Only the Fools deviate from Ibrahim's Religion
Allah says;
وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلاَّ مَن سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الاخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ
And who turns away from the religion of Ibrahim (i.e. Islamic Monotheism) except him who fools himself! Truly, We chose him in this world and verily, in the Hereafter he will be among the righteous.
Allah refuted the disbelievers' innovations of associating others with Allah in defiance of the religion of Ibrahim, the leader of the upright. Ibrahim always singled out Allah in worship, with sincerity, and he did not call upon others besides Allah. He did not commit Shirk, even for an instant. He disowned every other deity that was being worshipped instead of Allah and defied all his people in this regard. Prophet Ibrahim said,
فَلَماَّ رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَـذَا رَبِّى هَـذَا أَكْبَرُ فَلَمَّأ أَفَلَتْ قَالَ يقَوْمِ إِنِّى بَرِىءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ
إِنِّى وَجَّهْتُ وَجْهِىَ لِلَّذِى فَطَرَ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضَ حَنِيفاً وَمَأ أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
O my people! I am indeed free from all that you join as partners (in worship with Allah). Verily, I have turned my face towards Him Who has created the heavens and the earth Hanifa (Islamic Monotheism), and I am not of Al-Mushrikin. (6:78-79)
Also, Allah said,
وَإِذْ قَالَ إِبْرَهِيمُ لاًّبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِى بَرَاءٌ مِّمَّا تَعْبُدُونَ
إِلاَّ الَّذِى فَطَرَنِى فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ
(And (remember) when Ibrahim said to his father and his people: "Verily, I am innocent of what you worship. "Except Him (i.e. I worship none but Allah alone) Who did create me; and verily, He will guide me." (43:26-27)
وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَهِيمَ لاًّبِيهِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَأ إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَهِيمَ لاَوَّاهٌ حَلِيمٌ
And Ibrahim's invoking (of Allah) for his father's forgiveness was only because of a promise he (Ibrahim) had made to him (his father). But when it became clear to him (Ibrahim) that he (his father) was an enemy of Allah, he dissociated himself from him. Verily, Ibrahim was Awwah (one who invokes Allah with humility, glorifies Him and remembers Him much) and was forbearing. (9:114)
and,
إِنَّ إِبْرَهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَـنِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
شَاكِراً لانْعُمِهِ اجْتَبَـهُ وَهَدَاهُ إِلَى صِرَطٍ مُّسْتَقِيمٍ
وَءاتَيْنَـهُ فِى الْدُّنْيَا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِى الاٌّخِرَةِ لَمِنَ الصَّـلِحِينَ
Verily, Ibrahim was an Ummah (a leader having all the good qualities, or a nation), obedient to Allah, Hanif (i.e. to worship none but Allah), and he was not one of those who were Al-Mushrikin. (He was) thankful for His (Allah's) favors. He (Allah) chose him (as an intimate friend) and guided him to a straight path. And We gave him good in this world, and in the Hereafter he shall be of the righteous. (16:120-122)
This is why Allah said here,
وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ
(And who turns away from the religion of Ibrahim),
meaning, abandons his path, way and method
إِلاَّ مَن سَفِهَ نَفْسَهُ
(except him who fools himself),
meaning, who commits injustice against himself by deviating from the truth, to wickedness.
Such a person will be defying the path of he who was chosen in this life to be a true Imam, from the time he was young, until Allah chose him to be His Khalil, and who shall be among the successful in the Last Life. Is there anything more insane than deviating from this path and following the path of misguidance and deviation instead. Is there more injustice than this!
Allah said,
إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
Verily, joining others in worship with Allah is a great Zulm (wrong) indeed. (31:13)
Abu Al-Aliyah and Qatadah said,
"This Ayah (2:130) was revealed about the Jews who invented a practice that did not come from Allah and that defied the religion of Ibrahim."
Allah's statement,
مَا كَانَ إِبْرَهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِىُّ وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ وَاللَّهُ وَلِىُّ الْمُوْمِنِينَ
Ibrahim was neither a Jew nor a Christian, but he was a true Muslim Hanifa (to worship none but Allah alone) and he was not of Al-Mushrikin. Verily, among mankind who have the best claim to Ibrahim are those who followed him, and this Prophet (Muhammad) and those who have believed (Muslims). And Allah is the Wali (Protector and Helper) of the believers. (3:67-68),
testifies to this fact.
Allah said next,
إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ
توحید کے دعوے اور مشرکین کا ذکر
ان آیتوں میں بھی مشرکین کی تردید ہے کہ جو اپنے آپ کو دین ابراہیمی پر بتاتے تھے حالانکہ کامل مشرک تھے جبکہ حضرت خلیل اللہ کی موحدوں کے امام تھے ۔ توحید کو شرک سے ممتاز کرنے والے تھے عمر بھر میں ایک آنکھ جھپکنے کے برابر بھی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا بلکہ ہر مشرک سے اور ہر قسم کے شرک سے اور ہر غیر اللہ سے جو اللہ مانا جاتا ہو وہ دل سے نفرت کرتے تھے اور ان سب سے بیزار تھے ۔ اسی بنا پر قوم سے الگ ہوئے وطن چھوڑا بلکہ باپ تک کی مخالفت کی پروانہ کی اور صاف کہ دیا کہ آیت ( قَالَ يٰقَوْمِ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:78 ) میں بیزار ہوں ، اس چیز سے جسے تم شریک کرتے ہو میں نے تو یکسو ہو کر اپنی تمام تر توجہ اس پاک ذات کی طرف کر دی ہے ، جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے ، میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ۔ اور فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے صاف کہ دیا کہ میں تمہارے معبودوں سے بری ہوں تو اپنے خالق ہی کا گرویدہ ہوں ، وہی مجھے راہ راست دکھائے گا ۔ اور جگہ ہے آیت ( وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ ) 9 ۔ التوبہ:114 ) ابراہیم نے اپنے والد کے لیے بھی صرف ایک وعدے کی بنا پر استغفار کی تھی لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہو گئے رب کی نعمتوں کے شکر گزار تھے ، اللہ رب کعبہ کے پسندیدہ تھے اور راہ راست پر لگے ہوئے تھے ، دنیا کے بھلے لوگوں میں سے تھے اور آخرت میں بھی صالح لوگوں میں ہوں گے ۔ ان آیتوں کی طرح یہاں بھی فرمایا کہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے بےتدبیر اور گمراہ لوگ ہی ملت ابراہیمی کو ترک کرتے ہیں کیونکہ حضرت ابراہیم کو اللہ نے ہدایت کے لیے چن لیا تھا اور بچپن سے ہی توفیق حق دے رکھی تھی ، خلیل جیسا معزز خطاب انہی کو دیا گیا ۔ وہ آخرت میں بھی سعید بخت لوگوں میں ہیں ۔ ان کے مسلک و ملت کو چھوڑ کر ضلالت و گمراہی میں پڑنے والے سے زیادہ بیوقوف اور ظالم اور کون ہو گا ؟ اس آیت میں یہودیوں کا بھی رد ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( ما کان ابراہیم یھودیا ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے ، نہ نصرانی ، نہ مشرک بلکہ موحد مسلمان اور مخلص تھے ان سے دوستی رکھنے والے صرف وہی جو ان کے فرماں بردار ہوئے اور یہ نبی اور ایمان دار اللہ بھی مومنوں کا ولی ہے ، جب کبھی اللہ فرماتا کہ یہ مان لو وہ جواب دیتے کہ اے رب العالمین میں نے مان لیا ، اسی ملت و حدانیت کی وصیت ابراہیم و یعقوب نے اپنی اولاد کو بھی کی ۔ ھاکی ضمیر کا مرجع یا تو ملت ہے یا کلمہ ، ملت سے مراد اسلام اور کلمہ سے مراد آیت ( اسلمت لرب العالمین ) ہے ۔ دیکھئے ان کے دل میں اسلام کی کس قدر محبت و عزت تھی کہ خود بھی اس پر مدت العمر عامل رہے ، اپنی اولاد کو بھی اسی کی وصیت کی ۔ اور جگہ ہے آیت ( وَجَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِيَةً فِيْ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ) 43 ۔ الزخرف:28 ) ہم نے اس کلمہ کو ان کی اولاد میں بھی باقی رکھا ، بعض سلف نے ویعقوب بھی پڑھا تو بینہ پر عطف ہوگا اور مطلب یہ ہوگا کہ خلیل اللہ نے اپنی اولاد کو اور اولاد کی اولاد میں حضرت یعقوب کو جو اس وقت موجود تھے دین اسلام کی استقامت کی وصیت کی ۔ قشیری کہتے ہیں حضرت یعقوب ، حضرت ابراہیم کے انتقال کے بعد پیدا ہوئے تھے ، لیکن یہ مجرد دعویٰ ہے ، جس پر کوئی صحیح دلیل نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ بلکہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب حضرت اسحاق کے ہاں حضرت ابراہیم کی زندگی میں پیدا ہوئے تھے کیونکہ قرآن پاک کی آیت میں ہے آیت ( فَبَشَّرْنٰهَا بِاِسْحٰقَ ۙ وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ ) 11 ۔ ہود:71 ) یعنی ہم نے انہیں اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی اور اس کا نصب خفض کو ہٹا کر بھی پڑھا گیا ہے پس اگر حضرت یعقوب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات میں موجود نہ ہوں تو پھر ان کا نام لینے میں کوئی زبردست فائدہ باقی نہیں رہتا ۔ سورۃ عنکبوت میں بھی ہے کہ ہم ابراہیم کو اسحاق و یعقوب عطا فرمایا اور اس کی اولاد میں ہم نے نبوت و کتاب دی اور اسی آیت میں ہے ہم نے اسے اسحاق دیا اور یعقوب زائد عطا فرمایا ۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب حضرت ابراہیم کی زندگی میں ہی تھے اگلی کتابوں میں بھی ہے کہ وہ بیت المقدس میں آئیں گے ۔ ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ پوچھتے ہیں یا رسول اللہ کونسی مسجد پہلے تعمیر کی گئی؟ آپ نے فرمایا مسجد حرام پوچھا ۔ پھر فرمایا ، مسجد بیت المقدس میں نے کہا دونوں کے درمیان کس قدر مدت تھی؟ فرمایا چالیس سال ۔ ابن حبان نے کہا ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت سلیمان علیہما السلام کی درمیانی مدت سے متعلق یہ بیان ہے حالانکہ یہ قول بالکل الٹ ہے ۔ ان دونوں نبیوں کے درمیان تو ہزاروں سال کی مدت تھی بلکہ مطلب حدیث کا کچھ اور ہی ہے اور شاہ زمان حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ الرحمن تو اس مسجد کے مجدد تھے ، موجد نہ تھے ۔ اسی طرح حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھی وصیت کی تھی ، جیسے عنقریب ذکر آئے گا ۔ وصیت اس امر کی ہوتی ہے جب تک زندہ رہو مسلمان ہو کر رہو تاکہ موت بھی اسی پر آئے ۔
موت اور ہمارے اعمال
عموماً انسان زندگی میں جن اعمال پر رہتا ہے ، اسی پر موت بھی آتی ہے اور جس پر مرتا ہے ، اس پر اٹھے گا بھی ۔ یہی اللہ تعالیٰ کا دستور ہے کہ بھلائی کے قصد کرنے والے کو بھلائی کی توفیق بھی دیجاتی ہے ۔ بھلائی اس پر آسان بھی کر دی جاتی ہے اور اسے ثابت قدم بھی رکھا جاتا ہے ۔ کوئی شک نہیں کہ حدیث میں یہ بھی ہے کہ انسان جنتیوں کے کام کرتے کرتے جنت میں ایک ہاتھ دور رہ جاتا ہے کہ اس کی تقدیر اس پر غالب آتی ہے اور وہ جہنمیوں کا کام کر کے جہنمی بن جاتا ہے اور کبھی اس کے خلاف بھی ہوتا ہے لیکن اس سے مطلب یہ ہے کہ یہ کام اچھے برے ظاہری ہوتے ہیں ، حقیقی نہیں ہوتے ۔ چنانچہ بعض روایات میں یہ لفظ بھی ہیں قرآن کہتا ہے سخاوت ، تقویٰ اور لا الہ الا اللہ کی تصدیق کرنے والے کو ہم آسانی کا راستہ آسان کر دیتے ہیں اور بخل و بےپرواہی اور بھلی بات کی تکذیب کرنے والوں کے لئے ہم سختی کی راہ آسان کر دیتے ہیں ۔