Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 135

سورة البقرة

وَ قَالُوۡا کُوۡنُوۡا ہُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰی تَہۡتَدُوۡا ؕ قُلۡ بَلۡ مِلَّۃَ اِبۡرٰہٖمَ حَنِیۡفًا ؕ وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۱۳۵﴾

They say, "Be Jews or Christians [so] you will be guided." Say, "Rather, [we follow] the religion of Abraham, inclining toward truth, and he was not of the polytheists."

یہ کہتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ بن جاؤ تو ہدایت پاؤ گے ۔ تم کہو بلکہ صحیح راہ پر ملت ابراہیمی والے ہیں ، اور ابراہیم خالص اللہ کے پرستار تھے اور مُشرک نہ تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says; وَقَالُواْ كُونُواْ هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُواْ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ And they say, "Be Jews or Christians, then you will be guided." Say (to them O Muhammad), "Nay, (we follow) only the religion of Ibrahim, Hanif (Islamic Monotheism), and he was not of Al-Mushrikin (those who worshipped others along with Allah. Muhammad bin Ishaq reported that Ibn Abbas said that Abdullah bin Suriya Al-Awar said to the Messenger of Allah, "The guidance is only what we (Jews) follow. Therefore, follow us, O Muhammad, and you will be rightly guided." Also, the Christians said similarly, so Allah revealed, وَقَالُواْ كُونُواْ هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُواْ (And they say, "Be Jews or Christians, then you will be guided"). Allah's statement, ... قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ... Say (to them O Muhammad), "Nay, (we follow) only the religion of Ibrahim, Hanif. means, "We do not need the Judaism or Christianity that you call us to, rather, مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ((we follow) only the religion of Ibrahim, Hanif) meaning, on the straight path, as Muhammad bin Ka`b Al-Qurazi and Isa bin Jariyah stated. Also, Abu Qilabah said, "The Hanif is what the Messengers, from beginning to end, believed in."

عبد اللہ بن صوریا اعور نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ ہدایت پر ہم ہیں تم ہماری مانو تو تمہیں بھی ہدایت ملے گی ۔ نصرانیوں نے بھی یہی کہا تھا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ہم تو ابراہیم حنیف علیہ السلام کے متبع ہیں جو استقامت والے ، اخلاص والے ، حج والے ، بیت اللہ کی طرف منہ کرنے والے ، استطاعت کے وقت حج کو فرض جاننے والے ، اللہ کی فرمانبرداری کرنے والے ، تمام رسولوں پر ایمان لانے والے لا الہ الا اللہ کی شہادت دینے والے ، ماں بیٹی خالہ پھوپھی کو حرام جاننے والے اور تمام حرام کاریوں سے بچنے والے تھے ۔ حنیف کے یہ سب معنی مختلف حضرات نے بیان کئے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

135۔ 1 یہودی، مسلمانوں کو یہودیت کی اور عیسائی، عیسایت کی دعوت دیتے اور کہتے کہ ہدایت اسی میں ہے۔ اللہ تعلیٰ نے فرمایا، ان سے کہو ہدایت ملت ابراہیم کی پیروی میں ہے جو حنیف تھا (اللہ واحد کا پرستار اور سب سے کٹ کر اسی کی عبادت کرنے والا) وہ مشرک نہیں تھا۔ جب کہ یہودیت اور عیسائیت دونوں میں شرک کی امیزش موجود ہے۔ اور اب بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی شرک کے مظاہر عام ہیں اسلام کی تعلیمات اگرچہ بحمداللہ قرآن و حدیث میں محفوظ ہیں جن میں توحید کا تصور بالکل بےغبار اور نہایت واضح ہے جس سے یہودیت اور ثنویت (دو خداؤں کے قائل مذاہب) سے اسلام کا امتیاز نمایاں ہے۔ لیکن مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے اعمال عقائد میں جو مشرکانہ اقدار و تصورات در آئے ہیں اس نے اسلام کے امتیاز کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کردیا ہے۔ کیونکہ غیر مذاہب والوں کی دسترس براہ راست قرآن و حدیث تک تو نہیں ہوسکتی، وہ تو مسلمانوں کے عمل کو دیکھ کر ہی یہ اندازہ کریں گے کہ اسلام میں اور دیگر مشرکانہ تصورات سے آلودہ مذاہب کے مابین تو کوئی امتیاز ہی نظر نہیں آتا۔ اگلی آیت میں ایمان کا معیار بتلایا جارہا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦٧] ملت اس نظام زندگی کا نام ہے جس کی بنیاد چند مخصوص عقائد پر ہو اور ملت ابراہیم (علیہ السلام) کے عقائد میں سے سب سے اہم عقیدہ جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا وہ یہ ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) موحد تھے۔ شرک نہیں کرتے تھے۔ یہود مسلمانوں سے کہتے ہیں یہودی بنو گے تو نجات پا جاؤ گے۔ حالانکہ وہ خود مشرک تھے اور حضرت عزیر (علیہ السلام) کو ابن اللہ کہتے تھے۔ اسی طرح عیسائی بھی مسلمانوں سے یہی بات کہتے تھے حالانکہ وہ بھی تین خدا مانتے تھے اور مشرک تھے اور کفار مکہ وغیرہ کے مشرک ہونے میں تو کوئی شک ہی نہیں۔ حالانکہ وہ بھی ملت ابراہیمی کی اتباع کا دعویٰ کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان میں سے کوئی بھی نہ ہدایت پر ہے اور نہ ملت ابراہیم سے تعلق رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ سب مشرک ہیں۔ ملت ابراہیم پر صرف وہ ہوسکتا ہے جو مشرک نہ ہو اور وہی ہدایت یافتہ ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اہل کتاب مسلمانوں کو یہودیت اور نصرانیت کی دعوت دیتے اور ہدایت کو اپنے دین میں منحصر مانتے تھے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن صوریا (یہودی) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا، ہدایت صرف وہ ہے جس پر ہم ہیں، اس لیے آپ ہماری پیروی کریں تو ہدایت پاجائیں گے اور نصرانیوں نے بھی ایسے ہی کہا، اس پر یہ آیت اتری۔ (ابن کثیر، بسند حسن) یعنی آپ کہہ دیں ہم تو ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت کی پیروی کریں گے، جو حنیف اور مسلم تھے، یعنی تمام گروہوں اور آباء و اجداد کے طریقوں سے ہٹ کر ایک اللہ کی طرف ہو کر پوری طرح اس کے تابع فرمان تھے اور مشرک نہ تھے۔ ان کا دین حق پر ہونا تم بھی مانتے ہو۔ تمہارا حال یہ ہے کہ تم ایک طرف شرک میں گرفتار ہو کہ عزیر اور مسیح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کے بیٹے مانتے ہو، کبھی تین خدا مانتے ہو، کبھی صلیب کی پوجا کرتے ہو۔ دوسری طرف تم وحی الٰہی کی پیروی کے بجائے احبارو رہبان کی تقلید میں گرفتار ہو کر فرقوں میں بٹے ہوئے ہو۔ تم ہدایت پر ہونے کا دعویٰ کس منہ سے کرتے ہو ؟ افسوس ! اب مسلمانوں کی اکثریت کا بھی یہی حال ہے کہ جس طرح یہود و نصاریٰ اور مشرکین نے ملت حنیفی کو ترک کرکے چند رسوم و بدعات، خرافات اور شرکیہ اعمال کی پابندی کو دین ہدایت سمجھ رکھا تھا، اسی طرح انھوں نے بھی قرآن و سنت کو ترک کر کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مدتوں بعد آنے والے بزرگوں کی تقلید کو، جو نبی بھی نہیں تھے، واجب قرار دیا۔ اللہ کے بجائے غیر اللہ سے مانگنے کو حج کے بجائے بزرگوں کے مقبروں پر جانے کو اور نماز، روزہ، زکوٰۃ ترک کرکے خود ساختہ اوراد و وظائف اور چلہ کشی کو اللہ کے قرب کا ذریعہ قرار دیا، اگر کوئی توحید اور قرآن وسنت کی دعوت دے تو اسے بےدین اور گمراہ قرار دیا۔ اسلام دراصل عقائد اور اصول کے مجموعے کا نام ہے، یعنی توحید کا عقیدہ اور وحئ الٰہی کا اتباع۔ دین اور ملت سے بھی یہی مراد ہے۔ تمام انبیاء ایک ہی دین و ملت یعنی اسلام کے پیروکار تھے، اگر کچھ اختلاف ہے تو بعض احکام میں ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلْاَنْبِیَاءُ إِخْوَۃٌ لِعَلاَّتٍ ، اُمَّہَاتُہُمْ شَتَّی وَ دِیْنُہُمْ وَاحِدٌ ) ” تمام انبیاء علاتی بھائی ہیں، ان کی مائیں (یعنی شریعتیں) مختلف ہیں اور ان کا دین ایک ہے۔ “ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ ۔۔ : ٣٤٤٣، عن أبی ہریرۃ (رض) ] اس لحاظ سے دین محمدی بھی ملت ابراہیم ہی ہے، یہودیت اور نصرانیت ملت ابراہیم سے خارج ہیں، کیونکہ وہ توحید الٰہی کے بجائے شرک میں اور وحئ الٰہی کی پیروی کے بجائے تقلید یعنی احبارو رہبان کی پیروی میں گرفتار ہوگئے اور تورات و انجیل پر عمل چھوڑ بیٹھے، اگر وہ واقعی مسلم ہوتے تو تورات اور انجیل میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات موجود ہونے کی وجہ سے آپ پر ایمان لے آتے۔ مزید دیکھیے سورة آل عمران (٦٤ تا ٦٨) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The earlier verses have defined the religion (Millat مِلَّت of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) and established that its present form is Islam. Now, the Jews and the Christians, in spite of their pretension to be his followers, did not in actual fact follow his religion. Each of these two groups, instead of accepting Islam, used to ask the Muslims to accept its own religion in order to find true guidance. No doubt, each of these two religions was, in its own time and for its own time, a genuine religion, but in its present form each had become distorted, and had also been abrogated by Allah. So, in answer to them, Allah asks the Holy Prophet $ to declare on his own behalf and on that of his followers that they are and shall remain steadfast in the religion of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) who shunned all kinds of association (Shirk شرک), who adored nothing but the One God and obeyed no one but Him, and whose religion, therefore, did not have even a trace of distortion. Then, in the second of these verses Allah asks the Muslims to declare the basic tenets of this religion too, which are as follows:- (1) Muslims believe in Allah and in the guidance which He has sent them through the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (2) They also believe in all the prophets sent by Allah from time to time - some of whom have been mentioned in this verse. (3) Some of the prophets may in some ways be superior to others, but it is essential for a Muslim to believe in all the prophets without making any distinction. (4) Muslims believe that the Shari` ah of all the prophets mentioned here were instituted by Allah Himself, but they have now been abrogated. So, Muslims follow the Shari&ah of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، for this alone is now valid. (5) Muslims ultimately obey Allah alone, and submit themselves totally to Him. In the second of these verses the progeny of Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) (Jacob) has been described as Asbat اسباط or |"tribes.|" The reason is that he had twelve sons, and the offspring of each son came to form a tribe. Allah so blessed his seed that in Egypt, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) (Joseph) and his brothers made up a group of twelve men, but their lineage flourished, and when the Israelites left Egypt along with Sayyidna Musa (علیہ السلام) (Moses), their number ran into thousands. Another form of this blessing was that the progeny of Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) included a large number of prophets.

خلاصہ تفسیر : اور یہ (یہودی و نصرانی) لوگ (مسلمانوں سے) کہتے ہیں کہ تم لوگ یہودی ہوجاؤ (یہ تو یہود نے کہا تھا) یا نصرانی ہوجاؤ (یہ نصاریٰ نے کہا تھا) تم بھی راہ (حق) پر پڑجاؤ گے (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (جواب میں) کہہ دیجئے کہ ہم تو (یہودی یا نصرانی کبھی نہ ہوں گے بلکہ) ملت ابراہیم (یعنی اسلام) پر رہیں گے جس میں کجی کا نام نہیں (بخلاف یہودیت ونصرانیت کے جس میں علاوہ محرف ہونے کے اس کے منسوخ ہو چکنے کے سبب اب اس میں کجی آگئ) اور ابراہیم (علیہ السلام) مشرک بھی نہ تھے (مسلمانو ! یہود و نصاریٰ کے جواب میں جو تم نے اجمالاً کہا ہے کہ ہم ملت ابراہیمی پر رہیں گے اس ملت کی تفصیل بیان کرنے کے لئے) کہہ دو کہ (اس ملت پر رہنے کا حاصل یہ ہے کہ) ہم ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور اس (حکم) پر بھی جو ہمارے پاس (بواسطہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے) بھیجا گیا اور اس (حکم) پر بھی جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہم السلام) اور اولاد یعقوب (میں جو نبی گذرے ہیں ان) کی طرف (بواسطہ وحی کے) بھیجا گیا اور اس (حکم اور معجزہ) پر بھی جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیا گیا اور اس پر بھی جو کچھ اور انبیاء (علیہم السلام) کو دیا گیا ان کے پروردگار کی طرف سے (سو ہم ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان بھی) اس کیفیت سے کہ ہم ان (حضرات) میں سے کسی ایک میں بھی (دوسرے سے ایمان لانے میں) تفریق نہیں کرتے (کہ کسی پر ایمان رکھیں کسی پر نہ رکھیں) (اور ہم تو اللہ تعالیٰ کے مطیع ہیں (انہوں نے ہم کو یہ دین بتلایا) ہم نے اختیار کرلیا (پس یہ حاصل ہے اس ملت کا جس پر ہم قائم ہیں جس میں کسی کو اصلاً انکار و سرتابی کی گنجائش نہیں) معارف و مسائل : اولاد یعقوب (علیہ السلام) کو قرآن کریم نے لفظ اسباط سے تعبیر فرمایا ہے یہ جمع ہے سبط کی جس کے معنی قبیلہ اور جماعت کے ہیں ان کو سبط کہنے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) کے صلبی لڑکے بارہ تھے پھر ہر لڑکے کی اولاد ایک مستقل قبیلہ بن گئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی نسل میں یہ برکت دی کہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس مصر گئے تو بارہ بھائی تھے اور جب فرعون کے مقابلہ کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی اولاد بنی اسرائیل نکلے تو ہر بھائی کی اولاد ہزاروں افراد پر مشتمل قبیلے تھے اور دوسری برکت اولاد یعقوب (علیہ السلام) میں اللہ تعالیٰ نے یہ عطا فرمائی کہ دس انبیاء (علیہم السلام) کے علاوہ باقی سب انبیاء ورسل ان کی اولاد میں پیدا ہوئے بنی اسرائیل کے علاوہ باقی انبیاء (علیہم السلام) حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد نوح، شیث، ہود، صالح، لوط، ابراہیم، اسحق، یعقوب، اسماعیل، اور محمد مصطفٰے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْا كُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى تَہْتَدُوْا۝ ٠ ۭ قُلْ بَلْ مِلَّۃَ اِبْرٰھٖمَ حَنِيْفًا۝ ٠ ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝ ١٣٥ هَادَ ( یہودی) فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا [ البقرة/ 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام . الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة/ 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة/ 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔ نَّصَارَى وَالنَّصَارَى قيل : سُمُّوا بذلک لقوله : كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] ، وقیل : سُمُّوا بذلک انتسابا إلى قرية يقال لها : نَصْرَانَةُ ، فيقال : نَصْرَانِيٌّ ، وجمْعُه نَصَارَى، قال : وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاری الآية [ البقرة/ 113] ، ونُصِرَ أرضُ بني فلان . أي : مُطِرَ «1» ، وذلک أنَّ المطَرَ هو نصرةُ الأرضِ ، ونَصَرْتُ فلاناً : أعطیتُه، إمّا مُسْتعارٌ من نَصْرِ الأرض، أو من العَوْن . اور بعض کے نزدیک عیسائیوں کو بھی نصاری اس لئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے نحن انصار اللہ کا نعرہ لگا دیا تھا ۔ چناچہ قران میں ہے : ۔ كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) بن مر یم نے حواریوں سے کہا بھلا کون ہے جو خدا کی طرف بلانے میں میرے مددگار ہوں تو حوراریوں نے کہا ہم خدا کے مددگار ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ نصرانی کی جمع ہے جو نصران ( قریہ کا نام ) کی طرف منسوب ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاریالآية [ البقرة/ 113] یہود کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں ۔ نصر ارض بنی فلان کے معنی بارش بر سنے کے ہیں کیونکہ بارش سے بھی زمین کی مدد ہوتی ہے اور نصرت فلانا جس کے معنی کسی کو کچھ دینے کے ہیں یہ یا تو نصر الارض سے مشتق ہے اور یا نصر بمعنی عون سے ۔ اهْتِدَاءُ يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] ، وقال : فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] ، فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] ، فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . ويقال المُهْتَدِي لمن يقتدي بعالم نحو : أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] تنبيها أنهم لا يعلمون بأنفسهم ولا يقتدون بعالم، وقوله : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] فإن الِاهْتِدَاءَ هاهنا يتناول وجوه الاهتداء من طلب الهداية، ومن الاقتداء، ومن تحرّيها، وکذا قوله : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] وقوله : وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] فمعناه : ثم أدام طلب الهداية، ولم يفترّ عن تحرّيه، ولم يرجع إلى المعصية . وقوله : الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ [ البقرة/ 157] أي : الذین تحرّوا هدایته وقبلوها وعملوا بها، وقال مخبرا عنهم : وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] . الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو ۔ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] اور عورتیں اور بچے بےبس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کرسکتے ہیں اور نہ رستہ جانتے ہیں ۔ لیکن کبھی اھتداء کے معنی طلب ہدایت بھی آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو ۔ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] سو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تم کو اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہ راست پر چلو ۔ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بیشک ہدایت پالیں ۔ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں ۔ المھتدی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی عالم کی اقتدا کر رہا ہے ہو چناچہ آیت : ۔ أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] بھلا اگر ان کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ کسی کی پیروی کرتے ہوں ۔ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ نہ وہ خود عالم تھے اور نہ ہی کسی عالم کی اقتداء کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] تو جو کوئی ہدایت حاصل کرے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔ میں اھتداء کا لفظ طلب ہدایت اقتدا اور تحری ہدایت تینوں کو شامل ہے اس طرح آیت : ۔ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال انہین آراستہ کر کے دکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آتے ۔ میں بھی سے تینوں قسم کی ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور آیت : ۔ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] اور جو توبہ کرلے اور ایمان لائے اور عمل نیک کرے پھر سیدھے راستہ پر چلے اس کو میں بخش دینے والا ہوں ۔ میں اھتدی کے معنی لگاتار ہدایت طلب کرنے اور اس میں سستی نہ کرنے اور دوبارہ معصیت کی طرف رجوع نہ کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ«1» [ البقرة/ 157] اور یہی سیدھے راستے ہیں ۔ میں مھتدون سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت الہیٰ کو قبول کیا اور اس کے حصول کے لئے کوشش کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا چناچہ انہی لوگوں کے متعلق فرمایا ۔ وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] اے جادو گر اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر بیشک حنف الحَنَفُ : هو ميل عن الضّلال إلى الاستقامة، والجنف : ميل عن الاستقامة إلى الضّلال، والحَنِيف هو المائل إلى ذلك، قال عزّ وجلّ : قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل/ 120] ( ح ن ف ) الحنف کے معنی گمراہی سے استقامت کی طرف مائل ہونے کے ہیں ۔ اس کے بالمقابل حنف ہے جس کے معنی ہیں استقامت سے گمراہی کی طرف مائل ہونا ۔ الحنیف ( بروزن فعیل) جو باطل کو چھوڑ کر استقامت پر آجائے قرآن میں ہے :۔ قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل/ 120] اور خدا کے فرمانبردار تھے جو ایک کے ہور ہے تھے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٥) مومنین کے ساتھ یہود اور انصاری کے جھگڑے اور مناظرے کا اللہ تعالیٰ ذکر فرماتا ہے یہودی مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ گمراہی سے ہدایت پر آجاؤ یعنی ہماری جماعت میں آجاؤ۔ اسی طرح عیسائی کہتے (اس مقام پر تقدیم وتاخیر ہے) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کہہ دیجیے کہ حقیقت تمہارے یعنی یہودیوں کے کہنے کے مطابق نہیں بلکہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کے دین اسلام جو کہ حنیف اور اخلاص والا ہے، اس کی اتباع کرو تب تم لوگوں کو ہدایت حاصل ہوسکتی ہے اور ان کے دین میں کسی قسم کا شرک نہیں۔ شان نزول : (آیت) ” وقالوا کو نواھودا (الخ) ابن ابی حاتم (رح) نے سعید یا عکرمہ (رح) کے ذریعہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) روایت کیا ہے کہ ابن صوریا (رح) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہدایت پر صرف ہم ہیں لہٰذا ہماری (العیاذ باللہ) اتباع اختیار کرو، سیدھی راہ پر آجاؤ گے اور نصاری نے بھی آپ سے یہ کہا، تب ان گمراہوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ یہ لوگ کہتے ہیں یہودی یا نصرانی ہوجاؤ ہدایت پاجاؤ گے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٥ (وَقَالُوْا کُوْنُوْا ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی تَہْتَدُوْا ط) (قُلْ بَلْ مِلَّۃَ اِبْرٰہٖمَ حَنِیْفًا ط) ۔ مِلَّۃَ سے قبل فعل نَتَّبِعُ محذوف ہے۔ گویا : بَلْ نَتَّبِعُ مِلَّۃَ اِبْرَاھِیْمَ ۔ (وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) اب مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ یہود و نصاریٰ جو کچھ کہتے ہیں اس کے جواب میں تم یہ کہو :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

135. In order to grasp the subtlety, of this remark two things should be borne in mind. First, that in comparison to Islam, the primordial religion, both Judaism and Christianity are later products. The name Judaism, as well as the characteristic features and elaborate body of laws and regulations associated with it. emerged during the third or fourth century, B.C. As for Christianity. in the sense of the body of dogmas and theological doctrines which characterize it, it came into existence long after Jesus (peace be on llim) . The question that naturally arises is that, if man's guidance depends on following Judaism or Christianity, how can Abraham and other Prophets and righteous people who are accepted as having been rightly-guided even by the Jews and Christians be considered so when they were born several centuries before the birth of Judaism and Chrstianity? If they were rightly-guided from whom did they receive their guidance? Obviously their source of guidance and inspiration was neither Judaism nor Christianitv since, in their times, these did not exist. So man's rectitude does not depend on those characteristics which led to the rise of Jewish and Christian particularisms; it rather depends on adopting that universal way to Truth which has guided and inspired men throughout the ages. Second. the Scriptures of the Jews and Christians attest that Abraham believed that worship, adoration, service and obedience were due to God alone, and that it was his mission to have none associated with God in His attributes and rights. Since polytheistic elements had made inroads into Judaism and Christianity it was obvious that both had strayed from the way of Abraham.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :135 اس جواب کی لطافت سمجھنے کے لیے دو باتیں نگاہ میں رکھیے: ایک یہ کہ یہُودیّت اور عیسائیت دونوں بعد کی پیداوار ہیں ۔ ”یہُودیّت“ اپنے اس نام اور اپنی مذہبی خصُوصیات اور رسُوم و قواعد کے ساتھ تیسری چوتھی صدی قبل مسیح میں پیدا ہوئی ۔ اور ”عیسائیت “ جن عقائد اور مخصُوص مذہبی تصوّرات کے مجمُوعے کا نام ہے وہ تو حضرت مسیح ؑ کے بھی ایک مُدت بعد وجود میں آئے ہیں ۔ اب یہ سوال خود بخود پیداہوتا ہے کہ اگر آدمی کے برسرِ ہدایت ہونے کا مدار یہُودیّت یا عیسائیت اختیار کرنے ہی پر ہے ، تو حضرت ابراہیم ؑ اور دُوسرے انبیا اور نیک لوگ ، جو ان مذہبوں کی پیدائش سے صدیوں پہلے پیدا ہوئے تھے اور جن کو خود یہُودی اور عیسائی بھی ہدایت یافتہ مانتے ہیں ، وہ آخر کس چیز سے ہدایت پاتے تھے؟ ظاہر ہے کہ وہ ”یہُودیّت“ اور ”عیسائیت“ نہ تھی ۔ لہٰذا یہ بات آپ سے آپ واضح ہو گئی کہ انسان کے ہدایت یافتہ ہونے کا مدار ان مذہبی خصُوصیّات پر نہیں ہے ، جن کی وجہ سے یہ یہُودی اور عیسائی وغیرہ مختلف فرقے بنے ہیں ، بلکہ دراصل اس کا مدار اس عالمگیر صراطِ مستقیم کے اختیار کرنے پر ہے ، جس سے ہر زمانے میں انسان ہدایت پاتے رہے ہیں ۔ دُوسرے یہ کہ خود یہُود و نصاریٰ کی اپنی مقدس کتابیں اس بات پر گواہ ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ ایک اللہ کے سوا کسی دُوسرے کی پرستش ، تقدیس ، بندگی اور اطاعت کے قائل نہ تھے اور ان کا مشن ہی یہ تھا کہ خدائی کی صفات و خصُوصیات میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھیرایا جائے ۔ لہٰذا یہ بالکل ظاہر ہے کہ یہُودیت اور نصرانیت دونوں اس راہِ راست سے منحرف ہوگئی ہیں ، جس پر حضرت ابراہیم ؑ چلتے تھے ، کیونکہ ان دونوں میں شرک کی آمیزش ہو گئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

یہود اپنے دین کو راہ راست بتلا کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں سے کہتے تھے کہ ہمارے دین کو اختیار کرلو کہ دنیا میں نجات کا طریقہ ہے تو یہ ہی ہے اسی طرح نصاریٰ بھی کہتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور فرمایا ان کو جواب دیا جاوے کہ ہم تو ملت ابراہیمی کے پیرو ہیں جس میں کسی طرح کے شرک کا لگاؤ نہیں ہے مطلب یہ ہے کہ تم دونوں فرقوں نے اپنے دین کو بگاڑ کر شر کی دین کر رکھا ہے اس لئے تمہارا دین ابراہیمی ملت نہیں ہے ملت ابراہیمی توحنیفی ہے جس کے معنی شرک کو چھوڑ کر توحید اور خالص اطاعت الٰہی کی طرف رجوع کرنے کے ہیں۔ بت پرستی سے بیزار ہو کر حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے اپنے وطن کو باپ کو قوم کو سب کچھ چھوڑا اور { اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ حَنِیِْفًا وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ } ( ٦۔ ٧٩) کہہ کر توحید اور خالص اطاعت الٰہی کو اختیار کیا اس لئے حضرت ابراہیم کو حنیف اور ملت ابراہیمی کو ملت حنیفی کہتے ہیں۔ پہلے صاحب شریعت نبی حضرت نوح (علیہ السلام) ہیں اور خاتم النبیین محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں شریعت اعتقادی میں سب انبیاء ایک ہیں شریعت اعتقادی کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو وحدہ لا شریک لہ جاننا اور اس کی ذات صفات اور عبادت میں کسی کو اس اعتقاد کے موافق شریک نہ کرنا۔ ہاں ہر امت کے حال کے موافق شریعت عملی جس کے معنی طریقہ عبادت کے ہیں وہ ہر نبی کا جدا ہے۔ سورة الشوریٰ میں اس شریعت اعتقادی اور شریعت عملی کا ذکر آئے گا۔ بخاری وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہم سب انبیاء علاقی بھائی ہیں ١۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب انبیاء کے صول توحیدی ایک ہیں شریعت تفصیلی میں البتہ مختلف ہیں جس سے حلال و حرام وغیرہ امور تفصیلی ہر وقت کی مصلحت سے بدلتے رہتے ہیں۔ اصول توحیدی کبھی نہیں بدلے گے اصول توحیدی وہی شریعت اعتقادی ہے جس کا ذکر اوپر گذرا۔ اور سورة شوریٰ ۔ حم۔ عسق۔ میں تفصیل سے آئے گا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:135) قالوا۔ ضمیر فاعل جمع مذکر غائب۔ اہل کتاب کے لئے ہے۔ یہودی۔ نصاری۔ کونوا۔ امر کا صیغہ۔ جمع مذکر حاضر، کون مصدر۔ باب نصر۔ مصدر تم ہوجاؤ۔ تھتدوا۔ مضارع مجزوم جمع مذکر حاضر۔ جواب امر ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے تو ہدایت پاؤ گے۔ راہ راست پر آجاؤ گے۔ قل۔ ای قل یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کو کہہ دیجئے۔ بل ملۃ ابراہیم حنیفا۔ بل۔ بلکہ۔ ملۃ۔ دین ۔ مذہب۔ مضاف۔ ابراہیم مضاف الیہ ۔ حنیفا۔ حال۔ مضاف الیہ۔ ابراہیم۔ کا ۔ حنیف بروزن فعیل۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ جو کوئی ایک راہ حق پکڑے اور باقی سب باطل راہیں چھوڑ دے۔ حنیف کہلاتا ہے۔ المفردات میں ہے۔ الحنف کے معنی گمراہی سے استقامت کی طرف مائل ہونے کے ہیں۔ اس کے مقابل جنف ہے جس کے معنی استقامت سے گمراہی کی طرف مائل ہونے کے ہیں۔ جملہ کی تقدیر یوں ہے بل نتبع ملۃ ابراہیم حنیفا یہ نہیں جیسا تم کہتے ہو) بلکہ ہم اختیار کئے ہوئے ہیں دین ابراہیم جو تمام باطل راہیں چھوڑ کر ایک راہ حق پر جمے ہوئے تھے۔ بل۔ بل کی دو صورتیں ہیں۔ (1) اگر اس کے بعد کوئی مفرد کلمہ آئے تو اس واسطے یہ بطور حرف عطف استعمال ہوگا۔ قرآن مجید میں یہ اس طرح استعمال نہیں ہوا۔ (2) جب اس کے بعد کوئی جملہ آئے تو یہ حرف اضراب ہے (لفظی معنی روگردانی کرنا، اس صورت میں یہ ماقبل سے اعراض کے لئے آتا ہے اور تدارک یعنی اصلاح کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ تدارک کی دو صورتیں ہیں۔ (1) ایک تو یہ کہ مابعد ما قبل کا مناقض (متضاد) ہو ۔ لیکن اس صورت میں کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ مابعد کے حکم کی تصحیح سے ماقبل کا ابطال مقصود ہوتا ہے۔ جیسے اذا تتلی علیہ ایتنا قال اساطیر الاولین کل بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون (83:1314) جب ہماری آیات اس کے سامنے تلاوت کی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ یہ اگلوں کی کہانیاں ہیں (ایسا) ہرگز نہیں بلکہ انہوں نے جو برائیاں کمائی ہیں اس سے ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے۔ مطلب یہ کہ قرآن مجید اگلوں کی کہانیاں نہیں ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان کے دل زنگ آلود ہیں۔ یہاں ان کے دلوں کی زنگ آلودگی کی تصحیح سے ان کے اس قول کا ابطال ہوا کہ قرآن مجید اگلوں کی کہانیاں ہے۔ (2) اور کبھی مابعد کا ابطال اور ماقبل کی تصحیح مقصود ہوتی ہے۔ جیسے کہ فاما الانسان اذا ما ابتلہ ربہ فاکرمہ 5 فیقول ربی اکرمن ط واما اذا ما ابتلہ فقدر علیہ رزقہ 5 فیقول ربی اھانن ۔ کلا بل لا تکرمون الیتیم ۔ (89:1517) پس آدمی (کا حال یہ ہے) کہ جب اس کا پروردگار اس کو آزماتا ہے اور اس کو عزت اور نعمت دیتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے پروردگار نے مجھے عزت بخشی۔ اور جب اس کو وہ (دوسری طرح) آزماتا ہے کہ اس پر رزق تنگ کردیتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے پروردگار نے مجھے ذلیل کیا۔ (ایسا) ہرگز نہیں بلکہ تم لوگ یتیم کی خاطر نہیں کرتے ۔۔ تا آیت 20 ۔ مطلب یہ کہ رزق کی فراخی یا تنگی دربار الٰہی میں اکرام یا اہنت کی دلیل نہیں بلکہ یہ پروردگار کی طرف سے آزمائش ہے مگر یہ لوگ اس حقیقت سے بیخبر ہیں۔ اور مال کو بیجا خرچ کر رہے ہیں۔ پس یہ مال کا بےجا صرف۔ یتیم و مسکین کی حق تلفی اور مال و جاہ کے بےجا حرص۔ یہ اسباب ذلت و اہانت ہیں۔ روزی کی تنگی یا کشائش بذاہۃ اہانت و ذلت و عزت نہیں۔ یہاں دوسرے امر کا ابطال منظور ہے ۔ اور اول کی تصحیح یعنی آزمائش کا اثبات کیا جا رہا ہے۔ اور روزی کی تنگی یا کشائش کی بناء پر عزت و اہانت کا ابطال ہو رہا ہے۔ (ب) دوسرے یہ کہ پہلے حکم کو برقرار رکھ کر اس کے مابعد کو اس حکم پر اور زیادہ کردیا جائے مثلاً اولئک کالانعام بل ہم اضل (7: 179) وہ حیوانوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ۔ یا ۔ بل قالوا اضغاث احلام بل افترہ بل ہو شاعر (21:5) بلکہ انہوں نے کہا کہ (یہ قرآن) پریشان (باتیں ہیں جو) خواب (میں دیکھ لی) ہیں (نہیں) بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے۔ (نہیں) بلکہ وہ شاعر ہے۔ (اور یہ قرآن اس کے شاعرانہ خیالات کا نتیجہ ہے) مطلب یہ کہ ایک تو قرآن کو پریشان خیالات کہتے ہیں۔ پھر مزید اسے افتراء بتلاتے ہیں۔ اور اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ نعوذ باللہ آپ کو شاعر سمجھتے ہیں۔ قرآن حکیم میں بل جہاں بھی آیا ہے انہی دونوں (ا۔ ب) معنی میں سے کسی ایک معنی میں استعمال ہوا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 اہل کتاب مسلمانوں کو یہودیت اور نصرانیت کی دعوت دیتے اور ہدایت کو اپنے دین میں منحصر مانتے چناچہ مروی ہے کہ ایک یہو دی ابن صوریا اعور آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور کہنے لگا راہ ہدایت صرف وہ ہے جس پر ہم گامزن ہیں لہذا آپ بھی ہمارا طریق اختیار کرلیجئے۔ اس پر یہ آیت ہوئی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) توملت حنیفی کے علمبردار تھے اور شرک و تقلید سے بیزار اور تم دونوں گروہ شرک اور تقلید آباء (بزرگان) کے پھندے میں گرفتار ہو (ابن کثیر) اسلام دراصل عقائد اور اصول و احکام کے مجموعہ سے عبارت سے دین وملت بھی عقائد و اصول سے عبادت ہے اس لحاظ سے تو شرائع اور احکام میں ہے۔ حضرت نواب صاحب لکھتے ہیں اسی طرح آجکل اہل تقلید ہم سے کہتے ہیں کہ ہمارا مذہب برحق ہے تم بھی ہمراے مام کی تقلید اختیار کرلو راہ ہدایت پالو گے سو ان کو ہمارا جواب بھی یہی ہے کہ ہم کسی خاص امام کی تقلید کرنا نہیں چاہتے۔ ہم تو براہ راست رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متبع ہیں جو اللہ تعالیٰ کی وحی کے تابع تھے (ترجمان) یہود و نصاری اور مشرکین نے ملت حنیفی کو ترک کر کے کچھ رسوم وبدعات کی پابندی کو دین ہدایت سمجھ رکھا تھا اور دوسرے پر ضلالت اور گمرا ہی کا فتوی لگاتے تھے جیسا کہ آجکل اہل بدعت نے اصل کتاب وہ سنت کے ترک کے عید میلاد النبی۔ عید معراج اور کچھ ایصال ثوت کے طریقے ایجاد کر کے ان کو اشعائز اسلامیہ اور عبادات کا درجہ دے رکھا ہے اور بیت اللہ کی بجائے حج کے لے بزرگوں کے مقبروں پر جاتے ہیں نماز۔ روزہ زکوہ کے تارک ہوتے ہیں اگر کوئی توحید واصل دین کی طرف دعوت دے تو اس پر وہاہابیت (بےدینی کا فتوی لگا دیتے ہیں۔ (المنار تبصرف)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ ملت ابراہیم کا ایک لقب ہے شریعت محمدیہ کا سو یہ کہنا کہ ہم ملت ابراہیم پر رہیں گے یا یہ کہنا کہ تم ملت ابراہیم کا اتباع کرو مترادف اور ہم معنی ہیں اس کا ہے کہ کہا جاوے کہ ہم شریعت محمدیہ پر رہیں اور تم شریعت محمدیہ کا اتباع کرو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب لوگوں کو یہودی اور عیسائی ہونے کی دعوت دیتے ہیں حالانکہ لوگوں کو ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت دینا چاہیے۔ لہٰذا اے نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ لوگوں کو وہی دعوت دیں جو ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد عالی دیا کرتی تھی۔ وہ دعوت توحید خالص اور دین اسلام کی دعوت تھی۔ فکر و عمل کے لحاظ سے کمزور جماعتیں لوگوں کو اپنی طرف راغب رکھنے اور اپنے بوسیدہ نظریات کو منوانے کے لیے ہمیشہ سے بزرگوں کا نام ناجائز استعمال کرتی آئی ہیں۔ ایسے لوگ فکری دولت سے اس قدر محروم ہوتے ہیں کہ وہ صدیوں پہلے فوت شد گان بزرگوں کو بھی اپنے بوسیدہ نظریات کا حامل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ بھی اسی فکری بیچارگی کا شکار تھے اور ہیں۔ لہٰذا جب بھی انہیں دین اسلام کی دعوت پیش کی جاتی ہے تو وہ اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور جناب یعقوب (علیہ السلام) کو یہودی ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ یہاں ایک بار پھر واضح کیا جا رہا ہے کہ جن بزرگوں کو تم اپنے نظریات کا حامل ثابت کر رہے ہو ان کا تو تمہارے نظریات کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں تھا اور نہ ہی مشرکین کے ساتھ ان کا تعلق جوڑا جاسکتا ہے لہٰذا سرور گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ دو ٹوک انداز میں اس بات کا اظہار فرمائیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے بعد آنے والے انبیاء کا نظریہ یہود و نصاریٰ اور اہل مکہ کے نظریات سے یکسر مختلف تھا۔ وہ تو ایک رب کی توحید کو ماننے والے اور زندگی بھر اسی کے تابع فرمان رہنے والے تھے۔ اسی دعوت کا اقرار اور اظہار مسلمانوں سے کروایا جا رہا ہے کہ ہم اسی عقیدے کے حامل اور اسی دعوت کے داعی ہیں جو عظیم المرتبت ہستیاں اور ان کی نیک اولاد پھر انہی کی پیروی کرنے والے جلیل القدر پیغمبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دیا کرتے تھے۔ ہم بلا تفریق ان کی پیغمبرانہ حیثیت کو تسلیم اور ان کی شریعتوں کی تائید کرتے ہیں۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ کَانَ أَہْلُ الْکِتَابِ یَقْرَءُ وْنَ التَّوْرَاۃَ بالْعِبْرَانِیَّۃِ وَیُفَسِّرُونَہَا بالْعَرَبِیَّۃِ لِأَہْلِ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا تُصَدِّقُوا أَہْلَ الْکِتَابِ وَلَا تُکَذِّبُوْہُمْ وَقُوْلُوْا آمَنَّا باللّٰہِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیْنَا الْآیَۃَ ) [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب قولوا آمنا باللّٰہ وماأنزل علینا ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ اہل کتاب تورات کو عبرانی زبان میں پڑھتے اور مسلمانوں کے لیے اس کی تفسیر عربی زبان میں کرتے تھے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہ تم اہل کتاب کی تصدیق کرو اور نہ ان کو جھٹلاؤ بلکہ تم کہو کہ ہم اللہ پر اور جو ہماری طرف اتارا گیا اس پر ایمان لے آئے ہیں۔ “ مسائل ١۔ ہدایت کا سرچشمہ صرف ملت ابراہیم ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اور قرآن مجید، پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا اور تمام انبیاء کو بلا تفریق تسلیم کرنا ہی اسلام ہے۔ ٣۔ انبیاء کے درمیان فرق کرنا کفر ہے۔ ٤۔ انبیاء میں سے کسی کی گستاخی کرنا جائز نہیں۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کا مقام اور کتب آسمانی کا احترام : ١۔ تمام انبیاء پر ایمان لانا فرض ہے۔ (البقرۃ : ١٣٦) ٢۔ پہلی کتب آسمانی پر ایمان لانا لازم ہے۔ (البقرۃ : ٤) ٣۔ اللہ تعالیٰ اور انبیاء کے درمیان فرق کرنا کفر ہے۔ (النساء : ١٥٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہودیوں کا کہنا یہ تھا کہ تم یہودیت اختیار کرلو تو راہ ہدایت پالوگے اور عیسائیوں کا کہنا یہ تھا کہ عیسائی بن جاؤ تو ہدایت پالوگے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان دونوں دعوؤں کو جمع کرکے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا کہ وہ ان الفاظ میں ان کے باطل دعوؤں کی تردید فرمادیں قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ” کہو ملت ابراہیم (علیہ السلام) راہ ہدایت ہے جو مشرکین میں سے نہ تھے ۔ “ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سمجھایا گیا کہ آپ ان سے کہہ دیں ، آئیے ہم اور آپ سب اپنے اصل کی طرف واپس لوٹتے ہیں ۔ یعنی ملت ابراہیمی کی طرف جو ہمارے بھی باپ ہیں اور آپ کے بھی جد امجد ہیں اور اسلام کا منبع اور سرچشمہ ہیں اور ان کے رب نے ان کے ساتھ جو عہد کیا ہوا تھا وہ مشرک نہ تھے ، جبکہ آپ لوگ شرک میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس عظیم دینی وحدت اور دینی اتحاد کے اعلان کا حکم دیتے ہیں ، جو دین ابوالانبیاء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک جاری رہا اور جس کی آخری کڑی اب اسلام ہے ۔ اہل کتاب کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اس متحدہ اور مسلمہ دین پر ایمان لائیں قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالأسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (١٣٦) ” کہو ہم ایمان لائے ہیں اللہ پر اور اس ہدایت پر جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور جو ابراہیم (علیہ السلام) ، اسماعیل (علیہ السلام) ، اسحاق (علیہ السلام) ، یعقوب (علیہ السلام) اور اولاد یعقوب کی طرف نازل ہوئی تھی اور جو موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) اور دوسرے تمام پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئی تھی ۔ ہم ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے مسلم ہیں ۔ “ یہ سب ملتوں کا اتحاد ہے ۔ سب رسولوں کے درمیان وحدت ہے اور یہ اسلامی تصور حیات کی اساس ہے ۔ اور یہی وہ فکر ہے جو امت مسلمہ کو ایک ایسی ملت بنادیتی ہے جو اس زمین پر اس نظریہ کی واحد حامل اور وارث ہے جو نظریہ اللہ کے دین پر مبنی ہے ۔ اور جس کی جڑ اصل ابراہیمی سے مربوط ہے اور جس کی وجہ سے ........ یہ امت انسانی تاریخ میں ہدایت اور روشنی کی علمبردار ہے ۔ اور یہی تصور حیات ہے جو اسلامی نظام ِ زندگی کو ایک حقیقی عالمی نظام بنا دیتا ہے جس میں کوئی تعصب نہیں ہے۔ اور کوئی ظلم واستحصال نہیں ہے اور جس کے نتیجے میں اسلامی معاشرہ Open Society معاشرہ قرار پاتا ہے جس کے دروازے تمام انسانوں کے لئے وا ہیں ۔ اور ان افراد معاشرہ کے درمیان باہم مکمل انس و محبت پائی جاتی ہے۔ اس لئے یہاں دوران کلام ایک فیصلہ کن بات بتادی جاتی ہے اور مسلمانوں کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ اس بات پر ڈٹ جائیں ۔ وہ یہ کہ یہی عقیدہ اور یہی تصور حیات راہ ہدایت ہے ۔ جس نے اس تصور حیات اور اس راہ کو اپنالیا تو گویا اس نے منزل مراد کو پالیا ۔ اور جو شخص اس حقیقت سے منہ موڑ لے گا تو وہ کبھی بھی ثابت قدمی سے کسی مقام پر ٹک نہ سکے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم تمام ایسے فرقوں سے اختلاف کرتا ہے جو ثابت قدمی سے کسی اصولی موقف پر قائم نہ ہوں۔ قرآن کہتا ہے فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ پھر اگر وہ اسی طرح ایمان لائیں جیسے تم لائے ہو ، تو ہدایت پر ہیں اور اگر اس سے منہ پھیریں تو کھلی بات ہے کہ وہ ہٹ دھرمی میں پڑگئے ہیں۔ یہ کلمات الٰہی ہیں اور یہ خود اللہ تعالیٰ کی جانب سے شہادت ہے ۔ یوں قلب مومن کو ایک گونہ احساس عزت دلایا جارہا ہے کہ وہ جس موقف کو اختیار کئے ہوئے ہیں وہ قابل فخر بات ہے ۔ کیونکہ ان کو لوگوں کے لئے ایک معیار اور ایک ماڈل قرار دیا جارہا ہے ۔ اور یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ ان لوگوں کا ایمان ایسا ہونا چاہئے جس طرح کا ایمان تمہارا ہے ورنہ وہ منکر حق ، دشمنان دین اور ہٹ دھرم قرار پائیں گے اور کوئی مومن گمراہوں اور کافروں کا دوست نہیں ہوسکتا ۔ نہ اسے ایسے لوگوں کے ساتھ کسی مناقشہ کی ضرورت ہے ۔ نہ اسے ان کے خلاف کسی سازش یا چالبازی کی ضرورت ہے نہ ان کے ساتھ جنگ وجدال اور مقابلہ ومعارضہ کی ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ اہل اسلام کی جانب سے از خود ان کے مقابلے کے لئے کافی ہے ۔ وہ خود ان سے نمٹ لے گا۔ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ” ان کے مقابلے میں اللہ تمہاری حمایت کے لئے کافی ہے وہ سننے اور جاننے والا ہے۔ “ ایک مومن کی ڈیوٹی صرف یہ ہے کہ وہ اپنی راہ پر سیدھا چلتا رہے ۔ اور وہ اس حق کو مضبوطی سے تھام لے جو اس نے براہ راست اللہ تعالیٰ سے پایا ہے ۔ وہ اس رنگ میں رنگا ہے جو اللہ کے دوستوں کا رنگ ہوتا ہے اور وہ دنیا میں اپنے اس مخصوص رنگ سے پہچانے جاتے ہیں صِبْغَةَ اللَّهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ ” اللہ کا رنگ اختیار کرو ، اس کے رنگ سے اچھا کوئی رنگ نہیں ہے اور ہم اسی کی بندگی کرنے والے ہیں ۔ “ اور اللہ کا یہ رنگ اللہ تعالیٰ کا وہ آخری پیغام ہے جو اس نے عالم بشریت کو دیا ہے۔ تاکہ اس رنگ میں انسانیت کا ایک وسیع تر حصہ رنگ جائے اور انسانیت ایسے وسعت پذیر اصولوں پر مجتمع ہوجائے جن میں نہ کوئی تعصب ہو ، نہ کوئی بغض وکینہ ہو ، نہ ان میں محدود قومیت ہو اور نہ محدود رنگ ہو۔ یہاں قرآن مجید کے اسلوب ادا کے ایک خاص رنگ کی طرف اشارہ ضروری ہے ۔ اور اس طرز ادا میں ایک گہرا مفہوم پوشیدہ ہے ۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اس آیت کا پہلا حصہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے بیانیہ ہے ۔ صِبْغَةَ اللَّهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً ” اللہ کا رنگ اختیار کرو ، اس سے زیادہ اچھا کس کا رنگ ہوگا۔ “ اور اس آیت کا باقی حصہ بطور کلام مومنین ہے اور سیاق کلام میں دونوں کلاموں کے درمیان کو حد فاصل نہیں ہے ۔ اگرچہ آیت کے دونوں حصے کلام الٰہی ہیں ۔ لیکن ایک متکلم اللہ تعالیٰ اور دوسرے میں مؤمنین ہیں ۔ مؤمنین صادقین کہ یہ ایک عظیم عزت افزائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے تکلم کو اپنے کام کا جز بنادیا جو ایک ہی فقرہ ہے ۔ اس سے اس حقیقت کا اظہار مطلوب ہے کہ مومنین کا اپنے رب کے ساتھ ایک گہرا رابطہ ہے ۔ اس قسم کے بیان کی کئی مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں اور ان کی بہت بڑی اہمیت ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

256 شکوہ۔ باوجود اس کے کہ یہود ونصاریٰ کے آباء و اجداد جن کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے وہ سب کے سب دین اسلام اور ملت توحید کے پابند تھے لیکن یہ خود بھی شرک پر ڈٹے ہوئے ہیں اور لوگوں کو بھی شرک کی دعوت دیتے ہیں اور خود بھی مشرکانہ عقائد کو عین ہدایت تصور کرتے ہیں چناچہ یہودی کہتے تھے کہ تم یہودی بن جاؤ اور حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا نائب اور متصرف سمجھو اور نصاریٰ کہتے تھے کہ تم عیسائی ہوجاؤ اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا نائب اور نجات دہندہ سمجھو تو تمہیں راہ ہدایت مل جائے گی۔ 257 جواب شکوہ۔ ملۃ منصوب ہے اور اس کا عامل نتبع محذوف ہے اور خطاب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے یعنی آپ انہیں جواب دیں کہ ہم یہودیت اور نصرانیت قبول نہیں کرینگے بلکہ ہم تو ملت ابراہیمی کی پابندی کریں گے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین توحید کی پیروی کریں گے جو باطل اور مشرکانہ ادیان سے کنارہ کش اور دور تھے۔ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْن۔ یہ مدعی یہود ونصاریٰ اور مشرکین عرب تو مشرک وبت پرست ہیں لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) شرک سے دور تھے لہذا ہم تو انہی کی پیروی کریں گے۔ یہ ان جھوٹے مدعیان ابراہیمیت کے لیے تازیانہ عبرت ہے جنہوں نے توحید کو چھوڑ کر شرک کو دین بنایا ہوا تھا اور بزرگوں کو خدا کا نائب اور متصرف سمجھ کر انہیں پکارتے تھے۔ والمقصود التعرض باھل الکتاب والعرب الذین یدعون اتباعہ۔ فان فی کل طائفۃ منھم شرکا فالیھود قالوا عزیر ابن اللہ والنصاری المسیح ابن اللہ والعرب عبدوا الاصنام وقالوا الملئکۃ بنات اللہ (روح 294 ج 1) یہ تو اہل کتاب کے غلط نظریے کا الزامی جواب تھا۔ یعنی انہوں نے کہا کہ یہودی یا نصرانی ہوجاؤ تو جواب دیا گیا کہ ہم تو ابراہیمی ہونگے۔ یہودی یا نصرانی نہیں ہونگے۔ اب آگے اس کا تحقیقی جواب دیا گیا ہے کہ آبائی نسبت یا قبائلی عصبیت پر ایمان کا مدار نہیں بلکہ ایمان تو اللہ کی توحید، اس کے رسولوں کی رسالت اور اس کے دیگر احکام ماننے کا نام ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi