Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 106

سورة البقرة

مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنۡہَاۤ اَوۡ مِثۡلِہَا ؕ اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۱۰۶﴾

We do not abrogate a verse or cause it to be forgotten except that We bring forth [one] better than it or similar to it. Do you not know that Allah is over all things competent?

جس آیت کو ہم منسوخ کر دیں ، یا بھلا دیں اس سے بہتر یا اس جیسی اور لاتے ہیں ، کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Meaning of Naskh Ayah says; مَا نَنسَخْ مِنْ ايَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ... Whatever a verse (revelation) do Nansakh (We abrogate) or Nunsiha (cause to be forgotten), We bring a better one or similar to it. Ibn Abi Talhah said that Ibn Abbas said that, مَا نَنسَخْ مِنْ ايَةٍ (Whatever a verse (revelation) do Nansakh) means, "Whatever an Ayah We abrogate." Also, Ibn Jurayj said that Mujahid said that, مَا نَنسَخْ مِنْ ايَةٍ (Whatever a verse (revelation) do Nansakh) means, "Whatever an Ayah We erase." Also, Ibn Abi Najih said that Mujahid said that, مَا نَنسَخْ مِنْ ايَةٍ (Whatever a verse (revelation) do Nansakh) means, "We keep the words, but change the meaning." He related these words to the companions of Abdullah bin Mas`ud. Ibn Abi Hatim said that similar statements were mentioned by Abu Al-Aliyah and Muhammad bin Ka`b Al-Qurazi. Also As-Suddi said that, مَا نَنسَخْ مِنْ ايَةٍ (Whatever a verse (revelation) do Nansakh) means, "We erase it." Further, Ibn Abi Hatim said that it means, "Erase and raise it, such as erasing the following wordings (from the Qur'an), `The married adulterer and the married adulteress: stone them to death,' and, `If the son of Adam had two valleys of gold, he would seek a third."' Ibn Jarir stated that, مَا نَنسَخْ مِنْ ايَةٍ (Whatever a verse (revelation) do Nansakh) means, "Whatever ruling we repeal in an Ayah by making the allowed unlawful and the unlawful allowed." The Nasakh only occurs with commandments, prohibitions, permissions, and so forth. As for stories, they do not undergo Nasakh. The word, `Nasakh' literally means, `to copy a book'. The meaning of Nasakh in the case of commandments is removing the commandment and replacing it by another. And whether the Nasakh involves the wordings, the ruling or both, it is still called Nasakh. Allah said next, ... أَوْ نُنسِهَا ... or Nunsiha (cause it to be forgotten). Ali bin Abi Talhah said that Ibn Abbas said that, مَا نَنسَخْ مِنْ ايَةٍ أَوْ نُنسِهَا (Whatever a verse (revelation) do Nansakh or Nunsiha) means, "Whatever Ayah We repeal or uphold without change." Also, Mujahid said that the companions of Ibn Mas`ud (who read this word Nansa'ha) said that it means, "We uphold its wording and change its ruling." Further, Ubayd bin Umayr, Mujahid and Ata said, `Nansa'ha' means, "We delay it (i.e., do not abrogate it)." Further, Atiyah Al-Awfi said that the Ayah means, "We delay repealing it." This is the same Tafsir provided by As-Suddi and Ar-Rabi bin Anas. Abdur-Razzaq said that Ma`mar said that Qatadah said about Allah's statement, مَا نَنسَخْ مِنْ ايَةٍ أَوْ نُنسِهَا (Whatever a verse (revelation) do We abrogate or cause to be forgotten), "Allah made His Prophet forget what He willed and He abrogated what He will." Allah's said, ... نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ... We bring a better one or similar to it, better, relates to the benefit provided for the one it addresses, as reported from Ali bin Abi Talhah that Ibn Abbas said, نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا (We bring a better one) means, "We bring forth a more beneficial ruling, that is also easier for you." Also, As-Suddi said that, نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا (We bring a better one or similar to it) means, "We bring forth a better Ayah, or similar to that which was repealed." Qatadah also said that, نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا (We bring a better one or similar to it) means, "We replace it by an Ayah more facilitating, permitting, commanding, or prohibiting." Naskh occurs even though the Jews deny it Allah said, ... أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍ

( تبدیلی یا تنسیخ ۔ اللہ تعالیٰ مختار کل ہے حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں نسخ کے معنی بدل کے ہیں مجاہد فرماتے ہیں مٹانے کے معنی ہیں جو ( کبھی ) لکھنے میں باقی رہتا ہے اور حکم بدل جاتا ہے حضرت ابن مسعود کے شاگرد اور ابو العالیہ اور محمد بن کعب قرظی سے بھی اسی طرح مروی ہے ضحاک فرماتے ہیں بھلا دینے کے معنی ہیں عطا فرماتے ہیں چھوڑ دینے کے معنی ہیں سدی کہتے ہیں اٹھا لینے کے معنی ہیں جیسے آیت الشیخ والشیختہ اذا زنیا فارجمو ھما البتتہ یعنی زانی مرد و عورت کو سنگسار کر دیا کرو اور جیسے آیت ( لو کان لابن ادم و ادیان من ذھب لابتغی لھما ثالثا یعنی ابن آدم کو اگر دو جنگل سونے کے مل جائیں جب بھی وہ تیسرے کی جستجو میں رہے گا ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ احکام میں تبدیلی ہم کر دیا کرتے ہیں حلال کو حرام حرام کو حلال جائز کو ناجائز ناجائز کو جائز وغیرہ امر و نہی روک اور رخصت جائز اور ممنوع کاموں میں نسخ ہوتا ہے ہاں جو خبریں دی گئی ہیں واقعات بیان کئے گئے ہیں ان میں رد و بدل و ناسخ و منسوخ نہیں ہوتا ، نسخ کے لفظی معنی نقل کرنے کے بھی ہیں جیسے کتاب کے ایک نسخے سے دوسرا نقل کر لینا ۔ اسی طرح یہاں بھی چونکہ ایک حکم کے بدلے دوسرا حکم ہوتا ہے اس لئے نسخ کہتے ہیں خواہ وہ حکم کا بدل جانا ہو خواہ الفاظ کا ۔ علماء اصول کی عبارتیں اس مسئلہ میں گو مختلف ہیں مگر معنی کے لحاظ سے سب قریب قریب ایک ہی ہیں ۔ نسخ کے معنی کسی حکم شرعی کا پچھلی دلیل کی رو سے ہٹ جانا ہے کبھی ہلکی چیز کے بدلے بھاری اور کبھی بھاری کے بدلہ ہلکی اور کبھی کوئی بدل ہی نہیں ہوتا ہے نسخ کے احکام اس کی قسمیں اس کی شرطیں وغیرہ ہیں اس کے لئے اس فن کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے تفصیلات کی بسط کی جگہ نہیں طبرانی میں ایک روایت ہے کہ دو شخصوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سورت یاد کی تھی اسے وہ پڑھتے رہے ایک مرتبہ رات کی نماز میں ہر چند اسے پڑھنا چاہا لیکن یاد نے ساتھ نہ دیا گھبرا کر خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا آپ نے فرمایا یہ منسوخ ہو گئی اور بھلا دی گئی دلوں میں نکال لی گئی تم غم نہ کرو بےفکر ہو جاؤ حضرت زہری نون خفیفہ پیش کے ساتھ پڑھتے تھے اس کے ایک راوی سلیمان بن راقم ضعیف ہیں ۔ ابو بکر انباری نے بھی دوسری سند سے اسے مرفوع روایت کیا ہے جیسے قرطبی کا کنا ہے ۔ ننسھا کو ننساھا بھی پڑھا گیا ہے ۔ ننساھا کے معنی موخر کرنے پیچھے ہٹا دینے کے ہیں ۔ حضرت ابن عباس اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں یعنی ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں منسوخ کرتے ہیں ابن مروی ہے ہم اسے موخر کرتے ہیں اور ملتوی کرتے ہیں عطیہ عوفی کہتے ہیں ۔ یعنی منسوخ نہیں کرتے سدی اور ربیع بھی یہی کہتے ہیں ضحاک فرماتے ہیں ناسخ کو منسوخ کے پیچھے رکھتے ہیں ابو العالیہ کہتے ہیں اپنے پاس اسے روک لیتے ہیں حضرت عمر نے خطبہ میں ننسلھا پڑھا اور اس کے معنی موخر ہونے کے بیان کئے ننسھا جب پڑھیں تو یہ مطلب ہو گا کہ ہم اسے بھلا دیں ۔ اللہ تعالیٰ جس حکم کو اٹھا لینا چاہتا تھا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلا دیتا تھا اس طرح وہ آیت اٹھ جاتی تھی ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ننسھا پڑھتے تھے تو ان سے قسم بن ربیعہ نے کہا کہ سعید بن مسیب تو ننساھا پڑھتے ہیں تو آپ نے فرمایا سعید پر یا سعید کے خاندان پر تو قرآن نہیں اترا ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓى ) 87 ۔ الاعلی:6 ) ہم تجھے پڑھائیں گے جسے تو نہ بھولے گا اور فرماتا ہے آیت ( وَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ ) 18 ۔ الکہف:24 ) جب بھول جائے تو اپنے رب کو یاد کر ۔ حضرت عمر کا فرمان ہے کہ علی سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں اور ابی سے زیادہ اچھے قرآن کے قاری ہیں اور ہم ابی کا قول چھوڑ دیتے ہیں اس لئے کہ ابی کہتے ہیں میں نے تو جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اسے نہیں چھوڑوں گا اور فرماتے ہیں وما نسخ الخ یعنی ہم جو منسوخ کریں یا بھلا دیں اس سے بہتر لاتے ہیں یا اس جیسا ( بخاری و مسند احمد ) اس سے بہتر ہوتا ہے یعنی بندوں کی سہولت اور ان کے آرام کے لحاظ سے یا اس جیسا ہوتا ہے لیکن مصلحت الٰہی اس سابقہ چیز میں ہوتی ہے مخلوق میں تغیر و تبدل کرنے والا پیدائش اور حکم کا اختیار رکھنے والا ۔ ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے جس طرح جسے چاہتا ہے بناتا ہے جسے چاہے نیک بختی دیتا ہے جسے چاہے بدبختی دیتا ہے جسے چاہے تندرستی جسے چاہے بیماری ، جسے چاہے توفیق جسے چاہے بےنصیب کر دے ۔ بندوں میں جو حکم چاہے جاری کرے جسے چاہے حلال جسے چاہے حرام فرما دے جسے چاہے رخصت دے جسے چاہے روک دے وہ حاکم مطلق ہے جیسے چاہے احکام جاری فرمائے کوئی اس کے حکم کو رد نہیں کر سکتا جو چاہے کرے کوئی اس سے باز پرس نہیں کر سکتا وہ بندوں کو آزماتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ نبیوں اور رسولوں کے کیسے تابعدار ہیں کسی چیز کا کسی سے باز پرس نہیں کر سکتا وہ بندوں کو آزماتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ نبیوں اور رسولوں کے کیسے تابعدار ہیں کسی چیز کا مصلحت کی وجہ سے حکم دیا پھر مصلحت کی وجہ سے ہی اس حکم کو ہٹا دیا اب آزمائش ہوتی ہے نیک لوگ اس وقت بھی اطاعت کے لئے کمر بستہ تھے اور اب بھی ہیں لیکن بد باطن لوگ باتیں بناتے ہیں اور ناک بھوں چڑھاتے ہیں حالانکہ تمام مخلوق کو اپنے خالق کی تمام باتیں ماننی چاہئیں اور ہر حال میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنی چاہئے اور جو وہ کہے اسے دل سے سچا ماننا چاہئے ، جو حکم دے بجا لانا چاہئے جس سے روکے رک جانا چاہئے ، اس مقام پر بھی یہودیوں کا زبردست رد ہے اور ان کے کفر کا بیان ہے کہ وہ نسخ کے قائل نہ تھے بعض تو کہتے تھے اس میں عقلی محال لازم آتا ہے اور بعض نقلی محال بھی مانتے تھے اس آیت میں گو خطاب فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے مگر دراصل یہ کلام یہودیوں کو سنانا ہے جو انجیل کو اور قرآن کو اس وجہ سے نہیں مانتے تھے کہ ان میں بعض احکام توراۃ کے منسوخ ہو گئے تھے اور اسی وجہ سے وہ ان نبیوں کی نبوت کے بھی منکر ہو گئے تھے اور صرف عناد و تکبر کی بنا تھی ورنہ عقلاً نسخ محال نہیں اس لئے کہ جس طرح وہ اپنے کاموں میں با اختیار رہے اسی طرح اپنے حکموں میں بھی با اختیار رہے جو چاہے اور جب چاہے پیدا کرے جسے چاہے اور جس طرح چاہے اور جس وقت چاہے رکھے ۔ اسی طرح جو چاہے اور جس وقت چاہے حکم دے اس حاکموں کے حاکم کا حاکم کون؟ اسی طرح نقلاً بھی یہ ثابت شدہ امر ہے اگلی کتابوں اور پہلی شریعتوں میں موجود ہے حضرت آدم کی بیٹیاں بیٹے آپس میں بھائی بہن ہوتے تھے لیکن نکاح جائز تھا پھر اسے حرام کر دیا نوح علیہ السلام جب کشتی سے اترتے ہیں تب تمام حیوانات کا کھانا حلال تھا لیکن پھر بعض کی حلت منسوخ ہو گئی دو بہنوں کا نکاح اسرائیل اور ان کی اولاد پر حلال تھا لیکن پھر توراۃ میں اور اس کے بعد حرام ہو گیا ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی قربانی کا حکم دیا پھر قربان کرنے سے پہلے ہی منسوخ کر دیا بنو اسرائیل کو حکم دیا جاتا ہے کہ بچھڑا پوجنے میں جو شامل تھے سب اپنی جانوں کو قتل کر ڈالیں لیکن پھر بہت سے باقی تھے کہ یہ حکم منسوخ ہو جاتا ہے اسی طرح کے اور بہت سے واقعات موجود ہیں اور خود یہودیوں کو ان کا اقرار ہے لیکن پھر بھی قرآن اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہہ کر نہیں مانتے کہ اس سے اللہ کے کلام میں نسخ لازم آتا ہے اور وہ محال ہے ، بعض لوگ جو اس کے جواب میں لفظی بحثوں میں پڑ جاتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ اس سے دلالت نہیں بدلتی اور مقصود وہی رہتا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت یہ لوگ اپنی کتابوں میں پاتے تھے آپ کی تابعداری کا حکم بھی دیکھتے تھی یہ بھی معلوم تھا کہ آپ کی شریعت کے مطابق جو عمل نہ ہو وہ مقبول نہیں ہو گیا یہ اور بات ہے کہ کوئی کہے کہ اگلی شریعتیں صرف آپ کے آنے تک ہی تھیں اس لئے یہ شریعت ان کی ناسخ نہیں یا کہے کہ ناسخ ہے بہر صورت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ اس لئے کہ آپ آخری کتاب اللہ کے پاس سے ابھی ابھی لے کر آئے ہیں پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نسخ کے جواز کو بیان فرما کر اس ملعون گروہ یہود کا رد کیا سورۃ آل عمران میں بھی جس کے شروع میں بنی اسرائیل کو خطا کیا گیا ہے نسخ کے واقع ہونے کا ذکر موجود ہے فرماتا ہے آیت ( کل الطعام ) الخ یعنی سبھی کھانے بنی اسرائیل پر حلال تھے مگر جس چیز کو حضرت اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا اس کی مزید تفسیر وہیں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ مسلمان کل کے کل متفق ہیں کہ احکام باری تعالیٰ میں نسخ کا ہونا جائز ہے بلکہ واقع بھی ہے اور پروردگار کی حکمت بالغہ کا دستور بھی یہی ہے ابو مسلم اصبہانی مفسر نے لکھا ہے کہ قرآن میں نسخ واقع نہیں ہوتا لیکن اس کا یہ قول ضعیف اور مردود اور محض غلط اور جھوٹ ہے جہاں نسخ قرآن موجود ہے اس کے جاب میں گو بعض نے بہت محنت سے اس کی تردید کی ہے لیکن محض بےسود دیکھئے پہلے اس عورت کی عدت جس کا خاوند مر جائے ایک سال تھی لیکن پھر چار مہینے دس دن ہوئی اور دونوں آیتیں قرآن پاک میں موجود ہیں قبلہ پہلے بیت المقدس تھا ۔ پھر کعبتہ اللہ ہوا اور دوسری آیت صاف اور پہلا حکم بھی ضمناً مذکور ہے پہلے کے مسلمانوں کو حکم تھا کہ ایک ایک مسلمان دس دس کافروں سے لڑے اور ان کے مقابلے سے نہ ہٹے لیکن یہ پھر حکم منسوخ کر کے دو دو کے مقابلہ میں صبر کرنے کا حکم ہوا اور دونوں آیتیں کلام اللہ میں موجود ہیں پہلے حکم تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنے سے پہلے کچھ صدقہ دے یا کرو پھر یہ حکم منسوخ ہوا اور دونوں آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں وغیرہ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

107۔ 1 نسخ کے لغوی معنی تو منسوخ کرنے کے ہیں، لیکن شرعی اصطلاح میں ایک حکم بدل کر دوسرا حکم نازل کرنے کے ہیں یہ نسخ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا جیسے آدم (علیہ السلام) کے زمانے میں سگے بہن بھائی کا آپس میں نکاح جائز تھا بعد میں اسے حرام کردیا گیا وغیرہ، اسی طرح قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ نے بعض احکام منسوخ فرمائے اور ان کی جگہ نیا حکم نازل فرمایا۔ یہودی تورات کو ناقابل نسخ قرار دیتے تھے اور قرآن پر بھی انہوں نے بعض احکام کے منسوخ ہونے کی وجہ سے اعتراض کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی کہا کہ زمین اور آسمان کی بادشاہی اسی کے ہاتھ میں ہے، وہ جو مناسب سمجھے کرے، جس وقت جو حکم اس کی مصلحت و حکمت کے مطابق ہو، اسے نافذ کرے اور جسے چاہے منسوخ کر دے، یہ اس کی قدرت ہی کا مظاہرہ ہے۔ بعض قدیم گمراہوں (مثلا ابو مسلم اصفہانی معتزلی) اور آجکل کے بھی بعض متجددین نے یہودیوں کی طرح قرآن میں نسخ ماننے سے انکار کیا۔ لیکن صحیح بات وہی ہے جو مزکورہ سطروں میں بیان کی گئی ہے، سابقہ صالحین کا عقیدہ بھی اثبات نسخ ہی رہا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٥] یہود جن جن طریقوں سے لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنے کا کردار ادا کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ قرآن کو مشکوک قرار دیا جائے۔ وہ لوگوں سے کہتے کہ اگر قرآن بھی منزل من اللہ ہے اور تورات تو منزل من اللہ ہے ہی۔ پھر قرآن اور تورات کے احکام میں اختلاف کیوں ہے ؟ اس اعتراض کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ قرآن میں ایک حکم نازل ہوتا ہے پھر اس کی جگہ کوئی اور حکم آجاتا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کو یہ علم نہیں کہ میں پہلے کیا حکم دے چکا ہوں اور اب کیا دے رہا ہوں ؟ یہود کے ایسے ہی اعتراضات کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا ہے اور فرمایا کہ عیب نہ پہلے حکم میں تھا اور نہ دوسرے حکم میں ہے۔ حالات اور موقع کی مناسبت سے جس طرح کے احکام کی ضرورت ہوتی ہے، ویسے ہی دیئے جاتے ہیں اور تمہیں یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ مالک الملک ہے وہ جیسے چاہے حکم دے سکتا ہے۔ پہلے کے احکام منسوخ بھی کرسکتا ہے اور نئے دے بھی سکتا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کی آیات میں تبدیلی دو طرح سے قرآن میں واقع ہوئی ہے۔ ایک نسخ سے دوسرے بھلا دینے سے۔ یہاں ہم ان دونوں قسموں کی تفصیل بیان کریں گے : متقدمین نے نسخ کا مفہوم بہت وسیع معنوں میں لیا۔ وہ احکام میں تدریج کو بھی نسخ کے معنوں میں لیتے تھے اور اس طرح انہوں نے آیات منسوخہ کی تعداد پانچ سو تک شمار کردی جب کہ احکام میں تدریج پر نسخ کا اطلاق درست نہیں۔ نسخ سے مراد کسی حکم کا اٹھ جانا ہے اس لحاظ سے شاہ ولی اللہ (رح) نے آیات منسوخہ صرف پانچ شمار کی ہیں۔ جن کی مثالیں درج ذیل ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٨١ میں فرمایا کہ آیت ( كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَيْرَۨا ښ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ بالْمَعْرُوْفِ ١٨٠؁ۭ ) 2 ۔ البقرة :180) اس آیت کی رو سے میت پر والدین اور اپنے قریبی رشتہ داروں کے حق میں مرنے سے پہلے وصیت کرنا فرض تھا۔ پھر جب سورة نساء کی آیت نمبر ١١ اور ١٢ میں اللہ تعالیٰ نے میراث کے حصے خود ہی والدین اوراقربین کے حق میں مقرر فرما دیئے تو اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا اور میت پر وصیت کرنا فرض نہ رہا۔ بلکہ اب وہ صرف غیر ذوی الفروض کے حق میں ہی وصیت کرسکتا ہے اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ تہائی مال تک، نیز یہ وصیت فرض نہیں بلکہ اختیاری ہے اور مستحب ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے سورة نساء کی آیت نمبر ١٥ میں زانیہ عورت کی یہ سزا مقرر فرمائی کہ بقیہ عمر اسے گھر میں مقید رکھا جائے۔ & اور ساتھ ہی یہ بھی ذکر فرمایا کہ شاید اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی نئی سزا مقرر فرما دے۔ پھر جب سورة نور نازل ہوئی جس میں زانی مرد کو اور زانی عورت کو سو سو کوڑے مارنے کا ذکر ہے تو اس حکم سے پہلی سزا کا حکم اٹھ گیا۔ یعنی وہ منسوخ ہوگئی۔ ٣۔ سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢٤٠ کی رو سے میت کے وارثوں پر فرض تھا کہ وہ اس کی بیوہ کو ایک سال گھر سے نہ نکالیں اور اس کا خرچ برداشت کریں۔ بعد میں جب بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن مقرر ہوگئی۔ نیز آیت میراث کی رو سے خاوند کے ترکہ میں بیوی کا حصہ بھی مقرر ہوگیا تو اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا۔ اب بیوہ کے حق میں تو یہ حکم ہوا کہ وہ بس عدت کے ایام اپنے مرنے والے شوہر کے ہاں گزارے۔ بعد میں وہ آزاد ہے اور اس دوران نان و نفقہ بھی وارثوں کے ذمہ اور ترکہ سے ہی ہوگا اور سال بھر کے خرچہ کا مسئلہ میراث میں حصہ ملنے سے حل ہوگیا۔ مندرجہ مثالیں ایسی ہیں جن میں سابقہ آیت کا حکم قطعاً منسوخ ہے۔ اب ہم کچھ ایسی مثالیں بیان کرتے ہیں۔ جن میں دونوں قسم کے حکم حالات کے تقاضوں کے تحت ساتھ ساتھ چلتے ہیں مثلاً : ١۔ سورة انفال (جو جنگ بدر کے فوراً بعد نازل ہوئی تھی) کی آیت نمبر ٦٥ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جرأت ایمانی کا معیار مقرر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک مسلمان کو دس کافروں پر غالب آنا چاہیے۔ یہ حکم ان مسلمانوں کے لیے تھا جو علم و عمل میں پختہ اور ہر طرح کی سختیاں برداشت کرچکے تھے اور ان کا اللہ تعالیٰ پر توکل کامل تھا۔ بعد میں اسلام لانے والے مسلمان جن کی تربیت بھی پوری طرح نہ ہوسکی تھی۔ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے معیار میں کافی تخفیف کرتے ہوئے اگلی آیت میں فرمایا کہ ان میں سے بھی ایک مسلمان کو کم از کم دو کافروں پر ضرور غالب آنا چاہیے۔ اب اس بعد والے حکم سے پہلا حکم منسوخ نہیں ہوا۔ بلکہ جب بھی کسی خطہ میں تحریک جہاد شروع ہوگی تو حالات کے مطابق دونوں قسم کے احکام لاگو ہوں گے۔ ٢۔ سورة محمد کی آیت نمبر ٤ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جنگ کے بعد جنگی قیدیوں کو خواہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے یا احسان رکھ کر۔ & اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے سے منع فرما دیا ہے۔ دوسری طرف سورة احزاب کی آیت نمبر ٥٠ کی رو سے عام مسلمان تو درکنار خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے بلکہ لونڈیوں سے تمتع کی بھی اجازت فرما رہے ہیں اور ان دونوں طرح سے احکام میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کا ناسخ نہیں ہے۔ بلکہ حالات کے تقاضوں کے مطابق دونوں میں سے کسی نہ کسی پر عمل درآمد ہوگا اور ایسی مثالیں قرآن میں اور بھی بہت ہیں۔ آیات میں تبدیلی کی دوسری صورت اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی کہ ہم اس آیت یا اس جملہ کو بھلا ہی دیتے ہیں۔ جیسا کہ سورة اعلیٰ میں فرمایا : آیت ( سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓى ۝ ۙ ) 87 ۔ الأعلی :6) یعنی ہم تمہیں پڑھائیں گے جسے تم بھولو گے نہیں مگر جو اللہ چاہے۔ & اور اس بھلانے کی صورت یہ ہوتی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر سال رمضان میں حضرت جبریل (علیہ السلام) کے ساتھ نازل شدہ قرآن کریم کا دور کیا کرتے، اس دوران جن الفاظ یا جس جملہ کو منسوخ کرنا اللہ کو منظور ہوتا تھا وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھول جاتے تھے اور جبریل (علیہ السلام) بھی اس کا تکرار نہیں کرتے تھے۔ ایسے نسخ کی بھی چند مثالیں درج ذیل ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢٦ میں فرمایا کہ & اللہ تعالیٰ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ مچھر یا اس سے بھی کسی حقیر مخلوق کی مثال بیان کرے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی آیت بھی نازل کی تھی جس میں مچھر کی مثال بیان کی گئی تھی۔ جسے کافروں نے اضحوکہ بنایا تھا اور چونکہ وہ مچھر کی مثال والی آیت قرآن میں موجود نہیں۔ لہذا اس کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ بھلا دی گئی تھی۔ ٢۔ سورة نساء کی آیت نمبر ٢٤ میں آیت (فَـمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْھُنَّ 24؀) 4 ۔ النسآء :24) کے بعد آیت (الیٰ اَجَلٍٍ مُسَمًّی) کے الفاظ بھی نازل ہوئے تھے جس کی رو سے مجاہدین کے لیے محاذ جنگ کے دوران متعہ حلال ہوتا رہا۔ لیکن بالآخر اس کی ابدی حرمت ہوگئی تو یہ آخری الفاظ بھی اللہ تعالیٰ نے بھلا دیئے اور شامل قرآن نہ ہو سکے۔ْ ، ٣۔ آیت رجم بھی اس قبیل سے ہے جس کے متعلق حضرت عمر (رض) نے اپنی آخری زندگی کے ایک خطبہ میں برسر منبر فرمایا تھا۔ & اس کتاب اللہ میں رجم کے حکم کی بھی آیت تھی۔ جسے ہم نے پڑھا، یاد کیا۔ اور اس پر عمل بھی کیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں بھی رجم ہوا اور ہم نے بھی رجم کیا۔ مجھے ڈر ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اس فریضہ کو جسے اللہ نے اپنی کتاب میں اتارا چھوڑ کر مرجائیں۔ کتاب اللہ میں رجم کا حکم مطلق حق ہے اس پر جو زنا کرے اور شادی شدہ ہو۔ خواہ مرد ہو یا عورت، جبکہ اس کے زنا پر کوئی شرعی ثبوت یا حمل موجود ہو۔ (بخاری، کتاب المحاربین۔ باب رجم الحبلیٰ ) رہی یہ بات کہ اگر یہ آیت منسوخ ہوگئی یا بھلا دی گئی تو اس کا حکم کیسے باقی رہ گیا۔ یہ تفصیل سورة نور کی آیت نمبر ٢ کے تحت ملاحظہ فرمائی جائے۔ یہاں صرف یہ بات چل رہی ہے کہ منزل من اللہ وحی میں سے اللہ کی حکمت کے تحت کچھ آیات یا جملے یا الفاظ بھلا بھی دیئے گئے اور کچھ احکام منسوخ بھی ہوئے ہیں۔ چونکہ مسلمانوں میں بھی ایک فرقہ قرآن میں کسی طرح کے نسخ کا قائل نہیں لہذا یہ مثالیں پیش کرنا ضروری سمجھا گیا، اور ان پر اکتفا کیا گیا۔ حالانکہ قرآن میں ایسی اور بھی مثالیں موجود ہیں۔ بعض روایات میں آیا ہے بعض صحابہ (رض) کہتے تھے کہ ہم فلاں آیت پڑھا کرتے تھے جو بعد میں منسوخ ہوگئی۔ ان روایات کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ بعض دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی آیت کی تشریح میں کوئی جملہ فرما دیا لیکن صحابہ (رض) نے اسے آیت کا حصہ ہی سمجھ لیا، پھر جب ایسے جملوں کا قرآن کے ان اجزاء سے مقابلہ کیا گیا جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لکھوائے تھے۔ تب صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معلوم ہوا کہ وہ جملے قرآن کی آیت کا حصہ نہیں تھے اور اس کی بھی کئی مثالیں احادیث میں موجود ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

نسخ کا معنی ہے بعد میں آنے والے حکم کے ساتھ پہلے کسی حکم کو ختم کردینا، جیسے پہلے بیت المقدس قبلہ مقرر ہوا، پھر بیت اللہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا اور جیسے ہماری شریعت میں پہلی شریعتوں کے بہت سے احکام منسوخ کردیے گئے۔ یہودی نسخ کے منکر تھے، اسی لیے انھوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو جھٹلایا کہ انھوں نے تورات کے بعض احکام کیوں منسوخ کیے۔ قرآن پر بھی انھوں نے اعتراض کیا کہ جب پہلا حکم اللہ تعالیٰ کا تھا اور درست تھا تو وہ منسوخ کیوں ہوا ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے کئی جواب دیے، پہلے جواب کی تفصیل یہ ہے کہ پہلا حکم درحقیقت ہوتا ہی اتنی مدت کے لیے ہے، نسخ اس مدت کے ختم ہونے کا اعلان ہے۔ اس وقت تک وہ پہلا حکم عین حکمت تھا، بعد میں اس جیسے یا اس سے بہتر دوسرے حکم کی ضرورت تھی تو وہ جاری کردیا گیا۔ کائنات میں ہر وقت اس کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔ نطفہ سے علقہ، پھر مضغہ، پھر ہڈیاں، پھر جنین، پھر بچپن، جوانی، بڑھاپا، موت اور قیامت سب نسخ ہی کی صورتیں ہیں۔ مختلف موسم مثلاً سردی، پھر بہار، پھر گرمی، پھر برسات، اسی طرح رات دن کا چکر اس کی مثالیں ہیں۔ طبیب کا مریض کے لیے ایک نسخہ تجویز کرنا، پھر نئی صورت حال کے لیے دوسرا نسخہ تجویز کرنا بھی اس کی مثال ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ پہلا نسخہ غلط تھا۔ ایک جواب اس اعتراض کا یہ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر اپنا حکم منسوخ نہ کرسکتا ہو تو وہ عاجز ٹھہرا، چناچہ فرمایا : ” کیا تمہیں معلوم نہیں کہ بیشک اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ “ مزید فرمایا : ” کیا تمہیں معلوم نہیں کہ زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے۔ “ وہ بادشاہ ہی کیا ہوا جو پہلے حکم کی جگہ نیا حکم نافذ نہ کرسکے۔ قرآن کے ساتھ قرآن منسوخ ہوسکتا ہے اور سنت بھی، اسی طرح سنت کے ساتھ سنت منسوخ ہوسکتی ہے اور قرآن بھی، کیونکہ دونوں وحی الٰہی ہیں اور وحی الٰہی کے ساتھ وحی الٰہی منسوخ ہوسکتی ہے۔ | قرآن سے قرآن کے نسخ کی مثال : سورة نساء (١٥) میں اللہ تعالیٰ نے زنا کرنے والی عورتوں کی سزا مقرر فرمائی کہ انھیں گھروں میں بند رکھو، یہاں تک کہ انھیں موت اٹھا لے جائے، یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی راستہ بنا دے، پھر سورة نور کے شروع میں زانی مرد اور زانیہ عورت کو سو سو کوڑے مارنے کا حکم دیا گیا۔ مزید دیکھیے سورة انفال (٦٥، ٦٦) اور مجادلہ (١٢، ١٣ ) | قرآن کے ساتھ سنت کے نسخ کی مثال : جیسے شروع شروع میں روزے کی حالت میں مغرب کے بعد سو جانے کے بعد کھانا پینا اور بیوی کے پاس جانا منع تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ ۠وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا) [ البقرہ : ١٨٧ ] قبلہ کی تبدیلی بھی قرآن کے ساتھ سنت کے نسخ کی مثال ہے۔ سنت کے ساتھ سنت منسوخ ہونے کی مثال : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( نَہَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْہَا وَ نَہَیْتُکُمْ عَنْ لُحُوْمِ الْأَضَاحِیْ فَوْقَ ثَلاَثٍ ، فَأَمْسِکُوْا مَا بَدَا لَکُمْ )” میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا سو ان کی زیارت کرو اور میں نے تمہیں تین راتوں سے زیادہ قربانیوں کے گوشت ( ذخیرہ کرنے) سے منع کیا تھا، سو انھیں رکھ لو، جب تک تمہاری مرضی ہو۔ “ [ مسلم، الأضاحی، باب بیان ما کان من النہی ۔۔ : ١٩٧٧، عن بریدۃ (رض) ] | سنت صحیحہ کے ساتھ قرآن کے نسخ کی مثال خواہ وہ متواتر نہ ہو : جیسا کہ سورة نساء میں اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کا ذکر فرمایا جن سے نکاح حرام ہے، ان میں دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا بھی حرام ہے، پھر فرمایا : (وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَاۗءَ ذٰلِكُمْ ) [ النساء : ٢٤ ] ” ان کے سوا سب عورتوں سے نکاح تمہارے لیے حلال ہے۔ “ اس آیت کی رو سے خالہ اور اس کی بھانجی، پھوپھی اور اس کی بھتیجی کو ایک نکاح میں جمع کرنا جائز ہے، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرما دیا تو حرام ہوگیا اور اس پر امت متفق ہے۔ تنبیہ ! درحقیقت یہ سنت کے ساتھ کتاب اللہ سے زائد حکم کی مثال ہے، بعض لوگ کتاب اللہ پر زیادتی کو نسخ کہتے ہیں، ان کے قول کے مطابق یہ نسخ کی مثال ہے، ورنہ شیخ محمد بن صالح عثیمین (رح) نے فرمایا کہ سنت کے ساتھ قرآن کے نسخ کی کوئی قابل اطمینان مثال مجھے نہیں ملی۔ نسخ احکام میں ہوتا ہے خبر میں نہیں، ورنہ ہر جھوٹا شخص، جب اس کی پیشین گوئی یا گزشتہ یا موجود واقعے کی کوئی خبر غلط نکلے، کہہ دے گا وہ منسوخ ہوگئی، جیسے مرزا قادیانی کے مریدوں کا حال ہے۔ بعض آیات و احکام جنھیں باقی رکھنا مقصود نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے بھلا دیے، جیسا کہ فرمایا : (سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓى، اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ) [ الأعلٰی : ٦، ٧ ] ” ہم ضرور تجھے پڑھائیں گے تو تو نہیں بھولے گا۔ مگر جو اللہ چاہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

At first, Muslims used to pray with their faces turned towards the Baytul-Maqdis بیت المقدس at Jerusalem; later on, Allah commanded them to turn towards the Ka&bah کعبہ . Similarly, certain other injunctions were abrogat¬ed altogether, or replaced by others. This provided the Jews and some of the associators too with an occasion to taunt the Muslims, and to say that such changes were made by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) himself and not by Allah. Their purpose was to sow the seed of doubt in the mind of the Muslims with regard to the Holy Qur&an being a book revealed by Allah. They used to argue that if everything that Allah revealed was good, as the Muslims affirmed, why should one injunction be re-placed by another? For, it would only mean that one of the two injunc¬tions must be good, and the other evil, but no divine revelation can possibly be evil. Putting these two premises together, the Jews tried to draw the conclusion that the Holy Qur&an could not be a revealed book. The present verse refutes this line of argument, and, in effect, points out that abrogation does not mean replacing good with evil, or vice versa, which should imply the possibility of the presence of evil in divine revelation, but that everything that Allah reveals to His prophets is good, and that what has been abrogated is good as much as what abrogated it. The verse declares that if Allah chooses to abrogate an injunction contained in a certain verse, while retaining the verse itself as a part of the Holy Qur&an, or chooses to remove a verse from the memories of men altogether, there is nothing objectionable in it, for Allah alone knows the wisdom that lies in His choice, and He makes these changes for the good of men. In fact, He always sends another verse or injunction better than, or at least equal to, what He has abrogated. Allah being omnipotent and omniscient, He possesses the authority to change His commandments as He likes, and He also knows what is good for men at a particular time, and makes these changes according to this knowledge. Men have no friend or helper except Allah. As friend, Allah keeps their good in view while laying down injunctions. As helper, He protects those who obey His commandments against the hostility of their foes - but if the obedient are to receive blessings in the other world greater than the harm they have to suffer in this world, the apparent domination of their foes does not really matter. What is Naskh? (Abrogation) Verse 106 speaks of Allah abrogating certain verses, or making men forget certain others. The first phrase of the verse, thus covers all the possible forms in which a verse of the Qur&an can be abrogated. The Arabic word in the text is Naskh نسخ ،. which has two lexical meanings - - (1) to write, and (2) to abolish, to repeal. According to the consensus of all the commentators, the word has been employed in this verse in the second sense -- that is, the repeal or abrogation of an injunction. So, in the terminology of the Holy Qur&an and the Hadith, Naskh (نسخ) signifies the promulgation of an injunction in place of another --whether the later injunction merely consists in the repeal of the earli¬er or, substitutes a new regulation in its place. The other form of Naskh نسخ mentioned in this verse is that sometimes Allah made the Holy Prophet and the blessed Companions forget a certain verse alto¬gether. The commentators have cited several instances of this kind of Naskh نسخ ، and the purpose in such cases has usually been to repeal a cer¬tain regulation. The kinds of abrogation Making laws and repealing them to promulgate new ones in their stead is a regular and well-known practice in human governments and institutions. But in the case of man-made laws abrogation takes place sometimes because the law-makers do not understand the situation properly while making a certain law, and have to change it when they realize their mistakes, and sometimes because when a law is promul¬gated, it is in accord with the prevailing situation, but when quite un¬foreseen changes alter the situation, the law too has to be changed. But these two forms of abrogation are out of the question in the case of divine injunctions. There is, however, a third form too. The lawmaker makes a law, knowing fully well that the circumstances are going to change in such a way that the law will no longer be suitable for the new situation; so, when the situation changes as he already knew, he changes the law too, and promulgates a new one which he had thought of at the very start. For example, a physician prescribes a medicine for a patient in view of his present conditions, but he knows that when the patient has been using it for two days, his condition will change and require a new medicine -- with this realization, he prescribes a medicine suitable for that day, but two days later, when circumstances have changed, he prescribes a new one. The physician can easily give the patient written instructions for the whole course of the treatment, with all the changes in the medicines duly indicated. But this would be putting too much burden on the already feeble patient, and there would also be the danger of some harm through a possible error or misunderstanding. This is the only form of abrogation which can occur, and has been occurring iri divine injunctions and in divine books. Every new Shari&ah and every new revealed Book has been abrogating many injunctions of the earlier Shari&ah and of the earlier Book. Similarly, within the same Shari&ah, too, it has always happened that a certain law was in force for a time, but Divine Wisdom chose to abrogate it and to promulgate another in its place. Ahadith reported by Muslim says: لم تکن نبوۃ قط الا تناسخت : |"There has never been a prophethood which did not abrogate some injunctions.|" This is a principle which it should not be difficult to understand. It was only some malicious and ignorant Jews who confused the divine abrogation of injunctions with the two forms of the repeal of man-made laws, and began, in their impudence, to taunt the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - in reply to which, as we have said, these two verses were revealed. (Ibn Jar~r, Ibn Kathir etc.) As for the Muslims, it was probably in their desire to avoid giving occasion to the enemies of Islam for such taunts that some from among the Mu` tazilah tried to explain away the whole question of Naskh نسخ . Log¬ically speaking, there is a possibility -- so ran their argument -- of ab¬rogation in the case of divine injunctions, and the possibility cannot be denied on any rational ground, but abrogation has not actually oc¬curred in the Holy Qur&an, and there is no verse in the Holy Book which abrogates another (Nasikh ناسخ ) and no verse which has been abro¬gated (Mansukh منسوخ ). This view is attributed to Abu Muslim al-Isfahani, but the ` Ulama& in general have always rejected this opinion, and re¬futed the argument. Thus, we read in |"Ruh al-Ma` ani|": واتفقت اھل الشرایٔع علی جواز النسخ و وقوعہ وخالفت الییھود غیر العیسویّہ فی جو ازہ وقالوا : یمتنع عقلاً وابو مسلم الاصفہانی فی وقوعہ فقال :إنہ و إن جاز عقلاً لکنہ لم یقع The people belonging to all the Shari&ahs are unanimous in accepting the validity of abrogation and its actual occurrence both. Only the Jews -- with the exception of their ` Isawiyyah عیسویّہ sect have denied the possibility of abrogation, and Abu Mus¬lim al-Isfahani (رح) has denied its occurrence, for he says that it is rationally possible, but has not actually taken place.|" Imam al-Qurtubi (رح) says: معرفتہ ھذا الباب أکیدہ و فایدتہ عظیمۃ لا تستغی عن معرفتہ العلماء ولا ینکرہ الا الجھلہ الاغبیاء |"It is essential to understand the question of abrogation, and great benefits flow from such an understanding, which no scholar can dispense with, and no one can deny abrogation except the ignorant and the dull-headed.|" In this connection, al-Qurtubi has related a very illuminating incident. The fourth Khalifah Sayyidna ` Ali (رض) ، saw a man preaching in the mosque. He asked the people what the man was doing. On being told that he was preaching, the blessed Khalifah said: |"He is not doing anything of the sort, but only announcing to the people that he is such and such a man and the son of such and such, and asking them to recognize and remember him.|" Calling the man to his side, he asked: |"Do you know the injunctions which have been abrogated and those which have abrogated the earlier ones?|" When he confessed that he did not, the Khalifah turned him out of the mosque, and ordered him never to preach there. It is not feasible to cite here all the sayings of the blessed Companions and their immediate Successors (Tabi` in تابعین) which affirm the actual occurrence of abrogation in the case of injunctions laid down by the Holy Qur&an and the Hadith. Some of these have been quoted, along with the evidence for the authenticity of the reports, in the commentaries of Ibn Jarir and Ibn Kathir etc. and in |"Al-Durr al-Manthur|". As for the reports less strongly authenticated, they are just innumerable. That is why there has always been a total consensus of the ` Ulama& on the question of Naskh, except for Abu Muslim al-Isfahani and a few others from among the Mu&tazilah who have denied the actual occurrence of abrogation -- but Imam Razi has, in his commentary, exposed in detail the hollowness of their opinion. The terminology of the Naskh It is also essential to keep in mind a certain distinction in the use of the word Naskh as a technical term of the Shari&ah. The technical sense of the word implies changing an injunction, and replacing one injunction by another. Now, this change may consist in repealing an injunction altogether and replacing it by another (for example, fixing the Ka&bah as the Qiblah قبلہ۔- the direction towards which Muslims turn in their prayers -- instead of the Baytul-Maqdis بیت المقدس ); the change may equally consist in retaining an injunction but adding certain condition and provisions to it. The ` Ulama& of the early period of Islam have used the word Naskh in this general and comprehensive sense which includes the total repeal of an injunction as well as a partial change in an injunction with the addition of certain conditions, provisions or exceptions. That is why the ` Ulama& of the earlier period have indicated some five hundred verses of the Holy Qur&an which, according to them, have been abrogated. But, according to the ` Ulama& of a later period, only that change is to be called a Naskh which cannot in any way be brought into consonance with an earlier injunction. Obviously, this approach greatly reduces the number of abrogated verses. For example, there are, according to al-Suyuti السیوتی ، only twenty such verses. Later on, Shah Waliyyullah ولیُ اللہ ، seeking to bring the abrogated injunctions in consonance with the earlier injunctions, reduced the number of abrogated verses to only five -- these being the cases where later injunctions could not be made to correspond with the earlier ones without far-fetched interpretations. This effort is highly commendable, because the basic postulate behind an injunction is its permanence, while abrogation goes against this postulate, and hence it is not proper to posit abrogation in a verse laying down an injunction which can, in some justifiable manner, be shown to be still valid. But this effort to reduce the number of abrogated verses does not, and cannot in the least imply28 that the presence of abrogation is in any way -- may Allah forgive us for reproducing a blasphemy -- a shortcoming or defect in the Holy Qur&an or Islam, that the ` Ulama& have for the last fourteen hundred years been trying to remove it, that the ultimate inspiration came to Shah Waliyyullah whose extraordi¬nary achievement lies in having reduced the number of abrogated verses to five, and that now one may wait for a few geniuses who would bring the number down to zero. 28-As the &modernists& have been all too impatient to believe. To adopt such an approach towards the question of |"Naskh|" is no service to Islam or to the Holy Qur&an, 29 nor can it obliterate the profound investigations into truth of the matter made by the blessed Companions, their Successors, and the ` Ulama& of the generations that followed them during the last fourteen hundred years, nor can it stop the recriminations of the enemies of Islam. In fact, all it would do is to furnish a weapon to the present-day traducers of Islam and those who wish to rebel against Islam, who would now be saying that what the ` Ulama& of the Islamic Ummah have been maintaining on the subject for the last fourteen hundred years has finally proved to be wrong. May Allah forbid such a thing! If this door is opened, it would let in all kinds of disorders, and all the injunctions of the Shari&ah would come under suspicion. Then, is there any guarantee that the results of this |"modernistic|" research would not turn out to be wrong tomorrow! 29-To which pretends the whole tribe of self-styled scholars, researchers, |"experts in Islamic studies|" and |"revivificateurs of Islam.|" We have come across certain recent writings in which an attempt has been made to revive the argument of Abu Muslim al-Isfahani. Such writers begin with the assumption that the Arabic word Ma in verse 106 is not a relative or adverbial pronoun signifying |"whenever|", or |"whichever|" but a conjunction implying |"ifـ” that introduces a conditional clause; so, they translate the first phrase of the verse not as |"whichever verse We abrogate|", but as |"if We abrogate a verse|", and say that the statement pertains to a supposition or to an imaginary situation as do the phrases beginning with the Arabic word Law (لَو : if) -- for example: لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَة : |"If there were in the sky and the earth another god beside Allah|" (21:22) or إِن كَانَ لِلرَّ‌حْمَـٰنِ وَلَدٌ |"If the All-Merciful had a son|" (43:81). On this basis, they argue that abrogation is possible, but has never actually occurred. Such writers, we are afraid, do not show an intimate knowledge of Arabic grammar, for there is a great deal of difference between a condition suggested by the word Ma ما and the imaginary situation introduced by the conjunction Law. Moreover, it is on the basis of this verse itself that the blessed Companions have affirmed the occurrence of abrogation, and have even cited many instances. So have their Successors and all authentic Commentators. In view of such unanimity, the new-fangled interpretation cannot be acceptable. Even Shah Waliyyullah, in reducing the number of abrogated verses, has never thought of denying the fact of abrogation. In short, all the authentic and authoritative ` Ulama&, from the days of the blessed Companions down . to our own day, have always affirmed not only the possibility, but also the actual occurrence of abrogation. This has been the position of all the ` Ulama& of Deoband دیوبند too, without any exception. The injunctions with regard to abrogation are too many and too intricate to be discussed here -- they properly belong to the books on the Principles of Jurisprudence.

خلاصہ تفسیر : (تبدیل قبلہ کا واقعہ جب ہوا تو یہود نے اس پر طعن کیا اور مشرکین بھی بعض احکام کی منسوخی پر زبان طعن دراز کرتے تھے حق تعالیٰ ان کے طعن اور اعتراض کا جواب دیتے ہیں کہ) ہم کسی آیت کا جو حکم موقوف کردیتے ہیں (گو آیت قرآن میں یا ذہنوں میں باقی رہے) یا اس آیت (ہی) کی (ذہنوں سے) فراموش کردیتے ہیں تو (یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں کیونکہ اس میں بھی مصلحت ہوتی ہے چنانچہ) ہم اس آیت سے بہتر یا اس آیت ہی کے مثل (بجائے اس کے دوسری چیز) لے آتے ہیں (اے معترض) کیا تجھ کو یہ معلوم نہیں کہ حق تعالیٰ ہر شے پر قدرت رکھتے ہیں (پس ایسے قادر کو مصالح کی رعایت کیا مشکل ہے اور) کیا تجھ کو یہ معلوم نہیں کہ حق تعالیٰ ایسے ہیں کہ خاص انہی کی سلطنت آسمانوں اور زمین پر ہے (جب ان کی اس قدرت و سلطنت میں کوئی شریک وسہیم نہیں ہے تو ان مصلحتوں کی رعایت کرکے دوسرا حکم دے دینے میں کون مزاحمت کرسکتا ہے غرض حکم ثانی کی تجویز سے بھی مانع نہیں اور اس حکم کے جاری کردینے میں بھی کوئی مانع نہیں) اور (یہ بھی سمجھ رکھو کہ) تمہارا حق تعالیٰ کے سوا کوئی یار و مددگار بھی نہیں پس جب وہ پار ہیں تو احکام میں مصلحت کی ضرور رعایت کریں گے اور جب مددگار ہیں تو ان احکام پر عمل کرنے کے وقت تمہارے مخالفین کی مزاحمت سے بھی ضرور محفوظ رکھیں گے، البتہ اگر اس ضرر سے بڑھ کر کوئی نفع اخروی ملنے والا ہو تو ظاہراً مخالف کا مسلط ہوجانا اور بات ہے، معارف و مسائل : مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ اَوْ نُنْسِهَا اس آیت میں کسی آیت قرآن کے منسوخ ہونے کی جتنی صورتیں ہوسکتی ہیں سب کو جمع کردیا ہے نسخ کے معنی لغت میں زائل کرنے اور لکھنے کے آتے ہیں اس پر تمام مفسرین امت کا اتفاق ہے کہ اس آیت میں نسخ سے مراد کسی حکم کا زائل کرنا یعنی منسوخ کرنا ہے اور اسی لئے اصطلاح کتاب وسنت میں نسخ ایک حکم کے بجائے کوئی دوسرا حکم جاری کرنے کو کہا جاتا ہے خواہ وہ دوسرا حکم یہی ہو کہ سابق حکم بالکل ختم کردیا جائے یا یہ ہو کہ اس کی جگہ دوسرا عمل بتلایا جائے، احکام الہیہ میں نسخ کی حقیقت : دنیا کی حکومتوں اور اداروں میں کسی حکم کو منسوخ کرکے دوسرا حکم جاری کردینا مشہور و معروف ہے لیکن انسانوں کے احکام میں نسخ کبھی اس لئے ہوتا ہے کہ پہلے کسی غلط فہمی سے ایک حکم جاری کردیا بعد میں حقیقت معلوم ہوئی تو حکم بدل دیا کبھی اس لئے ہوتا ہے کہ جس وقت یہ حکم جاری کیا گیا اس وقت کے حالات کے مناسب تھا اور آگے آنے والے واقعات و حالات کا اندازہ نہ تھا جب حالات بدلے تو حکم بھی بدلنا پڑا یہ دونوں صورتیں احکام خداوندی میں نہیں ہوسکتی، ایک تیسری صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ حکم دینے والے کو اول ہی سے یہ بھی معلوم تھا کہ حالات بدلیں گے اور اس وقت یہ حکم مناسب نہیں ہوگا دوسرا حکم دینا ہوگا یہ جانتے ہوئے آج ایک حکم دے دیا اور جب اپنے علم کے مطابق حالات بدلے تو اپنی قرارداد سابق کے مطابق حکم بھی بدل دیا اس کی مثال ایسی ہے کہ مریض کے موجودہ حالات کو دیکھ کر حکیم یا ڈاکٹر ایک دوا تجویز کرتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ دو روز اس دوا کے استعمال کرنے کے بعد مریض کا حال بدلے گا اس وقت مجھے دوسری دوا تجویز کرنا ہوگی یہ سب جانتے ہوئے وہ پہلے دن ایک دوا تجویز کرتا ہے جو اس دن کے مناسب ہے دو دن کے بعد حالات بدلنے پر دوسری دوا تجویز کرتا ہے، ماہر حکیم ڈاکٹر یہ بھی کرسکتا ہے کہ پہلے ہی دن پورے علاج کا نظام لکھ کر دیدے کہ دو روز تک یہ دوا استعمال کرو پھر تین روز فلاں دوا پھر ایک ہفتہ فلاں دوا لیکن یہ مریض کی طبیعت پر بےوجہ کا ایک بار بھی ڈالنا ہے اس میں غلط فہمی کی وجہ سے عملی خلل کا بھی خطرہ ہے اس لئے وہ پہلے ہی سے سب تفصیلات نہیں بتلاتا، اللہ جل شانہ کے احکام میں اور اس کی نازل کی ہوئی کتابوں میں صرف یہی آخری صورت نسخ کی ہوسکتی ہے اور ہوتی رہی ہے ہر آنے والی نبوت اور ہر نازل ہونے والی کتاب نے پچھلی نبوت اور کتاب کے بہت سے احکام کو منسوخ کرکے نئے احکام جاری کئے اور اسی طرح ایک ہی نبوت و شریعت میں ایسا ہوتا رہا کہ کچھ عرصہ تک ایک حکم رہا پھر بتقاضائے حکمت خداوندی اس کو بدل کر دوسرا حکم نافذ کردیا گیا صحیح مسلم کی حدیث میں ہے۔ لم تکن نبوۃ قط الاتناسخت (مسلم) یعنی کبھی کوئی نبوت نہیں آئی جس نے احکام میں نسخ اور رد وبدل نہ کیا ہو (قرطبی) جاہلانہ شبہات : البتہ کچھ جاہل یہودیوں نے اپنی جہالت سے احکام الہیہ کے نسخ کو دنیوی احکام کے نسخ کی پہلی دونوں صورتوں پر قیاس کرکے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر زبان طعن دراز کی اسی کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں (ابن جریر، ابن کثیروغیرہ) مسلمانوں میں سے فرقہ معتزلہ کے بعض لوگوں نے شاید ان مخالفین کے طعن سے بچنے کی یہ راہ نکالی کہ احکام الہیہ میں نسخ ہونے کا امکان تو ہے کوئی امر اس امکان کے لئے مانع نہیں لیکن پورے قرآن میں نسخ کا وقوع کہیں نہیں ہوا نہ کوئی آیت ناسخ ہے نہ منسوخ یہ قول ابومسلم اصفہانی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے جس پر علماء امت نے ہمیشہ رد ونکیر فرمایا ہے تفسیر روح المعانی میں ہے، واتفقت اہل الشرائع علیٰ جواز النسخ ووقوعہ وخالفت الیہود غیر العیسویۃ فی جو ازہ وقالوا یمتنع عقلاً وابو مسلم الاصفہانی فی وقوعہ فقال انہ و ان جاز عقلا لکنہ لم یقع، (روح، ص ٣٥٢ ج ١) تمام اہل شرائع کا نسخ کے جواز اور وقوع دونوں پر اتفاق ہے صرف یہودیوں نے بجز عیسویہ کے امکان نسخ کا انکار کیا ہے اور ابو مسلم اصفہانی نے وقوع کا انکار کیا ہے وہ کہتا ہے کہ نسخ احکام الہیہ میں ممکن تو ہے مگر کہیں واقع ہوا نہیں، اور امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا، معرفۃ ہذا الباب اکیدۃ وفائدتہ عظیمۃ لاتستغنی عن معرفتہ العلماء ولا ینکرہ الا الجہلۃ الاغبیاء (قرطبی ص ٥٥ ج ١) باب نسخ کی معرفت بہت ضروری ہے اور فائدہ اس کا بہت بڑا ہے اس کی معرفت سے علماء مستغنی نہیں ہوسکتے اور جاہلوں بیوقوفوں کے سوا اس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا، قرطبی نے اس جگہ ایک واقعہ حضرت علی (رض) کا بھی نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ وہ مسجد میں تشریف لائے تو کوئی آدمی وعظ کہہ رہا تھا آپ نے لوگوں سے پوچھا یہ کیا کررہا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ وعظ و نصیحت کررہا ہے آپ نے فرمایا نہیں یہ کوئی وعظ نصیحت نہیں کرتا بلکہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ میں فلاں بن فلاں ہوں سو پہچانو پھر اس شخص کو بلوا کر پوچھا کہ کیا تم قرآن و حدیث کے ناسخ منسوخ احکام کو جانتے ہو ؟ اس نے کہا کہ نہیں میں نہیں جانتا حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ ہماری مسجد سے نکل جاؤ آئندہ کبھی یہاں وعظ نہ کہو، قرآن وسنت میں نسخ کے وجود وقوع کے متعلق صحابہ کرام (رض) اجمعین وتابعین کے اتنے آثار و اقوال موجود ہیں جن کو نقل کرنا مشکل ہے تفسیر ابن جریر ابن کثیر درمنثور وغیرہ میں اسانید قویہ صحیحہ کے ساتھ بھی بہت سی روایات مذکور ہیں اور روایات ضعیفہ کا تو شمار نہیں، اسی لئے امت میں یہ مسئلہ ہمیشہ اجماعی رہا ہے صرف ابومسلم اصفہانی اور چند معتزلہ نے وقوع نسخ کا انکار کیا ہے جن پر امام رازی نے تفسیر کبیر میں شرح وبسط کے ساتھ رد کیا ہے، نسخ کے مفہوم میں متقدمین ومتاخرین کی اصطلاحوں میں فرق : چونکہ نسخ کے اصطلاحی معنی تبدیل حکم کے ہیں اور یہ تبدیلی جس طرح ایک حکم کو بالکلیہ منسوخ کرکے اس کی جگہ دوسرا حکم لانے میں ہے جیسے بیت المقدس کے بجائے بیت اللہ کو قبلہ بنادینا اسی طرح کسی مطلق یا عام حکم میں کسی قید وشرط کو بڑھا دینا بھی ایک قسم کی تبدیلی ہے اسلام امت نے نسخ کو اسی عام معنی میں استعمال فرمایا ہے جس میں کسی حکم کی پوری تبدیلی بھی داخل ہے اور جزوی تبدیلی قید وشرط یا استثناء وغیرہ کی بھی اس میں شامل ہے اسی لئے متقدمین حضرات کے نزدیک قرآن میں آیات منسوخہ پانسو تک شمار کی گئی ہیں، حضرات متاخرین نے صرف اس تبدیلی کا نام نسخ رکھا ہے جس کی پہلے حکم کے ساتھ کسی طرح تطبیق نہ ہو سکے ظاہر ہے کہ اس اصطلاح کے مطابق آیات منسوخہ کی تعداد بہت گھٹ جائے گی، اسی کا لازمی اثر یہ تھا کہ متقدمین نے تقریباً پانسو آیات قرآنی میں نسخ ثابت کیا تھا جس میں معمولی سی تبدیلی قید وشرط یا استثناء وغیرہ کو بھی شامل کیا تھا اور حضرات متأخرین میں علامہ سیوطی نے صرف بیس آیتوں کو منسوخ قرار دیا ان کے بعد حضرت شاہ ولی اللہ (رح) نے ان میں بھی تطبیق کی صورت پیدا کرکے صرف پانچ آیتوں کو منسوخ فرمایا ہے جن میں کوئی تطبیق بغیر تاویل بعید کے نہیں ہوسکتی یہ امر اس لحاظ سے مستحسن ہے کہ احکام میں اصل بقاء حکم ہے نسخ خلاف اصل ہے اس لئے جہاں آیت کے معمول بھا ہونے کی کوئی توجیہ ہوسکتی ہے اس میں بلاضرورت نسخ ماننا درست نہیں، لیکن اس تقلیل کا یہ منشاء ہرگز نہیں ہوسکتا کہ مسئلہ نسخ اسلام یا قرآن پر کوئی عیب تھا جس کے ازالہ کی کوشش چودہ سو برس تک چلتی رہی آخری انکشاف حضرت شاہ ولی اللہ کا ہوا جس میں گھٹتے گھٹتے پانچ رہ گئی اور اب اس کا انتظار ہے کہ کوئی جدید محقق ان پانچ کا بھی خاتمہ کرکے بالکل صفر تک پہنچادے، مسئلہ نسخ کی تحقیق میں ایسا رخ اختیار کرنا نہ اسلام اور قرآن کی کوئی صحیح خدمت ہے اور نہ ایسا کرنے سے صحابہ کرام (رض) اجمعین وتابعین اور پھر چودہ سو برس کے علماء متقدمین ومتاخرین کے مقالات وتحقیقات کو دھویا جاسکتا ہے اور نہ مخالفین کی زبان طعن اس سے بند ہوسکتی ہے بلکہ اس زمانے کے ملحدین کے ہاتھ میں یہ ہتھیار دینا ہے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چودہ سو برس تک تمام علماء امت کچھ کہتے رہے ہوں اور آخر میں اس کا غلط ہونا ثابت ہوجائے معاذ اللہ ! اگر یہ دروازہ کھلے گا تو قرآن اور شریعت سے امن اٹھ جائے گا اس کی کیا ضمانت ہے کہ آج جو کسی نے تحقیق کی وہ کل کو غلط ثابت نہیں ہوجائیں گی، عصر حاضر میں بعض علماء کی ایسی تحریریں نظر سے گذری ہیں جھنوں نے آیت مذکورہ ماننسخ کو متضمن معنے شرط پر ہونے کی وجہ سے ایک قضیہ فرضیہ مثل لو کان فیھما الھۃ اور لو کان للرحمٰن ولد قرار دے کر صرف امکان نسخ کی دلیل بنایا اور وقوع انکار کیا حالانکہ تضمن معنی شرط اور قضیہ شرطیہ بحرف لو میں بڑا فرق ہے اور وہی استدلال ہے جو ابوم سلم اصفہانی اور معتزلہ پیش کرتے ہیں، لیکن صحابہ کرام (رض) اجمعین وتابعین کی تفسریں اور پوری امت کے تراجم دیکھنے کے بعد اس کو مدلول قرآنی کہنا کسی طرح قابل قبول نہیں ہوسکتا صحابہ کرام نے اسی آیت سے وقوع نسخ پر استدلال کیا ہے اور متعدد واقعات شمار کرائے ہیں (ابن کثیر، ابن جریر وغیرہ) یہی وجہ ہے کہ امت کے متقدمین ومتاخرین میں کسی نے بھی وقوع نسخ کا مطلقاً انکار نہیں کیا خود حضرت شاہ ولی اللہ نے تطبیق کرکے تعداد تو کم بتلائی مگر مطلقاً وقوع نسخ کا انکار نہیں فرمایا ان کے بعد بھی اکابر علماء دیوبند بلا استثناء سبھی وقوع نسخ کے قائل چلے آئے ہیں جن میں متعدد حضرات کی مستقل یا جزوی تفسیریں بھی موجود ہیں کسی نے بھی نسخ کے وقوع کا مطلقاً انکار نہیں کیا، واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم، او ننسھا یہ مشہور قرات کے مطابق انسا اور نسیان سے ماخوذ ہے معنی یہ ہیں کہ کبھی نسخ آیت کی یہ صورت بھی ہوتی ہے کہ وہ آیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام صحابہ کرام (رض) اجمعین کے ذہنوں سے بالکل بھلا دینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آئندہ اس پر عمل کرانا مقصود نہیں، نسخ کے متعلق بقیہ احکام کی تفصیلات کی یہاں گنجائش نہیں اس کا اصل محل اصول فقہ کی کتابیں ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْہَآ اَوْ مِثْلِہَا۝ ٠ ۭ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝ ١٠٦ نسخ النَّسْخُ : إزالةُ شَيْءٍ بِشَيْءٍ يَتَعَقَّبُهُ ، كنَسْخِ الشَّمْسِ الظِّلَّ ، والظِّلِّ الشمسَ ، والشَّيْبِ الشَّبَابَ. فَتَارَةً يُفْهَمُ منه الإزالة، وتَارَةً يُفْهَمُ منه الإثباتُ ، وتَارَةً يُفْهَم منه الأَمْرَانِ. ونَسْخُ الکتاب : إزالة الحُكْمِ بحکم يَتَعَقَّبُهُ. قال تعالی: ما نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِها نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْها [ البقرة/ 106] قيل : معناه ما نُزيل العملَ بها، أو نحْذِفها عن قلوب العباد، وقیل : معناه : ما نُوجِده وننزِّله . من قولهم : نَسَخْتُ الکتابَ ، وما نَنْسأُه . أي : نُؤَخِّرُهُ فلَمْ نُنَزِّلْهُ ، فَيَنْسَخُ اللَّهُ ما يُلْقِي الشَّيْطانُ [ الحج/ 52] . وَنَسْخُ الکتابِ : نَقْلُ صُورته المجرَّدة إلى کتابٍ آخرَ ، وذلک لا يقتضي إزالةَ الصُّورَةِ الأُولی بل يقتضي إثباتَ مثلها في مادَّةٍ أُخْرَى، كاتِّخَاذِ نَقْشِ الخَاتم في شُمُوعٍ كثيرة، ( ن س خ ) النسخ اس کے اصل معنی ایک چیز کو زائل کر کے دوسری کو اس کی جگہ پر لانے کے ہیں ۔ جیسے ۔ دھوپ کا سائے کو۔ اور سائے کا دھوپ کو زائل کر کے اس کی جگہ لے لینا یا جوانی کے بعد بڑھاپے کا آنا و غیرذلک پھر کبھی اس سے صرف ازالہ کے معنی مراد ہوتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَيَنْسَخُ اللَّهُ ما يُلْقِي الشَّيْطانُ [ الحج/ 52] تو جو دو سوسہ شیطان ڈلتا ہے خدا اس کو دور کردیتا ہے ۔ اور کبھی صرف اثبات کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی اس سے معا دونوں مفہوم ہوتے ہیں ۔ لہذا نسخ الکتاب یعنی کتاب اللہ کے منسوخ ہونے سے ایک حکم نازل کرنا مراد ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ ما نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِها نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْها[ البقرة/ 106] ہم جس آیت کو منسوخ کردیتے ہیں یا اسے فراموش کردیتے ہیں ۔ تو اس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت بھیج دیتے ہیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے نسخ اور انساء کے معنی اس پر عمل سے منع کرنے یا لوگوں کے دلوں سے فراموش کردینے کے لئے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ یہ نسخت الکتاب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کتاب کو نقل کرنے کے ہیں اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ جو آیت بھی ہم نازل کرتے ہیں یا اس کے نزدل کو ایک وقت تک کے لئے ملتوی رکھتے ہیں تو اس سے بہتر یاویسی ہی اور آیت بھیج دیتے ہیں ۔ نسخ الکتاب کے معنی کتاب کی کاپی کرنے کے ہیں یہ پہلی صورت کے ازالہ کو مقتضی نہیں ہے بلکہ کسی دوسرے مادہ ہیں اس جیسی دوسری صؤرت کے اثبات کو چاہتا ہے جیسا کہ بہت سے شمعوں میں انگوٹھی کا نقض بنا دیا جاتا ہے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ نسی النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ، فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة/ 14] ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف/ 63] ، لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف/ 73] ، فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] ، ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر/ 8] ، سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی/ 6] إِخبارٌ وضَمَانٌ من اللهِ تعالیٰ أنه يجعله بحیث لا يَنْسَى ما يسمعه من الحقّ ، وكلّ نسْيانٍ من الإنسان ذَمَّه اللهُ تعالیٰ به فهو ما کان أصلُه عن تعمُّدٍ. وما عُذِرَ فيه نحو ما رُوِيَ عن النبيِّ صلَّى اللَّه عليه وسلم : «رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ» فهو ما لم يكنْ سَبَبُهُ منه . وقوله تعالی: فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة/ 14] هو ما کان سببُهُ عن تَعَمُّدٍ منهم، وترْكُهُ علی طریقِ الإِهَانةِ ، وإذا نُسِبَ ذلك إلى اللہ فهو تَرْكُهُ إيّاهم استِهَانَةً بهم، ومُجازاة لِما ترکوه . قال تعالی: فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف/ 51] ، نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة/ 67] وقوله : وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر/ 19] فتنبيه أن الإنسان بمعرفته بنفسه يعرف اللَّهَ ، فنسیانُهُ لله هو من نسیانه نَفْسَهُ. وقوله تعالی: وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف/ 24] . قال ابن عباس : إذا قلتَ شيئا ولم تقل إن شاء اللَّه فَقُلْهُ إذا تذكَّرْتَه «2» ، وبهذا أجاز الاستثناءَ بعد مُدَّة، قال عکرمة «3» : معنی «نَسِيتَ» : ارْتَكَبْتَ ذَنْباً ، ومعناه، اذْكُرِ اللهَ إذا أردتَ وقصدتَ ارتکابَ ذَنْبٍ يكنْ ذلک دافعاً لك، فالنِّسْيُ أصله ما يُنْسَى کالنِّقْضِ لما يُنْقَض، ( ن س ی ) النسیان یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة/ 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف/ 63] تو میں مچھلی وہیں بھول گیا ۔ اور مجھے آپ سے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف/ 73] کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذاہ نہ کیجئے فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا ۔ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر/ 8] پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور آیت سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی/ 6] ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسا بنادے گا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنو گے اسے بھولنے نہیں پاؤ گے پھر ہر وہ نسیان جو انسان کے قصد اور ارداہ سے ہو وہ مذموم ہے اور جو بغیر قصد اور ارادہ کے ہو اس میں انسان معزور ہے اور حدیث میں جو مروی ہے رفع عن امتی الخطاء والنیان کہ میری امت کو خطا اور نسیان معاف ہے تو اس سے یہی دوسری قسم کا نسیان مراد ہے یعنیوی جس میں انسان کے ارادہ کو دخل نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة/ 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ میں نسیان بمعنی اول ہے یعنی وہ جس میں انسان کے قصد اور ارادہ کو دخل ہو اور کسی چیز کو حقیر سمجھ کرا سے چھوڑ دیا جائے ۔ پھر جب نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے ازراہ اہانث انسان کو چھوڑ ینے اور احکام الہیٰ کے ترک کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینے کے معنی مراد ہوتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف/ 51] تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اس طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے ۔ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة/ 67] انہوں نے خدا کو بھلا یا تو خدا نے بھی ان کو بھلا دیا ۔ وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر/ 19] اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔ میں متنبہ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرنے سے ہی معرفت الہیٰ حاصل کرسکتا ہے لہذا انسان کا اللہ تعالیٰ کو بھلا دینا خود اپنے آپکو بھال دینے کے مترادف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف/ 24] اور جب خدا کا نام لینا بھال جاؤ تو یاد آنے پر لے لو ۔ کے ابن عباس نے یہ معنی کئے ہیں کہ جب تم کوئی بات کہو اور اس کے ساتھ انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو یاد آنے پر انشاء اللہ کہہ لیا کرو ۔ اسی لئے ابن عباس کے نزدیک حلف میں کچھ مدت کے بعد بھی انشاء اللہ کہنا جائز ہے اور عکرمہ نے کہا ہے کہ نسیت بمعنی ارتکبت ذنبا کے ہے ۔ اور آیت کے معنی یہ ہیں ۔ کہ جب تمہیں کسی گناہ کے ارتکاب کا خیال آئے تو اس وسوسہ کو دفع کرنے کے لئے خدا کے ذکر میں مشغول ہوجایا کرو تاکہ وہ وسوسہ دفع ہوجائے ۔ النسی کے اصل معنی ماینسیٰ یعنی فراموش شدہ چیز کے ہیں جیسے نقض بمعنی ماینقض آتا ہے ۔ مگر عرف میں نسی اس معمولی چیز کو کہتے ہیں جو در خود اعتناء نہ سمجھی جائے أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم/ 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] . ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : {إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا } [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، قَدِيرُ : هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة/ 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] . القدیر اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف/ 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

سنت کے ذریعے قرآن کے نسخ اور وجوہ نسخ کا بیان ارشاد باری ہے : ماننسخ من ایۃ او ننسھا نات بخیر منھا او مثلھا۔ (ہم اپنی جس آیت کو منسوخ کردیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں اس کی جگہ اس سے بہتر لاتے ہیں یا کم از کم ویسی ہی) کچھ حضرات کا قول ہے کہ نسخ ازالہ کو کہتے ہیں اور کچھ دیگر حضرات نسخ کو ابدال (بدل دینے) کا نام دیتے ہیں۔ ارشاد باری ہے : فینسخ اللہ ما ینقی الشیطان (اللہ تعالیٰ اس چیز کو منسوخ کردیتا ہے جس کا شیطان القا کرتا ہے) یعنی اسے زائل اور باطل کر کے اس کی جگہ آیات محکمات نازل کردیتا ہے۔ ایک قول کے مطابق نسخ نقل کو کہتے ہیں اور سا کی بنیاد یہ قول باری ہے : انا کنا نستنسخ ما کنتم تعملون (تم جو کچھ بھی کرتے رہتے تھے ہم سب لکھواتے یعنی نقل کراتے جاتے تھے۔ ) مذکورہ بالا اختلاف اصل لغت میں اس لفظ کے معنی موضوع لہ کے بارے میں ہے۔ لغت میں اس لفظ کے جو بھی معنی ہوں، اطلاق شرع میں اس کے معنی حکم اور تلاوت کی مدت کے بیان کئے گئے ہیں نسخ کبھی تلاوت کے اندر ہوتا ہے اور حکم باقی رہتا ہے اور کبھی حکم کے اندر ہوتا ہے اور تلاوت باقی رہتی ہے نسخ کی صرف یہی دو صورتیں ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ غیر فقیہ قسم کے بعض متاخرین کا خیال ہے کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں کوئی نسخ نہیں ہے، نیز یہ کہ ہمارے شریعت میں نسخ کی جن صورتوں کا ذکر ہے ان سے انبیائے متقدمین کی شرائط کا نسخ مراد ہے۔ مثلاً سبت اور مشرق و مغرب کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا وغیرہ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخری نبی ہیں اور آپ کی لائی ہوئی شریعت قیامت تک باقی رہنے والی شریعت ہے۔ ان صاحب کو اگرچہ فصاحت و بلاغت نیز علم لغت کا وافر حصہ عطا ہوا تھا لیکن علم فقہ اور اس کے نصول سے انہیں کوئی حصہ نصیب نہیں ہوا تھا۔ یہ صاحب سلیم الاعتقاد تھے اور ان کی ظاہری حالت کے سوا ان کے بارے میں کسی اور طرح کا گمان نہیں کیا جاسکتا، لیکن یہ اپنا مذکورہ بالا قول بیان کر کے توفیق سے دور چلے گئے ہیں۔ کیونکہ ان سے پہلے کسی نے بھی اس قول کا اظہار نہیں کیا، بلکہ امت کے سلف اور خلف نے اللہ کے دین اور اس کی شریعت سے بہت سے احکام کے نسخ کا مفہوم اخذ کیا ہے اور انہوں نے ہم تک اسے ایسی صورت میں نقل کردیا ہے جس میں انہیں کوئی شک نہیں ہے اور نہ وہ اس میں تاویل ہی کو جائز سمجھتے ہیں جس طرح امت نے یہ سمجھا ہے کہ قرآن میں عام، خاص، محکم اور متشابہ کا وجود ہے۔ اس لئے قرآن اور سنت میں نسخ کی بات رد کرنے والا قرآن کے خاص، عام، محکم اور متشابہ کو رد کرنے والے کی طرح ہوگا۔ اس بارے میں تمام اقوال کا ورود اور ان کی نقل یکساں طریقے سے ہوئی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان صاحب نے ناسخ و منسوخ آیات اور ان کے احکام کے سلسلے میں ایسے اقدامات کا ارتکاب کیا ہے جن کی وجہ سے ان کا یہ قول امت کے اقوال کے دائرے سے خارج ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ ان صاحب کو معانی کے بیان میں تعسف اور زبردستی کا مظاہرہ کرنا پڑا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے یہ قول کس بنا پر اختیار کیا ہے غالب گمان یہ ہے کہ انہوں نے اس بارے میں ناقلین کی نقل کے متعلق اپنی کم علمی کی بنا پر یہ مسلک اپنایا ہے حالانکہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ :” جو شخص قرآن میں اپنی رائے سے کچھ کہے اور درست کہے تو بھی وہ خط اکار ہے۔ “ اللہ تعالیٰ ہمیں اور انہیں معاف کرے۔ ہم نے اصول فقہ کے اندر نسخ کی صورتوں پر نیز ان کے جواز اور عدم جواز پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اس کے کسی پہلو کو بھی تشنہ نہیں چھوڑا ہے۔ قول باری : اوننسھا کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ یہ نسیان سے ہے اور دوسری قرأت ” ننساھا “ جو تاخیر سے ماخوذ ہے کہا جاتا ہے ” نسات الثی “ (میں نے یہ کام مئوخر کردیا) ” نسیئہ “ اس دین اور قرض کو کہتے ہیں جس کی ادائیگی مئوخر کردی جائے۔ اسی سے یہ قول باری ہے : انما النسئی زیادۃ فی الکفر (نسی تو کفر میں ایک مزید کافرانہ حرکت ہے) یعنی سال کے مہینوں کو آگے پیچھے کردینا۔ اگر آیت میں مذکورہ زیر بحث لفظ سے نسیان مراد ہے تو پھر مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ان سے تلاوت کو بھلا دیتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ اس کی قرأت نہیں کرسکتے۔ اس کی دو میں سے ایک صورت ہوتی یا تو انہیں حکم دیا جاتا کہ وہ اس کی تلاوت ترک کردیں اور پھر وہ اسے چند دنوں کے اندر بھلا دیتے یا یہ کہ اس حکم کے تحت اسے اچانک بھلا دیتے اور ان کے ذہنوں سے اسے رفع کرلیا جاتا۔ اس طرح یہ امر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ بن جاتا۔ اگر زیر بحث آیت کی قرأت : اوننساھا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مذکورہ آیت کو موخر کر کے اسے نازل نہیں کرتا ہے، بلکہ اس کی جگہ ایسی آیت نازل کردیتا ہے جو مصلحت کے اعتبار سے مئوخر شدہ آیت کے قائم مقام دین جاتی ہے یا بندوں کے لئے زیادہ مناسب ہوتی ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آیت کے انزال کو آنے والے وقت کے لئے موخر کردیتا ہے اور اگر وہ اسے مقدم وقت میں نازل کر بھی دے تو اس کے بدل کے طور پر کوئی اور آیت آ جاتی ہے جو مصلحت کے اعتبار سے نازل شدہ آیت کی قائمقام بن جاتی ہے۔ قول باری : نات بخیر منھا او مثلھا کی تفسیر کے سلسلے میں حضرت ابن عباس اور قتادہ سے مروی ہے کہ ہم ایسی آیت لاتے ہیں جو تسہیل اور تیسیر کے اعتبار سے تمہارے لئے بہتر ہوتی ہے۔ مثلاً پہلے حکم ہوا کہ جنگ کے اندر ایک مسلمان دس کافروں کے مقابل ی سے منہ نہ موڑے اور پھر فرمایا : الان خفف اللہ عنکم (اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کردیا) یا ہم ایسی آیت لاتے ہیں جو پہلی آیت کی مثل ہوتی ہے۔ مثلاً پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا اور پھر حکم ہوا کہ نماز میں کعبہ کی طرف رخ کیا جائے۔ حسن بصری سے زیر بحث آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ ہم ایسی آیت لاتے ہیں جو فی الوقت بھلائی کی کثرت کے اعتبار سے پہلی آیت سے بہتر یا اس کی مثل ہوتی ہے اس طرح تمام حضرات کے اتفاق سے یہ نتیجہ نکلا کہ زیر بحث آیت سے مراد یہ ہے کہ ایسی آیت آتی ہے جو تمہارے لئے تخفیف یا مصلحت کے اعتبار سے بہتر ہوتی ہے۔ سلف میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ آنے اولی آیت تلاوت کے اندر پہلی آیت سے بہتر ہوتی ہے، کیونکہ یہ کہنا جائز ہی نہیں ہے کہ قرآن کا کوئی حصہ کسی دوسرے حصے سے تلاوت اور نظم کے اعتبار سے بہتر ہے، اس لئے کہ سارا قرآن اللہ کا معجز کلام ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے سنت کے ذریعے قرآن کے نسخ کے جواز کے امتناع پر استدلال کیا ہے کہ سنت خواہ جیسی بھی ہو قرآن سے بہتر نہیں ہوسکتی، لیکن یہ قول کئی وجوہ سے قائل کے اغفال پر مبنی ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ مراد لینا جائز ہی نہیں ہے کہ ناسخ آیت تلاوت اور نظم کے اندر منسوخ شدہ آیت سے بہتر ہوتی ہے اس لئے کہ اعجاز نظم کے اندر ناسخ اور منسوخ دونوں آیتیں یکساں حیثیت کی حامل ہوتی ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سلف کا اس پر اتفاق ہے کہ نسخ کے سلسلے میں نظر قرآنی مراد نہیں ہے کیونکہ اس بارے میں سلف کا قول یا تو تخفیف کے معنوں پر محمول ہے یا مصلحت کے معنوں پر اور یہ چیز کبھی سنت کے ذریعے اس طرح عمل میں آتی ہے جس طرح یہ قرآن کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔ ان حضرات میں سے کسی نے نہیں کہا کہ اس سے تلاوت مراد ہے۔ اس بنا پر زیر بحث آیت کی سنت کے ذریعے قرآن کے نسخ پر دلالت اس کے جواز کے امتناع پر دلالت کی بہ نسبت زیادہ واضح ہے۔ نیز اس دلالت کی حقیقت صرف تلاوت کے نسخ کی مقتضی ہے۔ آیت کے اندر مذکورہ حکم کے نسخ کی نہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ما ننسخ من ایۃ الخ) اور آیت تلاوت کا اسم ہے اور نسخ تلاوت نسخ حکم کا موجب نہیں ہے اور جب بات اس طرح ہے تو پھر مذکورہ آیت سے یہ معنی اخذ کرنا جائز ہے کہ ” ہم جس آیت کی تلاوت منسوخ کردیتے یا اسے بھلا دیتے ہیں، تو ہم تمہارے لئے محکم سنت یا کسی اور چیز کی صورت میں اس سے بہتر بات لے آتے ہیں۔ “ اس مسئلے پر ہم نے اصول فقہ کے اندر سیر حاصل بحث کی ہے۔ “ شائقین میں سے جو حضرات پسند کریں یہ ہماری اس مذکورہ کتاب میں دیکھ لیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٦) اب اللہ تعالیٰ ان احکام کی حکمت بیان فرماتے ہیں جو قرآن کریم میں منسوخ کردیے گئے ہیں اور جو منسوخ نہیں کیے گئے۔ قریش کہتے تھے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کسی بات کے کرنے کا ہمیں حکم دیتے ہیں اور پھر خود ہی اس سے منع بھی کردیتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہم بس ایسے حکم کو کہ جس پر عمل ہوچکا ہے اسے تبدیل کرتے ہیں کہ پھر اس پر عمل نہ کیا جائے یا اس آیت ہی کو مٹا دیتے ہیں مگر اس پر عمل منسوخ نہیں ہوتا تو پھر ہم منسوخ شدہ سے زیادہ فائدہ مند اور عمل میں زیادہ آسان یا ثواب نفع اور عمل میں اسی جیسی جبرئیل امین (علیہ السلام) کے ذریعے سے دوسری آیت اتار دیتے ہیں، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ ناسخ ومنسوخ میں سے ہر ایک چیز پر قدرت رکھنے والے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ” ماننسخ من ایۃ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) نے عکرمہ (رح) کے حوالہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ بعض اوقات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رات کو وحی آتی ہے اور دن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو بھول جاتے تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ہم کسی آیت کا حکم جو موقوف کردیتے ہیں الخ۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٦ (مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا) ایک تو ہے نسخ یعنی کسی آیت کو منسوخ کردینا اور ایک ہے حافظے سے ہی کسی شے کو محو کردینا۔ (نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَا اَوْ مِثْلِہَا ط) (اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ) اسے ہر شے کا اختیار حاصل ہے۔ اس آیت کا اصل مفہوم اور پس منظر سمجھ لیجیے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اللہ کا دین آدم ( علیہ السلام) سے لے کر ایں دم تک ایک ہی ہے۔ نوح (علیہ السلام) کا دین ‘ موسیٰ (علیہ السلام) کا دین ‘ عیسیٰ ( علیہ السلام) کا دین اورٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دین ایک ہی ہے ‘ جبکہ شریعتوں میں فرق رہا ہے۔ اس فرق کا اصل سبب یہ ہے کہ نوع انسانی مختلف اعتبارات سے ارتقاء کے مراحل طے کر رہی تھی۔ ذہنی پختگی ‘ شعور کی پختگی اور پھر تمدنی ارتقاء (social evolution) مسلسل جاری تھا۔ لہٰذا اس ارتقاء کے جس مرحلے میں رسول آئے اسی کی مناسبت سے ان کو تعلیمات دے دی گئیں۔ ان تعلیمات کے کچھ حصے ایسے تھے جو ابدی (eternal) ہیں ‘ وہ ہمیشہ رہیں گے ‘ جبکہ کچھ حصے زمانے کی مناسبت سے تھے۔ چناچہ جب اگلا رسول آتا تو ان میں سے کچھ چیزوں میں تغیر و تبدلّ ہوجاتا ‘ کچھ چیزیں نئی آ جاتیں اور کچھ پرانی ساقط ہوجاتیں۔ یہ معاملہ نسخ کہلاتا ہے۔ یا تو اللہ تعالیٰ تعینّ کے ساتھ کسی حکم کو منسوخ فرما دیتے ہیں اور اس کی جگہ نیا حکم بھیج دیتے ہیں ‘ یا کسی شے کو سرے َ سے لوگوں کے ذہنوں سے خارج کردیتے ہیں۔ یہودی یہ اعتراض کر رہے تھے کہ اگر یہ دین وہی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کا تھا تو پھر شریعت پوری وہی ہونی چاہیے۔ یہاں اس اعتراض کا جواب دیا جا رہا ہے۔ پھر ناسخ و منسوخ کا مسئلہ قرآن میں بھی ہے۔ قرآن میں بھی تدریج کے ساتھ شریعت کی تکمیل ہوئی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا ‘ شریعت کا ابتدائی خاکہ (blue print) سورة البقرۃ میں مل جاتا ہے ‘ لیکن شریعت کی تکمیل سورة المائدۃ میں ہوئی ہے۔ یہ جو تقریباً پانچ چھ سال کا عرصہ ہے اس میں کچھ احکام دیے گئے ‘ پھر ان میں ردّ و بدل کر کے نئے احکام دیے گئے اور پھر آخر میں یہ ارشاد فرمادیا گیا : (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط) (المائدۃ : ٣) آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کرلیا ہے۔ تو یہ ناسخ و منسوخ کا مسئلہ صرف سابقہ شریعتوں اور شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مابین ہی نہیں ہے ‘ بلکہ خود شریعت محمدی (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) میں بھی زمانی اعتبار سے ارتقاء ہوا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے شراب کے بارے میں حکم دیا گیا کہ اس میں گناہ کا پہلو زیادہ ہے ‘ اگرچہ کچھ فائدے بھی ہیں۔ اس کے بعد حکم آیا کہ اگر شراب کے نشے میں ہو تو نماز کے قریب مت جاؤ۔ پھر سورة المائدۃ میں آخری حکم آگیا اور اسے گندا شیطانی کام قرار دے کر فرمایا گیا : (فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ ) تو کیا اب بھی باز آتے ہو یا نہیں ؟ اس طرح تدریجاً احکام آئے اور آخری حکم میں شراب حرام کردی گئی۔ یہاں فرمایا کہ اگر ہم کسی حکم کو منسوخ کرتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر لے آتے ہیں یا کم از کم اس جیسا دوسرا حکم لے آتے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ‘ اس کا اختیار کامل ہے ‘ وہ مالک الملک ہے ‘ دین اس کا ہے ‘ اس میں وہ جس طرح چاہے تبدیلی کرسکتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

109. This is in response to a doubt which the Jews tried to implant in the minds of the Muslims. If both the earlier Scriptures and the Qur'an were revelations from God, why was it - they asked - that the injunctions found in the earlier Scriptures had been replaced by new ones in the Qur'an? How could the same God issue divergent injunctions? Furthermore, they expressed their amazement at the Qur'anic indictment of the Jews and Christians for having allowed part of the revelation to be forgotten and lost, pointing out that it was impossible that Divine revelation should be erased from human memory. In all this, their motive was not to know the truth but to cast doubt on the Divine origin of the Qur'an. In refutation God states that He being the Absolute Sovereign has unlimited authority both to abrogate previous injunctions and to cause people to forget the injunctions He wants them to forget. However, God ensures that whatever He abrogates or causes to be erased from people's memories is replaced by something equally or even more beneficial.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :109 یہ ایک خاص شُبہہ کا جواب ہے جو یہُودی مسلمانوں کے دلوں میں ڈالنے کی کوشش کرتے تھے ۔ ان کا اعتراض یہ تھا کہ اگر پچھلی کتابیں بھی خدا کی طرف سے آئی تھیں اور یہ قرآن بھی خدا کی طرف سے ہے ، تو ان کے بعض احکام کی جگہ اس میں دُوسرے احکام کیوں دیے گئے ہیں؟ ایک ہی خدا کی مختلف وقتوں میں مختلف احکام کیسے ہو سکتے ہیں ؟ پھر تمہارا قرآن یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہُودی اور عیسائی اس تعلیم کے ایک حصّے کو بھُول گئے جو انہیں دی گئی تھی ۔ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا کی دی ہوئی تعلیم اور وہ حافظوں سے محو ہو جائے؟ یہ ساری باتیں وہ تحقیق کی خاطر نہیں ، بلکہ اس لیے کرتے تھے کہ مسلمانوں کو قرآن کے مِن جانب اللہ ہونے میں شک ہو جائے ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں مالک ہوں ، میرے اختیارات غیر محدُود ہیں ، اپنے جس حکم کو چاہوں منسُوخ کر دوں اور جس چیز کو چاہوں ، حافظوں سے محو کر دوں ۔ مگر جس چیز کو میں منسُوخ کرتا ہوں ، اس سے بہتر چیز اس کی جگہ پر لاتا ہوں ، یا کم از کم وہ اپنے محل میں اتنی ہی مفید اور مناسب ہوتی ہے جتنی پہلی چیز اپنے محل میں تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

71: اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ محتلف زمانوں کے حالات کی مناسبت سے شریعت کے فروعی احکام میں تبدیلی فرماتے رہے ہیں، اگرچہ دین کے بنیادی عقائد مثلاً توحید رسالت آخرت وغیرہ ہر دور میں ایک رہے ہیں لیکن جو عملی احکام حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دئے گئے تھے، ان میں سے بعض حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دور میں تبدیل کردئے گئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ان میں مزید تبدیلیاں واقع ہوئیں، اسی طرح جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شروع میں نبوت عطا ہوئی تو آپ کی دعوت کو مختلف مراحل سے گزرنا تھا، مسلمانوں کو طرح طرح کے مسائل درپیش تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے احکام میں تدریج اختیار فرمائی، کسی وقت ایک حکم دیا گیا بعد میں اس کی جگہ دوسرا حکم آگیا، جیسا کہ قبلے کی تعین میں احکام بدلے گئے، جن کی کچھ تفصیل آگے آیت ١١٥ میں آرہی ہے، فروعی احکام میں ان حکیمانہ تبدیلیوں کو اصطلاح میں‘‘ نسخ ’’ کہتے ہیں، یہودیوں نے بالخصوص اور دوسرے کافروں نے بالعموم اس پر یہ اعتراض اٹھایا کہ اگر یہ سارے احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں توان میں یہ تبدیلیاں کیوں ہورہی ہیں، یہ آیت کریمہ اس سوال کے جواب میں نازل ہوئی ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے مطابق بدلتے ہوئے حالات میں یہ تبدیلیاں کرتے ہیں اور جو حکم بھی منسوخ کیا جاتا ہے اس کی جگہ ایسا حکم لایاجاتا ہے جو بدلے ہوئے حالات میں زیادہ مناسب اور بہتر ہوتا ہے یا کم از کم اتنا ہی بہتر ہوتا ہے جتنا بہتر پہلا حکم تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(106 ۔ 107) ۔ یہود کا یہ اعتقاد تھا کہ تورات کے احکام قیامت تک کبھی منسوخ نہیں ہوں گے۔ اسی اعتقاد کی وجہ سے انہوں نے انجیل کا کتاب الٰہی ہونا تسلیم نہیں کیا کیونکہ اس سے ان کو تورات کے بعض احکام کا منسوخ ہوجانا تسلیم کرنا پڑتا تھا اب جبکہ قرآن شریف کی بعض آیتیں بعض آیتوں سے منسوخ ہوئیں تو یہود لوگ مسلمانوں سے طرح طرح کی حجتیں اس بارے میں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کلام الٰہی کبھی منسوخ نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرمایا کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے جو چاہے سوکرے۔ اپنے بندوں کے حالات کی مصلحت سے جو احکام اس کو مناسب معلوم ہوئے اس نے سب سے پہلے صاحب شریعت نبی حضرت نوح سے لے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تک وہ احکام نازل فرمائے اور پھر مصلحت وقت کے موافق ان احکام میں ترمیم کر کے تورات نازل فرمائی۔ اگر یہود کا یہ اعتقاد صحیح ہوتا کہ کلام الٰہی کبھی منسوخ نہیں ہوتا تو پچھلی شریعتوں کے احکام منسوخ ہو کر تورات کیوں کر نازل ہوتی۔ غرض یہود کا یہ اعتقاد ان کا گھڑا ہوا ایک اعتقاد ہے کسی حکم الٰہی کے موافق نہیں ہے اسی غلط اعتقاد نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں ان بدنصیبوں کو انجیل پر عمل نہیں کرنے دیا اور یہی غلط اعتقاد قرآن پر عمل کرنے سے ان کو روک رہا ہے یہ کام بندوں کا نہیں ہے کہ اللہ کی ہر وقت کی مصلحت میں دخل دیویں کیونکہ بندوں کو ہر وقت کی مصلحت کا علم نہیں ہے۔ پھر نامعلوم بات میں کوئی کیا دخل دے سکتا اور اگر دخل دیا بھی تو وہ صحیح کیسے ہوسکتا ہے۔ بلکہ بےجا دخل کا یہ نتیجہ ہوتا ہے جو ان لوگوں کا ہوا کہ دو شریعتوں سے منکر ہوگئے اور طرح طرح کے عذاب میں اس انکار کے سبب سے پھنس گئے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کوئی تبدیل امر دینی میں ہوجاوے تو اس کو ناسخ و منسوخ کہتے ہیں جو پہلے کا حکم دوسری جدید حکم سے بدل جاوے ان میں پہلے حکم کو منسوخ اور جدید دوسرے حکم کو ناسخ کہا جانا ہے مثلاً { اِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہِ } منسوخ ہے اور { لَا یُکَلِفُّ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا } اس کا ناسخ ہے۔ اب منسوخ آیتوں میں بعض آیتیں تو ایسی ہیں کہ جن کا حکم منسوخ ہوگیا ہے اور قرآن شریف میں ان کی تلاوت باقی ہے جیسے { وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہِ } اور بعض آیتیں ایسی ہیں جن کی تلاوت باقی نہیں ہے مگر حکم باقی ہے جیسے { اذازنی الشیخ والشیخۃ فارجموھما } ناسخ و منسوخ کی یہ سب قسمیں اور ان کی مثالیں اصول تفسیر اور اصول فقہ کی کتابوں میں بالتفصیل ہیں اور بھولی ہوئی آیتیں وہی ہیں جن کی تلاوت کا حکم کچھ بھی باقی نہیں ہے۔ چناچہ صحیح مسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہم لوگ سورة براءۃ کی برابر کی ایک سورت قرآن شریف کی سورتوں میں پڑھا کرتے تھے مگر وہ اب یاد نہیں رہی ١۔ ناسخ آیت کبھی تو محنت و مشقت کے کم ہوجانے میں منسوخ آیت سے بہتر ہوتی ہے۔ جیسے تہجد کی نماز فرض ہونے کی منسوخی اور کبھی ثواب کے بڑھ جانے میں بہتر ہوتی ہے جیسے عاشورے کے دن کے روزے کے بدلے میں رمضان کے روزے۔ اور کبھی ناسخ و منسوخ دونوں برابر کے درجہ میں ہوتے ہیں جیسے بیت المقدس کی جانب کا قبلہ منسوخ ہو کر کعبہ کی جانب قبلہ قرار پانا کہ ثواب اور مشقت میں دونوں برابر ہیں۔ اکثر علماء کا یہ مذہب ہے کہ صحیح حدیث سے قرآن شریف کی آیت منسوخ ہوسکتی ہے۔ تفصیل اس مسئلہ کی اصول فقہ کی کتابوں میں ہے۔ اگرچہ بعض علماء نے منسوخ آیتوں کی تعداد بیس ٢٠ بتلائی ہے۔ لیکن شاہ ولی اللہ (رح) نے الفوز الکبیر میں بڑی بحث کے بعد صرف پانچ آیتیں منسوخ قرار دی ہیں جن کی تفصیل احسن الفوائد کے مقدمہ میں اور اس تفسیر کے مقدمہ میں بتلا دی گئی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:106) ما شرطیہ ہے اور جازم فعل ہے ۔ ما من ایۃ جو آیت بھی جس آیت کو بھی۔ ننسخ۔ مضارع جمع متکلم مجزوم بوجہ عمل ما شرطیہ نسخ (باب فتح) مصدر بمعنی زائل کرنا۔ بدل دینا۔ بیکار کردینا۔ ایک چیز کو دوسری جگہ قائم کرنا۔ صورت بدل دینا ۔ لکھنا۔ الا ستنساخ (باب اسفعال) کے معنی کسی چیز کے لکھنے کو طلب کرنے یا لکھنے کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن بمعنی نسخ (لکھنا) بھی قرآن مجید میں آیا ہے ۔ مثلاً انا کنا نستنسخ ماکنتم تعلمون (45:29) جو کچھ تم کیا کرتے تھے ہم لکھواتے جاتے تھے۔ تنا سخ ایک کے بعد دوسری چیز کا اس کے قائم مقام ہونا۔ جیسا کہ اہل ہنود میں مسئلہ تنا سخ ہے کہ آتما بمعنی روح ہر موت پر دوسرا روپ دھار لیتی ہے اور عمل جاری رہتا ہے تاآنکہ آتما کو نروان (نجات) حاصل ہو۔ آیت ہذا میں جملہ کا ترجمہ ہوگا۔ ہم جس آیت کو منسوخ کردیتے ہیں۔ او۔ یا۔ حرف عطف ہے۔ ننسھا۔ مضارع جمع متکلم۔ اصل میں ننسیھا تھا۔ یا کو ساقط کیا گیا ہے۔ یہ انساء (فعال) مصدر سے ہے۔ انسی ینسی۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب ہے جس کا مرجع آیت ہے ہم اسے فراموش کرا دیتے ہیں۔ نسی مادہ۔ نات۔ مضارع جمع متکلم۔ اتیان (باب ضرب) مصدر سے۔ یہ فعل لازم ہے۔ لیکن ھاء کے صلہ کے ساتھ آئے تو متعدی کے معنی دیتا ہے۔ ہم لاتے ہیں۔ ہم دیتے ہیں۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب ایۃ کے لئے ہے۔ نات بخیر منھا او مثلہا۔ جملہ جواب شرط ہے۔ الم تعلم۔ ہمزہ استفہامہ ہے۔ لم تعلم نفی جحد بلم کا صیغہ واحد مذکر حاضر ہے۔ کیا تو نہیں جانتا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 نسخ کے معنی کسی چیز کو نقل کرنے کے ہیں اور اصطلاح علماء میں ایک حکم شرعی کو دوسرے شرعی سے موقوف کردینے کو نسخ کہا جاتا ہے قرآن میں ایک آیت کی جگہ دوسری آیت تبدیل کردینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ (دیکھئے النحل آیت 101) نسخ کی دو صورتیں ہیں صرف نسخ حکم یا مع تلاوت جمہور علماء نے یہاں نسخ کی یہی دو صورتیں بیان کی ہیں۔ اس آیت میں یہود کی تردید ہے جو تورات کو ناقابل نسخ مانتے تھے اس بنا پر انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کی کہ وہ توریت کے بعض احکام کو منسوخ ہیں۔ لہذا یہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہوسکتا قرآن نے ان کے جواب میں فرمایا کسی کو موقوف قرار دے دینا کوئی عییب کی بات نہیں ہے۔ اللہ کو ہر چیز پر قدرت حاصل ہے اور خلق وامر سی کے قبضہ قدرت میں ہے وہ جس طرح چاہے اپنی مخلوق اور احکام شریعت میں تصرف کرسکتا ہے یعنی نسخ بھی منجملہ مقددرات الہیہ کے ہے لہذا اس کا انکار کے لیے ہے ان کا موقوف کردینا بھی معنی پر مصلحت ہے۔ اگر کوئی حکم موقوف کردیا جاتا ہے یا اس کی تنزیل مؤخر کردی جاتی ہے تو اس کی بجائے بہتر یا اسی جیسا دوسرے حکم اتار دیا جاتا ہے۔ (المنار سلفیہ تبصرف) واضح رہے نسخ بہر دو صورت قرآن و حدیث میں جود ہے سلف اس پر متفق ہیں۔ سب سے پہلے ایک بدعتی فرقہ کے ایک سر کردہ عالم ابو مسلم اصفہانی (محمد بحر المتو فی 323 ھ) المعتزلی نے اس کا انکار کیا ہے اور علماء نے اس کی تردید کی ہے۔ (ترجمان نواب تبصرف) بعض نے نسخ کے معنی میں توسع سے کام لے کر تقید و تخصیص پر بھی اس کا اطلاق کردیا ہے اس بنا پر آیات منسوخہ کی تعداد بڑھ گئی ہے ابن العربی اور سیوطی کے نزدیک بائیس اور شاہ صاحب (رح) نے القوذ میں صرف پانچ آیتیں تسلیم کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ بھی بحث طلب ہیں اب تیمیہ نے اس پر مفید لکھے یاد رہے کہ احادیث میں ناسخ تو موجود ہے مگر نسخ اجتہبا دی باطل ہے۔ (ترجمان )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یہود نے قبلہ کا حکم بدل جانے پر جس کا ذکر عنقریب آنا ہے طعن کیا تھا اور مشرکین بھی بعض حکموں کے منسوخ ہوجانے پر زبان درازی کرتے تھے حق تعالیٰ اس طعن اور اعتراض کا جواب اس آیت میں دیتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب اس قدر بےباک اور مسلمانوں کی دشمنی میں آگے جا چکے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں مداخلت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ اپنی کتاب میں ترمیم و اضافہ کرے۔ اس بہانے وہ کتاب اللہ پر اعتراض اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر تنقید کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے دلوں میں حسد ہے جس بنا پر ایسی باتیں کرتے ہیں۔ نسخ کا معنٰی ہے کسی بات کو مٹانا یا اس کا ازالہ کرنا ہے۔ اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں : (١) ایک حکم خاص مدت کے لیے ہو، دوسری مدت کے لیے دوسرا حکم نازل ہوجائے۔ (٢) تربیت اور خاص مصلحت کی خاطر پہلے حکم میں نرمی اور کچھ گنجائش رکھی گئی ہو بعد ازاں مکمل اور دائمی حکم نازل کردیا جائے۔ جس طرح شراب کی حرمت، قبلہ کی تبدیلی اور دوسرے معاملات کے بارے میں تدریجاً احکامات نازل ہوئے۔ قرآن مجید میں اس کے برعکس بھی مثال موجود ہے کہ قتال کے سلسلہ میں پہلا حکم سخت تھا لیکن اس کے بعد اس میں نرمی کردی گئی۔ (٣) پہلا حکم لوگوں کی خاص حالت کے بارے میں ہوبعدازاں حالات کی تبدیلی کی وجہ سے اسے کلیۃً منسوخ کردیا جائے اور اس کی جگہ اس سے ملتا جلتا یا اس سے جامع اور کثیر المقاصد حکم نازل ہو۔ قرآن مجید میں تینوں اقسام کی امثال موجود ہیں۔ جن علماء نے ان تینوں اقسام کو ناسخ اور منسوخ میں شامل کیا ہے انہوں نے درجنوں آیات کو اس زمرہ میں شامل کردیا حالانکہ ناسخ ‘ منسوخ کو حقیقی اور کلی معنوں میں لیا جائے تو ان کی تعداد چند آیات سے زیادہ نہیں ہے۔ اس بنا پر شاہ ولی اللہ (رض) نے صرف پانچ آیات کو منسوخ شمار کیا ہے۔ ناسخ اور منسوخ کے حوالے سے اہل کتاب اور مشرک دو قسم کے اعتراض کیا کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کو فکری الجھاؤ میں مبتلا کر کے ان کے ایمان وا یقان میں تذبذب پیدا کیا جاسکے۔ پہلا اعتراض یہ ہے کہ تورات اور انجیل اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہیں اور یہ قرآن ان کی تائید کرتا ہے تو پھر انہیں منسوخ کرنے اور الگ کتاب نازل کرنا چہ معنی دارد ؟ دوسرا اعتراض یہ تھا اور ہے کہ قرآن مجید میں فلاں مقام پر یہ مسئلہ پہلے اس طرح تھا اور اب اس میں ترمیم و اضافہ کیوں کیا گیا ہے ؟ ان اعتراضات کا جواب دینے سے پہلے یہاں بنیادی بات یہ ارشاد فرمائی کہ یہ حاکم مطلق کی مرضی اور اس کی مشیّت ہے کہ شریعت کے جس حکم کو چاہے معطل یا منسوخ کرے۔ اس میں مخلوق کا نہ تو عمل دخل ہے اور نہ ہی کسی کو اعتراض کرنے کی گنجائش ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کو منسوخ کرنا کسی شخص کا اختیار نہیں۔ یہاں تک کہ جس شخصیت گرامی پر اللہ کی کتاب نازل ہوئی ہے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس میں زیروزبر کی تبدیلی کا اختیار نہیں رکھتے۔ یہ تو اس قادر مطلق اور شہنشاہ عالم کا اختیار ہے کہ وہ اپنے حکم کو جس طرح چاہے جب چاہے اور جس قدر چاہے اس میں تبدیلی کرے۔ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اختیارات پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اس لیے ان آیات کے آخر میں پر جلال اور حاکمانہ انداز میں فرمایا ہے کہ اللہ ہی قادر مطلق با اختیار اور زمین و آسمان کا مالک ہے وہ تمہاری خیر خواہی کے لیے اپنے ضابطوں میں تبدیلی کرتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی تمہارا خیر خواہ نہیں ہوسکتا۔ یہود و نصاریٰ اور مشرکین و منکرین کسی خیر خواہی کی بنیاد پر نہیں بلکہ یہ بد نیتی و بددیانتی کی بنا پر اس قسم کے اعتراضات اٹھاتے ہیں۔ متعدد مقامات پر قرآن مجید نے پہلے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اے اہل کتاب تم نے اپنی کتابوں میں اس قدر تحریف کی کہ ان کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا اور یہ بھی یاد رکھو کہ وہ مخصوص مدت کے لیے ہی نازل کی گئیں تھیں۔ جس طرح حکومتوں کے بدلنے سے قانون بدلتے ہیں اس طرح ایک رسول کے بعد دوسرے رسول کے آنے پر شریعت میں تبدیلی لائی جاتی رہی ہے۔ یہ تو محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعزازوا کرام ہے کہ آپ قیامت تک کے لیے رسول ہیں اور آپ پر نازل کردہ قرآن بھی قیامت تک رہے گا۔ اس میں ترمیم و اضافہ کرنے کا کوئی مجاز نہیں اور اللہ تعالیٰ نے تا قیام قیامت اس کی حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے۔ دوسرے سوال کا جواب یہ عنایت فرمایا کہ تمہارے لیے بہت سی چیزیں حرام تھیں اب انہیں حلال کردیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ تمہاری بہتری کے لیے ہی کیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ اعتراض بھی تمہیں زیب نہیں دیتا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے احکام منسوخ کرنے یا ان میں ردّ وبدل کرنے کا پورا حق ہے۔ ٢۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملک ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

نسخ آیات کی حکمت قرآن مجید کے بعض احکام اللہ تعالیٰ منسوخ فرما دیتے تھے۔ کبھی ایک حکم دیا پھر اس سے منع فرما دیا اور اس کے خلاف حکم دے دیا کبھی ایک حکم کے بجائے دوسرا حکم نازل فرما دیا اس کو دیکھ کر مشرکین نے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آج ایک بات کہتے ہیں اور کل کو اس سے رجوع کرلیتے ہیں، اگر یہ قرآن اللہ تعالیٰ کے پاس سے ہوتا تو اس میں منسوخیت والی بات کیوں ہوتی معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے پاس سے کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرتے ہیں۔ سورة نحل میں ان دشمنوں کی بات کو اس طرح بیان فرمایا :۔ (وَ اِذَا بَدَّلْنَآ اٰیَۃً مَّکَانَ اٰیَۃٍ وَّ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مُفْتَرٍ ) ” اور جب ہم کسی آیت کو ایک آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ نازل فرماتا ہے تو وہ لوگ کہتے کہ بس تو افتراء ہی کرنے والا ہے۔ “ اللہ جل شانہ نے اس آیت شریفہ میں ان کی جہالت والی بات کی تردید فرمائی اور فرمایا کہ ہم جس کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی آیت لے آتے ہیں۔ منسوخ کرنے میں حکمت ہوتی ہے اور بندوں کا اس میں فائدہ ہوتا ہے یا تو ان کے لیے دوسرا حکم انفع اور اسہل ہوتا ہے یا اس میں منفعت اور ثواب پہلی جیسی آیت کی طرح ہوتا ہے۔ سخت حکم کو آسان کردیا گیا تو بندوں کے لیے یہ بھی بہتر ہے کہ اس میں عمل کے لیے آسانی ہوگئی اور اگر آسانی کی بجائے کوئی سخت حکم آگیا تو یہ بھی بہتر ہے کیونکہ عمل جس قدر مشکل ہوگا اسی قدر ثواب زیادہ ہوگا۔ منسوخ ہونے کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ عبارت قرآنیہ باقی رہے اور اس کا حکم منسوخ ہوجائے اس کو منسوخ الحکم کہتے ہیں۔ جیسے عورت کے لیے شوہر کی وفات پر عدت ایک سال تک رکھی گئی تھی بعد میں چار مہینے دس دن کردی گئی۔ اور جس آیت میں ایک سال کا ذکر ہے وہ بھی مصحف میں باقی ہے۔ (مَتَاعًا اِلَی الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاجٍ ) اور نسخ کی ایک صورت یہ ہے کہ اس کی تلاوت منسوخ ہوجائے اور حکم باقی رہے۔ اس کو منسوخ التلاوۃ کہتے ہیں۔ اس کی مثال میں آیت رجم کو پیش کیا جاتا ہے اور منسوخ کی ایک صورت یہ ہے کہ پہلا حکم منسوخ ہوجائے اور اس کی جگہ دوسرا حکم آجائے جیسے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنا منسوخ کیا گیا اور اس کی بجائے نماز میں استقبال کعبہ کا حکم ہوا اور جیسے پہلے اقارب کے لیے وصیت کرنا واجب تھا پھر وہ آیت میراث سے منسوخ ہوئی۔ اور بعض سورتیں ایسی ہیں جن میں امر اوّل منسوخ ہوگیا اور اس کی جگہ دوسرا حکم نافذ نہیں کیا گیا جیسے سورة ممتحنہ میں (اذَا جَآءَ کُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُھَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوْھُنَّ ) منسوخ کردیا گیا اور اس کے بجائے دوسرا حکم نازل نہیں ہوا۔ نَنْسَسَخْ کے ساتھ نُنْسِھَا بھی فرمایا جس کا ترجمہ بھلا دینے کا ہے۔ بعض آیات ایسی تھی جن کو بالکل ہی مصاحف سے اور ذہنوں سے بھلا دیا گیا تھا۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ سورة احزاب سورة بقرہ جتنی تھی۔ اس کا اکثر حصہ اٹھا لیا گیا نہ تلاوت باقی رہی نہ حکم باقی رہا۔ (درمنثور ص ١٠٥ ج ١) میں ہے کہ حضرت سہل بن حنیف سے مروی ہے کہ ایک رات ایک صحابی تہجد پڑھنے کھڑے ہوئے انہیں ایک سورت یاد تھی۔ انہوں نے اسے نماز میں پڑھنا چاہا تو (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) کے علاوہ کچھ نہ پڑھ سکے اور اس رات میں چند صحابہ کے ساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا صبح کو جب بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ سورت گزشتہ رات منسوخ ہوگئی جو لوگوں کے سینوں سے اور ہر اس جگہ سے محو کردی گئی جہاں جہاں لکھی ہوئی تھی۔ و أما علی قراء ۃ ننسأھا بفتح النون الاوّل و فتح السین مھموذا فمعناہ تؤ خرھا و فلا نبدلھا أونرفع تلاوتھا و نؤخر حکمھا أونؤخرھا و نترکھا فی اللوح المحفوظ فلا ننزل (معالم التنزیل ص ١٠٤ ج ١) پھر فرمایا کہ اے مخاطب کیا تجھے یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اسے حکم باقی رکھنے پر بھی قدرت ہے منسوخ کرنے پر بھی قدرت ہے ذہنوں سے بھلاد ینے پر بھی قدرت ہے۔ وہ حکمت کے مطابق جو چاہے کرے جس حکم کو چاہے باقی رکھے جس کو چاہے منسوخ فرمائے۔ کسی کو کیا اعتراض ہے اگر کوئی اللہ پر اعتراض کرے گا تو اس کی سزا بھگت لے گا آسمان و زمین میں اسی کی بادشاہت ہے جب وہ کافروں پر عذاب بھیجے گا تو ان کو کوئی یار اور مددگار اور دوست اور رشتہ دار اور کار ساز نہیں ملے گا۔ قال ابن کثیر یرشد عبادہ تعالیٰ بھذا الی أنہ المتصرف فی خلقہ بما یشاء فلہ الخلق والأمروھو المتصرف فکما خلقھم کما یشاء یسعد من یشآء و یشقی من یشاء و یصحح من یشاء و یمرض من یشاء و یو فق من یشاء ویخذل من یشاء کذالک یحکم فی عبادہ بمایشاء فیحل مایشا و یحرم مایشاء ویبیع مایشاء ویحرم مایشاء وھو الذی یحکم مایرید لا معقب لحکمہ ولا یسئل عما یفعل وھم یسئلون ویختبر عبادہ و طاعتھم لرسلہ بالنسخ فیامر بالشیء لما فیہ من المصلحۃ التی یعلمھا تعالیٰ ثم ینھی عنہ لما یعلمہ تعالیٰ فالطاعۃ کل الطاعۃ فی امتثال أمرہ و اتباع رسلہ فی تصدیق ما أخبروا و امتثال ما أمروا و ترک ماعنہ زجروا۔ (ص ١٥٠ ج ١)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

204 نسخ سے مراد یہ ہے کہ آیت کا حکم اٹھ جائے لیکن اس کی تلاوت باقی رہ جائے۔ اور انسائ سے مراد یہ ہے کہ حکم اور تلاوت دونوں اٹھ جائیں (بحر ص 343 ج 1) یہ راعنا کو منسوخ کر کے اس کی جگہ انظرنا کہنے کے حکم کی طرف اشارہ ہے، نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَآ اَوْ مِثْلِهَا۔ یعنی اگر ہم کسی حکم کو منسوخ کردیتے ہیں تو وہ بھی ہماری حکمت اور مصلحت کے عین مطابق ہوتا ہے اور ہم منسوخ شدہ حکم کی جگہ اس سے زیادہ مفید اور زیادہ آسان یا نفع اور سہولت میں اس کے برابر دوسرا حکم نازل کردیتے ہیں۔ ای بما ھو انفع لکم واسھل علیکم و اکثر لاجرکم او مثلھا فی المنفعۃ والثواب الخ (معالم ص 81 ج 1) ۭ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۔ یہاں استفہام تقریری ہے اور اس کا مخاطب ہر سامع ہے۔ ھذا استفہام معناہ التقریر۔۔۔ والاولی ان یکون المخاطب السامع (بحر ص 344 ج 1) مطلب یہ ہے کہ اے مخاطب تو اچھی طرح جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اپنے بندوں پر احکام میں ردو بدل اور محو و اثبات کا اسے پورا پورا اختیار ہے۔ لہذا اس پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں۔ اس سے اصل دعویٰ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جب اللہ ہی ہر چیز پر قادر ہے اور وہ انسانوں کی تمام حاجتیں اور ضرورتیں پوری کرسکتا اور ان کی تمام مشکلات آسان کرسکتا ہے۔ تو پھر اس کے سوا کیوں کسی اور کو پکارا جائے اور کیوں کسی اور سے استعانت کی جائے۔ اس آیت کا دوسرا ربط یہ ہے کہ اگر ہم کوئی ایسی رسم منسوخ کردیں جو موہم شرک ہو تو اس کی جگہ اس سے بہتر طریقہ رائج کردیتے ہیں جس طرح راعنا کا لفظ منسوخ کر کے اس کی جگہ انظرنا کا لفظ کہنے کا حکم دیا ہے۔ فائدہ : متقدمین حضرات نسخ کو اس کے وسیع معنوں میں لیتے تھے۔ یعنی وصف آیت کے مطلق تغیر کو نسخ کہتے تھے۔ اس لیے ان کے نزدیک پانچ سو سے بھی زیادہ آیتیں منسوخ ہیں۔ لیکن متاخرین نے نسخ کو محدود معنی میں استعمال کیا۔ یعنی آیت کا حکم مع التلاوۃ یا بدون التلاوۃ اٹھا دینے کو نسخ کہتے ہیں۔ اس لیے اس مفہوم کے پیش نظر بیس سے زیادہ آیتیں منسوخ نہیں ہیں۔ جیسا کہ علامہ سیوطی نے اتقان میں بسط و تفصیل سے ذکر کیا ہے لیکن امام ولی اللہ دہلوی الفوز الکبیر کے باب دوم فصل دوم میں اس مفہوم کے تحت صرف پانچ آیتوں کو منسوخ مانتے ہیں اور باقی تمام آیتوں کی توجیہ فرماتے ہیں لیکن حضرت شیخ (رح) ان پانچ آیتوں کو بھی منسوخ نہیں مانتے تھے اور حضرت شاہ صاحب کی طرز پر ان پانچوں آیتوں کی ایسی توجیہ فرماتے تھے کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پانچوں آیتوں کا حکم بھی تا قیامت باقی ہے۔ ان پانچوں آیتوں کی توجیہ اپنی اپنی جگہ آئے گی انشائ اللہ تعالی۔ بعض لوگ نسخ پر اعتراض کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پہلے ایک حکم دے کر پھر اسے واپس کیوں لیتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نسخ کے معنی پہلا حکم واپس لینے کے نہیں بلکہ اس سے پہلے حکم کی مدت کی انتہا کا بیان مقصود ہوتا ہے کہ یہ حکم صرف اس مدت تک تھا۔ اس کے بعد کے لیے نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi