (علیہ السلام) کو خوشخبری دی میں تمہیں ایک فرزند عطا کروں گا جس کا نام یحییٰ ہوگا اس سے پہلے اس نام کا کوئی آدمی نہیں ہوا یا ایسی خوبیوں والا کوئی نہیں گذرا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

5 اب وجہ بیان کرتے ہیں بیٹا مانگنے کی اور میں اپنے مرنے کے بعد اپنے رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے سو آپ مجھ کو اپنے پاس سے کوئی ایسا وارث یعنی بیٹا عطا کریں۔