Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 136

سورة البقرة

قُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡنَا وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ الۡاَسۡبَاطِ وَ مَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰی وَ مَاۤ اُوۡتِیَ النَّبِیُّوۡنَ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ ۫ ۖ وَ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۳۶﴾

Say, [O believers], "We have believed in Allah and what has been revealed to us and what has been revealed to Abraham and Ishmael and Isaac and Jacob and the Descendants and what was given to Moses and Jesus and what was given to the prophets from their Lord. We make no distinction between any of them, and we are Muslims [in submission] to Him."

اے مسلمانوں! تم سب کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر بھی جو ہماری طرف اتاری گئی اور جو چیز ابراہیم ، اسماعیل اسحاق اور یعقوب علیہم السلام اور ان کی اولاد پر اتاری گئی اور جو کچھ اللہ کی جانب سے موسیٰ اور عیسیٰ ( علیہ السلام ) اور دوسرے انبیاء ( علیہ السلام ) دیئے گئے ۔ ہم اُن میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے ، ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Muslim believes in all that Allah `revealed and all the Prophets Allah says; قُولُواْ امَنَّا بِاللّهِ وَمَأ أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالاسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ Say (O Muslims): "We believe in Allah and that which has been sent down to us and that which has been sent down to Ibrahim (Abraham), Ismail (Ishmael), Ishaq (Isaac), Yaqub (Jacob), and to Al-Asbat (the offspring of the twelve sons of Yaqub), and that which has been given to Musa (Moses) and `Isa (Jesus), and that which has been given to the Prophets from their Lord. We make no distinction between any of them, and to Him we have submitted (in Islam)." Allah directed His believing servants to believe in what He sent down to them through His Messenger Muhammad and in what was revealed to the previous Prophets in general. Some Prophets Allah mentioned by name, while He did not mention the names of many others. Allah directed the believers to refrain from differentiating between the Prophets and to believe in them all. They should avoid imitating whomever Allah described as, وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُواْ بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيقُولُونَ نُوْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُواْ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلً أُوْلَـيِكَ هُمُ الْكَـفِرُونَ حَقّاً And wish to make distinction between Allah and His Messengers (by believing in Allah and disbelieving in His Messengers) saying, "We believe in some but reject others," and wish to adopt a way in between. They are in truth disbelievers. (4:150-151) Al-Bukhari narrated that Abu Hurayrah said, "The People of the Book used to read the Torah in Hebrew and translate it into Arabic for the Muslims. The Messenger of Allah said, لاَا تُصَدِّقُوا أَهْلَ الْكِتَابِ وَلاَا تُكَذِّبُوهُمْ وقُولُوا امَنَّا بِاللهِ وَمَا أُنْزل إِلَيْنَا Do not believe the People of the Book, nor reject what they say. Rather, say, `We believe in Allah and in what was sent down to us." Also, Muslim, Abu Dawud and An-Nasa'i recorded that Ibn Abbas said, "Mostly, the Messenger of Allah used to recite, امَنَّا بِاللّهِ وَمَأ أُنزِلَ إِلَيْنَا (We believe in Allah and that which has been sent down to us) (2:136), and, امَنَّا بِاللّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (We believe in Allah, and bear witness that we are Muslims (i.e. we submit to Allah) (3:52) during the two (voluntary) Rak`ah before Fajr." Abu Al-Aliyah, Ar-Rabi and Qatadah said, "Al-Asbat are the twelve sons of Jacob, and each one of them had an Ummah of people from his descendants. This is why they were called Al-Asbat." Al-Khalil bin Ahmad and others said, "Al-Asbat among the Children of Israel are just like the tribes among the Children of Ismail." This means that the Asbat are the various tribes of the Children of Israel, among whom Allah sent several Prophets. Moses said to the Children of Israel, اذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَأءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوكاً Remember the favor of Allah to you: when He made Prophets among you, made you kings. (5:20) Also, Allah said, وَقَطَّعْنَـهُمُ اثْنَتَىْ عَشْرَةَ أَسْبَاطًا And We divided them into twelve tribes. (7:160) Al-Qurtubi said, "Sibt is the group of people or a tribe all belonging to the same ancestors." Qatadah said, "Allah commanded the believers to believe in Him and in all His Books and Messengers." Also, Sulayman bin Habib said, "We were commanded to believe in the (original) Torah and Injil, but not to implement them."

اہل کتاب کی تصدیق یا تکذیب! اللہ تعالیٰ اپنے ایماندار بندوں کو ارشاد فرماتا ہے کہ جو کچھ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا اس پر تو وہ تفصیل وار ایمان لائیں اور جو آپ سے پہلے انبیاء پر اترا ، اس پر بھی اجمالاً ایمان لائیں ۔ ان اگلے انبیاء کرام میں سے بعض کے نام بھی لے دئے اور باقی نبیوں کا مجمل ذکر کر دیا ۔ ساتھ ہی فرمایا کہ یہ کسی نبی کے درمیان تفریق نہ کریں کہ ایک کو مانیں اور دوسرے سے انکار کر جائیں جو عادت اوروں کی تھی کہ وہ انبیاء میں تفریق کرتے تھے ، کسی کو مانتے تھے ، کسی سے انکاری تھے ، یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تینوں کو نہیں مانتے تھی ۔ ان سب کو فتویٰ ملا کہ آیت ( اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا ) 4 ۔ النسآء:151 ) یہ لوگ بالیقین کافر ہیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اہل کتاب توراۃ کو عبرانی میں پڑھتے تھے اور عربی میں تفسیر کر کے اہل اسلام کو سناتے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اہل کتاب کی سچائی یا تکذیب نہ کرو ۔ کہ دیا کہ اللہ پر اور اس کی نازل ہوئی کتابوں پر ہمارا ایمان ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی دو سنتوں میں پہلی رکعت میں یہ آیت ( اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا ) 2 ۔ البقرۃ:136 ) پوری آیت اور دوسری رکعت میں آیت ( اٰمَنَّا بِاللّٰهِ ۚ وَاشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ ) 3 ۔ آل عمران:52 ) پڑھا کرتے تھے اسباط حضرت یعقوب کے بیٹوں کو کہتے ہیں ، جو بارہ تھے ، جن میں سے ہر ایک کی نسل میں بہت سے انسان ہوئے ، بنی اسماعیل کو قبائل کہتے تھے ، اور بنی اسرائیل کو اسباط کہتے تھے ۔ زمخشری نے کشاف میں لکھا ہے کہ یہ حضرت یعقوب کے پوتے تھے جو ان کے بارہ لڑکوں کی اولاد تھی ۔ بخاری میں ہے کہ مراد قبائل بنی اسرائیل ہیں ۔ ان میں بھی نبی ہوئے تھے جن پر وحی نازل ہوئی تھی ۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا آیت ( اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَاۗءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا ڰ وَّاٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ ) 5 ۔ المائدہ:20 ) اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ اس نے تم میں انبیاء اور بادشاہ بنائے ۔ اور جگہ ہے آیت ( وَقَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًا ) 7 ۔ الاعراف:160 ) ہم نے ان کے بارہ گروہ کر دئے ۔ سبط کہتے ہیں درخت کو یعنی یہ مثل درخت کے ہیں ، جس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کل انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہی ہوئے ہیں سوائے دس کے نوح ، ہود ، صالح ، شعیب ، ابراہیم لوط ، اسحاق ، یعقوب ، اسماعیل ، محمد علیہم الصلوۃ والسلام ۔ سبط کہتے ہیں اس جماعت اور قبیلہ کو جن کا مورث اعلیٰ اوپر جا کر ایک ہو ۔ ابن ابی خاتم میں ہے ہمیں توراۃ و انجیل پر ایمان رکھنا ضروری ہے لیکن عمل کے لیے صرف قرآن و حدیث ہی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

136۔ 1 یعنی ایمان یہ ہے کہ تمام انبیاء علیھم السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ بھی ملا یا نازل ہوا سب پر ایمان لایا جائے، کسی بھی کتاب یا رسول کا انکار نہ کیا جائے۔ کسی ایک کتاب یا نبی کو ماننا، کسی کو نہ ماننا، یہ انبیاء کے درمیان تفریق ہے جس کو جائز نہیں رکھا۔ البتہ عمل اب صرف قرآن کریم کے ہی احکام پر ہوگا۔ پچھلی کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں پر نہیں کیونکہ ایک تو وہ اصلی حالت میں نہیں رہیں، تحریف شدہ ہیں، دوسرے قرآن نے ان سب کو منسوخ کردیا ہے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦٨] فرق اس لحاظ سے کہ فلاں نبی حق پر تھا اور فلاں حق پر نہ تھا یا ہم فلاں کو مانتے ہیں یا فلاں کو نہیں مانتے۔ کیونکہ سب انبیاء (علیہم السلام) ایک ہی صداقت اور ایک ہی راہ راست کی طرف بلاتے رہے ہیں۔ اور سب انبیاء کرام اپنے سے پہلوں کی تصدیق اور بعد میں آنے والوں کی بشارت دیتے اور ان پر ایمان لانے کی تاکید کرتے رہے ہیں۔ اب اگر مثال کے طور پر یہود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یا نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لاتے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے پیغمبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور اپنی کتاب تورات پر بھی ایمان نہیں لاتے بلکہ وہ محض باپ دادا کی تقلید میں ایک پیغمبر کو مان رہے ہیں۔ ان کا اصل دین نسل پرستی یا اپنے آباء کی تقلید ہے۔ اپنے پیغمبر کی پیروی نہیں۔ ورنہ اس کی سب باتیں مانتے۔ تمام انبیاء کرام اپنے اپنے وقتوں میں واجب الاتباع ہوتے ہیں اور ایک نئے نبی کی بعثت کی ضرورت ہمیشہ اس وقت پیش آتی ہے جب سابق نبی کی امت میں شرک و جہالت اور فساد فی الارض عام ہوجائے اور وہ خود کئی گروہوں میں بٹ جائے۔ دین یعنی عقائد و کلیات تو ہر نبی کے دور میں یکساں ہی رہے ہیں۔ البتہ اس دور کے تقاضوں کے مطابق کچھ سابقہ احکام منسوخ اور کچھ نئے احکام اس نئے نبی کو دیئے جاتے ہیں۔ لہذا اب اتباع تو صرف اسے نئے نبی کی واجب ہوتی ہے اور ایمان لانا سب پر واجب ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ سب انبیاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث اور حق و صداقت لے کر آئے تھے۔ اس لحاظ سے ان میں کچھ فرق نہیں ہوتا۔ رہا انبیاء میں درجات کے لحاظ سے فرق اور ایک دوسرے پر تفصیلات تو وہ قرآن کریم سے ثابت ہے۔ جیسے ارشاد باری ہے۔ ( تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ ٢٥٣؁ۧ) 2 ۔ البقرة :253)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(وَالْاَسْبَاطِ ) یہ ” سِبْطٌ“ کی جمع ہے، جس کا معنی آسانی سے پھیلنا ہے۔ اولاد کی اولاد کو بھی اسی پھیلاؤ کی وجہ سے ” سِبْطٌ“ کہتے ہیں۔ (مفردات) یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ بیٹے تھے، ان کی اولاد کے بارہ قبائل ” الْاَسْبَاطِ “ کہلاتے ہیں۔ ” الْاَسْبَاطِ “ پر الف لام کی وجہ سے ” اس کی اولاد “ اور ” وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ “ میں ” لَهٗ “ پہلے آنے کی وجہ سے ” ہم اسی کے فرماں بردار ہیں “ ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس آیت میں مسلمانوں کو اصل ہدایت اور ایمان کی تعلیم دی گئی ہے، یعنی قرآن پاک سے پہلے جتنی آسمانی کتابیں اور جتنے انبیاء و رسل آئے، جن میں سے بعض کے نام قرآن مجید میں آئے ہیں اور بعض کے نہیں آئے، سب پر مجملاً ایمان لایا جائے کہ وہ سب حق ہیں۔ ان کے درمیان فرق کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو مان لیا کسی کو نہ مانا، جیسے یہودیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور نصرانیوں نے آخری پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ماننے سے انکار کردیا۔ البتہ تفصیلی ایمان صرف قرآن پر ضروری ہے، یعنی اس کے ہر حکم کو ماننا اور اس پر عمل کرنا، کیونکہ 1 قرآن پاک آنے سے پہلی تمام کتابیں منسوخ ہوگئیں۔ 2 پہلے تمام پیغمبر خصوصاً اپنی قوم کی طرف آتے تھے، جب کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت تک کے تمام لوگوں کی طرف بھیجے گئے۔ دیکھیے سورة سبا (٢٨) ۔ 3 پھر پہلی کوئی آسمانی کتاب محفوظ نہیں رہی، بلکہ ان میں تحریف ہوگئی، جب کہ قرآن مجید ہر طرح سے محفوظ ہے۔ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ اہل کتاب تورات عبرانی میں پڑھتے، پھر اہل اسلام کے لیے عربی میں اس کی تفسیر کرتے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اہل کتاب کو نہ سچا کہو اور نہ انھیں جھوٹا کہو، بلکہ یوں کہو : (اٰمَنَّا باللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا) [ البقرۃ : ١٣٦ ] [ بخاری، التفسیر، باب ( قولوا اٰمنا باللہ ۔۔ ) : ٤٤٨٥ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓى اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْـبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَمَآ اُوْتِيَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ۝ ٠ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ۝ ٠ؗۖ وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ۝ ١٣٦ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا سبط أصل السَّبْط : انبساط في سهولة، يقال : شَعْرٌ سَبْطٌ ، وسَبِطٌ ، وقد سَبِطَ سُبُوطاً وسَبَاطَةً وسَبَاطاً ، وامرأة سَبْطَةُ الخلقة، ورجل سَبْطُ الكفّين : ممتدّهما، ويعبّر به عن الجود، والسِّبْطُ : ولد الولد، كأنه امتداد الفروع، قال : وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْباطِ [ البقرة/ 136] ، أي : قبائل كلّ قبیلة من نسل رجل، وقال تعالی: وَقَطَّعْناهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أَسْباطاً أُمَماً [ الأعراف/ 160] ، والسَّابَاطُ : المنبسط بين دارین . وأخذت فلانا سَبَاطِ ، أي : حمّى تمطّه، والسُّبَاطَةُ خط من قمامة، وسَبَطَتِ النّاقة ولدها، أي : ألقته . ( س ب ط ) السبط اس کا اصل معنی سہولت کے ساتھ کسی چیز کا منبسط ہونا ہیں اور سبط ( س ) سبوطا و سباطۃ وسباطا کے معنی بالوں کے سیدھا اور دراز ہونے کے ہیں اور سیدھے بالوں کو جن مین گھنگٹ نہ ہوں سبط یا سبط کہا جاتا ہے ۔ اسیطرح خوش قامت عورت کو بھی سبطۃ کہا جاتا ہے اور دراز کف دست آدمی کو سبط الکفین کہتے ہیں اور یہ سخاوت سے کنایہ ہوتا ہے ۔ السبط اس کے معنی اولاد کی اولاد یعنی پوتے اور نواسے کے ہیں گویا اس میں فروع کے امتداد کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْباطِ [ البقرة/ 136] اور حضرت یعقوب اور ان کی اولاد ۔ یہاں اسباط سے مراد قبائل ہیں ۔ ہر قبیلہ ایک شخص کی اولاد سے تھا ۔ جیسے فرمایا : أَسْباطاً أُمَماً [ الأعراف/ 160] ( الگ الگ ) بارہ قبیلے بنا دیئے الساباط وہ مسقف راستہ جو دو مکانوں کے درمیان ہو ۔ اور اخذت فلانا سباط کے معنی ہیں فلاں کو بخار چڑھ گیا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) السباطۃ خیر میں قمامۃ کہ خاک روبہ کوڑے سے بہتر ہے ۔ سبطت الناقۃ ولدھا اونٹنی نے نا تمام بچہ گرا دیا ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم/ 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] . ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : {إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا } [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . عيسی عِيسَى اسم علم، وإذا جعل عربيّا أمكن أن يكون من قولهم : بعیر أَعْيَسُ ، وناقة عَيْسَاءُ ، وجمعها عِيسٌ ، وهي إبل بيض يعتري بياضها ظلمة، أو من الْعَيْسِ وهو ماء الفحل يقال : عَاسَهَا يَعِيسُهَا ( ع ی س ) یہ ایک پیغمبر کا نام اور اسم علم ہے اگر یہ لفظ عربی الاصل مان لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس عیس سے ماخوذ ہو جو کہ اعیس کی جمع ہے اور اس کی مؤنث عیساء ہے اور عیس کے معنی ہیں سفید اونٹ جن کی سفیدی میں قدرے سیاہی کی آمیزش ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے عیس سے مشتق ہو جس کے معنی سانڈ کے مادہ منو یہ کے ہیں اور بعیر اعیس وناقۃ عیساء جمع عیس اور عاسھا یعسھا کے معنی ہیں نر کا مادہ سے جفتی کھانا ۔ نبی النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک . ( ن ب و ) النبی بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ تفریق والتَّفْرِيقُ أصله للتّكثير، ويقال ذلک في تشتیت الشّمل والکلمة . نحو : يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة/ 102] ، ( ف ر ق ) الفرق التفریق اصل میں تکثیر کے لئے ہے اور کسی چیز کے شیر ازہ اور اتحاد کو زائل کردینے پر بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة/ 102] جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ، سلم والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین : أحدهما : دون الإيمان، وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] . والثاني : فوق الإيمان، وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] ، ( س ل م ) السلم والسلامۃ الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٦) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مومنین کو توحید کا طریقہ بتایا تاکہ یہود اور نصاری کی توحید کی جانب رہنمائی ہوسکے چناچہ فرمایا کہ کہو ہم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی کتاب پر اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور ان کی کتاب پر اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) اور ان کی کتاب پر اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی کتاب پر اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد اور ان کی کتابوں پر اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی توریت پر اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی انجیل پر اور تمام انبیاء سابقین (علیہم السلام) اور ان پر نازل ہونے والی کتابوں پر ایمان لائے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو نبوت اور توحید بیان فرمائی ہے اس پر بھی ہمیں پورا ایمان حاصل ہے، اور ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ ان انبیاء کرام میں سے ہم کسی کا انکار نہیں کرتے۔ اور ہم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی عبادت کا اقرار کرنے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٦ (قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا باللّٰہِ ) (وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْنَا) (وَمَآ اُنْزِلَ الآی اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ ) (وَمَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَعِیْسٰی) (وَمَآ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ ج) (لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ز) ہم سب کو مانتے ہیں ‘ کسی کا انکار نہیں کرتے۔ ایک بات سمجھ لیجیے کہ ایک ہے تفضیل یعنی کسی ایک کو دوسرے سے زیادہ افضل سمجھنا ‘ یہ اور بات ہے ‘ اس کی نفی نہیں ہے۔ سورة البقرۃ ہی میں الفاظ آئے ہیں : (تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ ) (آیت ٢٥٣) یہ سب رسول فضیلت دی ہم نے بعض کو بعض پر۔ جبکہ تفریق یہ ہے کہ ایک کو مانا جائے اور ایک کا انکار کردیا جائے۔ اور رسولوں میں سے کسی ایک کا انکار گویا سب کا انکار ہے۔ (وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ) ۔ ہم نے تو اسی کی فرماں برداری کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال لیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

136. To make no distinction between the Prophets means not to hold some of them to he right and the others to be wrong, not to recognize some to have been the recipients of Divine revelation and the others not. All the Prophets sent by God invited men to the same Truth and to the same way. Hence for anyone who is really a lover of Truth it is necessary that he should recognize all of them to be its bearers. Those who believe in one particular Prophet and disbelieve in others do not in fact believe even in that particular Prophet in whom they, claim to believe, for they have not grasped the nature of that universal 'Straight Way' (al-sirat al-mustaqim) which was enunciated by Moses, Jesus and the other Prophets. When such people claim to foliow a Prophet they, really mean that they do so out of deference to their forefathers. Their religion in fact consists of bigoted ancestor-worship and blind imitation of inherited customs rather than sincere adherence to the directives of any Prophet of God.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :136 پیغمبروں کے درمیان تفریق نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے درمیان اس لحاظ سے فرق نہیں کرتے کہ فلاں حق پر تھا اور فلاں حق پر نہ تھا یا یہ کہ ہم فلاں کو مانتے ہیں اور فلاں کو نہیں مانتے ۔ ظاہر ہے کہ خدا کی طرف سے جتنے پیغمبر بھی آئے ہیں ، سب کے سب ایک ہی صداقت اور ایک ہی راہِ راست کی طرف بُلانے آئے ہیں ۔ لہٰذا جو شخص صحیح معنی میں حق پرست ہے ، اس کے لیے تمام پیغمبر وں کو برحق تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ۔ جو لوگ کسی پیغمبر کو مانتے اور کسی کا انکار کرتے ہیں وہ حقیقت میں اس پیغمبر کے بھی پیرو نہیں ہیں ، جسے وہ مانتے ہیں ، کیونکہ انہوں نے دراصل اس عالمگیر صراطِ مستقیم کو نہیں پایا ہے ، جسے حضرت موسی ؑ یا عیسیٰ ؑ یا کسی دُوسرے پیغمبر نے پیش کیا تھا ، بلکہ وہ محض باپ دادا کی تقلید میں ایک پیغمبر کو مان رہے ہیں ۔ ان کا اصل مذہب نسل پرستی کا تعصّب اور آباؤ اجداد کی اندھی تقلید ہے ، نہ کہ کسی پیغمبر کی پیروی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

یہودونصاریٰ کے دین میں ایک یہ بھی عیب تھا اور اب بھی موجود ہے کہ وہ سب انبیاء کو نہیں مانتے یہود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اور نبی آخر الزمان کے منکر ہیں نصاریٰ نبی آخر الزمان کے منکر ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو فرمایا کہ تم پر جو قرآن اترا ہے اس پر ایمان لا کر عمل بھی اس کے موافق کرو اور اعتقاد میں سب انبیاء کو حق جانو یہود اور نصاریٰ کی طرح بعض انبیاء کو ماننا اور بعض کو نہ ماننا کسی طرح ٹھیک نہیں ہے۔ کیونکہ توحید ہر نبی کے دین میں ہے اس سبب سے ایک نبی کے انکار سے بھی توحید کا انکار لازم آجاتا ہے جو عین کفر کا عقید ہے جس طرح بنی اسماعیل میں قبائل ہیں اسی طرح بنی اسرائیل میں اسباط ہیں سوائے حضرت نوح، ہود ‘ صالح ‘ شعیب ‘ لوط ‘ ابراہیم ‘ اسحاق ‘ یعقوب ‘ اسماعیل اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور سب صاحب شریعت نبی اسباط بنی اسرائیل میں سے ہوئے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:136) اس آیت میں جہاں بھی ما آیا ہے وہ ماصولہ ہے۔ قولوا۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ تم کہو۔ ای قالوا ایھا المؤمنون لہولاء الیھود والنصاری۔ ای مؤمنو۔ ان یہود و نصاری سے کہہ دو ۔ وما انزل الینا۔ اور جو نازل کیا گیا ہماری طرف یعنی قرآن۔ الاسباط۔ قبیلے۔ ایک دادا کی اولاد۔ سبط کی جمع ہے جس کے معنی پوتے، نواسے دونوں کے آتے ہیں۔ مگر نواسے کے معنی میں اس کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ جب اسباط بہود یا اسباط بنی اسرائیل کہا جائے ۔ تو اس سے مراد قبیلہ ہوتا ہے جو ایک دادا کی اولاد ہو۔ اوتی۔ ماضی مجہول واحد مذکر غائب ۔ ایتاء (افعال) مصدر۔ وہ دیا گیا۔ اسے دیا گیا۔ بین درمیان ۔ بیچ۔ جدائی۔ ملاپ۔ دو چیزوں کے درمیان اور بیچ کو بتانے کے لئے اس کی وضع عمل میں آئی ہے۔ جیسے وجعلنا بینھم زرعا (18:32) اور ہم نے رکھی دونوں کے بیچ میں کھیتی۔ بین کا استعمال یا تو وہاں ہوتا ہے جہاں مسافت پائی جائے ۔ جیسے بین البلدین دو شہروں کے درمیان ۔ یا جہاں دو یا دو سے زیادہ کا عدد موجود ہو۔ جیسے بین الرجلین دو آدمیوں کے درمیان اور جس جگہ وحدت کے معنی ہوں اور وہاں بین کی اضافت ہو تو تکرار ضروری ہے۔ مثلاً فاجعل بیننا وبینک موعدا (20:58) پس ہمارے اور تیرے درمیان وعدہ ٹھہرالے۔ اور جب بین کی اضافت ایدی (ہاتھوں) کی طرف ہو تو اس کے معنی سامنے اور قریب کے ہوتے ہیں۔ مثلاً لایتینھم من بین ایدیہم (7:17) پھر میں آؤں گا ان کے سامنے سے۔ بین احد۔ اگرچہ بین ہمیشہ غیر واحد کی طرف مضاف ہوتا ہے لیکن چونکہ یہاں احد بمعنی فریق آیا ہے اس لئے بین کی اضافت احد کی طرف درست ہے۔ نحن لہ مسلمون ۔ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب اللہ کی طرف راجع ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 الا سباط۔ یہ سبط کی جمع ہے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ بیٹے تھے ان میں سے ہر ایک کی اولاد سبط کہلاتی ہے یہ لفظ قبیلتہ کے مترادف ہے۔ مفردات )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ حکم میں صحیفے اور کتابیں سب داخل ہیں حاصل مضمون کا یہ ہوا کہ دیکھو ہمارا دین کیسا انصاف اور حق کا ہے کہ سب انبیاء کو مانتے ہیں سب کتابوں کو سچا مانتے ہیں سب کے معجزات کو حق سمجھتے ہیں گوبوجہ منسوخ ہونے اکثر احکام کے دوسری مستقل شریعت محمدیہ پر عمل کرتے ہیں لیکن انکار اور تکذیب کسی کی نہیں کرتے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ کے تمام نبیوں اور تمام کتابوں پر ایمان لانے کا حکم تفسیر درمنثور میں بحوالہ ابن اسحاق و ابن جریر وغیر ھما حضرت ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن صوریا اعور (یہودی) نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ ہدایت صرف وہی ہے جس پر ہم ہیں لہٰذا تم ہمارا اتباع کرو۔ ہدایت پا جاؤ گے۔ اور نصاری نے بھی اسی طرح کی بات کہی تو اللہ تعالیٰ نے آیت (وَقَالُوْا کُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصَارٰی تَھْتَدُوْا) (الآیۃ) نازل فرمائی۔ (ص ١٤٠ ج ١) مطلب یہ ہے کہ یہودیوں نے اپنے دین کو ہدایت بتایا اور اس کی دعوت دی اور نصاری نے اپنے دین کو ہدایت بتایا اور اس کی دعوت دی اللہ جل شانہ نے ان کی تردید فرمائی کہ تم ہدایت پر نہیں ہو تم اپنے اپنے دین کو چھوڑو اور ابراہیم حنیف کے دین کو اختیار کرو جس کے داعی حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ان کے دین کا عالم اور شارح اور داعی آپ کے سوا کوئی نہیں ہے ان کے دین میں توحید ہے حق پر استقامت ہے۔ قربانی ہے ایثار ہے۔ اخلاص ہے اور تم میں سے کوئی بھی ملت ابراہیم کا متبع نہیں ہے۔ دین حق میں اللہ پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرض ہے کہ اس کی ساری کتابوں اور اس کے سارے نبیوں پر ایمان لایا جائے اور ایمان لانے میں کوئی تفریق نہ کی جائے۔ اگر کسی ایک نبی کو بھی نبی نہ مانا تو سب کی تکذیب لازم آئے گی۔ اس صورت میں ہدایت پر ہونے کا دعوی غلط ہے۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ کو نہیں مانا اور یہود و نصاری دونوں قوموں نے حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور رسالت کا انکار کیا قرآن کو نہیں مانا پھر ہدایت پر کیسے ہوسکتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا خصوصی وصف لفظ حنیفاً میں بیان فرمایا اور یہ قرآن مجید میں کئی جگہ ان کے حق میں استعمال ہوا ہے اس کا مادہ ح ن ف ہے۔ امام راغب لکھتے ہیں : الحنف ھو المیل عن الضلال الی الاستقامۃ والحنیف ھو المائل الی ذلک۔ (ص ١٢٣) یعنی حنف یہ ہے کہ گمراہی سے ہٹتے ہوئے حق پر استقامت ہو۔ اور حنیف وہ ہے جس میں یہ صفت پائی جائے۔ تفسیر در منثور ص ١٤٠ ج ١ میں مسند احمد اور الادب المفرد (للبخاری) سے نقل کیا ہے کہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ کو کون سا دین پسند ہے ؟ آپ نے فرمایا الحنیفیۃ السمحۃ یعنی وہ دین اللہ کو محبوب ہے جس میں باطل سے بچتے ہوئے حق کو اپنایا گیا ہو اور جس پر عمل کرنے میں دشواری نہیں ہے (اس سے دین اسلام مراد ہے) ۔ حنیفاً کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دوسری صفت بیان فرمائی یعنی (وَمَاکَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) ان کی یہ صفت دوسری آیت میں بھی ان الفاظ میں مذکور ہے۔ اس میں صاف اور واضح طور پر بتادیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) مشرک نہیں تھے۔ جو بھی کوئی جماعت یا فرد مشرک ہوگا وہ دین ابراہیمی پر نہیں ہوسکتا مشرکین مکہ بھی اس بات کے مدعی تھے کہ ہم ملت ابراہیمی پر ہیں ان کے اندر ختنہ کرنا، حج کرنا اور مہمان نوازی کرنا باقی تھا لیکن ساتھ ہی مشرک بھی تھے۔ حج کے تلبیہ میں بھی شرک کے الفاظ بڑھا رکھے تھے اور کعبہ شریف میں بت بھر رکھے تھے اور یہود و نصاریٰ نے بھی شرک اختیار کر رکھا ہے عزیر اور حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا بتاتے ہیں اور پھر بھی اپنے آپ کو ہدایت پر سمجھتے ہیں اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ ملت ابراہیم کا اتباع کرو اور ان کی ملت میں سب سے پہلی بنیادی بات یہ ہے کہ توحید کے اقراری ہوں اور شرک کے انکاری ہوں۔ مذکورہ بالا آیت میں لفظ الاسباط جو آیا ہے یہ سبط کی جمع ہے اس سے حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد مراد ہے۔ ان میں سب تو نبی تھے لیکن ایک بڑی تعداد میں ان میں انبیاء کرام (علیہ السلام) مبعوث ہوئے اسی کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : (اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآءَ وَ جَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا وَّ اٰتٰیکُمْ مَّالَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ ) (ذکرہ و حکایۃ عن موسیٰ (علیہ السلام) فی سورة المائدہ) مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بعد بجز سیدنا حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جتنے بھی نبی آئے سب انہی کی اولاد میں سے تھے۔ اور وہ حضرت اسحاق کے بیٹے تھے۔ (صلوات اللہ علیہم اجمعین) امت محمدیہ الحمد للہ اللہ کے تمام نبیوں پر اور اس کی ساری کتابوں پر ایمان رکھتی ہے سب کا ادب سے نام لیتے ہیں اور اس میں کسی قسم کے عصبیت نہیں ہے۔ باوجودیکہ یہود و نصاریٰ سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان اقدس میں بےجا باتیں کرتے ہیں لیکن مسلمان کبھی بھی الٹ کر حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شان میں کوئی ناروا کلمہ نہ کہتے ہیں اور نہ کہہ سکتے ہیں اگر ایسا کریں گے تو ان کا ایمان جاتا رہے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

258 یہ خطاب مسلمانوں سے ہے کہ تم انہیں جواب دو کہ ہم یہودیت یا نصرانیت کو نہیں جانتے۔ ہم تو خدائے واحد کی توحید پر ایمان رکھتے ہیں وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا۔ اور اپنے آخری رسول کی وساطت سے جو کچھ اس نے ہم پر اتارا ہے، ہم اسے بھی مانتے ہیں۔259 حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں مختلف خاندانوں کو قبائل کہا جاتا ہے اسی طرح بنی اسرائیل کے خاندان اسباط کہلاتے تھے۔ والسبط فی بنی اسرائیل بمنزلۃ القبیلۃ فی ولد اسمعیل (قرطبی ص 141 ج 2) یعنی ہم ان تمام صحائف کو بھی مانتے ہیں جو حضرت ابراہیم، اسمعیل، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) پر نازل ہوئے نیز ان صحائف کو جو بنی اسرائیل میں ہونے والے باقی تمام انبیاء کرام پر اترے۔260 اور ہم تورات وانجیل کو بھی مانتے ہیں۔ تورات وانجیل کو ماننے کا مطلب یہ ہے کہ وہ خدا کی طرف سے نازل ہوئی تھیں اور اپنے اپنے وقت میں سرچشمہ ہدایت اور واجب العمل تھیں۔ اب ان پر عمل واجب نہیں۔ یہود ونصاریٰ کی وجہ سے اسباط کے بعد حضرت موسیٰ و عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر خصوصیت سے کیا گیا ہے۔ وَمَآ اُوْتِيَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ ۔ ان کے علاوہ باقی تمام نببیوں پر جو کچھ اترا ہم اس پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ۔ تمام انبیاء (علیہم السلام) کو برحق مانتے ہیں اور ان میں کسی نسلی یا قبائلی بنیاد پر تفریق نہیں کرتے کہ کسی کو مانیں اور کسی کو نہ مانیں جیسے یہود ونصاریٰ نے کیا ہے۔ ای کما فرق اھل الکتاب فامنوا ببعض وکفروا ببعض بل نومن بھم جمیعا (روح ص 390 ج 1) وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ ۔ لَہ کی تقدیم کی وجہ سے اس میں جو حصر پیدا ہوگیا۔ یعنی ہم ایمان تو ان تمام انبیاء پر لاتے ہیں اور جو کچھ ان پر اترا اسے بھی مانتے ہیں لیکن انقیادِ عبودیت کو صرف اللہ کے ساتھ ہی مخصوص کرتے ہیں اور اپنی تمام ضروریات وحاجات کو اسی کے سپرد کرتے ہیں اور اسی کو مختار و متصرف سمجھتے ہوئے خالص اس کی عبادت کرتے اور اسے ہی پکارتے ہیں جیسا کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(ف 2) اور یہ یہود و نصاری مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ تم یہودی ہوجائو یا نصرانی ہوجائو تاکہ تم بھی راہ پر آجائو اور راہ یافتہ ہوجائو۔ یعنی یہود کہتے ہیں یہودی ہوجائو نصرانی کہتے ہیں نصاریٰ ہوجائو ۔ اے نبی ! آپ فرما دیجئے ہم نہ یہودی ہوں گے نہ نصرانی ہوں گے نہ نصرانی بلکہ ہم تو اس ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت پر قائم رہیں گے جو ماسوای اللہ سے ہٹ کر صرف اللہ تعالیٰ کا ہوگیا تھا اور وہ مشرکوں میں شامل نہ تھا یہ جن مسلمانوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کر رہے ہیں وہ ان سے کہہ دیں ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس چیز پر ایمان رکھتے ہیں جو ہماری طرف محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے بھیجی گئی اور ہم ان چیزوں کو بھی مانتے ہیں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کی جانب بھیجی گئیں اور جو کچھ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیا گیا اس کو اور جو کچھ اور انبیاء (علیہم السلام) کو ان کے پروردگار کی جانب سے دیا گیا اس سب کو مانتے ہیں اور اس کے حق ہونے پر ایمان رکھتے ہیں اور ان سب رسولوں پر ایمان بھی اس طرح رکھتے ہیں کہ ہم ان رسولوں میں سے کسی ایک کو بھی جدا نہیں کرتے کہ کسی پر ایمان لائیں اور کسی پر ایمان نہ لائیں بلکہ ان سب کی رسالت پر یکساں ایمان رکھتے ہیں اور ہم تو خدا تعالیٰ کے مطیع و فرمانبردار ہیں وہ جو حکم دیتا ہے اس کے آگے سر جھکاتے ہیں۔ (تیسیر) ہم نے حنیفا کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا حال بنایا ہے لیکن ملت کی قید بھی بن سکتی ہے پھر مطلب یہ ہوگا کہ ہم اس ملت ابراہیمی پر قائم رہیں گے جو ملت بالکل سیدھی اور صاف ہے اور اس میں کسی قسم کی کجی نہیں ہے۔ حنیف کے معنی ہیں باطل سے کٹ کر اور پھر کر حق کی طرف ہوجانا مطلب یہ ہے کہ تمہاری یہودیت اور نصرانیت اول تو تحریف شدہ ہے پھر وہ دونوں منسوخ ہوچکی ہیں اس لئے ان پر اب ایمان لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ رہے مشرکین عرب سو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مشرک بھی نہ تھے پھر محض ان کا نام استعمال کرکے گمراہی کی دعوت دینا ایک لغو اور مہمل فعل کا ارتکاب کرنا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وما کان من المشرکین سے یہود و نصاریٰ کے بعض مشرکا نہ عقائد کی طرف اشارہ ہو اور مطلب یہ ہو کہ وہ یہودیت و نصرانیت جو تحریف شدہ اور منسوخ ہونے کے علاوہ مشرکانہ عقائد کو بھی شامل ہو وہ کب قبول کرنے اورا ختیار کرنے کے قابل ہوسکتی ہے اور پھر ان لوگوں کے لئے کس طرح قابل ہوسکتی ہے جو ملت ابراہیمی کو اپنی راہ بنائے ہوئے ہیں اور خدا کے سب پیغمبروں اور ان کی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں اور خدا کے رسولوں کو رسول اور ان کی کتابوں کو آسمانی کتابیں تسلیم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں جس زمانے میں اس نے جو حکم بھیجا اس پر عمل کرتے ہیں اور جس کو اللہ تعالیٰ منسوخ فرما دیتا ہے اس کو چھوڑ دیتے ہیں مسلمان مشہور کتب سماویہ کے علاوہ ان صحیفوں تک کو مانتے ہیں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئے تھے اور تمہاری حالت یہ ہے کہ یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نبی نہیں مانتے ان کی کتاب کو کتاب برحق تسلیم نہیں کرتے ۔ نصاریٰ کی یہ حالت ہے کہ وہ یہود کے مخالف اور دشمن ہیں تو کہاں تم اور کہاں مسلمان۔ لہٰذا یہود نصاری کی یہ تبلیغ مسلمانوں کو ہدایت کے نام پر گمراہی کی دعوت دینا ہے۔ حضرت مفسرین نے اس موقعہ پر ملت اور شریعت کے فرق پر بڑی تفصیلی بحثیں کی ہیں ۔ بالخصوص حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب (رح) دہلوی نے اس مسئلے پر بڑی سیر حاصل بحث فرمائی ہے اصل واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا ملت ابراہیمی پر قائم رہنا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی اتباع کا حکم دینا اس سے بظاہر یہ شبہ ہوتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی مستقل اور جدید شریعت نہیں ہے بلکہ آپ شریعت ابراہیمی پر قائم رہنا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی اتباع کا حکم دینا اس سے بظاہر یہ شبہ ہوتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی مستقل اور جدیدشریعت نہیں ہے بلکہ آپ شریعت ابراہیمی کے پیرو اور تجدید کرنے والے ہیں۔ اس لئے حضرات مفسرین نے اس شبہ کا ازالہ فرمایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ملت تو تمام انبیاء (علیہم السلام) کی مشترک ہے اور ملت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اس کی اطاعت کرنا اور چونکہ یہ سب میں مشترک ہے اس لئے ایک پیغمبر کو یہ حکم دیا جاسکتا ہے کہ تم اپنے سے پہلے پیغمبر کی ملت پر چلو جیسا کہ ساتویں پارے میں انبیاء سابقین کا ذکر فرمانے کے بعد حضرت حق نے ارشاد فرمایا اولک الذین ھدی اللہ فیھد اھم اقتدہ یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت سے نوازا تھا۔ سو آپ بھی ا ن کی ہدایت کی اقتدار کیجئے۔ جب یہ بات سمجھ میں آگئی تو اب شریعت کو سمجھناچاہئے شریعت ہر زمانے کی ضرورت کے لحاظ سے ہر پیغمبر کی مختلف ہوتی ہے ۔ اگرچہ مقصد وہی حضرت حق کی اطاعت ہوتا ہے لیکن ہر زمانے کے اعتبار سے اس کے خصوصی طریقے بدلے ہوئے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ چھٹے پارے میں فرمایا لکل جکلنا منکم شرعتہ ومنھا جاً یعنی ہم نے تم میں سے ہر ایک کو ایک دستور اور ایک راستہ عطا کیا۔ لہٰذا شریعت ان تمام کلیات وجزیات اور اصول و فروع کا نام ہے جو کسی اولو العزم پیغمبر کو جو صاحب شریعت ہو عطا کی جائے۔ اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت اور جناب سید المرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت اور ہے آپ کی شریعت ایک مستقل اور جدید شریعت ہے اور چونکہ اکثر مسائل اصولیہ وفروعیہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے باہم توافق اور اتحاد ہے اس لئے ملت ابراہیم (علیہ السلام) کو شریعت محمدیہ اور شریعت محمدیہ کو ملت ابراہیم کہہ دیاجاتا ہے اور مسلمانوں کا اہل کتاب کو یہ جواب دینا کہ ہم تو ملت ابراہیمی کے پابند ہیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ملت ابراہیمی جو شریعت محمدیہ ہے ہم اس کے پابند ہیں تم بھی اس شریعت محمدیہ کے پیرو ہوجائو جو صورتاً اور معناً بہت سی باتوں میں ملت ابراہیمی کے مرادف اور ہم معنی ہے اب چاہے یوں کہو کہ شریعت محمدیہ پر ایمان لے آئو جو ملت ابراہیمی سے ملتی جلتی ہے اور چاہے یوں کہو کہ ملت ابراہیمی کے پابند ہوجائو جو شریعت محمدیہ سے ملتی جلتی ہے۔ اب رہی یہ بات کہ اس طرح تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت کو بھی ملت ابراہیمی کہا جاسکتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ملت تو سب پیغمبروں کی یکساں ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے اصول اور عقائد تو یقینا سب کے یکساں ہیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد جس قدر پیغمبر ہوئے ہیں ان سب کی ملت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت ہے بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی ملت ہے لیکن شریعت موسویہ اور شریعت عیسویہ کو اس بنا پر ملت ابراہیم نہیں فرمایا کہ ملت ابراہیم کے اصول اور بعض فروع میں جو تطابق اور توافق شریعت محمدیہ کو حاصل ہے وہ شریعت موسویہ اور عیسویہ کو حاصل نہیں ہے نیز یہ کہ حضرت ابراہیم کی ہستی اور ان کی بزرگی سب کے نزدیک مسلم تھی یہودی نصرانی، مشرکین عرب سب کا ان کا نام احترام کے ساتھ لیتے تھے۔ اس لئے سب کو یہ دعوت دی گئی کہ اگر تم لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے سچے نام لیوا ہو اور ان کے صحیح پیرو بنناچاہتے ہو تو اسکی صرف ایک ہی شکل ہے کہ تم شریعت محمدیہ کے پیرو ہوجائو کیونکہ اس وقت صرف شریعت محمدیہ ہی ایسی شریعت ہے جو اپنے اصول اور اکثر فروع میں ملت ابراہیمی کا صحیح چربہ ہے یہ ان مباحث کا بہت ہی مختصر خلاصہ ہے۔ جو اس موقع پر مفسرین نے بیان کیا ہے اگر اس کو محفوظ کرلیا گیا تو انشاء اللہ آئندہ تفسیر میں بہت مدد ملے گی اور یہ جو ہم نے کہا کہ اصول اور اعتقادیات میں تو سب مشترک ہیں لیکن شریعت کے فروعی مسائل اکثر جدا جدا ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض فروعی باتیں بھی سب پیغمبروں میں یکساں ہوتی ہیں۔ جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اربع من سنن المرسلین الحیاء والنکاح والتعطیر والسواک یعنی چار چیزیں پیغمبروں کا طریقہ رہی ہیں۔ حیا کرنا، نکاح کرنا، خوشبو لگانا اور مسواک کرنا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ملت میں سب مشترک ہوتے ہی ہیں مگر شریعت کی بھی بعض باتوں میں اشتراک ہوسکتا ہے لیکن اس قسم کے معمولی اشتراک کی وجہ سے کسی صاحب شریعت پیغمبر کو یہ نہیں کہیں گے کہ وہ فلاں پیغمبر کی شریعت کا تابع ہے۔ مگر ہاں ! جب کہ وہ پیغمبر صاحب شریعت نہ ہو اور کسی دوسرے پیغمبر کی شریعت کا تابع ہو جیسا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیانی انبیاء اور چونکہ نبی کریم (علیہ السلام) خود صاحب شریعت اور ایک مستقل شریعت کے منبع ہیں۔ اس لئے آپکو شریعت ابراہیمی کا تابع اور پیرو کہنا صحیح نہیں ہوگا۔ ہاں ملت ابراہیمی کا تابع کہا جاسکتا ہے (تسہیل)