Surat Marium

Surah: 19

Verse: 80

سورة مريم

وَّ نَرِثُہٗ مَا یَقُوۡلُ وَ یَاۡتِیۡنَا فَرۡدًا ﴿۸۰﴾

And We will inherit him [in] what he mentions, and he will come to Us alone.

یہ جن چیزوں کو کہہ رہا ہے اسے ہم اس کے بعد لے لیں گے ۔ اور یہ تو بالکل اکیلا ہی ہمارے سامنے حاضر ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَنَرِثُهُ مَا يَقُولُ ... And We shall inherit from him all that he speaks of, (His wealth and children). It means, "We will take all of this from him, in opposition to his claim that he will be given more wealth and children in the Hereafter than he had in this life." To the contrary, in the Hereafter that which he had in this life will be taken from him. This is why Allah says, ... وَيَأْتِينَا فَرْدًا And he shall come to Us alone. without wealth or children.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

80۔ 1 ان آیات کی شان نزول میں بتلایا گیا ہے۔ کہ حضرت عمرو بن العاص (رض) کے والد عاص بن وائل، جو اسلام کے شدید دشمنوں میں سے تھا۔ اس کے ذمے حضرت خباب بن ارت کا قرضہ تھا جو آہن گری کا کام کرتے تھے۔ حضرت خباب (رض) نے اس سے اپنی رقم کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا جب تک تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر نہیں کرے گا میں تجھے تیری رقم نہیں دونگا۔ انہوں نے کہا یہ کام تو، تو مر کر دوبارہ زندہ ہوجائے تب بھی نہیں کرونگا۔ اس نے کہا اچھا پھر ایسے ہی سہی، جب مجھے مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جائے گا اور وہاں بھی مجھے مال واولاد سے نوازا جائے گا تو میں وہاں رقم ادا کر دونگا (صحیح بخاری) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جو دعویٰ کر رہا ہے کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہاں بھی اس کے پاس مال اور اولاد ہوگی ؟ یا اللہ سے اس کا کوئی عہد ہے ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے یہ صرف اللہ تعالیٰ اور آیات الہٰی کا استہزا و تمسخر ہے یہ جس مال واولاد کی بات کر رہا ہے اس کے وارث تو ہم ہیں یعنی مرنے کے ساتھ ہی ان سے اس کا تعلق ختم ہوجائے گا اور ہماری بارگاہ میں یہ اکیلا آئے گا نہ مال ساتھ ہوگا نہ اولاد اور نہ کوئی جتھہ۔ البتہ عذاب ہوگا جو اس کے لیے اور ان جیسے دیگر لوگوں کے لیے ہم بڑھاتے رہیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٣] یعنی جس مال و دولت کی یہ اب بات کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ یہیں دنیا میں ہی دھرا رہ جائے گا اور با لآخر یہ سب کچھ ہماری ہی ملکیت میں آجائے گا اور یہ شخص بالکل خالی ہاتھ ہمارے پاس حاضر ہوگا۔ البتہ اس کے گستاخانہ کلمات اور بدکرداریاں ضرور اس کے ساتھ آئیں گی۔ جن کی اسے قرار واقعی سزا ملے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۙوَّنَرِثُهٗ مَا يَقُوْلُ : یعنی جس مال و اولاد پر یہ فخر کر رہا ہے اس کے ہلاک ہونے کے بعد ان سب کے وارث ہم بنیں گے، جیسا کہ اسی سورت میں ارشاد فرمایا : (اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا وَاِلَيْنَا يُرْجَعُوْنَ ) [ مریم : ٤٠ ] ” بیشک ہم، ہم ہی اس زمین کے وارث ہوں گے اور ان کے بھی جو اس پر ہیں اور وہ ہماری ہی طرف لوٹائے جائیں گے۔ “ وَيَاْتِيْنَا فَرْدًا : یعنی قیامت کے دن جب ہمارے پاس آئے گا تو اس کے ساتھ نہ اولاد ہوگی، نہ مال اور نہ کوئی جتھا۔ دیکھیے سورة انعام (٩٤) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَنَرِ‌ثُهُ مَا يَقُولُ |"And We will inherit from him what he is talking about|" - 19:80. It is foolish of him to talk about retaining his wealth and children in the Hereafter because he will have to leave behind even these things which he possesses in this world, and his wealth and children will all revert to Allah Ta’ ala. وَيَأْتِينَا فَرْ‌دًا |"And he.will come to Us all alone|" - 19:80. And on the Day of Judgment he will appear in God&s presence one without his wealth and his children.

وَّنَرِثُهٗ مَا يَقُوْلُ ، یعنی جس مال اور اولاد کا یہ ذکر کر رہا ہے آخرت میں ملنے کا معاملہ تو بہت دور ہے دنیا میں بھی جو کچھ اس کو ملا ہوا ہے اس کو بھی چھوڑنا پڑے گا اور اس کے وارث آخر کار ہم ہوں گے یعنی یہ مال و اولاد اس سے چھین کر بالآخر اللہ کی طرف لوٹ جائے گا۔ وَيَاْتِيْنَا فَرْدًا، اور قیامت کے روز یہ اکیلا ہمارے دربار میں حاضر ہوگا نہ کوئی اولاد ساتھ ہوگی نہ مال۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّنَرِثُہٗ مَا يَقُوْلُ وَيَاْتِيْنَا فَرْدًا۝ ٨٠ ورث الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» «2» أي : أصله وبقيّته، قال الشاعر : 461- فينظر في صحف کالرّيا ... ط فيهنّ إِرْثٌ کتاب محيّ «3» ويقال : وَرِثْتُ مالًا عن زيد، ووَرِثْتُ زيداً : قال تعالی: وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل/ 16] ، وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء/ 11] ، وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة/ 233] ويقال : أَوْرَثَنِي الميّتُ كذا، وقال : وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء/ 12] وأَوْرَثَنِي اللهُ كذا، قال : وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 59] ، وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان/ 28] ، وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب/ 27] ، وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف/ 137] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء/ 19] ويقال لكلّ من حصل له شيء من غير تعب : قد وَرِثَ كذا، ويقال لمن خُوِّلَ شيئا مهنّئا : أُورِثَ ، قال تعالی: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف/ 72] ، أُولئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ [ المؤمنون/ 10- 11] وقوله : وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ [ مریم/ 6] فإنه يعني وِرَاثَةَ النّبوّةِ والعلمِ ، والفضیلةِ دون المال، فالمال لا قدر له عند الأنبیاء حتی يتنافسوا فيه، بل قلّما يقتنون المال ويملکونه، ألا تری أنه قال عليه الصلاة ( ور ث ) الوارثۃ ولا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے اوکے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے اذث تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت نے فرمایا : ۔ کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔۔ شاعر نے کہا ہے ( 446 ) فینظر فی صحف کالریا فیھن ارث کتاب محی وہ صحیفوں میں تالت باندھنے والے کی طرح غور کرتا ہے جن میں کہ مٹی ہوئی کتابت کا بقیہ ہے ۔ اور محاورہ میں ورث مالا عن زید وو رثت زیدا ( میں زید کا وارث بنا دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل/ 16] اور سلیمان داؤد کے قائم مقام ہوئے ۔ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء/ 11] اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں ۔ وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة/ 233] اور اسی طرح نان ونفقہ بچے کے وارث کے ذمہ ہے يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء/ 19] مومنوں تم کو جائز نہیں ہے کہ زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۔ اور اوثنی المیت کذا کے معنی ہیں میت نے مجھے اتنے مال کا وارث بنایا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء/ 12] اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا ۔ اور اور ثنی اللہ کذا کے معنی کسی چیز کا وارث بنا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 59] اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔ وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان/ 28] اور ان کی زمین کا تم کو وارث بنایا : ۔ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب/ 27] اور جو لوگ ( کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو وارث کردیا ۔ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف/ 137] ہر وہ چیز جو بلا محنت ومشقت حاصل ہوجائے اس کے متعلق ورث کذا کہتے ہیں اور جب کسی کو خوشگوار چیز بطور دی جانے تو اورث کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف/ 72] اور یہ جنت جس کے تم مالک کردیئے گئے ہو أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے فرد الفَرْدُ : الذي لا يختلط به غيره، فهو أعمّ من الوتر وأخصّ من الواحد، وجمعه : فُرَادَى. قال تعالی: لا تَذَرْنِي فَرْداً [ الأنبیاء/ 89] ، أي : وحیدا، ويقال في اللہ : فرد، تنبيها أنه بخلاف الأشياء کلّها في الازدواج المنبّه عليه بقوله : وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، وقیل : معناه المستغني عمّا عداه، كما نبّه عليه بقوله : غَنِيٌّ عَنِ الْعالَمِينَ [ آل عمران/ 97] ، وإذا قيل : هو مُنْفَرِدٌ بوحدانيّته، فمعناه : هو مستغن عن کلّ تركيب وازدواج تنبيها أنه مخالف للموجودات کلّها . وفَرِيدٌ: واحد، وجمعه فُرَادَى، نحو : أسير وأساری. قال : وَلَقَدْ جِئْتُمُونا فُرادی [ الأنعام/ 94] . ( ف ر د ) الفرد ( اکیلا ) اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ساتھ دوسری نہ ملائی گئی ہو یہ لفظ وتر ( طاق ) سے عام اور واحد سے خاص ہے اس کی جمع فراد ی ہے قرآن میں ہے : ۔ لا تَذَرْنِي فَرْداً [ الأنبیاء/ 89] پروردگار ( مجھے اکیلا نہ چھوڑ ۔ اور اللہ تعالیٰ کے متعلق فرد کا لفظ بولنے میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ وہ تنہا ہے اس کے بر عکس باقی اشیار جوڑا جوڑا پیدا کی گئی ہیں جس پر کہ آیت وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] اور ہر چیز کی ہم نے دو قسمیں بنائیں ۔ میں تنبیہ پائی جاتی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اللہ کے فرد ہونے کے معنی یہ ہیں کہ دوسروں سے بےنیاز ہے جیسا کہ آیت : ۔ غَنِيٌّ عَنِ الْعالَمِينَ [ آل عمران/ 97] اہل عالم سے بےنیاز ہے ۔ میں اس پر تبنبیہ کی ہے اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ ذات باری تعالیٰ اپنی واحدنیت میں منفرد ہے تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ وہ ذات ہر قسم کی ترکیب اور مجانست سے مبرا ہے اور جملہ موجودات کے بر عکس ہے ۔ اور فرید کے معنی واحد یعنی اکیلا اور تنہا کے ہیں اس کی جمع فراد ی آتی ہے جیسے اسیر کی جمع اساریٰ ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ جِئْتُمُونا فُرادی [ الأنعام/ 94] اور جیسا ہم نے تم کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا ایسا ہی آج اکیلے ہمارے پاس آئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٠) اور جنت میں جن چیزوں کو یہ اپنے لیے کہہ رہا ہے اس کے ہم مالک رہ جائیں گے اور وہ ہم مومنین کو دیں گے اور یہ قیامت کے دن ہمارے پاس مال واولاد اور دیگر چیزوں سے تنہا ہو کر آئے گا، حضرت خباب بن ارت (رض) کا عاص بن وائل پر کچھ قرض تھا جس کے تقاضا پر اس نے ایسا کہا تھا اس کے متعلق یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٠ (وَنَرِثُہٗ مَا یَقوْلُ وَیَاْتِیْنَا فَرْدًا ) ” اس کا دنیوی مال و متاع تو سب ہماری وراثت میں آجائے گا اور جب اسے ہماری عدالت میں پیش ہونے کے لیے لایا جائے گا تو وہ بالکل یکہ و تنہا ہوگا۔ مال و اولاد ‘ خدم و حشم ‘ قوم و قبیلہ ‘ ہم مشرب و حاشیہ نشین وغیرہ میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ نہیں ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:80) نرثہ مضارع جمع متکلم ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب باب حسب یحسب سے۔ الوارثہ والارث کے معنی ہیں کسی چیز کا ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دوسرے کی ملکیت میں چلے جانا بلا بیع وشرائ۔ بلا ہبہ وغیرہ۔ اللہ کے وارث ہونے کا معنی ہے مالک حقیقی ہونا۔ اس کو ہر چیز پر ظاہری۔ باطنی۔ صوری اور حقیقی اختیار ہونا۔ جیسے آیا ہے وللہ میراث السموت والارض (3:180) اور اللہ ہی حقیقی مالک ہے آسمانوں کا اور زمین کا ونرثہ ما یقول۔ اور اس کی کہی ہوئی بات کے ہم ہی مالک رہ جائیں گے۔ یعنی جن مال واولاد کا وہ ذکر کر رہا ہے اس کے مرنے کے بعد ہی ان کے مالک رہ جائیں گے۔ ویاتینا فردا۔ اور وہ ہمارے پاس تنہا ہی آئے گا۔ یاتینا۔ مضارع مجزوم واحد مذکر غائب۔ نا ضمیر مفعول جمع متکلم۔ فردا۔ اکیلا۔ بوجہ حال ہونے کے منصوب ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی قیامت کے دن جب اس کے پاس نہ مال ہوگا اور نہ اولاد (دیکھیے سورة کہف آیت 8)12 یعنی انکی سفارش کر کے اللہ کے عذاب سے ان کے بچائو کا سبب بنیں۔ مسئلہ حشر و نشر بیان کرنے کے بعد اب ان کے بتوں کی پرستش کی تردید ہے۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ونرثہ مایقول (٩١ : ٠٨) ” جس سرو سامان اور لائو لشکر کا یہ ذکر کر رہا ہے وہ سب ہمارے پاس رہ جائے گا “۔ یہ جو مال واولاد چھوڑے گا اسے ہم اس طرح لے لیں گے جس طرح وارث اپنی موروثہ اشیاء کو لے لیتا ہے۔ ویاتینا فردا (٩١ : ٠٨) ” یہ اکیلا ہمارے سامنے حاضر ہوگا “۔ اس کے پاس نہ مال ہوگا ‘ نہ اولاد ہوگی اور نہ کوئی مدد گار ہوگا ‘ نہ کوئی سند و ثبوت ہوگا۔ یہ اکیلا ‘ ضعیف و ناتواں ہمارے سامنے ہوگا۔ تو کیا تو نے ایسے شخص کو دیکھا ہے کہ وہ ہماری آیات کا انکار کرتا ہے ‘ وہ اس دن کے ساتھمذاق کرتا ہے جس دن یہ تہی دست ہوگا۔ اس دنیا میں اس کے تمام مملوکات اس کے ہاتھ سے چلے جائیں گے۔ یہ شخص ہے نمونہ کفر اور مثال کفار ‘ انکار ‘ اوعا اور گمراہی کی مثال ۔ اب یہاں بتایا جاتا ہے کہ کفر اور شرک کی علامات کیا ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

80 اور یہ جس مال و اولاد کو کہتا ہے اس کے ہم وارث اور مالک ہوں گے اور وہ ہمارے حضور میں بغیر مال و اولاد کے تنہا اور اکیلا حاض رہو گا۔ یعنی جس مال و اولاد کے ملنے کا متوقع ہے اس مال و اولاد کے ہم مالک ہوں گے اور قیامت میں اس کے پاس نہ مال ہوگا اور نہ اولاد بلکہ یہ بدون مال و اولاد کے تنہا ہماری حضور میں حاضر ہوگا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں جو بتاتا تھا یعنی مال اور اولاد اس کافر کے دونوں بیٹے مسلمان ہوئے۔ 12