Surat Marium

Surah: 19

Verse: 62

سورة مريم

لَا یَسۡمَعُوۡنَ فِیۡہَا لَغۡوًا اِلَّا سَلٰمًا ؕ وَ لَہُمۡ رِزۡقُہُمۡ فِیۡہَا بُکۡرَۃً وَّ عَشِیًّا ﴿۶۲﴾

They will not hear therein any ill speech - only [greetings of] peace - and they will have their provision therein, morning and afternoon.

وہ لوگ وہاں کوئی لغو بات نہ سنیں گے صرف سلام ہی سلام سنیں گے ان کے لئے وہاں صبح شام ان کا رزق ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لاَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا ... They shall not hear therein any Laghw. This means that in these gardens of Paradise there is no ignorant, wasteful and useless speech, like there is in this life. He said, ... إِلاَّ سَلَمًا ... ...but only Salam. This is an indifferent exception, similar to Allah's statement, لااَ يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْواً وَلااَ تَأْثِيماً إِلاَّ قِيلً سَلَـماً سَلَـماً No Laghw will they hear therein, nor any sinful speech. But only the saying of: Salam! Salam! (56:25-26) Concerning His statement, ... وَلَهُمْ رِزْقُهُمْ فِيهَا بُكْرَةً وَعَشِيًّا And they will have therein their sustenance, morning and afternoon. This means, in what is similar to mornings and evenings. This does not mean that there is a night and a day (in Paradise), but they will be living in times that alternate. They will know its lighted times from its lights and illumination. This is as Imam Ahmad recorded from Abu Hurayrah, who said that the Messenger of Allah said, أَوَّلُ زُمْرَةٍ تَلِجُ الْجَنَّةَ صُوَرُهُمْ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ لاَ يَبْصُقُونَ فِيهَا وَلاَ يَتَمَخَّطُونَ فِيهَا وَلاَيَتَغَوَّطُونَ انِيَتُهُمْ وَأَمْشَاطُهُمُ الذَّهَبُ وَالْفِضَّةُ وَمَجَامِرُهُمُ الاَْلُوَّةُ وَرَشْحُهُمُ الْمِسْكُ وَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ زَوْجَتَانِ يُرَى مُخُّ سَاقِهَا مِنْ وَرَاءِ اللَّحْمِ مِنَ الْحُسْنِ لاَ اخْتِلَفَ بَيْنَهُمْ وَلاَ تَبَاغُضَ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ يُسَبِّحُونَ اللهَ بُكْرَةً وَعَشِيًّا The first group to enter into Paradise will have forms like the form of the moon on a night when it is full. They will not spit, nor will they blow their noses therein. They also will not defecate. Their containers and combs will be made of gold and silver and their censers will be of aloes wood. Their sweat will be the fragrance of musk and each of them will have two wives. The marrow of their shins will be visible from beneath the skin due to their beauty. They will not have any disputes between them, or any hatred. Their hearts will be united like the heart of one man. They will glorify Allah in the morning and evening. Al-Bukhari and Muslim both recorded this narration in the Two Sahihs. Imam Ahmad also recorded that Ibn Abbas said that the Messenger of Allah said, الشُّهَدَاءُ عَلَى بَارِقِ نَهْرٍ بِبَابِ الْجَنَّةِ فِي قُبَّةٍ خَضْرَاءَ يَخْرُجُ عَلَيْهِمْ رِزْقُهُمْ مِنَ الْجَنَّةِ بُكْرَةً وَعَشِيًّا The martyrs will be upon the banks of a river by the gates of Paradise. Over them will be a green dome. Their sustenance will be brought out to them from Paradise, morning and evening. Ahmad is the only one who collected this narration. Ad-Dahhak reported that Ibn Abbas said, وَلَهُمْ رِزْقُهُمْ فِيهَا بُكْرَةً وَعَشِيًّا (And they will have therein their sustenance, morning and afternoon), "This means the amount of time equal to night and day." Allah said, تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَن كَانَ تَقِيًّا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

62۔ 1 یعنی فرشتے بھی انھیں ہر طرف سے سلام کریں گے اور اہل جنت بھی آپس میں ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کیا کریں گے۔ 62۔ 2 امام احمد نے اس کی تفسیر میں کہا کہ جنت میں رات اور دن نہیں ہونگے، صرف اجالا ہی اجالا اور روشی ہی روشنی ہوگی۔ حدیث میں ہے۔ جنت میں داخل ہونے والے پہلے گروہ کی شکلیں چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوں گی، وہاں انھیں تھوک آئے گا نہ رینٹ اور بول وبزاز۔ ان کے برتن اور کنگھیاں سونے کی ہونگی، ان کا بخور، خوشبودار (لکڑی) ہوگی۔ ان کا پسینہ کستوری (کی طرح) ہوگا۔ ہر جنتی کی دو بیویاں ہوں گی، ان کی پنڈلیوں کا گودا ان کے گوشت کے پیچھے نظر آئے گا، ان کے حسن جمال کی وجہ سے۔ ان میں باہم بغض اور اختلاف نہیں ہوگا، ان کے دل، ایک دل کی طرح ہوں گے، صبح شام اللہ کی تسبیح کریں گے (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٧] لغو سے مراد :۔ بیہودہ بات سے مراد جھوٹی بات، غیبت، چغلی، تمسخر، فتنہ و فساد، یا شرارت کی بات، بےمعنی بات یا گندی اور شہوانیت کی بات اور گالی گلوچ سب کچھ شامل ہے۔ گویا جنت کا معاشرہ ایسا پاکیزہ معاشرہ ہوگا کہ ان باتوں میں سے کوئی بات بھی وہاں نہ پائی جائے گی اور لفظ سلٰما کا ایک مطلب تو وہی ہے جو ترجمہ میں مذکور ہے۔ اور اس لفظ کا دوسرا مطلب لفظ لغو کی ضد کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ یعنی اہل جنت آپس میں ایسے پیار، محبت اور خلوص سے رہیں گے جو ہر طرح کے معاشرتی عیوب و نقائص سے پاک ہوگا۔ اور ایسے پاکیزہ معاشرہ کی قدروقیمت صرف وہ آدمی جان سکتا ہے جو خود تو پاکیزہ خصلت ہو لیکن اسے کسی گندے معاشرے میں رہنا پڑا ہو۔ [٥٨] یعنی روحانی غذائیں بھی جیسے تسبیح و تہلیل اور ذکر و اذکار اور جسمانی بھی اور ان دونوں طرح کی غذاؤں کا ذکر کتاب و سنت میں بکثرت موجود ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًا : اہل ایمان کے لیے دنیا میں ایک شدید تکلیف لغو کلام سننا ہے، جسے وہ سننا نہیں چاہتے۔ اس تکلیف کا اندازہ اور اس سے بچے رہنے کی نعمت کی قدر صرف وہ لوگ کرسکتے ہیں جنھیں اس سے سابقہ پڑا ہو۔ جنت میں انھیں ایسی باتوں کے بجائے ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے یا فرشتوں کی طرف سے یا ایک دوسرے کی طرف سے سلام کی آواز آئے گی۔ دیکھیے سورة یس (٥٨) اور سورة رعد (٢٣، ٢٤) یا ایسی بات سنائی دے گی جو ہر طرح کی تکلیف سے پاک اور سراسر سلامتی والی ہوگی، یعنی کوئی لغو یا تکلیف دہ بات ان کے کانوں میں نہیں پڑے گی۔ بُكْرَةً وَّعَشِيًّا : بظاہر معنی یہ ہے کہ اتنی دیر کے بعد جتنی دیر کے بعد دنیا میں صبح سے شام ہوتی ہے مگر یہ معنی راجح نہیں، کیونکہ اتنی دیر تو دنیا میں کھانے پینے سے صبر کرنا مشکل ہے، تو وہ جنت ہی کیا ہوئی جس میں صرف صبح و شام راشن ملے۔ اس لیے اس کا معنی ہر وقت اور ہمیشہ ہے، یعنی ہر وقت جب بھی انھیں کھانے کی یا لذت کی کسی بھی چیز کی خواہش ہوگی، کیونکہ جنت میں دنیا کی طرح کا نہ دن ہوگا اور نہ رات۔ صبح شام بول کر ہمیشگی مراد لینا صرف عربی ہی نہیں ہر زبان کا عام محاورہ ہے۔ خصوصاً اس لیے کہ جنتیوں کو ہر وہ چیز ملے گی جس کی انھیں خواہش ہوگی، خواہ کسی وقت خواہش ہو۔ دیکھیے سورة زخرف (٧١) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

لَّا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا إِلَّا سَلَامًا |"They will not hear anything absurd therein but a word of peace.|" - 19:62. (لَغو) means idle, absurd, frivolous and abusive talk, which will not reach the ears of good people who have been admitted to Paradise. إِلَّا سَلَامًا means that whatever one will hear in Paradise will add to his happiness, peace and tranquility. It includes the customary greetings (سَلَام), which the dwellers of Paradise will exchange among themselves and the angels of God will offer them all. (Qurtubi) وَلَهُمْ رِ‌زْقُهُمْ فِيهَا بُكْرَ‌ةً وَعَشِيًّا |"And there they will have their provisions at morn and eve.|" - 19:62. There will be no solar system in the Paradise and hence no rising or setting of the sun, but there will be a perpetual radiance. There will also be some way of telling day from night and morning from evening. Within this distinction between morning and evening the Paradise dwellers will receive their meals. It goes without saying that the wishes of the Paradise dwellers will be fulfilled forthwith وَلَهُم مَّا يَشْتَهُونَ - and for themselves, there is what they desire - 16:57). This is a general announcement. Hence, mention of morning and evening is because of people&s habit to eat and drink in the morning and in the evening. According to an Arab saying, anyone who gets a full meal morning and evening is comfortable and at peace. Sayyidna Anas Ibn Malik (رض) ، said after reciting this verse that it shows that the believers have their meals twice a day, one in the morning and the other in the evening. Some scholars have explained that mention of morning and the evening is a general expression, like day and night or east and west, which does not specify any particular time or place. Therefore, it means that they (Paradise dwellers) will get their provisions according to their choice at any time they like. (Only God knows best) (Qurtubi)

لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا، لغو سے مراد کلام باطل فضول اور گالی گلوچ اور ایذاء دینے والا کلام ہے کہ اہل جنت اس سے پاک صاف رہیں گے کوئی کلمہ ان کے کان میں ایسا نہ پڑے گا جو ان کو رنج و تکلیف پہنچائے۔ اِلَّا سَلٰمًا، یہ استشناء منقطع ہے مراد یہ ہے کہ وہاں جس کا جو کلام سننے میں آوے گا وہ سلامتی اور بھلائی اور خوشی میں اضافہ کرے گا۔ اصطلاحی سلام بھی اس میں داخل ہے جو اہل جنت آپس میں ایک دوسرے کو کریں گے اور اللہ کے فرشتے ان سب کو کریں گے۔ (قرطبی) وَلَهُمْ رِزْقُـهُمْ فِيْهَا بُكْرَةً وَّعَشِيًّا، جنت میں یہ نظام شمسی اور طلوع و غروب باللیل والنہار تو نہ ہوگا، ایک قسم کی روشنی ہمہ وقت رہے گی مگر رات اور دن اور صبح اور شام کے امتیازات کسی خاص انداز سے ہوں گے۔ اسی صبح و شام میں اہل جنت کا رزق ان کو پہنچے گا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ اہل جنت کو جس وقت جس چیز کی خواہش ہوگی وہ اسی وقت بلا تاخیر پوری کی جاوے گی (وَلَهُمْ مَّا يَشْتَهُوْنَ ) اعلان عام ہے پھر صبح و شام کی تخصیص کی وجہ انسانی عادت و فطرت کی بناء پر ہے کہ وہ صبح و شام کھانے پینے کا عادی ہوتا ہے۔ عرب کہتے ہیں کہ جس شخص کو صبح شام کی غذا پوری ملے وہ آرام و عیش والا ہے۔ حضرت انس بن مالک (رض) نے یہ آیت تلاوت فرما کر کہا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤمنین کا کھانا دن میں دو مرتبہ ہوتا ہے صبح اور شام۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یہاں صبح شام کا لفظ بول کر عموم مراد ہے جیسے رات دن کا لفظ بھی یا مشرق مغرب کا لفظ عموم کے لئے بولا جاتا ہے کوئی خاص وقت یا جگہ مراد نہیں ہوتی تو مطلب یہ ہوگا کہ ان کا رزق ان کی خواہش کے موافق ہر وقت موجود رہے گا۔ واللہ اعلم (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْہَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًا ۝ ٠ۭ وَلَہُمْ رِزْقُـہُمْ فِيْہَا بُكْرَۃً وَّعَشِـيًّا۝ ٦٢ لغو اللَّغْوُ من الکلام : ما لا يعتدّ به، وهو الذي يورد لا عن رويّة وفكر، فيجري مجری اللَّغَا، وهو صوت العصافیر ونحوها من الطّيور، قال أبو عبیدة : لَغْوٌ ولَغًا، نحو : عيب وعاب وأنشدهم : 407- عن اللّغا ورفث التّكلّم «5» يقال : لَغِيتُ تَلْغَى. نحو : لقیت تلقی، وقد يسمّى كلّ کلام قبیح لغوا . قال : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا كِذَّاباً [ النبأ/ 35] ، وقال : وَإِذا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ [ القصص/ 55] ، لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً [ الواقعة/ 25] ، وقال : وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ [ المؤمنون/ 3] ، وقوله : وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان/ 72] ، أي : كنّوا عن القبیح لم يصرّحوا، وقیل : معناه : إذا صادفوا أهل اللّغو لم يخوضوا معهم . ويستعمل اللغو فيما لا يعتدّ به، ومنه اللَّغْوُ في الأيمان . أي : ما لا عقد عليه، وذلک ما يجري وصلا للکلام بضرب من العادة . قال : لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] ومن هذا أخذ الشاعر فقال : 408- ولست بمأخوذ بلغو تقوله ... إذا لم تعمّد عاقدات العزائم «1» وقوله : لا تَسْمَعُ فِيها لاغِيَةً [ الغاشية/ 11] أي : لغوا، فجعل اسم الفاعل وصفا للکلام نحو : کاذبة، وقیل لما لا يعتدّ به في الدّية من الإبل : لغو، وقال الشاعر : 409 ۔ كما أَلْغَيْتَ في الدّية الحوارا «2» ولَغِيَ بکذا . أي : لهج به لهج العصفور بِلَغَاه . أي : بصوته، ومنه قيل للکلام الذي يلهج به فرقة فرقة : لُغَةٌ. ( ل غ و ) اللغو ۔ ( ن ) کے معنی بےمعنی بات کے ہے جو کسی گنتی شمار میں نہ ہو یعنی جو سوچ سمجھ کر نہ کی جائے گویا وہ پرندوں کی آواز کی طرح منہ سے نکال دی جائے ابو عبیدہ کا قول ہے کہ اس میں ایک لغت لغا بھی ہے ۔ جیسے عیب وعاب شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 394) عن اللغ اور فث التکم جو بہیودہ اور فحش گفتگو سے خاموش ہیں ۔ اس کا فعل لغیث تلغیٰ یعنی سمع سے ہے ۔ اور کبھی ہر قبیح بات کو لغو کہہ دیا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا كِذَّاباً [ النبأ/ 35] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے نہ جھوٹ اور خرافات وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ [ المؤمنون/ 3] اور جو بہیودہ باتوں سے اعراض کرتے ہیں ۔ وَإِذا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ [ القصص/ 55] اور جب بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔ لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً [ الواقعة/ 25] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ الزام تراشی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان/ 72] اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے باس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو شریفا نہ انداز سے گرزتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ فحش بات کبھی صراحت سے نہیں کہتے ۔ بلکہ ہمیشہ کنایہ سے کام لیتے ہیں ۔ اور بعض نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ اگر کہیں اتفاق سے وہ ایسی مجلس میں چلے جاتے ہیں ۔ جہاں بیہودہ باتیں ہو رہی ہوتی ہیں تو اس سے دامن بچاکر نکل جاتے ہیں ۔ پس لغو ہر اس بات کا کہاجاتا ہے جو کسی شمار قطار میں نہ ہو ۔ اور اسی سے لغو فی الایمان ہے ۔ یعنی وہ قسم جو یونہی بلا ارادہ زبان سے نکل جائے چناچہ قرآن میں ہے : لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا اور شاعر نے کہا ہے ( البسیط) (395) ولست بماخود بلغو تقولہ اذالم تعمد عاقدات العزائم لغو قسم کھانے پر تم سے مواخذہ نہیں ہوگا بشرطیکہ قصدا غرم قلب کے ساتھ قسم نہ کھائی جائے ۔ اور آیت کریمہ لا تَسْمَعُ فِيها لاغِيَةً [ الغاشية/ 11] وہاں کسی طرح کی بکواس نہیں سنیں گے ۔ میں لاغیۃ بمعنی لغو کے ہے اور یہ ( اسم فاعل ) کلام کی صفت واقع ہوا ہے جیسا کہ کاذبۃ وغیرہ ۔ اور خونبہا میں لغو اونٹ کے ان بچوں کو کہا جاتا ہے جو گنتی میں شمار نہ کئے جائیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (396) کما الغیت فی الدابۃ الحوارجیسا کہ اونٹ کے چھوٹے بچے کو خونبہا میں ناقابل شمار سمجھا جاتا ہے لغی بکذا کے معنی چڑیا کے چہچہانے کی طرح کسی چیز کا بار بار تذکرہ کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور اسی سے ہر گز وہ کی زبان اور بولی جس کے ذریعے وہ بات کرتا ہ لغۃ کہلاتی ہے ۔ سلام السِّلْمُ والسَّلَامَةُ : التّعرّي من الآفات الظاهرة والباطنة، قال : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء/ 89] ، أي : متعرّ من الدّغل، فهذا في الباطن، وقال تعالی: مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها [ البقرة/ 71] ، فهذا في الظاهر، وقد سَلِمَ يَسْلَمُ سَلَامَةً ، وسَلَاماً ، وسَلَّمَهُ الله، قال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال/ 43] ، وقال : ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر/ 46] ، أي : سلامة، وکذا قوله : اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود/ 48] . والسّلامة الحقیقيّة ليست إلّا في الجنّة، إذ فيها بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وصحّة بلا سقم، كما قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : السلام ة، قال : وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس/ 25] ، وقال تعالی: يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة/ 16] ، يجوز أن يكون کلّ ذلک من السّلامة . وقیل : السَّلَامُ اسم من أسماء اللہ تعالیٰ «1» ، وکذا قيل في قوله : لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام/ 127] ، والسَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر/ 23] ، قيل : وصف بذلک من حيث لا يلحقه العیوب والآفات التي تلحق الخلق، وقوله : سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس/ 58] ، سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد/ 24] ، سلام علی آل ياسین «2» كلّ ذلک من الناس بالقول، ومن اللہ تعالیٰ بالفعل، وهو إعطاء ما تقدّم ذكره ممّا يكون في الجنّة من السّلامة، وقوله : وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان/ 63] ، أي : نطلب منکم السّلامة، فيكون قوله ( سلاما) نصبا بإضمار فعل، وقیل : معناه : قالوا سَلَاماً ، أي : سدادا من القول، فعلی هذا يكون صفة لمصدر محذوف . وقوله تعالی: إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات/ 25] ، فإنما رفع الثاني، لأنّ الرّفع في باب الدّعاء أبلغ «3» ، فكأنّه تحرّى في باب الأدب المأمور به في قوله : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء/ 86] ، ومن قرأ سلم «4» فلأنّ السّلام لمّا کان يقتضي السّلم، وکان إبراهيم عليه السلام قد أوجس منهم خيفة، فلمّا رآهم مُسَلِّمِينَ تصوّر من تَسْلِيمِهِمْ أنهم قد بذلوا له سلما، فقال في جو ابهم : ( سلم) ، تنبيها أنّ ذلک من جهتي لکم كما حصل من جهتكم لي . وقوله تعالی: لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة/ 25- 26] ، فهذا لا يكون لهم بالقول فقط، بل ذلک بالقول والفعل جمیعا . وعلی ذلک قوله تعالی: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 91] ، وقوله : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] ، فهذا في الظاهر أن تُسَلِّمَ عليهم، وفي الحقیقة سؤال اللہ السَّلَامَةَ منهم، وقوله تعالی: سَلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات/ 79] ، سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات/ 120] ، سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات/ 109] ، كلّ هذا تنبيه من اللہ تعالیٰ أنّه جعلهم بحیث يثنی __________ عليهم، ويدعی لهم . وقال تعالی: فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور/ 61] ، أي : ليسلّم بعضکم علی بعض . ( س ل م ) السلم والسلامۃ کے معنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء/ 89] پاک دل ( لے کر آیا وہ بچ جائیگا یعنی وہ دل جو دغا اور کھوٹ سے پاک ہو تو یہ سلامت باطن کے متعلق ہے اور ظاہری عیوب سے سلامتی کے متعلق فرمایا : مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها[ البقرة/ 71] اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو ۔ پس سلم یسلم سلامۃ وسلاما کے معنی سلامت رہنے اور سلمۃ اللہ ( تفعیل ) کے معنی سلامت رکھنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال/ 43] لیکن خدا نے ( تمہیں ) اس سے بچالیا ۔ ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر/ 46] ان میں سلامتی اور ( خاطر جمع ) سے داخل ہوجاؤ ۔ اسی طرح فرمایا :۔ اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود/ 48] ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ ۔۔۔ اترآؤ ۔ اور حقیقی سلامتی تو جنت ہی میں حاصل ہوگی جہاں بقائ ہے ۔ فنا نہیں ، غنا ہے احتیاج نہیں ، عزت ہے ذلت نہیں ، صحت ہے بیماری نہیں چناچہ اہل جنت کے متعلق فرمایا :۔ لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے ۔ وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس/ 25] اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة/ 16] جس سے خدا اپنی رضامندی پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے ۔ ان تمام آیات میں سلام بمعنی سلامتی کے ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں السلام اسمائے حسنیٰ سے ہے اور یہی معنی آیت لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام/ 127] میں بیان کئے گئے ہیں ۔ اور آیت :۔ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر/ 23] سلامتی امن دینے والا نگہبان ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وصف کلام کے ساتھ موصوف ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جو عیوب و آفات اور مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے ۔ اور آیت :۔ سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس/ 58] پروردگار مہربان کی طرف سے سلام ( کہاجائیگا ) سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد/ 24] اور کہیں گے ) تم رحمت ہو ( یہ ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے ۔ سلام علی آل ياسین «2» کہ ایسا پر سلام اور اس مفہوم کی دیگر آیات میں سلام علیٰ آیا ہے تو ان لوگوں کی جانب سے تو سلامتی بذریعہ قول مراد ہے یعنی سلام علی ٰ الخ کے ساتھ دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلامتی بالفعل مراد ہے یعنی جنت عطافرمانا ۔ جہاں کہ حقیقی سلامتی حاصل ہوگی ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اور آیت :۔ وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان/ 63] اور جب جاہل لوگ ان سے ( جاہلانہ ) گفتگو کرتے ہیں ۔ تو سلام کہتے ہیں ۔ مٰیں قالوا سلاما کے معنی ہیں ہم تم سے سلامتی چاہتے ہیں ۔ تو اس صورت میں سلاما منصوب اور بعض نے قالوا سلاحا کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اچھی بات کہتے ہیں تو اس صورت میں یہ مصدر مخذوف ( یعنی قولا ) کی صٖت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات/ 25] جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا ۔ انہوں نے بھی ( جواب میں ) سلام کہا ۔ میں دوسری سلام پر رفع اس لئے ہے کہ یہ باب دعا سے ہے اور صیغہ دعا میں رفع زیادہ بلیغ ہے گویا اس میں حضرت ابراہیم نے اس اد ب کو ملحوظ رکھا ہے جس کا کہ آیت : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء/ 86] اور جب تم کوئی دعا دے تو ( جواب میں ) تم اس سے بہتر ( کا مے) سے ( اسے ) دعا دو ۔ میں ھکم دیا گیا ہے اور ایک قرآت میں سلم ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ سلام سلم ( صلح) کو چاہتا تھا اور حضرت ابراہیم السلام ان سے خوف محسوس کرچکے تھے جب انہیں سلام کہتے ہوئے ۔ ستاتو اس کو پیغام صلح پر محمول کیا اور جواب میں سلام کہہ کر اس بات پر متنبہ کی کہ جیسے تم نے پیغام صلح قبول ہو ۔ اور آیت کریمہ : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة/ 25- 26] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے ار نہ گالی گلوچ ہاں ان کا کلام سلام سلام ( ہوگا ) کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات صرف بذیعہ قول نہیں ہوگی ۔ بلکہ اور فعلا دونوں طرح ہوگئی ۔ اسی طرح آیت :: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 91] تو ( کہا جائیگا کہ ) تم پر پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام میں بھی سلام دونوں معنی پر محمول ہوسکتا ہے اور آیت : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] اور سلام کہدو ۔ میں بظارہر تو سلام کہنے کا حکم ہے لیکن فی الحققیت ان کے شر سے سللامتی کی دعا کرنے کا حکم ہے اور آیات سلام جیسے سلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات/ 79]( یعنی ) تمام جہان میں نوح (علیہ السلام) پر سلام کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام ۔ ۔ سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات/ 120] ابراہیم پر سلام ۔ سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات/ 109] میں اس بات پر تنبیہ ہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء ابراہیم کو اس قدر بلند مرتبہ عطا کیا تھا کہ لوگ ہمیشہ ان کی تعریف کرتے اور ان کے لئے سلامتی کے ساتھ دعا کرتے رہیں گے اور فرمایا : فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور/ 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھر والوں ) کو سلام کیا کرو ۔ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کہاکرو ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو بكر أصل الکلمة هي البُكْرَة التي هي أوّل النهار، فاشتق من لفظه لفظ الفعل، فقیل : بَكَرَ فلان بُكُورا : إذا خرج بُكْرَةً ، والبَكُور : المبالغ في البکرة، وبَكَّر في حاجته وابْتَكَر وبَاكَرَ مُبَاكَرَةً. وتصوّر منها معنی التعجیل لتقدمها علی سائر أوقات النهار، فقیل لكلّ متعجل في أمر : بِكْر، قال الشاعر بكرت تلومک بعد وهن في النّدى ... بسل عليك ملامتي وعتاب وسمّي أول الولد بکرا، وکذلك أبواه في ولادته [إيّاه تعظیما له، نحو : بيت الله، وقیل : أشار إلى ثوابه وما أعدّ لصالحي عباده ممّا لا يلحقه الفناء، وهو المشار إليه بقوله تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ ] «3» [ العنکبوت/ 64] ، قال الشاعر يا بکر بكرين ويا خلب الکبد «4» فبکر في قوله تعالی: لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة/ 68] . هي التي لم تلد، وسمّيت التي لم تفتضّ بکرا اعتبارا بالثيّب، لتقدّمها عليها فيما يراد له النساء، وجمع البکر أبكار . قال تعالی:إِنَّا أَنْشَأْناهُنَّ إِنْشاءً فَجَعَلْناهُنَّ أَبْکاراً [ الواقعة/ 35- 36] . والبَكَرَة : المحالة الصغیرة، لتصوّر السرعة فيها . ( ب ک ر ) اس باب میں اصل کلمہ بکرۃ ہے جس کے معنی دن کے ابتدائی حصہ کے ہیں پھر اس سے صیغہ فعل مشتق کرکے کہا جاتا ہے ۔ بکر ( ن ) فلان بکورا کسی کام کو صبح سویرے نکلنا ۔ البکور ( صیغہ مبالغہ ) بہت سویرے جانے والا ۔ بکر ۔ صبح سورے کسی کام کے لئے جانا اور بکرۃ دن کا پہلا حصہ ) چونکہ دن کے باقی حصہ پر متقدم ہوتا ہے اس لئے اس سے شتابی کے معنی لے کر ہر اس شخص کے معلق بکدرس ) فعل استعمال ہوتا ہے جو کسی معاملہ میں جلد بازی سے کام نے شاعر نے کہا ہے وہ کچھ عرصہ کے بعد جلدی سے سخاوت پر ملامت کرنے لگی میں نے کہا کہ تم پر مجھے ملامت اور عتاب کرنا حرام ہے ۔ بکر پہلا بچہ اور جب ماں باپ کے پہلا بچہ پیدا ہو تو احتراما انہیں بکر ان کہا جاتا ہے جیسا کہ بیت اللہ بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ثواب الہی اور ان غیر فانی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے تیار کی ہیں جس کی طرف آیت کریمہ : ۔ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ ] «3» [ العنکبوت/ 64] اور ( ہمیشہ کی زندگی ( کا مقام تو آخرت کا گھر ہے میں اشارہ فرمایا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( رجز ) ( 23 ) اے والدین کے اکلوتے بیٹے اور جگر گوشے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة/ 68] نہ تو بوڑھا ہو اور نہ بچھڑا ۔ میں بکر سے نوجوان گائے مراد ہے جس نے ابھی تک کوئی بچہ نہ دیا ہو ۔ اور ثیب کے اعتبار سے دو شیزہ کو بھی بکر کہا جاتا ہے کیونکہ اسے مجامعت کے لئے ثیب پر ترجیح دی جاتی ہے بکر کی جمع ابکار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْشَأْناهُنَّ إِنْشاءً فَجَعَلْناهُنَّ أَبْکاراً [ الواقعة/ 35- 36] ہم نے ان ( حوروں ) کو پیدا کیا تو ان کو کنوار یاں بنایا ۔ البکرۃ چھوٹی سی چرخی ۔ کیونکہ وہ تیزی کے ساتھ گھومتی ہے ۔ عشا العَشِيُّ من زوال الشمس إلى الصّباح . قال تعالی: إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها[ النازعات/ 46] ، والعِشَاءُ : من صلاة المغرب إلى العتمة، والعِشَاءَانِ : المغرب والعتمة «1» ، والعَشَا : ظلمةٌ تعترض في العین، ( ع ش ی ) العشی زوال آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک کا وقت قرآن میں ہے : ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْضُحاها[ النازعات 46] گویا ( دنیا میں صرف ایک شام یا صبح رہے تھے ۔ العشاء ( ممدود ) مغرب سے عشا کے وقت تک اور مغرب اور عشا کی نمازوں کو العشاء ن کہا جاتا ہے اور العشا ( توندی تاریکی جو آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے رجل اعثی جسے رتوندی کی بیمار ی ہو اس کی مؤنث عشراء آتی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ (لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًا ط) ” جنت میں ہر طرف سے سلام سلام کی آوازیں آرہی ہوں گی۔ ہر طرف سے فرشتوں کا ورود ہوگا اور وہ اہل جنت کو سلام کہہ رہے ہوں گے۔ سورة الواقعہ میں اس مضمون کو ایسے بیان فرمایا گیا ہے : (لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا۔ اِلَّا قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا ) ” وہ اس میں کوئی لغو اور گناہ کی بات نہیں سنیں گے ‘ مگر ایک ہی بات : سلام ! سلام ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

38. The word used is salam, which means free from defect and fault. It implies to mean that the greatest blessing that man will enjoy in Paradise will be that there he will hear no idle, vile or indecent talk. All the dwellers of Paradise will be neat and clean and pure people and every individual will be gentle and right minded by nature. Everybody will be secure against backbiting, slander and indecent songs and other ugly sounds. Whatever men will hear will be good, sensible and right. This is indeed a great blessing which only that person can fully appreciate, who possesses a neat and fine taste, because only such a one can feel the misery of living among a dirty society, where his ears are never immune against lies, backbiting, slander, and mischievous and sensual talk.

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :38 اصل میں لفظ سلام استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں عیب اور نقص سے محفوظ ۔ جنت میں نعمتیں انسان کو میسر ہوں گی ان میں سے ایک بڑی نعمت یہ ہو گی کہ وہاں بیہودہ اور فضول گندی بات سننے میں نہ آئے گی ۔ وہاں کا پورا معاشرہ ایک ستھرا اور سنجیدہ اور پاکیزہ معاشرہ ہوگا جس کا ہر فرد سلیم الطبع ہوگا ۔ وہاں کے رہنے والوں کو غیبتوں اور گالیوں اور فحش گانوں اور دوسری بری آوازوں کی سماعت سے پوری نجات مل جائے گی ۔ وہاں آدمی جو کچھ سنے گا ۔ اور معقول اور بجا باتیں ہی سنے گا ۔ اس نعمت کی قدر وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو اس دنیا میں فی الواقع ایک پاکیزہ اور ستھرا ذوق رکھتا ہو ۔ کیونکہ وہی یہ محسوس کرسکتا ہے کہ انسان کے لئے ایک ایسی گندی سوسائٹی میں رہنا کتنی بڑی مصیبت ہے جہاں کسی وقت بھی اس کے کان جھوٹ ، غیب ، فتنہ و فساد ، گندگی اور شہوانیت کی باتوں سے محفوظ نہ ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:62) فیھا۔ میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب جنت عدن کے لئے ہے۔ بکرۃ وعشیا۔ صبح وشام۔ یہاں صبح وشام سے مراد ہمیشگی اور دوام ہے۔ کیونکہ جنت میں شام جو تاریکی کو مستلزم ہے اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہاں تو نور ہی نور ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لایسمعون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الاسلما (٩١ : ٢٦) ” وہاں وہ کوئی بیہودہ بات نہ سنیں گے ‘ جو بات بھی سنیں گے صحیح سنیں گے “۔ کوئی فضول بات وہاں نہ ہوگی ‘ نہ شور و شغب ہوگا۔ وہاں ہر طرف سے سلامتی ہی سلامتی ہوگی۔ اس جنت میں ضروریات اور رزق ہر وقت مطابق خواہش دستیاب ہوگا۔ کسی نفس کو کوئی قلق نہ ہوگا ‘ کوئی خوف نہ ہوگا۔ کسی چیز کی کمی کا خطرہ نہ ہوگا۔ ولھم۔۔۔۔۔ وعشیا (٩١ : ٢٦) ” اور ان کا رزق انہیں صبح و شام پہیم ملتارہ گا “۔ مطابق خواہش۔۔۔۔ غرض نہایت ہی خوشگوار ماحول ہوگا اور اللہ کی نعمتوں کا ہر سوا علان ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْواً اِلَّا سَلَامًا) (جنت میں سلام ہی کی آوازیں سنیں گے کوئی لغو اور فضول اور بےفائدہ بات نہیں سنیں گے) اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ان پر سلام آئے گا (وَسَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْمٍ ) اور آپس میں بھی ایک دوسرے کو سلام کریں گے۔ (تَحِیَّتُھُمْ فِیْھَا سَلاَمٌ) اور فرشتے جب ان کے پاس آئیں گے تو وہ بھی سلام کریں گے۔ (سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارْ ) (تم اس وجہ سے باسلامت رہو گے کہ تم نے صبر کیا سو اس جہاں میں تمہارا اچھا انجام ہوا) (وَلَھُمْ رْزْقُھُمْ فِیْھَا بُکْرَۃً وَّعَشِیًّا) (اور انھیں اس میں صبح شام رزق ملے گا) ۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے اپنی تفسیر (ص ١٢٩ ج ٣) میں حضرت ابن عباس (رض) وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ صبح شام سے رات اور دن کی مقدار مراد ہے وہاں رات اور دن نہ ہوگا البتہ ان کی مقدار میں پردے ڈال دینے اور پردوں کے اٹھا دینے سے رات دن کے اوقات پہچان لیں گے اور حضرت مجاہد (رح) سے نقل کیا ہے کہ وہاں صبح شام تو نہ ہوگی لیکن جس طرح دنیا میں ان کے کھانے پینے کے اوقات تھے اور ان کے مطابق صبح و شام کھانا کھاتے تھے انھیں اوقات کے اندازہ کے موافق انھیں رزق پیش کیا جائے گا۔ (اور یوں ہر وقت جو چاہیں گے اور طلب کریں گے ان کی خواہش پوری کی جائے گی)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

62 یہ جنتی لوگ اس جنت میں کوئی لغو اور فضول بات نہیں سنیں گے مگر سلام کی آواز اور ان لوگوں کو ان کی روزی صبح اور شام ملا کرے گی۔ یعنی وہاں سوائے سلام کے اور کوئی لغو اور بیہودہ بات یا بک بک نہیں ہوگی۔ یہ سلام یا تو فرشتے کریں گے اور یا آپس میں ایک دوسرے کو السلام علیکم کہتے ہوں گے۔ صبح شام کا یہ مطلب ہے کہ مقدار صبح و شام یعنی اندازے سے ورنہ وہاں یہ دنیا کی صبح وشام کہاں اور جہاں نور ہی نور ہو وہاں تاریکی کہاں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں بک بک نہ سنیں گے سلام علیک کی آواز بلند سنیں گے 12