Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 151

سورة البقرة

کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡکُمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡکُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیۡکُمۡ وَ یُعَلِّمُکُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمۡ مَّا لَمۡ تَکُوۡنُوۡا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۵۱﴾ؕ ۛ

Just as We have sent among you a messenger from yourselves reciting to you Our verses and purifying you and teaching you the Book and wisdom and teaching you that which you did not know.

جس طرح ہم نے تم میں تمہیں میں سے رسول بھیجا جو ہماری آیتیں تمہارے سامنے تلاوت کرتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت اور وہ چیزیں سکھاتا ہے جن سے تم بے علم تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Muhammad's Prophecy is a Great Bounty from Allah Allah says; كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ ايَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ Similarly (to complete My blessings on you), We have sent among you a Messenger (Muhammad) of your own, reciting to you Our verses (the Qur'an) and purifying you, and teaching you the Book (the Qur'an) and the Hikmah (i.e., Sunnah, Islamic laws and Fiqh ـ jurisprudence), and teaching you that which you did not know. Allah reminds His believing servants with what He has endowed them with by sending Muhammad as a Messenger to them, reciting to them Allah's clear Ayat and purifying and cleansing them from the worst types of behavior, the ills of the souls and the acts of Jahiliyyah (pre-Islamic era). The Messenger also takes them away from the darkness (of disbelief) to the light (of faith) and teaches them the Book, the Qur'an, and the Hikmah (i.e., the wisdom), which is his Sunnah. He also teaches them what they knew not. During the time of Jahiliyyah, they used to utter foolish statements. Later on, and with the blessing of the Prophet's Message and the goodness of his prophecy, they were elevated to the status of the Awliya (loyal friends of Allah) and the rank of the scholars. Hence, they acquired the deepest knowledge among the people, the most pious hearts, and the most truthful tongues. Allah said: لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُومِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ ءَايَـتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ Indeed, Allah conferred a great favor on the believers when He sent among them a Messenger (Muhammad) from among themselves, reciting unto them His verses (the Qur'an), and purifying them (from sins). (3:164) Allah also criticized those who did not give this bounty its due consideration, when He said: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُواْ نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ Have you not seen those who have changed the favors of Allah into disbelief (by denying Prophet Muhammad) and his Message of Islam), and caused their people to dwell in the house of destruction. (14:28) Ibn Abbas commented, "Allah's favor means Muhammad." Therefore, Allah has commanded the believers to affirm this favor and to appreciate it by thanking and remembering Him: فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِ

اللہ کی یاد شکر ہے اور بھول کفر ہے! یہاں اللہ تعالیٰ اپنی بہت بڑی نعمت کا ذکر فرما رہا ہے کہ اس نے ہم میں ہماری جنس کا ایک نبی مبعوث فرمایا ، جو اللہ تعالیٰ کی روشن اور نورانی کتب کی آیتیں ہمارے سامنے تلاوت فرماتا ہے اور رذیل عادتوں اور نفس کی شرارتوں اور جاہلیت کے کاموں سے ہمیں روکتا ہے اور ظلمت کفر سے نکال کر نور ایمان کی طرف رہبری کرتا ہے اور کتاب و حکمت یعنی قرآن وحدیث ہمیں سکھاتا ہے اور وہ راز ہم پر کھولتا ہے جو آج تک ہم پر نہیں کھلے تھے پس آپ کی وجہ سے وہ لوگ جن پر صدیوں سے جہل چھایا ہوا تھاجنہیں صدیوں سے تاریکی نے گھیر رکھا تھا جن پر مدتوں سے بھلائی کا پر تو بھی نہیں پڑا تھا دنیا کی زبردست علامہ ہستیوں کے استاد بن گئے ، وہ علم میں گہرے تکلف میں تھوڑے دلوں کے پاک اور زبان کے سچے بن گئے ، دنیا کی حالت کا یہ انقلاب بجائے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کا ایک شاہد و عدل ہے اور جگہ ارشاد ہے آیت ( لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِھٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ۚ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ) 3 ۔ آل عمران:164 ) یعنی ایسے اولوالعزم پیغمبر کی بعثت مومنوں پر اللہ کا ایک زبردست احسان ہے اس نعمت کو قدر نہ کرنے والوں کو قرآن کہتا ہے آیت ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ ) 14 ۔ ابراہیم:28 ) کیا تو انہیں نہیں دیکھتا جنہوں نے اللہ کی اس نعمت کے بدلے کفر کیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈالا یہاں اللہ کی نعمت سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اسی لئے اس آیت میں بھی اپنی نعمت کا ذکر فرما کر لوگوں کو اپنی یاد اور اپنے شکر کا حکم دیا کہ جس طرح میں نے احسان تم پر کیا تم بھی میرے ذکر اور میرے شکر سے غفلت نہ کرو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

151۔ 1 کما (جس طرح) کا تعلق ما قبل کلام سے ہے یعنی یہ تمام نعمت اور توفیق ہدایت اس طرح ملی جس طرح اس سے پہلے تمہارے میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہارا تزکیہ کرتا، کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا اور جن کا تمہیں علم نہیں وہ سکھاتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨٩] جیسا کہ اس سے پہلے میں تم پر یہ انعام کرچکا ہوں کہ تمہیں میں سے ایک ایسا رسول بھیجا ہے جو تمہیں اللہ کی آیات سناتا، تمہیں پاکیزہ بناتا اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اس نعمت نے تمہاری کایا پلٹ دی۔ تم جاہل تھے اللہ نے تمہیں علم سے نوازا، تم ذلیل تھے۔ اللہ نے تمہیں سر بلند کیا۔ تم ہر وقت لڑتے مرتے اور بدامنی کا شکار تھے۔ اللہ نے تمہارے دل ملا دیئے اور آپس میں محبت ڈال دی، اور یہ سب کچھ اسی تعلیم کا نتیجہ تھا۔ پھر جس طرح تم میں رسول بھیجنا ایک بہت بڑا انعام تھا۔ اسی طرح کا دوسرا انعام تحویل قبلہ ہے۔ جس کے ذریعہ تمہیں دنیا کی امامت سونپی جا رہی ہے (تشریح کے لیے دیکھیے سورة آل عمران کی آیت نمبر ١٦٤ پر حاشیہ نمبر ١٦٠)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

كَمَآ یعنی کعبہ کو قبلہ قرار دے کر ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کو، جو انھوں نے کعبہ کے بارے میں کی تھی، اسی طرح قبول کیا ہے جیسے ہم نے ان کی اس دعا کو شرف قبولیت بخشا جو انھوں نے مکہ کے رہنے والوں کے لیے انھی میں سے ایک نبی مبعوث کرنے کے لیے کی تھی۔ ( دیکھیے بقرہ : ١٢٩ ) قرآن میں (الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ) سے مراد کتاب و سنت اور (مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ ) سے مراد وہ مسائل ہیں جو انسان اپنی عقل سے معلوم نہیں کرسکتا، مثلاً تخلیق کی ابتدا، حشر نشر، نبوت اور ملائکہ وغیرہ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

These verses conclude the discussion on the theme of the Qiblah قبلہ or religious orientation. So, Verse 151 repeats the second part of the prayer of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) with which the discussion had begun (Verses 127 - 129). He had, as one would recall, prayed Allah to accept his founding of the Ka&bah کعبہ ، and to send among his progeny a Messenger from among themselves. The subsequent discussion on the subject of the Qiblah قبلہ has already shown that the first prayer has been heard and accepted. Now, Verse 151 declares that similarly the second request has also been granted, suggesting that since the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been sent in answer to the prayer of the founder of the Ka&bah کعبہ ، it is no wonder that it should be appointed as his Qiblah قبلہ . Verse 151 has specifically mentioned that the new Prophet (Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) is sent with the same attributes as specified by Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) in his prayer, namely: (1) He recites to them the verses of the Qur&an; (2) He teaches them the Book and the wisdom; (3) He purifies them; (4) He teaches them things which his listeners did not know of, nor could they be found in the earlier Divine Books or through individual reason. Since Allah has, in granting the two prayers, sent such great blessings to mankind, Verse 152 asks men to |"remember|" Him as the Supreme Benefactor, and to render Him thanks by being obedient. As long as they do so, Allah will |"remember|" them in showering on them His material and spiritual blessings. The verse ends with the reminder that men should not be ungrateful to Allah in denying His blessings or in being disobedient. In the light of this commentary, one can see that the word |"as|" (in Arabic, the letter Kaf which denotes a comparison between two terms) provides the link between Verse 151 and Verse 152. But, according to al-Qurtubi, the word Kaf or |"as|" is connected with the first phrase of Verse 152 -: |"Remember Me, then|". Viewed in the line of this syntactical relationship, the two verses, taken together, would mean that the ability to |"remember|" Allah is as much a blessing for men as the ordination of the new Qiblah قبلہ and the coming of the Last Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and hence it is the duty of men to render thanks to Allah, so that they may continue to receive His favours.

خلاصہ تفسیر : (یعنی ہم نے کعبہ کو قبلہ مقرر کرکے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک دعا جو درباب مقبولیت بناء کعبہ تھی اس طرح قبول کی) جس طرح (ان کی دوسری دعا جو درباب بعثت محمدیہ کے تھی قبول کی کہ) تم لوگوں میں ہم نے ایک (عظیم الشان) رسول کو بھیجا (جو کہ) تم ہی میں سے (ہیں اور وہ) ہماری آیات (و احکام) پڑھ پڑھ کر تم کو سناتے ہیں اور (خیالات و رسوم جہالت سے) تمہاری صفائی کرتے رہتے ہیں اور تم کو کتاب (الہی) اور فہم کی باتیں بتلاتے رہتے ہیں اور تم کو ایسی (مفید) باتیں تعلیم کرتے ہیں جن کی تم کو خبر بھی نہ تھی (اور نہ کتب سابقہ یا عقل ان کے لئے کافی تھی اور اس شان کے رسول کے مبعوث ہونے کی ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاء تھی سو اس کا ظہور ہوگیا) ان (مذکورہ) نعمتوں پر مجھ کو (منعم ہونے کی حیثیت سے) یاد کرو میں تم کو (عنایت سے) یاد رکھوں گا اور میری (نعمت کی) شکر گذاری کرو اور (انکار نعمت یا ترک اطاعت سے) میری ناسپاسی مت کرو، معارف و مسائل : یہاں تک قبلہ کی بحث چلی آرہی تھی اب اس بحث کو ایسے مضمون پر ختم فرمایا گیا ہے جو اس بحث کی تمہید میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بانی کعبہ کی دعا میں ضمناً آیا تھا یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اولاد ابراہیم (علیہ السلام) میں ایک خاص شان کے ساتھ مبعوث ہونا اس میں اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت میں بانی کعبہ کی دعا کو بھی دخل ہے اس لئے اگر ان کا قبلہ کعبہ کو بنادیا گیا تو اس میں کوئی تعجب یا انکار کی بات نہیں ہے، كَمَآ اَرْسَلْنَا میں حرف کاف جو تشبیہ کے لئے آتا ہے اس کی ایک توجیہ تو وہ ہے جو خلاصہ تفسیر سے معلوم ہوچکی ہے دوسری ایک توجیہ یہ بھی ہوسکتی ہے جس کو قرطبی نے اختیار کیا ہے کہ اس حرف کاف کا تعلق بعد کی آیت فاذْكُرُوْنِيْٓ سے ہے اور معنی یہ ہیں کہ جیسا ہم نے تم پر ایک نعمت قبلہ کی پھر دوسری نعمت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کی مبذول فرمائی ہے ایسی ہی نعمت ذکر اللہ بھی ہے ان سب نعمتوں کا شکر ادا کرو تاکہ یہ نعمتیں اور زیادہ ہوجائیں قرطبی نے فرمایا کہ كَمَآ اَرْسَلْنَا کا کاف یہاں ایسا ہی ہے جیسے انفال میں كَمَآ اَخرَجَکَ اور سورة حجر میں كَمَآ اَنزلنا علی المقتَسمین آیا ہے، فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ ذکر کے اصلی معنی یاد کرنے کے ہیں جس کا تعلق قلب سے ہے زبان سے ذکر کرنے کو بھی ذکر اس لئے کہا جاتا ہے کہ زبان ترجمان قلب ہے اس سے معلوم ہوا کہ ذکر زبانی وہی معتبر ہے جس کے ساتھ دل میں بھی اللہ کی یاد ہو مولانا رومی نے اسی کے متعلق فرمایا، بر زبان تسبیح در دل گاؤ خر ایں چنیں تسبیح کے دارد اثر لیکن اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر کوئی شخص زبان سے ذکر و تسبیح میں مشغول ہو مگر اس کا دل حاضر نہ ہو اور ذکر میں نہ لگے تو وہ بھی فائدہ سے خالی نہیں۔ حضرت ابوعثمان سے کسی نے ایسی ہی حالت کی شکایت کی کہ ہم زبان سے ذکر کرتے ہیں مگر قلوب میں اس کی کوئی حلاوت محسوس نہیں کرتے آپ نے فرمایا اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر کرو کہ اس نے تمہارے ایک عضو یعنی زبان کو تو اپنی اطاعت میں لگا لیا (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَـمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ۝ ١٥١ ۭ ۛ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] وقال : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات/ 1] ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ ۔ وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات/ 1] قسم ہے ان فرشتوں کی جو پیام الہی دے کر بھیجے جاتے ہیں تلو تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ زكا أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة . يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] ، إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس/ 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ، أي : مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله : «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد . وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان : أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی/ 14] . والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه . ( زک و ) الزکاۃ : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم/ 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی/ 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔ علم ( تعلیم) اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، فمن التَّعْلِيمُ قوله : الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] ، عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق/ 4] ، وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام/ 91] ، عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل/ 16] ، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة/ 129] ، ونحو ذلك . وقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام/ 91] اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل/ 16] ہمیں خدا کی طرف ست جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة/ 129] اور خدا کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] اور اس نے ادم کو سب چیزوں کے نام سکھائے ۔ میں آدم (علیہ السلام) کو اسماء کی تعلیم دینے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر بولنے کی صلاحیت اور استعدادرکھ دی جس کے ذریعہ اس نے ہر چیز کے لئے ایک نام وضع کرلیا یعنی اس کے دل میں القا کردیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو ان کے کام سکھا دیئے ہیں جسے وہ سر انجام دیتے رہتے ہیں اور آواز دی ہے جسے وہ نکالتے رہتے ہیٰ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو حکمت ( نبوۃ) قال اللہ تعالی: وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم/ 12] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «الصمت حکم وقلیل فاعله» أي : حكمة، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران/ 164] ، وقال تعالی: وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] ، قيل : تفسیر القرآن، ويعني ما نبّه عليه القرآن من ذلک : إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة/ 1] ، أي : ما يريده يجعله حكمة، وذلک حثّ للعباد علی الرضی بما يقضيه . قال ابن عباس رضي اللہ عنه في قوله : مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] ، هي علم القرآن، ناسخه، مُحْكَمه ومتشابهه . قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم/ 12] اور ہم نے ان کو لڑکپن میں ہی دانائی عطا فرمائی تھی ۔ اور آنحضرت نے فرمایا کہ خاموشی بھی حکمت ہے ۔ لیکن بہت تھوڑے لوگ اسے اختیار کر ٹے ہیں ۔ یہاں ( آیت اور حدیث میں ) حکم کے معنی حکمت کہ میں قرآن میں ہے : ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران/ 164] اور ان ( لوگوں ) کو کتاب اور دانائی سکھایا کرے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو ۔ میں حکمت سے مراد تفسیر قرآن ہے یعنی جس پر کہ قرآن نے آیت إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة/ 1] میں تنبیہ کی ہے کہ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے حکمت بنادیتا ہے تو اس میں ترغیب ہے کہ لوگوں کو اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] میں حکمت سے ناسخ منسوخ محکم اور متشابہات کا علم مراد ہے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان : أحدهما : إدراک ذات الشیء . والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له، أو نفي شيء هو منفيّ عنه . فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو : لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] . والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله : فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله : لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت . والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ. فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم . والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات . ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ، وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، ( ع ل م ) العلم کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔ ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥١) اور مجھے یاد کرو جس طرح کہ میں نے تمہاری طرف تمہارے ہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے، جو تمہارے سامنے قرآن کریم میں جو اوامرو نواہی (کرنے اور نہ کرنے کے کام بتاتا ہے) میں ان کو بخوبی تم پر تلاوت کرتا ہے اور توحید اور زکوٰۃ اور صدقہ کے ذریعے تم لوگوں کو گناہوں سے پاک کرتا ہے اور تمہیں تعلیم دیتا ہے اور قرآن کریم اور حلال و حرام کی تمہیں تعلیم دیتا ہے اور دوسرے احکام وحدود اور گزشتہ حالات سے تمہیں آگاہ کرتا ہے۔ جن حالات سے تم قرآن کریم اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ناواقف تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥١ (کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلاً مِّنْکُمْ ) (یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا) (وَیُزَکِّیْکُمْ ) (وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ) (وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ ) یہاں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) کی دعا یاد کر لیجیے جو آیت ١٢٩ میں مذکور ہوئی۔ اس دعا کا ظہور تین ہزار برس بعد بعثت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کی شکل میں ہو رہا ہے۔ یہاں ایک نکتہ بڑا اہم ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کی دعا میں جو ترتیب تھی ‘ یہاں اللہ نے اس کو بدل دیا ہے۔ دعا میں ترتیب یہ تھی : تلاوت آیات ‘ تعلیم کتاب و حکمت ‘ پھر تزکیہ۔ یہاں پہلے تلاوت آیات ‘ پھر تزکیہ اور پھر تعلیم کتاب و حکمت آیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) نے جو بات کہی وہ بھی غلط تو نہیں ہوسکتی ‘ لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کی تنفیذ شدہ (imposed) صورت یہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی۔ اس لیے کہ تزکیہّ مقدم ہے ‘ اگر نیت صحیح نہیں ہے تو تعلیم کتاب و حکمت مفید نہیں ہوگی ‘ بلکہ گمراہی میں اضافہ ہوگا۔ نیت کج ہے تو گمراہی بڑھتی چلی جائے گی۔ تزکیہ کا حاصل اخلاص ہے ‘ یعنی نیت درست ہوجائے۔ اگر یہ نہیں ہے تو کوئی جتنا بڑا عالم ہوگا وہ اتنا بڑا شیطان بھی بن سکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بڑے بڑے فتنے عالموں نے ہی اٹھائے ہیں۔ دین اکبری یا دین الٰہی کی تدوین کا خیال تو اکبر کے باپ دادا کو بھی نہیں آسکتا تھا ‘ یہ تو ابوالفضل اور فیضی جیسے علماء تھے جنہوں نے اسے یہ پٹیّ پڑھائی۔ اسی طرح غلام احمد قادیانی کو بھی الٹی پٹیاں پڑھانے والا حکیم نور الدین تھا ‘ جو بہت بڑا اہل حدیث عالم تھا۔ تو درحقیقت کوئی جتنا بڑا عالم ہوگا اگر اس کی نیت کج ہوگئی تو وہ اتنا ہی بڑا فتنہ اٹھا دے گا۔ اس پہلو سے تزکیہ مقدمّ ہے۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہی مضمون سورة آل عمران میں اور پھر سورة الجمعہ میں بھی آیا ہے ‘ وہاں بھی ترتیب یہی ہے : (١) تلاوت آیات (٢) تزکیہ (٣) تعلیم کتاب و حکمت۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

100: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کعبے کی تعمیر کے وقت دو دعائیں کی تھیں، ایک یہ کہ ہماری نسل سے ایسی امت پیدا فرمائیے جو آپ کی مکمل فرمانبردار ہو، اور دوسری یہ کہ ان میں ایک رسول بھیجئے (دیکھئے پیچھے آیات ١٢٨۔ ١٢٩) اللہ تعالیٰ نے پہلی دعا اس طرح قبول فرمائی کہ امت محمدیہ (علی صاحبہاالسلام) کو معتدل امت قرار دے کر پیدا فرمایا (دیکھئے آیت ١٤٣) اب اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس طرح ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا قبول کرتے ہوئے تم پر یہ انعام فرمایا کہ تمہیں معتدل امت بناکر آئندہ ہمیشہ کے لئے انسانیت کی رہنمائی تمہیں عطا کردی، جس کی ایک اہم علامت یہ بھی ہے کہ ہمیشہ کے لئے کعبے کو قبلہ بنادیا گیا ہے، اسی طرح ہم نے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی دوسری دعا قبول کرتے ہوئے رسول اکرمﷺ کو تمہارے درمیان بھیج دیا ہے، جو انہی خصوصیات اور فرائض منصبی کے حامل ہیں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے لئے مانگے تھے، ان میں سے پہلا فریضہ تلاوت آیات ہے، اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کی آیات کو تلاوت کرنا بذات خود ایک مقصد اور ایک نیکی ہے، خواہ تلاوت آیات بغیر سمجھے کی جائے، کیونکہ قرآن کے معنی کی تعلیم آگے ایک مستقل فریضے کے طور پر بیان کی گئی ہے، دوسرا مقصد قرآن کریم کی تعلیم ہے، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آنحضرتﷺ کی تعلیم کے بغیر قرآن کریم کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا ممکن نہیں ہے، اور یہ کہ صرف ترجمہ پڑھ لینے سے قرآن کریم کی صحیح سمجھ حاصل نہیں ہوسکتی کیونکہ اہل عرب عربی زبان سے خوب واقف تھے، انہیں ترجمہ سکھانے کے لئے کسی استاذ کی ضرورت نہیں تھی، تیسرے آپ کا فریضہ یہ بتایا گیا ہے کہ آپ حکمت کی تعلیم دیں، اس سے معلوم ہوا کہ حکمت ودانائی اور عقلمندی وہی ہے جو آنحضرتﷺ نے تلقین فرمائی، اس سے نہ صرف آپ کی احادیث کا حجت ہونا معلوم ہوتا ہے بلکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر آپ کا کوئی حکم کسی کو اپنی عقل کے لحاظ سے حکمت کے خلاف محسوس ہو تو اعتبار اس کی عقل کا نہیں بلکہ آنحضرتﷺ کی سکھائی ہوئی حکمت کا ہے، چوتھا فریضہ یہ بتایا گیا ہے کہ آپ لوگوں کو پاکیزہ بنائیں اس سے مراد آپ کی عملی تربیت ہے، جس کے ذریعے آپ نے صحابہ کرام کے اخلاق اور باطنی صفات کو گندے جذبات سے پاک کرکے انہیں اعلی درجے کی خصوصیات سے آراستہ فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ قرآن وسنت کا صرف کتابی علم بھی انسان کی اصلاح کے لئے کافی نہیں ہے، جب تک اس نے اس علم کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی عملی تربیت نہ لی ہو، آنحضرتﷺ نے صحابہ کو اپنی صحبت سے سرفراز فرماکر ان کی تربیت فرمائی، پھر صحابہ نے تابعین کی اور تابعین نے تبع تابعین کی اسی طرح تربیت کی، اور یہ سلسلہ صدیوں سے اسی طرح چلا آتا ہے، باطنی اخلاق کی اسی تربیت کا علم علم احسان یا تزکیہ کہلاتا ہے اور تصوف بھی در حقیقت اسی علم کا نام تھا اگرچہ بعض نااہلوں نے اس میں غلط خیالات کی ملاٹ کرکے بعض مرتبہ اسے خراب بھی کردیا ؛ لیکن اس کی اصل یہی تزکیہ ہے جس کا ذکر قرآن کریم نے یہاں فرمایا ہے، اور ہر دور میں تصوف کی اصل حقیقت کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے والے ہمیشہ موجود رہے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(151 ۔ 152) ۔ یہ آیت پہلی آیت کے متعلق ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ملت ابراہیمی کی نعمت تم کو عطا کی اسی طرح اس کی یہ بھی نعمت ہے کہ وہ ملت تمہاری بنی اسماعیل میں کی نبی کی معرفت تم کو عطا ہوئی تاکہ غیر قوم کی اطاعت کا جھکاؤ باقی نہ رہے۔ قرآن شریف میں جہاں کتاب و حکمت کے دو لفظ ایک جگہ آئے ہیں ان کی تفسیر سلف نے قرآن۔ اور حدیث سے کی ہے اور اس تفسیر کی تائید اور مقدام بن معدیکرب کی اس حدیث سے ہوتی ہے جو مسند امام احمد اور ابو داؤد ابن ماجہ میں معتبر سند سے آئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھ کو قرآن اور قرآن کے ساتھ ہی قرآن کی مانند حدیث اللہ کی طرف سے دی گئی ہے ١۔ معنی اس حدیث کے علماء نے یہ بیان کئے ہیں کہ فقظ قرآن کے سیکھ لینے سے مسلمان آدمی کو دین کی طرف سے بےپرواہی نہیں ہوسکتی۔ جب تک اللہ کی رسول کی حدیث کو آدمدی نہ سیکھے کیونکہ نماز، روزہ، حج زکوۃ ارکان دین کے اکثر مسئلے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے مختصر طور پر ذکر فرما کر ان کا تفصیلی بیان اپنے رسول کے سپرد کیا چناچہ سورة نحل میں فرمایا { وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَلَعَلَہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ } (١٦: ٤٤) مطلب آیت کا یہ ہے کہ قرآن کی جو آیتیں ایسی ہوں کہ ان میں تفصیل کی ضرورت ہو تو تم اے نبی اللہ کے ان آیتوں کی تفصیل قول سے فعل سے اچھی طرح امت کے لوگوں کو سمجھا دیا جو سلسلہ بہ سلسلہ آج تک چلا آتا ہے اور اسی کو قرآن کی تفسیر کہتے ہیں تفسیر قولی کی مثال مثلاً جب سورة الانعام کی یہ آیت { اَلَّذِیْنَ اَمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ } (٦۔ ٨٢) نازل ہوئی تو آپ نے فرما دیا کہ ظلم سے مراد اس آیت میں شرک ہے ٢۔ بخاری مسلم ترمذی وغیرہ میں اس تفسیر کی روایتیں ہیں تفسیر فعلی کی مثال مثلاً ایک شخص نے اوقات نماز کا ذکر جو قرآن شریف میں ہے اس کی تفسیر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پو چھی آپ نے اس سائل کو زبانی کچھ جواب نہ دیا بلکہ اس کو دو روز تک اپنے ساتھ نماز میں شریک رکھ کر پہلے دن پنج گانہ نماز اول وقت پڑھی اور دوسرے دن آخری وقت پر اور پھر اس سائل کو سمجھا دیا کہ نماز کا وقت دونوں دن کے وقتوں کے مابین ہے یہ روایت صحیح مسلم وغیرہ میں ہے ١۔ یہ جو فرمایا کہ تم یاد رکھو مجھ کو میں یاد رکھوں تم کو اس کی تفسیر اس حدیث قدسی میں آئی ہے جس کو بخاری وغیرہ نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے جس میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندہ کے ساتھ ہوں اگر وہ مجھ کو اپنے دل میں یاد کرے گا تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کروں گا اور اگر وہ مجھ کو انسانوں کی مجلس میں یاد کرے گا تو میں اس کو ملائکہ کی مجلس میں یاد کروں گا جو انسانوں کی مجلس سے بہتر ہے اور جس قدر وہ مجھ سے قریب ہوگا میں اس سے زیادہ قریب ہوں گا اور وہ میری راہ میں پاؤں چل کر آوے گا تو میں اس کی مدد کے لئے دوڑ کر آنے کو تیار ہوں ٢ جو نعمت خدا دے اس کو خدا کی مرضی کے موافق کام میں لانا اس نعمت کا شکر ہے اور خلاف مرضی کفران نعمت۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:151) کما۔ میں ک حرف تشبیہ ہے اور ما مصدریہ ۔ کما ارسلنا کا تعلق یا تو لاتم سے ہے اور معنی یہ ہیں کہ ۔ تاکہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کروں۔ جیسے کہ رسول بھیجنے کی نعمت پوری کی۔ یا اس کا تعلق لعلکم تھتدون سے ہے اور معنی ہوں گے تاکہ تم فلاح پاؤ جیسا کہ تم کو میرے تمہیں میں سے تمہارے پاس رسول بھیجنے سے ہدایت و فلاح نصیب ہوئی۔ (مظہری۔ تفہیم القرآن) ۔ یزکیکم۔ یزکی۔ مضارع واحد مذکر غائب تزکیہ (تفعیل) مصدر کم۔ ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ وہ تم کو پاکیزہ کرتا ہے۔ وہ تم کو پاک بناتا ہے۔ مالم تکونوا تعلمون۔ ما موصولہ ہے لم تکونوا تعلمون مضارع نفی حجد بلم۔ تم نہیں جانتے تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 اس تشبیہ کا مفہوم یہ ہے کہ خانہ کعبہ کو قبلہ قرار دے کر ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کو شرف قبولیت بخشا ہے جو انھوں نے کعبہ کے بارے میں کی تھی جس طرح کہ نبی آخرالزمان کو مبعوث فرماکر ان کی اس دعا کو قبول کیا ہے جو انہوں نے بعثت رسول کے بارے میں کی تھی۔ قرآن میں الکتاب والحکمتہ سے مرادت کتاب وہ سنت ہے اور مالم تکونواتعلمون سے مسائل یا بعد الطبیعیات ( حشر ونشر مبدء نبوت وغیرہ ( مراد ہیں دیکھئے آیت :129)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ اوپر کی آیات میں حقیقتا اللہ کی بڑی بری نعتموں کا ذکر تھا اس لیے آیت آئندہ میں منعم کے زکر اور ان کی نعمت کے شکر کا حکم فرما کر آیات مذکورہ کے مضمون کی بوجہ احسن تکمیل اور تمیم فرماتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : خوف خدا کے بغیر آدمی نعمت ہدایت نہیں پاسکتا اور ہدایت کے لیے سنت رسول اور تعلیم نبوت لازم ہے۔ یہ فرد کی اصلاح اور قوموں کی فلاح کا راستہ ہے۔ اور یہی رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد ہے۔ نبوّت کے مرکزی فرائض (1) تلاوت آیات : تلاوت سے مراد اللہ تعالیٰ کے ارشادات و احکامات سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے ‘ قرآن مجید کے ظاہری و باطنی آداب بتلانا، اس پر عمل کرنے اور اس کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ اس کی تلاوت کرنا اور تحفیظ القرآن کی ترغیب دینا ہے۔ (2) تعلیم : تعلیم سے مراد باقاعدہ قرآن مجید کے اسراروعلوم سمجھنا ہے۔ کیونکہ آدمی کسی علم میں مہارت اور اس کے حقیقی مطالب حاصل نہیں کرسکتا جب تک متعلقہ علم کے ماہر کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہ کرے۔ یہ تو صرف اور صرف رسول کی شان ہوا کرتی ہے کہ وہ کسی آدمی سے علم سیکھنے کے بجائے اللہ تعالیٰ سے براہ راست علم اور معرفت حاصل کرتا ہے۔ لہٰذا نبی کے علاوہ ہر انسان اس بات کا محتاج ہے کہ وہ جو سیکھنا چاہتا ہے اس کے لیے متعلقہ استاد سے استفادہ کرے۔ جیسا کہ قرآن مجید نے وضاحت فرمائی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے براہ راست اپنے رب سے تعلیم پائی ورنہ آپ اس سے پہلے کچھ نہیں جانتے تھے۔ اسی کے بارے میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو وہ کچھ سکھلاتا ہے جو آپ پہلے نہیں جانتے تھے۔ جن لوگوں کا یہ دعو ٰی ہے کہ قرآن مجید کے بعد حدیث کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ وہ ایسی بات کہتے ہیں جس کی کسی زمانے میں بھی اہل عقل و فکر نے تائید نہیں فرمائی۔ کیونکہ محض کتاب کسی کے ہاتھ میں تھما دینے سے کوئی شخص ٹھیک ٹھیک اس سے استفادہ نہیں کرسکتا بیشک وہ اس کتاب کی زبان سے کتنا ہی واقف کیوں نہ ہو ؟ اس حقیقت کو جاننے کے لیے آج بھی کسی انگریزی دان کو انجینئرنگ یا طبّ کے متعلق کوئی کتاب دے کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس نے استاد کے بغیر طب اور انجینئرنگ میں کیا دسترس حاصل کی ہے اس لیے نبوت کے کار منصبی میں یہ فرض شامل ہے کہ نبی لوگوں کو باضابطہ طور پر کتاب اللہ کی تعلیم سے ہمکنار کرے تاکہ نبوت کا کام نسل در نسل چلتا رہے۔ لہٰذا رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تلاوت قرآن اور وعظ وخطاب کے ساتھ باقاعدہ طور پر مردوں کے لیے مسجد نبوی میں صفہ کے مقام پر اور خواتین کے لیے الگ تعلیم کا سلسلہ جاری فرمایا۔ ” ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں ایک عورت نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آکر کہا کہ مرد ہم سے تعلیم کی وجہ سے آگے بڑھ گئے ہیں ‘ آپ ہمارے لیے بھی کوئی دن مقرر کریں جس میں آپ ہمیں وہ کچھ سکھائیں جو اللہ نے آپ کو سکھایا آپ نے فرمایا فلاں فلاں دن جمع ہوجایا کرو۔ آپ تشریف لا کر انہیں اللہ تعالیٰ کا بتلایا ہوا علم سکھلاتے۔ “ [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب : ھل یجعل للنساء یوم علی حدۃ في العلم ] ” عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃُ ٗ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ “ [ مشکوۃ کتاب العلم ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے “ علم کی عظمت و فضیلت : علم وہ نعمت ہے جس سے ایک انسان ہی نہیں بلکہ حیوان بھی اپنی جنس میں ممتاز ہوجاتا ہے جیسا کہ کتے کی مثال ہے کہ اگر برتن چاٹ جائے تو اسے سات دفعہ دھونا ضروری قرار دیا گیا ہے لیکن اگر کتا سدھایا ہوا ہو تو اس کا پکڑا ہوا شکار حلال ہوتا ہے۔ (المائدۃ : ٤) بیشک انسان اشرف المخلوقات ہے لیکن تعلیم کے بغیر اندھا ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کا پہلا شرف علم ہی تھا جس کی وجہ سے انہوں نے ملائکہ پر برتری حاصل کی تھی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا آغاز ہی ” اِقْرَأ “ سے ہوا ہے۔ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کو زیور علم سے آراستہ کرنے کے لیے خصوصی توجہ فرمائی اور ان پڑھ قوم میں وہ علمی تحریک پیدا فرمائی کہ صحابہ کرام (رض) میں ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو اپنے بنیادی فرائض سے غافل اور ناواقف ہو۔ بیشک علوم میں سب سے اعلی اور دنیا وآخرت میں مفید ترین علم قرآن وسنت کا علم ہے لیکن قرآن و حدیث میں ہر اس علم کی حوصلہ افزائی پائی جاتی ہے جس سے انسانیت کو فائدہ پہنچے اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علم میں اضافے کے لیے دعا کیا کرتے تھے ” رَبِّ زِدْنِیْ عِلْماً “ ” اے رب ! میرے علم میں اضافہ فرما “ اور امت کو ہدایت فرمائی کہ اگر کسی کو قرآن وسنت کا ایک فرمان بھی یاد ہو تو اس کا فرض ہے کہ وہ اسے آگے پہنچائے گویا کہ قیامت تک یہ تحریک جاری رہے اور اس طرح دیے سے دیا جلتا رہنا چاہیے۔ (عَنْ مُّعَاوِےَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ بِہٖ خَےْرًا یُّفَقِّھْہُ فِی الدِّےْنِ وَاِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَّاللّٰہُ ےُعْطِیْ ) [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب من یرد اللہ بہ خیرا یفقہ فی الدین ] ” حضرت معاویہ (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ خیر خواہی کرنا چاہتے ہیں اسے دین کی سمجھ عنا یت فرماتے ہیں میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ مجھے عنایت فرمانے والا ہے۔ “ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا حَسَدَ اِلَّا فِی اثْنَےْنِ رَجُلٌ اٰتَاہ اللّٰہُ مَالًا فَسَلَّطَہُ عَلٰی ھَلَکَتِہٖ فِی الْحَقِّ وَرَجُلٌ اَتَاہ اللّٰہُ الْحِکْمَۃَ فَھُوَ ےَقْضِیْ بِھَا وَےُعَلِّمُھَا) [ رواہ البخاری : کتاب الزکوۃ، باب انفاق المال فی حقہ ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صرف دو آدمیوں پر رشک کرنا جائز ہے ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مال عنایت فرمایا اور اسے نیکی کے کاموں پر خرچ کرنے کی توفیق دی، دوسرا جس کو اللہ تعالیٰ نے دانشمندی عطاکی وہ اس کی روشنی میں فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔ “ سلسلہ تعلیم کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب نے وقت کے ساتھ ساتھ اس قدر وسعت سے ہمکنار کیا کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق (رض) نے مدارس ومساجد قائم کرنے کے ساتھ مملکت کے سول اور فوجی عہدے داران کو حکم دیا کہ وہ عوام اور فوج میں قرآن وسنت کی تعلیم کو عام کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کریں۔ اس کوشش اور توجہ کا ثمرہ تھا کہ حضرت عمر (رض) نے جب فوجی افسروں کو خط لکھا کہ حفاظ کرام کی فہرست میرے پاس بھیجو تو حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے جواب میں لکھا کہ صرف میری چھاؤنی میں تین سو حفاظ کرام موجود ہیں۔ (الفاروق) (3) تزکیۂ نفس : نفس مضمون اور علم کتنا ہی اہم اور اعلیٰ کیوں نہ ہو اس وقت تک اس کے مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکتے جب تک اس کے مطابق تربیت کا انتظام نہ کیا جائے۔ تربیت کے لیے انفرادی اور اجتماعی ماحول کا ہونا ضروری ہے۔ فرد کی اصلاح کیے بغیر قوم کی اصلاح کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ تزکیہ نفس کے لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کی انفرادی اصلاح بھی فرماتے اور اجتماعی بھی۔ تب جا کر ایک ایسی جمعیت معرض وجود میں آئی۔ جس کی مثال تاریخ میں پیش کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ (4) حکمت : اہل لغت اور مفسرین نے حکمت کے معانی ‘ فہم و فراست ‘ علم وحلم ‘ عدل و انصاف ‘ حقیقت اور سچائی تک پہنچنا اور دین کی سمجھ حاصل کرنا بیان کیے ہیں۔ جب کہ اکثر اہل علم نے حکمت سے مراد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت اور حدیث لی ہے۔ کیونکہ آپ کی ذات اطہر پر قرآن نازل ہوا اور آپ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق اس کی تفسیر بیان کرنے والے ہیں۔ سنت سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کے اس لفظ کا کیا معنی ہے کیونکہ آپ نے اپنے ارشاد اور عمل سے قرآن کے احکامات کا حقیقی مفہوم واضح فرمایا ہے۔ پھر آپ کی سنت اور حدیث ہی سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک فردا ورمعاشرے پر قرآن کا نفاذ کس طرح کرنا چاہیے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہی دنیا کو عقل و دانش سے ہمکنار فرمایا۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صرف یہی فرض نہیں تھا کہ آپ قرآن کی تلاوت، تبلیغ، تعلیم اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی حکمت کا تعیّن فرمائیں بلکہ آپ نے قرآن مجید کی روشنی میں اپنے اسوۂ مبارکہ کے ذریعے قرآن مجید کے مقصود کو لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اس طرح راسخ فرمایا جس سے لوگوں کے نظریات کی تطہیر ہوئی۔ اخلاق میں نکھار اور کردار میں سنوار پیدا ہوا۔ کل کے جاہل آج قوموں کے معلّم اور راہبر بنے، ماضی میں لوٹ مار کرنے والے لوگوں کی عزت ومال کے محافظ ہوئے۔ لہٰذا کسی بھی حقیقی انقلاب اور طریقۂ حکومت کے یہی چار بنیادی اصول ہیں ‘ جن کے بغیر فرد اور معاشرے میں صحت مند اور جامع تبدیلی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ یہی اسلام کا وہ نظام تعلیم اور تزکیۂ نفس کا پروگرام ہے جس کو اختیار کرکے ہر شخص روحانی منازل طے کرسکتا ہے ‘ اس میں نہ تصور شیخ کی گنجائش ہے اور نہ قبروں کے سامنے مراقبہ کرنے اور نہ غاروں میں چلّہ کشی کی ہی ضرورت ہے۔ جن لوگوں نے تزکیۂ نفس کے مختلف طریقے ایجاد اور اختیار کیے ہیں انہوں نے سنت کے خلاف راستہ اختیار کیا ہے۔ لہٰذا کتاب وسنت میں ایسے طریقوں اور تصوف کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ مسائل ١۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انسانوں میں سے ہی ایک انسان تھے۔ ٢۔ رسول لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات سناتا ہے۔ ٣۔ رسول لوگوں کی تربیت و تزکیہ نفس کرتا ہے۔ ٤۔ رسول تعلیم اور دانش مندی سکھاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن نبوت کے اغراض و مقاصد : ١۔ نبوت کے منصبی فرائض۔ (البقرۃ : ١٥١) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کتاب و حکمت کی تعلیم دینے کے لیے بھیجا گیا۔ (الجمعۃ : ٢) ٣۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاؤں میں ان فرائض کا تذکرہ موجود ہے۔ (البقرۃ : ١٢٩) ٤۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے بوجھ اتارنے اور غلامی سے چھڑانے کے لیے تشریف لائے۔ (الاعراف : ١٥٧) ٥۔ نبوت اللہ تعالیٰ کا مومنوں پر احسان عظیم ہے۔ (آل عمران : ١٦٤) ٦۔ آپ لوگوں کو خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے تھے (الاحزاب : ٤٥) ٧۔ آپ کو ہدایت کا سورج بنایا گیا۔ (الاحزاب : ٤٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس آیت کے مضمون پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں انہی باتوں کو دہرایا گیا ہے ، جن کی دعوت اس صورت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دی تھی ۔ اس وقت حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) خانہ کعبہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے ۔ جناب خلیل اللہ نے دعا فرمائی تھی کہ :” اے اللہ ، میری اولاد میں سے جو اس گھر کے جوار میں رہتی ہے ، ایک نبی مبعوث فرما ۔ جو ان کو تیری آیات پڑھ کر سنائے ۔ انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور انہیں پاک کردے۔ “ یوں مسلمانوں کو یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ ان میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مبعوث کیا جانا ، اور خود ان کا بطور مسلمان پایاجانا ، یہ دراصل ان کے اباجان حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کی براہ راست قبولیت ہے ۔ اس میں یہ اشارہ بھی مضمر ہے کہ ان کی تحریک کوئی نئی تحریک نہیں ہے ۔ ایک قدیم تحریک ہے ۔ ان کا قبلہ کوئی نیا قبلہ نہیں ہے ، بلکہ ان کے ابا ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ ہے ۔ اور ان پر اسلام نے جو جودوکرم کیا ہے وہ وہی جودوکرم ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دوست سے کیا تھا ۔ اس نے تمہیں تمہارا پرانا قبلہ دے دیا ، تمہیں ایک مستقل شخصیت عطاکردی ۔ یہ تو اس کے انعامات کا ایک نمونہ ہے جو وہ تم پر مسلسل کرتا چالا آرہا ہے ۔ اور سب سے پہلی نعمت یہ ہے کہ اس نے تم میں اپنا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم ہی میں سے مبعوث فرمایا : كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولا مِنْكُمْ ” جس طرح میں نے تمہارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا “ اس نے تمہارے اندر رسالت قائم کردی ۔ کیا یہ تمہارے لئے کوئی کم عزت افزائی ہے ؟ یہودی ایک عرصہ سے آخری رسول کا انتظار کررہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ وہ انہیں میں سے ہوگا اور اس کی قیادت میں وہ قریش پر فتح پائیں گے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے وہ خاتم الرسل تم میں سے چن لیا : يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا ” تمہیں میری آیات سناتا ہے۔ “ وہ جو کچھ پڑھ کر تمہیں سناتا ہے وہ حق ہے ۔ اس فقرے میں ایک شاہانہ حوصلہ افزائی ہے ۔ اللہ کا کلام ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہورہا ہے ، لیکن خطاب اپنے بندوں سے ہورہا ہے ۔ اس انداز کلام پر غور کیا جائے تو یہ ایک عظیم عزت افزائی معلوم ہوتی ہے ۔ دل مارے خوشی کے جھوم جاتا ہے ۔ کیا شان ہے ان لوگوں کی ! وہ کون ہیں اور کیا ہیں ؟ خداوند قدوس ان سے خطاب کررہا ہے ۔ خود اپنے الفاظ میں ان سے بات ہورہی ہے ۔ کیا عظیم قدردانی ہے یہ ؟ اگر اللہ تعالیٰ ان پر اپنا فضل وکرم نہ کرتا تو یہ وہ شان کہاں سے حاصل کرتے ۔ یہ محض اللہ کی جانب سے باران رحمت کا نتیجہ ہے ۔ ابتدائے آفرینش میں اللہ تعالیٰ نے انسان کا ڈھانچہ تیار کیا اور اس میں روح پھونکی ۔ اس کی نسل چلائی تاکہ ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہوں جو اللہ کے انعامات کے مستحق ہوں۔ وہ ایسے ہوں ، جو انعامات کو خوش آمدید کہیں۔ وَيُزَكِّيكُمْ ” وہ تمہیں پاک کردے گا۔ “ اگر اللہ نہ ہوتا تو مشرکین اہل عرب اور مسلمانوں میں سے کوئی بھی پاک نہ ہوتا ۔ نہ پاک ہوتا اور نہ ہی مرتبہ بلند پاتا ۔ اللہ نے ان میں سے رسول بھیجا تاکہ وہ انہیں پاک کردے ۔ ان کے دل کو شرک کی آلائش اور جاہلیت کی آلودگی سے پاک کردے ۔ ان کی روح کو ایسے تمام تصورات سے پاک کردے جن کے بوجھ تلے انسانی روح صدیوں سے دفن ہوکر رہ گئی تھی۔ وہ انہیں شہوانی قوت کی آلودگیوں سے بھی پاک کرتا ہے ، لہٰذا ان کی روح جنسی بےراہ روی کے گڑھے میں نہیں گرتی ۔ وہ لوگ جنہیں اسلام پاک نہیں کرتا ، چاہے زمانہ قدیم کے باشندے ہوں یا زمانہ جدید کے ، وہ گویا گندے پانی کے چشمے سے جنسی پیاس بجھاتے ہیں ۔ جس سے طبیعت نفرت کرتی ہے اور جس سے انسان کی انسانیت ختم ہوجاتی ہے ۔ اور ایک حیوان جو صرف حیوانی فطرت کا پابند ہوتا ہے ۔ اس انسان سے ارفع و برتر ہوجاتا ہے ۔ وہ لوگ جو ایمان سے محروم ہیں ان سے یہ حیوان بدرجہا پاک ہوتا ہے ۔ اسی طرح اللہ ان کے معاشرے کو لوٹ کھسوٹ اور سود وساہو کاری سے بھی پاک کرتا ہے ۔ یہ سب چیزیں بھی ایک قسم کی گندگی ہیں ۔ یہ انسانی شعور اور انسانی روح کو گندہ کردیتی ہیں ۔ اور اجتماعی زندگی ان سے آلودہ ہوجاتی ہے۔ وہ ان کی زندگی کو ظلم و زیادتی سے پاک کرتا ہے اور انہیں نظام عدل و احسان عطا کرتا ہے ۔ وہ عدل و انصاف جو اسلامی نظام حیات ، اسلامی نظام حکومت سے پہلے انسانیت نے نہ دیکھا تھا اور نہ سنا تھا ۔ غرض انہیں تمام گندگیوں اور آلودگیوں سے پاک وصاف کردیتا ہے جو ان کے گرد پھیلی ہوئی جاہلیت کے چہرے کا بدنما داغ ہیں اور ہر اس معاشرے میں پائی جاتی ہیں ، جسے اسلامی روح نے پاک نہ کیا ہو ، جس میں اسلام کا پاک وصاف نظام رائج نہ ہو ۔ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ” تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ “ اس سے پہلے جو فرمایا گیا کہ وہ رسول ہی آیات پڑھ کر تمہیں سناتا ہے ، اس سے بھی مراد یہ ہے کہ رسول تمہیں کتاب پڑھاتا ہے لیکن یہاں تعلیم کتاب کے ساتھ تعلیم حکمت کو شامل کیا گیا ہے ۔ حکمت درحقیقت تعلیم کتاب کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ حکمت اس مہارت کا نام ہے جس کے ذریعے انسان ہر چیز کو اس کا اصلی اور صحیح مقام دے دے ۔ ہر بات اور ہر مسئلے کو ایک صحیح معیار پر پرکھے اور احکام وہدایات کی صحیح غرض وغایت سمجھ سکے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن لوگوں کو تربیت دی تھی اور جن کو آیات کتاب اللہ کے ذریعے پاک فرمایا تھا ، وہ حکمت و دانائی میں اس طرح کامل ہوگئے تھے جس طرح ایک پھل درخت کے اوپر پوری طرح پک جاتا ہے ۔ وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (١٥١) ” اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے ۔ “ اسلامی جماعت کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ یہ ایک عظیم سچائی ہے ۔ اسلام نے اس جماعت کو عربی معاشرے سے چنا ۔ جس کے پاس چند متفرق معلومات کے سوا کوئی ذخیرہ علم نہ تھا ۔ صرف وہ علم جو صحراء میں ایک قبیلے کی زندگی کے لئے ضروری تھا یا صحرا کے درمیان گھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے شہروں کی ضرورت کے لئے کافی تھا۔ اسلام نے اس صحرائی جماعت کو ایک ایسی امت بنادیا جو پوری انسانیت کو حکیمانہ اور عادلانہ قیادت فراہم کرنے لگی۔ ایک مختصر عرصے میں یہ حالت ہوگئی تھی کہ اب یہ امت کڑی نگاہ رکھتی ہے ۔ امور عالم سے باخبر ہے اور زیور علم سے آراستہ ہے قرآن و حکمت قرآن پر مبنی ہدایات رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس امت کے لئے لئے راہ ہدایت اور سرچشمہ علم بن گئے ہیں۔ مدینہ میں مسجد نبوی جہاں قرآن کریم اور قرآن پر مبنی ارشادات رسول پڑھے اور پڑھائے جاتے تھے ، امت کے لئے ایک عظیم یونیورسٹی بن گئی ۔ اس یونیورسٹی سے وہ لوگ فارغ ہوکر نکلے جنہوں نے پوری انسانیت کی حکیمانہ راہنمائی کی ایسی قیادت کی جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں اس سے پہلے نہیں ملتی ہے اور نہ اس کے بعد آج تک ملتی ہے۔ اسلامی نظام حیات ، جس نے یہ قیادت فراہم کی اور انسانوں کا یہ معیاری گروہ تیار کیا ، آج بھی یہ استعداد رکھتا ہے کہ انسانیت کو ویسی ہی قیادت فراہم کرے ، بشرطیکہ یہ امت صحیح طرح اس قرآن کریم پر ایمان لے آئے ۔ اسے صحیح طرح اپنے لئے زندگی کا ماخذ قرار دے ۔ اور اسے خوش الحانی سے پڑھ کر قوت سامعہ کی تسکین کے لئے استعمال نہ کرے ، بلکہ اسے دستور حیات بنالے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل ایمان کے لیے تکمیل نعمت یہ ما قبل سے متعلق ہے۔ (ای ولا تم نعمتی علیکم فی امر القبلۃ او فی الاخرۃ کما اتممتھا بارسال رسول منکم) یعنی ہم نے تم کو کعبہ شریف کی طرف نمازوں میں رخ کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ تم پر اپنی نعمت قبلہ کے بارے میں یا آخرت میں پوری کروں جیسا کہ میں نے اپنی نعمت تم پر اس طرح بھی پوری کی ہے کہ تمہارے اندر تمہیں میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو ہماری آیتیں پڑھ کر تم کو سناتا ہے اور تمہارا تزکیہ کرتا ہے۔ اس کی تعلیمات پر عمل کرنے سے تم ظاہری باطنی برائی اور خرابی سے پاک ہوجاؤ گے۔ وہ تم کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور وہ وہ باتیں بتاتا ہے جن کو تم نہیں جانتے تھے۔ جن کے جاننے کا راستہ وحی الٰہی کے علاوہ بالکل نہیں ہے۔ ہم نے اپنا رسول بھیجا اس پر وحی بھیجی اور وحی کے ذریعہ تم کو بہت کچھ بتایا اور سمجھایا لہٰذا تم میرا ذکر کرو، میں تمہیں یاد کرونگا اور تم میرا شکر کرو، اور میری ناشکری نہ کرو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi