Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 128

سورة البقرة

رَبَّنَا وَ اجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ ۪ وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَ تُبۡ عَلَیۡنَا ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿۱۲۸﴾

Our Lord, and make us Muslims [in submission] to You and from our descendants a Muslim nation [in submission] to You. And show us our rites and accept our repentance. Indeed, You are the Accepting of repentance, the Merciful.

اے ہمارے رب !ہمیں اپنا فرمانبردار بنا لے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنی اطاعت گزار رکھ اور ہمیں اپنی عبادتیں سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما تُو توبہ قبول فرمانے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Our Lord! And make us submissive unto You and of our offspring a nation submissive unto You, and show us our Manasik, and accept our repentance. Truly, You are the One Who accepts repentance, the Most Merciful. Ibn Jarir said, "They meant by their supplication, `Make us submit to Your command and obedience and not associate anyone with You in obedience or worship." Also, Ikrimah commented on the Ayah, رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ (Our Lord! And make us submissive unto You), "Allah said, `I shall do that."' وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ (And of our offspring a nation submissive unto You), Allah said, `I shall do that.'" This supplication by Ibrahim and Ismail is similar to what Allah informed us of about His believing servants, وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَجِنَا وَذُرِّيَّـتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَاماً And those who say: `Our Lord! Bestow on us from our wives and our offspring the comfort of our eyes, and make us leaders of the Muttaqin. (25:74) This type of supplication is allowed, because loving to have offspring who worship Allah alone without partners is a sign of complete love of Allah. This is why when Allah said to Ibrahim, إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا (Verily, I am going to make you an Imam (a leader) for mankind (to follow you)), (2:124), Ibrahim said, وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لاَ يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ ("And of my offspring (to make leaders)." (Allah) said, "My covenant (Prophethood) includes not the Zalimin (polytheists and wrongdoers)") (2:124) which is explained by, وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الاَصْنَامَ (And keep me and my sons away from worshipping idols) (14:35) Muslim narrated in his Sahih that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, إِذَا مَاتَ ابْنُ ادَمَ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلاَّ مِنْ ثَلَثٍ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَه When the son of Adam dies, his deeds end except for three deeds: an ongoing charity, a knowledge that is being benefited from and a righteous son who supplicates (to Allah) for him. The Meaning of Manasik Sa`id bin Mansur said that Attab bin Bashir informed us from Khasif, from Mujahid who said, "The Prophet Ibrahim supplicated, وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا (and show us our Manasik), Jibril then came down, took him to the House and said, `Raise its foundations.' Ibrahim raised the House's foundations and completed the building. Jibril held Ibrahim's hand, led him to As-Safa and said, `This is among the rituals of Allah.' He then took him to Al-Marwah and said, `And this is among the rituals of Allah.' He then took him to Mina until when they reached the Aqabah, they found Iblis standing next to a tree. Jibril said, `Say Takbir (Allah is the Great) and throw (pebbles) at him.' Ibrahim said the Takbir and threw (pebbles at) Iblis. Iblis moved to the middle Jamrah, and when Jibril and Ibrahim passed by him, Jibril said to Ibrahim, `Say Takbir and throw at him.' Ibrahim threw at him and said Takbir. The devious Iblis sought to add some evil acts to the rituals of Hajj, but he was unable to succeed. Jibril took Ibrahim's hand and led him to Al-Mash`ar Al-Haram and Arafat and said to him, `Have you Arafta (known, learned) what I showed you' thrice. Ibrahim said, `Yes I did."' Similar statements were reported from Abu Mijlaz and Qatadah.

تعمیر کعبہ پھر ایک مدت کے بعد حضرت ابراہیم کو اجازت ملی اور آپ تشریف لائے تو حضرت اسمٰعیل کو زمزم کے پاس ایک ٹیلے پر تیر سیدھے کرتے ہوئے پایا ، حضرت اسمٰعیل باپ کو دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے اور با ادب ملے جب باپ بیٹے ملے تو خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا اے اسماعیل مجھے اللہ کا ایک حکم ہوا ہے آپ نے فرمایا ابا جان جو حکم ہوا ہو اس کی تعمیل کیجئے ، کہا بیٹا تمہیں بھی میرا ساتھ دینا پڑے گا ۔ عرض کرنے لگے میں حاضر ہوں اس جگہ اللہ کا ایک گھربنانا ہے کہنے لگے بہت بہتر اب باپ بیٹے نے بیت اللہ کی نیو رکھی اور دیواریں اونچی کرنی شروع کیں ، حضرت اسمٰعیل پتھر لا لا کر دیتے جاتے تھے اور حضرت ابراہیم چنتے جاتے تھے جب دیواریں قدرے اونچی ہو گئیں تو حضرت ذبیح اللہ یہ پتھر یعنی مقام ابراہیم کا پتھر لائے ، اس اونچے پتھر پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم کعبہ کے پتھر رکھتے جاتے تھے اور دونوں باپ بیٹا یہ دعا مانگتے جاتے تھے کہ باری تعالیٰ تو ہماری اس ناچیز خدمت کو قبول فرمانا تو سننے اور جاننے والا ہے یہ روایت اور کتب حدیث میں بھی ہے کہیں مختصر اور کہیں مفصلاً ایک صحیح حدیث میں یہ بھی ہے کہ حضرت ذبیح اللہ کے بدلے جو دنبہ ذبح ہوا تھا اس کے سینگ بھی کعبۃ اللہ میں تھے اوپر کی لمبی روایت بروایت حضرت علی بھی مروی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام جب بھی کعبۃ اللہ شریف کے قریب پہنچے تو آپ نے اپنے سر پر ایک بادل سا ملاحظہ فرمایا جس میں سے آواز آئی کہ اے ابراہیم جہاں جہاں تک اس بادل کا سایہ ہے وہاں تک کی زمین بیت اللہ میں لے لو کمی زیادتی نہ ہو اس روایت میں یہ بھی ہے کہ بیت اللہ بنا کر وہاں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمٰعیل کو چھوڑ کر آپ تشریف لے گئے لیکن روایت ہی ٹھیک ہے اور اس طرح تطبیق بھی ہو سکتی ہے کہ بنا پہلے رکھدی تھی لیکن بنایا بعد میں ، اور بنانے میں بیٹا اور باپ دونوں شامل تھے جیسے کہ قرآن پاک کے الفاظ بھی ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے حضرت علی سے بناء بیت اللہ شروع کیفیت دریافت کی تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو حکم دیا کہ میرا گھر بناؤ حضرت ابراہیم گھبرائے کہ مجھے کہاں بنانا چاہئے کس طرح اور کتنا بڑا بنانا چاہئے وغیرہ اس پر سکینہ نازل ہوا اور حکم ہوا کہ جہاں یہ ٹھہرے وہاں تم میرا گھر بناؤ آپ نے بنانا شروع کیا جب حجر اسود کی جگہ پہنچے تو حضرت اسمٰعیل سے کہا بیٹا کوئی اچھا سا پتھر ڈھونڈ لاؤ تو دیکھا کہ آپ اور پتھر وہاں لگا چکے ہیں ، پوچھا یہ پتھر کون لایا ؟ آپ نے فرمایا اللہ کے حکم سے یہ پتھر حضرت جبرائیل آسمان سے لے کر آئے ، حضرت کعب احبار فرماتے ہیں کہ اب جہاں بیت اللہ ہے وہاں زمین کی پیدائش سے پہلے پانی پر بلبلوں کے ساتھ جھاگ سی تھی یہیں سے زمین پھیلائی گئی ، حضرت علی فرماتے ہیں کعبۃ اللہ بنانے کے لیے حضرت خلیل آرمینیہ سے تشریف لائے تھے حضرت سدی فرماتے ہیں حجر اسود حضرت جبرائیل ہند سے لائے تھے اس وقت وہ سفید چمکدار یا قوت تھا جو حضرت آدم نے بنا کی ، مسند عبد الرزاق میں ہے کہ حضرت آدم ہند میں اترے تھے اس وقت ان کا قد لمبا تھا زمین میں آنے کے بعد فرشتوں کی تسبیح نماز و دعا وغیرہ سنتے تھے جب قد گھٹ گیا اور وہ پیاری آوازیں آنی بند ہو گئیں تو آپ گھبرانے لگے حکم ہوا کہ مکہ کی طرف رکھا اور اسے اپنا گھر قرار دیا ، حضرت آدم یہاں طواف کرنے لگے اور مانوس ہوئے گھبراہٹ جاتی رہی حضرت نوح کے طوفان کے زمانہ میں یہ پھر اٹھ گیا اور حضرت ابراہیم کے زمانہ میں پھر اللہ تعالیٰ نے بنوایا حضرت آدم نے یہ گھر حرا طور زیتاحیل لبنان طور سینا اور جودی ان پانچ پہاڑوں سے بنایا تھا لیکن ان تمام روایتوں میں تفاوت ہے واللہ اعلم بعض روایتوں میں ہے کہ زمین کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے بیت اللہ بنایا گیا تھا ، حضرت ابراہیم کے ساتھ بیت اللہ کے نشان بتانے کے لیے حضرت جبرائیل چلے تھے اس وقت یہاں جنگلی درختوں کے سوا کچھ نہ تھا کس دور عمالیق کی آبادی تھی یہاں آپ حضرت ام اسماعیل کو اور حضرت اسمٰعیل کو ایک چھپر تلے بٹھا گے ایک اور روایت میں ہے کہ بیت اللہ کے چار ارکان ہیں اور ساتویں زمین تک وہ نیچے ہوتے ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ ذوالقرنین جب یہاں پہنچے اور حضرت ابراہیم کو بیت اللہ بناتے ہوئے دیکھا تو پوچھا یہ کیا کر رہے ہو؟ تو انہوں نے کہا اللہ کے حکم سے اس کا گھر بنا رہے ہیں پوچھا کیا دلیل؟ کہا یہ بھیڑیں گواہی دیں گی پانچ بھیڑوں نے کہا ہم گواہی دیتی ہیں کہ یہ دونوں اللہ کے مامور ہیں ، ذوالقرنین خوش ہو گئے اور کہنے لگے میں نے مان لیا الرزقی کی تاریخ مکہ میں ہے کہ ذوالقرنین نے خلیل اللہ اور ذبیح اللہ کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کیا واللہ اعلم صحیح بخاری میں ہے قواعد بنیان اور اساس کو کہتے ہیں یہ قاعدہ کی جمع ہے قرآن میں اور جگہ آیت ( وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ لَا يَرْجُوْنَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ اَنْ يَّضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجٰتٍۢ بِزِيْنَةٍ ) 24 ۔ النور:60 ) بھی آیا ہے اس کا مفرد بھی قاعدۃ ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کیا تم نہیں دیکھتیں کہ تمہاری قوم نے جب بیت اللہ بنایا تو قواعد ابراہیم سے گھٹا دیا میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ اسے بڑھا کر اصلی بنا کر دیں فرمایا کہ اگر تیری قوم نے جب بیت اللہ بنایا تو قواعد ابراہیم سے گھٹا دیا میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ اسے بڑھا کر اصلی بنا کر دیں فرمایا کہ اگر تیری قوم کا اسلام تازہ اور ان کا زمانہ کفر کے قریب نہ ہوتا تو میں ایسا کر لیتا حضرت عبداللہ بن عمر کو جب یہ حدیث پہنچی تو فرمانے لگے شاید یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کے پاس کے دوستونوں کو چھوتے نہ تھے صحیح مسلم شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اے عائشہ اگر تیری قوم کا جاہلیت کا زمانہ نہ ہوتا تو میں کعبہ کے خزانہ کو اللہ کی راہ میں خیرات کر ڈالتا اور دروازے کو زمین دوز کر دیتا اور حطیم کو بیت اللہ میں داخل کر دیتا صحیح بخاری میں یہ بھی ہے کہ میں اس کا دوسرا دروازہ بھی بنا دیتا ایک آنے کے لیے اور دوسرا جانے کے لیے چنانچہ ابن زبیر نے اپنے زمانہ خلافت میں ایسا ہی کیا اور ایک روایت میں ہے کہ اسے میں دوبارہ بنائے ابراہیمی پر بناتا ۔ دوسری روایت میں ہے کہ ایک دروازہ مشرق رخ کرتا اور دوسرا مغرب رخ اور چھ ہاتھ حطیم کو اس میں داخل کر لیتا جسے قریش نے باہر کر دیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پانچ سال پہلے قریش نے نئے سرے سے کعبہ بنایا تھا اس کا مفصل ذکر ملاحظہ ہو اس بنا میں خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شریک تھے آپ کی عمر پینتیس سال کی تھی اور پتھر آپ بھی اٹھاتے تھے محمد بن اسحاق بن یسار رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک پینتیس سال کی ہوئی اس وقت قریش نے کعبۃ اللہ کو نئے سرے سے بنانے کا ارادہ کیا ایک تو اس لئے کہ اس کی دیواریں بہت چھوٹی تھیں چھت نہ تھی دوسرے اس لئے بھی کہ بیت اللہ کا خزانہ چوری ہو گیا تھا جو بیت اللہ کے بیچ میں ایک گہرے گڑھے میں رکھا ہوا تھا یہ مال دویک کے پاس ملا تھاجو خزائمہ کے قبیلے بنی ملیح بن عمرو کا مولی تھا ممکن ہے چوروں نے یہاں لا رکھا ہو لیکن اس کے ہاتھ اس چوری کی وجہ سے کاٹے گئے ایک اور قدرتی سہولت بھی اس کے لیے ہو گئی تھی کہ روم کے تاجروں کی ایک کشتی جس میں بہت اعلیٰ درجہ کی لکڑیاں تھیں وہ طوفان کی وجہ سے جدہ کے کنارے آ لگی تھی یہ لکڑیاں چھت میں کام آ سکتی تھیں اس لیے قریشیوں نے انہیں خرید لیا اور مکہ کے ایک بڑھئی جو قبطی قبیلہ میں سے تھا کو چھت کا کام سونپا یہ سب تیاریاں تو ہو رہی تھیں لیکن بیت اللہ کو گرانے کی ہمت نہ پڑتی تھی اس کے قدرتی اسباب بھی مہیا ہو گئے بیت اللہ کے خزانہ میں ایک بڑا اژدھا تھا جب کبھی لوگ اس کے قریب بھی جاتے تو وہ منہ پھاڑ کر ان کی طرف لپکتا تھا یہ سانپ ہر روز اس کنویں سے نکل کر بیت اللہ کی دیواروں پر آ بیٹھتا تھا ایک روز وہ بیٹھا ہوا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑا پرندہ بھیجا وہ اسے پکڑ کر لے اڑا قریشیوں نے سمجھ لیا کہ ہمارا ارادہ مرضی مولا کے مطابق ہے لکڑیاں بھی ہمیں مل گئیں بڑھئی بھی ہمارے پاس موجود ہے سانپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے دفع کیا ۔ اب انہوں نے مستقل ارادہ کر لیا کہ کعبۃ اللہ کو گرا کر نئے سرے سے بنائیں ۔ سب سے پہلے ابن وہب کھڑا ہوا اور ایک پتھر کعبۃ اللہ کو گرا کر اتارا جو اس کے ہاتھ سے اڑ کر پھر وہیں جا کر نصب ہو گیا اس نے تمام قریشیوں سے خطاب کر کے کہا سنو بیت اللہ کے بنانے میں ہر شخص اپنا طیب اور پاک مال خرچ کرے ۔ اس میں زنا کاری کا روپیہ سودی بیوپار کا روپیہ ظلم سے حاصل کیا ہوا مال نہ لگانا ، بعض لوگ کہتے ہیں یہ مشورہ ولید بن مغیرہ نے دیا تھا اب بیت اللہ کے حصے بانٹ لئے گئے دروازہ کا حصہ بنو عبد مناف اور زہرہ بنائیں حجر اسود اور رکن یمانی کا حصہ بنی مخزوم بنائیں ۔ قریش کے اور قبائل بھی ان کا ساتھ دیں ۔ کعبہ کا پچھلا حصہ بنو حمج اور سہم بنائیں ۔ حطیم کے پاس کا حصہ بنو عبد الدار بن قصف اور بنو اسد بن عبد العزی اور بنو عدی بن کعب بنائیں ۔ یہ مقرر کر کے ابن بنی ہوئی عمارت کو ڈھانے کے لیے چلے لیکن کسی کو ہمت نہیں پڑتی کہ اسے مسمار کرنا شروع کرے آخر ولید بن مغیرہ نے کہا لو میں شروع کرتا ہوں کدال لے کر اوپر چڑھ گئے اور کہنے لگے اے اللہ تجھے خوب علم ہے کہ ہمارا ارادہ برا نہیں ہم تیرے گھر کو اجاڑنا نہیں چاہتے بلکہ اس کے آباد کرنے کی فکر میں ہیں ۔ یہ کہہ کر کچھ حصہ دونوں رکن کے کناروں کا گرایا قریشیوں نے کہا بس اب چھوڑو اور رات بھر کا انتظار کرو اگر اس شخص پر کوئی وبال آ جائے تو یہ پتھر اسی جگہ پر لگا دینا اور خاموش ہو جانا اور اگر کوئی عذاب نہ آئے تو سمجھ لینا کہ اس کا گرانا اللہ کو ناپسند نہیں پھر کل سب مل کر اپنے اپنے کام میں لگ جانا چنانچہ صبح ہوئی اور ہر طرح خیریت رہی اب سب آ گئے اور بیت اللہ کی اگلی عمارت کو گرا دیا یہاں تک کہ اصلی نیو یعنی بناء ابراہیمی تک پہنچ گئے یہاں سبز رنگ کے پتھر تھے کے ہلنے کے ساتھ ہی تمام مکہ کی زمین ہلنے لگی تو انہوں نے سمجھ لیا کہ انہیں جدا کر کے اور پتھر ان کی جگہ لگانا اللہ کو منظور نہیں اس لئے ہمارے بس کی بات نہیں اس ارادے سے باز رہے اور ان پتھروں کو اسی طرح رہنے دیا پھر ہر قبیلہ نے اپنے اپنے حصہ کے مطابق علیحدہ علیحدہ پتھر جمع کئے اور عمارت بننی شروع ہوئی یہاں تک کہ باقاعدہ جنگ کی نوبت آ گئی فرقے آپس میں کھچ گئے اور لڑائی کی تیاریاں میں مشغول ہو گئے بنو عبد دار اور بنو عدی نے ایک طشتری میں خون بھر کر اس میں ہاتھ ڈبو کر حلف اٹھایا کہ سب کٹ مریں گے لیکن حجر اسود کسی کو نہیں رکھنے دیں گے اسی طرح چار پانچ دن گزر گئے پھر قریش مسجد میں جمع ہوئے کہ آپس میں مشورہ اور انصاف کریں تو ابو امیہ بن مغیرہ نے جو قریش میں سب سے زیادہ معمر اور عقلمند تھے کہا سنو لوگو تم اپنا منصف کسی کو بنا لو وہ جو فیصلہ کرے سب منظور کر لو ۔ لیکن پھر منصف بنانے میں بھی اختلف ہوگا اس لئے ایسا کرو کہ اب جو سب سے پہلے یہاں مسجد میں آئے وہی ہمارا منصف ۔ اس رائے پر سب نے اتفاق کر لیا ۔ اب منتظر ہیں کہ دیکھیں سب سے پہلے کون آتا ہے؟ پس سب سے پہلے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے ۔ آپ کو دیکھتے ہی یہ لوگ خوش ہو گئے اور کہنے لگے ہمیں آپ کا فیصلہ منظور ہے ہم آپ کے حکم پر رضا مند ہیں ۔ یہ تو امین ہیں یہ تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں ۔ پھر سب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ آپ کو کہہ سنایا آپ نے فرمایا جاؤ کوئی موٹی اور بڑی سی چادر لاؤ وہ لے آئے ۔ آپ نے حجر اسود اٹھا کر اپنے دست مبارک سے اس میں رکھا پھر فرمایا ہر قبیلہ کا سردار آئے اور اس کپڑے کا کونہ پکڑ لے اور اس طرح ہر ایک حجر اسود کے اٹھانے کا حصہ دار بنے اس پر سب لوگ بہت ہی خوش ہوئے اور تمام سرداروں نے اسے تھام کر اٹھا لیا ۔ جب اس کے رکھنے کی جگہ تک پہنچے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے کر اپنے ہاتھ سے اسی جگہ رکھ دیا اور وہ نزاع و اختلاف بلکہ جدال و قتال رفع ہو گیا اور اس طرح اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اپنے گھر میں اس مبارک پتھر کو نصب کرایا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے سے پہلے قریش آپ کو امین کہا کرتے تھے ۔ اب پھر اوپر کا حصہ بنا اور کعبۃ اللہ کی عمارت تمام ہوئی ابن اسحاق موررخ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کعبہ اٹھارہ ہاتھ کا تھا ۔ قباطی کا پردہ چڑھایا جاتا تھا پھر چادر کا پردہ چڑھنے لگا ۔ ریشمی پردہ سب سے پہلے حجاج بن یوسف نے چڑھایا ۔ کعبہ کی یہی عمارت رہی یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کی ابتدائی زمانہ میں ساٹھ سال کے بعد یہاں آگ لگی اور کعبہ جل گیا ۔ یہ یزید بن معاویہ کی ولایت کا آخری زمانہ تھا اور اس نے ابن زبیر کا مکہ میں محاصرہ کر رکھا تھا ۔ ان دنوں میں خلیفہ مکہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خالہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو حدیث سنی تھی اسی کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمنا پر بیت اللہ کو گرا کر ابراہیمی قواعد پر بنایا حطیم اندر شامل کر لیا ، مشرق و مغرب دو دروازے رکھے ایک اندر آنے کا دوسرا باہر جانے کا اور دروازوں کو زمین کے برابر رکھا آپ کی امارت کے زمانہ تک کعبۃ اللہ یونہی رہا یہاں تک کہ ظالم حجاج کے ہاتھوں آپ شہید ہوئے ۔ اب حجاج نے عبد الملک بن مروان کے حکم سے کعبہ کو پھر توڑ کر پہلے کی طرح بنا لیا ۔ صحیح مسلم شریف میں یزید بن معاویہ کے زمانہ میں جب کہ شامیوں نے مکہ شریف پر چڑھائی کی اور جو ہونا تھا وہ ہوا ۔ اس وقت حضرت عبداللہ نے بیت اللہ کو یونہی چھوڑ دیا ۔ موسم حج کے موقع پر لوگ جمع ہوئے انہوں نے یہ سب کچھ دیکھا بعد ازاں آپ نے لوگوں سے مشورہ لیا کہ کیا کعبۃ اللہ سارے کو گرا کر نئے سرے سے بنائیں یا جو ٹوٹا ہوا ہے اسکی اصلاح کر لیں؟ تو حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا میری رائے یہ ہے کہ آب جو ٹوٹا ہوا ہے اسی کی مرمت کر دیں باقی سب پرانا ہے رہنے دیں ۔ آپ نے فرمایا اگر تم میں سے کسی کا گھر جل جاتا تو وہ تو خوش نہ ہوتا جب تک اسے نئے سرے سے نہ بناتا پھر تم اپنے رب عزوجل کے گھر کی نسبت اتنی کمزور رائے کیوں رکھتے ہو؟ اچھا میں تین دن تک اپنے رب سے استخارہ کروں گا پھر جو سمجھ میں آئے گا وہ کروں گا ۔ تین دن کے بعد آپ کی رائے یہی ہوئی کہ باقی ماندہ دیواریں بھی توڑی جائیں اور از سرے نو کعبہ کی تعمیر کی جائے چنانچہ یہ حکم دے دیا لیکن کعبے کو توڑنے کی کسی کی ہمت نہیں پڑتی تھی ۔ ڈر تھا کہ جو پہلے توڑنے کے لیے چڑھے گا اس پر عذاب نازل ہو گا لیکن ایک باہمت شخص چڑھ گیا اور اس نے ایک پتھر توڑا ۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ اسے کچھ ایذاء نہیں پہنچی تو اب ڈھانا شروع کیا اور زمین تک برابر یکساں صاف کر دیا اس وقت چاروں طرف ستون کھڑے کر دئیے تھے اور ایک کپڑا تان دیا تھا ۔ اب بناء بیت اللہ شروع ہوئی ۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سنا وہ کہتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اگر لوگوں کا کفر کا زمانہ قریب نہ ہوتا اور میرے پاس خرچ بھی ہوتا جس میں بنا سکوں تو حطیم میں سے پانچ ہاتھ بیت اللہ میں لے لیتا اور کعبہ کے دو دروازے کرتا ایک آنے کا اور ایک جانے کا حضرت عبداللہ نے یہ روایت بیان کر کے فرمایا اب لوگوں کے کفر کا زمانہ قریب کا نہیں رہا ان سے خوف جاتا رہا اور خزانہ بھی معمور ہے میرے پاس کافی روپیہ ہے پھر کوئی وجہ نہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمنا پوری نہ کروں چنانچہ پانچ ہاتھ حطیم اندر لے لی اور اب جو دیوار کھڑی کی تو ٹھیک ابراہیمی بنیاد نظر آنے لگی جو لوگوں نے اپنی آنکھوں دیکھ لی اور اسی پر دیوار کھڑی کی بیت اللہ کا طول اٹھارہ ہاتھ تھا اب جو اس میں پانچ ہاتھ اور بڑھ گیا تو چھوٹا ہو گیا اس لیے طول میں دس ہاتھ اور بڑھایا گیا اور دو دروازے بنائے گئے ایک اندر آنے کا دوسرا باہر جانے کا ابن زبیر کی شہادت کے بعد حجاج بن عبد الملک کو لکھا اور ان سے مشورہ لیا کہ اب کیا کیا جائے؟ یہ بھی لکھ بھیجا کہ مکہ شریف کے عادلوں نے دیکھا ہے ٹھیک حضرت ابراہیم کی نیو پر کعبہ تیار ہوا ہے لیکن عبد الملک نے جواب دیا کہ طول کو تو باقی رہنے دو اور حطیم کو باہر کر دو اور دوسرا دروازہ بند کر دو ۔ حجاج نے اس حکم کے مطابق کعبہ کو تڑوا کر پھر اسی بنا پر بنا دیا لیکن سنت طریقہ یہی تھا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر کی بناء کو باقی رکھا جاتا اس لئے کہ حضور علیہ السلام کی چاہت یہی تھی لیکن اس وقت آپ کو یہ خوف تھا کہ لوگ بد گمانی نہ کریں ابھی نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہیں لیکن یہ حدیث عبد الملک بن مروان کو نہیں پہنچی تھی اس لئے انہوں نے اسے تڑوا دیا جب انہیں حدیث پہنچی تو رنج کرتے تھے اور کہتے تھے کاش کہ ہم یونہی رہنے دیتے اور نہ تڑاتے چنانچہ صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حارث عبید اللہ جب ایک وفد میں عبد الملک بن مروان کے پاس پہنچے تو عبد الملک نے کہا میرا خیال ہے کہ ابو حبیب یعنی عبداللہ بن زبیر نے ( اپنی خالہ ) حضرت عائشہ سے یہ حدیث سنی ہو گی حارث نے کہا ضرور سنی تھی خود میں نے بھی ام المومنین سے سنا ہے پوچھا تم نے کیا سنا ہے؟ کہا میں نے سنا ہے آپ فرماتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا کہ عائشہ تیری قوم نے بیت اللہ کو تنگ کر دیا ۔ اگر تیری قوم کا زمانہ شرک کے قریب نہ ہوتا تو میں نئے سرے سے ان کی کمی کو پورا کر دیتا لیکن آؤ میں تجھے اصلی نیو بتا دوں شاید کسی وقت تیری قوم پھر اسے اس کی اصلیت پر بنانا چاہے تو آپ نے حضرت صدیقہ کو حطیم میں سے قریباً سات ہاتھ اندر داخل کرنے کو فرمایا اور فرمایا میں اس کے دروازے بنا دیتا ایک آنے کے لیے اور دوسرا جانے کے لیے اور دونوں دروازے زمین کے برابر رکھتا ایک مشرق رخ رکھتا دوسرا مغرب رخ جانتی بھی ہو کہ تمہاری قوم نے دروازے کو اتنا اونچا کیوں رکھا ہے؟ آپ نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے خبر نہیں فرمایا محض اپنی اونچائی اور بڑائی کے لیے کہ جسے چاہیں اندر جانے دیں اور جسے چاہیں داخل نہ ہونے دیں جب کوئی شخص اندر جانا چاہتا تو اسے اوپر سے دھکادے دیتے وہ گر پڑتا اور جسے داخل کرنا چاہتے اسے ہاتھ تھام کر اندر لے لیتے ۔ عبد الملک نے کہا اسے حارث خود سنا ہے تو تھوڑی دیر تک تو عبد الملک اپنی لکڑی ٹکائے سوچتے رہے پھر کہنے لگے کاش کہ میں اسے یونہی چھوڑ دیتا صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ عبد الملک بن مروان نے ایک مرتبہ طواف کرتے ہوئے حضرت عبداللہ کو کوس کر کہا کہ وہ حضرت عائشہ پر اس حدیث کا بہتان باندھنا تھا تو حضرت حارث نے روکا اور شہادت دی کہ وہ سچے تھے میں نے بھی حضرت صدیقہ سے یہ سنا ہے اب عبد الملک افسوس کرنے لگے اور کہنے لگے اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا تو میں ہرگز اسے نہ توڑتا ۔ قاضی عیاض اور امام نووی نے لکھا ہے خلیفہ ہارون رشید نے حضرت امام مالک سے پوچھا تھا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں پھر کعبہ کو حضرت ابن زبیر کے بنائے ہوئے کے مطابق بنا دوں ، امام مالک نے فرمایا آپ ایسا نہ کیجئے ایسا نہ ہو کہ کعبہ بادشاہوں کا ایک کھلونا بن جائے جو آئے اپنی طبیعت کے مطابق توڑ پھوڑ کرتا رہے چنانچہ خلیفہ اپنے ارادے سے باز رہے یہی بات ٹھیک بھی معلوم ہوتی ہے کہ کعبہ کو بار بار چھیڑنا ٹھیک نہیں ۔ بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کعبہ کو دو چھوٹی پنڈلیوں والا ایک حبشی پھر خراب کرے گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں گویا میں اسے دیکھ رہا ہوں وہ سیاہ فام ایک ایک پتھر الگ الگ کر دے گا اس کا غلاف لے جائے گا اور اس کا خزانہ بھی وہ ٹیڑھے ہاتھ پاؤں والا اور گنجا ہوگا میں دیکھ رہا ہوں کہ گویا وہ کدال بجا رہا ہے اور برابر ٹکڑے کر رہا ہے غالباً یہ ناشدنی واقعہ ( جس کے دیکھنے سے ہمیں محفوظ رکھے ) یاجوج ماجوج کے نکل چکنے کے بعد ہوگا ۔ صحیح بخاری شریف کی ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم یاجوج ماجوج کے نکلنے کے بعد بھی بیت اللہ شریف کا حج و عمرہ کرو گے ۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل اپنی دعا میں کہتے ہیں کہ ہمیں مسلمان بنالے یعنی مخلص بنا لے مطیع بنا لے موجود ہر شر سے بچا ۔ ریا کاری سے محفوظ رکھ خشوع وخضوع عطا فرما ۔ حضرت سلام بن ابی مطیع فرماتے ہیں مسلمان تو تھے ہی لیکن اسلام کی ثابت قدمی طلب کرتے ہیں جس کے جواب میں ارشاد باری ہوا قد فعلت میں نے تمہاری یہ دعا قبول فرمائی پھر اپنی اولاد کے لیے بھی یہی دعا کرتے ہیں جو قبول ہوتی ہے بنی اسرائیل بھی آپ کی اولاد میں ہیں اور عرب بھی قرآن میں ہے آیت ( وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ ) 7 ۔ الاعراف:159 ) یعنی موسیٰ کی قوم میں ایک جماعت حق عدل پر تھی لیکن روانی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے لیے یہ دعا گو عام طور پر دوسروں پر بھی مشتمل ہو اس لیے کہ اس کے بعد دوسری دعا میں ہے کہ ان میں ایک رسول بھیج اور اس رسول سے مراد حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں چنانچہ یہ دعا بھی پوری ہوئی جیسے فرمایا آیت ( ھو الذی بعث فی الامیین رسولا منھم ) لیکن اس سے آپ کی رسالت خاص نہیں ہوتی بلکہ آپ کی رسالت عام ہے عرب عجم سب کے لیے جیسے آیت ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا ) 7 ۔ الاعراف:158 ) کہ دو کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔ ان دونوں نبیوں کی یہ دعا جیسی ہے ایسی ہی ہر متقی کی دعا ہونی چاہئے ۔ جیسے قرآنی تعلیم ہے کہ مسلمان یہ دعا کریں آیت ( رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا ) 25 ۔ الفرقان:74 ) اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولادوں سے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیز گاروں کا امام بنا ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کی دلیل ہے انسان یہ چاہے کہ میری اولاد میرے بعد بھی اللہ کی عابد رہے ۔ اور جگہ اس دعا کے الفاظ یہ ہیں آیت ( وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ ) 14 ۔ ابراہیم:35 ) اے اللہ مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں انسان کے مرتے ہی اس کے اعمال ختم ہو جاتے ہیں مگر تین کام جاری رہتے ہیں صدقہ ، علم جس سے نفع حاصل کیا جائے اور نیک اولاد جو دعا کرتی رہے ( مسلم ) پھر آپ دعا کرتے ہیں کہ ہمیں مناسک دکھا یعنی احکام و ذبح وغیرہ سکھا ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کو لے کر کعبہ کی عمارت پوری ہو جانے کے بعد صفا پر آتے ہیں پھر مروہ پر جاتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ شعائر اللہ ہیں پھر منی کی طرف لے چلے عقبہ پر شیطان درخت کے پاس کھڑا ہوا ملا تو فرمایا تکبیر پڑھ کر اسے کنکر مارو ۔ ابلیس یہاں سے بھاگ کر جمرہ وسطی کے پاس جا کھڑا ہوا ۔ یہاں بھی اسے کنکریاں ماریں تو یہ خبیث ناامید ہو کر چلا گیا ۔ اس کا ارادہ تھا کہ حج کے احکام میں کچھ دخل دے لیکن موقع نہ ملا اور مایوس ہو گیا یہاں سے آپ کو مشعر الحرام میں لائے پھر عرفات میں پہنچایا پھر تین پوچھا کہو سمجھ لیا ۔ آپ نے فرمایا ہاں دوسری روایت میں تین جگہ شیطان کو کنکریاں مارنی مروی ہیں اور یہ شیطان کو سات سات کنکریاں ماری ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥٧] یہ دونوں پیغمبر جب خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے تو ساتھ ساتھ دعا بھی کر رہے تھے کہ الٰہی : ہماری یہ خدمت قبول فرما اور اپنا مسلم (مطیع فرماں) بنا، اور ہماری اولاد میں سے ایک مسلم قوم پیدا کر، اور مسلم وہ ہوتا ہے جو اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور اپنے آپ کو کلیتاً اللہ کے سپرد کر دے اور اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق دنیا میں زندگی بسر کرے۔ اس عقیدے اور طرز عمل کا نام اسلام ہے اور یہی تمام انبیاء کا دین رہا ہے۔ [ ١٥٨] مناسک کا لفظ عموماً حج کے آداب و ارکان اور قربانی کے احکام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کے وسیع مفہوم میں عبادت کے سب طریقے شامل ہیں۔ [ ١٥٩] انبیاء سے عمداً کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا، رہی خطا تو بھول چوک امت سے تو معاف ہے۔ مگر انبیاء کی شان اتنی بڑی ہے کہ ذرا سی غفلت ان کے حق میں گناہ سمجھی جاتی ہے۔ اسی لیے انبیاء (علیہم السلام) معصوم ہونے کے باوجود عوام الناس کی نسبت بہت زیادہ توبہ و استغفار کرتے رہتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verse 128 reports that he further prayed to Allah |"to make|" him and his son obedient to His commandments and to His Will. This prayer too proceeds from the same sense of fear and awe, and from the same knowledge. He has, all his life, been performing exemplary deeds of obedience, and yet he prays to |"be made|" obedient. It is so, because the more one grows in one&s knowledge of Divine Majesty, the more one comes to realize that one is not being faithful and obedient as is due. It is significant. that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) included his descendants too in his prayer. This shows that the |"men of Allah|" who never hesitate in sacrificing themselves and their children in the way of Allah, yet love them deeply. All the same, they know what the proper requirements of parental love are, and how they should be fulfilled. This is something beyond the reach of average men, who suppose the well-being of their children to reside in physical health and comfort alone, and spend all their love and care on providing just this to their family. But those who have received the favour of Allah show a much greater solicitude for the spiritual well-being of their children than for the physical, being more anxious as to what happens to them in the other world than in this. So, the great prophet prayed to Allah to make a group from among his descendants fully obedient to Him. This prayer aims at another advantage as well. Experience tells us that if those who enjoy a respectable position in their community, and their descendants keep to the right path, they are naturally held in esteem, and their conduct inspires others to reform themselves. (AI-Bahr al-Muhit) Allah heard this prayer too, and among the descendants of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) there has always been a group of people obedient to Allah and firm in the Straight Path. Even in the Age of Ignorance (Jahiliyyah جاھلیہ ) when the whole world, and Arabia in particular, was lost in the darkness of idol-worship and Shirk شرک ، there still remained some men from among his descendants who had faith in the One God, who believed in the other world, and were obedient to Allah - for example, Zayd ibn ` Amr bin Nufayl, and Quss ibn Sa` idah. It has also been reported that ` Abd al-Muttalib ibn Hashim, the grand-father of the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم ، shunned idol-worship and Shirk شرک (Al-Bahr al-Muhit) We might add an explanatory note about the word Manasik مناسک (the plural of Mansik) which occurs in Verse 128. This word signifies the different actions involved in the performance of the Hajj, and also the different places where the rites are performed - like ` Arafah عرفات ، Muzdalifah مزدلفہ or Mina منی . Both the meanings of the word are intended here, and the substance of the last part of the prayer is that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) wanted the rites of the Hajj to be explained and their locations to be indicated. The verb which has been employed in this connection is Arina أَرِ‌نَا - |"show us.|" Now, seeing is done through the eyes, and also through the heart. So, the different locations of the rites were shown to him through the Archangel Jibra&il (علیہ السلام) and the injunctions regarding the Hajj were explained in detail.

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ یہ دعا بھی اسی معرفت و خشیت کا نتیجہ ہے جو حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کو حاصل تھی کہ اطاعت و فرمانبرداری کے بےمثال کارنامے بجا لانے کے بعد بھی یہ دعا کرتے ہیں کہ ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنا لیجئے وجہ یہ ہے کہ جتنی کسی کو حق تعالیٰ کی معرفت بڑہتی جاتی ہے اتنا ہی اس کا یہ احساس بڑہتا جاتا ہے کہ ہم حق وفاداری اور حق فرنبرداری پورا ادا نہیں کر رہے، وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اس دعا میں بھی اپنی اولاد کو شریک فرمایا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ والے جو اللہ کی راہ میں اپنی جان اور اولاد کی قربانی پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ان کو اپنی اولاد سے کس قدر محبت ہوتی ہے مگر اس محبت کے صحیح تقاضوں کو پورا کرتے ہیں جہاں تک عوام کی رسائی نہیں عوام تو اولاد کی صرف جسمانی صحت و راحت کو جانتے ہیں ان کی ساری شفقت و راحت اسی کے گرد گھومتی ہے مگر اللہ کے مقبول بندے جسمانی سے زیادہ روحانی اور دنیوی سے زیادہ اخروی راحت کی فکر کرتے ہیں اس لئے دعا فرمائی کہ میری اولاد میں سے ایک جماعت کو پورا فرمانبردار بنا دیجئے اپنی ذریت کے لئے دعا میں ایک حکمت اور بھی ہے کہ تجربہ شاہد ہے کہ جو لوگ قوم میں بڑے مانے جاتے ہیں ان کی اولاد اگر ان کے راستہ پر قائم رہے تو عوام میں ان کی مقبولیت فطری ہوتی ہے انکی صلاحیت صلاح عوام کا ذریعہ بنتی ہے (بحر محیط) حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کی یہ دعا بھی قبول ہوئی کہ آپ کی ذریت میں ہمیشہ ایسے لوگ موجود رہے ہیں جو دین حق پر قائم اور اللہ کے فرمانبردار بندے تھے جاہلیت عرب میں جبکہ پوری دنیا کو خصوصاً عرب کو شرک وبت پرستی نے گھیر لیا تھا اس وقت اولاد ابراہیم میں ہمیشہ کچھ لوگ عقیدہ توحید وآخرت کے سچے معتقد اور اطاعت شعار رہے ہیں جیسے اہل جاہلیت میں زید بن عمرو بن نفیل اور قیس بن ساعدہ تھے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جد امجد عبدالمطلب بن ہاشم کے متعلق بھی یہی روایت ہے کہ وہ شرک وبت پرستی سے بیزار تھے (بحر محیط) اَرِنَا مَنَاسِكَنَا مناسک منسک کی جمع ہے اعمالِ حج کو بھی مناسک کہا جاتا ہے اور مقاماتِ حج، عرفات منیٰ ، مزدلفہ کو بھی، یہاں دونوں مراد ہوسکتے ہیں اور دعا کا حاصل یہ ہے کہ ہمیں اعمال حج اور مقامات حج پوری طرح سمجھا دیجئے اسی لئے لفظ ارنا استعمال فرمایا جس کے معنی ہیں ہمیں دکھلا دیجئے وہ دیکھنا آنکھوں سے بھی ہوسکتا ہے اور قلب سے بھی چناچہ مقامات حج کو بذریعہ جبرئیل امین دکھلا کر متعین کردیا گیا اور احکام حج کی واضح تلقین وتعلیم فرمادی گئی ،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّكَ۝ ٠ ۠ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا۝ ٠ ۚ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۝ ١٢٨ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ سلم والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین : أحدهما : دون الإيمان، وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] . والثاني : فوق الإيمان، وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] ، ( س ل م ) السلم والسلامۃ الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔ ذر الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة/ 124] ( ذ ر ر) الذریۃ ۔ نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة/ 124] اور میری اولاد میں سے بھی رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ نسك النُّسُكُ : العبادةُ ، والنَّاسِكُ : العابدُ واختُصَّ بأَعمالِ الحجِّ ، والمَنَاسِكُ : مواقفُ النُّسُك وأعمالُها، والنَّسِيكَةُ : مُخْتَصَّةٌ بِالذَّبِيحَةِ ، قال : فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ [ البقرة/ 196] ، فَإِذا قَضَيْتُمْ مَناسِكَكُمْ [ البقرة/ 200] ، مَنْسَكاً هُمْ ناسِكُوهُ [ الحج/ 67] . ( ن س ک ) النسک کے معنی عبادک کے ہیں اور ناسک عابد کو کہا جاتا ہے ، مگر یہ لفظ ارکان حج کے ادا کرنے کے ساتھ مخصوص ہوچکا ہے ۔ المنا سک اعمال حج ادا کرنے کے مقامات النسیکۃ خاص کر ذبیحہ یعنی قربانی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں سے : ۔ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ [ البقرة/ 196] تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صد قے دے یا قر بانی کرے ۔ فَإِذا قَضَيْتُمْ مَناسِكَكُمْ [ البقرة/ 200] پھر جب حج کے تمام ارکان پورے کر چکو ۔ مَنْسَكاً هُمْ ناسِكُوهُ [ الحج/ 67] ایک شریعت مقرر کردی جس پر وہ چلتے ہیں ۔ توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔ تَّوَّاب والتَّوَّاب : العبد الکثير التوبة، وذلک بترکه كلّ وقت بعض الذنوب علی الترتیب حتی يصير تارکا لجمیعه، وقد يقال ذلک لله تعالیٰ لکثرة قبوله توبة العباد «2» حالا بعد حال . وقوله : وَمَنْ تابَ وَعَمِلَ صالِحاً فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتاباً [ الفرقان/ 71] ، أي : التوبة التامة، وهو الجمع بين ترک القبیح وتحري الجمیل . عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتابِ [ الرعد/ 30] ، إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ [ البقرة/ 54] . التواب یہ بھی اللہ تعالیٰ اور بندے دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ جب بندے کی صعنت ہو تو اس کے معنی کثرت سے توبہ کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ یعنی وہ شخص جو یکے بعد دیگرے گناہ چھوڑتے چھوڑتے بالکل گناہ کو ترک کردے اور جب ثواب کا لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت ہو تو ا س کے معنی ہوں گے وہ ذات جو کثرت سے بار بار بندوں کی تو بہ قبول فرماتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ [ البقرة/ 54] بیشک وہ بار بار توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَمَنْ تابَ وَعَمِلَ صالِحاً فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتاباً [ الفرقان/ 71] کے معنی یہ ہیں کہ گناہ ترک کرکے عمل صالح کا نام ہی مکمل توبہ ہے ۔ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتابِ [ الرعد/ 30] میں اس پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے : وارنا منا سکنا (ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا) کہ اجاتا ہے کہ لغت میں نسک کے اصل معنی غسل یعنی دھونے کے ہیں۔ اگر ایک شخص اپنے کپڑے دھو لے تو اس موقعہ پر کہا جائے گا کہ ” نسک ثوبہ “ اس سلسلے میں ایک شعر بھی پیش کیا گیا ہے۔ ولا ینبت الموعی سباح عراعر ولونسکت بالماء ستۃ اشھر (پہاڑوں کی شوز زدہ چوٹایں کوئی چراگاہ نہیں اگا سکتیں خواہ چھ برسوں تک پانی سے ان کی دھلائی کیوں نہ کی جاتی رہے) شرع میں نسک عیادت کا اسم ہے۔ کہا اجتا ہے ” رجل ناسک “ یعنی عابد شخص حضرت براء بن عازب کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوم الاضحی کو گھر سے نکلے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آج کے دن ہماری پہلی عبادت نماز ہوگی اور پھر جانور کی قربانی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز کو نسک کا نام دیا۔ ذبیحہ کو تقرب الٰہی کے طور پر نسک کا نام دیا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے : فقہ یۃ من صیام او صدقۃ اونسک (تو روزے یا صدقہ یا قربانی کی صورت میں فدیہ ادا کرو) مناسک حج بشمول قربانی ان تمام افعال کو کہا جاتا ہے جن کا حج مقتضی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : مجھ سے تم اپنے مناسک لے لو یعنی سکھ لو۔ قول باری : وارنا مناسکنا کا زیادہ ظاہر مفہوم یہی ہے کہ اس سے تمام اعمال حج مراد ہیں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل کو حج کی خاطر بیت اللہ کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ ابن ابی لیلیٰ نے ابن ابی ملیکہ سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت بیان کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حضرت جبرئیل (علیہ السلام) حضتر ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے اور انہیں مکہ لے گئے پھر منیٰ لے گئے پھر حضرت ابن عمر نے حج کے وہ تمام افعال اسی ترتیب سے روایت میں بیان کردیئے جس ترتیب سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجتہ الودا ع کے موقع پر بیان کئے تھے اس کے بعد حضرت عمر نے فرمایا : پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل فرمائی : ان اتبع ملۃ ابراھیم حنیف (یہ کہ تم ابراہیم کی پیروی کرو جو حنیف تھے) اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرفات میں کچھ لوگوں کو جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے وقوف کر رہ ی تھے پیغام بھیجا کہ : تم لوگ اپنے مشاعر پر رہو، کیونکہ تم لوگ حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام کے ترکہ پر ہو۔ یہاں مشاعر سے حج کے مناسک و افعال مراد ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٨) اے ہمارے پروردگار ! خالص ہمیں اپنی توحید اور عبادت پر قائم رکھ اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک خالص اپنی توحید و عبادت پر کار بند ہونے والی جماعت پیدا فرما اور ہمیں آداب و احکام حج سے باخبر رکھ اور ہماری کمزوریوں، کوتاہیوں کو معاف فرما، یقیناً تو معاف کرنے والا اور ایمان لانے والوں پر رحم کرنے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٨ (رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ ) نوٹ کیجیے ‘ یہ دعا ابراہیم (علیہ السلام) کر رہے ہیں۔ تو میں اور آپ اگر اپنے بارے میں مطمئن ہوجائیں کہ میری موت لازماً حق پر ہوگی ‘ اسلام پر ہوگی تو یہ بہت بڑا دھوکہ ہے۔ چناچہ ڈرتے رہنا چاہیے اور اللہ کی پناہ طلب کرتے رہنا چاہیے۔ ( وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ ) ۔ (وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا) اے پروردگار ! تیرا یہ گھر تو ہم نے بنا دیا ‘ اب اس کی زیارت سے متعلق جو رسومات ہیں ‘ جو مناسک حج ہیں وہ ہمیں سکھا دے۔ (وَتُبْ عَلَیْنَاج ) ۔ ہم پر اپنی شفقت کی نظر فرما۔ (اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّاب الرَّحِیْمُ )

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:128) ربنا ۔۔ انت العزیز الحیم یہ دعا ہے جو کہ ربنا تقبل منا سے شروع ہوئی تھی۔ مسلمین۔ اسم فاعل تثنیہ مذکر مسلم واحد۔ دو فرمانبردار مسلمان۔ مسلمۃ۔ اسم فاعل واحد مؤنث مسلمات جمع ۔ فرمانبردار مسلمان۔ اور ہماری اولاد (یا نسل) میں سے بھی ایک گروہ اپنا فرمانبردار بناتے رہو۔ ارنا۔ ار۔ فعل امر واحد مذکر حاضر۔ اراء ۃ (افعال) مصدر سے رء ی مادہ۔ نا ضمیر مفعول جمع متکلم تو ہمیں دکھا۔ مناسکنا۔ اسم ظرف منسک کی جمع مضاف نا ضمیر جمع متکلم مضاف الیہ۔ مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول ثانی اد کا۔ ہمارے حج اور عبادت کے طریقے۔ نسک عبادت ۔ پرستش۔ نسک قربانی ناسک عابد۔ دین کے راہ پر چلنے والا۔ منسک قربانی کی جگہ۔ دین کا راستہ۔ عبادت کا طریقہ۔ حج کا طریقہ۔ تب۔ فعل امر۔ واحد مذکر حاضر۔ توبۃ (باب نصر) مصدر۔ تو معاف کر۔ تو توبہ قبول کر۔ تاب یتوب۔ اگر الیٰ کے صلہ کے ساتھ آئے تو بمعنی بندے کا توبہ کرنا۔ معافی کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرنا ہے اور جب علی کے ساتھ آئے۔ تو اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کی توبہ قبول کرنے اور رحم کے ساتھ متوجہ ہونے کے معنی ہوتے ہیں۔ تب علینا۔ ہمارے حال پر رحم کے ساتھ توجہ فرما۔ التواب۔ بروزن فعال مبالغہ ہے۔ لغت میں توبہ کرنے والے اور توبہ قبول کرنے والے دونوں کو تواب کہا جاتا ہے۔ جب بندہ کی صفت میں آئے تو اس کے معنی کثرت سے توبہ کرنے والے بندہ کے ہوں گے۔ اور جب اللہ کی صفت میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی کثرت سے۔ مسلسل ۔ بار بار بندوں کی توبہ قبول کرنے کے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ جس جماعت کا اس آیت میں ذکر ہے وہ صرف بنی اسماعیل ہیں جن میں جناب رسول اللہ مبعوث ہوئے۔ پس جہاں جن پیغمبر کے لیے دعا ہے اس سے مراد صرف آپ ہوئے کیونکہ یہ دعا دونوں صاحبوں نے کی ہے تو وہی جماعت مراد ہوسکتی ہے جو دونوں کی اولاد ہو اور پیغمبر کے ذکر میں کہا گیا ہے کہ وہ اس جماعت سے ہوں تو جماعت بنی اسماعیل میں سے ہیں اس لیے حدیث صحیح میں ارشاد نبوی ہے کہ میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا ظہور ہوں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ” اے ہمارے رب ہم دونوں کو اپنا مطیع فرمان بنا ، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا جو تیری مطیع ہو ۔ ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا ، اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما ، بیشک تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ “ یہ اس معاونت کی امید ہے جو یہ دونوں اسلام کی طرف ہدایت پانے کے سلسلے میں اللہ سے رکھتے ہیں ۔ ان کے دلوں میں یہ پختہ شعور تھا کہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں ہیں ، یہ کہ ہدایت صرف اس کی ہدایت ہے ، اس کی معاونت وتوفیق کے بغیر کوئی نہیں جو ہدایت پاسکے ۔ اس لئے وہ دونوں ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ اور اس کی طرف راغب اور مائل ہیں اور اللہ تو بہترین مددگار ہے۔ امت مسلمہ کا یہ مزاج کہ وہ باہم معاون و مددگار ہوتی ہے ۔ اس کے افراد نسلاً بعد نسل نظریاتی طور پر باہم پیوست ہوتے ہیں ، اس لئے دعا کی جاتی ہے وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ ” اور ہماری نسل سے بھی تیری مسلم امت پیدا ہو۔ “ یہ ایک ایسی دعا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دل مومن کی پہلی تمنا کیا ہوتی ہے۔ عقیدہ اور نظریہ ہی ایک مومن کا محبوب ، مشغلہ ہوتا ہے ۔ وہ اس کی پہلی ترجیح ہوتی ہے ۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) کے سامنے اس دولت کی اہمیت واضح تھی جو انہیں دی گئی تھی یعنی دولت ایمان اور ثروت عقیدہ ۔ یہ اہمیت اور خواہش انہیں مجبور کرتی ہے کہ وہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی اس دولت کے بارے میں التجا کریں ۔ اس لئے وہ اپنے رب سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ان کی اولاد کو بھی اس دولت ثروت سے محروم نہ رکھیں جس کی قدر و قیمت کے برابر کوئی چیز موجود نہیں ہے ۔ اس سے قبل انہوں نے دعا کی تھی کہ وہ ان کی اولاد کو وسائل رزق فراوانی سے دیں۔ اس لئے انہوں نے یہ بھی ضروری سمجھا کہ ان کی اولاد دولت ایمان سے محروم نہ ہو ۔ انہوں نے یہ بھی دعا کی کہ وہ ان کی اولاد کو تعلیم مناسک بھی دے ۔ ان کو طریقہ عبادت بھی سکھائے ، ان کی مغفرت کرنے والا غفور الرحیم ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

امت مسلمہ کے لیے دعا اور اس کی قبولیت : حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) نے اپنی ذریت میں سے امت مسلمہ کے پیدا ہونے کی دعا بھی کی۔ مفسرین نے فرمایا ہے کہ چونکہ ارشاد خداوندی (لاَ یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ ) سے یہ معلوم ہوچکا تھا کہ ان کی ساری ذریت مومن نہ ہوگی اس لیے انہوں نے یوں عرض کیا کہ اے ہمارے رب ہماری ذریت میں سے امت مسلمہ بنا دینا بعض حضرات کا فرمانا ہے کہ اس سے عرب مراد ہیں، جو حضرت اسماعیل اور حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی اولاد ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مومن بندوں کو اپنے دین و ایمان کی فکر رکھتے ہوئے اپنی نسل اور ذریت کے دین و ایمان کے لیے بھی فکر مند ہونا چاہیے کہ ہماری نسل میں موحدین، مومنین، مخلصین، متقین باقی رہیں۔ سورة فرقان میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِِمَامًا) (اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقیوں کا پیشوا بنا دے) ۔ اور سورة تحریم میں فرمایا ہے ( ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیکُمْ نَارًا) (اے ایمان والو بچاؤ اپنی جانوں کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ سے) اہل و عیال کے دین و ایمان کے لیے دعا بھی کرنا چاہیے اور فکر بھی کرنا چاہیے۔ مناسک حج جاننے کے لیے دعا : کعبہ شریف بناتے ہوئے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) نے یہ دعا بھی کی کہ اے اللہ ہمیں مناسک یعنی احکام حج سکھا دے تفسیر ابن کثیر ١٨٣ ج ١ میں ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کعبہ شریف کی تعمیر مکمل کردی تو حضرت جبریل (علیہ السلام) تشریف لائے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر صفا اور مروہ پر لے گئے کہ یہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں پھر ان کو منیٰ لے گئے پھر مزدلفہ میں لے گئے اور فرمایا یہ المشعر الحرام ہے۔ پھر ان کو عرفات میں لے گئے اور ان کو احکام حج سکھا دئیے۔ جب عرفات میں لے گئے تو پوچھا کہ میں نے جو کچھ تم کو بتایا ہے تم نے پہچان لیا اور تین بار پوچھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہاں پہچان لیا۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ ( علیہ السلام) کو حضرت جبریل (علیہ السلام) نے حج کے احکام بتائے انہوں نے حج کا اعلان عام کردیا جس کا ذکر سورة حج میں ان الفاظ میں ہے۔ (وَ اَذِّنْ فی النَّاسِ بِا لْحَجِّ ) ” اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو ۔ “ ان کے بعد موحدین برابر حج کرتے رہے اور ان کے حجوں میں توحید کا مظاہرہ ہوتا رہا۔ جب ان ہی کی نسل اور ذریت میں مشرکین پیدا ہوگئے اور وہی کعبہ شریف کے متولی بنے تو ان لوگوں نے حج میں شرک کی آمیزش کردی اور حج کے احکام بدل دئیے، حج کا مہینہ بھی بدل دیتے تھے۔ عرفات ہی میں نہیں جاتے تھے مزدلفہ سے واپس آجاتے تھے۔ بیت اللہ شریف کا ننگے طواف کرتے تھے جب حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ فتح کیا اور مکہ سے مشرکین کا تسلط ختم ہوا تو آپ نے اعلان کروا دیا کہ آئندہ کوئی شخص بیت اللہ کا ننگے طواف نہ کرے اور کوئی مشرک حج نہ کرے۔ پھر آپ نے ٩ ہجری میں حج کیا جسے حجۃ الوداع کہتے ہیں اور اس میں پوری طرح حج کے احکام سکھائے اور بتائے اور حکم فرمایا کہ (خُذُوْا عَنّیِ مَنَاسِکَکُمْ ) (یعنی تم مجھ سے احکام حج سیکھ لو) اور یہ بھی فرمایا : قفوا علی مشاعرکم فانکم علی ارث من ارث ابیکم ابراھیم۔ (کہ تم لوگ انہیں جگہوں میں وقوف کرو جو پرانی جگہیں معروف ہیں کیونکہ تم اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی میراث پر ہو) ۔ (رواہ التر مذی وابوداؤ دو النسائی وابن ماجہ کمافی مشکوٰۃ ص ٢٢٨) جس کسی کو بھی حج یا عمرہ کرنا ہو اس کو لازم ہے کہ حج اور عمرہ کے احکام معلوم کرے۔ افسوس ہے کہ بہت سے لوگ حج اور عمرہ کے لیے چل دیتے ہیں اور ذرا بھی ان کے احکام معلوم نہیں کرتے تلبیہ تک نہیں جانتے، فرائض و واجبات تک چھوڑ دیتے ہیں اور جب کوئی عالم بتانے لگتا ہے تو اس کا بتانا ناگوار ہوتا ہے۔ نعوذ باللّٰہ من الجھل و السفاھۃ و الحمق والضلالۃ :۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

246 مُسْلِمَيْنِ لَكَ ۔ اَسْلَمَ وَجْهَھ سے ماخوذ ہے۔ ای مخلصین موحدین لک (روح ص 285 ج 1) ای موحدین مخلصین لا نعبد الا ایاک (کبیر ص 730 ج 1) یعنی ہمیں مزید اخلاص نصیب فرما اور اپنی توحید اور خالص عبادت پر ثبات و دوام عنایت کر کہ ہمیشہ دل وجان اور زبان سے ہر نفع اور نقصان میں تجھے ہی پکاریں اور مالی، بدنی اور زبانی عبادتیں تیری ہی بجا لائیں۔ یعنی ہمیں صفت اخلاص، اپنی توحید، اور خالص عبادت پر قائم رکھ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآکا عطف اِجْعَلْنَا کی ضمیر مفعول پر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہماری اولاد میں بھی ہمیشہ ایک ایسی جماعت برقرار رہے جو توحید کی پابند ہو، صرف تیری ہی عبادت کرے اور صرف تجھے ہی پکارے، توحید کی اشاعت کرے، اور شرک سے روکے۔ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا۔ یہاں اراءت بمعنی تعلیم ہے اور مناسک سے مراد احکام شریعت اور امور حج ہیں۔ علمنا وعرفنا۔۔۔ شرائع دیننا واعلام حجنا (معالم ص 94 ج 1) یعنی ہمیں احکام شریعت اور امور حج تعلیم فرما۔ وَتُبْ عَلَیْنَا۔ یہاں توبہ سے مراد وہ عوام کی توبہ نہیں جو گناہوں سے ہوتی ہے بلکہ یہ توبہ خواص الخواص کی ہے جس کا مقصد درجات کی بلندی اور مقامات کی رفعت کے لیے دعاء والتجا ہوتا ہے۔ وتوبۃ خواص الخواص لرفع الدرجات والترقی فی المقامات (روح ص 386 ج 1) اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ ۔ کیونکہ توبہ قبول کرنے والا اور اپنی رحمت کے سایہ میں لینے والا تو ہی ہے۔ اب آگے دوسری یعنی روحانی دعاء کا ذکر ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi