Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 113

سورة البقرة

وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ لَیۡسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیۡءٍ ۪ وَّ قَالَتِ النَّصٰرٰی لَیۡسَتِ الۡیَہُوۡدُ عَلٰی شَیۡءٍ ۙ وَّ ہُمۡ یَتۡلُوۡنَ الۡکِتٰبَ ؕ کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ مِثۡلَ قَوۡلِہِمۡ ۚ فَاللّٰہُ یَحۡکُمُ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فِیۡمَا کَانُوۡا فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۱۱۳﴾

The Jews say "The Christians have nothing [true] to stand on," and the Christians say, "The Jews have nothing to stand on," although they [both] recite the Scripture. Thus the polytheists speak the same as their words. But Allah will judge between them on the Day of Resurrection concerning that over which they used to differ.

یہود کہتے ہیں کہ نصرانی حق پر نہیں اور نصرانی کہتے ہیں کہ یہودی حق پر نہیں ، حالانکہ یہ سب لوگ تورات پڑھتے ہیں ۔ اسی طرح ان ہی جیسی بات بے علم بھی کہتے ہیں قیامت کے دن اللہ ان کے اس اختلاف کا فیصلہ ان کے درمیان کر دے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَىَ شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ ... The Jews said that the Christians follow nothing (i.e. are not on the right religion); and the Christians said that the Jews follow nothing (i.e. are not on the right religion); though they both recite the Scripture. Allah explained the disputes, hatred and stubbornness that the People of the Book have towards each other. Muhammad bin Ishaq reported that Ibn Abbas said, "When a delegation of Christians from Najran came to the Messenger of Allah, the Jewish rabbis came and began arguing with them before the Messenger of Allah. Rafi bin Huraymilah said, `You do not follow anything,' and he reiterated his disbelief in Jesus and the Injil. Then a Christian man from Najran's delegation said to the Jews, `Rather, you do not follow anything,' and he reiterated his rejection of Musa's Prophethood and his disbelief in the Torah. So Allah revealed the Ayah, وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَىَ شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ ... The Jews said that the Christians follow nothing (i.e. are not on the right religion); and the Christians said that the Jews follow nothing (i.e. are not on the right religion); though they both recite the Scripture." Allah made it clear that each party read the affirmation of what they claimed to reject in their Book. Consequently, the Jews disbelieve in Jesus, even though they have the Torah in which Allah took their Covenant by the tongue of Moses to believe in Jesus. Also, the Gospel contains Jesus' assertion that Moses' Prophethood and the Torah came from Allah. Yet, each party disbelieved in what the other party had. Allah said, ... كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ... Like unto their word, said those who know not, thus exposing the ignorance displayed by the Jews and the Christians concerning their statements that we mentioned. There is a difference of opinion regarding the meaning of Allah's statement, الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ (who know not), For instance, Ar-Rabi bin Anas and Qatadah said that, كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ (Like unto their word, said those said those who know not) means, "The Christians said similar statements to the Jews." Ibn Jurayj asked Ata "Who are those `who know not?"' Ata said, "Nations that existed before the Jews and the Christians and before the Torah and the Gospel." Also, As-Suddi said that, قَالَ الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ (said those who know not) is in reference to the Arabs who said that Muhammad was not following anything (i. e. did not follow a true or existing religion). Abu Jafar bin Jarir chose the view that; this Ayah is general and that there is no evidence that specifically supports any of these explanations. So interpreting the Ayah in a general way is better. Allah knows best. Allah said, ... فَاللّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُواْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ Allah will judge between them on the Day of Resurrection about that wherein they have been differing. meaning, that Allah will gather them all on the Day of Return. On that Day, Allah will justly judge between them, for He is never unjust with anyone, even as little as the weight of an atom. This Ayah is similar to Allah's statement in Surah Al-Hajj , إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَالَّذِينَ هَادُواْ وَالصَّـبِيِينَ وَالنَّصَـرَى وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُواْ إِنَّ اللَّهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيـمَةِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيدٌ Verily, those who believe (in Allah and in His Messenger Muhammad), and those who are Jews, and the Sabians, and the Christians, and the Majus, and those who associate partners with Allah; truly, Allah will judge between them on the Day of Resurrection. Verily, Allah is over all things a Witness. (22:17) Allah said, قُلْ يَجْمَعُ بَيْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَحُ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ Say: "Our Lord will assemble us all together (on the Day of Resurrection), then He will judge between us with truth. And He is the Just Judge, the Knower of the true state of affairs." (34:26)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

113۔ 1 یہودی تورات پڑھتے ہیں جس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق موجود ہے، لیکن اس کے باوجود یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تکفیر کرتے تھے۔ عیسائیوں کے پاس انجیل موجود ہے جس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور تورات کے مِنْ عِنْد اللہ ہونے کی تصدیق ہے اس کے باوجود یہ یہودیوں کی تکفیر کرتے ہیں، یہ گویا اہل کتاب کے دونوں فرقوں کے کفر وعناد اور اپنے اپنے بارے میں خوش فہمیوں میں مبتلا ہونے کو ظاہر کیا جا رہا ہے۔ 113۔ 2 اہل کتاب کے مقابلے میں عرب کے مشرکین ان پڑھ تھے، اس لئے انہیں بےعلم کہا گیا، لیکن وہ بھی مشرک ہونے کے باوجود یہود اور نصاریٰ کی طرح، اس باطل میں مبتلا تھے کہ وہ یہ حق پر ہیں۔ اسی لئے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صابی یعنی بےدین کہا کرتے تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣١] یہود تورات بھی پڑھتے ہیں اور انجیل بھی، اسی طرح نصاریٰ بھی یہ دونوں کتابیں پڑھتے ہیں۔ تاہم یہودی عیسائیوں کو اس لیے کافر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ایک کے بجائے تین خدا بنا رکھے ہیں اور نصاریٰ یہود کو اس لیے کافر سمجھتے ہیں کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہیں لائے۔ حالانکہ تورات میں ان کی بشارت موجود ہے۔ [١٣٢] ان سے مراد مشرکین عرب ہیں جنہیں امی کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ اگرچہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔ تاہم اپنے آپ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا پیروکار سمجھتے تھے، نماز، روزہ، اپنے دستور کے مطابق بجا لاتے تھے صدقات و خیرات کرتے تھے، حج کرتے تھے، حاجیوں کی خدمت کرتے اور انکے لیے پانی کا بندوبست کرتے تھے۔ یہ لوگ اپنے علاوہ دوسروں کو گمراہ اور بےدین سمجھتے تھے۔ [١٣٣] یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب کو بتلا دے گا کہ دین میں گمراہی کے کون کون سے امور تم نے شامل کر رکھے تھے۔ گو آج بحث اور مناظروں سے کوئی فرقہ بھی اپنی گمراہی تسلیم کرنے کو آمادہ نہیں ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

تورات میں مسیح (علیہ السلام) کی نبوت کا ذکر موجود تھا اور یہودی اسے پڑھتے اور جانتے تھے، اسی طرح انجیل میں موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا ذکر اور تورات پر عمل کا حکم موجود تھا اور نصاریٰ اسے پڑھتے اور جانتے تھے، مگر تعصب اور ضد میں آ کر ہر ایک نے دوسرے کے بارے میں کہا کہ وہ سرے سے کسی بھی چیز پر نہیں۔ افسوس ! مسلمان بھی جب فرقوں میں تقسیم ہوئے تو ہر ایک نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ دوسرے فرقے کی بات قرآن وسنت کے مطابق ہے، اسے غلط اور اپنے فرقے کی بات کو غلط جانتے ہوئے بھی درست قرار دیا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ لَا يَعْلَمُوْنَ : علم سے مراد وحی کا علم ہے اور اس سے مراد مشرکین عرب ہیں جو وحی الٰہی کا کچھ علم نہیں رکھتے تھے، ان کے علاوہ وہ تمام لوگ جو آسمانی ہدایت سے بےبہرہ ہیں، اس میں شامل ہیں، مثلاً دہریے اور بت پرست وغیرہ، ان سب نے بھی یہود و نصاریٰ کی طرح اپنے سوا سب کو سرے ہی سے غلط قرار دیا۔ فرمایا، اب ان کا فیصلہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہی فرمائے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 14 وَقَالَتِ الْيَہُوْدُ لَيْسَتِ النَّصٰرٰى عَلٰي شَيْءٍ۝ ٠ ۠ وَّقَالَتِ النَّصٰرٰى لَيْسَتِ الْيَہُوْدُ عَلٰي شَيْءٍ۝ ٠ ۙ وَّھُمْ يَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِہِمْ۝ ٠ ۚ فَاللہُ يَحْكُمُ بَيْنَھُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ فِيْمَا كَانُوْا فِيْہِ يَخْتَلِفُوْنَ۝ ١١٣ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ هَادَ ( یہودی) فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا [ البقرة/ 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام . الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة/ 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة/ 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔ نَّصَارَى وَالنَّصَارَى قيل : سُمُّوا بذلک لقوله : كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] ، وقیل : سُمُّوا بذلک انتسابا إلى قرية يقال لها : نَصْرَانَةُ ، فيقال : نَصْرَانِيٌّ ، وجمْعُه نَصَارَى، قال : وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاری الآية [ البقرة/ 113] ، ونُصِرَ أرضُ بني فلان . أي : مُطِرَ «1» ، وذلک أنَّ المطَرَ هو نصرةُ الأرضِ ، ونَصَرْتُ فلاناً : أعطیتُه، إمّا مُسْتعارٌ من نَصْرِ الأرض، أو من العَوْن . اور بعض کے نزدیک عیسائیوں کو بھی نصاری اس لئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے نحن انصار اللہ کا نعرہ لگا دیا تھا ۔ چناچہ قران میں ہے : ۔ كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) بن مر یم نے حواریوں سے کہا بھلا کون ہے جو خدا کی طرف بلانے میں میرے مددگار ہوں تو حوراریوں نے کہا ہم خدا کے مددگار ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ نصرانی کی جمع ہے جو نصران ( قریہ کا نام ) کی طرف منسوب ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاریالآية [ البقرة/ 113] یہود کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں ۔ نصر ارض بنی فلان کے معنی بارش بر سنے کے ہیں کیونکہ بارش سے بھی زمین کی مدد ہوتی ہے اور نصرت فلانا جس کے معنی کسی کو کچھ دینے کے ہیں یہ یا تو نصر الارض سے مشتق ہے اور یا نصر بمعنی عون سے ۔ تلو تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے قِيامَةُ والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] ، القیامتہ سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ الاختلافُ والمخالفة والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٣) اب اللہ تعالیٰ یہود و نصاری کا عقیدہ بیان فرماتے ہیں جو یہ لوگ دین کے بارے میں کیا کرتے تھے، چناچہ فرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ کے یہودی اس بات کے قائل تھے کہ نصاری کے پاس اللہ تعالیٰ کے دین میں سے کچھ بھی نہیں ہے اور دین الہی میں سے کچھ نہیں اور دین خداوندی کا انحصار نصرانیت ہی پر ہے دراصل یہ دونوں جماعتیں کتاب خداوندی پڑھتی تھیں مگر اس پر ایمان نہیں لاتے تھے اور کہتے تھے کہ ان کتابوں میں کچھ نہیں، ان ہی جماعتوں کی طرح وہ لوگ دعویدار جنھیں اپنے ” باپ دادا “ سے توحید خداوندی کا علم نہیں۔ اور یہ بھی تفسیر کی گئی ہے کہ وہ اس بات کے مدعی تھے کہ کتاب اللہ ان کے علاوہ ہے اللہ تعالیٰ خودبروز قیامت ان یہود ونصاری کے درمیان جو دین کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں فیصلہ فرمائیں گے۔ شان نزول : (آیت) ” وقالت الیہود “ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) نے سعید (رح) اور عکرمہ (رح) کے حوالہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں اہل نجران کے نصاری (عیسائی) جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کے پاس یہودیوں کے عمل نہیں کرتے، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل کا تم نے انکار کیا ہے اس پر نجران کے لوگوں میں سے ایک شخص نے یہودیوں سے کہا کہ تم دین کی کسی بات پر قائم نہیں ہو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت اور توریت کا تم نے انکار کیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ یہودی اس بات کے مدعی ہیں کہ نصاری کسی چیز پر کار بند نہیں الخ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٣ (وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیْءٍ ) ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ‘ کوئی جڑ بنیاد نہیں ہے۔ (وَّقَالَتِ النَّصٰرٰی لَیْسَتِ الْیَہُوْدُ عَلٰی شَیْءٍ ) ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے ‘ یہ بےبنیاد لوگ ہیں ‘ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ (وَّہُمْ یَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ ط) عہد نامۂ قدیم (Old Testament) یہودیوں اور عیسائیوں میں مشترک ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے اور امریکہ میں جدید عیسائیت کی صورت میں ایک بہت بڑی طاقت جو ابھر رہی ہے وہ عیسائیت کو یہودیت کے رنگ میں رنگ رہی ہے۔ رومن کیتھولک مذہب نے تو بائبل سے اپنارشتہ توڑ لیا تھا اور سارا اختیار پوپ کے ہاتھ میں آگیا تھا ‘ لیکن پروٹسٹنٹس (Protestants) نے پھر بائبل کو قبول کیا۔ اب اس کی منطقی انتہا یہ ہے کہ عہۂ فامہ قدیم پر بھی ان کی توجہ ہو رہی ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ اسے بھی ہم اپنی کتاب مانتے ہیں اور اس میں جو کچھ لکھا ہے اسے ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔ امریکہ میں ہم نے ایک سیمینار منعقد کیا تھا ‘ جس میں ایک یہودی عالم نے کہا تھا کہ اس وقت اسرائیل کو سب سے بڑی نصرت و حمایت امریکہ کے ان عیسائیوں سے مل رہی ہے جو Evengelists کہلاتے ہیں اور وہاں پر ایک بڑا فرقہ بن کر ابھر رہے ہیں۔ بہرحال یہ ان کا طرز عمل بیان ہوا ہے۔ (کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِہِمْ ج) یہاں اشارہ ہے مشرکین مکہ کی طرف ۔ (فَاللّٰہُ یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ اب دیکھئے ‘ اس سلسلۂ کلام کی بقیہ آیات میں بھی اگرچہ خطاب تو بنی اسرائیل ہی سے ہے ‘ لیکن اب یہاں پر اہل مکہ سے کچھ تعریض شروع ہوگئی ہے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ آئے گا ‘ پھر تحویل قبلہ کا ذکر آئے گا۔ بیت اللہ چونکہ اس وقت مشرکین مکہ کے قبضے میں تھا ‘ لہٰذا اس حوالے سے کچھ متعلقہ مضامین آ رہے ہیں اور تحویل قبلہ کی تمہید باندھی جا رہی ہے۔ تحویل قبلہ دراصل اس بات کی علامت تھی کہ اب وہ سابقہ امت مسلمہ معزول کی جا رہی ہے اور اس مقام پر ایک نئی امت ‘ امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تقرریّ عمل میں لائی جا رہی ہے۔ اسی حوالے سے (کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِہِمْ ج) کے الفاظ میں مشرکین مکہ کی طرف اشارہ کیا گیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

113. The reference is to the polytheists of Arabia.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :113 یعنی مشرکینِ عرب ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

نجران ایک جگہ ہے وہاں کے کچھ نصار یٰآنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے ان کے آنے کی خبر سن کر یہود کے کچھ عالم لوگ اس مجلس میں آئے اور دونوں فریق میں کچھ جھگڑا ہو کر ایک نے دوسرے کے دین کو بےبنیاد بتایا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور فرمایا کہ یہ لوگ اہل کتاب ہیں اور ایک فریق کی کتاب میں دوسرے فریق کے دین کی تصدیق موجود ہے پھر بھی عرب کے امی لوگوں کی سی باتیں یہ لوگ اس لئے کرتے ہیں کہ شیطان کے بہکانے سے حق بات کے نہ ماننے میں ان سب کے دل ایک سے ہوگئے ہیں۔ پھر فرمایا کہ حق ناحق کے فیصلہ کے لئے قیامت کا دن مقرر ہے اس دن ان سب کا فیصلہ ہوجائے گا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:113) الیہود اور النصری میں۔ ال عہد کا ہے۔ مراد الیہود سے مدینہ منورہ کے یہودی اور باسی ہیں اور النصری سے مراد عیسائیوں کا ایک وفد جو نجران سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ دوران گفتگو دونوں فریق آپس میں جھگڑنے لگے۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت اور انجیل سے انکار کیا۔ اور عیسائی حضرت موسیٰ کی نبوت اور توراۃ سے منکر ہوئے۔ اور بعض کے نزدیک عامۃ الیہود اور عامۃ النصاری مراد ہیں۔ وہم یتلون الکتب جملہ حالیہ ہے حالانکہ وہ سب الکتاب پڑھتے ہیں۔ یعنی یہودی توراۃ پڑھتے ہیں جو حضرت عیسیٰ اور انجیل کی تصدیق کرتی ہے۔ اور عیسائی انجیل پڑھتے ہیں تو حضرت موسیٰ کی بنوت اور توراۃ کی تصدیق کرتی ہے۔ یتلون۔ مضارع جمع مذکر غائب تلاوۃ (باب نصر) مصدر سے وہ تلاوت کرتے ہیں۔ وہ پڑھتے ہیں کذلک۔ کاف تشبیہ کا ہے۔ ذلک اسم اشارہ بعید بمعنی یہود اور نصاری کا قول ۔ اسی قسم کی بات۔ الذین لایعلمون۔ وہ لوگ جو نہیں جانتے یا جن کے پاس علم نہیں۔ مراد مشرکین عرب اور دیگر بت پرست اور مجوس ہیں اور ان کے علاوہ جو فرقے کفار کے گزرے ہیں۔ کیونکہ ہر فرقہ دوسرے کی تکذیب کرتا رہا ہے۔ مثل قولہم۔ بیان ہے ذلک کا بمعنی مثل قول الیہود للنصاری وقول النصاری للیہود مطلب یہ ہوا کہ ایسی قسم کی باتیں وہ لوگ کہتے ہیں جو کچھ نہیں جانتے۔ خواہ مشرکین عرب ہوں کہ مسلمانوں کے متعلق کہتے تھے کہ مسلمان راہ حق پر نہیں۔ خواہ مشرکین قریش ہوں کہ وہ کہتے تھے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اصحاب راہ حق پر نہیں۔ یا اس سے مراد پچھلی قوموں کے لوگ ہیں جو اپنے نبیوں کے متعلق کہتے تھے کہ یہ راہ حق پر نہیں اور اپنے آباء و اجداد کے نقش قدم پر چلنے پر مصر تھے۔ یحکم۔ مضارع واحد مذکر غائب ۔ حکم (باب نصر) مصدر۔ وہ فیصلہ کر دے گا۔ وہ حکم دیگا یا حکم دیتا ہے۔ یوم القیمہ۔ مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول فیہ ہے فعل یحکم کا۔ فیما۔ میں ما موصولہ ہے کانوا فیہ یختلفون۔ صلہ ہے۔ سو اللہ فیصلہ کردے گا ان میں قیامت کے روز (اس بات کا) جس میں یہ جھگڑتے رہتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ وفد نجران کی آمد پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں چند یہودی علماء بھی جمع ہوگئے اور ان کا آپس میں جھگڑا شروع ہوگیا ہر ایک گروہ نے دوسرے کی کتاب اور نبی کی تکذیب کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ان کا باہم تعصب اور عناد اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ ایک دوسرے پر کفر کا فتوی لگاتے ہیں حالانکہ یہ تعلیم یافتہ ہیں ہر فرقے کی کتاب میں دوسرے کی تصدیق موجود ہے۔ (ابن کثیر) نہا یت افسوس ہے آجکل امت محمدی میں گروہ بندی کا یہ عالم ہے کہ سب قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر کفر کا فتوی لگاتے ہیں۔ (رازی ) 1 یعنی عرب کے کافر جو اپنے دین کے سوا جملہ ادیان کو باطل سمجھتے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بےدین اور صابی کہتے اہل کتاب کے جہلاء بھی مراد ہوسکتے ہیں اور یہود و نصاری کے علماء پر بھی طنز ہوسکتا ہے کہ یہ جاہلوں جیسی باتیں کرتے ہیں۔ ( معالم۔ وحیدی بتصرف)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 113 121 اسرارو معارف اب ان کا حال دیکھئے کہ یہود کہتے ہیں کہ نصاریٰ کا مذہب کوئی بنیاد ہی نہیں رکھتا انجیل کے کتاب اللہ ہونے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے نبی ہونے کا انکار کرتے ہیں۔ ان کا دیکھا دیکھی نصاریٰ نے دین موسوی اور تورات کا انکار کردیا اور لگے کہنے یہ بےبنیاد نظریات ہیں حالانکہ دونوں اہل کتاب ہیں اور آسمانی کتب بنیادی عقائد کی یکساں تبلیغ کرتی ہیں اور توحید و رسالت ، آخرت حشر ونشر کے حقائق ایک سے بیان کرتی اور ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہیں تو اس طرح ان دونوں گروہوں نے گویا خود اپنی کتاب کا بھی انکار کردیا۔ اور انہی کی طرح جہلاء اور مشرکین کو بھی کتب الٰہیہ کے انکار کا موقع مل گیا اور انہوں نے دونوں کا انکار کردیا۔ اپنی بڑ ہانکنے لگے کہ جی اصل مذہب تو یہی بت پرستی ہے۔ بعثت خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عقلی اور نقلی دلائل سے تو ہر طرح حق و باطل میں تمیز کردی ہے اور اس کے بعد نہ کوئی نیا نبی آئے گا اور نہ نئی کتاب۔ اب تو ایک ہی بات ہے کہ روز قیامت اللہ جل شانہ عملاً ان کے درمیان فیصلہ فرمادیں گے اور ان کے اختلافات حل ہوجائیں گے دنیا میں یہ حق پرستی کے جھوٹے مدعی یہ تک نہیں سوچتے کہ انہوں نے اللہ کے گھروں کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ومن اظلم ممن منع مسجد اللہ………………ان اللہ واسع علیم۔ ان سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا کہ بت پرستوں نے خودنبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بیت اللہ کا داخلہ روک دیا۔ جب تک ان کا بس چلا وہ رکاوٹ بنے رہے ان یہود ونصاریٰ کے اسلاف کو دیکھو جس کو دوسری پر دائو چلا ، چڑھ دوڑا اور معبدو مساجد حتیٰ کہ بیت المقدس تک کو برباد کرنے اور اس کی توہین کرنے سے باز نہ رہے اور اب جبکہ اسلام دین حق ہے نہ صرف مساجد ان کے سجدوں سے خالی ہیں بلکہ یہ طرح طرح کے اعتراضات اور بےجا شبہات پیدا کرکے ان کو بھی راہ سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں جو مسجدوں کی آبادی کا سبب بنے ہوئے ہیں اور مساجد کی عظمت خود اس بات کی مقتضی ہے کہ جو شخص ان میں داخل ہو وہ اپنے آپ کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر جانے اور اس عظمت پر ہیبت الٰہیہ طاری ہو۔ وہ لرزاں وترساں ادب واحترام سے حاضر ہو۔ جہاں تک مساجد کے ادب کا تعلق ہے تو دنیا کی تمام مساجد اس لحاظ سے مساوی ہیں اور کسی بھی مسجد کی بےحرمتی ایسا ہی ظلم ہے ، جیسے بیت اللہ یا مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا بیت المقدس کی اگرچہ ان تینوں مساجد کی عظمت اور خاص بزرگی اپنی جگہ مسلم۔ بیت اللہ میں ایک نماز ایک لاکھ نماز کا ثواب پاتی ہے اور مسجد نبوی اور بیت المقدس میں پچاس ہزار کا۔ نیز مسجد کی ویرانی کے یا وہاں پر نماز وذکر سے روکنے کے جتنے بھی طریقے ہیں سب ناجائز اور حرام ہیں جن میں سے کسی کو منع کرنا تو ایک ظاہر بات ہے۔ کبھی وہاں شور وغل کرکے یا پڑوس میں زور زور سے ریڈیو بجا کر لوگوں کی نمازوں میں خلل ڈالنا بلکہ اوقات نماز میں یا جب لوگ نوافل یا ذکر وغیرہ میں لگے ہوں تو بلند آواز میں تلاوت کرنا یا ذکر جہر بھی ممنوع ہے ہاں اگر عام نمازی نہ ہوں تو اور بات ہے۔ اسی طرح مسجد کی ویرانی کی جس قدر صورتیں ہیں سب ممنوع ہے صرف یہ کہ انہیں ڈھایا نہ جائے بلکہ کوئی ایسی صورت یا ایسا جھگڑا جو نمازیوں کو وہاں آنے سے روک دے یہی حکم رکھے گا نیز ان لوگوں کے لئے یہاں بہت بڑی تنبیہہ ہے جنہوں نے مساجد میں حاضری ہی چھوڑ دی ہے اگرچہ دوسرے لوگوں کو روک نہ رہے ہوں تو بھی خود حاضر نہ ہونا ویرانی ہی کا سبب ہے اور اللہ نے یہاں کفار کے اس دعویٰ کا جواب دیا ہے وہ اپنے جنتی ہونے پر قائم کرتے تھے کہ تمہیں مساجد میں تو قدم رکھنے نہیں دیتا جنت میں ضرور تمہاری ہی دعوت کا منتظر ہوگا ؟ یہاں حال یہ ہے کہ کسی سے نما زکا کہو تو کہتا ہے جی ! اللہ اپنے فضل سے ہی بخشے گا ہم نے نمازی بھی دیکھ رکھے ہیں ، بھئی ! نمازی اور بےنمازی میں ایک فرق تو ظاہر ہے کہ وہ پانچ وقت اللہ کی بارگاہ میں سر بسجود ہوتا ہے اور دوسرے کو اللہ اپنے در پر نہیں آنے دیتا تو یہی اللہ کا فضل ہے کہ جب کسی پر مہربان ہوتا ہے تو توفیق اطاعت ارزاں فرما دیتا ہے ورنہ نافرمان ایک تو خود اطاعت نہ کرکے ظلم کررہا ہے دوسرے وہ کسی نہ کسی درجے میں مساجد کی ویرانی کا سبب بھی بن رہا ہے ایسے لوگوں کے لئے دنیا میں ذلت ورسوائی اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے دنیا میں اگر اسے مال و دولت یا اولاد ملی بھی تو اس کی پریشانیاں بڑھائے گی اور اس کے لئے یہ بھی مصیبت بن کر رہے گی اور نہ ملی بھی تو اس طرح اخروی عذاب میں گرفتار ہوگا۔ وللہ المشرق…………واللہ واسع علیم۔ یہ جو انہیں بات مل گئی ہے کہ جی پہلے تو مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے اور کعبے کی طرف کیوں پھرگئے کہ ابتدائً قبلہ بیت المقدس ہی تھا تقریباً سولہ ماہ مدنی زندگی میں ایسا ہی رہا حتیٰ کہ اللہ نے استقبال کعبہ کا حکم نازل فرمایا تو یہودونصاریٰ نے اس بات کو بہت ہوا دی کہ جی اگر نبی ہوتے تو شروع سے ایک قبلہ کیوں نہ مقرر کرلیتے۔ اب ان کی وہ نمازیں کیا ہوئیں ، جو بیت المقدس کو رخ کرکے ادا کیں۔ تو اللہ نے فرمایا یہ تو کمال اطاعت ہے کہ مسلمان نہ تو بیت المقدس کے پجاری ہیں نہ کعبہ کے۔ بلکہ یہ تو اللہ کی اطاعت گزار ہیں۔ بیت المقدس قبلہ مقرر فرمایا تو ادھر سجدہ ریز ، اور کعبۃ اللہ کی طرف حکم دیا تو ادھر حاضر۔ اور خود اللہ تعالیٰ نے تمام سمتوں کو محیط ہے وہ کسی خاص سمت یا مکان میں مقید نہیں بلکہ ہر سمت اور ہر مقام پر اس کا ظہور یکساں ہے۔ اور ہر جگہ موجود۔ ہاں وہ علیم ہے اور کئی حکمتوں کی وجہ سے کسی خاص سمت کی تعیین کی جاتی ہے مثلاً ایک سمت کی تعیین نے پورے عالم اسلام میں ایک گونہ تنظیم پیدا فرمادی۔ برخلاف اس کے کہ ایک جگہ چند نمازی جمع ہوتے تو ہر ایک کا منہ دوسری طرف ہوتا اور ایک افتراق کی شکل سامنے آتی اور اسی طرح کی اور بیشمار حکمتیں جنہیں اللہ بہتر جانتا ہے ورنہ تو اگر نمازی کی سمت معلوم نہ ہو اور تاریکی وغیرہ سے سمجھ نہ آتی ہو کوئی بتلانے والا بھی نہ ہو تو اپنے اندازے سے نماز پڑھ لے وہی سمت قبلہ ہوگی خواہ بعد میں پتہ بھی چل جئاے کہ غلط سمت کو پڑھ لی پھر بھی نماز ادا ہوجائے گی۔ اعادہ کی ضرورت نہیں اسی طرح فقہ میں جزئیات دیکھی جاسکتی ہیں جن سے استقبال قبلہ کے حکم شرعی کی حقیقت مزید واضح ہوجاتی ہے۔ وقالوا ات خدا للہ ولدا………………کن فیکون۔ ذرا ان کی دیانتداری ملاحظہ ہو کہ جن کتابوں کو یہ مانتے ہیں ان پر کس طرح اپنے ایجاد کردہ عقائد مسلط کر رکھے ہیں جیسے ہر کتاب نے تنزیہ باری بیان کیا ہے مگر یہ دونوں گروہ مدعی ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے یہود نے کہا عزیر ابن اللہ اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دیا حالانکہ اللہ تمام احتیاجات سے بالاتر ہے اور کوئی اس کا کسی طرح ہمسر نہیں جبکہ صاحب اولاد خود بہت سی احتیاجات میں مبتلا ہوتا ہے اور اولاد ایک ایسا سلسلہ ہے جو بیشمار قسم کے افکار میں جکڑا لیتا ہے جس کے لئے بیوی کی ضرورت ، رشتہ داروں کی ضرورت ، خانہ داری کی محتاجی اور خود بقائے نسل کی احتیاج موجود ہے حالانکہ اس کی ذات ان سے بالا تر ہے۔ پھر اولاد والد کے اوصاف لے کر آتی ہے انسان کا بچہ انسان اور حیوان کا بچہ حیوان بلکہ بھینس کا بچہ گائے نہیں ہوگا۔ اور نہ گائے بھینس جنے گی حتیٰ کہ درخت کا ننھا پودا اپنی قسم کے بڑے درخت کی خصوصیات ، پتے ، رنگ اور ذائقہ وغیرہ رکھتا ہوگا تو لا محالہ اگر اللہ کی اولاد ہوتی تو خدائی اوصاف رکھتی۔ پھر وہ پاک اور لاشریک نہ رہتا۔ یہ تو کئی خدا بن جاتے۔ چھوٹے سہی اختیارات میں کم سہی مگر ہوتے تو خدا ہی۔ حالانکہ ان کی کتابوں نے بھی اس کی تقدیس بیان کی ہے بلکہ جملہ کتب نے اعلان کیا ہے کہ اس کی ذات کے سوا جو کچھ ہے وہ اسی کی ملکیت ہے اور سب کچھ اور ہر کوئی اور ہر شے اس کے آگے دست بستہ حاضر ہے کسی کو رکھے یا مٹادے کسی میں مجال دم زون نہیں ہر شے اس نے نئے سرے سے پیدا کی ہے۔ وہ تھا ، اور کچھ نہیں تھا۔ ارض وسماء اس نے پیدا فرمائے۔ اس کی قدرت کامل اس کا اختیار غیر محدود ۔ اور اس کا حکم سب پر جاری ہے۔ اس کی ذات قدیم ، ازل اور ابدی ہے اسی طرح اس کی صفات قدیم ، ازلی اور ابدی ہیں اس کا علم جامع حضوری ہے اور زمانوں کی قید سے بالاتر۔ ماضی ہو یا مستقبل اس کے سامنے سب حاضر بلکہ وہ ایسا قادر ہے جب کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو وہ اسی کام کو کہتا ہے ہوجا ! اور وہ ہوجاتا ہے یعنی سب کچھ اس کے سامنے اس کے علم میں موجود اور حاضر ہے جو ہوچکا ہے جو ہورہا ہے جو ہونے والا ہے مخلوق کے لئے غیر موجود ہے مگر اس کے سامنے حاضر۔ وہ اسی کو حکم دیتا ہے کہ ” ہوجا “ اور وہ ہوجاتا ہے۔ عقیدہ بداء کی تردید : یہاں عقیدہ بداء کی تردید ہوتی ہے کہ جن لوگوں نے خدا کی طرف ایسا بہتان منسوب کیا وہ ان متذکرہ فرقوں سے کسی طرح کم نہ رہے اور انہوں نے یہ جانا کہ معاذ اللہ ، اللہ کا حکم نامکمل ہے جب کچھ ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ سامنے ہوتا ہے تب اللہ کو پتہ چلتا ہے کہ کیا ہوگیا۔ تو کیا کسی ایسی ہستی کو احتیاج سے پاک کہا جاسکتا ہے جو کرنا تو درکنار ، جاننے میں بھی محتاج ہو۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ یہ اس قدر گمراہی صرف اس لئے اپنانا پڑی کہ اس کے بغیر عظمت صحابہ (رض) کو تسلیم نہ کرنے کی کوئی راہ نہ تھی۔ تورات وانجیل میں ان کی تعریف کی گئی پھر مسلسل تئیس برس قرآن کریم نازل ہوتا رہا جس نے ہر پہلو سے ان کو مثال بندے قرار دیا اور رضائے الٰہی کے مظہر اور واجب الاتباع بتایا تو یار لوگوں کو ان چیزوں سے انکار کرنے کے لئے عقیدہ بداء کی ضرورت پڑی کہ پہلے تو ایسے ہی تھے مگر جب حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفر آخرت فرمایا تو یہ بدل گئے اب وحی تو باقی نہیں اور اللہ کو بداء ہوگیا تھا ان کے اس وقت کے احوال سے آہ بیچارہ اللہ۔ ایسے بےبس اور مجبور کو اللہ بنانے کی کیا ضرورت ؟ تو یہ سب کیا ہے اقرار کے پردے میں کتاب اللہ کا انکار ہے ورنہ ان کی پہلی کتابوں نے اللہ کے محتاج ہونے کا انکار کیا ہے جو بنیاد ہے ایمان کی ، اس کے ساتھ ذرا ان کا سلوک دیکھئے یہ حال تو اہل کتاب کا ہے۔ رہے جہلا تو وہ ان سے بھی آگے نکل گئے۔ وقال الذین لا یعلمون………………لقوم یوقنون۔ وہ یوں کہتے ہیں کہ اللہ ہم سے بات کیوں نہیں کرتا یا ہم پر کوئی نشانی اور دلیل نازل کیوں نہیں فرماتا۔ یہ جاہل اتنا نہیں جانتے کہ اگر دنیا میں سب انسانوں کو مکالمہ باری نصیب ہو تو میاں ! امتحان کیسا ؟ اور کہاں کا ابتلاء پھر سب اسی کے ہو رہیں اور کوئی اسکے در سے اٹھے ہی نہیں۔ دنیا میں یہ دولت صرف انبیاء کو نصیب ہوتی ہے اور وہبی طور پر ملتی ہے کہ کوئی انسان عبادت و ریاضت سے اس درجہ کو پا ہی نہیں سکتا۔ اور آخرت میں جس قدر انعامات اور نعمتیں رکھی ہیں ان سب سے اعلیٰ دیدار باری اور کلام باری ہی تو ہے۔ ارے بےوقوفو ! جنت تو جنت ہے میدان حشر میں عظمت باری دیکھ کر ہر کافر پکار اٹھے گا۔ اے اللہ ! ایک بار زندگی دنیا کو لوٹا دے اور پھر دیکھنا ہم کس قدر اطاعت کرتے ہیں۔ اگر یہ سب چیزیں ہر ایک پہ اب یہیں ظاہر ہوجائے تو پھر امتحان اور آزمائش چہ معنی دارد ، یہ اپنے کو انبیاء کا ہم پلہ جانتے ہیں ایسے ہی جاہلانہ اقوال ان سے پہلے کفار بھی کہا کرتے تھے اور عجب بات ہے کہ آج بھی جن اعتراضات کو جدید سمجھ کر پیش کیا جاتا ہے ان کی چھان پھٹک کی جائے تو بات وہی ملتی ہے جو صدیوں سے کفار دہراتے چلے آرہے ہیں ان کی وجہ تشابھت قلوبھم ہے ان کے دلوں نے کفر اور بدکاری کی وجہ سے پہلے کافروں سے مشابہت پیدا کرلی ہے اسی لئے انہی جیسی باتیں بھی ان کے دلوں سے نکلتی ہیں۔ جب کوئی بدی کی راہ اپناتا ہے تو اسے شیطان سے ایک تعلق پیدا ہوتا ہے۔ نسبت کے کرشمے : پھر اس کو جوں جوں بڑھاتا ہے تو نوبت کفر تک پہنچتی ہے پھر کفر کے مدارج ہیں تو جس طرح کی نسبت کفر یہ پاتا ہے اس طرح کا جو کافر پہلے گزرا ہے اس جیسی باتیں دہراتا ہے اور ایک راہ یہ بھی ہے کہ جس طرح ہر مبارک کلمہ پر ایک خاص برکت اور رحمت متوجہ ہوتی ہے اسی طرح بڑے کافروں کے کفر یہ الفاظ پر ایک خاص درجہ کا غضب بھی بھڑکتا ہے تو شیطان کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کفار کے منہ سے وہ الفاظ کہلوائے جو بڑے بڑے کافروں نے کہے تھے تاکہ اس درجہ کے غضب الٰہی کا شکار ہوں۔ اسی طرح جو شخص نیکی کی طرف گامزن ہوتا ہے اسے نیک لوگوں سے ایک خصوصی تعلق نصیب ہوتا ہے جس کے درجے بھی مختلف ہیں فنانی الشیخ ، فنانی الرسول اور فنانی اللہ اسی راہ کی منازل میں جنہیں تمافی الرسول نصیب ہوتا ہے ان کے قلب کا ایک ربط اللہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پیدا ہوجاتا ہے اور ان کے منہ سے وہ باتیں جاری ہوتی ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمائی تھیں۔ وہ مولانا ظفر علی خاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس شعر کا مصداق بنتے ہیں۔ انہی کا مطلب کی کہہ رہا ہوں زباں میری ہے بات ان کی انہی کی محفل سنوارتا ہوں چراغ میرا ہے رات ان کی میرا فقط ہاتھ چل رہا ہے انہی کا مطلب نکل رہا ہے انہی کا مضمون ، انہی کا کا غد ، قلم انہی کا ، دوات ان کی یہ اس لئے کہ تشابھت قلوبھم ان کے دل مشابہت پیدا کرلیتے ہیں۔ کفار کے اعتراضات اس وجہ سے نہیں کہ حق بیان کرنے میں کوئی کسر ہے بلکہ اس کی وجہ پہلے کفار سے ان کی باطنی نسبت ہے ورنہ تو ہم نے قدبین الایات ظاہر و باہر دلائل ارشاد فرمائے ہیں اور رسالت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حقانیت کتاب اللہ پر نہایت واضح دلیلیں موجود ہیں۔ مگر یہ ان لوگوں کو مفید ہے جو یقین و اطمینان کے طالب ہیں۔ معترضین کو کیا حاصل کچھ حاصل کرنے کے لئے طالب ہونا ضروری۔ اعتراضات سے فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ انا ارسلنک بالحق……………اصحب الجحیم۔ ہم نے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق وصداقت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اور احقاق حق کے واضح دلائل قائم فرمادیئے ہیں۔ اہل کتاب کے لئے پہلے سے ان کی کتب میں اور مشرکین کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت ، آپ کی صورت ، آپ کے معجزات ، آپ کی تعلیمات اور آپ کی پیشگوئیاں یہ سب اہل یقین کے لئے مشعل راہ ہیں۔ اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام ماننے والوں کو بشارت و خوشخبری دینا اور منکرین ومعاندین کو انکار کے وبال سے آگاہ کرنا اور اس راہ کے خطرناک انجام یعنی دوزخ سے ڈرانا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی اس راہ پر چلتا ہے تو آپ کیوں ملول خاطر ہوتے ہیں۔ سبحان اللہ ! کیا کرم ہے اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کافر کی ذات سے متنفر ہونے کی بجائے اسے مبتلائے کفر دیکھ کر اس کا دکھ محسوس فرماتا ہے کہ آخر اللہ کا بندہ تو ہے بےچارہ بھٹک گیا ہے اور ہمیشہ دوزخ میں جلے گا تو مومنین کے ساتھ کس قدر شفیق ہوگا اللہ ! اللہ ! فرمایا آپ کوئی اہل دوزخ کے متعلق جوابدہ تھوڑے ہی ہیں۔ اگر کوئی اپنی مرضی سے وہ راہ اختیار کرتا ہے تو کرکے دیکھ لے۔ ولن ترضی………………ولا نصیر۔ کفار کے ساتھ مراسم : رہے یہودونصاریٰ اور ان کے ساتھ اتفاق و اتحاد ، تو یہ لوگ تب تک راضی نہ ہوں گے جب تک آپ ان کے دین اور ان کی رسومات کے تابع نہ ہوجائیں جو محال ہے تو پھر ان کا خوش رہنا بھی محال ہے یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ جن لوگوں کے گہرے مراسم گمراہ فرقوں سے استوار ہیں۔ ان میں بھی کسی نہ کسی درجہ میں وہ گمراہی موجود ہے ورنہ حق اور باطل کا یکجا ہونا ممکن نہیں ، ہاں دنیا کے امور میں مثلاً تجارت ، ملازمت یا اس طرح کی باتیں یہ تو ہوسکتی ہیں مگر ایک دوسرے کی دعوتوں میں شرکت ، آپس میں دلی محبت تب ہی ہوگی جب کوئی وصف مشترک ہوگا۔ تو سیدھی بات تو یہ ہے کہ اگر ان کی طرف سے کوئی ارادہ کسی طرح ظاہر بھی ہو تو کہہ دیا جائے کہ صحیح اور درست راہ وہ ہے جو اللہ نے ارشاد فرمائی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اے مخاطب ! اگر تو علم قطعی اور وحی آجانے کے بعد بھی ان کے خرافات کو اپنائے تو پھر تجھے کوئی دوست یا مددگار اللہ کے سامنے نہیں ملے گا نیز اس کے مقابلے میں کسی کی بات کو کوئی وقعت نہ دی جائے۔ یہ تو اس حکم کی عظمت کا اظہار ہے کہ جب خطاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تو اس کا سرزد ہونا محال اور اس پر غضب کا وارد ہونا کیا۔ مگر یوں سمجھ لو کہ جب دنیا میں کوئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسا نہیں تو پھر جو کوئی بھی کفار سے دوستی کی خاطر ان کی رسوم کو اپنائے گا اور ان کے کفر کی ترویج کے لئے چندے دے کر انہیں خوش کرے گا پھر اللہ کی گرفت کے وقت انہیں پکار کر دیکھ لے گا کہ کس قدر کام آتے ہیں یاد رہے یہ ذاتی تعلقات کی بات ہورہی ہے حکومت کی نہیں۔ حاکم پر بحیثیت رعایا ہونے کے سب کے حقوق ہوتے ہیں اسے کفار کے حقوق کی نگہداشت کرنی چاہیے۔ الذین اتینھم الکتاب………………ھم الخسرون۔ ہاں ان میں جو لوگ اس کتاب کو جو انہیں عطا ہوئی اس طرح پڑھتے ہیں کہ بجائے اس میں ترامیم کرنے کے اس سے راہنمائی حاصل کریں۔ حق تلاوۃ یعنی فہم سلیم سے حق و انصاف سے یہ تلاش کرتے ہیں کہ اللہ کی کتاب ہمیں کن امور سے منع فرماتی ہے اور کن امور کو اختیار کرنے کا حکم دیتی ہے تو ان کو ہدایت بھی نصیب ہوجاتی ہے اور وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور اللہ کی آخری کتاب پر بھی ایمان لے آتے ہیں۔ تلاوت کتاب کا طریقہ بھی یہ ہے کہ برکت حاصل کرنے اور دل کو منور کرنے کے لئے اس کے معانی پر غور کرے اور دل وجان سے اس کے احکام اپنائے۔ اگر محض اعتراضات کے لئے اور کج بحثی کے لئے پڑھتا بھی رہے تو کیا ہوگا انکار کردے گا۔ اور اس پر یقین نہ رکھے گا۔ تو ایسا کرنے والا کسی کا کچھ نہ بگاڑے گا بلکہ اپنی تباہی کا سبب بنے گا۔ اور خود کو ایمان کے اعلیٰ انعامات سے محروم کرکے ابدی نقصان میں مبتلا ہوگا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 113 تا 117 قالت (کہا) ۔ علی شیء (کسی حقیقت پر، کسی بنیاد پر) ۔ یتلون (وہ پڑھتے ہیں) ۔ یحکم (فیصلہ کرے گا) ۔ بینھم (ان کے درمیان) ۔ تختلفون (وہ اختلاف کرتے ہیں ) ۔ اظلم (زیادہ ظلم) ۔ منع (روک دیا) ۔ ان یذکر (یہ کہ یاد کیا جائے) ۔ سعی (و ہ کوشش کرتا ہے۔ اس نے کوشش کی) ۔ خراب (بربادی، خرابی) ۔ خائفین (ڈرنے والے) ۔ خذی (رسوائی) اینما (جس طرف) ۔ وجہ اللہ (اللہ کا چہرہ، یعنی اللہ کی ذات موجود ہے) ۔ ولد (بیٹا) ۔ سبحانہ (اس کی ذات پاک اور بےعیب ہے) ۔ قانتون (فرماں بردار، جھکنے والے) ۔ بدیع (پیدا کرنے والا) ۔ قضی (اس نے فیصلہ کرلیا) ۔ کن (ہوجا) ۔ یکون (وہ ہوجاتا ہے) ۔ تشریح : آیت نمبر 113 تا 117 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کرنے اور بعض مسائل پر بحث کرنے کے لئے آیا اس موقع پر اتفاقاً کچھ یہودی علماء بھی آگئے ۔ عیسائیوں اور یہودیوں میں باہمی گفتگو شروع ہوئی بات کچھ اتنی آگے بڑھ گئی کہ گفتگو نے مناظرے کی شکل اختیار کرلی، رافع ابن حرملہ یہودی نے کہا اے نصاریٰ تمہارے دین کا کوئی اعتبار نہیں اور نہ کوئی بنیاد ہے۔ اس پر عیسائی بھڑک اٹھے کہنے لگے اے یہود تم کس حقیقت پر ہو تمہارا تو کوئی دین ہی نہیں ہے۔ یہ مناظرہ اس حد تک آگے بڑھ گیا کہ ایک نے دوسرے کی جی بھر کر توہین و تذلیل کی، اور ایک دوسرے کو کافر ٹھہرانے لگے۔ ان آیات میں اسی مناظرہ کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ جب تو ریت میں حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کے آنے کی خوشخبری اور ان کی رسالت و نبوت کا ذکر موجود ہے، توریت پر ایمان رکھنے والے یہودیوں کو اس کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کریں۔ اسی طرح انجیل میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کی بیشمار شہادتیں موجود ہیں ۔ نصاریٰ کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا انکار زیب نہیں دیتا۔ جس طرح یہودی اور عیسائی ایک دوسرے کو کافر اور بےدین قرار دے رہے تھے ان کے دیکھا دیکھی عرب کے وہ مشرکین جو بالکل جاہل اور اللہ کی کتاب سے ناواقف تھے انہوں نے یہودی اور عیسائی دونوں کے متعلق یہ کہہ دیا کہ دونوں بےدین ہیں اور ان کے مذہب کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس دنیا میں جو یہ ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں اس کا فیصلہ تو قیامت کے دن اللہ ہی کرے گا لیکن ان سب کے ہاتھوں جس طرح اللہ کی مسجدوں کی بےحرمتی اور بےعزتی ہو رہی ہے وہ ان کے جرائم کی منہ بولتی تصویر ہے اس کا فیصلہ تو انہیں خود ہی کرلینا چاہئے ! چناچہ روم کے عیسائیوں نے یہودیوں سے انتقام لینے کے لئے فلسطین پر حملہ کیا، بیت المقدس کی حرمت کا خیال کئے بغیر اس کو کھنڈر اور ویرانہ بنا دینے میں کوئی کسراٹھا نہ رکھی ، تو ریت کو جلایا گیا، وہاں کے لوگوں کی بےعزتی کی گئی، اسی طرح یہودیوں نے عیسائیوں کی عبادت گاہوں کی کئی مرتبہ بےحرمتی کی کوشش کی، یہ وہ جرائم ہیں جن کو تاریخ کے صفحات سے مٹایا نہیں جاسکتا، اسی روش پر چلتے ہوئے محض ، بغض وعناد اور تعصب کی وجہ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو حدیبیہ کے مقام پر بیت اللہ کی زیارت و عبادت سے روکا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ تو اللہ کا گھر ہے جس کے ادب و احترام کا تقاضا یہ تھا کہ اس میں لرزتے کانپتے داخل ہوتے مگر بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، ان سے بڑھ کر اور کون ظالم ہو سکتا ہے ؟ دوسرا ظلم یہ ہے کہ انہوں نے ایک اللہ کو چھوڑ کر کتنے معبود بنا رکھے ہیں، یہودیوں نے حضرت عزیرعلیہ السلام کو عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بنا دیا ہے جبکہ اللہ اور اس کی شان اس سے بلندو برتر ہے ، جب ساری کائنات اسی کی ملک ہے۔ مشرق و مغرب کا وہی مالک ہے جس کام کو ہونے کے لئے کہتا ہے وہ وہ جاتا ہے ساری دنیا اس کی محتاج ہے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے پھر اس کو آخر بیٹا بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ عملی فیصلہ یہ کہ اہل حق کو جنت میں اور اہل باطل کو دوزخ میں بھیج دیں گے اور یہ قید اس لیے لگائی کہ قولی اور برہانی فیصلہ تو حق و باطل کے درمیان دلائل نقلیہ وعقلیہ سے دنیا میں بھی ہوچکا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب مسلمانوں کے خلاف شروع سے ہی متحد ہیں حالانکہ ان کی باہمی منافرت اور فرقہ واریت کا عالم یہ ہے کہ ایک دوسرے کو کافر گردانتے ہیں۔ مسلمانوں کے مقابلے میں یہود و نصاریٰ اکٹھے ہو کر کہا کرتے تھے کہ ہماری جماعتوں کے علاوہ کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہو پائے گا۔ حالانکہ مسلمانوں کے خلاف اتحاد کے باوجود ان کی باہمی منافرت اور فرقہ وارانہ کشیدگی کا عالم یہ تھا کہ وہ آپس کے جنگ وجدال میں اس حد تک آگے بڑھ چکے تھے کہ یہودیوں نے انجیل کے بارے میں کہا یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہی نہیں ہوئی۔ پھر تعصب میں اس قدر اندھے ہوئے کہ جناب عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ ماجدہ پر رقیق حملے کیے۔ عیسائیوں نے دو ہاتھ آگے بڑھتے ہوئے نہ صرف تورات کا منزل من اللہ ہونے کا انکار کیا بلکہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ کی ذات گرامی پر بھی تہمتیں لگائیں۔ ان کی دیکھا دیکھی مشرکین بھی کہنے لگے کہ جب تک یہ لوگ ہمارے معبودوں کو مشکل کشا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں انہیں وسیلہ قرار نہیں دیں گے اس وقت تک ان کی نجات مشکل ہوگی۔ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ یہ تو اللہ ہی فیصلہ کرے گا کہ کس کے پلے میں کیا ہے ؟ اور حق و باطل کے حوالے سے کوئی کس مقام پر کھڑا تھا ؟ اس فرمان میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امّتِ محمدیہ کے خلاف ابتداء ہی سے کفر کے حامی یکجا رہے ہیں۔ تفسیر ابن کثیر میں عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے : ” جب نجران کے عیسائی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تو ان کے پاس یہودیوں کے علماء بھی آئے اور انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جھگڑا کیا۔ رافع بن حریملہ نے کہا : تم کسی دین پر نہیں ہو اور ساتھ ہی عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل کے ساتھ کفر کردیا اور اہل نجران کے عیسائیوں میں سے ایک شخص نے یہودیوں کو کہا : تم کسی دین پر نہیں اور اس کے ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) اور تورات کے ساتھ کفر کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہی باتوں کے متعلق فرمایا اور یہ آیت نازل فرمائی کہ ( یہود کہتے ہیں کہ نصاریٰ حق پر نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودی حق پر نہیں حالانکہ یہ لوگ تورات پڑھتے ہیں) ۔ “ عیسائیوں اور یہودیوں کی باہم ہرزہ سرائی یہودیوں اور عیسائیوں کی دشمنی ہزاروں سال پرانی ہے۔ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دور سے شروع ہوئی تھی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے تقریباً سو سال پہلے شدو مد سے جاری تھی عیسائیوں کے نزدیک یہودیوں کے درج ذیل بڑے بڑے یہ جرائم تھے اور جن کی بنیاد پر یہودی قابل گردن زدنی سمجھے جاتے تھے۔ ١۔ یہودی حضرت مریم [ پر (نعوذ باللہ) بدکاری کا الزام لگاتے ہیں۔ ٢۔ یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو تختۂ دار پر لٹکانے کا دعو ٰی کرتے ہیں۔ ٣۔ یہودی عیسیٰ (علیہ السلام) کو (نعوذ باللہ) (خاکم بدہن) ناجائز بچہ قرار دیتے ہیں۔ ٤۔ قرب قیامت یہودی عیسیٰ (علیہ السلام) کی آمد کو (نعوذ باللہ) دجال کی آمد تصور کرتے ہیں۔ ٥۔ یہودی عیسائیت کا انکار کرتے ہیں۔ ٦۔ عیسائیوں کے خیال کے مطابق یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قاتل ہیں۔ چنانچہ انہی جرائم کی بنیاد پر عیسائیوں کے نزدیک یہودی قوم انتہائی قابل نفرت قوم رہی ہے۔ عیسائی انہیں روئے زمین پر سب سے شریر اور خبیث مخلوق قرار دیتے تھے اور جہاں پاتے تھے قتل کردیتے تھے۔ حال یہ تھا کہ ابتدائی دور میں جب یورپ میں طاعون (یا کالی وبا) پھیلی جس کے باعث لاتعداد ہلاکتیں ہوئیں تو عیسائیوں نے اس کا سبب یہودیوں کو ٹھہرایا حالانکہ خود عیسائی بھی اس مرض میں ہلاک ہو رہے تھے۔ یہودیوں کی جلاوطنی : 586 ء میں شاہ بابل نے یروشلم پر قبضہ کیا اور عبادت خانے کو تباہ کردیا۔ 472 ق م میں یونانی بادشاہ انہولنس نے یروشلم پر حملہ کر کے سلیمانی ہیکل کا نام و نشان مٹا دیا اور اسے بت خانے میں تبدیل کردیا۔ 135 میں رومی بادشاہ ہیڈریان نے یروشلم کو ایک بار پھر تباہ و برباد کردیا۔ 1228 ء اسپین میں یہودیوں کو قانونی طور پر لباس کے اوپر نمایاں نشان آویزاں کرنے کا حکم دیا گیا۔ 1266 ء پولینڈ کے گرجاؤں نے فیصلے صادر کئے کہ یہودی عیسائیوں کے ساتھ اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ 1321 ء فرانس میں ایک گڑھے میں 160 یہودی دفن کئے گئے۔ 1355 ء اسپین میں ایک مشتعل ہجوم نے بارہ ہزار یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ 1391 ء میجور کا جزیرے میں پچاس ہزار یہودی تہ تیغ کئے گئے۔ 1391 ء سسلی میں بڑے پیمانے پر یہودیوں کا قتل عام کیا گیا۔ 1422 ء ” کیسٹائل “ میں یہودیوں کو علیحدہ علاقے میں رہنے اور امتیازی پٹی پہننے پر مجبور کیا گیا۔ 1420 ء لیؤن : فرانس سے یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا۔ 1492 ء اسپین میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار یہودی ملک بدر کئے گئے۔ 1492 ء سسلی اور مالٹا سے یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا۔ پولینڈ نے پہلی مرتبہ یہودی حد بندی کا آغاز کیا۔ (یہودیوں کو ایک مخصوص علاقہ میں محدود کرنے کو یورپ میں Ghe tto کی اصطلاح سے پکارا جاتا ہے۔ ) 1498 ء پرتگال میں ایک بھی یہودی باقی نہ رہنے دیا گیا۔ 1935 ء تا 1941 ء۔ ہٹلر نے ہزاروں یہودیوں کو انسانیت سوز سلوک سے دو چار کر کے عظیم تباہی مچائی۔ (یہودی اس سانحے کو ہولو کا سٹ Holocaust کہہ کر پکارتے اور بےحد مبالغے سے کام لے کر دنیا کی ہمدردیاں سمیٹتے ہیں۔ (حوالہ کتاب : عرب اور اسرائیل ‘ ازرون ڈیوڈ صفحہ 75 اور صفحہ 108) مسائل ١۔ یہود و نصاریٰ اپنے آپ کو جنت کا وارث سمجھنے کے باوجود ایک دوسرے کو کافر گردانتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ روز قیامت ہر قسم کے اختلافات کا فیصلہ فرمائیں گے۔ تفسیر بالقرآن یہود و نصاریٰ کے باہمی اختلافات : ١۔ مسلمان یہودیوں اور عیسائیوں کو متحد سمجھتے ہیں۔ حالانکہ وہ باہم ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ (البقرۃ : ١١٣) ٢۔ یہود و نصاری قیامت تک باہم اختلاف کرتے رہیں گے۔ (المائدۃ : ١٤) ٣۔ یہودیوں کا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ پر الزام۔ (النساء : ١٥٦) ٤۔ یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کے دعویدار ہیں۔ (النساء : ١٥٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہود ونصاریٰ دونوں لمبے چوڑے دعوے کرتے رہتے تھے اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کے بارے میں کہتا تھا کہ وہ تو کچھ نہیں ۔ نیز مشرکین تو ان سے بھی ایک قدم آگے بڑھے ہوئے تھے اور کہتے تھے کہ ان دونوں گروہوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ (١١٣) ” یہودی کہتے ہیں کہ عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں ، عیسائی کہتے ہیں یہودیوں کے پاس کچھ نہیں ۔ حالانکہ دونوں ہی کتاب پڑھتے ہیں اور اسی قسم کے دعوے ایسے لوگوں کے پاس بھی ہیں جن کے پاس کتاب کا علم نہیں ۔ یہ اختلافات جن میں یہ لوگ مبتلا ہیں ان کا فیصلہ اللہ قیامت کے روز کرے گا۔ “ جن لوگوں کے پاس کتاب کا علم نہیں یعنی انپڑھ عرب جن کے پاس کوئی کتاب نہ تھی ۔ یہ لوگ جب بھی دیکھتے تھے کہ یہود ونصاریٰ جس تفرق اور اختلافات کا شکار ہیں ایک دوسرے کو جس طرح گالیاں دے رہے ہیں اور جس طرح الزام تراشیاں کررہے ہیں یا جن خرافات اور بےحقیقت باتوں پر وہ ایمان لائے ہوئے ہیں ۔ وہ اہل شرک اور عربوں کے مشرکانہ خیالات ، فرشتوں کے اولاد الٰہی ہونے کے تصورات سے کسی بھی طرح اونچے عقائد یا نظریات نہیں ۔ اس لئے وہ بھی ان عقائد کو حقیر سمجھتے ہوئے یہود ونصاریٰ کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ ان کے ارکان کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ جنت کی ملکیت کے بارے میں یہود ونصاریٰ کے ان دعوؤں کے بعد قرآن کریم ان لوگوں کی باہم الزام تراشیاں نقل کرکے ان کے فیصلے کو اللہ پر چھوڑدیتا ہے اور کہتا ہے فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ” پس اللہ ہی قیامت کے دن ان کے مختلف فیہ مسائل کا فیصلہ کرے گا۔ کیونکہ وہی عادل جج ہے ۔ اور آخر کار تمام امور اسی کے سامنے جانے ہیں ۔ “ جو لوگ دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ وہی جنتی ہیں اور اہل ہدایت ہیں لیکن وہ کسی منطق کے قائل نہیں ہوتے ، نہ ان کے دعاوی کسی دلیل پر مبنی ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کا معاملہ اللہ ہی پر چھوڑ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ ایسے لوگوں سے جان چھڑانے کی بس یہی صورت ہے ۔ یہودی ، مسلمانوں کے دلوں میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوامر اور آپ کی تعلیمات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی مشاعی کرتے تھے ، خصوصاً تحویل قبلہ کے معاملے میں ، ان کا پروپیگنڈی تو اپنی انتہاء کو پہنچ گیا تھا۔ اب روئے سخن ان کی ان مذموم مساعی کی تردید کی طرف پھرجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کی یہ جدوجہد درحقیقت مساجد اللہ کی تخریب ہے اور ان کا مقصد مساجد اللہ میں اللہ کے ذکر وفکر سے لوگوں کو منع کرنا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہود و نصاریٰ کا آپس میں نزاع اور ان کی باتوں کی تردید تفسیر (درمنثور ص ١٠٨ ج ١) میں حضرت ابن عباس سے روایت نقل ہے کہ جب نجران کے نصاریٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو یہودیوں کے علماء بھی وہاں پہنچے دونوں فریقوں نے وہیں خدمت عالی میں حاضر ہوتے ہوئے آپس میں مباحثہ شروع کردیا۔ یہودیوں میں ایک شخص رافع بن حریملۃ تھا۔ اس نے نصاریٰ سے کہا کہ کسی چیز سے تمہارا کوئی تعلق نہیں اور نہ کبھی تھا۔ اس طرح انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا بھی انکار کیا۔۔ اور انجیل کے کتاب اللہ ہونے کے بھی منکر ہوئے نصاریٰ کو جو مقابلہ میں جواب دینے کا جوش آیا تو ان میں سے ایک شخص نے یہودیوں سے کہا کہ تم کسی چیز پر نہیں ہو یعنی تمہارے دین کی کوئی اصلیت اور بنیاد نہیں۔ اللہ کے کسی نبی یا اللہ کی کسی کتاب سے تمہارا کوئی تعلق نہیں اور نہ کبھی تھا۔ اس طرح سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کر بیٹھے اور تو رات شریف کے کتاب اللہ ہونے کے منکر ہوگئے۔ اللہ جل شانہ نے آیت بالا نازل فرمائی۔ اور دونوں جماعتوں کے دعویٰ ذکر کر کے فرمایا : (وَ ھُمْ یَتْلُوْنَ الْکِتَابَ ) ” یعنی ہر فریق اللہ کی کتاب پڑھتا ہے “ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) کا علم ہوتے ہوئے ان کی رسالت کے منکر ہو رہے ہیں۔ ہر فریق کو دوسرے فریق کے بارے میں معلوم ہے کہ باوجود تحریف کرلینے کے پھر بھی اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول سے ہر ایک کو انتساب ہے۔ گو یہ انتساب ان کے کفر کی وجہ سے ان کی نجات دلانے والا نہیں لیکن فی الجملہ اس کا انکار بھی صحیح نہیں کہ ان کے دین کی ابتداء اللہ کے کسی نبی یا کسی کتاب سے ہے، قال ابن کثیر ولھذا قال تعالیٰ وھم یتلون الکتاب ای وھم یعلمون شریعۃ التوراۃ والانجیل کل منھما کانت مشروعۃ فی وقت ولکنھم تجاحدوا فیما بینھم عنادا و کفرا و مقابلۃ للفاسد بالفاسد۔ (١٥٥ ج ١) پھر فرمایا : (کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِھِمْ ) ” یعنی ایسی ہی بات ان لوگوں نے کہی جو نہیں جانتے “ یعنی یہود و نصاریٰ کے علاوہ جو ان سے پہلے امتیں گزری ہیں وہ بھی ایسی ہی جہالت کی باتیں کرتی رہی ہیں کہ عناد اور تعصب کی وجہ سے حق کو جھٹلایا اور حقیقت واضحہ کو نہ مانا۔ اور اب مشرکین عرب کا یہی حال ہے کہ حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور رسالت کے منکر ہوئے حالانکہ آیات بینات اور دلائل واضح ان کے سامنے ہیں دلوں سے جانتے ہیں کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں لیکن مانتے نہیں۔ واختلف فیمن عنی فی قولہٖ تعالیٰ : الذین لا یعلمون، فقال عطاءٌ امم کانت قبل الیھود و النصاریٰ و قال السدی ھم العرب، قالوا لیس محمد شیء واختار ابن جریر أن الحمل الجمیع اولی۔ (من ابن کثیر ص ١٥٥ ج ١) پھر فرمایا (فَاللّٰہُ یَحْکُمُ بَیْنَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ ) ” کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سب کو جمع فرمائیں گے اور عدل کے ساتھ ان کے ساتھ ان کے درمیان فیصلے فرمائیں گے۔ اور اس فیصلہ سے سب پر حق ظاہر ہوجائے گا۔ اور باطل کا پتہ چل جائے گا۔ “ سورۃ سبا میں فرمایا : (قُلْ یَجْمَعُ بَیْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ یَفْتَحُ بَیْنَنَا بالْحَقِّ وَ ھُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِیْمُ ) ” کہہ دیجیے کہ ہمارا رب ہم سب کو جمع فرمائے گا پھر ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا اور وہ بڑا فیصلہ کرنے والا جاننے والا ہے۔ “ بیان القرآن میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سب کے درمیان عملی فیصلہ فرما دیں گے۔ اور وہ عملی فیصلہ یہ ہوگا کہ اہل حق کو جنت میں اور اہل باطل کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ عملی فیصلہ کی قید اس لیے لگائی کہ قول اور برھانی فیصلہ تو عقلی اور نقلی دلائل کے ذریعہ دنیا میں بھی ہوچکا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

215 ۔ دوسرا شکوہ۔ یہودیوں نے کہا کہ نصاریٰ کا دین باطل ہے کیونکہ وہ تثلیث اور الوہیت مسیح کے قائل ہیں۔ انہوں نے شرک کو اپنا دین بنایا ہوا ہے لہذا ان کا دین غلط ہے۔ وَّقَالَتِ النَّصٰرٰى لَيْسَتِ الْيَهُوْدُ عَلٰي شَيْءٍ ۔ اور عیسائی بولے کہ یہودیوں کا دین باطل ہے اور غلط ہے کیونکہ وہ حضرت مسیح (علیہ السلام) اور انجیل مقدس کو نہیں۔ وَھُمْ یَتْلُوْنَ الْکِتَابَ ۔ الکتاب میں الف لام جنس کے لیے ہے اور اس سے مراد تورات اور انجیل ہے یعنی یہ دونوں فریق اپنی اپنی کتاب پڑھتے ہیں اور پھر ایسا دعویٰ کرتے ہیں جس کی تردید خود ان کی اپنی کتاب کرتی ہے یا الکتاب سے مراد تورات ہے کیونکہ تورات کو نصاریٰ بھی مانتے ہیں۔ مطلب یہ کہ دونوں فریق ایک ہی کتاب کو مانتے ہیں۔ پھر اس کے باوجود ایک دوسرے کے دین کا ابطال کرتے ہیں۔ 216 الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ۔ یعنی جو لوگ علم نہیں رکھتے جن کے پاس کتاب اور اللہ کا دیا ہوا رشد وہدایت کا علم نہیں ہے۔ یہاں اس سے مراد مشرکین عرب ہیں۔ وھم مشرکوا العرب فی قول الجمھور (روح ص 361 ج 1) مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۔ ان اہل کتاب اور اہل علم کی طرح مشرکین عرب بھی ایسے ہی دعوے کیا کرتے تھے۔ اور اپنے دین جاہلیت اور شرک کے سوا باقی تمام ادیان کو باطل سمجھتے تھے۔ قالوا لاھل کل دین لیسوا علی شئی (مدارک ص 55 ج 1) قالوا فی نبیھم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و اصحابہ انھم لیسوا علی شئی من الدین (معالم ص 83 ج 1) جواب کا ماحصل یہ ہے کہ یہود ونصاریٰ کا یہ دعویٰ بھی عرب کے جاہل مشرکوں کے دعویٰ کی طرح سراسر جاہلانہ اور احمقانہ ہے۔ 219 بینھم کی ضمیر یہودو نصاریٰ کی طرف راجع ہے۔ یوام القیمۃ فیما دونوں ظرفیں یحکم کے متعلق ہیں۔ فیہ یختلفون کے متعلق ہے یعنی دنیا میں تو یہ جھگڑتے ہی رہیں گے۔ ان کے جھگڑوں کا دو ٹوک فیصلہ تو قیامت کے دن خدا ہی کریگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور یہود نے کہا نصاریٰ کسی قابل اعتبار شئے پر نہیں اور نصاریٰ نے کہا یہود کسی قابل اعتبار شئے پر نہیں حالانکہ یہ لوگ توریت و انجیل کی تلاوت بھی کرتے ہیں اور ان دونوں کی دیکھا دیکھی عرب کے بےپڑھے لکھے جاہل بھی ان ہی کی سب بات کہنے لگے کہ یہود و نصاریٰ کسی شئے پر نہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کے مابین ان امور کا فیصلہ کر دے گا جن امور میں یہ اختلاف کیا کرتے ہیں۔ (تیسیر) ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب نجبران کے نصاریٰ کا وفد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو یہود کے علماء بھی آگئے اتفاقاً دونوں میں گفتگو ہونے لگی۔ گفتگو نے مناظرے کی شکل اختیار کرلی۔ رافع بن حرملہ یہودی نے کہا تم کسی دین پر نہیں یعنی تمہارا دین کچھ نہیں اس پر عیسائیوں نے یہود کو کہا کہ تم کسی دین پر نہیں یعنی تمہارا مذہب کچھ نہیں شئے سے مراد بنیاد یا دین ہے اور مطلب یہ ہے کہ ایک نے دوسرے کے دین کی تحقیر کی اور ہیچ بتایا حالانکہ یہ اپنی اپنی کتابوں میں ایک دوسرے کی تصدیق دیکھتے اور پڑھتے ہیں ، پھر بھی ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں۔ لایعلمون سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک عرب کے مشرک ہیں۔ چونکہ یہ لوگ عام طور سے امی اور بےپڑھے لکھے تھے اس لئے ان کو لایعلمون سے تعبیر فرمایا انہوں نے بھی یہود و نصاریٰ کے سی بات کہنے لگے سو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان تما مامور میں ان کا فیصلہ کردیگا جن کے متعلق یہ آپس میں جھگڑا کر رہے ہیں 3(311)