Surat Marium

Surah: 19

Verse: 59

سورة مريم

فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ خَلۡفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَ اتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوۡفَ یَلۡقَوۡنَ غَیًّا ﴿ۙ۵۹﴾

But there came after them successors who neglected prayer and pursued desires; so they are going to meet evil -

پھر ان کے بعد ایسے نہ خلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کر دی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے سو ان کا نقصان ان کے آگے آئے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They were succeeded by Wicked People and Good People Allah says: فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا Then, there has succeeded them a posterity who have lost the Salah and have followed lusts. So they will meet Ghaiy. After Allah mentioned the party of blessed ones -- the Prophets and th... ose who followed them by maintaining the limits set by Allah and His commandments, fulfilling what Allah ordered and avoiding His prohibitions -- then He mentions, خَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ (there has succeeded them a posterity). This means later generations. ... أَضَاعُوا الصَّلَةَ ... who have lost Salah, Losing their prayers is when they do not consider the prayers obligatory. Therefore they lose, because the prayer is the pillar and foundation of the religion. It is the best of the servants' deeds. Thus, these people will occupy themselves with worldly desires and delights, and they will be pleased with the life of this world. They will be tranquil and at ease in the worldly appetites. Therefore, these people will meet with Ghaiy, which means loss on the Day of Resurrection. Al-Awza`i reported from Musa bin Sulayman, who reported from Al-Qasim bin Mukhaymirah that he said concerning Allah's statement, فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَةَ (Then, there has succeeded them a posterity who have lost the Salah), "This means that they will not keep up with the proper times of the prayer, because if it meant complete abandonment of the prayer, this would be disbelief." It is also reported that it was said to Ibn Mas`ud, "Allah often mentions the prayer in the Qur'an. He says, الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَـتِهِمْ سَاهُونَ Those who neglect their Salah. (107:5) And He says, عَلَى صَلَتِهِمْ دَايِمُونَ Those who remain constant in their Salah. (70:23) And He says, عَلَى صَلَتِهِمْ يُحَافِظُونَ Who guard their Salah." (23:9) Then, Ibn Mas`ud said, "This means at its designated times." The people said, "We thought that this was referring to the abandonment of the prayer." He replied, "That would be disbelief." Masruq said, "No one who guards the five daily prayers will be written among the heedless. In their neglect is destruction. Their neglect is delaying them past their fixed times." Al-Awza`i reported from Ibrahim bin Zayd that Umar bin Abdul-`Aziz recited the Ayah, فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا Then, there has succeeded them a posterity who have lost the Salah and have followed lusts. So they will meet Ghayy. Then, he said, "Their loss was not their abandonment of the prayers, but it was by not offering them during their proper and prescribed times." Allah said, ... فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا So they will meet Ghayy. Ali bin Abi Talhah reported from Ibn Abbas that he said, "This means loss." Qatadah said, "This means evil." Sufyan Ath-Thawri, Shu`bah and Muhammad bin Ishaq all reported from Abu Ishaq As-Sabi`i, who reported from Abu Ubaydah, who reported from Abdullah bin Mas`ud that he said, فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا (So they will meet Ghayy), "This is a valley in the Hellfire which is very deep and its food is filthy." Al-A`mash reported from Ziyad, who reported from Abu Iyad, who commented Allah's statement, فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا (So they will meet Ghayy), He said, "This is a valley in Hell made of puss and blood." Allah said,   Show more

حدود الہٰی کے محافظ ۔ نیک لوگوں کا خصوصا انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر کیا جو حدود الہٰی کے محافظ ، نیک اعمال کے نمونے بدیوں سے بچتے ہیں ۔ اب برے لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان کے بعد کے زمانے والے ایسے ہوئے کہ وہ نمازوں تک سے بےپرواہ بن گئے اور جب نماز جیسے فریضے کی اہمیت کو بھلا بیٹھے تو ظاہ... ر ہے کہ اور واہیات کی وہ کیا پرواہ کریں گے ؟ کیونکہ نماز تو دین کی بنیاد ہے اور تمام اعمال سے افضل وبہتر ہے ۔ یہ لوگ نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑگئے دنیا کی زندگی پر اطمینان سے ریجھ کئے انہیں قیامت کے دن سخت خسارہ ہوگا بڑے گھاٹے میں رہیں گے ۔ نماز کے ضائع کرنے سے مراد یا تو اسے بالکل ہی چھوڑنا بیٹھنا ہے ۔ اسی لئے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور بہت سے سلف خلف کا مذہب ہے کہ نماز کا تارک کافر ہے ۔ یہی ایک قول حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ بندے اور شرک کے درمیان نماز کا چھوڑنا ہے ۔ دوسری حدیث میں ہے کہ ہم میں اور ان میں فرق نماز کا ہے جس نے نماز چھوڑ دی وہ کافر ہوگیا ۔ اس مسئلہ کو تقصیل سے بیان کرنے کا یہ مقام نہیں ۔ یا نماز کے ترک سے مراد نماز کے وقتوں کی صحیح طور پر پابندی کا نہ کرنا ہے کیونکہ ترک نماز تو کفر ہے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ قرآن کریم میں نماز کا ذکر بہت زیادہ ہے ، کہیں نمازوں میں سستی کرنے والوں کے عذاب کا بیان ہے ، کہیں نماز کی مداوت کا فرمان ہے ، کہیں محافظت کا ۔ آپ نے فرمایا ان سے مراد وقتوں میں سستی نہ کرنا اور وقتوں کی پابندی کرنا ہے ۔ لوگوں نے کہا ہم تو سمجھتے تھے کہ اس سے مراد نمازوں کا چھوڑ دینا اور نہ چھوڑنا ہے ۔ آپ نے فرمایا یہ تو کفر ہے ۔ حضرت مسروق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں پانچوں نمازوں کی حفاظت کرنے والا غافلوں میں نہیں لکھا جاتا ، ان کا ضائع کرنا اپنے آپ کو ہلاک کرنا ہے اور ان کا ضائع کرنا ان کے وقتوں کی پابندی نہ کرنا ہے ۔ خلیفۃ المسلمین امیرالمومنین حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا کہ اس سے مراد سرے سے نماز چھوڑ دینا نہیں بلکہ نماز کے وقت کو ضائع کر دینا ہے ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ بدترین لوگ قریب بہ قیامت آئیں گے جب کہ اس امت کے صالح لوگ باقی نہ رہے ہوں گے اس وقت یہ لوگ جانوروں کی طرح کودتے پھاندتے پھریں گے ۔ عطابن ابو رباح رحمۃ اللہ علیہ یہی فرماتے ہیں کہ یہ لوگ آخری زمانے میں ہوں گے ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ اس امت کے لوگ ہوں گے جو چوپایوں اور گدھوں کی مانند راستوں میں اچھل کود کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے جو آسمان میں ہے بالکل نہ ڈریں گے اور نہ لوگوں سے شرمائیں گے ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ناخلف لوگ ساٹھ سال کے بعد ہوں گے جو نمازوں کو ضائع کر دیں گے اور شہوت رانیوں میں لگ جائیں گے اور قیامت کے دن خمیازہ بھگتیں گے ۔ پھر ان کے بعد وہ نالائق لوگ آئیں گے جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا ۔ یاد رکھو قاری تین قسم کے ہوتے ہیں مومن منافق اور فاجر ۔ راوی حدیث حضرت ولید سے جب ان کے شاگرد نے اس کی تفصیل پوچھی تو آپ نے فرمایا ایماندار تو اس کی تصدیق کریں گے ۔ نفاق والے اس پر عقیدہ نہ رکھیں گے اور فاجر اس سے اپنی شکم پری کرے گا ۔ ابن ابی حاتم کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ حضرت مائی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اصحاب صفہ کے لیے جب کچھ خیرات بھجواتیں تو کہہ دیتیں کہ بربری مرد وعورت کو نہ دینا کیونکہ میں نے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ یہی وہ ناخلف ہیں جن کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ محمد بن کعب قرظی کا فرمان ہے کہ مراد اس سے مغرب کے بادشاہ ہیں جو بدترین بادشاہ ہیں ۔ حضرت کعب بن احبار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ کی قسم میں منافقوں کے وصف قرآن کریم میں پاتا ہوں ۔ یہ نشے پینے والے ، نمازیں چھوڑنے والے ، شطرنج چوسر وغیرہ کھیلنے والے ، عشا کی نمازوں کے وقت سو جانے والے ، کھانے پینے میں مبالغہ اور تکلف کرکے پیٹو بن کرکھانے والے ، جماعتوں کو چھوڑنے والے ۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مسجدیں ان لوگوں سے خالی نظر آتی ہیں اور بیٹھکیں بارونق بنی ہوئی ہیں ۔ ابو شہب عطا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت داؤد علیہ السلام پر وحی آئی کہ اپنے ساتھیوں کو ہوشیار کر دے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشوں سے باز رہیں جن کے دل خواہشوں کے پھیر میں رہتے ہیں ، میں ان کی عقلوں پر پردہ ڈال دیتا ہوں جب کوئی بندہ شہوت میں اندھا ہوجاتا ہے تو سب سے ہلکی سزا میں اسے یہ دیتا ہوں کہ اپنی اطاعت سے اسے محروم کر دیتا ہوں ۔ مسند احمد میں ہے مجھے اپنی امت میں دو چیزوں کا بہت ہی خوف ہے ایک تو یہ کہ لوگ جھوٹ کے اور بناؤ کے اور شہوت کے پیچھے پڑ جائیں گے اور نمازوں کو چھوڑ بیٹھیں گے ، دوسرے یہ کہ منافق لوگ دنیا دکھاوے کو قرآن کے عامل بن کر سچے مومنوں سے لڑیں جھگڑیں گے ۔ غیا کے معنی خسران اور نقصان اور برائی کے ہیں ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ غی جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جو بہت گہری ہے اور نہایت سخت عذابوں والی ۔ اس میں خون پیپ بھرا ہوا ہے ۔ ابن جریر میں ہے لقمان بن عامر فرماتے ہیں میں حضرت ابو امامہ صدی بن عجلان باہلی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے التماس کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی حدیث مجھے سنائیں ۔ آپ نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر دس اوقیہ کے وزن کا کوئی پتھر جہنم کے کنارے سے جہنم میں پھنکا جائے تو وہ پچاس سال تک تو جہنم کی تہ میں نہیں پہنچ سکتا ۔ پھر وہ غی اور اثام میں پہنچے گا ۔ غی اور اثام جہنم کے نیچے کے دو کنویں ہیں جہاں دوزخیوں کا لہو پیپ جمع ہوتا ہے ۔ غی کا ذکر آیت ( فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا 59؀ۙ ) 19-مريم:59 ) میں ہے اور اثام کا ذکر آیت ( وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا 68؀ۙ ) 25- الفرقان:68 ) میں ہے اس حدیث کو فرمان رسول سے روایت کرنا منکر ہے اور یہ حدیث کی رو سے بھی غریب ہے ۔ پھر فرماتا ہے ہاں جو ان کاموں سے توبہ کرلے یعنی نمازوں کی سستی اور خواہش نفسانی کی پیروی چھوڑ دے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول فرمالے گیا اس کی عاقبت سنوار دے گا اسے جہنم سے بچا کر جنت میں پہنچائے گا ، توبہ اپنے سے پہلے کے تمام گناہوں کو معاف کرا دیتی ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے بےگناہ ۔ یہ لوگ جو نیکیاں کریں ان کے اجر انہیں ملیں گے کسی ایک نیکی کا ثواب کم نہ ہوگا ۔ توبہ سے پہلے کے گناہوں پر کوئی پکڑ نہ ہوگی ۔ یہ ہے کرم اس کریم کا اور یہ ہے حلم اس حلیم کا کہ توبہ کے بعد اس گناہ کو بالکل مٹا دیتا ہے ناپید کر دیتا ہے ۔ سورہ فرقان میں گناہوں کا ذکر فرما کر ان کی سزاؤں کا بیان کر کے پھر استثنا کیا اور فرمایا کہ اللہ غفور ورحیم ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

59۔ 1 انعام یافتہ بندگان الٰہی کا تذکرہ کرنے کے بعد ان لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے، جو ان کے برعکس اللہ کے احکام سے غفلت و اعراض کرنے والے ہیں۔ نماز ضائع کرنے سے مراد یا تو بالکل نماز کا ترک ہے جو کفر ہے یا ان کے اوقات کو ضائع کرنا ہے یعنی وقت پر نماز نہ پڑھنا، جب جی چاہا، نماز پڑھ لی، یا بلا عذر اکٹ... ھی کر کے پڑھنا کبھی دو ، کبھی چار، کبھی ایک اور کبھی پانچوں نمازیں۔ یہ بھی تمام صورتیں نماز ضائع کرنے کی ہیں جس کا مرتکب سخت گناہ گار اور آیت میں بیان کردہ وعید کا سزاوار ہوسکتا ہے۔ غیا کے معنی ہلاکت، انجام بد کے ہیں یا جہنم کی ایک وادی کا نام ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٥] نماز کی اہمیت اور تعلق باللہ :۔ ارکان اسلام میں سے سب سے اہم رکن نماز ہے۔ جس سے ایک مسلمان کا اللہ کے ساتھ تعلق قائم رہتا ہے۔ اگر نماز چھوڑ دی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ سے انسان کا تعلق منقطع ہوگیا۔ اسی لئے آپ نے فرمایا کہ جس نے نماز جان بوجھ کر چھوڑی وہ کافر ہوگیا اور اسی لئے نماز کو...  باقاعدگی کے ساتھ ادا کرنے کی کتاب و سنت میں بار بار تاکید آئی ہے۔ حتیٰ کہ نماز نہ مریض کو معاف ہوسکتی ہے نہ سفر میں اور نہ میدان جنگ کے مختلف حالات میں & حالات کے مطابق شریعت نے رخصتیں تو دی ہیں مگر نماز کو کسی بھی حالت میں ترک نہیں کیا جاسکتا۔ نمازوں کے ضائع کرنے سے مراد صرف یہ نہیں کہ انہوں نے نماز چھوڑ دی تھی، بلکہ نماز کو جماعت سے ادا نہ کرنا۔ بروقت ادا نہ کرنا، سستی اور بےدلی سے ادا کرنا، بغیر سوچے سمجھے جلد جلد ٹھونگیں مار لینا وغیرہ وغیرہ سب باتیں نماز کو ضائع کرنے کے ضمن میں آتی ہیں۔ [٥٥ـ۔ الف ] غیّ کا مفہوم :۔ اللہ سے تعلق منقطع ہوجانے کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنی خواہشات کا پیروکار اور غلام بن جاتا ہے اور یہی کچھ شیطان چاہتا ہے اور ایسے شخص کے لئے گمراہی کی راہیں کھلتی جاتی ہیں اور بعض لوگوں نے اس کا یوں ترجمہ کیا ہے کہ عنقریب یہ لوگ غیّ میں ڈالے جائیں گے۔ حدیث میں ہے کہ غیّ دوزخ میں ایک وادی یا نالہ ہے جس میں دوزخیوں کا لہو اور پیپ بہے گا اور اس میں زانی، شراب خور، سود خور اور ماں باپ کو ستانے والے ڈالے جائیں گے۔ گویا نمازیں ضائع کرنے والے بھی اسی وادی میں ڈالے جائیں گے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَخَــلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ : لفظ ” خَلْفٌ“ لام کے سکون کے ساتھ ” اولاد “ ، واحد و جمع دونوں کے لیے ایک ہی لفظ آتا ہے اور اکثر بری اولاد اور مذمت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور لام کے فتحہ کے ساتھ ” خَلَفٌ“ ” جانشین “ کے معنی میں آتا ہے، وہ چاہے اولاد ہو یا کوئی اور۔ اس کا استعمال اکثر مدح و تعری... ف کے لیے ہوتا ہے اور دونوں لفظ ایک دوسرے کی جگہ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ : نماز ضائع کرنے میں سب سے پہلے اس عقیدے کی ایجاد ہے کہ ایمان صرف دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے اور ان دونوں چیزوں سے ایمان مکمل ہوجاتا ہے۔ عمل کرے تو اچھا ہے، درجہ بڑھ جائے گا، ورنہ ایمان میں نہ کمی ہوتی ہے نہ اضافہ، جب کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کو ایمان قرار دیا ہے، فرمایا : (وَمَا كَان اللّٰهُ لِـيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ ) [ البقرۃ : ١٤٣] ” اور اللہ کبھی ایسا نہیں کہ تمہارا ایمان ضائع کر دے۔ “ مگر ان لوگوں نے نماز کو ایمان ماننے سے انکار کردیا، پڑھنے والا بھی مومن، نہ پڑھنے والا بھی، جو انکار نہ کرے پکا مومن۔ پھر اس عقیدے کی ایجاد کہ نماز تو دل کی ہوتی ہے، قیام، سجدے اور رکوع کی کیا ضرورت ہے اور اسے طریقت اور معرفت قرار دینا نماز ضائع کرنے کا عام بہانہ ہے۔ اس کے علاوہ نماز کو صحیح وقت پر نہ پڑھنا، یا اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نہ پڑھنا، کبھی پڑھنا، کبھی نہ پڑھنا، یا سرے سے اسے ترک کردینا، سب نماز ضائع کرنے کی صورتیں ہیں۔ نماز ترک کردینے سے انسان کے پاس اسلام کی آخری عملی شہادت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ اس لیے امام احمد کے قول اور امام شافعی کے ایک قول کے مطابق نماز کا تارک کافر ہے۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں، دیکھیے سورة توبہ کی آیات (٥) اور (١١) کی تفسیر۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک حدیث اس بحث کے لیے فیصلہ کن نظر آتی ہے، ابو امامہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَتُنْتَقَضَنَّ عُرَی الإِْسْلَامِ عُرْوَۃً عُرْوَۃً فَکُلَّمَا انْتَقَضَتْ عُرْوَۃٌ تَشَبَّثَ النَّاس بالَّتِيْ تَلِیْھَا فَأَوَّلُھُنَّ نَقْضًا الْحُکْمُ وَ آخِرُھُنَّ الصَّلَاۃُ ) [ صحیح ابن حبان، التاریخ، باب ذکر الأخبار بأن أول ما یظھر۔۔ : ٦٧١٥۔ مسند أحمد : ٥؍٢٥١، ح : ٢٢٢٢٢ ] ” اسلام کی کڑیاں ایک ایک کرکے ٹوٹتی جائیں گی، جب بھی کوئی کڑی ٹوٹے گی تو لوگ اس کے بعد والی کو مضبوطی سے پکڑ لیں گے، چناچہ سب سے پہلے ٹوٹنے والی کڑی ” حکم “ ہوگی (یعنی اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلے کرنا) اور سب سے آخری کڑی نماز ہوگی۔ “ وَاتَّـبَعُوا الشَّهَوٰتِ : انسان میں کئی شہوات و خواہشات پائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر خواہش کی تکمیل کے لیے جائز طریقے بتائے ہیں، مثلاً عبادت کی جبلی خواہش پوری کرنے کے لیے اپنے ایک ہی رب اللہ تعالیٰ کی عبادت اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقے کے مطابق کرنا، جنسی خواہش کے لیے نکاح کرنا اور لونڈیاں رکھنا۔ مالی حرص کے لیے جائز طریقے سے مال کمانا، خرچ کرنا اور اس کی زکاۃ دینا، غصے کی جبلت کا رخ کفار اور دشمنان اسلام کے ساتھ جہاد کی طرف موڑنا، غرض ہر فطری جذبے کو پورا کرنے کا سامان بھی فرمایا اور اللہ کے حکم سے تجاوز پر حد بھی نافذ فرمائی۔ شرک کو ناقابل معافی جرم قرار دیا، زنا پر حد رکھی، قوم لوط کے عمل کو حرام قرار دیا، سود کو حرام قرار دیا، ڈاکے اور چوری کی حد مقرر کی، قتل یا زخمی کرنے والوں پر قصاص یا دیت لازم فرمائی۔ پہلے انبیاء کے نالائق جانشینوں نے جس طرح اللہ کے احکام کی پیروی کے بجائے اپنی خسیس خواہشات کی پیروی کی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیش گوئی کے مطابق ہماری امت کے خواہش پرستوں نے بھی وہی کام کیا، بلکہ انھوں نے اپنے پاس سے ایسے فقہی ضابطے بنائے اور انھیں اللہ کا حکم باور کروایا کہ جن سے اللہ کی حدود سرے سے باطل ہوگئیں۔ ساتھ ہی ہر حرام کام کی سزا سے بچنے کے لیے اس کا نام بدل دیا، یا اس کی حد سے بچنے کا حیلہ ایجاد کردیا۔ وحدت الوجود اور تصور شیخ کے شرکیہ عقیدے اور عمل کو طریقت اور معرفت کا خوش نما نام دے لیا۔ زنا کی سزا سے بچنے کے لیے کہہ دیا کہ اجرت پر لا کر عورت سے زنا کرنے پر حد نہیں۔ زنا کا نام حلالہ اور متعہ رکھ دیا۔ ماں، بہن، بیٹی اور دوسری محرمات سے، یہ جانتے ہوئے کہ حرام ہیں، نکاح کرکے زنا کرے تو حد معاف قرار دی۔ کانوں اور آنکھوں کے زنا کو سماع، روح کی غذا یا آرٹ اور فنون لطیفہ کہہ دیا۔ سود حلال کرلیا مگر نام اس کا منافع رکھ دیا۔ دار الحرب میں سود کو بالکل ہی جائز قرار دے لیا۔ جان بوجھ کر زکوٰۃ سے بچنے کے لیے کوئی بھی حیلہ کرنا جائز کردیا اور کہہ دیا کہ یہ مکروہ بھی نہیں۔ کوئی خوبصورت لڑکی پسند آجائے اور جھوٹے گواہ بھگتا کر قاضی سے اپنے حق میں فیصلہ کروا کر اس سے زنا کرلے تو اسے اللہ کے ہاں بھی گرفت سے بری قرار دیا۔ زنا پر پکڑا جائے، چار گواہ بھی بھگت جائیں مگر زانی کے صرف یہ کہہ دینے سے کہ یہ میری بیوی ہے، حد ختم کردی، خواہ وہ بیوی ہونے کا کوئی ثبوت بھی پیش نہ کرسکے اور خواہ وہ عورت چیختی چلاتی رہے کہ میں اس کی بیوی نہیں بلکہ فلاں کی بیوی ہوں۔ انگور اور کھجور کے سوا کسی بھی چیز سے بنی ہوئی شراب حلال قرار دی اور نشہ آنے کے باوجود بھی اس سے حد ساقط کردی اور نام بدل کر نبیذ، طلا یا کوئی اور رکھ لیا۔ قتل جان بوجھ کر کرے مگر تیز دھار آلے سے نہ کرے، یا آگ اور فائر سے نہ کرے تو قصاص ختم کردیا، خواہ جان بوجھ کر اس سے بدفعلی کرکے مار دے، یا پتھروں سے مار دے، یا برف کے بلاک میں رکھ کر یا ڈبو کر مار دے، یا اسے قید کرکے بھوکا مار دے، یا دیوار میں چن کر مار دے، قصاص ختم کردیا، صرف دیت لی جاسکتی ہے۔ چوری شہادتوں سے ثابت ہوجائے مگر صرف چور کے دعویٰ کردینے سے کہ میں اس کا مالک ہوں، خواہ وہ مالک ہونے کی کوئی دلیل بھی نہ دے، حد موقوف کردی گئی۔ غرض یہود و نصاریٰ اور مشرکین کے ہاں جان، مال اور عزت و آبرو اس قدر برباد نہیں تھی جس قدر مسلمانوں نے خواہش پرستی میں آ کر اسے برباد کیا اور نام اس کا قوانین اسلام رکھ دیا۔ ان لوگوں نے تو یہ سب کچھ حیلے ایجاد کرکے کیا مگر موجودہ اکثر مسلم حکمرانوں نے حیلے کا تکلف بھی چھوڑ دیا اور صاف الفاظ میں حکم الٰہی کو وحشیانہ کہہ کر اسلام کی آخری کڑی نماز سے بھی فارغ ہوگئے۔ غرض رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ بات سچی ہوگئی : ( لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتّٰی لَوْ سَلَکُوْا حُجْرَ ضَبٍّ لَسَلَکْتُمُوْہُ ) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب نزول عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) : ٣٤٥٦، عن أبي سعید (رض) ]” تم اپنے سے پہلوں کے طریقوں پر چل نکلو گے (جس طرح) بالشت بالشت کے ساتھ اور ہاتھ ہاتھ کے ساتھ (برابر ہوتا ہے) حتیٰ کہ اگر وہ سانڈے کے بل میں داخل ہوئے ہیں تو تم بھی اس میں ضرور داخل ہو گے۔ “ نتیجہ مسلمانوں کی غلامی اور اللہ کے دشمنوں کے ان پر مسلط ہونے کی صورت میں سب کے سامنے ہے، جسے اللہ نے ” غَیًّا “ (گمراہی) فرمایا ہے۔ علاج اس کا بھی وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں بیان فرمایا ہے۔ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا : ” گمراہی کو ملیں گے “ کا مطلب یہ ہے کہ دنیا و آخرت دونوں میں جنت کی راہ نہیں پاسکیں گے اور اس سے بھٹکے ہی رہیں گے۔ ابن عباس (رض) نے ” غَيًّا “ کی تفسیر خسارا فرمائی ہے۔ [ طبري بسند ثابت ] ” غَيًّا “ کی تفسیر جہنم کی ایک وادی یا کنواں صحیح سند کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یا ابن مسعود (رض) سے ثابت نہیں۔ ہاں، یہ درست ہے کہ ساری کی ساری جہنم ہی گمراہی کا انجام بد ہے، جسے مجرم جا ملیں گے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary فَخَلَفَ (Khalf) means bad successors, while فَخَلَفَ (Khalaf) means good successors. (Mazhari) Mujahid (رح) has reported that when the Day of Judgment would be near and the pious people would all be dead and gone, people will lose interest in prayers and indulge in all sort of vices and evil deeds. Offering prayers outside fixed time or not with congregation (جَمَاعَت) is a default a... nd of no avail, and is a great sin. Most exegetes / commentators are of the view that offering prayers after its time has lapsed is a default of prayers (اضَاعُوا الصَّلٰوۃَ ). Among them are Sayyidna ` Abdullah Ibn Masud, Nakhai, Qasim, Mujahid, Ibrahim and ` Umar Ibn ` Abdul ` Aziz. While others consider that any lapse in the form and conditions of prayers is اِضَاعتِ صلٰوۃ and includes the lapse of time as well. Still others believe that offering of prayers at home and not with the congregation (جَمَاعَت) is اِضَاعتِ صلٰوۃ (Qurtubi, Bahr ul-Muhit). Sayyidna ` Umar al-Faruq (رض) ، had sent out a circular to all his governors saying: إن أھم امرکم عندی الصلوٰۃ، فمن ضیعھافھو لما سواھا اضیع (مؤطا امام مالک) |"In my view the most important among your tasks is prayer. So, whoever defaults in this, will default in discharging his other obligations all the more.|" Once Sayyidna Hudaifah (رض) saw someone offering his prayers without observing the prescribed rules, and was going through the rituals rather hurriedly without pausing. He asked the man how long he had been offering his prayers like that. The man replied for the last forty years. &Then Sayyidna Hudaifah (رض) said: |"You have not offered a single of your prayers correctly.|" He further remarked: |"If you die offering your prayers like this then remember you will die without following the course given by The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Sayyidna Abu Mas’ ud (رض) has been quoted in Tirmidhi that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had said that the prayer of a person is lost who does not observe اِقَامَت i.e. does not stand upright in his prayers. It means that if one does not pause while bowing down (رُکُوع) and prostrating (سَجدَہ) in his prayers or who does not stand straight up after bowing down ( رُکُوع) or does not sit up in between two prostrations (سَجدُوں) his prayers would be considered as not performed. Similarly, if one is not careful about ablution (وُضُو) and his cleanliness (طَھَارَت) his prayers will also be lost. Sayyidna Hasan-al-Basri (رح) has observed that leaving the mosques unattended and being over involved in business and enjoyments of life is included in the meaning of this verse. Imam Qurtubi& (رح) after reproducing these sayings had said that even knowledgeable people ignore the prescribed rules of prayers and merely go through its motions. He made this observation in the 6th century Hijrah when such people were few. Presently the position is worse, and there are many more people who disregard the rules of prayers. نَعُوذُ بِاللہِ مِن شُرُورِ انفُسِنَا وَ اَعمَالِنا (and pursued desires - 19:59) (شَھَوَات ) refers to all such wordly pleasures which make people negligent of their duty to Allah making them lose interest in Prayers. Sayyidna Ali (رض) has said that palatial houses and luxurious carriages which attract people&s eye, and wearing dresses which distinguish a person from the common man all fall within the category of worldly pleasures. (Qurtubi) فَسَوفَ یَلقَونَ غَیِّاً (So they will soon face[ the outcome of their ] perversion - 19:59) The word غَیّ in Arabic language is the opposite of رشاد . All virtues and good things are رشاد and all vices and evils are غَیّ. Sayyidna ` Abdullah Ibn Mas’ ud (رض) has reported that there is a cave in Hell by the name غَیّ which houses various types of severe punishments, more numerous than all the punishments of Hell. Ibn ` Abbas (رض) has remarked that even Hell seeks protection from غَیّ , which is the name of a cave in the Hell. Allah Ta` ala has prepared it for habitual adulterers who persist in adultery, and for the drunkards who do not give up drinking, and for the usurers who do not stop taking interest and for those who disobey their parents, and those who give false witness and for the woman who declares someone else&s child as her husband&s. (Qurtubi)   Show more

خلاصہ تفسیر پھر ان (مذکورین) کے بعد (بعض) ایسے ناخلف پیدا ہوئے جنہوں نے نماز کو برباد کیا (خواہ اعتقاد کہ انکار کیا یا عملاً کہ اس کے ادا کرنے میں یا حقوق و آداب ضروریہ میں کوتاہی کی) اور (نفسانی جائز) خواہشوں کی پیروی کی (جو ضروری طاقت سے غافل کرنے والی تھیں) سو یہ لوگ عنقریب (آخرت میں) خرابی دیک... ھیں گے (خواہ ابدی ہو یا غیر ابدی) ہاں مگر جس نے ( کفر و معصیت سے) توبہ کرلی (اور مطلب کفر سے توبہ کرنے کا یہ ہے کہ) ایمان لے آیا اور (معصیت سے توبہ کرنا یہ ہے کہ) نیک کام کرنے لگا سو یہ لوگ (بلاخرابی دیکھے) جنت میں جاویں گے اور (جزا ملنے کے وقت) ان کا ذرا نقصان نہ کیا جاوے گا (یعنی ہر نیک عمل کی جزا ملے گی یعنی) ان ہمیشہ رہنے کے باغوں میں (جاویں گے) جن کا رحمٰن نے اپنے بندوں سے غائبانہ وعدہ فرمایا ہے (اور) اس کے وعدہ کی ہوئی چیز کو یہ لوگ ضرور پہنچیں گے اس (جنت) میں وہ لوگ کوئی فضول بات نہ سننے پاویں گے (کیونکہ وہاں فضول بات ہی نہ ہوگی) بجز (فرشتوں اور ایک دوسرے کے) سلام (کرنے) کے (اور ظاہر ہے کہ سلام سے بہت ہی خوشی اور راحت ہوتی ہے تو وہ فضول نہیں) اور ان کو کھانا صبح و شام ملا کرے گا (یعنی یہ تو معین طور پر ہوگا اور یوں دوسرے وقت بھی اگر چاہیں گے ملے گا) یہ جنت (جس کا ذکر ہوا) ایسی ہے کہ ہم اپنے بندوں میں سے اس کا مالک ایسے لوگوں کو بناویں گے جو کہ خدا سے ڈرنے والے ہوں (جو مبنیٰ ہے ایمان اور عمل صالح کا) معارف ومسائل خَلف، یہ لفظ بسکون لام برے قائم بقام بری اولاد کے لئے اور بفتح لام اچھے قائم مقام اور اچھی اولاد کے لئے استعمال ہوتا ہے (مظہری) مجاہد کا قول ہے کہ یہ واقعہ قرب قیامت میں صلحاء امت کے ختم ہوجانے کے بعد ہوگا کہ نماز کی طرف التفات نہ رہے گا اور فسق و فجور کھلم کھلا ہونے لگے گا۔ نماز بےوقت یا بلا جماعت پڑھنا اضاعت نماز اور گناہ عظیم ہے : اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ ، نماز کے ضائع کرنے سے مراد جمہور مفسرین عبداللہ بن مسعود، نخعی، قاسم، مجاہد، ابراہیم، عمر بن عبدالعزیز وغیرہ کے نزدیک نماز کو اس وقت سے موخر کر کے پڑھنا ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ نماز کے آداب و شرائط میں سے کسی میں کوتاہی کرنا جس میں وقت بھی داخل ہے اضاعت نماز میں شامل ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اضاعت صلوٰۃ سے مراد بےجماعت کے گھر میں نماز پڑھ لینا ہے (قرطبی، بحر محیط) حضرت فاروق اعظم نے اپنے سب عمال حکومت کو یہ ہدایت نامہ لکھ کر بھیجا تھا : ان اھم امرکم عندی الصلوٰة۔ فمن ضیعھا فھو لما سواھا اضیع (مؤ طاء مالک) میرے نزدیک تمہارے سب کاموں میں سب سے زیادہ اہم نماز ہے تو جو شخص نماز کو ضائع کرتا ہے وہ دوسرے تمام احکام دین کو بھی اور زیادہ ضائع کرے گا۔ حضرت حذیفہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز کے آداب اور تعدیل ارکان میں کوتاہی کرتا ہے تو اس سے دریافت کیا کہ تم کب سے یہ نماز پڑھتے ہو، اس نے کہا کہ چالیس سال سے، حضرت حذیفہ نے فرمایا کہ تم نے ایک بھی نماز نہیں پڑھی اور اگر تم اسی طرح نمازیں پڑھتے ہوئے مر گئے تو یاد رکھو کہ فطرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف مرو گے۔ ترمذی میں حضرت ابو مسعود انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو نماز میں اقامت نہ کرے۔ مراد یہ ہے کہ جو رکوع اور سجدہ میں اور رکوع سے کھڑے ہو کر یا دو سجدوں کے درمیان سیدھا کھڑا ہونا یا سیدھا بیٹھنے کا اہتمام نہ کرے اس کی نماز نہیں ہوتی۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص نے وضو اور طہارت میں کوتاہی کی یا نماز کے رکوع سجدے میں یا ان دونوں کے درمیان سیدھا کھڑے ہونے بیٹھنے میں جلد بازی کی اس نے نماز کو ضائع کردیا۔ حضرت حسن نے اضاعت صلوٰة اور اتباع شہوات کے بارے میں فرمایا کہ مسجدوں کو معطل کردیا اور صنعت و تجارت اور لذات و خواہشات میں مبتلا ہوگئے۔ امام قرطبی ان روایات کو نقل کر کے فرماتے ہیں کہ آج اہل علم اور معروف بالصلاح لوگوں میں ایسے آدمی پائے جاتے ہیں جو نماز کے آداب سے غافل، محض نقل و حرکت کرتے ہیں۔ یہ چھٹی ہجری کا حال تھا جس میں ایسے لوگ خال خال پائے جاتے تھے آج یہ صورت حال نمازیوں میں عام ہوگئی، الا ماشاء اللہ۔ نعوذ باللہ من شرور انفسنا واعمالنا وَاتَّـبَعُوا الشَّهَوٰتِ ، شہوات سے مراد دنیا کی وہ لذتیں ہیں جو انسان کو اللہ کی یاد اور نماز سے غافل کریں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ شاندار مکانوں کی تعمیر اور ایسی شاندار سواریوں کی سواری جس پر لوگوں کی نظریں اٹھیں، اور ایسا لباس جس میں عام لوگوں میں امتیاز کی شان نظر آئے شہوات مذکورہ میں داخل ہیں (قرطبی) فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا، لفظ غیّ عربی زبان میں رشاد کے بالمقابل ہے ہر بھلائی اور خیر کو رشاد اور ہر برائی اور شر کو غیّ کہا جاتا ہے حضرت عبداللہ بن مسعود سے منقول ہے کہ غیّ جہنم کے ایک غار کا نام ہے جس میں سارے جہنم سے زیادہ طرح طرح کے عذاب جمع ہیں۔ ابن عباس نے فرمایا کہ غیّ جہنم کے ایک غار کا نام ہے جس سے جہنم بھی پناہ مانگتی ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے اس زنا کار کے لئے تیار کیا ہے جو اپنی زنا کاری پر مصر اور عادی ہے اور اس شراب خور کے لئے جو شراب کا عادی ہے اور اس سود خور کے لئے جو سود خوری سے باز نہیں آتا اور ان لوگوں کے لئے جو ماں باپ کی نافرمانی کریں اور جھوٹی شہادت دینے والوں کے لئے اور اس عورت کے لئے جو کسی دوسرے بچہ کو اپنے شوہر کا بچہ بنا دے۔ (قرطبی)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَخَــلَفَ مِنْۢ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّـبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا۝ ٥٩ۙ خلف والخِلافةُ النّيابة عن الغیر إمّا لغیبة المنوب عنه، وإمّا لموته، وإمّا لعجزه، وإمّا لتشریف المستخلف . وعلی هذا الوجه الأخير استخلف اللہ أولیاء ه في الأرض، قال تعالی: هُوَ الَّذِي جَ... عَلَكُمْ خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ [ فاطر/ 39] ، ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے ) الخلافۃ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں ۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کے سبب ہو اور ریا اس کے عجز کے سبب سے ہوا دریا محض نائب کو شرف بخشے کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ۔ ہے چناچہ فرمایا :۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ [ الأنعام/ 165] اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ۔ خُلف ( عهد شكني) والخُلْفُ : المخالفة في الوعد . يقال : وعدني فأخلفني، أي : خالف في المیعاد بما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة/ 77] ، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد/ 31] ( خ ل ف ) خُلف الخلف کے معنی وعدہ شکنی کے میں محاورہ ہے : اس نے مجھ سے وعدہ کیا مگر اسے پورا نہ کیا ۔ قرآن میں ہے ۔ بِما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة/ 77] کہ انہوں نے خدا سے جو وعدہ کیا تھا اسکے خلاف کیا ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد/ 31] بیشک خدا خلاف وعدہ نہیں کرتا ۔ ضيع ضَاعَ الشیءُ يَضِيعُ ضَيَاعاً ، وأَضَعْتُهُ وضَيَّعْتُهُ. قال تعالی: لا أُضِيعُ عَمَلَ عامِلٍ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 195] ( ض ی ع ) ضاع ( ض ) الشیئ ضیاعا کے معنی ہیں کسی چیز کا ہلاک اور تلف کرنا ۔ قرآن میں ہے : لا أُضِيعُ عَمَلَ عامِلٍ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 195] اور ( فرمایا ) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے شها أصل الشَّهْوَةِ : نزوع النّفس إلى ما تریده، وذلک في الدّنيا ضربان : صادقة، وکاذبة، فالصّادقة : ما يختلّ البدن من دونه كشهوة الطّعام عند الجوع، والکاذبة : ما لا يختلّ من دونه، وقد يسمّى الْمُشْتَهَى شهوة، وقد يقال للقوّة التي تَشْتَهِي الشیء : شهوة، وقوله تعالی: زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران/ 14] ، يحتمل الشّهوتین، وقوله : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم/ 59] ، فهذا من الشّهوات الکاذبة، ومن الْمُشْتَهِيَاتِ المستغنی عنها، وقوله في صفة الجنّة : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت/ 31] ، وقوله : فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ [ الأنبیاء/ 102] ، وقیل : رجل شَهْوَانٌ ، وشَهَوَانِيٌّ ، وشیء شَهِيٌّ. ( ش ھ و ) الشھوہ کے معنی ہیں نفس کا اس چیز کی طرف کھینچ جاتا جسے وہ چاہتا ہے و خواہشات دنیوی دوقسم پر ہیں صادقہ اور کاذبہ سچی خواہش وہ ہے جس کے حصول کے بغیر بدن کا نظام مختل ہوجاتا ہے جیسے بھوک کے وقت کھانے کی اشتہا اور جھوٹی خواہش وہ ہے جس کے عدم حصول سے بدن میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی ۔ پھر شھوۃ کا لفظ کبھی اس چیز پر بولاجاتا ہے ۔ جس کی طرف طبیعت کا میلان ہو اور کبھی خود اس قوت شہویہ پر اور آیت کریمہ ؛زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران/ 14] لوگوں کو ان کی خواہشوں کی چیزیں ( بڑی ) زینت دار معلوم وہوتی ہیں۔ میں شہو ات سے دونوں قسم کی خواہشات مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم/ 59] اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے ۔ میں جھوٹی خواہشات مراد ہیں یعنی ان چیزوں کی خواہش جن سے استغناء ہوسکتا ہو ۔ اور جنت کے متعلق فرمایا : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت/ 31] اور وہاں جس ( نعمت کو تمہارا جی چاہے گا تم کو ملے گا ۔ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ [ الأنبیاء/ 102] اور جو کچھ ان جی چاہے گا اس میں ۔۔۔ رجل شھوان وشھوانی خواہش کا بندہ شمئ لذیز چیز ۔ مرغوب شے ۔ غوی الغَيُّ : جهل من اعتقاد فاسد، وذلک أنّ الجهل قد يكون من کون الإنسان غير معتقد اعتقادا لا صالحا ولا فاسدا، وقد يكون من اعتقاد شيء فاسد، وهذا النّحو الثاني يقال له غَيٌّ. قال تعالی: ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم/ 2] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف/ 102] . وقوله : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم/ 59] ، أي : عذابا، فسمّاه الغيّ لمّا کان الغيّ هو سببه، وذلک کتسمية الشیء بما هو سببه، کقولهم للنّبات ندی . وقیل معناه : فسوف يلقون أثر الغيّ وثمرته . قال : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] ، وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] ، إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص/ 18] ، وقوله : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى [ طه/ 121] ، أي : جهل، وقیل : معناه خاب نحو قول الشاعر : ومن يغو لا يعدم علی الغيّ لائما «2» وقیل : معنی ( غَوَى) فسد عيشُه . من قولهم : غَوِيَ الفصیلُ ، وغَوَى. نحو : هوي وهوى، وقوله : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود/ 34] ، فقد قيل : معناه أن يعاقبکم علی غيّكم، وقیل : معناه يحكم عليكم بغيّكم . وقوله تعالی: قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص/ 63] ، إعلاما منهم أنّا قد فعلنا بهم غاية ما کان في وسع الإنسان أن يفعل بصدیقه، فإنّ حقّ الإنسان أن يريد بصدیقه ما يريد بنفسه، فيقول : قد أفدناهم ما کان لنا وجعلناهم أسوة أنفسنا، وعلی هذا قوله تعالی: فَأَغْوَيْناكُمْ إِنَّا كُنَّا غاوِينَ [ الصافات/ 32] ، فَبِما أَغْوَيْتَنِي [ الأعراف/ 16] ، وقال : رَبِّ بِما أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ [ الحجر/ 39] . ( غ و ی ) الغی ۔ اس جہالت کو کہتے ہیں جو غلطاعتقاد پر مبنی ہو ۔ کیونک جہالت کبھی تو کسی عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے اور کبھی عقیدہ کو اس میں داخل نہیں ہوتا پہلی قسم کی جہالت کا نام غی ) گمراہی ہے قرآن پاک میں ہے : ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم/ 2] کہ تمہارے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف/ 102] اور ان ( کفار ) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم/ 59] سو عنقریب ان کو گمراہی ( کی سزا ) ملے گی ۔ میں غی سے عذاب مراد ہے اور عذاب کو غی اس لئے کہاجاتا ہے کہ گمراہی عذاب کا سبب بنتی ہے لہذا عذاب کو غی کہنا مجازی ہے یعنی کسی شے کو اس کے سبب نام سے موسوم کردینا جیسا کہ نبات کو ندی ( طرادت ) کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے آیت کے یہ معنی کہتے ہیں کہ یہ لوگ عنقریب ہی اپنی گمراہی کا نتیجہ اور ثمرہ پالیں گے مگر مآل کے لحاظ سے دونوں معنی ایک ہی ہیں ۔ غاو بھٹک جانے والا گمراہ جمع غادون وغاوین جیسے فرمایا : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی ۔ وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] اور شاعروں کی پیروی گمرا ہلوگ کیا کرتے ہیں ۔ ( الغوی ۔ گمراہ غلط رو ۔ جیسے فرمایا :إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص/ 18] کہ تو تو صریح گمراہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى[ طه/ 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا ( تو وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ میں غویٰ کے معنی یہ ہیں ک آدم نے جہالت کا ارتکاب کیا اور بعض نے اس کے معنی خاب کئ ہیں یعنی انہوں نے سراسر نقصان اٹھایا ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (334) ومن یغولا بعدم علی الغی لائما اور اگر ناکام ہوجائے تو ناکامی پر بھی ملامت کرنے والون کی کمی نہیں ہے ؛بعض نے غوی کے معنی ففدعیشہ کئے ہیں یعنی اس کی زندگی تباہ ہوگئی اور یہ غوی الفصیل وغویٰ جیسے ھویٰ وھوی ٰ ۔ سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں اونٹ کے بچے نے بہت زیادہ دودھ پی لیا جس سے اسے بدہضمی ہوگئی اور آیت کریمہ : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود/ 34] اور اگر خدا یہ چاہے کہ تمہیں گمراہ کرے ۔ میں یغویکم سے مراد گمراہی کی سزا دینے کے ہیں اور بعض نے اس کے معنی گمراہی کا حکم لگانا بھی کئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص/ 63]( تو جن لوگوں پر ) عذاب کا حکم ثابت ہوچکا ہوگا وہ کہیں گے کہ ہمارے پروردگار ی وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہی کیا تھا اور جس طرح ہم خود گمراہ تھے اسی سطرح انہیں گمراہ کیا تھا ۔ میں بتایا گیا ہے کہ کفار قیامت کے دن اعلان کریں گے کہ ہم ان کے ساتھ انتہائی مخلصانہ سلوک کیا تھا جو کہ ایک انسان اپنے دوست سے کرسکتا ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

نماز کو ضائع کرنا کیسے ہے ؟ قول باری ہے (اضاعوا الصلوۃ جنہوں نے نماز کو ضائع کیا) حضرت عمر بن عبدالعزیز کا قول ہے کہ نمازوں کو ان کے اصل اوقات سے موئخر کر کے انہوں نے نمازوں کو ضائع کیا۔ اس تاویل کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد سے بھی تائید ہوتی ہے کہ (لیس التفریط فی التوم انما التفریط...  ان یدعھا حتی یدخل وقت الاخریٰ نماز میں کوتاہی سوتے رہنے کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ کوتاہی یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کو مئوخر رکھے یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت داخل ہوجائے۔ محمد بن کعب کا قول ہے کہ انہوں نے نمازوں کی ادائیگی نہ کر کے انہیں ضائع کردیا۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٩) پھر ان انبیاء کرام اور صالحین کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے جنہوں نے نماز کو چھوڑ دیا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا اور دنیا میں نفسانی لذتوں اور خواہشات کی پیروی کی اور سگی بہنوں سے شادی کرنا شروع کردی، یہ نالائق یہود ہیں سو یہ لوگ عنقریب غیتی وادی جہنم میں گریں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٩ (فَخَلَفَ مِنْم بَعْدِہِمْ خَلْفٌ) ” ” خَلْف “ کا لفظ جب ” ل “ ساکن کے ساتھ آتا ہے تو اس کے معنی ” نا خلف “ کے لیے جاتے ہیں۔ یعنی اپنے اسلاف کے کردار کے خلاف عمل کرنے والے اور ان کی نیک نامی اور بزرگی کوّ بٹہ لگانے والے لوگ۔ (اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ...  غَیًّا ) ” یعنی عنقریب وہ گمراہی کے انجام سے دو چار ہوں گے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

35. It appears that the degenerate people totally discarded Salat, or they had become neglectful and careless in its observance. This is the first evil that is committed by a degenerate people. For, after this there remains no connection whatever between them and God. Here it has been stated as a universal principle that the degeneration of the people of all the former Prophets started with the ab... andonment of Salat by them. 36. This was the inevitable result of the loss of the connection with Allah. As they became more and more neglectful of their Salat, their lusts took complete hold of them and they fell to the lowest depths of moral depravity and began to follow their whims instead of the divine commands.  Show more

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :35 یعنی نماز پڑھنی چھوڑ دی ، یا نماز سے غفلت اور بے پروائی برتنے لگے ۔ یہ ہر امت کے زوال و انحطاط کا پہلا قدم ہے ۔ نماز وہ اولین رابطہ ہے جو مومن کا زندہ اور عملی تعلق خدا کے ساتھ شب و روز جوڑے رکھتا ہے اور اسے خدا پرستی کے مرکز و محور سے بچھڑنے نہیں دیتا ۔ یہ بندھن ٹ... وٹتے ہی آدمی خدا سے دور اور دور تر ہوتا چلا جاتا ہے حتی کہ عملی تعلق سے گزر کر اس کا خیالی تعلق بھی خدا کے ساتھ باقی نہیں رہتا ۔ اسی لئے اللہ تعالی نے یہاں یہ بات ایک قاعدہ کلیہ کے طور پر بیان فرمائی ہے کہ پچھلے تمام انبیا کی امتوں کا بگاڑ نماز ضائع کرنے سے شروع ہوا ہے ۔ سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :36 یہ تعلق باللہ کی کمی اور اس کے فقدان کا لازمی نتیجہ ہے ۔ نماز کی اضاعت سے جب دل خدا کی یاد سے غافل رہنے لگے تو جوں یہ غفلت بڑھتی گئی ، خواہشات نفس کی بندگی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ ان کے اخلاق اور معاملات کا ہر گوشہ احکام الہی کے بجائے اپنے من مانے طریقوں کا پابند ہو کر رہا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

30: یعنی ان کی گمراہی کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی صورت میں ان کے سامنے آجائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٩۔ ٦٠:۔ اوپر انبیاء اور نیک لوگوں کا ذکر تھا اس آیت میں فرمایا کہ ان نیک لوگوں کی جگہ ایسے ناخلف آئے کہ نماز جیسی چیز کو جس کی ہر ایک شریعت میں تاکید ہے انہوں نے یا تو بالکل چھوڑ دیا یا بعضوں نے ان کو ادا بھی کیا تو شریعت کے حکم کے موافق ادا نہیں کیا اور دنیا کے عیش و آرام کے پیچھے ایسے سرگرداں ہوئ... ے کہ نیک کاموں کے کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی کچھ پروا نہ کی پھر فرمایا ایسے لوگ عقبیٰ میں بڑا نقصان اٹھائیں گے کیونکہ علم الٰہی میں ایسے لوگوں کا ٹھکانا دوزخ قرار پاچکا ہے۔ ہاں ان میں سے جو لوگ عقبیٰ کی باتوں کا پورا یقین کرکے اپنے پچھلے گناہوں سے توبہ اور آگے کو نیک عمل کریں تو وہ لوگ بہشت میں جائیں گے اور ان کے نیک عملوں کی جزا میں کچھ کمی نہ کی جائے گی۔ مسند امام احمد صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جن ناخلف لوگوں کا ذکر آیت میں ہے وہ اس امت میں ٢٠ ھ کے بعد ہوں گے ١ ؎۔ حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ٢ ؎۔ اس حدیث میں بڑی پیشین گوئی ہے کیونکہ ٦٠ ھ کے بعد کا زمانہ یزید بن معاویہ کا خلافت کا زمانہ ہے جس میں حضرت حسین (رض) کی شہادت کا معاملہ اہل مدینہ پر چڑھائی کے قوت اہل مدینہ اور مدینہ کی بےحرمتی کا معاملہ ابن زبیر پر چڑھائی کے وقت کعبہ کی بےحرمتی کا معاملہ یزید کے شراب پینے اور نماز چھوڑ دینے کا معاملہ ٣ ؎۔ یہ سب معاملے ایسے ہی ہیں۔ صحیح بخاری ومسلم میں خلاد بن راع کا قصہ ابوہریرہ (رض) کی وایت سے ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ خلاد بن رافع (رض) نے نماز میں رکوع سجدہ اچھی طرح نہیں کیا تھا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خلاد (رض) سے کہا تو پھر نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی ٤ ؎۔ صحیح مسلم میں ابوذر (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بےوقت کی نماز کو مردہ نماز فرمایا ہے ٥ ؎۔ ان حدیثوں کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ رکوع سجدہ اچھی طرح نہ کرنے کی نماز اور بےوقت کی نماز اضاعوا الصلوٰۃ کے حکم میں داخل ہے جس کا مطلب وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ ناخلف لوگوں سے بعضے لوگوں نے نماز کو بالکل چھوڑ دیا اور بعضوں نے اس کو شریعت کے حکم کے موافق ادا نہیں کیا۔ ١ ؎ الدر المنثورص ٢٧٧ ج ٤۔ ٢ ؎ مستدرک حاکم ص ٣٧٤ ج ٢ کتاب التفسیر۔ ٣ ؎ یزید کے متعلق ایسی باتیں شہرت ضرور پاگئی ہیں اور شاید خاص مقاصد کے تحت خود یزید کے زمانے میں بھی کرنے والوں نے ایسا مشہور کردیا تھا لیکن اس کی تردید حضرت علی (رض) کے صاحمزادے محمد بن حنفیہ نے ہی کردی تھی جنہوں نے شہادت دی کہ یزید نماز کا پابند ہے اور یراب نوش نہیں۔ ملاخطہ ہو البدایہ والہنایہ ص ٢٣٣ ج ٨ (محمد عطاء اللہ حنیف) ۔ ٤ ؎ صحیح بخاری ص ١٠٩ ج ١ باب امرالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الذی لایتم رکوعہ بالا عادۃ۔ ٥ ؎ صحیح مسلم ص ٢٣١ ج ١ باب کر اہتیہ تاخیر الصلوٰۃ الخ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:59) خلف ماضی واحد مذکر غائب خلافۃ سے باب نصر۔ جس کے معنی جانشین ہونے کے ہیں یا پیچھے آنے کے۔ خلف وہ جانشین ہوا۔ وہ پیچھے آیا۔ خلف۔ ناخلف۔ برے جانشین۔ اضاعوا ماضی جمع مذکر غائب (باب افعال) انہوں نے ضائع کردیا۔ انہوں نے کھو دیا۔ الشھوات۔ شھو سے مشتق ہے الشھوۃ کے معنی ہیں نفس کا اس چیز کی طرف کھی... نچے چلے جانا جسے وہ چاہتا ہے۔ خواہشات دنیوی دو قسم پر ہیں صادقہ اور کاذبہ۔ سچی خواہش وہ ہے جس کے حصول کے بغیر بدن کا نظام مختل ہوجاتا ہے جیسے بھوک کے وقت کھانے کی اشتہائ۔ اور جھوٹی خواہش وہ ہے جس کے عدم حصول سے بدن میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی۔ پھر شہوۃ کا لفظ کبھی اس چیز پر بولا جاتا ہے جس کی طرف طبیعت کا میلان ہو اور کبھی خود اس قوت شہویہ پر۔ آیت کریمہ زین للناس حب الشھوات (3:14) لوگوں کے لئے ان کی خواہش کی چیزیں (مرغوبات) خوشنما کردی گئی ہیں۔ اس میں شھوات سے مراد ہر دو قسم کی خواہشات ہیں۔ اور واتبعوا الشھوات (آیۃ ہذا) اور وہ خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے۔ اس میں جھوٹی خواہشات مراد ہیں۔ یعنی ان چیزوں کی خواہش جن سے استغناء ہوسکتا ہے۔ سوف یلقون۔ سوف مستقبل قریب کے لئے ہے۔ یلقون مضارع جمع مذکر غائب۔ وہ پائیں گے۔ وہ (اس سے) دوچار ہوں گے۔ غیا۔ غوی سے مشتق ہے الغی اس جہالت کو کہتے ہیں جو غلط اعتقاد پر مبنی ہو۔ جیسے کہ ما ضل صاحبکم وما غوی (53: 12) تمہارے رفیق (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نہ راستہ بھولے ہیں اور بھٹکے ہیں۔ اور کبھی عقیدہ کو اس میں دخل نہیں ہوتا۔ جیسے وعصی ادم ربہ فغوی (20:121) اور آدم نے اپنے پروردگار کے خلاف کیا اور جہالت کا ارتکاب کیا۔ آیۃ ہذا میں غی سے مراد عذاب ہے کیونکہ گمراہی عذاب کا سبب بنتی ہے۔ یعنی کسی شے کو اس کے سبب کے نام سے موسوم کردینا۔ جیسا کہ اور جگہ قرآن مجید میں ہے ومن یفعل ذلک یلق اثاما (25:67) اور جو کوئی ایسا کرے گا وہ سزا سے دوچار ہوگا (یعنی اس کا گناہ سزا کا سبب ہوگا) فسوف یلقون غیا۔ سو وہ عنقریب گمراہی کی سزا سے دو چار ہوں گے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 نماز کے گنوانے کا مطلب یہ بھی ہے کہ اسے صحیح وقت اور صحیح طریقہ سے پڑھنا چھوڑ دیا۔ 1 یعنی ضرور اس کے انجام بد سے دوچار ہونگے بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ غی جہنم میں ایک وادی ہے۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 59 تا 65 خلف قائم مقام ہوا۔ خلف نالائق، ناخلف۔ اضاعوا انہوں نے برباد کیا، ضائع کردیا۔ اتبعوا پیچھے لگ گئے، انہوں نے پیروی کی۔ یلقون وہ ڈالیں گے۔ غی گمراہی۔ عدن ہمیشہ رہنے کی جگہ، ایک بہت کا نام۔ ماتی آنے والا، آنے کی جگہ۔ لغو بےہودہ۔ فضول۔ مانتنزل ہم نہیں اترتے۔ نسی بھول جانا۔ ا... صطبر ثابت قدم رہو۔ سمی ہم نام، ہم پلہ تشریح : آیت نمبر 59 تا 65 اللہ تعالیٰ نے گزشتہ انبیاء کرام علیھم السلام اور ان کی امتوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ ان کے بعد آنے والوں نے نیک لوگوں کا راستہ چھوڑ کر ان کے قائم مقام ہونے کا حق ادا نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی خواہشات نفس اور دنیا کے وقتی فائدوں کے پیچھے چل کر نماز جیسی عبادت کو ضائع کردیا۔ فرمایا کہ ایسے لوگوں کو ان کی گمراہی پر معاف نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے اعمال کے مطابق ان کو سخت سزا دی جائے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز اللہ کی عبادت کا سب سے اہم اور احسن طریقہ ہے جو گزشتہ انبیاء کرام وعلیھم السلام کی امتوں پر بھی فرض کیا گیا تھا جو دین اسلام کی بنیادوں کو مضبوط اور مستحکم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ نماز سے امتوں کو مرکزیت ملتی رہی ہے۔ جن لوگوں نے اس فریضہ سے غفلت اختیار کی اس کے آداب کا خیال نہیں رکھا اور اس کو ضائع کردیا ان کو دنیا اور آخرت میں رسوائی اور ذلت نصیب ہوئی اور ان کو اس بدعملی پر سخت سزا دی گئی۔ گزشتہ امتوں کی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت پر بھی نماز کو فرض کیا گیا ہے اگر نماز جیسی عبادت سے غفلت اور کوتاہی اختیار کی گئی تو گزشتہ قوموں سے ان کا انجام مختلف نہ ہوگا۔ اس لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز کو سب سے اہم عبادت قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ کفر او اسلام کے درمیان نماز ہی سب سے بڑا فرق ہے۔ نماز کو چھوڑنا یا اس سے غفلت اختیار کرنا امت کے زوال کا سب سے اہم سبب ہے۔ نماز درحقیقت اللہ اور بندہ کے درمیان وہ مضبوط رشتہ ہے جو اس کو اللہ کی رحمتوں سے جوڑے رکھتا ہے۔ جس نے اس رشتہ اور تعلق کو توڑ دیا وہ حق و صداقت سے کٹ کر ضلالت و گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ آپ نے فرمایا جس نے نماز کا اہتمام نہیں کیا اس کے لئے قیامت کے دن نہ تو نور ہوگا۔ نہ اس کے پاس کوئی چھت ہوگی اور نہ اس کی نجات کا کوئی اور ذریعہ ہوگا۔ اس کا حشر فرعون ، ہامان اور (منافق) ابی ابن خلف کے ساتھ ہوگا۔ ۔ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے اور بغیر وضو کے نماز نہیں ہوتی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے کہ دین بغیر نماز کے کچھ بھی نہیں ہے۔ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے موذن کی آواز سنی اور نماز کے لئے نہیں گیا اس نے سراسر ظلم کیا۔ اس نے کفر اور نفاق کا عمل کیا۔ نماپز ڑھنے کے لئے احادیث میں بہت تاکید آئی ہے لیکن وہ لوگ جو بلا کسی عذر کے مسجدوں کے بجائے ھگروں پر نماز پڑھتے ہیں درحقیقت وہ بھی نماز کا حق ادا نہیں کرتے اور رحمت دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو انتہائی ناپسند فرمایا ہے۔ ایک موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ چند نوجوانوں سے کہوں کہ بہت سا ایندھن جمع کر کے لائیں اوپ ھر میں ان لوگوں کے پاس جاؤں جو بلا کسی عذر کے گھروں پر نماز پڑھتے ہیں اور میں جا کر ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ ایک حدیث میں آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے چھوٹے بچوں اور عورتوں کا خیال نہ ہوتا تو میں عشاء کی نماز میں مشغول ہوتا اور خادموں کو حکم دیتا کہ گھروں پر نماز پڑھنے والوں کو ان کے مال و اسباب سمیت آگ لگا دیں۔ نماز کی اس تاکید کی وجہ سے صحابہ کرام اور بزرگان دین نے فرمایا ہے کہ نمازوں کا اہتمام نہ کرنے والے ین کے بقیہ تمام احکامات کو ضائع کردینے والے ہیں۔ سیدنا عمر فاروق نے اپنے دور حکومت میں اپنے اعمال حکومت کو ایک ہدایت نامہ بھجوایا تھا کہ وہ کس طر حکوت کے کاموں کو سرانجام دیں مگر ساتھ ہی ساتھ یہ تحریر فرمایا کہ ” میرے نزدیک تمہارے سب کاموں سے زیادہ اہم کام نماز ہے تو جو شخص نماز کو ضائع کرتا ہے وہ دور سے تمام احکام دین کو بھی ضائع کرے گا (موطا امام مالک) ایک مرتبہ حضرت حذیفہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز تو پڑھ رہا ہے لیکن رکوع، سجود اور قیام میں کوتاہی کر رہا ہے آپ نے اس سے پوچھا کہ تم کب سے اس طرح نماز پڑھ رہے ہو ؟ اس نے کہا چالیس سال سے حضرت حذیفہ نے فرمایا کہ اگر تم اس طرح نمازیں پڑھتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوجاتے تو یاد رکھو تم حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کے طریقے کے) خلاف مرتے۔ حضرت حذیفہ کا یہ ارشاد اس حدیث کے مطابق ہے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جو شخص نماز میں اعتدال اختایر نہیں کرتا اس کی نماز نہیں ہوتی اس سے مراد یہ ہے کہ جو شخص رکوع اور دونوں سجدوں کے درمیان یا کھڑے ہونے یا صحیح بیٹھنے کا اہتمام نہیں کرتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔ (ترمذی) ان ہی ارشادات کی روشنی میں علماء نے فرمایا ہے کہ ” اضاعت صلوٰۃ “ یعنی نماز کو ضائع کرنا یہ ہے کہ نماز کو اس کے وقت سے موخر کر کے پڑھنا۔ (جمہور مفسرین) بغیر کسی شدید عذر کے مسجدوں کے بجائے گھروں پر نماز پڑھنا، کوتاہی کرنا، غفلت برتنا۔ نماز کے آداب و شرائط میں کوتاہی کرنا۔ نماز کے متام ارکان میں تعدیل اور تو ازن قائم نہ رکھنا۔ نمازوں کو چھوڑ کر زندگی کے کاروبار کو اہمیت دینا۔ بے جا خواہشات اور تمناؤں میں الجھ کر نمازوں سے غفلت اختیار کرنا یہ درحقیقت نمازوں کو ضائع کرنا ہے۔ اسی بات کو ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ انبیاء کرام اور ان کی امتوں کے بعد آنے والوں نے نالائقی کا ثبوت پیش کیا اور نماز جیسی اہم عبادت کو ضائع کر کے اپنی خواہشات اور شہوات کے پیچھے لگ گئے۔ فرمایا کہ ایسے لوگوں نے اگر توبہ کر کے ایمان اور عمل صالح کا طریقہ اختیار نہ کیا تو ان کو ” غی “ میں جھونک دیا جائے گا۔ ” غی “ کے معنی خرابی، بربادی اور نقصان کے آتے ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ جہنم کے اندر ” غی “ ایک ایسی وادی کا نام ہے جو بہت گہری اور خون اور پیپ سے بھری ہوئی ہے۔ یعنی ایک ایسی وادی اور گھاٹی کا نام ہے جو بدترین جگہ ہے۔ جہاں نفس پرستوں اور خواہشات کے پیچھے چلنے والوں کو جھونک دیا جائے گا یہ ان کی سخت ترین سزا ہوگی۔ البتہ اگر انہوں نے مرنے سے پہلے توبہ کرلی یعنی ایمان اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرلیا تو ان کے پروردگار کا ان سے یہ پکا وعدہ کے کہ اگرچہ انہوں نے جنت کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور اس دنیا میں اس کی راحت و آرام کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن تقویٰ اور پرہیز گاری اور اطاعت و فرماں برداری اختیار کرنے والوں کو ہمیشہ کے لئے ان جنتوں کا وارث ومالک بنا دیا جائے گا۔ وہ جنتیں ایسی ہوں گی کہ جہاں غلط، لغو، فضول اور بےہودہ باتوں کے بجائے ہر طرف پاکیزگی، ستھرائی اور سلامتی ہی سلامتی کی آوازیں صدائیں ہوں گی جہاں صبح و شام ان کی خواہش کے مطابق ہر طرح کی نعمتیں عطا کی جائیں گی۔ آگے کی آیات میں فرشتوں کی اطاعت و فرماں برداری کے متعلق ارشاد فرمایا گیا ہے۔ فرمایا کہ ایک طرف تو انسان ہے جو نافرمانیوں اور خواہشات نفس کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کے پیغام کو بھول کر گناہ کے کاموں میں لگا رہتا ہے۔ اس کے برخلاف فرشتوں کا یہ حال ہے کہ وہ اللہ کے اطاعت گزار اور فرماں بردار ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھاتے۔ ان کو اللہ کا کام دے کر بھیجا جاتا ہے تو وہ اس کو پوری دیانتداری سے اللہ کے بنیوں تک پہنچا دیتے ہیں اور اس میں وہ ذرہ برابر کوتاہی نہیں کرتے۔ وہ اللہ بھی ایسا پروردگار ہے جو موجودہ ، آئندہ اور ماضی کے تمام احوال سے واقف ہے۔ اس کا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے وہ حکم دے کر اس کو بھول نہیں جاتا یا جو اس کا وعدہ ہے وہ اس کو بھولتا نہیں ہے۔ بلکہ وہ علیم وبصیر ہے اور اپنے بندوں کے تمام احوال سے اچھی طرح واقف ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ جبرئیل امین روزانہ وحی لے کر آتے تھے۔ وحی الٰہی سے آپ کو جو روحانی سکون اور سرور نصیب ہوتا تھا آپ کی خواہش تھی کہ جبرائیل جتنا بھی آتے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ آئیں۔ اس سلسلے میں دوسری روایت یہ ہے کہ کچھ دنوں تک حضرت جبرائیل امین تشریف نہیں لائے تو آپ نے حضرت جبرئیل سے اس کیفیت کو بیان فرمایا اس پر حضرت جبرئیل نے کہا کہ ہم تو اس وقت ہی آتے ہیں جب ہمیں اللہ کی طرف سے حکم دیا جاتا ہے۔ اپنی مرضی اور خواہش سے نہیں آتے۔ اب وہ اللہ جو علم وبصیر ہے۔ وہ ہر طرح کی کیفیات سے اچھی طرح واقف ہے۔ نہ اس کا جیسا کسی کا نام ہے نہ اس کے جیسا کسی کا حکم ہے۔ لہٰذا ہم تو اللہ کے حکم کے تابع ہیں جیسا حکم دیا جاتا ہے ہم ویسا ہی کرتے ہیں۔ اس مقام پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ شیطان کا کام نافرمانی، تکبر اور غرور ہے جب کہ فرشتوں کا کام مکمل اطاعت و فرماں برداری ہے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو شیطان کے راستے پر چل کرنا فرمانی کررہے ہیں اور اگر ان کے پاس کچھ مال و دولت آجاتا ہے تو وہ تکبر اور غرور کرنے لگتے ہیں اور دوسری طرف فرشتے ہیں جو اللہ کی اطاعت کرتے ہیں۔ فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ نے تمام لوگوں کے سامنے یہ دونوں مثالیں رکھ دی ہیں۔ اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ شیطان کی طرح نافرمان بننا چاہتا ہے یا فرشتوں کی طرح اطاعت گزار اور فرماں بردار۔ دونوں راستوں کا انجام بالکل واضح ہے۔ ہر انسان اپنے اچھے اور برے انجام پر اس دنیا میں غور کرلے کیونکہ آخرت کی زندگی عمل کرنے کی نہیں بلکہ ہر بات کا نتیجہ نکالنے کے لئے ہے۔ یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے یہ زندگی اور اس کا عمل اس کھیتی کا موسم ہے لیکن جب کھیتی کو کاٹنے کا موسم آئے گا تو اس وقت انسان کی محنت کا نتیجہ اس کے سامنے ہوگا۔ کھیتی باڑی کرنے کا موسم نہ ہوگا۔ ۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ نماز کو برباد کیا خواہ اعتقادا کہ انکار کیا، یا عملا کہ اس کے ادا کرنے میں یا حقوق و آداب ضروریہ میں کوتاہی کی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انبیاء کرام کی اولاد میں ان کے خلف الرشید بھی ہوئے اور ناخلف بھی ہوئے۔ ناخلف اولاد کا انجام۔ اللہ تعالیٰ اپنے اصول کے مطابق دین کی نعمت اور حقیقی احترام اسی شخص دیتا ہے جو دین کی قدر اور اس پر عمل کرتا ہے۔ بیشک وہ کسی غیر معروف باپ کا بیٹا اور غریب کیوں نہ ہو۔ اس کے مقابلے می... ں کوئی نبی کا صاحبزادہ ہو کر اللہ اور اس کے نبی کی اطاعت کا انکاری ہے تو وہ دنیا و آخرت کی رسوائی سے نہیں بچ سکتا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے کی مثال سب کے سامنے ہے۔ وہ پانی میں ڈبکیاں لینے لگا تو حضرت نوح (علیہ السلام) نے پدرانہ شفقت کی بناء پر اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ یہ میرا بیٹا ہے اور آپ نے وعدہ فرمایا تھا کہ میں تیری آل کو بچالوں گا جس کا جواب دیا گیا کہ اے نوح (علیہ السلام) ! تیرا بیٹا تیرے اہل میں نہیں رہا کیونکہ اس کے اعمال اچھے نہیں۔ اگر آئندہ آپ نے اس کے بارے میں سوال کیا تو ہم آپ کو جاہلوں میں شمار کریں گے۔ (سورۃ ہود : ٤٦) اسی اصول کو یہاں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ بعض انبیائے کرام (علیہ السلام) کی اولاد میں ایسے ناخلف پیدا ہوئے جنھوں نے نماز کو ضائع کیا اور اپنی بری خواہشات کے پیچھے لگے۔ عنقریب انھیں ہلاکت کے گڑھے میں پھینک دیا جائے گا۔ ” غیًا “ سے مراد جہنم کا ایک مخصوص گڑھا ہے۔ جس سے جہنم بھی پناہ مانگتی ہے جہنم سے ان لوگوں کو بچا لیا جائے گا۔ جنھوں نے کفر و شرک اور برے اعمال سے توبہ کی۔ اپنے رب پر سچے دل کے ساتھ ایمان لائے اور ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہوئے صالح اعمال کیے انھیں جنت میں داخل کیا جائے گا ان کے اعمال اور جزا میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی۔ ١۔ جب الحزن سے پناہ مانگو (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تَعَوَّذُوا باللَّہِ مِنْ جُبِّ الْحُزْنِ قَالُوا یَا رَسُول اللَّہِ وَمَا جُبُّ الْحُزْنِ قَالَ وَادٍ فِی جَہَنَّمَ تَتَعَوَّذُ مِنْہُ جَہَنَّمُ کُلَّ یَوْمٍ ماءَۃَ مَرَّۃٍ قُلْنَا یَا رَسُول اللَّہِ وَمَنْ یَدْخُلُہُ قَالَ الْقُرَّاءُ الْمُرَاءُ ونَ بِأَعْمَالِہِمْ ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی الرِّیَاءِ وَالسُّمْعَۃِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جب الحزن سے اللہ کی پناہ مانگو صحابہ نے عرض کی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب الحزن کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا جہنم کی ایک وادی ہے جس سے جہنم بھی ایک دن میں سو بار پناہ مانگتی ہے ہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول اس میں کون داخل ہوگا آپ نے فرمایا قراء جو اپنے اعمال میں دکھلاوا کرتے ہیں۔ “ ٢۔ نماز ضائع کرنے والے کا گناہ : (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ فیہِ إِلَی فِیَّ لاَ أَقُولُ حَدَّثَنِی فُلاَنٌ وَلاَ فُلاَنٌ خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَہُنَّ اللَّہُ عَلَی عِبَادِہِ فَمَنْ لَقِیَہُ بِہِنَّ لَمْ یُضَیِّعْ مِنْہُنَّ شَیْئاً لَقِیَہُ وَلَہُ عِنْدَہُ عَہْدٌ یُدْخِلُہُ بِہِ الْجَنَّۃَ وَمَنْ لَقِیَہُ وَقَدِ انْتَقَصَ مِنْہُنَّ شَیْئاً اسْتِخْفَافاً بِحَقِّہِنَّ لَقِیَہُ وَلاَ عَہْدَ لَہُ إِنْ شَاءَ عَذَّبَہُ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَہُ ) [ رواہ احمد : مسند عبادۃ بن صامت ] ” حضرت عبادہ بن صامت ہُرَیْرَۃَبیان کرتے ہیں کہتے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ مجھے فلاں، فلاں نے بیان کیا بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بذات خود مجھے فرمایا، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کیں ہیں، جو شخص اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے گا کہ اس نے نمازوں میں سے کوئی نماز ضائع نہ کی ہوگی۔ جب اللہ سے ملے گا تو اللہ تعالیٰ کا عہد ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے گا، اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے کہ اس نے نماز ترک کر رکھی تھی۔ وہ اللہ سے ملے گا تو اللہ کا اس کے ساتھ کوئی عہد نہیں اگر چاہے اسے عذاب دے اور اگر چاہے تو معاف فرما دے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔ ٢۔ نیک لوگوں کی جزا میں کسی قسم کی کمی نہیں ہونے پائے گی۔ ٣۔ نماز ضائع کرنے اور اپنی خواہش کے پیچھے لگنے والوں کو جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن نماز کی اہمیّت اور فضیلت : ١۔ نماز کی حفاظت کرو خصوصاً درمیانی نماز کی۔ (البقرۃ : ٢٣٨) ٢۔ نماز بےحیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ (العنکبوت : ٤٥) ٣۔ ایمان لانے والے اور نیک اعمال کرنے والے نماز قائم کرنے والے اور زکوٰۃ ادا کرنے والوں پر کسی قسم کا خوف نہیں ہوگا۔ ( البقرۃ : ٢٢٧)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اضاعوا الصلوۃ (٩١ : ٩٥) ” جنہوں نے نمازوں کو ضائع کردیا “۔ نمازوں کو چھوڑ دیا اور ان کا انکار ہی کردیا۔ واتعوا الشھوت (٩١ : ٩٥) ” انہوں نے خواہشات نفس کی پیروی شروع کردی “۔ پیروی خواہشات میں غرق ہوگئے۔ ذرا غور کیجئے کہ اسلاف اور اخلاف کے درمیان کس قدر فرق ہوگیا ہے اور ان کے درمیان مشابہت کے عام خدو...  خال مٹ گئے۔ ایسے لوگوں کو قرآن کریم تہدید آمیز تنبیہ کرتا ہے کہ وہ گمراہ ہوگئے ہیں ‘ انہوں نے اپنے صالح آباء کی پاک سیرتوں کو چھوڑ دیا ہے اس لیے فسوف یلقون غیا (٩١ : ٩٥) ” پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں “۔ غی کا مفہوم ہے گمراہی یعنی وہ گمراہ ہوجائیں گے اور بےراہ روی کا شکار ہوجائیں گے اور انجام یہ ہوگا کہ وہ تباہ ہوجائیں گے۔ لیکن ان اندوہناک اور تباہ کن حالات کے باوجود قرآن توبہ کا دروازہ کھول دیتا ہے جہاں سے باور حمت کے تازہ جھونکے آتے ہیں اور اللہ کی مہربانی اور نعمتوں کے راستے کھلے نظر آتے ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

شہوتوں کا اتباع ہر گناہ پر آمادہ کردیتا ہے (وَاتَّبَعُوا الشَّھَوَاتِ ) اس میں انسانوں کے اصل روگ کو بیان فرمایا اور وہ ہے خواہشوں کے پیچھے چلنا، نفسانی خواہشوں کا اگر مقابلہ نہ کیا جائے اور انسان ہمت اور جرأت سے کام نہ لے اور جو نفس چاہے وہی کرتا رہے تو یہ بڑے نقصان کا پیش خیمہ ہوتا ہے اور بربادی ... کا سبب بن جاتا ہے، جانی عبادات نماز روزہ اور مالی عبادات زکوٰۃ صدقات کی ادائیگی میں جو غفلت اور کوتاہی ہوتی ہے یا زندگی میں گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہے اس میں اصل یہی خواہشات نفس کا اتباع ہوتا ہے، روح المعانی (ص ١٠٩ ج ١٧) میں ہے : الشھوات عام فی کل مشتھی یشغل عن الصلوۃ وعن ذکر اللہ تعالیٰ انسان نماز نہیں پڑھتا اس لیے کہ نفس آمادہ نہیں۔ نیند چھوڑنا گوارا نہیں زکوٰۃ اس لیے نہیں دیتا کہ نفس مال خرچ کرنے پر تیار نہیں، چوری خیانت ڈکیتی دھوکہ دہی اس لیے کرتا ہے کہ نفس کو مال کی کثرت مرغوب ہے شراب پیتا ہے۔ زنا اور دواعی زنا کا ارتکاب کرتا ہے کیونکہ اس میں نفس کی لذت ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی اصل خرابی خواہش نفس کا اتباع ہے اور یہ نفس کا اتباع گناہوں کی جڑ ہے۔ (فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا) (سو یہ لوگ عنقریب خرابی دیکھیں گے) غی غوا یغوی سے ماخوذ ہے واؤ کا یا میں ادغام ہوگیا اس کا اصل ترجمہ بہکنا اور راہ حق سے بھٹک جانا ہے اسی لیے بعض حضرات نے اس جملہ کا مطلب یہ بتایا ہے کہ یہ لوگ اپنی گمراہی کی سزا پالیں گے اور بعض نے حاصل ترجمہ کیا ہے کہ یہ لوگ خرابی سے ملاقات کریں گے۔ اور صاحب روح المعانی نے بحوالہ ابن جریر اور طبرانی حضرت ابو امامہ (رض) سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ غی جہنم کے نیچے حصے میں ایک نہر ہے جس میں دوزخیوں کی پیپ بہتی ہے اور حضرت ابن مسعود (رض) سے نقل کیا ہے کہ غیئی دوزخ میں پیپ کی ایک نہر یا ایک وادی ہے جو خوب گہری ہے اس کا مزہ بہت خبیث ہے اس میں وہ لوگ ڈالے جائیں گے جو خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

42:۔ یہ سوال مقدر کا جواب ہے سوال یہ ہے کہ جب تمام انبیاء (علیہم السلام) صرف اللہ ہی کو متصرف جان کر پکارتے تھے تو پھر ان کو کیوں متصرف سمجھ کر پکارا گیا۔ تو اس کا جواب دیا گیا کہ ان کے بعد برے لوگوں نے ان کے دین اور توحید کو ضائع کردیا اور اللہ کی پکار کو چھوڑ کر غیر اللہ کو پکارنے لگے یہ حق اور مس... ئلہ توحید سے باغیوں کی جماعت تھی۔ ” خَلْفٌ“ ناخلف اور برے لوگ۔ الخلف الردی (مفردات) ۔ ان ناخلف لوگوں نے نماز جیسی اہم اور تمام عبادات کی جامع عبادت کو چھوڑ دیا اور نفسانی خواہشات کی پیروی میں منہمک ہوگئے۔ اضاعت صلوۃ سے یا تو ترک نماز مراد ہے یا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے خالص اللہ کی دعا اور پکار کو ضائع کر کے غیر اللہ کو پکارنا شروع کردیا۔ ” فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا “ اس میں تخویف اخروی ہے۔ ” غَیًّا اي ضلٰلا “ یعنی گمراہی لیکن یہاں مضاف محذوف ہے۔ جسے حذف کر کے مضاف الیہ کو اس کے قائم مقام کردیا گیا۔ ای جزاء الغی قالہ الزجاج (کبیر ج 5 ص 814) یعنی وہ گمراہی کی سزا پائیں گے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

59 پھر ان حضرات مذکورین کے بعد کچھ ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز کو ضائع کیا اور نفسانی اور ناجائز خواہشات کی پیروی کی اور نفسانی خواہشات کے پیچھے ہو لئے تو ایسے لوگ عنقریب اپنی گمراہی کو دیکھ لیں گے اور پانی گمراہی سے ملاقی ہوں گے۔ نماز کا ضائع کرنا یہ کہ نماز چھوڑ دی یا بےوقت پڑھی یا جماعت...  ترک کردی۔ یا نماز کے ضروری آداب اور خشوع و خضوع ترک کردیا۔ ناجائز خواہشات وہ خواہشیں جو اطاعت الٰہی سے روکنے والی ہوں۔ غتی ایک دوزخ کی وادی ہے یا تو وہ مراد ہے یا یہ کہ ان کی گمراہی اور بےراہ روی سامنے آئے گی اور دوزخ میں داخل ہوں گے خواہ دوزخ کا داخل ہنا ابدی نہ ہو اور اگر نماز کی فرضیت کا اعتقاد ہی نہ ہو تو ابدی ہو یہ ان ناخلف لوگوں کی سزا کا بیان تھا آگے ان کو مستثنیٰ فرمایا جنہوں نے اپنی اصلاح کرلی۔  Show more