Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 183

سورة البقرة

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۸۳﴾ۙ

O you who have believed, decreed upon you is fasting as it was decreed upon those before you that you may become righteous -

اے ایمان والو !تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Order to Fast Allah said: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ O you who believe! Fasting is prescribed for you as it was prescribed for those before you, that you may have Taqwa. In an address to the believers of this Ummah, Allah ordered them to fast, that is, to abstain from food, drink and sexual activity with the intention of doing so sincerely for Allah the Exalted alone. This is because fasting purifies the souls and cleanses them from the evil that might mix with them and their ill behavior. Allah mentioned that He has ordained fasting for Muslims just as He ordained it for those before them, they being an example for them in that, so they should vigorously perform this obligation more obediently than the previous nations. Similarly, Allah said: لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَـجاً وَلَوْ شَأءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَحِدَةً وَلَـكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِى مَأ ءَاتَـكُم فَاسْتَبِقُوا الخَيْرَاتِ To each among you, We have prescribed a law and a clear way. If Allah had willed, He would have made you one nation, but that (He) may test you in what He has given you; so compete in good deeds. (5:48) Allah said in this Ayah: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ O you who believe! Fasting is prescribed for you as it was prescribed for those before you, that you may have Taqwa. since the fast cleanses the body and narrows the paths of Shaytan. In the Sahihayn the following Hadith was recorded: يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيتَـزَوَّجْ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِع فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاء O young people! Whoever amongst you can afford marriage, let him marry. Whoever cannot afford it, let him fast, for it will be a shield for him. Allah then commands;

روداد روزہ اور صلوۃ اللہ تعالیٰ اس امت کے ایمان داروں کو مخاطب کر کے انہیں حکم دے رہا ہے کہ روزے رکھو روزے کے معنی اللہ تعالیٰ کے فرمان کی بجا آوری کی خالص نیت کے ساتھ کھانے پینے اور جماع سے رک جانے کے ہیں اس سے فائدہ یہ ہے کہ نفس انسان پاک صاف اور طیب و طاہر ہو جاتا ہے ردی اخلاط اور بےہودہ اخلاق سے انسان کا تنقیہ ہو جاتا ہے ، اس حکم کے ساتھ ہی فرمایا گیا ہے کہ اس حکم کے ساتھ تم تنہا نہیں بلکہ تم سے اگلوں کو بھی روزے رکھنے کا حکم تھا ، اس بیان سے یہ بھی مقصد ہے کہ یہ امت اس فریضہ کی بجاآوری میں اگلی امتوں سے پیچھے نہ رہ جائے جیسے اور جگہ ہے آیت ( لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا ) 5 ۔ المائدہ:48 ) یعنی ہر ایک کے لئے ایک طریقہ اور راستہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت کر دیتا لیکن وہ تمہیں آزما رہا ہے تمہیں چاہئے کہ نیکیوں میں سبقت کرتے رہو ، یہی یہاں بھی فرمایا کہ تم پر بھی روزے اسی طرح فرض ہیں جس طرح تم سے پہلے گزرنے والوں پر تھے ، روزے سے بدن کو پاکیزگی ملتی ہے اور عمل شیطانی راہ پر چلنے سے رک جاتا ہے ، بخاری ومسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اے جوانو تم میں سے جسے نکاح کی طاقت ہو وہ نکاح کرلے اور جسے طاقت نہ ہو وہ روزے رکھے اس کے لئے یہ جوش کو سرد کر دیتے ہیں پھر روزوں کی مقدار بیان ہو رہی ہے کہ یہ چند دن ہی ہیں تاکہ کسی پر بھاری نہ پڑے اور ادائیگی سے قاصر نہ رہ جائے بلکہ ذوق وشوق سے اس الٰہی فریضہ کو بجا لائے ، پہلے تو ہر ماہ میں تین روزوں کا حکم تھا پھر رمضان کے روزوں کا حکم ہوا اور اگلا حکم منسوخ ہوا اس کا مفصل بیان آ رہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ عطاء قتادہ ضحاک کا فرمان ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے سے ہر مہینہ میں تین روزوں کا حکم تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے بدلا اور ان پر اس مبارک مہینہ کے روزے فرض ہوئے ۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ اگلی امتوں پر بھی ایک مہینہ کامل کے روزے فرض تھے ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ رمضان کے روزے تم سے پہلے کی امتوں پر بھی فرض تھے ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پہلی امتوں کو یہ حکم تھا کہ جب وہ عشاء کی نماز ادا کرلیں اور سو جائیں تو ان پر کھانا پینا عورتوں سے مباشرت کرنا حرام ہو جاتا ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگلے لوگوں سے مراد اہل کتاب ہیں ۔ پھر بیان ہو رہا ہے کہ تم میں سے جو شخص ماہ رمضان میں بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اس حالت میں روزے چھوڑ دے مشقت نہ اٹھائے اور اس کے بعد اور دنوں میں جبکہ یہ عذر ہٹ جائیں قضا کر لیں ، ہاں ابتداء اسلام میں جو شخص تندرست ہو اور مسافر بھی نہ ہو اسے بھی اختیار تھا خواہ روزہ رکھے خواہ نہ رکھے مگر فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے اگر ایک سے زیادہ کو کھلائے تو افضل تھا گو روزہ رکھنا فدیہ دینے سے زیادہ بہتر تھا ، ابن مسعود ابن عباس مجاہد طاؤس مقاتل وغیرہ یہی فرماتے ہیں مسند احمد میں ہے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نماز کی اور روزے کی تین حالتیں بدلی گئیں پہلے تو سولہ سترہ مہینہ تک مدینہ میں آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس کی طرف نماز ادا کی پھر قدنری والی آیت آئی اور مکہ شریف کی طرف آپ نے منہ پھیرا ۔ دوسری تبدیلی یہ ہوئی کہ نماز کے لئے ایک دوسرے کو پکارتا تھا اور جمع ہو جاتے تھے لیکن اس سے آخر عاجز آگئے پھر ایک انصاری حضرت عبداللہ بن زید حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے خواب میں دیکھا لیکن وہ خواب گویا بیداری کی سی حالت میں تھا کہ ایک شخص سبز رنگ کا حلہ پہنے ہوئے ہے اور قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر کہہ رہا ہے آیت اللہ اکبر اللہ اکبرا شھدان لا الہ الا اللہ دوبارہ یونہی اذان پوری کی پھر تھوڑی دیر کے بعد اس نے تکبیر کہی جس میں آیت قدقامت الصلوۃ بھی دو مرتبہ کہا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو یہ سکھاؤ وہ اذان کہیں گے چنانچہ سب سے پہلے حضرت بلال نے اذان کہی دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے بھی آ کر اپنا یہی خواب بیان کیا تھا ۔ لیکن ان سے پہلے حضرت زید آچکے تھے ۔ تیسری تبدیلی یہ ہوئی کہ پہلے یہ دستور تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے ہیں کوئی آیا کچھ رکعتیں ہو چکی ہیں تو وہ کسی سے دریافت کرتا کہ کتنی رکعتیں ہو چکی ہیں وہ جواب دیتا کہ اتنی رکعتیں پڑھ لی ہیں وہ اتنی رکعتیں ادا کرتا پھر حضور کے ساتھ مل جاتا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ آئے اور کہنے لگے کہ میں حضور کو جس حال میں پاؤں گا اسی میں مل جاؤں گا اور جو نماز چھوٹ گئی ہے اسے حضور کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کروں گا چنانچہ انہوں نے یہی کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی رہی ہوئی رکعتیں ادا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر فرمایا معاذ نے تمہارے لئے یہ اچھا طریقہ نکالا ہے تم بھی اب یونہی کیا کرو ، یہ تین تبدیلیاں تو نماز کی ہوئیں ، روزوں کی تبدیلیاں سنئے اول جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آئے تو ہر مہینہ میں تین روزے رکھتے تھے اور عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:183 ) نازل فرما کر رمضان کے روزے فرض کئے ۔ دوسرا ابتدائی یہ حکم تھا کہ جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے اور فدیہ دے دے پھر یہ آیت ( فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ) 2 ۔ البقرۃ:185 ) تم میں سے جو شخص رمضان کے مہینے میں قیام کی حالت میں ہو وہ روزہ رکھا کرے پس جو شخص مقیم ہو مسافر نہ ہو تندرست ہو بیمار نہ ہو اس پر روزہ رکھنا ضروری ہو گیا ہاں بیمار اور مسافر کے لئے رخصت ملی اور ایسا بوڑھا انتہائی جو روزے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو اسے بھی رخصت دی گئی ۔ تیسری حالت یہ ہے کہ ابتداء میں کھانا پینا عورتوں کے پاس آنا سونے سے پہلے پہلے جائز تھا سو گیا تو پھر گو رات کو ہی جاگے لیکن کھانا پینا اور جماع اس کے لئے منع تھا پھر صرمہ نامی ایک انصاری صحابی دن بھر کام کاج کر کے رات کو تھکے ہارے گھر آئے عشاء کی نماز ادا کی اور نیند آگئی دوسرے دن کچھ کھائے پئے بغیر روزہ رکھا لیکن حالت بہت نازک ہوگئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کیا بات؟ تو انہوں نے سارا واقعہ کہہ دیا ، ادھر یہ واقعہ تو ان کے ساتھ ہوا ادھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سو جانے کے بعد اپنی بیوی صاحبہ سے مجامعت کر لی اور حضور کے پاس آکر حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے اس قصور کا اقرار کیا جس پر آیت ( اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَاۗىِٕكُمْ ) 2 ۔ البقرۃ:187 ) سے ( ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيْلِ ۚ وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ ۙ فِي الْمَسٰجِدِ ) 2 ۔ البقرۃ:187 ) تک نازل ہوئی اور مغرب کے بعد سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے تک رمضان کی راتوں میں کھانے پینے اور مجامعت کرنے کی رخصت دے دی گئی ، بخاری مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا جب رمضان کی فرضیت نازل ہوئی تو اب ضروری نہ رہا جو چاہتا رکھ لیتا جو نہ چاہتا نہ رکھتا ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی یہ مروی ہے ۔ آیت ( وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ ) 2 ۔ البقرۃ:184 ) کا مطلب حضرت معاذ بیان فرماتے ہی کہ ابتداء اسلام میں جو چاہتا روزہ رکھتا جو چاہتا نہ رکھتا اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا ۔ حضرت سلمہ بن اکوع سے بھی صحیح بخاری میں ایک روایت آئی ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے وقت جو شخص چاہتا افطار کرتا اور فدیہ دے دیتا یہاں تک کہ اس کے بعد کی آیت اتری اور یہ منسوخ ہوئی ، حضرت ابن عمر بھی اسے منسوخ کہتے ہیں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہ منسوخ نہیں مراد اس سے بوڑھا مرد اور بڑھیا عورت ہے جسے روزے کی طاقت نہ ہو ، ابن ابی لیلیٰ ، کہتے ہیں عطار رحمۃ اللہ علیہ کے پاس رمضان میں گیا دیکھا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں مجھے دیکھ کر فرمانے لگے کہ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ اس آیت نے پہلی آیت کا حکم منسوخ کر دیا ، اب یہ حکم صرف بہت زیادہ بےطاقت بوڑھے بڑے کے لئے ہے ، حاصل کلام یہ ہے کہ جو شخص مقیم ہو اور تندرست ہو اس کے لئے یہ حکم نہیں بلکہ اسے روزہ ہی رکھنا ہو گا ہاں ایسے بوڑھے ، بڑے معمر اور کمزور آدمی جنہیں روزے کی طاقت ہی نہ ہو روزہ نہ رکھیں اور نہ ان پر قضا ضروری ہے لیکن اگر وہ مالدار ہوں تو آیا انہیں کفارہ بھی دینا پڑے گا یا نہیں ہمیں اختلاف ہے امام شافعی کا ایک قول تو یہ ہے کہ چونکہ اس میں روزے کی طاقت نہیں لہذا یہ بھی مثل بچے کے ہے نہ اس پر کفارہ ہے نہ اس پر قضا کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ، دوسرا قول حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ ہے کہ اس کے ذمہ کفارہ ہے ، اکثر علماء کرام کا بھی یہی فیصلہ ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ کی تفسیروں سے بھی یہی ثابت ہوا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا پسندیدہ مسئلہ بھی یہی ہے وہ فرماتے ہیں کہ بہت بڑی عمر والا بوڑھا جسے روزے کی طاقت نہ ہو تو فدیہ دے دے جیسے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنی بڑی عمر میں بڑھاپے کے آخری دنوں میں سال دو سال تک روزہ نہ رکھا اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو روٹی گوشت کھلا دیا کرے ، مسند ابو لیلیٰ میں ہے کہ جب حضرت انس رضی اللہ عنہ روزہ رکھنے سے عاجز ہو گئے تو گوشت روٹی تیار کر کے تیس مسکینوں کو بلا کر کھلا دیا کرتے ، اسی طرح حمل والی اور دودھ پلانے والی عورت کے بارے میں جب انہیں اپنی جان کا یا اپنے بچے کی جان کا خوف ہو علماء میں سخت اختلاف ہے ، بعض تو کہتے ہیں کہ وہ روزہ نہ رکھیں فدیہ دے دیں اور جب خوف ہٹ جائے قضا بھی کرلیں بعض کہتے ہیں صرف فدیہ ہے قضا نہ کریں ، بعض کہتے ہیں قضا کرلیں فدیہ نہیں اور بعض کا قول ہے کہ نہ روزہ رکھیں نہ فدیہ نہ قضا کریں امام ابن کثیر نے اس مسئلہ کو اپنی کتاب الصیام میں تفصیل کے ساتھ لکھاہے فلحمد للہ ( بظاہر یہی بات دلائل سے زیادہ قریب نظر آتی ہے کہ یہ دونوں ایسی حالت میں روزہ رکھیں اور بعد میں قضا کریں ۔ نہ فدیہ دیں ۔ )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

183۔ 1 صیامُ ، صومُ (روزہ) کا مصدر ہے جس کے شرعی معنی ہیں صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور بیوی سے ہم بستری کرنے سے اللہ کی رضا کے لئے رکے رہنا یہ عبادت چونکہ نفس کی طہارت اور تزکیہ کے لئے بہت اہم ہے اس لئے اسے تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیا گیا تھا۔ اس کا سب سے بڑا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ اور تقویٰ انسان کے اخلاق و کردار کے سنوارنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢٢٩] روزہ کا حکم حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر تمام انبیاء کی شریعت میں جاری رہا ہے۔ صرف تعیین ایام میں اختلاف رہا ہے اور یہ دین اسلام کا ایک اہم رکن ہے اور اہم رکن ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے نفس سرکش کی اصلاح ہو اور شریعت کے جو احکام بھاری معلوم ہوتے ہیں ان کی ادائیگی سہل ہوجائے۔ روزہ میں صرف کھانے پینے کی اشیاء کو ترک کرنے کی مشق نہیں کرائی گئی بلکہ لڑائی جھگڑے اور بری باتوں سے بچنے کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : روزہ (برائی کے لیے) ڈھال ہے۔ لہذا جس کا روزہ ہو وہ نہ بےحیائی کی بات کرے اور نہ شور شرابا کرے اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ جہالت کی کوئی بات نہ کرے اور اگر کوئی اسے گالی دے یا اس سے لڑے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ (بخاری، کتاب الصوم، باب فضل الصوم) نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جس شخص نے روزہ میں غلط گوئی یا غلط کاری نہ چھوڑی تو اللہ تعالیٰ کو اس کا کھانا پینا چھڑانے کی کوئی ضرورت نہیں (بخاری، کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ فی الصوم) اور یہی باتیں انسان میں تقویٰ پیدا کرتی ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ….) روزہ ان پانچ فرائض میں داخل ہے جن پر اسلام کی بنیاد ہے۔ [ بخاری، الإیمان، باب دعاؤکم إیمانکم : ٨ ] الصِّيَامُ یہ مصدر ہے، یہ ” صَوْمٌ“ کی جمع نہیں، بلکہ ” صَوْمٌ“ بھی مصدر ہے، اصل میں یہ کسی بھی کام سے رک جانے کو کہتے ہیں، کھانا پینا ہو یا کلام ہو یا چلنا پھرنا، اسی لیے گھوڑا چلنے سے یا چارا کھانے سے رکا ہوا ہو تو اسے ” فَرَسٌ صَاءِمٌ“ کہتے ہیں، رکی ہوئی ہوا کو بھی ” صَوْمٌ“ کہتے ہیں۔ (راغب) شریعت میں روزہ کی نیت سے صبح صادق سے سورج غروب ہونے تک کھانے پینے اور جماع سے رکے رہنے کا نام صوم ہے۔ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ) یہ روزے کی حکمت بیان فرمائی ہے کہ اسلامی روزے کا مقصد نفس کو عذاب دینا نہیں بلکہ دل میں تقویٰ یعنی بچنے کی عادت پیدا کرنا ہے کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے صبح سے شام تک ان حلال چیزوں سے بچے گا تو وہ ان چیزوں سے جو ہمیشہ کے لیے حرام ہیں، ان سے روزہ کی حالت میں بدرجۂ اولیٰ بچے گا۔ اس طرح روزہ گناہوں سے بچنے کا اور بچنے کی عادت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلصِّیَامُ جُنَّۃٌ ) ” روزہ (گناہوں اور آگ سے) ڈھال ہے۔ “ [ بخاری، الصیام، باب فضل الصوم : ١٨٩٤ ] اور فرمایا : ” جو شخص جھوٹی بات اور اس پر عمل نہ چھوڑے اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ “ [ بخاری، الصیام، باب من لم یدع قول الزور : ١٩٠٣، عن أبی ہریرۃ (رض) ] روزہ رکھ کر نماز نہ پڑھنے والے، جھوٹ بولنے والے، دھوکا دینے والے، سارا دن ٹیوی پر کان اور آنکھ کے زنا میں مصروف رہنے والے، غرض کسی بھی نافرمانی کا ارتکاب کرنے والے سوچ لیں کہ انھیں روزہ رکھنے سے کیا ملا ؟ پہلے لوگوں سے مراد یہود و نصاریٰ اور پہلی امتیں ہیں۔ روزے کی یہ فرضیت ٢ ہجری میں نازل ہوئی اور روزے نے موجودہ شکل بتدریج اختیار کی۔ عائشہ صدیقہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ قریش (عاشورا) دس محرم کا روزہ رکھتے تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی رکھتے تھے، جب مدینہ میں آئے تو اس دن کا روزہ رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم دیا، پھر جب رمضان ( کے روزوں کا حکم) نازل ہوا تو رمضان (کے روزے ) فرض ہوگئے اور عاشورا ترک ہوگیا، پھر جو چاہتا اسے رکھتا اور جو چاہتا نہ رکھتا۔ [ بخاری، التفسیر، باب ( یأیہا الذین آمنوا کتب ۔۔ ) : ٤٥٠٤ ] (وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ ) صحیح سند کے ساتھ اس کی دو تفسیریں آئی ہیں۔ سلمہ بن اکوع (رض) فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری : (وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ ) تو جو چاہتا کہ روزہ نہ رکھے اور فدیہ دے دے تو ایسا کرلیتا، یہاں تک کہ وہ آیت اتری جو اس کے بعد ہے، تو اس آیت نے اسے منسوخ کردیا۔ [ بخاری، کتاب التفسیر، باب : ( فمن شہد منکم الشہر ) : ٤٥٠٧ ] ابن عمر (رض) نے بھی یہی فرمایا۔ [ بخاری، الصوم، باب : ( و علی الذین یطیقونہ ۔۔ ) : ١٩٤٩ ] یعنی چونکہ شروع میں لوگوں کو روزے کی عادت نہ تھی، اس لیے انھیں یہ رعایت دی گئی کہ جو چاہے روزہ رکھ لے جو چاہے نہ رکھے اور فدیہ دے دے، بعد میں دوسری آیت سے یہ رعایت منسوخ ہوگئی۔ اکثر علماء نے یہی تفسیر کی ہے۔ دوسری تفسیر صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس (رض) سے آئی ہے، انھوں نے ” يُطِيْقُوْنَهٗ “ کی جگہ ” یُطَوَّقُوْنَہُ “ پڑھا، جس کا معنی ہے : ” یَتَجَشَّمُوْنَہٗ “ یعنی اس سے تکلیف اٹھاتے ہیں۔ (ابن عاشور (رض) نے ” التحریر والتنویر “ میں فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس (رض) نے ” یُطَوَّقُوْنَہٗ “ کو بطور قراءت نہیں بلکہ ” يُطِيْقُوْنَهٗ “ کی تفسیر کے طور پر پڑھا ہے) ابن عباس (رض) فرماتے ہیں، یہ منسوخ نہیں بلکہ اس سے مراد وہ بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت ہیں جو روزہ نہیں رکھ سکتے، وہ ہر دن (یعنی ہر روزے) کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔ [ بخاری، التفسیر، باب : ( أیامًا معدودات ۔۔ ) : ٤٥٠٥ ] بخاری ہی میں مذکور ہے کہ انس (رض) نے بوڑھے ہونے کے بعد ایک یا دو سال ہر دن ایک مسکین کو گوشت کے ساتھ روٹی کھلا دی اور روزہ نہ رکھا۔ [ بخاری التفسیر، باب : ( أیاما معدودات ۔۔ ) ، قبل ح : ٤٥٠٥ ] يُطِيْقُوْنَهٗ اس کا معنی ” جو اس (روزے) کی طاقت رکھتے ہوں “ بھی ہوسکتا ہے اور ابن عباس (رض) نے جو معنی کیا ہے کہ ” طاقت نہ رکھتے ہوں “ وہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں باب افعال ازالۂ ماخذ کے لیے ہوگا، جیسے کہا جاتا ہے : ” شَکَا اِلَیَّ فَأَشْکَیْتُہُ “ اس نے میرے پاس شکایت کی تو میں نے اس کی شکایت دور کردی۔ دونوں کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ آیت روزے کی طاقت رکھنے والے کے حق میں منسوخ ہے اور طاقت نہ رکھنے والے بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کے حق میں منسوخ نہیں اور جس بیمار کے تندرست ہونے کی امید نہ ہو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ (فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا) یعنی ایک سے زیادہ مسکینوں کو کھلا دے۔ [ طبری عن ابن عباس (رض) بسند صحیح ] ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ ہر دن کی جگہ نصف صاع فدیہ دے دے۔ [ ابن ابی حاتم بسند حسن، التفسیر الصحیح ] ایک روزے کی جگہ ایک کلو اناج فدیہ دے دے یا ایک مسکین کو بلا کر کھانا کھلا دے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Literally, Sawm صوم means to abstain&. In the terminology of Islamic law, Sawm صوم means &to abstain from eating, drinking and sexual inter-course; with the conditions that one abstains continuously from dawn to sunset and that there is an intention to fast&. Therefore, should one eat or drink anything even a minute before sunset, the fast will not be valid. Similarly, if one abstained from all these things throughout the day but made no intention to fast, there will be no fast here too. Sawm or &fasting& is an ` ibadah, an act of worship in Islam, regarded as its pillar and sign. The merits of fasting are too numerous to be taken up at this point. Past communities and the injunction to fast The verse makes it obligatory for the Muslims to fast in a specified period, but the command in this respect has been accompanied by the statement that the obligation of fasting is not peculiar to them. The fasting had also been enjoined upon the earlier Ummahs (communities of the past prophets). The reference to the earlier Ummahs in the verse shows the importance of fasting on the one hand, and gives an encouragement to the Muslims on the other. It indicates that although there may be some inconvenience in fasting but the same inconven¬ience was also faced by the earlier communities. This brings a psycho-logical comfort to the Muslims, because if an inconvenience is faced by a large number of people, it becomes easier to bear. (Rub al-Ma` am) The words of the Qur&an, لَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ (those before you) have been used in a general sense including all religious communities from Sayyidna Adam (علیہ السلام) to the last of the Prophets (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . This tells us that, like Salah, fasting has also been enjoined upon every .Ummah of every prophet without an exception. Commentators who interpret مِن قَبْلِكُمْ (before you) to mean the Christians& take it just as an example, not aiming to exclude other communities. (Ruh al-Ma` ani) The verse simply says that fasts have been enjoined on Muslims as were enjoined on past communities. From this it does not necessarily follow that the fasts enjoined upon the earlier communities were fully identical in all respects with the fasts enjoined upon this Ummah. There may have been differences in the number and the timings of the fasts etc. and, actually, there has been such a difference. (Ruh al Ma’ ani) By saying لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (so that you be God-fearing), the text has pointed out to the inherent quality of fasting which contributes significantly to one&s ability to become abstaining from the sins and God-fearing. Fasting grows into man a power which helps him control his desires, which is really the foundation of Taqwa تقویٰ , the very special term of the Holy Qur&an which has been tentatively translated as fear of God, abstinence, and the warding of evil.

خلاصہ تفسیر : حکم سوم صوم : اے ایمان والو تم پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے (امتوں کے) لوگوں پر فرض کیا گیا تھا اس توقع پر کہ تم (روزہ کی بدولت رفتہ رفتہ) متقی بن جاؤ (کیونکہ روزہ رکھنے سے عادت پڑے گی نفس کو اس کے متعدد تقاضوں سے روکنے کی اور اسی عادت کی پختگی بنیاد ہے تقویٰ کی سو) تھوڑے دنوں روزہ رکھ لیا کرو (ان تھوڑے دنوں سے مراد رمضان ہے جیسا اگلی آیت میں آتا ہے) پھر (اس میں بھی اتنی آسانی ہے کہ) جو شخص تم میں (ایسا) بیمار ہو (جس کو روزہ رکھنا مشکل یا مضر ہو) یا (شرعی) سفر میں تو (اس کو رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اور بجائے رمضان کے) دوسرے ایام کا (اتنا ہی) شمار (کرکے ان میں روزہ) رکھنا (اس پر واجب ہے) اور (دوسری آسانی جو بعد میں منسوخ ہوگئی یہ ہے کہ) جو لوگ روزے کی طاقت رکھتے ہوں (اور پھر روزہ رکھنے کو دل نہ چاہے تو) ان کے ذمہ (صرف روزے کا) فدیہ (یعنی بدلہ) ہے کہ وہ ایک غریب کا کھانا (کھلا دینا یا دیدینا) ہے اور جو شخص خوشی سے (زیادہ) خیر (خیرات) کرے (کہ زیادہ فدیہ دیدے) تو یہ اس شخص کے لئے اور بہت رہے اور (گو ہم نے آسانی کے لئے ان حالتوں میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت دے دی ہے لیکن) تمہارا روزہ رکھنا (اس حالت میں بھی) زیادہ بہتر ہے اگر تم (کچھ روزے کی فضیلت کی) خبر رکھتے ہو، معارف و مسائل : صوم کے لفظی معنی امساک یعنی رکنے اور بچنے کے ہیں اور اصطلاح شرع میں کھانے پینے اور عورت سے مباشرت کرنے سے رکنے اور باز رہنے کا نام صوم ہے بشرطیہ وہ طلوع صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک مسلسل رکا رہے اور نیت روزہ کی بھی ہو اس لئے اگر غروب آفتاب سے ایک منٹ پہلے بھی کچھ کھا پی لیا تو روزہ نہیں ہوا اسی طرح اگر ان تمام چیزوں سے پرہیز تو پورے دن پوری احتیاط سے کیا مگر نیت روزہ کی نہیں کی تو بھی روزہ نہیں ہوا، صوم یعنی روزہ ان عبادات میں سے ہے جن کو اسلام کے عمود اور شعائر قرار دیا گیا ہے اس کے فضائل بیشمار ہیں جن کے تفصیلی بیان کا یہ موقع نہیں۔ پچھلی امتوں میں روزہ کا حکم : روزے کی فرضیت کا حکم مسلمانوں کو ایک خاص مثال سے دیا گیا ہے حکم کے ساتھ یہ بھی ذکر فرمایا کہ یہ روزے کی فرضیت کچھ تمہارے ساتھ خاص نہیں پچھلی امتوں پر بھی روزے فرض کئے گئے تھے اس سے روزے کی خاص اہمیت بھی معلوم ہوئی اور مسلمانوں کی دلجوئی کا بھی انتظام کیا گیا کہ روزہ اگرچہ مشقت کی چیز ہے مگر یہ مشقت تم سے پہلے بھی سب لوگ اٹھاتے آئے ہیں طبعی بات ہے کہ مشقت میں بہت سے لوگ مبتلا ہوں تو وہ ہلکی معلوم ہونے لگتی ہے (روح المعانی) قرآن کریم کے الفاظ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ عام ہیں حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام شریعتوں اور امتوں کو شامل ہیں اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح نماز کی عبادت سے کوئی شریعت اور کوئی امت خالی نہیں رہی اسی طرح روزہ بھی ہر شریعت میں فرض رہا ہے، جن حضرات نے فرمایا ہے کہ مِنْ قَبْلِكُمْ سے اس جگہ نصاریٰ مراد ہیں وہ بطور ایک مثال کے ہے اس سے دوسری امتوں کی نفی نہیں ہوتی (روح) آیت میں صرف اتنا بتلایا گیا ہے کہ روزے جس طرح مسلمانوں پر فرض کئے گئے پچھلی امتوں میں بھی فرض کئے گئے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ پچھلی امتوں کے روزے تمام حالات وصفات میں مسلمانوں ہی کے روزوں کے برابر ہوں مثلاً روزوں کی تعداد، روزوں کے اوقات کی تحدید اور یہ کہ کن ایام میں رکھے جائیں ان امور میں اختلاف ہوسکتا ہے چناچہ واقعہ بھی ایسا ہی ہوا کہ تعداد میں بھی کمی بیشی ہوتی رہی اور روزے کے ایام اور اوقات میں فرق ہوتا رہا ہے (ورح) لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ میں اشارہ ہے کہ تقویٰ کی قوت حاصل کرنے میں روزہ کو بڑا دخل ہے کیونکہ روزہ سے اپنی خواہشات کو قابو میں رکھنے کا ایک ملکہ پیدا ہوتا ہے وہی تقوے کی بنیاد ہے،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 7 يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝ ١٨٣ ۙ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ كتب ( فرض) ويعبّر عن الإثبات والتّقدیر والإيجاب والفرض والعزم بِالْكِتَابَةِ ، ووجه ذلك أن الشیء يراد، ثم يقال، ثم يُكْتَبُ ، فالإرادة مبدأ، والکِتَابَةُ منتهى. ثم يعبّر عن المراد الذي هو المبدأ إذا أريد توكيده بالکتابة التي هي المنتهى، قال : كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي [ المجادلة/ 21] ، وقال تعالی: قُلْ لَنْ يُصِيبَنا إِلَّا ما كَتَبَ اللَّهُ لَنا [ التوبة/ 51] ، لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران/ 154] ، وقال : وَأُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى بِبَعْضٍ فِي كِتابِ اللَّهِ [ الأنفال/ 75] أي : في حكمه، وقوله : وَكَتَبْنا عَلَيْهِمْ فِيها أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ [ المائدة/ 45] أي : أوجبنا وفرضنا، وکذلک قوله : كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] ، وقوله : كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيامُ [ البقرة/ 183] ، لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتالَ [ النساء/ 77] ، ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ [ الحدید/ 27] ، لَوْلا أَنْ كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ الْجَلاءَ [ الحشر/ 3] أي : لولا أن أوجب اللہ عليهم الإخلاء لدیارهم، نیز کسی چیز کے ثابت کردینے اندازہ کرنے ، فرض یا واجب کردینے اور عزم کرنے کو کتابہ سے تعبیر کرلیتے ہیں اس لئے کہ پہلے پہل تو کسی چیز کے متعلق دل میں خیال پیدا ہوتا ہے پھر زبان سے ادا کی جاتی ہے اور آخر میں لکھ جاتی ہے لہذا ارادہ کی حیثیت مبداء اور کتابت کی حیثیت منتھیٰ کی ہے پھر جس چیز کا ابھی ارادہ کیا گیا ہو تاکید کے طورپر اسے کتب س تعبیر کرلیتے ہیں جو کہ دراصل ارادہ کا منتہیٰ ہے ۔۔۔ چناچہ فرمایا : كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي[ المجادلة/ 21] خدا کا حکم ناطق ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب رہیں گے ۔ قُلْ لَنْ يُصِيبَنا إِلَّا ما كَتَبَ اللَّهُ لَنا [ التوبة/ 51] کہہ دو کہ ہم کو کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی بجز اس کے کہ جو خدا نے ہمارے لئے مقدر کردی ہے ۔ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران/ 154] تو جن کی تقدیر میں مار جانا لکھا تھا ۔ وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرو ر نکل آتے ۔ اور آیت : وَأُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى بِبَعْضٍ فِي كِتابِ اللَّهِ [ الأنفال/ 75] اور رشتے دار خدا کے حکم کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں ۔ میں کتاب اللہ سے مراد قانون خداوندی ہی صوم الصَّوْمُ في الأصل : الإمساک عن الفعل مطعما کان، أو کلاما، أو مشیا، ولذلک قيل للفرس الممسک عن السّير، أو العلف : صَائِمٌ. قال الشاعر :۔ خيل صِيَامٌ وأخری غير صَائِمَةٍ «1» وقیل للرّيح الرّاكدة : صَوْمٌ ، ولاستواء النهار : صَوْمٌ ، تصوّرا لوقوف الشمس في كبد السماء، ولذلک قيل : قام قائم الظّهيرة . ومَصَامُ الفرسِ ، ومَصَامَتُهُ : موقفُهُ. والصَّوْمُ في الشّرع : إمساک المکلّف بالنّية من الخیط الأبيض إلى الخیط الأسود عن تناول الأطيبين، والاستمناء والاستقاء، وقوله : إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً [ مریم/ 26] ، فقد قيل : عني به الإمساک عن الکلام بدلالة قوله تعالی: فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا [ مریم/ 26] . ( ص و م ) الصوم ( ن ) کے اصل معنی کسی کام سے رک جانا اور باز رہنا کے ہیں خواہ اس کا تعلق کھانے پینے سے ہو یا چلنے پھرنے اور یا گفتگو کرنے سے اس بنا پر گھوڑا چلنے سے رک جائے یا چارہ نہ کھائے اسے بھی صائم کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ( البیط ) ( 280 ) خیل صیام واخرٰ ی غیر صائیمۃ کچھ گھوڑے اپنے تھان پر کھڑے ہیں اور دوسرے میدان جنگ میں ہوں ۔ اور ہوا کے ساکن ہونے اور دوپہر کے وقت پر بھی صوم کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ اس تصور پر کہ اس وقت آفتاب وسط آسمان میں ٹہھر جاتا ہے اسی اعتبار سے قام قائم الظھیرۃ کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی دوپہر کے وقت سورج کے خط نصف النہار پر ہونا کے ہیں مصمام الفرس او مصامتہ گھوڑے کے کھڑے ہونے کی جگہ ۔ اصطلاحی شریعت میں کسی مکلف کا روزہ کی نیت کے ساتھ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے منی خارج کرنے اور ۔ عمدا قے کرنے سے رک جانے کا نام صوم ہے اور آیت کریمہ : ۔ إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً [ مریم/ 26] کہ میں نے خدا کے لئے روزے کی منت مانی ہے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں صوم سے مراد کلام سے رکنے یعنی خاموش رہنا کے ہیں ۔ جیسا کہ بعد میں فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا [ مریم/ 26] تو آج میں کسی آدمی سے ہر گز کلام نہ کروں گی ) سے اسکی تفسیر کی گئی ہے ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ تَّقْوَى والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا [ النحل/ 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور/ 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء/ 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل/ 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

روزے کی فرضیت ارشاد باری ہے ( یایھا الذین امنو کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون، اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروئوں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے ہم پر روزے فرض کردیے اس لیے کہ قول باری ( کتب علیکم کے معنی فرض علیکم کے ہیں۔ یعنی تم پر فرض کر دئیے گئے۔ مثلاً قول باری ہے ( کتب علیکم القتال وھوا کرہ لکم ، تم پر قتال فرض کیا گیا اور وہ تمہیں ناگوار ہے) اسی طرح ارشاد باری ہے ( ان الصلوٰۃ کانت علی المومنین کتابا موقوتا، نماز در حقیقت ایسا فرض ہے جو مقرر وقت کے ساتھ الہ ایمان پر لازم ہے) یعنی ایسا فرض جس میں پابندی وقت کا اہتمام کیا جائے۔ لغت میں سیام ک معنی امساک یعنی رک جانے کے ہیں۔ ارشاد باری ہے ( انی نذرت للرحمن صوما فلن اکلم الیوم انسیا ، میں نے رحمن کے لیے روزہ رکھا ہوا ہے پج میں کسی نے بولوں گی) حضرت مریم کے اس قول کا مطلب ہے کہ میں نے بات نہ کرنے کا تہیا کیا ہے۔ بولنے سے رُک جانے کو صوم کہا گیا ہے اور کہا جاتا ہے۔ خیل صیام اور گھوڑے رک جانے والے چارہ کھانے ، اور محاورہ ہے ۔ صامت الشمس نصف النھار ، سورج دوپہر کے وقت کھڑا ہوگیا، یہ اس بنا پر ہے کہ اس وقت سورج حرکت کرنے سے رکتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور صیام کے یہ لغوی معنی ہیں۔ اور وہ شریعت میں کھانے پینے سے رک جانے کا نام ہے۔ شریعت میں اسی مفہوم کے ساتھ دن کے روزے میں جماع سے باز رہنے کا حکم ہے اور وہ مجمل لفظ محتاج بیان ہے اپنے ورود کے لحاظ سے، کیونکہ ایسا شرعی نام وضع کیا گیا ہے مختلف معانی کے لیے جو لغت میں تفصیلی معنی کے ساتھ موجود نہیں ہے۔ آیت کے لیے اس کی توضیح و تشریح کردینے ک بعد جب شریعت میں روزے کی عملی شکل متعین ہوگئی تو اس لفظ کے وہ معنی سمجھ میں آگئے جس کے لیے اسے وضع کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول ( کما کتب علی الذین من قبلکم کے تین معانی ہیں جو سب ک سب سلف سے مروی ہیں۔ حسن، شعبی اور قتادہ سے منقول ہے کہ ہم سے پہلے لوگوں یعنی نصاریٰ پر بھی رمضان کے مہینے یا اس کے مساوی دوسرے دنوں کے روزے فرض کئے گئے تھے۔ پھر انہوں نے یہ دن بدل ڈالے اور انذ کی تعداد میں اپنی طرف سے اضافہ کردیا۔ ابن عباس، ربیع بن انس اور سدی سے منقول ہے کہ روزہ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد سے لے کر اگلی نماز عشاء تک کا ہوتا تھا اور سوجانے کے بعد دوبارہ اٹھ کر کھانا پینا اور ہمبستری کرنا حلال نہ ہوتا، پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ بعض دوسرے حضرات کا قول ہے کہ ہم مسلمانوں پر اسی طرح چند دنوں کے روزے فرض کیے گئے تھے جس طرح ہم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس صورت میں روزوں کی مقدار میں یکسانیت پر آیت کے الفاظ دلالت نہیں کرتے بلکہ اس میں مقدار کی کمی بیشی جائز ہے۔ مجاہد اور قتادہ سے مروی ہے کہ الذین من قبلکم سے مراد اہل کتاب ہیں۔ عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کے واسطے سے حضرت معاذ بن جبل سے مروی ہے کہ ” روزے کی فرضیت تین مرحلوں سے گزری ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ تشریف لے گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر ماہ تین دنوں کے روزے اور یوم عاشورہ یعنی دسویں محرم کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ( کتب علیکم الصیام) کے حکم کے ذریعے رمضان کے روزے فرض کر دئیے “۔ آگے حضرت معاز بن جبل نے جو کچھ فرمایا وہ حضرت ابن عباس کے درج بالا قول سے ملتا جلتا ہے۔ مصنف کتاب ابوبکر جصاص فرماتے ہیں :” چونکہ ( کما کتب علی الذین من قبلکم) کے الفاظ اس پر دلالت نہیں کرتے کہ اس سے کتنی تعداد مراد ہے یا روزے کی کیفیت کیا ہے یا اس کا وقت کونسا ہے، اس لیے لفظ صیام اپنے مدلول کے لحاظ سے مجمل تھا۔ اور اگر ہمیں گزشتہ لوگوں کے روزوں کا وقت اور ان کی تعداد معلوم ہوجاتی تو اس صورت میں درج بالا قرآنی الفاظ سے روزے کی کیفیت اور سو کر اٹھنے کے بعد روزہ دار پر عائد ہوجانے والے محطورات یعنی پابندیاں مراد لینا جائز ہوتا۔ پھر ہمارے لیے ان لوگوں کے روزوں کی پیروی کرنے کے سلسلے میں ظاہر لفظ کے استعمال کی گنجائش باقی نہ رہتی، جب ک اس کے فوراً بعد یہ ارشاد باری موجود ہے ( ایاما معدودات گنتی کے چند دن) اس کا اطلاق تھوڑے دنوں پر بھی جائز ہے اور زیادہ دنوں پر بھی ۔ لیکن جب سلسلہ آیات میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد آگیا ہے کہ ( شھر رمضان الدین انزل فیہ القران ھدی للناس و بینات من الھدی والفرقان، فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے اس پر لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے) تو اس سے ایام معدودات ، کی تعداد، ان کا وقت اور ان میں روزہ رکھنے کا حکم بیان ہوگیا، ابن ابی لیلیٰ سے بھی یہی معنی مروی ہیں۔ ابن عباس اور عطاء سے مروی ہے کہ ( ایاماً معدودات) سے مراد ہر ماہ کے تین روزے ہے جب تک رمضان کا حکم نازل نہیں ہوا، پھر نزول رمضان کے ساتھ ہی یہ منسوخ ہوگئے ( فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر، پس جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨٣) تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے یعنی عشاء کی نماز کے بعد سے کھانے پینے اور جماع سے رکے رہو یا عشاء کی نماز سے پہلے سونے سے جیسا کہ اہل کتاب پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم عشاء کی نماز کے بعد کھانے پینے اور جماع سے بچے رہو یا یہ کہ عشاء کے بعد سونے سے بچو اور یہ (آیت) ” احل لکم لیلۃ الصیام الرفث “۔ اور آیت کلوا واشربوا “۔ سے منسوخ ہے تیس دین تک رمضان المبارک میں روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

سورة البقرۃ کے نصف آخر کے مضامین کے بارے میں عرض کیا جا چکا ہے کہ یہ چار لڑیوں کی مانند ہیں جو آپس میں گتھی ہوئی ہیں۔ اب ان میں سے عبادات والی لڑی آرہی ہے اور زیر مطالعہ رکوع میں صوم کی عبادت کا تذکرہ ہے۔ جہاں تک صلوٰۃ (نماز) کا تعلق ہے تو اس کا ذکر مکی سورتوں میں بےتحاشا آیا ہے ‘ لیکن مکی دور میں صوم کا بطور عبادت کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ عربوں کے ہاں صوم یا صیام کے لفظ کا اطلاق اور مفہوم کیا تھا اور اس سے وہ کیا مراد لیتے تھے ‘ اسے ذراسمجھ لیجیے ! عرب خود تو روزہ نہیں رکھتے تھے ‘ البتہ اپنے گھوڑوں کو رکھواتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اکثر عربوں کا پیشہ غارت گری اور لوٹ مار تھا۔ پھر مختلف قبائل کے مابین وقفہ وقفہ سے جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ ان کاموں کے لیے ان کو گھوڑوں کی ضرورت تھی اور گھوڑا اس مقصد کے لیے نہایت موزوں جانور تھا کہ اس پر بیٹھ کر تیزی سے جائیں ‘ لوٹ مار کریں ‘ شب خون ماریں اور تیزی سے واپس آجائیں۔ اونٹ تیز رفتار جانور نہیں ہے ‘ پھر وہ گھوڑے کے مقابلے میں تیزی سے اپنا رخ بھی نہیں پھیر سکتا۔ مگر گھوڑا جہاں تیز رفتار جانور ہے ‘ وہاں تنک مزاج اور نازک مزاج بھی ہے۔ چناچہ وہ تربیت کے لیے ان گھوڑوں سے یہ مشقت کراتے تھے کہ ان کو بھوکا پیاسا رکھتے تھے اور ان کے ُ منہ پر ایک تو بڑا چڑھا دیتے تھے۔ اس عمل کو وہ صوم کہتے تھے اور جس گھوڑے پر یہ عمل کیا جائے اسے وہ صائم کہتے تھے ‘ یعنی یہ روزہ سے ہے۔ اس طرح وہ گھوڑوں کو بھوک پیاس جھیلنے کا عادی بناتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مہم کے دوران گھوڑا بھوک پیاس برداشت نہ کرسکے اور جی ہار دے۔ اس طرح تو سوار کی جان شدید خطرے میں پڑجائے گی اور اسے زندگی کے لالے پڑجائیں گے ! مزید یہ کہ عرب اس طور پر گھوڑوں کو بھوکا پیاسا رکھ کر موسم گرما اور لو کی حالت میں انہیں لے کر میدان میں جا کھڑے ہوتے تھے۔ وہ اپنی حفاظت کے لیے اپنے سروں پر ڈھاٹے باندھ کر اور جسم پر کپڑے وغیرہ لپیٹ کر ان گھوڑوں کی پیٹھ پر سوار رہتے تھے اور ان گھوڑوں کا منہ سیدھا لو اور باد صرصر کے تھپیڑوں کی طرف رکھتے تھے ‘ تاکہ ان کے اندر بھوک پیاس کے ساتھ ساتھ لو کے ان تھپیڑوں کو برداشت کرنے کی عادت بھی پڑجائے ‘ تاکہ کسی ڈاکے کی مہم یا قبائلی جنگ کے موقع پر گھوڑا سوار کے قابو میں رہے اور بھوک پیاس یا باد صرصر کے تھپیڑوں کو برداشت کر کے سوار کی مرضی کے مطابق مطلوبہُ رخ برقرار رکھے اور اس سے منہ نہ پھیرے۔ تو عرب اپنے گھوڑوں کو بھوکا پیاسا رکھ کر جو مشقت کراتے تھے اس پر وہ صوم کے لفظ یعنی روزہ کا اطلاق کرتے تھے۔ لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ تشریف لائے تو یہاں یہود کے ہاں روزہ رکھنے کا رواج تھا۔ وہ عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے ‘ اس لیے کہ اس روز بنی اسرائیل کو فرعونیوں سے نجات ملی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو ابتداءً ہر مہینے ایامِّ بیض کے تین روزے رکھنے کا حکم دیا۔ اس رکوع کی ابتدائی دو آیات میں غالباً اسی کی توثیق ہے۔ اگر ابتدا ہی میں پورے مہینے کے روزے فرض کردیے جاتے تو وہ یقیناً شاق گزرتے۔ ظاہر بات ہے کہ مہینے سخت گرم بھی ہوسکتے ہیں۔ اب اگر تیس کے تیس روزے ایک ہی مہینے میں فرض کردیے گئے ہوتے اور وہ جون جولائی کے ہوتے تو جان ہی تو نکل جاتی۔ چناچہ بہترین تدبیر یہ کی گئی کہ ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھنے کا حکم دیا گیا اور یہ روزے مختلف موسموں میں آتے رہے۔ پھر کچھ عرصے کے بعد رمضان کے روزے فرض کیے گئے۔ ہر مہینے میں تین دن کے روزوں کا جو ابتدائی حکم تھا اس میں علی الاطلاق یہ اجازت تھی کہ جو شخص یہ روزہ نہ رکھے وہ اس کا فدیہ دے ‘ اگرچہ وہ بیمار یا مسافر نہ ہو اور روزہ رکھنے کی طاقت بھی رکھتا ہو۔ جب رمضان کے روزوں کی فرضیت کا حکم آگیا تو اب یہ رخصت ختم کردی گئی۔ البتہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فدیہ کی اس رخصت کو ایسے شخص کے لیے باقی رکھا جو بہت بوڑھا ہے ‘ یا کسی ایسی سخت بیماری میں مبتلا ہے کہ روزہ رکھنے سے اس کے لیے جان کی ہلاکت کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ یہ ہے ان آیات کی تاویل جس پر میں بہت عرصہ پہلے پہنچ گیا تھا ‘ لیکن چونکہ اکثر مفسرین نے یہ بات نہیں لکھی اس لیے میں اسے بیان کرنے سے جھجکتا رہا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ مولانا انور شاہ کا شمیری (رح) کی رائے یہی ہے تو مجھے اپنی رائے پر اعتماد ہوگیا۔ پھر مجھے اس کا ذکر تفسیر کبیر میں امام رازی (رح) کے ہاں بھی مل گیا کہ متقدمین کے ہاں یہ رائے موجود ہے کہ روزے سے متعلق پہلی دو آیتیں (١٨٣ ‘ ١٨٤) رمضان کے روزے سے متعلق نہیں ہیں ‘ بلکہ وہ ایام بیض کے روزوں سے متعلق ہیں۔ ایام بیض کے روزے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد بھی نفلاً رکھے ہیں۔ روزے کے احکام پر مشتمل یہ رکوع چھ آیتوں پر مشتمل ہے اور یہ اس اعتبار سے ایک عجیب مقام ہے کہ اس ایک جگہ روزے کا تذکرہ جامعیت کے ساتھ آگیا ہے۔ قرآن مجید میں دیگراحکام بہت دفعہ آئے ہیں۔ نماز کے احکام بہت سے مقامات پر آئے ہیں۔ کہیں وضو کے احکام آئے ہیں تو کہیں تیمم کے ‘ کہیں نماز قصر اور نماز خوف کا ذکر ہے۔ لیکن صوم کی عبادت پر یہ کل چھ آیات ہیں ‘ جن میں اس کی حکمت ‘ اس کی غرض وغایت اور اس کے احکام سب کے سب ایک جگہ آگئے ہیں۔ فرمایا : آیت ١٨٣ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ) وہ جنگ کے لیے گھوڑے کو تیار کرواتے تھے ‘ تمہیں تقویٰ کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا ہے۔ روزے کی مشق تم سے اس لیے کرائی جا رہی ہے تاکہ تم بھوک کو قابو میں رکھ سکو ‘ شہوت کو قابو میں رکھ سکو ‘ پیاس کو برداشت کرسکو۔ تمہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلنا ہوگا ‘ اس میں بھوک بھی آئے گی ‘ پیاس بھی آئے گی۔ اپنے آپ کو جہاد و قتال کے لیے تیار کرو۔ سورة البقرۃ کے اگلے رکوع سے قتال کی بحث شروع ہوجائے گی۔ چناچہ روزے کی یہ بحث گویا قتال کے لیے بطور تمہیدآ رہی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

183. Like most other injunctions of Islam those relating to fasting were revealed gradually. In the beginning the Prophet (peace be on him) had instructed the Muslims to fast three days in every month, though this was not obligatory. When the injunction in the present verse was later revealed in 2 A.H., a degree of relaxation was introduced: it was stipulated that those who did not fast despite their capacity to endure it were obliged to feed one poor person as an expiation for each day of obligatory fasting missed (see verse 184) . Another injunction was revealed later (see verse 185) and here the relaxation in respect of able-bodied persons was revoked. However, for the sick, the traveller, the pregnant, the breast-feeding women and the aged who could not endure fasting, the relaxation was retained. (See Bukhari, 'Tafsir al-Qur'an', 25; Tirmidhi, 'Sawm', 21; Nasai, 'Siyam', 51, 62, 64; Ibn Majah, 'Siyam', 12; Ahmad b. Hanbal, Musnad, vol. 3, p. 104; vol. 4, pp. 347 and 418; vol. 5, p. 29 - Ed.)

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :183 اسلام کے اکثر احکام کی طرح روزے کی فرضیت بھی بتدریج عائد کی گئی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء میں مسلمانوں کو صرف ہر مہینے تین دن کے روزے رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی ، مگر یہ روزے فرض نہ تھے ۔ پھر سن ۲ ہجری میں رمضان کے روزوں کا یہ حکم قرآن میں نازل ہوا ، مگر اس میں اتنی رعایت رکھی گئی کہ جو لوگ روزے کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور پھر بھی وہ روزہ نہ رکھیں ، وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں ۔ بعد میں دوسرا حکم نازل ہوا اور یہ عام رعایت منسوخ کر دی گئی ۔ لیکن مریض اور مسافر اور حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت اور ایسے بڈھے لوگوں کے لیے ، جن میں روزے کی طاقت نہ ہو ، اس رعایت کو بدستور باقی رہنے دیا گیا اور انہیں حکم دیا گیا کہ بعد میں جب عذر باقی نہ رہے تو قضا کے اتنے روزے رکھ لیں جتنے رمضان میں ان سے چھوٹ گئے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(183 ۔ 185) ۔ ارکان دین میں سے روزہ دوسرا رکن ہے دوسرا رکن اس سبب سے اس کو کہتے تھے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تھے اور آپ کو معراج ہوئی تھی جس کا ذکر سورة بنی اسرائیل میں آئے گا تو نماز اسی رات فرض ہوچکی تھی جس کی تفصیل صحیحین کی حدیث میں ہے کہ پچاس نماز فرض ہوئیں اور حضرت موسیٰ کی صلاح سے آنحضرت نے اللہ تعالیٰ سے تخفیف کی خواہش کی اور آخر کو رات دن میں یہ پانچ وقت کی نمازیں باقی رہیں ١۔ اب روزہ اس آیت سے ہجرت کے دوسرے سال فرض ہوا ابتدائے اسلام میں اختیار دیا گیا تھا کہ جو چاہے روزہ رکھے۔ اور جو چاہے ہر روزہ کے عوض میں دونوں وقت ایک مسکین کو کھانا کھلادے۔ پھر اس حکم سے کہ پھر جو پائے تم میں یہ مہینہ تو روزہ رکھے فدیہ کا حکم منسوخ ہوگیا مریض اور مسافر کا ذکر اس آیت میں دو دفعہ اس واسطے ہوا ہے کہ پہلی دفعہ فدیہ کے حکم کے ساتھ مریض اور مسافر کا ذکر ہو کر جب وہ فدیہ کا حکم منسوخ ہوگیا تو یہ شبہ پڑتا تھا کہ شاید فدیہ کے حکم کی منسوخی کے ساتھ مریض اور مسافر کا ذکر ہو کر جب وہ فدیہ کا بھی منسوخ ہوگیا اس لئے اللہ تعالیٰ نے دوسری دفعہ مریض اور مسافر کا ذکر فرما کر صراحت فرا دی کہ مریض اور مسافر کی قضا کا حکم منسوخ نہیں ہوا بلکہ باقی ہے۔ روزہ کی فضیلت میں بہت حدیثیں آئی ہیں مسند امام احمد بن حنبل صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ اور نیکیوں کا ثواب دس درجہ سے سات سو تک لکھنے کا فرشتوں کو حکم ہے مگر روزہ کے ثواب کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہہ دیا ہے کہ تم کوئی درجہ ثواب کا روزہ کے اجر میں نہ قائم کرنا روزہ کا ثواب میں خود اپنی ذات سے قیامت کے دن دوں گا ١۔ اور رمضان کے مہینے کی بزرگی میں بہت حدیثیں وارد ہیں یہاں تک کہ ساری آسمانی کتابیں اللہ تعالیٰ نے بوجہ بزرگی اس مہینے میں نازل فرمائیں ہیں۔ ٢۔ مسند امام احمد بن حنبل اور طبرانی اور بیہقی میں معتبر سند سے یہ روایت رمضان کی فضیلت میں آئی اس لئے آدمی کو چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے رمضان کے روزے اسی مہینے میں رکھے ورنہ قضا کی صورت میں خود مہینہ رمضان کی جو فضیلت ہے وہ ہاتھ سے جاتی رہے گی۔ بہت عمر رسیدہ آدمی جو روزہ کی طاقت نہ رکھتا ہو ہر روزہ کے عوض میں کسی محتاج کو کھانا کھلا دے اور روزہ نہ رکھے تو جائز ہے حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کا بھی یہی حکم بعض علماء کے نزدیک ہے اور بعض کہتے ہیں کہ ان کے ذمہ قضا ہی ہے۔ اللہ کی برائی کرنے کے یہ معنی ہیں کہ عبادت سے فارغ ہونے کے بعد اللہ کا ذکر کرے جیسے بعد ختم رمضان کے عید کے دن تکبیر کا حکم حدیث میں آیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:183) کتب علیکم۔ ای فرض علیکم۔ جیسا کہ اوپر آیت 180178 میں آیا ہے۔ الصیام۔ مفعول مالم یسم فاعلہ۔ صام یعزم۔ صام وصیام۔ مصدر (باب نصر) الصوم کے اصل معنی کسی کام سے رک جانے یا باز رہنے کے ہیں۔ خواہ اس کا تعلق کھانے پینے۔ چلنے پھرنے یا گفتگو کرنے سے ہو۔ گفتگو سے رکنے کے معنی میں قرآن مجید میں آیا ہے۔ انی نذرت للرحمن صوما (19:25) کہ میں نے خدا کے لئے روزے کی منت معنی ہے۔ یعنی کلام سے خاموش رہنے کی جیسا کہ بعد میں اسی آیت میں اس کی تفسیر یوں کی گئی ہے فلن اکلم الیوم انسیا۔ تو آج میں ہرگز کسی آدمی سے بات نہ کروں گی۔ چلنے پھرنے سے رک جانے کے معنی میں شاعر کا قول ہے خیل صیام واخری غیر صائمۃ کچھ گھوڑے اپنے تھان پر کھڑے ہیں اور دوسرے میدان جنگ میں ہیں۔ آیت ہذا میں اصطلاح شریعت میں کسی مکلف کا روزہ رکھنے کی نیت سے صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے عمداً قے کرنے اور جماع سے رکے رہنے کو صیام کہتے ہیں اور یہاں صیام کے معنی رمضان کے روزے ہیں۔ کما۔ میں کاف تشبیہ کا ہے اور ما موصولہ۔ اگلہ جملہ اس کا صلہ ہے۔ یہاں تشبیہ روزوں کے فرض ہونے میں ہے۔ روزوں کے دنوں کی تعداد یا ان کی کیفیت میں نہیں ہے۔ لعلکم۔ لعل حرف مشبہ بفعل ہے اور کم ضمیر جمع مذکر حاضر، اس کا اسم ۔ شاید تم۔ تتقون مضارع جمع مذکر حاضر اتقاء (افتعال) مصدر تم بچتے رہو۔ تم ڈرتے رہو (ارتکاب گناہ سے) تم پرہیزگار ہوجاؤ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 اس آیت میں روزے کی فرضیت کا بیان ہے اگلے لوگوں سے جمیع امم سابقہ یا خاص کر یہود و نصاری مراد ہیں اور کما کتب میں تشبیہ فرض ہونے کے لیے اعتبار سے ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس تشبیہ وقت اور ہیئت کا اعتبار بھی مقصود ہو کیونکہ بعض آثار اور ابن حنظلہ کی مر فوع روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ ماہ رمضان کے روزے سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔ ) قرطبی، ابن کثیر) روزے کی فرضیت 2 ھ میں نازل ہوئی اور روزے نے موجود ہیئت بتدریج اختیار کی ہے ہجرت کے بعد مدینہ پہنچ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حسب سابق عاشورہ اور ہر ماہ تین دن کا روزہ کھتے رہے حتی کہ رمضان کے روزے فرض ہوگئے ابن کثیر) الصیام والصوم کے لغوی معنی ہر اس چیز سے رک جانے کے ہیں جو نفس کو مرغوب ہو۔ (مفردات) اور شریعت میں روزہ کی نیت سے صبح صادق سے سورج کے غروب ہونے کے بعد تک مفطرات ثلاثہ یعنی کھانے پینے اور جماع) سے رکے ہنے کا نام روزہ ہے لعلکم تتقون یہ روزے کی حکمت بیان فرمادی ہے کہ اسلامی روزے کا مقصد تعذیب نفس نہیں بلکہ دل میں تقوی یعنی جی کو روکنے کی عادت پیدا کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ حدیث میں الصیام جنتہ آیا ہے کہ روزہ گناہوں سے بچنے کے لیے ڈھال ہے اور صحیحین میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماہ رمضان کو شھرالصبر فرمایا ہے یعنی نفس پر ہر طرح کی بندش کا مہینہ۔ (ترغیب) اور فرمایا کہ جو شخص روزہ کھ کر دوسرے کی غیبت کرتا ہے یا جھوٹ بولتا ہے اس کا روزہ نہیں ہے۔ (ترغیب )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 183 188 اسرارو معارف رمضان اور احکام رمضان : تیسرا حکم نیکی اور بر کے باپ میں ” صوم “ کا ہے ، اسے ارشاد فرمانے کا ایک خاص انداز ہے کہ قبل ازیں نوع انسانی کو دعوت عبادت دی۔ مگر اس میں یہ انداز نہیں بلکہ ایک عمومی رنگ ہے کہ اے لوگو ! اپنے رب کی عبادت کرو۔ مگر یہاں ارشاد ہے ، ’ تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جیسے تم سے پہلے گزرنے والوں پر فرض کیا گیا تھا ‘۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ پہلے مخاطب نوع انسانی ہے اور دوسرا خطاب خاص مومنین کو ہے اور ان کی روحانی تربیت اور حصول رحمت کے لئے ایک خاص اہتمام ہے۔ دراصل انسان روح اور جسم سے مرکب ہے جس طرح جسم مادہ کی ایک ٹھوس اور کثیف شکل ہے اسی طرح روح انتہائی لطیف شے ہے اور یہ قدرت باری ہے کہ فرشتے اور حاملین عرش سے بھی لطیف تر۔ روح کو ایک کثیف جسم سے پیوست کردیا گیا ہے اور یہ جسم روح کو بخشا ہی اس لئے گیا ہے کہ عبادت الٰہی کرسکے۔ جسم ہو ، اس کی ضروریات ہوں اور پھر ان کی تکمیل کے سامان موجود ہوں لیکن یہ اس میں اپنی پسند پہ احکام الٰہی کو ترجیح دے اور احکام باری کو اختیار کرے۔ اس کی یہ ادنیٰ قربانی اس کے لئے حصول قرب کا سبب بنے ، ویسے تو مجرد روح اللہ کی عبادت میں مصروف رہ سکتی تھی مگر اس کی عبادت فرشتے کی عبادت کی مثل ہوتی جو ہمیشہ اطاعت تو کرتا ہے مگر چونکہ کوئی عارضہ اپنے ساتھ ایسا نہیں رکھتا جو اسے اطاعت سے روک سکے اس لئے وہ اپنے مقام سے آگے نہیں بڑھتا بلکہ جس مقام پر رکھا گیا ہے ہمیشہ اسی پہ رہتا ہے مگر انسان جب عملی دنیا میں داخل ہوتا ہے تو ایک خاص حیثیت عملی اور علمی رکھتا ہے۔ اشیائے عالم اور ان کے اوصاف سے واقف ہوتا ہے پھر اس کے وجود کو ان کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان سے آرام اور لذت حاصل کرتا ہے۔ اب اگر وہ ان سے استفادہ کرنے کا وہ طریقہ اپناتا ہے جو اللہ نے مقرر فرمایا ہے تو اسے حقیقی انسانیت اور اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے لیکن اگر صرف لذت طلبی اور تکمیل خواہشات میں کھو جاتا ہے تو پھر انسانیت کے مقام رفیع سے گر جاتا ہے۔ اور جانوروں نے بدتر شمار ہوتا ہے اور یہ بات کہ انسان محض خواہشات کی تکمیل ہی نہ کرے بلکہ اپنے ہر کام میں اللہ کی اطاعت کو مقدم رکھے تب نصیب ہوتی ہے جب روح قوی ہو اور بدن کے قویٰ پہ روحانیت غالب ہو۔ یہ تب ہوسکتا ہے کہ روح کا تعلق اللہ سے قائم ہو اور سب سے اعلیٰ صورت انبیاء کے تعلق کی ہوتی ہے جو سب سے مضبوط ہوتا ہے اتنا مضبوط کہ وہ کبھی اللہ کے حکم کے خلاف نہیں کرپاتے اور معصوم ہوتے ہیں باقی مخلوق ان کی وساطت سے اللہ سے رابطہ قائم کرتی ہے جس نے کلمہ پڑھ لیا گویا اس کا تعلق اللہ سے قائم ہوا اور وہ اھنوا کی فہرست میں داخل ہو کر خصوصی خطابات اور عنایات کا سزاوار ہوا۔ اب جہاں بدن کی ضروریات کو پورا کرنے کا ایک طریقہ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ تکمیل ضرورت بھی ہوتی رہے۔ اور اللہ کی اطاعت بھی۔ وہاں کچھ عبادات بھی مقرر فرمائیں ، جو مالی بھی ہیں ، بدنی بھی ہیں اور جانی بھی۔ عبادات ہی روح کی اصل غذاء اور اس کی زندگی کا سامان ہیں تو جن لوگوں کا تعلق اللہ سے قائم ہوا ان کے لئے مزید روحانی قوت اور قرب الٰہی کے حصول کے اسباب مہیا فرمائے جن میں سے ایک بہت بڑا ذریعہ ” صوم “ ہے اسی لئے ارشاد ہے کہ روزہ تم پر فرض کیا گیا ہے۔ یعنی ضروری قرار دیا گیا ہے اور یہ ایسی ضروری عبادت ہے کہ تم سے پہلے امت مسلمہ پر فرض رہی ہے خواہ کیفیت میں یا دنوں میں فرق بھی ہو مگر روزہ ان پر بھی فرض رہا۔ اس لئے تم پر بھی فرض ہوا کہ تم اللہ سے ایک مضبوط تعلق قائم کرسکو جسے ” تقویٰ “ کہا گیا ہے یعنی اس کی غرض اصلی لعلکم تتقون۔ صوم کے لفظی معنی رکنے کے ہیں اور اصطلاح شریعت میں طلوع صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے رکنے کا نام ہے۔ اگر طلوع فجر کے بعد یا غروب آفتاب سے پہلے کچھ کھا پی لیا خواہ کتنی ہی تھوڑی دیر باقی تھی روزہ نہ رہے گا۔ جہاں تک اس کے فضائل کا تعلق ہے تو وہ بیشمار ہیں بلکہ یہ دین کے عمود اور شعائر میں سے ہے اور باقی سارا سال تو انسان حرام اور ناجائز سے پرہیز رکھتا ہے مگر اس مبارک ماہ میں اللہ کے حکم سے تمام حلال غذا بھی وقت معین تک چھوڑ کر کمال ا اطاعت کا اظہار کرتا ہے اور زمین پر بستے ہوئے ، مادی وجود رکھتے ہوئے فرشتوں سے مشابہت پیدا کرتا ہے جس کو وصول رحمت میں ایک خاص دخل حاصل ہے۔ نتیجتاً اسے وصف تقویٰ نصیب ہوتا ہے یعنی ایک ایسا تعلق اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ جو ہاتھ کو اٹھنے اور قدم کو چلنے سے تھام لے ، اسے حدود اللہ سے تجاوز نہ کرنے دے۔ ایاما معدودات۔ یعنی گنتی کے چند روز ہیں کچھ بہت زیادہ نہیں بلکہ کھانے پینے کے لئے گیارہ ماہ اور روزے کے لئے صرف ایک ماہ ہے پھر اس میں بھی بیمار کو اور مسافر کو اجازت ہے دوران سفر یا مرض روزہ نہ رکھیں مگر ایسا نہ ہو کہ سعادت سے محروم ہوجائیں جب مریض تندرست ہو یا مسافر مقیم ہو تو جس قدرروزے نہ رکھ سکا تھا ان کی گنتی پوری کرے۔ بیمار سے مراد وہ بیمار ہے جسے روز رکھنے سے ناقابل برداشت تکلیف ہو یا مرض کے بڑھ جانے کا قوی امکان ہو اور مسافر سے مراد وہ شخص ہے جو کم از کم گھر سے ایسے سفر پہ نکلے جو تین منزل ہو یعنی پیدل چلنے والا تین روز میں طے کرلے ، جسے فقہاء نے میلوں میں حساب کرکے اڑتالیس میل قرار دیا ہے کہ ارشادات نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تعامل صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فقہاء نے یہی اخذ کیا ہے۔ اسی طرح مسافر اگر کسی جگہ رکے تو وہ مقیم قرار نہ دیا جائے گا جب تک ایک جگہ کا قیام پندرہ روز کا نہ ہو۔ اگر پندرہ روز ٹھہرنے کا ارادہ کرے تو مقیم ہوجائے گا لیکن ایک دو روز کے لئے رکا اور کسی مجبوری کی وجہ سے وقت بڑھتا رہا۔ حالانکہ وہ چلنے کو تیار ہی رہا تو خواہ اس سے زیادہ روز بھی گز رجائیں مسافر ہی رہے گا یا پندرہ روز متفرق شہروں میں ٹھہرا تو بھی مسافر رہے گا اور اگر مریض صحت مند ہونے کے بعد یا مسافر مقیم ہونے کے اتنے دنوں کی مہلت پائے تو روزوں کی قضا اس پر واجب ۔ لیکن اگر اس سے پہلے ہی فوت ہوگیا تو اس پر قضا نہ ہوگی نہ فدیہ نیز عدۃ من ایام اخر میں ترتیب کی قید نہیں بلکہ گنتی پوری کرنے کا حکم ہے اگر متفرق بھی رکھے تو جائز ہے۔ واللہ اعلم۔ روزہ نہ رکھ سکنے کی صورت میں فدیہ : وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ ، یعنی ایسے لوگ جو مریض یا مسافر نہیں ، مگر روزہ رکھنا نہیں چاہتے اور اس کے بدلے صدقہ وغیرہ دینے کو تیار ہیں تو فرمایا ، ان کے لئے فدیہ ہے ، ایک فقیر کا کھانا ، یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا پھر دوسری آیات نے اسے منسوخ قرار دیا اور بغیر مریض اور مسافر کے سب کو روزہ رکھنا ضروری قرار دیا کہ ھن شھد منکم الشھر فلیصمہ ، جو بھی رمضان المبارک کو پائے وہ ضرور روزہ رکھے ہاں ، مریض ، مسافر یا بوڑھے جو روزہ رکھنے کی ہمت رکھتے ہیں وہ معذور ہیں۔ ایسے بوڑھے یا ایسے مریض جن کے صحت مند ہونے کی امید نہ ہو ، فدیہ دیں۔ فدیہ کی مقدار نصف صاع گندم یعنی پونے دو سیر ہے جس کی قیمت بازار کے مطابق ایک فقیر کو دے نہ ایک روزہ کا فدیہ دو میں تقسیم کرے اور نہ کئی روزوں کا فدیہ ایک ہی تاریخ میں ایک ہی آدمی کو دے۔ ہاں ! اگر کسی کو اس کی طاقت بھی نہ ہو تو استغفار کرے اور نیت رکھے کہ جب بھی فراخی نصیب ہوگی ضرور ادا کروں گا۔ ان سب مراعات کے ساتھ کہ نیکی بہرحال نیکی ہے اگرچہ فدیہ دینا بھی نیکی ہے مگر وان تصومواخیرلکم ، تمہارے لئے بہت بہتر یہ ہے کہ تم روزہ رکھو ، اگر تمہیں علم ہے ، اگر جانتے ہو تو جو کیفیت روزہ رکھ کر حاصل ہوتی ہے وہ فدیہ دے کر کہاں نصیب۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ روزہ رکھو اور اسے معمولی نہ جانو بلکہ مہینوں میں یہ مہینہ ہی ایک خاص فضیلت رکھتا ہے۔ شھررمضان الذی……………لعلکم تشکرون۔ فضیلت ماہ رمضان : یہی مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا جو اللہ کا ذاتی کلام ہے اور اتنی عظمت کا حامل کہ ساری نوع انسانی کے لئے ہدایت ہے اور روشن دلیلوں سے مزین ، حق اور باطل میں فرق بتانے والا ہے تمام انعامات میں خواہ وہ مادی ہوں یا روحانی اور جن کا شمار انسان سے نہ ممکن اعلیٰ انعام یہ ہے کہ انسان کو مخلوق کو بےبس وبے کس کو خالق بےنیاز رحمت سے پکارے اور اسے اپنے کلام کا شرف بخشے ۔ سبحان اللہ ! یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں نزول کلام ہوا۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ جس قدر کتابیں اور صحائف اللہ کی طرف سے انبیاء پر نازل ہوئے اور خود قرآن مجید اسی ماہ کی مبارک رات کو لوح محفوظ سے سماء دنیا پر نازل ہوا اور پھر مسلسل تیئس برس میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اطہر پر نازل ہوتا رہا۔ یہ مہینہ ہی بہت برکات کا حامل ہے ۔ تم میں سے جو اس کو پالے وہ روزے رکھے۔ یہاں پا لینے سے مراد بحالت صلاحیت ہے یعنی مومن ہو ، عاقل ہو ، بالغ ہو ، اگر کافر نصف رمضان میں مسلمان ہوا یا نابالغ بالغ ہوا تو اس کے بعد روزے فرض ہوں گے گزشتہ کا قضاء نہ ہوگی۔ ہاں ! مجنون اگر مسلمان تھا تو صلاحیت رمضان رکھتا تھا۔ جب ہوش آیا تو سارے قضا کرے گا۔ اسی طرح مریض ، مسافر یا حیض ونفاس والی عورت کہ جب روزہ کی صلاحیت پائیں گے تو سب روزے قضا کریں گے جس قدر بھی پہلے چھوڑ چکے ہوں۔ ” پالینا “ سے مراد خود رمضان کا چاند دیکھ لینا یا معتبر شہادت سے پتہ چل جانا اور یا پھر شعبان کے تیس دن پورے ہوجانا ہے اس کے بعد رمضان شروع ہوجائے گا اگر 29 شعبان کو ابر وغیرہ ہو چاند نظر نہ آئے اور شرعی شہادت بھی میسر نہ ہو تو روزہ نہ رکھا جائے گا۔ حدیث شریف میں اس کی ممانعت ہے کہ یو الشک کا روزہ نہ رکھے۔ چھ ماہ کے دن اور رات کے بارے : یہاں عجیب بات تو ان ممالک کی ہے جہاں دن رات مہینوں پر محیط ہوتے ہیں یعنی چھ ماہ کا دن اور چھ ماہ کی رات۔ تو وہاں عادتاً رمضان المبارک کا پا لینا صادق نہیں آتا۔ نیز جب فقہائے حنفیہ نے ان ہی کے دن رات سے نماز کا حکم دیا ہے کہ چھ ماہ کے دن میں پانچ نمازیں اپنے دن کے اعتبار سے ادا کرے گا یا مثلاً مغرب کے فوراً بعد صبح صادق طلوع ہوگئی تو عشاء فرض ہی نہ ہوگی۔ حضرت تھانوی (رح) نے اسی رائے کو اختیار فرمایا ہے اور بعض محققین نے اس کو اس بات پر قیاس کیا ہے کہ جب دجال ظاہر ہوگا تو دن سات سال کے برابر ہوجائے گا پھر دو سال اس سے کم۔ تو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نمازوں کا کیا ہوگا ؟ فرمایا ، اندازہ کرکے دن رات کی پانچ نمازیں پڑھی جائیں گی۔ یعنی سال کے دن میں نمازیں سال ہی کی پڑھی جائیں گی لہٰذا ان لوگوں کو بھی اندازہ کرکے نماز ادا کرنی چاہیے۔ یہاں ایک بات ہے کہ ظہور دجال کے وقت عادتاً دن سال کا نہ ہوگا بلکہ اس کی نظر بندی وغیرہ کی وجہ سے محسوس ایسا ہوگا تو اس میں تو سال کی نمازیں فرض ہوئیں۔ یہاں ان ممالک میں عادتاً دن چھ ماہ کا ہوتا ہے۔ یعنی دوسری دنیا میں چھ مہینے گزرے ہیں اور وہاں ایک۔ اس بات کا مقتضیٰ تو یہی ہے کہ دن میں ان پر پانچ نمازیں ہوں اور روزے وہاں فرض ہی نہیں ہوتے کہ رمضان ہی کو نہیں پاسکتے بہرحال احتیاط اس میں ہے کہ جس طرح دنیا کے ساتھ تعلقات کے لئے وہ گھڑیوں وغیرہ سے اوقات کی تعیین کرتے ہیں۔ عبادت کے لئے بھی کرلیں کہ عبادت روح کے لئے بمنزلہ غذا کے ہے اگر مادی غذاء بقائے جسم کے لئے ضروری ہے تو عبادات روح کی زندگی کے لئے لازمی ۔ جب مادی غذاء کے لئے اوقات مقرر کرتے ہیں تو روحانی غذا کے لئے کیوں نہ کریں۔ جو بھی اس مبارک ماہ کو پائے ضرور روزے رکھے۔ ہاں ! مریض اور مسافر کی سہولت بحال رکھی گئی کہ وہ قضا کرسکتے ہیں کہ اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہیں گرفتار بلا کرنا نہیں چاہتا اور یہ تو اس لئے ہے کہ تم یہ گنتی پوری کرو۔ عید کی روح : تو اللہ کی عظمت بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی ، وجود بخشا ، قوتیں دیں عقل و شعور عطا فرمایا ، نعمتیں دیں اور اگر چاہے تو سب سلب کرنے پر بھی قادر ہے مگر حکم دیا کہ چندے ان چیزوں سے بااختیار رک جائو کہ تمہارے اس فعل کو انعام خاص کا ذریعہ بنادوں۔ سبحان اللہ ! یہ اسی کو سزاوار ہے کہ اس کی ذات عظیم ہے۔ اس کی عظمت بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو ، اس کا احسان اور مانو کہ تم پر کس قدر رحمت اور برکات نازل فرما رہا ہے۔ واذاسالک عبادی………………لعلکم یرشدون۔ قبولیت دعا : روزہ ایک طرف اگر کمال اطاعت ہے تو اس کا دوسرا اجابت دعا بھی ہے صائم اپنے تمام ایسے امور ، جن کو توجہ ہٹانے میں ایک حد تک دخل حاصل ہے چھوڑ دیتا ہے مثلاً کھانا پینا ، جماع وغیرہ۔ تو اس کی توجہ کلی طور پر اللہ کی طرف ہوتی ہے اور اسی حالت کو قرب الٰہی اور اجابت دعاء کے لئے موزوں قرار دیا ہے کہ اللہ تو ہر حال میں قریب ہے انسان اپنی ضروریات میں الجھ کر اپنی توجہ ان کی طرف کرلیتا ہے۔ جب ان کو اللہ کے حکم سے چھوڑا تو اسے ایک خاص طرح کا قرب الٰہی نصیب ہوا۔ ارشاد ہے کہ جب میرے بندے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میرے متعلق پوچھیں تو فرمادیں کہ میں بہت قریب ہوں۔ اس عبادی یعنی میرے بندے فرمانے میں یہی حکمت ہے کہ جب وہ میری اطاعت میں مصروف ہوں اور میری طرف متوجہ ہوں تو انہیں میرا قرب حاصل ہوتا ہے اور میں مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں یہ سب کچھ تب ہی ہوتا ہے جب وہ میری اطاعت پر کمر بستہ ہوں جس کے لئے اولاً میری عظمت کا اظہار ہے میری ذات وصفات پر ایمان لائیں اور اپنی پوری کوشش میرے حکم کی بجا آوری پہ صرف کردیں تاکہ انہیں میرا قرب حاصل ہو اور میں ان کی دعائیں قبول کروں اور یہی وہ راستہ ہے جو مقصد حیات ہے اور جو حقیقتاً صحیح راستہ ہے اور یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ صائم کی دعا قبول ہوتی ہے جیسا کہ حضور اکرم کا ارشاد گرامی ہے ، اللصائم عند فطرہ دعوۃ مستجابہ اوکما قال۔ نیز انی قریب سے اخذ ہوتا ہے کہ دعا آہستہ اور خفیہ کرنی چاہیے۔ احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الی نسائکم……………وانتم تعلمون۔ رمضان المبارک کے احکام ارشاد فرماتے ہوئے درمیان میں اپنے ایک خاص انعام کا ذکر فرمایا کہ جسے روزہ کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے یعنی اجابت دعا اور پھر احکام رمضان ارشاد ہوتے ہیں۔ حیات صحابہ رضوان اللہ علیہم ایک عمومی معیار ہے : یہ سجھ لینا چاہیے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اللہ کریم نے معیاری انسان قرار دے کر احکام شرعی کو نافذ فرمایا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات اولیاء اللہ کی کثرت کرامات دیکھ کر لوگ سوچتے ہیں کہ چیزیں اس کثرت سے صحابہ سے کیوں منقول نہیں ؟ حالانکہ نہیں وہ درجہ حاصل تھا جو صرف انہی کا حصہ ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی زندگی عمومی معیار قرار پائی اور جو حکم انہیں مشکل نظر آیا اللہ نے سہل فرمادیا۔ اسی طرح انہوں نے پوری امت پر احسان فرمایا۔ اب یہی حکم لے لیجئے کہ شروع میں رمضان المبارک کا حکم یہ تھا کہ افطار کے بعد جب تک بیدار رہے درست ، جب سو گئے تو روزہ شروع ہوگیا اور کھانے پینے اور جماع وغیرہ سے روک دیا گیا۔ بعض صحابہ (رض) اپنی بیبیوں سے شب باشی کے مرتکب ہوئے مگر انہوں نے ہماری طرف بات کو چھپایا نہیں بلکہ علی الصباح بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھ سے یہ حرکت سرزد ہوئی ، اسی طرح بعض کو یہ مشکل پیش آئی کہ جیسے حضرت قیس بن صرفہ (رض) انصاری دن بھر مزدوری کرکے شام کو گھر آئے تو کھانے کو کچھ نہ تھا۔ بیوی نے عرض کی کہ کہیں سے کوئی انتظام کرکے لاتی ہوں۔ مگر اس کے واپس آنے سے پہلے آنکھ لگ گئی اور روزہ بند۔ اب بیدار ہوئے مگر کچھ کھانے کی اجازت نہیں۔ دوسرے روز دوپہر کو نقاہت کی وجہ سے بےہوش ہوگئے چناچہ اللہ نے رات بھر کھانے پینے اور مباشرت کی اجازت دے دی اور روزہ بند کرنے کا وقت مقرر فرمادیا۔ اب خواہ کوئی سو کر اٹھے یا جس طرح بھی ، بلکہ سو کر اٹھے تو سحری کھانا سنت قرار پایا۔ یہاں یہی ارشاد ہوتا ہے کہ اب رمضان المبارک کی شب بیبیوں سے مباشرت تمہارے لئے حلال کردی گئی کہ تمہارے لئے مشکل تھا اور بعض حضرات سے اس کی خلاف ورزی ہوئی مگر ایک بات سن لو کہ محض شہوت رانی نہ ہو۔ میاں اور بیوی : بلکہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرو جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے مقرر فرما دیا ہے۔ ماکتب اللہ لکم ، یعنی یہ معاہدہ نکاح ایک مقدس عہد جسے کے ذریعے مرد اور عورت مل کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں۔ نسل انسانی کی بقاء کا مقدس کام کرتے ہیں۔ اب اس لئے ان کی آپس میں محبت ، تعاون اور ایک دوسرے کی خیر خواہی ایک دوسرے پر ضروری ہے تاکہ وہ دنیاکو اچھے انسان دیں معاشرے کو صالح افراد دیں۔ ایک ایسی نسل پیدا کریں اور اس کی اس طرح پرورش کریں اور اللہ کے پسندیدہ بندے ثابت ہوں۔ عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس۔ یہ لباس ہی زینت کا سبب بھی ہے اور گرمی سردی سے بچانے کا سبب بھی۔ یہ جسمانی عیوب بھی چھپاتا ہے اور انسان کا پردہ بھی رکھتا ہے اسی طرح تم باہم دگر ایک دوسرے کا بھرم رکھو ، عزت مال اور جان کی حفاظت کرو ، ایک دوسرے کو آرام پہنچانے کی کوشش کرو ، اللہ نے تمہاری مشکل آسان فرمادی۔ نیز جو اب تک تم خطا کرچکے معاف فرما دیا ہے اب تم کھائو پیو بھی اس وقت کہ صبح کی سفیددھاری ، سیاہ دھاری سے علیحدہ نظر آئے اور روزے کو رات تک پورا کرو۔ سنت کا مقام : یہاں جو حکم منسوخ ہوا وہ قرآن سے ثابت نہیں بلکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے مطابق اس پر عمل ہوتا تھا لیکن یہاں اسے حکم الٰہی قرار دیا گیا ہے کہ سنت سے ثابت حکم الٰہی میں سے ہے۔ لہٰذا اب سحری وافطاری کا واضح وقت مقرر فرمادیا کہ حتیٰ تبین یعنی جب تک تم پر صبح صادق کی سفید دھاری افق پر سیاہ دھاری سے یقینی طور پر واضح نہ ہوجائے کھانے پینے کی اجازت ہے وہم کی بنیاد پر پہلے روزہ بند کرلینا درست نہیں۔ جیسا کہ ارشاد ہے کہ حضرت بلال (رض) کی اذان تمہیں کھانے پینے سے نہ روکے کہ وہ رات سے اذان کہہ دیتے ہیں۔ ابن کلثوم (رض) کی اذان پر روزہ رکھو کہ وہ صبح صادق پہ اذان دیتے ہیں۔ مگر یہ سب ان لوگوں کے لئے ہے جن کو افق سامنے ہو اور سمجھ سکے ورنہ احتیاط کریں اور کسی سے پوچھ لیں یا اذان سن لیں۔ اگر کسی نے شبہ کی حالت میں یہ جان کر کھایا ابھی وقت ہے مگر بعد میں ثابت ہوا کہ وقت گزر چکا تھا تو گناہ اگرچہ نہ ہوگا مگر قضا لازم اور دوسری طرف رات تک روزہ پورا کرو۔ یعنی غروب آفتاب پر روزہ افطار ہوجائے گا پیشتر اس کے کہ رات چھا جائے الی الیل یعنی رات تک۔ اسے رات میں داخل نہ کرو۔ شیعہ حضرات جنہوں نے ایک متوازی اسلام بنانے کی کوشش کی ہے یہاں بھی تاخیر سے افطار کیا ہے کہ خوب رات چھا جائے تو افطار کرتے ہیں حالانکہ جب مشرق سے تاریکی اٹھے۔ اور سورج غروب ہو تو بیشتر اس کے کہ تاریکی پھیل جائے افطار کرنا چاہیے اگر کسی نے غلطی سے بادل وغیرہ کی وجہ سے ایک آدھ منٹ پہلے افطار کرلیا اور بعد میں ثابت ہوا کہ درست نہ تھا تو قضا لازم۔ مگر عمداً افطار میں پہل یا سحری میں تاخیر ہوئی تو کفارہ لازم ہوگا۔ اس لئے موذن حضرات کو خاص احتیاط لازمی ہے کہ ان کی اذان پر اکثر لوگ افطار کرتے ہیں۔ اب اس کے ساتھ اعتکاف کا حکم بھی واضح ہوا کہ یہ حلت مباشرت اعتکاف پر لاگو نہ ہوگی۔ اعتکاف خاص شرائط کے ساتھ مساجد میں ٹھہرنے کا نام ہے اور آخری عشرہ رمضان میں مسنون۔ مرد حضرات صرف مساجد میں اعتکاف کے لئے ٹھہر سکتے ہیں نیز ایسی مسجد جہاں نماز پنجگانہ باجماعت ہوتی ہو کہ جو مسجد کی تعمیر کا مقصد ہے اور کھانے پینے کے بارے میں تو حکم وہی ہے مگر مباشرت منع۔ فضول بات کرنا یا بغیر عذر مسجد سے باہر جانا درست نہیں۔ نیز اس کے دوسرے احکام اعتکاف کے لئے مفصل مذکور ہیں دیکھ لئے جائیں۔ تلک حدود اللہ فلا تقربوھا۔ (یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ان کے قریب ہی مت پھٹکو) اسی لئے روزہ میں مبالغہ نہ کرنا چاہیے یا بیوی سے بوس وکنار درست نہیں مکروہ ہے اور اوقات سحر وافطار میں ایک آدھ منٹ کی احتیاط بہتر ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھائو ، اور نہ حاکموں تک ایسی بات لے جائو کہ اس کے نتیجہ میں تم دوسروں کا مال کھاسکو۔ یہ اگلا حکم ہے جو ایک طرح سے روزے کا ماحصل بھی ہے کہ جب تم نے اللہ کے حکم سے جائز اور پاک مال ، جو تمہارے پاس موجود تھا نہ کھایا اور صبح سے شام تک روزہ رکھا جب افطار کیا وہی کھانا تمہارے لئے ثواب ہوا۔ حصول رزق کے معروف ذرائع اختیار کرنا ضروری ہیں : یہ تمہیں کب زیب دیتا ہے کہ دوسروں کا مال ناجائز طریقے سے حاصل کرکے کھائو ، یہ فعل تو عنداللہ بہت برا ہے۔ دراصل مال کی اچھائی یا برائی کا معیار کسب مال کے ذرائع یا طریقوں پر ہے جن پر ساری دنیا کی قوموں کا اتفاق ہے کہ یہ درست نہیں۔ جیسے چوری ، ڈاکہ یا فریب دہی وغیرہ سے اور کچھ ایسے بعض کے نزدیک جائز اور بعض کے نزدیک ناجائز ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر قوم کے لوگ جو کچھ سوچتے ہیں اس میں ان کے قومی مزاج اور قومی مفاد کو دخل حاصل ہوتا ہے۔ اسی لئے تو باوجود بین الاقوامی کانفرنسوں کے کوئی ایسا ضابطہ نہیں بنایا جاسکا جو ساری دنیا کے لئے قابل قبول ہو ، نتیجتاً جنگ وجدل ہوتی ہے اور ہورہی ہے۔ اسلام جو اللہ کا قانون ہے۔ ساری انسانیت کے لئے ہے اور خالق کائنات کی طرف سے ہے جس نے نہ صرف مخلوق پیدا کی ہے بلکہ خود ان کی ضروریات بھی تقسیم کی ہیں ، ان کی تکمیل کے اسباب مہیا فرمائے ہیں اور ان اسباب سے استفادہ کا طریقہ ارشاد فرمایا ہے اور یہی طریقہ امن عامہ اور سب کے حقوق کا محافظ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ ایک معقول اور فطری ضرورتوں کے مطابق جامع ضابطہ ہے مثلاً اشتراک کی اشیاء کو وقف عام رکھا ہے جس میں تمام انسان مساوی حقوق رکھتے ہیں جیسے ہوا ، پانی ، خودروگھاس ، غیر مملوک جنگلات وغیرہ۔ جن چیزوں کے اشتراک سے انسانی معاشرت میں خلل کا اندیشہ ہے ان میں انفرادی ملکیت کا قانون جاری فرمایا ہے پھر انتقال ملکیت کا ضابطہ علیحدہ اور پوری طرح یہ لحاظ رکھا گیا ہے کہ جو شخص بھی اپنی محنت ان چیزوں کے حصول پر خرچ کرے وہ ضروریات زندگی سے محروم نہ رہے اور نہ ہی دوسروں کے حقوق غصب کرکے انہیں نقصان پہنچا سکے۔ اسی لئے ان جملہ امور میں فریقین کی رضامندی ضروری قرار دی گئی ہے خواہ انتقال ملکیت یا بعد الموت انتقال وراثت ، مزدوری ہو یا بیع و شرا۔ اور جن چیزوں کو منع فرمایا ہے جو طریقے باطل ٹھہرے ہیں ان میں کہیں دھوکہ فریب ہے تو کہیں کسی کا حق غصب ہوتا ہے جیسے کسی نامعلوم چیز یا نامعلوم عمل کا معاوضہ اور کہیں حقوق عامہ پہ زد ہے ، جیسے جوا ، سود وغیرہ کہ ایسے امور باہمی رضامندی سے بھی جائز نہیں ہوسکتے پھر اکلوا اموالکم ، فرمایا کہ کسی کے مال میں ناجائز تصرف دراصل اپنے ہی مال کو ضائع کرنا ہے کہ جب یہ طریقہ چل نکلے گا تو اس کے اپنے مال کا انجام بھی ایسا ہی ہوگا مثلاً کسی نے دودھ میں پانی ملایا اور زائد پیسے حاصل کرلئے تو جب وہ گھی ، آٹا لینے جائے گا تو وہ ملاوٹ کرکے دگنے پیسے اس سے نکال لیں گے اب وہ مصالحہ لینے گیا اس نے اس سے یہی سلوک کیا۔ تو گویا سب لوگ ایک دوسرے سے زیادتی کے مرتکب ہو کر زمین پر فساد برپا کرنے کا سبب بن جائیں گے۔ کوئی بھی کسی پر ، کسی کے پر ناجائز طریقے سے نگاہ نہ رکھے اور نہ ہی جان بوجھ کر جھوٹے مقدمے بنائے کہ اس طرح دوسروں کا حق غصب کرے۔ نیز اسلام نے جہاں کسب مال کا طریقہ مقرر فرمایا ہے وہ مال خرچ کرنے کا سلیقہ بھی سکھادیا ہے کہ اس کے ضائع کرنے سے دوسروں کی اولاد اور ورثاء کے حقوق ضائع ہوتے ہیں اور مومن کی نگاہ صرف مال کے حصول پر نہ ہو بلکہ بنیادی بات اطاعت الٰہی ہے جو تعمیر آخرت اور ابدی زندگی کے لئے ضروری ہے۔ سو دنیا میں مال کا خرچ کرنا نہ صرف دنیا میں مفید ہو بلکہ دونوں عالم کی تعمیر کرنے والا ہو۔ نیز غذاء کو مزاج انسانی میں بڑا دخل ہے اگر حلال غذا ہوگی تو مزاج صالح ہوگا اور اعمال اچھے صادر ہوں گے۔ اگر حرام کھائے گا تو کبھی اچھائی نہ کرسکے گا اور نہ درست سوچ رکھے گا۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ حرام کھانے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی اور اس کی عبادت رائیگاں جاتی ہے اللہ تمام مسلمانوں کو اس بلا سے محفوظ رکھے ! آمین۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 183 تا 187 معدودات (معدودۃ، چند) ۔ عدۃ (مدت) ۔ ایام اخر (دوسرے دن ) ۔ یطیقونہ (اس کی طاقت ہو (اصل میں یہ لا یطیقونہ ہے یعنی جس کو اس کی طاقت نہ ہو) ۔ طعام مسکین (ایک غریب کا کھانا) ۔ تصوموا (تم روزہ رکھو) ۔ شھر (مہینہ) ۔ شھد (موجود، جو پائے ) ۔ لا یرید (نہیں چاہتا ہے) ۔ الیسر (آسانی، سہولت) ۔ العسر (تنگی ، دشواری) ، لتکملوا (تا کہ تم مکمل کرلو) ۔ لتکبروا ( تاکہ تم (اللہ ) کی بڑائی بیان کرو۔ سال (اس نے پوچھا) ۔ عبادی (میرے بندے) ۔ اجیب (میں جواب دیتا ہوں) ۔ دعان (مجھے پکارا (دعا ، ن ، ی) ۔ فلیستجیبوا (پھر قبول کرنا چاہئے) ۔ ولیؤمنوا (اور ایمان لانا چاہئے) ۔ احل (حلال کردیا گیا) ۔ الرفث (بےپردہ ہونا، عورتوں کا رغبت کرنا ) ۔ تختانون (تم خیانت کرتے ہو) ۔ باشروا (تم صحبت کرو) ۔ ابتغوا (تم تلاش کرو) ۔ الخیط الابیض (سفید دھاگہ (صبح صادق) ۔ الخیط الاسود (سیاہ دھاگہ (رات) ۔ اتموا (تم پورا کرو) ۔ الی اللیل (رات تک) ۔ عاکفون (اعتکاف کرنے والے، ٹھہرنے والے۔ تشریح : آیت نمبر 183 تا 187 عرب والے اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو بھوک ، پیاس اور شدید مشکلات میں حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کو باقاعدہ تربیت دیا کرتے تھے ، تا کہ وہ زیادہ سے زیادہ سختی برداشت کرنے کے عادی بن جائیں۔ وہ اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو تیزو تند ہواؤں کا مقابلہ کرنے کی بھی ٹریننگ دیا کرتے تھے۔ یہ چیز سفر اور جنگ کے ان حالات میں جبکہ ہوا کے تھپیڑوں سے واسطہ پڑتا تھا بہت کام آیت تھی۔ ۔ ۔۔ ایسے گھوڑے جو سدھائے گئے ہوں اور وہ ناموافق حالات کا مقا بلہ کرنے کے لئے تیار ہوں تو وہ ان کو صائم کہا کرے تھے۔ روزوں کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے حکم سے صبح سے شام تک کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے رکنے کی ایک ماہ تک تربیت حاصل کرتا ہے وہ بھی مشکل حالات میں صبرو تحمل سے برداشت کا عادی بن جاتا ہے جس سے اس کو نہ صرف اس دنیا میں فائدہ حاصل ہوتا ہے بلکہ آخرت کی ابدی راحتیں اس کے بدلے میں عطا کی جاتی ہیں۔ سال بھر میں 29 تا 30 دن تک روزے رکھے جاتے ہیں لیکن ان چند دنوں کی روحانی برکات پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان چند دنوں کی مشقت کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر نیک عمل کی جزا تو دس سے سات سو گنا تک ہے لیکن روزوں کی جزا وہ ہے جو حق تعالیٰ شانہ اپنے دست مبارک سے اس کو عطا فرمائیں گے۔ فرمایا گیا کہ اے مومنو ! یہ روزے صرف تم پر ہی فرض نہیں کئے گئے ہیں بلکہ تم سے پہلے جتنی بھی شریعتیں آئی ہیں ان سب کے ماننے والوں پر روزوں کو فرض کیا گیا تھا تا کہ تقویٰ اور پرہیز گاری کی صلاحیت پیدا ہو سکے۔ پھر فرمایا گیا کہ رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا وہ قرآن جو قیامت تک تمام انسانیت کے لئے ہدایت کی روشنی ہے وہ صراط مستقیم ہے جس میں واضح، دل نشین اور ہر الجھن کو دور کرنے کی کھلی دلیلیں موجود ہیں اگر تم نے رمضان کے مبارک مہینہ میں تقویٰ اور پرہیزگاری کے ساتھ قرآن کریم کے نور کو مشعل راہ بنا لیا تو یقیناً تمہیں راہ نجات مل جائے گی۔ ان آیتوں میں بیماروں اور مسافروں کے لئے خاص رعایتوں کا اعلان کیا گیا جن کا مقصد آسانیاں بہم پہنچانا ہے لوگوں کو مشکلات میں ڈالنا نہیں ہے۔ ان آیتوں میں ایک خاص بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ اس ماہ مبارک میں اللہ انسانوں سے بہت قریب ہوتا ہے وہ ان راتوں میں ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا بھی ہے اور جانتا بھی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جو تقویٰ ، پرہیزگاری، نور ایمان اور سچائیوں سے دلوں کو جگمگانے کا مہنہ ہے۔ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت براء بن عازب (رض) کی روایت مذکور ہے کہ ابتداء میں جب رمضان کے روزے فرض کئے گئے تو افطار کے بعد کھانے پینے اور بیویوں کے ساتھ قربت کی صرف اس وقت تک اجازت تھی جب تک سو نہ جائے پھر سو جانے کے بعد یہ ساری چیزیں حرام ہوجاتی تھیں لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے اجازت عطا فرما دی کہ دن میں جب کہ روزے کی حالت ہو۔ اعتکاف میں جو مسجدوں میں کیا جاتا ہے کے علاوہ راتوں کو بیویوں سے قربت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ یہ امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک خصوصیت ہے ورنہ گزشتہ امتوں میں اس کی اجازت نہیں تھی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ روزہ رکھنے سے عادت پڑے گی نفس کو اس کے متعدد تقاضوں سے روکنے کی اور اسی عادت کی پختگی بنیاد ہے تقوی کی یہ روزہ کی ایک حکمت کا بیان ہے لیکن حکمت کا اسی میں انحصار نہیں ہوگا خدا جانے اور کیا کیا ہزاروں حکمتیں ہوں گی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : روزہ دار اللہ تعالیٰ کا حکم مانتے ہوئے حلال چیزیں چھوڑدیتا ہے اس بناء پر اسے حرام چھوڑنا مشکل نہیں رہتا تزکیۂ نفس اور حقیقی تقو ٰی روزے سے حاصل ہوتا ہے بشرطیکہ روزے کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ سال کے گیارہ مہینے مسلمان کو حلال کھانے کی کھلی چھٹی تھی کہ وہ جو چاہے اور جس وقت چاہے کھاپی سکتا ہے۔ لیکن جونہی رمضان کا چاند نمودار ہوا یکدم اس پر پابندی لاگو کردی گئی کہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے کی کسی چیز کو خوردو نوش کی نیت سے ہاتھ نہ لگائے اور نہ بیوی سے جماع کرے۔ حرام کھانے پر تو دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہی قدغن لگ چکی تھی اب تو حلال پر بھی دن بھر کے لیے پابندی عائد کردی گئی۔ گیارہ مہینے کی آزاد طبیعت کو اس پابندی کا خوگر بنانے کے لیے اس کے نفسیاتی پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے فرمایا ہے کہ روزے تم پر ہی نہیں بلکہ تم سے پہلی امّتوں اور ملّتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔ بس یہ گنتی کے چنددن ہیں حوصلہ کیجیے یہ دیکھتے ہی دیکھتے گزر جائیں گے۔ ہاں اگر کوئی تم میں سے ان دنوں میں بیمار ہو یا اسے سفر درپیش ہو تو وہ اتنے دن کے روزے بعد میں پورے کرے۔ یہاں مریض کو یہ اختیار دیا جارہا ہے کہ رمضان کے مہینے میں تکلیف کی وجہ سے اس سے جتنے روزے چھوٹ جائیں وہ سال کے گیارہ مہینوں میں جب چاہے ان کی گنتی پوری کرسکتا ہے۔ اس میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جو بچے کی پیدائش یا اس کے دودھ پینے کی صورت میں روزہ نہ رکھ سکتی ہوں۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں : (کَانَ یَکُوْنُ عَلَیَّ الصَّوْمُ مِنْ رَمَضَانَ فَمَا أَسْتَطِیْعُ أَنْ أَقْضِیَ إِلَّا فِیْ شَعْبَانَ ) [ رواہ البخاری : کتاب الصوم، باب متی یقضی قضاء رمضان ] ” میرے ذمّہ رمضان کے کچھ روزے ہوتے جنہیں میں شعبان کے علاوہ کسی مہینے میں نہیں رکھ سکتی تھی۔ “ البتہ دائمی مریض جسے بظاہر بیماری سے نجات پانے کی کوئی امید نہ ہو تو وہ کسی مستحق کو رمضان کے چھوڑے ہوئے روزوں کی گنتی کے مطابق فدیہ دے گا۔ سفر میں روزے کے حوالے سے رسول رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قدر نرمی اور آسانی کا ماحول پیدا فرمایا کہ فتح مکہ کے سفر میں جہاد اور موسم کی شدت کے پیش نظر آپ نے نہ صرف لوگوں کو روزہ توڑنے کا حکم دیا بلکہ نماز عصر کے بعد اپنی سواری پر جلوہ افروز ہو کر لوگوں کو دکھا کر پانی نوش فرمایا۔ حالانکہ سورج غروب ہونے میں تھوڑا ہی وقت باقی تھا۔[ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب غزوۃ الفتح فی رمضان ] اسی سنّتِ مبارکہ کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام (رض) سفر میں روزہ چھوڑنے کو قابل اعتراض نہیں سمجھتے تھے اور نہ ہی سفر میں روزہ رکھنے کو غیرمعمولی نیکی تصور کرتے تھے۔ جہاں تک سفر کی مسافت کا تعلق ہے آپ کے مختلف اسفار کو سامنے رکھتے ہوئے سفر کی مسافت کے تعیّن کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ امام بخاری (رح) ، امام احمد بن حنبل (رح) اور امام ابوحنیفہ (رض) 48 میل سے کم مسافت کو سفر شمار نہیں کرتے۔ جب کہ دوسرے علماء اپنے شہر کی حدود کے باہر 13 میل تقریبًا 23 کلو میٹر کو سفر تصور کرتے ہیں۔ آیت کے آخر میں تدریجی حکمت عملی کا خیال رکھتے ہوئے پہلے اجازت دی گئی کہ جو روزہ نہیں رکھنا چاہتا وہ کسی مسکین کو فدیہ دے تاہم روزہ رکھنا بہتر ہے۔ بعد ازاں اگلی آیت میں اس حکم کو منسوخ فرما کر معذورین کے سوا سب پر روزہ فرض کردیا گیا۔ روزہ فارسی کا لفظ ہے عربی میں اسے صوم کہا جاتا ہے۔ عربی ڈکشنری کے لحاظ سے روزہ کا لغوی معنی ہے کسی کام سے رک جانا ‘ شرعی اصطلاح میں صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے ‘ جماع کرنے سے رک جانے اور فسق وفجور سے بچنے کا نام روزہ ہے۔ برکات رمضان (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إذَا کَانَتْ اَوَّلُ لَےْلَۃٍ مِّنْ رَمَضَانَ صُفِّدَتِ الشَّےَاطِےْنُ وَمَرَدَۃُ الْجِنِّ وَغُلِّقَتْ اَبْوَاب النَّارِ فَلَمْ ےُفْتَحْ مِنْھَا بَابٌ وَفُتِحَتْ اَبْوَابُ الْجَنَّۃِ فَلَمْ ےُغْلَقْ مِنْھَا بَابٌ وَنَادٰی مُنَادٍ ےَا بَاغِیَ الْخَےْرِ اَقْبِلْ وَ ےَا بَاغِیَ الشَّرِّاَقْصِرْ وَلِلّٰہِ عُتَقَاءٌ مِّنَ النَّارِ وَذٰلِکَ فِیْ کُلِّ لَےْلَۃٍ ) [ رواہ ابن ماجۃ، کتاب الصیام، باب ماجاء فی فضل شہر رمضان ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رمضان کی پہلی رات شیاطین اور سرکش جن گرفتار کرلیے جاتے ہیں اس کے ساتھ ہی جہنم کے تمام دروازے بند کردیے جاتے ہیں ان میں کوئی ایک دروازہ بھی کھلا نہیں رہنے دیا جاتا پھر جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک دروازہ بھی بند نہیں رہنے دیا جاتا اور ایک منادی کرنے والافرشتہ اعلان کرتا ہے اے بھلائی کے چاہنے والے ! آگے بڑھ اور اے شر کے خوگر ! رک جا۔ اور اللہ تعالیٰ دوزخ سے لوگوں کو آزاد کرتے ہیں اور یہ آزادی رمضان کی ہر رات ہوتی ہے۔ “ فضیلت صوم (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) یَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ کُلُّ عَمَلِ ابْنِ اٰدَمَ لَہُ إِلَّا الصِّےَامَ فَإِنَّہُ لِیْ وَأَنَا أَجْزِیْ بِہِ وَالصِّےَامُ جُنَّۃٌ فَإِذَا کَانَ ےَوْمُ صَوْمِ أَحَدِکُمْ فَلَا ےَرْفُثْ وَلَا ےَصْخَبْ فَإِنْ سَابَّہُ اَحَدٌ اَوْقَاتَلَہُ فَلْےَقُلْ إِ نِّی امْرُؤٌ صَاءِمٌ وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِےَدِہٖ لَخَلُوْفُ فَمِ الصَّاءِمِ أَطْےَبُ عِنْدَاللّٰہِ مِنْ رِےْحِ الْمِسْکِ للصَّاءِمِ فَرْحَتَانِ ےَفْرَحُھُمَا اِذَا اَفْطَرَ فَرِحَٖ وَاِذَا لَقِیَ رَبَّہُ فَرِحَ بِصَوْمِہٖ ) [ رواہ البخاری : کتاب الصوم، باب ھل یقول إنی صائم ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ابن آدم کا ہر عمل اس کی ذات کے لیے ہے مگر روزہ میرے لیے ہے اس لیے میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ روزہ ڈھال ہے جب تم میں کوئی روزہ دار ہو تو وہ فحش گوئی اور بد کلامی سے اجتناب کرے۔ اگر کوئی اس سے گالی گلوچ یا لڑنے کی کوشش کرے تو وہ فقط اسے اتنا کہے کہ میں روزہ دار ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہوگی۔ روزہ دار کے لیے خوشی کے دو مواقع ہیں جن سے وہ مسرت و انبساط حاصل کرتا ہے اولاً جب وہ روزہ افطار کرتا ہے۔ ثانیاً جب قیامت کے دن اپنے رب سے روزہ کے بدلے میں انعام پائے گا تو انتہائی خوش ہوگا۔ “ ثواب کی حدہی نہیں (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آَدَمَ ےُضَاعَفُ الْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ اَمْثَالِھَا إِلٰی سَبْعِمِاءَۃِ ضِعْفٍ قَال اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ إِلَّا الصَّوْمَ فَإِنَّہُ لِیْ وَاَنَا أُجْزٰیْ بِہٖ ) [ رواہ مسلم : کتاب الصیام، باب فضل الصیام ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آدمی کے ہر اچھے عمل کا اجر دس سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ لیکن روزے کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ “ دومقبول ترین سفارشی (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍ و (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال الصِّےَامُ وَالْقُرْاٰنُ ےَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ ےَوْمَ الْقِےَامَۃِ ےَقُوْلُ الصِّےَامُ اَیْ رَبِّ مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ وَالشَّھْوَات بالنَّھَارِ فَشَفِّعْنِیْ فِےْہِ وَےَقُوْلُ الْقُرْاٰنُ مَنَعْتُہُ النَّوْمَ بالَّلے ْلِ فَشَفِّعْنِيْ فِےْہِ قَالَ فَےُشَفَّعَانِ ) [ مسند أحمد : کتاب مسند المکثرین من الصحابۃ، باب مسند عبدا اللہ ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) ذکر کرتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کے لیے سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا اے میرے رب ! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور خواہشات سے روکے رکھا لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔ قرآن کہے گا اے میرے رب ! میں نے اس بندے کو تلاوت کی وجہ سے سونے سے روکے رکھا لہٰذا اس کے بارے میں میری گذارش قبول فرما۔ اللہ تعالیٰ دونوں کی سفارش قبول فرما لیں گے۔ “ (عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْد (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِنَّ فِی الْجَنَّۃِ بَابًا ےُقَالُ لَہُ الرَّیَّانُ ےَدْخُلُ مِنْہُ الصَّآءِمُوْنَ ےَوْمَ الْقِےَامَۃِ لَا ےَدْخُلُ مِنْہُ اَحَدٌ غَےْرُھُمْ ) [ رواہ البخاری : کتاب الصوم، باب الریان للصائمین ] ” حضرت سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ! جنت کے ایک دروازے کا نام ہی ” الریان “ رکھ دیا گیا ہے۔ جس سے قیامت کے دن روزہ دار گزر کر جنت میں داخل ہوں گے۔ ان کے علاوہ اس دروازے سے کوئی دوسرا داخل نہیں ہو سکے گا۔ “ مسلمان پر ارکان اسلام فرض ہیں اور ہر مسلمان ان کی ادائیگی کا پابند ہے۔ حدیث میں ارشاد ہوا کہ جنت کے دروازے کا نام یہ اور یہ رکھا گیا ہے۔ آدمی کو اس نیکی کی بناء پر خصوصی طور پر مخصوص دروازے سے بلایا جائے گا اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ باقی ارکان اور نیکیاں کرنے کے ساتھ اس نیکی میں زیادہ رغبت اور لذّت محسوس کرتا ہے اس فرمان کے ساتھ جذبہ اور ترغیب پیدا کرنا مقصودبھی ہے کہ مومن کو ہر نیکی پوری توجہ اور للہیت سے ادا کرنی چاہیے۔ جو لوگ ہر نیکی رغبت سے کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو جنت کے تمام دروازوں سے بلایا جائے گا۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر (رض) کے ایک سوال کے جواب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ابوبکر تو انہی حضرات میں شامل ہے جنہیں جنت کے ہر دروازے سے پکارا جائے گا۔ [ رواہ البخاری : کتاب الصوم، باب الریان للصائمین ] روزے کا مقصد گناہوں سے بچنا ہے۔ اگر سنّت کے مطابق کچھ بھوک رکھ کر روزہ رکھا جائے تو آدمی گناہوں کی معافی کے ساتھ کئی بیماریوں سے بچ سکتا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں میری کتاب : برکات رمضان) مسائل ١۔ روزے ہر امت پر فرض تھے۔ ٢۔ روزے کا مقصد تقو ٰی میں اضافہ کرنا ہے۔ ٣۔ بیماری اور سفر کی وجہ سے چھوڑے ہوئے روزے بعد میں پورے کرنا فرض ہے۔ ٤۔ روزہ رکھنا ہر لحاظ سے بہتر ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں میری کتاب ” برکات رمضان “ ) ٥۔ تقویٰ نام ہے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور گناہوں سے بچنے کا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ فرائض اور تکلیفات پر عمل کرنے کے لئے انسان کے نفس کو بڑی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں انسان اللہ کی خصوصی امداد کا محتاج ہے ۔ اس بات کی ضرورت تھی کہ ان احکامات پر عمل کرنے کے لئے ان میں اسپرٹ پیدا کی جائے ۔ ان کی روح ان احکامات کی طرف مائل ہوجائے تاکہ وہ مطمئن ہوجائے اور عمل پر راضی ہوجائے ۔ حالانکہ ان احکام پر عمل کرنے میں خود اس کا مفاد مضمر ہے ۔ چناچہ اسی خاطر بہت ہی پیاری آواز میں پکارا گیا ۔” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو “ غور کیجئے ، یہ آواز انہیں ان کی اصل حقیقت یاد دلاتی ہے ۔ پھر روزہ فرض ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے اور یہ تو پہلی امتوں پر بھی فرض ہوتا رہا ہے ۔ کوئی نئی بات تو نہیں ہے ۔ اس کا مقصداہل ایمان کے دلوں کو صاف کرنا ہے۔ انہیں خوف خدا کے لئے تیار کرنا ہے اور ان میں اللہ کی مشیت کا احساس و شعور بیدار کرنا ہے ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ، تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں ، جس طرح تم سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) کے پیروؤں پر فرض کئے گئے تھے ، اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ “ اس آیت میں روزے کی اصلی غرض وغایت ظاہر ہوجاتی ہے ، یعنی تقویٰ جب ایک مومن اللہ کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اور اللہ کی رضا کی خاطر روزہ رکھتا ہے تو اس کے دل میں تقویٰ کا شعور اجاگر ہوجاتا ہے۔ یہ تقویٰ ہی ہے جو دلوں کا نگہبان ہے اور جو انسان کو روزے کے احکام کی خلاف ورزی سے بچاتا ہے ۔ اگرچہ وہ ایسی معصیت سے بھی انسان کو بچاتا ہے ، جو کسی حد تک محض وسوسہ ہو ۔ قرآن کریم کے اول مخاطب صحابہ کرام اس کے معنی سے اچھی طرح واقف تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ اللہ کے ہاں تقویٰ کس قدر وزنی ہے ۔ اس لئے تقویٰ ہی ان کا نصب العین تھا ۔ وہ برابر اس کی طرف بڑھتے جاتے تھے اور روزہ ذرائع حصول تقویٰ میں سے چونکہ ایک ذریعہ ہے اس لئے یہ فرض کیا گیا ۔ دراصل روزہ وہ راہ ہے جس کی آخری منزل تقویٰ ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ یہاں قرآن مجید ، ایک بلندمقام پر ، بالکل سامنے تقویٰ کا ایک روشن نشان رکھ دیتا ہے اور اہل ایمان کی آنکھیں اس نشانہ پر جم جاتی ہیں اور وہ روزہ کے واسطے اور روزے کی امداد سے وہاں تک پہنچنے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں ۔ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ” تاکہ تم ڈرو۔ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رمضان کے روزوں کی فرضیت اور ان کے ضروری احکام ان آیات میں رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کا اعلان اور اظہار فرمایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے (١) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ (حضرت) محمد (مصطفے ٰ ) (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ (٢) نماز قائم کرنا۔ (٣) زکوٰۃ ادا کرنا۔ (٤) حج کرنا۔ (٥) رمضان کے روزے رکھنا۔ (صحیح بخاری ص ٦ ج ١) نماز اور روزہ دونوں بدنی عبادتیں ہیں اور زکوٰۃ مالی عبادت ہے اور حج میں مال بھی خرچ ہوتا ہے۔ بدنی محنت بھی ہوتی ہے اس لیے وہ بدنی عبادت بھی ہے اور مالی عبادت بھی ہے۔ نماز تو نبوت کے پانچویں ہی سال مکہ معظمہ میں فرض ہوگئی تھی جو شب معراج میں عطا کی گئی۔ اور رمضان شریف کے روزے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ٢ ھ میں فرض ہوئے۔ جس طرح نماز اور زکوٰۃ پہلی امتوں پر فرض تھی اسی طرح سے روزے بھی ان پر فرض تھے۔ (کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ ) میں یہ بتایا ہے کہ روزے کوئی نئی چیز نہیں ہیں یہ پہلی امتوں پر بھی فرض ہوئے تھے انہوں نے بھی روزے رکھے تم بھی رکھو۔ روزہ سے صفت تقویٰ پیدا ہوتی ہے : پھر روزہ کی حکومت اور فائدہ بتاتے ہوئے فرمایا (لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ) روزے رکھنے سے نفس کے تقاضوں پر زد پڑتی ہے اور قوی شہوانیہ میں ضعف آتا ہے اور تقویٰ صغیرہ و کبیرہ ظاہرہ اور باطنہ گناہوں سے بچنے کا نام ہے۔ آیت کریمہ میں بتایا کہ روزہ کی فرضیت تقویٰ حاصل کرنے کے لیے ہے۔ بات یہ ہے کہ انسان کے اندر بہیمیت کے جذبات ہیں۔ نفسانی خواہشات ساتھ لگی ہوئی ہیں اور نفس کا ابھار معاصی کی طرف ہوتا رہتا ہے۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس سے بہیمیت کے جذبات کمزور ہوتے ہیں اور نفس کا ابھار کم ہوجاتا ہے اور شہوات و لذات کی امنگ گھٹ جاتی ہے۔ پورے رمضان کے روزے رکھنا ہر عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے۔ ایک مہینہ دن میں کھانے پینے اور جنسی تعلقات کے مقتضیٰ پر عمل کرنے سے اگر باز رہے تو باطن کے اندر ایک نکھار اور نفس کے اندر سدھار پیدا ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی شخص روزے ان احکام و آداب کی روشنی میں رکھ لے جو احادیث میں وارد ہوئے ہیں تو واقعتہً نفس کا تزکیہ ہوجاتا ہے۔ جو گناہ انسان سے سر زد ہوجاتے ہیں ان میں سب سے زیادہ دو چیزیں گناہ کا باعث بنتی ہیں۔ ایک منہ، دوسری شرمگاہ، حضرت امام ترمذی (رح) نے حضرت ابوہریرہ سے روایت نقل کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ سب سے زیادہ کون سی چیز دوزخ میں داخل کرنے کا ذریعہ بنے گی۔ آپ نے جواب دیا : الفمّ والفرج یعنی منہ اور شرمگاہ۔ (ان دونوں کو دوزخ میں داخل کرانے میں زیادہ دخل ہے) ۔ روزہ میں منہ اور شرمگاہ دونوں پر پابندی ہوتی ہے اور مذکورہ دونوں راہوں سے جو گناہ ہوسکتے ہیں روزہ ان سے باز رکھنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے اسی لیے تو ایک حدیث میں فرمایا کہ (اَلصِّیَامُ جُنَّۃٌ) یعنی روزہ ڈھال ہے۔ (گناہ سے اور آتش دوزخ سے بچاتا ہے۔ (بخاری ص ٢٥٤ ج ١) اگر روزہ کو پورے اہتمام اور احکام وآداب کی مکمل رعایت کے ساتھ پورا کیا جائے تو بلاشبہ گناہوں سے محفوظ رہنا آسان ہوجاتا ہے۔ خاص روزہ کے وقت بھی اور اس کے بعد بھی اگر کسی نے روزہ کے آداب کا خیال نہ کیا روزہ کی نیت کرلی کھانے پینے اور خواہش نفسانی سے باز رہا مگر حرام کمانے اور غیبت کرنے میں لگا رہا تو اس سے فرض تو ادا ہوجائے گا مگر روزہ کی برکات وثمرات سے محرومی رہے گی۔ جیسا کہ سنن نسائی میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا (اَلصِّیَامُ جُنَّۃٌ مَا لَمْ یَخْرِقْھَا) (یعنی روزہ ڈھال ہے جب تک کہ اس کو پھاڑ نہ ڈالے) اور ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ : من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للّٰہ حاجۃٌ فی ان یدعہ طعاع و شرابہ۔ جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹی بات اور غلط کام نہ چھوڑے تو اللہ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ (گناہوں کو چھوڑے بغیر) محض کھانا پینے چھوڑ دے۔ (بخاری ص ٢٥٥ ج ١) معلوم ہوا کہ کھانا پینا اور جنسی تعلقات چھوڑ نے ہی سے روزہ کامل نہیں ہوتا بلکہ روزہ کو فواحش و منکرات اور ہر طرح کے گناہوں سے محفوظ رکھنا لازم ہے روزہ منہ میں ہو اور آدمی بد کلامی کرے یہ اس کے لیے زیب نہیں دیتا۔ اسی لیے سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا (وَ اِذَا کَانَ یَوْمُ صَوْمْ اَحَدِکُمْ فَلَا یَرْفَثْ وَلاَ یَصْخَبْ فَاِنْ سَابَّہٗ اَحَدٌ اَوْ قَاتلَہٗ فَلْیَقُلْ اِنِّیْ اِمْرَءٌ صَاءِمٌ) (یعنی جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو گندی باتیں نہ کرے۔ شور نہ مچائے، اگر کوئی شخص گالی گلوچ یا لڑائی جھگڑا کرنے لگے تو (اس کو گالی گلوچ سے جواب نہ دے بلکہ) یوں کہہ دے کہ میں روزہ دار آدمی ہوں۔ (گالی گلوچ کرنا یا لڑائی کرنا میرا کام نہیں) ۔ (بخاری ص ٢٥٥ ج ١) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا فخر بنی آدم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کے لیے (حرام کھانے یا حرام کرنے یا غیبت کرنے کی وجہ سے) پیاس کے علاوہ کچھ نہیں اور بہت سے تہجد گزار ایسے ہیں جن کے لیے (ریا کاری کی وجہ سے) جاگنے کے سوا کچھ نہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ١٧٧)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

337 یہاں سے امور مصلحہ کا بیان شروع ہوتا ہے۔ سب سے پہلے روزہ کا حکم فرمایا۔ اس سے پہلے وصیت میں گڑ بڑ کر کے کسی کا حق مارنے سے منع فرمایا اور آگے چل کر وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِسے دوبارہ مال حرام کھانے سے ممانعت فرمائی۔ ان دونوں انتظامی امور کے درمیان ایک امر مصلح یعنی روزہ کا ذکر فرمایا کیونکہ روزہ مال حرام سے اجتناب میں ممد ومعاون ہے بایں طور کہ روزہ سے قرب خداوندی حاصل ہوتا ہے۔ خدا کی محبت اور نیکی کی رغبت بڑھتی ہے۔ باطن پاک وصاف ہوجاتا ہے اور دل گناہوں سے پاک اور مال حرام سے متنفر ہوجاتا ہے چناچہ اسی نکتہ کے لیے احکام روزہ کے درمیان فرمایا۔ وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌالخ۔ کیونکہ ایک روزہ سے انسان ستر سال کی مسافت سے بھی زیادہ خداوند تعالیٰ سے نزدیک ہوجاتا ہے۔ 338 یعنی روزے صرف تم پر ہی فرض نہیں کیے گئے بلکہ تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض تھے اور یہ تشبیہ تمام اوصاف میں نہیں ہے بلکہ نفس وجوب میں ہے۔ روزہ ہر پیغمبر کی شریعت میں فرض رہا ہے۔ البتہ روزوں کی تعداد اور وقت میں فرق تھا۔ علی الانبیاء والامم من لدن آدم (علیہ السلام) الی عہدکم فھو عبادۃ قدیمۃ (مدارک ص 73 ج 1) لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ۔ یہاں روزہ کی غرض وغایت بیان فرمائی ہے کہ روزہ بظاہر فاقہ اور تکلیف معلوم ہوتا ہے مگر اس میں تمہارے لیے روحانی فوائد ہیں اور اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ تم روزے رکھنے سے متقی اور پرہیز گار بن جاؤگے۔ کیونکہ روزہ رکھنے سے قوت شہوانیہ ضعیف ہوجائے گی اور نفس کی خواہش مرغوبات نفسانیہ کی طرف کم ہوجائے گی جس کا نتیجہ گناہوں سے بچنے اور نیکی کے کاموں میں رغبت کی صورت میں ظاہر ہوگا اور یہی تقویٰ ہے اس روحانی تزکیہ کے علاوہ روزہ سے بدن کی اصلاح بھی ہوتی ہے اس لیے مادی اور روحانی دونوں قسم کے فوائد کا حامل ہے۔ ۙاَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ ۔ یہ کُتِبَ کا مفعول فیہ ہے۔ نصب علی الظرف لکتب ای کتب علیکم الصیام فی ایام (قرطبی ص 256 ج 2) اور ایام معدودات (گنتی کے چند دن) سے مراد ماہ رمضان ہے اور یہ حوصلہ بڑھانے کے لیے فرمایا کہ روزے کوئی زیادہ نہیں ہیں بلکہ گنتی کے چند دن ہیں۔ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍالخ روزہ کی فرضیت کا حکم دینے کے بعد معذورین کے لیے رعایت کا اعلان فرمادیا کہ جو مسلمان بیمار ہو اور روزہ کی طاقت نہ رکھتا ہو یا کسی شخص کو رمضان میں لمبا سفر پیش آئے تو ان کو اجازت ہے کہ وہ رمضان میں روزہ نہ رکھیں اور جتنے روزے ان سے چھوٹ جائیں رمضان کے بعد ان کی قضا دے کر ماہ رمضان کے روزوں کی تعداد پوری کرلیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 5 اے ایمان والو ! جس طرح تم سے پہلی امتوں کے لوگوں پر روزے فرض کیا گیا تھا اور گذشتہ اقوام کو روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا تھا اسی طرح تم پر بھی اے امت محمدیہ روزہ فرض کیا گیا ہے توقع ہے کہ تم پر پرہیز گاری اور تقوے کے خوگر ہوجائو گے۔ (تیسیر) صبح صدق سے لیکر آفتاب کے چھپنے اور آفتاب کے غروب ہونے تک جملہ ماکولات و مشروبات اور جماع سے رکنے اور پرہیز کرنے کا نام روزہ ہے ۔ تشبیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی امتوں پر بھی روزہ فرض تھا مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کے روزوں کی کیفیت اور نوعیت کیا تھی۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت آدم علیہ الصلام پر صرف ایام بیض کے روزے فرض تھے یعنی ہر مہینے کی تیرہ ، چودہ، پندرہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت پر ہر ہفتہ کا روزہ فرض تھا اور عشرے کی دسویں تاریخ کا روزہ فرض تھا۔ نصاریٰ کے متعلق ابن حنظلہ کی روایت سے اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ ان پر رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے پھر ان کا کوئی بادشاہ بیمار ہوا تو اس کی رعایا نے منت مانی کہ اگر ہمارا بادشاہ اچھا ہوجائے گا تو ہم دس روزے بڑھا لیں گے چناچہ بادشاہ کو صحت ہوگئی تو انہوں نے تیس کے چالیس کرلئے پھر کوئی دوسرا بادشاہ بیمار ہوگیا تو اس کی صحت پر سات روزے اور بڑھا لئے پھر کسی بادشاہ نے تین بڑھا کر پورے پچاس کرلئے اور بجائے قمری حساب کے اپنا رمضان بہار کے موسم میں مقرر کرلیا۔ بہر حال قرآن سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ پہلی امتیں بھی وجوب صوم میں امت محمدیہ کی شریک ہیں مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ روزے کا وقت ان کے ہاں کیا تھا۔ عشاء کے وقت سے لیکر دوسرے دن کی مغرب تک تھا۔ جیسا کہ درمنشور کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ امت محمدیہ میں بھی ابتداء یہی وقت تھا پھر بجائے عشا کے صبح صادق کا وقت مقرر ہوا یا ان امتوں کے روزے صبح صادق ہی سے شروع ہوتے تھے امم سابقہ کا ذکر اس لئے فرمایا تاکہ روزہ لوگوں پر آسان ہوجائے اور ہر مسلمان یہ سمجھے کہ یہ کوئی نئی عبادت نہیں ہے جو صرف ہم پر ہی فرض ہوئی ہے بلکہ ہم سے پہلوں پر بھی فرض تھا اس بات سے قدرے تسکین ہوجائیگی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت کے تیسرے سال رمضان کے روزے فرض ہوئے ہیں اور آپ کو اپنی مقدس زندگی میں آٹھ رمضان کے روزے رکھنے کا اتفاق ہوا ہے ان آٹھ میں سے پانچ رمضان کا چاند تو انتیس کا ہوا ہے اور باقی تین میں چار تیس کا ہوا ہے۔ تتقون کا مطلب یہ نہیں کہ بس صرف یہی حکمت ہے کہ تم متقی بن جائو بلکہ روزوں کی بیشمار مصلحتوں میں سے ایک حکمت اور مصلحت کا ذکر فرما دیا جو نمایاں تھی اور یہواقعہ ہے کہ روزے کو پرہیز گاری میں بڑا دخل ہے کیونکہ روزہ رکھنے سے نفس کو خواہشات سے روکنے کی عادت پڑے گی اور نفس کو خواہشات سے روکنا ہی تقویٰ کی بنیاد ہے۔ حضرت شاہ (رح) فرماتے ہیں یعنی روزے سے سلیقہ آ جاوے جی روکنے کا تو ہر جگہ روک سکو۔ (موضح القرآن) شاہ صاحب (رح) پر خدا کی رحمتیں نازل ہوں کیا خوب فرمایا اور کس قدر مختصر فرمایا۔ اب آگے اور سہولتیں اور رعاتیں ذکر کی جاتی ہیں ارشاد ہوتا ہے۔ ( تسہیل )