Commentary Literally, Sawm صوم means to abstain&. In the terminology of Islamic law, Sawm صوم means &to abstain from eating, drinking and sexual inter-course; with the conditions that one abstains continuously from dawn to sunset and that there is an intention to fast&. Therefore, should one eat or drink anything even a minute before sunset, the fast will not be valid. Similarly, if one abstained from all these things throughout the day but made no intention to fast, there will be no fast here too. Sawm or &fasting& is an ` ibadah, an act of worship in Islam, regarded as its pillar and sign. The merits of fasting are too numerous to be taken up at this point. Past communities and the injunction to fast The verse makes it obligatory for the Muslims to fast in a specified period, but the command in this respect has been accompanied by the statement that the obligation of fasting is not peculiar to them. The fasting had also been enjoined upon the earlier Ummahs (communities of the past prophets). The reference to the earlier Ummahs in the verse shows the importance of fasting on the one hand, and gives an encouragement to the Muslims on the other. It indicates that although there may be some inconvenience in fasting but the same inconven¬ience was also faced by the earlier communities. This brings a psycho-logical comfort to the Muslims, because if an inconvenience is faced by a large number of people, it becomes easier to bear. (Rub al-Ma` am) The words of the Qur&an, لَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ (those before you) have been used in a general sense including all religious communities from Sayyidna Adam (علیہ السلام) to the last of the Prophets (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . This tells us that, like Salah, fasting has also been enjoined upon every .Ummah of every prophet without an exception. Commentators who interpret مِن قَبْلِكُمْ (before you) to mean the Christians& take it just as an example, not aiming to exclude other communities. (Ruh al-Ma` ani) The verse simply says that fasts have been enjoined on Muslims as were enjoined on past communities. From this it does not necessarily follow that the fasts enjoined upon the earlier communities were fully identical in all respects with the fasts enjoined upon this Ummah. There may have been differences in the number and the timings of the fasts etc. and, actually, there has been such a difference. (Ruh al Ma’ ani) By saying لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (so that you be God-fearing), the text has pointed out to the inherent quality of fasting which contributes significantly to one&s ability to become abstaining from the sins and God-fearing. Fasting grows into man a power which helps him control his desires, which is really the foundation of Taqwa تقویٰ , the very special term of the Holy Qur&an which has been tentatively translated as fear of God, abstinence, and the warding of evil.
خلاصہ تفسیر : حکم سوم صوم : اے ایمان والو تم پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے (امتوں کے) لوگوں پر فرض کیا گیا تھا اس توقع پر کہ تم (روزہ کی بدولت رفتہ رفتہ) متقی بن جاؤ (کیونکہ روزہ رکھنے سے عادت پڑے گی نفس کو اس کے متعدد تقاضوں سے روکنے کی اور اسی عادت کی پختگی بنیاد ہے تقویٰ کی سو) تھوڑے دنوں روزہ رکھ لیا کرو (ان تھوڑے دنوں سے مراد رمضان ہے جیسا اگلی آیت میں آتا ہے) پھر (اس میں بھی اتنی آسانی ہے کہ) جو شخص تم میں (ایسا) بیمار ہو (جس کو روزہ رکھنا مشکل یا مضر ہو) یا (شرعی) سفر میں تو (اس کو رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اور بجائے رمضان کے) دوسرے ایام کا (اتنا ہی) شمار (کرکے ان میں روزہ) رکھنا (اس پر واجب ہے) اور (دوسری آسانی جو بعد میں منسوخ ہوگئی یہ ہے کہ) جو لوگ روزے کی طاقت رکھتے ہوں (اور پھر روزہ رکھنے کو دل نہ چاہے تو) ان کے ذمہ (صرف روزے کا) فدیہ (یعنی بدلہ) ہے کہ وہ ایک غریب کا کھانا (کھلا دینا یا دیدینا) ہے اور جو شخص خوشی سے (زیادہ) خیر (خیرات) کرے (کہ زیادہ فدیہ دیدے) تو یہ اس شخص کے لئے اور بہت رہے اور (گو ہم نے آسانی کے لئے ان حالتوں میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت دے دی ہے لیکن) تمہارا روزہ رکھنا (اس حالت میں بھی) زیادہ بہتر ہے اگر تم (کچھ روزے کی فضیلت کی) خبر رکھتے ہو، معارف و مسائل : صوم کے لفظی معنی امساک یعنی رکنے اور بچنے کے ہیں اور اصطلاح شرع میں کھانے پینے اور عورت سے مباشرت کرنے سے رکنے اور باز رہنے کا نام صوم ہے بشرطیہ وہ طلوع صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک مسلسل رکا رہے اور نیت روزہ کی بھی ہو اس لئے اگر غروب آفتاب سے ایک منٹ پہلے بھی کچھ کھا پی لیا تو روزہ نہیں ہوا اسی طرح اگر ان تمام چیزوں سے پرہیز تو پورے دن پوری احتیاط سے کیا مگر نیت روزہ کی نہیں کی تو بھی روزہ نہیں ہوا، صوم یعنی روزہ ان عبادات میں سے ہے جن کو اسلام کے عمود اور شعائر قرار دیا گیا ہے اس کے فضائل بیشمار ہیں جن کے تفصیلی بیان کا یہ موقع نہیں۔ پچھلی امتوں میں روزہ کا حکم : روزے کی فرضیت کا حکم مسلمانوں کو ایک خاص مثال سے دیا گیا ہے حکم کے ساتھ یہ بھی ذکر فرمایا کہ یہ روزے کی فرضیت کچھ تمہارے ساتھ خاص نہیں پچھلی امتوں پر بھی روزے فرض کئے گئے تھے اس سے روزے کی خاص اہمیت بھی معلوم ہوئی اور مسلمانوں کی دلجوئی کا بھی انتظام کیا گیا کہ روزہ اگرچہ مشقت کی چیز ہے مگر یہ مشقت تم سے پہلے بھی سب لوگ اٹھاتے آئے ہیں طبعی بات ہے کہ مشقت میں بہت سے لوگ مبتلا ہوں تو وہ ہلکی معلوم ہونے لگتی ہے (روح المعانی) قرآن کریم کے الفاظ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ عام ہیں حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام شریعتوں اور امتوں کو شامل ہیں اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح نماز کی عبادت سے کوئی شریعت اور کوئی امت خالی نہیں رہی اسی طرح روزہ بھی ہر شریعت میں فرض رہا ہے، جن حضرات نے فرمایا ہے کہ مِنْ قَبْلِكُمْ سے اس جگہ نصاریٰ مراد ہیں وہ بطور ایک مثال کے ہے اس سے دوسری امتوں کی نفی نہیں ہوتی (روح) آیت میں صرف اتنا بتلایا گیا ہے کہ روزے جس طرح مسلمانوں پر فرض کئے گئے پچھلی امتوں میں بھی فرض کئے گئے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ پچھلی امتوں کے روزے تمام حالات وصفات میں مسلمانوں ہی کے روزوں کے برابر ہوں مثلاً روزوں کی تعداد، روزوں کے اوقات کی تحدید اور یہ کہ کن ایام میں رکھے جائیں ان امور میں اختلاف ہوسکتا ہے چناچہ واقعہ بھی ایسا ہی ہوا کہ تعداد میں بھی کمی بیشی ہوتی رہی اور روزے کے ایام اور اوقات میں فرق ہوتا رہا ہے (ورح) لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ میں اشارہ ہے کہ تقویٰ کی قوت حاصل کرنے میں روزہ کو بڑا دخل ہے کیونکہ روزہ سے اپنی خواہشات کو قابو میں رکھنے کا ایک ملکہ پیدا ہوتا ہے وہی تقوے کی بنیاد ہے،