Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 11

سورة البقرة

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُوۡنَ ﴿۱۱﴾

And when it is said to them, "Do not cause corruption on the earth," they say, "We are but reformers."

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Meaning of Mischief Allah said, وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِي الاَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ And when it is said to them: "Do not make mischief on the earth," they say: "We are only peacemakers." In his Tafsir, As-Suddi said that Ibn Abbas and Ibn Mas`ud commented, "They are the hypocrites. As for, لااَ تُفْسِدُواْ فِي الااَرْضِ ("Do not make mischief on the earth"), that is disbelief and acts of disobedience." Abu Jafar said that Ar-Rabi bin Anas said that Abu Al-Aliyah said that Allah's statement, وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِي الاَرْضِ (And when it is said to them: "Do not make mischief on the earth"), means, "Do not commit acts of disobedience on the earth. Their mischief is disobeying Allah, because whoever disobeys Allah on the earth, or commands that Allah be disobeyed, he has committed mischief on the earth. Peace on both the earth and in the heavens is ensured (and earned) through obedience (to Allah)." Ar-Rabi bin Anas and Qatadah said similarly. Types of Mischief that the Hypocrites commit Ibn Jarir said, "The hypocrites commit mischief on earth; by disobeying their Lord on it and continuing in the prohibited acts. They also abandon what Allah made obligatory and doubt His religion, even though He does not accept a deed from anyone except with faith in His religion and certainty of its truth. The hypocrites also lie to the believers by saying contrary to the doubt and hesitation their hearts harbor. They give as much aid as they can, against Allah's loyal friends, and support those who deny Allah, His Books and His Messengers. This is how the hypocrites commit mischief on earth, while thinking that they are doing righteous work on earth." The statement by Ibn Jarir is true; taking the disbelievers as friends is one of the categories of mischief on the earth. Allah said, وَالَّذينَ كَفَرُواْ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَأءُ بَعْضٍ إِلاَّ تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِى الاٌّرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ And those who disbelieve are allies of one another, if you do not do this (help each other), there will be turmoil and oppression on the earth, and great mischief. (8:73), In this way Allah severed the loyalty between the believers and the disbelievers. Similarly, Allah said, يَـأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْكَـفِرِينَ أَوْلِيَأءَ مِن دُونِ الْمُوْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُواْ للَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَاناً مُّبِيناً O you who believe! Do not take disbelievers as Awliya (protectors or helpers or friends) instead of believers. Do you wish to offer Allah a manifest proof against yourselves. (4: 144) Allah then said, إِنَّ الْمُنَـفِقِينَ فِى الدَّرْكِ الاٌّسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيراً Verily, the hypocrites will be in the lowest depth of the Fire; no helper will you find for them. (4:145) Since the outward appearance of the hypocrite displays belief, he confuses the true believers. Hence, the deceitful behavior of the hypocrites is an act of mischief, because they deceive the believers by claiming what they do not believe in, and because they give support and loyalty to the disbelievers against the believers. If the hypocrite remains a disbeliever (rather than pretending to be Muslim), the evil that results from him would be less. Even better, if the hypocrite becomes sincere with Allah and makes the statements that he utters conform to his deeds, he will gain success. Allah said, وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِي الاَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ And when it is said to them: "Do not make mischief on the earth," they say: "We are only peacemakers." meaning, "We seek to be friends with both parties, the believers and the disbelievers, and to have peace with both parties." Similarly, Muhammad bin Ishaq reported that Ibn Abbas commented on Allah's statement, means, "We seek to make amends between the believers and the People of the Book." Allah said, أَلا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَـكِن لاَّ يَشْعُرُونَ

سینہ زور چور حضرت عبداللہ بن عباس حضرت عبداللہ بن مسعود اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ یہ بیان بھی منافقوں سے ہی متعلق ہے ان کا فساد ، کفر اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی تھی مطلب یہ ہے کہ زمین میں اللہ کی نافرمانی کرنا یا نافرمانی کا حکم دینا زمین میں فساد کرنا ہے اور زمین و آسمان میں اصلاح سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ انہیں جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے روکا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو ہدایت و اصلاح پر ہیں ۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس خصلت کے لوگ اب تک نہیں آئے ۔ مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ بدخصلت لوگ تھے تو سہی لیکن اب جو آئیں گے وہ ان سے بھی بدتر ہوں گے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس وصف کا کوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا ہی نہیں ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں ان منافقوں کا فساد برپا کرنا یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتے تھے جس کام سے اللہ تعالیٰ منع فرماتا تھا ، اسے کرتے تھے ۔ فرائض ربانی ضائع کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ کے سچے دین میں شک و شبہ کرتے تھے ۔ اس کی حقیقت اور صداقت پر یقین کامل نہیں رکھتے تھے ۔ مومنوں کے پاس آ کر اپنی ایمانداری کی ڈینگیں مارتے تھے حالانکہ دل میں طرح طرح کے وسوسے ہوتے تھے موقع پا کر اللہ کے دشمنوں کی امداد و اعانت کرتے تھے اور اللہ کے نیک بندوں کے مقابلہ میں ان کی پاسداری کرتے تھے اور باوجود اس مکاری اور مفسدانہ چلن کے اپنے آپ کو مصلح اور صلح کل کے حامی جانتے تھے ۔ قرن کریم نے کفار سے موالات اور دوستی رکھنے کو بھی زمین میں فساد ہونے سے تعبیر کیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے آیت ( وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۭاِلَّا تَفْعَلُوْهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْاَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيْرٌ ) 8 ۔ الانفال:73 ) یعنی کفار آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اگر تم ایسا نہ کرو گے یعنی آپس میں دوستی نہ کرو گے تو اس زمین میں بھاری فتنہ اور بڑا فساد پھیل جائے گا ۔ اس آیت نے مسلمان اور کفار کے دوستانہ تعلقات منقطع کر دے اور جگہ فرمایا اے ایمان والو! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کی تم پر کھلی حجت ہو جائے یعنی تمہاری دلیل نجات کٹ جائے ۔ پھر فرمایا منافق لوگ تو جہنم کے نچلے طبقے میں ہوں گے اور ہرگز تم ان کے لئے کوئی مددگار نہ پاؤ گے ۔ چونکہ منافقوں کا ظاہر اچھا ہوتا ہے ، اس لئے مسلمانوں سے حقیقت پوشیدہ رہ جاتی ہے وہ ایمانداروں کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے دھوکہ دے دیتے ہیں اور ان کے بےحقیقت کلمات اور کفار سے پوشیدہ دوستیوں سے مسلمانوں کو خطرناک مصائب جھیلنے پڑتے ہیں پس بانی فساد یہ منافقین ہوئے ۔ اگر یہ اپنے کفر پر ہی رہتے تو ان کی خوفناک سازشوں اور گہری چالوں سے مسلمانوں کو اتنا نقصان ہرگز نہ پہنچتا اور اگر پورے مسلمان ہو جاتے اور ظاہر باطن یکساں کر لیتے تب تو دنیا کے امن و امان کے ساتھ آخرت کی نجات و فلاح بھی پا لیتے باوجود اس خطرناک پالیسی کے جب انہیں یکسوئی کی نصیحت کی جاتی تو جھٹ کہ اٹھتے کہ ہم تو صلح کل ہیں ہم کسی سے بگاڑنا نہیں چاہتے ، ہم فریقین کے ساتھ اتفاق رکھتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ وہ کہتے تھے ہم ان دونوں جماعتوں یعنی مومنوں اور اہل کتاب کے درمیان صلح کرانے والے ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ ان کی نری جہالت ہے جسے یہ صلح سمجھتے ہیں وہ عین فساد ہے لیکن انہیں شعور ہی نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦] ان کا فساد یہ تھا کہ ان کی دلی ہمدردیاں تو کافروں سے تھیں اور مسلمانوں میں شامل رہ کر ان کے حالات سے انہیں باخبر رکھتے اور ان کے لیے جاسوسی کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔ نئے اور ضعیف الاعتقاد مسلمانوں کو حیلوں بہانوں سے برگشتہ کرتے تھے اور جنگ کی صورت میں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے تھے۔ [١٧] یعنی ہم ہر ایک سے صلح رکھنا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ پہلے کی طرح سب شیر و شکر ہو کر رہیں اور نئے دین (اسلام) کی وجہ سے جو مخالفت بڑھ رہی ہے وہ ختم ہوجائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یہاں منافقین کے دو اوصاف بیان ہوئے ہیں، فساد یعنی زمین میں بگاڑ پیدا کرنا۔ اس میں اللہ کی ہر نافرمانی شامل ہے، کیونکہ اس سے زمین میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے، فرمایا : (ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ ) [ الروم : ٤١ ] ” خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہوگیا، اس کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا۔ “ دوسرا وصف بگاڑ پیدا کرنے کو عین اصلاح قرار دینا۔ یہ لوگ دل میں کفر رکھنے کی وجہ سے کفار سے دوستی رکھتے تھے، مسلمانوں کے راز انھیں بتاتے اور اسلام کے عقائد و احکام پر اعتراض کرتے تھے اور منع کرنے پر اپنے اس عمل بد کو اصلاح کا نام دیتے تھے۔ اب بھی مسلمانوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے ساتھ شرک کو اولیاء کا ادب، بدعات کو قرب الٰہی کا ذریعہ، کفار سے دوستی اور ان کے غلبے کے لیے کوشش کو حالات کا تقاضا قرار دیتے ہیں، مسلمانوں کی نسل کشی کو خاندانی منصوبہ بندی کہتے ہیں، بدکاری و بےحیائی پھیلاتے ہیں اور اسے عورتوں کے حقوق کا تحفظ قرار دیتے ہیں۔ ہر برے سے برا کام نام بدل کر خوش نما بنا لیتے ہیں، کچھ اور لوگوں نے زنا کو متعہ اور حلالہ کا، باجوں گاجوں اور موسیقی کو قوالی اور روح کی غذا کا اور نشہ آور مشروبات کو نبیذ وغیرہ کا نام دے کر حلال کر رکھا ہے۔ یہ سب نفاق کے مختلف مظاہر ہیں۔ (لَّا يَشْعُرُوْنَ ) دل بیمار ہو تو اچھے برے کا شعور بھی ختم ہوجاتا ہے، پھر آدمی اچھے کو برا اور برے کو اچھا سمجھنے لگتا ہے، فرمایا : (اَفَمَنْ زُيِّنَ لَهٗ سُوْۗءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَـنًا) [ فاطر : ٨ ] ” تو کیا وہ شخص جس کے لیے اس کا برا عمل مزین کردیا گیا تو اس نے اس کو اچھا سمجھا ( اس شخص کی طرح ہے جو ایسا نہیں ؟ ) “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The fourth and the fifth verses expose the sophistry of the hypocrites -their activities threatened to produce a general chaos and disorder, and yet, in their mealy-mouthed way, they pretended to be men of good will and to be serving the cause of peace and order. The Holy Qur&an makes it clear that oral claims alone do not decide the question whether one is working for order or disorder, for what thief would call himself a thief? It depends on what one does, not on what one says. If a man&s activities do result in mischief, he will be called a mischief-maker, even if he had no such intention. Who are reformers and mischief-makers (7) As these verses report, when the hypocrites were asked not to spread disorder in the land through their prevarication and double dealing, they used to reply emphatically إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ :|"We are nothing but reformers.|" The word Innama إِنَّمَا (nothing but), used in, the Arabic text, indicates not merely emphasis but exclusivity. So, their reply would mean that they were nothing but reformers, the servants of order, and that their activities could have nothing to do with disorder. Commenting on their reply, the Holy Qur&an says: أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَـٰكِن لَّا يَشْعُرُ‌ونَ |"Beware, it is, in fact, they who spread disorder, but they are not aware.|" Now, we learn two things from this comment. Firstly, the activities of the hypocrites did actually produce disorder in the land. Secondly, they did not indulge in these activities with the express intention or design of creating disorder they were not even aware of the possibility that their actions could be the cause of disorder. For, among the things which spread disorder in the world, there are some which are commonly recognized to be mischievous and disorderly activities, and hence every sensible and conscientious man refrains from them e.g., theft, robbery, murder, rape etc.; on the other hand, there are some which in their external aspect do not appear to be mischief or disorder, but, working unseen, they have the necessary consequence of destroying the morals of men which, in its turn, opens the door to all kinds of disorder. This is exactly what the hypocrites were doing. No doubt, they refrained from theft, robbery etc.; it was on this count that they denied their being mischievous, and emphatically asserted that they were serving the cause of order. But all this while they had been freely giving vent to their malice and envy by conspiring with the enemies of the Muslims. These are things which finally bring man down to the level of beasts. Once he has lost his awareness of ethical values and human decency, even an average man becomes an agent of social disorder of a disorder much greater than that released by thieves or robbers, or even beasts are capable of producing. For, the mischief of robbers and beasts can be controlled by the physical power of law and government. But laws are made and enforced by men. What happens to laws, when man has ceased to be man, can easily be witnessed all around us in the world of today. Everyone takes it for granted that humanity is on the march and the modern man is so far. the ultimate in civilization; the network of educational institutions covers every hamlet on the face of the earth; legislative bodies keep buzzing night and day; organizations for the promulgation of laws spend billions, and circumlocution offices proliferate. And yet crime and disorder keep in step with the march of civilization. The reason is simple. Law is not an automatic machine; it requires men to make it work. If man ceases to be man, neither laws nor can bureaucratic agencies provide a remedy for the all-pervading disorder. It is for this that the greatest benefactor of mankind, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، concentrated all his attention on making men real men - in all the plenitude of the term. Once this has been achieved, crime or disorder comes to an end of itself without the help of enormous police forces and extensive system of law-courts. As long as people acted upon his teachings in certain parts of the world, man saw a kind of peace and order prevail the like of which had never been witnessed before nor is likely to be witnessed when these teachings are abandoned or disregarded. In so far as actual practice is concerned, the essence of the teachings of the Holy Prophet is fear of Allah and solicitude for the assessment of one&s deeds on the Day of Judgment. If these are absent, no constitution or legal code, nor administrative body or university can force or induce man to keep away from crime. Those who run the world in our day invent ever-new administrative measures to prevent crime, but they not only neglect the very soul of administration, the fear of Allah, but even deploy the means of destroying it - all of which has the necessary consequence that the remedy only helps to feed the malady. To another aspect of the question, it is easy enough to find a cure for thieves and robbers and for all those who create disorder openly. But the miscreants who have been described in these verses always appear in the garb of reformers, brandishing colourful schemes of social amelioration which are only a mask for personal interests, and for raising the slogan, إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ :|"We are nothing but reformers.|" Hence it is that Allah, while asking men not to spread disorder on the earth, has also said in another place: وَاللَّـهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ |"And Allah knows the one who makes mischief distinct from him who promotes good.|" (2:220) This is an indication that Allah alone10 knows the states of men&s hearts and their intentions, and He alone knows the nature and consequences of each human deed as to whether it would help the cause of order or of disorder. So, to serve the cause of order, it is not sufficient merely to possess such an intention; much more essential than that is to orient oneself in thought and deed in harmony with the Shari&ah, for an action may, in spite of the best intentions, sometimes result in mischief and disorder, if it is not guided by the Shari` ah.

چوتھی اور پانچویں آیتوں میں منافقین کا یہ مغالطہ مذکور ہے کہ فساد کو اصلاح سمجھتے اور اپنے آپ کو مصلح کہتے تھے قرآن کریم نے واضح کیا کہ فساد و اصلاح زبانی دعوؤں پر نہیں ہوتے ورنہ کوئی چور ڈاکو بھی اپنے آپ کو مفسد کہنے کو تیار نہیں بلکہ مدارکار اس کام پر ہے جو کیا جارہا ہے وہ فساد ہے تو کرنے والے کو مفسد ہی کہا جائے گا خواہ اس کی نیت فساد کی نہ ہو، (٧) اصلاح و فساد کی تعریف اور مصلح ومفسد کی پہچان : آیات مذکورہ میں گذر چکا ہے کہ جب کوئی ان منافقین سے یہ کہتا کہ اپنے نفاق کے ذریعہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ تو وہ بڑے زور اور تاکید سے کہتے تھے۔ میں لفظ اِنَّماَ جو حصر و انحصار کے لئے بولا جاتا ہے اس کی وجہ سے معنی اس جملہ کے یہ ہیں کہ ہم تو مصلح ہی ہیں یعنی ہمارے کسی عمل کا فساد سے کوئی واسطہ نہیں مگر قرآن کریم نے ان کے جواب میں فرمایا اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰكِنْ لَّا يَشْعُرُوْنَ یعنی یادر کھو کہ یہی لوگ مفسد ہی ہیں مگر ان کو اس کا شعور نہیں، اس میں دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ منافقین کی حرکات حقیقۃً زمین میں فتنہ و فساد پھیلنے کا سبب تھیں دوسری بات یہ کہ منافقین فتنہ و فساد پھیلانے کی نیت اور قصد سے یہ کام نہ کرتے تھے بلکہ ان کو معلوم بھی نہ تھا کہ اس کا نتیجہ فتنہ و فساد ہے جیسا کہ قرآن کی تصریح وَلٰكِنْ لَّا يَشْعُرُوْنَ سے معلوم ہوتا ہے ، وجہ یہ ہے کہ زمین میں فتنہ و فساد جن چیزوں سے پھیلتا ہے ان میں کچھ تو ایسی چیزیں ہیں جن کو ہر شخص فتنہ و فساد سمجھتا ہے جیسے قتل، غارتگری، چوری، دھوکہ، فریب، اغواء، بدکاری وغیرہ ہر سمجھدار آدمی ان کو شر و فساد سمجھتا ہے اور ہر شریف آدمی ان سے بچتا ہے اور کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو اپنی ظاہری سطح کے اعتبار سے کوئی فتنہ و فساد نہیں ہوتیں، مگر ان کی وجہ سے انسانوں کے اخلاق برباد ہوتے ہیں اور انسانوں کی اخلاقی گراوٹ سارے فتنوں اور فسادوں کے دروازے کھول دیتی ہے، ان منافقین کا بھی یہی حال تھا کہ چوری، ڈاکہ، بدکاری وغیرہ سے بچتے تھے، اسی لئے بڑے زور سے اپنے مفسد ہونے کا انکار اور مصلح ہونے کا اثبات کیا، مگر نفاق اور کینہ وحسد اور اس کے ماتحت دشمنوں سے سازشیں، یہ چیزیں انسان کے اخلاق کو ایسا تباہ کردیتی ہیں کہ انسان بہت سے حیوانوں کے سطح سے بھی نیچے آجاتا ہے اور ایسے کام کرنے پر اتر آتا ہے جو کبھی کبھی بھلے مانس سے متصور نہیں ہوتے، اور جب انسان اپنے انسانی اخلاق کھو بیٹھا تو انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں فساد ہی فساد آجاتا ہے فساد بھی ایسا عظیم جو نہ درندے جانوروں سے متوقع ہے نہ ڈاکوؤں اور چوروں سے کیونکہ ان کے فساد کو قانون اور حکومت کی طاقت سے روکا جاسکتا ہے مگر قانون جو انسان ہی جاری کرتے ہیں جب انسان انسان نہ رہا تو قانون کی جو گت بنے گی اس کا تماشا آج کھلی آنکھوں ہر شخص ہر محکمہ اور ہر ادارہ میں دیکھتا ہے آج دنیا کا تمدن ترقی پذیر ہے تعلیم وتعلّم کے اداروں کا جال گاؤں گاؤں تک پھیلا ہوا ہے تہذیب کے الفاظ ہر شخص کی زبان پر ہیں قانون سازی کی مجلسوں کا بازار گرم ہے تنقیذ قانون کے بیشمار ادارے اربوں روپے کے خرچ سے قائم ہیں دفتری انتظامات کی بھول بھلیّاں ہے مگر جرائم اور فتنے فساد روز بروز بڑہتے ہی جاتے ہیں وجہ اس کے سوا نہیں کہ کوئی قانون خودکار مشین نہیں ہوتا بلکہ اس کو انسان چلاتے ہیں جب انسان اپنی انسانیت کھو بیٹھا تو پھر اس فساد کا علاج نہ قانون سے ہوسکتا ہے نہ حکومت اور محکموں کے چکر سے اسی لئے انسانیت کے عظیم ترین محسن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی تمام تر توجہ اس پر مرکوز فرمائی ہے کہ انسان کو صحیح معنی میں انسان بنادیں تو پھر فساد و جرائم خودبخود ختم ہوجاتے ہیں نہ پولیس کی زیادہ ضرورت رہتی ہے نہ عدالتوں کے اس پھیلاؤ کی جو دنیا میں پایا جاتا ہے اور جب تک دنیا کے جس حصہ میں آپ کی تعلیمات و ہدایات پر عمل ہوتا رہا دنیا نے وہ امن وامان دیکھا جس کی نظیر نہ پہلے کبھی دیکھی گئی نہ ان تعلیمات کو چھوڑنے کے متوقع ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات پر عمل کی روح ہے اللہ تعالیٰ کا خوف اور قیامت کے حساب کتاب کی فکر اس کے بغیر کوئی قانون و دستور اور کوئی محکمہ اور کوئی مدرسہ اور یونیورسٹی انسان کو جرائم سے باز رکھنے پر مجبور نہیں کرسکتی، آج کی دنیا میں جن میں جن لوگوں کے ہاتھ میں اختیار کی باگ ہے وہ جرائم کے انسداد کے لئے نئے سے نئے انتظام کو تو سوچتے ہیں مگر اس روح انتظام یعنی خوف خدا سے نہ صرف غفلت برتتے ہیں بلکہ اس کو فنا کرنے کے اسباب مہیا کرتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ ہمیشہ یہی سامنے آتا رہتا ہے کہ، مرض بڑہتا گیا جوں جوں دوا کی کھلے طور پر فساد مچانے والے چوروں، غارت گروں کا علاج سہل ہے، مگر ان انسانیت فراموش انسانوں کا فساد ہمیشہ برنگ، اصلاح ہوتا ہے وہ کوئی دلچسپ دلفریب اصلاحی اسکیم بھی سامنے رکھ لیتے ہیں اور خالص ذاتی اغراض فاسدہ کو اصلاح کا رنگ دے کر اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ کے نعرے لگاتے رہتے ہیں اسی لئے حق تعالیٰ سُبحانہ نے جہاں فساد سے روکا ہے اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا واللّٰهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ (٢٢: ٢) یعنی اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ مفسد کون ہے اور مصلح کون ؟ جس میں اشارہ فرما دیا کہ فساد وصلاح کی اصل حقیقت حق تعالیٰ ہی جانتے ہیں جو دلوں کے حال اور نیتوں سے بھی واقف ہیں اور ہر عمل کے خواص و نتائج کو بھی جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ صلاح ہوگا یا فساد اس لئے اصلاح کے لئے صرف نیت اصلاح کافی نہیں بلکہ عمل کا رخ بھی شریعت کے مطابق صحیح ہونا ضروری ہے بعض اوقات کوئی عمل پوری نیک نیتی اور اصلاح کے قصد سے کیا جاتا ہے مگر اس کا اثر فساد وفتنہ ہوتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِى الْاَرْضِ۝ ٠ ۙ قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ۝ ١١ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3 ] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61 ] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1 ] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ فسد الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] ، ( ف س د ) الفساد یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ صلح والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] ( ص ل ح ) الصلاح اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١) اور جب یہود سے کہا جاتا ہے کہ لوگوں کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین سے نہ روکو، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اطاعت پر لگانے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١ (وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ لا) اس سے مراد یہ ہے کہ جب تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا رسول مان لیا تو اب ان کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرو ‘ ان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے چلو۔ ان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم ہے تو جنگ کے لیے نکلو۔ ان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے تقاضا آتا ہے تو مال پیش کرو۔ اور اگر تم اس سے کتراتے ہو تو پھر جماعتی زندگی کے اندر فتنہ و فساد پھیلا رہے ہو۔ (قَالُوْآ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ ) ہم تو صلح کرانے والے ہیں۔ ہماری نظر میں یہ لڑنا بھڑنا کوئی اچھی بات نہیں ہے ‘ ٹکراؤ اور تصادم کوئی اچھے کام تھوڑے ہی ہیں۔ بس لوگوں کو ٹھنڈے ٹھنڈے دعوت دیتے رہو ‘ جو چاہے قبول کرلے اور جو چاہے ردّ کر دے۔ یہ خواہ مخواہ دشمن سے ٹکرانا اور جنگ کرنا کس لیے ؟ اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے قربانیاں دینے ‘ مصیبتیں جھیلنے اور مشقتیں برداشت کرنے کے مطالبے کا ہے کے لیے ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:11) واذا قیل لہم لا تفسدوا فی الارض۔ واؤ عاطفہ ہے۔ اذا شرطیہ، قیل ماضی مجہول واحد مذکر غائب ۔ قول (باب نصر) مصدر ، یہ کثیر المعانی لفظ ہے۔ اور قرآن مجید میں مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً بولنا، رائے، نظریہ، کسی کو کوئی بات الہام کرنا۔ حکم دینا۔ روایت کرنا وغیرہ۔ قیل اگرچہ ماضی کا صیغہ ہے لیکن قرآن مجید میں جس جگہ حرف شرط کے بعد آیا ہے وہاں مضارع کا ترجمہ کیا جائے گا۔ کہیں حال کا کہیں مستقبل کا ۔ کہا گیا۔ کہا جاتا ہے۔ کہا جائے گا۔ لا تفسدوا فی الارض، مقولہ نائب فاعل قیل کا ہے ۔ سارا جملہ جملہ فعلیہ ہوکر شرط ہے۔ اگلہ جملہ قالوا ۔۔ مصلحون تک ۔ اس شرط کی جزاء ہے۔ انما۔ یہ مرکب ہے ان اور ما۔ بیشک ۔ تحقیق۔ سوائے اس کے نہیں، ان حرف مشبہ بالفعل ہے اور ما کافہ ہے جو حصر کے لئے آتی ہے اور ان کو عمل لفظی سے روک دیتی ہے۔ مصلحون ۔ اسم فاعل جمع مذکر، درست اعمال کرنے والے ، نیک، اصلاح کرنے والے، بگاڑ کرنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 فساد دراصل صلاح کی ضد ہے اور اس کے معنی ہیں استقامت سے ہٹ جانا یہاں فساد سے مراد ہے کفر و معصیت کا ارتکاب حضرت عبدا اللہ مب مسعود (رض) اور دیگر صحا بہ نے یہی تفسیر کی ہے۔ ( ابن کثیر) یہ واقعہ ہے کہ ہر زمانے میں مفسد اور گم راہ لوگ نشر و اشاعت کے لیے خوبصورت عنوان تجویز کرتے رہے ہیں جیسا کہ آجکل دعا بتول سل غیر کے نام سے شرک ہو رہا ہے ( للنار) ۔ ہمارے زمانے میں بھی منافقوں کی چھوٹی ذریت پیدا ہوئی ہے جس کا دعوی تو مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا ہے۔ اور وہ خود کو پکے مسلمان سمجھتے ہیں مگر در اصل وہ اسلام کے ڈھانے اور اس کے عقائد و شرائع اور احکام کو نیست وبابود کرنے کی فکر میں جس ترقی کے یہ لوگ خواہاں ہیں وہ مسلمانوں کی ترقی نہیں بلکہ کفر زنفاق کی ترقی ہے۔ (ودحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقت کی بیماری کی وجہ سے منافق کو اصلاح اور بگاڑ کے درمیان شعور نہیں رہتا۔ اصلاح و فساد کی ابتدا انسان کے ضمیر سے ہوتی ہے۔ ضمیر بگڑتا ہے تو طبیعت میں برائی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ جو آدمی کے کردار پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ جس سے اکثر اوقات سوچ کے زاویے اس قدر بگڑ جاتے ہیں کہ آدمی کو اصلاح اور بگاڑ میں فرق محسوس نہیں ہوتا۔ خاص کر ایسا شخص جو اپنے مفاد کے لیے اللہ تعالیٰ کے مقدس نام اور آخرت کے عقیدہ کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے جھوٹ بولتا ہے۔ اس کا ضمیر اس حد تک پستی کا شکار ہوجاتا ہے کہ اس سے ہر گناہ اور جرم کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ایسے لوگوں پر جتنے نگران مقرر کردیے جائیں اور انہیں لاکھ سمجھائیں۔ اصلاح کی بجائے ان کے بگاڑ میں اضافہ ہی ہوا کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ رشوت کے خاتمہ کے لیے انسداد رشوت ستانی کے محکمہ سے رشوت کے ریٹ بڑھ جاتے ہیں۔ فروغ تعلیم کے نام پر جہالت، معلومات عامہ کے نام پر گندہ لٹریچر، کلچر کے نام پر بےحیائی، عدل و انصاف کے نام پر ججز اور وکلاء کی قانونی موشگافیاں، شیطان کی آنت کی طرح پھیلا ہوا عدالتی نظام بگڑتاہی چلا جاتا ہے۔ ملک و ملت کے وسیع تر مفاد کے نام پر وسیع تر فساد کا جال بچھا دیا جاتا ہے۔ امن وامان قائم کرنے کے نام پر بےگناہوں کا قتل عام، یہ سب اصلاح اور فلاح کے نام پر ہی تو کیا جاتا ہے۔ ایسی حکومتوں، افسروں اور اداروں کے ذمہ داران کو سمجھا کر دیکھ لیجئے۔ جواب یہی ملے گا کہ ہم تو اصلاح احوال اور فلاح عوام کے لیے سب کچھ کر رہے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ یہ لوگ فسادی ہیں مگر حقیقی شعور سے محروم ہونے کی وجہ سے اصلاح اور فساد میں فرق نہیں سمجھتے جس وجہ سے اپنے آپ کو مصلح سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے مسلمانوں کو خبردار اور ہوشیار رہنے کا حکم دیا گیا کہ ان منافقوں اور فسادیوں سے بچتے رہنا۔ مسائل ١۔ منافق فسادی ہونے کے باوجود اپنے آپ کو مصلح سمجھتا ہے۔ ٢۔ منافق حقیقی سمجھ سے تہی دامن ہوتا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

گویا یہ لوگ جھوٹ اور فریب پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ وہ مومنین کو بیوقوف سمجھتے ہوئے الٹا یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ہم تو مصلح ہیں وہ اس نصیحت کا کہ ” زمین میں فساد نہ کرو۔ “ یہ سادہ جواب نہیں دیتے کہ ” بھائی ہم کب فساد برپاکر رہے ہیں ؟ بلکہ وہ اکڑ کر یہ ادعا کرتے ہیں کہ ” مصلح تو ہیں ہی ہم۔ “ ہر دور اور ہر زمانے میں لوگوں کی یہ قسم دیکھنے میں آئی ہے کہ وہ عملاً فساد کی بدترین شکلیں برپاکررہی ہوتی ہیں اور اس کا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ ہم تو بس اصلاح معاشرہ چاہتے ہیں جب معاشرہ میں بلند اقدار تباہ ہوتی ہیں تو ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں ۔ وہ اخلاص اور پاکیزگی نفس سے محروم ہوتے ہیں اور جب اخلاص جاتا رہے اور نفس انسانی میں فساد پیدا ہوجائے تو تمام اعلیٰ قدریں اور حسن وقبح کے پیمانے از خود ختم ہوجاتے ہیں اور جن لوگوں کے دلوں میں خلوص اور ایمان نہ رہے ۔ وہ کبھی بھی فساد فکر وعمل کا شعور نہیں پاسکتے اور ان کے دل و دماغ میں خیر وشر اور اصلاح و فساد کا جو پیمانہ ہوتا ہے ، وہ ان کی خواہشات نفسانی کی طرف ، جھکتا رہتا ہے اور ربانی نظام حیات کی طرف مائل نہیں ہوتا ۔ اسی لئے ان کے اس دعوے کا یہ سخت لیکن حقیقت پسندانہ جواب دیا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منافقوں کے دعوے اور ان کا طریق کار ان آیات میں منافقین کے بعض دعوے نفل فرمائے ہیں۔ اور ان کا طریقہء کار ذکر فرمایا ہے اور وہ یہ کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ زمین میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے تھے کہ اجی ہم کہاں فساد کہاں ؟ ہمارا کام تو اصلاح کرنا ہی ہے۔ ان کی تردید میں فرمایا کہ خبر دار بلاشبہ یہ لوگ فسادی ہی ہیں لیکن اس کا شعور نہیں رکھتے، جس فساد میں یہ لوگ مبتلا تھے اس میں کئی طرح سے حصہ لیتے تھے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فتنے کھڑے کرتے تھے۔ اور دشمنان اسلام کو لڑائیوں پر آمادہ کرتے تھے اور مسلمانوں کے بھید دشمنوں تک پہنچاتے تھے۔ اور جو لوگ مسلمان ہونے کا ارادہ کرتے ان کو اسلام سے روکنے کا سبب بنتے تھے۔ اور مسلمانوں کا مذاق بناتے تھے فساد کے کاموں میں مبتلا ہوتے ہوئے ان کا دعویٰ یہ تھا کہ ہم تو اصلاح ہی کرنے والے ہیں۔ مفسر ابن کثیر نے لکھا ہے کہ ان کا مطلب یہ تھا کہ ہم دونوں فریق یعنی مسلمین اور کافرین کی مدارات کرتے ہیں۔ دونوں میں جوڑ لگانے اور دونوں کے تعلقات استوار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ (و کذا نقلہ السیوطی عن ابن عباس فی الدر) انہوں نے اپنے نفاق کو اصلاح سے تعبیر کیا، ان کا دعویٰ جھوٹ تھا۔ دونوں فریق میں سے ہر فریق ان کو اپنی جماعت سے علیحدہ سمجھتا تھا۔ (لاَ اِلٰی ھٰؤلاَءِ وَلَا اِلٰی ھٰؤْلَاءِ ) جس شخص سے دونوں جانب میں سے کوئی بھی مطمئن نہ ہو وہ کیا جوڑ بٹھا سکتا ہے۔ پھر ایمان اور کفر میں جوڑ بٹھانے کا ارادہ کرنا بھی مزید کفر ہے۔ ایمان اور کفر کا جوڑ بیٹھ ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا ان کا دعویٰ اصلاح صرف دھوکہ ہے اور وہ اس کے نتیجہ سے ناواقف ہیں، ان کے عمل سے جو فساد پھیلتا ہے اس کو نہیں سمجھتے اور آخرت میں جو اس کا وبال ان پر پڑے گا اس کو نہیں جانتے۔ اور جب ان سے کہا جاتا تھا کہ ایمان لے آؤ یعنی دین اسلام کو سچے دل سے قبول کرو تو وہ کہتے تھے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ تو بیوقوف ہیں ہم بیوقوفی کا کام کیوں کریں۔ حضرات صحابہ اور خاص کر انصار کے دونوں قبیلے اوس اور خزرج جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ ان کو انہوں نے بیوقوف بنایا۔ اور گویا اپنے سمجھدار اور ہوشیار ہونے کا دعویٰ کیا۔ اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ بلاشبہ یہ خود بیوقوف ہیں، لیکن جانتے نہیں ہیں۔ جس نے ایمان کھویا کفر اختیار کیا اسلام کو نقصان پہنچایا اپنی آخرت برباد کی اور دنیا میں مومنین اور کافرین دونوں کے نزدیک مطعون اور قابل ملامت ہوا، اس کی بیوقوفی میں کیا شک ہے ؟ منافقین کا یہ طریقہ تھا کہ مومنین سے کہتے تھے کہ ہم تو ایمان لا چکے ہیں اور جب تنہائیوں میں اپنے شیطانوں یعنی کفر کے سرغنوں کے پاس جاتے تھے جو کھلے کافر تھے تو ان سے کہتے تھے کہ بلاشبہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں۔ یہ جو ہم مسلمانوں سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں یہ تو ہمارا مذاق ہے۔ ان کا مذاق بنانے کے لیے بطور دل لگی ہم ان کے سامنے ان کی جماعت میں ہونے کا اقرار کرلیتے ہیں لیکن اندر سے اور دل سے ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ (قال ابن عباس کان رجال من الیھود اذا لقوا اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) او بعضھم قالوا انّا علی دینکم و اذا خلوا الی شیاطینھم و ھم اخوانھم قانلوا انّا معکم ای علی مثل ما انتم علیہ انما نحن مستھزؤن ساخرون۔ (درمنثور ج ١ ص ٣١) انہوں نے یہ جو کہا کہ ہم مسلمانوں کا مذاق بناتے ہیں اس کے جواب میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کا مذاق بناتا ہے یعنی وہ ان کے اس استہزاء اور مذاق بنانے کا بدلہ دے گا، انہوں نے استہزاء کر کے مسلمانوں کے ساتھ جو حقارت کا معاملہ کیا، اس کی پاداش میں آخرت میں ذلیل اور رسوا ہوں گے۔ اور ان کے استہزاء کا وبال انہیں پر پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کو ڈھیل دے رہا ہے۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم بہت فائدہ میں ہیں حالانکہ وہ دوزخ کی طرف جا رہے ہیں یہاں دنیا میں مسلمانوں کی طرف اشارے کرتے ہیں زبانوں سے کن اکھیوں سے ان کا مذاق بناتے ہیں۔ آخرت میں مومنین ان پر ہنسیں گے۔ (فَالْیَوْمَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْکُفَّارِ یَضْحَکُوْنَ ) سورة حدید کے دوسرے رکوع میں منافقین کے پیش آنے والے ایک استہزاء کا ذکر ہے۔ (فَضُرِبَ بَیْنَہُمْ بِسُوْرٍ لَّہٗ بَابٌ بَاطِنُہٗ فِیْہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاھِرُہٗ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَابُ ) جس کی تفسیر انشاء اللہ اپنی جگہ پر بیان ہوگی۔ دنیا میں منافقین اپنے مال اور جائداد وغیرہ میں مشغول ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم کامیاب ہیں ان کا سمجھا غلط ہے ان کا مال اور جائیداد ان کو گمراہی اور سرکشی میں لگائے ہوئے ہے اور وہ اسی گمراہی میں حیران اور سرگرداں ہو کر بھٹک رہے ہیں۔ دنیاوی مال اور جائیداد سے دھوکہ کھانا اور یہ سمجھنا کہ کفر کے ہوتے ہوئے یہ ہمارے لیے مفید اور نافع ہے بہت بڑا دھوکہ ہے سورة مومنون میں فرمایا : (اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّھُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنَ نُسَارِعُ لَہُمْ فِی الْخَیْرَاتِ بَل لّاَ یَشْعُرُوْنَ ) ” کیا یہ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کو جو کچھ مال اور بیٹے دیئے چلے جاتے ہیں (اس طرح) ہم ان کو جلدی جلدی فائدے پہنچا رہے ہیں (بات یوں نہیں ہے) بلکہ یہ لوگ جانتے نہیں ہیں۔ “

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19 ۔ منافقین بظاہر مسلمان تھے لیکن در پردہ کافروں سے ربط قائم کر رکھا تھا۔ مسلمانوں کے خلاف اکساتے رہتے اور اس طرح فتنہ و فساد کیلئے زمین ہموار کر رہے تھے۔ وکان فساد المنافقین فی الارض انھم کانوا مما یلون الکفار ویمالئونھم علی المسلمین بافشاء اسرارھم الیھم واغرائھم علیھم وذلک مما یودی الی ھیج الفتن بینھم (مدارک ص 16 ج 1) والفساد منھا النفاق الذی مما صافوا بہ الکفار فاطلعوھم علی اسرار المومنین فان کل ذلک یودی الی خراب الارض وقلۃ الخیر ونزع البرکۃ وتعطل المنافع (روح ص 153 ج 1) ۔ 20 ۔ یعنی ہم نے جو مسلمانوں اور کافروں دونوں فریقوں سے میل جول قائم کر رکھا ہے اس سے ہمارا مقصود صرف دونوں فریقوں میں صلح وآشتی کی فضا پیدا کرنا ہے اور کچھ نہیں ان ھذہ المداواۃ سعی فی الاصلاح بین المسلمین والکفار (کبیر ص 288 ج 1) قالو انما نرید الاصلاح بین المومنین واھل الکتاب (ابن جریر ص 97 ج 1)/

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi