Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 12

سورة البقرة

اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ الۡمُفۡسِدُوۡنَ وَ لٰکِنۡ لَّا یَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۲﴾

Unquestionably, it is they who are the corrupters, but they perceive [it] not.

خبردار ہو !یقیناً یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں لیکن شعور ( سمجھ ) نہیں رکھتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, they are the ones who make mischief, but they perceive not. This Ayah means that the hypocrites' behavior, and their claim that it is for peace, is itself mischief, although in their ignorance, they do not see it to be mischief.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

ف 1 فساد، اصلاح کی ضد ہے۔ کفر و معصیت سے زمین میں فساد پھیلاتا ہے اور اطاعت الٰہی سے امن و سکون ملتا ہے۔ ہر دور کے منافقین کا کردار یہی رہا ہے کہ پھیلاتے وہ فساد ہیں اشاعت وہ منکرات کی کرتے ہیں اور پامال حدود الٰہی کو کرتے ہیں اور سمجھتے اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ اصلاح اور ترقی کے لئے کوشاں ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] یعنی اس لگائی بجھائی اور ان کی حرکات و سکنات سے کافروں کا بھی ان سے اعتماد اٹھ جائے گا اور ان کی حیثیت && دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا && کے مصداق ہوجائے گی تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ ان کے اعمال سراسر فتنہ و فساد پر مشتمل تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰكِنْ لَّا يَشْعُرُوْنَ۝ ١٢ «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ { هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ } ( سورة آل عمران 119) دیکھو ! تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں فسد الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] ، ( ف س د ) الفساد یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔ شعور الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا . شعور حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢) جان لو یہی رکاوٹ ڈالنے والے ہیں، لیکن ان کے ضعیف لوگ نہیں سمجھتے کہ ان کے سردار ہی انکو گمراہ کررہے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ ( اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰکِنْ لاَّ یَشْعُرُوْنَ ) یہی تو ہیں جو فساد پھیلانے والے ہیں۔ اس لیے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت تو زمین میں اصلاح کے لیے ہے۔ اس اصلاح کے لیے کچھ آپریشن کرنا پڑے گا۔ اس لیے کہ مریض اس درجے کو پہنچ چکا ہے کہ آپریشن کے بغیر اس کی شفا ممکن نہیں ہے۔ اب اگر تم اس آپریشن کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہو تو درحقیقت تم فساد مچا رہے ہو ‘ لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں۔ آیت کے آخری الفاظ (وَلٰکِنْ لاَّ یَشْعُرُوْنَ ) سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ شعوری نفاق اور شے ہے ‘ جبکہ یہاں سارا تذکرہ غیر شعوری نفاق کا ہو رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:12) الا۔ خبردار ہوجاؤ، سن لو، جان لو، حرف تنبیہ ہے۔ ھم المفسدون۔ ھم۔ ضمیر جمع مذکر غائب، تاکید کے لئے ہے۔ المفسدون۔ اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر ہے۔ المفسد۔ واحد۔ فساد ڈالنے والے۔ بگاڑ کرنے والے (بےشک) یہی فساد ڈالنے والے ہیں ۔ لا یشعرون ۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب، وہ شعور نہیں رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے نہیں ہیں، نیز ملاحظہ ہو

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

تفسیر بالقرآن فسادی کون ؟ ١۔ منافقین (البقرۃ : ١١) ٢۔ زمین میں فساد لوگوں کے اعمال کا نتیجہ ہے (الروم : ٤١) ٣۔ یاجوج و ماجوج (الکہف : ٩٤) ٤۔ فرعون (یونس : ٩١) ٥۔ یہودی (المائدۃ : ٦٤) ٦۔ بچوں کے قاتل (القصص : ٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اَلآَ اِنَّہُم ھُمُ المُفسِدُونَ وَ ٰلکِن لَّا یَشعُرُونَ ” خبردار ! حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انہیں شعور نہیں ہے ۔ “ ان لوگوں کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ کبر و غرور میں مبتلا ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو عوام الناس سے اونچے درجے (Upper Class) کے لوگ سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کے دلوں میں اپنا جھوٹاوقار قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وَ اِذَا قِیلَ لَہُم اٰمِنُوا کَمَآ ٰامَنَ النَّاسُ قَالُوآ اَنُؤمِنُ کَمَآ ٰامَنَ السُّفَہَاءُ ، اَلآَ اِنَّہُم ھُمُ السُّفَہَآءُ وَلَکِن لَّا یَعلَمُون ” اور جب ان سے کہا گیا کہ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں اسی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لائیں ؟ خبردار حقیقت میں یہ تو خود بیوقوف ہیں ، مگر جانتے نہیں ۔ “ حقیقت یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں منافقین کو جس چیز کی طرف بلایا جارہا تھا وہ یہ تھی کہ وہ مخلصانہ طور پر ایمان لے آئیں اور اپنے ایمان کی ذاتی خواہشات سے پاک کردیں ۔ جس طرح دوسرے مخلصین اپنی انفرادیت ختم کرکے پوری طرح اسلام کے اندر جذب ہوگئے تھے ۔ اور انہوں نے اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کردیا تھا اور انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اپنے دلوں کے تمام دریچے کھول دیئے تھے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں جو ہدایت بھی دیتے وہ اخلاص اور بےنفسی سے لبیک کہتے تھے ۔ چناچہ منافقین کو دعوت دی جارہی تھی کہ وہ بھی ان لوگوں کی طرح اخلاص ۔ استقامت اور واضح اور صاف دل و دماغ کے ساتھ ایمان لائیں ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ منافقین ان معنوں میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پوری طرح جھکنے کے لئے تیار نہ تھے ۔ وہ اپنے آپ کو اعلیٰ طبقے (Upper Class) کے لوگ سمجھتے تھے ۔ اور کہتے تھے کہ ان کے لئے تسلیم ورضا کی یہ کیفیت ضروری نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مومنین کے بارے میں کہتے تھے کہ کیا ہم ان بیوقوفوں کی طرح اندھی اطاعت کرتے پھریں اور قرآن نے بھی اس سختی ، تاکید اور جزم کے ساتھ ان کے اس زعم باطل کی تردید کی ۔” خبردار ! حقیقت میں تو یہ خود بیوقوف ہیں مگر جانتے نہیں ۔ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21 ۔ یہ منافقوں کے دعویٰ کا نہایت ہی بلیغ طریقہ سے رد ہے۔ جملہ مستانفہ لا کر اور حرف تنبیہ سے سامعین کو متوجہ کر کے حرف تاکید اور کلمہ حصر سے اس حقیقت کو واضح فرمایا کہ یہ لوگ مصلح ہونے کا دعوی کر رہے ہیں حالانکہ فتنہ و فساد کا سرچشمہ یہی لوگ ہیں اور زیادہ تر فساد انہیں کے ذریعے پھیل رہا ہے۔ 22 ۔ ان کے دل مرض نفاق کی وجہ سے اس حد تک مردہ اور بےحس ہوچکے تھے کہ اصلاح و فساد میں امتیاز نہیں کرپاتے اور شر و فساد کو امن وصلاح قرار دے رہے ہیں۔ وھذا امانا شئی عن جھل مرکب فاعتقد وا الفساد صلاح واصروا واستکبروا استکبارا (روغ ص 153 ج 1)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 5۔ اور جب ان منافقین سے یہ کہا جائے کہ تم ملک میں فساد برپا نہ کرو تو یہ لوگ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنیوالے ہیں ۔ آگاہ رہو یہی لوگ فساد کرنیوالے ہیں مگر ان کو اپنے مفسد ہونے کا شعور نہیں ۔ ( تیسیر) فساد اور اصلاح یہ دو لفظ قرآن میں ہیں عام طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔ اگرچہ فساد کے اصل معنی تو حد اعتدال سے نکل جانے کے ہیں اور اصلاح اس کا مقابلہ ہے یعنی حد اعتدال کی پابندی کرنے کا نام اصلاح ہے مگر عام طور پر اس کے معنی ہر قسم کی شرارت اور ہر قسم کی درستی اور اصلاح کئے جاتے ہیں ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) نے فساد کا ترجمہ بگڑا اور اصلاح کا ترجمہ سنوار کیا ہے چونکہ آج کل یہ دونوں لفظ اردو میں بولے اور سمجھے جاتے ہیں ، اس لئے ہم نے ان کا کوئی خاص ترجمہ نہیں کیا ۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب ان کو ان کی خفیہ شرارتوں سے باز رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ اپنی مفسدانہ حرکات کا انکار کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم تو یہ بغیر اصلاح کے اور کچھ کرتے ہی نہیں ہیں ۔ حضرت حق ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ لوگ ہیں تو پرلے درجے کے مفسد اور شرارتی کیونکہ نہ تو خود اسلام قبول کرتے ہیں نہ دوسروں کو اسلام لانے دیتے ہیں لیکن ان کو اپنے مفسد ہونیکا احساس نہیں ۔ ( تسہیل)