Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 119

سورة البقرة

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ بِالۡحَقِّ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا ۙ وَّ لَا تُسۡئَلُ عَنۡ اَصۡحٰبِ الۡجَحِیۡمِ ﴿۱۱۹﴾

Indeed, We have sent you, [O Muhammad], with the truth as a bringer of good tidings and a warner, and you will not be asked about the companions of Hellfire.

ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور جہنمیوں کے بارے میں آپ سے پرسش نہیں ہوگی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says; إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ... Verily, We have sent you (O Muhammad) with the truth (Islam), a bringer of glad tidings (for those who believe in what you brought, that they will enter Paradise) and a warner (for those who disbelieve in what you brought, that they will enter the Hellfire). Allah's statement; ... وَلاَ تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ And you will not be asked about the dwellers of the blazing Fire. means, "We shall not ask you about the disbelief of those who rejected you." Similarly, Allah said, فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَـغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ Your duty is only to convey (the Message) and on Us is the reckoning. (13:40) فَذَكِّرْ إِنَّمَأ أَنتَ مُذَكِّرٌ لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُسَيْطِرٍ So remind them (O Muhammad) ـ you are only one who reminds. You are not a dictator over them. (88:21-22) and, نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ وَمَأ أَنتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ فَذَكِّرْ بِالْقُرْءَانِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ We know best what they say. And you (O Muhammad) are not the one to force them (to belief). But warn by the Qur'an; him who fears My threat. (50:45) There are many other similar Ayat. The Description of the Prophet in the Tawrah Imam Ahmad recorded; Ata' bin Yasar saying that he met Abdullah bin `Amr bin Al-`As and said to him, "Tell me about the description of the Messenger of Allah in the Torah." He said, "Yes, by Allah, he is described by the Torah with the same characteristics that he is described with in the Qur'an with: `O Prophet! We have sent you as a witness, a bringer of good news, a warner, and as safe refuge for the unlettered people. You are My servant and Messenger. I have called you the Mutawakkil (who depends and relies on Allah for each and everything). You are not harsh, nor hard, nor obnoxious in the bazaars. He does not reward the evil deed with an evil deed. Rather, he forgives and pardons. Allah will not bring his life to an end, until he straightens the wicked's religion by his hands so that the people proclaim: There is no deity worthy of worship except Allah. By his hands, Allah will open blind eyes, deaf ears and sealed hearts."' This was recorded by Al-Bukhari only.

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نصیحت کی حد تک مسؤل ہیں حدیث میں ہے خوشخبری جنت کی اور ڈراوا جہنم سے لا تسئل کی دسری قرأت ما تسئل بھی ہے اور ابن مسعود کی قرأت میں لن تسئل بھی ہے یعنی تجھ سے کفار کی بابت سوال نہیں کیا جائے گا جیسے فرمایا آیت ( فانما علیک البلغ وعلینا الحلساب یعنی تجھ پر صرف پہنچا دینا ہے حساب تو ہمارے ذمہ ہے اور فرمایا آیت ( فَذَكِّرْ ڜ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ 21؀ۭ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ 22؀ۙ ) 88 ۔ الغاشیہ:21 ) تو نصیحت کرتا رہ تو صرف نصیحت کرنے والا ہے ان پر داروغہ نہیں اور جگہ فرمایا آیت ( نحن اعلم بما یقولون ) الخ ہم ان کی باتیں بخوبی جانتے ہیں تم ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو تو قرآن کی نصیحتیں انہیں سنا دو جو قیامت سے ڈرتے ہوں اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ایک قرأت اس کی ولا تسائل بھی ہے یعنی ان جہنمیوں کے بارے میں اے نبی مجھ سے کچھ نہ پوچھو عبدالرزاق میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کاش کہ میں اپنے ماں باپ کا حال جان لیتا ، کاش کہ میں اپنے ماں باپ کا حال جان لیتا ، کاش کہ میں اپنے ماں باپ کا حال جان لیتا ۔ اس پر یہ فرمان نازل ہوا ۔ پھر آخری دم تک آپ نے اپنے والدین کا ذکر نہ فرمایا ابن جریر نے بھی اسے بروایت موسیٰ بن عبیدہ وارد کیا ہے لیکن اس راوی پر کلام ہے قرطبی کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جہنمیوں کا حال اتنا بد اور برا ہے کہ تم کچھ نہ پوچھو ، تذکرہ میں قرطبی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین زندہ کئے گئے اور ایمان لے آئے اور صحیح مسلم میں جو حدیث ہے جس میں آپ نے کسی کے سوال پر فرمایا ہے کہ میرا باپ اور تیرا باپ آگ میں ہیں ان کا جواب بھی وہاں ہے لیکن یاد رہے کہ آپ کے ماں باپ کے زندہ ہونے کی روایت کتب صحاح ستہ وغیرہ میں نہیں اور اس کی اسناد ضعیف ہے واللہ اعلم ۔ ابن جریر کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن پوچھا کہ میرے باپ کہاں ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، ابن جریر نے اس کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ محال ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ماں باپ کے بارے میں شک کریں پہلی ہی قرأت ٹھیک ہے لیکن ہمیں امام ہمام پر تعجب آتا ہے کہ انہوں نے اسے محال کیسے کہ دیا ؟ ممکن ہے یہ واقعہ اس وقت کا ہو جب آپ اپنے ماں باپ کے لئے استفسار کرتے تھے اور انجام معلوم نہ تھا پھر جب ان دونوں کی حالت معلوم ہو گئی تو آپ اس سے ہٹ گئے اور بیزاری ظاہری فرمائی اور صاف بتا دیا کہ وہ دونوں جہنمی ہیں جیسے کہ صحیح حدیث سے ثابت ہو چکا ہے اس کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں مسند احمد میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت عطا بن یسار نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت و ثنا توراۃ میں کیا ہے تو آپ نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم جو صفتیں آپ کی قرآن میں ہیں وہی توراۃ میں بھی ہیں ، توراۃ میں بھی ہے اے نبی ہم نے تجھے گواہ اور خوشخبریاں دینے والا اور ڈرانے والا اور ان پڑھوں کا بچاؤ بنا کر بھیجا ہے تو میرا بندہ اور میرا رسول ہے میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے تو نہ بد زبان ہے نہ سخت گو نہ بدخلق نہ بازاروں میں شور غل کرنے والا ہے نہ تو برائی کے بدلے برائی کرنے والا ہے بلکہ معاف اور درگزر کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ انہیں دنیا سے نہ اٹھائے گا جب تک کہ تیرے دین کو تیری وجہ سے بالکل ٹھیک اور درست نہ کر دے اور لوگ لا الہ الہ اللہ کا اقرار نہ کرلیں اور ان کی اندھی آنکھیں کھل نہ جائیں اور ان کے بہرے کان سننے نہ لگ جائیں اور ان کے زنگ آلود دل صاف نہ ہو جائیں بخاری کی کتاب الیسوع میں بھی یہ حدیث ہے اور کتاب التفسیر میں بھی ابن مردویہ میں اس روایت کے بعد مزید یہ ہے کہ میں نے پھر جا کر حضرت کعب سے یہی سوال کیا تو انہوں نے بھی ٹھیک یہی جواب دیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤٢] مثلاً تمہارے پاس جو رسول آیا ہے۔ تم خود جانتے ہو اس نے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا تو کیا جو شخص کسی انسان سے جھوٹ نہیں بولتا۔ وہ اللہ پر جھوٹ تراش سکتا ہے ؟ نیز تم یہ جانتے ہو کہ وہ لکھنا پڑھنا جانتا ہی نہیں۔ اس کا کوئی استاد بھی نہیں پھر وہ ایسا کلام پیش کرتا ہے جس کے مقابلہ میں کلام لانے سے تم سب کے سب عاجز ہو تو کیا صرف یہی بات اللہ کے وجود، نبی کی نبوت اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا واضح ثبوت نہیں ؟ مگر جو شخص ماننے کا ارادہ ہی نہ رکھتا ہو کوئی بھی نشانی اسے ایمان لانے پر مجبور نہیں کرسکتی۔ [ ١٤٣] یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام صرف اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچا دینا ہے۔ اب اگر لوگ ایمان نہیں لاتے اور دوزخ کے مستحق ٹھہرتے ہیں تو اس سلسلہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کچھ الزام نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یعنی آپ کا کام حق پہنچاتے ہوئے خوش خبری دینا اور ڈرانا ہے، آپ سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ یہ لوگ مسلمان کیوں نہیں ہوئے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The implication of Verse 118 was that those who persisted in their denial of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) did so out of sheer malice and ignorance, and could not be expected to reform themselves. Since he has been sent as the mercy for all the worlds|", the thought of their being incor¬rigible was likely to make him sad on their account. So, in this verse Allah offers him a consolation. He has been sent down to men, bearing the truth and the genuine faith. His function is twofold -- to give glad tidings to those who accept the truth, and warnings of dire punish¬ment to those who deny. Allah assures him that he will not be held re¬sponsible or taken to account for those who willingly pursue the way to Hell. All that he is required to do is to keep performing his own func¬tion, and not to worry as to who accepts the truth and who does not.

خلاصہ تفسیر : (چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان رحمۃ للعالمینی کا تقاضا یہ ہوسکتا تھا کہ آپ کو اس جہالت اور عناد کی بدولت دل تنگی پیش آتی اور ان کے ایمان نہ لانے کی کوئی صورت سمجھ میں نہ آنے کے سبب آپ ملول وآزردہ خاطر ہوجاتے اس لئے اللہ تعالیٰ آپ کی تسلی کے لئے ارشاد فرماتے ہیں کہ اے رسول) ہم نے آپ کو ایک سچا دین دے کر (خلق کی طرف) بھیجا ہے کہ (ماننے والوں کو) خوش خبری سناتے رہئے اور (نہ ماننے والوں کو سزا سے) ڈراتے رہئے اور آپ سے دوزخ میں جانے والوں کی باز پرس نہ ہوگی (کہ ان لوگوں نے کیوں نہیں قبول کیا اور کیوں دوزخ میں گئے آپ اپنا کام کرتے رہئے آپ کو کسی کے ماننے یا نہ ماننے کی کوئی فکر نہیں کرنی چاہئے)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا۝ ٠ ۙ وَّلَا تُسْـــَٔـلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِيْمِ۝ ١١٩ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] وقال : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات/ 1] ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ ۔ وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات/ 1] قسم ہے ان فرشتوں کی جو پیام الہی دے کر بھیجے جاتے ہیں حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ بشیر ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] والبشیر : المُبَشِّر، قال تعالی: فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف/ 96] ( ب ش ر ) البشر اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ البشیر خوشخبری دینے والا ۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا پہنچا تو کرتہ یعقوب کے منہ پر ڈال دیا اور وہ بینا ہوگئے ۔ النذیر والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذیر النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَهُوَ يُحاوِرُهُ [ الكهف/ 34] ، أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ [ الكهف/ 9] ، وَأَصْحابِ مَدْيَنَ [ الحج/ 44] ، أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، أَصْحابُ النَّارِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 217] ، مِنْ أَصْحابِ السَّعِيرِ [ فاطر/ 6] ، وأما قوله : وَما جَعَلْنا أَصْحابَ النَّارِ إِلَّا مَلائِكَةً [ المدثر/ 31] أي : الموکّلين بها لا المعذّبين بها كما تقدّم . وقد يضاف الصَّاحِبُ إلى مسوسه نحو : صاحب الجیش، وإلى سائسه نحو : صاحب الأمير . والْمُصَاحَبَةُ والِاصْطِحَابُ أبلغ من الاجتماع، لأجل أنّ المصاحبة تقتضي طول لبثه، فكلّ اصْطِحَابٍ اجتماع، ولیس کلّ اجتماع اصطحابا، وقوله : وَلا تَكُنْ كَصاحِبِ الْحُوتِ [ القلم/ 48] ، وقوله : ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ/ 46] ، وقد سمّي النبيّ عليه السلام صاحبهم تنبيها أنّكم صحبتموه، وجرّبتموه وعرفتموه ظاهره وباطنه، ولم تجدوا به خبلا وجنّة، وکذلک قوله : وَما صاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ [ التکوير/ 22] . والْإِصحَابُ للشیء : الانقیاد له . وأصله أن يصير له صاحبا، ويقال : أَصْحَبَ فلان : إذا كَبُرَ ابنه فصار صاحبه، وأَصْحَبَ فلان فلانا : جعل صاحبا له . قال : وَلا هُمْ مِنَّا يُصْحَبُونَ [ الأنبیاء/ 43] ، أي : لا يكون لهم من جهتنا ما يَصْحَبُهُمْ من سكينة وروح وترفیق، ونحو ذلک ممّا يصحبه أولیاء ه، وأديم مصحب : أُصْحِبَ الشّعر الذي عليه ولم يُجَزَّ عنه . ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَهُوَ يُحاوِرُهُ [ الكهف/ 34] تو اس کادوست جو اس سے گفتگو کر رہا تھا کہنے لگا ۔ أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ [ الكهف/ 9] کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور لوح والے ۔ وَأَصْحابِ مَدْيَنَ [ الحج/ 44] اور مدین کے رہنے والے بھی ۔ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] وہ جنت کے مالک ہوں گے ( اور ) ہمیشہ اس میں ( عیش کرتے ) رہیں گے ۔ وَلا تَكُنْ كَصاحِبِ الْحُوتِ [ القلم/ 48] اور مچھلی ) کا لقمہ ہونے والے ( یونس (علیہ السلام) کی طرح نہ ہونا ۔ اور آیت : ۔ مِنْ أَصْحابِ السَّعِيرِ [ فاطر/ 6]( تاکہ وہ ) دوزخ والوں میں ہوں ۔ اور آیت کریمہ : وَما جَعَلْنا أَصْحابَ النَّارِ إِلَّا مَلائِكَةً [ المدثر/ 31] اور ہم نے دوزخ کے دروغہ فرشتے بنائے ہیں ۔ میں اصحاب النار سے دوزخی مراد نہیں ہیں بلکہ دوزخ کے داردغے مراد ہیں جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے ۔ پھر صاحب کا لفظ کبھی ان کی طرف مضاف ہو تو ہے جو کسی کے زیر نگرانی ہوتے ہیں جیسے صاحب الجیش ( فوج کا حاکم اور کبھی حاکم کی طرف جیسے صاحب الاسیر ( بادشاہ کا وزیر ) المصاحبۃ والا صطحاب میں بنسبت لفظ الاجتماع کے مبالغہ پایا جاتا ہے کیونکہ مصاحبۃ کا لفظ عرصہ دراز تک ساتھ رہنے کو مقتضی ہے اور لفظ اجتماع میں یہ شرط نہیں ہے لہذا اصطحاب کے موقعہ پر اجتماع کا لفظ تو بول سکتے ہیں مگر اجتماع کی جگہ پر ہر مقام میں اصطحاب کا لفظ نہین بول سکتے اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ/ 46] تمہارے رفیق کو سودا نہیں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صاحبکم کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ تم نے ان کے ساتھ زندگی بسر کی ہے ان کا تجربہ کرچکے ہو اور ان کے ظاہر و باطن سے واقف ہوچکے ہو پھر بتاؤ کہ ان میں کوئی دماغی خلل یا دیوانگی پائی جاتی ہے یہی معنی آیت وما صاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ [ التکوير/ 22] کے ہیں ۔ الا صحاب للشئی کے معنی ہیں وہ فرمانبردار ہوگیا اصل میں اس کے معنی کسی کا مصاحب بن کر اس کے ساتھ رہنے کے ہیں ۔ چناچہ اصحب فلان اس وقت بولتے ہیں جب کسی کا بیٹا بڑا ہو کر اس کے ساتھ رہنے لگے ۔ اور اصحب فلان فلانا کے معنی ہیں وہ اس کا ساتھی بنادیا گیا قرآن میں ہے : ۔ وَلا هُمْ مِنَّا يُصْحَبُونَ [ الأنبیاء/ 43] اور نہ ہم سے پناہ ہی دیئے جائیں گے ۔ یعنی ہماری طرف سے ان پر سکینت تسلی کشائش وغیرہ کی صورت میں کسی قسم کا ساتھ نہیں دیا جائے گا جیسا کہ اس قسم کی چیزوں سے اولیاء اللہ کی مدد کی جاتی ہے ۔ ادیم مصحب : کچا چمڑہ جس سے بال نہ اتارے گئے ہوں ۔ جحم الجُحْمَة : شدة تأجج النار، ومنه : الجحیم، وجَحَمَ وجهه من شدة الغضب، استعارة من جحمة النار، وذلک من ثوران حرارة القلب، وجَحْمَتَا الأسد : عيناه لتوقدهما . ( ج ح م ) الجحمۃ آگ بھڑکنے کی شدت اسی سے الجحیم ( فعیل ہے جس کے معنی ( دوزخ یا دہکتی ہوئی آگ کے ہیں ۔ اور جحمۃ النار سے بطور استعارہ جحم استعار ہوتا ہے جس کے معنی غصہ سے چہرہ جل بھن جانے کے ہیں کیونکہ غصہ کے وقت بھی حرارت قلب بھڑک اٹھتی ہے کہا جاتا ہے : ۔ جحم ( ف ) الا سد بعینیۃ شیر نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا کیونکہ شیر کی آنکھیں بھی آگ کی طرح روشن ہوتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٩) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی توحید اور قرآن حکیم کے ساتھ بھیجا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس کے لیے جنت کی خوشخبری دینے والے اور جو کفر کرے اس کو دوزخ سے ڈرانے والے ہیں اور آپ سے اہل جہنم کے بارے میں سوال نہیں ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٩ (اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ بالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا لا) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کی بنیادی حیثیت یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل حق کو جنت اور اس کی تمام تر نعمتوں کی بشارت دیں ‘ اور جو غلط راستے پر چل پڑیں ‘ کفر کریں ‘ منافقت میں مبتلا ہوں ‘ ملحد ہوں اور بدعملی کریں ان کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ خبردار کردیں کہ ان کے لیے جہنم تیار کردی گئی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام دعوت ‘ ابلاغ ‘ تبلیغ اور نصیحت ہے۔ (وَّلاَ تُسْءَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ ) ۔ جو لوگ اپنے طرز عمل کی بنا پر جہنم کے مستحق قرار پا گئے ہیں ان کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذمہّ دار نہیں ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ یہ کیوں جہنم میں پہنچ گئے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہوتے ہوئے یہ جہنمی کیوں ہوگئے ؟ نہیں ‘ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ کون جنت میں جانا چاہتا ہے اور کون جہنم میں ‘ یہ آدمی کا اپنا فیصلہ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام حق کو واضح کردینا ہے ‘ اس کی وضاحت میں کمی نہ رہ جائے ‘ حق واضح ہوجائے ‘ کوئی اشتباہ باقی نہ رہے ‘ بس یہ ذمہ داری آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہے ‘ اس سے زیادہ نہیں۔ انسان اگر اپنی اصل مسؤلیت سے زیادہ ذمہ داری اپنے سر پر ڈال لے تو خواہ مخواہ مشکل میں پھنس جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کی بہت سی جماعتیں اسی طرح کی غلطیوں کی وجہ سے غلط راستے پر پڑگئیں اور پوری کی پوری تحریکیں برباد ہوگئیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہتے تھے کہ کسی طرح یہ علماء یہود ایمان لے آئیں اور جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔ ان کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے حضور دعائیں کی ہوں گی۔ جیسے مکی دور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعائیں مانگتے تھے کہ اے اللہ ! عمرو بن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے کسی ایک کو تو میری جھولی میں ڈال دے اور اس کے ذریعے سے اسلام کو قوت عطا فرما !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

120. Why speak of other signs when the most conspicuous sign of Truth is the very person of Muhammad? Let us recall his life before the commencement of his prophethood, the conditions existing in the area where, and the people among whomn, he was born, the manner in which he was brought up and spent the first forty years of his life, and then his glorious achievements as a Prophet. What further signs could we want in support of his message?

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :120 یعنی دُوسری نشانیوں کا کیا ذکر ، نمایاں ترین نشانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی شخصیّت ہے ۔ آپ ؐ کے نبوّت سے پہلے کے حالات ، اور اس قوم اور ملک کے حالات جس میں آپ ؐ پیدا ہوئے ، اور وہ حالات جن میں آپ نے پرورش پائی اور ٤۰ برس زندگی بسر کی ، اور پھر وہ عظیم الشان کارنامہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کے بعد آپ نے انجام دیا ، یہ سب کچھ ایک ایسی روشن نشانی ہے جس کے بعد کسی اور نشانی کی حاجت نہیں رہتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی کبھی اس بات کا رنج ہوتا تھا کہ باوجود کم فہمایش اور کافی دلیلوں کے اہل عرب اور اہل کتاب میں کے بہکے ہوئے لوگ راہ راست پر کیوں نہیں آتے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا یہ رنج رفع کرنے کو یہ آیت نازل فرمائی اور فرمایا کہ باوجود فہمائش کے جو لوگ راہ راست پر نہیں آتے ان کے باب میں قیامت کے دن تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ راہ راست پر کیوں نہیں آئے۔ راہ راست پر لانا خدا کا کام ہے تمہارا کام صرف اتنا ہی ہے کہ راہ راست والوں کو نجات اخروی کی خوش خبری کی اور گمراہی کو خرابی عقبیٰ کی آیتیں سنانے کی کوشش کرتے رہو۔ اسکے بعد علم الٰہی میں جن لوگوں کا راہ راست پر نہ آنا اور ان سے دوزخ بھر جانا قرار پا چکا ہے وہ تو آخر ہو کر رہے گا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

بشیراو نزیرا (بشارت دینے والا۔ اور ڈرانے والا) دونوں حال ہیں ارسلنک کے کاف سے۔ اصحب الجحیم مضاف مضاف الیہ۔ دوزخی۔ جحیم دہکتی ہوئی آگ۔ جحم آگ کے سخت بھڑکنے کو کہتے ہیں (باب سمع) سے آتا ہے۔ جحیم بروزن فعیل بمعنی فاعل ہے۔ سخت بھڑکنے والی آگ، دوزخ ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی آپ سے اس کے متعلق باز پرس نہیں ہوگی کہ یہ لوگ مسلمان کیوں نہیں ہوئے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یہاں تک یہود کی چالیں اور قباحتیں جن میں سے بعض میں نصاری بھی شریک ہیں بیان فرمائی گئیں ہیں آگے یہ بتلانا مقصود ہے کہ ایسے ہٹ دھرم لوگوں سے امید ایمان نہ رکھنی چاہیے اور اس میں رسول اللہ کا ازالہ غم وفکر ہے کہ آپ ان کے عام طور پر ایمان لانے سے مایوس ہوجائیے اور پریشانی اور کلفت دل سے دور کردیجیے اور علاوہ ان کے ان کی ایک اور قباحت کا بیان ہے کہ رسول اللہ کا اتباع کرنے کی ان کو کیا توفیق ہوتی وہ یہاں تک بلند پروازی کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ کو اپنی راہ پر چلانے کی فکر محال میں ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ ” ہم نے تم کو علم حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ “ ان کلمات میں اس قدر زور ہے کہ وہ گمراہی پھیلانے والوں کے گمراہ کن شبہات کو ختم کردیتے ہیں ۔ سازشیوں کی سازشوں کی جڑ کاٹ دیتے ہیں اور منافقین کی تلبیس اور تلقین کو ختم کردیتے ہیں ، نیز ان کلمات کا صوتی زیروبم بھی حزم ویقین کا مظہر ہے۔ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ” خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا۔ “ یعنی پیغام حق پہنچانا اور تبلیغ کرنا آپ کا بنیادی فریضہ ہے ، آپ اطاعت کرنے والوں کو خوشخبری دیں گے اور نافرمانوں کو ڈرائیں گے ۔ اس پر آپ کا فریضہ ادا ہوجائے گا ۔ وَلا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ (١١٩) ” جو جہنم سے رشتہ جوڑ چکے ہیں ان کی طرف سے تم ذمہ دار اور جواب دہ نہیں ہو۔ “ یہ لوگ ایسے ہیں جو اپنی مصیبت اور اس کے نتائج کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشیر و نذیر بنا کر بھیجے گئے اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے یہ فرمایا ہے کہ ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ اور آپ کا عہدہ یہ ہے کہ آپ جنت کی بشارت دیں اور دوزخ سے ڈرائیں بشارت میں وہ اعمال بتانا داخل ہے جود خول جنت کا سبب ہیں جن میں سب سے بڑی چیز ایمان ہے اور ڈرانے کے مفہوم میں ان اعمال سے باخبر کرنا شامل ہے جو دوزخ میں لے جانے والے ہیں جن میں سب سے بڑی چیز کفرو شرک ہے، اور یہ جو فرمایا کہ (وَّ لَا تُسْءَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ ) (کہ آپ سے دوزخ والوں کے بارے میں سوال نہ ہوگا) اس میں آپ کو تسلی دی گئی ہے کہ جو لوگ مسلمان نہ ہوں آپ ان کے بارے میں پریشان نہ ہوں آپ اپنا کام کیے جائیں۔ اللہ کا کلام پہنچائیں حق کو واضح طور پر بیان فرما دیں، آگے ایمان کو قبول کرنا یا نہ کرنا مخاطبین کی ذمہ داری ہے۔ آپ سے کوئی سوال نہ ہوگا کہ کافروں نے اسلام کیوں قبول نہ کیا اور وہ دوزخ کے مستحق کیوں ہوئے۔ زبردستی ایمان قبول کرانا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ آپ کا کام پہنچا دینا ہے اور ہمارا کام حساب لینا ہے۔ کما فی سورة الرعد (فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ وَ عَلَیْنَا الْحِسَابُ ) سورة غاشیہ میں فرمایا (فَذَکِّرْ اِِنَّمَا اَنْتَ مُذَکِّرٌ لَّسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ ) یعنی آپ حق کی یاد دہانی کرتے رہے آپ تو مُذَکرّ ہی ہیں (یاد دہانی کرنے والے ہیں آپ کو ان پر مسلط نہیں کیا گیا) ۔ اور سورة ق کے آخیر میں فرمایا (نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَقُوْلُوْنَ وَمَا اَنْتَ عَلَیْہِمْ بِجَبَّارٍ فَذَکِّرْ بالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ ) (یعنی ہم ان باتوں کو خوب جانتے ہیں جو وہ کہتے ہیں اور آپ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہیں سو آپ ان کو قرآن کے ذریعے نصیحت فرماتے رہیں جو میری وعید سے ڈرتا ہے۔ ) قال صاحب الروح والایۃ اعتراض لتسلیۃ الرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یضیق صدرہ لاصرارھم علی الکفر (الی ان قال) ای ارسلنک غیر مسؤل عن اصحاب الجحیم ما لھم لم یومنوا بعد ان بلغت ما ارسلت بہ والزمت الحجۃ علیھم۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

226 حق سے مراد قرآن اور دین اسلام ہے اور ظرف ارسلنا کے متعلق ہے (کبیر ص 701 ج 1) بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًایہ ضمیر خطاب سے حال ہے۔ وَّلَا تُسْـــَٔـلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِيْم۔ جو لوگ کفر و انکار کر کے جہنم میں چلے گئے ان کے متعلق آپ سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ آپ کی تبلیغ کا ان پر اثر کیوں نہیں ہوا، وہ ایمان کیوں نہیں لائے اور جہنم میں کیوں چلے گئے۔ جب اہل کتاب اور مشرکین کا کفر و انکار، ضد اور عناد کی حد تک پہنچ گیا۔ تو اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو محض شفقت علی الخلق کی بنا پر رنج اور افسوس ہوا۔ کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی کہ آپ اس فکر میں کیوں پڑتے ہیں۔ ہم نے آپ کو قرآن جیسی حق وصداقت اور رشد وہدایت سے لبریز کتاب دیکر بھیجا ہے اور آپ کا فرض صرف یہ ہے کہ آپ تبلیغ کا حق ادا کریں اور ماننے والوں کو خوشخبری اور نہ ماننے والوں کو ڈراوا سنادیں۔ باقی رہا منوانا تو یہ آپ کا فرض نہیں اور نہ ہی یہ آپ کے بس کی بات ہے۔ اس لیے جو لوگ کفر و انکار کر کے جہنم میں جاتے ہیں جائیں ان کے متعلق آپ سے کوئی سوال نہیں ہوگا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے ان کے عدم ایمان کا آپ کی طرف سے عذر بیان فرمادیا کہ اس بد انجام کا سبب وہ خود ہیں۔ آپ کی تبلیغ کا قصور نہیں۔ بےبسی وبیچارگی کی حد ہے۔ اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مالک ومختار اور متصرف ہوتے تو دنیا میں کوئی کافر نظر نہ آتا بلکہ آپ سب کو ایمان کی دولت سے مالا مال کردیتے۔ اب آگے یہود ونصاری کی اسلام سے شدت عداوت اور صلابت علی الکفر کا بیان فرمایا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اے پیغمبر ہم نے آپ کو خلق کی ہدایت کے لئے دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ آپ ایمان لانے والوں کو خوش خبری دیں اور منکروں کو عذاب خدا سے ڈرائیں اور آپ سے اہل دوزخ اور اصحاب جحیم کی کوئی باز پرس نہ ہوگی۔ (تیسیر) مدعا یہ ہے کہ آپ تک یہود کے دعاوی اور ان کے اقال فاسدہ کا رد تھا اسی سلسلے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا اعلان کیا اور آپ کی تسلی فرمائی۔ اعلان تو اس لئے کیا کہ اہل کتاب حق کو لے کر آئے ہیں اور آپ کا لقب بشیر و نذیر ہے اگر وہ چاہیں تو اہل کتاب سے دریافت کرلیں اور تسلی اس لئے کہ آپ اہل کتاب سے توقعات قائم نہ کریں یہ لوگ ماننے والے نہیں اور کسی کے ایمان لانے نہ لانے کے آپ ذمہ دار بھی نہیں اور نہ جہنم میں جانے والوں کی آپ سے کچھ باز پرس ہونے والی ہے ۔ چناچہ آگے اہل کتاب کی حالت بیان فرماتے ہیں کہ اے پیغمبران سے ایمان لانے کی امید نہ کرو اور نہ ان کو راضی کرنے اور خوش رکھنے کی فکرکرو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی تجھ پر الزام نہیں کہ ان کو مسلمان کیوں نہ کیا۔ (موضح القرآن) یہ باز پُرس کی تفصیل ہے کہ اگر کوئی ایمان نہ لائے گا تو وہ جہنم میں داخل ہوگا کیونکہ جہنم ایمان نہ لانے والوں کی جگہ ہے اور جب جہنم والوں کی آپ سے باز پرس نہیں تو کسی کے ایمان نہ لانے کا آپ پر الزام نہیں۔ (تسہیل)