Surat Marium

Surah: 19

Verse: 69

سورة مريم

ثُمَّ لَنَنۡزِعَنَّ مِنۡ کُلِّ شِیۡعَۃٍ اَیُّہُمۡ اَشَدُّ عَلَی الرَّحۡمٰنِ عِتِیًّا ﴿ۚ۶۹﴾

Then We will surely extract from every sect those of them who were worst against the Most Merciful in insolence.

ہم پھر ہر ہر گروہ سے انہیں الگ نکال کھڑا کریں گے جو اللہ رحمٰن سے بہت اکڑے اکڑے پھرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ثُمَّ لَنَنزِعَنَّ مِن كُلِّ شِيعَةٍ ... Then indeed We shall drag out from every sect, This means from every nation. This is what Mujahid said. ... أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمَنِ عِتِيًّا all those who were worst in obstinate rebellion against the Most Gracious. Ath-Thawri reported from Ali bin Al-Aqmar, from Abu Al-Ahwas, from Ibn Mas`ud that he said, "The first of them will be bound to the last of them until their number is complete. Then, they will be brought all together. Then, Allah will begin with the greatest of them in crime and continue in succession. That is Allah's statement, ثُمَّ لَنَنزِعَنَّ مِن كُلِّ شِيعَةٍ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمَنِ عِتِيًّا Then indeed We shall drag out from every sect all those who were worst in obstinate rebellion against the Most Gracious. This is similar to Allah's statement, حَتَّى إِذَا ادَّارَكُواْ فِيهَا جَمِيعًا قَالَتْ أُخْرَاهُمْ لاٍّولَـهُمْ رَبَّنَا هَـوُلاءِ أَضَلُّونَا فَـَاتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ Until they will be gathered all together in the Fire. The last of them will say to the first of them: "Our Lord! These misled us, so give them a double torment of the Fire." Until His saying, بِمَا كُنتُمْ تَكْسِبُونَ (For what you used to earn). (7:38-39) The first of them will say to the last of them: "Your were not better than us, so taste the torment for what you used to earn." Concerning Allah's statement, ثُمَّ لَنَحْنُ أَعْلَمُ بِالَّذِينَ هُمْ أَوْلَى بِهَا صِلِيًّا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

69۔ 1 مطلب یہ ہے کہ ہر گمراہ فرقے کے بڑے بڑے سرکشوں اور لیڈروں کو ہم الگ کرلیں گے اور ان کو اکٹھا کر کے جہنم میں پھینک دیں گے۔ کیونکہ یہ قائدین دوسرے جہنمیوں کے مقابلے میں سزا و عقوبت کے زیادہ سزا وار ہیں، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۚثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِيْعَةٍ ۔۔ : ” عِتِيًّا “ ” عَتَا یَعْتُوْ “ سے ” عُتُوًّا “ کی طرح مصدر ہے، تکبر، سرکشی، حد سے گزرنا۔ ” شِيْعَةٍ “ وہ گروہ جو ایک ہی قسم کا ہو، یعنی پھر ہم ہر باغی گروہ میں سے اس کے سب سے بڑے سرکش اور پیشوا کو، جس نے انھیں کفر و شرک میں پھنسایا اور اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں سرکشی کی راہ دکھائی، نکال کر الگ کھڑا کریں گے اور ایسے لوگوں کو سب سے پہلے جہنم میں جھونکیں گے، کیونکہ انھوں نے دو جرم کیے، خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا، پھر درجہ بدرجہ ان کے پیروکاروں کی باری آئے گی۔ دیکھیے سورة اعراف (٣٨، ٣٩) ، نحل (٢٥) اور عنکبوت (١٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

ثُمَّ لَنَنزِعَنَّ مِن كُلِّ شِيعَةٍ |"Then We will certainly draw out from every group.|" - 19:69. The word is applied to a particular person or the followers of a particular faith, and it also means a sect. The meaning of the verse is that the most rebellious from amongst the different sects of the infidels will be picked out. Some commentators say that the sinners will be committed to Hell in the order of the intensity of their sins, i.e. those sinners will be driven in first whose sins are most intense and those with less intense sins, will follow them, and so on.

ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِيْعَةٍ ، لفظ شیعہ اصل لغت میں کسی خاص شخص یا خاص عقیدہ کے متبعین کو کہا جاتا ہے اس لئے بمعنی فرقہ بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اور مراد آیت کی یہ ہے کہ کفار کے مختلف فرقوں میں جو سب سے زیادہ سرکش ہوگا اس کو ان سب میں ممتاز کر کے مقدم کیا جاوے گا۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ جہنم میں اس ترتیب سے داخل کیا جائے گا کہ جس کا جرم سب سے زیادہ ہوگا وہ سب سے پہلے اس کے بعد دوسرے اور تیسرے درجے کے مجرمین داخل جہنم کئے جاویں گے۔ (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِيْعَۃٍ اَيُّہُمْ اَشَدُّ عَلَي الرَّحْمٰنِ عِتِيًّا۝ ٦٩ۚ نزع نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی: وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] ( ن زع ) نزع الشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کام ن کو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ شيع الشِّيَاعُ : الانتشار والتّقوية . يقال : شاع الخبر، أي : كثر وقوي، وشَاعَ القوم : انتشروا وکثروا، وشَيَّعْتُ النّار بالحطب : قوّيتها، والشِّيعَةُ : من يتقوّى بهم الإنسان وينتشرون عنه، ومنه قيل للشّجاع : مَشِيعٌ ، يقال : شِيعَةٌ وشِيَعٌ وأَشْيَاعٌ ، قال تعالی: وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ [ الصافات/ 83] ، هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص/ 15] ، وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص/ 4] ، فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر/ 10] ، وقال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر/ 51] . ( ش ی ع ) الشیاع کے معنی منتشر ہونے اور تقویت دینا کے ہیں کہا جاتا ہے شاع الخبر خبر پھیل گئی اور قوت پکڑ گئی ۔ شاع القوم : قوم منتشر اور زیادہ ہوگئی شیعت النار بالحطب : ایندھن ڈال کر آگ تیز کرنا الشیعۃ وہ لوگ جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے اور وہ اس کے ارد گرد پھیلے رہتے ہیں اسی سے بہادر کو مشیع کہا جاتا ہے ۔ شیعۃ کی جمع شیع واشیاع آتی ہے قرآن میں ہے وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ [ الصافات/ 83] اور ان ہی یعنی نوح (علیہ السلام) کے پیرؤں میں ابراہیم تھے هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص/ 15] ایک تو موسیٰ کی قوم کا ہے اور دوسرا اس کے دشمنوں میں سے تھا وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص/ 4] وہاں کے باشندوں کو گروہ در گروہ کر رکھا تھا ۔ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر/ 10] پہلے لوگوں میں ( بھی ) وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر/ 51] اور ہم تمہارے ہم مذہبوں کو ہلاک کرچکے ہیں ۔ أيا أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء/ 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص/ 28] ( ا ی ی ) ای ۔ جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں { أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ } ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔ شد الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء : قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] ، ( ش دد ) الشد یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ عتو العُتُوُّ : النبوّ عن الطاعة، يقال : عَتَا يَعْتُو عُتُوّاً وعِتِيّاً. قال تعالی: وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيراً [ الفرقان/ 21] ، فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ [ الذاریات/ 44] ، عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّها [ الطلاق/ 8] ، بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک/ 21] ، مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا[ مریم/ 8] ، أي : حالة لا سبیل إلى إصلاحها ومداواتها . وقیل :إلى رياضة، وهي الحالة المشار إليها بقول الشاعر : 310 ۔ ومن العناء رياضة الهرم«2» وقوله تعالی: أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمنِ عِتِيًّا [ مریم/ 69] ، قيل : العِتِيُّ هاهنا مصدرٌ ، وقیل هو جمعُ عَاتٍ «3» ، وقیل : العَاتِي : الجاسي . ( ع ت و ) عتا ۔ یعتوا ۔ عتوا ۔ عتیا ۔ حکم عدولی کرنا قرآن میں ہے : فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ [ الذاریات/ 44] تو انہوں نے اپنے پروردگار کے حکم سے سر کشی کی ۔ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيراً [ الفرقان/ 21] اور اسی بنا پر بڑے سر کش ہورہے ہیں ، عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّها[ الطلاق/ 8] اپنے پروردگار کے امر سے سر کشی کی ۔ بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک/ 21] لیکن یہ سر کشی اور نفرت میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا[ مریم/ 8] کے معنی یہ ہیں کہ میں بڑھاپے کی ایسی حالت تک پہنچ گیا ہوں جہاں اصلاح اور مداوا کی کوئی سبیل نہیں رہتی یا عمر کے اس وجہ میں ریا ضۃ بھی بیکار ہوتی ہے اور لفظ ریا ضت سے وہی معنی مراد ہیں جن کی طرف شاعر نے اشارہ کیا ہے ( الکامل ) ( 302 ) امن العناء ریاضۃ الھرم اور انتہائی بڑھاپے میں ریاضت دینا سراسر تکلیف وہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمنِ عِتِيًّا[ مریم/ 69] جو خدا سے سخت سر کشی کرتے تھے میں بعض نے کہا ہے کہ عتیا مصدر بعض نے کہا ہے کہ عات کی جمع ہے اور العانی کے معنی سنگ دل اور اجڈ بھی آتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٩) پھر ان گناہ گاروں کی ہر ایک جماعت میں سے ان لوگوں کو جدا کرلیں گے جو ان میں سب سے زیادہ قرآن کریم کی نافرمانی اور اس پر دلیری کیا کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٩ (ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ کُلِّ شِیْعَۃٍ اَیُّہُمْ اَشَدُّ عَلَی الرَّحْمٰنِ عِتِیًّا ) ” اس اجتماع میں سے ہر ہر گروہ کے ایسے سرکردہ لیڈروں کو چن چن کر علیحدہ کیا جائے گا جو اللہ تعالیٰ کے معاملے میں زیادہ اکڑنے والے تھے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور گستاخی میں پیش پیش رہتے تھے۔ چناچہ ابو جہل اور عقبہ بن ابی معیط جیسے بڑے بڑے مجرموں کو چھانٹ کر الگ کرلیا جائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

43. The leader of every rebel band.

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :43 یعنی ہر باغی گروہ کا لیڈر ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:69) لننزعن۔ مضارع جمع متکلم بلام تاکید نون ثقیلہ ۔ نزع مصدر (باب ضرب) ہم ضرور کھینچ لیں گے۔ ہم ضرور الگ کردیں گے۔ نزع الشیء کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچ لینا۔ دل سے عداوت اور نفرت کو کھینچ لینے کے معنی میں بھی آتا ہے مثلاً ونزعنا ما فی صدورہم من غل (7:43) اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ہم ان سب کو نکال ڈالیں گے۔ اور چھین لینے کے معنی میں مثلاً وتنزع الملک ممن تشائ (3:26) اور تو چھین لیتا ہے بادشاہی جس سے تو چاہے۔ شیعۃ۔ فرقہ ۔ گروہ ۔ الشیاع کے معنی منتشر ہونا اور تقویت دینے کے ہیں۔ الشیعۃ۔ وہ لوگ جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے اور وہ اس کے اردگرد پھیلے رہتے ہیں۔ اس کی جمع شیع و اشیاع ہے۔ جیسے قرآن مجید میں ہے وجعل اہلھا شیعا (28:4) وہاں کے باشندوں کو گروہ در گروہ کر رکھا تھا۔ اور ولقد اہلکنا اشیاعکم (54:51) اور ہم تمہارے ہم مذہبوں کو ہلاک کرچکے ہیں۔ عتیا۔ تنا یعتوا (باب نصر) کا مصدر ہے۔ عتو بھی مصدر ہے عات کی جمع بھی ہے جیسے جاث کی جمع جثی ملاحظہ ہو آیت نمبر 68 مذکروہ بالا۔ آیت ہذا کا ترجمہ ہوگا :۔ پھر ہم (چن چن کر) الگ کرلیں گے ہر گروہ سے ان لوگوں کو جو خدائے رحمن سے سرکشی میں سب سے بڑھے ہوئے تھے۔ عتیا۔ اشد کی تمیز ہے اس لئے منصوب ہے اشد افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ زیادہ سخت شدۃ سے۔ عات کی جمع کی صورت میں یہ حال ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی ہر باغی گروہ میں سے اس کے لیڈر اور پیشوا کو جس نے اسے کفر و شرک میں پھنسایا اور خدا کے مقابلے میں سرکشی کی راہ دکھائی، نکال کر الگ کھڑا کرینگے اور ایسے لوگوں کو سب سے پہلے جہنم میں جھونکیں گے۔ ان کے بعد ان کے متبعین کی باری آئے گی۔ یاد رہے کہ یہاں ” عتیا “ کا لفظ ” عتو “ کے مثل مصدر ہے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ثم لننزعن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عتیا (٩١ : ٩٦) ” پھر چھانٹ کر نکالیں گے ہم ہر گروہ سے ان لوگوں کو جو اللہ کے شدید نافرمان تھے “۔ چھانٹ لینے کے لئے نہایت ہی تاکیدی مشدولفظ استعمال ہوا ہے ‘ تاکہ لفظ کی سختی ‘ تشدید اور معنوی مبالغہ چھانٹ لینے کے عمل کو مزید خوفناک بنادے ‘ جس کے بعد پھر انا لوگوں کو جہنم میں پھینکنے کا عمل آتا ہے۔ خیال ان تمام حرکات کو عملی شکل دیتا ہے۔ اللہ اس بات کو خوب جانتا ہے کہ ان میں سے کوئی جہنم میں تپائے جانے کا مستحق ہے۔ اس لئے وہ ان لاتعداد اور ان گنت انسانوں کے سیلاب میں سے ان کو چن کر باہر نکال لائے گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ان کی یہ حاضری مذکورہ حالت میں ذلیل کرنے کے لیے ہوگی۔ جو لوگ دنیا میں اہل باطل تھے کفر پر جمے رہتے تھے اور کفر پر جمنے اور جمانے کے لیے آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے ان میں چھوٹے بھی تھے اور بڑے بھی علم بردار بھی تھے اور ان کے فرمانبردار بھی، جب یہ سب حاضر ہوں گے تو ان میں سے جو شدید ترین سرکش ہوں گے جو رحمن جل مجدہ کی نافرمانی پر مضبوطی سے جمے رہے اور دوسروں کو بھی نافرمانی پر لگاتے رہے انھیں علیحدہ کرلیا جائے گا اس کو (ثُمَّ لَنَنْزِ عَنَّ مِنْ کُلِّ شِیْعَۃٍ اَیُّھُمْ اَشَدُّ عَلَی الرَّحْمٰنِ عِتِیًّا) میں بیان فرمایا۔ (صاحب روح المعانی ص ١١٩ ج ١٦) اس آیت کی تفسیر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہم اصحاب کفر کی جماعتوں میں سے سب سے زیادہ نافرمان انسانوں کو علیحدہ کردیں گے، ان کے بعد انھیں علیحدہ کریں گے، جو نافرمانی اور سرکشی میں ان کے بعد ہوں گے یہاں تک کہ نافرمانیوں کے اعتبار سے ترتیب وار الگ الگ ان کے بڑوں کو علیحدہ علیحدہ کرتے رہیں گے پھر انھیں دوزخ میں ڈال دیں گے جو شخص جس درجے کا نافرمان ہوگا اسی درجے کا عذاب پائے گا اور ہر ایک کا عذاب نافرمانی کے بقدر ہوگا جو لوگ کفر کے سرغنے تھے ایمان سے روکا کرتے تھے انھیں عام کافروں کے اعتبار سے زیادہ عذاب ہوگا سورة نحل میں فرمایا (اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ زِدْنٰھُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا کَانُوْا یُفْسِدُوْنَ ) (جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستہ سے روکا ہم ان کا عذاب، عذاب پر بڑھا دیں گے اس وجہ سے کہ وہ فساد کرتے تھے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

69 پھر ہم ہرگوہ میں ان لوگوں کو کھینچ کر جدا کرلیں گے جو ان میں سب سے زیادہ رحمان سے سرکشی کیا کرتے تھے اور جو رحمان کے مقابلہ میں اکڑ رکھنے میں سخت تھے۔ یعنی دین حق کے منکروں میں خواہ وہ یہود ہوں یا نصاریٰ یا مجوس اور بت پرست ان تمام گروہوں میں سے ان لوگوں کو علیحدہ کرلیا جائے گا جو دین حق کی مخالفت میں زیادہ سرگرم تھے اور رحمان سے اکڑ رکھنے میں زیادہ سخت تھے۔