Surat Marium

Surah: 19

Verse: 79

سورة مريم

کَلَّا ؕ سَنَکۡتُبُ مَا یَقُوۡلُ وَ نَمُدُّ لَہٗ مِنَ الۡعَذَابِ مَدًّا ﴿ۙ۷۹﴾

No! We will record what he says and extend for him from the punishment extensively.

ہرگز نہیں ، یہ جو بھی کہہ رہا ہے ہم اسے ضرور لکھ لیں گے ، اور اس کے لئے عذاب بڑھائے چلے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

كَلَّ ... Nay, This is a participle that opposes what came before it and gives emphasis to what follows it. ... سَنَكْتُبُ مَا يَقُولُ ... We shall record what he says, what he is seeking, and his idea that he has given himself about what he hopes for, and his disbelief in Allah the Most Great. ... وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا We shall increase his torment. This is referring to what will happen in the abode of the Hereafter, because of his saying his disbelief in Allah in this life.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٢] یعنی اس کے نامہ اعمال میں اس کا یہ غرور کا کلمہ بھی ضرور درج کرلیا جائے گا اور اس کے گناہوں کی سزا پر اس کی اس جسارت کے گناہ کا مزید اضافہ کیا جائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

” كَلَّا “ یہ لفظ انکار اور ڈانٹ کے لیے آتا ہے، یعنی یہ دونوں باتیں ہرگز نہیں ہیں، تو پھر ایک ہی بات رہ جاتی ہے کہ اس نے اپنے پاس سے ایک جھوٹی بات اللہ تعالیٰ کے ذمے لگا دی ہے۔ یہاں سورة مریم میں اس تیسری بات کا ذکر نہیں، کیونکہ اس سے پہلے سورة بقرہ میں یہود کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے یہ بات گزر چکی ہے اور قرآن کی آیات ایک دوسری کی تفسیر کرتی ہیں، فرمایا : (؀ وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَةً ۭ قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰهِ عَهْدًا فَلَنْ يُّخْلِفَ اللّٰهُ عَهْدَهٗٓ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ) [ البقرۃ : ٨٠ ] ” اور انھوں نے کہا ہمیں آگ ہرگز نہیں چھوئے گی مگر گنے ہوئے چند دن۔ کہہ دے کیا تم نے اللہ کے پاس کوئی عہد لے رکھا ہے ؟ تو اللہ کبھی اپنے عہد کے خلاف نہیں کرے گا، یا تم اللہ پر وہ بات کہتے ہو جو تم نہیں جانتے۔ “ (شنقیطی) وَنَمُدُّ لَهٗ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا : یعنی ہم اسے کئی گنا زیادہ عذاب دیں گے، ایک عذاب کفر کا، ایک استہزا اور مذاق اڑانے کا، ایک اللہ کی راہ سے روکنے کا، ایک دوسروں کو کفر کی راہ پر لگانے کا، ایک فساد پھیلانے کا۔ مزید دیکھیے سورة نحل (٨٨) ، اعراف (٣٨) اور عنکبوت (١٣) اسی طرح دنیا میں بھی مال و اولاد اور ہر قسم کی زیب و زینت کے ذریعے سے اسے عذاب دیں گے، پھر موت اور آخرت میں مزید عذاب دیں گے، فرمایا : (اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الدُّنْيَا ) [ التوبۃ : ٨٥ ] ” اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ انھیں ان (اموال و اولاد) کے ذریعے سے دنیا میں سزا دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَلَّا ۝ ٠ۭ سَنَكْـتُبُ مَا يَقُوْلُ وَنَمُدُّ لَہٗ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا۝ ٧٩ۙ مد أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] . وأكثر ما جاء الإمْدَادُ في المحبوب والمدُّ في المکروه نحو : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور/ 22] أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون/ 55] ، وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح/ 12] ، يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران/ 125] ، أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل/ 36] ، وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم/ 79] ، وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف/ 202] ، وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان/ 27] فمن قولهم : مَدَّهُ نهرٌ آخرُ ، ولیس هو مما ذکرناه من الإمدادِ والمدِّ المحبوبِ والمکروهِ ، وإنما هو من قولهم : مَدَدْتُ الدّواةَ أَمُدُّهَا «1» ، وقوله : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف/ 109] والمُدُّ من المکاييل معروف . ( م د د ) المد کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ مددتہ فی غیہ ۔ گمراہی پر مہلت دینا اور فورا گرفت نہ کرنا ۔ مددت الابل اونٹ کو مدید پلایا ۔ اور مدید اس بیج اور آٹے کو کہتے ہیں جو پانی میں بھگو کر باہم ملا دیا گیا ہو امددت الجیش بمدد کا مددینا ۔ کمک بھیجنا۔ امددت الانسان بطعام کسی کی طعام ( غلہ ) سے مددکرنا قرآن پاک میں عموما امد ( افعال) اچھی چیز کے لئے اور مد ( ثلاثی مجرد ) بری چیز کے لئے ) استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور/ 22] اور جس طرح کے میوے اور گوشت کو ان کا جی چاہے گا ہم ان کو عطا کریں گے ۔ أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون/ 55] کیا یہ لوگ خیا کرتے ہیں ک ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں ۔ وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح/ 12] اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا ۔ يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران/ 125] تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیجے گا ۔ أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل/ 36] کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو ۔ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم/ 79] اور اس کے لئے آراستہ عذاب بڑھاتے جاتے ہیں ۔ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت اور سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف/ 202] اور ان ( کفار) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں لیکن آیت کریمہ : وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان/ 27] اور سمندر ( کا تمام پانی ) روشنائی ہو اور مہار ت سمندر اور ( روشنائی ہوجائیں ) میں یمددہ کا صیغہ مدہ نھرا اخر کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ امداد یا مد سے نہیں ہے جو کسی محبوب یا مکروہ وہ چیز کے متعلق استعمال ہوتے ہیں بلکہ یہ مددت الداواۃ امد ھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دوات میں روشنائی ڈالنا کے ہیں اسی طرح آیت کریمہ : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف/ 109] اگرچہ ہم دیسا اور سمندر اس کی مددکو لائیں ۔ میں مداد یعنی روشنائی کے معنی مراد ہیں ۔ المد۔ غلہ ناپنے کا ایک مشہور پیمانہ ۔ ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٩) ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا جو یہ بکتا ہے، ہم اس کا یہ جھوٹ بھی لکھے لیتے ہیں اور اس کے لیے عذاب بڑھاتے چلے جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٩ (کَلَّاطسَنَکْتُبُ مَا یَقُوْلُ ) ” ہم ایسے شخص کی ایک ایک بات کو لکھ کر محفوظ کرلیں گے تاکہ اس سے پوری طرح جوابدہی کی جاسکے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

48. That is, the boastful words of his shall also be included in the record of his crimes and he shall have to bear the consequences of his arrogant claim.

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :48 یعنی اس کے جرائم کے ریکارڈ میں اس کا یہ کلمہ غرور بھی شامل کر لیا جائے گا اور اس کا مزا بھی اسے چکھنا پڑے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:79) کلا۔ حرف ردع وزجر ہے۔ اور اکثر انکار ومنع کے لئے آتا ہے جیسے کوئی کہے کفر زید تو اس کے جواب میں کہا جائے کلا ہرگز نہیں۔ یہاں انہی معنوں میں آیا ہے۔ کبھی کلا۔ حقا۔ بیشک کے معنی میں بھی آتا ہے۔ جیسے کلا سوف تعلمون (102:3) بیشک تم عنقریب جان جائو گے۔ سنکتب۔ س فعل مضارع کو مستقبل قریب کے معنی کے لئے مخصوص کردیتا ہے۔ سنکتب کے اگر ” ہم عنقریب لکھ لیں گے “ معنی لئے جائیں تو یہ قولہ تعالیٰ ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید (50:18) وہ کوئی لفظ منہ سے نکالنے نہیں پاتا مگر یہ کہ اس کے آس پاس ہی ایک تاک میں لگا رہنے والا تیار ہے (جو اسے اس وقت لکھ لیتا ہے) کے خلاف جاتا ہے۔ اس لئے یہاں سننظر لہ ونعلمہ انا کتبنا قولہ (ہم عنقریب اس پر واضح کردیں گے اور اسے بتادیں گے کہ ہم نے جو کچھ اس نے کہا تھا لکھ لیا تھا) کے معنوں میں لایا گیا ہے۔ یا یہ تسمیۃ الشی باسم سببہ (یعنی کسی شے کو اس کے سبب سے موسوم کرنا) کی مثال ہے۔ اور اس کے قول کو رقم کرنے سے مراد استعارۃً وہ سزا و انتقام ہے جس کا وہ اپنی اس گستاخانہ گفتگو کی وجہ سے لامحالہ اس کا سزاوار ہے۔ یا جیسا کہ بعض کا قول ہے س یہاں تاکید کے لئے ہے یعنی جو کچھ وہ بولتا ہے ہم اسے بالالتزام لکھ لیتے ہیں۔ نمد۔ مضارع جمع متکلم مدد مصدر۔ باب نصر۔ المد کے اصل معنی (لمبائی) میں کھینچنے اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں جیسے کہ دوسری جگہ آیا ہے الم تر الی ربک کیف مد الظل (25:45) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کر کے پھیلا دیتا ہے۔ باب افعال سے امد یمد بمعنی مدد دینا۔ جیسے اتمدونن بمال (27:36) کیا تم مال سے مجھے مدد دینا چاہتے ہو۔ یہاں یہ ثلاثی مجرد سے آیا ہے مدا مصدر کو تاکید کے لئے لایا گیا ہے مدا مصدر کو تاکید کے لئے لایا گیا ہے یعنی ہم اس کے لئے عذاب کو بڑھاتے ہی چلے جائیں گے اور یہ عذاب کو بڑھانا مدت کے لئے بھی ہوسکتا ہے اور شدت کے لئے بھی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یہ کلمہ اجر ہے اور اسے اس کی غلطی پر متنبہ کیا ہے یعنی یہ دونوں باتیں نہیں ہیں10 یعنی اسے دوہرا عذاب دیں گے ایک عذاب کفر کا دوسرا استہزا اور مذاق اڑانے کا

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

کلا سنکتب۔۔۔۔۔۔ مدا (٩١ : ٩٧) ” ہر گز نہیں ‘ جو کچھ یہ بکتا ہے اسے ہم لکھ لیں گے اور اس کے لئے سزا میں اور اضافہ کریں گے “۔ یعنی وہ جو کچھ کہتا ہے اسے لکھیں گے کہ یوم الحساب کے لئے حسب معمول اس کا ریکارڈ تیار ہوتا کہ نہ وہ بھولے اور نہ مغالتہ ہو ‘ یہ تہدید اور ڈراوی کی نہایت ہی بہتر ین تصویر کشی ہے۔ حالانکہ مغالطہ تو وہاں ہو نہیں سکتا۔ اللہ کا علم تو نہ صغیرہ کو چھوڑتا ہے اور نہ کبیرہ کو۔ یعنی ہم اس کے عذاب کو طویل و عریض کرتے چلے جائیں گے۔ اس میں کوئی کمی اور کوئی انقطاع نہ ہوگا۔ مزید ڈر اور اتصویر کشی کے انداز میں ملاحظہ ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(سَنَکْتُبُ مَا یَقُوْلُ ) (وہ جو باتیں کہتا ہے ہم انھیں عنقریب لکھ لیں گے) (وَ نَمُدُّلَہٗ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا) (یعنی ہم اس کے لیے عذاب میں اضافہ کریں گے) کفر پر تو عذاب ہوتا ہی ہے اس کے لیے عذاب پر مزید عذاب ہے کیونکہ اس نے اللہ پر جرأت کی اور یوں کہا مجھے وہاں بھی مال اور اولاد دیے جائیں گے، اس نے استہزاء کے انداز میں ایمان کا انکار کیا اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کی (وَّ وَرِثُہٗ مَا یَقُوْلُ ) (اور جو کچھ وہ کہہ رہا ہے ہم اس کے وارث ہوں گے) یعنی دنیا میں ہم نے جو کچھ اسے دیا ہے مال ہو یا اولاد یہ ہماری ملکیت ہے اور جب وہ مرجائے گا تو اس کی مجازی ملکیت بھی ختم ہوجائے گی جن چیزوں کو اپنی کہتا ہے وہ سب یہیں رہ جائیں گی (وَ یَاْتِیْنَا فَرْدًا) (اور وہ ہمارے پاس تن تنہا آئے گا) اس کے پاس وہاں نہ کوئی مال ہوگا نہ اولاد ہوگی جب یہ دنیا والا مال اور اولاد بھی ساتھ نہ ہوگا تو وہاں مزید مال ملنے کا دعویٰ کیسے کرتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

79 ہرگز نہیں جو کچھ یہ کہتا ہے ہم اس کو لکھ لیں گے اور ہم اس پر عذاب بڑھاتے چلے جائیں گے۔ یعنی جو کچھ اس نے کہا ہے یہ ہم اس کے اعمال بد کی فہرست میں لکھ دیں گے اور شامل کردیں گے اور سزا دینے میں اس کا عذاب بڑھاتے چلے جائیں گے۔