Surat Marium

Surah: 19

Verse: 66

سورة مريم

وَ یَقُوۡلُ الۡاِنۡسَانُ ءَ اِذَا مَا مِتُّ لَسَوۡفَ اُخۡرَجُ حَیًّا ﴿۶۶﴾

And the disbeliever says, "When I have died, am I going to be brought forth alive?"

انسان کہتا ہے کہ جب میں مر جاؤنگا تو کیا پھر زندہ کر کے نکالا جاؤنگا ؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Man's Amazement about Life after Death and the Refutation against this Amazement Allah, the Exalted, informs that mankind is amazed that he could be returned to life after death and he thinks that this is something farfetched. As Allah says, وَإِن تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ أَءِذَا كُنَّا تُرَابًا أَءِنَّا لَفِى خَلْقٍ جَدِيدٍ And if you wonder, then wondrous is their sayi... ng: "When we are dust, shall we indeed then be (raised) in a new creation!" (13:5) Allah also says, أَوَلَمْ يَرَ الاِنسَـنُ أَنَّا خَلَقْنَـهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مٌّبِينٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلً وَنَسِىَ خَلْقَهُ قَالَ مَن يُحىِ الْعِظَـمَ وَهِىَ رَمِيمٌ قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِى أَنشَأَهَأ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ Does not man see that We have created him from Nutfah. Yet behold he (stands forth) as an open opponent. And he puts forth for Us a parable and forgets his own creation. He says: "Who will give life to these bones after they are rotten and have become dust!" Say: "He will give life to them Who created them for the first time! And He is the All-Knower of every creation!" (36:77-79) And Allah says here in this Surah, وَيَقُولُ الاِْنسَانُ أَيِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا أَوَلاَ يَذْكُرُ الاِْنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْيًا   Show more

منکرین قیامت کی سوچ ۔ بعض منکرین قیامت قیامت کا آنا اپنے نزدیک محال سمجھتے تھے اور موت کے بعد جینا ان کے خیال میں ناممکن تھا وہ قیامت کا اور اس کے دن کی دوسری اور نئے سرے کی زندگی کا حال سن کر سخت تعجب کرتے تھے ۔ جیسے قرآن کا فرمان ہے ( وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا كُنَّا تُرٰب... ًا ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ Ĉ۝ ) 13- الرعد:5 ) یعنی اگر تجھے تعجب ہے تو ان کا یہ قول بھی تعجب سے خالی نہیں کہ یہ کیا ہم جب مر کر مٹی ہوجائیں گے پھر ہم نئی پیدائش میں پیدا کئے جائیں گے ؟ سورہ یاسین میں فرمایا کیا انسان اسے نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ، پھر ہم سے صاف صاف جھگڑا کرنے لگا اور ہم پر ہی باتیں بنانے لگا اور اپنی پیدائش کو بھلا کر کہنے لگا کہ ان ہڈیوں کو جو گل گئی ہیں کون زندہ کر دے گا ؟ تو جواب دے کہ انہیں وہ خالق حقیق زندہ کرے گا جس نے انہیں اول بار پیدا کیا تھا وہ ہر ایک اور ہر طرح کی پیدائش سے پورا باخبر ہے ۔ یہاں بھی کافروں کے اسی اعتراض کا ذکر ہے کہ ہم مر کر پھر زندہ ہو کر کیسے کھڑے ہوسکتے ہیں ؟ جوابا فرمایا جا رہا ہے کہ کیا اسے یہ بھی معلوم کہ وہ کچھ نہ تھا اور ہم نے اسے پیدا کر دیا ۔ شروع پیدائش کا قائل اور دوسری پیدائش کامنکر ؟ جب کچھ نہ تھا تب تو اللہ اسے کچھ کر دینے پر قادر تھا اور اب جب کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہوگیا کیا اللہ قادر نہیں کہ اسے پھر سے پیدا کر دے ؟ پس ابتداء آفرنیش دلیل ہے دوبارہ کی پیدائش پر ۔ جس نے ابتدا کی ہے وہی اعادہ کرے گا اور اعادہ بہ نسبت ابتدا کے ہمیشہ آسان ہوا کرتا ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے ابن آدم جھٹلا رہا ہے اور اسے یہ بھی لائق نہ تھا مجھے ابن آدم ایذاء دے رہا ہے اور اسے یہ بھی لائق نہیں اس کا مجھے جھٹلانا تو یہ ہے کہ کہتا ہے جس طرح اللہ نے میری ابتدا کی اعادہ نہ کرے گا حالانکہ ظاہر ہے کہ ابتدا بہ نسبت اعادہ کے مشکل ہوتی ہے اور اس کا مجھے ایذاء دینا یہ ہے کہ کہتا ہے میری اولاد ہے حالانکہ میں احد ہوں صمد ہوں نہ میرے ماں باپ نہ اولاد نہ میری جنس کا کوئی اور ۔ مجھے اپنی ہی قسم ہے کہ میں ان سب کو جمع کروں گا اور جن جن شیطانوں کی یہ لوگ میرے سوا عبادت کرتے تھے انہیں بھی میں جمع کروں گا پھر انہیں جہنم کے سامنے لاؤں گا جہاں گھٹنوں کے بل گرے پڑیں گے جیسے فرمان ہے ( وَتَرٰى كُلَّ اُمَّةٍ جَاثِيَةً 28؀ ) 45- الجاثية:28 ) ہر امت کو تو دیکھے گا کہ گھٹنوں کے بل گری ہوئی ہو گی ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ قیام کی حالت میں ان کا حشرہو گا ۔ جب تمام اول آخر جمع ہوجائیں گے تو ہم ان میں سے بڑے بڑے مجرموں اور سرکشوں کو الگ کرلیں گے اور ان کے رئیس وامیر اور بدیوں وبرائیوں کے پھیلانے والے ان کے پیشوا انہیں شرک وکفر کی تعلیم دینے والے انہیں اللہ کے گناہوں کی طرف مائل کرنے والے علیحدہ کر لئے جائیں گے ۔ جیسے فرمان ہے ( حَتّٰى اِذَا ادَّارَكُوْا فِيْهَا جَمِيْعًا ۙ قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۗءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ڛ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ 38؀ ) 7- الاعراف:38 ) ، جب وہاں سب جمع ہوجائیں گے تو پچھلے اگلوں کی بابت کہیں گے کہ اے اللہ انہی لوگوں نے ہمیں بہکا رکھا تھا تو انہیں دگنا عذاب کر الخ ۔ پھر خبر کا خبر پر عطف ڈال کر فرماتا ہے کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ سب سے زیادہ عذابوں کا اور دائمی عذابوں کا اور جہنم کی آگ کا سزاوار کون کون ہے ؟ جیسے دوسری آیت میں ہے کہ فرمائے گا ( لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ 38؀ ) 7- الاعراف:38 ) ہر ایک لئے دوہرا عذاب ہے لیکن تم علم سے کورے ہو ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

66۔ 1 انسان سے مراد یہاں کافر باحیثیت جنس کے ہے، جو قیامت کے وقوع اور بعث بعد الموت کے قائل نہیں۔ 66۔ 2 استفہام، انکار کے لئے ہے۔ یعنی جب میں بوسیدہ اور مٹی میں رل مل جاؤں گا، تو مجھے دوبارہ کس طرح نیا وجود عطا کردیا جائے گا ؟ یعنی ایسا ممکن نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٣] یعنی وہ شیطان جن کے یہ فرمانبردار اور چیلے بنے ہوئے ہیں۔ انھیں یہ پٹی پڑھاتے رہتے ہیں۔ کہ کھاؤ، پیو اور عیش کرلو۔ کیونکہ یہ زندگی تو سب کے سامنے ہے مگر دوسری زندگی ایک موہوم خیال اور غیر یقینی ہے۔ کیونکہ جو مرگیا وہ مٹی میں مل کر مٹی ہوگیا۔ ان میں سے آج تک کوئی بھی دوبارہ زندہ ہو کر واپس نہیں ... آیا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۧوَيَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَ اِذَا مَا مِتُّ ۔۔ : اس آیت کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة یس (٧٧ تا ٧٩ ) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَ اِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَيًّا۝ ٦٦ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ...  بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینو مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٦۔ ٦٧) ابی بن خلف حجمی منکر بعث یوں کہتا ہے کہ کیا مرنے کے بعد جب کہ میں کچھ بھی نہیں رہوں گا پھر زندہ کرکے قبر سے نکالا جاؤں گا۔ کیا ابی بن خلف اس چیز سے نصیحت حاصل نہیں کرتا کہ اس سے پہلے ہم اس کو بدبودار نطفہ سے پیدا کرچکے ہیں تو پھر دوبارہ اس کو زندہ کرنے پر تو ہم اس ادنی طریقے پر قادر ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٦ (وَیَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَ اِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا ) ” یہ ان لوگوں کا قول نقل ہوا ہے جو بعث بعد الموت کے منکر تھے۔ مشرکین مکہ کے عقائد کے بارے میں پہلے بھی کئی بار بتایا جا چکا ہے کہ ان میں سے اکثر وبیشتر آخرت کے قائل تھے ‘ اسی لیے تو بتوں کے بارے میں ان کے اس عقیدے کا قرآ... ن میں ذکر ہوا ہے : (وَیَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ ط) (یونس : ١٨) ” اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہوں گے۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٦۔ ٦٧:۔ منکرین حشر میں سے جس کسی کو صاحب عقل ہونے کا دعویٰ ہو اس سے مثال کے طور پر پوچھا جائے کہ جب دنیا میں مثلا ریل نہیں تھی تو پہلے پہل جس نے ریل نکالی اس کو یہ سوچنا پڑا ہوگا کہ انجن کس طرح بنایا جائے پانی کا اندازہ اتنا ہو اور آگ کا صحیح تجربہ میں آگیا اور ایک مدت سے ریل چلتی ہے اب اگر فرض کیا...  جائے کہ دنیا بھر کی ریل ناپید ہوجائے تو جن لوگوں کے اندازہ میں ریل کی باتیں ہیں ان کو پھر ریل کے بنا دینے میں کیا ایسی مشکل پیش آئے گی جیسے نئے سرے سے ریل کے بنانے میں پیش آئی تھی کوئی صاحب عقل یہ نہیں کہہ سکتا کہ صحیح اندازہ سے ایک کام ہو کر مدت تک اس کام کی شد بد رہ چکی ہو اور کام کرنے والوں کو پورا اور صحیح تجربہ حاصل ہوچکا ہو اب دوبارہ وہ کام وہی کام کرنے والے کریں گے تو ان کو پہلے تجربہ کی مدد سے اس کام کے کرنے میں کچھ آسانی نہ ہوگی اگر آسانی ہوگی تو اللہ تعالیٰ نے اس حالت میں دنیا کو پیدا کردیا کہ سوائے اس کی ذات کے کچھ بھی نہ تھا اور مدت تک اس نے اپنی قدرت سے دنیا کی ریل گاڑی کو چلایا اب بعد اس حالت کے نابود کردینے کے اس کو پھر اس حالت کا پیدا کردینا مشکل ہے۔ نہیں نہیں۔ کچھ مشکل نہیں بلکہ جس کو کچھ تجربہ ہے اس کے نزدیک نہایت سہل ہے دنیا کی پہلی حالت سب کی آنکھوں کے سامنے ہے اور ایک کام ایک دفعہ کیا جا کر تجربہ میں آجائے تو دوبارہ اس کام کا کرنا سہل ہوجاتا ہے اس واسطے ثبوت حشر میں اللہ تعالیٰ نے اس قدر فرمایا ہے کہ جس نے پہلے دنیا کو پیدا کیا ہے وہی پھر پیدا کرے گا اور اس کو دوسری دفعہ کا پیدا کرنا آسان ہے (وھو الذی یبدء الخلق ثم یعیدہ وھو اھون علیہ) غرض جو سورة الروم میں فرمایا وہ گویا ان آیتوں کی تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس صاحب قدرت نے پانی جیسی پتلی چیز سے ماں کے پیٹ میں انسان کا پتلہ بنا کر اس پتلہ میں روح پھونک دی اس کو آدم (علیہ السلام) کے پتلہ کی طرح انسان کے دوبارہ پیدا کرنے کے وقت مٹی کا پتلا بنانا اور اس پتلہ میں روح پھونک دینا کیا مشکل ہے۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) پیدا کرنے کی خبر اپنے کلام پاک میں انسان کو سنا دی لیکن انسان نے میرے کلام پاک کو جھٹلایا حالانکہ پہلی دفعہ کی پیدائش کو آنکھوں سے دیکھ کر دوسری دفعہ کی پیدائش کو جھٹلانا انسان کو زیبا نہیں تھا اس حدیث سے منکرین حشر کی جرأت کا حال اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے اور یہ بھی سمجھ میں آسکتا ہے کہ عقبیٰ میں کلام الٰہی کے جھٹلانے کی سزا ایسے لوگوں کو بھگتنی پڑے گی۔ جسمانی حشر کے منکروں کو یہ جو شبہ ہے کہ مرنے کے بعد انسان کی خاک رواں دواں ہوجائے گی پھر وہ خاک دوبارہ کیونکر جمع ہوجائے گی اس کا جواب سورة ق میں آئے گا کہ ان منکرین حشر کے پیدا کرنے سے پہلے اپنے علم غیب کے موافق اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ پتہ لکھ لیا ہے کہ ان لوگوں کی خاک ہوا سے اڑ کر یا پانی میں بہہ کر کہاں کہاں جائے گی۔ اسی پتہ سے ہر ایک کی خاک جمع کرلی جائے گی۔ زیادہ تفصیل اس کی سورة ق میں آئے گی۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:66) ئ۔ استفہام کے لئے ۔ کیا۔ اذا ما۔ جب۔ جب کبھی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٥) اسرارومعارف منکرین قیامت کی یہ حیرت اور دعوے بےاصل ہیں کہ جب مر کر فنا ہوجائیں اور بدن خاک ہوچکا ہوگا تو بھلا کیسے جی اٹھیں گے ، ان میں اتنا بھی شعور نہیں کہ یہ جان سکیں کہ جب کچھ بھی نہ تھا اور مادے کا وجود بھی نہ تھا تو خالق کل نے ہر شے کو پیدا فرمایا انہیں بھی وجود بخشا بھلا موت ... کے بعد دوبارہ بنانا اسے کیا مشکل ہے ، اگر یہ بھی نہ ہو تو یہ بات تو کفار کو بھی یقینی طور پر معلوم ہے کہ منی کے ایک قطرے کے بھی کہیں لاکھویں حصے سے وجود بنتا ہے تو مر کر بھی بدن مادے ہی کی کسی صورت میں جائیگا تو اس مادے کو دوبارہ وجود بنا دینا اور زندگی دینا اس خالق کو مشکل نہیں جو پہلے بھی ایسا کرچکا ہے جو تمہارے سامنے ہے ۔ (حشر شیاطین اور انسانوں سے ان کا ربط۔ یورپ کی حاضرات) تیرے پروردگار کی قسم یعنی اس کی ربوبیت اس بات کی دلیل ہے کہ سب کفار کو اس حال میں جمع کیا جائے گا کہ ان کے شیاطین بھی ان کے ساتھ ہوں گے ، اور وہ سب جہنم کے گرد گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہوں گے ، حدیث شریف میں ہے کہ ہر انسان کے ساتھ بھی ایک شیطان پیدا ہوتا ہے جو زندگی بھر اس کے ساتھ رہتا ہے کافر پر تو وہ مسلط کردیا جاتا ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے اور مومن کا زندگی بھر اس سے مقابلہ رہتا ہے ، پوچھا گیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ کے ساتھ بھی ہے تو ارشاد ہوا ۔ (شان ہدایت) ہاں مگر میرا شیطان مسلمان ہوگیا ہے سبحان اللہ کیا شان ہدایت ہے کہ شیطان کو آپ سے رابطہ ہوا تو وہ بھی مسلمان ہوگیا ، یہ بہت طویل العمر ہوتے ہیں اور انسنا کی موت کے بعد بھی اس کی قبر پر یا جہاں جسم کے ذرات ہوں وہاں رہتے ہیں ، یورپ میں جو حاضرات کے لیے عمل کیا جاتا ہے اس میں مرنے والے کی شکل میں یہی حاضر ہوتے ہیں اور چونکہ زندگی بھر کے حالات لباس شکل اور سوچ تک سے واقف ہوتے ہیں لہذا لوگوں کی گمراہی کا باعث بنتے ہیں ، یہ ابلیس کی دوسری اولاد کے علاوہ ہوتے ہیں ۔ (لفظ شیعہ قرآن کی اصطلاح میں) پھر ہر اس کافر گروہ میں سے جو خود کو ہدایت پہ جانتا ہے ان کے سب سے زیادہ سرکش لوگوں کو الگ کرلیا جائے گا اور اس کے لیے کسی تفتیش کی ضرورت بھی نہ ہوگی کہ ہم خود ہر ایک انسان سے خوب واقف ہیں ، لہذا ان سرکش لوگوں کو دوسروں کے آگے لگا کر جہنم میں ڈالا جائے گا ، لفظ شیعہ کے معنی اگرچہ گروہ یا فرقہ کا ہے مگر قرآن حکیم نے ہمیشہ ایسے کافر گروہ پر بولا ہے جو خود کو ہدایت پہ سمجھنے کا دعوے دار بھی ہو اور بدترین کافر بھی ایسا کافر جسے سیدھا جہنم میں گرنا ہوگا اور یوں تو اے انسانو ! تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو جہنم پر سے نہ گزرے گا کافر اس میں گرتے جائیں گے اور مومن پل صراط کو عبور کرتے چلے جائیں گے کہ کفر کے انجام بھی دیکھتے ہوں گے اور یہ اللہ کا وعدہ ہے ضرور ہوگا ہاں مومن کو نجات ہوگی یعنی وہ دیکھتا ہوا گذر جائے گا جبکہ کافر اوندھے منہ جہنم ہی میں گرجائیں گے ۔ (سزا ازجنس اعمال) ان کی اس ذلت کا سبب خود ان ہی فلسفہ ہوگا یعنی سزا اعمال ہی کی جنس سے ہوگی کہ دنیا میں وہ اکڑتے بھی تھے تو کفر کے سبب دوزخ میں گرے اور اکڑنے کی وجہ سے سر کے بل الٹے ہو کر گرے جب آیات الہی سنتے تو مومنین سے کہا کرتے تھے کہ بھلا دنیا میں مال و دولت کے اعتبار اور معاشرے میں مقام کے اعتبار سے کون بہتر ہے تم یا ہم یعنی اگر ہم اللہ کے مقبول نہ ہوتے تو دولت واقتدار نہ ملتا ، انہیں کہئے کہ دولت واقتدار تو تم سے پہلے کفار کے پاس بھی تھے مگر انہیں اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے ۔ (دولت دنیا اور اقتدار ہدایت کی دلیل نہیں) بلکہ تم سے دولت مند اور طاقتور کافر قومیں تھیں جو تباہ ہوگئیں ، دولت دنیا قبولیت کی دلیل نہیں بلکہ اللہ کریم ایسے لوگوں کو وقتی طور پر مہلت دے دیتے ہیں اور جب انسان گمراہی کی طرف چل پڑتا ہے تو وہی راہ اسے آسان نظر آتی ہے مگر جب اللہ کی گرفت آتی ہے دنیا میں عذاب آئے یا آخرت وقیامت کا حساب درپیش ہوگا تو انہیں بھی خبر ہوجائے گی کہ کس کا ٹھکانہ بھی برا ہے اور کون بہت کمزور سہاروں پر بھروسہ کرتا رہا ۔ نیکی پر گامزن ہونے والوں کے لیے نیک راہ ہی آسان کردی جاتی ہے اور انہیں قوت عمل عطا کی جاتی ہے اور تیرے رب کے حضور تو باقی رہنے والی نیکیاں ہی بہت قیمتی اثاثہ ہیں اور انہیں کا بدلہ بہترین ہوگا ۔ ان کفار کا خیال اور سوچ ملاحظہ ہو کر دنیا میں مال اور اولاد عطا ہوئی تو بجائے شکر کے نافرمانی شروع کردی ساتھ یہ دعوی بھی ہے کہ آخرت میں بھی مجھے ہی مال و دولت اور اولاد کی نعمت عطا ہوگی ، بھلا کیا یہ غیب سے آگاہ ہیں کہ وہاں کی بات سمجھ لی یا کیا اللہ جل جلالہ نے ان سے ایسا وعدہ کیا ہے اپنے کسی نبی یا کسی کتاب کے واسطہ سے ہرگز یہیں بلکہ اس کا قانون تو واضح ہے اور ان کا یہ دعوئے کفر کے ساتھ گستاخی بھی ہے جو لکھا جارہا ہے اور ان کے عذاب کی زیادتی کا باعث بنے گا یہ مال و دولت اور اسباب راحت خویش اقارب تو چن جائیں گے اور میدان حشر میں تو پیشگی اکیلے بھگتنا ہوگی ، یہ سب کچھ تو ہمارا ہے جسے چاہیں جب چاہیں دیں یا واپس لے لیں ، ان جاہلوں نے اللہ جل جلالہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کی پوجا شروع کر رکھی ہے اور امید یہ ہے کہ انہیں ایسا کرنے سے اللہ جل جلالہ کے ہاں ان کی مدد نصیب ہوگی ایسا ہرگز نہ ہوگا بلکہ حق یہ ہے کہ یوم حشر تو یہ خود بتوں کو یا اللہ جل جلالہ کے سوا جن کو پوجتے تھے سب کو برا سمجھیں گے اور اپنی تباہی کا سبب سمجھیں گے اور ان کی عزت کرنے سے انکار کردیں گے عبادت کیا کریں گے یہ تو ان کے سخت مخالف ہوجائیں گے ۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 66 تا 72 مت میں مر گیا۔ نحشرن ہم ضرور جمع کریں گے۔ نحضرن ہم ضرور حاضر کریں گے۔ حول اردگرد۔ جثی گھٹنوں کے بل۔ ننزعن ہم ضرور نکالیں گے۔ شیعۃ فرقہ، گروہ۔ عتی سرکش، نافرمان۔ صلی اندر داخل ہونا۔ وارد آنے والا۔ مقضی مقرر کیا ہوا۔ نذر ہم چھوڑ دیں گے۔ تشریح : آیت نمبر 66 تا 72 قرآن کریم...  میں متعدد مقامات پر کفار و مشرکین کے متعلق بیان کیا گیا ہے جس میں انہوں نے قرآن کریم کی آیات کو سن کر بڑے تعجب اور حیرت سے یہ سوال کیا ہے کہ جب ہم مر کر خاک ہوجائیں گے ۔ ہماری ہڈیاں چورہ چورہ ہو کر ہمارا وجود کائنات میں بکھر جائے گا تو کیا دوبارہ زندہ کئے جائیں گے ؟ ہمارے وجود کے اجزاء جمع ہو سکیں گے ؟ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے اس قول کا نہایت سادہ اور باوقار جواب دیا ہے کہ انسان کو یہ سوال کرنے سے پہلے اس بات پر غور کرلینا چاہئے کہ جب انسان کا وجود ہی نہ تھا بلکہ وہ قابل ذکر شے ہی نہ تھا جب اس وقت اللہ نے اس کو وجود عطا کیا۔ زندگی کے مختلف مرحلوں سے گزار کر، ماں باپ کی شفقت کے سائے میں اس کو جوان بنایا۔ اس کے لئے وہ تمام اسباب پیدا کئے جس سے وہ زندگی کو مناسب طریقہ پر گزار سکے تو کیا اس اللہ کو یہ قدرت حاصل نہیں کہ وہ اس انسان کے بلکہ کائنات کے تمام انسانوں کے اجزاء کو جمع کر کے دوبارہ جیتا جاگتا انسان بنا دے۔ کسی چیز کو پہلی مرتبہ پیدا کرنا اور بنانا بظاہر مشکل نظر آتا ہے لیکن اس کو اسی جیسا دوسرا وجود عطا کرنا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اس بات کو ارشاد فرمایا ہے کہ انسان یہ کہتا ہے کہ جب ہم مر جائیں گے تو کیا ہم دوبارہ پیدا کئے جائیں گے۔ اللہ نے اپنی ذات کی قسم کھا کر فرمایا کہ ہم صرف ان کو ہی زندہ کر کے نہیں بلکہ ان شیطانوں کو بھی جہنم کے گرد جمع کریں گے جو ان کو بہکایا کرتے تھے۔ جب دوزخ ان کے سامنے ہوگی تو وہ دہشت اور خوف سے گھٹنوں کے بل گر جائیں گے اور ان سرکش اور نافرمانوں کو گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جن کے دل میں اللہ کا خوف اور تقویٰ موجود ہوگا۔ ان کو جنت کی ابدی راحتوں اور آرام سے ہمکنار کرایا جائے گا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ہر شخص کو جہنم کے پاس سے گزرنا ہوگا۔ یہاں تک کہ اہل ایمان کو بھی اسی راستے سے جنت کی طرف لے جایا جائے گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جہنم کے اوپر ایک پل بنایا جائے گا (جس کو ” پل صراط “ کہتے ہیں) اس پر ہر ایک کو گذرنا ہوگا۔ جو اہل ایمان و اہل تقویٰ ہیں وہ تو اپنے اعمال کے حساب سے صحیح سلامت گزر جائیں گے۔ فرمایا کہ پل صراط سے گزرنے والے بعض تو وہ ہوں گے جو نہایت تیز رفتاری اور بجلی کی طرح اس سے گزر جائیں گے۔ بعض ہوا کی طرح، بعض تیز رفتار گھوڑے کی طرح ، بعض تیز رفتار اونٹوں کی طرح اور بعض لوگ تیز رفتار پیدل چلنے والے کی طرح اس پل سے گزر جائیں گے۔ یہاں تک کہ سب سے آخر میں جو شخص اس پل صراط سے گزرے گا وہ ہوگا۔ جس کے صرف پیر کے انگوٹھے پر نور ہوگا۔ وہ گرتا پڑتا نجات پا جائے گا۔ اس کے برخلاف جو کفار اور مشرکین ہیں وہ الجھ کر جہنم میں گر جائیں گے۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد اہل ایمان اپنے اپنے اعمال کے مطابق اور بعض انبیاء اور صالحین کی شفاعت سے نجات پائیں گے جن کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا۔ ان کو ھبی ان کے گناہوں کی سزا دے کر اللہ تعالیٰ اپنا رحم و کرم فرمائیں گیا ور ان سزا یافتہ گناہگار مسلمانوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردیا جائے گا اور جہنم کا منہ بند کردیا جائے گا۔ اس جگہ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہودیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ہم چند روز جہنم میں جلیں گے اس کے بعد جنت کی ابدی راحتیں ہمارا انتظار کر رہی ہوں گی۔ علماء مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہودیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ اول تو ہم جن ہم میں جائیں گے ہی نہیں اور اگر ہم میں سے کسی کو جہنم میں جانا پڑا تو زیادہ سے زیادہ تین دن آگ میں جل کر تکلف اٹھا کر پھر جنت کی ساری راحتیں ہمیں عطا کردی جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عقیدے کی جگہ جگہ تردید فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ اللہ نے کسی کے لئے جنت کو اس کی میراث نہیں بنایا ہے۔ بلکہ انسان کا ایمان اور حسن عمل اس کو جنت کا مستحق بنا سکتا ہے۔ یہودیوں کا خیال ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ کرنا چاہیں کرتے رہیں آخرت کی راحتیں انہیں تشتریح میں سجا کر دیدی جائیں گی۔ لہٰذا یہ دنیا اور وہ دنیا صرف ہمارے لئے ہے۔ اہل ایمان کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صالح مومن کی نجات فرمائیں گے۔ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہے وہ اپنی سزا بھگت کر آخر کار جنت میں داخل کیا جائے گا۔ ہمارا اس بات پر بھی یقین ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور گزشتہ انبیاء اور صالحین اللہ کے ہاں سفارش فرمائیں گے اور ان کی شفاعت پر اللہ کا کرم بھی ہوگا۔ لیکن اگر ان حقائق کی موجودگی میں ہمارا انداز فکر یہودیوں جیسا ہوجائے کہ ہم اس دنیا میں جو چاہیں کرتے رہیں اور یہ سمجھنے لگیں کہ آخرت تو ہمارے لئے ہے ہمارے زبرگ ہمیں جہنم سے نکال لے جائیں گے۔ بیشک شفاعت پر ہمارا ایمان ہے لیکن اس کے لئے ایمان کی بھی شرط ہے خواہ وہ ذرہ برابر ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن ہمارے پاس ایسا کوئی آلہ نہیں ہے جس سے ہمیں یقین ہوجائے کہ واقعی ہمارا ایمان بھی سلامت ہے یا نہیں۔ اگر ایمان سلامت ہے تو انشاء اللہ اس ایمان کی برکت سے ضرور نجنات ہوگی لیکن اگر ہم نے بدعات و خرافات میں مبتلا ہو کر اپنا ایمان کھو دیا ہو تو پھر ہماری نجات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لہٰذا ہم جیسے ہر شخص کو ایمان اور عمل صالح کی ہر وقت فکر کرنا چاہئے ورنہ درمیان اور یہودیوں کی خوش فہمیوں کے درمیان کوئی فرق نہیں رہے گا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انسان اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی عبادت سے قولاً یا فعلاً تبھی انکار کرتا ہے جب وہ آخرت کے عقیدہ کو بھول جاتا ہے۔ اسی بنا پر مکہ کے کافر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بحث کرتے تھے کہ ہماری عقل نہیں مانتی کہ انسان جب مر کر مٹی کے ساتھ مٹی بن جاتا ہے تو پھر دوبارہ کس ط... رح اٹھایا جائے گا۔ اس عقیدہ کی تائید میں ایک دن ایک آدمی نے ایک بوسیدہ ہڈی ہاتھ میں ملتے ہوئے کہا کہ اس کو کس طرح دوبارہ زندہ کیا جائے گا ؟ جس کا ان الفاظ میں جواب دیا گیا۔ ” ہمارے بارے میں مثالیں بیان کرنے لگا اور اپنی پیدائش کو بھول گیا کہتا ہے کہ جب ہڈیاں بوسیدہ ہوجائیں گی تو ان کو کون زندہ کرے گا۔ کہہ دو کہ ان کو وہ زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی بار پیدا کیا تھا، اور وہ سب کچھ پیدا کرنا جانتا ہے۔ وہی ہے جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کی اور تم اس سے آگ نکالتے ہو۔ بھلا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ ان کو پھر ویسے ہی پیدا کر دے کیوں نہیں اور وہ تو بڑا پیدا کرنے والا اور علم والا ہے۔ اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے۔ “ (سورۃ یٰس ٧٨، ٧٩ تا ٨٢ ) دوسرا جواب یہاں یہ دیا گیا ہے کہ کیا انسان کو یہ معلوم نہیں کہ ہم نے اسے پہلی مرتبہ پیدا کیا جبکہ اس کا وجود تک نہ تھا۔ انسان سے مراد آدم (علیہ السلام) ہیں۔ ان کی پیدائش سے پہلے انسان نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو ہر انسان کی تخلیق کا یہی معاملہ ہے کہ اس کی پیدائش سے پہلے اسے اور اس کے ماں باپ کو بھی اس کی خبر نہیں تھی کہ بیٹا ہوگا یا بیٹی۔ مسائل ١۔ انسان کی پیدائش سے پہلے اسے کوئی نہیں جانتا۔ ٢۔ انسان کی پیدائش اس کے دوبارہ اٹھنے کی دلیل ہے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٧٣١ ایک نظر میں اس سورة میں حضرت ذکریا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قصہ گزر گیا ہے اور حضرت یحییٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی بات بھی گزر گئی ہے۔ حضرت مریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قصہ اور حضرت عیسیٰ ؐ کی پیدائش کا واقعہ بھی گزر گیا ہے۔ حضر ابراہیم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ... اور ان کی جانب سے باپ اور قوم کو چھوڑ دینے کا قصہ اور ان حضرات کے بعد آنے والے اہل ہدایت اور اہل ضلالت کا ذکر بھی گزرا ہے۔ ان سب قصوں کے بعد یہ ذکر آیا کہ اس کائنات کا رب وحدہ لاشریک ہے اور وہی بلاشریک عبادت کا مستحق ہے۔ یہ تمام قصص صرف اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ اللہ وحدہ ہی قابل عبادت و بندگی ہے۔ اس مضمون کے بعد اب یہ پورا سبق عقیدہ توحید اور عقیدہ بعث بعد الموت کے بارے میں ہے۔ ان عقائد کو مناظر قیامت کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے اور یہ مناظر تاثرات اور زندگی کی ہماہمی سے بھرپور ہیں ‘ پھر پوری کائنات بھی ان مناظر میں شریک محفل ہے۔ تمام انسان اور پوری زمین ‘ تمام انسان اور تمام جن ‘ مومنین بھی اور کافر بھی ان مناظر میں اسٹیج کے کردار ہیں۔ پھر یہ مناظر اس دنیا سے بھی تعلق رکھتے ہیں ور قیامت کی طرف بھی نکل جاتے ہیں۔ یوں نظر آتا ہے کہ گویا ایک ہی اسٹیج پر دنیا و آخرت دونوں کے مناظر دکھائے جارہے ہیں۔ آغاز اس دنیا سے ہوتا ہے اور انجام آخرت میں جا کر نہایت ہی موثر انداز میں دکھایا جاتا ہے۔ دنیا و آخرت میں بس چند آیات و چند کلمات کا فاصلہ رہ جاتا ہے جس سے پردہ شعور انسانی پر یہ احساس ابھر آتا ہے کہ یہ دنیا اور وہ جہاں دونوں ایک اسٹیج اور منظر کے دو حصے ہیں۔ پہل انسان اسٹیج پر آتا ہے اور وہ بعث بعد الموت کے بارے میں اپنا موقف بیان کرتا ہے۔ وہ ایک ایسی بات کرتا ہے جسے آج تک کئی انسان دہراتے چلے آئے ہیں۔ مختلف زمانوں میں انسانوں نے یہی بات کہی ہے۔ گویا یہ ایک عالمی انسانی شبہ ہے اور تمام قوموں اور تمام نسلوں کو اس سوال نے ستایا ہے۔ ویقول الانسان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اخرج حیا (٩١ : ٧٧) ” انسان کہتا ہے کیا واقعی جب میں مرچکوں گا تو پھر زندہ کرکے نکال لایا جائوں گا ؟ “ یہ سوال انسان کے دل میں محض اس کی غفلت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اس نے غور نہیں کیا کہ وہ موجود ہے اور اسے بہر ال پیدا کیا گیا ہے ‘ تو وہ موجود ہے۔ یہ کہاں تھا ؟ کیسے تھا ؟ یقیناً یہ نہ تھا پھر ہوا۔ اگر انسان ذرا بھی غور کرتا تو وہ سمجھ جاتا کہ پہلی بار کی پیدائش کے مقابلے میں دوبارہ اٹھانا تو بہت آسانکام ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

انسانوں کا قیامت کے دن زندہ ہونے سے انکار کرنا اور منکرین کا شیطان کے ساتھ حشر ہونا اللہ جل شانہ کی توحید اور اس کا قدرت و اختیار والا اور وحدہ لا شریک ہونا بیان فرمانے کے بعد معاد یعنی قیامت کا دن واقع ہونے اور میدان آخرت میں لوگوں کے جمع ہونے کا تذکرہ فرمایا، اول تو انسان کی اس جاہلانہ اور معاندا... نہ بات کا تذکرہ فرمایا کہ میں جب مرجاؤں گا تو کیا پھر زندہ ہو کر اٹھوں گا ؟ انسان کا یہ کہنا بطور تعجب اور انکار کے ہے، یہ لوگ قیامت کو نہیں مانتے وہ کہتے ہیں کہ یہ مر کر جی اٹھنا سمجھ میں نہیں آتا مر کھپ گئے ہڈیاں ریزہ ریزہ ہوگئیں اب کیسے جئیں گے اور کیسے اٹھیں گے، قرآن مجید میں منکروں یہ بات کئی جگہ ذکر فرمائی ہے ان کے جواب میں فرمایا کہ انسان کو یہ سوچنا چاہیے کہ میں پہلی بار وجود میں کیسے آیا جبکہ انسان نہ موجود تھا نہ اس کا ذکر تھا جس ذات پاک نے اسے پہلی بار پیدا فرما دیا اسے یہ قدرت ہے کہ پھر سے زندہ فرما دے انسان مٹی سے پیدا ہوا اس کی نسل چلی اور یہ نسل مرد اور عورت کے ملاپ سے چلتی ہے اور بےجان نطفہ میں اللہ تعالیٰ جان ڈال دیتا ہے پھر یہ کیوں نہیں ہوسکتا کہ موت دے کر دوبارہ پیدا فرما دے اور ہڈیوں میں جان ڈال دے اور ان پر گوشت اور پوست چڑھا دے سورة یٰسین میں فرمایا (وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَھِیَ رَمِیْمٌ قُلْ یُحْیْیْہَا الَّذِیْ اَنشَاَھَا اَوَّلَ مَرَّۃٍ ) (اور انسان ہمارے لیے مثالیں دینے لگا اس نے کہا کہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا جبکہ وہ ریزہ ریزہ ہوچکی ہوں گی آپ فرما دیجیے کہ انھیں وہی زندہ کرے گا جس نے انھیں پہلی بار پیدا فرمایا) ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

47:۔ حصہ دوم :۔ یہاں سے سورت کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے پہلے حصے میں چاروں شبہات کا جواب دینے کے بعد اس حصے میں شکوے، زجریں، تخویفیں، بشارتیں اور تسلی برائے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذکر کی گئی ہے۔ یہ شکوی ہے۔ یعنی نادان انسان کہتا ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندہ کردیا ج... ائے گا۔ ” اَوَلَا یَذْکُرُ الْاِنْسَانُ “ یہ شکوے کا جواب ہے، یعنی انسان کو یہ بات یاد نہیں کہ وہ کچھ نہیں تھا، نیست اور معدوم تھا، تو ہم نے اسے نیست سے ہست اور معدوم سے موجود کردیا تو کیا اب ہم اس کو دوبارہ زندہ نہیں کرسکتے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

66 اب منکرین قیامت اور منکرین بعث کے بعض شبہات کا جواب فرماتے ہیں اور انسان یوں کہتا ہے کہ جب میں مر جائوں گا تو کیا واقعی دوبارہ زندہ کر کے پھر زمین سے نکالا جائوں گا یہ شبہ وہ لوگ کرتے تھے جو دوبارہ زندہ ہونے کا منکر تھے آسمانی مذاہب میں یہ مسئلہ نہایت اہم ہے اور اسی عقیدے پر اسلام کا مدار ہے۔