Surat Marium

Surah: 19

Verse: 56

سورة مريم

وَ اذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ اِدۡرِیۡسَ ۫ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیۡقًا نَّبِیًّا ﴿٭ۙ۵۶﴾

And mention in the Book, Idrees. Indeed, he was a man of truth and a prophet.

اور اس کتاب میں ادریس ( علیہ السلام ) کا بھی ذکر کر ، وہ بھی نیک کردار پیغمبر تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Mentioning Idris Allah tells: وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا

حضرت ادریس علیہ السلام کا تعارف ۔ حضرت ادریس علیہ السلام کا بیان ہو رہا ہے کہ آپ سچے نبی تھے اللہ کے خاص بندے تھے ۔ آپ کو ہم نے بلند مکان پر اٹھالیا ۔ صحیح حدیث کے حوالے سے پہلے گزر چکا ہے کہ چوتھے آسمان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات کی ۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عجیب وغریب اثر وارد کیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا کہ اس آیت کا مطلب کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ حضرت ادریس علیہ السلام کے پاس وحی آئی کہ کل اولاد آدم کے نیک اعمال کے برابر صرف تیرے نیک اعمال میں اپنی طرف ہر روز چڑھاتا ہوں ۔ اس پر آپ نے ذکر کیا میرے پاس یوں وحی آئی ہے اب تم ملک الموت سے کہو کہ وہ میری موت میں تاخیر کریں تو میں نیک اعمال میں اور اور بڑھ جاؤں ۔ اس فرشتے نے آپ کو اپنے پروں میں بٹھا کر آسمان پر چڑھا دیا جب چوتھے آسمان پر آپ پہنچے تو ملک الموت کو دیکھا ، فرشتے نے آپ سے حضرت ادریس علیہ السلام کی بابت سفارش کی تو ملک الموت نے فرمایا وہ کہاں ہیں ؟ اس نے کہایہ ہیں میرے بازو پر بیٹھے ہوئے آپ نے فرمایا سبحان اللہ مجھے یہاں اس آسمان پر اس کی روح کے قبض کرنے کا حکم ہو رہا ہے چنانچہ اسی وقت ان کی روح قبض کر لی گئی ۔ یہ ہیں اس آیت کے معنی ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ کعب رحمۃ اللہ علیہ کا یہ بیان اسرائیلیات میں سے ہے اور اس کے بعض میں نکارت ہے واللہ اعلم ۔ یہی روایت اور سند سے ہے اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے بذریعہ اس فرشتے کو پچھوایا تھا کہ میری عمر کتنی باقی ہے ؟ اور روایت میں ہے کہ فرشتے کے اس سوال پر ملک الموت نے جواب دیا کہ میں دیکھ لوں دیکھ کر فرمایا صرف ایک آنکھ کی پلک کے برابر اب جو فرشتہ اپنے پر تلے دیکھتا ہے تو حضرت ادریس علیہ السلام کی روح پرواز ہو چکی تھی ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ درزی تھے سوئی کے ایک ایک ٹانکے پر سبحان اللہ کہتے ۔ شام کو ان سے زیادہ نیک عمل آسمان پر کسی کے نہ چڑھتے مجاہد رحمۃ اللہ علیہ تو کہتے ہیں حضرت ادریس علیہ السلام آسمانوں پر چڑھالئے گئے ۔ آپ مرے نہیں بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح بےموت اٹھا لئے گئے اور وہیں انتقال فرماگئے ۔ حسن رحمۃ اللہ علیہ کہتے بلند مکان سے مراد جنت ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٣] سیدنا ادریس کا زمانہ اور مرکز تبلیغ :۔ سیدنا ادریس سیدنا نوح سے بہت پہلے مبعوث ہوئے تھے آپ کا مرکز تبلیغ بابل تھا۔ آپ کی قوم ستارہ پرست اور مظاہر پرست تھی۔ آپ علم ہندسہ، حساب اور نجوم میں ماہر تھے۔ نیز قلم سے لکھنا، کپڑاسینا، ناپ تول کے آلات اور اسلحہ کا بنانا انہی کے دور میں شروع ہوا۔ آپ بلند پایہ خطیب تھے اور ہرمس الہرامسہ کا خطاب پایا۔ آپ کی قوم نے آپ کی دعوت ماننے سے انکار کردیا اور مخالفت پر اتر آئے۔ آخر آپ ہجرت کرکے مصر چلے آئے۔ جہاں بہت سے لوگ آپ پر ایمان لے آئے۔ معراج کی رات رسول اللہ کی آپ سے چوتھے آسمان پر ملاقات ہوئی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِدْرِيْسَ ۔۔ : یہ چھٹا قصہ ادریس (علیہ السلام) کا ہے، بعض مفسرین نے ادریس (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل کے انبیاء میں شمار کیا ہے اور دلیل یہ دی ہے کہ معراج کے موقع پر جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” مَرْحَبًا بالنَّبِیِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ “ (صالح نبی اور صالح بھائی کو مرحبا) کہہ کر خطاب کیا اور آدم اور ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح ” مَرْحَبًا بالْوَلَدِ الصَّالِحِ “ (صالح بیٹے کو مرحبا) نہیں کہا۔ حافظ ابن حجر (رض) کے مطابق امام بخاری (رض) کی یہی رائے ہے، کیونکہ ” بَابُ ذِکْرِ إِدْرِیْسَ عَلَیْہِ السَّلاَم “ میں وہ حدیث معراج لائے ہیں۔ دیکھیے فتح الباری ” بَابُ ذِکْرِ اِدْرِیْسَ عَلَیْہِ السَّلاَم “ اس سے پہلے باب میں امام بخاری نے فرمایا : ” ابن مسعود اور ابن عباس (رض) سے ذکر کیا جاتا ہے کہ الیاس ہی ادریس ہیں۔ “ حافظ ابن حجر (رض) نے اس قول کے لانے کو بھی امام بخاری کی اس رائے کا اظہار کہا ہے کہ ادریس (علیہ السلام) نوح (علیہ السلام) سے پہلے نہیں بلکہ بعد میں ہوئے ہیں، کیونکہ قرآن مجید میں الیاس (علیہ السلام) کو نوح یا ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں شمار فرمایا گیا ہے۔ دیکھیے سورة انعام (٨٤، ٨٥) لیکن اکثر مفسرین کی تحقیق یہ ہے کہ ان کا زمانہ نوح (علیہ السلام) سے بھی پہلے کا ہے، چناچہ بخاری نے ” بَابُ ذِکْرِ إِدْرِیْسَ عَلَیْہِ السَّلاَم “ کے ترجمۃ الباب میں فرمایا : ” وَ ھُوَ جَدُّ أَبِيْ نُوْحٍ وَ یُقَالُ جَدُّ نُوْحٍ عَلَیْہُمَا السَّلاَمُ “ یعنی وہ نوح (علیہ السلام) کے والد کے دادا ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ نوح (علیہ السلام) کے دادا ہیں۔ ابن جریر، قرطبی اور ابن کثیر کی رائے بھی یہی ہے، دلیل اسی سورت کی آیت (٥٨) کی تفسیر میں آرہی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَاذْكُرْ‌ فِي الْكِتَابِ إِدْرِ‌يسَ |"And mention in the Book (the story of) Idris.|" - 19:56. Sayyidna Idris (علیہ السلام) lived one thousand years before Sayyidna Nuh (علیہ السلام) and was among his ancestors. (Ruh ul-Ma` ani with reference to Mustadrak al-Hakim). He was the first Prophet after Sayyidna Adam (علیہ السلام) and Allah Ta’ ala bestowed upon him thirty books. (Abi zar- Zamkhashari). Sayyidna Idris (علیہ السلام) was the first man who was given the knowledge of astrology and mathematics through a miracle, (Bahr ul-Muhit). He was also the first man who learnt how to write with a pen, and also the first who invented stitching of cloth, people used to wear animal skins instead of clothes before his time. He also invented measurement tools for the first time. Making of weapons also started in his time and he used them in his wars - the Holy wars : جھاد)Jihad) against the descendents of Qabil (بنو قابیل) (Bahr ul-Muhit, Qurtubi, Mazhari, Ruh ul-Ma ani)

وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِدْرِيْسَ ، حضرت ادریس (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) سے ایک ہزار سال پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کے اجداد میں سے ہیں (روح المعافی بحوالہ مستدرک حاکم) اور یہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد پہلے نبی و رسول ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے تیس صحیفے نازل فرمائے (کمافی حدیث ابی ذر زمخشری) اور ادریس (علیہ السلام) سب سے پہلے انسان ہیں جن کو علم نجوم اور حساب بطور معجزہ عطا کیا گیا (بحر محیط) اور سب سے پہلے انسان ہیں جنہوں نے قلم سے لکھنا اور کپڑا سینا ایجاد کیا ان سے پہلے لوگ عموماً جانوروں کی کھال بجائے لباس استعمال کرتے تھے اور سب سے پہلے ناپ تول کے طریقے بھی آپ نے ہی ایجاد فرمائے اور اسلحہ کی ایجاد بھی آپ سے شروع ہوئی۔ آپ نے اسلحہ تیار کر کے بنو قابیل سے جہاد کیا (بحر محیط، قرطبی، مظہری، روح)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِدْرِيْسَ۝ ٠ۡاِنَّہٗ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا۝ ٥٦ۤۙ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ نبی النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک . ( ن ب و ) النبی بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٦۔ ٥٧) اور قرآن کریم میں حضرت ادریس (علیہ السلام) کا بھی ذکر کیجیے بیشک وہ اپنے ایمان میں بڑے سچے نبی تھے اور ہم نے ان کو جنت میں بلند مرتبہ تک پہنچایا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ (وَاذْکُرْ فِی الْْکِتٰبِ اِدْرِیْسَز) ” حضرت ادریس ( علیہ السلام) ‘ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد اور حضرت نوح (علیہ السلام) سے قبل زمانے میں مبعوث ہوئے۔ ان سے پہلے ذریت آدم ( علیہ السلام) میں حضرت شیث ( علیہ السلام) گزر چکے تھے۔ تورات میں ان کا نام ” حنوک “ مذکور ہے۔ ان کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ حضرت ادریس اور حضرت شیث ( علیہ السلام) دونوں نبی تھے ‘ جبکہ ان کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) پہلے رسول کے طور پر مبعوث ہوئے۔ (اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا ) ” اس سے پہلے آیت ٤١ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی ” صِدِّیْقًا نَّبِیًّا “ کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ یعنی مزاج کے اعتبار سے حضرت ادریس ( علیہ السلام) کی مناسبت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ تھی۔ دونوں شخصیات صدیقیت کے مزاج کی حامل تھیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

33. There is a difference of opinion as to who Prophet Idris (peace be upon him) was. Some commentators opine that he was a Prophet from among the Israelites, but the majority of them are inclined to the view that he was a Prophet before Noah (peace be upon him). There is no authentic tradition which may help determine his identity. The next (verse 58), however, supports the view that he appeared before Prophet Noah (peace be upon him). For of all the Prophets mentioned, he alone was the one who may be said to be from the descendants of Adam. The commentators are of the opinion that Idris was Enoch of the Old Testament, about whom it is said: And Enoch lived sixty and five years, and begat Methuselah: And Enoch walked with God after he begat Methuselah three hundred years.... and he was not; for God took him. (Gen. 5: 21-24). In Talmud, there are greater details about Enoch, which are briefly as follows: Before Noah when the descendants of Adam began to degenerate, the angel of God called to Enoch, who led a pious life away from the people, and said: O Enoch, arise, come out from seclusion, and go about among the people of the earth, guiding them to the path which they should follow and the ways which they should adopt. Receiving this Divine Command, Enoch left his seclusion and gathered the people together and preached to them what he had been commanded, with the result that they listened to him and adopted the worship of God. Enoch ruled over mankind for 353 years: his rule was based on justice and truth, and consequently God favored mankind with all kinds of blessings." (H. Polano: The Talmud Selections, pp. 18-21)

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :33 حضرت ادریس کے متعلق اختلاف ہے ۔ بعض کے نزدیک وہ بنی اسرائیل میں سے کوئی نبی تھے ۔ مگر اکثریت اس طرف گئی ہے کہ وہ حضرت نوح سے بھی پہلے گزرے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صحیح حدیث ہم کو ایسی نہیں ملی جس سے ان کی شخصیت کے تعین میں کوئی مدد ملتی ہو ۔ البتہ قرآن کا ایک اشارہ اس خیال کی تائید کرتا ہے کہ وہ حضرت نوح سے مقدم ہیں ۔ کیونکہ بعد والی آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ نبی ( جن کا ذکر اوپر گزرا ہے ) آدم کی اولاد ، نوح کی اولاد ، ابراہیم کی اولاد اور اسرائیل کی اولاد سے ہیں ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ حضرت یحیی ، عیسی اور موسی علیہ السلام تو بنی اسرائیل میں سے ہیں ، حضرت اسماعیل ، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام اولاد ابراہیم سے ہیں اور حضرت ابراہیم اولاد نوح سے ، اس کے بعد صرف حضرت ادریس ہی رہ جاتے ہیں جن کے متعلق یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ اولاد آدم سے ہیں ۔ مفسرین کا عام خیال یہ ہے کہ بائیبل میں جن بزرگ کا نام حنوک ( Enoch ) بتایا گیا ہے ، وہی حضرت ادریس ہیں ۔ ان کے متعلق بائیبل کا بیان یہ ہے: اور حنوک پینسٹھ برس کا تھا جب اس سے متوسلح پیدا ہوا اور متوسلح کی پیدائش کے بعد حنوک تین سو برس تک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ غائب ہوگیا کیونکہ خدا نے اسے اٹھا لیا ۔ ( پیدائش ، باب 5 ۔ آیت 24 ۔ ) تلمود کی اسرائیلی روایات میں ان کے حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ بتائے گئے ہیں ۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح سے پہلے جب بنی آدم میں بگاڑ کی ابتدا ہوئی تو خدا کے فرشتے نے حنوک کو ، جو لوگوں سے الگ تھلگ زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے ، پکارا کہ اے حنوک ، اٹھو ، گوشہ عزلت سے نکلو اور زمین کے باشندوں میں چل پھر کر ان کو راستہ بتاؤ ۔ جس پر ان کو چلنا چاہیے اور وہ طریقے بتاؤ جن پر انہیں عمل کرنا چاہیے؛ یہ حکم پاکر وہ نکلے اور انہوں نے جگہ جگہ لوگوں کو جمع کر کے وعظ و تلقین کی اور نسل انسانی نے ان کی اطاعت قبول کر کے اللہ کی بندگی اختیار کر لی ۔ حنوک 353برس تک نسل انسانی پر حکمران رہے ۔ ان کی حکومت انصاف اور حق پرستی کی حکومت تھی ۔ ان کے عہد میں زمین پر خدا کی رحمتیں برستی رہیں ۔ The Talmud Selections, pp, 18-21 ) )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٦۔ ٥٧:۔ حضرت ادریس ( علیہ السلام) کے نسب میں علماء کا بڑا اختلاف ہے صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور عبداللہ بن مسعود (رض) کا قول جو بغیر سند کے معلق طور پر بیان کیا گیا ہے ١ ؎۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ادریس ( علیہ السلام) اور الیاس ایک ہی پیغمبر کے نام ہیں اس صورت میں حضرت ادریس گویا بنی اسرائیل میں کے ایک پیغمبر ہیں کیونکہ حضرت الیاس تو حضرت ہارون کے پڑپوتے ہیں بعضے مفسر کہتے ہیں کہ حضرت ادریس حضرت آدم ( علیہ السلام) کے پوتے ہیں اس آخری قول کو اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے کیونکہ اس معلق قول کی سند قوی نہیں ہے اسی طرح حضرت ادریس کے زندہ آسمان پر جانے میں اور اب ان کے زندہ ہونے میں اور اس میں کہ سورج پر جو فرشتہ متعین ہے اس سے ان کی دوستی ہو کر اس کے ذریعہ آسمان پر گئے۔ علماء کے مختلف قول ہیں حاصل کلام یہ ہے کر مرفوع حدیث تو اس باب میں کوئی نہیں ہے مگر اس اختلاف کے رفع کرنے میں مجاہد بن جبیر کا یہ قول قوی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ادریس زندہ آسمان پر اٹھا لیے گئے ٢ ؎۔ لیکن اس اسرائیلی روایت کے متعلق حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے۔ کیونکہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ مجاہد نے تین دفعہ سارا قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے تفسیر سیکھنے کی غرض سے پڑھا ہے اور یہ بھی اوپر گزر چکا ہے کہ متقدمین مفسرین میں سے سفیان ثوری نے یہ فیصلہ کردیا ہے تفسیر کے باب میں مجاہد کا قول سب پر فوقیت رکھتا ہے۔ رہا مجاہد کے قول میں یہ احتمال کہ مجاہد کی تفسیر کے باب میں جو کچھ روایت ہے وہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا قول ہے اور تفسیر ابن ابی حاتم میں خود حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے جو اس بات میں روایت ہے وہ کعب احبار کا قول ہے اور اہل کتاب سے روایت کا لینا بخاری وغیرہ میں جو روایت ہے ٣ ؎۔ اس سے منع ہے اس کا جواب یہ ہے کہ حرام حلال کے باب میں اہل کتاب سے روایت کا لینا منع ہے جہاں یہ منع کی روایت حدیث بخاری میں ہے وہیں ابن بطال وغیرہ شارحین بخاری نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ اس طرح کے تاریخی واقعات اس منع میں داخل نہیں ہے ٤ ؎۔ خود اللہ تعالیٰ نے فاسئلوا اھل الذکر فرما کر اسی طرح کی تاریخی روایت کا اہل کتاب سے لینا جائز فرمادیا ہے کس لیے کہ اصلی شان نزول آیت فاسئلوا ھل الذکر کی یہی ہے کہ جس کو شبہ ہو وہ اہل کتاب سے پوچھ لے کہ رسول ہمیشہ سے آدمی ہی آتے رہے ہیں فرشتے کبھی نہیں آئے ادریس (علیہ السلام) کے ذکر سے اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کو یوں قائل کیا ہے کہ یہود کو یہ لوگ اہل کتاب مانتے ہیں اور یہود کی کتاب توریت میں ادریس (علیہ السلام) کے انسان اور نبی ہونے کا ذکر موجود ہے پھر یہ لوگ کس سند سے یہ اعتراض پیش کرتے ہیں کہ اللہ کا رسول انسان نہیں ہوسکتا فرشتہ ہونا چاہیے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ٤٧٠ ج کتاب النبیاء۔ ٢ ؎ تفسیر ابن کثیرص ١٦٢ ج ٣۔ ٣ ؎ صحیح بخاری ص ١٩٤ ج ٢۔ ٤ ؎ فتح الباری ص ٦٩٧ ج ٦۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یہ چھوٹا قصہ حضرت ادریس کا ہے بعض مفسرین نے حضرت ادریس کو بنی اسرائیل کے انبیاء میں شمار کیا ہے اور دلیل یہ دی ہے کہ معراج کے موقع پر جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مرحبا بالنبی الصلاح وارمغ الصالح “ کہہ کر خطاب کیا اور حضرت آدم اور ابراہیم کی طرح ” مرحبا بالنبی الصالح والامغ الصالح کہہ کر خطاب کیا اور حضرت آدم اور ابراہیم کی طرح ” مرحبا بالوالد الصالح نہیں کہا اور امام بخاری کا خیال بھی یہی ہے (فتح الباری ج 13، ص 224) لیکن اکثر مفسرین کی تحقیق یہ ہے کہ ان کا زمانہ حضرت نوح سے بھی پہلے کا ہے بلکہ ان کو حضرت نوح کا جد اعلیٰ قرار دیا ہے ابن جریر اور ابن کثیر نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے تذکرہ کے بعد حضرت ادریس (علیہ السلام) کی سیرت کا بیان۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) کے بارے میں کافی حد تک اہل علم کا خیال ہے کہ آپ نوح (علیہ السلام) سے پہلے مبعوث کیے گئے۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) نسل اور مدت کے اعتبار سے حضرت آدم (علیہ السلام) کے قریب تر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی سچے نبی ہونے کے لقب سے نوازا ہے اور ان کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے اس کو بلند مقام پر اٹھا لیا۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) کے دو اوصاف بالخصوص ذکر کیے گئے ہیں۔ مسائل ١۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) نہایت ہی سچے اللہ کے پیغمبر تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بلند ترین مقام عنایت کیا تھا۔ تفسیر بالقرآن حضرت ادریس (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ : حضرت ادریس کا قرآن مجید میں ٢ بار تذکرہ ہوا ہے۔ ١۔ ادریس (علیہ السلام) نہایت سچے نبی تھے۔ (مریم : ٥٦) ٢۔ اسماعیل، ادریس، ذالکفل تمام صبر کرنے والوں میں سے تھے۔ (الانبیاء : ٨٥) حضرت ادریس (علیہ السلام) قرآن عزیز میں حضرت ادریس (علیہ السلام) کا ذکر صرف سورة مریم اور سورة الانبیاء میں آیا ہے۔ نام ونسب اور زمانہ : حضرت ادریس (علیہ السلام) کے نام ونسب اور زمانہ کے متعلق مورخین کو شدید اختلاف ہے۔ تمام اختلافی دلائل کو سامنے رکھنے کے بعد بھی کوئی فیصلہ کن یا کم از کم راجح رائے قائم نہیں کی جاسکتی ہے۔ قرآن عزیز نے رشد و ہدایت کے پیش نظر صرف ان کی نبوت رفعت مرتبت کا ذکر کیا ہے اور اسی طرح حدیث کی روایات بھی اس سے آگے نہیں جاتیں ایک جماعت کہتی ہے کہ وہ نوح کے جد امجد ہیں اور ان کا نام اخنوخ ہے۔ اور ادریس لقب ہے یاعربی زبان میں ادریس اور عبرانی یاسریانی میں ان کا نام اخنوخ ہے اور ان کا نسب نامہ یہ ہے۔ خنوخ یا اخنوخ بن یارد بن مہلائیل بن قینان بن انوش بن شیث بن آدم (علیہ السلام) ۔ ابن اسحاق کا رجحان اسی جانب ہے اور دوسری جماعت کا خیال ہے کہ وہ انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہیں اور الیاس وادریس ایک ہی شخصیت کے نام اور لقب ہیں ان دونوں روایات کے پیش نظر بعض علماء نے یہ تطبیق دینے کی کوشش کی ہے کہ جد نوح (علیہ السلام) کا نام اخنوخ ہے اور ادریس لقب اور بنی اسرائیل کے پیغمبر کا نام ادریس ہے اور الیاس لقب مگر یہ رائے بھی بےسند اور بےدلیل ہے۔ صحیح ابن حبان میں روایت ہے کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) پہلے شخص ہیں جنہوں نے قلم کو استعمال کیا۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی نے رمل کے خطوط کے متعلق سوال کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” یہ علم ایک نبی کو دیا گیا تھا۔ اگر کسی شخص کے نقوش اس کے مطابق ہوجاتے ہیں تو اندازہ صحیح نکلتا ہے ورنہ نہیں۔ “ [ رواہ مسلم : باب تحریم الکہانۃ واتیان الکہان ] معراج کے واقعہ میں صرف اس قدر ذکر ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ادریس (علیہ السلام) سے چوتھے آسمان پر ملاقات کی۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) کی تعلیم کا خلاصہ : اللہ کی ہستی اور اس کی توحید پر ایمان لانا، صرف خالق کائنات کی پرستش کرنا، آخرت کے عذاب سے رستگاری کے لیے اعمال صالحہ کو ڈھال بنانا، دنیا سے بےالتفاتی اور تمام امور میں عدل و انصاف کو پیش نظر رکھنا اور مقررہ طریقہ پر عبادت الٰہی ادا کرنا، اور ایام بیض کے روزے رکھنا، دشمنان اسلام سے جہاد کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، طہارت ونظافت سے رہنا، خصوصیت کے ساتھ جنات، کتے اور سور سے اجتناب کرنا ہر نشہ آورشے سے پرہیز کرنا ان کی تعلیم کا لب لباب ہے۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) کا حلیہ مبارک : حضرت ادریس (علیہ السلام) کا حلیہ یہ ہے کہ گندم گوں رنگ، پورا قدوقامت، خوبصورت وخوبرو، گھنی ڈاڑھی، سرمگیں چمکدار آنکھیں، گفتگو باقار، خاموشی پسند سنجیدہ اور متین چلتے ہوئے نیچی نظر انتہائی فکر وخوض کے عادی حضرت ادریس (علیہ السلام) نے بیاسی سال کی عمر پائی۔ ان کی انگوٹھی پر یہ عبارت کندہ تھی۔ اَلصَّبْرُ مَعَ الْاِیْمَان باللّہِ یُوْرِثُ الظَّفَرَ ” اللہ پر ایمان کے ساتھ صبر فتح مندی کا باعث ہے۔ “ اور کمر سے باندھنے والے پٹ کہ پر یہ تحریر تھا۔ الَاَْعْیَادُ فِیْ حِِفْظِ الْفُرُوْضِ وَالشَّرِیْعَۃِ مِنْ تَمَام الدِّیْنِ وَتَمام الدِّیْنِ کَمَالُ الْمُرُوَّۃِ ” حقیقی عیدیں اللہ تعالیٰ کے فرائض کی حفاظت میں مضمر ہیں اور دین کا کمال شریعت سے وابستہ ہے اور مروت میں دین کی تکمیل ہے۔ “ حضرت ادریس (علیہ السلام) کے بہت سے پند ونصائح اور آداب واخلاق کے جملے مشہور ہیں جو مختلف زبانوں میں ضرب المثل ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں : اللہ کی بیکراں نعمتوں کا شکر یہ انسانی طاقت سے باہر ہے۔ جو علم میں کمال اور عمل صالح کا خواہش مند ہو اس کو جہالت کے اسباب اور بد کرداری کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے۔ دنیا کی بھلائی ” حسرت “ ہے اور برائی ” ندامت “۔ اللہ کی یاد اور عمل صالح کے لیے خلوص نیت شرط ہے۔ نہ جھوٹی قسمیں کھاؤ، نہ اللہ تعالیٰ کے نام کو قسموں کے لیے تختہ مشق بناؤ اور نہ جھوٹوں کو قسمیں کھانے پر آمادہ کرو کیونکہ ایسا کرنے سے تم بھی شریک گناہ ہوجاؤ گے۔ اطاعت کرو اور اپنے بڑوں کے سامنے پست رہو اور ہر وقت ذکر الٰہی میں زبان تر رکھو۔ دوسروں کی خوشی پر حسد نہ کرو اس لیے کہ یہ مسرور زندگی چند روزہ ہے۔ جو ضروریات زندگی سے زیادہ طالب ہو اور وہ کبھی قانع نہیں ہوتا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حضرت ادریس کے زمانے کے بارے میں صحیح معلومات نہیں ہیں۔ راجح بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے گزرے ہیں اور انبیائے بنی اسرائیل میں سے نہیں ہیں۔ اس لئے بنی اسرائیل کی کتابوں میں ان کا ذکر نہیں ہے۔ قرآن کریم ان کو صدیق اور نبی کہتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ وہ ایک عالی مقام شخص تھے ان کا ذکر دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ بعض لوگوں کی رائے صہم نہ اس کی تصدیق کرسکتے ہیں اور نہ انکار) یہ ہے کہ مصر کیماہرین آثار قدیمہ نے یہ لکھا ہے کہ ادریس دراصل ” اوزریس “ کے لفظ کا عربی تلفظ ہے اور یہ قدیم مصری زبان کا لفظ ہے جس طرح یحیٰ یوحنا کا عربی سلفظ ہے اور السیع الشیع کا عربی تلفظ ہے۔ ان کے بارے میں بہت سے قصے ‘ مشہور ہیں۔ یہ کہ وہ آسمانوں پر چلے گئے اور وہاں ان کے لئے ایک بڑا تخت بنایا گای۔ یہ کہ جس شخص کی نیکیاں گناہوں پر بھاری ہوگئیں تو وہ دیوتا ” اوزریس “ کے پاس چلا جائے گا۔ یہ کہ ” اوزریس “ نے آسمانوں پر چڑھنے سے قبل لوگوں کو بہت سے علوم و معارف سکھائے۔ یہ بات دل کو لگتی ہے۔ بہر حال وہ جو بھی ہیں ہمارے لئے ان کے بارے میں قرآن مجید کی دی ہوئی معلومات کا فی ہیں اور یہ بنی اسرائیل کے انبیاء سے پہلے گزرے ہیں۔ یہاں سیاق کلام میں ان انبیاء کا تذکرہ اس لئے کیا گیا ہے تاکہ یہ بتایا جائے کہ صحیح مومن ‘ اتقیاء اور انبیاء کیسے تھے اور وہ لوگ کیسے ہیں جو ان کی اولاد اور جانشیں ہونیکا دعویٰ کرتے ہیں ‘ مثلا عرب اور مشرکین بنی اسرائیل۔ دونوں کے درمیان اب کوئی بھی چیز مابہ الاشتراک نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابْ اِدْرِیْسَ ) (اور کتاب میں ادریس کا ذکر کیجیے) (اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبْیًّا) (بلاشبہ وہ بڑے سچے تھے نبی تھے) (وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا) (اور ہم نے ان کو بلند مرتبہ پر اٹھا دیا) اس میں حضرت ادریس (علیہ السلام) کو صدیق اور نبی بتایا اور یہ بتایا کہ ہم نے انھیں بلند مرتبہ پر اٹھا دیا بلند مرتبہ کا کیا مطلب ہے اس کے بارے میں عام طور سے مشہور ہے کہ انھیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا اور ایک قول یہ ہے کہ آسمان پر زندہ اٹھائے جانے کے بعد وہاں ان کی موت ہوگئی مفسر ابن کثیر (رض) نے صفحہ ١٢٦ ج ٣ پر حضرت مجاہد (رح) سے نقل کیا ہے کہ ادریس رفع لم یمت کما رفع عیسیٰ اور حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ رفع الی السماء السادسۃ فمات بھا لیکن اس سلسلہ کی جو روایات ہیں اول تو مرفوع نہیں ہیں دوسرے ان کی اسانید ذکر نہیں کی گئیں اور رفع الی السماء کے قصے کعب الاحبار سے منقول ہیں جو سراپا اسرائیلیات میں ہیں۔ اگرچہ روح المعانی صفحہ ١٠٦ ج ١٦ میں بحوالہ ابن منذر حدیث کو مرفوعاً بھی بیان کیا لیکن حدیث کے الفاظ میں رکاکت ہے جو افصح الفصحاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ نہیں ہوسکتے دوسرے قصہ اسی طرح نقل کیا ہے جیسے کعب وغیرہ سے منقول ہے معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے معروف قصہ ہونے کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب کردیا۔ صاحب روح المعانی نے بھی قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہنے کی ہمت نہیں کی یرفع الحدیث الی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ کر گزر گئے اور آخیر میں لکھ دیا واللّٰہ اعلم بصحتہ وکذا بصحۃ ما قبلہ من خبر کعب محققین کا کہنا ہے کہ (وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا) سے حضرت ادریس (علیہ السلام) کا مرتبہ بلند کرنا مراد ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت عطا فرمائی اور اپنا مقرب بنایا یہ سب علو مرتبہ میں آتا ہے۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) کا زمانہ اور بعض خصوصی احوال صاحب روح المعانی نے مستدرک حاکم سے حضرت ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) سے ایک ہزار سال پہلے تھے اور ان کا نام اخنوخ بتایا، پھر چار واسطوں سے حضرت شیث بن آدم ( علیہ السلام) تک ان کا نسب بیان کیا ہے پھر لکھا ہے کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) سب سے پہلے وہ شخص ہیں جنھوں نے نجوم یعنی ستاروں کا مطالعہ کیا اور حساب جاری کیا اور سب سے پہلے لکھنا شروع کیا اور سب سے پہلے سلے ہوئے کپڑے پہنے، وہ کپڑے سینے کا شغل رکھتے تھے اور ان سے پہلے لوگ کھالوں کے کپڑے پہنتے تھے اور یہ بھی لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر تیس صحیفے نازل فرمائے اور انھوں نے سب سے پہلے ناپنے اور تولنے کے پیمانے جاری کیے اور ہتھیار بنائے، معالم التنزیل میں یہ بھی ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے کافروں سے قتال کیا اور یہ بھی لکھا ہے کہ انھیں ادریس اس لیے کہا گیا کہ وہ کثرت سے کتاب اللہ کا درس دیا کرتے تھے، صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ اکثر علماء کا قول ہے کہ یہ لفظ سریانی ہے عربی نہیں ہے اور درس سے مشتق نہیں ہے کیونکہ یہ کلمہ غیر منصرف ہے (غیر منصرف ہونا اسی وجہ سے ہے کہ اس میں عجمہ اور علم ہے) پھر لکھتے ہیں کہ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ سریانی زبان میں بھی اس لفظ کا معنی اسی معنی کے قریب ہو جو عربی میں بولا جاتا ہے لہٰذا اکثر دروس کی وجہ سے انھیں ادریس کا لقب دے دیا گیا ہو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

40:۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) بھی بہت ہی سچے اور اللہ کے نبی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت بلند مرتبہ عطا فرمایا تھا۔ لیکن وہ متصرف و کارساز نہ تھے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

56 اور اے پیغمبر اس قرآن کریم میں اور ادریس (علیہ السلام) کا ذکر بھی کیجیے بلاشبہ وہ بڑا سچا تھا نبی تھا۔ حضرت ادریس علیہ السلام، حضرت نوح (علیہ السلام) کے جد میں اور حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے درمیانی پیغمبروں میں سے ہیں۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) کے متعلق مشہور ہے کہ دنیا میں حساب کا طریقہ اور قلم سے لکھنا ستاروں کی گردش نجوم کا حساب درزی یعنی خیاطی کا کام ناپنے اور تولنے کے طریقے۔ آلات حرب اور اسلحہ سازی یہ کام سب ان سے چلے اور جاری ہوئے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کی شب چوتھے آسمان پر ان سے ملاقات کی وہ صدیق یعنی راست باز اور بڑا سچا تھا اور اس خوبی کے ساتھ نبی بھی تھا۔