Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 146

سورة البقرة

اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یَعۡرِفُوۡنَہٗ کَمَا یَعۡرِفُوۡنَ اَبۡنَآءَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ فَرِیۡقًا مِّنۡہُمۡ لَیَکۡتُمُوۡنَ الۡحَقَّ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۴۶﴾ؔ

Those to whom We gave the Scripture know him as they know their own sons. But indeed, a party of them conceal the truth while they know [it].

جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ تو اسے ایسا پہچانتے ہیں جیسے کوئی اپنے بچوں کو پہچانے ، ان کی ایک جماعت حق کو پہچان کر پھر چھپاتی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Jews know that the Prophet is True, but they hide the Truth Allah says; الَّذِينَ اتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءهُمْ وَإِنَّ فَرِيقاً مِّنْهُمْ ... Those to whom We gave the Scripture (Jews and Christians) recognize him (Muhammad or the Ka`bah at Makkah) as they recognize their sons. But verily, a party of them conceal the truth wh... ile they know it ـ (i.e., the qualities of Muhammad which are written in the Tawrah and the Injil). Allah states that the scholars of the People of the Scripture know the truth of what Allah's Messenger was sent with, just as one of them knows his own child, which is a parable that the Arabs use to describe what is very apparent. Similarly, in a Hadith, Allah's Messenger said to a man who had a youngster with him: ابْنُكَ هَذَا Is this your son? He said, "Yes, O Messenger of Allah! I testify to this fact." Allah's Messenger said: أَمَا إِنَّهُ لاَ يَجْنِي عَلَيْكَ وَلاَ تَجْنِي عَلَيْه Well, you would not transgress against him nor would he transgress against you. According to Al-Qurtubi, it was narrated that Umar said to Abdullah bin Salam (an Israelite scholar who became a Muslim), "Do you recognize Muhammad as you recognize your own son?" He replied, "Yes, and even more. The Honest One descended from heaven on the Honest One on the earth with his (i.e., Muhammad's) description and I recognized him, although I do not know anything about his mother's story." Allah states next that although they had knowledge and certainty in the Prophet , they still: ... لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ ... conceal the truth. The Ayah indicates that they hide the truth from the people, about the Prophet , that they find in their Books, ... وَهُمْ يَعْلَمُونَ while they know it. Allah then strengthens the resolve of His Prophet and the believers and affirms that what the Prophet came with is the truth without doubt, saying: الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَ تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ   Show more

صفات نبوی اور اغماض برتنے والے یہودی علماء ارشاد ہوتا ہے کہ علماء اہل کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی باتوں کی حقانیت کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح باپ اپنے بیٹوں کو پہچانے یہ ایک مثال تھی جو مکمل یقین کے وقت عرب دیا کرتے تھے ۔ ایک حدیث میں ہے ایک شخص کے ساتھ چھوٹا بچہ تھا آپ نے ا... س سے پوچھا یہ تیرا لڑکا ہے؟ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ بھی گواہ رہیئے آپ نے فرمایا نہ یہ تجھ پر پوشیدہ رہے نہ تو اس پر ۔ قرطبی کہتے ہیں ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداللہ بن سلام سے جو یہودیوں کے زبردست علامہ تھے پوچھا کیا تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی جانتا ہے جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتا ہے؟ جواب دیا ہاں بلکہ اس سے بھی زیادہ اس لئے کہ آسمانوں کا امین فرشتہ زمین کے امین شخص پر نازل ہوا اور اس نے آپ کی صحیح تعریف بتا دی یعنی حضرت جبرائیل حضرت عیسیٰ کے پاس آئے اور پھر پروردگار عالم نے ان کی صفتیں بیان کیں جو سب کی سب آپ میں موجود ہیں پھر ہمیں آپ کے نبی برحق ہونے میں کیا شک رہا ؟ ہم آپ کو بیک نگاہ کیوں نہ پہچان لیں؟ بلکہ ہمیں اپنی اولاد کے بارے میں شک ہے اور آپ کی نبوت میں کچھ شک نہیں ، غرض یہ ہے کہ جس طرح لوگوں کے ایک بڑے مجمع میں ایک شخص اپنے لڑکے کو پہچان لیتا ہے اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف جو اہل کتاب کی آسمانی کتابوں میں ہیں وہ تمام صفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس طرح نمایاں ہیں کہ بیک نگاہ ہر شخص آپ کو جان جاتا ہے   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

146۔ 1 یہاں اہل کتاب کے ایک فریق کو حق کے چھپانے کا مجرم قرار دیا گیا ہے کیونکہ ان کے ایک فریق عبد اللہ بن سلام (رض) جیسے لوگوں کا بھی جو اپنے صدق و صفائے باطنی کی وجہ سے مشرف بہ اسلام ہوا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨٣] عربوں میں یہ محاورہ ہے کہ جس چیز کے متعلق انہیں کسی طرح کا شک و شبہ نہ ہو تو سمجھتے ہیں کہ وہ اس بات کو یوں پہچانتا ہے جیسے اپنے بیٹے کو علمائے یہود و نصاریٰ اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ حضرت ابراہیم جن کی امت اور ملت ہونے کا یہ دم بھرتے ہیں، نے خانہ کعبہ تعمیر کیا اور اسے ہی قبلہ مقرر کیا...  تھا اور بیت المقدس تو تیرہ سو سال بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے تعمیر کیا تھا۔ پھر بیت المقدس کو قبلہ قرار دینے کا ذکر نہ کہیں تورات میں موجود ہے اور نہ انجیل میں۔ اس تاریخی واقعہ میں ان کے لیے کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہ تھی اور وہ یہ بات بھی خوب جانتے ہیں کہ قبلہ اول اور حقیقی قبلہ کعبہ ہی ہے۔ لیکن وہ یہ بات عوام کے سامنے ظاہر نہیں کرتے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اوپر کی آیت میں بیان ہوچکا ہے کہ اہل کتاب کعبہ کے قبلہ برحق ہونے کو خوب جانتے تھے، مگر ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے انکار کرتے تھے۔ اب اس آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ قبلہ کی طرح اہل کتاب کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی آخر الزماں ہونے میں کچھ شبہ نہیں ہے، مگر پھر بھی ان میں سے اہل علم کا ا... یک گروہ حق کو چھپا رہا ہے۔ ایک گروہ اس لیے فرمایا کہ اہل کتاب میں سے بعض علماء جیسے (یہود میں سے) عبداللہ بن سلام (اور نصاریٰ میں سے) تمیم داری اور صہیب (رض) وغیرہ وہ بھی تھے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی صادق ہونے کو پہچاننے کے بعد مسلمان ہوگئے تھے۔ (قرطبی، ابن کثیر)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verses 144 and 145 have told us how the People of the Book اھل الکتاب knew in their hearts that a divine commandment itself had instituted the Baytullah بیت اللہ as the Qiblah قبلہ of the Muslims, and yet denied this fact in public. Now, the two present verses show that their conduct towards the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was equally dishonest and malicious. The Torah and the Evangel ... had already foretold the coming of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and set down the signs and indications which should help the people to recognize him. On the basis of the irrefutable evidence provided by their own Sacred Books, the Jews and the Christians knew him to be the promised Last Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، but many of them refused to acknowledge him as such out of sheer obstinacy. Let us add a word or two in order to explain the simile employed here by the Holy Qur&an - that of man recognizing his own son without any doubt or ambiguity. As everyone knows, in bringing two terms into comparison with each other, a simile does not involve in this analogy all the aspects of these two terms, but only those which should be relevant to the occasion. So, in considering the present simile one should not allow one&s imagination to roam far afield, and bring under discussion even those cases which happen to be illegitimate. For, the present simile intends to make a very simple and obvious point - since the son grows from infancy to manhood normally under the eyes of his parents, his face or general appearance is quite sufficient for his father to recognize him without any doubt or hesitation. The Jews and the Christians enjoyed the same kind of facility - or even certainty - in being able to recognize the Last Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . So, to persist in denying him was as dishonest as refusing to recognize one&s own son should normally be. And it was just this kind of gross dishonesty that the People of the Book were indulging in. Some of them, while denying the truth themselves, even tried to keep it concealed from others, although they knew fully well that this particular truth (that is to say, the new injunction with regard to the Qiblah قبلہ) had been established by Revelation from Allah Himself. The phrase, |"The Truth is from your Lord|", can also be interpreted in a general sense as providing a definition of the nature of truth - namely, that alone is truth which comes from Allah. One who has understood this fact can never allow himself to be in doubt with regard to this particular truth or to any other which has been revealed to a prophet by Allah.  Show more

خلاصہ تفسیر : اس سے پہلی آیت میں اہل کتاب کا قبلہ مسلمین کو دل میں حق جاننے اور زبان سے نہ ماننے کا ذکر تھا اس آیت میں انہی اہل کتاب کا صاحب قبلہ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح دل میں حق جاننے اور زبان سے نہ ماننے کا بیان ہے۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب (توراۃ و انجیل) دی ہے وہ لوگ ... رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (توراۃ و انجیل میں آئی ہوئی بشارت کی بناء پر بحیثیت رسالت) ایسا (بےشک وشبہ) پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو (ان کی صورت سے) پہچانتے ہیں (کہ بیٹے کی صورت دیکھ کر کبھی شبہ نہیں ہوتا کہ یہ کون شخص ہے مگر پہچان کر بھی سب مسلمان نہیں ہوتے بلکہ بعض تو ایمان لے آئے) اور بعضے ان میں سے (ایسے ہیں کہ اس) امر واقعی کو باوجودیکہ خوب جانتے ہیں (مگر) اخفاء کرتے ہیں (حالانکہ) یہ امر واقعی من جانب اللہ (ثابت ہوچکا) ہے سو (ایسے امر واقعی ثابت من اللہ میں ہر ہر فرد کو کہا جاسکتا ہے کہ) ہرگز شک وشبہ لانے والوں میں شمار نہ ہونا، معارف و مسائل : اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بحیثیت رسول پہچاننے کی تشبیہ اپنے بیٹوں کو پہچاننے کے ساتھ دی گئی ہے کہ یہ لوگ جس طرح اپنے بیٹوں کو پوری طرح پہچانتے ہیں ان میں کبھی شبہ و اشتباہ نہیں ہوتا اسی طرح تورات و انجیل میں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت اور آپ کی واضح علامات و نشانات کا ذکر آیا ہے اس کے ذریعہ یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی یقینی طور سے جانتے پہچانتے ہیں ان کا انکار محض عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہے، یہاں یہ بات قابل نظر ہے کہ پوری طرح پہچاننے کے لئے بیٹوں کی مثال دی گئی ہے ماں باپ کی مثال نہیں دی حالانکہ آدمی اپنے ماں باپ کو بھی عادۃ خوب پہچانتا ہے وجہ یہ ہے کہ بیٹوں کی پہچان ماں باپ کی پہچان کی نسبت بہت زیادہ ہے کیونکہ انسان اپنے بیٹوں کو ابتداء پیدائش سے اپنے ہاتھوں میں پالتا ہے اس کے بدن کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہوتا جو ماں باپ کی نظر سے اوجھل رہا ہو بخلاف ماں باپ کے کہ ان کے اعضاء مستورہ پر اولاد کی کبھی نظر نہیں ہوتی، اس بیان سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ یہاں بیٹوں کو بیٹا ہونے کی حیثیت سے پہچاننا مراد نہیں کیونکہ اس کی نسبت تو انسان پر مشتبہ ہوسکتی ہے کہ ممکن ہے کہ بیوی نے خیانت کی ہو اور یہ بیٹا اپنا نہ ہو بلکہ مراد ان کی شکل و صورت وغیرہ کا پہچاننا ہے کہ بیٹا فی الواقع اپنا ہو یا نہ ہو مگر جس کو بحیثیت بیٹے کے انسان پالتا ہے اس کی شکل و صورت کے پہچاننے میں کبھی اشتباہ نہیں ہوتا،   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَہٗ كَـمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَھُمْ۝ ٠ ۭ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنْہُمْ لَيَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ۝ ١٤٦ ؔ آتینا وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : و... َآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] . [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو عرف المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛ فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔ ( ابْنُ ) أصله : بنو، لقولهم في الجمع : أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر أولاک بنو خير وشرّ كليهما وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ . الابن ۔ یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔ فریق والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین، قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] ( ف ر ق ) الفریق اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ كتم الْكِتْمَانُ : ستر الحدیث، يقال : كَتَمْتُهُ كَتْماً وكِتْمَاناً. قال تعالی: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة/ 140] ، وقال : وَإِنَّ فَرِيقاً مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ [ البقرة/ 146] ، وَلا تَكْتُمُوا الشَّهادَةَ [ البقرة/ 283] ، وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ [ آل عمران/ 71] ، وقوله : الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ ما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النساء/ 37] فَكِتْمَانُ الفضل : هو کفران النّعمة، ولذلک قال بعده : وَأَعْتَدْنا لِلْكافِرِينَ عَذاباً مُهِيناً [ النساء/ 37] ، وقوله : وَلا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً [ النساء/ 42] قال ابن عباس : إنّ المشرکين إذا رأوا أهل القیامة لا يدخل الجنّة إلّا من لم يكن مشرکا قالوا : وَاللَّهِ رَبِّنا ما كُنَّا مُشْرِكِينَ [ الأنعام/ 23] فتشهد عليهم جوارحهم، فحینئذ يودّون أن لم يکتموا اللہ حدیثا «2» . وقال الحسن : في الآخرة مواقف في بعضها يکتمون، وفي بعضها لا يکتمون، وعن بعضهم : لا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً [ النساء/ 42] هو أن تنطق جو ارحهم . ( ک ت م ) کتمہ ( ن ) کتما وکتما نا کے معنی کوئی بات چھپانا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة/ 140] اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا کی شہادت کو جو اس کے پاس کتاب اللہ میں موجود ہے چھپائے ۔ وَإِنَّ فَرِيقاً مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ [ البقرة/ 146] مگر ایک فریق ان میں سچی بات جان بوجھ کر چھپا رہا ہے ۔ وَلا تَكْتُمُوا الشَّهادَةَ [ البقرة/ 283] اور ( دیکھنا ) شہادت کو مت چھپانا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ ما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النساء/ 37] جو خود بھی بخل کریں اور لوگوں کو بھی بخل سکھائیں اور جو ( مال ) خدا نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے اسے چھپا چھپا کے رکھیں ۔ میں کتمان فضل سے کفران نعمت مراد ہے اسی بنا پر اس کے بعد فرمایا : وَأَعْتَدْنا لِلْكافِرِينَ عَذاباً مُهِيناً [ النساء/ 37] اور ہم نے ناشکروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً [ النساء/ 42] اور خدا سے کوئی بات چھپا نہیں سکیں گے کی تفسیر میں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب قیامت کے روز مشرکین دیکھیں گے کہ جنت میں وہی لوگ داخل ہو رہے ہیں جو مشرک نہیں تھے ۔ تو چھٹ سے پکارا اٹھیں گے وَاللَّهِ رَبِّنا ما كُنَّا مُشْرِكِينَ [ الأنعام/ 23] خدا کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم شریک نہیں بناتے تھے ۔ مگر اس کے بعد ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے تو اس وقت وہ تمنا کریں گے کہ خدا تعالیٰ سے کوئی بات نہ چھپائے ہوتی حسن بصری فرماتے ہیں کہ آخرت میں متدد واقف ہوں گے بعض موقعوں پر وہ اپنی حالت کو چھپانے کی کوشش کریں گے ۔ اور بعض میں نہیں چھپائیں گے بعض نے کہا ہے کہ کوئی چھپا نہ سکنے سے مراد یہ ہے کہ ان کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دینگے ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤٦) اب اس کے بعد اللہ تعالیٰ اہل کتاب میں سے مومنین حضرات کا ذکر فرماتے ہیں کہ جن حضرات کو جیسا کہ حضرت عبداللہ بن سلام (رض) اور ان کے ساتھی جن کو ہم نے توریت کے علم سے بہرہ ور کیا ہے وہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف اور صفات کے ساتھ اس طرح پہچانتے ہی... ں جیسا کہ وہ اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں اور اہل کتاب میں سے ایک گروہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت کو خفیہ رکھتا ہے اس کے باوجود کہ وہ اپنی کتابوں کے ذریعے یہ بات خوب جانتے ہیں کہ آپ اللہ کی جانب سے بھیجے ہوئے ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٦ (اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَ ہُمْ ط) ۔ یہاں یہ نکتہ نوٹ کر لیجیے کہ قرآن حکیم میں تورات اور انجیل کے ماننے والوں میں سے غلط کاروں کے لیے مجہول کا صیغہ آتا ہے (اُوْتُوا الْکِتٰبَ ) جنہیں کتاب دی گئی تھی اور جو ان میں سے صالحین تھے ‘ صحیح رخ...  پر تھے ‘ ان کے لیے معروف کا صیغہ آتا ہے ‘ جیسے یہاں آیا ہے۔ یَعْرِفُوْنَہٗ میں ضمیر (ہٗ ) کا مرجع قبلہ بھی ہے ‘ قرآن بھی ہے اورٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ‘ ہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

148. 'To recognize something as well as one recognizes one's sons' is an Arabic idiom. It is used with regard to things which one knows without the least shadow of a doubt. The Jewish and Christian scholars were well aware that the Ka'bah had been constructed by Abraham and that Jerusalem had been built by Solomon some thirteen hundred years after that, and that in his time it was made the qiblah....  This is an unquestionable historical fact and they knew it to be so.  Show more

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :148 یہ عرب کا محاورہ ہے ۔ جس چیز کو آدمی یقینی طور پر جانتا ہو اور اس کے متعلق کسی قسم کا شک و اشتباہ نہ رکھتا ہو ، اسے یُوں کہتے ہیں کہ وہ اس چیز کو ایسا پہچانتا ہے ، جیسا اپنی اولاد کو پہچانتا ہے ۔ یعنی ، جس طرح اسے اپنے بچّوں کو پہچاننے میں کوئی اشتباہ نہیں ہو... تا ، اسی طرح وہ بِلا کسی شک کے یقینی طور پر اس چیز کو بھی جانتا ہے ۔ یہُودیوں اور عیسائیوں کے علما حقیقت میں یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ کعبے کو حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا تھا اور اس کے برعکس بیت المقدس اس کے ۱۳ سو برس بعد حضرت سلیمان ؑ کے ہاتھوں تعمیر ہوا اور اُنہی کے زمانے میں قبلہ قرار پایا ۔ اس تاریخی واقعے میں ان کے لیے ذرہ برابر کسی اشتباہ کی گنجائش نہ تھی ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

96: اس کے یہ معنیٰ بھی ہوسکتے ہیں کہ یہ لوگ کعبے کے قبلہ ہونے کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں جیساکہ اُوپر گذرا، اور یہ معنیٰ بھی ممکن ہیں کہ یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اچھی طرح پہچانتے ہیں کہ یہ وہی رسول ہیں جن کی خبر پچھلے انبیائے کرام کے صحیفوں میں دی جاچکی ہے۔ لیکن ضد کی بنا پر ان حقائق کو تسلیم نہ... یں کررہے ہیں۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(146 ۔ 147) ۔ پہلی کتابوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی علامتیں بہت صراحت سے تھیں اس لئے اہل کتاب ان علامتوں سے آپ کو اس طرح پہچانتے تھے جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتے تھے لیکن نبی آخر الزمان کے بنی اسرائیل میں پیدا نہ ہونے سے ان لوگوں کو حضرت سے ایک دشمنی سی ہوگئی تھی جس کے سبب سے ان لوگوں ... نے وہ علامتیں بدل ڈالی تھیں اور آپ کی نبوت کے انکار کرنے پر کمر باندھ لی تھی اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر فرمایا کہ اگرچہ اصل کتابیں تو ان لوگوں نے بدل ڈالی ہیں۔ مگر جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جتلا دیا ہے تو کسی مسلمان کو اس میں کچھ شک و شبہ نہیں کرنا چاہیے کہ نبی آخر الزمان کی پوری علامتیں اہل کتاب کی کتابوں میں موجود ہیں مستدرک حاکم ‘ صحیح ابن حبان ‘ مسند ابی یعلے ابن ماجہ میں صحیح روایتیں ہیں جن حاصل یہ ہے جو شخص دین کی کوئی بات جان بوجھ کر چھپائے گا اور اس کے نفع سے لوگوں کو محروم رکھے گا قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی لگام دی جائے گی ١  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

الذین اتیناھم الکتب۔ اہل کتاب یہود و نصاری۔ یعرفونہ۔ وہ اس کو پہچانتے ہیں۔ اس کو جانتے ہیں۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا مرجع یا (1) علم ، قرآن یا تحویل قبلہ سے یا (2) یہ ضمیر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف راجع ہے گو ما سبق ان کا ذکر نہیں ہے۔ یہی زیادہ راجح ہے۔ یعرفون کی ضمیر علماء اہ... ل کتاب کی طرف راجع ہے۔ فریقا منھم۔ میں من تبعیضیہ ہے اور ہم سے مراد الذین لم یسلموا جو جانتے ہوئے بھی آپ کو نبی تسلیم نہیں کرتے۔ یکتمون۔ لام یاکید کا ہے۔ یکتمون۔ فعل مضارع جمع مذکر غائب کنتم باب نصر مصدر سے وہ چھپاتے ہیں۔ وہ چھپا رہے ہیں۔ الحق۔ مفعول ۔ حق بات۔ حقیقت ۔ یعنی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت اور آپ کا نبی قبلتین ہونا جو تورات میں مذکور ہے۔ وھم یعلمون جملہ حالیہ ہے حالانکہ وہ جانتے ہیں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 اوپر کی آیت میں بیان ہوچکا ہے کہ اہل کتاب کعبہ کے قبلہ پر حق ہونے کو خوب جانتے تھے مگر بوجہ ضد اور ہٹ دھرمی کے انکار کرتے تھے اب اس آیت میں بتایا جارہا ہے کہ قبلہ کی طرح اہل کتاب کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی آخرالز مان ہونے کچھ شبہ نہیں ہے مگر پھر بھی ان سے اہل علم کا ایک گروہ اس ل... یے فرمایا کہ اہل کتاب میں بعض علماء جیسے عبداللہ بن سلام وغیرہ بھی تھے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کے جاننے کے بعد مسلمان ہوگئے تھے ،_ (ابن کثیر۔ قرطبی)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہچاننے کو جو بیٹوں پو پہچاننے سے تشبیہ دی ہے تو تشبیہ میں بیٹے کا بیٹا ہونا ملحوظ نہیں بلکہ بیٹے کی صورت ملحوظ ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : یہاں معنوی ربط ہے کہ اہل کتاب جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو پہچانتے ہیں اسی طرح بیت اللہ کو قلبی طور پر قبلہ تسلیم کرتے ہیں۔ جہاں تورات و انجیل میں آپ کی نبوت کے ثبوت ہیں وہاں بیت اللہ کے قبلہ ہونے کا ثبوت بھی موجود ہے۔ اظہارِ حق اور نبی کریم (صلی اللہ...  علیہ وآلہ وسلم) کے اطمینان اور مسلمانوں کی تسلی کے لیے مزید فرمایا جا رہا ہے کہ اہل کتاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور حیثیت کو اس طرح پہچانتے ہیں جیسے کوئی باپ اپنے بیٹے کو پہچاننے میں ذرّہ برابر شک نہیں کرتا، جب انہوں نے آپ کو اچھی طرح پہچان لیا ہے تو پھر آپ کی نبوت سے انحراف اور قبلہ کے انکار کا کیا معنیٰ ؟ لیکن اس کے باوجود کتمانِ حق کا جرم ہمیشہ سے ان میں سے ایک فریق کرتا آرہا ہے۔ لہٰذا قبلہ کی تبدیلی اور سلسلۂ وحی آپ کے رب کی طرف سے ہے اس لیے آپ کو رائی کے دانے کے برابر بھی اس میں شک نہیں کرنا چاہیے۔ (عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ (رض) قَالَ قَالَ یَھُوْدِيٌّ لِصَاحِبِہِ اذْھَبْ بِنَآ إِلٰی ھٰذَا النَّبِيِّفَقَالَ صَاحِبُہٗ لَا تَقُلْ نَبِيٌّ إِنَّہٗ لَوْ سَمِعَکَ کَانَ لَہٗ أَرْبَعَۃُ أَعْیُنٍ فَأَتَیَارَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَسَاَلَاہُ عَنْ تِسْعِ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ فَقَالَ لَھُمْ لَا تُشْرِکُوْا باللّٰہِ شَیْءًا وَلَا تَسْرِقُوْا وَلَا تَزْنُوْا وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بالْحَقِّ وَلَا تَمْشُوْابِبَرِيءٍ إِلٰی ذِيْ سُلْطَانٍ لِیَقْتُلَہٗ وَلَا تَسْحَرُوْا وَلَا تَأْکُلُوا الرِّبَا وَلَا تَقْذِفُوْا مُحْصَنَۃً وَلَا تُوَلُّوا الْفِرَارَ یَوْمَ الزَّحْفِ وَعَلَیْکُمْ خَآصَّۃَ الْیَھُوْدَ أَنْ لَّاتَعْتَدُوْا فِي السَّبْتِ قَالَ فَقَبَّلُوْا یَدَہٗ وَرِجْلَہٗ فَقَالَا نَشْھَدُ أَنَّکَ نَبِيٌّ قَالَ فَمَا یَمْنَعُکُمْ أَنْ تَتَّبِعُوْنِيْ قَالُوْا إِنَّ دَاوٗدَ دَعَا رَبَّہٗ أَنْ لاَّ یَزَالَ فِيْ ذُرِّیَتِہٖ نَبِيٌّ وَإِنَّا نَخَافُ إنْ تَبِعْنَاکَ أَنْ تَقْتُلَنَا الْیَھُوْدُ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الإستئذان، باب ماجاء فی قبلۃ الید والرجل ] ” حضرت صفوان بن عسال (رض) کہتے ہیں ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا کہ مجھے اس نبی کے پاس لے چلو اس نے کہا تو اسے نبی نہ کہہ اس لیے کہ اگر اس نے سن لیا تو اس کی چار آنکھیں ہوجائیں گی یعنی بہت خوش ہوگا۔ ان دونوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکرنو آیات بیّنات کے متعلق سوال کیے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، چوری نہ کرو، زنانہ کرو اور قتل ناحق نہ کرو، کسی بےگناہ کو حاکم کے ہاں اسے قتل کرانے کے لیے نہ لے جاؤ، جادونہ کرو، سود نہ کھاؤ، پاکدامن عورت پر تہمت نہ لگاؤ، میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر نہ بھاگو ” اور یہودیو ! تم پر خصوصی طور پر لازم ہے کہ ہفتے کے دن زیادتی نہ کرو۔ “ راوی کہتے ہیں دونوں نے آپ کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دیا اور کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی ہیں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر میری اتباع کرنے سے کونسی چیز مانع ہے ؟ انہوں نے جواب دیاحضرت داود (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ نبوت انہی کے خاندان میں رہے اور ہمیں خطرہ ہے کہ اگر ہم نے آپ کی اتباع کرلی تو یہودی ہمیں قتل کردیں گے۔ “ حضرت صفیہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میرے والد حیی بن اخطب اور چچا ابو یاسر صبح کے وقت رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ کر اسلام کے بارے میں مذاکرات کرتے ہیں اور انہیں یقین ہوگیا کہ حقیقتًا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی آخر الزماں ہیں۔ جب آپ سے گفتگو کرنے کے بعد مغرب کے وقت واپس آئے تو نہایت تھکے ماندے دکھائی دے رہے تھے۔ چچا ابو یاسر میرے والد سے پوچھتے ہیں : أَھُوَ ھُوَ ؟ ” کیا یہی وہ نبی ہے جس کا تذکرہ تورات و انجیل میں پایا جاتا ہے ؟ “ والد کہتے ہیں کیوں نہیں یہ وہی رسول ہے۔ پھر وہ پوچھتے ہیں : أَتَعْرِفُہٗ وَتُثَبِّتُہٗ ؟ ” کیا واقعی تو اسے پہچانتا ہے ؟ “ تو انہوں نے کہا : ہاں میں اچھی طرح پہچانتا ہوں۔ چچا ابویاسر کہتے ہیں : فَمَافِیْ نَفْسِکَ مِنْہُ ؟ ” پھر آپ کا کیا ارادہ ہے ؟ “ تو میرے والد جواب دیتے ہیں : عَدَاوَۃٌ وَاللّٰہِ مَابَقِیْتُ ” کہ اللہ کی قسم ! جب تک زندہ ہوں مخالفت کرتا رہوں گا “۔ [ ابن ہشام : شہادۃ عن صفیۃ ] یہی حالت اہل مکہ کی تھی کہ وہ اچھی طرح پہچان چکے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی ہی اللہ تعالیٰ کے فرستادہ ہیں لیکن اپنی انا اور باطل عقیدہ کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ بدر کے معرکہ کے موقعہ پر ابو جہل سے کسی نے یہ سوال کیا کہ کیا محمدنے زندگی میں ہم سے جھوٹ بولا ہے ؟ اس نے کہا : ہرگز نہیں اس شخص نے پھر کہا کہ جو شخص لوگوں کے ساتھ جھوٹ نہیں بولتا وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کس طرح غلط بیانی کرسکتا ہے ؟ خصوصًا جب اس کی کنپٹیوں کے بال بھی سفید ہوچکے۔ اس پر ابوجہل نے کہا کہ دراصل ہمارے اور ان کے قبیلے کی آپس میں ہر معاملے میں مقابلہ بازی رہی ہے اس لیے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اس کی سربراہی قبول کرلیں۔ مسائل ١۔ یہود ونصارٰی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور رسالت کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے ہیں۔ ٢۔ اہل کتاب جان بوجھ کر حق چھپالیتے ہیں۔ ٣۔ قرآن مجید اور بیت اللہ کے قبلہ ہونے پر شک نہیں کرنا چاہیے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

مسلمانوں سے اس مختصر خطاب کے بعد اب روئے سخن پھر اصل موضوع پر لوٹ آتا ہے ۔ بات وہی ہے کہ اہل کتاب اس بات کو یقینی طور پر جانتے ہیں کہ حق وہی ہے جس کا اظہار قرآن شریف کرتا ہے اور جس کا حکم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیتے ہیں لیکن وہ اپنے اس یقینی علم کے باوجود ، اس حق کو چھپاتے ہیں ۔ کیوں ؟ اس لئ... ے کہ وہ اللہ پرست نہیں بلکہ نفس پرست ہیں ! الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ” جن کو ، ہم نے کتاب دی ہے۔ وہ اس مقام کو (جسے قبلہ بنایا گیا ہے ) ایسا ہی پہچانتے ہیں جیسا کہ وہ اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں مگر ان میں سے ایک گروہ جانتے بوجھتے حق کو چھپارہا ہے۔ “ اپنے بچوں کو پہچاننا علم ومعرفت کی اعلیٰ ترین مثال ہے ۔ عربی زبان میں یہ مثال ایک ایسے مقام اور ایسے واقعہ کے لئے استعمال ہوتی ہے جو یقینی ہو اور اس کے علم ومعرفت میں کوئی شک وشبہ نہ ہو۔ اہل کتاب کی حالت یہ ہے کہ ان کو سچائی کا یقینی علم ہوچکا ہے ۔ تحویل قبلہ کا حکم بھی اسی عالم گیر سچائی کا ایک حصہ ہے اور پھر بھی وہ اس سچائی کو چھپاتے ہیں جو یقینی علم کے طور پر انہیں حاصل ہے ۔ تو پھر مؤمنین کے درست راہ عمل یہ ہے کہ وہ یہودیوں کے کذب وافتراء سے ہرگز متاثر نہ ہوں ۔ ان کو یہ بات ہرگز زیب نہیں دیتی کہ وہ ان یہودیوں سے کوئی چیز اخذ کریں جنہیں حقیقت کا علم ہے اور پھر بھی وہ اسے چھپاتے ہیں ۔ وہ خود اپنے دین کے اس حصے کا بھی انکار کردیتے ہیں جسے مسلمانوں کے رسول امین وحی کی صورت میں پیش کریں ۔ محض تعصب کی وجہ سے ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل کتاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچانتے ہیں اور حق چھپاتے ہیں اس آیت شریفہ میں اہل کتاب کا مزید عناد اور تمرد بیان فرمایا کہ اہل کتاب صرف قبلہ کے بارے میں ہی عناد قائم نہیں بلکہ وہ تو نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت ہی کے منکر ہیں اور ان کا یہ انکار خالص عناد پر مبن... ی ہے۔ وہ اپنی کتابوں میں آپ کی صفات جلیلہ اور آپ کی تشریف آوری کی بشارت عظیمہ پڑھتے رہے ہیں اور وہ نعوت اور صفات خوب اچھے طرح واضح طور پر دیکھ کر آپ کی نبوت کو اس طرح پہچان گئے ہیں جیسا کہ وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں کہ یہ ہمارے بیٹے ہیں اور اپنے بیٹوں کو پہچاننے میں ان کو ذرا شک و شبہ نہیں ہے۔ (تفسیر درمنثور ص ١٤٧ ج ١) حضرت عبداللہ بن سلام (رض) (جو یہود کے علماء میں سے تھے) آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انہوں نے پہلی ہی نظر میں پہچان لیا تھا کہ آپ واقعی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں انہوں نے اسلام قبول کیا اور کہنے لگے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچاننا کہ یہ واقعی اللہ کے رسول ہیں مجھے اپنے بیٹے کے پہچاننے سے زیادہ یقینی ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ یہ کیوں کر ؟ انہوں نے کہا کہ میں بالکل یقین کے ساتھ گواہی دیتا ہوں کہ بلاشبہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں لیکن میں اس طرح کی گواہی اپنے بیٹے کے بارے میں نہیں دے سکتا، کیونکہ میں نہیں جانتا کہ عورتیں (مردوں کے پیچھے) کیا کرتی ہیں ممکن ہے میری بیوی نے خیانت کی ہو اور میں جسے اپنا بیٹا کہہ رہا ہوں وہ میرا بیٹا نہ ہو۔ (اسباب النزول للو احدی ص ٤٠ درمنثور ص ١٤٧ ج ١) پھر فرمایا کہ بلاشبہ اہل کتاب میں ایک گروہ ایسا ہے جو حق کو چھپاتا ہے اور حال یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ حق ہے۔ اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم حق کو چھپا رہے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ حق چھپانے کا و بال اور عذاب بہت زیادہ ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

282 الذین سے اہل کتاب کے اہل علم لوگ مراد ہیں۔ وان کان عاما بحسب اللفظ لکنہ مختص بالعلماء منھم (کبیر ص 37 ج 2) یعرفونہ کی ضمیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان اوساف کی طرف راجع ہے جن کا ذکر بطور خطاب سے بیان کیے گئے ہیں کہ علماء اہل کتاب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کو اس طرح جا... نتے ہیں جس طرح وہ اپنے بیٹوں کو جانتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تورات وانجیل میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف اس وضاحت کی ذات کو بنانا اگرچہ فی نفسہ صحیح ہے لیکن سیاق سباق کے مناسب نہیں لہذا یعرفونہ کی ضمیر اور قبلہ کی طرف راجع ہے۔ القول الثانی الضمیر فی قولہ یعرفونہ راجع الی امر القبلۃ (کبیر ص 38 ج 2) تو مطلب یہ ہوگا کہ تحویل قبلہ کے حق ہونے کو اہل کتاب اسی طرح یقینی طور پر جانتے ہیں جس طرح وہ اپنے بچوں کو جانتے ہیں۔ 283 مگر اس کے باوجود ان کی ایک جماعت حق کو چھپاتی ہے۔ اورحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیان شدہ اوصاف یا تحویل قبلہ کے معاملہ پر پردہ ڈالتی ہے۔ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو ان میں سے ایمان نہیں لائے تھے۔ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ ۔ الحق میں الف لام عہد کے لیے ہے۔ یعنی جس حق کو وہ چھپا رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس سےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت ونعت مراد ہے یا تحویل قبلہ کا معاملہ۔ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ ۔ یعنی اہل کتاب کے جان بوجھ کر حق کو چھپانے کی وجہ سے حق کی حقانیت میں کوئی فرق نہیں آسکتا اور ان کے کتمان کے باوجود حق پھر بھی حق ہی ہے اور اس میں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi