Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 117

سورة البقرة

بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿۱۱۷﴾

Originator of the heavens and the earth. When He decrees a matter, He only says to it, "Be," and it is.

وہ زمین اور آسمانوں کو پیدا کرنے والا ہے ، وہ جس کام کو کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا ، بس وہی ہو جاتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ ... The Badi` (Originator) of the heavens and the earth. which means, He created them when nothing resembling them existed. Mujahid and As-Suddi said that; this is the linguistic meaning, for all new matters are called Bid`ah. Muslim recorded the Messenger of Allah saying, فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَة ...every innovation (in religion) is a Bid`ah. There are two types of Bid`ah, religious, as mentioned in the Hadith: فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَإلَة ...every innovation is a Bid`ah and every Bid`ah is heresy. And there is a linguistic Bid`ah, such as the statement of the Leader of the faithful Umar bin Al-Khattab when he gathered the Muslims to pray the Tarawih prayer in congregation (which was also an earlier practice of the Prophet) and said, "What a good Bid`ah this is." Ibn Jarir said, "Thus the meaning of the Ayat (2:116-117) becomes, `Allah is far more glorious than to have had a son, for He is the Owner of everything that is in the heavens and earth. All testify to His Oneness and to their submissiveness to Him. He is their Creator and Maker. Without created precedence, He shaped the creatures in their current shapes. Allah also bears witness to His servants that Jesus, who some claimed to be Allah's son, is among those who testify to His Oneness. Allah stated that He created the heavens and earth out of nothing and without precedent. Likewise, He created Jesus, the Messiah, with His power and without a father." This explanation from Ibn Jarir, may Allah have mercy upon him, is very good and correct. Allah said, ... وَإِذَا قَضَى أَمْراً فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ When He decrees a matter, He only says to it : "Be! ـ and it is. thus, demonstrating His perfectly complete ability and tremendous authority; if He decides a matter, He merely orders it to, `Be' and it comes into existence. Similarly, Allah said, إِنَّمَأ أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْياً أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ Verily, His command, when He intends a thing, is only that He says to it, "Be! ـ and it is. (36:82) إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَىْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَن نَّقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ Verily, Our Word unto a thing when We intend it, is only that We say unto it: "Be! ـ and it is. (16:40) and, وَمَأ أَمْرُنَأ إِلاَّ وَحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ And Our commandment is but one as the twinkling of an eye. (54:50) So Allah informed us that He created Jesus by merely saying, "Be!" and he was, as Allah willed: إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ ءَادَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ Verily, the likeness of `Isa (Jesus) before Allah is the likeness of Adam. He created him from dust, then (He) said to him: "Be! ـ and he was. (3:59)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

117۔ 1 یعنی وہ اللہ تو ہے کہ آسمان و زمین کی ہر چیز کا مالک ہے، ہر چیز اس کی فرمانبردار ہے، بلکہ آسمان کا بغیر کسی نمونے کے بنانے والا بھی وہی ہے۔ علاوہ ازیں وہ جو کام کرنا چاہے اس کے لئے اسے صرف لفظ کن کافی ہے۔ ایسی ذات کو بھلا اولاد کی کیا ضرورت ہوسکتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣٨] بدیع کے معنی ہیں ایسی چیز کو وجود میں لانے والا جس کی پہلے کوئی نظیر موجود نہ وہ، نہ اس کا وجود موجود ہو اور نہ کوئی نمونہ اور یہ صفت صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ہوسکتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(بَدِيْعُ ) بمعنی ” مُبْدِعٌ“ یعنی آسمان و زمین کو بغیر کسی مادے یا کسی نمونے کے پیدا کرنے والا، یہ چوتھی دلیل ہے، کیونکہ بیٹا باپ کا نمونہ ہوتا ہے، جب کہ اللہ نے ہر چیز کو نمونے کے بغیر پیدا کیا ہے۔ پانچویں دلیل کہ جس کے ” كُنْ “ کہنے سے سب کچھ ہوجاتا ہے اسے اولاد کی کیا محتاجی ہے ؟ تنبیہ : بعض لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور کچھ اور لوگوں کو اللہ کے نور کا ٹکڑا قرار دیا، یہ اولاد قرار دینے سے بھی بڑا ظلم ہے، دیکھیے سورة اخلاص۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ ۭ وَاِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَہٗ كُنْ فَيَكُوْنُ۝ ١١٧ بدع الإِبْدَاع : إنشاء صنعة بلا احتذاء واقتداء، ومنه قيل : ركيّة بَدِيع أي : جدیدة الحفروإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فهو إيجاد الشیء بغیر آلة ولا مادّة ولا زمان ولا مکان، ولیس ذلک إلا لله والبدیع يقال للمُبْدِعِ نحو قوله تعالی: بَدِيعُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ البقرة/ 117] ، ويقال للمبدع نحو : ركيّة بدیع، وکذلک البِدْعُ يقال لهما جمیعا بمعنی الفاعل والمفعول، وقوله تعالی: قُلْ ما كُنْتُ بِدْعاً مِنَ الرُّسُلِ [ الأحقاف/ 9] قيل : معناه : مبدعا لم يتقدّمني رسول، وقیل : مبدعا فيما أقوله . والبِدْعةُ في المذهب : إيراد قول لم يستنّ قائلها وفاعلها فيه بصاحب الشریعة وأماثلها المتقدمة وأصولها المتقنة، وروي : «كلّ محدثة بدعة، وكلّ بدعة ضلالة، وكلّ ضلالة في النّار» والإِبْدَاع بالرّجل : الانقطاع به لما ظهر من کلال راحلته وهزالها ( ب د ع ) الا بداع ۔ کسی کی تقلید اوراقتداء کے بغیر کسی چیز کو ایجاد کرنا ۔ اسی سے کھودے ہو ہوئے کنویں کو وکیہ بدیع کہا جاتا ہے ۔ جب ابداع کا لفظ اللہ عزوجل کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں بغیر آلہ بغیر مادہ اور بغیر زمان ومکان کے کسی شئے کو ایجاد کرنا اور یہ معنی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مختص ہے ۔ اور البدیع بمعنی مبدع بھی آیا ہے جیسے فرمایا : بَدِيعُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ البقرة/ 117] وہی آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ( 2 ۔ 117 ) اور بمعنی مبدع ( اسم مفعول ) بھی آجاتا ہے جیسے زکیہ بدیع ( نیا کھودا ہوا کنواں ) اسی طرح بدعا کا لفظ بھی اسم فاعل اور اسم مفعول دونوں معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ما كُنْتُ بِدْعاً مِنَ الرُّسُلِ [ الأحقاف/ 9] کہ میں کوئی نیا پیغمبر نہیں ہوں ( 942 ) میں بدعا بمعنی مبدع بھی ہوسکتا ہے یعنی پیغمبر ایسا کہ مجھ سے پہلے کوئی پیغمبر نہ آیا ہو اور بمعنی مدع کے بھی یعنی میں کوئی نئی بات نہیں کہتا ۔ البدعہ مزہب میں نئی بات داخل کرنا جس کا قائل یا فاعل صاحب شریعت کی اقتدا نہ کرے اور نہ ہی سلف صالحین اور اصول شریعت سے اس کا ثبوت ملتا ہو ایک روایت میں ہے 25 ) کل محدثہ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار کہ ہر نئی رسم بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں ۔ الابداع بالرجل سواری کے ماندہ اور دبلا ہونے کی وجہ سے رفقا د سے منقطع ہوجانا ؟ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٧) اور اللہ تعالیٰ ایسے موجد ہیں کہ مثلا جب کسی شخص کو بغیر باپ کے، جیسا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا کرنا چاہتے ہیں، تو وہ بغیر باپ کے پیدا ہوجاتے ہیں یا بغیر ماں ٗ باپ کے پیدا کرنا چاہتے ہیں تو جیسے حضرت آدم (علیہ السلام) ، تو وہ اسی طرح پیدا ہوجاتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٧ (بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط) وہ بغیر کسی شے کے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے۔ ابداع اور خلق میں فرق نوٹ کیجیے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی (رح) نے حجۃ اللہ البالغہ کے پہلے باب میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے افعال بنیادی طور پر تین ہیں : ابداع ‘ خلق اور تدبیر۔ ابداع سے مراد ہے عدم محض سے کسی چیز کو وجود میں لانا ‘ جسے انگریزی میں creation ex nihilo سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جبکہ خلق ایک چیز سے دوسری چیز کا بنانا ہے ‘ جیسے اللہ تعالیٰ نے گارے سے انسان بنایا ‘ آگ سے ّ جنات بنائے اور نور سے فرشتے بنائے ‘ یہ تخلیق ہے۔ تو بدیع وہ ذات ہے جس نے کسی مادۂ تخلیق کے بغیر ایک نئی کائنات پیدا فرما دی۔ ہمارے ہاں بدعت وہ شے کہلاتی ہے جو دین میں نہیں تھی اور خواہ مخواہ لا کر شامل کردی گئی۔ جس بات کی جڑ بنیاد دین میں نہیں ہے وہ بدعت ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

76: عیسائی تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے ہی ہیں، بعض یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے تھے، اور مشرکین مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے، یہ آیت ان سب کی تردید کررہی ہے، مطلب یہ ہے کہ اولاد کی ضرورت اسے ہوسکتی ہے جو دوسروں کی مدد کا محتاج ہو، اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا مالک ہے اور اسے کسی کام میں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں، پھر وہ اولاد کا محتاج کیوں ہو؟ اسی دلیل کو اگر منطقی پیرائے میں بیان کیا جائے تو وہ اس طرح ہوگی کہ اولاد اپنے باپ کا جزء ہوتی ہے اور ہر کل اپنے جزء کا محتاج ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ چونکہ ہر احتیاج سے پاک ہے اس لئے اس کی ذات بسیط ہے جسے کسی جزء کی حاجت نہیں، لہذا اس کی طرف اولاد منسوب کرنا اسے محتاج قرار دینے کے مرادف ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:117) بدیع السموت والارض۔ بدع بروزن (فعیل) بمعنی مبدع۔ موجد۔ نیا نکالنے والا۔ نئی طرح بنانے والا۔ پیدا کرنے والا۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے۔ الا بداع۔ ایسی چیز کا ایجاد کرنا جس کی سابق میں مثال نہ ہو۔ بغیر کسی کی اقتداء اور پیروی کرنے کے کسی صنعت کو نکالنا۔ جب اللہ تعالیٰ کے متعلق ہو تو اس کے معنی ہوں گے۔ بغیر آلہ۔ بغیر مادہ اور بغیر زبان و مکان کے کسی شے کو ایجاد کرنا۔ بدیع السموت والارض۔ مضاف، مضاف الیہ۔ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا۔ اذا۔ ظرف زمان ہے۔ جب۔ اس وقت۔ بطور حرف فجائیہ بھی آتا ہے۔ بمعنی ناگہاں۔ مثلاً فاذا ہی حیۃ تسعی (20:20) پس یکایک وہ دوڑتا ہوا سانپ بن گیا۔ یہاں بمعنی جب آیا ہے ۔ شرطیہ ہے۔ قضی۔ ماضی واحد مذکر غائب بمعنی مضارع۔ ارادہ کرتا ہے۔ واذا قضی امرا۔ وہ جب کوئی چیز کرنا چاہتا ہے یہ جملہ شرط ہے اور فانما یقول لہ کن فیکون جزأ ہے شرط کی۔ شرط اپنی جزاء سے مل کر جملہ فعلیہ شرطیہ ہوا۔ فانما۔ ف جزائیہ ہے۔ انما میں ان حرف مشبہ بالفعل اور ما کافہ ہے۔ جو حصر کے معنی دیتا ہے۔ اور ان کو عمل لفظی سے روک دیتا ہے۔ سوائے اس کے نہیں ۔ بیشک ۔ تحقیق۔ کن۔ فعل امر واحد مذکر حاضر، ہوجا۔ کون (باب نصر) مصدر سے۔ فیکون۔ پس وہ ہوجاتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ کن کہنے میں دواحتمال ہیں ایک یہ کہ مجاز ہو سرعت تکوین وارجلدی بنادینے سے دوسرے یہ کہ حقیقتا حق تعالیٰ کی یہی عادت ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آسمانوں اور زمینوں کے درمیان جو چیزیں ہیں ان میں سے اسے کسی کو بیٹا بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ لہٰذا تمام لوگ اس کی مخلوق ہے اور ایک درجے میں ہے ، اور ایک ہی حیثیت رکھتی ہے۔ بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (١١٧) ” وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اور جس بات کا فیصلہ کرتا ہے اس کے لئے بس صرف یہ حکم دیتا ہے کہ ہوجا اور وہ ہوجاتی ہے۔ “ اللہ کا یہ ارادہ جس طرح اس ہونے والی مخلوق کے ساتھ متعلق ہوجاتا ہے ، اس کی تفصیل کی کیفیت انسانی ادراک اور فہم سے بالا ہے ۔ کیونکر یہ انسانی ادراک کے حیطہ قدرت ہی سے وراء ہے ۔ لہٰذا انسانی ادراک کی قوتوں کو ایسی ناقابل تصور کیفیات کے ادراک میں صرف کردینا ایک عبث کام ہوگا۔ اور بلا دلیل وبرہان اس وادی پرپیچ میں سرگرداں ہونے کے مترادف ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

223 وہ زمین و آسمان کو بغیر کسی کی مدد کے اور بغیر کسی سابقہ مثال کے از سر نو پیدا کرنے والا ہے اِذَا قَضٰٓى اَمْرًا۔ یہاں قضی بمعنی اراد ہے۔ ای اراد شیئا (روح ص 368 ج 1) یعنی وہ کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے۔ فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْن۔ تو بس ارادہ کرتے ہی وہ چیز وجود میں آجاتی ہے۔ کُنْ کہنے سے ہوجانا یہ سرعت اور جلدی سے کنایہ ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ لفظ کن بولتا ہے تو وہ چیز وجود میں آجاتی ہے۔ وہاں تو صرف ارادہ کی دیر ہوتی ہے کہ چیز پیدا ہوجاتی ہے۔ وھذا مجاز عن سرعۃ التکوین و تمثیل و لا قول ثم (مدارک ص 56 ج 1) تو جو اللہ اتنا زبردست اور قادر ہو کہ صرف ارادہ کرے اور کام ہوجائے تو تم ہی بتاؤ کہ اسے نائبوں کی کیا ضرورت ہے۔ لہذا اس کا کوئی مددگار اور نائب نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اولاد رکھتا ہے میں اسکی جملہ عیوب سے پاکی بیان کرتا ہوں اس کو صاحب اولاد کہنا کس قدر لغو اور مہمل بات ہے بلکہ جو مخلوق بھی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اسکی مملوک ہے اور مملوک ہونے کے ساتھ سب اسکے محکوم اور مطیع و منقاد ہیں کہ اس کا ہر حکم ان پر جاری اور نافذ ہوکر رہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کا موجد ہے اور اسکی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی کام کو پورا کرنا چاہتا ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ بس اس کو کہہ دیتا ہے ہوجا ! سو وہ ہوجاتا ہے۔ یہود حضرت عزیر کو اور نصاریٰ حضرت مسیح کو ابن اللہ کہا کرتے تھے اور کبھی اپنے آپکو بھی خدا کا بیٹا کہہ دیا کرتے تھے۔ نحن ابناء اللہ واحباء ہ یعنی ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں۔ مشرکین عرب بھی ان کی دیکھا دیکھی فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہنے لگے اور چونکہ فرشتے نظر نہ آتے تھے اور ان کا ذکر آتا تھا تو ان بدبختوں نے یہ طعنہ دیا کہ بھلا فرشتے ہمارے سامنے کیسے آسکتے ہیں وہ تو اللہ کی بیٹیاں ہیں اس لئے پردے میں رہتی ہیں۔ غرض اس آیت میں ان سب کی بات نقل کرکے پہلے تعجب فرماتے ہیں پھر اس دعویٰ کا رد کرتے ہیں سبحنہ ایسا ہی ہے جیسے ہم ارد و میں تعجب کے موقعہ پر کہا کرتے ہیں سبحان اللہ کیا خوب بات ہے بیہقی نے حضرت طلحہ بن عبید اللہ سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا یا رسول اللہ سبحان اللہ کا کیا مطلب ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تنزیہ اللہ من کل سوئِ ہر عیب سے اللہ تعالیٰ کی پاکی اور برأت کرنا حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے کسی نے دریافت کیا جناب ہم لا الہ الا اللہ الحمد اللہ اللہ اکبر کا مطلب تو جانتے ہیں لیکن یہ سبحان اللہ کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے جواب دیا اس کلمہ کا کون انکارکر سکتا ہے یہ تو ایسا کلمہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے پسند فرمایا ہے اور فرشتوں کو اس کے کہنے کا حکم دیا ہے اور اس کی مخلوق میں سے بہترین انسان اس کلمہ کے کہنے کے لئے مضطرب اور بےچین رہتے ہیں۔ ابن ابی حاتم حضرت حسن بصری (رض) سے روایت کیا ہے کہ سبحان اللہ اسم لا یستطیع الناس ان ینتحلوہ یعنی یہ ایک ایسا نام اور کلمہ ہے جس کو لوگ اپنے لئے نہیں استعمال کرسکتے کیونکہ ہر قسم کے عیوب اور کمزوری سے سوائے اللہ تعالیٰ کے کون منزہ ہوسکتا ہے یہ ممکن ہے کہ اہل کتاب میں سے بعض بیوقوفوں نے یہ خیال کرکے اللہ تعالیٰ کا بےاولاد ہونا اس کیلئے عیب ہے یہ عقیدہ گھڑا ہو یا جیسا کہ قاضی بیضاوی نے فرمایا کہ سابقہ ارباب شرائع اللہ تعالیٰ پر باپ کا اطلاق کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہمارا باپ تو چھوٹا باپ ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا باپ ہے کیونکہ سب کی پرورش کرتا ہے۔ ابتداً محض تعظیم و ادب کیلئے استعمال کیا گیا پھر سچ مچ اس کی طرف گمراہوں نے اولاد کی نسبت کردی ہو۔ بہر حال بات کہیں سے آئی مگر گمراہوں کا عقیدہ بن گئی۔ حضرت حق تعالیٰ اس عقیدہ کا رد فرماتے ہیں کہ جو چیز تمہارے لئے قابل فخر ہے وہ اللہ تعالیٰ کیلئے عیب ہے تم اس کو اپنے اوپر قیاس نہ کرو۔ بیٹا باپ کا جز ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ تبعیض و تجزی سے پاک ہے۔ باپ بیٹے کا محتاج ہوتا ہے۔ بیماری میں بڑھاپے میں اس کو اولاد کی احتیاج ہوتی ہے مرنے کے بعد وارث کی اور کام کو سنبھالنے والے کی ضرورت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ عنی اور بےنیاز ہے بیٹا باپ کا مدد گار ہوتا ہے اسے کسی معین و مددگار کی ضرورت نہیں باپ کوئی کام کرتا ہے تو بیٹا اس کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین بغیر کسی مادے اور بغیر کسی مشین اور آلے کے اور بغیر کسی ہاتھ بٹانے والے کے اور بغیر کسی نمونہ کو دیکھنے کے خود ہی ایجاد کئیے اور بنا کھڑے کئے اور وہاں تو ہر کام کی یہی حالت ہے کہ بس کن کہنے کی دیر ہے ارادے کا تعلق اس شے سے ہو اور وہ ظاہر ہوئی پھر بیٹا باپ کا ہمسر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہمسر سے پاک ہے غرض وہ جب ہر قسم کی احتیاج اور تغیرات اور ہر قسم کے ہمسر اور شریک سے بالاتر ہے تو اس کے لئے اولاد کا ثابت ہونا اور اس پاک ذات کی طرف اولاد کی نسبت کرنا اس کی سخت توہین ہے۔ ایک حدیث قدسی میں شتمنی اور کذبنی کے الفاظ آئے ہیں یعنی ابن آدم مجھ کو گالی دیتا ہے اور میری تکذیب کرتا ہے جبکہ وہ کہتا ہے کہ میری کوئی اولاد ہے حالانکہ نہ میرا کوئی ہمسر اور نہ میں کسی سے پیدا ہو یعنی مجھ کو کسی نے جنا نہیں تو جب مجھ کو کسی نے جنا ہی نہیں تو مجھ سے کون پیدا ہوسکتا ہے ۔ لم یلد ولم یولد کا یہی مطلب ہے اور میری تکذیب یہ ہے کہ ابن آدم یوں کہتا ہے کہ میں مخلوق کو مرنے کے بعد دوبارہ نہیں پیدا کرسکتا حالانکہ میں نے ہی تو ابتداء مخلوق کو پیدا کیا ہے پھر دوبارہ اس کو کیوں نہیں بنا سکتا۔ تانتون کا مطلب یہ ہے کہ تمام موجودات پر میرا ہی حکم چلتا ہے نہ کوئی موت کو ٹال سکتا ہے نہ بیماری کو نہ فقر کو ٹال سکتا ہے نہ غنیٰ کو اب آگے ان کافروں کا ایک اور قول نقل فرما کر اس کا رد فرماتے ہیں اور اس قول میں یہ احتمال ہے کہ فقط یہود کا ہو یا صرف اہل کتاب کا ہو یا فقط کفار عرب کا ہو یا اس سے بیہودہ بات میں سب شریک ہوں ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)