Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 156

سورة البقرة

الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ﴿۱۵۶﴾ؕ

Who, when disaster strikes them, say, "Indeed we belong to Allah , and indeed to Him we will return."

جنہیں جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالٰی کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Who, when afflicted with calamity, say: "Truly, to Allah we belong and truly, to Him we shall return." meaning, those who recite this statement to comfort themselves in the face of their loss, know that they belong to Allah and that He does what He wills with His servants. They also know that nothing and no deed, even if it was the weight of an atom, will be lost with Allah on the Day of Resurrection. These facts thus compel them to admit that they are Allah's servants and that their return will be to Him in the Hereafter. This is why Allah said:

اب بیان ہو رہا ہے کہ جن صبر کرنے والوں کی اللہ کے ہاں عزت ہے وہ کون لوگ ہیں؟ پس فرماتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو تنگی اور مصیبت کے وقت آیت انا للہ ) پڑھ لیا کرتے ہیں اور اس بات سے اپنے دل کو تسلی دے لیا کرتے ہیں کہ ہم اللہ کی ملکیت ہیں اور جو ہمیں پہنچا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور ان میں جس طرح وہ چاہے تصرف کرتا رہتا ہے اور پھر اللہ کے ہاں اس کا بدلہ ہے جہاں انہیں بالاخر جانا ہے ، ان کے اس قول کی وجہ سے اللہ کی نوازشیں اور الطاف ان پر نازل ہوتے ہیں عذاب سے نجات ملتی ہے اور ہدایت بھی نصیب ہوتی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩٦] جو یہ کلمات صرف زبان سے ہی ادا نہیں کرتے بلکہ دل سے بھی اس بات کے قائل ہوتے ہیں کہ چونکہ ہم اللہ ہی کی ملک ہیں۔ لہذا ہماری جو چیز بھی اللہ کی راہ میں قربان ہوئی وہ اپنے ٹھیک ٹھکانے پر پہنچ گئی اور وہ کسی قسم کی بےقراری یا اضطراب کا اظہار نہیں کرتے نہ ہی زبان سے کوئی ناشکری کا کلمہ نکالتے ہیں۔ چناچہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نواسہ ( زینب (رض) کا بیٹا) فوت ہوگیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیٹی سے فرمایا : یوں کہو : انَّ لَہُ مَا اَخَذُوْلَہُ مَا اعْطٰی وَکُلُّ شَیٍ عِنْدَہُ بِاَجَلٍ مُّسَمّٰی فَلْتَصْبِرُوْ لِتَحْتَسِبْ (جو اس نے لے لیا وہ اللہ ہی کا تھا اور جو دے رکھا ہے وہ بھی اللہ ہی کا ہے۔ اس کے ہاں ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے۔ لہذا تمہیں چاہیے کہ صبر کرو اور اس سے ثواب کی امید رکھو) (بخاری، کتاب المرضیٰ ۔ باب عیادۃ الصبیان و کتاب الجنائز (مسلم کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Patience in hardship: The way to make it easy The nature and the significance of the severe test man is put to by Allah has been thoroughly discussed while explaining the verse’ وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَ‌اهِيمَ رَ‌بُّهُ &And when his Lord put Ibrahim to a test&. Whatever their magnitude, accidents are unnerving. But a prior knowledge of such accidents makes it easier to bear them and be patient about them. Since the entire Ummah is addressed here, the Ummah should realize that the world is a place of hardships and labour; it is a place of ordeal. It will not, therefore, amount to impatience if one does regard such accidents as either strange or a remote chance. And as the Ummah, generally, displays the spirit of patience in all its deeds, the reward of Mercy is common to everyone who strives to be patient. But as the quality and degree of patience varies from person to person, everyone will be rewarded individually according to and commensurate with his quality of patience. A formula of peace in hardship That the patient people used to recite: إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَ‌اجِعُونَ : &We belong to Allah and to Him we are to return& is, in fact, an inculcation of the principle of virtue. The suggestion is that this is what the patient people should say as it brings excellent reward, relieves from the burden of sorrow and suffering and consoles effectively the grieved heart.

مصائب پر صبر کے آسان کرنے کی خاص تدبیر : ف : اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بندوں کا امتحان ہوتا ہے اس کی حقیقت آیت وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ کی تفسیر میں گذر چکی ہے اور حوادث کے واقع ہونے سے پہلے ان کی خبر دیدینے میں یہ فائدہ ہوا کہ صبر آسان ہوجاتا ہے ورنہ دفعۃ کوئی صدمہ پڑنے سے زیادہ پریشانی ہوتی ہے اور یہ خطاب ساری امت کو ہے تو سب کو سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا دار المحن ہے (یعنی محنتوں اور تکلیفوں کی جگہ ہے) اس لئے یہاں کے حوادث کو عجیب اور بعید نہ سمجھا جاوے تو بےصبری نہ ہوگی اور چونکہ یہ لوگ نفس عمل صبر میں سب مشترک ہیں اس لئے اس کا صلہ مشترکہ تو عام رحمت ہے جو نفس صبر پر موعود ہے اور چونکہ مقدار اور شان اور خصوصیت پر صابر کے صبر کی جدا ہے اس لئے ان خصوصیات کا صلہ جدا جدا خاص عنایتوں سے ہوگا جو ان خاص خصوصیات پر موعود ہیں جیسے دنیا میں مواقع انعام پر دعوت طعام تو عام ہوتی پھر روپے اور جوڑے ہر ایک کو علی قدر الحیثیت والخدمت دئیے جاتے ہیں، مصیبت میں انا للہ کو سمجھ کر پڑھا جائے تو تسکین قلب کا بہترین علاج ہے : صابرین کی طرف نسبت کرکے جو یہ فرمایا ہے کہ وہ مصیبت کے وقت انا للہ وانا الیہ راجعون کہا کرتے ہیں حقیقت میں مقصود اس کی تعلیم سے یہ ہے کہ مصیبت والوں کو ایسا کہنا چاہئے کیونکہ ایسا کہنے میں ثواب بھی بڑا ہے اور اگر دل سے سمجھ کر یہ الفاظ کہے جائیں تو غم ورنج کے دور کرنے اور قلب کو تسلی دینے کے معاملہ میں بھی اکسیر کا حکم رکھتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِيْبَۃٌ۝ ٠ ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۝ ١٥٦ ۭ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) ( صاب) مُصِيبَةُ والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء/ 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. قال تعالی:إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة/ 50] ، وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء/ 73] ، فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور/ 43] ، فَإِذا أَصابَ بِهِ مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم/ 48] ، قال : الإِصَابَةُ في الخیر اعتبارا بالصَّوْبِ ، أي : بالمطر، وفي الشّرّ اعتبارا بِإِصَابَةِ السّهمِ ، وکلاهما يرجعان إلى أصل . مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء/ 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة/ 50] اے پیغمبر اگر تم کو اصائش حاصل ہوتی ہے تو ان کی بری لگتی ہے اور اگر مشکل پڑتی ہے ۔ وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء/ 73] ، اور اگر خدا تم پر فضل کرے فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور/ 43] تو جس پر چاہتا ہے اس کو برسادیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے ۔ فَإِذا أَصابَ بِهِمَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم/ 48] پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اسے برسا دیتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ جباصاب کا لفظ خیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو یہ صوب بمعنی بارش سے مشتق ہوتا ہے اور جب برے معنی میں آتا ہے تو یہ معنی اصاب السمھم کے محاورہ سے ماخوز ہوتے ہیں مگر ان دونوں معانی کی اصل ایک ہی ہے ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری : الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالو انا للہ وانا الیہ راجعون سے مراد۔ واللہ اعلم۔ اس حالت میں ان کی طرف سے اللہ کے لیے عبودیت اور اس کی مالکیت کا اقرار ہے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے انہیں آزما سکتا ہے تاکہ انہیں صبر کرنے کا ثواب عطا کرے اور ان کی ان کمزوریوں کی اصلاح کردے جن کا اسے علم ہے کیونکہ خیروصلاح کے کام کے سلسلے میں اللہ سبحانہ کی ذات پر کوئی الزام عائد نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے کہ اس کے تمام افعال حکمت پر مبنی ہوتے ہیں اس طرح مذکورہ حالت کے اندر بندوں کی طرف سے عبودیت کا اقرار دراصل اپنا معاملہ اس کے سپرد کردینے اور آزمائش میں اس کے فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم کردینے کے مترادف ہے۔ جس طرح ارشاد ہے واللہ یقضی بالحق والذین یدعون من دونہ لا یقصون بشئی ( اللہ تعالیٰ مبنی برحق فیصلے کرتا ہے اور اس کے سوا جن کو یہ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کا فیصلہ نہیں کرسکتے) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کا قول ہے میرے لئے آسمان سے گر جانا اس امر سے بڑھ کر پسندیدہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی فیصلے کے بارے میں لب کشائی کروں اور کہوں کاش ایسا فیصلہ نہ ہوتا۔ قول باری ہے : انا للہ وانا الیہ راجعون ( ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اس کی طرف ہی لوٹ کر جانے والے ہیں) اس میں بعث و نشور کا اقرار اور اس امر کا) اعتراف ہے کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو ان کے استحقاق کے مطابق بدلہ دے گا اور اس طرح اس کے ہاں نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں ہوگا۔ آگے اللہ نے ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جو شدائد پر صبر کرنے والوں کے لئے اس کے ہاں ہیں۔ ارشاد ہوا : اولئک علیھم صلوات من ربھم ورحمۃ واولئک ھم المھتدون ( ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایت ہوں گی، اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رد ہیں) یعنی ان کے رب کی طرف سے ان پر برکتیں اور رحمتیں نازل ہوں گی اور ان کا رب ان کے صبر کو سرا ہے گا۔ یہ ایسی نعمتیں ہیں جن کی قدروقیمت کا اندازہ ذات باری کے سوا کسی اور کو نہیں ہے۔ ایک اور آیت میں ارشاد ہوا : انما یوفی الصابرون اجرھم بغیر حساب۔ ( بیشک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بےحساب دیاجائے گا) زیر بحث آیت میں مذکورہ مصائب شدائد کی چند صورتیں وہ تھیں جو صحابہ کرام کے ساتھ مشرکین کے سلوک اور رویے کے سبب سے سامنے آنے والی تھیں اور چند صورتیں وہ تھیں جو اللہ کی طرف سے آزمائش کی شکل میں ظہور پذیر ہوئیں۔ مشرکین کے رویے کا اظہار تو یوں ہوا کہ مدینہ کے مہاجرین اور انصار کے سوا پورا عرب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی پر کمر بستہ ہوگیا تھا اور جس سے جوبن پڑا اس نے اپنے دل میں لگی ہوئی عداوت کی آگ بجھانے کے لئے کیا۔ آیت میں جس خوف کا ذکر ہے اس سے مراد صحابہ کرام (رض) کو لاحق ہونے والا وہ خوف ہے جو اپنی قلت اور دشمنوں کی کثرت تعداد کی وجہ سے انہیں لگا رہتا تھا۔ آیت میں جس جوع یعنی بھوک کا ذکر ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ صحابہ کرام (رض) تنگدست تھے اور انہیں فقرو فاقہ کے مراحل سے گزرنا پڑا تھا۔ فقرو فاقہ کے بارے میں یہ کہنا ممکن ہے کہ کبھی یہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے، وہ اس طرح کہ صحابہ کرام کے اموال تلف ہوجاتے اور اس کے نتیجے میں وہ فقر و فاقہ سے دوچار ہوجاتے۔ اس بارے میں یہ کہنا بھی ممکن ہے کہ دشمنوں کی وجہ سے بھی انہیں فقرو فاقہ کی تکلیف اٹھانی پڑی، یعنی ان پر دشمنوں کا غلبہ ہوجاتا۔ آیت میں جان و مال کے نقصانات اور پھلوں کی پیداوار میں کمی کا جو ذکر ہوا ہے اس میں دو احتمال ہے۔ مال کے نقصانات کے بارے میں یہ کہنا ممکن ہے کہ دشمن ان کا سبب ہوتا ہے، اسی طرح پھلوں کی پیداوار میں کمی کے سلسلے میں یہ کہنا درست ہے کہ حضرات صحابہ کرام (رض) دشمنوں کے ساتھ جنگوں میں مصروفیت کی بنا پر درختوں اور اراضی کی دیکھ بھال نہ کرسکتے اور اس طرح پیداوار میں کمی واقع ہوجاتی۔ یہ بھی کہنا درست ہے کہ آفات سماوی کی بنا پر فصلوں اور پھلوں کو نقصان پہنچ جاتا۔ جہاں تک جان کے نقصانات کا تعلق ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ صحابہ کرام میدان جنگ میں جان کی قربانی پیش کرتے، اور یہ مراد بھی درست ہے کہ ان میں سے بہت سے حضرات طبعی موت کی بنا پر اس دنیا سے رخصت ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ان آزمائشوں پر صبر کا مفہوم تسلیم و رضا ہے نیز اس بات کا علم کہ اللہ کے ہر کام میں بھلائی اور اس کے ہر کام میں بندوں کے لیے خیر کا پہلو ہوتا ہے نیز کسی چیز سے محروم کردینا بھی اس کی عطا میں شمار ہوتا ہے۔ دشمنوں کی طرف سے ایذا رسانیوں پر صبر سے مراد یہ ہے کہ صحابہ کرام ان کے خلاف جہادپر ثابت قدم رہے نیز اللہ کے دین کے ساتھ اپنی وابستگی مستحکم رکھتے اور مصائب کی شدت میں بھی اللہ کی اطاعت سے روگردانی نہ کرتے۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکین کے ظلم اور کفر کے ذریعے ابتلاء اور آزمائش کا ارادہ کرتا ہے کیونکہ اللہ سبحانہ کسی کو کفر کے ذریعے نہیں آزماتا۔ اگر اللہ تعالیٰ کفر اور ظلم کے ذریعے آزماتا تو اس پر رضا مند ہونا واجب ہوتا جیسا کہ مشرکین کا دعویٰ تھا کہ وہ ان کے کفر اور ظلم پر رضا مند ہے۔ زیر بحث آیت دنیا کے شدائد و مصائب پر صبر کرنے والوں کی تعریف اور ان کی مدح کو متضمن ہے، نیز دنیا دنیا میں ان کے لئے ثواب ، ثنائے جمیل اور نفع عظیم کے وعدوں کو بھی متضمن ہے۔ دنیا میں ان وعدوں کا ظہور اس طرح ہوتا ہے کہ اللہ کے حکموں پر چلنے کی وجہ سے صبر کرنے والے کی تعریف ہوتی ہے اور اہل ایمان کے دلوں میں اس کا مقام بہت بلند ہوجاتا ہے، نیز صبر کرنے والا جب اپنے اچھے انجام اور عمدہ مقام کے بارے میں سوچتا ہے تو اسے غم اور پریشانی سے ایک گونہ تسلی ہوتی ہے اور وہ گھبراہٹ دور ہوجاتی ہے جو بعض دفعہ اپنی جان کو نقصان پہچانے اور اسے ختم کردینے کا سبب بن جاتی ہے۔ آخرت میں اس وعدے کا ظہور ثواب جزیل کی صورت میں ہوگا جس کی مقدار کا اندازہ اس کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ زیر بحث آیت دو حکموں پر مشتمل ہے ایک حکم فرض ہے اور دوسرا نفل۔ فرض تو یہ ہے کہ اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیاجائے اور اس کے عائد کردہ فرائض کی ادائیگی میں ایسی ثابت قدمی دکھائی جائے کہ دنیا کے مصائب و شدائد بندے کو اس مقام سے ہٹا نہ سکیڈ۔ نفلی حکم یہ ہے کہ انا للہ انا الیہ راجعون کا فقرہ اپنی زبان سے ادا کیا جائے اس فقرے کی ادائیگی کے بڑے فوائد ہیں۔ ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے اس فعل کی ادائیگی ہوگی جس کی اللہ نے ترغیب دی ہے اور اس پر ثواب کا وعدہ فرمایا ہے دوسرا یہ کہ سننے والا یہ فقرہ سنے گا تو اس کی پیروی کرے گا ۔ تیسرا فائدہ یہ ہے کہ یہ فقرہ سن کر کافروں کا غصہ اور رنج بڑھے گا انہیں اس بات سے پریشانی ہوگی کہ مسلمان اللہ کی اطاعت اور اللہ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرنے پر ثابت قدم ہیں۔ دائود طائی سے منقول ہے کہ دنیا سے بےرغبت انسان ، یعنی زاہد دنیا میں بقاء کو پسند نہیں، اور رضا بقضا ( اللہ کے فیصلوں پر رضا مند رہنا) افضل ترین عمل ہے۔ مسلمان کو مصیبت پر غمگین نہیں ہونا چاہیے۔ صابر ہر مصیبت پر ثواب کا مستحق قرار پاتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٦) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان مذکورہ حضرات کو جن کی شان یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور مرنے کے بعد اسی کے سامنے جائیں گے اور اگر ہم اس کے فیصلہ پر راضی نہیں ہوں گے تو وہ ہمارے عملوں سے خوش نہیں ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٦ (الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ لا) (قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ) آخر کار تو یہاں سے جانا ہے ‘ اگر کل کی بجائے ہمیں آج ہی بلا لیا جائے تب بھی حاضر ہیں۔ بقول اقبال : ؂ نشان مرد مؤمن با تو گویم چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست ! یعنی مرد مؤمن کی تو نشانی ہی یہی ہے کہ جب موت آتی ہے تو مسرتّ کے ساتھ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔ وہ دنیا سے مسکراتا ہوا رخصت ہوتا ہے۔ یہ ایمان کی علامت ہے اور بندۂ مؤمن اس دنیا میں زیادہ دیر تک رہنے کی خواہش نہیں کرسکتا۔ اسے معلوم ہے کہ وہ دنیا میں جو لمحہ بھی گزار رہا ہے اسے اس کا حساب دینا ہوگا۔ تو جتنی عمر بڑھ رہی ہے حساب بڑھ رہا ہے۔ چناچہ حدیث میں دنیا کو مؤمن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت قرار دیا گیا ہے : (اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃُ الْکَافِرِ ) (١٨)

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

156. 'Saying' does not signify the mere making of a statement. It means a statement which is accompanied by a deep conviction in one's heart: 'To Allah do we belong.' This being so, a man is bound to think that whatever has been sacrificed for God has in fact attained its legitimate end, for it has been spent in the way of the One to whom all things truly belong. 'And it is to Him that we are destined to return' refers to the fact that man will not stay forever in this world and will return, sooner or later, to God. And if man is indeed destined to return to God why should he not return to Him having spent his all, having staked his life for His sake? This alternative is preferable to the pursuit of self-aggrandizement and then meeting death either by sickness or accident.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :156 کہنے سے مراد صرف زبان سے یہ الفاظ کہنا نہیں ہے ، بلکہ دل سے اس بات کا قائل ہونا ہے کہ” ہم اللہ ہی کے ہیں“ ، اس لیے اللہ کی راہ میں ہماری جو چیز بھی قربان ہوئی ، وہ گویا ٹھیک اپنے مَصْرَف میں صرف ہوئی ، جس کی چیز تھی اسی کے کام آگئی ۔ اور یہ کہ” اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹنا ہے“ ، یعنی بہرحال ہمیشہ اس دنیا میں رہنا نہیں ہے ۔ آخر کار ، دیر یا سویر ، جانا خدا ہی کے پاس ہے ۔ لہٰذا کیوں نہ اس کی راہ میں جان لڑا کر اس کے حضُور حاضر ہوں ۔ یہ اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ ہم اپنے نفس کی پرورش میں لگے رہیں اور اسی حالت میں ، اپنی موت ہی کے وقت پر کسی بیماری یا حادثے کے شکار ہو جائیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

102: اس فقرے میں پہلے تو اس حقیقت کا اظہار ہے کہ چونکہ ہم سب اللہ کی ملکیت میں ہیں اس لئے اسے ہمارے بارے میں ہر فیصلہ کرنے کا اختیار ہے اور چونکہ ہم اس کے ہیں اور کوئی بھی اپنی چیز کا برا نہیں چاہتا، اس لئے ہمارے بارے میں اس کا ہر فیصلہ خود ہماری مصلحت میں ہوگا، چاہے فی الحال ہمیں وہ مصلحت سمجھ میں نہ آرہی ہو، دوسری طرف اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ایک دن ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کے پاس اسی جگہ جانا ہے جہاں ہمارا کوئی عزیز یا دوست گیا ہے، لہذا یہ جدائی عارضی ہے ہمیشہ کے لئے نہیں ہے اور جب ہم اس کے پاس لوٹ کرجائیں گے تو ہمیں اس صدمے یا تکلیف پر انشاء اللہ ثواب بھی ملنا ہے، جب یہ اعتقاد دل میں ہو تو اسی کا نام صبر ہے، خواہ اس کے ساتھ ساتھ بے اختیار آنسوں بھی نکل رہے ہوں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:156) الذین اذا اصابتھم ۔۔ الخ صابرین کی صفت ہے۔ اذا حرف شرط ہے اور جملہ شرطیہ ہے قالوا انا للہ ۔۔ الخ جواب شرط ہے۔ مصیبۃ اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث اصاب یصلب اصابۃ (افعال) مصدر ہے۔ غم۔ تکلیف۔ سختی۔ دکھ پہنچانے والی ہر چیز۔ اس کی جمع مصائب ومصیبات ہے۔ اس کا مادہ صوب ہے۔ المفردات میں ہے اصاب السھم۔ تیر ٹھیک نشانہ پر جالگا اور مصیبۃ اصل میں اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جاکر بیٹھ جائے۔ اس کے بعد (عرف میں) ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا۔ قرآن مجید میں ہے وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم (42:30) اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ہے۔ راجعون۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ رجوع (ضرب) سے مصدر۔ لوٹ جانے والے۔ پھرجانے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 مصیبت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے انسان کو اذیت پہنچے خواہ کتنی معمولی کیوں نہ ہو۔ قرطبی۔ شوکانی) اناللہ۔۔ کلمہ بستر جاع ہے حضور قلب کے ساتھ یہ کلمہ زبان سے کہا جائے تو سہی اظہار عبودیت بھی ہے اور دوبارہ زندہ ہو کر جزائے اعمال کا اعتراف بھی۔ (قرطبی۔ شوکانی) اور آیت اذا صابتھم مصیبتہ میں کلمہ اذا میں اشارہ ہے کہ مصیبت پہنچتے ہی صبر کرنا اور یہ کلمہ کہنا چاہیے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے انما الصبر عند الصتد تمہ الا ولی (بخاری) کہ مصیبت جب تازہ ہو تو صبر ہے مصیبت پر ستر جاع کی احادیث میں فضیلت بھی آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اگر مصیبت پر انا للہ۔۔۔ کے بعد یہ دعا بھی پڑھی جائے اللھم اجرنی فی مصیبتی ھذہ اوخلف لی خیرا منھا (اے للہ مجھے اس مصیبت کا اجر دے اور اس کے بدلے مجھے اس سے بہتر عطا فرما) تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرتا ہے (ابن کثیر۔ بحوالہ مسلم )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

صابرین کی ایک خاص صفت : یہ فرمانے کے بعد کہ ہم تم کو ضرور ضرور آزمائیں گے۔ صابرین کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ (وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ ) (صبر کرنے والوں کو بشارت دے دو ) پھر ان کی صفت بیان فرمائی (الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ) (وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب ان کو مصیبت پہنچتی ہے تو وہ ( اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ) کہتے ہیں۔ ) یہ کلمہ بہت سے حقائق کو اپنے اندر سموئے ہوئے اور اس میں بہت بڑی تسلی ہے۔ اس میں اول تو زبان اور دل سے اس بات کا اقرار ہے کہ ہم اللہ ہی کے لیے ہیں جب ہم اللہ ہی کے بندے ہیں۔ اس کی مخلوق ہیں اس کے مملوک ہیں تو ہمیں پوری طرح اپنے خالق ومالک کے فیصلے پر راضی ہونا ضروری ہے۔ ہم بھی اللہ ہی کے ہیں اور جو جان و مال اس نے لے لیا وہ بھی اللہ ہی کا ہے۔ اس نے جو کچھ کیا اپنی مخلوق اور مملوک میں تصرف کیا۔ کسی کو بولنے، اعتراض کرنے، دل اور زبان سے ناراض ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک صاحبزادی کا بچہ جان کنی کے عالم میں تھا۔ انہوں نے آپ کی خدمت میں خبر بھیجی اور تشریف لانے کی گزارش کی۔ آپ نے ان کو سلام کہلوایا اور فرمایا (اِنَّ لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلہٗ مَا اَعْطٰی وَ کُلٌّ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُّسَمًّی فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ ) (کہ بلاشبہ اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ اس نے لیا اور اس کے لیے ہے جو اس نے عطا فرمایا اور ہر ایک کی اس کے نزدیک اجل مقرر ہے۔ لہٰذا صبر کرے اور اللہ سے ثواب کی امید رکھے۔ (بخاری ص ١٧١ ج ٢) دوسرے اس بات کا اعلان اور اقرار ہے کہ ہم کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچیں گے تو ہم کو ہر ضائع اور فوت شدہ چیز کا ثواب مل جائے گا۔ اور یہ ثواب دنیا کی حقیر چیزوں سے کہیں اعلیٰ و افضل ہے جن کے چلے جانے پر رنج ہوتا ہے۔ اپنے اعزہ و اقرباء آل اولاد جو فوت ہوگئے ان سے بھی عارضی جدائی ہے جہاں وہ گئے وہیں ہم کو جانا ہے۔ وہاں دارالنعیم میں انشاء اللہ تعالیٰ ان سے ملاقاتیں ہوجائیں گی۔ سنن ترمذی ص ١٦٦ ج ١ میں ہے کہ جب بندہ کا کوئی بچہ فوت ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ تم نے میرے بندہ کے بچے کو قبض کرلیا وہ کہتے ہیں کہ ہاں، پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم نے اس کے دل کے پھل کو قبض کرلیا وہ کہتے ہیں کہ ہاں ! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندہ نے کیا کہا۔ وہ عرض کرتے ہیں کہ اس نے آپ کی تعریف کی اور ( اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ) پڑھا اس پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندہ کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دو اور اس کا نام بیت الحمد رکھ دو ۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ مسلمان مرد یا عورت کو جو بھی تکلیف پہنچ جائے اور اس کو بعد میں یاد کرے اگرچہ اس کو عرصہ دراز گزر چکاہو اور اس وقت پھر ( اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ) پڑھے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کو پھر اسی جیسا اجر عطا فرماتے ہیں جیسا کہ اس دن عطا فرمایا تھا جس دن اس کو مصیبت پہنچی تھی۔ (رواہ احمد و البیہقی فی شعب الایمان کمافی المشکوٰۃ ص ٥٣ ج ١) حضرت ابو ہریرۃ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ جائے تب بھی ( اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ) پڑھے۔ کیونکہ یہ بھی مصیبتوں میں سے ایک مصیبت ہے۔ (مشکوٰۃ عن شعب الایمان) حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے مصیبت کے وقت ( اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ) پڑھا تو اللہ تعالیٰ اس کی مصیبت کی تلافی فرمادیں گے اور اس کی آخرت اچھی کریں گے اور اسے ضائع شدہ چیز کے بدلہ اچھی چیز عطا فرمائیں گے۔ (درمنثور)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

290 اگر تحویل قبلہ کے سلسلہ میں انہیں کوئی تکلیف پہنچ جائے تو وہ اس پر صبر کرتے ہیں۔ یہ الصابرین کی صفت ہے اور اس سے اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ اجر وثواب کے مستحق صرف وہی صابر ہیں، جو مصیبت کی ابتداء میں صبر کرتے ہیں۔ لہذا جو لوگ نزول مصیبت کے وقت انتہائی بےصبر اور جزع وفزع کا اظہار کریں اور بعد میں صبر کریں، وہ اس اجر کے مستحق نہیں ہیں کیونکہ مصیبت کے بھول جانے پر تو صبر کرنے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ چناچہ حدیث میں آیا ہے کہ اصل صبر جس پر اجر وثواب ملتا ہے وہ تو صدمہ کی ابتداء میں ہوتا ہے۔ اشارۃ الی ان الاجر لمن صبر وقت اصاب تھا کما فی الخبر انما الصبر عند اول صدمۃ (روح ص 23 ج 2) اس آیت سے معلوم ہوا کہ صبر تو یہ ہے کہ مصیبت کے وقت زبان سے واویلا اور جاہلیت کی باتیں کرنے کی بجائے انا للہ وانا الیہ راجعون کہنا چاہئے۔ یعنی ہم اللہ کے مملوک اور غلام ہیں وہ ہمارا مالک وآقا ہے۔ ہمارے امور میں اسے ہر قسم کے تصرف کا اختیار ہے اور ہم اسی کی طرف واپس جانے والے ہیں۔ دنیا میں اگرچہ ہم مصائب میں مبتلا رہے ہیں اور کفار کی ایذائیں سہی ہیں۔ آخرت میں اللہ تعالیٰ ہمیں چین و آرام عنایت فرمائیگا پہلے حصہ میں بندگی اور مملوکیت کا اعتراف ہے اور دوسرے حصہ میں بعث بعد الموت کا اقرار ہے۔ وللہ معناہ الاقرار بالملک والعبودیۃ للہ فھو المتصرف فینا بما یرید من الامور وانا الیہ راجعون اقرار بالبعث (اُولئِک یہ مذکورہ بالا صابرین کی طرف اشارہ ہے یعنی جو لوگ مصیبت کے وقت اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ ۔ کہتے ہیں۔ عَلَيْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ۔ صلوٰت صلوۃ کی جمع ہے جس سے دنیا وآخرت میں اللہ کی عفو و درگذر، رحمت و برکت، اور اس کا اعزاز واکرام مراد ہے۔ وصلوۃ اللہ علی عبدہ عفوہ ورحمتہ وبرکتہ و تشریفہ ایاہ فی الدنیا والاخرۃ (قرطبی ص 177 ج 2) اور رحمۃ کا لفظ تاکید اور مزید تعمیم کے لیے ہے۔ یعنی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت ومغفرت اور اس کی عنایات خاصہ کے مستحق ہوں گے۔ ۣوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُهْتَدُوْنَ ۔ یہاں مہتدون سے فائزون مراد ہے۔ کیونکہ جن لوگوں کی خدا نے صفائی دیدی اور انہیں اپنی رحمت خاصہ سے نواز دیا ان سے بڑھ کر کون کامیاب ہے۔ والمعنی اولئک ھم الفائزون بمطالبھم الدینیۃ والدنیوۃ فان من نال تزکیۃ اللہ تعالیٰ ورحمتہ لم یفتہ مطلب (روح ص 24 ج 2)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کردئیے جائیں ان کے متعلق یوں نہ کہو کہ وہ مردے ہیں اور وہ مرچکے ہیں بلکہ وہ تو زندہ ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ تم ان کی حیات کا ادراک نہیں کرسکتے اور یاد رکھو ہم تم کو مختلف آزمائشوں میں مبتلا کریں گے اور قدرے خوف اور کسی قدر فقرو فاقہ سے اور تھوڑے سے مالی و جانی نقصان اور پھلوں کی کمی سے تمہارا امتحان لیں گے اور اے پیغمبر آپ ایسے صبر کرنیوالوں کو بشارت دیدیجئے جن کی حالت یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت بھی پہنچتی ہے تو وہ یوں کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہے اور ہم سب کی بازگشت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے اور ہم سب اسی کی طرف واپس ہونے والے ہیں۔ (تیسیر) اللہ کی راہ کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے واسطے اور اعلاء کلمۃ اللہ کی غرض سے جنگ کرتے ہیں اور اس میں مارے جاتے ہیں اور اگرچہ اصولاً ان کے لئے یہ کہنا جائز ہے کہ فلاں شخص مرگیا فلاں صاحب کا انتقال ہوگیا یا وہ شہید ہوگیا لیکن شہید فی سبیل اللہ کو چونکہ عالم برزخ کی زندگی میں ایک خاص فضیلت اور خصوصیت حاصل ہے اس لئے اس کو عام مردوں کی طرح سمجھنے اور دوسرے مردوں پر قیاس کرنے سے روکا گیا ہے اور اس امر کی ممانعت کی گئی ہے کہ ان کو عام مردوں میں شمار نہ کرو۔ اگرچہ عالم برزخ میں ہر شخص کو ایک قسم کی زندگی عطا ہوتی ہے جس میں ابتدائی پوچھ گچھ کے علاوہ اس کے عذاب وثواب کا ٹھکانہ اس کو دکھایاجاتا ہے اور اس کو جزاو سزا کا ادراک ہوتا ہے لیکن شہید فی سبیل اللہ کی حیات عام مردوں سے قوی ہوتی ہے جس کا اثر اس کے جسم کو بھی پہنچتا ہے اور اس کا جسم زمین کی خورد وبرد سے محفوظ رہتا ہے اگرچہ یہ بات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی خصوصیات میں سے ہے لیکن شہید کو بھی یہ مرتبہ عطا کیا ہے اور وہ جس طرح دفن کیا جاتا ہے اسی طرح قیامت میں اٹھایاجائے گا بلکہ اس کے جسم سے تازہ خون بہتا ہوگا۔ یہ بات تو ہر شخص سمجھتا ہے کہ موتکاتعلق جس سے ہے روح تو ہر مرنے والے کی اپنی حالت پر رہتی ہے اور اس میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوتا البتہ اس جسم سے جسکے ساتھ وہ وابستہ تھی اس کا تعلق ختم ہوجاتا ہے اور روح جو ترقی جسم کے ساتھ کر رہی تھی وہ ترقی اس کی ختم ہوجاتی ہے اور اسی طرح و ہ دنیوی نعمتیں جو کھانے اور پینے سے حاصل تھیں وہ بھی ختم ہوجاتی ہیں۔ گویا روح کا جسم سے علیحدہ ہونا دو باتوں کو صاف نمایاں کردیتا ہے ایک عملی ترقی اور دوسری دنیوی زندگی کے مادی فوائد یہی وجہ ہے کہ مرنے کے بعد مرنے والے کا مال تقسیم کرلیا جاتا ہے اور اسکی بیوہ سے نکاح کیا جاسکتا ہینہ اب کوئی ترقی کرسکتا ہے اور نہ اپنے مال سے کوئی فائدہ حاصل کرسکتا ہے انہی دو اعتبار سے شہداء کی زندگی عام مسلمانوں سے مختلف ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ہر ابن آدم کا عمل جب ابن آدم مرجاتا ہے تو ختم ہوجاتا ہے لیکن مجاہد فی سبیل اللہ کا عمل ختم نہیں ہوتا فانہ ینی لہ عملہ الی یوم القیمۃ اس کا عمل قیامت تک اس کے لئے بڑھتا رہتا ہے۔ دوسری بات کھانا پینا اور مختلف نعمتوں سے بہرہ مند ہونا تو اس کی بھی احادیث صحیحہ میں تصریح موجود ہے کہ شہداء کی ارواح سبز یا سفید پرندوں کے حواصل میں داخل کردی جاتی ہیں وہ پرندے جنت میں جہاں چاہیں کھاتے پھرتے رہیں اور شام کو عرش الٰہی کی قندیلوں میں بسیرا کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں بھی یرزقون فرحین فرمایا ہے۔ بہر حال لذات اور اعمال دونوں کے اعتبار سے ان کو زندگی کے فوائد حاصل ہیں ان کے جسم پر دنیا کی زمین تصرف نہیں کرسکتی باقی کسی اور وجہ سے ان کی لاش برباد کردی جائے تو اس کا امکان ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عرصہ دراز تک محفوظ رہتی ہے۔ اسی طرح سبز پرندوں کی کیفیت اور کھانے پینے کی کیفیت بھی نہیں سمجھائی جاسکتی۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ عالم برزخ میں ا ن سے ایک امتیازی سلوک برتا جاتا ہے خواہ اس کی کیفیت کچھ ہو اور اس کو خواہ کسی الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہو۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ کی ارواح مقدسہ پر جو اثرات حیات مرتب ہوتے ہیں وہ شہدا سے بہت قوی اور اعلیٰ ہوتے ہیں حتیٰ کہ ان کی ازواج مطہرات سے کوئی شخص نکاح بھی نہیں کرسکتا اور نہ ان کا کوئی ترکہ تقسیم ہوسکتا ہے عدم شعور کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری سمجھ سے ان کی زندگی بالاتر ہے اور یہ واقعہ بھی ہے کہ دوسرے عالم کی صحیح کیفیات کو بجز نفوس قدسیہ اور ارواح طیبہ کے کون سمجھ سکتا ہے ۔ نقصانات میں آزمائش کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ بات ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ آزمائش و امتحان خیر اور شردونوں طریقوں پر ہوتا ہے جہاد کے موقعہ پر تو یہ نقصانات عام طورپر پیش آتے ہیں اور دشمنوں کے ہجوم کیوقت ان امور کا پیش آنا ظاہری ہے اور جہاد کے علاوہ بھی اس قسم کے حادثات سے ایک انسان دوچار ہوتا ہی رہتا ہے دشمن کے حملہ کا خوف، فقروفاقہ، لڑائی کے وقت سامان خوراک کی کمی، جانوں اور مالوں کا خرچ، زراعت کی تباہی وغیرہ یہ ایسی باتیں ہیں جو بالعموم اور جہاد کے موقعہ پر بالخصوص پیش آتی رہتی ہیں اس قسم کے مصائب پر صبر کرنے والوں کو بڑی بشارتیں ہیں امتحان کا مطلب یہاں بھی وہی ہے جو اوپر عرض کیا تھا دوسروں پر ظاہر کرنے کی غرض سے یا خود مبتلا پر ظاہر کرنے کی غرض سے اس قسم کے امتحانات ہوتے رہتے ہیں اور جس کسی کا مرتبہ زیادہ ہوتا ہے وہ اس قسم کے امتحانات میں زیادہ مبتلا ہوتا ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت حق جل مجدہ جس بندے کو پسند فرماتے ہیں اور دوست رکھتے ہیں اس کی طرف بلائیں اس سرعت کے ساتھ آتی ہیں جس طرح نشیب میں پانی دوڑتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معمولی سی معمولی تکلیف کے موقعہ پر بھی انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا کرتے تھے ایک دفعہ ہوا سے چراغ بجھ گیا تو آپ نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ بھی کوئی مصیبت ہے فرمایا عائشہ ہر وہ چیز جس سے دل کو پریشانی اور جی کو قلق ہو اس پرانا للہ پڑھنا چاہئے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں جو بندہ مصیبت کے وقت بجائے گھبرانے اور چلانے اور رونے کے اس کو پڑہتا ہے تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس کو اس سے نقصان کا نعم البدل عطا فرماتا ہے اور آخرت کے لئے اس کا اجر وثواب جمع کرلیتا ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) سے منقول ہے کہ اس آیت میں خوف سے مراد اللہ تعالیٰ کا خوف ہے اور جوع سے مراد رمضان شریف کے روزے ہیں اور نقص من الاموال سے مراد زکوۃ ہے اور انفس سے مراد امراض اور بیماری ہیں اور نقص ثمرات سے مراد اولاد کی موت ہے کیونکہ اولاد انسان کے قلب کا پھل ہے۔ ترمذی نے حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ جب کسی بندے کا لڑکا مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے تم نے میرے بندے کے لڑکے کو قبض کرلیا۔ وہ عرض کرتے ہیں ہاں ہم نے اس کی جان قبض کرلی ؟ ارشاد ہوتا ہے تم نے میرے بندے کے قلب کا پھل توڑ لیا۔ و ہ عرض کرتے ہیں الٰہی ایسا ہی ہوا۔ ارشاد ہوتا ہے پھر میرے بندے نے کیا کہا، فرشتے عرض کرتے ہیں اس نے آپ کی حمد بیان کی اور انا للہ وانا الیہ راجعون کہا ارشاد ہوتا ہے اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنادو اور اس گھر کا نام بیت الحمد رکھو اب آگے اس بشارت کا ذکر فرماتے ہیں۔ (تسہیل)