Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 139

سورة البقرة

قُلۡ اَتُحَآجُّوۡنَنَا فِی اللّٰہِ وَ ہُوَ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمۡ ۚ وَ لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ۚ وَ نَحۡنُ لَہٗ مُخۡلِصُوۡنَ ﴿۱۳۹﴾ۙ

Say, [O Muhammad], "Do you argue with us about Allah while He is our Lord and your Lord? For us are our deeds, and for you are your deeds. And we are sincere [in deed and intention] to Him."

آپ کہہ دیجئے کیا تم ہم سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو جو ہمارا اور تمہارا رب ہے ، ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہم تو اسی کے لئے مخلص ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah directed His Prophet to pre-empt the arguments with the idolators: قُلْ أَتُحَأجُّونَنَا فِي اللّهِ ... Say (O Muhammad to the Jews and Christians), "Dispute you with us about Allah, meaning, "Do you dispute with us regarding the Oneness of Allah, obedience and submission to Him and in avoiding His prohibitions! ... وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ... while He is our Lord and your Lord, meaning, He has full control over us and you, and deserves the worship alone without partners. ... وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ ... And we are to be rewarded for our deeds and you for your deeds. meaning, we disown you and what you worship, just as you disown us. Allah said in another Ayah, وَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل لِّى عَمَلِى وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ أَنتُمْ بَرِييُونَ مِمَّأ أَعْمَلُ وَأَنَاْ بَرِىءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ And if they belie you, say: "For me are my deeds and for you are your deeds! You are innocent of what I do, and I am innocent of what you do!" (10:41) and, فَإنْ حَأجُّوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِىَ للَّهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ So if they dispute with you (Muhammad) say: "I have submitted myself to Allah (in Islam), and (so have) those who follow me." (3:20) Allah said about Ibrahim, وَحَأجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّى فِى اللَّهِ His people disputed with him. He said: "Do you dispute with me concerning Allah." (6:80) and, أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِى حَأجَّ إِبْرَهِيمَ فِى رِبِّهِ Have you not looked at him who disputed with Ibrahim about his Lord (Allah). (2:258) He said in this honorable Ayah, ... وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ And we are to be rewarded for our deeds and you for your deeds. And we are sincere to Him. meaning, "We disown you just as you disown us," ... وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ And we are sincere to Him, in worship and submission.

مشرکین کے اعمال پر بیزاری مشرکوں کے جھگڑے کو دفع کرنے کا حکم رب العالمین اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دے رہا ہے کہ تم ہم سے اللہ کی توحید ، اخلاص ، اطاعت وغیرہ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو؟ وہ صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ تمہارا رب بھی تو ہے ، ہم پر اور تم پر قابض و متصرف بھی وہی اکیلا ہے ۔ ہمارے عمل ہمارے ساتھ ہیں وہ تمہارے عمل تمہیں کام آئیں گے ، ہم تم سے اور تمہارے شرک سے بیزار ہیں اور جگہ فرمایا آیت ( فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ رَّبُّكُمْ ذُوْ رَحْمَةٍ وَّاسِعَةٍ ) 6 ۔ الانعام:147 ) یعنی اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہدے کہ میرے لیے میرا عمل ہے اور تمہارے لئے تمہارا عمل ہے تم میرے ( نیک ) کام سے اور میں تمہارے اعمال سے بیزار ہوں ۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت ( فَاِنْ حَاۗجُّوْكَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلّٰهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ ) 3 ۔ آل عمران:20 ) اگر یہ تجھ سے جھگڑیں تو تو کہدے میں نے اور میرے ماننے والوں نے اپنے منہ اللہ کی طرف کر دئے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے یہی فرمایا تھا آیت ( اَتُحَاۗجُّوْۗنِّىْ فِي اللّٰهِ وَقَدْ هَدٰىنِ ) 6 ۔ الانعام:80 ) کیا تم اللہ کے بارے میں مجھ سے اختلاف کرتے ہو؟ اور جگہ ہے؟ آیت ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ حَاۗجَّ اِبْرٰھٖمَ فِيْ رَبِّهٖٓ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ ) 2 ۔ البقرۃ:258 ) تو نے اسے بھی دیکھا جو ابراہیم ( علیہ السلام ) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑنے لگا ۔ پس یہاں ان جھگڑالو لوگوں سے کہا گیا کہ ہمارے اعمال ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ۔ ہم تم سے الگ ۔ ہم عبادت اور توجہ میں اخلاص اور یکسوئی کرنے والے لوگ ہیں ۔ پھر ان لوگوں کے دعوے کی تردید ہو رہی ہے کہ حضرت ابراہیم نہ تو یہودی ، نہ نصرانی ، تم اے یہودیو اور اے نصرانیو کیوں یہ باتیں بنا رہے ہو؟ کیا تمہارا علم اللہ سے بھی بڑھ گیا ہے اللہ نے تو صاف فرما دیا آیت ( مَا كَانَ اِبْرٰهِيْمُ يَهُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران:67 ) ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے ، نہ نصرانی ، نہ مشرک ، بلکہ خالص مسلمان تھے ، ان کا حق کی شہادت کو چھپا کر بڑا ظلم کرنا یہ تھا کہ اللہ کی کتاب جو اس کے پاس آئی اس میں انہوں نے پڑھا کہ حقیقی دین اسلام ہے ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے رسول ہیں ۔ ابراہیم ، اسمٰعیل ، اسحاق ، یعقوب وغیرہ یہودیت اور نصرانیت سے الگ تھے لیکن پھر نہ مانا اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس بات کو بھی چھپا دیا ۔ پھر فرمایا تمہارے اعمال اللہ سے پوشیدہ نہیں ، اس کا محیط علم سب چیزوں کو گھیرے ہوئے ہے ، وہ ہر بھلائی اور برائی کا پورا پورا بدلہ دے گا ۔ یہ دھمکی دے کر پھر فرمایا کہ یہ پاکباز جماعت تو اللہ کے پاس پہنچ چکی ۔ تم جب ان کے نقش قدم پر نہ چلو تو صرف ان کی اولاد میں سے ہونا تمہیں اللہ کے ہاں کوئی عزت اور نفع نہیں دے سکتا ہے ۔ ان کے نیک اعمال میں تمہارا کوئی حصہ نہیں اور تمہاری بد اعمالیوں کا ان پر کوئی بوجھ نہیں جو کرے سو بھرے تم نے جب ایک نبی کو جھٹلایا تو گویا تمام انبیا کو جھٹلایا بالخصوص اے وہ لوگو! جو نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں ہو ۔ تم تو بڑے ہی وبال میں آ گئے ، تم نے تو اس نبی کو جھٹلایا جو سید الانبیاء جو ختم المرسلین ہیں ، جو رسول رب العالمین ہیں جن کی رسالت تمام انسانوں اور جنوں کی طرف ہے ۔ جن کی رسالت کے ماننے کا ہر ایک شخص مکلف ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے بیشمار درود و سلام آپ پرنازل ہوں اور آپ کے سوا تمام انبیاء کرام پر بھی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

139۔ 1 کیا تم ہم سے اس بارے میں جھگڑتے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اسی کے لئے اخلاص و نیاز مندی کے جذبات رکھتے ہیں اور اسی کے احکامات کی پیروی کرنے سے اجتناب کرتے ہیں حالانکہ ہمارا ہی نہیں تمہارا بھی ہے اور تمہیں بھی اس کے ساتھ یہی معاملہ کرنا چاہیے جو ہم کرتے ہیں اور اگر تم ایسا نہیں کرتے تو تمہارا عمل تمہارے ساتھ، ہمارا عمل ہمارے ساتھ۔ ہم تو اسی کے لئے خاص عمل کا اہتمام کرنے والے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧١] یہود و نصاریٰ یہ سمجھتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ لہذا اس کی جملہ نوازشات اور الطاف و اکرام کے مستحق صرف ہم ہی ہیں۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ آپ ان سے کہیں کہ اللہ جیسا تمہارا پروردگار ہے ویسا ہی ہمارا بھی ہے۔ وہ تو جس طرح کے کوئی شخص عمل کرے گا اسی کے مطابق اس پر نوازشات کرے گا۔ اور اس لحاظ سے ہم تم سے بہتر بھی ہیں کہ ہم فقط اسی کی بندگی کرتے ہیں اور تم شرک بھی کئے جاتے ہو اور یہ اندازہ اب تم خود لگا سکتے ہو کہ آئندہ اس کی نوازشات اور الطاف و اکرام کس پر ہونا چاہئیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یہود مسلمانوں سے جھگڑتے کہ تمام انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہوئے ہیں، پھر یہ آخری نبی عرب سے کیسے مبعوث ہوگئے ؟ ہمارا دین سب سے بہتر اور تمام انبیاء کا دین ہے، تو اس آیت میں ان کی تردید فرمائی گئی ہے کہ ہمارا تمہارا سب کا رب ایک ہے اور ہم عبادت میں مخلص بھی ہیں، پھر تمہارا یہ کہنا کہ ہم بہتر ہیں، یہ کیسے درست ہوسکتا ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

These three verses bring to an end the section of the Surah in which certain claims of the Jews and the Christians have been refuted -- for example, their assertion that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) (Abraham), Sayyidna Ismail (علیہ السلام) (Ishmael), Sayyidna Ishaq (علیہ السلام) (Isaac), Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) (Jacob) and the prophets (علیہم السلام) in his lineage were either Jews or Christians, and the claim that they were the chosen people and would have the exclusive privilege of being sent straight to Paradise which would be denied to Muslims. The earlier verses have established that the religion of all these prophets was Islam, in the general sense of the term, but that the earlier Shari` ahs have now been abrogated, and the title of |"Islam|" been specially given to the religion of Sayyidna Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Should the Jews and the Christians still continue, in their stubbornness, to deny, Allah asks the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the Muslims to declare in plain and simple words that Allah, being the Lord of All, cannot show any special favour to any particular group of His creatures, and that on the Day of Judgment He will assess the Jews and the Christians as well as the Muslims according to what each has believed in and how each has been behaving - a principle which was accepted by the People of the Book too. The Muslims have also been asked to announce that they on their part recognize no other god but Allah, and have purified their religion of all traces of association (Shirk شرک ) - as against the Jews and the Christians who consider Sayyidna ` Uzayr (علیہ السلام) (Ezra) and Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) (Jesus) respectively to be |"the Son of God|", and whose religions have, moreover, been abrogated. In this respect at least, Muslims have a superiority over them. If the People of the Book should, on account of their affiliation with the earlier prophets, still keep insisting on their own rectitude, the Muslims may ask them a basic question - who knows the truth better, Allah or the People of the Book? Allah has definitely and finally announced the truth in the Last Revelation, and the People of the Book themselves know that the religion of the earlier prophets was Islam. Yet they are trying to conceal the truth, and being unjust, in the gravest sense of the term. Allah knows what they have been doing, and will judge them according to their own deeds, and not according to the deeds of their ancestors. Thus, at the end of this section, Verse 141, which is a repetition of Verse 134, warns them against the consequences of their vanity and pretentiousness, and advises them to take care of themselves rather than relying on ancestral glory. Verse 139 brings out the essential and peculiar characteristic of the Islamic Ummah اُمَّت۔ it has purified itself of all possible admixture of Shirk شرک (association), and devoted itself, externally and internally, to Allah. The Arabic word in the text is Mukhlisun مُخلصون ، the plural of Mukhlis مخلص which signifies |"one who has purified himself&, and which is allied to the word Ikhlas اخلاص ، |"the act of purifying oneself.|" According to Said ibn Jubayr, Ikhlas اخلاص consists in worshipping no one but Allah, associating no one with Allah, and doing good deeds only for the sake of obeying Allah, and not for the purpose of winning the admiration of the people. Certain spiritual masters have said that Ikhlas اخلاص is a deed which can be identified neither by men, nor by angels nor by Satan شیطان ، and that it is a |"secret|" between Allah and His servant.38 38. The word Ikhlas اخلاص is usually rendered into English as |"sincerity|" and Mukhlis مخلص as |"sincere.|" It is to be doubted whether the word |"sincerity|" did, at any time and in any Western language, carry the full gamut of the meanings of the Arabic word Ikhlas اخلاص . Anyhow, the sense of the word |"sincerity|" has, in current usage, become not only perverted but some-times actually inverted. The word used to imply a harmony between ex¬ternal action and inner inclination, along with the tacit assumption that the external action concerned was, if nothing else, at least socially accept-able to some degree. But |"sincerity|", as employed in our days, suggests a compliance with one&s emotions or even with one&s instincts. As such, the concept of |"sincerity|" is being used to justify and authorize fornication, or even murder. It is easy to see that such an idea of |"sincerity|" is the exact anti-thesis of Ikhlas اخلاص . For, one cannot attain even the lowest degree of Ikhlas اخلاص without forming a clear intention to obey the injunctions of the Shaah as against letting oneself be guided by one&s instinctual urges or emotional inclinations while the concept of |"sincerity|" in vogue requires one to ignore the Shari&ah or even mundane considerations and to do the bidding of one&s impulse of the moment, thus reducing man to an automa¬ton at the mercy of his reflexes. Nor should we forget another serious as¬pect of the problem. There is another allied notion of |"sincerity|" which has been disturbing the peace of many pious people even in the past, but which has acquired a devastating intensity in our own days. This notion of |"sincerity|" demands one to seek fixity and unrelieved continuity in an emotional state, which is, of course, not possible for man as he is consti¬tuted. It so happens with some pious people that once they start seeking this kind of |"sincerity|" in offering their enjoined prayers, they find that they cannot keep up an unbroken concentration of mind, and are so frightened by this lapse that they sometimes give up offering their prayers, believing such worship to be |"insincere|" and hence invalid. Let us make it clear once for all that the only thing the Shari` ah requires from us is to have the correct intention and attitude when we begin our prayers or perform any other good deed. This alone is the pre-requisite for attaining Ikhlas اخلاص ، which, anyhow, is not a matter of emotions and af¬fective states. In short, Islam requires us to perfect the quality of Ikhlas اخلاص as defined by the Shari&ah, and not to seek |"sincerity|" in the Western sense of the term, ancient or modern. For an elaborate treatment of the subject, see Tarbiyyah al-Salik تربیہ السالک by Maulana Ashraf ` Ali Thanavi (رح) .

خلاصہ تفسیر : آپ (ان یہود و نصاری سے) فرما دیجئے کہ کیا تم لوگ (اب بھی) ہم سے حجت کئے جاتے ہو حق تعالیٰ کے معاملہ میں (کہ وہ ہم کو قیامت میں نہ بخشیں گے) حالانکہ وہ ہمارا اور تمہارا (سب کا) رب (اور مالک) ہے (سو ربوبیت میں تو تمہارے ساتھ کوئی خصوصیت نہیں جیسا تمہارے بعض دعو وں سے اختصاص مفہوم ہوتا ہے مثل نحن ابناء اللہ) اور ہم کو ہمارا کیا ہوا ملے گا اور تم کو تمہارا کیا ہوا ملے گا (یہاں تک تو تمہارے نزدیک بھی مسلم ہے) اور (اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ) ہم نے صرف حق تعالیٰ (کی خوشنودی) کے لئے اپنے (دین) کو (شرک وغیرہ سے) خالص کر رکھا ہے (بخلاف تمہارے طریقہ موجودہ کے کہ علاوہ منسوخ ہونے کے خود شرک سے بھی مخلوط ہے جیسا ان کے اقوال عزیر ابن اللہ اور مسیح ابن اللہ سے ظاہر ہے اور اس میں ہم کو اللہ تعالیٰ نے ترجیح دی ہے پھر ہم کو نجات نہ ہونے کے کیا معنی) یا (اب بھی اپنے حق پر ہونے کے ثابت کرنے کو یہی) کہے جاتے ہو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اولاد یعقوب (میں جو انبیاء گذرے ہیں یہ سب حضرات) یہود یا نصاریٰ تھے ( اور اس سے بواسطہ موافقت طریق اپنا حق پر ہونا ثابت کرتے ہو سو اس کے جواب میں) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ایک اتنی مختصر سی بات ان سے) کہہ دیجئے کہ (اچھا یہ بتلاؤ کہ) تم زیادہ واقف ہو یا حق تعالیٰ (اور ظاہر ہے کہ خدا ہی زیادہ واقف ہے اور وہ ان انبیاء (علیہم السلام) کا ملت اسلام پر ہونا ثابت کرچکے ہیں جیسا ابھی اوپر گذر چکا ہے) اور (جانتے ہیں یہ کافر بھی مگر چھپاتے ہیں سو) ایسے شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو ایسی شہادت کا اخفا کرے جو اس کے پاس منجانب اللہ پہنچی ہو اور (اے اہل کتاب) اللہ تعالیٰ تمہارے کئے ہوئے سے بیخبر نہیں ہیں (پس جب یہ حضرات یہود و نصاریٰ نہ تھے سو تم طریق دین میں ان کے موافق کب ہوئے پھر تمہارا حق پر ہونا ثابت نہ ہوا) یہ (ان بزرگوں کی) ایک جماعت تھی جو (اپنے زمانے میں) گذر گئی ان کے کام ان کا کیا ہوا آوے گا اور تمہارے کام تمہارا کیا ہوا آوے گا، اور تم سے ان کے کئے ہوئے کی پوچھ بھی تو نہ ہوگی ( اور جب خالی تذکرہ بھی نہ ہوگا تو اس سے تم کو کچھ نفع پہنچنا تو درکنار) معارف و مسائل : اخلاص کی حقیقت : وَنَحْنُ لَهٗ مُخْلِصُوْنَ اس میں امت مسلمہ کی ایک خصوصیت یہ بتلائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے مخلص ہے، اخلاص کے معنی حضرت سعید بن جبیر نے یہ بتلائے ہیں کہ انسان اپنے دین میں مخلص ہو کہ اللہ کے سوا کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اور اپنے عمل کو خالص اللہ کے لئے کرے لوگوں کے دکھلانے یا ان کی مدح وشکر کی طرف نظر نہ ہو، بعض بزرگوں نے فرمایا کہ اخلاص ایک ایسا عمل ہے جس کو نہ تو فرشتے پہچان سکتے ہیں اور نہ شیطان وہ صرف بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ایک راز ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَتُحَاۗجُّوْنَـــنَا فِي اللہِ وَھُوَرَبُّنَا وَرَبُّكُمْ۝ ٠ ۚ وَلَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ۝ ٠ ۚ وَنَحْنُ لَہٗ مُخْلِصُوْنَ۝ ١٣٩ ۙ حاجَّة : أن يطلب کلّ واحد أن يردّ الآخر عن حجّته ومحجّته، قال تعالی: وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام/ 80] ، فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران/ 61] ، وقال تعالی: لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 65] ، وقال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران/ 66] ، وقال تعالی: وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر/ 47] ، وسمّي سبر الجراحة حجّا، قال الشاعر : 105 ۔ يحجّ مأمومة في قعرها لجف ۔ الحاجۃ ۔ اس جھگڑے کو کہتے ہیں جس میں ہر ایک دوسرے کو اس کی دلیل اور مقصد سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام/ 80] اور ان کی قوم ان سے بحث کرنے لگی تو انہوں نے کہا کہ تم مجھ سے خدا کے بارے میں ( کیا بحث کرتے ہو ۔ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران/ 61] پھر اگر یہ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چکی ہے ۔ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 65] تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران/ 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا جس کا تمہیں کچھ علم تھا بھی مگر ایسی بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تم کو کچھ بھی علم نہیں ۔ وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر/ 47] اور جب وہ دوزخ میں جھگڑیں گے ۔ اور حج کے معنی زخم کی گہرائی ناپنا بھی آتے ہیں شاعر نے کہا ہے ع ( بسیط) یحج مامومۃ فی قھرھا لجف وہ سر کے زخم کو سلائی سے ناپتا ہے جس کا قعر نہایت وسیع ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے خلص الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه، وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف/ 24] ( خ ل ص ) الخالص ( خالص ) خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة/ 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف/ 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٩) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ یہود ونصاری سے کہہ دیجیے کہ تم ہم سے اللہ تعالیٰ کے دین کے معاملہ میں تنازعہ کرتے ہو، حالانکہ اللہ تعالیٰ ہمارا اور تمہارا پروردگار ہے، ہمارے لیے ہمارا دین ہے، تم پر تمہارے اعمال اور تمہارا دین ہے، ہم تو خاص اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت اور اسی کی وحدانیت کا اقرار کرنے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٩ (قُلْ اَتُحَآجُّوْنَنَا فِی اللّٰہِ ) (وَہُوَ رَبُّنَا وَرَبُّکُمْ ج) ۔ ربّ بھی ایک ہے اور اس کا دین بھی ایک ہے ‘ ہاں شریعتوں میں فرق ضرور ہوا ہے ۔ (وَلَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ج) (وَنَحْنُ لَہٗ مُخْلِصُوْنَ ) ۔ ہم اس کے لیے اپنے آپ کو اور اپنی بندگی کو خالص کرچکے ہیں۔ یہاں پے در پے آنے والے تین الفاظ کو نوٹ کیجیے۔ یہ مقام میرے اور آپ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ آیت ١٣٦ ان الفاظ پر ختم ہوئی تھی : (وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ) ہم اسی کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔ ان میں تو ہم بھی شامل ہیں۔ اس کے بعد آیت ١٣٨ کے اختتام پر یہ الفاظ آئے : (وَّنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ ) اور ہم اس ہی کی بندگی کرتے ہیں۔ صرف اسلام نہیں ‘ عبادت یعنی پوری زندگی میں اس کے ہر حکم کی پیروی اور اطاعت درکار ہے۔ اس سے آگے یہ بات آئی : (وَنَحْنُ لَہٗ مُخْلِصُوْنَ ) یہ عبادت اگر اخلاص کے ساتھ نہیں ہے تو منافقت ہے۔ اس عبادت سے کوئی دنیوی منفعت پیش نظر نہ ہو۔ ع سوداگری نہیں ‘ یہ عبادت خدا کی ہے ! دین کو دنیا بنانے اور دنیا کمانے کا ذریعہ بنانے سے بڑھ کر گری ہوئی حرکت اور کوئی نہیں ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے : (مَنْ صَلّٰی یُرَاءِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ وَمَنْ صَامَ یُرَاءِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَاءِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ ) (مسند احمد) جس نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا ‘ جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا اس نے شرک کیا ‘ اور جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ و خیرات کیا اس نے شرک کیا۔ ان تینوں الفاظ کو حرز جان بنا لیجیے : نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ‘ نَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ ‘ نَحْنُ لَہٗ مُخْلِصُوْنَ ۔۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

138. The one principle that the Prophet and his followers unreservedly stood for was that God alone should be served. Does that call for dispute and quarrel? If anyone, it is the Muslims who are entitled to quarrel with the Jews and Christians, for it is they rather than the Muslims who insist that others beside God should also be made objects of service and adoration. An alternative translation of this portion could be: 'Would you then dispute with us for the sake of Allah?' In this case the meaning of the verse would be that if their dispute was sincere, it was easy to put an end to it by, agreeing to serve none but God. 139. They are told that everyone is responsible for his own conduct. If they have earmarked a part of their service and devotion to others than God, let them do so and see for themselves what it leads to. The Muslims did not want to keep them from error by force. As for themselves, they had consecrated their service, obedience and worship to God alone. If the Jews and Christians could bring themselves to recognize the right of the Muslims to do so, the dispute could automatically be brought to an end,

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :138 ”یعنی ہم یہی تو کہتے ہیں کہ اللہ ہی ہم سب کا ربّ ہے اور اسی کی فرمانبرداری ہونی چاہیے ۔ کیا یہ بھی کوئی ایسی بات ہے کہ اس پر تم ہم سے جھگڑا کرو؟ جھگڑے کا اگر کوئی موقع ہے بھی ، تو وہ ہمارے لیے ہے ، نہ کہ تمہارے لیے ، کیونکہ اللہ کے سوا دُوسروں کو بندگی کا مستحق تم ٹھیرا رہے ہو نہ کہ ہم ۔ ” اَ تُحَآ جُّوْنَنَا فِی اللہِ“ کا ایک ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ”کیا تمہارا جھگڑا ہمارے ساتھ فِیْ سَبِیْلِ اللہ ہے“؟ اس صُورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اگر واقعی تمہارا یہ جھگڑا نفسانی نہیں ہے ، بلکہ خدا واسطے کا ہے ، تو یہ بڑی آسانی سے طے ہو سکتا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :139 یعنی تم اپنے اعمال کے ذمّے دار ہو اور ہم اپنے اعمال کے ۔ تم نے اگر اپنی زندگی کو تقسیم کر رکھا ہے اور اللہ کے ساتھ دُوسروں کو بھی خدائی میں شریک ٹھیرا کر ان کی پرستش اور اطاعت بجا لاتے ہو ، تو تمہیں ایسا کرنے کا اختیار ہے ، اس کا انجام خود دیکھ لو گے ۔ ہم تمہیں زبردستی اس سے روکنا نہیں چاہتے ۔ لیکن ہم نے اپنی بندگی ، اطاعت اور پرستش کو بالکل اللہ ہی کے لیے خالص کر دیا ہے ۔ اگر تم تسلیم کر لو کہ ہمیں بھی ایسا کرنے کا اختیار ہے ، تو خواہ مخواہ کا یہ جھگڑا آپ ہی ختم ہو جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(139 ۔ 141) ۔ اہل کتاب کی اس بات کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی ہے جو انہوں نے کہی تھی۔ کہ { کُوْنُوْا ھُوْدًا اَّوْ نَصَرٰی } مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم تم سب ایک خدا کے بندے اور فرمانبردار ہیں پھر تم جو اپنے آپ کو صاحب ہدایت اور راودوں کو گمراہ سمجھتے ہو اس کی دلیل تمہارے پاس کیا ہے رہی ہماری دلیل وہ خود تمہاری کتابیں ہیں جن میں یہ موجود ہے کہ نبی آخر الزمان کے پیدا ہونے اور نبی ہوجانے کے بعد اور کوئی دین قائم نہیں رہ سکتا اگرچہ تم نے اپنی کتابوں کی وہ آیتیں بدل ڈالی ہیں لیکن تمہارے علماء کے عبد اللہ بن سلام وغیرہ جو سلام لے آئے ہیں وہ تم کو ہر روقت قائل کرتے ہیں اس پر بھی تم کو کچھ حجت ہے۔ تو ہمارا کیا ہمارے آئے گا اور تمہارا تمہارے آگے مگر اتنی بات ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی خالص عبادت کرتے ہیں اور تم شرک کرتے ہو اور تم یہ جو کہتے ہو کہ ابراہیم اسمٰعیل، اسحق، و یعقوب تمہارے دین پر تھے یہ بالکل خدا تعالیٰ کے نزدیک غلط ہے۔ جس کی تفصیل اوپر گذر چکی کہ یہ لوگ ملت ابراہیمی پر تھے اور خود تمہاری کتابوں میں بھی اس بات کی گواہی موجود ہے کہ یہ لوگ ملت ابراہیمی پر تھے اب تم جان بوجھ کر خدا تعالیٰ کے دین کی اس گواہی کو چھپاتے ہو تو یہ تمہاری بڑی بےانصافی ہے۔ ہاں اب یہ تو بتاؤ کہ تم اہل کتاب ہو کر جس بات کی خبر خود خدا تعالیٰ نے دے دی اس کو جو جھٹلاتے ہے تو کیا تمہارا علم کچھ خدا سے بھی بڑھا ہوا ہے پھر یہ فرمایا کہ جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں اس کی اللہ تعالیٰ کو سب خبر ی ہے وہ اس سے غافل نہیں ہے ایک دن اس کا مؤاخذہ ہونے والا ہے اور پھ دوبارہ اس بات کو یاد دلایا جو اوپر کی آیتوں میں فرمائی تھی کہ قیامت کے دن ہر ایک کے اعمال اس کے ساتھ ہوں گے پچھلے لوگوں کے اعمال کے گھڑی گھڑی کے حوالہ سے ان کو کیا فائد ہے ہے اور پھر وہ حوالہ بھی غلط جو اور وبال کا سبب ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی صحیح مسلم کی حدیث اوپر گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ خواہ یہودی ہو خواہ نصرانی جو کوئی نبی آخر الزمان کے زمانہ میں ہوگا اور نبی آخر الزمان پر ایمان نہ لائے گا اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے ١۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی آخر الزمان کے نبی ہوجانے کے بعد اہل کتاب کو سوائے پیروی شریعت محمدی کے اور کچھ چارہ نہیں ہے اس حدیث کی تائید سورة آل عمران کی آیت { وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلاَمِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَفِی الْاٰخِرَۃِمِنَ الْخَاسِرِیْنَ } سے ہوتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مصلحت الٰہی کے موافق دین اسلام کے مقابلہ میں اور کوئی دین اس آخر زمانہ میں قابل قبول الٰہی نہیں ہے سب کو یہی دین اب اختیار کرنا چاہیے جو کوئی اس کے خلاف کرے گا وہ عقبیٰ میں نقصان اٹھائے گا۔ کیوں کہ عقبیٰ میں وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جو مرضی الٰہی کے موافق کام کرے حاکم کے خلاف مرضی اور خلاف قانون کوئی کام کرنا اسی کا نام جرم ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:139) اتحاجوننا۔ ہمزہ استفہامیہ انکاریہ ہے۔ تحاجون۔ مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ محاجۃ (مفاعلۃ) مصدر سے۔ جس کے معنی دوسرے سے حجت کرنے کے۔ یا جھگڑنے کے ہیں۔ نا ضمیر جمع متکلم ۔ کیا تم ہم سے (اللہ) کے دین کی بابت جھگڑتے ہو۔ فی اللہ۔ ای فی دین اللہ۔ اللہ کے دین کی بابت۔ اس کے متعلق یا اس کے بارے میں ۔ مخلصون۔ اخلاص (افعال) سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر ہے۔ اخلاص کے معنی ہیں کسی چیز کو ہر ممکن ملاوٹ سے پاک کردینا۔ یہ خلوص کا متعدی ہے جس کے معنی آمیزش سے پاک و صاف اور خالی ہونا ہے۔ یعنی ہم خدا کی اطاعت یا بندگی خالص کرنے والے ہیں۔ ہماری عبادت محض خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہے۔ اس میں کسی اور جذبہ کی آمیزش نہیں ہے۔ قل۔ جملہ فعلیہ انشائیہ ہو کر قول ہے۔ اور باقی آیت لغایت ونحن لہ مخلصون اس کا مقولہ ہے ۔ اللہ۔ ذوالحال ہے۔ وھو ربنا وربکم۔ حال اول ۔ اور ولنا اعمالنا ولکم اعمالکم حال ثانی اور نحن لہ مخلصون۔ حال ثالث ہے ذوالحال کا۔ یا یہ تینوں جملے تحاجوننا کے نا سے حال ہیں یعنی تمہارا اللہ (یا اللہ کے دین کی بابت) محاجہ (بحث جھگڑا) بےبنیاد ہے اور ناقابل قبول۔ دین کی بابت ہم تم سے زیادہ مخلص اور فرمانبردار ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یہود مسلمانوں سے نزاع کرتے کہ جملہ انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہوئے ہیں پھر یہ آخری نبی سے کیسے مبعوث ہوگئے ہمارا دین بہتر اور تمام انبیاء کا دین ہے۔ اس آیت میں ان کی تردید فرمائی ہے ہمارا تمہارا سب کا پروردگار ایک ہے اور ہم عبادت میں مخلص بھی ہیں پھر تمہار یہ کہنا کہ ہم بہتر ہیں صحیح نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی عبادت سے انحراف اور اس کے احکام کا انکار کرنے والا عملًا اللہ تعالیٰ سے جھگڑا کرتا ہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اب ان سے پوچھیے کیا تم ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھگڑتے ہو جس کی توحید اور اطاعت کا رنگ ہم نے اختیار کرلیا ہے جو ہمارا مالک ‘ ہمیں پالنے والا اور تمہارا مالک اور تمہیں بھی روزی مہیا کرنے والا ہے۔ جب ہم ایک ہی مالک کی مخلوق اور ایک ہی رازق کے در کے سوالی اور محتاج ہیں تو پھر اس ذات کبریا کے بارے میں ہمارے ساتھ کیوں جھگڑتے ہو ؟ ایک مالک ‘ خالق اور ایک ہی رازق ماننے والوں کو ایک ہی امت ہونا چاہیے اگر تم دنیا وآخرت کی سب سے بڑی سچائی توحید کو ماننے کے لیے آمادہ نہیں اور اللہ تعالیٰ کی غلامی میں آنے کے لیے تیار نہیں تو پھر ہم نے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اور تم اپنے کردار کے بارے میں جواب دہ ہو گے۔ ہاں ہم تمہاری طرح اپنے فکر و عمل میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کی شراکت اور عقیدۂ توحید میں کوئی ملاوٹ گوارا نہیں کرتے۔ ہمارا عمل اور عقیدہ اسی ذات کے لیے خالص اور بلا شرکت غیرے ہے جو سب کا رب ہے۔ یہی وہ جھگڑا ہے جس بنا پر ہر زمانے میں کافر اور مشرک اللہ کے مخلص بندوں سے ٹکراتے آ رہے ہیں۔ اس فرمان میں ایک مخصوص انداز میں مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے کہ ان سے الجھنے کی بجائے ان کو انہی کے حال پر چھوڑ دو کیونکہ ہر شخص اپنے ہی اعمال کا جواب دہ ہے۔ مسائل ١۔ سب کا رب ایک اللہ ہے۔ ٢۔ ہر کوئی اپنے اعمال کا جواب دہ ہے۔ ٣۔ سچا مسلمان وہ ہے جو اپنے رب کے لیے مخلص ہوجائے۔ تفسیر بالقرآن اخلاص کی اہمیت : ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اخلاص کا حکم۔ (الزمر : ١١) ٢۔ تمام امتوں کو اخلاص کا حکم۔ (الاعراف : ٢٩) ٣۔ اخلاص والے مومن ہیں۔ (النساء : ١٤٦) ٤۔ مخلص بندوں پر شیطان قابو نہ پاسکے گا۔ (ص : ٨٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب قرآن مجید کی یہ دندان شکن محبت اور دلیل اپنے فیصلہ کن انجام تک یوں پہنچتی ہے۔ قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِي اللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ (١٣٩) ” اے نبی ان سے کہو ! کیا تم اللہ کے بارے میں ہم سے جھگڑتے ہو ۔ حالانکہ وہی ہمارا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ۔ ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے ، تمہارے لئے ۔ اور ہم اللہ ہی کے لئے اپنی بندگی خالص کرچکے ہیں۔ “ اللہ کی وحدانیت اور اللہ کی صفت ربوبیت میں کسی کو مجال اختلاف نہیں۔ وہ ہمارا بھی رب اور تمہارا بھی رب ہے ۔ ہم اپنے اعمال کا حساب دیں گے اور تم اپنے اعمال کے جوابدہ ہوگے ۔ لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ ہم صرف اس کے ہوگئے ہیں ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے اور اس کے ساتھ کسی اور سے امیدیں وابستہ نہیں کرتے ۔ یو اللہ تعالیٰ اہل اسلام کی زبانی ان کے نظریاتی موقف کی وضاحت فرماتے ہیں اور یہ موقف ایسا ہے کہ جس میں بحث و مباحثہ اور نزاع واختلاف کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ ہمارا رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ آپ یہود و نصاری سے فرمادیں کہ تم ہم سے اللہ کے دین کے بارے میں جو حجت بازی کرتے ہو اور کہتے ہو کہ جو دین اللہ کو پسند ہے وہ یہودیت اور نصرانیت ہے۔ تمہارا یہ کہنا اور اپنے خیال کے مطابق جنت میں داخل ہونے کے خواب دیکھنا غلط ہے۔ وہ ہمارا رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے سب کو اسے راضی کرنے کے لیے فکر مند ہونا لازم ہے اور اس نے جس دین اور جس ملت کو جس زمانہ میں ذریعہ نجات بنایا اسی کو اختیار کرنا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے عرب میں سے ایک نبی کو چن لیا۔ اسی نبی پر ایمان لانا فرض ہے تم ایمان نہیں لاتے اور ہم سے جھگڑتے ہو۔ ہم سے جھگڑنا فضول ہے ہمیں اپنے ایمان اور اعمال حسنہ کا اجر ملے گا تمہیں تمہارے کفر اور تکذیب کی اور اللہ تعالیٰ کے اوامر کی مخالفت کی سزا ملے گی۔ ہم تو اللہ کے لیے مخلص ہیں اپنے اعمال کے ذریعہ صرف اسی کی رضا چاہتے ہیں۔ قال صاحب الروح قل اتحاجوننا تجرید الخطاب للنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لما أن المامور بہ من الوظائف الخاصۃ بہ (علیہ السلام) والھمزۃ للانکار، فی اللہ ای فی دینہ و تدعون ان دینہ الحق الیھودیۃ والنصرانیۃ و تبنون دخول الجنۃ والاھتداء علیھما وقیل : المراد فی شان اللہ تعالیٰ و اصطفاۂ نبیا من العرب دونکم بناء علی ان الخطاب لاھل الکتاب، وسوق النظم یقتضی ان تفسر المحاجۃ بما یختص بھم، والمحاجۃ فی الدین لیست کذلک الی آخر ما قال)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

264 یہ خطاب یہودونصاری سے ہے اور فی اللہ میں مضاف محذوف ہے۔ ای فی دینہ اوالقرب منہ (قرطبی ص 140 ج 2) ۔ حضرت شیخ نے فرمایا یعنی تم ہم سے اللہ کے دین اور اس کی توحید کے بارے میں جھگڑتے ہو کہ اللہ کا سچا دین یہودیت اور نصرانیت ہے اور حضرت عزیر اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) کو خدا کے نائب اور مختار اور متصرف مانے بغیر خدا راضی نہیں ہوسکتا۔ نیز ہم چونکہ اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں۔ اس لیے ہم خدا سے زیادہ قریب ہیں قالوا نحن اولی باللہ منکم لاننا ابناء اللہ واحباء ہ (قرطبی ص 145 ج 2) وَھُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ۔ لیکن یہ تمہارا جھگڑا بالکل لغو ہے۔ اس لیے کہ جس طرح وہ تمہارا رب ہے اسی طرح وہ ہمارا رب ہے۔ ہمارا تمہارا پروردگار اور آقا وہی ہے، اس کے سوا کوئی آقا اور داتا نہیں اور اس کی ربوبیت کسی قوم اور قبیلے کے ساتھ مخصوص بھی نہیں ہے۔ لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ ۔ تمہارے اعمال تمہارے ساتھ اور ہمارے اعمال ہمارے ساتھ۔ خدا کا قرب تو انسان کو اس کے اعمال کے مطابق حاصل ہوتا ہے۔ اگر اس کے اعمال شرک اور ریاء سے پاک ہوں گے تو مقبول ہوں گے۔ اور اسے قرب خداوندی حاصل ہوگا۔ اور اگر اس کے اعمال شرک کی نجاست سے آلودہ ہوں گے تو وہ راندۂ درگاہ ہوگا اور سید ھا جہنم میں جائیگا وَنَحْنُ لَهٗ مُخْلِصُوْنَ ۔ اس لیے ہم تو اپنے اعمال کو محض خدا کی رضامندی کے لیے بجا لاتے ہیں۔ اور ان کو شرک اور ریا کاری سے پاک رکھتے ہیں۔ قال سعید بن جبیر الاخلاص ان لا تشرک فی دینہ ولا ترائی احدا فی عملہ (روح ص 399 ج 1) یہ جملہ بھی مقصودی ہے۔ یہاں تین مقصودی جملے یکے بعد دیگرے آئے ہیں یعنی نَحْنُ لَہ مُسْلِمُوْنَ اور نَحْنُ لہ عَابِدُوْن اور نَحْنُ لَہ مُخْلِصُوْن مقصد یہ ہے کہ اے ایمان والو اس بات کا اعلان کردو کہ ایمان تو ہم تمام پیغمبروں پر لائے ہیں اور سب کی نبوت کا اقرار کیا ہے۔ لیکن جھکیں گے صرف اللہ کے آگے اور عبادت بھی صرف اسی ہی کی کریں گے اور پکاریں گے بھی خالصاً صرف اسی ہی کو ان کاموں میں کسی پیغمبر کو اللہ کا شریک نہیں بنائیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi