Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 179

سورة البقرة

وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۷۹﴾

And there is for you in legal retribution [saving of] life, O you [people] of understanding, that you may become righteous.

عقلمندو! قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے اس باعث تم ( قتل ناحق سے ) رُکو گے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ ... And there is life for you in Al-Qisas, legislating the Law of equality, i.e., killing the murderer, carries great benefits for you. This way, the sanctity of life will be preserved because the killer will refrain from killing, as he will be certain that if he kills, he would be killed. Hence life will be preserved. In previous Books, there is a statement that killing stops further killing! This meaning came in much clearer and eloquent terms in the Qur'an: وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ (And there is (a saving of) life for you in Al-Qisas (the Law of equality in punishment). Abu Al-Aliyah said, "Allah made the Law of equality a `life'. Hence, how many a man who thought about killing, but this Law prevented him from killing for fear that he will be killed in turn." Similar statements were reported from Mujahid, Sa`id bin Jubayr, Abu Malik, Al-Hasan, Qatadah, Ar-Rabi bin Anas and Muqatil bin Hayyan. Allah's statement: ... يَاْ أُولِيْ الاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ O men of understanding, that you may acquire Taqwa. means, `O you who have sound minds, comprehension and understanding! Perhaps by this you will be compelled to refrain from transgressing the prohibitions of Allah and what He considers sinful.' Taqwa (mentioned in the Ayah) is a word that means doing all acts of obedience and refraining from all prohibitions.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

179۔ 1 جب قاتل کو یہ خوف ہوگا کہ میں بھی قصاص میں قتل کردیا جاؤں گا تو پھر اسے کسی کو قتل کرنے کی جرأت نہ ہوگی اور جس معاشرے میں یہ قانون قصاص نافذ ہوجاتا ہے وہاں یہ خوف معاشرے کو قتل اور خونریزی سے محفوظ رکھتا ہے جس سے معاشرے میں نہایت امن اور سکون رہتا ہے اس کا مشاہدہ آج بھی سعودی معاشرے میں کیا جاسکتا ہے جہاں اسلامی حدود کے نفاذ کی یہ برکات الحمد للہ موجود ہیں۔ کاش دوسرے ممالک بھی اسلامی حدود کا نفاذ کر کے اپنے عوام کو یہ پر سکون زندگی مہیا کرسکیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢٥] یہ نہایت فصیح وبلیغ جملہ ہے۔ جس پر عرب کے فصحاء عش عش کر اٹھے۔ کیونکہ اس مختصر سے جملہ میں دریا کو کوزہ میں بند کردیا گیا ہے۔ یعنی قصاص بظاہر تو موت ہے۔ مگر حقیقت میں پوری زندگی کا راز اسی میں ہے۔ عرب میں جو فصیح محاورہ استعمال ہوتا تھا القتل انفی القتل یعنی قتل قتل ہی سے مٹتا ہے۔ مگر فی القصاص حیاۃ میں بدرجہا زیادہ لطافت، فصاحت، بلاغت ہے اور مضمون بھی بہت زیادہ سما گیا ہے۔ دور جاہلیت میں اگر کوئی شخص مارا جاتا تو اس کے قصاص کا کوئی قاعدہ نہ تھا۔ لہذا اس کے بدلے دونوں طرف سے ہزاروں خون ہوتے مگر پھر بھی فساد کی جڑ ختم نہ ہوتی تھی۔ عرب کی تمام خانہ جنگیاں جو برسہا برس تک جاری رہتی تھیں اور عرب بھر کا امن و سکون تباہ ہوچکا تھا۔ اس کی صرف یہی وجہ تھی۔ اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے قصاص کا عادلانہ قانون دے کر دنیا بھر کے لوگوں کو جینے کا حق عطا فرما دیا۔ قصاص اور دیت کے چند ضروری مسائل ١۔ قاتل کے لیے تین صورتیں ہیں (i) مقتول کے وارث قصاص پر ہی مصر ہوں (ii) قصاص تو معاف کردیں مگر دیت لینا چاہیں (iii) سب کچھ معاف کردیں۔ مقتول کے وارثوں کو ان سب باتوں کا اختیار ہے۔ ٢۔ مقتول کے وارثوں میں سے اگر کوئی ایک بھی قصاص معاف کر دے تو قصاص کا معاملہ ختم اور پھر باقی صورتوں میں ممکن صورت پر عمل ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کو قصاص لینے کے بجائے معاف کردینا یا دیت لے لینا زیادہ پسند ہے۔ ٣۔ کافر کے بدلے مسلم کو قتل نہ کیا جائے (بخاری، کتاب الدیات، (باب لا یقتل المسلم بالکافر) یہ اس صورت میں ہے جبکہ کافر حربی ہو اور اگر ذمی ہو تو اس کا قصاص یا دیت یا عفو ضروری ہے۔ ٤۔ اگر باپ بیٹے کو قتل کر دے تو اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ (احمد بیہقی بسند صحیح، بلوغ الامانی جلد ١٦ (رض) ٣٢٠) ٥۔ آج کل جاہلی دستور نہیں رہا۔ غلامی کا دور بھی ختم ہوگیا۔ اب یہ صورت باقی ہے کہ اگر عورت مرد کو یا مرد عورت کو قتل کر دے تو پھر کیا ہونا چاہیے۔ شریعت اس بارے میں خاموش ہے اور یہ قاضی کی صوابدید پر ہوگا۔ ٦۔ جان کی دیت سو اونٹ ہے (نسائی، کتاب العقود والدیات، عن عمرو بن جزم) یا ان کی قیمت کے برابر، یا جو کچھ اس وقت کی حکومت اس کے لگ بھگ مقرر کر دے۔ ٧۔ دیت عصبات (ددھیال) کے ذمہ ہے (بخاری، کتاب الدیات باب جنین المراۃ، نیز مسلم، کتاب القسامۃ باب دیت الجنین) تفصیلی مسائل کے لیے کتب احادیث کی طرف رجوع کیا جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

” قصاص میں زندگی “ کے معنی یہ ہیں کہ اس سزا کے خوف سے لوگ قتل کرنے سے رک جائیں گے اور کوئی شخص دوسرے کے قتل پر جرأت نہیں کرے گا۔ پس ” تَتَّقُوْنَ “ کے معنی یہ ہیں ” تاکہ تم دوسرے کو قتل کرنے سے بچ جاؤ “ مگر اس کے معنی عام لینا بہتر ہے ” تاکہ تم گناہ سے کنارہ کرکے آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جاؤ۔ “ علماء نے لکھا ہے کہ یہ آیت اختصار اور جامعیت میں بےنظیر ہے۔ سعودی عرب میں بےمثال امن اسی آیت پر عمل کی برکت سے ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوۃٌ يّٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝ ١٧٩ قِصاصُ : تتبّع الدّم بالقود . قال تعالی: وَلَكُمْ فِي الْقِصاصِ حَياةٌ [ البقرة/ 179] وَالْجُرُوحَ قِصاصٌ [ المائدة/ 45] ويقال : قَصَّ فلان فلانا، وضربه ضربا فَأَقَصَّهُ ، أي : أدناه من الموت، والْقَصُّ : الجصّ ، و «نهى رسول اللہ صلّى اللہ عليه وسلم عن تَقْصِيصِ القبور» القصاص کے معنی خون کا بدلہ دینے کے ہیں چناچہ فرمایا : وَلَكُمْ فِي الْقِصاصِ حَياةٌ [ البقرة/ 179] حکم قصاص میں تمہاری زندگی ہے ۔ وَالْجُرُوحَ قِصاصٌ [ المائدة/ 45] سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے ۔ محاورہ ہے قص فلان فلانا وضربہ ضربا فاقصہ فلاں کو ( مار مار کر ) مرنے کے قریب کردیا ۔ القص کے معنی چونہ کے ہیں ۔ حدیث میں ہے (181) نھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عن تقصیص القبور کہ رسول اللہ نے قبروں کو گچ کرنے سے منع فرمایا ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ لب اللُّبُّ : العقل الخالص من الشّوائب، وسمّي بذلک لکونه خالص ما في الإنسان من معانيه، كَاللُّبَابِ واللُّبِّ من الشیء، وقیل : هو ما زكى من العقل، فكلّ لبّ عقل ولیس کلّ عقل لبّا . ولهذا علّق اللہ تعالیٰ الأحكام التي لا يدركها إلّا العقول الزّكيّة بأولي الْأَلْبَابِ نحو قوله : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة/ 269] ( ل ب ب ) اللب کے معنی عقل خالص کے ہیں جو آمیزش ( یعنی ظن دوہم اور جذبات ) سے پاک ہو اور عقل کو لب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ انسان کے معنوی قوی کا خلاصہ ہوتی ہے جیسا کہ کسی چیز کے خالص حصے کو اس کا لب اور لباب کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ لب کے معنی پاکیزہ اور ستھری عقل کے ہیں چناچہ ہر لب کو عقل کہہ سکتے ہیں لیکن ۔ ہر عقل لب ، ، نہیں ہوسکتی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام احکام کو جن کا ادراک عقول زکیہ ہی کرسکتی ہیں اولو الباب کے ساتھ مختض کیا ہے جیسے فرمایا : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة/ 269] اور جس کو دانائی ملی بیشک اس کو بڑی نعمت ملی اور نصیحت تو وہی لو گ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت سی آیات ہیں ؛ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) جب فاعل کے اپنے حصے کے اندر اس پر حد واجب نہیں ہوئی تو یہ بات دوسرے شریک کے حلے میں حد کے وجوب کے لیے مانع بن جائے گی، کیونکہ اس میں تبعیض نہیں ہوسکتی، اسی بنا پر ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ اگر دو افراد کسی ایسے شخص کی چوری کرلیں جو ان میں سے ایک کا بیٹا ہو دونوں میں سے کسی کا بھی ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا کیونکہ مسروقہ چیز کی حفاظت کا حصار توڑنے کے جرم میں ایک کی مسارکت ایسے دوسرے شخص کے ساتھ ہوئی تھی جو قطع ید کا مستحق نہیں ہے۔ یعنیی مال کے مالک کا باپ۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ عامد اور مخطی، عاقل اور دیوانے ، بالغ اور بچے کی شراکتوں میں وقوع پذیر ہونے والے قتل عمد میں عمد کا حکم عامد یا عاقل یا بالغ کے ساتھ متعلق ہونے کی وجہ سے ان پر قصاص واجب کردیتا ہے جیسا کہ آپ نے تلاوت کردہ آیات سے استدلال کیا ہے کہ مذکورہ بالا قاتلین کے جوڑوں میں ہر جوڑے کا ہر فراد پوری جان کا قاتل اور پوری زندگی کا متلف ہوتا ہے۔ اور سای بنا پر وہ اشتراک و انفراد کی دونوں حالتوں میں وعید کا مستحق گردانا جاتا ہے، نیز اسی بنا پر کسی شخص کو عمداًٰ قتل کرنے والی پوری جماعت کے ہر فرد پر قصاص واجب ہوجاتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں مذکورہ جماعت کا ہر فرد اس شخص کا حکم میں ہوتا ہے جس نے انفرادی طور پر پوری جان لی ہو۔ یہ وضاحت اس امر کی موجب ہے کہ اگر عاقل اور دیوانے کا جورُا قتل عمد میں شریک ہو تو عاقل کو قصاص میں قتل کردیا جائے۔ نیز بچے اور بالغ کے جوڑے کی صورت میں بالغ کو عامد اور مخطی کے جوڑے کی صورت میں عامد کو قتل کردیا جائے اور مذکورہ افراد سے قصاص کا حکم اس بنا پر ساقط نہ ہو کہ ان کی مشارکت ایسے افراد کے ساتھ تھی جن سے قصاص نہیں لیا جاسکتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات اس بنا پر واجب نہیں ہے کہ سب حضرات اس امر پر متفق ہیں کہ اگر قتل کے ارتکاب میں شرکت کرنے والا شخص ایسا ہو جس پر قصاص کا حکم جاری نہیں ہوتا، یعنی دیوانہ یا نابالغ یا مخطی تو اس صورت میں اس پر دیت کا کچھ حصہ لازم ہوجائے گا۔ اور جب دیت لازم ہوجائے گی تو اس کے نتیجے میں دونوں قاتلوں سے عمد کا حکم منتفی ہوجائے گا۔ کیونکہ اتلاف کی حالت میں جان کی تبعیض نہیں ہوتی۔ اس لیے دونوں قاتل قتل خطا کے حکم میں ہوجائیں گے۔ اور یہ قتل قصاص والا قتل قرار نہیں پائے گا۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھیے جس شریک قاتل پر قصاص کا حکم جاری نہیں ہوتا اس پر دیت کا ایک حصہ واجب ہوتا ہے، پوری دیت واجب نہیں ہوتی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ دونوں قاتل قتل خطا کے حکم میں ہوگئے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو پوری دیت واجب ہوجاتی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر تمام قاتلوں پر قصاص کا حکم جاری ہوتا تو ایسی صورت میں ہم تمام قاتلین سے قصاص لے لیتے اور ان میں ہر قاتل کے حکم میں ہوتا جس نے تنہا قتل کا ارتکاب کیا ہو اور جب اس شریک قاتل پر دیت کا ایک حصہ واجب ہوگیا جس پر قصاص کا حکم جاری نہیں ہوسکتا۔ تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ قصاص ساقط ہوگیا۔ نیز یہ کہ مقتول کی جان قتل خطا کے حکم میں ہوگئی اور اسی بنا پر دیت قاتلوں کی تعداد پر تقسیم ہوگئی۔ جب امام شافعی ہمارے ساتھ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر قتل کے ارتکاب میں شریک دو افراد میں سے ایک فرد عامد ہو اور دوسرا مخطی تو عامد پر قصاص واجب نہیں ہوگا تو ان پر لازم آتا ہے کہ وہ یہی حکم ان صورتوں میں بھی عائد کریں جب عاقل اور دیوانہ یا بالغ اور بچہ مل کر کسی کو قتل کردیں کیونکہ ان صورتوں میں عاقل یا بالغ کی مشارکت ایسے افراد کے ساتھ ہوگی جن پر قصاص کا حکم جاری نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں ہم نے اصول کے اندر یہ بات دیکھی ہے کہ ایک شخص کے سلسلے میں مال اور قصاص دونوں کا وجوب ممتنع ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر قاتل ایک شخص ہو اور اس پر مال واجب ہوجائے۔ تو قصاص کا وجوب منتفی ہوجاتا ہے۔ اسی طرح وطی، یعنی عورت کے ساتھ ہمبستری کا حکم ہے۔ کہ جب ہمبستری کی بنا پر مہر واجب ہوجائے تو حد ساقط ہوجاتی ہے۔ اسی طرح سرقہ کی کیفیت ہے کہ جب اس کی بنا پر تاوان واجب ہوجائے تو ہمارے نزدیک قطع ید کا حکم ساقط ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ان صورتوں میں مال صرف اس وقت واجب ہوتا ہے جب قصاص اور حد کو ساقط کردینے والے شبہ کا وجود ہوجائے ۔ جب زیر بحث مسئلے میں بالا تفقا مال واجب ہوگیا تو اس کی وجہ سے قصاص کا وجوب منتفی ہوگیا۔ ہم نے اوپر جو صورتیں بیان کی ہیں ان میں قصاص کا سقوط اس کے ایجاب سے اولیٰ ہے۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ قصاص اپنے ثبوت کے بعد بعض دفعہ مال میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ جبکہ مال کسی بھی صورت میں قصاص میں تبدیل نہیں ہوتا۔ اس لیے اس چیز کا اثبات جو کبھی بھی فسح ہو کر کوئی اور صورت اختیار نہیں کرتی اس چیز کے اثبات کی بہ نسبت اولیٰ ہوگا جو بعض دفعہ ثابت ہونے کے باوجود نسخ ہو کر کوئی اور صورت اختیار کرلیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ کہنا درست ہوگا کہ دو قاتلوں میں سے اگر قصاص کا سقوط ایک سے ہوجائے ، تو یہ بات دوسرے قاتل سے بھی قصاص ساقط کر دے گی۔ اگر کہا جائے کہ قتل عمد میں شریک دو افراد میں سے ایک کو مقتول کا ولی اگر معاف کردے تو دوسرے قاتل کو قصاص میں قتل کردیا جائے گا۔ لازم ہے کہ زیر بحث مسئلہ میں بھی یہی حکم عابد کریں۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ اعتراض امام شافعی کے اصول پر وارد ہوتا ہے ۔ ہم پر وارد نہیں ہوتا، کیونکہ اس اعتراض کی بنا پر امام شافعی پر لازم ہوگا کہ جب ارتکاب قتل کے اندر عابد کے ساتھ مخطی شریک ہوجائے تو وہ عابد سے قصاص لینے کا حکم عائد کریں اور ان کی نظر میں اس قاتل سے قصاص کی نفی میں مذکورہ مشارکت کو کوئی دخل نہیں جس پر تنہا قتل کے ارتکاب کی صورت میں قصاص واجب ہوجاتا ہے۔ خواہ قتل عمد میں شریک دو افراد میں سے ایک کو مقتول کے ولی کی طرف سے معافی مل جائے کی بنا پر اس سے قصاص کا سقوط دوسرے قاتل سے قصاص ساقط نہ بھی کرے جب مخطی اور عامد کے اندر امام شافعی کے نزدیک عامد سے قصاص لینا لازم نہیں ہے تو پھر ہمارے نزدیک بھی بچے اور نابالغ نیز دیوانے اور عاقل کی صورتوں میں بالغ یا عاقل سے قصاص لینا لازم نہیں ہوگا۔ مذکورہ اعتراض ایک اور وجہ سے بھی ساقط الاعتبار ہے، وہ یہ کہ زیر نظر گفتگو استیفاء ( قصاص پر عملدرآمد) کے بارے میں ہے اور استیفاء شراکت کے طور پر واجب نہیں ہوتا، یعنی یہ ضروری نہیں ہوتا کہ دونوں قاتلوں کو مشترکہ طور پر قتل کیا جائے کیونکہ مقتول کے ولی کو اختیار ہوتا ہے کہ دونوں میں سے جسے چاہے قتل کر دے، اسے یہ بھی اختیار ہوتا ہے کہ دونوں مییں سے جو قاتل ہاتھ آ جائے اسے قتل کر دے۔ نیز ہمارا زیر بحث مسئلہ ابتداء وجوب کے بارے میں ہے جب قتل کا وقوعہ مسارکت کی صورت میں ہوا ہو۔ ایسی صورت میں یہ بات محال ہوگی کہ دونوں قاتلوں میں سے ہر ایک دوسرے کے سوا حکم کے اندر اتلاف کرنے والا قرار پائے۔ حکم کے اندر دونوں میں سے ایک کا دوسرے ک بغیر تنہا رہ جانا محال ہے۔ نیز وجوب استیفاء سے ایک مختلف حکم ہے۔ اس لیے وجوب پر استیفاء لازم کرنا جائز نہیں ہوگا، کیونکہ استیفاء کا حالت کو وجوب کی حالت پر اعتبار کرنا درست نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ استیفاء کے وقت قاتل کا تائب ہو کر ولی اللہ ہونا ممکن ہے جبکہ قصاص موجب قتل کے ارتکاب کے وقت اس کا ولی اللہ ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی طرح یہ ممکن ہے کہ زانی توبہ کرے۔ ایسی صورت میں اس پر حد کے استیفاء کا حق باق رہے گا، لیکن تائب ہوجانے کی حالت میں حد کا وجوب جائز نہیں ہوگا۔ اس لیے جو شخص وجوب کی حالت کی اتیفاء کی حالت پر اعتبار کرے گا وہ در حقیقت اس بات کے کہنے سے غفلت برتے گا جس کا کہنا اس پر واجب ہے، نیز جب مقتول کا ولی ایک قاتل کو معاف کر دے گا تو اس کے قتل کا حکم ساقط ہوجائے گا اور اس کے نتیجے میں دوسرا قاتل مقتول کو تنہا قتل کرنے والے کے حکم میں ہوجائے گا، اس لیے اس پر قصاص لازم ہوجائے گا اور دوسرے سے قصاص ساقط ہونے کی بنا پر اس سے قصاص ساقط نہیں ہوگا۔ رہ گیا دیوانہ اور نابالغ ، نیز مخطی تو ان سب کا فعل غلطی کے طور پر ثابت ہوگا اور یہ بات اس شخص کے خون کی ممانعت کی موجب ہوگی جو ان کے ساتھ شریک ہوا ہوگا۔ کیونکہ قتل کے اندر دونوں کے اشتراک کی وجہ سے جو حکم دیوانے یا نابالغ یا مخطی کا ہوگا وہی حکم اس کے شریک کا بھی ہوگا۔ گزشتہ سطور میں ہم نے کتاب اللہ سے جو دلائل پیش کیے ہیں، نیز عقلی طور پر جو استدلال کیا ہے اس سے جب ثہ بات ثابت ہوگئی ج کہ عاقل ، مخظی یا بالغ کے ساتھ قتل کے فعل میں کوئی ایسا فرد شامل ہوجائے جس پر قصاص کا حکم جاری نہیں ہوتا، یعنی دیوانہ، عامد یا بالغ تو ان سے بھی قصاص کا حکم ساقط ہوجاتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا جائز ہے کہ جن آیات میں قصاص کا ذکر ہے ان کے حکم کے موجب کی (حرف جیم کے زبر کے ساتھ) ان دونوں قسموں کے افراد کی بنا پر تخصیص کردی جائے وہ آیات یہ ہیں : کتب علیکم القصاص فی القتلیٰ نیز : الحر بالحر نیز ومن قتل مظلوما اور النفس بالنفس نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ان احادیث کا عموم جو قصاص کو واجب کرتی ہیں۔ نیز یہ تمام دلائل چونکہ ایسے عموم کی صورت میں ہیں جن سے بالاتفاق خصوص مراد ہے اس لیے نظری دلائل کے ذریعے اس قسم کے عموم کی تخصیص جائز ہے۔ واللہ الموفق، امام محمد نے فرمایا ہے کہ اگر عابد کے ساتھ بچہ یا دیوانہ قتل کے فعل میں شریک ہوجائے تو اس صورت میں عابد پر قصاص واجب نہیں ہوگا۔ امزنی کے قول کے مطابق امام شافعی نے اس مسئلے میں امام محمد کے خلاف یہ کہہ کر استدلال کیا ہے کہ اگر آپ نے عامد سے قصاص کا حکم اس بنا پر رفع کیا ہے کہ اس کا شریک بچہ یا دیوانہ دونوں مرفوع القلم ہیں اور ان عمد بھی خطا ہے، تو پھر آپ اس اجنبی قر قصاص کیوں نہیں واجب کرتے جو کسی شخص کو اس کے باپ کے ساتھ مل کر عمداً قتل کر دے کیونکہ باپ تو موفوع القلم نہیں ہوتا۔ ہمارے خیال میں امام شافعی نے یہ استدلال کر کے اپنا موقف ترک کردیا ہے۔ چناچہ المزنی نے کہا ہے کہ اس مسئلے میں امام شافعی نے امام محمد پر تنقید کر کے ان کی ہمنوائی کرلی ہے کیونکہ مخطی اور دیوانے سے قصاص کی حکم رفع کردینا ایک ہی بات ہے۔ اسی طرح مخطی دیوانے اور بچے کے ساتھ قتل عمد میں شریک افراد کا حکم بھی یہی ہونا چاہیے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ المزنی نے امام شافعی سے جو بات نقل کی ہے وہ دراصل ایک چیز کو اس کے موقع اور محل کے بغیر لازم کردیا ہے۔ امام محمد کی بیاں کردہ اس اصل کے تحت جو لات لازم آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر ایسا قاتل جس کا عمد بھی خطا شمار ہو اس کے ساتھ قتل کے فعل میں شریک شخص سے قصاص نہیں لیا جائے گا خواہ یہ شریک عامد ہی کیوں نہ ہو، لیکن جس قاتل کا عمد خطا شمار نہیں ہوتا تو اس کے سلسلے میں یہ بات لازم نہیں ہے کہ قتل کے فعل میں اس کے شریک اور اس کے حکم کے درمیان فرق رکھا جائے، بلکہ اس کا حکم اس حکم کی دلیل پر موقوف ہوتا ہے کیونکہ یہ عکس علت کی صورت ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر کوئی شخص شرع کے اندر ایک علت پر کسی حکم کی بنیاد رکھے تو اس سے یہ لازم نہیں ہتا کہ وہ مذکورہ علت کو الٹ دے، یعنی عکس علت کر دے اور پھر مذکورہ علت کی عدم موجودگی میں ایسے حکم کا ایجاب کر دے جو مذکورہ علت کی موجودگی میں اس کے موجَب کی ضد ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب ہم کہتے ہیں غرر ( دھوکے اور فریب) کا وجود بیع کے جواز کے لیے مانع ہے تو اس سے ہم پر لازم نہیں آتا کہ غرر کی عدم موجودگی میں ہم بیع کے جواز کا حکم عائد کردیں، کیونکہ یہ عین ممکن ہوتا ہے کہ غرر کی عدم موجودگی کے باوجود کسی اور وجہ سے مذکورہ بیع کا جواز ممنوع ہو، مثلاً یہ ک مبیع بائع کے قبضے میں نہ ہو یا بائع نے ایسی شرط عائد کردی ہو جسے عقد بیع ضروری قرار نہ دیتا ہو، یا یہ کہ ثمن مجہول ہو اور اسی طرح کے دیگر امور جو بیع کے عقود کو فاسد کردیتے ہیں یہ بھی ممکن ہوتا ہے کہ غرر ختم ہوجانے کی صورت میں جواز و فساد کی دلالت کی روشنی میں مذکورہ بیع جائز ہوجائے۔ عقد کے مسائل میں اس کے نظائر بیشمار ہیں اور فقہ کے ساتھ ادنیٰ ارتباط رکھنے والے کی نظروں سے اوجھل نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حدیث سے بھی استدلال کیا ج اس کتا ہے جس کی رواییت حضرت ابن عمر (رض) نے کی ہے کہ آپ نے فرمایا : لوگو، آگاہ رہو، خطا العمد کا مقتول وہ مقتول ہے جسے کوڑے اور لاٹھی کے ذریعے قتل کردیا جائے اس میں دیت مغلطہ واجب ہوتی ہے۔ بچے اور بالغ یا دیوانے اور عاقل یا مخطی اور عابد کے ہاتھوں قتل ہونے والا شخص دو وجوہ سے خطا العمد ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطا العمد کے تحت مقتول کی تفسیر یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ کوڑے اور لاٹھی کے ذریعے قتل ہون والا شخص ہے اس لیے اگر کوئی دیوانہ لاٹی کے ساتھ اور کوئی عاقل تلوار کے ساتھ کسی کے قتل میں شریک ہوجائے، تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے کے مطابق وہ خطا العمد کے تحت مقتول قرار پائے گا اور اس قتل میں ” قصاص نہ لینا واجب ہوگا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بچے اور دیوانے کا عمد بھی خطا ہے اس لیے کہ قتل کی تین میں سے ایک صورت ہوتی ہے۔ خطا یا عمد یا شبہ عمد اور جب بچے اور دیوانے کا ارتکاب قتل عمد نہیں ہوتا تو ضروری ہے کہ ان کا ارتکاب قتل کی باقیماندہ دو صورتوں میں سے کسی ایک صورت کا حامل ہو، یعنی خطا یا شبہ عمد کا ان دونوں میں سے چاہے جو بھی صورت ہو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کا ظاہر اس امر کا مقتضی ہے کہ قتل کے فعل سے بچے یا دیوانے کے ساتھ شرییک قاتل سے قصاص ساقط کردیا جائے کیونکہ مذکورہ مقتول یا تو قتل خطا کا مقتول ہوگا یا شبہ عمد کا۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ مقتول کے لیے دیت مغلظہ واجب کردی ہے۔ اور جب کامل دیت واجب ہوجائے تو بالا تفاق قصاص کا سقوط ہوجاتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشاد ” خطا العمد کے مقتول “ سے یہ مراد لی ہے کہ ایک شخص تنہا کسی کو کوڑے اور لاٹھی سے قتل کر دے تو اس کا جواب یہ ہے کہ قتل کے اس فعل میں اگر کوئی اور شخص تلوار لے کر اس کے ساتھ شریک ہوجائے، تو یہ بات مذکورہ مقتول کو کوڑے اور لاٹھی کا مقتول نیز قت خطا کا مقتول بننے سے خارج نہیں کرے گی۔ اس لیے کہ دونوں اشخاص میں سے ہر ایک قاتل ہوگا اور اس اعتبار سے یہ ضروری ہوگا کہ مقتول ان میں سے ہر ایک کا مقتول قرار پائے۔ اس لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ دونوں صورتوں کو شامل ہوں گے اور دونوں صورتوں کے اندر قصاص منتفی ہوجائے گا۔ ہماری مذکورہ بات کی صحت پر نیز عاقل کے ساتھ دیوانے کی مشارکت اور عامد کے ساتھ مخطی کی مشارکت کے حکم میں فرق کے عدم جواز پر یہ امر دلالت کرتا ہے کہ اگر ایک شخص حالت جنون میں کسی شخص کو زخمی کر دے اور پھر اسے جنون سے افاقہ ہوجائے اور افاقہ کے بعد وہ دوبارہ اسے زخمی کر دے اور پھر ان دونوں زخمیوں کا مجروح مرجائے، تو قاتل پر کوئی قصاص عائد نہیں ہوگا جس طرح اگر ایک شخص کسی کو غلطی سے زخمی کرنے کے بعد اسے دو بار عمداً زخمی کر دے اور ان دونوں زخموں سے مجروح مرجائے تو قاتل پر قصاص واجب نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر ایک شخص کسی کو اس کے ارتداد کی حالت میں زخمی کر دے اور پھر مجروح مسلمان ہوجائے تو جارح پر قصاص واجب نہیں ہوگا۔ یہ صورتیں دو باتوں پر دلالت کرتی ہیں۔ ایک تو یہ ک اگر ایک شخص کو دو قسم کے زخم لگے ہوں جن میں سے ایک قصاص کا موجب ہو اور دوسرا قصاص کا موجب نہ ہو اور پھر مذکورہ مجروح مرجائے، تو اس کی موت قصاص کے اسقاط کی موجب ہوگی اور قصاص کے ایجاب کے سلسلے میں اس زخم کا جس میں قصاص کے اسقاط کا کوء شبہ نہ ہو دوسرے زخم سے الگ کر کے کوئی حکم نہیں ہوگا، بلکہ حکم اس زخم کا ہوگا جس نے قصاص واجب نہیں کیا۔ اس بنا پر یہ بات واجب ہے کہ اگر ایک آدمی دو افراد کے لگائے ہوئے زخموں سے مرجائے جبکہ ان میں سے ایک ایسا ہو جس کا تنہا لگایا ہوا زخم قصاص واجب کرتا ہو اور دوسرا ایسا ہو جس کا تنہا لگایا ہوا زخم قصاص واجب نہ کرتا ہو، تو اس صورت میں قصاص کا سقوط ان کے ایجاب سے لگایا ہوا زخم قصاص واجب نہ کرتا ہو، تو اس صورت میں قصاص کا سقوط ان ان کے ایجاب سے اولیٰ قرار دیا جائے کیونکہ مذکورہ مجروح کی موت ان دونوں زخموں سے واقع وئی تھی اس لیے قصاص کا سقوط کے موجب زخمی کا حکم قصاص واجب کرنے والے زخمی کے حکم سے اولیٰ ہوگا ان دونوں صورتوں میں علت یہ ہے کہ مجروح کی موت ایسے دو زخموں کے نتیجے میں واقع ہوئی تھی جن میں سے ایک زخم قصاص کا موجب تھا اور دوسرا قصاص کا موجب نہیں تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے شروع میں بیان کردیا تھا کہ قتل کے فعل میں اشتراک کی صورت کے اتعبار سے مخطی اور عامد کے درمیان نیز دیونے اور عاقلے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، جس طرح دیوانگی کے دوران میں دیوانے کے جرم اور پھر افاقہ کی حالت میں اس کے جرم کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا، اگر ان دونوں جرموں کے نتیجے میں موت واقع ہوجائے۔ اسی طرح اگر غلطی سے کسی کے خلاف جنایت ، یعنی جرم ہوجائے اور پھر عمداً جنایت کی جائے اور ان دونوں جرموں کے نتیجے میں موت واقع ہوجائے تو دونوں جرموں میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ اور مذکورہ بالا دونوں حالتوں میں قصاص ساقط ہوجائے گا۔ اگر عاقل کی جنایت میں دیوانے کی مشارکت ہوجائے اور عامد کی جنایت میں مخطی کی مشارکت ہوجائے تو اسی طرح مناسب یہی ہے کہ عاقل کی جنایت کا حکم دیوانے کی جنایت کے حکم سے اور عامد کی جنایت کا حکم مخطی کی جنایت کے حکم سے مختلف نہ ہو۔ واللہ اعلم۔ عمداً قتل کیے جانے والے شخص کے ولی کا حق ارشاد باری ہے : کتب علیکم القصاص فی القتلی ( قتل کے مقدمات میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ) نیز وکتبنا علیھم فیھا ان النفس بالنفس ( اور ہم نے تورات میں بنی اسرائیل پر فرض کردیا تھا کہ جان کے بدلے جان ہے) نیز : ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا ( اور جو شخص مظلومانہ طور پر قتل ہوجائے اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق دیا ہے) اس پر سب کا اتفاق ہے کہ آیت میں قصاص مراد ہے، نیز ارشاد ہے وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ ( اور اگر تم لوگ بدلہ لو تو بس اسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو) نیز : فمن اعتدی علیکھ فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکھ ( جو شخص تم سے زیادتی کرے تم بھی اس کے ساتھ اس قدر زیادتی کرو جس قدر اس نے تم سے کی ہے ) یہ آیات ایجاب قصاص کے سوا اور کسی امر کی مقتضی نہیں ہیں۔ قتل عمد کے موجب کے بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب ، امام مالک، سفیان ثوری، ابن شبرمہ اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ قتل عمد کی صورت میں مقتول کے ولی کو صرف قصاص لینے کا حق ہوگا اور قاتل کی رضا مندی کے بغیر وہ دیت وصول نہیں کرے گا۔ اوزاعی، لیث بن سعد اور امام شافعی کا قول ہے کہ ولی کو اختیار ہوگا کہ اگر چاہے تو قصاص لے لے اور اگر چاہے تو دیت وصول کرے خواہ قاتل رضا مند نہ بھی ہو۔ امام شافعی نے فرمایا ہے کہ اگر مفلس ( دیوالیہ) ولی قصاص معاف کر دے تو ایسا کرنا جائز ہوگا اور اس کے قرض خواہ نیز اہل وصایا اسے ایسا کرنے سے روک نہیں سکتے کیونکہ عمد کی بنا پر مال کی ملکیت صرف اس شخص کی مرضی سے ہو گیی جس کے خلاف جرم کیا گیا ہے ، اگر وہ زندہ ہو۔ اور اگر وہ مرچکا ہو تو ورثاء کی مرضی سے ایسا ہوگا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جن آیات کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ان کے ظواہر ہر لفظی اشتراک کے بغیر بیان مراد کو متضمن ہونے کی بنا پر قصاص کے موجب ہیں، مال کے نہیں۔ اور تخییر کے طور پر مال کا ایجاب صرف ایسی دلیل کی نا پر جائز ہوسکتا ہیجس کے ذریعے قصاص کے حکم کا نسخ جائز ہو۔ اس لیے کہ نص قرانی میں اضافہ اس کا نسخ کا موجب بن جاتا ہے ۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے : یایھا الذین امنو لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم ( اے ایمان لانے والو، آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائو، لین دین ہونا چاہیے آپس کی رضا مندی سے) اس آیت میں اللہ سبحانہ نے اہل اسلام میں سے ہر شخص کا مال لینے کی ممانعت کردی ہے، الایہ کہ لین دین کے طور پر رضا مندی سے مال لیا جائے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اسی قسم کی حدیث مروی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کسی مسلمان کا مال اس کی خوش دلی کے بغیر حلال نہیں ہے۔ اس لیے جب قاتل مال دینے پر رضا مند نہ ہو تو اس کا مال ہر شخص کے حق میں ممنوع ہوگا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک حدیث مروی ہے جس کی سند ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عمد قصاص ہے الا یہ کہ مقتول کا ولی معاف کر دے سلیمان بن کثیر نے روایت بیان کی ہے ، ان سے عمرو بن دینار نے طائوس سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص عمیا ( اندھا قتل) ( ایسا شخص جو ایک دوسرے پر تیر اندازی کرنے والوں کے درمیان مقتول پایا جائے اور اس کے قاتل کا پتہ نہ چلے) میں یا اژدہام میں قتل ہوجائے اور اس کا قاتل معلوم نہ ہو، یا لوگوں کے درمیان سنگبازی یا کوڑے یا لاٹھیاں چلنے کے دوران مرجائے تو اس کی دیت قتل خطا کی دیت ہوگی، اور جو شخص عمداًٰ قتل ہوجائے تو اس کا قصاص لیا جائے گا اور جو شخص مقتول اور اس کے قصاص کے درمیان حائل ہوگا اس پر اللہ کی ، فرشوں کی ا اور تمام لوگوں کی لعنت برسے گی۔ ان دونوں حدیثوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واضح فرما دیا کہ عمد کی بنا پر واجب ہونے والی سزا قصاص ہے۔ اگر ولی کو دیت لینے کا اختیار ہوتا تو آپ صرف قصاص کے ذکر قر اقتصار نہ کرتے، بلکہ دیت کی بات بھی بیان کردیتے۔ اس لیے ی بات درست نہیں ہے کہ ولی کو دو چیزوں میں سے ایک کے لینے کا اختیار دیا جائے اور پھر صرف ایک چیز کے بیان پر اقتصار کیا جائے اور دوسری چیز بیان نہ کی جائے۔ یہ بات تخییر کی نفی کی موجب ہے۔ اگر اس بیان کے بعد تخییر کا اثبال کیا جائے گا تو اس سے مذکورہ بیان کا نسخ لازم آئے گا۔ اگر کہا جائے ک ابن عینیہ نے مذکورہ دوسری حدیث عمرو بن دینار سے اور انہوں نے طائوس سے موقوف صورت میں روایت کی ہے ۔ اس میں انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) کا ذکر نہیں کیا ہے اور نہ ہی اسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک مرفوع کیا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ابن عینیہ نے اس حدیث کو ایک دفعہ موقوف صورت میں بیان کیا ہے اور ایک دفعہ سلیمان بن کثیر کی طرح مرفوع صورت میں اس کی روایت کی ہے۔ ابن عینیہ کا حافظہ بہت خراب تھا اور وہ روایت کے اندر بہت غلطیاں کرتے تھے لیکن اس کے باوجود یہ ممکن ہے کہ طائوس نے اس کی روایت بعض دفعہ حضرت ابن عباس (رض) کے واسطے سے کی ہو اور بعض دفعہ اپنی طرف سے اسے بیان کر کے اس کے مطابق فتویٰ دیا ہو۔ اس لیے مذکورہ حدیث کی سند میں حدیث کو کمزور کرنے والی کوئی بات نیہں ہے۔ قول باری : فمن عفی اہ من اخیہ شی ف اتباع بالمعروف واداء الیہ باحسان ( اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو تو معروف طریقے سے خونبہا کا نصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ کہ راستی کے ساتھ خونبہا ادا کرے) کی تفسیر میں اہل علم کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ کچھ حضرات کا قول ہے کہ عضو سے وہ بات مراد ہے، جو آسان اور میسر ہو۔ ارشاد باری ہے : خذالعفو ( عفو اختیار کرو) یعنی اخلاق کی وہ صورتیں جو آسان ہوں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : اول وقت اللہ کا رضوان ہے اور آخر وقت اللہ کا عفو ہے، یعنی اللہ کی جانب سے اپنے بندوں کے لیے تیسیر و تسہیل ہے۔ پس قول باری : فمن عفی لہ من اخیہ شی سے مراد یہ ہے کہ مقتول کے ولی کو جب کچھ مال دیا جائے تو وہ اسے قبول کر کے اور معروف طریقے سے ان کا پیچھا کرے اور قاتل اسے یہ مال راستی کے ساتھ ادا کر دے۔ اللہ سبحانہ نے ولی کو مال لینے کی ترغیب دی اگر قاتل کی طرف سے آسانی کے ساتھ یہ مال ادا کیا جائے اور بتادیا کہ اس کی جانب سے یہ بات حکم کے اندر تخفیف اور اس کی رحمت ہے۔ جس طرح سورة مائدہ میں قصاص کے ذکر کے بعد فرمایا : فمن تصدق بہ فھوا کفارۃ لہ ( جو شخص قصاص کا صدقہ کر کے وہ اس کے لیے کفارہ ہے) اس آیت میں اللہ سبحانہ نے ولی کو اس بات کی ترغیب دی کہ وہ قصاص معاف کر کے اس کا صدقہ کر دے۔ اسی طرح زیر بحث آیت میں اللہ سبحانہ نے دیت قبول کرلینے کی ترغیب دی ، اگر قاتل دیت ادا کرے کیونکہ آیت میں پہلے تو دیت کے سلسلے میں قاتل کے ساتھ نرمی کرنے کا ذکر ہوا پھر ولی کو پیچھا کرنے کا حکم دیا گیا اور قاتل کو ہدایت کی گئی کہ وہ راستی کیساتھ ادائیگی کر دے۔ بعض حضرات نے زیر بحث آیت کے وہ معنی لیے ہیں جو حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہیں، ای کی روایت عبدالباقی ابن قانع نے کی ہے، ان سے الحمیدی نے ، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے عمرو بن دینار نے اور انہوں نے کہا کہ : میں نے مجاہد کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے تھے کہ : بنی اسرائیل کے اندر قصاص کا حکم تھا، دیت کا حکم نہیں تھا، پھر اللہ سبحانہ نے اس امت کے لیے فرما دیا : یایھا الذین امنو کتب علیکم القصاص فی القتلی۔ تا قول قاری : فن عفی لہ من اخیہ شی ۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : عفو یہ ہے کہ قتل عمد میں دیت قبول کرلی جائے اور قول باری : و اتباع بالمعروف و اداء الیہ باحسان ذلک تخفیف من ربکم ورحمتہ کا مفہوم یہ ہے کہ تم سے پہلے لوگوں پر جو بات فرض کی گئی تھی اب اس میں تخفیف کردی گئی ہے۔ اسی طرح قول باری فمن اعتدا بعد ذلک فلہ عذاب الیم کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص دیت قبول کرنے کے بعد زیادتی کرے گا اسے لیے دردناک عذاب ہے۔ اس روایت میں حضرت ابن عباس (رض) نے یہ بتایا کہ مذکورہ آیت نے اس حکم کو منسوخ کردیا ہے جو بنی اسرائیل پر عائد تھی یعنی دیت قبول کرن کی ممانعت اور مقتول کے ولی کے لیے دیت قبول کرلینے کی اباحت کردی ہے، اگر قاتل اس کی ادائیگی کرے۔ یہ حکم گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم پر تخفیف اور اس کی رحمت کی ایک صورت ہے۔ اگر بات اس طرح ہوتی جس کا دعویٰ ہمارے مخالف نے کیا ہے ، یعنی ایجاب تخییر کی بات ، تو حضرت ابن عباس (رض) آیت کی تفسیر میں یہ نہ فرماتے کہ ” عفو یہ ہے کہ دیت قبول کرلی جائے “۔ اس لیے کہ قبول کے لفظ کا اطلاق اس چیز کے لیے ہوتا ہے جس کی پیشکش دوسرا آدمی کرے۔ اگر حضرت ابن عباس (رض) کے نزدیک یہ بات مراد نہ ہوتی تو وہ یہ کہتے : ” عفو یہ ہے یہ کہ دیت قبول کرلی جائے جب ولی یہ بات اختیار کرے “۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ جب دیت لینے پر طرفین کی طرف سے رضا مندی کی صورت نکل آئے تو اس وقت دیت قبول کرلینا عفو کہلائے گا۔ قتادہ سے ایک روایت منقول ہے جو اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ بنی اسرائیل میں دیت قبول نہ کرنے کا نافذ العمل حکم ہماری شریعت میں بھی اس شخص پر ثابت ہے جو دیت وصول کرنے کے بعد قاتل کو قتل کر دے۔ یہ روایت عبداللہ بن محمد بن اسحاق نے بیان کی ہے، ان سے الحسین بن ابی الربیع الجرجانی نے، ان سے عبدالرزاق نے معمر سے اور انہوں نے قتادہ سے قول باری : فمن اعتدی بعد ذلک کی تفسیر میں ، کہ اگر ولی دیت وصول کرنے کے بعد قتل کر دے تو اس پر قتل لازم ہوگا، یعنی قصاص اور اس سے دیت قبول نہیں کی جائے گی۔ زیر بحث آیت کی ایک اور تفسیر بھی مروی ہے۔ سفیان بن حسین نے ابن اشوع سے اور انہوں نے شعبی سے اس کی روایت بیان کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ عرب کے دو قبیلوں کے درمیان جنگ ہوگئی۔ جنگ میں طرفین کے آدمی مارے گئے۔ ایک قبیلے نے کہا کہ ہم اس وقت تک رضا مند نہیں ہوں گے جب تک ایک عورت کے بدلے میں ایک مرد اور ایک مردے بدلے میں دو مردوں کو قتل نہیں کرلیں گے پھر وہ اپنا معاملہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قتل میں یکسانیت ہوتی ہے چناچہ انہوں نے دیتوں کی ادائیگی پر آپس میں صلح کرلی اور ایک قبیلے کی بہ نسبت دوسرے قبیلے کو دیت کی کچھ زائد مقدار دی گئی۔ قول باری : کتب علیکم القصصا فی القتلی تا قول باری فمن عفی لہ من اخیہ شی کا یہی مفہوم ہے۔ سفیان نے کہا ہے کہ قول باری فمن عفی لہ من اخیہ شی کا مفہوم یہ ہے کہ جس شخص کو دیتوں کے سلسلے میں اس کے بھائی کی بہ نسبت کچھ زائد دے دیا گیا ہو تو معروف طریقے سے اسے اس کی ادائیگی کردی جائے۔ شعبی نے آیت کے نزول کا سبب بیان کیا اور سفیان نے بتایا کہ عفو کے معنی فضل یعنی زائد کے ہیں۔ قول باری : حتی عفوا ( یہاں تک کہ وہ زیادہ ہوگئے) یعنی ان کی کثرت ہوگئی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : ” داڑھیاں بڑھائو “ آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اگر ایک شخص کو اس کے بھائی کی بہ نسبت ان دیتوں سے کچھ زائددے دیا گیا ہو جن پر فریقین نے صلح کی ہے تو اس کا مستحق معروف طریقے سے اس کا پیچھا کرے اور راستی کے ساتھ اسے اس کی ادائیگی کردی جائے۔ زیر بحث آیت کا ایک اور مفہوم بھی بیان کیا گیا ہے، بعض حضرات کے مطابق یہ حکم اس خون کے بارے میں ہے جس کے واثر ایک سے زائد افراد ہوں۔ اگر ان میں سے کچھ افراد قصاص میں اپنا حصہ معاف کردیں تو باقیماندہ ورثا کے حصے مال میں تبدیل ہوجائیں گے۔ یہ بات حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی (رض) اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے۔ ان حضرات نے یہ بیان نہیں کیا کہ آیت کا مفہوم یہ ہے۔ ان کی بیان کردہ بات آیت کے الفاظ کی تاویل تفسیر ہے جو آیت کے مفہوم سے مطابقت رکھتی ہے۔ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے : یہ ارشاد اس امر کا مقتضی ہے کہ دم، یعنی قصاص کا کچھ حصہ معاف کردیا گیا ہو۔ پورا قصاص معاف نہ کیا گیا ہو۔ ایسی صورت میں باقیماندہ شرکاء کے حصے مال میں تبدیل ہوجائیں گے۔ اور اس مال کی وصولی کے لیے ان پر لازم ہوگا کہ وہ قاتل کا معروف طریقے سے پیچھا کریں اور قاتل پر لازم ہوگا وہ راستی سے مذکورہ مال کی ادائیگی کر دے۔ بعض حصرات نے زیر بحث آیت کی تاویل ان معنوں میں کی ہے ک مقتول کے ولی کو قاتل کی رضا مندی کے بغیر مال لینے کا اختیار ہے، لیکن آیت کا ظاہر اس تاویل کو رد کردیتا ہے کیونکہ دیت کی وصولی کے ساتھ معافی نہیں ہوتی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عمد قصاص ہے الا یہ کہ مقتول کے اولیاء معاف کردیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ولی کے لیے دو میں سے ایک بات کا اثبات کردیا۔ قتل یعنی قصاص یا عفو۔ اس کے لیے کسی حال میں مال کا اثبات نہیں کیا۔ اگر کوئی شخص کہے کہ ولی مال لینے کی نیت سے خون معاف کر دے تو وہ عفو کرنے والا شمار ہوگا اور آیت کا لفظ اسے بھی شامل ہوگا تو اس کے جواب میں کہا جائے گا اگر دو میں سے ایک چیز واجب ہے تو بھی جائز ہے کہ وہ مال چھوڑ کر قصاص لینے کی صورت میں عفو کرنے والا شمار ہوجائے۔ اس بنا پر ولی کے لیے یا تو خون معاف کرنا ہوگا۔ یا مال لینا۔ یہ بات غلط ہے کوئی بھی اس کا اطلاق نہیں کرتا۔ ایک اور جہت سے آیت کا ظاہر اس کی نفی کرتا ہے وہ یہ کہ اگر قصاص چھوڑ کر اور مال لے کر ولی ہی عافیص معاف کرنے والا) ہو تو اس مفہوم کو ادا کرنے کے لیے عفالہ نہیں کہا جائے گا، بلک اس کے یغے عفا عنہ کہاجائے گا اور اس کے نتیجے میں حرف لام کو حرف عَن کے قائم مقام کرنے کے میں تعسف اور زبردستی کا مظاہرہ ہوگا۔ یا آیت کے الفاظ کو عفالہ عن الذ مہ پر محمول کیا جایء گا، اس کے لیے ایک غیر مذکور حرف کو مخدوف ماننا پڑے گا، جبکہ اصول یہ ہے کہ اگر مذکور لفظ کے ذریعے مخدوف لفظ سے مستغنی ہوں تو حذف کا اثبات جائز نہیں ہوگا۔ علاوہ ازیں آیت کے سلسلے میں ہماری تاویل واضح ہے کہ قاتل کی جہت سے عفو کے لفظ کو تسہیل اور اس کی طرف سے مال کی ادائیگی پر محمول کیا جائے۔ ایک اور جہت سے بھی معترض کی بات آیت کے ظاہر کے خلاف ہے۔ وہ یہ کہ قول باری : من اخیہ شی میں لفظ مِن تبعیض کا مقتضی ہے کیونکہ تبعیض ہی اس لفظ کی حقیت اور اس کا باب ہے اٍلا یہ کہ اس کے سوا کسی اور مفہوم کے لیے دلالت قائم ہوجائے تبعیض کا مفہوم اس بات کا موجب ہے کہ عفو اس کے بھائی کے خون کے بعض حصوں سے ہو، جبکہ معترض کے نزدیک یہ عفو پورے خون، یعنی قصاص سے عفو ہے۔ اس مفہوم کے اندر حرف من کے حکم کا اسقاط لازم آتا ہے۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھئے ، قول باری : شیء، بھی خون یعنی قصاص کے بض حصوں سے عفو کا موجب ہے، پورے خون سے عفو کا موجَب نہیں ہے، اس لیے جو شخص اسے پورے خون پر محمول کرے گا وہ کلام کے متقضا اور موجَب کے اتعبار سے ان کا پورا حق ادا نہیں کرے گا۔ کیونکہ اس صورت میں وہ کلام کو اس طرح قرار دے گا : ( وہ قاتل جس کے لیے خون معاف کردیا جائے اور اس سے دیت کا مطالبہ کیا جائے) اس صورت میں وہ لفظ مِن اور لفظ شیء کا حکم ساقط کردے گا، جبکہ کسی شخص کے لیے آیت کی ایسی تاویل جائز نہیں جو آیت کے کسی لفظ کو بےمعنی قرار دینے پر منتج ہو۔ جب تک مذکورہ لفظ کو اس کے حقیقی معنی میں استعمال کرنا ممکن ہو اس وقت تک مذکورہ تاویل کی گنجائش نہیں ہوگی اور اگر آیت کے لفظ کو ان معنوں میں استعمال کیا جائے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے تو یہ بات کسی اسقاط کے بغیر آیت کے ظاہر کے موافق ہوگی، اس لیے کہ اگر شعبی کی بیان کرد تفسیر آیت کی تاویل قرار پائے جس میں آیت کا نزول کا سبب بیان کیا گیا ہے، نیز بتایا گیا ہے کہ دیتوں کے اندر بعض کو بعض کی بہ نسبت زائد ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا، تو یہ تاویل آیت کے لفظ کے ساتھ موافقت رکھتی ہے اس لیے کہ ایسی صورت میں قول باری : کا مفہوم ہوگا کہ اس کے لیے اس مال میں کچھ زائد ہوگا جس پر طرفین میں صلح ہوئی ہے اور جسے ووہ آپس میں ایک دسورے سے وصول کریں گے۔ یہ پورے مال کا کچھ حصہ اور اس کا ایک جز ہوگا۔ اس صورت میں آیت کا لفظ اپنے حقیقی معنوں کے تحت سے شامل ہوجائے گا۔ اگر آیت کی تاویل یہ ہو کہ قاتل کے لیے یہ آسانی پیدا کردی جائے کہ وہ مال میں سے کچھ دے دے تو مقتول کے ولی کو مذکورہ مال قبول کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس پر اس سے ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے تو اس صورت میں بھی یہ تاویل بعض کو شامل ہوگی۔ وہ اس طرح کہ قاتل دیت کا کچھ حصہ پیش کر دے یہ حصہ اس کُل کا جز ہوگا جسے اس ن تلف کردیا ہے۔ اگر آیت کی تاویل یہ ہے کہ اس کے ذریعے اس حکم کی منسوخی کی خبر دی گئی ہے جو بنی اسرائیل پر عائد تھا، یعنی قصاص کے ایجاب اور دیت یا بدل لینے کی ممانعت کا حکم تو اس تاویل کی روشنی میں بھی ہماری تاویل آیت کے مفہوم کے ساتھ سب سے بڑھ کر مناسبت کی حامل ہوگی۔ اس لیے کہ آیت قاتل اور مقتول کے ولی کے درمیان اس چیز پر صلح کے انعقاد کے جواز کی مقتضی ہے۔ جس پر طرفین کی صلح ہوجائے ، خواہ وہ چیز قلیل ہو یا کثیر۔ اس طرح بعض کا ذکر ہوا اور کُل کا حکم بتادیا گیا ۔ جس طرح یہ قول باری ہے : ولا تقل لھما اف ولا تنھر ھما ( اور نہ ان دونوں، یعنی والدین کو اُف کہو اور نہی انہیں جھڑکو) اُف نہ کہنے اور جھڑکیاں نہ دینے کی نصاً ممانعت کردی اور اس سے بڑھ کر تکلیف دہ وہ امور کا ارادہ کرلیا۔ اس کے نظائر قرآن میں بہت زیادہ ہیں۔ اگر آیت کی تاویل مقتول کے بعض اولیاء کی طرف سے اپنے حصوں کی معافی ہو تو یہ تاویل بھی آیت کے ظاہر کے ساتھ مطابقت رکھے گی کیونکہ اس صورت میں قصاص کے بعد حصوں کی معافی ہوگی۔ پورے قصاص کی معافی نہیں ہوگی۔ ہم نے اوپر جن مت اولین کی تاویلات کا ذکر کیا ہے ان میں سے جس متاول کی بھی تاویل اختیار کی جائے اس کی یہ تاویل آیت کے ظاہر کے مطابق ہوگی سوائے اس تاویل کے جس میں کہا گیا ہے کہ مقتول کے ولی کو پورا قصاص معاف کرکے مال لینے کا حق ہوگا۔ اس میں کوئی امتناع نہیں کہ ہمارے متذکرہ بالا تمام معانی آیت میں مراد ہوں۔ اس صورت میں آیت کا نزول اس سبب کی وجہ سے قرار پائے گا کہ اس کے ذریعے بنی اسرائیل پر عائد شدہ حکم منسوخ کردیا گیا اور ہمارے لیے قلیل و کثیر مال دیت کے طور پر لینا مباح کردیا گیا۔ اسی طرح ولی کو ترغیب ہے کہ وہ اس دیت کو قبول کرلے جسے قاتل آسانی سے ادا کر دے۔ اس پر ولی کو ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح آیت کے نزول کا سبب وہ امر بھی ہوسکتا ہے جس کے تحت دیتوں کے اندر بعض کی بہ نسبت کچھ زائد دیا جائے، اس صورت میں اولیاء کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس کے حصول کے لیے معروف طریقے سے پیچھا کریں اور قاتل کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ رستی کے ساتھ انہیں ادائیگی کر دے۔ اسی طرح اگر بعض اولیاء خون یعنی قصاص کے اندر اپنے حصے معاف کردیں تو آیت کے نزول کا سبب اولیاء کا یہ اختلاف ہوگا جس کے اندر قصاص کا حکم بیان ہے۔ یہ تمام صورتیں اپنے معانی کے اختلاف کے باوجود ایسی ہیں جن کا زیر بحث آیت احتمال رکھتی ہے اور آیت کے کسی لفظ کو ساقط کے بغیر یہ تمام صورتیں آیت کی مراد ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ آپ کے مخالفین نے آیت کی یہ تاویل کی ہے ک اس میں ولی کے حق میں اس کے اختیار سے دیت کا ایجاب ہے خواہ قاتل اس کے لیے رضا مند نہ بھی ہو۔ آیت چونکہ اس تاویل کا بھی احتمال رکھتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ یہ صورت بھی مراد ہو کیونکہ اس تاویل سے دیگر تمام تاویلات کی نفی نہیں ہوتی۔ اس صورت میں قول باری فن عفی لہ کے معنی ہوں گے ” قاتل کے لیے قصاص ترک کردیا گیا “۔ یہ معنی عربوں کے محاورے، عفت المنازل سے ماخوز ہے جس کے معنی ہیں : منازل ترک کر دئیے گئے حتیٰ کہ ان کے نشانات مٹ گئے۔ اسی طرح گناہوں کے عفوکا مفہوم ہے کہ اپر سزا ترک کردی گئی ، اس طرح آیت یہ مفہوم ادا کرے گی کہ قصاص چھوڑکر دیت وصول کرلی گئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر بات اسی طرح ہو تو پھر ولی کی طرف سے قصاص ترک کر کے دیت لینے کی صورت میں اسے عافی، یعنی معاف کرنے والا ہونا چاہیے کیونکہ وہ دیت لینے کی غرض سے قصاص کا تارک ہے۔ حالانکہ مال کو ترک کرنا اور اسے ساقط کردینا عفو کہلاتا ہے۔ ارشاد باری ہے : فنصف مافرضتم الا ان یعفون او یعفوالذی بیدہ عقد ۃ النکاح ( تو اس صورت میں نصف مہر دینا ہوگا، یہ اور بات ہے کہ عوتر نرمی برتے اور مہر نہ لے یا وہ مرد جس کے اختیار میں عقد نکاح ہے نرمی برتے) اس آیت میں عفو کے اسم کا اطلاق مال سے ابراء پر ہوا ہے۔ اور سب کے نزدیک یہ بات واضح ہے کہ عفو کا اطلاق اس ولی پر نہیں ہوتا جو قصاص لینے کو ترجیح دے اور دیت لینا ترک کر دے۔ اسی طرح قصاص سے ہٹ کر دیت لینے والا بھی عافی ک اسم کا مستحق نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو دو ایسی چیزوں میں سے ایک کو اختیار کرلیتا ہے جن میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی اسے تخییر حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے کہ جو شخص دو میں سے ایک چیز کو اختیار کرے گا وہ اس کا واجب حق ہوگی جسے اختیار کرنے کی صورت میں وجوب کا حکم متعین ہوجائے گا اور صورت یہ ہوگی کہ گویا اس مذکورہ چیز کے سوا کوئی اور چیز ہی نہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص کفارہ یمین میں غلام آزاد کرنے کے ذریعے کفارہ ادا کرنے کی صورت اختیار کرلے تو یہی بات اس کے لیے کفارہ بن جائے گی اور یوں سمجھا جائے گا کہ گویا دیگر امور سرے سے تھے ہی نیہں۔ اس طرح کفارہ کی دیگر صورتوں کی فرضیت کا حکم ساقط ہوجائے گا۔ یہی کیفیت مقتول کے ولی کی ہے۔ اگر اسے قصاص یا مال میں سے ایک چیز لینے کی تخییر حاصل ہوتی اور پھر وہ ان میں سے ایک چیز اختیار کرلیتا تو دو میں سے ایک چیز کو چھوڑ کر دوسری چیز کو اختیار کرلینے پر عافی کے اسم کا مستحق نہ ہوتا۔ ہماری اس وضاحت سے جب ولی سے مذکور صورت کے اندر عفو کا اسم منقفی ہوگیا تو پھر آیت کی اس مفہوم پر تاویل جائز نہ رہی اور ہماری مذکورہ تاویلات اولیٰ ہوگئیں۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھیے ، قتلِعمد کی صورت میں ولی کے لیے واجب ہونے والا امر یا تو قصاص اور دیت دونوں ہوں گے، قصاص ہوگا دیت نہیں ہوگی، یا ان دونوں میں سے تخییر کے طور پر ایک چیز ہوگی۔ پہلی صورت تو بالاتفقا جائز نہیں ہے، یعنی ولی کو دونوں چیزیں حاصل کرنے کا حق نہیں ہوتا۔ یہ بھی جائز نہیں ہے کہ ولی کے اختیار کے مطابق ان میں سے ایک چیز واجب ہوجائے جیسا کہ کفارہ یمین وغیرہ میں ہوتا ہے کیونکہ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ اللہ سبحانہ نے اپنی کتاب میں جو چیز واجب کی ہے وہ قصاص ہے اور اگر قصاص اور غیر قصاص کے درمیان تخییر کا اثبات کردیا جائے تو اس سے نص میں اضافہ نیز قصاص کے ایجاب کی نفی لازم آئے گی اور اس جیسی بات ہمارے نزدیک نسخ کی موجب ہوتی ہے جب دونوں صورتیں غلط ثابت ہوگئیں تو اب واجب ہونے والا امر قصاص ہی ہوگا۔ اس لیے قاتل کی رضا مندی کے بغیر مال، یعنی دیت وصول کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ اگر ایک شخص کا کسی پر حق ہو جس کی وصولی اس سے ممکن ہو تو پھر اس حق کو اس کے بدل کی طرف منتقل کردینا جائز نہیں ہوگا، اِلا یہ کہ حقدار اس بات پر رضا مند ہوجائے۔ علاوہ ازیں اس قول کے قائل کا کہنا بھی درست نہیں ہے کہ واجب تو قصاص ہے لیکن اسے مال لینے کا بھی اختیار ہے۔ کیونکہ یہ قول ولی کو قصاص لینے کے سلسلے میں تخییر کے دائرے سے خارج نہیں کرے گا کیونکہ اس قول کا مفہوم یہ ہے کہ ولی کو اختیار ہوگا کہ اگر چاہے تو قصاص لے لے اور اگر چاہے تو مال وصول کرلے۔ اور یہ قول کسی قائل کے اس قول کے مترادف ہے کہ ” واجب تو مال ہے لیکن ولی کو اختیار ہوگا کہ وہ اس وجوب کو قصاص کی طرف بدل کے طور پر منتقل کر دے “ جب تخییر کے ایجاب کی وجہ سے قائل کا یہ قول فاسد قرار پائے گا تو درج بال قائل کا یہ قول بھی فاسد ہوگا کہ ” واجب تو قصاص ہے، لیکن ولی کو اختیار ہے کہ وہ اس وجوب کو مال کی طرف منتقل کر دے “ کیونکہ دونوں حالتوں کے اندر قتل عمد کی بنا پر تخییر کا ایجاب اپنی جگہ باقی رہے گا، جبکہ اللہ سبحانہ نے قاتل پر صرف قصاص فرض کیا ہے۔ ارشاد ہے : کتب علیکم القصاص فی القتلی اللہ سبحانہ نے یہ نہیں فرمایا : قتل کے مقدمات میں تم پر مال فرض کردیا گیا ۔ یا قتل کے مقدمات میں تم پر قصاص یا مال فرض کردیا گیا ۔ اس بنا پر اگر کوئی شخص یہ کہے کہ واجب تو قصاص ہے لیکن ولی کو اختیار ہے کہ وہ اس وجوب کو مال کی طرف منتقل کر دے تو وہ تخییر کا نام لیے بغیر ولی کے لیے تخییر واجب کر دے گا۔ اس بنا پر اس کا یہ قول اور اس کی یہ تعبیر خطا اور غلطی پر مبنی ہوگی۔ اگر کوئی شخص کہے کہ درج بالا قول تو بعینہ اسی طرح ہے جیسے آپ کہتے ہیں کہ : واجب تو قصاص ہے، لیکن ولی اور قاتل دونوں کو اختیار ہے کہ باہمی رضامندی سے اس وجوب کو مال کی طرف منتقل کردیں۔ باہمی رضا مندی سے ایسا کرنے کے جواز کے اندر آیت کے حکم کے موجَب یعنی قصاص کا اسقاط لازم نہیں ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے ابتدا میں یہ واضح کردیا ہے کہ قصاص قاتل پر مقتول کے ولی کا حق ہے اور اس کے لیے قصاص اور مال کے درمیان تخییر ثابت نہیں ہے۔ اب اگر طرفین باہمی رضا مندی سے مذکورہ حق کو بدل کر مال کی طرف منتقل کردیں تو یہ بات قصاص کو اس امر سے خارج نہیں کرے گی کہ وہی اور صرف وہی واجب حق ہے کوئی اور چیز نہیں۔ اس لیے کہ جس چیز کے حکم کا تعلق ان دونوں کی باہمی رضا مندی کے ساتھ ہوجائے گا وہ اس اصلی حق پر اثر انداز نہیں ہوگی جو تخییر کے بغیر واجب تھا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایک شخص کسی غلام یا مکان کا مالک ہوتا ہے اور دوسرے شخص کے لیے مالک کی رضا مندی سے مذکورہ غلام یا مکان خرید لینے کا جواز ہوتا ہے۔ اس اختیار اور جواز کے اندر پہلے مالک کی اصلی ملکیت کی نفی نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ بات اس امر کی موجب بن جاتی ہے کہ اس کی ملکیت خیار یعنیی تخییر پر موقوف ہوجائے۔ اسی طرح شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینے کا مالک ہوتا ہے اور اس کے ساتھ وہ اس سے خلع کرلینے اور طلاق کا بدل لینے کا بھی اختیار رکھتا ہے لیکن اس سلسلے میں اسی کے لیے ابتدا ہی سے طلاق کی ملکیت کے اثبات کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ بیوی کی رضا مندی کے بغیر اسے طلاق کو مال کی طرف مفتقل کردینے، یعنی خلع کرنے کا اختیار مل گیا ہے۔ اگر اسے ابتدا ہی سے یہ اختیار ہوتا کہ بیوی کو طلاق دے دے یا اس کی رضامندی کے بغیر مال لے لی یعنی خلع کرلے تو یہ بات اس امر کی موجب بن جاتی ہے کہ وہ دو چیزوں یعنی طلاق یا مال میں سے ایک کا مالک ہے۔ قتل عمد کی بنا پر قصاص ہی واجب ہوتا ہے اس پر حضرت انس (رض) سے مروی وہ حدیث دلالت کرتی ہے جس کی سند ہم الربیع بنت التصر کے واقعے کے سلسلے میں پہلے بیان کر آئے ہیں۔ جب مذکورہ خاتون نے ایک لونڈی کو طمانچہ مار کر سامنے کا ایک دانت توڑ دیا اور قصاص کا حکم سن کر اس کے بھائی نے اعتراض کیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کی کتاب میں قصاص کا حکم ہے۔ اس موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واضح کردیا کہ اللہ کی کتاب کا موجَب قصاص ہی ہے، اس بنا پر کسی کے لیے قصاص کے ساتھ کسی اور چیز کا اثبات جائز نہیں ہوگا اور نہ ہی یہ بات جائز ہوگی کہ قصاص کو کسی اور چیز کی طرف منتقل کردیا جائے ۔ یہ بات صرف اس صورت میں ہوسکتی ہے کہ اس منتقلی کی کوئی ایسی دلیل موجود ہو جس کے ذریعے کتاب اللہ کے حکم کا نسخ جائز قرار پاتا ہو۔ اگر ہم یہ بات تسلیم بھی کرلیں کہ قول باری : فن عفی لہ من اخیہ شی ہماری بیان کردہ تاویلات کے ساتھ ساتھ اس تاویل کا بھی احتمال رکھتا ہے جس کا دعویٰ ہمارے مخالف حضرات نے کیا ہے کہ قاتل کی رضامندی کے بغیر بھی مقتول کے ولی کے لیے مال، یعنی دیت وصول کرلینا جائز ہے، تو اس صورت میں زیادہ سے زیادہ بات یہی ہوگی کہ آیت میں مذکورہ لفظ عفو ایک مشترک اور کئی معانی کا متحمل لفظ قرار پائے گا اور یہ بات مذکورہ لفظ کے متشابہ قرار پانے کی موجب بن جائے گی۔ جب کہ دوسری طرف یہ واضح ہے کہ قول باری : کتب علیکم القصاص ایک محکم آیت ہے جس ک معنی ظاہر اور جس کی مراد بین اورو اضح ہے، نیز جس کے الفاظ میں کوئی اشتراک نہیں ہے اور جس کی تاویل میں کوئی احتمال نہیں۔ ادھر متشابہ کا حکم یہ ہے ک ہ اسے محکم پر محمول کیا جائے اور اسے محکم ہی کی طرف لوٹایا جائے، چناچہ ارشاد باری ہے : منہ ایات محکمات ھن ام الکتب واخر متشابھا فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبون ماتشا بہ منہ ابتغاء الفتنۃ و ابتغاء تاویلہ ( اس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں ایک محکمات جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات ۔ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کو معنی پہنانے کی کوشش کیا کرتے ہیں) اس آیت میں اللہ سبحانہ نے متشابہ کو محکم کی طرف لوٹانے کا حکم دیا ہے۔ اس یے کہ اس کی طرف سے محکم کو اس صفت سے موصوف کرنا کہ یہ کتبا کی اصل بنیاد ہیں اس امر کا مقتضی ہے ک غیر محکم یعنی متشابہ محکم پر محمولے اور اس کے معنیی اس پر معطوف ہیں۔ کیونکہ ایک چیز اُم یعنی اصل بنیاد وہ ہے جس سے اس چیز کو ابتدا ہوئی ہو اور اس کی طرف اس کا مرجع ہو۔ پھر اللہ سبحانہ نے مذکورہ آیت میں ان لوگوں کی مذمت فرمائی جو متشابہ کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ اور اسے محکم کی طرف لوٹائے بغیر اور محکم کے معنی کی موافقت پر اسے محمول کیے بغیر صرف اس تاویل پر اکتفا کرلیتے ہیں جس کا احتمال اس کے لفظ میں موجود ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں پر اللہ سبحانہ نے یہ حکم عائد کردیا کہ ان دلوں میں کجی اور ٹیڑھ ہے۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ قول باری : کتب علیکم القصاص محکم آیت ہے اور قول باری : فمن عفی لہ من اخیہ شی متشابہ ہے تو اس کے معنی کو محکم کے معنی پر اس طرح محمول کرنا واجب ہوگیا کہ نہ تو محکم کے معنی کی مخالفت ہو اور نہ ہی اس کے حکم کے کسی جُز کا ازالہ ہو۔ یہ بات صرف ان تاویلات میں سے کسی ایک کے ذریعے ہوسکتی ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ یہ تاویلات آیت کے لفظ کے موجَب ، یعنی قصاص کی نفی نہیں کرتیں اور نہ ہی اسے کوئی اور معنی پہناتی ہیں۔ ان تاویلات میں قصاص سے کسی اور بات کی طرف عدول بھی نہیں ہے۔ اسی طرح یہ قول باری ہے : فمن اعتدی علیکم فاعتد و علیہ بمثل مااعتدی علیکم ( جو شخص تمہارے ساتھ زیادتی کرے تم بھی اس کے ساتھ اسی قدر زیادتی کرو جس قدر اس نے تمہارے ساتھ کی ہے) اس آیت کی رو سے اگر جان کا ضیاع ہوجائے تو مقتول کا ولی جس مثل کا مستحق ہوگا اور وہ قصاص ہے۔ اگر مذکورہ مثل قصاص اور قاتل کی جان کا اتلاف ہے جس طرح اس نے مقتول کی جان کا اتلاف کیا ہے تو اس صورت میں قاتل کی حیثیت ایسے مال کے متلف جیسی ہوگی جس کی کوئی مثل پائی جاتی ہو۔ اس لیے باہمی رضامندی کے بغیر قصاص ترک کر کے کس اور چیز کی طرف عدول نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے قول باری ہے : بمثل ما اعتدی علیکم نیز اس پر اصول کی بھی دلالت ہے۔ جو حضرات مقتول کے ولی کے لیے قاتل کی رضامندی کے بغیر مال، یعنی دیت وصول کرنے اور قصاص لینے کے درمیان اختیار کا ایجاب کرتے ہیں ان کا استدلال کئی احادیث پر مبنیی ہے۔ ان میں سے ایک حدیث کی روایت یحییٰ بن کثیر نے ابوسلمہ سے کی ہے۔ انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اس کی روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے موقعہ پر فرمایا : جس شخص کا کوئی آدمی قتل ہوجائے اسے دو باتوں میں سے ایک بہتر بات کا اختیار ہے یا تو وہ قاتل کو قتل کر دے یا اسے دیت دے دی جائے۔ اسی طرح یحییٰ بن سعید نے ابوزیب سے روایت کی ہے، ان سے سعید المقبری نے بیان کیا کہ میں نے ابو شریح الکعبی کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مک کے موقعہ پر اپنے خطبے میں فرمایا : قبیلہ خزاعہ والو، تم نے بنو ہذیل کے اس شخص کو قتل کردیا اور میں اس کی دیت دوں گا۔ لیکن میرے اس خطبے کے بعد جس شخص کا کوئی آدمی قتل ہوجائے اس کے اہل کو دو باتوں کے درمیان اختیار ہوگا۔ انہیں اختیار ہوگا اگر چاہیں تودیت وصول کرلیں اور اگر چاہیں تو قاتل کو قتل کردیں۔ اس حدیث کی روایت محمد بن اسحاق نے الحرث بن الفضیل سے کی، انہوں نے سفیان سے، انہوں نے ابوالعرجاء اور انہوں نے ابو شیح الخزاعی سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کسی کو قتل یا زخمی کردیا جائے تو اس کے ولی کو تین باتوں میں سے ایک کا اختیار ہوگا یا تو وہ معاف کر دے یا قصاص لے لے یا دیت وصول کرلے۔ درج بالا احادیث اس بات کی موجب نہیں ہیں جس کا یہ حضرات دعویٰ کرتے ہیں کیونکہ ان احادیث میں اس مراد کا احتمالے کہ قاتل کی رضامندی سے دیت وصول کی جائے جس طر ح ارشاد باری ہے : فاما منا بعد و اما فداء ( اس کے بعد یا احسان کرنا ہے یا فدیہ ہے) مطلب یہ ہے کہ قیدی کی رضامندی سے فدیہ لیا جائے۔ یہاں مخدوف کا ذکر اس لیے نہیں ہوا کہ مخاطبین کو مال کے ذکر کے وقت یہ بات معلوم تھی کہ قیدی پر اس کی رضامندی کے بغیر فدیہ لازم کرنا جائز نہیں ہے۔ یہی کیفیت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ک اس ارشاد کی ہے کہ : یا دیت وصول کرلے۔ نیز اس ارشاد کی کہ : یا اسے دیت دے دی جائے۔ نیز جس طرح مقروض قرض خواہ سے کہتا ہے : اگر تم چاہو تو اپنا قرص درہم کی صورت میں وصول کرلو اور اگر چاہو تو دینار کی شکل میں لے لو۔ نیز جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال (رض) سے اس وقت فرمایا تھا جب و کھجوریں لے کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تھے : کیا خیبر کی تمام کھجوریں اسی طرح کی ہیں ؟ حضرت بلال (رض) نے جواب نفی میں دیتے ہوئے کہا تھا کہ : لیکن ہم اس کھجور کا ایک صاع ( ایک پیمانے کا نام) عام کھجوروں کے دو صاع کے بدلے اور اس کے دو صاع تین صاعوں کے بدلے میں لیتے ہیں۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایسا نہ کرو تا ہم تم اپنی کھجوریں کسی عرض (سامان وغیرہ) کے بدلے فروخت کرو اور پھر اس سامان کے بدلے یہ کھجوریں لے لو۔ یہ بات تو واضح ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ارادہ نہیں فرمایا کہ حضرت بلال (رض) متعلقہ دوسرے شخص کی رضا مندی کے بغیر سامان کے بدلے کھجوریں لے لیں۔ درج بالا احادیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے دیت کا ذکر اس امر پر محمول ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے ذریعے واضح کردیا کہ بنی اسرائیل پر قاتل کی رضامندی کے بغیر دیت نہ لینے کا جو حکم عائد تھا سے اللہ سبحانہ نے اس امت پر تخفیف کی غرض سے منسوخ کردیا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ بنی اسرائیل میں قصاص کا حکم نافذ تھا لیکن دیت کا حکم نہیں تھا، پھر اللہ سبحانہ نے اس امت سے اس حکم میں تخفیف کردی۔ دیت لینے سے مراد یہ ہے کہ یہ دیت قاتل کی رضامندی سے لی جائے ، ہماری اس بات پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جسے اوزاعی نے یحییٰ بن کثیر سے، انہوں نے ابوسلمہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) عنہ سے انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کا کوئی آدمی قتل ہوجائے اسے دو باتوں میں سے ایک بہتر بات کا اختیار ہوگا یا تو وہ قاتل کو قتل کر دے یا فدیہ پر تصفیہ کرلے، مفاداۃ ( فدیہ یا دیت پر تصفیہ) دو شخصوں کے درمیان ہوتا ہے۔ جس طرح مقاتلہ، مضاربہ اور مشاتمہ وغیر دو افراد کے درمیان وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی درج بالا تمام احادیث میں مراد یہ ہے کہ قاتل کی رضا مندی سے دیت کا معاملہ طے کیا جائے۔ یہ حدیثیں ان حضرات کے قول کو باطل کردیتی ہیں جو کہتے ہیں کہ قاتل پر جو چیز واجب ہے وہ تو قصاص ہے اور ولی کو اختیار ہے کہ وہ اس قصاص کو دیت کی صورت میں منتقل کر دے، کیونکہ ان تمام احادیث میں قتل عمد کے ولی کے لیے قصاص اور دیت لینے کے درمیان تخییر کا اثبات ہے۔ اگر چہ واجب قصاص ہی ہے۔ البتہ قصاص کے ثبوت کے بعد ولی کو اسے دیت کی طرف اسی طرح منتقل کرنے کا حق ہوگا جس طرح دین کو اس کے عوض کے طور پر عرض کی طرف اور عرض کو اس کے عوض کے طور پر دین کی طرف منتقل کردیا جاتا ہے، مذکورہ احادیث میں کسی ایسے خیار کا ذکر نہیں جو نفس قتل کا موجب بنتا ہو، بلکہ واجب تو ایک ہی چیز ہوتی ہے اور وہ ہے قصاص۔ اس لیے جو حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ قتل عمد کے نتیجے میں قصاص کا ایجاب ہوتا ہے کسی اور چیزکا نہیں تا ہم ولی اس قصاص کی دیت کی طرف منتقل کرسکتا ہے ان کا یہ قول مذکورہ بالا احادیث کے خلاف ہے۔ الانصاری نے حمید الطویل سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے الربیع بنت النضر کے واقعہ کے سلسلے میں روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمیا تھا کہ : اللہ کی کتاب میں اس کی طرف سے مرر کردہ فرض قصاص ہے۔ آپ کا یہ ارشاد اس امر کے منافی ہے کہ کتاب یعنی فرض سے مراد مال یا قصاص ہے۔ علقمہ بن وائل نے اپنے والد سے اور ثابت البنانی نے حضرت انس (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کو قتل کردیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قاتل کو مقتول کےوی کے حوالے سے کرد یا اور پھر پوچھا۔ کیا تم معاف کرتے ہو ؟ اس نے نفی میں جواب دیا ۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر پوچھا : کیا تم دیت لیتے ہو ؟ اس نے جواب بھی نفی میں دیا۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یاد رکھو، اگر اسے قتل کرو گے تو تم بھی اس کی مثل ہو جائو گے۔ وہ شخص چلا گیا۔ لوگ اس کے پیچھے گئے اور اس سے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اگر تم اسے قتل کرو گے تو تم بھی اس کی مثل ہو جائو گے۔ یہ سن کر اس شخص نے قاتل کو معاف کردیا، اس حدیث سے قصاص اور مال کے درمیان خیار کا ایجاب کرنے والے حضرات سے استدلال کیا ہے۔ لیکن اس حدیث میں ان کے قول پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں احتمال ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد یہ ہو کہ ولی قاتل کی رضامندی کے ساتھ دیت وصول کرلے۔ جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ثابت بن قیس (رض) کی بیوی سے اپنے شوہر کے خلاف شکوہ و شکایت کرنے پر فرمایا تھا : کیا تمہاری مراد یہ ہے کہ تم اسے وہ باغ دے کر طلاق لے لو جو اس نے تمہیں مہر میں دیا تھا ۔ اور بیوی نے اس کا جواب اثبات میں دیا تھا۔ ی بات تو واضح ہے کہ اس سلسلے میں حضرت ثابت (رض) کی رضا مندی شرط تھی، اگرچہ یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد میں مذکور نہیں کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ثابت (رض) پر ان کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی بات نیز باغ ان کی ملکیت میں دینے کا معاملہ لازم کرنے والے نہیں تھے۔ یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ی قصد کیا ہو کہ مقتول کا ولی کسی مال پر کوئی سمجھوتہ کرلے۔ اس صورت میں مذکورہ عقد قاتل کی رضامندی پر موقوف ہوتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پاس سے دیت دینے کا ارادہ کیا ہو جس طرح فتح مکہ کے موقعہ پر مکہ میں بنو خزاعہ کے ایک فرد کے ہاتھوں قتل ہوجانے والے شخص کی دیت اپنے پاس سے ادا کی تھی۔ اور جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود کی طرف سے عبداللہ بن سہیل کی دیت برداشت کی تھی جو خیبر میں مقتول پائے گئے تھے۔ مذکورہ بالا حدیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد : ” اگر تم اسے قتل کرو گے تو تم اس کی مثل ہو جائو گے “ دو معنوں کا احتمال رکھتا ہے۔ ایک معنی تو یہ ہے کہ تم بھی قاتل قرار پائو گے جس طرح یہ قاتل ہے، لیکن یہاں یہ معنی نہیں کہ گناہ کے اندر تم بھی اس کی طرح ہو جائو گے، کیونکہ قاتل کو قتل کردینے کی صورت میں مذکورہ ولی اپنا حق وصول کرتا اور اس لیے وہ ملامت کا مستحق نہ ہوتا۔ جبکہ قاتل قتل کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے وہ قابل تعزیر ٹھہرتا ہے ۔ اس لیے آپ نے یہ مراد نہیں لی تھی کہ گناہ میں تم اس کی مثل ہو جائو گے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اسے قتل کر دو ۔ تو تم اپنا حق وصول کرلو گے اور اس پر تمہیں کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوگی۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے معاف کردینے کی ترغیب دے کر فضیلت کی بات فرمائی ہے۔ ارشاد ہوا : فمن تصدق بہ فھوا کفارۃ لہ ( جو شخص قصاص کا صدقہ کر دے تو اس کا یہ فعل اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا) اگر کوئی شخص یہ کہے کہ جب قاتل پر انی جان زندہ رکھنا لازم ہے تو ضروری ہے کہ وہ ولی کو مقتول کی دیت ادا کر کے قصاص سے اپنی جان بچا لے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ جب کسی کی جان خطرے میں دیکھے تو اسے بچا لے ، مثلاً کوئی شخص کسی کو دیکھے کہ اس نے کسی کی جان لینے کا قصد کرلیا ہے، یا کوئی شخص کسی کو پانی میں ڈوبتا دیکھے اور اس کے لیے اسے بچا لینا ممکن ہو، یا ایک شخص کے پاس طعام ہو اور وہ کسی کو بھوک سے مرتا دیکھ لے تو اس پر لازم ہوگا کہ کھانا کھلا کر اسے بچا لے، اسی طرح قاتل پر مال دے کر اپنی جان بچانالازم ہے تو پھر ولی پر بھی اسے زندہ رکھنا لازم ہوگا۔ اس مفروضے پر ضروری ہوجائے گا کہ قاتل اگر دیت کے طور پر مال خرچ کرنا چاہے تو ولی کو مذکورہ مال لینے پر مجبور کردیا جائے ۔ اگر ایسا ہوجائے تو پھر یہ بات سرے سے قصاص کے بطلان کی باعث بن جائے گی۔ اس لیے کہ جب قاتل اور ولی دونوں پر قاتل کو زندہ رکھنا لازم ہوجائے گا، تو دونوں کا مال لینے اور قصاص ساقط کرنے پر رضا مند ہوجانا ضروری ہوگا۔ نیز اس صورت میں اگر ولی قاتل کے مکان، یا اس کے غلام ، یا دیت کی کثیر مقدار کا مطالبہ کر دے تو قاتل کے لیے مناسب یہی ہوگا کہ وہ اس کی ادائیگی کر دے۔ لیکن دوسری طرف اس قول کے قائلین کے نزدیک قاتل پر دیت کی مقدار سے زائد مال دینا لازم نہیں ہوتا جس سے ان حضرات کے استدلال کا کھوکھلاپن نیز ان کی تعلیل کا انتقاض اور اس کا فساد واضح ہوجاتا ہے۔ زیر بحث مسئلے میں الزنی نے امام شافعی کے حق میں یہ استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی حد فذف یا کفالہ بالنفس کے سلسلے میں ایک مال پر مصالحت کرلے تو اس صورت میں حد اور کفالہ دونوں باطل ہوجائیں گے اور مذکورہ شخص کسی چیز کا مستحق نہیں ہوگا اور جمہور کا اتفاق ہے کہ قتل عمد کے سلسل میں مال پر صلح کرلے تو اسے قبول کرلیا جائے گا۔ یہ بات اس ممر پر دلالت کرتی ہے کہ دم عمد اصل میں مال ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ درج بالا استدلال غلطی اور مناقضہ پر مشتمل ہے۔ خطا تو یہ ہے کہ صلح کی وجو سے حد باطل نہیں ہوتی اور مال باطل ہوجاتا ہے۔ کفالہ بالنفس کے سلسلے میں دو روایتیں ہیں۔ ایک روایت کے مطابق مال بھی باطل نہیں ہوتا اور دوسری روایت کے مطابق باطل ہوجاتا ہے۔ رہ گیا مناقضہ تو اس کی صورت یہ ہے کہ جمہور کے مطابق طلاق پر مال لینا جائز ہے اور اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ طلاق اصل کے اعتبار سے مال نہیں ہے، نیز یہ کہ شوہر کو حق نہیں کہ وہ بیوی کی رضا مندی کے بغیر اس پر طلاق کے بدلے مال لازم کر دے۔ المزنی کی حکایت کے مطابق امام شافعی کے نزدیک محجور علیہ ( ایسا شخص جس کے تصرفات پر پابندی لگی ہو) اگر قتل عمد میں قاتل کو معاف کر دے تو اس کا یہ عفو جائز ہوگا۔ اس لیے کہ عمد کے اندر مال کی ملکیت صرف مجنی علیہ ( وہ شخص جس کے خلاف جنایت کا ارتکاب کیا گیا ہو) کی مرضی اور اختیار سے ہوتی ہے۔ اگر دم عمد اصل کے اعتبار سے مال ہوتاے تو اس میں قرض خوار ہوں اور اصحاب وصایا کا حق بھی ثابت ہوجاتا ہے۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ امام شافعی کے نزدیک عمد کا موجب قصاص ہی ہے۔ نیز اس امر کا بھی پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ولی کے لیے قتل اور دیت کے درمییان خیار کو واجب نہیں کیا۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ قول باری : ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا ( اور جو شخص مظلومانہ طریقے سے قتل ہوجائے ہم نے اس کے ولی کو قصاص کے مطالبے کا حق دیا ہے) مقتول کے ولی کے لیے قصاص اور مال لینے کے درمیان خیار کو واجب کرتا ہے، اس لیے کہ لفظ سلطان کا اطلاق دونوں پر ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ مظلومانہ طور پر قتل کی بعض صورتوں میں دیت واجب ہوتی ہے جس طر ح شبہ عمد کے تحت قتل ہونے والے شخص کے سلسلے میں دیت کا وجوب ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی باپ اپنے بیٹے کو قتل کر دے تو اس مقتول کی بھی دیت واجب ہوگی۔ جبکہ بعض صورتوں میں قصاص واجب ہوتا ہے۔ یہ بات اس امر کی متقضی ہے کہ آیت میں سب باتیں یعنی قصاص، دیت اور عفو مراد لی جائیں کیونکہ آیت میں مذکورہ لفظ ان سب باتوں کا احتمال رکھتا ہے۔ الضحاک بن مزاحم نے اس آیت کی تاویل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ولی اگر چاہے تو قاتل کو قتل کر دے اور اگر چاہے تو اسے معاف کر دے اور اگر چاہے تو دیت وصول کرلے۔ جب آیت کا لفظ سلطان ان تینوں باتوں کا احتمال رکھتا ہے تو مال لینے کے اندر ولی کے سلطان یعنی حق کا اثبات اسی طرح واجب ہے جس طرح قصاص لینے میں، کیونکہ اس اس کا وقوع ان دونوں پر ہوتا ہے ، نیز سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ایک حالت کے اندر دونوں میں سے ہر ایک اللہ کی مراد ہے۔ اس صورت میں آیت کے الفاظ کچھ اس طرح ہوں گے : اور جو شخص مظلومانہ طورپ ر قتل ہوجائے اس کے ولی کو ہم نے قصاص اور دیت کے مطالبے کا حق دیا ہے۔ پھر جب اس امر پر سب کا اتفقا ہے کہ یہ دونوں باتیں بیک وقت واجب نہیں ہوتیں تو ضروری ہے کہ ان کا وجوب تخییر کے طور پر ہو۔ نیز جس طرح آپ نے قول باری : فقد جعلنا لبولیہ سلطانا سے اس بنا پر قصاص کے ایجاب پر استدلال کیا ہے۔ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ قصاص مراد ہے، یعنی قصاص گویا منصوص علیہ ہے اور آپ نے لفظ سلطان کو لفظ قصاص کے عموم کی طرح قرار دیا ہے ، تو یہی طریق کار مال کے اثبات کے سلسلے میں لازم ہے۔ کیونکہ ہم ایسے مقتولین بھی پاتے ہیں جن کے ولی کا سلطان یعنی حق مال ہی ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مذکورہ قول باری کو قصاص پر محمول کرنا دیت پر محمول کرنے سے اولیٰ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سلطان ایک مشترک لفظ ہے اور کئی معانی کا احتمال رکھتا ہے اس لیے یہ آیت متشابہ کے حکم میں ہے اور اسے محکم کی طرف لوٹانا اور محکم کے معنی پر محمول کرنا واجب ہے۔ یہ محکم قصاص کے ایجاب کے سلسلے میں ایک محکم آیت کی صورت میں ہے ، یعنی یہ قول باری : کتب علیکم القصاص فی القتلی ( قتل کے مقدمات کے سلسلے میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ) اس سے ضروری ہوگیا کہ جس طور پر زیر بحث آیت میں مذکور لفظ سلطان سے قصاص مراد ہے، اسی طرح اس کے معنی کو بھی محکم آیت، یعنی مذکورہ بالا آیت کے معنی پر محمول کیا جائے۔ اس محکم آیت میں ایجاب قصاص کا ذکر ہے۔ دوسری طرف ہمارے معترض کے پاس قاتل عمد پر مال کے ایجاب کے لیے کوئی محکم آیت موجود نہیں ہے کہ جس پر زیر بحث متشابہ آت کو محمول کیا جاسکے۔ اس کے نتیجے میں اب یہ بات واجب ہوگئی کہ سلطان کے اسم کو قصاص پر محمول کرنے پر اقتصار کیا جائے۔ مال پر محمول نہ کیا جائے ۔ کیونکہ یہ معنی اس محکم آیت کے معنی کے ساتھ موافقت رکھتا ہے جس میں کوئی اشتراک اور تشابہ نہیں ہے۔ جن حضرات نے آیت کو دیت یا قصاص میں سے ایک چیز لینے پر ولی کی تخییر کے معنوں پر محمول کیا ہے اس کے لیے انہوں نے کوئی محکم آیت بنیاد کے طور پر پیش نہیں کی جس پر وہ اس متشابہ آیت کو محمول کرسکیں۔ اس لیے تخییر کا اثبات درست نہیں ہوا کیونکہ لفظ میں صرف اس کا احتمال ہے۔ زیر بحث آیت کے مضمون اور اس کے تسلسل میں ایسی بات موجود ہے جو پتہ دیتی ہے کہ قصاص مراد ہے۔ قول باری ہے : ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا فلا یسوف فی القتل، انہ کان منصورا ( اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالقے کا حق دیا ہے۔ پس چاہیے کہ وہ حد سے نہ گزرے، اس کی مدد کی جائے) اس سے قتل میں حد سے گزر جانا مراد ہے بایں طور کہ مقتول کا ولی قاتل کے سوا کسی اور کو قتل کر دے یا قاتل کا مثلہ کر کے ( ناک، کان اور دیگر اعضاء کاٹ کر) اسے قتل کرے، اذیت دے دے کر اس کی جان لے۔ اس بات میں یہ دلیل موجود ہے کہ لفظ سلطن سے قصاص مراد ہے، نیز جب یہ ثابت ہوگیا کہ مذکورہ آیت میں قصاص مراد ہے، تو اب مال مراد لینا منتفی ہوگیا کیونکہ اگر قصاص کے ساتھ مال بھی مراد ہوتا تو ایک ہی حالت کے اندر یہ دونوں باتیں واجب ہوتیں، تخییر کے طر پر واجب نہ ہوتیں کیونکہ آیت میں تخییر کا ذکر نہیں ہے اور جب دونوں باتیں مراد لینا ممتنع ہوگیا جبکہ دوسری طرف قصاص ہی لا محالہ مراد ہے، تو اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ مال مراد نہیں ہے، نیز یہ ک مظلومانہ طیریقے سے قتل ہونے والی بعض مقتولین کے سلسلے میں دیت وصول کرنے کے حکم کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں ، واللہ اعلم عاقلہ کی طرف سے قتل عمد کی دیت اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے : فمن عفی لہ من اخیہ شی ف اتباع بالمعروف و اداء الیہ باحسان ( ہاں اگر کس قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تار ہو تو معروف طریقے کے مطابق خونبہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خونبہا ادا کرے) ہم نے ان حضرت کی اس تاویل کا پہلے ذکر کیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ بعض اولیا قصاص میں اپنے حصے معاف کردیں اور باقی ماندہ اولیاء کے حق میں بدیت کا وجوب ہوجائے ، کیونکہ لفظ میں اس مفہوم کا احتمال موجود ہے۔ اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ جس قاتل کا پورا قصاص معاف نہ کیا گیا ہو اس پر باقی ماندہ اولیاء کے لیے دیت کی ادائیگی کا وجوب اس کے مال میں ہوگا۔ اسی طرح ہر وہ قتل عمد جس میں قصاص نہیں ہے اس کی دیت کا وجوب جانی یعنی قاتل کے مال میں ہوگا، مثلاً باپ اپنے بیٹے کو قتل کر دے یا وہ زخم جو جان لیوا نہ ہو، لیکن اس میں قصاص نہ لیا جاسکتا ہو، مثلاً آدھے بازو سے قطع ید، یا و زخم جو ہڈی کو اپنی جگہ سے ہٹا دے یا وہ زخم جو پیٹ کے اندر تک پہنچ جائے۔ اگر عامد اور مخطی دونوں مل کر کسی کو قتل کردیں تو عامد پر نصف دیت اس کے مال کے اندر واجب ہوگی اور مخطی کی عاقلہ پر نصف دیت لازم ہوگی۔ ہمارے اصحاب ، عثمان المبتی ، سفیان ثوری، اور امام شافعی کا یہی قول ہے۔ ابن وہب اور ابن القاسم نے امام مالک سے روایت بیان کی ہے کہ دیت عاقلہ پر لازم ہوگی۔ امام مالک کا یہی آخری قول ہے۔ ابن القاسم نے کہا ہے کہ اگر ایک شخص کسی کا دایاں ہاتھ کاٹ دے اور قاتل کا دایاں ہاتھ نہ ہو تو ہاتھ کی دیت قاطع کے مال میں لازم ہوگی اور اور پر اس دیت کا بوجھ نہیں پڑے گا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ دیت مجرم کے مال میں واجب ہوگی، اگر اس کے مال سے دیت کی ادائیگی پوری نہ ہو و اسے اس کی عاقلہ پر ڈالا جائے گا۔ اسی طرح اگر بیوی اپنے خاوند کو قتل کر دے اور یہ قتل عمد ہو جبکہ شوہر سے بیوی کی اولاد تھی ہو، تو شوہر کی دیت بیوی کے مال پر واجب ہوگی، اگر اس کے مال سے دیت کی ادائیگی نہ ہو سکے تو یہ اس کی عاقلہ پر ڈال دی جائیگی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں درج بالا آیت اس مفہوم کے ادا کرنے میں بالکل واضح ہے کہ دمِ عمد پر صلح نیز بعض اولیاء کی طرف سے قاتل کو معاف کردینے کی بنا پر قصاص کا سقوط جانی یعنی قاتل کے مال میں دیت کو واجب کردیتے ہیں۔ ارشاد باری ہے : فمن عفی لہ من اخیہ شی اس میں قاتل مراد ہے، اگر مفہوم یہ ہے کہ بعض اولیا کی طرف سے قاتل کو معاف کردیا جائے پھر فرمایا : ف اتباع بالمعروف یعنی ولی قاتل کا پیچھا کرے۔ پھر مایا : واداء الیہ باحسان یعنی قاتل کی طرف سے ادئیگی ۔ یہ بات قاتل کے مال میں دیت کی ادائیگی کے وجوب کی مقتضی ہے۔ اسی طرح ان حضرات کی تاویل بھی قاتل کے مال میں ادائیگی کے وجوب کی مقتضی ہے۔ جنہوں نے آیت کو صلح کو مال پر باہمی رضا مندی کے معنوں پر محمول کیا ہے کیونکہ آیت میں عاقلہ کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ اس میں صرف ولی اور قاتل کا ذکر ہوا ہے۔ ابن ابی الزناد نے اپنے والد سے، انہوں نے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے اور انہوں نے حصرت ابن عباس (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : عاقلہ کی طرف سے نہ تو قتل عمد کی ، نہ غلام کی، نہ صلح کی اور نہ ہی اعتراف کی دیت بھری جائے گی۔ عبدالباقی نے روایت بیان کی ہے، ان سے احمد بن الفضل الخطیب نے ، ان سے اسماعیل بن موسیٰ نے ان سے شریک نے جابر بن عامر سے کہ مسلمانوں نے اس پر اتفاق کرلیا ہے کہ وہ نہ تو کسی غلام کی دیت بھریں گے، نہ قتل عمد کی، نہ ہی صلح کی اور نہی اعتراف کی۔ عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے دادا سے، قتادہ بن عبداللہ امدلحی کے واقعے کے سلسلے میں روایت بیان کی ہے کہ جنہوں نے اپنے بیٹے کو قتل کردیا تھا۔ حضرت عمر (رض) نے قتادہ پر سو اونٹ کی ادائیگی کا حکم جاری کردیا تھا اور یہ اونٹ مقتول کے بھائیوں کو دے دئیے تھے۔ قاتل باپ کو ان اونٹوں میں سے کسی چیز کا وارث قرار نہیں دیا تھا۔ جب جان کے سلسلے میں یہ صورت ثابت ہوگئی اور اس معاملے میں کسی صحابی نے حضرت عمر (رض) کی مخالفت نہیں کی تو اس سے معلوم ہوگیا کہ جان سے کم تر جرم میں قصاص ساقط ہونے کی صورت میں بھی یہی حکم ہوگا۔ ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا قتل عمد میں عاقلہ پر دیت نہیں، ان پر صرف قتل کی دیت ہے، عروہ نے یہ بھی کہا ہے کہ صلح کی بنا پر جو مال واجب ہوجائے اس کی ادائیگی کی ذمہ داری خاندان پر نہیں ہوگی الا یہ کہ خاندان اس پر رضا مند ہوجائے۔ قتادہ نے کہا ہے کہ ہر ایسا جرم جس کا قصاص نہ لیا جاسکتا ہو اس کی دیت مجرم کے مال میں لازم ہوگی۔ امام ابو حنییفہ نے حماد سے اور انہوں نے ابراہیم نجعی سے روایت بیان کی ہے کہ عاقلہ کی طرف سے نہ تو صلح کی دیت بھری جائے گی نہ عمد کی اور نہ اعتراف کی ۔۔۔۔۔۔ قول باری ہے : ولکم فی القصاص حیوۃ یا اولی الالباب ( عقل و خرد رکھنے والو تمہارے لیے قصاص میں زندگی کا سامان ہے) اس آیت میں اللہ سبحانہ، نے بتادیا کہ قصاص کے ایجاب میں لوگوں کی زندگی اور ان کی بقاء کا سامان ہے اس لیے کہ جو شخص کسی کو قتل کرنے کا ارادہ کرے گا اسے اس ارادے سے یہ بات باز رکھے گی کہ قصاص میں خود اسے قتل ہونا پڑے گا۔ آیت سے اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ قصاص کے وجوب کا حکم آزاد اور غلام ، مرد اور عورت مسلمان اور ذمی سب کے لیے عام ہے، کیونکہ اللہ سبحانہ ، قصاص کے ذریعے سب کی زندگیوں کی بقا چاہتا ہے۔ اس بنا پر دو آزاد مسلمانوں کے درمیان قصاص کی موجب علت مذکورہ بالا افراد کے اندر بھی موجود ہوتی ہے اس لیے ان سب کو اس حکم کے اندر یکساں درجے پر رکھنا واجب ہے۔ آیت میں مذکورہ خطاب کی عقل و خرد رکھنے والوں کے ساتھ تخصیص حکم کے اندر دیگر افراد کی یکسانیت کی نفی نہیں کرتی، اس لیے کہ جس علت کی بنا پر عقل و خرد رکھنے والوں پر قصاص کا حکم عائد ہوا ہے وہ علت دیگر افراد کے اندر بھی موجود ہوتی ہے اور خطاب کی ان کے ساتھ تخصیص صرف اس بنا پر ہے کہ عقل و خرد کے مال افراد ہی اس چیز سے فائدہ اٹھاتے ہیں جس کا انہیں مخاطب بنایا جاتا ہے، یہ بات اس قول باری کی طرحے : انما انت منذر من یخشا ھا ( آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو صرف ان لوگوں کو ڈرانے والے ہیں جو قیامت سے ڈرتے ہوں) حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جملہ مکلفین کے لیے منذر تے۔ آپ اس قول باری کو نہیں دیکھتے : ان ھوا الا نذیر لکھ بین یدی عذاب شدید ( وہ تو صرف تمہیں ایک سخت عذاب کے آنے سے پہلے ڈرانے والے ہیں) اسی طرح یہ قول باری ہے : ھدی للمتقین ( یہ کتاب متقیوں کے لیے ہدایت ہے) حالانکہ یہ سب کے لیے ہدایت ہے متقین کی اس لیے تخصیص کردی گئی کہ یہی لوگ اس کتاب ہدایت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایک اور آیت میں ارشاد باری کو دیکھیے : شھر رمضان الدین انزل فیہ القرآن ھدی للناس ( رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن تمام لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر نازل کیا گیا) اس آیت میں قرآن کی ہدایت کو سب کے لیے عام کردیا گیا۔ اسی طرح یہ قول باری ہے : قالت انی اعوز بالرحمن منک ان کنت تقیا ( مریم (علیہ السلام) نے کہا : میں تجھ سے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو تقی ہے) تقی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اللہ کی پناہ مانگنے والے کو پناہ دے۔ ایک حکیم یعنی دانا شخص سے منقول ہے کہ بعض کو قتل کردینا سب کو زندہ رکھنا ہے۔ ایک اور حکیم سے منقول ہے کہ ” قتل قتل کو کم کردیتا ہے، اس لیے زیادہ قتل کرو، تا کہ قتل کم ہوجائے “۔ عقلا اور حکما کی زبان پر یہ باتیں عام ہیں۔ ان سب کا مقصد وہ مفہوم ہے جو قول باری : و ککم فی القصاص حیوۃ کے ذریعے ادا ہوا ہے۔ اگر آپ کلام باری اور اقوال حکماء کے درمیان موازنہ کریں تو بلاغت اور صحت معنی کی جہت سے دونوں کے مابین زیردست تفاوت پائیں گے۔ یہ بات کئی وجوہ سے بادنیٰ تامل واضح ہوجاتی ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ قول باری : فی القصاص حیوۃ حکما کے اس قول کی نظیر ہے کہ بعض کا قتل سب کے لیے زندگی ہے اور قتل قتل کو کم کردیتا ہے۔ مذکورہ قول باری حکماء سے منقولہ اقوال کی بہ نسبت تعداد میں کم حروف پر مشتمل ہونے کے باوجود اس معنی کی ادائیگی کر رہا ہے جس کی ضرورت ہے اور جس سے کلام کا استغناء نہیں ہے۔ یہ بات حکماء کے درج بالا قول میں نہیں ہے کیونکہ قول باری میں قتل کا ذکر قصاص کے ذکر کے ضمن میں ہوگیا ہے۔ اور اس کے ساتھ وہ غرض بھی بیان ہوگئی جس کی خاطر قصاص کا ایجاب ہوا ہے۔ حکماء کے اقوال کو اگر حقیقت پر محمول کیا جائے تو ان کے معنی درست نہیں ہوں گے اس لیے کہ ہر قتل کی یہ حاصیت نہیں ہوتی ، بلکہ قتل کے بعض واقعات ظلم اور فساد پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس لیے حکماء کے مذکورہ بالا اقوال کی و حیثیت نہیں ہے جو مذکورہ قول باری کی ہے۔ حکماء کے اقوال کی حقیقت غیر مستعمل ہے اور ان کا مجاز اس بات کے قریبنہ اور بیان کا محتاج ہے کہ کونسا قتل سب کے لیے زندگی کا سامان بنتا ہے۔ اس لیے ان کا کلام بیان کے اعتبار سے ناقص، معنی کے لحاظ سے اختلال پر مبنی اور حکم کے افادہ کے اعتبار سے متفی بالذات نیز خود کفیل نہیں ہے۔ جبکہ قول باری : ولکم فی القصاص حیوۃ مکتفی بالذاب ہے ایک اور جہت سے قول باری : فی القصاص حیوۃ کی حکماء کے اقوال ، قتل قتل کو کم کردیتا ہے اور قتل قتل کو زیادہ روکنے والا ہے۔ پر برتری واضح ہے۔ وہ اس طرح کہ ان کے اقوال میں لفظی تکرار ہے، جبکہ بلاغت کے اعتبار سے مذکورہ لفظ کے سوا کسی اور لفظ سے معنی میں تکرار زیادہ حسین ہوتی ہے ۔ ایک ہی خطا ب میں دو مختلف لفظوں سے ایک معنی کی تکرار تو درست ہوتی ہے لیکن ایک ہی لفظ سے اس کی تکرار درست نہیں ہوتی۔ جس طرح یہ قول باری ہے : وغابیب سودا اور سخت سیاہ ( اسی طرح شاعر کا شعر ہے۔ والفی قولھا کذب و مینا (اور محبوبہ کی بات کذب بیانی اور جھوٹ پائی گئی۔ ) اس مصرعہ میں دو لفظوں کے ذریعے ایک معنی کی تکرار کی گئی ہے ۔ یہ انداز بیان عام تھا۔ لیکن الفاظ کی تکرار ذریعے ایسا انداز بیان درست نہیں۔ قول باری : ولکم فی القصاص حیتوۃ کے اندر لفظی تکرار نہیں ہیجب کہ قاتل کی جہت سے قتل کا مفہوم ادا ہو رہا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قصاص کا تعلق اس صورت میں ہوتا ہے جس کے تحت اس شخص کی طرف سے قتل کا ارتکاب پہلے ہوچکا ہے جس سے اب قصاص لیا جانے والا ہے۔ دوسری طرف حکماء کے مذکورہ اقوال پر نظر ڈالیے۔ ان کے اندر قتل کا ذکر ہے لیکن لفظی تکرار بھی موجود ہے۔ یہ بات ان کے اقوال کی بلاغت میں کمی کا باعث ہے۔ یہ مثال اور اسی طرح کی دیگر مثالیں تالم کرنے والے کی نظروں میں قرآن کی اور اس کے اعجاز کی واضح کردیتی ہیں اور انساین کلام پر اس کی برتری ثابت کردیتی ہیں۔ کیونکہ کلام باری کے اندر تھوڑے سے الفاظ کے ذریعے معانی کثیرہ کے بیان کا جو انداز ہے فصحاء کے کلام میں اس کا دور دور تک وجود نظر نہیں آتا۔ (اس آیت کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں)

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧٩) اواہل عقل کے لیے اس قانون میں نفس انسانی کی بقاء اور عبرت ہے تاکہ تم قصاص کے ڈر سے ایک دوسرے کو قتل کردینے سے بچتے رہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧٩ (وَلَکُمْ فِی الْْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ) معاشرتی زندگی میں عفو و درگزر اگرچہ ایک اچھی قدر ہے اور اسلام اس کی تعلیم دیتا ہے : (وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ) (التغابن) اور اگر تم معاف کردیا کرو اور چشم پوشی سے کام لو اور بخش دیا کرو تو بیشک اللہ بھی بخشنے والا ‘ رحم کرنے والا ہے۔ لیکن قتل کے مقدمات میں سہل انگاری اور چشم پوشی کو قصاص کی راہ میں حائل نہیں ہونے دینا چاہیے ‘ بلکہ شدتّ کے ساتھ پیروی ہونی چاہیے ‘ تاکہ اس سے آگے قتل کا سلسلہ بند ہو۔ آیت کے آخر میں فرمایا : (لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ) یعنی اللہ کی حدود کی خلاف ورزی اور ایک دوسرے پر ظلم و تعدیّ سے بچو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

181. This refutes another notion of Ignorance, a notion ingrained in the minds of many people, both past and present. On the one hand there are some people who, entrenched in Ignorance, tend to exceed the limits of moderation in revenge. At the other end of the spectrum stand those who are opposed in principle to the concept of executing a murderer. They have conducted such intense, world-wide propaganda against the death penalty that it has become abhorrent to many people. In fact the impact of this propaganda has been so great that in many countries the death penalty has been abolished altogether. The Qur'an, however, addresses itself on this question to wise and intelligent people and cautions them against such immoderate leniency by proclaiming that the survival of human society rests on the application of the death penalty for homicide. A society which holds inviolable the lives of those who disregard the sanctity of human life is in fact rearing snakes and serpents. To save the life of one murderer is to risk the lives of many innocent human beings.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :181 یہ ایک دوسری جاہلیت کی تردید ہے ، جو پہلے بھی بہت سے دماغوں میں موجود تھی اور آج بھی بکثرت پائی جاتی ہے ۔ جس طرح اہل جاہلیت کا ایک گروہ انتقام کے پہلو میں افراط کی طرف چلا گیا ، اسی طرح ایک دوسرا گروہ عفو کے پہلو میں تفریط کی طرف گیا ہے اور اس نے سزائے موت کے خلاف اتنی تبلیغ کی ہے کہ بہت سے لوگ اس کو ایک نفرت انگیز چیز سمجھنے لگے ہیں اور دنیا کے متعدد ملکوں نے اسے بالکل منسوخ کر دیا ہے ۔ قرآن اسی پر اہل عقل کو مخاطب کر کے تنبیہ کر تا ہے کہ قصاص میں سوسائیٹی کی زندگی ہے ۔ جو سوسائیٹی انسانی جان کا احترام نہ کرنے والوں کی جان کو محترم ٹھیراتی ہے ، وہ دراصل اپنی آستین میں سانپ پالتی ہے ۔ تم ایک قاتل کی جان بچا کر بہت سے بے گناہ انسانوں کی جانیں خطرے میں ڈالتے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:179) اولی الالباب۔ اولی۔ والے ۔ جمع ہے اس کا واحد نہیں آتا۔ بحالت رفع اولوا اور بحالت نصب و جر اولی۔ الباب لب کی جمع بمعنی عقل۔ اولی الالباب عقل والے۔ صاحب عقل۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 قصاص میں زند گی کے معنی یہ ہیں کہ اس سزا کے خوف سے لوگ قتل سے رک جائیں گے اور کوئی دوسرے کے قتل پر جرات نہیں کرے گا۔ ، پس تتقون کے معنی یہ ہیں کہ تم دوسرے کو قتل کرنے سے بچو گے مگر اسے عام معنی پر محمول کرنا بہتر ہے کہ معصیت سے کنارہ کر کے آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جاؤ علماء نے لکھا ہے کہ یہ آیت ایجاز اور جامعیت میں بےنظیر ہے۔ ( کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب قصاص کے قانون کی گہری حکمت اور اس کے دور رس مقاصد بتاکر بات ختم کی جاتی ہے وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الألْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ” عقل وخرد رکھنے والو ! تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے ۔ “ امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کروگے۔ “ ضرور انتقام ہی لیاجائے بلکہ یہ اس سے کہیں بلندو برتر مقاصد کا حامل ہے ۔ یہ زندگی کے لئے ، زندگی کے قیام کی راہ میں انسان کا قتل ہے ، بلکہ قیام قصاص بذات خود زندگی ہے ۔ یہ اس لئے ہے کہ اس فریضہ حقیقت کو سمجھا جائے ۔ اس کی حکمت میں غور و تدبر کیا جائے۔ دل زندہ ہوں اور ان میں خدا خوفی موجزن ہو۔ ایک مجرم جرم کی ابتدا کرتا ہے اسے سوچنا چاہئے کہ یہ بات معمولی نہیں بلکہ ایسی ہے کہ مجھے تو اس کے بدلے میں اپنی جان کی قیمت دینی پڑے گی ۔ یوں نظام قصاص سے دوزندگیاں بچ جاتی ہیں ۔ ارتکاب قتل کی صورت میں قاتل کو سزا ہوجاتی ہے ۔ وہ قصاص میں مارا جاتا ہے ۔ مقتول کے ورثاء مطمئن ہوجاتے ہیں ان کے دلوں سے کینہ دورہوجاتا ہے اور انتقام کے جذبات سرد پڑجاتے ہیں اور پھر وہ انتقام جو عرب قبائل میں تو کسی حدپر ، کسی مقام پر رکتا ہی نہ تھا۔ چالیس چالیس سال تک قتل کے بدلے میں قتل کا سلسلہ چلتارہتا تھا۔ مثلاً حرب البسوس میں یہی ہوا۔ عرب کیا آج بھی اس گواہ ہیں ، جہاں زندگی خاندانی دشمنیوں اور کینوں کی بھینٹ چڑھتی رہتی ہے اور نسلاً بعد نسل یہ معاملہ چلتا ہی رہتا ہے اور یہ سلسلہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ” قصاص میں زندگی ہے ۔ “ اپنے عمومی مفہوم میں ۔ ایک فرد کی زندگی پر حملہ دراصل جنس زندگی پر حملہ ہے ۔ پوری زندگی پر حملہ ہے ہر انسان پر حملہ ہے ۔ ہر اس انسان پر حملہ جو مقتول کی طرح زندہ ہے ۔ اگر قانون قصاص کی وجہ سے ایک مجرم ، صرف ایک زندگی کو ختم کرنے سے رک جائے تو اس نے پوری انسانیت کو بچالیا ۔ یوں اس ارتکاب جرم سے رک جانا عین حیات ہے اور یہ عام زندگی ، کسی ایک فرد کی زندگی نہیں ہے ، کسی خاندان کی نہیں ، کسی جماعت کی نہیں بلکہ مطلقاً زندگی ہے۔ اب آخر میں قانون الٰہی کی حکمت میں غور وفکر کے شعور کے موجزن کیا جاتا ہے اور خدا خوفی کی تلقین کی جاتی ہے ۔ (یہی وہ اہم فیکٹر اور موثر ذریعہ ہے جس کی وجہ سے انسانی زندگی قائم رہ سکتی ہے ) تَتّقُونَ ” امید ہے کہ تم قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کروگے۔ “ یہ ہے وہ اصل بندھن ، جو انسان کو ظلم و زیادتی سے باز رکھتا ہے ، ابتداء میں قتل ناحق کی زیادتی سے روکتا ہے ، اور آخر میں انتقام کی زیادتی سے ۔ یہ کیا ہے ؟ خدا خوفی ، تقویٰ ، دل میں خدا خوفی کا شعور اور شدید احساس ۔ اللہ کے قہر وغضب سے ڈرنے کا احساس اور اس کی رضاجوئی کی کشش۔ اس پابندی کے بغیر کوئی قانون کامیاب نہیں ہوسکتا ، کوئی شریعت کامیاب نہیں ہوتی ۔ کوئی شخص ارتکاب جرم سے باز نہیں رہتا ۔ انسانی طاقت سے اعلیٰ اور برتر طاقت کے تصور کے بغیر اخروی خوف اور طمع کے روحانی احساس کے بغیر کوئی ظاہری شیرازہ بندی اور قانونی انتقام کامیاب نہیں ہوسکتا۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور اور خلافت کے زمانہ میں جرائم کا وقوع شاذ ونادر ہی رہا ہے ۔ جو جرائم وقوع پذیر ہوئے بھی تو مجرم نے خود اعتراف کیا ۔ اس کا رازیہی ہے کہ وہاں تقویٰ کا زور تھا۔ لوگوں کے دل و دماغ میں ، ایک زندہ ضمیر کی صورت میں تقویٰ ، چوکیدار کی طرح بیٹھا ہوا تھا ۔ جو ہر وقت بیدار رہتا تھا ۔ وہ انہیں حدود جرم سے بھی دور رکھتا ۔ ساتھ ساتھ انسانی فطرت اور انسانی جذبات و میلانات وانصرام تھا۔ دوسری طرف اسلامی عبادات کے نتیجے میں تقویٰ اور خدا خوفی کا سیل رواں تھا۔ دونوں کے باہم تعاون اور ہم آہنگی کے نتیجے میں ہم آہنگ اور پاک وصاف قانون اور شریعت موجود تھی ۔ ایک طرف شریعت و قانون اور ظاہری انتقام میں ایک پاک صالح تصور زندگی اور نظام زندگی نے جنم لیا ، جس میں لوگوں کا طرز عمل پاک طرز فکر صالح تھی ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اس نظم نے ملک سے پہلے ہر شخص کے دل میں ایک منصف بٹھادیا تھا اور ایک عدالت قائم کردی تھی ۔ حالت یہ تھی کہ اگر کسی وقت کسی پر حیوانیت غالب ہی آگئی اور غلطی کا صدور ہوگیا اور یہ شخص قانون کی گرفت سے بچ بھی گیا تو بھی اس کا ایمان اس کے لئے نفس لوامہ بن گیا۔ اس نے اپنے ضمیر میں خلش اور چبھن محسوس کی ۔ دل میں ہر وقت خوفاک خیالات کا ہجوم برپا ہوگیا۔ اور گناہ کرنے والے کو تب آرام نصیب ہوا کہ جب اس نے قانون کے سامنے رضاکارانہ اعتراف جرم کرلیا اور اپنے آپ کو سخت سزا کے لئے پیش کردیا اور خوشی اور اطمینان کے ساتھ اس سزا کو برداشت کیا ، محض اللہ کے غضب سے بچنے کی خاطر۔ یہ ہے تقویٰ ، یہ ہے خدا خوفی۔ اب موت کے وقت وصیت کے مسائل کا بیان ہوتا ہے ۔ آیات قصاص کی فضا اور ان آیات کی فضا (یعنی موت اور زندگی کا اختتام ) کے درمیان مناسبت بالکل ظاہر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قانون قصاص میں بڑی زندگی ہے : قصاص کا قانون جاری کرنے اور اس کو عملاً نافذ کرنے میں بہت بڑی زندگی ہے۔ اس مضمون کو (وَ لَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ) میں بیان فرمایا ہے قصاص میں بظاہر قاتل کی موت ہے لیکن اسے امت کے حق میں بڑی حیات فرمایا کیونکہ جب قصاص کا قانون نافذ ہوگا تو قاتل بھی قتل کرنے سے بچے گا اور ہر شخص کے کنبہ اور قبیلے کے لوگ اس بات کے فکر مند رہیں گے کہ ہمارے کسی فرد سے کوئی شخص قتل نہ ہوجائے۔ مفسر ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ائمہ اربعہ اور جمہور کا مذہب یہ ہے کہ اگر ایک شخص کو چند آدمی مل کر قتل کردیں تو ان سب کو اس ایک مقتول کے عوض قتل کیا جائے گا۔ (ص ٢١٠ ج ١) حضرت سعید بن المسیب (رض) نے بیان فرمایا کہ پانچ یا سات آدمیوں نے کسی ایک شخص کو تنہائی میں پوشیدہ طور پر قتل کردیا تھا تو حضرت عمر (رض) نے ان پانچوں یا ساتوں کو ایک شخص کے قصاص میں قتل کردیا اور فرمایا کہ اگر شہر صنعا کے سارے آدمی مل کر بھی شخص واحد کو قتل کرتے تو میں ان سب کو قتل کردیتا۔ (رواہ مالک وروی البخاری عن ابن عمر نحوہ کمافی المشکوٰۃ ص ٣٠٢) قصاص عین عدل ہے، اس کو ظلم کہنا ظلم ہے : قصاص کا قانون نافذ ہونے سے اور اس پر عمل کرنے سے بہت ہی جانیں بچتی ہیں اور لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے سے باز رہتے ہیں اس لیے قصاص کو بڑی حیات کا ذریعہ بتایا۔ بہت سے جاہل قصاص کے قانون کو ظلم سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ لوگ ظلم کا معنی بھی نہیں جانتے، ظلم کرنے والاتو قاتل ہے جس نے ناحق قصداً و عمداً کسی کو قتل کیا۔ قتل کے بدلہ میں قاتل کو قتل کردینا عین انصاف ہے اس کو ظلم سے تعبیر کردینا جہالت اور حماقت ہے۔ یہ جاہل کہتے ہیں کہ قاتل کو قتل نہ کیا جائے بلکہ جیل میں ڈال دیا جائے اور یہ نہیں سمجھتے کہ اس سے تو اور زیادہ قتل پر جرات ہوجاتی ہے۔ آدمی سمجھتا ہے کہ قتل تو کر دوں، تھوڑی بہت جیل بھگت لوں گا۔ جن کا مزاج قتل اور غارت گری اور ڈکیتی اور فتنہ فساد کا ہے وہ جیل سے بالکل نہیں ڈرتے۔ جیل کی دیواریں پھاند کر اور کھڑکیاں توڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ جن لوگوں کے نزدیک انسانوں کی جانوں کی قیمت نہیں ہے وہ لوگ قصاص کو اچھا نہیں سمجھتے۔ انہیں قاتل پر رحم آتا ہے۔ عامۃ الناس کی جانوں پر رحم نہیں آتا۔ سنن ابو داؤد میں ہے کہ جس نے قصداً قتل کیا تو اس میں قصاص ہے اور جو شخص قصاص نافذ کرنے کے بارے میں آڑے آجائے تو اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی لعنت ہے اور سب انسانوں کی لعنت ہے۔ (آخر حدیث من کتاب الدیات) قصاص یادیت معاف کرنا سربراہ مملکت کے اختیار میں نہیں ہے دنیا میں ایک یہ جاہلانہ قانون نافذ ہے کہ ملک کا سربراہ قاتل کی درخواست پر اپنے ذاتی و جماعتی فوائد کو سامنے رکھ کر قاتل کو معاف کردیتا ہے۔ یہ شریعت اسلامیہ کے بالکل خلاف ہے۔ مقتول کے وارثوں کو حق ہے کہ معاف کریں یا قصاص لیں یا دیت لیں، کسی امیر یا وزیر یا صدر یا بادشاہ کو معافی دینے کا اور وارثوں کا حق باطل کرنے کا بالکل اختیار نہیں ہے جو بھی کوئی سربراہ ایسا کرے گا وہ قانون قرآن کا باغی ہوگا۔ اور اس کی سزا کا مستحق ہوگا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

334 قصاص اگرچہ بظاہر بہت دشوار اور برا معلوم ہوتا ہے مگر عقلمند اور صاحب ہوش لوگ اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ قصاص تو زندگی کا باعث ہے کیونکہ قصا ص کے خوف سے قاتل قتل سے رک جائے گا اور اس طرح قاتل اور مقتول کی جان بچ جائے گی۔ اسی طرح قتل سے قاتل اور مقتول کے قبیلوں میں عداوت اور انتقام جس آگ کے بھڑکنے کا اندیشہ ہے وہ بھی نہیں بھڑکے گی۔ اور اس طرح دونوں خاندان قتل و خونریزی سے بچ کر آرام اور چین کی زندگی بسر کریں گے۔ اس لیے ارشاد فرمایا۔ اے دانش ورو ! قصاص بری چیز نہیں بلکہ یہ تو تمہاری جانوں کی حفاظت کی ضمانت اور تمہاری زندگی کا بیمہ ہے۔ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ۔ قصاص سے ایک طرف تو تم دنیا میں قتل اور خون خرابہ سے بچ جاو ٓ گے اور دوسری طرف آخرت میں قتل اور فساد فی الارض کے عذاب سے بچ جاؤگے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اے ایمان والو ! ان مقتولین کے بارے میں جو عمدا، قتل کئے جائیں تو تم پر قصاص فرض کیا جاتا ہے آزاد آدمی قتل کیا جائے آزاد آدمی کے بدلے میں اور غلام قتل کیا جائے ۔ غلام کے بدلے میں اور عورت قتل کی جائے۔ عورض کے عو ض میں مگر ہاں جس قاتل کے لئے اس کے بھائی طالب قصاص کی جانب سے کچھ معاف کردیاجائے اور اولیائے مقتول میں سے کوئی شخص اپنا قصاص کا حق قاتل کو معاف کردے تو پھر فریقین کو اس بات کا خیال رکھناچاہئے کہ طالب دیت کو تو بھلائی اور معقول بات کی پیروی کرنا ہے اور قاتل کو خوش دلی اور خوبی کے ساتھ طالب دیت کو خوں بہا ادا کردینا اور پہونچا دینا ہے یہ حکم دیت و عفو تمہارے پروردگار کی جانب سے تخفیف و ترحم و مہربانی ہے پھر اس قانونی تخفیف کے بعد اگر کوئی شخص زیادتی اور تعدی کرے گا تو اسکو آخرت میں بڑا دردناک عذاب ہوگا اور اے صاحبان خرد و فہم اس قانون قصاص میں تمہاری زندگی اور تمہاری جانوں کا بچائو ہے ہم کو امید ہے کہ تم قانون کی خلاف ورزی اور ناحق خون ریزی سے پرہیز گرو گے۔ (تیسیر) قصاص کے معنی ہیں برابر اور مماثلت کے یعنی ایک انسان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو اس نے کیا ہے قتل کیا ہے تو قتل کیا جائے ہاتم کاٹا ہے تو ہاتھ کاٹاجائے کسی نے کسی کا پائوں کاٹا ہے تو پائوں کاٹا جائے وغیرہ وغیرہ۔ قتل جمع ہے قتیل بمعنی مقتول کی چونکہ یہاں قتل عمد کا قصاص بیان کیا گیا ہے اس لئے ہم نے تیسیر میں قتل عمد کی قید لگا دی ہے۔ قتل عمد اس کو کہتے ہیں جس میں قاتل قصداً کسی شخص کو کسی آہنی ہتھیار سے یا کسی ایسی چیز سے جس سے گوشت کٹ کر خون بہہ سکے قتل کردے اس آیت میں اس قسم کے قتل کا قصاص مذکور ہے رہا قتل خطا تو اس کا حکم پانچویں پارے میں انشاء اللہ تعالیٰ آجائے گا خواہ خطا کی یہ شکل ہو کہ کسی مسلمان کو کوئی کافر حربی سمجھ کر قتل کردیاجائے یا تیر کسی شکارپر چلایا اور وہ تیر کسی مسلمان کو لگ گیا اور وہ مرگیا یہ سب صورتیں وہیں ذکر کی جائیں گی۔ زمانہ جاہلیت میں قصاص کو ایک تماشا بنا رکھا تھا بڑے لوگوں پر قصا ص معاف تھا صرف تھوڑا سا روپیہ دے دلا کر مقتول کے وارثوں کو خاموش کردیا جاتا تھا ایک طرف تو یہ تھا کہ چھوٹے آدمیوں کی جان کی کوئی قیمت ہی نہ تھی دوسری طرف کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ مقتول کے وارث بجائے قاتل کے اسکے کسی عزیز کو قتل کر ڈالتے تھے اور کبھی ایسا ہوتا تھا کہ بجائے ایک شخص کے قاتل کے خاندان کے بہت سے آدمیوں کو قتل کرد یا جاتا تھا لیکن اسلام جو ایک منصفانہ شریعت لیکر آیا تھا اس نے ان تمام غلطیوں کی اصلاح کی جس میں دنیا مبتلا تھی اور قصاص کا مکمل قانون دنیا کے روبرو پیش کردیا چناچہ اس آیت کا نزول بھی ایسے موقعہ پر ہوا جبکہ دو قبیلوں میں باہمی نزاع تھا ایک قبیلے کے کئی خون دوسرے قبیلے کے ذمے چڑھ گئے تھے ۔ مقتولین کا قبیلہ قصاص کا طالب تھا قاتلوں کا قبیلہ چونکہ باعزت اور بڑے لوگوں کا قبیلہ تھا اس لئے وہ اپنی برتری کے باعث اس مساوات سے انکار کرتے تھے یا واقعہ اس طرح تھا کہ مقتولین کا قبیلہ بڑے لوگوں کا قبیلہ تھا وہ انتقام کے لئے یہ مطالبہ کرتا تھا کہ ہم اپنے غلام کے بدلے میں تمہارا آزاد آدمی قتل کریں گے اور لونڈی کے بدلے میں تمہاری آزاد عورت کو قتل کریں گے کیونکہ ہم قوت اور مال میں تم سے اونچے ہیں بہر حال ان لوگوں نے اپنا فیصلہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روبرو پیش کیا اس پر یہ قانون قصاص نازل کیا گیا۔ اس مختصر تمہید کے بعد اس آیت کے متعلق چند باتیں سمجھ لینی چاہئیں۔ (1) اسلامی قانون میں کسی مقتول کے قصاص کا حق اس کے ورثاء کا حق تسلیم کیا گیا ہے حکومت کو نافذ کرنے کا حق ہے لیکن اگر ورثاء مقتول کو معاف کردیں تو حکومت کو خود بدلہ لینے کا حق نہیں ہے اور انصاف بھی یہی ہے کہ کسی شخص کے مرنے کا اثر جس جماعت اور جس سوسائٹی پر پڑتا ہے اسکو ہی یہ حق ہوناچاہئے کہ چاہے وہ انتقام لے یا معاف کردے یا خون بہا لے لے۔ ہاں حکومت وہاں خود مدعی ہوسکتی ہے جہاں مقتول کا کوئی وارث نہ ہو اور مقتول کی جانب سے کوئی مدعی نہ ہو موجودہ تہذیب میں یہ دستور نہیں ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ کافر حکومتوں کا قانون اسلامی قانون کے خلاف ہے کیونکہ مروجہ قانون میں سرکار خود مدعی ہوتی ہے۔ (2) جب قانون اسلامی میں قصاص اولیائے مقتول کا حق ہے تو وہ معاف بھی کرسکتے ہیں یا بجائے قصاص کے خون بہا لے سکتے ہیں جس طرح وہ فیصلہ کرلیں حکومت کو فریقین کا فیصلہ تسلیم کرنا ہوگا۔ (3) دیت یا خون بہا کی مقدار اسلام نے سو اونٹ یا ایک ہزار دینار یا دس ہزار درم مقرر کئے ہیں اور درم کی مقدار آج کل انگریزی سے تقریباً ساڑھے چار آنے ہوتی ہے۔ جب کبھی اونٹوں پر یا دینار درم پر فریقین کی صلح ہو تو شریعت نے جو مقدار مقرر کی ہے وہی لینی ہوگی اس سے زیادہ لینے کا حق نہ ہوگا ہاں کم ہوجائے تو مضائقہ نہیں۔ مثلاً مدعی پچاس اونٹوں پر صلح کرلے اور اگر صلح کسی اور سامان اور اشیاء پر ہوجائے تو پھر گنجائش ہے چاہے وہ مال جس پر صلح ہوئی ہو وہ ہزار دینار سے زائد کا ہو تب بھی لے لینا جائز ہوگا بلکہ صلح ہوجانے کے بعد اگر اولیائے مقتول چاہیں تو اس سامان کے بدلے میں نقد روپیہ لے لیں یہ بھی جائز ہے اور کسی سامان پر صلح ہوجانے کے بعد نقد روپے کی مقدار اگر شرعی مقررہ مقدار سے بڑھ جائے تب بھی لے لیناجائز ہے۔ مثلاً فریقین نے غلہ پر صلح کرلی ۔ صلح کے بعد یہ طے ہوا کہ بجائے غلہ کے اسکی قیمت دے دو اور وہ قیمت ہزار دینار یا دس ہزار درم سے زیادہ ہوئی تب بھی اس قیمت کا لیناجائز ہوگا۔ (4) خوں بہا قاتل کے مال میں سے لینا ہوگا اور کسی سے وصول نہیں کیا جائے گا اور وہ مال جو قاتل سے لیاجائے گا وہ مقتول کے وارثوں پر ورثہ کی طرح تقسیم کیا جائے گا اور ہر ایک کو حصہ رسدیدیاجائیگا۔ (5) مقتول کے ورثہ میں سے اگر ایک شخص بھی اپنے قصاص کا حق معاف کردے گا تو سب کے قصاص کا حق ساقط ہوجائیگا کیونکہ قتل کی تقسیم نہیں ہوسکتی البتہ دیت میں ان کا حق باقی رہے گا۔ مثلاً ایک مقتول کے چار لڑکے ہوں ایک اس میں سے قصاص کو معاف کردے تو باقی تین کا حق بھی ساقط ہوجائیگا اور وہ مجرم کے قتل کا مطالبہ نہیں کرسکیں گے ہاں خوں بہا میں ان کا حق باقی رہے گا اور وہ تینوں بیٹے اپنے حصے کا خوں بہا وصول کرلیں گے۔ (6) چونکہ قتل کے مقدمہ میں سب مسلمانوں پر ذمہ داری ہوتی ہے کوئی مدعی بنتا ہے کوئی گواہی دیتا ہے کوئی ملزم کو گرفتار کرکے پیش کرتا ہے کوئی حکم کی تنقید کرتا ہے کبھی قاتل خود پیش ہوکر اقرار کرلیتا ہے۔ لہٰذایا ایھا الذن امنوا میں خطاب بھی بنام ہے بعض لوگوں نے حکام کو مخاطب بنایا ہے بعض نے اولیائے مقتول کو اور بعض نے قاتل کے حمایتوں کو۔ اگرچہ سب احتمال صحیح ہیں لیکن عموم بہتر ہے یہ اس لئے کہ قانون کا فائدہ ہر مسلمان کو پہنچتا ہے۔ (7) اس آیت میں تو نہ حصر ہے کہ یوں کہاجائے بس قصاص یا تو آزاد آدمیوں کے درمیان جاری ہوگا یا دو غلاموں کے درمیان جاری ہوگا یا دو عورتوں کے درمیان جاری ہوگا اور ان صورتوں کے علاوہ اور کسی صورت میں قصاص نہیں ہوگا بلکہ آیت کا منشا صرف اس مساوات کا ظاہر کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان میں رکھی ہے اگر کوئی آزاد آدمی اپنے علاوہ کسی دوسرے کے غلام کو قتل کردے گا یا کوئی مرد کسی عورت کو قتل کردے گا یا کوئی عورت کسی مرد کو قتل کردے گی تب بھی قاتل پر قصاص جاری ہوگا اور کوئی بڑا کسی چھوٹے آدمی کو قتل کردے تو اس پر بھی قصاص جاری ہوگا یا اگر چند آدمی مل کر ایک مسلمان کو قتل کردیں تو ان سب پر قصاص جاری ہوگا۔ انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ قصاص میں کوئی امتیاز نہ برتا جائے البتہ وہ صورتیں مستثنا ہوں گی جن کو شریعت نے خود مستثنا کردیا ہو۔ مثلاً باپ یا ماں اپنے بیٹے کو قتل کردے یا کوئی اپنی لونڈی اور غلام کو قتل کردے تو اس قسم کے قتل کا حکم علیحدہ ہے جو قانون کی کتابوں میں مفصل مذکور ہے بلکہ یہ آیت تو اپنے مفہوم میں اتنی وسیع ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کافر کو بھی قتل کردے گا تو اس مسلمان پر بھی قصاص جاری ہوگا اور احناف کا یہی مسلک ہے۔ جس طرح اس آیت میں بنی نوع انسان کی مساوات کا اعلان ہے اس سے یہ مطلب نہ سمجھا جائے کہ طریقہ قتل میں بھی مساوات برتی جائے اور جس طرح قاتل نے مقتول کو قتل کیا ہے بعینہ اسی طرح قاتل کو بھی قتل کیا جائے کیونکہ یہ صورت سب جگہ اختیار نہیں کی جاسکتی اس لئے اگر کیفیت قتل میں کوئی امکانی شکل سعادت کی حاصل ہوسکتی ہو تو امام کو اختیار ہے کہ وہ اولیائے مقتول کی دل جوئی کے لئے قاتل کو اسی طرح قتل کرائے جس طرح اس نے قتل کیا تھا۔ جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک یہودی کو سزا دی تھی جس نے ایک لڑکی کا زیور اتارنے کی غرض سے اس کا سر پتھر سے کچل دیا تھا اور آپ نے بھی اس یہودی کا سر پتھر سے کچلوایا تھا لیکن کیفیت قتل میں چونکہ سب جگہ مساوات ناممکن ہے اس لئے قاتل کو تلوار سے قتل کردینا کافی ہے۔ اور یہی مذہب ہے امام احمد اور امام ابوحنیفہ کا اور حدیث میں بھی ہے لا فود الا بالسیف (7) اور یہ جو فرمایا کہ قاتل کو اس کے بھائی کی جانب سے کچھ معاف کردیا جائے۔ طالب قصاص یا فریق مقدمہ کو بھائی فرمایا یہ اس لئے تاکہ رحم اور مہربانی کا برتائو کیا جائے۔ نیز اس لئے کہ مسلمان کا قاتل اسلام سے خارج نہیں ہوجاتا بلکہ دینی بھائی رہتا ہے ۔ شئی کا ترجمہ ہم نے کچھ کیا ہے اس لئے کہ ورثاء مقتول میں سے کوئی ایک وارث بھی ہو خواہ وہ چھٹے حصے کا وارث ہو یا آٹھویں حصہ کا وارث ہو اپناحق معاف کردے گا تو قاتل کو قتل نہیں کیا جائیگا۔ اب اس کے بعد وارث مقتول کو تو معقول اور بھلے طریق پر مال کا مطالبہ کرنا چاہئے یعنی سختی اور تنگی کا برتائو نہیں کرنا چاہئے اور قاتل کو خوش اسلوبی اور حسن سلوک کے ساتھ خون بہا ادا کردیناچاہئے خواہ مخواہ مقتول کے وارث کو ٹلانا اور پریشان نہیں کرنا چاہئے یہ قصاص کے قانون میں دیت اور عفو کی دفعہ بڑھانا تمہارے پروردگار کی جانب سے رحمت اور تمہارے لئے آسانی اور سزا میں تخفیف ہے۔ ورنہ قاتل کو صرف سزائے قتل ہی دی جایا کرتی۔ زیادتی کا مطلب یہ ہے کہ قاتل سے خوں بہا بھی وصول کرلیا اور پھر اسے قتل بھی کرڈالا معاف کرکے پھر قتل کی پیروی کرنے لگے یا کسی قتل کا جھوٹا دعویٰ کردے یا کسی غیر قاتل کو قتل کردے۔ غرض اعتدی ہر ایک صورت کو شامل ہے اور یہ جو فرمایا کہ قصاص میں تمہاری زندگی ہے یہ اس لئے کہ اس قانون کی وجہ سے لوگ قتل کا ارتکاب کرنے سے ڈریں گے نیز یہ کہ ایک قتل کی وجہ سے باقاعدہ قتال شروع ہوجاتا ہے اور ایک آدمی کے قتل کی وجہ سے بہت سے قتل ہوجاتے ہیں اور قانون قصاص نہ ہونے کی وجہ سے آپس میں تلخیاں اور بد مزگیاں بڑھ جاتی ہیں یہ سب باتیں اس قانون سے دور ہوجائیں گی اور تمہاری جانیں بچ جائیں گی۔ ہم نے اپنے ترجمہ اور تیسیر کی رعایت سے تفسیر کی ہے اور بہت سے احتمالات کو ترک کردیا ہے اور ائمہ مجتہدین کے اختلافات سے بھی بحث نہیں کی ہے کیونکہ ہماری تفسیر میں اس قدر گنجائش نہیں ہے ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) الدر پر فرماتے ہیں صاحب کے بدلے صاحب اور غلام کے بدلے غلام اسی طرح عورت یعنی ہر صاحب دوسرے صاحب کے برابر ہے۔ ہر غلام دوسرے غلام کے برابر ہے اشراف اور کم ذات کا فرق نہیں دولت مند اور فقیر کا فرق نہیں جیسے کفر میں معمول ہی ہو رہا تھا۔ فائدہ : جس کو معاف ہوا یعنی مقتول کے وارث اگر قصاص معاف کرکے مال پر راضی ہوں تو قاتل کو چاہئے کہ ان کو راضی کرے اور منت اٹھا کر خوں بہا پہنچادے۔ فائدہ : یہ آسانی ہو یعنی اگلی امت پر قصاص ہی مقرر تھا اس امت پر معاف کرنا اور مال پر صلح کرنی بھی ٹھہری۔ فائدہ : پھر بھی جو کوئی زیادتی کرے یعنی صلح کرکے مبلغ خوں بہا لے کر پھر مارنے کا قصد کرے۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) تتقون پر فرماتے ہیں یعنی حاکموں کو چاہئے کہ قصاص دلانے میں قصور نہ کریں تا آئندہ خون بند ہو۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) نے جو کچھ فرمایا ہے وہ تقریباً تسہیل میں آچکا ہے اس لئے اس پر کچھ مزید کہنے کی ضرورت نہیں قتل کا بیان قرآن میں کئی جگہ آئے گا مزید کچھ عرض کرنے کی ضررت ہوگی تو وہاں عرض کردیاجائے گا۔ بعض اپنے اکابر نے اتباع بالمعروف کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ مدعی کو طریقہ شرعی کی پیروی کرنی چاہئے اور کوئی ایسا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے جو غیر مشروع ہو مثلاً یوں کہہ دے کہ میں تو جب قصاص سے دست بردار ہوتا ہوں جب قاتل مجھے شراب پلائے یا اپنی لڑکی مجھے دے دے یا اور کسی غیر شرعی چیز کو معانی کی شرط ٹھہرائے بہر حال یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ( تسہیل )