Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 163

سورة البقرة

وَ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الرَّحۡمٰنُ الرَّحِیۡمُ ﴿۱۶۳﴾٪  3

And your god is one God. There is no deity [worthy of worship] except Him, the Entirely Merciful, the Especially Merciful.

تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے ، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ بہت رحم کرنے والا اور بڑا مہربان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says; وَإِلَـهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لاَّ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ And your Ilah (God) is One Ilah (God ـ Allah), La ilaha illa Huwa (there is none who has the right to be worshipped but He), the Most Gracious, the Most Merciful. In this Ayah, Allah mentions that He is the only deity, and that He has no partners or equals. He is Allah, the One and Only, the Sustainer, and there is no deity worthy of worship except Him. He is the Most Gracious ـ Ar-Rahman, the Most Merciful ـ Ar-Rahim. We explained the meanings of these two Names in the beginning of Surah Al-Fatihah. Shahr bin Hawshab reported that Asma' bint Yazid bin As-Sakan narrated that Allah's Messenger said: اسْمُ اللهِ الاَْعْظَمُ فِي هَاتَيْنِ الاايَتَيْنِ Allah's Greatest Name is contained in these two Ayat: وَإِلَـهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لاَّ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ And your Ilah (God) is One Ilah (God ـ Allah), La ilaha illa Huwa (there is none who has the right to be worshipped but He), the Most Gracious, the Most Merciful. and: الم اللّهُ لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ Alif-Lam-Mim. Allah! La ilaha illa Huwa (none has the right to be worshipped but He), Al-Haiyul-Qaiyum (the Ever Living, the One Who sustains and protects all that exists)." (3:1-2) Then Allah mentions some of the proof that He is alone as the deity, that He is the One who created the heavens and the earth and all of the various creatures between them, all of which testify to His Oneness. Allah said:

اکیلا حکمران یعنی حکمرانی میں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں نہ اس جیسا کوئی ہے وہ احد اور احد ہے وہ فرد اور صمد ہے اس کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں ، وہ رحمن اور رحیم ہے ، سورۃ فاتحہ کے شروع میں ان دونوں ناموں کی پوری تفسیر گزر چکی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے ، ایک یہ آیت دوسری آیت ( الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم ) اس کے بعد اس توحید کی دلیل بیان ہو رہی ہے اسے بھی توجہ سے سنئے فرماتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

163۔ 1 اس آیت میں پھر دعوت توحید دی گئی ہے۔ یہ دعوت توحید مشرکین مکہ کے لئے ناقابل فہم تھی، انہوں نے کہا (کیا اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنادیا یہ تو بڑی عجیب بات ہے) اس لئے اگلی آیت میں اس توحید کے دلائل بیان کیے جا رہے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠١] یہ خطاب دراصل مشرکین مکہ سے ہے۔ جنہوں نے کئی الٰہ بنا رکھے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ اتنے بڑے کارگاہ کائنات کا سارے کا سارا انتظام ایک اکیلا اللہ کیسے سنبھال سکتا ہے ؟ ان کی عقل میں یہ بات آ ہی نہیں سکتی تھی۔ لہذا انہوں نے مختلف امور کے لیے مختلف الٰہ تجویز کر رکھے تھے اور جتنی پرانی تھذیبیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً ہندی، رومی، مصری، یونانی تھذیبیں، ان سب لوگوں نے دیوی دیوتاؤں کا ایسا ہی نظام تجویز کر رکھا تھا اور مسلمانوں میں بھی اکثر لوگوں میں گو زبانی نہیں مگر عملاً ایسے ہی اعتقادات و افعال رائج ہوچکے ہیں۔ یہ سب لوگ ہی اس آیت کے مخاطب ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی معرفت نصیب نہیں ہوتی اور قرآن میں یہ مضمون لاتعداد مقامات پر آیا ہے۔ کہیں اجمالاً کہیں تفصیل سے اور دلائل کے ساتھ۔ لہذا اس مضمون کی تفصیل کسی دوسرے مقام پر آجائے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اوپر کی آیت میں حق چھپانے پر وعید فرمائی، اب اس آیت میں بیان فرمایا کہ سب سے پہلے جس چیز کا اظہار ضروری ہے وہ مسئلۂ توحید ہے۔ (قرطبی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

When the mushrikin مشرکین ، (the associators) of Arabia heard the verse وَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ &And your god is one God&, all against their own belief, they were puzzled thinking how could there be just one single object of worship for the whole wide world. If this was a serious claim, there has to be some proof in support. That proof has been tersely encased in the present two verses. Understanding Tauhid, the Oneness of Allah, in the wider sense: Tauhid توحید ، the cardinal principle of Muslim faith as stated in Verse 163 has been proved repeatedly and variously, therefore, we limit ourselves at this point to a summary view of the principle as follows: 1. He is One in the state of His being, that is, there exists in the universe of His creation no entity like Him. He is without any duplicate or replica and without any equal or parallel. Such unshared and pristine is His station that He alone is deserving of being called the Wahid واحد ، the One. 2. He is One in claiming the right of being worshipped, that is, in view of the nature of His Being, the comprehensiveness of His most perfect attributes and the great charisma of His creation and its nurture, all human obedience, all ` ibadah عبادہ ، all worship has to be for Him alone. 3. He is One in being free of any conceivable composition, that is, He is free of segments and fragments, units and organs, substances and elements, atoms and particles. There is just no way He can be analyzed or divided or resolved. 4. He is One in being the anterior and the posterior, that is, He existed when nothing did and He will remain existing when nothing will. Who then, if not Him, shall be called the Wahid, the only One? (Jassas)

ربط : مشرکین عرب نے جو آیت وَاِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ اپنے عقیدہ کے خلاف سنی تو تعجب سے کہنے لگے کہ کہیں سارے جہان کا ایک معبود بھی ہوسکتا ہے اور اگر یہ دعویٰ صحیح ہے تو کوئی دلیل پیش کرنا چاہئے حق تعالیٰ آگے دلیل بیان فرماتے ہیں، خلاصہ تفسیر : اور (ایسا معبود) جو تم سب کے معبود بننے کا مستحق وہ تو ایک ہی معبود (حقیقی) ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی رحمٰن ہے، رحیم ہے ( اور کوئی ان صفات میں کامل نہیں اور بدون کمال صفات معبودیت کا استحقاق باطل ہے پس بجز معبود حقیقی کے کوئی اور مستحق عبادت نہ ہوا) بلاشبہ آسمانوں کے اور زمین کے بنانے میں اور یکے بعد دیگرے رات اور دن کے آنے میں اور جہازوں (کے چلنے) میں جو کہ سمندر میں چلتے ہیں آدمیوں کے نفع کی چیزیں (اور اسباب) لے کر اور (بارش کے) پانی میں جس کو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے برسایا پھر اس (پانی) سے زمین کو تروتازہ کیا اس کے خشک ہوئے پیچھے (یعنی اس میں نباتات پیدا کئے) اور (ان نباتات سے) ہر قسم کے حیوانات اس (زمین) میں پھیلا دی (کیونکہ حیوانات کی زندگی اور توالد وتناسل اسی غذائے نباتی کی بدولت ہے) اور ہواؤں کی (سمتیں اور کیفتیں) بدلنے میں (کہ کبھی پروا ہے کبھی پچھوا کبھی گرم ہے کبھی سرد) اور ابر (کے وجود) میں جو زمین و آسمان کے درمیان مقید (اور معلق) رہتا ہے (ان تمام چیزوں میں) دلائل (توحید کے موجود ہیں) ان لوگوں کے (استدلال کے) لئے جو عقل (سلیم) رکھتے ہیں۔ معارف و مسائل : وَاِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ اللہ تعالیٰ کی توحید متعدد اور مختلف حیثیتوں سے ثابت ہے مثلا وہ ایک ہے یعنی کائنات میں کوئی اس کی نظیر و شبیہ نہیں نہ کوئی اس کا ہمسر (برابر ہے اس لئے وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کو واحد کہا جائے، دوسرے یہ کہ وہ ایک ہی استحقاق عبادت میں یعنی اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں، تیسرے یہ کہ وہ ایک ہے یعنی ذی اجزاء نہیں وہ اجزاء واعضاء سے پاک ہے نہ اس کا تجزیہ اور تقسیم ہو سکتی ہے، چوتھے یہ کہ وہ ایک ہے یعنی اپنے وجود ازلی ابدی میں ایک وہ اس وقت بھی موجود تھا جب کوئی چیز موجود نہ تھی اور اس وقت بھی موجود رہے گا جب کوئی چیز موجود نہ رہے گی اس لئے وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کو واحد کہا جائے لفظ واحد میں یہ تمام حیثتیں توحید کی ملحوظ ہیں (جصاص)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِلٰـہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۝ ٠ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ۝ ١٦٣ ۧ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے والھکم الہ واحد ( اور تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے) یہاں اللہ سبحانہ کا اپنی ذات کو اس صفت سے موصوف کرنا کہ وہ ایک ہے انے اندر کئی معانی رکھتا ہے اور یہ تمام معانی اس لفظ کے اندر مراد ہیں۔ ایک معنی تو یہ ہے کہ اللہ واحد ہے کسی بھی چیز کے اندر اس کی نہ کوئی نظیر ہے نہ شبیہ اور نہ کوئی مثل ہے نہ مساوی۔ اسی بنا پر وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اسے واحد کی صفت کے ساتھ موصوف قرار دیاجائے۔ دوم یہ کہ وہ عبادت کے استحقاق نیز الہٰیت کے وصف میں واحد ہے۔ اس میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں ہے۔ سوم یہ کہ وہ ان معنوں میں واحد ہے کہ اس پر تجری اور تقسیم کا حکم عائد کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس کی ذات کے حصے کیے جاسکتے ہیں۔ اس لئے کہ جس ذات کے حصے کیے جائیں اور اس پر تجزی اور تقسیم کا حکم عائد کرنا جائز ہو وہ ذات حقیقت میں ایک اور واحد نہیں ہوسکتی۔ چہارم یہ کہ وہ وجود کے اعتبار سے واحد ہے۔ وہ قدیم ہے اور قدیم کی صفت میں منفرد ہے۔ وجود کے اندر اس کے ساتھ اس کی ذات کے سوا کوئی اور چیز نہیں تھی۔ اپنی ذات کو واحد کی صفت کے ساتھ موصوف کرنا مذکورہ بالا تمام معانی پر مشتمل ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦٣) لوگون نے اللہ کی وحدانیت کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ خود اپنے کلام پاک میں اپنی توحید بیان فرما رہے ہیں کہ نہ اس کا کوئی بیٹا ہے اور نہ ہی شریک ہے، وہ بڑی رحمت فرمانے والا اور بہت ہی شفیق ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٣ (وَاِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ج) (لَآ اِلٰہَ الاَّ ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ ) رحمن اور رحیم کی وضاحت سورة الفاتحہ میں گزر چکی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی صفت پوچھی تھی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور حدیث میں آیا ہے کہ اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے { وَاِلٰھُکُمْ اِلہٰ ٌوَاحِدٌ لاَ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ُ ھَو الْحَیُّ الْقُیُوْم } یہ حدیث ابو داؤد ترمذی و مسند امام احمد وابن ماجہ میں ہے اور ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ لیکن اس کی سند میں ایک راوی شہربن حوشب ہے جس کو اکثر علماء نے ضعیف بتایا ہے مگر امام احمد اور یحییٰ بن معین نے اس کو ثقہ کہا ہے ٢۔ معنی آیت کے یہ ہیں کہ اللہ وحدہ لا شرک ہے اس کی ذات وصفات میں کوئی شریک نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:163) الہکم۔ مضاف مضاف الیہ ۔ تمہارا معبود۔ الۃ واحد۔ واحد۔ صفت مؤکدہ ہے الہ کی کیونکہ الہ کی تنوین سے خود وحدت مترشح ہے۔ اور الہ موصوف کو وحدانیت کی تاکید اور تائید کے لئے فرمایا ۔ موصوف و صفت مل کر الہکم کی خبر ہوئے۔ لا الہ الاھو۔ زیادتی تاکید و تقریر کے لئے ہے اور یہ الہکم کی دوسری خبر ہے۔ الرحمن الرحیم۔ بھی الہکم کی تیسری اور چوتھی خبر ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 اوپر کی آیت میں کتمان حق پر وعید فرمائی ہے۔ اب اس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ سب سے پہلے جس چیز کا اظہار ضروری ہے وہ مسئلہ توحید ہے۔ قرطبی ) ۔ ( نیز دیکھئے آل عمران آیت 1)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ مشرکین عرب نے جو آیت والھکم الہ واحد اپنے عقیدے کے خلاف سنی تو تعجب سے کہنے لگے کہ کہیں سارے جہان کا ایک معبود بھی ہوسکتا ہے اور اگر یہ دعوی صحیح ہو تو کوئی دلیل پیش کرنا چاہیے حق تعالیٰ دلیل توجیہ بیان فرماتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس طرح تمہارا رسول، قرآن، قبلہ اور دین ابراہیم ایک ہے اسی طرح تمہارا معبودِ برحق بھی ایک ہی ہے۔ اب اس کی الوہیت کے دلائل سنو اور ان پر غور کرو ! وہ ایک ہی الٰہ ہے ‘ حاکم مطلق، معبود اور مسجود وہی بحروبرّ ، زمین و آسمان ‘ اور فضاؤں پر کلی اختیار رکھنے والا ہے۔ وہ ہر چیز کا خالق اور واحد مالک ہونے کے باوجود اپنے اختیارات ظلم و زیادتی کی بنیاد پر نہیں بلکہ نہایت ہی رحم وکرم کی اساس پر استعمال کرتا ہے۔ کائنات کے ذرّے ذرّے پر اس کی شفقت و مہربانی کی گھٹائیں برس رہی ہیں۔ اس کی ذات اور شان کی جھلک دیکھنا چاہتے ہو تو غور کرو کہ اس نے زمین و آسمان کو کس طرح پیدا کیا بظاہر زمین ایک ہی دکھائی دیتی ہے لیکن یہ تہ بہ تہ سات طبقات پر بچھائی گئی ہے۔ پھر جس زمین پر تمہارا ٹھکانہ اور بسیرا ہے ‘ اس کی ہزاروں اقسام اور قطعات ہیں۔ کہیں یہ زمین ہزاروں میلوں تک ریت کی شکل میں حد نظر تک سراب کا نقشہ پیش کررہی ہے۔ کہیں سیم و تھور کی وجہ سے پانی کا منظر پیش کرتی ہے۔ پھر کسی مقام پر زمین پوٹھو ہار کا روپ دھار لیتی ہے اور اس کے سینہ پر اربوں سنگلاخ ریزے دکھائی دیتے ہیں ‘ کہیں ٹیلوں اور پہاڑوں کا سلسلہ جاری ہے ‘ اور کہیں ڈھلوان کی صورت میں درجنوں فٹ نیچے ہی نیچے چلی جاتی ہے۔ ایک طرف اس کی چھاتی پر سر سبز و شاداب باغات ہیں اور دوسری طرف صحراء وبیابان کا لامتناہی سلسلہ ہے۔ اس کا ایک حصّہ ایک بیج کو اپنی گود میں لے کر اس کی نشوونما کرتا ہے ‘ دوسراحصّہ اسی بیج کو تلف کردیتا ہے۔ زمین کے ایک حصہ پر ایک فصل لہلہا رہی ہوتی ہے ‘ جب کہ اس کے ساتھ ہی دوسرا رقبہ اس فصل کو اگانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہی صورت زمین کی تہوں کے اندر پائی جاتی ہے۔ ایک علاقے میں کوئلے کے ذخائر ہیں تو اس کے ساتھ والی زمین سونے اور چاندی کے خزانے لیے ہوئے ہے۔ ایک جگہ پانی اتنا کڑوا ہے کہ زبان کاٹ رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی زیر زمین میٹھے پانی کا دریا بہہ رہا ہے۔ یہ زمین اپنے اوپر پہاڑوں، دریاؤں کھربوں انسانوں، حیوانات اور دیگر اشیاء کا بوجھ اٹھانے کے باوجود نہ جھکتی ہے نہ تھکتی ہے۔ اَب آسمان کو دیکھو کہ وہ لاکھوں کروڑوں سالوں سے بغیر ستونوں کے سائبان بنا ہوا ہے۔ کیا مجال ہے کہ ایک انچ بھی اوپر نیچے ہوپائے۔ اس میں غور کے ساتھ دیکھنے سے بھی کوئی جھول نظر نہیں آتا۔ یہاں تک کہ نہ اس کا رنگ بدلا ہے اور نہ اس میں کوئی دراڑ واقع ہوئی ہے ‘ جب کہ اس کا بنیادی مادہ دھواں قرار دیا گیا ہے ( الدخان : ١٠) حالانکہ ایک آسمان کی موٹائی اور ایک سے دوسرے تک کا فاصلہ پانچ سو سال کی مسافت بیان کیا گیا ہے۔[ مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند السابق ] رات اور دن کے فرق کو دیکھا جائے تو رات ٹھنڈی اور دن گرم ہے۔ رات سر شام ہی تاریکی کا نقاب اوڑھ لیتی ہے جب کہ دن ہر جگہ روشن دکھائی دیتا ہے۔ رات کو اکثر فصلیں نمو پاتی ہیں جب کہ دن کی گرمی اور روشنی پھلوں کے پکنے میں مدد دیتی ہے۔ کبھی رات اپنے دامن کو طویل کردیتی ہے اور کبھی دن اس کی چادر کو لپیٹ کر اسے مختصر کرتے ہوئے خود طوالت اختیار کرلیتا ہے۔ پھر سال میں ایسے اوقات بھی آتے ہیں کہ دونوں اپنی طوالت کے لحاظ سے یکساں ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد مسلسل ان کے درمیان گھٹنے اور بڑھنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے کبھی دن صبح کے وقت بڑھنا شروع ہوتا اور کبھی دونوں جانب سے سکڑنا شروع ہوتا ہے۔ سمندر کے سینے پر چلنے والی کشتیوں اور بڑے بڑے جہازوں کی طرف توجہ کی جائے تو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ جو پانی اپنے اوپر ایک سوئی کو برداشت نہیں کرسکتا اسی پانی کی لہریں کشتیوں اور جہازوں کو ساحل مراد تک پہنچانے میں خدّام بنی ہوئی ہیں جو ٹنوں کے حساب سے بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں ‘ اور نقل وحمل کا یہ سب سے بڑا اور مفید ترین ذریعہ ہیں۔ اس طرح ابتدائے آفرینش سے ہی دنیا کی سب سے بڑی تجارت بحری راستوں کے ذریعے ہی ہورہی ہے اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اب اس اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اندازہ کیجیے جو آسمان سے بارش کی صورت میں خاص مقدار اور رفتار سے پانی نازل کرتا ہے جس سے پھول کی نازک ترین پتی بھی غسل کرتی اور پیاس بجھاتی ہے۔ اس طرح جو زمین موت کی ویرانی کا ہولناک منظر پیش کررہی تھی چند لمحوں میں اس میں جل تھل کا سماں دکھائی دیتا ہے۔ جس سے انسان ہی نہیں بلکہ زمین پر رینگنے والے حشرات الارض بھی برابر مستفید ہوتے ہیں۔ پھر ہوا اور اس کی رفتار پر غور کیجیے اگر اللہ تعالیٰ ایک لمحہ کے لیے ہوا کو رنگ دار بنادے تو آنکھیں ہونے کے باوجود دیدہ ور اندھے کی طرح ٹھوکریں کھاتا پھرے۔ یہ ہوا ہی تو ہے جو سمندر کے کڑوے کسیلے پانی کو جراثیم اور مہلک گیسوں سے پاک کر کے بلندیوں کی مخصوص سطح تک لے جاتی ہے۔ پھر ان بادلوں کو دھکیل کر وہاں پہنچادیتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ بادلوں کو برسنے کا حکم دیتا ہے۔ بسا اوقات وہ برسنے کے قریب ہوتے ہیں لیکن چند لمحوں میں ہوا بھاری بھر کم بادلوں کو کہیں اور ہانک کرلے جاتی ہے یہ قدرت کے وہ عظیم الشان آٹھ نشانات ہیں ‘ جن میں کوئی بھی اس اِلٰہِ برحق کا شریک وسہیم نہیں ہے۔ اگر تم عقل و دانش کا معمولی استعمال بھی کرو تو ان چیزوں کے پیدا کرنے والے خالق کو ہر اعتبار سے ایک مانے اور یہ کہے بغیر نہ رہ سکو۔ ( فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ) ” اللہ جو سب سے بہتر بنانے والا ہے بڑا ہی بابرکت ہے “ [ المومنون : ١٤] مسائل ١۔ اللہ ہی معبودِ برحق ہے۔ ٢۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ ٣۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش اور ہر چیز کی تخلیق میں دانش مندوں کے لیے عبرت کے دلائل ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی الٰہ اور رب ہے : ١۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ (النساء : ٨٧) ٢۔ معبود حقیقی صرف اللہ ہے۔ (النساء : ١٧١) ٣۔ اللہ کے علاوہ کوئی خالق نہیں۔ (فاطر : ٣ ) ٤۔ اللہ رحمٰن ورحیم ہے۔ (الفاتحۃ : ٣) ٥۔ اللہ ہی رزّاق ہے۔ (الذاریات : ٥٨) ٦۔ اللہ ہی مشکل کشا ہے۔ (الانعام : ١٧) ٧۔ اللہ ہی حاجت رواہے۔ (الانبیاء : ٨٧) لیل ونہار کی گردشیں : ١۔ رات دن ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں۔ (الاعراف : ٥٤) ٢۔ رات دن کو اور دن رات کو ڈھانپ لیتا ہے۔ (الزمر : ٥) ٣۔ رات اور دن کا بڑھنا، گھٹنا۔ (الحدید : ٦) ٤۔ رات آرام اور دن کام کے لیے ہے۔ (الفرقان : ٤٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(اور اس حقیقت کو پہچاننے کے لئے کوئی نشانی اور علامت درکار ہے تو) جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں ان کے لئے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں ، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں ، ان کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لئے ہوئے ہیں دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں ۔ بارش کے اس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے زمین کو زندگی بخشتا ہے اور اپنے اسی انتظام کی بدولت زمین میں ہر قسم کی جان دار مخلوق کو پھیلاتا ہے ۔ ہواؤن کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بناکر کر کھے گئے ہیں بیشمار نشانیاں ہیں مگر (وحدت خداوندی پر دلالت کرنے والے ان کھلے کھلے آثار کے ہوتے ہوئے بھی ) کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مدمقابل بناتے ہیں اور ان کے ایسے گرویدہ ہیں جیسے اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہئے ۔ حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں ۔ کاش جو کچھ عذاب کو سامنے دیکھ کر انہیں سوجھنے والا ہے وہ آج ان ظالموں کو سوجھ جائے گا ساری طاقتیں اور سارے اختیارات اللہ ہی کے قبضے میں ہیں اور یہ کہ اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے ۔ جب وہ سزا دے گا اس کیفیت یہ ہوگی کہ وہی پیشوا اور راہ نما ، جن کی دنیا میں پیروی کی گئی تھی ، اپنے اپنے پیروؤں سے بےتعلقی ظاہر کریں گے مگر سزا پاکر رہیں گے ۔ اور ان کے سارے اسباب ووسائل کا سلسلہ کٹ جائے گا اور وہ لوگ جو دنیا میں ان کی پیروی کرتے تھے ، کہیں گے کاش ہم کو پھر ایک موقع دیا جاتا تو جس طرح آج یہ ہم سے بیزاری کا اظہارکر رہے ہیں ، ہم ان سے بیزار ہوکر دکھا دیتے ۔ یوں اللہ ان لوگوں کے وہ اعمال ، جو یہ دنیا میں کررہے ہیں ، ان کے سامنے اس طرح لائے گا کہ یہ حسرتوں اور پشیمانیوں کے ساتھ ہاتھ ملتے رہیں گے ، مگر آگ سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے ۔ ایمانی تصورحیات وحدت الوہیت کے اصول پر قائم ہے ۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت اللہ تعالیٰ کے وجود کے بارے میں کوئی تنازع نہ تھا ۔ البتہ ذات باری ، صفات باری اور مخلوق و خالق کے باہمی تعلق کے بارے میں اختلاف رائے ضرور تھا ۔ کوئی بھی اللہ کے وجود کے بارے میں اختلاف نہ کرتا تھا۔ ایسا کبھی نہ ہوا کہ انسانی فطرت نے کبھی وجود باری کو بھلادیا ہو۔ یا انسان کسی خدا کا قائل نہ رہا ہو۔ یہ تو اس دورجدید کی بیماری ہے جب اذہان میں ایسے افکار اگ آئے ، جن کا تعلق زندگی کے شجرہ طیبہ سے نہیں ہے ، جو فطرت کے عین خلاف ہیں ، جن کے نتیجے میں انسان نے سرے سے وجود باری کا بھی انکار کردیا ۔ یقیناً یہ اوپرے افکار ہیں اور موجودات وکائنات میں ان کی کوئی جڑ موجود نہیں ہے ۔ ایک وقت ضرور آئے گا جب یہ افکار سرے سے ناپید ہوجائیں گے اور ان کا کوئی نام ونشان بھی نہیں رہے گا ۔ کائنات کی تشکیل وتکوین اور اس کی ساخت ان افکار کی متحمل نہیں ہے ۔ ایسے لوگوں کو فطرت کائنات مسترد کرتی ہے اور یہ لوگ اس لئے ناقابل برداشت ہیں کہ ان کے افکار کی جڑیں فطرت کائنات میں نہیں ہیں ۔ عقیدہ توحید انسان کے نظریہ حیات میں ایک ضروری تصحیح ہے ، اسلامی نظام حیات کے لئے تو خشت اول ہے ۔ اس لئے قرآن حکیم بار بار عقیدہ توحید کا بیان مختلف پیرایوں میں کرتا ہے ۔ یہی وہ بنیاد اور اساس ہے جس پر اسلام کا اخلاقی نظام اور اس کی اجتماعی تنظیم استوار ہوئی ۔ یعنی اس کائنات میں وحدت ربوبیت کا تصور وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌتمہارا اللہ ایک ہی ہے لا إِلَهَ إِلا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ ” اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے ۔ رحمان ہے رحیم ہے ۔ “ تاکید اور بار بار تاکید ، یعنی وحدانیت الٰہ کی اس تاکید کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معبود ایک ہوجاتا ہے جس کی تمام مخلوق بندگی کرتی ہے اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتی ہے ۔ وہ سمت ایک متعین ہوجاتی ہے جس سے پوری مخلوق اپنے اخلاق اور اپنے طرز عمل کے اصول اور طریقے اخذ کرتی ہے اور وہ ماخذ اور منبع بھی متعین ہوجاتا ہے ۔ جس سے انسان شریعت و قانون کے اصول اخذ کرتا ہے۔ اور وہ واحد نظام حیات بھی متعین ہوجاتا ہے جو انسان کے تمام اصول حیات میں متصرف ہوتا ہے۔ جیسا کہ سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے ۔ یہاں امت مسلم کو کو اس عظیم رول کے لئے تیار کیا جاتا ہے جو اسے کرہ ارض پر ادا کرنا ہے ۔ اس مناسبت سے یہاں اس حقیقت کا پھر ذکر کردیا جاتا ہے ۔ جس کا ذکر قرآن مجید میں باربار کیا جاتا ہے ۔ جو قرآن مجید کا وہ سایہ دار درخت ہے جس کی جڑیں دورتک زمین میں گئی ہوئی ہیں اور اس کی شاخیں عقل و شعور کے آسمان پر دور تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ بلکہ وہ اس پوری کائنات کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہیں ۔ اس حقیقت کا ذکر یہاں مقرر کردیا جاتا ہے کہ اسلامی معاشرے کی تمام قانون سازی اور ضابطہ بندی میں سے پیش نظر رکھا جائے ۔ کیا ہے وہ حقیقت ؟ وہ ہے توحید الٰہی۔ پھر یہاں اللہ تعالیٰ کی صفات رحمٰن رحیم کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ تما تشریعات وضابطہ بندیوں کا ماخذ اور سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی یہ گہری اور عمومی صفت ، صفت رحمت ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

معبود حقیقی ایک ہی ہے اس آیت میں خالق تعالیٰ شانہ کی توحید بیان فرمائی ہے اور مشرکین کی تردید فرمائی ہے۔ فرمایا کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ اپنی ذات صفات میں یکتا ہے اور تنہا ہے۔ اور ایک ہے وہ بہت مہربان ہے اور بہت زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔ اس کی کوئی نظیر نہیں اور اس کا کوئی ہمسر اور برابر نہیں۔ وہ واحد ہے احد ہے وحدہ لاشریک ہے۔ ساری مخلوق کو تنہا اسی نے پیدا فرمایا۔ لہٰذا وہی واحد معبود ہے ساری مخلوق پر وہ رحم فرماتا ہے۔ لوگوں نے اس کے علاوہ جو دوسرے معبود بنائے ہیں وہ جھوٹے معبود ہیں ان میں سے کوئی بھی مستحق عبادت نہیں نہ وہ خالق ہیں نہ مالک ہیں نہ رحمن ہیں نہ رحیم ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

297 یہاں دعویٰ توحید کا اعادہ کیا گیا ہے۔ اس سے یہ اشارہ بھی ہوگیا کہ سب سے پہلے جس چیز کا اظہار واجب ہے اور جس کا چھپانا کسی حال میں بھی جائز نہیں وہ توحید ہے۔ لما حذر تعالیٰ من کتمان الحق بین ان اول مایجب اظھارہ ولا یجوز کتمانہ امر التوحید (قرطبی ص 190 ج 2) اور اعادہ دعویٰ کی وجہ پہلے بیان ہوچکی ہے کہ شروع میں تو شرک فی الدعاء کی نفی تھی۔ اب یہاں سے شرک فعلی کی نفی مقصود ہے یعنی جس طرح اللہ کے سوا کوئی پکارنے کے لائق نہیں اسی طرح اللہ کے سوا نذرومنت کا مستحق بھی کوئی نہیں اور نہ ہی کسی کی تعظیم کے لیے سانڈ وغیرہ چھوڑنے جائز ہیں جیسا کہ آگے اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ الخ میں غیر اللہ کی نذرونیاز اور كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا الخ میں تحریمات لغیر اللہ کا بیان آرہا ہے۔ اِلٰہٌ سے مراد وہ زات ہے جو عالم الغیب، قادر علی الاطلاق، مالک ومختار، حاجت روا ومشکل کشا ہونے کی وجہ سے تمام عبادات مالیہ، بدنیہ، اور لسانیہ کی مستحق ہو، جسے حاجات میں پکارا جائے، مصائب وبلیات میں جس کی پناہ ڈھونڈی جائے، جس کی رضامندی اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس کی نذریں اور منتیں دی جائیں۔ اور رنج وبلا اور قحط ووباء میں جس کی دہائی دی جائے اس سے مدد طلب کی جائے۔ اور واحد سے مراد یہ ہے کہ وہ بےمثل او بیگانہ ہے۔ ذات وصفات میں بےنظیر ہے۔ اور استحقاق عبادت میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ و اکثر الناس علی ان الواحد ھنا بمعنی لا نظیر لہ ولا شبیہ فی ذاتہ ولا فی صفاتہ ولا فی افعالہ۔۔۔ واصح الاقوال عند ذی العقول السلیمۃ انہ الذی لا نظیر لہ ولا شبیہ لہ فی استحقاق العبادۃ (روح ص 30 ج 2) فرد فی الوھیتہ لاشریک لہ فیھا ولا یصح ان یسمی غیرہ الھاً (مدارک ص 67 ج 1) لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۔ لا نفی جنس کے لیے ہے اور اس کی خبر محذوف ہے اور الا بمعنی غَیْرُ ہے ای لا الہ موجود غیرہ یعنی نفس الامر اور عالم وجود میں اللہ کے سوا کسی الٰہ کا نام ونشان تک موجود نہیں۔ پہلے جملہ سے اس بات کی نفی کی ہے کہ دنیا میں مستحق عبادت صرف اللہ ہی ہے اور اس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں۔ تو شبہ ہوسکتا تھا کہ شاید دنیا میں اللہ کے سوا کوئی اور بھی الہ ہو، لیکن مستحق عبادت نہ ہو، تو اس جملہ میں سرے سے وجود الہ ہی کی نفی فرمادی۔ ومزیح علی ما قیل لام عسی ان یتوھم ان فی الوجود الھا لکن لا یستحق العبادۃ (روح ص 30 ج 2)298 یہ دونوں صفتیں دعویٰ توحید پر بطور دلیل لائی گئی ہیں۔ کیونکہ رحمن تو وہ ہے جس نے ہمیں دنیوی انعامات سے مالا مال فرمایا ہے۔ اور رحیم وہ ہے جو آخرت میں ہم پر اپنی رحمت خاصہ کے دروازے کھولے گا۔ جب دنیا وآخرت میں وہی ہمارا ولی نعمت اور محسن ومربی ہے اور باقی ساری کائنات ارضی وسماوی اور مخلوقات نوری وناری اور خاکی سب اس کی محتاج ودست نگر ہے تو وہی رحمن ورحیم ہی ہر قسم کی عبادت کا مستحق ہے۔ اس کے سوا کوئی علوی یا سفلی، ارضی یا سماوی، نوری، ناری یا خاکی عبادت کا مستحق نہیں۔ نہ پکارنے کے لائق نہ نذرومنت کے۔ یہاں تک تو دعویٰ توحید کا اعادہ تھا۔ آگے اس کے اثبات کے لیے عقلی دلیل بیان کی گئی ہے جو مختلف سات دلیلوں پر مشتمل ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi