The Angels do not descend, except by Allah's Command
Imam Ahmad recorded that Ibn Abbas said that the Messenger of Allah said to Jibril,
مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَزُورَنَا أَكْثَرَ مِمَّا تَزُورُنَا
What prevents you from visiting us more than you do?
Then this Ayah was revealed,
وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلاَّ بِأَمْرِ رَبِّكَ
...
And we descend not except by the command of your Lord.
Al-Bukhari was alone in recording it and he related it with the Tafsir of this Ayah.
Al-Awfi reported from Ibn Abbas that he said,
"Jibril was kept from visiting the Messenger of Allah, so he was disturbed and grieved because of this.
Then, Jibril came to him and said, `O Muhammad,
وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلاَّ بِأَمْرِ رَبِّكَ
(And we descend not except by the command of your Lord)."'
Allah said,
...
لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا
...
To Him belongs what is before us and what is behind us,
It has been said that the meaning of "what is before us" refers to that which is in this life and "what is behind us" refers to the Hereafter.
...
وَمَا بَيْنَ ذَلِكَ
...
and what is between those two;
This means what is between two blows of the Sur.
This is the opinion of Abu Al-Aliyah, Ikrimah and Mujahid.
This was also stated by Sa`id bin Jubayr and Qatadah in one narration from them.
As-Suddi and Ar-Rabi` bin Anas held this opinion as well.
It has also been said,
مَا بَيْنَ أَيْدِينَا
(what is before us),
means the future matters of the Hereafter.
وَمَا خَلْفَنَا
(what is behind us),
means what has taken place in this life,
...
وَمَا بَيْنَ ذَلِكَ
...
what is between those two;
means what happens between this life and the Hereafter.
A statement like this explanation has been reported from Ibn Abbas, Sa`id bin Jubayr, Ad-Dahhak, Qatadah, Ibn Jurayj and Ath-Thawri.
Ibn Jarir also preferred this latter interpretation.
And Allah knows best.
Concerning Allah's statement,
...
وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا
and your Lord is never forgetful.
Mujahid said,
"This means that your Lord has not forgotten you."
Allah said,
جبرائیل علیہ السلام کی آمد میں تاخیر کیوں؟
صحیح بخاری شریف میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا آپ جتنا آتے ہیں اس سے زیادہ کیوں نہیں آتے ؟ اس کے جواب پر یہ آیت اتری ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے آنے میں تاخیر ہوگئی جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم غمگین ہوئے پھر آپ یہ آیت لے کر نازل ہوئے ۔ روایت ہے کہ بارہ دن یا اس سے کچھ کم تک نہیں آئے تھے جب آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اتنی تاخیر کیوں ہوئی ؟ مشرکین تو کچھ اور ہی اڑانے لگے تھے اس پر یہ آیت اتری ۔ پس گو یہ یہ آیت سورہ والضحی کی آیت جیسی ہے ۔ کہتے ہیں کہ چالیس دن تک ملاقات نہ ہوئی تھی جب ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا میرا شوق تو بہت ہی بےچین کئے ہوئے تھا ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا اس سے کسی قدر زیادہ شوق خود مجھے آپ کی ملاقات کا تھا لیکن میں اللہ کے حکم کا مامور اور پابند ہوں وہاں سے جب بھیجا جاؤں تب ہی آسکتا ہوں ورنہ نہیں اسی وقت یہ وحی نازل ہوئی ۔ لیکن یہ روایت غریب ہے ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آنے میں دیر لگائی پھر جب آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رک جانے کی وجہ دریافت کی آپ نے جواب دیا کہ جب لوگ ناخن نہ کتروائیں ، انگلیاں اور پوریاں صاف نہ رکھیں ، مونچھیں پست نہ کرائیں ، مسواک نہ کریں تو ہم کیسے آسکتے ہیں ؟ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ مسند امام احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا مجلس درست اور ٹھیک ٹھاک کر لو آج وہ فرشتہ آرہا ہے جو آج سے پہلے زمین پر کبھی نہیں آیا ۔ ہمارے آگے پیچھے کی تمام چیزیں اسی اللہ کی ہیں یعنی دنیا اور آخرت اور اس کے درمیان کی یعنی دونوں نفخوں کے درمیان کی چیزیں بھی اسی کی تملیک کی ہیں ۔ آنے والے امور آخرت اور گزر چکے ہوئے امور دنیا اور دنیا آخرت کے درمیان کے امور سب اسی کے قبضے میں ہیں ۔ تیرا رب بھولنے والا نہیں اس نے آپ کو اپنی یاد سے فرماموش نہیں کیا ۔ نہ اس کی یہ صفت ۔ جیسے فرمان ( وَالضُّحٰى Ǻۙ ) 93- الضحى:1 ) قسم ہے چاشت کے وقت کی اور رات کی جب وہ ڈھانپ لے نہ تو تیرا رب تجھ سے دستبردار ہے نہ ناخوش ۔ ابن ابی حاتم میں ہے آپ فرماتے ہیں جو کچھ اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کر دیا وہ حلال ہے اور جو حرام کر دیا حرام ہے اور جس سے خاموش رہا وہ عافیت ہے تم اللہ کی عافیت کو قبول کر لو ، اللہ کسی چیز کا بھولنے والا نہیں پھر آپ نے یہی جملہ تلاوت فرمایا ۔ آسمان وزمین اور ساری مخلوق کا خالق مالک مدبر متصرف وہی ہے ۔ کوئی نہیں جو اس کے کسی حکم کو ٹال سکے ۔ تو اسی کی عبادتیں کئے چلا جا اور اسی پر جما رہ اس کے مثیل شبیہ ہم نام پلہ کوئی نہیں ۔ وہ بابرکت ہے وہ بلندیوں والا ہے اس کے نام میں تمام خوبیاں ہیں جل جلالہ ۔