Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 162

سورة البقرة

خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ۚ لَا یُخَفَّفُ عَنۡہُمُ الۡعَذَابُ وَ لَا ہُمۡ یُنۡظَرُوۡنَ ﴿۱۶۲﴾

Abiding eternally therein. The punishment will not be lightened for them, nor will they be reprieved.

جس میں یہ ہمیشہ رہیں گے ، نہ ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں ڈھیل دی جائے گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

خَالِدِينَ فِيهَا ... it is they on whom is the curse of Allah and of the angels and of mankind, combined. They will abide therein (under the curse in Hell). Therefore, they will suffer the eternal curse until the Day of Resurrection and after that in the fire of Jahannam, where, ... لااَ يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ ... their punishment will neither be lightened, He... nce, the torment will not be decreased for them, ... وَلاَ هُمْ يُنظَرُونَ nor will they be reprieved. The torment will not be changed or tempered for even an hour. Rather, it is continuous and eternal. We seek refuge with Allah from this evil end. Cursing the Disbelievers is allowed There is no disagreement that it is lawful to curse the disbelievers. Umar bin Al-Khattab and the Imams after him used to curse the disbelievers in their Qunut (a type of supplication) during the prayer and otherwise. As for cursing a specific disbeliever, some scholars stated that; it is not allowed to curse him, because we do not know how Allah will make his end. Others said that; it is allowed to curse individual disbelievers. For proof, they mention the story about the man who was brought to be punished repeatedly for drinking (alcohol), a man said, "May Allah curse him! He is being brought repeatedly (to be flogged for drinking)." Allah's Messenger said: لاَا تَلْعَنْهُ فَإِنَّه يُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَه Do not curse him, for he loves Allah and His Messenger. This Hadith indicates that it is allowed to curse those who do not love Allah and His Messenger. Allah knows best.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

خلِدِيْنَ فِيْہَا۝ ٠ ۚ لَا يُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلَا ھُمْ يُنْظَرُوْنَ۝ ١٦٢ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ ف... ِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ خفیف الخَفِيف : بإزاء الثّقيل، ويقال ذلک تارة باعتبار المضایفة بالوزن، و قیاس شيئين أحدهما بالآخر، نحو : درهم خفیف، ودرهم ثقیل . والثاني : يقال باعتبار مضایفة الزّمان، نحو : فرس خفیف، وفرس ثقیل : إذا عدا أحدهما أكثر من الآخر في زمان واحد . الثالث : يقال خفیف فيما يستحليه الناس، وثقیل فيما يستوخمه، فيكون الخفیف مدحا، والثقیل ذمّا، ومنه قوله تعالی: الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال/ 66] ، فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة/ 86] وأرى أنّ من هذا قوله : حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفاً [ الأعراف/ 189] . الرّابع : يقال خفیف فيمن يطيش، و ثقیل فيما فيه وقار، فيكون الخفیف ذمّا، والثقیل مدحا . الخامس : يقال خفیف في الأجسام التي من شأنها أن ترجحن إلى أسفل کالأرض والماء، يقال : خَفَّ يَخِفُّ خَفّاً وخِفَّةً ، وخَفَّفَه تَخْفِيفاً وتَخَفَّفَ تَخَفُّفاً ، واستخففته، وخَفَّ المتاع : الخفیف منه، و کلام خفیف علی اللسان، قال تعالی: فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطاعُوهُ [ الزخرف/ 54] ، أي : حملهم أن يخفّوا معه، أو وجدهم خفافا في أبدانهم وعزائمهم، وقیل : معناه وجدهم طائشين، وقوله تعالی: فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ [ المؤمنون/ 102- 103] ، فإشارة إلى كثرة الأعمال الصّالحة وقلّتها، وَلا يَسْتَخِفَّنَّكَ [ الروم/ 60] ، أي : لا يزعجنّك ويزيلنّك عن اعتقادک بما يوقعون من الشّبه، وخفّوا عن منازلهم : ارتحلوا منها في خفّة، والخُفُّ : الملبوس، وخُفُّ النّعامة والبعیر تشبيها بخفّ الإنسان . ( خ ف ف ) الخفیف ( ہلکا ) یہ ثقیل کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے ۔ اس کا استعمال کئی طرح پر ہوتا ہے ( 1) کبھی وزن میں مقابلہ کے طور یعنی دو چیزوں کے باہم مقابلہ میں ایک کو خفیف اور دوسری کو ثقیل کہہ دیا جاتا ہے جیسے درھم خفیف ودرھم ثقیل یعنی وہ درہم ہم ہلکا ہے ۔ اور یہ بھاری ہے ( 2) اور کبھی ثقابل زمانی کے اعتبار سے بولے جاتے ہیں ۔ مثلا ( ایک گھوڑا جو فی گھنٹہ دس میل کی مسافت طے کرتا ہوں اور دوسرا پانچ میل فی گھنٹہ دوڑتا ہو تو پہلے کو خفیف ( سبک رفتار ) اور دوسرے کو ثقل ( سست رفتار ) کہا جاتا ہے ( 3) جس چیز کو خوش آئندہ پایا جائے اسے خفیف اور جو طبیعت پر گراں ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اس صورت میں خفیف کا لفظ بطور مدح اور ثقیل کا لفظ بطور ندمت استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات کریمہ ؛ الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال/ 66] اب خدا نے تم پر سے بوجھ ہلکا کردیا ۔ فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة/ 86] سو نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا ۔ اسی معنی پر محمول ہیں اسی معنی پر محمول ہیں بلکہ ہمارے نزدیک آیت : حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفاً [ الأعراف/ 189] اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ ( 4) جو شخص جلد طیش میں آجائے اسے خفیف اور جو پر وقار ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کے اعتبار سے خفیف صفت ذم ہوگئی اور ثقیل سفت مدح ۔ ( 5 ) جو اجسام نیچے کی طرف جھکنے والے ہوں انہیں ثقلا اور جو اپر کی جاں ب چڑھنے والے ہوں انہیں خفیفہ کہا جاتا ہے اسی معنی کے لحاظ سے زمین پانی وگیرہ ہا کو اجسام ثقیلہ اور ہوا آگ وغیرہ ہا اجسام خفیفہ میں داخل ہوں گے ۔ خف ( ض ) خفا وخفتہ ویخفف ۔ ہلکا ہونا خففہ تخفیفا ۔ ہکا کرنا ۔ استخفہ ۔ ہلکا سمجھنا خف المتاع سامان کا ہلکا ہونا اسی سے کلام خفیف علی اللسان کا محاورہ مستعار ہے یعنی وہ کلام جو زبان پر ہلکا ہو ۔ اور آیت کریمہ : فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطاعُوهُ [ الزخرف/ 54] غرض اس نے اپنی قوم کی عقل مار دی اور انہوں نے اس کی بات مان لی ۔ کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اس نے اپنی قوم کو اکسایا کہ اس کے ساتھ تیزی سے چلیں اور یا یہ کہ انہیں اجسام وعزائم کے اعتبار سے ڈھیلا پایا اور بعض نے یہ معنی بھی کئے کہ انہیں جاہل اور کم عقل سمجھا ۔ اور آیت کریمہ : : فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ [ المؤمنون/ 102- 103] اور جن کے وزن ہلکے ہوں گے ۔ میں اعمال صالحہ کی کمی کی طرف اشارہ ہی اور آیت کریمہ : وَلا يَسْتَخِفَّنَّكَ [ الروم/ 60] اور وہ تمہیں اوچھا نہ بنادیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ شبہات پیدا کر کے تمہیں تمہارے عقائد سے منزل اور برگشتہ نہ کردیں ۔ خفوا عن منازھم ۔ وہ تیزی سے کوچ کر گئے الخف ۔ موزہ ۔ انسان کے موزہ سے تشبیہ دے کر خف النعامتہ والبعیر ۔ ( سپل شتر وسم شتر مرغ ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٢ (خٰلِدِیْنَ فِیْہَاج ) (لاَ یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ ) (وَلاَ ہُمْ یُنْظَرُوْنَ ) عذاب کا تسلسل ہمیشہ قائم رہے گا۔ ایسا نہیں ہوگا کہ ذرا سی دیر کے لیے وقفہ ہوجائے یا سانس لینے کی مہلت ہی مل جائے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:162) خالدین فیہا۔ خالدین۔ اسم فاعل جمع مذکر بحالت نصب۔ خلود (باب نصر) مصدر۔ ہمیشہ رہنے والے۔ فیہا۔ اس میں ھا ضمیز واحد مؤنث غائب لعنۃ کے لئے ہے جس کا اوپر ذکر ہوا۔ یا یہ النار۔ (دوزخ) کے لئے ہے اور النار کو اس کی شان کی عظمت کی وجہ سے مضمر رکھا گیا ہے اور اسم کی جگہ ضمیر کو لایا گیا ہے۔ خالدین۔ ... علیہم کی ضمیر سے حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ لا یخفف۔ مضارع منفی مجہول واحد مذکر غائب ۔ وہ ہلکا نہیں کیا جائے گا۔ یعنی عذاب میں کمی نہیں کی جائے گی۔ لا یخفف عنھم العذاب۔ یہ جملہ حال ہے ضمیر خالدین سے۔ ولا ہم ینظرون۔ واؤ عاطفہ ہے۔ اس کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ لا ینظرون۔ مضارع منفی مجہول کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس کا مادہ ن ظ ر ہے۔ لا ینظرون کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں۔ (1) مصدر انظار۔ مہلت دینا سے مشتق ہے۔ اس صورت میں معنی ہوں گے اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی (اور یہی راجح ہے) ۔ (2) یہ مصدر انتظار سے مشتق ہے۔ اس صورت میں معنی ہوں گے اور نہ ان کا انتظار کیا جائے گا کہ کسی قسم کی معذرت کریں ۔ (3) یہ مصدر نطر سے مشتق ہے بمعنی دیکھنا۔ اس صورت میں معنی ہوں گے اور نہ ان کی طرف نظر رحمت کی جائے گی۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب تاکید کے لئے لایا گیا ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

296 وہ لعنت و پھٹکار میں ہمیشہ رہیں گے اور ان کے عذاب میں نہ کمی کی جائے گی اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔ یہاں تک تو آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا اثبات اور شبہات کا جواب تھا۔ اور کتمان حق کے انجام بد کا ذکر تھا۔ ربط۔ گذشتہ آیتوں کا ماقبل سے تو ربط یہ ہے کہ ان میں تحویل قبلہ اور ... صفا ومروہ سے متعلقہ احکام کو چھپانے والوں اور سرے سے ان کا انکار کرنے والوں کے لیے وعید شدید اور کتمان احکام سے تو یہ کرنے والوں، اپنی اصلاح کرنے والوں اور ان کو بیان کرنے والوں کے لیے بشارت کا بیان تھا اور مابعد والی آیتوں سے ان کا ربط اس طرح ہے کہ اگلی آیتوں میں دعویٰ توحید کا اعادہ کیا گیا ہے۔ لہذا مسئلہ توحید کو چھپانے والوں اور اس کا انکار کرنے والوں کا بھی وہی حشر ہوگا جو پہلے بیان ہوا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 یقیناً جو لوگ ان مضامین اور احکام کو چھپاتے ہیں جن کو ہم نے نازل فرمایا ہے اور وہ احکام صاف و واضح ہیں اور وہ مضامین و احکام صحیح راستہ دکھانے والے ہیں اور یہ لوگ ان مضامین کا اخفا بھی اس کے بعد کرتے ہیں جبکہ ہم عام لوگوں کیلئے ان کو خوب کھول کر کتب سماویہ میں بیان کرچکے ہیں۔ اس صراحت و وضاحت کے...  باوجود جو بدبخت ان مضامین و احکام کو چھپاتے ہیں تو ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ بھی لعنت فرماتا ہے اور لعنت کرنیوالے بھی ایسوں پر لعنت بھیجتے ہیں مگر ہاں وہ حضرات اس لعنت سے مستثنیٰ ہوتے ہیں جو اس قسم کے جرم سے رجوع کرلیں اور تائب ہوجائیں اور اپنے اس فعل کی تلافی کردیں اور حق بات کو ظاہر کردیں تو میں ایسے لوگوں پر رحمت کے ساتھ توجہ فرماتا ہوں اور ان کی توبہ قبول کرلیتا ہوں اور میں تو بہت توبہ قبول کرنیوالا اور بڑی مہربانی قبول کرنیوالا ہوں۔ البتہ جو لوگ اپنی کافرانہ روش پر قائم رہیں اور کفر ہی کی حالت میں مر بھی جائیں تو ایسے بدبختوں پر خدا کی لعنت اور مزید براں فرشتوں کی اور انسانوں کی بھی سب کی لعنت اس طور پر پڑتی رہے گی کہ وہ اس لعنت میں ہمیشہ گرفتار رہیں گے ایسے لوگوں پر سے نہ تو کسی وقت عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کو کوئی مہلت دی جائے گی۔ (تیسیر) بظاہر آیت کا تعلق اہل کتاب اور ان کے ان علماء سے ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخر الزماں کی نبوت ؐاور آپکی نسبت ان صاف اور واضح پیشن گوئیوں کا اخفا کرتے تھے جو توریت و انجیل اور دوسرے صحیفوں میں مذکور تھیں۔ جیسا کہ ہم نے ربط کی تقریر میں عرض کیا ہے اگرچہ آیت عام ہے اور اس میں ہر کام تم حق کو داخل کیا جاسکتا ہے خواہ وہ امت محمدیہ کا کوئی شخص ہو یا امم سابقہ کا کوئی عالم ہو۔ ہم نے ما سے مراد مضامین اور احکام لئے ہیں تاکہ کتاب کی ہر ایک بات شامل ہوجائے کوئی کا تم حق یہ کہہ سکتا تھا کہ میں ان احکام کو بیان تو کردوں مگر وہ مغلق بہت ہیں اور بہت پیچیدہ اور الجھے ہوئے ہیں اس لئے میں ان کو بیان نہیں کرتا اور چھپاتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے یہ فرما کر دروازہ بند کردیا کہ اول تو وہ مضامین میرے نازل کردہ ہیں پھر خود نہایت صاف اور واضح ہیں پھر ان کا ایک ایک لفظ ہدایت سے لبریز ہے اور میں نے ان کو خوب کھول کر اور واضح طور پر بیان کیا ہے۔ ایسے مضامین کو چھپانا تو محض خیانت اور بددیانتی سے ہوسکتا ہے ورنہ ان کے چھپانے اور اخفا کرنی کی کوئی وجہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی لعنت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان کو اپنی رحمت سے دور پھینک دیتا ہے اور اپنی بارگاہ سے دفع کردیتا ہے یعنی بھلے کاموں کی توفیق سلب کرلیتا ہے لاعنون سے مراد فرشتے اور مسلمان ہیں خواہ وہ جنات میں سے ہوں یا انسانوں میں سے ہوں۔ بعض نے کہا کہ جن و انس کے علاوہ دوسری مخلوق مراد ہے خواہ وہ چوپائے ہوں یا حشرات الارض ہوں یا پرندے ہوں چونکہ ملعون انسان کی نحوست کا تمام عالم کی اشیاء پر اثر پڑتا ہے اس لئے سب ہی ایسے انسانپر لعنت کرتے ہیں جو حق بات کو چھپا کر خدا تعالیٰ کے دین کو نقصان پہونچائے۔ بالخصوص وہ بلاعنہ جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے مضامین و احکام کو چھپائیں اور رحمۃ للعالمین کی خوبیوں کی کتمان کرکے لوگوں کو آپ پر ایمان لانے سے روکیں۔ خدا کی مخلوق کے لعنت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ملعون کے حق میں بددعا کرتے ہیں۔ حضرت مجاہد کا قول ہے جب بارش نہیں ہوتی اور قحط پڑتا ہے تو ہر جان دار حتیٰ کہ چوپائے اور بچھو اور موذی کیڑے بھی فساق و فجار کے حق میں بد دعا کرتے ہیں کہ خدا ان پر لعنت کرے ان کے گناہوں کیوجہ سے ہم کو بھی قحط میں مبتلا ہونا پڑا توبہ کا مطلب ہم بیان کرچکے ہیں بندے کی توبہ یہ کہ ندامت اور پشیمانی کے ساتھ خدا کیفرف رجوع کرے اور خدا تعالیٰ کی توبہ یہ کہ رحمت کے ساتھ بندے کی جانب توجہ فرمائے اور چونکہ خالی توبہ کا فی نہ تھی اس لئے اصلحوا کا لفظ بڑھایا کہ تلافی بھی کرے اور اس نقصان کا تدارک بھی کرے جو اس کی شرارت اور کتمان حق سے بنی نوع انسان کو پہنچا ہے اور جو امر حق اس نے چھپایا تھا اس کو ظاہر کردے اور لوگوں کو بتادے چونکہ یہاں اہل کتاب کا ذکر ہے اس لئے مطلب یہ ہوگا کہ توبہ کرکے مسلمان ہوجائیں اور جن لوگوں کو کتمان حق کرکے گمراہ کیا تھا ان کے سامنے اس حق کا اظہار کریں اور اگر ایسا نہ کریں گے اور اپنے کفر پر قائم رہیں گے اور کتمان حق کا ارتکاب کرکے خود بھی توبہ اور ایمان سے محروم رہیں گے اور دوسروں کو بھی نبی آخر الزماں کی رسالت پر ایمان لانے سے روکیں گے اور اسی حالت پر ان کو موت بھی آجائے یعنی مرتے دم تک کفر ہی پر قائم رہیں گے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ خدا کی لعنت اور فرشتوں کی اور انسانوں کی سب کی لعنت میں مبتلا رہیں گے اور جو خدا کی رحمت سے دور کردیاجائے اور مخلوق کی بد دعائیں اس پر پڑتی ہوں تو اس کا جہنم کے عذاب میں جانا یقینی ہے اس عذاب کی حالت یہ ہے کہ کسی وقت بھی ان پر سے ہلکا نہ ہوگا بلکہ بڑھتا ہی جائے گا اور مہلت بھی نہ ہوگی کہ واپس چلے جائیں یا تھوڑی دیر کیلئے رخصت مل جائے اور کچھ آرام کرلیں یا یہ مطلب ہے کہ جہنم میں داخل ہونے سے پیشتر ان کو کچھ مہلت مل جائے کہ وہ کوئی معذرت کرسکیں یا کوئی عذر پیش کرسکیں اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھاجائے گا یعنی خدا کی نظر رحمت سے بالکل محروم رہیں گے (واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب (رح) لاعنون پر لکھتے ہیں یہ ان کے حق میں ہے جن کو علم خدا کا پہنچا اور غرض دنیا کے واسطے چھپا رکھا۔ (موضح القرآن) ہم نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ رسالت اور قیامت اور مرنے کے بعد جی اٹھنا اور قرآن کی صداقت اور توحید الٰہی یہ وہ اہم مسائل ہیں کہ قرآن کریم نے ان کو بار بار مختلف عنوانات اور مختلف دلائل کے ساتھ بیان کیا ہے کوئی سورت قرآن کریم کی ایسی نہیں ملے گی جس میں ان مسائل پر روشنی نہ ڈالی گئی ہو۔ چنانچہ یہاں بھی کتمان حق کی بحث میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا ثابت کرنا اصل مقصد تھا۔ اب اسکی مناسبت سے آگے توحید کا ذکر ہے پہلے دعویٰ ہے پھر اس کے دلائل ہیں پھر مشرکوں پر اعتراض ہے پھر قیامت میں ان کے سرداروں اور حمایتیوں کی بےبسی اور اظہار بیزاری ہے۔ (تسیہیل)  Show more