Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 130

سورة البقرة

وَ مَنۡ یَّرۡغَبُ عَنۡ مِّلَّۃِ اِبۡرٰہٖمَ اِلَّا مَنۡ سَفِہَ نَفۡسَہٗ ؕ وَ لَقَدِ اصۡطَفَیۡنٰہُ فِی الدُّنۡیَا ۚ وَ اِنَّہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۳۰﴾

And who would be averse to the religion of Abraham except one who makes a fool of himself. And We had chosen him in this world, and indeed he, in the Hereafter, will be among the righteous.

دین ابراہیمی سے وہ ہی بے رغبتی کرے گا جو محض بیوقوف ہو ، ہم نے تو اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ نیکو کاروں میں سے ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Only the Fools deviate from Ibrahim's Religion Allah says; وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلاَّ مَن سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الاخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ And who turns away from the religion of Ibrahim (i.e. Islamic Monotheism) except him who fools himself! Truly, We chose him in this world and verily, in the Hereafter he will be among the righteous. Allah refuted the disbelievers' innovations of associating others with Allah in defiance of the religion of Ibrahim, the leader of the upright. Ibrahim always singled out Allah in worship, with sincerity, and he did not call upon others besides Allah. He did not commit Shirk, even for an instant. He disowned every other deity that was being worshipped instead of Allah and defied all his people in this regard. Prophet Ibrahim said, فَلَماَّ رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَـذَا رَبِّى هَـذَا أَكْبَرُ فَلَمَّأ أَفَلَتْ قَالَ يقَوْمِ إِنِّى بَرِىءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ إِنِّى وَجَّهْتُ وَجْهِىَ لِلَّذِى فَطَرَ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضَ حَنِيفاً وَمَأ أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ O my people! I am indeed free from all that you join as partners (in worship with Allah). Verily, I have turned my face towards Him Who has created the heavens and the earth Hanifa (Islamic Monotheism), and I am not of Al-Mushrikin. (6:78-79) Also, Allah said, وَإِذْ قَالَ إِبْرَهِيمُ لاًّبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِى بَرَاءٌ مِّمَّا تَعْبُدُونَ إِلاَّ الَّذِى فَطَرَنِى فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ (And (remember) when Ibrahim said to his father and his people: "Verily, I am innocent of what you worship. "Except Him (i.e. I worship none but Allah alone) Who did create me; and verily, He will guide me." (43:26-27) وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَهِيمَ لاًّبِيهِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَأ إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَهِيمَ لاَوَّاهٌ حَلِيمٌ And Ibrahim's invoking (of Allah) for his father's forgiveness was only because of a promise he (Ibrahim) had made to him (his father). But when it became clear to him (Ibrahim) that he (his father) was an enemy of Allah, he dissociated himself from him. Verily, Ibrahim was Awwah (one who invokes Allah with humility, glorifies Him and remembers Him much) and was forbearing. (9:114) and, إِنَّ إِبْرَهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَـنِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ شَاكِراً لانْعُمِهِ اجْتَبَـهُ وَهَدَاهُ إِلَى صِرَطٍ مُّسْتَقِيمٍ وَءاتَيْنَـهُ فِى الْدُّنْيَا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِى الاٌّخِرَةِ لَمِنَ الصَّـلِحِينَ Verily, Ibrahim was an Ummah (a leader having all the good qualities, or a nation), obedient to Allah, Hanif (i.e. to worship none but Allah), and he was not one of those who were Al-Mushrikin. (He was) thankful for His (Allah's) favors. He (Allah) chose him (as an intimate friend) and guided him to a straight path. And We gave him good in this world, and in the Hereafter he shall be of the righteous. (16:120-122) This is why Allah said here, وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ (And who turns away from the religion of Ibrahim), meaning, abandons his path, way and method إِلاَّ مَن سَفِهَ نَفْسَهُ (except him who fools himself), meaning, who commits injustice against himself by deviating from the truth, to wickedness. Such a person will be defying the path of he who was chosen in this life to be a true Imam, from the time he was young, until Allah chose him to be His Khalil, and who shall be among the successful in the Last Life. Is there anything more insane than deviating from this path and following the path of misguidance and deviation instead. Is there more injustice than this! Allah said, إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ Verily, joining others in worship with Allah is a great Zulm (wrong) indeed. (31:13) Abu Al-Aliyah and Qatadah said, "This Ayah (2:130) was revealed about the Jews who invented a practice that did not come from Allah and that defied the religion of Ibrahim." Allah's statement, مَا كَانَ إِبْرَهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِىُّ وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ وَاللَّهُ وَلِىُّ الْمُوْمِنِينَ Ibrahim was neither a Jew nor a Christian, but he was a true Muslim Hanifa (to worship none but Allah alone) and he was not of Al-Mushrikin. Verily, among mankind who have the best claim to Ibrahim are those who followed him, and this Prophet (Muhammad) and those who have believed (Muslims). And Allah is the Wali (Protector and Helper) of the believers. (3:67-68), testifies to this fact. Allah said next, إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ

توحید کے دعوے اور مشرکین کا ذکر ان آیتوں میں بھی مشرکین کی تردید ہے کہ جو اپنے آپ کو دین ابراہیمی پر بتاتے تھے حالانکہ کامل مشرک تھے جبکہ حضرت خلیل اللہ کی موحدوں کے امام تھے ۔ توحید کو شرک سے ممتاز کرنے والے تھے عمر بھر میں ایک آنکھ جھپکنے کے برابر بھی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا بلکہ ہر مشرک سے اور ہر قسم کے شرک سے اور ہر غیر اللہ سے جو اللہ مانا جاتا ہو وہ دل سے نفرت کرتے تھے اور ان سب سے بیزار تھے ۔ اسی بنا پر قوم سے الگ ہوئے وطن چھوڑا بلکہ باپ تک کی مخالفت کی پروانہ کی اور صاف کہ دیا کہ آیت ( قَالَ يٰقَوْمِ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:78 ) میں بیزار ہوں ، اس چیز سے جسے تم شریک کرتے ہو میں نے تو یکسو ہو کر اپنی تمام تر توجہ اس پاک ذات کی طرف کر دی ہے ، جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے ، میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ۔ اور فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے صاف کہ دیا کہ میں تمہارے معبودوں سے بری ہوں تو اپنے خالق ہی کا گرویدہ ہوں ، وہی مجھے راہ راست دکھائے گا ۔ اور جگہ ہے آیت ( وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ ) 9 ۔ التوبہ:114 ) ابراہیم نے اپنے والد کے لیے بھی صرف ایک وعدے کی بنا پر استغفار کی تھی لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہو گئے رب کی نعمتوں کے شکر گزار تھے ، اللہ رب کعبہ کے پسندیدہ تھے اور راہ راست پر لگے ہوئے تھے ، دنیا کے بھلے لوگوں میں سے تھے اور آخرت میں بھی صالح لوگوں میں ہوں گے ۔ ان آیتوں کی طرح یہاں بھی فرمایا کہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے بےتدبیر اور گمراہ لوگ ہی ملت ابراہیمی کو ترک کرتے ہیں کیونکہ حضرت ابراہیم کو اللہ نے ہدایت کے لیے چن لیا تھا اور بچپن سے ہی توفیق حق دے رکھی تھی ، خلیل جیسا معزز خطاب انہی کو دیا گیا ۔ وہ آخرت میں بھی سعید بخت لوگوں میں ہیں ۔ ان کے مسلک و ملت کو چھوڑ کر ضلالت و گمراہی میں پڑنے والے سے زیادہ بیوقوف اور ظالم اور کون ہو گا ؟ اس آیت میں یہودیوں کا بھی رد ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( ما کان ابراہیم یھودیا ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے ، نہ نصرانی ، نہ مشرک بلکہ موحد مسلمان اور مخلص تھے ان سے دوستی رکھنے والے صرف وہی جو ان کے فرماں بردار ہوئے اور یہ نبی اور ایمان دار اللہ بھی مومنوں کا ولی ہے ، جب کبھی اللہ فرماتا کہ یہ مان لو وہ جواب دیتے کہ اے رب العالمین میں نے مان لیا ، اسی ملت و حدانیت کی وصیت ابراہیم و یعقوب نے اپنی اولاد کو بھی کی ۔ ھاکی ضمیر کا مرجع یا تو ملت ہے یا کلمہ ، ملت سے مراد اسلام اور کلمہ سے مراد آیت ( اسلمت لرب العالمین ) ہے ۔ دیکھئے ان کے دل میں اسلام کی کس قدر محبت و عزت تھی کہ خود بھی اس پر مدت العمر عامل رہے ، اپنی اولاد کو بھی اسی کی وصیت کی ۔ اور جگہ ہے آیت ( وَجَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِيَةً فِيْ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ) 43 ۔ الزخرف:28 ) ہم نے اس کلمہ کو ان کی اولاد میں بھی باقی رکھا ، بعض سلف نے ویعقوب بھی پڑھا تو بینہ پر عطف ہوگا اور مطلب یہ ہوگا کہ خلیل اللہ نے اپنی اولاد کو اور اولاد کی اولاد میں حضرت یعقوب کو جو اس وقت موجود تھے دین اسلام کی استقامت کی وصیت کی ۔ قشیری کہتے ہیں حضرت یعقوب ، حضرت ابراہیم کے انتقال کے بعد پیدا ہوئے تھے ، لیکن یہ مجرد دعویٰ ہے ، جس پر کوئی صحیح دلیل نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ بلکہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب حضرت اسحاق کے ہاں حضرت ابراہیم کی زندگی میں پیدا ہوئے تھے کیونکہ قرآن پاک کی آیت میں ہے آیت ( فَبَشَّرْنٰهَا بِاِسْحٰقَ ۙ وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ ) 11 ۔ ہود:71 ) یعنی ہم نے انہیں اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی اور اس کا نصب خفض کو ہٹا کر بھی پڑھا گیا ہے پس اگر حضرت یعقوب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات میں موجود نہ ہوں تو پھر ان کا نام لینے میں کوئی زبردست فائدہ باقی نہیں رہتا ۔ سورۃ عنکبوت میں بھی ہے کہ ہم ابراہیم کو اسحاق و یعقوب عطا فرمایا اور اس کی اولاد میں ہم نے نبوت و کتاب دی اور اسی آیت میں ہے ہم نے اسے اسحاق دیا اور یعقوب زائد عطا فرمایا ۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب حضرت ابراہیم کی زندگی میں ہی تھے اگلی کتابوں میں بھی ہے کہ وہ بیت المقدس میں آئیں گے ۔ ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ پوچھتے ہیں یا رسول اللہ کونسی مسجد پہلے تعمیر کی گئی؟ آپ نے فرمایا مسجد حرام پوچھا ۔ پھر فرمایا ، مسجد بیت المقدس میں نے کہا دونوں کے درمیان کس قدر مدت تھی؟ فرمایا چالیس سال ۔ ابن حبان نے کہا ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت سلیمان علیہما السلام کی درمیانی مدت سے متعلق یہ بیان ہے حالانکہ یہ قول بالکل الٹ ہے ۔ ان دونوں نبیوں کے درمیان تو ہزاروں سال کی مدت تھی بلکہ مطلب حدیث کا کچھ اور ہی ہے اور شاہ زمان حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ الرحمن تو اس مسجد کے مجدد تھے ، موجد نہ تھے ۔ اسی طرح حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھی وصیت کی تھی ، جیسے عنقریب ذکر آئے گا ۔ وصیت اس امر کی ہوتی ہے جب تک زندہ رہو مسلمان ہو کر رہو تاکہ موت بھی اسی پر آئے ۔ موت اور ہمارے اعمال عموماً انسان زندگی میں جن اعمال پر رہتا ہے ، اسی پر موت بھی آتی ہے اور جس پر مرتا ہے ، اس پر اٹھے گا بھی ۔ یہی اللہ تعالیٰ کا دستور ہے کہ بھلائی کے قصد کرنے والے کو بھلائی کی توفیق بھی دیجاتی ہے ۔ بھلائی اس پر آسان بھی کر دی جاتی ہے اور اسے ثابت قدم بھی رکھا جاتا ہے ۔ کوئی شک نہیں کہ حدیث میں یہ بھی ہے کہ انسان جنتیوں کے کام کرتے کرتے جنت میں ایک ہاتھ دور رہ جاتا ہے کہ اس کی تقدیر اس پر غالب آتی ہے اور وہ جہنمیوں کا کام کر کے جہنمی بن جاتا ہے اور کبھی اس کے خلاف بھی ہوتا ہے لیکن اس سے مطلب یہ ہے کہ یہ کام اچھے برے ظاہری ہوتے ہیں ، حقیقی نہیں ہوتے ۔ چنانچہ بعض روایات میں یہ لفظ بھی ہیں قرآن کہتا ہے سخاوت ، تقویٰ اور لا الہ الا اللہ کی تصدیق کرنے والے کو ہم آسانی کا راستہ آسان کر دیتے ہیں اور بخل و بےپرواہی اور بھلی بات کی تکذیب کرنے والوں کے لئے ہم سختی کی راہ آسان کر دیتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

130۔ 1 عربی زبان میں رَغِبَ کا صلہ عَنْ تو اس کے معنی بےرغبتی ہوتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وہ عظمت و فضیلت بیان فرما رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا اور آخرت میں عطا فرمائی ہے یہ بھی وضاحت فرما دی کہ ملت ابراہیم سے اعراض اور بےرغبتی بیوقوفوں کا کام ہے، کسی عقلمند سے اس کا تصور نہیں ہوسکتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦٣] دین کا معنی اللہ تعالیٰ کی مکمل حاکمیت اور اپنی مکمل عبودیت کو تسلیم کرلینا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے طرز فکر اور طرز عمل کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع بنا لیا تھا اور طرز فکر و عمل کی تبلیغ و اشاعت میں اپنی پوری زندگی صرف کی اور اس راہ میں جو بڑی مشکلات پیش آئیں انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور یہ طرز زندگی اللہ کو اتنا محبوب تھا کہ اس نے آپ کو پوری دنیا کا امام بنادیا۔ اب کوئی بیوقوف ہی ایسی پسندیدہ روش سے اعراض کرسکتا ہے، یا ایسا شخص جو تجاہل عارفانہ سے کام لے رہا ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

” رَغِبَ یَرْغَبُ “ کے بعد اگر ” فی “ آئے تو اس کا معنی کسی چیز میں رغبت رکھنا اور اگر ” عن “ آئے تو اس کا معنی بےرغبتی ہوتا ہے۔ (مِّلَّةِ اِبْرٰھٖمَ ) کی وضاحت اگلی آیات میں آرہی ہے، یعنی ایک اللہ کی عبادت اور اپنے آپ کو مکمل طور پر اس کے تابع فرمان کردینا۔ اس آیت میں یہود و نصاریٰ اور مشرکین عرب کی تردید ہے کہ وہ تینوں ملت ابراہیم کے دعوے دار تھے، مگر عملاً اس سے بالکل بےرغبت، بلکہ شدید مخالف تھے، انھوں نے اس میں شرک و بدعت کو شامل کرکے اپنا اپنا الگ الگ طریقہ بنا لیا تھا۔ یہود نے عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بنا رکھا تھا، نصرانی تین خدا مانتے تھے، صلیب کی پرستش اس پر مزید تھی۔ مشرکین عرب نے بت پرستی اختیار کرلی تھی، یہود و نصاریٰ کی کچھ بدعات و خرافات کا آئندہ آیات میں ذکر آ رہا ہے۔ (وَلَقَدِ اصْطَفَيْنٰهُ ) بلاشبہ ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت میں سے جنھیں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں چن لیا اور جو آخرت میں صالحین میں شامل ہوں گے، اس سے وہی شخص بےرغبتی کرے گا جو عقل کو جواب دے کر اپنے آپ کو بیوقوف بنا لے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The earlier verses have defined the basic principles of the religion of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) ، called upon men to follow it, and warned them against the dangers involved in turning away from it. They have also refuted the claims of the Jews and the Christians to be the followers of this religion, while indicating Islam as the only religion which is now faithful to the Abrahamic Tradition, and which has, in its essentials, been the religion common to all the prophets. The present verses show the solicitude of the prophets (علیہم السلام) in giving religious and spiritual instruction and guidance to their descendants. The Ibrahimic Way Verse 130 speaks of the superiority of the religion of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) ، from which arises his own spiritual station and glory in this world and in the other. This being so, anyone who turns away from this religion only displays his own stupidity.37 Anyhow, the point is that only he can turn away from this religion who does not possess any understanding, or has totally lost it, for this alone is the religion of |"Nature|", and no one can deny it so long as his |"nature|", in the essential and integral sense of the word, remains intact. The superiority of this religion is shown by the simple fact that Allah conferred a special honour on Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) in this world and in the next on account of this very religion. As for the honour and greatness he received in this world, everyone knows how Namrud نمرود (Nimrod) with all his might failed to impress him, how he accepted gladly to be thrown into the fire rather than give up the worship of the One God, and how the Lord of the worlds changed the fire into a garden for him, so that believers and non-believers alike finally came to recognize his uprightness and his unalloyed faith. The associators of Arabia were, after all, his progeny, and had , in spite of their idol-worship, always continued to hold him in great esteem, and even claimed to be his followers. Certain remnants of his religion were still present among them, though somewhat distorted by their ignorance - for example, the Hajj, the annual sacrifice of animals, hospitality etc. These are the manifestations of the special divine grace which had designated |"the Friend of Allah|" (Khalilullah خلیل اللہ ) as the &Imam& of people. (2:124) So much for his greatness in this world. As to the next, Verse 130 has announced the exalted station Allah has granted him in the Hereafter. 37. Let us note that the relevant phrase in the Arabic text of this verse can be translated into English in three ways: (a) Such a man is stupid in himself (b) he has besotted himself, and allowed himself to become stupid (c) he is ignorant of his own self.

حل لغات : سَفِهَ نَفْسَهٗ ، سفہ بمعنی جہل، وانتصاب نفسہ علیٰ انہ تمیز علی قول الفراء او شبہ بالمفعول علٰی قول بعض الکوفین او مفعول بہ اما لکون سفہ متعدیاً بنفسی کسفہ المضعف او لکونہ ضمن معنی ما یتعدی ای جہل وہو قول الزجاج، ترجمہ شیخ الہند اسی پر مبنی ہے اس لئے سفہ نفسہ کے معنی یہ ہوں گے کہ ملت ابراہیمی سے روگردانی وہی کرے گا جو اپنے نفس سے بھی جاہل ہو یعنی اس کو خود اپنی ذات کی بھی خبر نہ ہو کہ میں کیا ہوں۔ خلاصہ تفسیر : (اور ملت ابراہیمی سے تو وہی روگردانی کرے گا جو اپنی ذات ہی سے احمق ہو) اور (ایسی ملت کے تارک کو کیونکر احمق نہ کہا جائے جس کی یہ شان ہو کہ اسی کی بدولت) ہم نے ان (ابراہیم علیہ السلام) کو (عہدہ رسالت کے لئے) دنیا میں منتخب کیا اور (اسی کی بدولت) وہ آخرت میں بڑے لائق لوگوں میں شمار کئے جاتے ہیں (جن کے لئے سب ہی کچھ ہے اور یہ انتخاب عہدہ رسالت کے لئے اس وقت ہوا تھا) جب کہ ان سے ان کے پروردگار نے (بطور الہام کے) فرمایا کہ تم (حق تعالیٰ کی) اطاعت اختیار کرو انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اطاعت اختیار کی رب العالمین کی (پس اسی اطاعت کے اختیار کرنے پر ہم نے ان شرف نبوت دے دیاخواہ اسی وقت ہو یا بعد چندے) اور اسی (ملت موصوفہ پر قائم رہنے) کا حکم کر گئے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) اپنے بیٹوں کو اور (اسی طرح) یعقوب (علیہ السلام) بھی (اپنے بیٹوں کو جس کا یہ مضمون تھا کہ) میرے بیٹو ! اللہ تعالیٰ نے اس دین (اسلام و اطاعت حق) کو تمہارے لئے منتخب فرمایا ہے سو تم (دم مرگ تک اسی کو مت چھوڑنا اور) بجز اسلام کے اور کسی حالت پر جان مت دینا، معارف و مسائل : سابقہ آیات میں ملت ابراہیمی کے بنیادی اصول اور ان کے اتباع کی تاکید اور ان سے انحراف کی خرابی کا بیان ہے جس میں یہود و نصاریٰ کے اتباع ملت ابراہیمی کے متعلق دعو وں کی تردید اور صرف ملت اسلام کا ملت ابراہیمی کے مطابق ہونا اور دین اسلام کی حقیقت اور یہ کہ وہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کا مشترکہ دین ہے ذکر کیا گیا ہے۔ مذکورہ آیات میں انبیاء (علیہم السلام) کا اپنی اولاد کی دینی اور روحانی تربیت کی طرف خاص توجہ اور اہتمام کرنا مذکور ہے پہلی آیت میں ملت ابراہیمی کی فضیلت اور اسی کی وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا دنیا وآخرت میں شرف اور بزرگی بتلا کر ان کی ملت سے انحراف کرنے کو احمقانہ کام بتلایا ہے ارشاد ہے وَمَنْ يَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰھٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗ یعنی ملت ابراہیمی سے روگردانی صرف وہی شخص کرسکتا ہے جس میں ذرا عقل نہ ہو کیونکہ یہ ملت عین دین فطرت ہے کوئی سلیم الفطرۃ انسان اس سے انکار نہیں کرسکتا آگے اس کی وجہ بیان فرمائی کہ اس ملت کا شرف اور فضیلت اس سے ظاہر ہے کہ اللہ جل شانہ نے اسی ملت کی وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دنیا میں عزت و بزرگی عطاء فرمائی اور آخرت میں بھی دنیا کی عزت و بزرگی کا مشاہدہ تو ساری دنیا نے کرلیا کہ نمرود جیسا صاحب اقتدار بادشاہ اور اس کی قوم اس اکیلے بزرگ کے خلاف کھڑی ہوئی اور اپنی اقتدار کے سارے عوامل ان کے خلاف استعمال کرلئے آخر میں آگ کے ایک بڑے انبار میں ان کو ڈال دیا گیا مگر دنیا کے سارے عناصر اور انکی طاقتیں جس قدرت والے کے تابع فرمان ہیں اس نے سارے نمرودی منصوبوں کو خاک میں ملا دیا آگ ہی کو اپنے خلیل کے لئے گلزار بنادیا اور دنیا کی ساری قومیں ان کا لوہا ماننے پر مجبور ہوگئیں دنیا کے سارے مومن اور کافر یہاں تک کہ بت پرست بھی اس بت شکن کی عزت کرتے چلے آئے مشرکین عرب بہرحال اولاد ابراہیم تھے بت پرستی کے باوجود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عزت و عظمت پر جان دیتے تھے اور انہی کی ملت کے اتباع کا دعویٰ کرتے تھے اور ملت ابراہیمی کے مٹے مٹے کچھ آثار ان کے عمل میں بھی موجود تھے۔ حج وعمرہ و قربانی، مہمان نوازی انہی کے باقیات صالحات تھے اگرچہ جہالت نے ان کو مسخ کردیا تھا اور یہ نتیجہ اس خداوندی انعام کا ہے جس کی رو سے خلیل اللہ کو امام الناس کا خطاب دیا گیا تھا، اِنِّىْ جَاعِلُكَ للنَّاسِ اِمَامًا ابراہیم (علیہ السلام) اور ملت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس قہری غلبہ کے علاوہ اس کی مقبولیت اور فطرت انسانی کے عین مطابق ہونا بھی دنیا کے سامنے آچکا تھا اور جس میں کچھ بھی عقل وفہم تھی وہ اس ملت کے سامنے جھک گیا تھا، یہ تو ابراہیم (علیہ السلام) کے دنیاوی شرف و بزرگی کا ذکر تھا آخرت کا معاملہ جو ابھی سامنے نہیں اس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مقام قرآن کی اس آیت نے واضح کردیا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا میں عزت و فضیلت عطا فرمائی اسی طرح آخرت میں بھی ان کے درجات عالیہ مقرر ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ يَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ اِبْرٰھٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِہَ نَفْسَہٗ۝ ٠ ۭ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنٰہُ فِي الدُّنْيَا۝ ٠ ۚ وَاِنَّہٗ فِي الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ۝ ١٣٠ رغب أصل الرَّغْبَةِ : السّعة في الشیء، يقال : رَغُبَ الشیء : اتّسع وحوض رَغِيبٌ ، وفلان رَغِيبُ الجوف، وفرس رَغِيبُ العدو . والرَّغْبَةُ والرَّغَبُ والرَّغْبَى: السّعة في الإرادة قال تعالی: وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء/ 90] ، فإذا قيل : رَغِبَ فيه وإليه يقتضي الحرص عليه، قال تعالی: إِنَّا إِلَى اللَّهِ راغِبُونَ [ التوبة/ 59] ، وإذا قيل : رَغِبَ عنه اقتضی صرف الرّغبة عنه والزّهد فيه، نحو قوله تعالی: وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْراهِيمَ [ البقرة/ 130] ، أَراغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي[ مریم/ 46] ، والرَّغِيبَةُ : العطاء الکثير، إمّا لکونه مَرْغُوباً فيه، فتکون مشتقّة من الرّغبة، وإمّا لسعته، فتکون مشتقّة من الرّغبة بالأصل، قال الشاعر يعطي الرَّغَائِبَ من يشاء ويمن ( ر غ ب ) الرغبتہ اس کے اصل معنی کسی چیز میں وسعت کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے رغب الشیءُ کسی چیز کا وسیع ہونا اور حوض رغیب کشادہ حوض کو کہتے ہیں ۔ عام محاورہ ہے ۔ فلان رغبت الجوف فلاں پیٹو ہے فرس رغیب العدو تیز رفتار اور کشادہ قدم گھوڑا الرغبۃ والرغب والرغبیٰ ارادہ اور خواہش کی وسعت کو کہتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء/ 90] اور وہ ہم کو ( ہمارے فضل کی توقع اور ہمارے عذاب کے ) خوف سے پکارتے ہیں ۔ اور رغب فیہ والیہ کے معنی کسی چیز پر رغبت اور حرص کرنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا إِلَى اللَّهِ راغِبُونَ [ التوبة/ 59] ہم تو اللہ سے لو لگائے بیٹھے ہیں ۔ لیکن رغب عن کے معنی کسی چیز سے بےرغبتی کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْراهِيمَ [ البقرة/ 130] اور کون ہے جو ابراہیم کے طریقے سے انحراف کرے أَراغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي[ مریم/ 46] اے ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے پھرا ہوا ہے ۔ اور رغیبۃ کے معنی بہت بڑے عطیہ کے ہیں ( ج رغائب ) یہ رغبت سے مشتق ہے یا تو اس لئے کہ وہ مرغوب فیہ ہوتی ہے اور یا اصل معنی یعنی وسعت کے لحاظ سے عطیہ کو رغبہ کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ( الکامل ) يعطي الرَّغَائِبَ من يشاء ويمنعوہ جسے چاہتا ہے بڑے بڑے عطا یا بخشا اور جس سے چاہتا ہے روک لیتا ہے ۔ ملل المِلَّة کالدّين، وهو اسم لما شرع اللہ تعالیٰ لعباده علی لسان الأنبیاء ليتوصّلوا به إلى جوار الله، والفرق بينها وبین الدّين أنّ الملّة لا تضاف إلّا إلى النّبيّ عليه الصلاة والسلام الذي تسند إليه . نحو : فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 95] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ولا تکاد توجد مضافة إلى الله، ولا إلى آحاد أمّة النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم، ولا تستعمل إلّا في حملة الشّرائع دون آحادها، ( م ل ل ) الملۃ ۔ دین کی طرح ملت بھی اس دستور نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی زبان پر بندوں کے لئے مقرر فرمایا تا کہ اس کے ذریعہ وہ قریب خدا وندی حاصل کرسکیں ۔ دین اور ملت میں فرق یہ ہے کی اضافت صرف اس نبی کی طرف ہوتی ہے جس کا وہ دین ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 95] پس دین ابراہیم میں پیروی کرو ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا کے مذہب پر چلتا ہوں ۔ اور اللہ تعالیٰ یا کسی اذا دامت کی طرف اسکی اضافت جائز نہیں ہے بلکہ اس قوم کی طرف حیثیت مجموعی مضاف ہوتا ہے جو اس کے تابع ہوتی ہے ۔ سفه السَّفَهُ : خفّة في البدن، ومنه قيل : زمام سَفِيهٌ: كثير الاضطراب، وثوب سَفِيهٌ: ردیء النّسج، واستعمل في خفّة النّفس لنقصان العقل، وفي الأمور الدّنيويّة، والأخرويّة، فقیل : سَفِهَ نَفْسَهُ [ البقرة/ 130] ، وأصله سَفِهَتْ نفسه، فصرف عنه الفعل نحو : بَطِرَتْ مَعِيشَتَها [ القصص/ 58] ، قال في السَّفَهِ الدّنيويّ : وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ [ النساء/ 5] ، وقال في الأخرويّ : وَأَنَّهُ كانَ يَقُولُ سَفِيهُنا عَلَى اللَّهِ شَطَطاً [ الجن/ 4] ، فهذا من السّفه في الدّين، وقال : أَنُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ [ البقرة/ 13] ، فنبّه أنهم هم السّفهاء في تسمية المؤمنین سفهاء، وعلی ذلک قوله : سَيَقُولُ السُّفَهاءُ مِنَ النَّاسِ ما وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كانُوا عَلَيْها [ البقرة/ 142] ( س ف ہ ) السفۃ اس کے اصل معنی جسمانی ہلکا پن کے ہیں اسی سے بہت زیادہ مضطرب رہنے والی مہار کو زمام سفیہ کہا جاتا ہے اور ثوب سفیہ کے معنی ردی کپڑے کے ہیں ۔ پھر اسی سے یہ لفظ نقصان عقل کے سبب خفت نفس کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے سفہ نفسہ جو اصل میں سفہ نفسہ ہے پھر اس سے فعل کے نسبت قطع کر کے بطور تمیز کے اسے منصوب کردیا ہے جیسے بطرت معشیتہ کہ یہ اصل میں بطرت معیشتہ ہے ۔ اور سفہ کا استعمال امور دنیوی اور اخروی دونوں کے متعلق ہوتا ہے چناچہ امور دنیوی میں سفاہت کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ [ النساء/ 5] اور بےعقلوں کو ان کا مال ۔۔۔۔۔۔ مت دو ۔ اور سفاہت اخروی کے متعلق فرمایا : ۔ وَأَنَّهُ كانَ يَقُولُ سَفِيهُنا عَلَى اللَّهِ شَطَطاً [ الجن/ 4] اور یہ کہ ہم میں سے بعض بیوقوف خدا کے بارے میں جھوٹ افتراء کرتے ہیں ۔ یہاں سفاہت دینی مراد ہے جس کا تعلق آخرت سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ أَنُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ [ البقرة/ 13] تو کہتے ہیں بھلا جس طرح بیوقوف ایمان لے آئے ہیں اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں : ۔ میں ان سفیہ کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ ان کا مؤمنین کو سفھآء کہنا بنا بر حماقت ہے اور خود ان کی نادانی کی دلیل ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ سَيَقُولُ السُّفَهاءُ مِنَ النَّاسِ ما وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كانُوا عَلَيْها [ البقرة/ 142] احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلہ پر ( پہلے چلے آتے تھے ) اب اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے ۔ اصْطِفَاءُ : تناولُ صَفْوِ الشیءِ ، كما أنّ الاختیار : تناول خيره، والاجتباء : تناول جبایته . واصْطِفَاءُ اللهِ بعضَ عباده قد يكون بإيجاده تعالیٰ إيّاه صَافِياً عن الشّوب الموجود في غيره، وقد يكون باختیاره وبحکمه وإن لم يتعرّ ذلک من الأوّل، قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ [ الحج/ 75] ، إِنَّ اللَّهَ اصْطَفى آدَمَ وَنُوحاً [ آل عمران/ 33] ، اصْطَفاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفاكِ [ آل عمران/ 42] ، اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ [ الأعراف/ 144] ، وَإِنَّهُمْ عِنْدَنا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيارِ [ ص/ 47] ، واصْطَفَيْتُ كذا علی كذا، أي : اخترت . أَصْطَفَى الْبَناتِ عَلَى الْبَنِينَ [ الصافات/ 153] ، وَسَلامٌ عَلى عِبادِهِ الَّذِينَ اصْطَفى [ النمل/ 59] ، ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنا مِنْ عِبادِنا[ فاطر/ 32] ، والصَّفِيُّ والصَّفِيَّةُ : ما يَصْطَفِيهِ الرّئيسُ لنفسه، قال الشاعر : لک المرباع منها والصَّفَايَا وقد يقالان للناقة الكثيرة اللّبن، والنّخلة الكثيرة الحمل، وأَصْفَتِ الدّجاجةُ : إذا انقطع بيضها كأنها صَفَتْ منه، وأَصْفَى الشاعرُ : إذا انقطع شعره تشبيها بذلک، من قولهم : أَصْفَى الحافرُ : إذا بلغ صَفًا، أي : صخرا منعه من الحفر، کقولهم : أكدى وأحجر «2» ، والصَّفْوَانُ کالصَّفَا، الواحدةُ : صَفْوَانَةٌ ، قال تعالی: كَمَثَلِ صَفْوانٍ عَلَيْهِ تُرابٌ [ البقرة/ 264] ، ويقال : يوم صَفْوَانٌ: صَافِي الشّمسِ ، شدید البرد . الاصطفا ء کے معنی صاف اور خالص چیز لے لینا کے ہیں جیسا کہ اختیار کے معنی بہتر چیز لے لینا آتے ہیں اور الا جتباء کے معنی جبایتہ یعنی عمدہ چیا منتخب کرلینا آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو چن لینا کبھی بطور ایجاد کے ہوتا ہے یعنی اسے ان اندرونی کثافتوں سے پاک وصاف پیدا کرتا ہے جو دوسروں میں پائی جاتی ہیں اور کبھی بطریق اختیار اور حکم کے ہوتا ہے گو یہ قسم پہلے معنی کے بغیر نہیں پائی جاتی ۔ قرآن میں ہے : اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ [ الحج/ 75] خدا فرشتوں اور انسانوں میں رسول منتخب کرلیتا ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفى آدَمَ وَنُوحاً [ آل عمران/ 33] خدا نے آدم اور نوح ۔۔۔۔۔۔ کو ( تمام جمان کے لوگوں میں ) منتخب فرمایا تھا ۔ اصْطَفاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفاكِ [ آل عمران/ 42] خدا نے تم کو برگزیدہ کیا اور پاک بنایا اور ۔۔۔۔۔ منتخب کیا ۔ اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ [ الأعراف/ 144] میں نے تم کو ۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں سے ممتاز کیا ۔ وَإِنَّهُمْ عِنْدَنا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيارِ [ ص/ 47] اور یہ لوگ ہمارے ہاں منتخب اور بہتر افراد تھے ۔ اصطفیت کذا علی کذا ایک چیز کو دوسری پر ترجیح دینا اور پسند کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ أَصْطَفَى الْبَناتِ عَلَى الْبَنِينَ [ الصافات/ 153] کیا اس نے بیتوں کی نسبت بیٹیوں کو پسند کیا ۔ وَسَلامٌ عَلى عِبادِهِ الَّذِينَ اصْطَفى [ النمل/ 59] اس کے بندوں پر سلام جن کو اس نے منتخب فرمایا : ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنا مِنْ عِبادِنا[ فاطر/ 32] پھر ہم نے ان لوگوں کو کتاب کا وارث ٹھہرایا جن کو اپنے بندوں میں سے برگزیدہ کیا ۔ الصفی والصفیۃ مال غنیمت کی وہ چیز جسے امیر اپنے لئے منتخب کرنے ( جمع صفایا ) شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (274) لک المریاع منھا والصفایا تمہارے لئے اس سے ربع اور منتخب کی ہوئی چیزیں ہیں ۔ نیز صفی وصفیۃ (1) بہت دودھ دینے والی اونٹنی (2) بہت پھلدار کھجور ۔ اصفت الدجاجۃ مرغی انڈے دینے سے رک گئی گویا وہ انڈوں سے خالص ہوگئی اس معنی کی مناسبت سے جب شاعر شعر کہنے سے رک جاے تو اس کی متعلق اصفی الشاعر کہاجاتا ہے اور یہ اصفی الحافر کے محاورہ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کنواں کھودنے والا صفا یعنی چٹان تک پہنچ گیا جس نے اسے آئندہ کھدائی سے روک دیا جیسا کہ اکدی واحجر کے محاورات اس معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ اور الصفا کی طرح صفوان کے معنی بھی بڑا صاف اور چکنا پتھر کے ہیں اس کا واحد صفوانۃ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : كَمَثَلِ صَفْوانٍ عَلَيْهِ تُرابٌ [ البقرة/ 264] اس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو ۔ یوم صفوان خنک دن میں سورج صاف ہو ( یعنی بادل اور غبارہ نہ ہو ) دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] ، وقوله : وَآتَيْناهُ فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ النحل/ 122] ، وتارة عن الأقرب، فيقابل بالأقصی نحو : إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال/ 42] ، وجمع الدّنيا الدّني، نحو الکبری والکبر، والصّغری والصّغر . وقوله تعالی: ذلِكَ أَدْنى أَنْ يَأْتُوا بِالشَّهادَةِ [ المائدة/ 108] ، أي : أقرب لنفوسهم أن تتحرّى العدالة في إقامة الشهادة، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ أَدْنى أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ [ الأحزاب/ 51] ، وقوله تعالی: لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ [ البقرة/ 220] ، متناول للأحوال التي في النشأة الأولی، وما يكون في النشأة الآخرة، ويقال : دَانَيْتُ بين الأمرین، وأَدْنَيْتُ أحدهما من الآخر . قال تعالی: يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَ [ الأحزاب/ 59] ، وأَدْنَتِ الفرسُ : دنا نتاجها . وخصّ الدّنيء بالحقیر القدر، ويقابل به السّيّئ، يقال : دنیء بيّن الدّناءة . وما روي «إذا أکلتم فدنّوا» من الدّون، أي : کلوا ممّا يليكم . دنا ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی ۔ اور آیت کریمہ ؛وَآتَيْناهُ فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ النحل/ 122] اور ہم نے ان کو دینا بھی خوبی دی تھی اور آخرت میں بھی نیک لوگوں میں ہوں گے ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی اقرب آنا ہے اوراقصی کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال/ 42] جس وقت تم ( مدینے کے ) قریب کے ناکے پر تھے اور کافر بعید کے ناکے پر ۔ الدنیا کی جمع الدنیٰ آتی ہے جیسے الکبریٰ کی جمع الکبر والصغریٰ کی جمع الصغر۔ اور آیت کریمہ ؛ذلِكَ أَدْنى أَنْ يَأْتُوا بِالشَّهادَةِ [ المائدة/ 108] اس طریق سے بہت قریب ہے کہ یہ لوگ صحیح صحیح شہادت ادا کریں ۔ میں ادنیٰ بمعنی اقرب ہے یعنی یہ اقرب ہے ۔ کہ شہادت ادا کرنے میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھیں ۔ اور آیت کریمہ : ذلِكَ أَدْنى أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ [ الأحزاب/ 51] یہ ( اجازت ) اس لئے ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ [ البقرة/ 220] تا کہ تم سوچو ( یعنی ) دنای اور آخرت کی باتوں ) میں غور کرو ) دنیا اور آخرت کے تمام احوال کی شامل ہے کہا جاتا ہے ادنیت بین الامرین وادنیت احدھما من الاخر ۔ یعنی دوچیزوں کو باہم قریب کرنا ۔ یا ایک چیز کو دوسری کے قریب کرتا ۔ قرآن میں ہے : يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَ [ الأحزاب/ 59] کہ باہر نکلاکریں تو اپنی چادریں اپنے اوپر ڈٖال لیا کریں َ ادنت الفرس ۔ گھوڑی کے وضع حمل کا وقت قریب آپہنچا ۔ الدنی خاص ک حقیر اور ذیل آدمی کو کہا جاتا ہے اور یہ سیئ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے کہا کاتا ہے :۔ ھودنی یعنی نہایت رزیل ہے ۔ اور حومروی ہے تو یہ دون سے ہیے یعنی جب کھانا کھاؤ تو اپنے سامنے سے کھاؤ ۔ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث . - وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع . وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔ صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے : ومن یرغب عن ملۃ ابراھیم الا من سفہ نفسہ (اب کون ہے جو ابراہیم کے طریقے سے نفرت کرے ؟ جس نے خود اپنے آپ کو حماقت و جہالت میں مبتلا کرلیا، اس کے سوا اور کون یہ حرکت کرسکتا ہے) یہ آیت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے شرائع میں سے ان امور کے لزوم پر دلالت کرتی ہے جن کا نسخ ثابت نہ ہوا ہو۔ اس آیت میں یہ بات بھی بتلا دی گئی ہے کہ جو شخص حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقے سے نفرت کرے گا وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے سے نفرت کرنے والا شمار ہوگا، اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی شریعت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت پر نہ صرف مشتمل ہے، بلکہ اس پر اضافہ ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٠) جس کا نفس خسارہ اور نقصان میں مبتلا ہوگیا ہو اور جس کی عقل نہ رہی ہو اور بیوقوفی اور حماقت کا اس پر غلبہ ہوگیا ہو، اس آدمی کے علاوہ اور کون حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین اور آپ کی سنت سے لاتعلقی اختیار کرسکتا ہے اور ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس دنیاوی زندگی میں خلعت عالیہ کے ساتھ نوازا ہے۔ اور یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ اس دنیا میں ہم نے ان کو نبوت اور اسلام اور پاکیزہ اولاد کے ساتھ منتخب کیا ہے اور بہشت میں ان کے باپ دادا میں سے جو انبیاء کرام ہوں گے وہ ان کے ساتھ ہوں گے ، شان نزول : (آیت) ” ومن یرغب (الخ) ابن عینیہ (رح) نے روایت کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام (رض) عنہنے اپنے بھتیجوں سلمہ (رض) اور مہاجر (رض) کو اسلام کی دعوت دی اور ان سے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے اللہ تعالیٰ نے توریت میں یہ بات بیان فرمائی ہے کہ میں اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ایک رسول بھیجوں گا، جس کا نام گرامی احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوگا جو ان کو بھی تسلیم کرے گا، وہ رشد وہدایت سے فیض یاب ہوگا اور جو آپ کا انکار کرے گا وہ ملعون ہوگا، اس دعوت پر سلمہ (رض) سلام لے آئے اور مہاجر نے ایمان لانے سے منکر ہوگیا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٠ (وَمَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ اِبْرٰہٖمَ ) رغبت کا لفظ عربی زبان میں دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ رَغِبَ اِلٰی کا مفہوم ہے کسی شے کی طرف رغبت ہونا ‘ محبت ہونا ‘ میلان ہونا ‘ جبکہ رَغِبَ عَنْ کا مطلب ہے کسی شے سے متنفرّ ہونا ‘ کسی شے سے اباء کرنا ‘ اس کو چھوڑ دینا۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے : (فَمَنْ رَّغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ ) (١٥) پس جسے میری سنت ناپسند ہو تو وہ مجھ سے نہیں ہے۔ (اِلاَّ مَنْ سَفِہَ نَفْسَہٗ ط) اس کے سوا اور کون ہوگا جو ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے سے منہ موڑے ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(130 ۔ 132) ۔ سورة نحل میں آئے گا { وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ } جس کا مطلب یہ ہے کہ ملت ابراہیمی میں پوری توحید تھی اس لئے ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ اہل مکہ کا حال یہود و نصاریٰ کا سا ہرگز نہیں تھا کیوں کہ اہل مکہ تو صریح صریح بت پرست ہیں اور اہل کتاب نے بھی طرح طرح کی شرک اور بدعت کی باتیں نکال رکھی ہیں حالانکہ ابراہیم (علیہ السلام) تو ابتدائے عمر سے شرک سے بیزار رہے اس شرک کی بیزاری کے سبب سے انہوں نے اپنے باپ اور قوم کو چھوڑ دیا اور صاف کہہ دیا { اِنِّیْ بَرِیٌ مِمَّا تُشْرِکُوْنَ } (٦۔ ٧٨) جس کا پورا قصہ سورة انعام میں آئے گا۔ غرض شرک میں مبتلا ہو کر جو یہ لوگ اپنے آپ کو ملت ابراہیمی کا پیرو بتلاتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرمایا کہ یہ لوگ ملت ابراہیمی پر تو کسی طرح نہیں ہوسکتے بلکہ یہ لوگ تو ملت ابراہیمی کے مخالف اور اس سے پھرے ہوئے ہیں اور جس ملت کو یہ لوگ قابل پیروی جانتے ہیں اور پھر اعمال ایسے کرتے ہیں جو اس کے بالکل مخالف ہیں تو یہ ان کی کم عقل یاور بےوقوفی ہے پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے دین دنیا میں عالی مرتبہ ہونے کا اور ان کی فرماں برداری کا اور انہوں نے اپنی اولاد کو توحید پر مرتے دم تک قائم کہنے کی جو وصیت کی تھی اس کا ذکر فرمایا تاکہ ان لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی فرماں براداری اور وصیت کے مخالف ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:130) من استفہامیہ انکاریہ ہے۔ یرغب۔ مضارع واحد مذکر غائب ۔ عن کے صلہ کے ساتھ بمعنی روگردانی کرنا۔ منہ پھیرنا۔ اور الیٰ کے صلہ کے ساتھ بمعنی عاجزی و انکساری سے مانگنا۔ التجا کرنا۔ رغب (باب سمع) مصدر۔ اول الذکر کی مثال ۔ آیۃ ہذا۔ کون روگردانی کرسکتا ہے۔ یعنی کوئی روگردانی نہیں کرسکتا۔ مؤخر الذکر کی مثال۔ والی ربک فارغب (94:8) اور اپنے رب کی طرف عاجزی سے متوجہ ہوجایا کرو۔ الا۔ حرد استثناء مگر۔ من سفہ نفسہ۔ من موصولہ۔ سفہ۔ فعل ماضی۔ واحد مذکر غائب سفہ (باب سمع) اس نے بیوقوفی پر آمادہ کیا۔ نفسہ۔ مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول سفہ کا ۔ من سفہ نفسہ جس نے اپنے نفس کو نادانی یا بےوقوفی پر آمادہ کیا۔ یا اپنے آپ کو ذلیل کیا۔ اپنے آپ کو احمق بنایا۔ لقد۔ لام تاکید اور قد تحقیق کے لئے ہے جب ماضٰ پر داخل ہو۔ اصطفیناہ۔ اصطفینا۔ ماضی جمع متکلم ۔ اصطفاء (افتعال) مصدر بمعنی صاف اور خالص چیز لے لینا۔ جیسے اخینار۔ کے معنی بہتر چیز لے لینا۔ اور اجتباء کے معنی عمدہ چیز منتخب کرلینا ہے۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جس کا مرجع ابراہیم ہے۔ ہم نے اس کو منتخب کرلیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 اس آیت میں کفار مکہ اور یہود کی تردید ہے مت ابراہیم (علیہ السلام) کے مدعی تھے مگر انہوں نے ملت ابراہیمی میں مختلف قسم کی بدعات اور محدثات شامل کر کے اصل دین سے انحراف اختیار کرلیا تھا۔ قرآن نے بتیا ہے کہ دین ابرہیم سے انحراف واقعی حماقت ہے حضرت ابرہیم (علیہ السلام) تو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر تھے اور وہ آخرت میں سعادت مند اور صالحین کے زمرہ میں شامل ہوں گے۔ یعنی تمہارا یہ ادعا غلط اور مبنی پر حماقت ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 130 141 اسرارو معارف حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کا اسوہ حسنہ ، آپ کا مذہب ، آپ کے عقائد اور اعمال انسانیت کی معراج ہیں۔ ان سے پھرنے والا شخص وہی ہوسکتا ہے جو انسانی قدروں سے بالکل ہی واقفیت نہ رکھتا ہو اور انتہائی درجے کا احمق ہو۔ ورنہ جسے فطرت سلیمہ نصیب ہوگی وہ ان کمالات کو اپنانے کی کوشش کرے گا۔ ابراہیم (علیہ السلام) ایسی مبارک ہستی ہیں کہ ہم سرفراز فرما کر اپنے لئے چن لیا اور آخرت میں بھی وہ اللہ کے مقرب ومقبول بندوں میں سے ہیں تو ایک ایسا کردار ، جو دو عالم میں سر بلندی و سرفرازی عطا کرے اور قرب الٰہی کا سبب اور وسیلہ بنے اسے کوئی ہو ش مند انسان تو چھوڑنے سے رہا بلکہ جس قدر دانا تر ہوگا اسی قدر اسے زیادہ عزیز رکھے گا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا حال دیکھو۔ اذقال لہ ربہ اسلم قال اسلمت لرب العلمین جب اس کے پروردگار نے فرمایا کہ راہ تسلیم یعنی کلی اطاعت کی راہ اپنائو تو انہوں نے عرض کی کہ میں نے رب العلمین کی اطاعت اختیار کی۔ یعنی اس درجہ حق اطاعت ادا فرمایا کہ یہ تک عرض نہ کیا کہ اللہ ! تیری اطاعت اختیار کررہا ہوں بلکہ اللہ کی شان ربوبیت کو پیش نظر رکھا اور عرض کی کہ پروردگار عالم یعنی سارے جہانوں کو ہر طرح کی نعمتیں عطا کرنے والے کی اطاعت اختیار کی۔ اس میں نہ صرف اللہ کی تسبیح وتعریف بیان کی بلکہ خود توفیق اطاعت بھی اسی کی طرف منسوب کردی کہ مجھے تیری اطاعت کی توفیق ارزاں ہوئی بھی تیرا ہی احسان ہے۔ کمال معرفت : کمال معرفت تو یہ ہے کہ اپنے کمالات کو بھی احسانباری جانے ۔ اگر اپنی کسی خوبی کو اپنا کمال سمجھتا ہے ، تو ہنوز اس گلی سے بیگانہ ہے اور لذت معرفت سے ناآشنا۔ یہ کلام جہلاء کا ہے کہ چند سجدے اگر کر ہی گزریں تو اپنے آپ کو اعلیٰ مناصب کا حقدار خیال کرتے ہیں اور ٹھنڈی سانس لے کر کہتے ہیں اجی ! ہم نے بس محنت کرنے میں حد ہی کردی ۔ بھئی ! یہ سجدوں کی توفیق بھی کسی کی عطا ہے۔ معیار کمال کشف و کرامات ہی نہیں بلکہ اصل کمال یہ ہے کہ انسان کس قدر تسلیم ورضا کا جذبہ پاسکا۔ اس میں جس قدر ترقی نصیب ہوئی اتنا ہی شکر زیادہ ادا کرے اور استقامت کی دعا کرتا رہے ، اگر یہ حاصل نہیں اور محض چند خوابوں اور اس قبیل کی دوسری باتوں کو کمال سمجھ رہا ہے تو درست نہیں۔ مومن اور کافر : ہاں کشف بھی کرامت ہے اگر اطاعت کے ساتھ نصیب ہوا لا فلا کہ کشف عالم بالا یا عالم غیب کا۔ جس میں برزخ ، آخرت ، آسمانوں سے بالا کی دنیا شامل ہے ، کافر کو نصیب نہیں۔ لاتفتح لھم ابواب السمائ۔ لیکن دنیا میں ایک جگہ بیٹھ کر دوسری جگہ کی خبر کردینا ، انسان کو دیکھ کر اس کی گزشتہ زندگی کے واقعات بتادینا یا آئندہ کے بارے میں اندازہ لگانا یا اس طرح کی باتیں جو ہیں اس کے لئے تو ایمان بھی شرط نہیں کافر بھی حاصل کرسکتا ہے اور جہلا میں عموماً اسی قبیل کی باتیں مشہور بھی ہوتی ہیں اور وہ اسی کو کشف کہتے ہیں۔ اصل کمال حصول جذبہ تسلیم ہے کہ صدق دل سے اللہ کی مکمل اطاعت کا جذبہ پیدا ہو یہی کمال ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ، تمام انبیاء اور صلحا کا اسی کی ان سے تحصیل بھی مطلوب ہے یہ ان کے نزدیک کس قدر قیمتی سرمایہ ہے۔ وہ یوں دیکھ لو ! ووصی بھا………………وانتم مسلمون۔ کہ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے بعد خود حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اولاد کی وصیت فرمائی تھی۔ دم واپسیں بچوں کو بلا کر تاکید کی تھی۔ یہ وہ وقت ہے جب سب سے قیمتی متاع اگر کوئی پاس ہو تو اس کے بارے اولاد کو سمجھاتے ہیں۔ تو ان حضرات کے نزدیک سب سے اعلیٰ دولت ہی دین وایمان ، اسلام اور جذبہ تسلیم ورضا تھا کہ اولاد کو وصیت فرمائی ، اے بیٹو ! یہ دین برحق اللہ نے تمہارے لئے چن لیا ہے اور پسند فرمالیا ہے۔ اب اس کا حق یوں ادا کرنا کہ موت بھی آئے تو اسلام اور ایمان پر آئے ، زمین ٹل جائے ، آسمان پھٹ جائے ، زمانہ زیروبر ہوجائے مگر خبردار ! دین برحق کا دامن ہاتھ سے نہ جائے اور اللہ کی اطاعت سے قدم باہر نہ نکلے۔ یہاں تم ہو کہ دعویٰ ابراہیمی ہونے کا اور اطاعت الٰہی کے مقابلے میں اپنی خواہشات کی تکمیل عزیز رکھتے ہو ، اور ضحرت یعقوب (علیہ السلام) جن کے نام نامی سے اس دور کے علماء منسوب ہیں اور بنی اسرائیلی کہلاتے ہیں ، ذرا ان کا حال بھی سنو ، ام کنتم شھدائ……………لہ مسلمون۔ کیا تم پاس تھے ؟ یعنی تم تو پاس نہ تھے اگر تم موجود ہوتے تو جان سکتے چلو ، ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ جب یعقوب (علیہ السلام) کا وقت آخر آیا اور سفر آخرت کی تیاری ہوتی تو بیٹوں کو جمع فرمایا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تو اسلام پر قائم رہنے کی تاکید ہی فرمائی تھی۔ انہوں نے استفہامی انداز اپنایا اور بیٹوں سے پوچھا ماتعبدون ھن بعدی کہ وہاں ان کے بیٹے تو اسماعیل واسحاق (علیہم السلام) نبی تھے۔ مگر یہاں صرف حضرت یوسف (علیہ السلام) نبی تھے۔ باقی سارے تو نہ تھے تو انہوں نے اس سے زیادہ تاکید رنگ اپنایا اور بیٹوں پر سوال کیا کہ ہم تو جاتے ہیں مگر یہ کہو کہ میرے بعد تمہارا معبود کون ہوگا ؟ اور تم کس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوگئے ؟ تو انہوں نے عرض کیا اباجان ! ہم اسی کی عبادت کریں گے جو آپ کا بھی معبود ہے اور آپ کے اباواجداد کا بھی ، ابراہیم واسحق و اسماعیل (علیہم السلام) کا بھی اور برحق معبود ہے اور وحدہ لاشریک بھی ہے وہ ازل سے مستحق عبادت ہے اور ہمیشہ کے لئے اسی کی شان قائم ہے اور ہم بھی اسی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں اور اسی کے فرمانبردار ہیں۔ دراصل اسلام ہی دین حق ہے اور ہمیشہ سے جب سے یہ انسان دنیا پہ آیا ہے یہی دین حق رہا ہے اگرچہ مختلف ادوار میں بیشک نام مختلف ہوں ، دین موسوی یا عیسوی کہا جائے یا یہودی یا نصرانی۔ ایک ہی حقیقت کے مختلف نام ہیں کہ توحید باری آخرت ، حشر ونشر ، جنت دوزخ ، فرشے وغیرہا۔ جملہ اخبار اور عقائد ایک ہی ہیں جو تمام انبیاء (علیہم السلام) نے تعلیم فرمائے۔ ادیان میں اگر تفاوت ہے تو عبادات میں ہے اوقات عبادات یا طریق عبادات میں ہے معبودایک ہی ہے اور یہ فرق بھی کمال اطاعت ہی کو ظاہر کرتا ہے کہ جب اور جو حکم ملا اس کی تعمیل کی اور حق اطاعت اسلام میں نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دے رہے ہیں۔ جو تمہارے حلق سے نہیں اترتی اور تمہارا خیال ہے کہ تمہیں صرف اسرائیلی یا ابراہیمی ہونے کا دعویٰ ان کے اعمال خیر میں حصہ دار بنادے گا۔ ایسا ہرگز نہیں ! بلکہ تلک امۃ قد خلت…………عما کانوا یعملون۔ یہ ایک جماعت تھی ، ایک طبقہ تھا ، مقدس بزرگوں کا گروہ تھا۔ اس چند روزہ چمن کی زینت بناء اسے رونق بخشی اور دارالبقاء کو سدھارا تو جو کچھ انہوں نے کیا وہ ان کے لئے ہے ان کی بھلائیاں اور ان کے مجاہدے ان ہی کے لئے باعث اجر اور باعث رضا ہیں۔ تمہیں تو وہ ملے گا جو تم کمائو گے کیونکہ ان کے بارے تم جوابدہ بھی ہیں ہو۔ یعنی اگر بزرگوں کی جگہ کسی کا جواب دینا پڑے تو کیا کہے گا یقینا کہے گا اللہ ! میں اس وقت پیدا بھی نہ ہوا تھا۔ اگر میرے بزرگوں نے کوئی غلطی کی ہے تو مجھے اس کی سزا ہرگز نہ دے۔ جب یہاں یہ کلیہ جانتے ہو تو وہاں بھی یہی بات ہوگی کہ جن بزرگوں نے نیکیاں کی ہیں ان کا بدلہ بھی کرنے والے ہی پائیں گے۔ ہاں ! تم ان کا اتباع کرو ، خوب محنت کرو ، عقائد و اعمال میں ان کی اطاعت کرو تو بات بنے گی ورنہ نہیں۔ نہ صرف خود کو بلکہ ان کے اسوہ حسنہ کو اپناتے ہوئے اپنی اولاد تک کو دین پر لگائو اور اپنے اہل و عیال میں جذبہ تسلیم پیدا کرو۔ وقالوا کونوا ھودا………………ماکان من المشرکین اب ان کا دعویٰ ہے کہ دین حق یہودیت یا نصرانیت ہے اور دونوں اپنے اپنے حق پر ہونے کے مدعی ہیں اگرچہ یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا اور نصرانی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کرتے ہیں مگر اپنی اپنی جگہ نہ صرف یہ دونوں بلکہ مشرکین بھی خود کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا پیروبتاتے ہیں۔ یہ ان کی شان امامت ہے کہ مشرک باوجود مبتلائے شرک ہونے کے ان کا احترام بجا لاتے ہیں اور یہود ونصاریٰ خود کو ملت ابراہیمی کہنے میں فخر محسوس کرتے تھے تو ان سے فرمائیے کہ جو ہستی تمہارا مرکزی نکتہ ہونے کی حیثیت رکھتی ہے اور جس کے پیرو ہونے کے سب مدعی ہو وہ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں البتہ ان کی روش پر اتحاد ہوسکتا ہے مگر وہ تو ہرگز مشرک نہ تھے بلکہ کلیتہً راہ راست پرچلنے والے تھے۔ بعض لوگوں نے دعویٰ تو نیکوں اور سلف صالحین کی محبت کا کررکھا ہوتا ہے مگر عقائد و اعمال اپنی طرف سے وضع کرلئے ہوتے ہیں۔ یہاں شہادت یہ ملتی ہے کہ ان کو بزرگوں سے کوئی نسبت نہیں اگر واقعی نسبت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو عقائد و اعمال میں ان کا اتباع اختیار کریں۔ اگر یہ بات اللہ مسلمانوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے تو بیشمار اختلافات ختم ہوسکتے ہیں اہل حق کو مناسب نہیں کہ باطل کی طرف جھکیں بلکہ حق یہ ہے کہ اس طرف کے لوگوں کو حق کی طرف بلایا جائے۔ قولوامنا باللہ………………ونحن لہ مسلمون۔ ان سے کہیے کہ نہ صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلکہ سب مسلمان جملہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو سب مخاطب وحی تھے اور جب یہ آیات نازل ہوئیں تو وہی لوگ موجود تھے کہ ہم تو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اس کو معبود حقیقی اور وحدہ لاشریک جانتے ہیں اور جب اسے حاکم مطلق تسلیم کرتے ہیں تو پھر اس کے نازل کردہ کلام سے مجال سرتابی نہیں جو اس کی طرف سے نازل ہوتا ہے تسلیم کرتے ہیں نہ صرف اب بلکہ جب بھی اور جس پر بھی نازل ہوا ان تمام انبیاء (علیہ السلام) کو اللہ کی کتابوں سمیت برحق تسلیم کرتے ہیں۔ خواہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہوں یا اسماعیل (علیہ السلام) ، حضرت اسحاق (علیہ السلام) ہوں یا یعقوب (علیہ السلام) یا ان کی اولاد میں مختلف انبیائے کرام یا موسیٰ (علیہ السلام) ہوں یا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہم تو سب کی نبوت کو حق مانتے ہیں اور کسی میں تفریق نہیں کرتے کیونکہ ہم تو اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کرچکے۔ اب اس کے کسی نبی سے مجال سرتابی نہیں نہ ان کے حکم کے خلاف ہوسکتا ہے اور فان امنوا بمثل ما امنتم بہ فقد اھتدوا اگر یہ ایمان لے آئیں تمہاری طرح ، تو ہدایت پاگئے اور اگر یہ معیار پورا نہ کرسکیں تو پھر ضد پر یہ لوگ ہیں اگرچہ تعداد میں یہ زیادہ یا اسباب دنیا میں یہ مضبوط بھی ہوں پھر ان کی ضرورت نہیں۔ آپ کی طرف سے اللہ تعالیٰ نے ان سے نپٹ لے گا کہ وہ تو سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ صحابہ کا ایمان معیاری ایمان : یہاں ایمان صحابہ (رض) کو معیار ایمان وحق پرستی قرار دیا ہے اور اگرچہ اس وقت کے مخاطب تو مقامی لوگ تھے مگر قرآن اور اس کی تعلیمات ہمیشہ کے لئے ہیں تو ہمیشہ کے لئے معیار حق بھی حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی ہوں گے اور ان کے خلاف کرنے والا محض ہٹ دھرمی کی وجہ سے حق کو چھوڑنے والا ہوگا اللہ کا علم کامل ہے وہ خود خالق ہے اس نے ان کو وہ معیار صداقت وحق پرستی ودیعت فرمایا اور انہیں ہمیشہ کے لئے حق کی کسوٹی قرار دیا اور انہیں رفاقت امام الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے پسند فرمایا۔ اب اگر خدانخواستہ کسی کو ان سے اس قدر اختلاف ہے کہ وہ خود کو مسلمان جانتا ہے اور ان کو معاذ اللہ کافر۔ تو یہ کفر اس کی طرف لوٹے گا کہ وہ حقیقتاً پر ہیں۔ سو ایسا شخص کافر ہوگا یا کوئی عادل نہیں سمجھتا انہیں ، تو ظالم وہ خود ہوگا وہ عادل ہیں وعلی ہذا۔ چونکہ اللہ نے ان کے ایمان کو معیار قرار دیا ہے اور ابھی ابھی اہل کتاب پر یہ اعتراض گزرا ہے کہ تم مدعی تو حق پرستی کے ہو لیکن تمہارے کردار سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ تو معاذ اللہ ، اگر صحابہ (رض) کا کردار معیار نہ ہوتا تو اللہ کریم انہیں بھی معیار حق نہ گردانتا۔ اس لئے ایسا سوچنا درست نہیں ” یہ تو عقیدہ عقیدہ کی بات ہے “۔ اس سے تعامل صحابہ (رض) کا عدل کیسے ثابت ہوا بھئی۔ ذرا بمثل ما امنتم بہ پر پھر غور کرو ، کیا ایمان بغیر عمل کے اللہ کے ہاں معیاری ایمان ہوسکتا ہے ہرگز نہیں ، اور پھر ان کی مخالفت پہ یہ وعید کہ فسکفیکھم اللہ یعنی اے اللہ کے نبی ! آپ کی طرف سے اللہ ان لوگوں سے سمجھ لے گا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے یا ان کی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خادم نہیں بن سکتے۔ حضرت عثمان ذی النورین معدن الحیاء والایمان (رض) پہ جب ظالموں نے پہلاوار کیا تو چونکہ آپ (رض) تلاوت فرما رہے تھے خون اسی لفظ مبارک پر گرا اور ا س مظلوم شہید کے بعد برسوں خون کی ندیاں بہتی رہیں اور ایک وبال عظیم آیا ، کہ محتاط اندازے کے مطابق ستر ہزار افراد بعد کے برسوں میں قتل ہوئے۔ سو یہ بات واضح ہے کہ جتنا کسی صحابہ سے اختلاف ہوگا اسی قدر وہ غضب الٰہی کی زد میں ہوگا۔ اعاذنا اللہ ھنھا ان سے کہئے کہ ، صبغۃ اللہ ومن احسن من اللہ صبغۃ ونحن لہ عابدون۔ محض کپڑے رنگنے سے مذہب نہیں بنتا جیسے نصاریٰ پیدا ہونے والے بچے کو رنگدار پانی میں ڈبو کر سمجھ لیتے کہ اب نصرانی ہوگیا۔ یہ بات درست نہیں بلکہ رنگ تو اللہ کا ہے جو عقائد نظریات اور اعمال وکردار سے جھلک رہا ہو۔ انسان کی زندگی سے ہویدا ہو۔ جیسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں سے تھا کہ انہیں کو حکم ہورہا ہے کہ ان سے کہو ہمارے شب وروز دیکھو ، ہماری صلح اور جنگ کو دیکھو ، ہمارے کاروبار اور سیاست کو دیکھو ، تمہیں ہر جگہ ہر حال میں اللہ کا رنگ نظر آئے گا جس سے بہتر کوئی رنگ ہو نہیں سکتا اور ہم تو اس کے دست بستہ خادم ہیں ہمارا مقصد حیات اس کی عبادت اور ہر گام پر اس کی اطاعت ہے۔ یہاں تمام فرق باطلہ کی تردید ان چندمبارک الفاظ میں کردی گئی ، جیسے کسی نے ذات وصفات باری میں یا انبیاء (علیہ السلام) کی شان میں یاملائ کہ کے وجود میں کسی طرح کی کمی بیشی کی مردود ہوگا کہ وہ دور رسالت اور عہد رسالت میں مفقود ہے۔ نہ انبیاء کو خدا کی صفات میں شریک کرے نہ ان کی عظمت شان میں فرق آئے۔ اسی طرح کسی نے ظلی یا بروزی نبی کا اعتقاد صحابہ میں موجود نہیں تو ایسا اعتقاد مردود ہوگا یا حشرونشر میں کھینچ تان کرکے حشر اجساد کی بجائے حشر روحانی اور عذاب وثواب روحانی یا میزان اعمال وغیرہ میں باطل تاویلیں کرکے یہ سمجھنا کہ دین کی خدمت کی ہے ، درست نہیں ، بلکہ آخرت کے تمام حالات و واقعات جس طرح قرآن وسنت میں موجود ہیں ان پر بغیر تاویلات کے ایمان لانا ہی صحابہ کی موافقت اور مقبولیت کی دلیل ہے۔ قل اتحاجوننا فی اللہ…………ونحن لہ مخلصون۔ بلکہ ایسا کرنے والوں سے فرمادیجئے کہ تم اللہ کے معاملے میں ہم سے کٹ حجتی کرتے ہو ، جو ہمارا پروردگار ہے جس کی ربوبیت کے ہم قائل ہیں اور جس کے احکام سے سرتابی ہماری مجال نہیں۔ مگر کھاتے تو تم بھی اسی کا ہو ، رب تو تمہارا بھی وہی ہے۔ یاد رکھو ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تم اپنے کئے کا پھل پائو گے جبکہ ہم سارے کام خلوص دل سے اس کی رضا کے لئے کرتے ہیں اور تم محض دنیا میں اپنا بھرم رکھنے کے لئے حجت بازی کر رہے ہو ۔ اور یہ تم کہتے ہو کہ ، ام تقولون ان ابراھیم……………وما اللہ بغافل عما تعملون۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل واسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد تو یہودی یا نصرانی تھے تمہارا علم زیادہ معتبر یا اللہ خوب جانتا ہے جس نے بذریعہ وحی ان کا ملت اسلامیہ پہ ہونا ثابت کردیا ہے اور تم تو وہ ظالم ہو جنہوں نے اللہ کی اس شہادت کو جو تمہارے پاس ہے چھپا رکھا ہے کہ خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ مبارکہ ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حلیہ مبارک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے صاف اور واضح دلائل تمہاری کتابوں میں موجود ہیں۔ جن کو تم خود محض دنیا کے لالچ میں نہ صرف قبول کرنے سے اعتراض کرتے ہو بلکہ دوسروں تک پہنچنے سے بھی روکتے اور لوگوں سے چھپاتے ہو تو جب اللہ کے اس عظیم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو تمہارے سامنے تشریف رکھتے ہیں تمہارا یہ سلوک ہے تو جو حضرات تشریف لے جاچکے ان کے بارے غلط بیانی کرنے سے کب چوک سکتے ہو ، مگر یاد رکھو ! اللہ تمہارے کرتوتوں سے باخبر ہے۔ تلک امۃ قد خلت…………ولا تسئلون عما کانوا یعملون۔ یہ ان مقدس بزرگوں کی ایک جماعت تھی جو گزر چکی۔ اپنا فریضہ بجا لا کر تشریف لے جاچکے ان کی اچھائی ان کے لئے ہے تمہیں تو وہی ملے گا جو تم کرو گے کہ ان کاموں کی تم سے پوچھ بھی تو نہ ہوگی۔ ان کی طرف سے تم جوابدہ بھی تو نہیں ہو۔ پھر ان کی اچھائیوں کے وارث کہاں سے ٹپک پڑے۔ ہاں ! ان کا عقیدہ اور عمل اپنائو اور اس پر ثابت قدم رہو۔ ورنہ محض دعویٰ ان کے محبت کا ، اور تکمیل خواہشات نفس کی۔ یہ چالاکی اللہ کے ہاں نہ چل سکے گی۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 130 تا 141 یرغب (منہ پھیرتا ہے۔ (یرغب کے معنی رغبت کے آتے ہیں لیکن چونکہ یرغب کے بعد عن آگیا ہے اسی لئے اس کے معنی منہ پھیرنا) ۔ ملت ابراھیم (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خلیل اللہ کی سنت، ان کا طریقہ ) ۔ سفہ نفسہ (جس نے اپنی ذات کو بیوقوف بنا لیا یعنی جو اپنی ذات ہی سے احمق اور بیوقوف ہو۔ اصطفینا (ہم نے منتخب کرلیا) ۔ اسلم (گردن جھکا دے ، فرماں بردار ہوجا) ۔ وصی (اس نے وصیت کی) ۔ لا تموتن (تمہیں ہرگز موت نہ آئے) ۔ شھداء (موجود (شھید کی جمع ہے) ۔ حضر (آیا۔ (چونکہ اردو میں موت مونث ہے اس لئے اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے آئی) ۔ تعبدون (تم (کس کی) بندگی کرو گے) ۔ خلت (گذر گئی) ۔ کسبت (اس نے کمائی کی) ۔ لا تسئلون (تم نہ پوچھے جاؤ گے ) حنیف (صرف اللہ کی بندگی کرنے والا) ۔ الاسباط (اولادیں (سبط کی جمع ہے) ۔ اوتی (دیا گیا) ۔ لا نفرق (ہم تفریق نہیں کرتے (یعنی ایک نبی کو مانیں اور دوسرے کو نہ مانیں ) ۔ امنتم تم ایمان لے آئے (اھتدوا) ۔ انہوں نے ہدایت پالی) ۔ شقاق (ضد) ۔ فسیکفیکھم (پھر وہ آپ کو ان کے مقابلے میں کافی ہے) ۔ صبغۃ اللہ (اللہ کا رنگ) ۔ احسن (زیادہ خوبصورت ) ۔ اتحاجوننا (کیا تم ہم سے جھگڑتے ہو) ۔ مخلصون (خالص کرنے والے، (اسی کے ہیں) ۔ تشریح : آیت نمبر 130 تا 141 ان آیتوں میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ حق پرست حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) جن کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس بات کا گواہ ہے کہ انہوں نے راہ سے بھٹکے ہوئے انسانوں کو ایک اللہ کی عبادت و بندگی کی طرف بلایا ، خود بھی اللہ کے فرماں بردار مسلم تھے اور لوگوں کو بھی اسی طرف بلایا کہ وہ حق پرست مسلم بن کر زندگی گزاریں۔ یہ تھا ان کا وہ طریقہ زندگی جو دوسروں کے لئے روشنی کا مینار تھا۔ اس سے بہتر طریقہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ ان کے راستے کو ماسوائے اس شخص کے جس نے اپنے آپ کو فریب نفس اور حماقتوں کی دلدل میں پھنسا رکھا ہے اور کون منہ پھیر سکتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں بہت سے پیغمبر آئے جنہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے راستے پر چل کر دوسروں کو چلانے کی کوشش کی۔ وہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) جن پر بنی اسرائیل کو نہ صر ف ناز ہے بلکہ ان پر فخر بھی کرتے ہیں انہوں نے زندگی کے آخری سانس تک یہی نصیحت کی ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرنا بلکہ انہوں نے اپنی اولاد سے اس کا اقرار بھی لیا تھا کہ وہ ایک اللہ کی بندگی کرتے رہیں گے اور وہ مسلم بن کر رہیں گے۔ لیکن انہوں نے اپنے سارے وعدے بھلا دئیے اور اب وہ اس پر جھگڑ رہے ہیں کہ ابراہیم و اسماعیل و اسحاق و یعقوب (علیہ السلام) یہودی تھے یا عیسائی وہ لوگوں کو یہ کہہ کر دعوت دیتے ہیں کہ اگر کسی کو ہدایت حاصل کرنی ہے تو وہ یہودی یا عیسائی بن کر ہی حاصل کرسکتا ہے (نعوذ باللہ) فرمایا گیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی صالح اولاد نے تو مسلم بن کر جینے کو نجات کا باعث کہا تھا اور یہ لوگ سب کچھ بھول کر یہودیت اور عیسائیت کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں اللہ نے فرمایا ہے کہ نجات ان لوگوں ہی کو نصیب ہوگی جو اپنے اوپر اللہ کی محبت کا رنگ چڑھا لیں گے جو یہودیت اور عیسائیت کے رنگ سے کہیں بہتر ہے۔ فرمایا کہ ایک جماعت تو وہ تھی جس نے اپنے آپ کو اللہ کے لئے خالص کرلیا تھا اور ایک جماعت یہ ہے جو ٹکڑوں میں بٹ کر اسلام کی سچی راہ کو بھلا بیٹھی ہے۔ انجام دونوں کا سامنے ہے، کسی سے دوسرے کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا۔ بلکہ ہر ایک کو اپنے اعمال کا بوجھ خود اٹھانا پڑے گا اور اسی پر فیصلہ ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عقیدے کی وضاحت ان کو بیت اللہ کا بانی ثابت کرنا ان کا اہل مکہ سے خصوصی تعلق اور نبی کریم کی نبوت کے بارے میں واضح ثبوت دیتے ہوئے یہ وضاحت کی جارہی ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو بھی اسی عقیدے کی وصیت فرمائی تھی جس کی دعوت نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش کررہے ہیں۔ جو شخص ابراہیم (علیہ السلام) کے عقیدہ اور ان حقائق کو نہیں مانتا اس کی حماقت میں کیا شک ہوسکتا ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنے رب کے حضور اطاعت گزاریاں ‘ قربانیاں ‘ دعائیں بالخصوص یہ التجا جس میں نبی آخر الزماں کی بعثت کی آرزو کی گئی ہے ان سے وہی شخص اعراض و انحراف کرسکتا ہے جس نے اپنے آپ کے لیے حماقت اور نقصان کا راستہ پسند کرلیا ہو۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمات اور امتحانات کی وجہ سے انہیں دنیا میں نیک نامی ‘ عظمت اور رہتی دنیا تک امامت کے منصب سے سرفراز فرمایا ہے اور آخرت میں یقیناً وہ خدا کے پسندیدہ اور برگزیدہ لوگوں میں ہوں گے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اطاعت شعاری کا یہ حال تھا کہ جب بھی ان کے رب نے انہیں حکم فرمایا کہ تابعدار ہوجاؤ۔ وہ یہ کہتے ہوئے پورے اخلاص اور مکمل انہماک کے ساتھ اپنے رب کے فرمانبردار ہوئے کہ فرمانبرداری میرا کمال اور احسان نہیں میں تو اس رب کی فرمانبرداری کر رہا ہوں جس کی سب کو فرمانبرداری کرنا چاہیے۔ کیونکہ وہ تو سب کو پالنے والا اور تمام جہانوں کا مالک ہے۔ یہ فرمانبرداریاں ان کی ذات اور بیٹوں تک محدود نہیں تھیں بلکہ ان کے پوتے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بھی اپنی نسل کو اسی طریقے اور دین پر مر مٹنے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن اے اہل کتاب ! تمہاری حالت یہ ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وراثت کے دعویدار ہونے کے باوجود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بنائے ہوئے گھر کو تسلیم نہیں کرتے ہو اور نہ ہی ان کی دعا کے صلہ میں مبعوث ہونے والے محمد عربی خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ماننے کے لیے تیار ہو۔ تم ہی بتاؤ اس سے زیادہ حماقت اور کیا ہوسکتی ہے ؟ آدمی کے انجام کا دارومدار اس کے خاتمہ پر ہے لہٰذا آدمی کو اپنے انجام کی فکر کرنی چاہیے۔ جس کے بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں فرمایا کرتے تھے : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ الزَّمَنَ الطَّوِیلَ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ثُمَّ یُخْتَمُ لَہٗ عَمَلُہٗ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ الزَّمَنَ الطَّوِیلَ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِثُمَّ یُخْتَمُ لَہٗ عَمَلُہٗ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ) [ رواہ مسلم : کتاب القدر، باب کیفیۃ خلق الآدمی في بطن امہ۔۔] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آدمی طویل عرصہ جنتیوں والے اعمال کرتارہتا ہے پھر اس کا خاتمہ جہنمیوں والے اعمال پر ہوجاتا ہے اور ایک آدمی لمبا عرصہ جہنمیوں والے اعمال کرتارہتا ہے پھر اس کا خاتمہ جنتیوں والے اعمال پر ہوجاتا ہے۔ “ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرز حیات سے منہ پھیرنے والا احمق ہوگا۔ ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دنیا میں معزز ترین اور آخرت میں صالحین میں سے ہیں۔ ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) زندگی بھر اپنے رب کے تابع فرمان رہے۔ ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے پوتے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو مرتے دم تک مسلمان رہنے کی وصیت فرمائی۔ تفسیر بالقرآن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سب کے پیشوا ہیں : ١۔ ابراہیم (علیہ السلام) سب کے پیشوا ہیں۔ (البقرۃ : ١٢٤) ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) سب کے لیے اسوہ ہیں۔ (الممتحنۃ : ٤) ٣۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابراہیم (علیہ السلام) کی اتباع کا حکم ہوا ہے۔ (النحل : ١٢٣) ٤۔ ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی اتباع کا سب کو حکم ہے۔ ( آل عمران : ٩٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ ہے ملت ابراہیم (علیہ السلام) ، یعنی خالص اور واضح اسلام اور فرمان برداری ۔ اور اس سے کنارہ کش صرف وہی ہوگا جو اپنے اوپر ظلم کرے گا ۔ اس سے دور وہی ہوگا جو دراصل احمق ہوگا ۔ اور اپنے آپ کو برباد کرنے والا ہوگا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جسے رب ذوالجلال نے دنیا کی امت کے لئے چنا اور جن کے بارے میں اللہ نے گواہی دی کہ وہ آخرت میں صالحین میں سے ہوں گے ۔ انہوں نے اس دین کو پسند کیا ہے ۔ جب ان سے ان کے رب نے کہا ” مسلم ہوجا “ تو انہوں نے بغیر ہچکچاہٹ کے اور بغیر کسی تردد اور انحراف کے فوراً سر تسلیم خم کردیا اور فوراً کہا قَالَ اَسلَمتُ لِرَبِّ العَالَمِینَ ” میں رب العالمین کا فرماں بردار ہوگیا ہوں۔ “ یہ ہے ملت ابراہیمی ، خالص اسلام اور واضح دین۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے صرف اپنی ذات تک محدود نہیں چھوڑا بلکہ اسے اپنی اولاد کے لئے بھی پسند کیا ۔ اپنی اولاد کو وصیت کی کہ وہ اسے اپنائے رکھیں ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو اس کی وصیت کی ۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بھی اپنی اولاد کو اس کی وصیت کی اور یاد رہے کہ حضرت یعقوب ہی وہ اسرائیل ہیں جن کی طرف یہ لوگ اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں ۔ لیکن اس کی وصیت کو تسلیم نہیں کرتے ۔ اپنے جد امجد کی وصیت کی تسلیم نہیں کرتے ۔ حالانکہ حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب (علیہما السلام) دونوں نے اپنی اولاد کو یہ یاد دہانی کرائی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے اس دین کو پسند کیا ہے ۔ یٰبَنَیَّ اِنَّ اللہَ اصطَفٰی لَکُمُ الدِّینَ ” میرے بچو ! اللہ نے تمہارے لئے یہی دین پسند کیا ہے ۔ “ یہ اللہ کی پسند ہے لہٰذا اللہ کی پسند کے بعد اب ان کے لئے اس کے سوا کوئی راہ نہیں ہے کہ وہ اسے پسند کریں اور اللہ کے اس فضل وکرم اور خصوصی عنایت کا کم ازکم تقاضا یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اس پسند اور اس کی عطا پر اس کا بےحد شکر ادا کریں اور ہر وقت یہ سعی کرتے رہیں کہ کسی دور اور کسی زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ کی یہ سرزمین امت مسلمہ سے خالی نہ ہو اور اس زمین پر اللہ پرستی کی یہ تحریک ہر وقت جاری وساری رہے فَلَا تَمُوتُنَّ اِلَّا وَاَنتُم مُسلِمُونَ ” تم صرف اس حال میں مرو کہ تم مسلم ہو۔ “ یہ تھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وصیت جو انہوں نے اپنی اولاد کو کی تھی اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو کی تھی ۔ اور یہ وصیت حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی زندگی کے آخری لمحات اور سکرات الموت میں بھی وہ اسے بھلانہ سکے ۔ بنی اسرائیل کو چاہئے کہ وہ اس پر خوب غور کریں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ملت ابراہیمی سے وہی اعراض کرے گا جو احمق ہو حضرت ابراہیم خلیل اللہ علی نبینا و (علیہ السلام) کی ملت میں توحید الٰہی پر جینے اور مرنے کا حکم ہے اور شرک سے بیزاری ہے۔ ظاہری باطنی نظافت اور طہارت ہے، مہمانی ہے، قربانی ہے اللہ کی عبادت ہے اور فرمانبر داری ہے۔ انابت الی اللہ ہے صحیح انسانیت کی تعلیم ہے ان کی ملت کا اتباع کرنے کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا۔ سورة نحل میں ارشاد ہے۔ (ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) ” پھر ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی کہ ابراہیم کی ملت کا اتباع کیجئے جو باطل دینوں کو چھوڑ کر حق ہی کی راہ پر چلنے والے تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے۔ “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا عمل اتمام کلمات اور ان کو لوگوں کا پیشوا بنانے کے اعلان، اور ان کے کعبہ بنانے اور قبولیت کی دعائیں کرنے اور اپنی نسل میں سے نبی آخر الزماں کی بعثت کی دعا مانگنے کا تذکرہ کرنے کے بعد ارشاد ہو رہا ہے کہ ملت ابراہیمی سے وہی شخص بےرغبت ہوسکتا ہے اور ان کی ملت سے وہی رو گردانی کرسکتا ہے جو عقل سے کو را ہو اور جس نے اپنے نفس کو بالکل ہی احمق بنا دیا ہو، کوئی سلیم الفطرت عقل مند انسان ان کی ملت سے انکاری نہیں ہوسکتا۔ ملت ابراہیمی اس وقت ملت محمدیہ میں منحصر ہے اور آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی اس کے داعی ہیں۔ جو لوگ اس سے بیزار ہیں وہ لوگ مشرک، بت پرست، بےحیا، بےشرم، بداخلاق، بداعمال، دھوکے باز اور زمین میں فساد کرنے والے اور قوموں کو لڑانے والے ہیں اور جس قدر بھی دنیا میں قبائح اور خراب کام ہیں سب انہیں لوگوں میں پائے جاتے ہیں جو ملت ابراہیم سے ہٹے ہوئے ہیں (گو کمزور ایمان والے مسلمانوں میں بھی معاصی ہیں لیکن اول تو انہیں گناہ سمجھتے ہوئے کرتے ہیں اور دوسرے توبہ کرتے رہتے ہیں اور ہر حال میں گناہ بھی حماقت ہی سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ سورة نساء میں فرمایا (اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓءَ بِجَھَالَۃٍ ) (الایہ) مسلمین اہل المعاصی کی حماقت ان لوگوں کی حماقت سے بہت زیادہ کم ہے جو کفر و شرک پر جمے ہوئے ہیں اور ملت ابراہیمی کو قبول کرنے کو بالکل تیار نہیں ہیں۔ یہ بتانے کے بعد کہ ابراہیم کی ملت سے وہی رو گردانی کریگا جس نے اپنی جان کو بیوقوف بنادیاہو یہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے ابراہیم کو دنیا میں چن لیا اور برگزیدہ بنالیا۔ دنیا میں ان کی فضیلت اور برتری سب پر ظاہر ہے سب قومیں ان کی فضیلت کی قائل ہیں اور ان کے بعد جو بھی کوئی نبی آیا ہے انہیں کی نسل اور ذریت میں سے آیا ہے اور سب ان کو مانتے ہیں اور ان سے عقیدت رکھتے ہیں۔ ان کو دشمن نے آگ میں ڈالا، اللہ تعالیٰ نے وہ آگ ان کے لیے گلزار بنا دی۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے کعبہ تعمیر کرایا اس وقت سے لے کر آج تک کعبہ شریف کا حج ہوتا ہے۔ اور ان کو جو مناسک حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے بتائے تھے۔ ان پر برابر عمل ہو رہا ہے۔ انہوں نے جو بیٹے کی قربانی کی تھی اس قربانی کے اتباع میں کروڑوں قربانیاں ہر سال پورے عالم میں ہوتی ہیں۔ درود ابراہیمی میں ان کا ذکر ہے۔ امت محمدیہ جس کا نام انہوں نے مسلمین رکھا تھا (کمافی سورة الحج) وہ ان کی ملت کی اتباع کرنے والی ہے اور ان کی یاد گار ہے۔ پھر فرمایا : (وَ اِنَّہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ ) (آخرت میں بھی وہ صالحین میں سے ہوں گے) ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی گواہی ہے کہ وہ ثابت قدم صاحب استقامت اور خیر اور صلاح سے متصف ہونے والوں میں شمار ہوں گے۔ وہاں بھی ان کی رفعت ہوگی جیسا کہ دنیا میں ان کی فضیلت مشہور و معروف ہوئی۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں : (ای المشھودلھم باثبات علی الاستقامۃ والخیر والصلاح) اس کے بعد تحریر فرماتے ہیں : و ذلک من حیث المعنی دلیل مبین لکون الراغب عن ملۃ ابراھیم سفیھا اذ الاصطفاء والعز فی الدنیا غایۃ المطالب الدنیویۃ والصلاح جامع للکمالات الاخرویۃ ولا مقصد للانسان الغیر السفیہ سوی خیر الدارین یعنی ان کی خیر و صلاح اور ثبات علی الاستقامتہ میں اس امر کی واضح دلیل ہے کہ جو شخص ملت ابراہیمی سے منحرف ہوا وہ واقعی بیوقوف ہے۔ اس لیے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ بندہ بننا اور معزز ہونا دنیاوی مطلوبات کا آخری مقام ہے اور صلاح کمالات اخرویہ کو جامع ہے اور سمجھ دار آدمی کے لیے دونوں جہان کی خیر سے بڑھ کر کوئی مقصد نہیں (نا سمجھ یعنی بیوقوف ہی ان مقاصد عالیہ سے منحرف ہوسکتا ہے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

249 رغب کا صلہ جب عن آتا ہے تو اس کے معنی اعراض کے ہوتے ہیں۔ سَفِهَ نَفْسَهٗکے معنی ہیں جعلھا مھانۃ ذلیلۃ (روح ص 387 ج 1) یعنی جس نے اپنے آپ کو شرک و بدعت کی وجہ سے ذلیل و خوار کر رکھا ہو۔ اور یا اس کے معنی ہیں خسر نفسہ (بحر ص 394 ج 1، معالم ص 96 ج 1) یعنی جس نے اپنے آپ کو شرک کی وجہ سے خسارے میں ڈال رکھا ہو یا اس کے معنی حمق رایہ کے ہیں (ایضاً ) یعنی جس کی رائے احمقانہ ہو اور وہ بیوقوف ہو مطلب یہ ہے کہ ملت ابراہیمی تو سراسر اخلاص و توحید سے لبریز ہے اور اس کے تمام احکام عقل و فطرت کے مطابق ہیں اس لیے ایسی ملت سے صرف وہی اعراض کرسکتا ہے جو شرک میں ڈوبا ہوا ہو یا جس کی عقل میں فتور ہو۔ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنٰهُ فِي الدُّنْيَا۔ اسی ملت وحدت اور دین توحید کی پیروی کی بنا پر تو ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دنیا میں سب کی پیشوائی کے لیے منتخب کیا تھا وَاِنَّهٗ فِي الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ ۔ صالح فی الآخرت کے معنی ہیں کامیاب اور فائز المرام۔ الصالح فی الاخرۃ ھو الفائ (قرطبی ص 133 ج 2) ملت ابراہیمی ایک ایسی چیز ہے جس کے اتباع کی وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کمالات دنیویہ اور مقاصد اخرویہ حاصل ہوئے لہذا ایسی ملت سے اعراض کرنے والا شخص یقیناً سر پرا اور احمق ہے۔ امام قتادہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں جنہوں نے ملت ابراہیمی کو چھوڑ کر یہودیت ونصرانیت اختیار کی۔ (قرطبی ص 132 ج 2) اور اپنے بزرگوں کو خدا کا شریک ونائب ٹھہرایا اور انہیں حاجات میں غائبانہ پکارنے لگے۔ نیز ان مشرکوں کا رد ہے جنہوں نے ابراہیمی ہونے کے دعویٰ کے ساتھ ساتھ اللہ کی توحید سے بغاوت کی اور اس کے ساتھ شرک کیا (ابن کثیر ص 185 ج 1) اب آگے ملت ابراہیمی کی امتیازی خصوصیت اور اس کے خصوصی وصف یعنی توحید کا بیان ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi