Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 152

سورة البقرة

فَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ وَ اشۡکُرُوۡا لِیۡ وَ لَا تَکۡفُرُوۡنِ ﴿۱۵۲﴾٪  2

So remember Me; I will remember you. And be grateful to Me and do not deny Me.

اس لئے تم میرا ذکر کرو میں بھی تمہیں یاد کروں گا ، میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Therefore, remember Me. I will remember you, and be grateful to Me, and never be ungrateful to Me. Mujahid said that Allah's statement: كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ (Similarly (to complete My favor on you), We have sent among you a Messenger (Muhammad) of your own), means: Therefore, remember Me in gratitude to My favor. Al-Hasan Al-Basri commented about Allah's statement: فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ (Therefore remember Me. I will remember you), "Remember Me regarding what I have commanded you and I will remember you regarding what I have compelled Myself to do for your benefit (i.e., His rewards and forgiveness)." An authentic Hadith states: يَقُولُ اللهُ تَعَالَى مَنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي وَمَنْ ذَكَرَنِي فِي مَلٍَ ذَكَرْتُهُ فِي مَلٍَ خَيْرٍ مِنْه Allah the Exalted said, `Whoever mentions Me to himself, then I will mention him to Myself; and whoever mentions Me in a gathering, I will mention him in a better gathering.' Imam Ahmad reported that Anas narrated that Allah's Messenger said: قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ يَا ابْنَ ادَمَ إِنْ ذَكَرْتَنِي فِي نَفْسِكَ ذَكَرْتُك فِي نَفْسِي إِنْ ذَكَرْتَنِي فِي مَلَاٍ ذكَرْتُكَ فِي مَلَاٍ مِنَ الْمَلَايِكَةِ أَوْ قَالَ فِي مَلَاٍ خَيْرٍ مِنْهُ وَإِنْ دَنَوْتَ مِنِّي شِبْرًا دَنَوْتُ مِنْكَ ذِرَاعًا وَإِنْ دَنَوْتَ مِنِّي ذِرَاعًا دَنَوْتُ مِنْكَ بَاعًا وَإنْ أَتَيْتَنِي تَمْشِي أَتَيْتُكَ هَرْوَلَة Allah the Exalted said, `O son of Adam! If you mention Me to yourself, I will mention you to Myself. If you mention Me in a gathering, I will mention you in a gathering of the angels (or said in a better gathering). If you draw closer to Me by a hand span, I will draw closer to you by forearm's length. If you draw closer to Me by a forearm's length, I will draw closer to you by an arm's length. And if you come to Me walking, I will come to you running. Its chain is Sahih, it was recorded by Al-Bukhari. Allah said: ... وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِ ...and be grateful to Me (for My countless favors on you) and never be ungrateful to Me.) In this Ayah, Allah commands that He be thanked and appreciated, and promises even more rewards for thanking Him. Allah said in another Ayah: وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَيِن شَكَرْتُمْ لاَزِيدَنَّكُمْ وَلَيِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِى لَشَدِيدٌ And (remember) when your Lord proclaimed: "If you give thanks (by accepting faith and worshipping none but Allah), I will give you more (of My blessings); but if you are thankless (i.e., disbelievers), verily, My punishment is indeed severe. (14:7) Abu Raja' Al-Utaridi said: Imran bin Husayn came by us once wearing a nice silken garment that we never saw him wear before or afterwards. He said, "Allah's Messenger said: مَنْ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِ نِعْمَةً فَإِنَّ اللهَ يُحِبُّ أَنْ يَرَى أَثَرَ نِعْمَتِهِ عَلَى خَلْقِه Those whom Allah has favored with a bounty, then Allah likes to see the effect of His bounty on His creation), or he said, عَلَى عَبْدِه "on His servant" - according to Ruh (one of the narrators of the Hadith).

موسیٰ علیہ السلام اللہ رب العزت سے عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ تیرا شکر کس طرح کروں ارشاد ہوتا ہے مجھے یاد رکھو بھولو نہیں یاد شکر ہے اور بھول کفر ہے حسن بصری وغیرہ کا قول ہے کہ اللہ کی یاد کرنے والے کو اللہ بھی یاد کرتا ہے اس کا شکر کرنے والے کو وہ زیادہ دیتا ہے اور ناشکرے کو عذاب کرتا ہے بزرگان سلف سے مروی ہے کہ اللہ سے پورا ڈرنا یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے نافرمانی نہ کی جائے اس کا ذکر کیا جائے غفلت نہ برتی جائے اس کا شکر کیا جائے ناشکری نہ کی جائے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے سوال ہوتا ہے کہ کیا زانی ، شرابی ، چور اور قاتل نفس کو بھی یاد کرتا ہے؟ فرمایا ہاں برائی سے ، حسن بصری فرماتے ہیں مجھے یاد کرو یعنی میرے ضروری احکام بجا لاؤ میں تمہیں یاد کروں گا یعنی اپنی نعمتیں عطا فرماؤں گا سعید بن جیر فرماتے ہیں میں تمہیں بخش دوں گا اور اپنی رحمتیں تم پر نازل کروں گا حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ کا یاد کرنا بہت بڑی چیز ہے ایک قدسی حدیث میں ہے جو تجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے میں اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور جو مجھے کسی جماعت میں یاد کرتا ہے میں بھی اسے اس سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں ۔ مسند احمد میں ہے کہ وہ جماعت فرشتوں کی ہے جو شخص میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھاتا ہوں اور اگر تو اے بنی آدم میری طرف ایک ہاتھ بڑھائے گا میں تیری طرف دو ہاتھ بڑھاؤں گا اور اگر تو میری طرف چلتا ہوا آئے گا تو میں تیری طرف دوڑتا ہوا آؤں گا صحیح بخاری میں بھی یہ حدیث ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت اس سے بھی زیادہ قریب ہے پھر فرمایا میرا شکر کرو ناشکری نہ کرو اور جگہ ہے آیت ( لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ ) 14 ۔ ابراہیم:7 ) یعنی تیرے رب کی طرف سے عام آگہی ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں برکت دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو یاد رکھنا میرا عذاب سخت ہے ، مسند احمد میں ہے کہ عمربن حصین ایک مرتبہ نہایت قیمتی حلہ پہنے ہوئے آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ جب کسی پر انعام کرتا ہے تو اس کا اثر اس پر دیکھنا چاہتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

152۔ 1 پس ان نعمتوں پر تم میرا ذکر کرو اور شکر کرو۔ کفران نعمت مت کرو۔ ذکر کا مطلب ہر وقت اللہ کو یاد کرنا ہے، یعنی اس کی تسبیح اور تکبیر بلند کرو اور شکر کا مطلب اللہ کی دی ہوئی قوتوں اور توانائیوں کو اس کی اطاعت میں صرف کرنا ہے۔ خداداد قوتوں کو اللہ کی نافرمانی میں صرف کرنا، یہ اللہ کی ناشکر گزاری (کفران نعمت) ہے شکر کرنے پر مزید احسانات کی نوید اور ناشکری پر عذاب شدید کی وعید ہے۔ جیسے (لَئِنْ شَکَرْ تُمْ لَاَزَیْدَنَّکُمْ ْ وَلَئِنَ کَفَرْ تُمْ اِنَّ عذَابِیْ لَشَدِیْد) 014:007

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩٠] لہذا تمہیں لازم ہے کہ ہر دم مجھے یاد کرتے رہو، اور اگر تم مجھے یاد کرو گے تو میں تمہیں یاد کروں گا چناچہ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں اگر وہ مجھے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ کسی مجمع میں مجھے یاد کرے تو میں اس سے بہتر جماعت میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے نزدیک ہوتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے نزدیک ہو تو میں ایک کلاوہ (دونوں بازو پھیلائے) اس کے قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ چلتا ہوا میرے پاس آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔ && (بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللّٰہ (وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ ۭ 28 ؀) 3 ۔ آل عمران :28) [ ١٩١] اللہ کا شکر ادا کرنے سے اللہ تعالیٰ وہ نعمت بحال ہی نہیں رکھتے بلکہ مزید بھی عطا فرماتے ہیں اور ناشکری کی صورت میں وہ نعمت ہی نہیں چھنتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا بھی ملتی ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : آیت (لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ ۝) 14 ۔ ابراھیم :7) && اگر تم شکر کرو گے تو میں اور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو (سمجھ لو) کہ میرا عذاب سخت ہے۔ &&

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ړفَاذْكُرُوْنِيْٓ) اس میں ” فاء “ کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنے رسول اور قرآن کے ذریعے سے نعمت پوری کرنے کا انعام تم پر کیا ہے، سو تم پر بھی لازم ہے کہ تم مجھے یاد کرو اور یاد رکھو۔ ذکر کا معنی زبان سے یاد کرنا بھی ہے اور دل اور عمل سے بھی۔ یہ نسیان (بھولنے) کی ضد ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ۠ وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ ) [ آل عمران : ١٣٥ ] ” اور وہ لوگ کہ جب کوئی بےحیائی کرتے ہیں، یا اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں، تو اللہ کو یاد کرتے ہیں، پس اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں۔ “ جب کوئی شخص اللہ کے کسی حکم پر عمل کرتا ہے، نیکی کا حکم دیتا ہے، برائی سے روکتا ہے تو وہ بھی اللہ کو یاد کرتا ہے، یاد کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ روزانہ لاکھ مرتبہ زبان سے ذکر کیا جائے اور اللہ کے احکام کو اور اس کی ڈالی ہوئی ذمہ داریوں کو بھلا ہی دیا جائے۔ کفار خواہ تمام بلاد اسلام پر قابض ہوجائیں ہمیں اپنی روزانہ کی ہزار رکعت پوری کرنے ہی سے فرصت نہ ہو۔ (اَذْكُرْكُمْ ) ” میں تمہیں یاد کروں گا “ یہ اللہ کو یاد کرنے کی سب سے بڑی فضیلت ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو شخص مجھے اپنے نفس میں یاد کرے، میں اسے اپنے نفس میں یاد کرتا ہوں اور جو مجھے کسی جماعت میں یاد کرے، میں اس سے بہتر جماعت میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ “ [ بخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ : ( و یحذرکم اللہ ۔۔ ) : ٧٤٠٥۔ مسلم، الذکر والدعاء والاستغفار، باب الحث علی ذکر اللہ تعالیٰ : ٢٦٧٥ ] ( وَاشْكُرُوْا لِيْ ) شکر زبان سے بھی ہوتا ہے اور عمل سے بھی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِعْمَلُوْٓا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًا ۭ ) [ سبا : ١٣ ] ” اے داؤد کے گھر والو ! شکر ادا کرنے کے لیے عمل کرو۔ “ عمل نعمت کے مطابق نہ ہو تو شکر بھی نہیں۔ (وَلَا تَكْفُرُوْنِ ) اس میں ہر ناشکری اور کفر شامل ہے، وہ زبان سے ہو یا عمل سے۔ زبان سے تو الحمد للہ کہنا، لیکن بیٹوں کا نام پیراں دتہ رکھنا، غیر اللہ کو خدائی اختیارات کا مالک سمجھنا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان جنگ سن کر بھی سود کھائے جانا، گھر میں بےحیائی کو فروغ دیتے جانا، رشوت لے کر اسے فضل ربی قرار دینا، صدقے یا رسول اللہ کہنا اور ڈاڑھی منڈوا کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حسین صورت سے بےزاری کا اظہار شکر نہیں، بلکہ کفر اور ناشکری کی بدترین صورتیں ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The merits of &Dhikr& ذکر (Rememberance) Dhikr ذکر : or |"Remembrance|" essentially pertains to the heart, but in so far as the tongue is the interpreter of the heart the oral recitation of a Divine Name or a verse of the Holy Qur&an is also described as Dhikr ذکر . In other words, oral Dhikr ذکر can be worth the name only when it is accompanied by the |"remembrance|" of the heart. As the great Sufi poet Rumi points out, the recitation of a Divine Name can have no effi¬cacy if one keeps thinking of cows and donkeys while repeating it me¬chanically with the tongue. One must, however, bear in mind that even a mechanical Dhikr ذکر without the heart being engaged in it is not altogether futile. It is related that the great Sufi Abu ` Uthman, hear¬ing a man complain of such a situation, remarked that one should be grateful to Allah even for this favour of having drawn at least one or¬gan of the body, the tongue, into His service. (Qurtubi) The merits of Dhikr ذکر are, indeed, innumerable. What greater merit could one wish for than the assurance that when a man |"remembers|" Allah, He too |"remembers|" him. Abu ` Uthman once claimed that he knew the time when Allah remembered His servants. The listeners grew curious as to how he could determine this. He replied that, according to the promise made in the Holy Qur&an, when a Muslim remembers Allah, He too remembers him, and thus everyone can know for himself that as soon as he turns to Allah and remembers Him, Allah too remembers him. Let us add that Verse 152 means to say that if men |"remember|" Allah by obeying His commandments, He will |"remember|" them by granting His pardon and His rewards. The commentator Said ibn Jubayr has, in fact, interpreted the Dhikr ذکر or |"Remembrance|" of Allah as obedience and submission to Him. He says: فمن لم یطعہ لم یذکرہ وان کثر صلاتہ وتسبیحہ |"He who has not obeyed Him has not remembered Him, even though he has kept himself externally busy in offering (nafl نفل : supererogatory) prayers and reciting His praises.|" This explanation is fully supported by a hadith cited by Al-Qurtubi on the authority of |"Ahkam al-Qur&an احکام القرآن |" by Ibn Khuwayz Mandadh. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said that one who has been obeying Allah – that is, following the injunctions with regard to the lawful (Halal حلال ) and the unlawful (Haram حرام ) - has truly been remembering Allah, in spite of being deficient in (nafl نفل : supererogatory) prayers and fasting, while one who has been disobeying divine commandments has, in fact, forgotten Allah, in spite of devoting long hours to nafl نفل prayers, fasting and recitation of His praises. The great Sufi Master Dhu al-Nun al-Misri has said that the man who remembers Allah in the full sense of the term forgets everything else, and that, in reward of such a total absorption, Allah Himself takes care of all his concerns, and grants him something far more valuable for everything he loses. Similarly, the blessed Companion Mu` adh (رض) has remarked that in so far as winning absolution from divine wrath is concerned, no good deed on the part of man can compare with Dhikr ذکر . And in a hadith reported by the blessed Companion Abu Hurayrah (رض) ، Allah Himself says that so long as the servant keeps remembering Him and his lips keep moving in Dhikr ذکر ، Allah is with him (for a more elaborate discussion of the subject, see Dhikrulldh ذکراللہ by the author).

ذکر اللہ کے فضائل : بے شمار ہیں اور یہی ایک فضیلت کچھ کم نہیں ہے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے یاد فرماتے ہیں ابو عثمان نہدی نے کہا کہ میں اس وقت کو جانتا ہوں جس وقت اللہ تعالیٰ ہمیں یاد فرماتے ہیں لوگوں نے کہا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوسکتا ہے فرمایا اس لئے کہ قرآن کریم کے وعدے کے مطابق جب کوئی بندہ مومن اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے یاد کرتے ہیں اس لئے سب کو یہ سمجھ لینا آسان ہے کہ جس وقت ہم اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول ہوں گے تو اللہ تعالیٰ بھی یاد فرمائیں گے، اور معنی آیت کے یہ بھی ہیں کہ تم مجھے اطاعت احکام کے ساتھ یاد کرو تو میں تمہیں ثواب اور مغفرت کے ساتھ یاد کروں گا حضرت سعید بن جبیر نے ذکر اللہ کی تفسیر ہی اطاعت و فرمانبرداری سے کی ہے وہ فرماتے ہیں، فمن لم یطعہ لم یذکرہ وان کثر صلوتہ و تسبیحہ۔ یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی نہ کی اس نے اللہ کو یاد نہیں کیا اگرچہ ظاہر میں اس کی نماز اور تسبیح کتنی بھی ہو، ذکر اللہ کی اصل حقیقت : قرطبی نے بحوالہ احکام القرآن ابن خویز منذاذ ایک حدیث بھی اس مضمون کی نقل کہ ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی یعنی اس کے احکام حلال و حرام کا اتباع کیا اس نے اللہ کو یاد کیا اگرچہ اس کی (نفل) نماز روزہ وغیرہ کم ہوں اور جس نے احکام خداوندی کی خلاف ورزی کی اس نے اللہ کو بھلا دیا اگرچہ (بظاہر) اس کی نماز روزہ تسبیحات وغیرہ زیادہ ہوں، حضرت ذوالنون مصری نے فرمایا کہ جو شخص حقیقی طور پر اللہ کو یاد کرتا ہے وہ اس کے مقابلے میں ساری چیزوں کو بھول جاتا ہے اور اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ خود اس کے لئے ساری چیزوں کی حفاظت کرتے ہیں اور تمام چیزوں کا عوض اس کو عطا کردیتے ہیں، اور حضرت معاذ نے فرمایا کہ انسان کا کوئی عمل اس کو خدا تعالیٰ کے عذاب سے نجات دلانے میں ذکر اللہ کے برابر نہیں اور ایک حدیث قدسی بروایت ابوہریرہ میں ہے کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب تک وہ مجھے یاد کرتا ہے اور میرے ذکر میں اس کے ہونٹ ہلتے رہیں ذکر اللہ کے فضائل بیشمار ہیں ان کا مختصر خلاصہ احقر نے اپنے رسالہ ذکر اللہ میں جمع کردیا ہے،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ۝ ١٥٢ ۧ ذكر الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل : الذّكر ذکران : ذكر بالقلب . وذکر باللّسان . وكلّ واحد منهما ضربان : ذكر عن نسیان . وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] ، وقوله : هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] ، أي : شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] ، أي : الکتب المتقدّمة . وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه . وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) . ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] ، وقوله : فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته، ( ذک ر ) الذکر ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي : ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔ كفر ( ناشکري) الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] ؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ می۔ 5 کفران کے متعلق فرمایا : ۔ لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

ذکر اللہ کے وجوب کا بیان قول باری ہے : فاذکرونی اذکرکم ( لہٰذا تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا) یہ آیت اللہ کی یاد کے امر اور حکم کو متضمن ہے۔ ہم اللہ کو کئی طریقوں سے یاد کرسکتے ہیں، اس بارے میں سلف سے کئی اقوال منقول ہیں۔ ایک قول کے مطابق آیت کا مفہوم یہ ہے تم مجھے میری اطاعت کے ذریعے یاد رکھو میں تمہیں اپنی رحمت کے ذریعے یاد رکھوں گا۔ ایک اور قول ہے تم مجھے میری نعمتوں پر حمد و ثناء کے ذریعے یاد رکھو میں تمہیں تمہاری اطاعت کو سراہنے کے ذریعے یاد رکھوں گا۔ ایک اور قول ہے تم مجھے شکر کے ذریعے یاد رکھو میں تمہیں ثواب کے ذریعے یاد رکھوں گا۔ ایک اور قول کے مطابق تم مجھے دعا کے ذریعے یاد رکھو میں تمہیں دعا کی قبولیت کے ذریعے یاد رکھوں گا۔ تاہم آیت کے الفاظ ان تمام معانی کا احتمال رکھتے ہیں۔ آیت کے الفاظ ان سب کوش امل اور ان سب کو متحمل ہیں۔ اگر یہاں کہاجائے کہ یہ جائز نہیں ہے کہ ایک ہی فقط سے تمام معانی کو اللہ کی مراد قرار دیاجائے کیونکہ مذکورہ لفظ مختلف معانی میں مشترک ہیں، تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے اس لئے کہ یاد الٰہی کی یہ تمام مختلف صورتیں ایک ہی معنی کی طرف راجع ہوتی ہیں ذکر کا لفظ ایسا ہی ہے جیسے انسان کا اسم جو مذکر اور مونث سب کو شامل ہے یا اخواہ کا لفظ جو عینی، علاتی اور اخیانی تمام بھائیوں کو شامل ہے۔ اسی طرح لفظ شراکت اور اس جیسے دیگر الفاظ ہیں ان کا اطلاق اگرچہ مختلف معانی پر ہوتا ہے لیکن جس وجہ سے ان سب کو ایک نام دیاجاتا ہے وہ ہم معنی ہوتا ہے۔ یہی کیفیت ذکر اللہ کے لفظ کی ہے اس میں چونکہ طاعت کا معنی ہے اور اللہ کی طاعت کبھی ذکر باللسان سے کی جاتی ہے کبھی اعضاء وجو اروح سے صادر ہونے والے افعال و اعمال کے ذریعے کبھی اعتقاد قلب کے ذریعے، کبھی اس کی ذات کی نشاندہی کرنے والے دلائل سے، کبھی اس کی عظمت کے بارے میں غور و فکر کے ذریعے اور کبھی اس کے سامنے دست و عادرازکر نے اور اسے پکارنے سے، اس لئے ایک لفظ کے اندر ان تمام معانی کا ارادہ کرلیناجائز ہے جس طرح خود لفظ طاعت ہے کہ اس کے ذریعے مختلف قسموں کی تمام طاعات کا ارادہ کرنا درست ہے جبکہ طاعت کا حکم علی الاطلاق وارد ہو مثلاً یہ قول باری : اطیعو اللہ واطیعو الرسول ( اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو) ۔ اسی طرح لفظ معصیت ہے شریعت میں مذکور نہی کا لفظ معصیت کی تمام تر صورتوں کو شامل ہے۔ اس بنا پر قول باری : فاذکرونی ذکر الٰہی کی تمام صورتوں کے امرا ور حکم کو متضمن ہے ذکر کی ایک صورت تو اللہ کی اطاعت کی تمام شکلیں ہیں اور اطاعت ذکر الٰہی کی سب سے بڑھ کر عمومی صورت ہے۔ ذکر کی دوسری صورت یہ ہے کہ زبان سے اللہ کی ذات کی تعظیم کے لئے حمد و ثناء کی جائے۔ نیز شکر کے طورپر اور اس کی نعمتوں کے اعتراف کے طورپر اس کا نام لیاجائے اور ذکر الٰہی کی تیسری صورت یہ ہے کہ لوگوں کو اس کی ذات کی طرف بلا کر اس کی ذات کی نشاندہی کرنے والے دلائل و براہین سے آگاہ کرکے انہیں ان میں غورو فکر کی دعوت دی جائے اور اس کا ذکر کیا جائے۔ اسی طر ح لوگوں کے سامنے اللہ کی واحدانیت اور اس کی حکمت و قدرت ثابت کرکے نیز اس کی آیات و بنیات کی طرف توجہ دلا کر اس کا ذکر کیا جائے۔ ذکر الٰہ کی یہ تیسری قسم ذکر کی سب سے افضل قسم ہے اور ذکر کی دیگر تمام صورتیں اس پر مبنی اور اسی کی تابع ہیں اس کے ذریعے ہی یقین و طمانیت قلب حاصل ہوتی ہے۔ ارشاد باری ہے الا بذکر اللہ تطمئن القلوب ( آگاہ رہو اللہ ہی کی یاد سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے) اس سے ذکر قلب مراد ہے جو اللہ کی ذات کی نشاندہی کرنے والے دلائل و براہین نیز اس کی ایات و بنیات پر غور و فکر کا دوسرا نام ہے) ۔ ان دلائل و براہین نیز آیات و بینات پر غور و فکر میں جس قدر اضافہ ہوگا اسی قدر قلوب کو زیادہ اطمینان اور سکون نصیب ہوگا۔ یہی وہ افضل ذکر ہے جس کے ثبوت پر تمام اذکار درست ہوئے اور ان کا حکم ثابت ہوتا ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بہترین ذکر وہ ہے جو خفی ہو یعنی دل میں کیا جائے۔ ابن قانع نے روایت بیان کی ہے کہ ان سے عبدالمالک بن محمد نے، ان سے مسدد نے، ان سے یحییٰ نے اسامہ بن زید سے، انہوں نے محمد بن عبدالرحمن سے انہوں نے حضرت سعد بن مالک (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بہترین ذکر وہ ہے جو خفی ہو اور بہترین رزق وہ ہے جو کافی ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٢) اور اطاعت کے ذریعے مجھے بخوبی یاد کرو، میں جنت کے ساتھ تمہیں یاد کروں گا۔ ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ فراخی اور خوشحالی میں مجھے یاد کرو میں تنگیوں اور پریشانیوں میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میری نعمت کا شکر ادا کرو اور اس شکر گزاری کو ہرگز بھی نہ چھوڑو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٢ (فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ ) یہ اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان ایک بہت بڑا میثاق اور معاہدہ ہے۔ اس کی شرح ایک حدیث قدسی میں بایں الفاظ آئی ہے : (اَنَا مَعَہٗ اِذَا ذَکَرَنِیْ ‘ فَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہٗ فِیْ نَفْسِیْ ‘ وَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ مَلَاءٍ ذَکَرْتُہٗ فِیْ مَلَاءٍ خَیْرٍ مِنْھُمْ ) (١٦) میرا بندہ جب مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے پاس ہوتا ہوں ‘ اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے جی میں یاد کرتا ہوں ‘ اور اگر وہ مجھے کسی محفل میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہت بہتر محفل میں یاد کرتا ہوں۔ اس کی محفل تو بہت بلند وبالا ہے ‘ وہ ملأاعلیٰ کی محفل ہے ‘ ملائکہ مقربین کی محفل ہے۔ امیر خسروؔ معلوم نہیں کس عالم میں یہ شعر کہہ گئے تھے : ؂ خدا خود میر محفل بود اندر لامکاں خسروؔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم ! (وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلاَ تَکْفُرُوْنِ ) میری نعمتوں کا ادراک کرو ‘ ان کا شعور حاصل کرو۔ زبان سے بھی میری نعمتوں کا شکر ادا کرو اور اپنے عمل سے بھی ‘ اپنے اعضاء وجوارح سے بھی ان نعمتوں کا حق ادا کرو۔ یہاں اس سورة مبارکہ کا نصف اوّل مکمل ہوگیا ہے جو اٹھارہ رکوعوں پر مشتمل ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:152) اذکرکم۔ اذکر۔ مضارع مجزوم (بوجہ جواب شرط) کا صیغہ متکلم ذکر مصدر سے۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ میں تم کو یاد رکھوں گا۔ لاتکفرون۔ فعل نفی جمع مذکر حاضر۔ ن وقایہ اور ی ضمیر واحد متکلم مذوف ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 فاذکر ونی فار تفر یع لاکر اشارہ فرمایا ہے کہ مذکورہ انعامات کا تقاضا یہ ہے کہ میری شکرگزاری کے لیے مجھے دیا کرتے ہو ذکر الہی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبر داری کا نان ہے ایک حدیث میں ہے من اطاع اللہ فقد ذکر اللہ یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا ایسی احادیث میں ذکر کی بہت فضیلت آئی ہے ( ابن کثیر ) ، ( نیز دیکھئے سورت احزاب 41)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نعمتوں کے بدلے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور شکر کرنا چاہیے۔ بیت اللہ کو مرکز بنانا ‘ امّتِ مسلمہ کو پیشوائی کے منصب پر فائز کرنا، تبدیلی سے قبل کی نمازوں کا اجر عطا فرمانا، بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دینے کے بجائے صرف اس سمت رخ کرنے کی سہولت عنایت فرمانا، نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صورت میں مہربان مربیّ اور عظیم قائد عطا فرما کر حکم دیا جارہا ہے کہ ہمیشہ مجھے یاد رکھنا اور میرے شکر گزار رہتے ہوئے میرے احکام کی بجاآوری کرتے رہنا کسی کا خیال اور خوف دل میں ہرگز نہ لانا تاکہ تمہیں ہدایت کے راستے پر استقامت اور مزید رہنمائی سے نوازا جائے۔ ذکر کی اہمیّت ذکر کی جامع تعریف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری کے ساتھ اس کی ذات اور صفات پر کامل یقین رکھتے ہوئے اسے دل اور زبان کے ساتھ یاد رکھا جائے۔ تمام عبادات ذکر ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ لیکن ان کی ادائیگی کے بعد بھی حکم دیا گیا ہے کہ اپنے رب کو کثرت کے ساتھ یاد رکھاکرو ‘ جب تم نماز پوری کرلو تو اٹھتے ‘ بیٹھتے اور لیٹتے وقت اللہ کو یاد کیا کرو۔ (فَإِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْج) [ النساء : ١٠٣] ” جب تم نماز ادا کر چکو تو کھڑے بیٹھے اور پہلوؤں پر اللہ کا ذکر کرو۔ “ ذکر کی مختلف صورتیں : (اِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَاف بالْبَیْتِ وَبَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ وَرَمْیُ الْجِمَارِ لِاِقَامَۃِ ذِکْرِ اللّٰہِ ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب المناسک ‘ باب فی الرمل ] ” یقیناً ! بیت اللہ کا طواف ‘ صفا ومروہ کی سعی اور شیاطین کو کنکریاں مارنا اللہ کا ذکر بلند کرنے کے لیے مقرر کیے گئے۔ “ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا مَعَ عَبْدِيْ حَیْثُمَا ذَکَرَنِيْ وَتَحَرَّکَتْ بِيْ شَفَتَاہُ ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ لاتحرک بہ لسانک الخ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں ‘ وہ جہاں کہیں بھی میرا ذکر کرے اور اس کے ہونٹ میرے ذکر میں حرکت کریں۔ “ فضیلت شکر یہاں شکر کے مقابلے میں کفر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا معنیٰ ہے ناشکری اور ناقدری کرنا۔ گویا اللہ تعالیٰ کے احسانات اور نعمتوں کی ناقدری کرنے والا بالفعل کفر ہی کا ارتکاب کرتا ہے۔ شرف انسانیت کا تقاضا ہے کہ آدمی ہر حال میں اپنے رب کا شکر گزار بننے کی کوشش کرے۔ شکر رب سے مانگنے کا سلیقہ اور زوال نعمت سے محفوظ رہنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مزید عنایات کا دروازہ کھولتا ہے۔ انسان شکر تبھی ادا کرتا ہے جب اس کے دل میں اپنے رب کی نعمتوں اور احسانات کا شعور اور احساس پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دین کے کسی عمل کے بارے میں بیک وقت یہ نہیں فرمایا کہ اس کے کرنے سے تم عذاب سے محفوظ اور مزیدملنے کے حق دار بن جاؤ گے۔ صرف شکر ہی ایک ایسا عمل ہے جس کے بارے میں واضح طور پر فرمایا ہے : کہ تمہیں عذاب سے محفوظ رکھنے کے ساتھ مزید عنایات سے نوازا جائے گا۔ اس دوہرے انعام کی وجہ سے شیطان نے سر کشی اور بغاوت کی حدود پھاندتے ہوئے کہا تھا : (وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شَاکِرِیْنَ ) [ الأعراف : ١٧] ” اے رب تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا۔ “ رسول گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاذ بن جبل (رض) کو یہ دعا سکھلائی کہ اسے ہر نماز کے بعد پڑھا جائے۔ (أَللّٰھُمَّ أَعِنِّيْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب فی الإستغفار ] ” الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت پر میری مدد فرما۔ “ مسائل ١۔ ذکر کرنے والے کو اللہ تعالیٰ ہر حال میں یاد رکھتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا ہر دم شکریہ ادا کرتے رہنا چاہئے۔ ٣۔ ناشکری کفر کے مترادف ہے۔ تفسیر بالقرآن شکر کی فضیلت : ١۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار بندوں کا قدر دان ہے۔ (النساء : ١٤٧) ٢۔ شیطان کا مقصد انسان کو ناشکرا بنانا ہے۔ (الاعراف : ١٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے تھوڑے ہی ہوا کرتے ہیں۔ (سبا : ١٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے آنکھ ‘ کان اور دل اس لیے دیئے ہیں کہ اس کا شکر ادا کیا جائے۔ (السجدۃ : ٩) ٥۔ شکر ادا کرنے والے کو مزید عطا کیا جاتا ہے۔ (ابراہیم : ٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ ” تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ “ یہ وہ کرم ہے جس کا صدور صرف اللہ تعالیٰ ہی سے ہوسکتا ہے جس کے خزانوں میں کمی نہیں ، جس کے خزانوں پر کوئی چوکیدار نہیں اور جس کی دادوہش کا نہ حساب ہے ، نہ محاسب ۔ اس کے خزانوں سے طلب اور بلاسبب دادوہش ہوتی رہتی ہے ، اس لئے نہیں کہ ضرورت مند ہے ، بلکہ اس کے وہ معطی ہے ، وہ فیاض ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے :” جس نے مجھے دل میں یاد کیا میں بھی اسے دل میں یاد کروں گا ، جس نے مجھے بھری مجلس میں یاد کیا میں بھی اسے ایسے لوگوں میں یاد کروں گا ، جو اس کے لوگوں سے افضل واخیر ہوں گے۔ “ (حدیث صحیح) ایسی ہی ایک دوسری حدیث شریف کا مضمون ہے !” رسول اللہ فرماتے ہیں ” اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” اے بنی آدم ! اگر تو نے مجھے دل میں یاد کیا میں بھی تجھے دل میں یاد کروں گا اور اگر تونے مجھے لوگوں میں یاد کیا تو میں بھی تجھے ملائکہ میں یاد کروں گا۔ “ بعض روایات میں آتا ہے ” ایسے لوگوں میں جو ان سے بہتر ہوں گے ۔ اگر تو ایک بالشت میرے قریب آئے گا میں ایک ہاتھ تیرے قریب آؤں گا ۔ اگر تم ایک ہاتھ میرے قریب آؤگے تو میں دوہاتھ تیرے قریب آؤں گا ۔ اگر تو میری طرف چل کر آئے گا تو میں تیری طرف دوڑ کر آؤں گا۔ “ یہ ہے وہ فضل وکرم جس کا بیان الفاظ میں نہیں ہوسکتا ۔ اس کا شکر ، سوائے اس کے کہ دل اپنی گہرائیوں کے ساتھ سجدہ ریز ہوجائے ، ادا نہیں ہوسکتا۔ اللہ کی یاد کیسے ہو ، الفاظ ضروری نہیں ہیں ، یہ تو دل کی توجہ ہے ۔ دل کا اللہ کی طرف متوجہ ہونا ہے ، چاہے الفاظ ساتھ ہوں یا نہ ہوں ۔ یاد تو ایک دلی شعور ہے اور انفعال ہے اور اس شعور وانفعال کے ادنیٰ اثرات یہ ہوں کہ انسان اللہ کی اطاعت پر آمادہ ہوجائے اور اعلیٰ اثرات یہ ہوں کہ انسان کو اللہ کا دیدار نصیب ہو ، جو لوگ وصول الی اللہ کی نعمت سے سرفراز ہوتے ہیں اور جو ذوق دیدار چکھ لیتے ہیں ان کے پیش نظر اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ صرف دیداریار۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ ” میرا شکر ادا کرو اور کفر نہ کرو۔ “ شکر کے بھی کئی درجے ہوتے ہیں ۔ پہلا یہ کہ انسان اللہ تعالیٰ کے انعامات کا اقرار کرے ۔ اور پھر اس کی نافرمانی سے حیا کرے ۔ اور آخری درجہ یہ ہے کہ انسان مجسمہ شکر بن جائے ۔ بدن کی ہر حرکت ، زبان کا ہر لفظ ، دل کی ہر دھڑکن اور دماغ کا ہر تصور نمونہ شکر ہو ۔ کفر سے روکا گیا ہے ۔ اشارہ اس آخری مقام کی طرف ہے ، جس تک آخرکار ایک ناشکر گزار انسان پہنچ جاتا ہے ۔ لاتکفرون سے وہ آخری نکتہ بتایا گیا ہے جہاں ناشکری کے خط کی انتہا ہوجاتی ہے ۔ العیاذ باللہ ۔ تحویل قبلہ کے موقع پر اشتباہ اور ہدایات بالکل واضح اور مناسب ہیں ۔ ذکر الٰہی وہ نقطہ ہے جہاں آکر مومن کا دل اللہ کی عبادت کے لئے تیار ہوتا ہے ۔ پھر وہ ایک خالصتاً اللہ کا ہوجاتا ہے اور اسی نسبت سے منسوب ہوتا ہے ، یعنی بندگی کی وجہ سے بندہ ہوجاتا ہے۔ یہودی سازشوں سے خبردار کرنے کے موقع پر بھی فکر وشکر کی ہدایت دینا مناسب ہے ۔ ہم کہہ آئے ہیں کہ یہودیوں کا آخری مقصد یہ تھا کہ مومنین کو دوبارہ کفر میں داخل کردیں ۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں سے یہ نعمت چھن جائے ، جو بطور خاص اللہ نے انہیں دی تھی ۔ کیا نعمت ؟ نعمت ایمان ۔ وہ بلند ترین نعمت جو کسی فرد یا کسی جماعت کو دی جاسکتی ہے ۔ خصوصاً عربوں کے لئے تو یہ ایک عظیم نعمت سے بھی عظیم تر تھی ۔ اسی سے تو عربوں کا وجود قائم ہوا۔ تاریخ آدمیت میں عربوں نے ایک عظیم رول ادا کیا ، ان کا نام اس نظریہ حیات سے منسلک ہوگیا جس کے وہ حامل تھے اور جسے انہوں نے بنی نوع آدم تک پہنچانا تھا۔ اسی نعمت کے بغیر عرب کچھ نہ تھے ۔ گمنام تھے ، اب بھی گمنام ہیں اور اگر وہ نہ ہو۔ آئندہ بھی گمنام ہوں گے اگر اسے نہ اپنائیں گے ۔ اسلامی نظریہ حیات کے سوا ان کے پاس تھا ہی کیا ؟ جس کے ذریعے وہ دنیا میں کوئی نام پیدا کرتے ، کیا کسی نظریہ حیات کے بغیر کوئی قوم دنیا میں مقام قیادت حاصل کرسکتی ہے ؟ مقام قیادت کے لئے ایسی فکر کی ضرورت ہے جو پوری زندگی کی قیادت کرتے ۔ انسانی حیات کو ترقی کی راہ دکھائے ۔ اسلامی نظریہ حیات دراصل زندگی کا پورا نظام ہے ۔ وہ صرف ایک نعرہ ہی نہیں ہے جس کے پیچھے مثبت عمل نہ ہو بلکہ ایسا عمل ہے جو اس نظریہ کی تائید کرے ۔ اسلام کے کلمہ طیبہ کے ساتھ ساتھ عمل طیب بھی ضروری ہے جو کلمہ کا مصداق ہو۔ امت کے لئے ضروری بلکہ فرض ہے کہ وہ اس حقیقت کو یاد رکھے تاکہ اللہ اسے یاد رکھے ۔ اور اللہ اسے نسیاً منسیاً نہ کردے اور جسے اللہ نے بھلادیا سمجھو وہ ڈوب گیا ۔ زمین پر اس کا ذکر خیر نہ رہے گا ۔ آسمانوں پر اس کا کوئی خیرخواہ نہ رہے گا۔ اور جو اللہ کو یاد کرے گا اللہ اسے یاد کرے گا ۔ آسمانوں پر بھی اس کا ذکر ہوگا ، اور طویل و عریض کائنات میں بھی اس کا ذکر خیر گونج اٹھے گا ۔ ایک وقت تھا کہ مسلمانوں نے اللہ کو یاد کیا ۔ پھر اللہ نے بھی انہیں یاد کیا۔ پھر کیا تھا ؟ ان کا نام پوری کائنات میں بلند ہوگیا ، دنیا کی قیادت صالح قیادت ان کے سپرد ہوگئی ۔ لیکن پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہوں نے رب ذوالجلال کو بھلادیا ۔ تو اس نے بھی ان کو بھلادیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ مہمل بن گئے ۔ ضائع ہوگئے ۔ وہ اقوام کی برادری میں حقیر تابع کے مقام تک جاگرے ۔ علاج اب بھی موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ بلاتا ہے ” تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔ میرا شکر ادا کرو اور کفر اختیار نہ کرو۔ “ درس ٩ ایک نظر میں تحویل قبلہ کے بعد اور امت مسلمہ کو ایک مستقل اور ممتاز حیثیت دینے اور ایسا تشخص عطا کرنے کے بعد ، جو اس امت کے ممتازنظریہ حیات کے ساتھ مناسب تھا ، مسلمانوں کو پہلی ہدایت یہ دی گئی کہ وہ صبر وصلوٰۃ سے مددلیں کیونکہ انہیں ایک عظیم ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ یہ منصب بڑی بڑی قربانیاں چاہتا ہے ۔ شہداء کو خون پیش کرنا ہوگا۔ جانی نقصان ، مالی نقصان ، متاع وثمرات کا نقصان برداشت کرنا ہوگا۔ وہ بھوک کے دن دیکھیں گے اور خوفناک راتوں سے دوچار ہوں گے۔ اس کے علاوہ انہیں بیشمار قربانیاں دینی ہوں گی ۔ ان سب قربانیوں کے لئے انہیں اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا۔ انہیں اپنے نفس سے اور اس پوری دنیا سے اسلامی نظام کے قیام کے لئے جہاد کرنا ہوگا ۔ اس عظیم جہاد کی خوفناکیوں کا مقابلہ کرنا ہوگا اور مقابلہ اور تیاری اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ اہل ایمان صبر وصلوٰۃ سے امداد حاصل کریں۔ انہیں اس امت کا دل اللہ سے جوڑنا ہوگا ۔ اپنے قلوب کو اللہ کے لئے خالص کرنا ہوگا اور اپنے تمام کاموں میں اللہ اور رسول اللہ کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ یہ سب کچھ کس لئے کیا کس انعام کے لالچ میں آیا اللہ کی رضامندی کے حصول کے لئے ؟ اس کی رحمت وہدایت کی طلبگاری کی خاطر ؟ کس قدر عظیم اجر ہے یہ ؟ اس کی قدر و قیمت دل مومن ہی سے پوچھئے !

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فَاذْ کُرُوْنِیٓ اَذْکُرْکُمْ کی تفسیر : مفسر بیضاوی لکھتے ہیں کہ فاذکرونی باطاعتی اذکرکم بالثواب یعنی تم مجھے فرمانبرداری کے ساتھ یاد کرو میں تمہیں ثواب دے کر یاد کروں گا، دل سے زبان سے اللہ کو یاد کرنا یہ بھی یاد ہے اور فرمانبرداری اور اطاعت میں لگنا یہ بھی یاد ہے۔ اللہ کے خوف سے گناہوں کو چھوڑ دینا یہ بھی یاد ہے محققین نے فرمایا ہے۔ کل مطیع اللہ فھو ذاکر۔ یعنی ہر وہ شخص جو اللہ کی فرمانبرداری میں مشغول ہو وہ ذاکر ہے۔ زبان سے یاد کرنے کی بھی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اپنے بندے کے ساتھ ہوں جب وہ مجھے یاد کرے اور میری یاد میں اس کے ہونٹ حرکت کریں (صحیح بخاری عن ابی ہریرۃ) اور ایک حدیث میں یوں ہے کہ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اپنے بندہ کے ساتھ ہوں جب وہ مجھے یاد کرے سو اگر اس نے مجھے تنہائی میں یاد کیا تو میں بھی اسے تنہا یاد کروں گا اور اگر وہ مجھے جماعت میں یاد کرے تو میں اسے ایسی جماعت میں یاد کرتا ہوں جو اس کی جماعت سے بہتر ہے۔ (یعنی عالم بالا کے درباری فرشتوں کے سامنے) ۔ (صحیح بخاری ایضاً عن ابی ہریرۃ) ذکر اللہ کے فضائل : احادیث شریفہ میں تسبیح تہلیل اور تکبیر میں مشغول ہونے کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں یوں کہوں کہ (سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر) تو یہ مجھے ان سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن چیزوں پر آفتاب طلوع ہو۔ (صحیح مسلم ص ٤٢٥ ج ٢) حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ کون سا کلام (ذکر کے لیے) سب سے زیادہ افضل ہے۔ آپ نے فرمایا جو اللہ نے اپنے فرشتہ کے لیے منتخب فرمایا یعنی (سُبْحَان اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ ) (رواہ مسلم ص ٣٥١ ج ٢) حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس نے یوں (سُبْحَان اللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہٖ ) اس کے لیے جنت میں ایک کھجور کا درخت لگا دیا جائے گا۔ (رواہ الترمذی فی ابواب الدعوات ) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں (قیامت کے دن) ترازو میں بھاری ہوں گے اور رحمن کو محبوب ہیں اور وہ یہ ہیں (سُبْحَان اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَان اللّٰہِ الْعَظِیْمِ ) (صحیح بخاری آخری حدیث) ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ اسلام کی باتیں تو بہت ہیں آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں جس میں لگا رہوں آپ نے فرمایا (لاَ یَزَالُ لِسَانُکَ رَطَبًا مِّنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ) یعنی تیری زبان ہر وقت اللہ کی یاد میں تر رہے۔ (رواہ الترمذی و حسنہ) حضرت ابو موسیٰ الاشعری (رض) نے بیان فرمایا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے چل رہا تھا اور دل میں (لاَ حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا باللّٰہِ ) پڑھ رہا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے عبداللہ بن قیس (یہ حضرت ابو موسیٰ اشعری کا نام ہے) کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتادوں ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ضرور ارشاد فرمائیں۔ آپ نے فرمایا وہ خزانہ (لاَ حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا باللّٰہِ ) ہے۔ (صحیح مسلم ص ٣٤٦ ج ٢) حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ کسی جگہ بیٹھ کر اللہ کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں ان کو فرشتے گھیر لیتے ہیں اور ان پر رحمت چھا جاتی ہے اور ان پر اطمینان کا نزول ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنے درباریوں میں یاد فرماتا ہے۔ (صحیح مسلم ص ٣٤٥ ج ٢) شکر کی فضیلت اور اہمیت : ذکر کا حکم فرمانے کے بعد شکر کا حکم فرمایا اور ارشاد فرمایا (وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلاَتَکْفُرُوْنِ ) (یعنی میرا شکر کرو اور میری ناشکری نہ کرو) ذکر کے ساتھ شکر ادا کرنا بھی لازم ہے۔ بندوں پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں جن کا شمار بھی بندوں کی قدرت سے باہر ہے۔ ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا واجب ہے۔ شکر میں یہ سب کچھ آجاتا ہے کہ نعمتوں کا اقرار کریں۔ قول اور فعل سے نعمتوں کا اظہار کریں۔ نعمتوں کی قدر دانی کریں۔ ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کریں اور نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت میں خرچ کریں۔ نعمتوں کا منکر ہونا ان کی ناقدری کرنا اور ان کو گناہوں میں خرچ کرنا ناشکری ہے۔ یہ کتنی بڑی حماقت ہے کہ نعمتیں اللہ تعالیٰ عنایت فرمائے اور ان نعمتوں کا استعمال اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں اور نفس و شیطان کی فرمانبرداری میں ہو۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں تو سبھی استعمال کرتے ہیں لیکن شکر گزار بندے کم ہیں جیسا کہ سورة سبا میں فرمایا۔ (وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ ) شکر بہت بڑی چیز ہے اس کی وجہ سے نعمتیں باقی بھی رہتی ہیں اور نعمتوں میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ اور ناشکری پر نعمتیں چھین لی جاتی ہیں۔ سورة ابراہیم (ع ٢) میں فرمایا۔ (وَ اٰتٰکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ) (اور اللہ تعالیٰ نے تم کو ان سب چیزوں میں سے دیا جن کا تم نے سوال کیا اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنے لگو تو شمار نہ کرسکو گے۔ بلاشبہ انسان بڑا ظالم ہے (اور بڑا ناشکرا ہے۔ ) بندوں کا یہی کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیں اس کی نعمتوں کو یاد کریں جب انہیں استعمال کریں تو اللہ کی حمد و ثنا میں مشغول ہوں۔ حدیث شریف کی کتابوں میں جو دعائیں وار دہوئی ہیں۔ ان میں نعمتوں پر بار بار اللہ کی حمد کا اعادہ کیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ الحمد راس الشکر ما شکر اللہ عبدٌ ولا یحمدہ (یعنی اللہ کی حمد کرنا اصل شکر ہے جو بندہ اللہ کی حمد بیان نہیں کرتا، اس نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا۔ ( رواہ البیہقی فی شعب الایمان کما فی المشکوٰۃ ص ٢٠١)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 جس طرح ہم نے کعبہ کو قبلہ مقرر کرکے تم پر اپنی نعمت کی تعمیل فرمائی اسی طرح ہم نے تم لوگوں میں ایک عظیم المرتبت رسول بھیجا جو تم میں ہی سے ہے اور اسکی شان یہ ہے کہ وہ تم کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ہی اور تم کو م شرکو کفر کی گندگی سے پاک کرتا ہے اور محاسن اخلاق کے ساتھ تمہیں سنوارتا ہے اور تم کو کتاب الٰہی کی تعلیم دیتا ہے اور اس کتاب الٰہی کے احکام کی حکمتیں اور ان کے رموز سکھاتا ہے اور فہم و دانش کی باتیں بتاتا ہے اور تم کو وہ وہ باتیں بتاتا ہے جن کی تم کو نہ تو خبر تھی اور جن کو نہ تم خود جان سکتے تھے لہٰذاتم مجھ کو یاد کرو میں بھی تم کو اپنی رحمت و مہربانی سے یاد رکھوں گا اور میرے احسانات کا شکر بجا لاتے رہو اور میری نافرمانی اور ناسپاسی نہ کرو۔ (تیسیر) کاف تشبیہہ میں بعض مفسرین نے اتمام نعمت کے سلسلے میں بجائے کعبہ کے آخرت کو اختیار فرمایا ہے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمانے کے ساتھ ربط دیا ہے۔ بعض نے فاذکرونی کے ساتھ اس کا کو ربط دیا ہے چونکہ اس قسم کی ترکیبوں میں وسعت ہے اس لئے جو ترکیب چاہیں اختیار کریں چونکہ کچھ احسانات اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا وغیرہ کے واقعات اوپر بیان ہوچکے ہیں اور آخر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا تذکرہ فرمایا ہے تو مطلب یہ ہے کہ ابتداء میں بھی احسان کا ذکر اور آخر میں بھی احسان کا ذکر کرنے سے یہ بات معلوم ہوجائے کہ امت محمدیہ کی زندگی حضرت حق کے احسانات میں گھری ہوئی ہے اور تمام زندگی اور تمام حالات ظاہری و باطنی حضرت حق کے انعامات اور احسانات پر مشتمل ہیں باقی آیات و احکام تزکیہ کتاب حکمت وغیرہ کے الفاظ وہی ہیں جو پہلے پارے کے آخر میں گزر چکے ہیں۔ ہم نے تیسیر میں کافی تفصیل کردی ہے مالم تکونو اتعلمون کا مطلب صاف ہے کہ جو باتیں بدون وحی الٰہی کے نہ معلوم ہوسکیں ان کو کس کی مجال ہے کہ سوائے انبیاء کے معلوم کرسکے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے اپنے پیغمبر کی معرفت وہ باتیں ہم کو بتائیں جس سے دنیا کے تمام انسان یکسرنا آشنا تھے جو دعا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تعمیر کعبہ کے زمانے میں فرمائی تھی وہ لفظ بہ لفظ پوری ہوئی دونوں آیتوں کو بہ یک وقت سامنے رکھ کر پڑھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کا چربہ ہے ایک طرف خلیل (علیہ السلام) ہاتھ پھیلا پھیلا کر دعا کر رہے ہیں اور دوسری طرف قدرت کی خاموش قلم قبولیت دعا کا اعلان لکھ رہی ہے تم مجھ کو یاد کرو میں تم کو یاد رکھوں گا الفاظ مقابلہ کے لئے استعمال فرمائے ہیں باقی کہاں بندے کا ذکر اور کہاں ان کی یاد پھر لطف یہ ہے کہ انعامات الٰہی پر خدا کا ذکرکرنا یا ان نعمتوں کو یاد کرکے اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری میں مشغول ہونے پر بھی صلہ اور جزا کا اعلان فرمایا کہ اگر تم میری نعمتوں پر شکریہ کے طورمیری اطاعت اور میرے محسن ہونے کا تذکرہ کرو گے تو اس ذکر پر بھی میں تم کو نوازوں گا اور میں بھی دنیوی مصائب و آلام کے موقع پر اور قبر کی وحشت اور میدان حشر کی گھبراہٹ میں تم کو فراموش نہیں کرونگا۔ آگے کے الفاظ میں شکر کی تاکید فرمائی ہے جو خود از زیادہ نعمت کا موجب ہے ۔ لئن شکرتم لازیدتکم یعنی جس قدر شکر کرتے جائو گے میں نعمتیں بڑھاتا جائوں گا۔ دوسرے جملہ میں ناسپاس اور ناشکری کو ممنوع قراردیا ہے اور یہ بھی مہربانی ہے کہ دوا کے ساتھ پرہیز کی بھی تاکید کی جارہی ہے اور ان چیزوں کے ممنوع ہونے کا اعلان کر رہے ہیں جو مضر ہیں کیونکہ کفران نعمت سلب نعمت کو اسی طرح مستلزم ہے جس طرح بد پرہیزی بربادیٔ صحت کو بلکہ موت کو مستلزم ہے۔ ولئن کفر تم ان عذابی لشدید سبحان اللہ ! کیا کلام ہے اور کس قدر رعائتیں ہیں کہ جن کا احاطہ ناممکن ہے۔ حدیث قدسی میں آتا ہے اے ابن آدم جب تو نے میرا ذکر کیا تو میرا شکر ادا کیا اور جب تو نے مجھ کو فراموش کردیا تو میرا کفر کیا۔ حضرت امام غزالی (رح) فرماتے ہیں ذکر کبھی زبان سے ہوتا ہے کبھی قلب سے اور کبھی جوارح سے زبان کا ذکر تو یہ ہے کہ انسان سبحان اللہ الحمد اللہ وغیرہ کہے قلب کا ذکر یہ ہے کہ دلائل قدرت پر غور وفکر کرے اور جوارح کا ذکر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں منہمک ہوجائے اور بندے کا کوئی عضو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرنے پائے۔ ایک اور حدیث قدسی میں ہے جسکو بخاری اور مسلم نے نقل کیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب بندہ میرا ذکر کرتا ہے اور اس کے دونوں ہونٹ حرکت کرتے ہیں تو میں اس کے پاس اور اس کے ساتھ ہی ہوتا ہوں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت میں مرفوعاً آیا ہے ذاکر کی مثال ایسی ہے جیسا زندہ شخص اور جو ذکر نہیں کرتا اس کی مثال ایسی ہے جیسے میت ذکر کی فضیلت میں بکثرت احادیث مروی ہیں جو کتب احادیث سے معلوم ہوسکتی ہیں۔ بعض علماء مفسرین نے بندے کے ذکر کی اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کی اس طرح تفصیل کی ہے کہ تم مجھ کو اطاعت کے ساتھ یاد کرو میں تم کو اپنی رحمت اور مغفرت کے ساتھ یاد کروں گا تم مجھ کو مجاہدے کے ساتھ یاد کرو میں تم کو مشاہدہ کے ساتھ یاد کروں گا تم مجھ کو دعا کے ساتھ یاد کرو میں تم کو اجابت کے ساتھ یاد کروں گا تم مجھ کو تذلل اور عاجزی کے ساتھ یاد کرو میں تم کو تفصل اور اپنی فضیلت کے ساتھ یاد کروں گا تم مجھ کو لوگوں کی جماعت میں یاد کرو میں تم کو فرشتوں کی جماعت میں یاد کروں گا تم مجھ کو آرام و عیش کی حالت میں یاد کرو میں تم کو مصیبت و بلا میں یاد رکھوں گا ۔ تم مجھ کو خوشحالی میں یاد کرو میں تم کو تنگی اور بیماری میں یاد کروں گا تم مجھ کو آسانی اور یسر میں یاد کرو میں تم کو سختی میں یاد کروں گا تم مجھ کو زندگی میں یاد کرو میں تم کو مرنے کے بعد یاد کروں گا تم مجھ کو دنیا میں یاد کرو میں تم کو آخرت میں یاد کرو گا تم مجھ کو صدق و اخلاص کے ساتھ یاد کرو میں تم کو خصوصیت اور اختصاص کے ساتھ یاد کروں گا تم مجھ کو عبودیت کے ساتھ یاد کرو میں تم کو ربوبیت کے ساتھ یاد کروں گا۔ (تسہیل)