Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 189

سورة البقرة

یَسۡئَلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَہِلَّۃِ ؕ قُلۡ ہِیَ مَوَاقِیۡتُ لِلنَّاسِ وَ الۡحَجِّ ؕ وَ لَیۡسَ الۡبِرُّ بِاَنۡ تَاۡتُوا الۡبُیُوۡتَ مِنۡ ظُہُوۡرِہَا وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنِ اتَّقٰیۚ وَ اۡتُوا الۡبُیُوۡتَ مِنۡ اَبۡوَابِہَا ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۸۹﴾

They ask you, [O Muhammad], about the new moons. Say, "They are measurements of time for the people and for Hajj." And it is not righteousness to enter houses from the back, but righteousness is [in] one who fears Allah. And enter houses from their doors. And fear Allah that you may succeed.

لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں ( کی عبادت ) کے وقتوں اور حج کے موسم کے لئے ہے ( احرام کی حالت میں ) اور گھروں کےپیچھے سے تمہارا آنا کچھ نیکی نہیں ، بلکہ نیکی والا وہ ہے جو متقی ہو اور گھروں میں تو دروازوں میں سے آیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Crescent Moons Allah says; يَسْأَلُونَكَ عَنِ الاهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ... They ask you (O Muhammad) about the crescents. Say: "These are signs to mark fixed periods of time for mankind and for the pilgrimage." Al-Awfi related that Ibn Abbas said, "The people asked Allah's Messenger about the crescent moons. Thereafter, this Ayah was revealed, so that they mark their acts of worship, the Iddah (the period of time a divorced woman or a widow is required to wait before remarrying) of their women and the time of their Hajj (pilgrimage to Makkah)." Abdur-Razzaq reported that Ibn Umar narrated that Allah's Messenger said: جَعَلَ اللهُ الاَْهِلَّةَ مَوَاقِيتَ لِلنَّاسِ فَصُومُوا لِرُوْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُوْيَتِهِ فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَعُدُّوا ثَلَثِينَ يَوْمًا Allah has made the crescents signs to mark fixed periods of time for mankind. Hence, fast on seeing it (the crescent for Ramadan) and break the fast on seeing it (the crescent for Shawwal). If it (the crescent) was obscure to you then count thirty days (mark that month as thirty days). This Hadith was also collected by Al-Hakim in his Mustadrak, and he said, "The chain is Sahih, and they (Al-Bukhari and Muslim) did not recorded it." Righteousness comes from Taqwa Allah said: ... وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوْاْ الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُواْ الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ... It is not Al-Birr (piety, righteousness, etc.) that you enter the houses from the back, but Al-Birr is from Taqwa. So enter houses through their proper doors. Al-Bukhari recorded that Al-Bara said, "During the time of Jahiliyyah, they used to enter the house from the back upon assuming the Ihram. Thereafter, Allah revealed (the following Ayah: وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوْاْ الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُواْ الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا (It is not Al-Birr (piety, righteousness, etc.) that you enter the houses from the back but Al-Birr is from Taqwa. So enter houses through their proper doors)." Abu Dawud At-Tayalisi recorded the same Hadith from Al-Bara but with the wording; "The Ansar used to enter their houses from the back when returning from a journey. Thereafter, this Ayah (2:189 above) was revealed..." Al-Hasan said, "When some people during the time of Jahiliyyah would leave home to travel, and then decide not to travel, they would not enter the house from its door. Rather, they would climb over the back wall. Allah the Exalted said: وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوْاْ الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا (It is not Al-Birr (piety, righteousness) that you enter the houses from the back)." Allah's statement: ... وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ...and have Taqwa of Allah that you may be successful. Have Taqwa of Allah, means to do what He has commanded you and refrain from what He has forbidden for you, لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (that you may be successful), tomorrow when you stand before Him and He thus rewards you perfectly.

چاند اور مہ وسال حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لوگوں نے چاند کے بارے میں سوال کیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اس سے قرض وغیرہ کے وعدوں کی میعاد معلوم ہو جاتی ہے ، عورتوں کی عدت کا وقت معلوم ہوتا ہے ، حج کا وقت معلوم ہوتا ہے ، مسلمانوں کے روزے کے افطار کا تعلق بھی اسی سے ہے ، مسند عبدالرزاق میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے چاند کو لوگوں کے وقت معلوم کرنے کے لئے بنایا ہے اسے دیکھ کر روزے رکھو اسے دیکھ کر عید مناؤ اگر ابر وباراں کی وجہ سے چاند نہ دیکھ سکو تو تیس دن پورے گن لیا کرو ، اس روایت کو حضرت امام حاکم نے صحیح کہا ہے یہ حدیث اور سندوں سے بھی مروی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک موقوف روایت میں بھی یہ مضمون وارد ہوا ہے ۔ آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے کہ بھلائی گھروں کے پیچھے سے آنے میں نہیں بلکہ بھلائی تقویٰ میں ہے گھروں میں دروازوں سے آؤ ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جاہلیت کے زمانہ یہ دستور تھا کہ احرام میں ہوتے تو گھروں میں پشت کی جانب سے آتے جس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ ابو داؤد طیالسی میں بھی یہ روایت ہے انصار کا عام دستور تھا کہ سفر سے جب واپس آتے تو گھر کے دروازے میں نہیں گھستے تھے دراصل یہ بھی جاہلیت کے زمانہ میں قریشیوں نے اپنے لیے ایک اور امتیاز قائم کر لیا تھا کہ اپنا نام انہوں نے حمس رکھا تھا احرام کی حالت یہ تو براہ راست اپنے گھروں میں آسکتے تھے لیکن دوسرے لوگ سیدھے راستے گھروں میں داخل نہیں ہو سکتے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک باغ سے اس کے دروازے سے نکلے تو آپ کے ایک انصاری صحابی حضرت قطبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ساتھ ہی اسی دروازے سے نکلے اس پر لوگوں نے حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ تو ایک تجارت پیشہ شخص ہیں یہ آپ کے ساتھ آپ کی طرح اس دروازے سے کیوں نکلے؟ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جواب دیا کہ میں نے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جس طرح کرتے دیکھا کیا ۔ مانا کہ آپ حمس میں سے ہیں لیکن میں بھی تو آپ کے دین پر ہی ہوں ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ( ابن ابی حاتم ) حضرت ابن عباس وغیرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہ روایت مروی ہے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے میں بہت سی قوموں کا یہ رواج تھا کہ جب وہ سفر کے ارادے سے نکلتے پھر سفر ادھورا چھوڑ کر اگر کسی وجہ سے واپس چلے آتے تو گھر کے دروازے سے گھر میں نہ آتے بلکہ پیچھے کی طرف سے چڑھ کر آتے جس سے اس آیت میں روکا گیا ، محمد بن کعب فرماتے ہیں اعتکاف کی حالت میں بھی یہی دستور تھا جسے اسلام نے ختم کیا ، عطا فرماتے ہیں اہل مدینہ کا عیدوں میں بھی یہی دستور تھا جسے اسلام نے ختم کر دیا ۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کے حکموں کو بجا لانا اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک جانا اس کا ڈر دل میں رکھنا یہ چیزیں ہیں جو دراصل اس دن کام آنے والی ہیں جس دن ہر شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا اور پوری پوری جزا سزا پائے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

189۔ 1 انصار جاہلیت میں جب حج یا عمرہ کا احرام باندھ لیتے اور پھر کسی خاص ضرورت کے لئے گھر آنے کی ضرورت پڑجاتی تو دروازے سے آنے کے بجائے پیچھے سے دیوار پھلانگ کر اندر آتے، اس کو نیکی سمجھتے اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ نیکی نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٤٨] سائل کا اصل سوال یہ تھا کہ چاند کیسے گھٹتا بڑھتا ہے اور اس کی شکلیں کیوں کر بدلتی رہتی ہیں۔ لیکن یہ سوال چونکہ علم ہئیت کا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کہ عام آدمی کی ذہنی سطح سے بلند ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کا انسان کی عملی زندگی اور ہدایت سے کوئی تعلق نہیں۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے اس سوال کے جواب کا رخ اس طرف موڑ دیا۔ جس کا تعلق انسان کی ہدایت اور عملی زندگی سے تھا اور فرمایا کہ یہ تمہارے لیے قدرتی جنتری ہے۔ نیز تم ان اشکال قمر سے حج کے اوقات بھی معلوم کرسکتے ہو۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنا چاہیے کہ جن شرعی احکام کا تعلق دن کے اوقات سے ہو ان کا تعلق سورج سے ہوگا۔ جیسے نمازوں کے اوقات اور روزہ کے لیے سحری و افطاری کے اوقات۔ اسی طرح دنوں کا شمار سورج سے تعلق رکھتا ہے۔ مگر جب یہ مدت ایک ماہ یا ایک ماہ سے زائد ہوگی تو مدت کا شمار چاند کے حساب سے ہوگا۔ مثلاً رمضان کے ایام (انتیس ہیں یا تیس) بیوہ یا مطلقہ کی عدت، مدت حمل، رضاعت وغیرہ اور زکوٰۃ کا حساب بھی قمری سال کے مطابق ہوگا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حقیقی اور قدرتی تقویم قمری ہی ہے اور یہی مواقیت للناس کا مطلب ہے۔ رہے حج کے اوقات تو وہ ماہ شوال، ذیقعد اور ذوالحجہ کے دس دن ہیں۔ [٢٤٩] جاہلیت کا ایک دستور یہ بھی تھا کہ حج کا احرام باندھنے کے بعد اگر کسی کو گھر آنے کی ضرورت پیش آجاتی اور اسی طرح حج سے واپسی کے بعد تو یہ لوگ واپس گھر کے دروازہ کے بجائے گھر کے پچھواڑے سے یا پچھلی دیوار میں کسی کھڑی سے گھر میں داخل ہوتے اور اسے نیکی کا کام سمجھتے تھے چناچہ حضرت براء (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہم انصاری لوگوں کے حق میں نازل ہوئی وہ جب حج کر کے واپس آتے تو دروازوں سے نہ آتے بلکہ پچھواڑے سے آتے۔ ایک دفعہ ایک انصاری دروازے سے اندر آیا تو سب اسے لعنت ملامت کرنے لگے۔ تب یہ آیت اتری۔ (بخاری، کتاب المناسک، باب قولہ تعالیٰ واٰتوا البیوت من ابو ابھا) اس سے ضمناً یہ معلوم ہوگیا کہ کسی بات کو نیکی سمجھ کر دین میں داخل کردینا مذموم اور ممنوع ہے اور بدعات بھی اسی ذیل میں آتی ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

الْاَهِلَّةِ یہ ” ھِلاَلٌ“ کی جمع ہے۔ پہلی اور دوسری رات کے چاند کو ہلال کہا جاتا ہے، پھر اسے ” قمر “ کہا جاتا ہے۔ (راغب) لوگوں نے چاند کے گھٹنے بڑھنے کی حکمت دریافت کی تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ چاند ہر ماہ ہلال کی صورت میں نمودار ہوتا ہے، پھر وہ چودھویں کو پورا (بدر) ہوجاتا ہے۔ آخری رات بالکل غائب ہوجاتا ہے، پھر دوبارہ نئے چاند کی صورت میں نمودار ہوجاتا ہے، جس سے شہروں اور بستیوں کے علاوہ صحراؤں اور سمندروں میں رہنے والوں کو بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ نیا مہینا شروع ہوگیا ہے اور وہ اس کی مختلف حالتوں سے تاریخ بھی معلوم کرسکتے ہیں۔ جب کہ سورج ہمیشہ مکمل رہتا ہے، اس کے حساب سے وقت اور تاریخ معلوم کرنا دنیا کے ہر حصے میں رہنے والوں کے لیے ممکن نہ تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے بدلنے والے چاندوں کو بطور کیلنڈر مقرر فرمایا، حج، کفارات اور معاملات، مثلاً طلاق اور وفات کی عدت چاند کے لحاظ ہی سے مقرر فرمائی۔ ہر ماہ طلوع ہونے والے چاندوں کے لحاظ سے ” الْاَهِلَّةِ “ جمع ذکر فرمایا۔ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِھَا۔۔ : حج کا ذکر آیا تو ایام حج میں جاہلیت کی ایک رسم کا رد فرمایا۔ براء (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی، انصار جب حج کرتے، پھر (واپس) آتے تو اپنے گھروں کے دروازوں سے داخل نہیں ہوتے تھے، اب انصار کا ایک آدمی (حج سے) آیا اور اپنے دروازے کی طرف سے داخل ہوگیا تو گویا اسے اس کی عار دلائی گئی تو یہ آیت اتری : (وَلَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِھَا وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰى ۚ وَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا ۠) [ بخاری، العمرۃ، باب قول اللہ تعالیٰ : ( و أتوا البیوت من أبوابہا ) : ١٨٠٣ ] دوسری روایت میں براء بن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ جاہلیت میں جب لوگ احرام باندھ لیتے تو گھروں کی پچھلی طرف سے گھر آتے، تو اس پر یہ آیت اتری۔ [ بخاری، التفسیر، بابٌ : ( ولیس البر بأن تأتوا البیوت ۔۔ ) : ٤٥١٢ ] آیت میں دونوں کا رد ہے۔ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ “ اس میں ” وَلَيْسَ “ کی تاکید ” باء “ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ترجمہ کیا ہے ” نیکی ہرگز یہ نہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The theme of righteousness which started from Verse 177 still continues. The six injunctions that have appeared so far relate to even retaliation, bequest, fasting, I` tikaf اعتکاف and abstention from the unlawful. Now come those of Hajj حج and Jihad جہاد prior to which it was clarified that lunar months and days will be followed in Hajj and in other religious obligations. Also erased here is a custom of jahiliyyah جاھلیہ (days of ignorance) which required people in Ihram احرام to go into their houses, if needed, from the back even if it had to be through a hole in the wall bored (made a hole) punctured for this purpose, as they thought it was prohibited to enter houses from the front door when in Ihram احرام . They even rated it as &righteousness&. So, it is immediately after the mention of Hajj that Allah Almighty tells them that entering the houses from the backs is no righteousness. Real righteousness lies in abstaining from what has been made unlawful by Allah. Since coming into houses through their doors is not forbidden, the question of abstaining from it does not arise. So, those who wish to go into their houses should enter through their doors, but the center-piece of all principles is that people must keep fearing Allah so that they can hope to have the best of both the worlds. Verse 190-191 carry the injunction relating to fighting with disbelievers. It was the month of Dhul-Qa&dah ذوالقعدہ in the year 6 A.H. that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) began his journey to the sacred city of Makkah in order to perform ` Umrah عمرہ . Makkah was still controlled by the mushrikin مشرکین (the infidels). They did not allow him and his Companions to go into the city and ` Umrah عمرہ could not be performed as intended. It took a great deal of negotiating to arrive at the agreement that the Muslims would perform ` Umrah عمرہ next year. This pact is known as the &Peace of Hudaybiyyah&; a detailed explanation of the verse in this context will appear later. Commentary Reported in the first Verse (189) there is a question asked by the noble Companions and its answer given by Allah Almighty. Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) says that the Companions of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had a distinct mannerliness of their own. On account of the great respect they had for him, they asked very few questions from their Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . This is contrary to the practice of the communities of the past prophets who asked many questions and thus failed to observe the etiquette due before a prophet. Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) adds that the total number of questions asked by the noble Companions as mentioned in the Holy Qur&an is fourteen, one of which has just appeared above: إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي & And when My servants ask you...& (186). The other question is right here. Other than these, there are six more questions appearing in Surah al-Baqarah itself. The rest of the six questions come up in various other Surahs. It is mentioned in the present verse that the noble Companions asked the Messenger of Allah about the new moon as it appears in the early part of the month, having a shape different from the sun. The new moon begins as a thin crescent slowly growing into full circle, then, it starts reducing itself in the same manner. So, they asked either about its cause or about the wisdom underlying its gradual growth. Both possibilities exist. But the answer given states the wisdom and benefit behind it. Now, if the question itself was concerned with the wisdom and benefit behind the waning and waxing of the new moon, then the answer obviously synchronizes with the question. But, if the question aimed at finding out the cause of the waning and waxing of the new moon, which is far away from the mannerliness of the noble Companions, then the answer, by electing to state its wisdom and benefit rather than its reality, simply hints that finding out the reality of the heavenly bodies is not an area under man&s control anyway, and then, for that matter, the knowledge of its reality is not necessary for any practical purpose, neither in this world nor in the Hereafter. Therefore, the question of reality is absurd. What could be asked and what could be explained is that there are certain benefits that accrue to us through the waning and waxing, the setting and the rising of the moon in this manner. Therefore, in response to this, the Holy Prophet g was told that he should tell them that their benefits tied to the moon are that they will find it easy to determine the time factor in their transactions and contracts, and to know about the days of the Hajj. The Lunar Calendar is the Islamic choice This verse tells us no more than that the moon will help identify the count of months and days on which rest transactions and acts of worship, such as, the Hajj. The same subject has been dealt with in Sarah Yanus in the following manner: وَقَدَّرَ‌هُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ And determined it (the moon) by stations, that you might know the number of the years and the reckoning. (10:5) This tells us that the benefit of having the moon pass through dif¬ferent stages and conditions is that people may find out through it the count of years, months and days. But, in a verse of Sarah Bani Isra&il, this count has been connected to the sun as well in the following words: فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ‌ مُبْصِرَ‌ةً لِّتَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّ‌بِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ Then We erased the sign of the night and brought out the sign of the day to see, so that you seek the blessing from your Lord and get to know the number of years and the reckoning. (17:12) Although this third verse proves that years and months can be counted with the help of a solar calendar also, yet the words used by the Holy Qur&an with regard to the moon very clearly indicate that the lunar calendar is a fixed choice in the Shari` ah of Islam, specially in prescribed acts of worship which relate to a particular month and its dates; for instance, the months of Ramadan and Hajj, as well as injunctions related to the days of Hajj, Muharram and Lailatul-Qadr لیلۃ القدر are all tied to the sighting of the new moon, all this because in this verse, by saying هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ (They are indicative of time for the people and of the Hajj), it has been established that the lunar calendar is the one to be trusted upon in the sight of Allah, although, the count of months can come out of a solar calendar as well. The Shari&ah of Islam has opted for the lunar calendar because it is based on something which every sighted person can see on the horizon and be informed accordingly; the knowledge of it is equally easy for the scholars, the ignorant, the villagers, the islanders and the dwellers of the mountains. This stands in contrast with the solar calendar which depends on meteorological equipment and mathematical computations which cannot become the common personal experience of everybody so easily. Then comes the matter of religious observances, the ` ibadat عبادات ، where the lunar calendar has been fixed as an obligation. This has also been favoured in social and business transactions because it serves as a basis for the acts of Islamic worship, and a symbol of Islamic identity, notwithstanding the position of the solar calendar which has not been prohibited juristically, the only condition being that the use of the solar calendar should not become so widespread that people forget all about the lunar calendar. If this happens, it would necessarily affect the obligatory ` ibadat عبادات like Fasting and Hajj adversely, a sampling of which is visible in our time, in offices and businesses, government and private, where the solar calendar is being used with such frequency that many people do not seem to even remember all Islamic months by name. Apart from the juristic position of the lunar system, this situation is a deplorable demonstration of our lack of will to approach and uphold such a matter of national and religious identity with a sense of self-respect. It is not difficult to use the solar calendar only in office situations where one has to deal with non-Muslims as well, but for the rest of office correspondence, private dealings and daily requirements the lunar calendar may be used with advantage, that is, if this is done, the user will earn the thawab ثواب of performing a fard ` ala al-kifayah فرض علی الکفایہ (an obligation which, if performed by some, suffices for others), and of course, national identity will be preserved. Ruling From the verse لَيْسَ الْبِرُّ‌ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِ‌هَا (And it is not righteousness that you come into your houses from their backs) comes the ruling that something which the Shari&ah of Islam has not classed as &necessary& (wajib واجب ) or has not given it the status of an act of ` Ibadah عباداہ ، should not be taken as &necessary& or an act of ` Ibadah عباداہ on one&s own. This is not permissible. Similarly, taking something to be a sin while it is permissible under Islamic law is a sin in itself. This is exactly what those people had done. Entering houses through doors was permissible under religious law, yet they made it out to be a sin, while coming into the house from its back by breaking through the wall was not &necessary& under the religious law, yet they made it out to be necessary. This was why they were admonished. The reason why bid` at بدعت (innovations in religious matters) are not permissible is that unnecessary things are taken to be necessary like the obligatory - fard, or wajib. Or, things permissible are taken to be forbidden or unlawful. This verse makes it very clear that doing so is prohibited, and incidentally, this gives us the guiding rule in thousands of acts in vogue. The expression وَلَا تَعْتَدُوا (and do not transgress) towards the end of the verse, according to the majority of the commentators means - &do not go beyond the limit in fighting as to start killing women and children&.

ربط آیات : آیت لَيْسَ الْبِرُّ کے تحت بیان ہوچکا ہے کہ اس کے بعد آخر سورة بقرہ تک ابواب البر کا بیان ہوگا جو اہم احکام شرعیہ پر مشتمل ہیں، ان میں پہلا حکم قصاص کا دوسرا وصیت کا، تیسرا اور چوتھا صوم اور اس کے متعلقہ مسائل کا، پانچواں اعتکاف کا، چھٹا مال حرام سے بچنے کا تھا، مذکور الصدر دو آیتوں میں حج اور جہاد کے احکام و مسائل کا بیان ہے اور حج کے حکم سے پہلے یہ بتلایا گیا کہ روزہ اور حج وغیرہ میں قمری مہینوں اور دنوں کا اعتبار ہوگا، لغات : اَهِلَّةِ ہلال کی جمع ہے، قمری مہینہ کی ابتدائی چند راتوں کے چاند کو ہلال کہا جاتا ہے مواقیت، میقات کی جمع ہے جس کے معنی مطلق وقت یا منتہائے وقت کے آتے ہیں (قرطبی) خلاصہ تفسیر : حکم ہفتم، اعتبار حساب قمری درحج وغیرہ : (بعضے آدمی) آپ سے (ان) چاندوں کے (ہر مہینہ گھٹنے بڑہنے کی) حالت ( اور اس میں جو فائدہ ہے اس فائدہ) کی تحقیقات کرتے ہیں آپ فرما دیجئے کہ (فائدہ اس کا یہ ہے کہ) وہ چاند (اپنے اس گھٹنے اور بڑہنے کے اعتبار سے لزوما یا سہولۃ) آلہ شناخت اوقات ہیں لوگوں کے (اختیاری معاملات مثل عدت و مطالبہ حقوق کے) لئے اور (غیر اختیاری عبادات مثل) حج (وزکوۃ و روزہ وغیرہ) کے لئے، حکم ہشتم، اصلاح رسم جاہلیت : (بعض لوگ قبل اسلام کے اگر حج کا احرام باندھنے کے بعد کسی ضرورت سے گھر جانا چاہتے تھے تو دروازہ سے جانا ممنوع جانتے تھے اس لئے پشت کی دیوار میں نقب دے کر اس میں سے اندر جاتے تھے اور اس عمل کو فضیلت سمجھتے تھے حق تعالیٰ اس کے متعلق بعد ذکر حج کے ارشاد فرماتے ہیں) اور اس میں کوئی فضیلت نہیں کہ گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آیا کرو، ہاں لیکن فضیلت یہ ہے کہ کوئی شخص حرام (چیزوں) سے بچے اور (چونکہ گھروں میں دروازہ کی طرف سے آنا حرام نہیں ہے اس لئے اس سے بچنا بھی ضروری نہیں سو اگر آنا چاہو تو) گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور (اصل الاصول تو یہ ہے کہ) خدا تعالیٰ سے ڈرتے رہو (اس سے البتہ) امید ہے کہ تم (دارین میں) کامیاب ہو، حکم نہم، قتال کفار : (ذی قعدہ ٦ ہجری میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ادائے عمرہ کے قصد سے مکہ معظمہ تشریف لے چلے اس وقت تک مکہ معظمہ مشرکین کے قبضہ اور حکومت میں تھا ان لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ہمراہیوں کو مکہ کے اندر نہ جانے دیا اور عمرہ رہ گیا آخر بڑی گفتگو کے بعد یہ معاہدہ قرار پایا کہ سال آئندہ تشریف لاکر عمرہ ادا فرماویں۔ چناچہ ذی قعدہ ٧ ھ میں پھر آپ اسی قصد سے تشریف لے چلے لیکن آپ کے ساتھ مسلمانوں کو یہ اندیشہ ہوا کہ شاید مشرکین اپنا معاہدہ پورا نہ کریں اور آمادہ مقابلہ ومقاتلہ نہ ہوجاویں تو ایسی حالت میں نہ سکوت مصلحت ہے اور اگر مقابلہ کیا جاوے تو ذی قعدہ میں قتال لازم آتا ہے اور یہ مہینہ منجملہ ان چار مہینوں کے ہے جن کو اشہر حرم کہا جاتا ہے ان چاروں مہینوں میں اس وقت تک قتل و قتال حرام و ممنوع تھا یہ چار مہینے ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب تھے غرض مسلمان اس تردد سے پریشان تھے حق تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں کہ ان خاص معاہدہ کرنے والوں کے ساتھ بوجہ باہمی معاہدہ کے تم کو اپنی جانب سے ابتداءً قتال کرنے کی اجازت نہیں لیکن اگر وہ لوگ خود عہد شکنی کریں اور تم سے لڑنے کو آمادہ ہوجاویں تو اس وقت تم کسی طرح کا اندیشہ دل میں مت لاؤ) اور (بےتکلف) تم (بھی) لڑو اللہ کی راہ میں (یعنی اس نیت سے کہ یہ لوگ دین کی مخالفت کرتے ہیں) ان لوگوں کے ساتھ جو (نقص عہد کرکے) تمہارے ساتھ لڑنے لگیں اور (ازخود) حد (معاہدہ) سے مت نکلو (کہ عہد شکنی کرکے لڑنے لگو) واقعی اللہ تعالیٰ حد (قانون شرعی) سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتے اور (جس حالت میں وہ خود عہد شکنی کریں تو اس وقت دل کھول کر خواہ) ان کو قتل کرو جہاں ان کو پاؤ اور (خواہ) ان کو (مکہ سے) نکال باہر کرو جہاں سے انہوں نے تم کو (تنگ کرکے اور ایذائیں پہنچا کر) نکلنے (اور ہجرت کرنے) پر مجبور کیا ہے اور (تمہارے اس قتل واخراج کے بعد بھی عقلا الزام انھیں پر رہے گا کیونکہ عہد شکنی جو ان سے واقع ہوگی بڑی شرارت کی بات ہے اور ایسی) شرارت (ضرر میں) قتل ( واخراج) سے بھی سخت تر ہے (کیونکہ اس قتل واخراج کی نوبت اس شرارت ہی کی بدولت پہنچتی ہے) اور (علاوہ معاہدہ کے ان کے ساتھ ابتداءً قتال کرنے سے ایک اور امر بھی مانع ہے وہ یہ کہ حرم شریف یعنی مکہ اور اس کا گردا گرد ایک واجب الاحترام جگہ ہے اور اس میں قتال کرنا اس کے احترام کے خلاف ہے اس لئے بھی حکم دیا جاتا ہے کہ) ان کے ساتھ مسجد حرام کے قرب (ونواح) میں (جو حرم کہلاتا ہے) قتال مت کرو جب تک کہ وہ لوگ وہاں تم سے خود نہ لڑیں ہاں اگر وہ (کفار) خود ہی لڑنے کا سامان کرنے لگیں تو (اس وقت پھر تم کو بھی اجازت ہے کہ) تم (بھی) ان کو مارو (دھاڑو) ایسے کافروں (جو حرم میں لڑنے لگیں) ایسی ہی سزا ہے، معارف و مسائل : پہلی آیت میں صحابہ کرام کا ایک سوال اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا جواب نقل کیا گیا ہے، امام المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام کی ایک شان ہے کہ انہوں نے بوجہ عظمت وہیبت کے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوالات بہت کم کئے ہیں بخلاف پچھلی امتوں کے کہ جنہوں نے بکثرت سوالات کئے اور اس ادب کو ملحوظ نہیں رکھا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ صحابہ کرام (رض) اجمعین کے سوالات جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے کل چودہ ہیں جن میں سے ایک سوال ابھی اوپر گذرا ہے، وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ دوسرا سوال یہ ہے اور ان کے بعد سورة بقرہ ہی میں چھ سوال اور مذکور ہیں اور باقی چھ سوالات مختلف سورتوں میں آئے ہیں، آیت مذکورہ میں ذکر یہ ہے کہ صحابہ کرام (رض) اجمعین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اَهِلَّةِ یعنی شروع مہینے کے چاند کے متعلق سوال کیا کہ اس کی صورت آفتاب سے مختلف ہے کہ وہ کبھی باریک ہلالی شکل میں ہوتا ہے پھر آہستہ آہستہ بڑہتا ہے پھر پورا دائرہ ہوجاتا ہے پھر اس میں تدریجی کمی اسی طرح آتی ہے اس کی حقیقت دریافت کی یا حکمت و مصلحت کا سوال کیا دونوں احتمال ہیں مگر جو جواب دیا گیا اس میں حکمت و مصلحت کا بیان ہے اگر سوال ہی یہ تھا کہ چاند کے گھٹنے بڑہنے میں حکمت و مصلحت کیا ہے تب تو جواب اس کے مطابق ہو ہی گیا اور اگر سوال سے اس گھٹنے بڑ ہنے کی حقیقت دریافت کرنا مقصود تھا جو صحابہ کرام کی شان سے بعید ہے تو پھر جواب بجائے حقیقت کے حکمت و مصلحت بیان کرنے سے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اجرام سماویہ کے حقائق دریافت کرنا انسان کے بس میں بھی نہیں اور ان کا کوئی دینی یا دنیوی کام اس حقیقت کے علم پر موقوف بھی نہیں اس لئے حقیقت کا سوال فضول ہے پوچھنے اور بتلانے کی بات یہ ہے کہ چاند کے اس طرح گھٹنے بڑہنے چھپنے اور طلوع ہونے سے ہمارے کون سے مصالح وابستہ ہیں اس لئے جواب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرمایا کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ تمہاری مصالح جو چاند سے وابستہ ہیں یہ ہیں کہ اس کے ذریعہ تمہیں اپنے معاملات اور معاہدوں کی میعاد مقرر کرنا اور حج کے ایام معلوم کرنا آسان ہوجائے گا، قمری اور شمسی حساب کی شرعی حیثیت : اس آیت سے تو اتنا معلوم ہوا کہ چاند کے ذریعہ تمہیں تاریخوں اور مہینوں کا حساب معلوم ہوجائے گا جس پر تمہارے معاملات اور عبادات حج وغیرہ کی بنیاد ہے اسی مضمون کو سورة یونس کی آیت نمبر ٥ میں اس عنوان سے بیان فرمایا ہے وَقَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِيْنَ وَالْحِسَابَ (یونس) جس سے معلوم ہوا کہ چاند کو مختلف منزلوں اور مختلف حالات سے گذارنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سال اور مہینوں اور تاریخوں کا حساب معلوم ہوسکے مگر سورة بنی اسرائیل کی آیت نمبر ١٢ میں اس حساب کا تعلق آفتاب سے بھی بتلایا گیا ہے وہ یہ ہے : فَمَــحَوْنَآ اٰيَةَ الَّيْلِ وَجَعَلْنَآ اٰيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِيْنَ وَالْحِسَابَ (١٢: ١٧) پھر مٹایا رات کا نمونہ اور بنادیا دن کا نمونہ دیکھنے کو تاکہ تلاش کرو فضل اپنے رب کا اور تاکہ معلوم کرو گنتی برسوں کی اور حساب۔ اس تیسری آیت سے اگرچہ یہ ثابت ہوا کہ سال اور مہینوں وغیرہ کا حساب آفتاب سے بھی لگایا جاسکتا ہے (کما ذکرہ فی روح المعانی) لیکن چاند کے معاملہ میں جو الفاظ قرآن کریم نے استعمال کئے ان سے واضح اشارہ اس طرف نکلتا ہے کہ شریعت اسلام میں حساب چاند ہی کا متعین ہے خصوصاً ان عبادات میں جن کا تعلق کسی خاص مہینے اور اس کی تاریخوں سے ہے جیسے روزہ رمضان، حج کے مہینے، حج کے ایام، محرم، شب برأت وغیرہ سے جو احکام متعلق ہیں وہ سب رویت ہلال سے متعلق کئے گئے ہیں کیونکہ اس آیت میں ھِىَ مَوَاقِيْتُ للنَّاسِ وَالْحَجِّ فرما کر بتلا دیا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حساب چاند ہی کا معتبر ہے اگرچہ یہ حساب آفتاب سے بھی معلوم ہوسکتا ہے۔ شریعت اسلام نے چاند کے حساب کو اس لئے اختیار فرمایا کہ اس کو ہر آنکھوں والا افق پر دیکھ کر معلوم کرسکتا ہے عالم، جاہل، دیہاتی، جزیروں، پہاڑوں کے رہنے والے جنگلی سب کو اس کا علم آسان ہے بخلاف شمسی حساب کے کہ وہ آلات رصدیہ اور قواعد ریاضیہ پر موقوف ہے جس کو ہر شخص آسانی سے معلوم نہیں کرسکتا پھر عبادات کے معاملہ میں تو قمری حساب کو بطور فرض متعین کردیا اور عام معاملات تجارت وغیرہ میں بھی اسی کو پسند کیا جو عبادت اسلامی کا ذریعہ ہے اور ایک طرح کا اسلامی شعار ہے اگرچہ شمسی حساب کو بھی ناجائز قرار نہیں دیا شرط یہ ہے کہ اس کا رواج اتنا عام نہ ہوجائے کہ لوگ قمری حساب کو بالکل بھلا دیں کیونکہ ایسا کرنے میں عبادات روزہ وحج وغیرہ میں خلل لازم آتا ہے جیسا اس زمانے میں عام دفتروں اور کاروباری اداروں بلکہ نجی اور شخصی مکاتبات میں بھی شمسی حساب کا ایسا رواج ہوگیا ہے کہ بہت سے لوگوں کو اسلامی مہینے بھی پورے یاد نہیں رہے یہ شرعی حیثیت کے علاوہ غیرت قومی وملی کا بھی دیوالیہ پن ہے اگر دفتری معاملات میں جن کا تعلق غیر مسلموں سے بھی ہے ان میں صرف شمسی حساب رکھیں باقی نجی خط و کتابت اور روز مرہ کی ضروریات میں قمری اسلامی تاریخوں کا استعمال کریں تو اس میں فرض کفایہ کی ادائیگی کا ثواب بھی ہوگا اور اپنا قومی شعار بھی محفوظ رہے گا۔ مسئلہ : لَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِھَا اس آیت سے یہ مسئلہ بھی نکل آیا کہ جس چیز کو شریعت اسلام نے ضروری یا عبادت نہ سمجھا ہو اس کو اپنی طرف سے ضروری اور عبادت سمجھ لینا جائز نہیں اسی طرح جو چیز شرعا جائز ہو اس کو گناہ سمجھنا بھی گناہ ہے ان لوگوں نے ایسا ہی کر رکھا تھا کہ گھر کے دروازوں سے داخل ہونا جو شرعاً جائز تھا اس کو گناہ قرار دیا، اور مکان کی پشت سے دیوار توڑ کر آیا جو شرعا ضروری نہیں تھا اس کو ضروری سمجھا اسی پر ان لوگوں کو تنبیہ کی گئی بدعات کے ناجائز ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ غیر ضروری چیزوں کو فرض وواجب کی طرح ضروری سمجھ لیا جاتا ہے یا بعض چیزوں کو حرام و ناجائز قرار دے دیا جاتا ہے اس آیت سے ایسا کرنے کی ممانعت واضح طور پر ثابت ہوگئی جس سے ہزاروں اعمال کا حکم معلوم ہوگیا،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَہِلَّۃِ۝ ٠ ۭ قُلْ ہِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ۝ ٠ ۭ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ ظُہُوْرِھَا وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰى۝ ٠ ۚ وَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ اَبْوَابِہَا۝ ٠ ۠ وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝ ١٨٩ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ هلل الْهِلَالُ : القمر في أوّل ليلة والثّانية، ثم يقال له القمر، ولا يقال : له هِلَالٌ ، وجمعه : أَهِلَّةٌ ، قال اللہ تعالی: يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَواقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِ [ البقرة/ 189] وقد کانوا سألوه عن علّة تَهَلُّلِهِ وتغيّره . وشبّه به في الهيئة السّنان الذي يصاد به وله شعبتان کرمي الهلال، وضرب من الحيّات، والماء المستدیر القلیل في أسفل الرّكيّ ، وطرف الرّحا، فيقال لكلّ واحد منهما : هِلَالٌ ، وأَهَلَّ الهلال : رؤي، واسْتَهَلَّ : طلب رؤيته . ثم قد يعبّر عن الْإِهْلَالِ بِالاسْتِهْلَالِ نحو : الإجابة والاستجابة، ( ھ ل ل ) الھلال مہینے کی پہلی اور دوسری تاریخ کے چاند کو کہتے ہیں پھر اس کے بعد اسے قمر کہا جاتا ہے اس کی جمع اھلۃ ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَواقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِ [ البقرة/ 189]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) لوگ تم سے نئے چاند کے بارے میں در یافت کرتے ہیں ( کہ گھٹتا بڑھتا کیوں ہے کہدو کہ وہ لوگوں کے کاموں کی میعادیں اور ھض کے وقت معلوم ہو نیکا ذریعہ ہے یعنی بلال کے طلوع ہونے اور اس کے کم وبیش ہونے کی حکمت پوچھتے ہیں ۔ ےشبیہ کے طور پر ھلال کا لفظ مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے ( 1 ) شکار کرنے کا نیزہ جو ہلال کی طرح دو شاخ کا ہوتا ہے ( 2 ) ایک قسم کا زہر یلا سانپ ( 3 ) کنویں کے تلے میں تھوڑا سا پانی جو گول دائرے کی شکل پر ہوتا ہے ( 4 ) چکی کا کنارہ ( جب کہ ٹوٹ جائے ) اھل الھلال کے معنی چاند نظر آنے کے ہیں ۔ وقت الوَقْتُ : نهاية الزمان المفروض للعمل، ولهذا لا يكاد يقال إلّا مقدّرا نحو قولهم : وَقَّتُّ كذا : جعلت له وَقْتاً. قال تعالی: إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] . وقوله : وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ [ المرسلات/ 11] . والمِيقَاتُ : الوقتُ المضروبُ للشیء، والوعد الذي جعل له وَقْتٌ. قال عزّ وجلّ : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ [ الدخان/ 40] ، إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كانَ مِيقاتاً [ النبأ/ 17] ، إِلى مِيقاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الواقعة/ 50] ، ( و ق ت ) الوقت ۔ کسی کام کے لئے مقرر زمانہ کی آخری حد کو کہتے ہیں ۔ اس لئے یہ لفظ معنین عرصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ۔ وقت کذا میں نے اس کے لئے اتنا عرصہ مقرر کیا ۔ اور ہر وہ چیز جس کے لئے عرصہ نتعین کردیا جائے موقوت کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز کا مومنوں پر اوقات ( مقرر ہ ) میں ادا کرنا فرض ہے ۔ ۔ وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ [ المرسلات/ 11] اور جب پیغمبر اکٹھے کئے جائیں ۔ المیفات ۔ کسی شے کے مقررہ وقت یا اس وعدہ کے ہیں جس کے لئے کوئی وقت متعین کیا گیا ہو قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ [ الدخان/ 40] بیشک فیصلے کا دن مقرر ہے ۔ إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كانَ مِيقاتاً [ النبأ/ 17] کچھ شک نہیں کہ فیصلے کا دن اٹھنے کا وقت ہے ۔ إِلى مِيقاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الواقعة/ 50] سب ایک روز مقرر کے وقت پر جمع کئے جائیں گے ۔ اور کبھی میقات کا لفظ کسی کام کے لئے مقرر کردہ مقام پر بھی بالا جاتا ہے ۔ جیسے مواقیت الحج یعنی مواضع ( جو احرام باندھنے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ حج أصل الحَجِّ القصد للزیارة، قال الشاعر : يحجّون بيت الزّبرقان المعصفرا خصّ في تعارف الشرع بقصد بيت اللہ تعالیٰ إقامة للنسک، فقیل : الحَجّ والحِجّ ، فالحَجُّ مصدر، والحِجُّ اسم، ويوم الحجّ الأكبر يوم النحر، ويوم عرفة، وروي : «العمرة الحجّ الأصغر» ( ح ج ج ) الحج ( ن ) کے اصل معنی کسی کی زیارت کا قصد اور ارادہ کرنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (99) یحجون سب الزیتون المعصفرا وہ زبر قان کے زر رنگ کے عمامہ کی زیارت کرتے ہیں ۔ اور اصطلاح شریعت میں اقامت نسک کے ارادہ سے بیت اللہ کا قصد کرنے کا نام حج ہے ۔ الحج ( بفتح الما) مصدر ہے اور الحج ( بکسرالحا) اسم ہے اور آیت کریمہ :۔ ويوم الحجّ الأكبر يوم میں حج اکبر سے مراد یوم نحر یا یوم عرفہ ہے ۔ ایک روایت میں ہے :۔ العمرۃ الحج الاصغر عمر حج اصغر ہے ۔. برَّ ومن العبد الطاعة . وذلک ضربان : ضرب في الاعتقاد . وضرب في الأعمال، وقد اشتمل عليه قوله تعالی: لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة/ 177] وعلی هذا ما روي «أنه سئل عليه الصلاة والسلام عن البرّ ، فتلا هذه الآية» «1» . فإنّ الآية متضمنة للاعتقاد والأعمال الفرائض والنوافل . وبِرُّ الوالدین : التوسع في الإحسان إليهما، وضده العقوق، قال تعالی: لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة/ 8] ( ب رر) البر ( نیکی ) دو قسم پر ہے اعتقادی اور عملی اور آیت کریمہ ؛۔ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة/ 177] ( آلایۃ ) دونوں قسم کی نیکی کے بیان پر مشتمل ہے ۔ اسی بنا ہر جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بر کی تفسیر دریافت کی گئی ثو آن جناب نے جوابا یہی آیت تلاوت فرمائی کیونکہ اس آیت میں عقائد و اعمال فرائض و نوافل کی پوری تفصیل بتائی جاتی ہے ۔ برالوالدین کے معنی ہیں ماں اور باپ کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ اور احسان کرنا اس کی ضد عقوق ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة/ 8] جن لوگون میں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا ہے ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ بيت أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] ، ( ب ی ت ) البیت اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ ظهر الظَّهْرُ الجارحةُ ، وجمعه ظُهُورٌ. قال عزّ وجل : وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق/ 10] ( ظ ھ ر ) الظھر کے معنی پیٹھ اور پشت کے ہیں اس کی جمع ظھور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق/ 10] اور جس کا نام اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائیگا تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ باب البَاب يقال لمدخل الشیء، وأصل ذلک : مداخل الأمكنة، کباب المدینة والدار والبیت، وجمعه : أَبْوَاب . قال تعالی: وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] ، وقال تعالی: لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف/ 67] ، ومنه يقال في العلم : باب کذا، وهذا العلم باب إلى علم کذا، أي : به يتوصل إليه . وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «أنا مدینة العلم وعليّ بابها» «1» . أي : به يتوصّل، قال الشاعر : أتيت المروءة من بابها«2» وقال تعالی: فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] ، وقال عزّ وجل : بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید/ 13] وقد يقال : أبواب الجنّة وأبواب جهنم للأشياء التي بها يتوصّل إليهما . قال تعالی: فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل/ 29] ، وقال تعالی: حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر/ 73] ، وربما قيل : هذا من بَابَة كذا، أي : ممّا يصلح له، وجمعه : بابات، وقال الخلیل : بابة «3» في الحدود، وبَوَّبْتُ بابا، أي : عملت، وأبواب مُبَوَّبَة، والبَوَّاب حافظ البیت، وتَبَوَّبْتُ بوابا : اتخذته، وأصل باب : بوب . الباب ہر چیز میں داخل ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ دراصل امکنہ جیسے شہر ، مکان ، گھر وغیرہ میں داخل ہونے کی جگہ کو باب کہتے ہیں ۔ اس کی جمع ابواب ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] اور دونوں دروازون کی طرف بھاگے اور عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے ( پکڑ کر جو کھینچا تو ) چھاڑ ڈالا ۔ اور دونوں کو دروازں کے پاس عورت کا خاوند مل گیا ۔ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف/ 67] ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ جدا جدا دروازوں سے داخل ہونا ۔ اور اسی سے ( مجازا ) علم میں باب کذا کا محاورہ ہے ۔ نیز کہا جاتا ہے کہ یعنی یہ علم فلاں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے فرمایا : ۔ یعنی میں علم کا شہرہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ( رجہ ) تم نے جو انمردی کو اسی کی جگہ سے حاصل کیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید/ 13] جس میں ایک دروازہ ہوگا جو اس کی جانب اندرونی ہے اس میں تو رحمت ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابواب جنۃ اور ابوب جہنم سے مراد وہ باتیں ہیں جو ان تک پہنچنے کا ذریعے بنتی ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل/ 29] کہ دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر/ 73] یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو اسکے دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔ تو اسکے دراغہ ان سے کہیں کے کم تم پر سلام ۔ اور جو چیز کسی کام کے لئے صلاحیت رکھتی ہو اس کے متعلق کہا جاتا ہے ۔ کہ یہ اس کے مناسب ہے اس کی جمع بابت ہے خلیل کا قول ہے کہ بابۃ کا لفظ حدود ( اور حساب میں ) استعمال ہوتا ہے بوبت بابا : میں نے دروازہ بنایا ۔ نے بنے ہوئے دروازے قائم کئے ہوئے دروازے ۔ البواب دربان تبوبت بابا میں نے دروازہ بنایا ۔ باب اصل میں بوب ہے اور اس میں الف واؤ سے مبدل ہے ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ فلح والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ المجادلة/ 22] ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی/ 14] ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] ، قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ [ المؤمنون/ 1] ، لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ البقرة/ 189] ، إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكافِرُونَ [ المؤمنون/ 117] ، فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ الحشر/ 9] ، وقوله : وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلى [ طه/ 64] ، فيصحّ أنهم قصدوا به الفلاح الدّنيويّ ، وهو الأقرب، وسمّي السّحور الفَلَاحَ ، ويقال : إنه سمّي بذلک لقولهم عنده : حيّ علی الفلاح، وقولهم في الأذان : ( حي علی الفَلَاحِ ) أي : علی الظّفر الذي جعله اللہ لنا بالصلاة، وعلی هذا قوله ( حتّى خفنا أن يفوتنا الفلاح) أي : الظّفر الذي جعل لنا بصلاة العتمة . ( ف ل ح ) الفلاح فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ المجادلة/ 22] ( اور ) سن رکھو کہ خدا ہی کا لشکر مراد حاصل کرنے والا ہے ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی/ 14] بیشک وہ مراد کو پہنچ گیا جو پاک ہوا ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] جس نے اپنے نفس یعنی روح کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچ گیا ۔ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ [ المؤمنون/ 1] بیشک ایمان والے رستگار ہوئے ۔ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ البقرة/ 189] تاکہ تم فلاح پاؤ ۔ إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكافِرُونَ [ المؤمنون/ 117] کچھ شک نہیں کہ کافر رستگاری نہیں پائیں گے ۔ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ الحشر/ 9] وہ تو نجات پانے والے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلى [ طه/ 64] اور آج جو غالب رہا وہ کامیاب ہوا ۔ میں یہ بھی صحیح ہے کہ انہوں نے فلاح دنیوی مراد لی ہو بلکہ یہی معنی ( بلحاظ قرآن ) اقرب الی الصحت معلوم ہوتے ہیں ۔ اور سحور یعنی طعام سحر کو بھی فلاح کہا گیا ہے کیونکہ اس وقت حی علی الفلاح کی آواز بلند کی جاتی ہے اور اذان میں حی علی الفلاح کے معنی یہ ہیں کہ اس کامیابی کیطرف آؤ جو نما زکی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر کر رکھی ہے ۔ اور حدیث (76) حتی خفنا ان یفوتنا الفلاح ( حتی کہ فلاح کے فوت ہوجانے کا ہمیں اندیشہ ہوا ) میں بھی فلاح سے مراد وہ کامیابی ہے جو صلاۃ عشا ادا کرنے کی وجہ سے ہمارے لئے مقدر کی گئی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

(آیت 187 کی بقیہ تفسیر) بہر حال اس حدیث پر جس قدر نقد و جوع کی جائے فقہاء کے نزدیک یہ نقد و جرح اسے فاسد قرار نہیں دیتی ۔ اصحاب حدیث کے اعتراضات فقہاء کے نزدیک نہ تو حدیث کو فاسد کرتے ہیں اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی کوئی معنوی خرابی پیدا کرتے ہیں ۔ اس حدیث کی روایت خصیف نے عکرمہ سے اور انہوں نے ابن عباس سے کی ہے کہ حضرت عائشہ (رض) اور حضرت حفصہ (رض) ایک روز صبح کے وقت روزے سے تھیں ، ان کے پاس بطور ہدیہ کھانا آگیا اور پھر دونوں روزہ توڑ لیا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کو اس کے بدلے ایک روزہ قضا کرنے کا حکم دیا ۔ ہمیں عبد الباقی نے روایت کی ، انہیں عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے ، انہیں محمد بن عباد نے ، انہیں حاتم بن اسماعیل نے ابو حمزہ سے ، ابو حمزہ نے حسن سے اور انہوں نے حضرت ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ حضر ت عائشہ (رض) اور حضر ت حفصہ (رض) دونوں ایک روز صبح کے وقت روزے سے تھیں، ہدیہ کے طور پر انہیں کھانا بھیجا گیا ، دونوں نے روزہ توڑ دیا ، ابھی وہ کھانا ہی ہی تھیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کیا تم دونوں کا روزہ نہیں تھا ۔ دونوں نے عرض کیا کہ روزہ تھا ۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ اس کی جگہ ایک دن روزہ رکھ کر اس کی قضا کرو اور آئندہ ایسا نہ کرو۔ ایک اور سند سے یہ حدیث مروی ہے ۔ ہمیں عبد الباقی نے ، انہیں اسماعیل بن فضل بن موسیٰ ، انہیں حرملہ نے ، انہیں ابن وہب نے انہیں جریر بن حازم نے یحییٰ بن سعید سے ، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت بیان کی کہ ایک دن میں اور حفصہ دونوں روزے سے تھیں ۔ ہمارے پاس بطور ہدیہ کھانا آیا جو ہمیں بہت اچھا لگا ہم نے روزہ توڑ دیا ۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو حفصہ (رض) نے سبقت کر کے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسئلہ پوچھا، اور وہ کیوں نہ سبقت کرتیں جبکہ وہ اپنے باپ کی بیٹی تھیں یعنی حضرت عمر (رض) کی طرح وہ بھی جری تھیں ۔ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس روزے کے بدلے ایک دن روزہ رکھو۔ حجاج بن ارطاۃ نے زہری سے ، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضر ت عائشہ (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ نیز عبید اللہ بن عمر نے نافع سے ، انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) سے اس واقعے کی روایت کی البتہ اس میں تطوع یعنی نفل کا ذکر نہیں کیا ہے۔ یہ ہیں وہ روایات کثیرہ جو کئی طرق یعنی سلسلہ ہائے اسناد سے مروی ہیں جن میں سے بعض میں یہ مذکورہ ہے کہ دونوں صبح کے وقت نفلی روزے سے تھیں اور بعض میں نفل کا ذکر نہیں ہے ، لیکن تمام طرق میں قضا کرنے کے حکم کا ذکر ہے۔ وجوب قضا پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے ، انہیں ابو دائود نے انہیں مسدد نے انہیں عیسیٰ بن یونس نے ، انہیں ہشام بن حسان نے محمد بن سیرین سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ۔ آپ نے فرمایا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا من ذرعہ فی وھو صائم فلیس علیہ قضاء وان استقاء فلیقض جس روزہ دار کو ازخود قے آ جائے اس پر قضا نہیں ہے اور جو جان بوجھ کر قے کرے وہ قضا کرے۔ اس حدیث میں یہ بیان ہے کہ نفلی روزہ رکھنے والا جب جان بوجھ کر قے کرے اس پر قضا واجب ہے اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اس حکم میں نفلی اور فرض روزہ رکھنے والوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے اس لیے یہ حکم سب کو عام ہے۔ اس بات پر عقلی طور پر بھی اس طرح دلالت ہورہی ہے کہ تمام لوگوں کا اس مسئلے میں اتفاق ہے کہ اگر نفلی طور پر صدقہ کرنے والا کسی شخص کو صدقہ دے دے اور وہ شخص اس صدقہ پر قبضہ کرلے تو صدقہ کرنے والا اب اپنے صدقہ میں رجوع نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی وجہ سے وہ قربت باطل ہوجاتی ہے جو اسے اس صدقہ سے حاصل ہوئی تھی۔ اس طرح نفلی نماز یا نفلی روزہ شروع کرلینے والا شخص اس نماز یا روزے کو تکمیل کے مرحلے تک پہنچائے بغیر اس سے نکل نہیں سکتا کیونکہ اس سے اس حصے کا ابطلال ہوجاتا ہے جو اس سے پہلے ہوچکا ہے۔ اس لیے نفلی نماز یا نفلی روزے کی حیثیت اس صدقہ کی طرح ہے جس پر قبضہ ہوچکا ہو ا۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اس کی حیثیت اس صدقہ کی طرح ہے جس پر ابھی قبضہ نہیں ہوا ہے اس لیے کہ اس صورت میں نفلی نماز یا روزے والا اس نماز یا روزے کے باقی ماندہ حصے کی ادائیگی سے باز رہتا ہے اس لیے اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوگی جو صدقہ کی ہوئی چیز کو متعلقہ شخص کے حوالے کرنے سے باز رہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر واقعۃً یہی بات ہو تو پھر تمہاری بات درست ہوگی لیکن اصل بات یہ ہے کہ نفلی نمازیا روزے والا اگر اس نماز یا روزے کو مکمل کرنے سے پہلے نکل آتا ہے تو اس سے ادا شدہ حصہ باطل ہوجاتا ہے اس بنا پر اسے ایسا کرنے کی گنجائش نہیں ہے اور اگر ایسا کرے گا تو اس پر قضا لازم ہوگی ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ دن کے بعض حصے میں رکھا ہوا روزہ درست نہیں ہوتا اور جس شخص نے دن کے اول حصے میں کچھ کھالیا ہو تو باقی ماندہ حصے میں اس کا روزہ درست نہیں ہوگا ۔ اسی طرح جس شخص نے دن کے اول حصے میں روزہ رکھ لیا اور پھر باقی حصے میں اسے توڑ دیا تو اس نے گویا اپنے آپ کو اس دن کے روزے سے بالکلیہ نکال لیا اور جو حصہ ادا کیا تھا اسے باطل کردیا ، ایسا آدمی اس شخص کی طرح ہے جو مستحق شخص کے قبضہ میں صدقہ دے کر پھر رکوع کرلے۔ اس لیے اس کی صورت بالکل وہی ہوگی کہ ایک شخص جب صدقہ مقبوضہ میں رجوع کرلے تو اس پر اس صدقہ کو متعلقہ شخص کی طرف لوٹا دینا ضروری ہوگا ۔ اس مسئلے کی صحت پر اس بات سے دلالت حاصل ہوتی ہے کہ تمام لوگوں کا اس پر اتفاق ہے کہ نفلی حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والا اگر اس حج یا عمرہ کو فاسدکر دے گا تو اس پر قضا لازم ہوگی اور اس احرام میں دخول کی حیثیت وہی ہوگی جو قول کے ذریعہ اپنے اوپر کوئی چیز واجب کرنے کی ہے۔ احرام کی مثال پر اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ فاسد کردینے کی صورت میں اس پر قضا اس لیے واجب ہوتی ہے کہ وہ اس احرام سے خارج نہیں ہوتا ۔ دیگر عبادات مثلاً نماز روزہ وغیرہ میں یہ صورت نہیں ہوتی اس لیے کہ اس عبادت کو فاسد کرتے ہی وہ شخص اس سے خارج ہوجاتا ہے۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اس فرق کی وجہ سے ان دونوں یعنی احرام اور نماز روزہ کی اس یکسانیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ ان میں دخول کے ساتھ ہی یہ واجب ہوجاتی ہے۔ یہ محرم جس کا اعتراض میں حوالہ دیا گیا ہے اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ احرام میں دخول کی وجہ سے اس پر احرام کا لزوم ہوجاتا ہے اور اس کا اتمام واجب ہوجاتا ہے یا اس کا لزوم نہیں ہوتا ۔ اگر اس کا اتمام اس پر لازم ہوتا ہے تو فساد کی صورت میں اس پر اس کی قضا واجب ہوجاتی ہے ، خواہ وہ حالت احصار میں آ جائے یا اپنے فعل سے اسے فاسد کر دے ، اس لیے کہ جو چیز واجب ہوجائے اس کے حکم میں اس سے کوئی فائدہ نہیں پڑتا اس چیز میں اس کے اپنے فعل یا غیر کے فعل سے فساد ہوگیا ہو جس طرح کہ نذر یا فرض حج کی صورت میں ہوتا ہے ، اب جبکہ ہمارا اس پر اتفاق ہوگیا ہے کہ محرم جب احرام کو فاسد کرے گا اس پر اس کی قضا واجب ہوگی تو یہی حکم وہاں بھی ہونا چاہیے ، جہاں وہ حالت احصار میں آ جائے اور کسی اور جہت سے رکاوٹ کی بنا پر اس کا اپنا فعل متعذر ہوجائے یعنی اس افساد میں اس کے اپنے فعل کا کوئی دخل نہ ہو جیسا کہ دوسرے تمام واجبات کا حکم ہے۔ ادھر سنت کی بنا پر معترض کا قول باطل ہوگیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے من کسرا و عررج فد حل و علیہ الحج من قابل جس شخص کی ہڈی ٹوٹ گئی یا لنگڑا ہوگیا اس کا احرام کھل گیا اور اس پر اگلے سال کا حج ہے۔ آپ نے اس محصر پر قضا واجب کردی جبکہ اس کے لیے رکاوٹ اس کی اپنی ذات سے نہیں پیدا ہوئی تھی بلکہ کسی اور کی طرف سے ہوئی تھی ۔ جب یہ بات حج اور عمرہ میں ثابت ہوگئی تو اس کا ثبوت ان تمام عبادات میں ہونا چاہیے جن کی صحت کی شرط ان کا تمام ہے اور ان میں سے بعض بعض کے ساتھ مربوط ہیں ۔ مثلاً نماز روزہ وغیرہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ دوسرے تمام واجبات کی طرح ان عبادات سے خرو ج کی صورت میں ان کی قضا کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے خواہ یہ خروج اس کے اپنے فعل یا غیر فعل کے تحت عمل میں آیا ہو۔ اس رائے سے اختلاف رکھنے والا حضرت ام ہانی کی حدیث سے استدلال کرسکتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اپنا جو ٹھا پانی انہیں دیا تو حضرت ام ہانی نے اسے پی لیا اور کہا کہ میں اگرچہ روزے سے تھی لیکن میں نے یہ پسند نہ کیا کہ آپ کا جو ٹھا واپس کر دوں ۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر یہ روزہ رمضان کا قضا کا تھا تو اس کے بدلے ایک دن روزہ رکھو اور اگر یہ نفلی روزہ تھا تو تمہاری مرضی ہے خواہ اس کی قضا کردیا نہ کرو۔ اس حدیث کے متن اور اس کی سند دونوں میں اضطراب ہے۔ سند کے اضطراب کی صورت یہ ہے کہ سماک بن حرب اسے کبھی اس شخص سے روایت کرتے ہیں جس نے ام ہانی سے یہ حدیث سنی تھی اور کبھی یہ کہتے ہیں کہ ہارون بن ام ہانی سے یا ام ہانی کے نواسے سے ، اور کبھی اسے ام ہانی کے دو بیٹوں سے اور کبھی ایک بیٹے سے روایت کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ بیٹے نے یہ بتایا ہے کہ مجھے ام ہانی کے بیٹے کو یہ بات ہمارے گھر والوں نے بتائی ہے۔ اسناد میں اس قسم کا اضطراب راویوں کی قلت ضبط پر دلالت کرتا ہے۔ اضطراب متن کی یہ صورت ہے کہ ایک سند سے ہمیں یہ روایت محمد بن بکر نے کی ہے، انہیں ابو دائود نے انہیں عثمان بن ابی شیبہ نے، انہیں جریر بن عبد الحمید نے یزید بن ابی زیاد سے انہوں نے عبد اللہ بن الحرث سے اور انہوں نے حضرت ام ہانی سے روایت کی ہے کہ فتح مکہ کے دن حضرت فاطمہ (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بائیں جانب اور حضرت ام ہانی دائیں جانب آ کر بیٹھ گئیں ۔ ایک لڑکی برتن میں پانی لے کر آئی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پکڑا دیا ۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانی پی کر اسے حضرت ام ہانی کو دے دیا ، جسے انہوں نے پی لیا۔ پھر فرمانیل گیں کہ میں روزے سے تھی ، میں نے روزہ توڑ دیا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا کہ قضا کا روزہ تھا۔ ام ہانی نے نفی میں جواب دیا ۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ اگر نفلی روزہ تھا تو اس کے توڑ دینے سے تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوا ۔ اس حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہ الفاظ فلا یضرک پھر تمہیں کوئی نقصان نہیں نقل ہوئے ہیں ، لیکن اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو وجوب قضا کی نفی پر دلالت کرتی ہو ۔ اس لیے کہ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اس سے انہیں کوئی نقصان نہیں ہوا ، کیونکہ انہیں اس کا علم نہیں تھا کہ روزہ توڑ دینا ان کے لیے جائز نہیں تھا یا انہیں علم تھا لیکن انہوں نے پانی پینے اور روزہ توڑ دینے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کو روزہ جاری رکھنے سے بڑھ کر خیال کیا ۔ ہمیں عبد اللہ بن جعفر احمد بن فارس نے ، انہیں یونس حبیب نے ، انہیں ابو دائود طیالسی نے ، انہیں شعبہ نے ، انہیں قریش کے ایک شخص جعدہ نے ، جو حضرت ام ہانی کے بیٹے تھے، یہ روایت سنائی اور سماک بن حرب نے جو شعبہ کو روایت کرتے تھے بتایا کہ انہیں حضرت ام ہانی کے دو بیٹوں نے خبر دی ۔ شعبہ کہتے ہیں کہ میں ان دونوں میں سے جو بڑے تھے یعنی جعدہ، ان سے ملا ۔ انہوں نے مجھے حضرت ام ہانی سے یہ روایت سنائی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دفعہ ان کے پاس آئے انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پینے کے لیے کچھ دیا ۔ آپ ؐ نے پی کر واپس انہیں پکڑا دیا ۔ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو ٹھا پانی لیا اور پھر عرض کیا کہ میں روزے سے تھی ۔ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نفلی روزہ اپنی ذات کا امین یا امیر ہوتا ہے۔ چاہے روزہ جاری رکھے اور چاہے توڑ دے، میں نے جعدہ سے پوچھا کہ آیا تم نے یہ روایت ام ہانی (رض) سے سنی ہے۔ جعدہ نے جواب دیا کہ مجھے میرے گھر والوں اور ام ہانی (رض) کے آ زاد کردہ غلام اوابو صالح نے یہ بات بتائی ہے۔ نیز سماک نے شعبہ کو ایسے شخص کے واسطے سے روایت سنائی جس نے حضرت ام ہانی سے یہ روایت سنی تھی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نفلی روہ رکھنے والے کو اختیار ہوتا ہے کہ چاہے تو روزہ جاری رکھے اور چاہے تو توڑ دے، نیز سماک نے ہارون ابن ام ہانی سے روایت کی ہے کہ ہارون نے بتایا کہ انہیں حضرت ام ہانی نے خبر دی ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر یہ رمضان کا قضا روزہ تھا تو اس کی جگہ ایک دن کا روزہ رکھو لو اور اگر نفلی روزہ تھا تو اگر چاہو تو رکھ لو اورچاہو تو نہ رکھو ۔ ان تمام روایات میں ایسی کسی بات کا ذکر نہیں ہے جو قضا کی نفی پر دلالت کرتی ہو ، ان میں تو صرف اس کا ہی تذکرہ ہے کہ روزہ دار کو اختیار ہوتا ہے اور وہ اپنی ذات کا امین ہوتا ہے اور اس کے لئے گنجائش ہوتی ہے کہ نفل روزے کی صورت میں روزہ توڑ دے۔ ان روایات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نہیں فرمایا کہ تم ام ہانی پر قضا نہیں ہے۔ پھر اس حدیث کے تین میں الفاظ کا اختلاف اس کے غیر محفوظ ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔ اگر یہ الفاظ ثابت بھی ہوجائیں تو ان میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو وجوب قضا کی نفی پر دلالت کرتی ہو اس لیے کہ ان میں زیادہ سے زیادہ جو بات ہے وہ افطار یعنی روزہ تو دڑنے کی اباحت ہے اور افطار کی اباحت سقوط قضا پر دلالت نہیں کرتی ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد کہ الصائم امین نفسہ روزہ دار اپنی ذات کا امین ہوتا ہے یا الصائم بالخیبار روزہ دار کو اختیار ہوتا ہے۔ اس میں یہ جائز ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ مراد لی ہو کہ جو شخص روزے کی نیت کے بغیر صبح سے ہی ان باتوں سے باز رہے جن سے ایک روزہ دار باز رہتا ہے اسے اختیار ہے کہ نفلی روزے کی نیت کرے یا رزہ نہ رکھے جو شخص روزہ دار کی طرح کھانے پینے اور ہم بستری سے باز رہتا ہے اسے بھی صائم یعنی روہ دار کہا جاتا ہے جیسا کہ عاشورہ کے دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس نے صبح کچھ کھالیا ہے وہ باقی ماندہ دن روزہ رکھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد اس سے یہ تھی کہ ان باتوں سے دور رہے جن سے روزہ دار رہتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح آپ کے ارشاد کہ روزہ دار اپنی ذات کا امین ہوتا ہے یا روزہ دار کو اختیار ہوتا کے بھی یہی معانی ہیں۔ اس حدیث کے بعض طرق میں یہ الفاظ اگر پائے گئے ہیں کہ فان شئت فاقضی وان شئت فلا تقضی اگر تو چاہے تو روزہ قضا کرلے اور اگر چاہے تو قضا نہ کرے تو یہ راوی کی طرف سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد لا یضضرک وان شئت فافطوی والصائم بالخیار کی تفسیر ہے اور اگر بات ایسی ہے تو اس سے قضا کی نفی ثابت نہیں ہوتی ۔ اس کے باوجود بھی اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایجاب قضا کی نفی اس طرح ثابت ہوجائے جس میں تاویل کا کوئی احتمال نہ ہو اور سند بھی درست ہو نیز تین میں اتساق ہو ، یعنی اضطراب نہ ہو، پھر بھی وہ روایات کئی وجوہ سے اولیٰ ہوں گی جو قضا کو واجب کرتی ہیں ۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اگر ایک مسئلے کے متعلق دو روایتیں ہوں ۔ ایک اباحت کو اور دوسری ممانعت کو ظاہر کرتی ہو تو ممانعت والی روایت عمل کے لیے اولیٰ ہوگی ، یہاں ہماری روایت ترک قضا کی ممانعت کرتی ہے جبکہ معترض کی روایت اباحت ظاہر کرتی ہے۔ اس لیے ہماری روایت اس روایت کے مقابلہ میں اولیٰ ہوگی ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قضا کی نفی کرنے والی روایت اصل کے طور پر وارد ہے اور قضا کو واجب کرنے والی اس روات کی نا قل ہے اور جو روایت نا قال ہوتی ہے اس کی حیثیت بڑھ کر ہوتی ہے کیونکہ معنوی طور پر وہ اس اصل روایت کے بعد کی روایت ہوتی ہے گویا اس کے ورود کی تاریخ کا علم ہوجاتا ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ترک واجب پر ایک شخص سزا کا مستحق ہوجاتا ہے جبکہ کسی مباح کام کے کرلینے پر ایسا نہیں ہوتا ۔ اس لحاظ سے وجوب کی روایت پر عمل پیرا ہونا نفی کی روایت پر عمل پیرا ہونے سے بہتر ہوتا ہے۔ اباحت افطار کے سلسلے میں حضرت ام ہانی (رض) عہنا کی روایت کی معارض وہ روایت ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں عبد اللہ بن سعید نے ، انہیں ابو خالد نے ہشام سے ، انہوں نے ابن سیرین سے اور انہوں نے حضرت ابو ہر یہ (رض) سے آپ نے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے اذا اعی احد کم فلیجب ، فان کان مفطرا ً فلیطعم وان کان صائما فلیصل جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت پر بلایا جائے تو وہ یہ دعوت قبول کر کے وہاں جائے اگر روزے سے نہ ہو تو کھانا کھالے اور اگر روزے سے ہو تو کھانے کی بجائے نماز پڑھے۔ ابو دائود نے کہا ہے کہ انہیں حفص بن غیاث نے بھی یہ روایت سنائی ہے ۔ ایک اور روایت جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں مسدد نے ، انہیں سفیان نے ابو الزناد سے ، انہوں نے الاعرج سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے ، آپ نے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے اذا دعی احد کم الی طعام وھو صائم فلیقل الی صائم جب تم میں سے کسی کو کھانے پر بلایا جائے اور وہ روزے سے ہو تو صاف دے کہ میں روزے سے ہوں ۔ یہ دونوں روایتیں بغیر عذر کے روزہ توڑنے کی ممانعت کرتی ہیں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان روایتوں میں نفلی روزہ دار اور فرض روزہ رکھنے والے کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کیا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ پہلی روایت میں آپ کا ارشاد ہے کہ اگر وہ روزے سے ہو تو نماز پڑھے اور نماز روزہ توڑ دینے یعنی افطا ر کے منافی ہیں نیز آپ نے روزہ دار اور مفطر یعنی غیر روزہ دار کے درمیان فرق رکھا ہے اگر روزہ دار کے لیے روزہ توڑ دینا جائز ہوتا تو آپ کا ارشاد یہ ہوتا کہ اسے کھانا کھا لینا چاہیے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ پہلی روایت میں صلاۃ سے مراد دعا ہے اور دعا کھانے کے منافی نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ روایت سے صلاۃ کے مراد علی الاطلاق وہ معلوم صلاۃ ہے جو رکوع اور سجدے کے ساتھ ہوتی ہے ۔ اس سے دعامراد لینا درست نہیں ہے الایہ کہ اس کے لیے کوئی دلالت موجود ہو ۔ اگر اس سے دعا مراد لے بھی لی جائے تو اس کی اس بات پر دلالت قائم رہے گی کہ وہ روزہ نہیں توڑے گا کیونکہ آپ نے روزہ دار اور غیرروزہ دار کے درمیان فرق کردیا تھا جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد فلیقل انی صائم وہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اسے کھانے سے منع کیا جا رہا ہے جبکہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعوت قبول کرنے کو مسلمان کے حقوق مثلاًسلام ، مریض کی عیادت اور جنازے میں شرکت وغیرہ کی طرح ایک حق قرار دیا ہے ۔ جب آپ نے یہ کہہ کر اسے دعوت میں کھانے سے منع کردیا کہ فلیقل انی صائم تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ عذر کے بغیر ہر قسم کے روزے میں افطار یعنی روزہ توڑنے کی ممانعت ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابو الدردا اور حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ آپ دونوں نفلی روزہ توڑ دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے ، یہ بھی روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر (رض) مسجد میں داخل ہوئے اور ایک رکعت نماز پڑھ کر واپسی کے لیے مڑ گئے۔ ایک شخص نے یہ دیکھ کر آپ سے ایک رکعت پڑھنے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے جواب دیا کہ یہ تو نفلی نماز ہے جو شخص چاہے زیادہ پڑھ لے اور جو چاہے کم پڑھ لے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے حضرت ابن عباس حضرت ابن عمر (رض) سے نفلی روزہ توڑ دینے والے پر قضا کے وجوب کی رویت کی ہے۔ رہ گئی حضرت ابو الدرداء اور حضرت جابر (رض) کی روایت تو اس میں قضا کی نفی پر دلالت موجود نہیں ہے۔ اس میں تو صرف افطار کی اباحت کا ذکر ہے۔ حضرت عمر (رض) سے جو اثر مروی ہے اس میں یہ احتمال ہے کہ حضرت عمر (رض) کی اس سے مراد یہ ہو کہ جو شخص کوئی نماز اس خیال سے شروع کرلے کہ یہ اس کے ذمہ ہے اور پھر اسے یاد آ جائے کہ یہ اس کے ذمہ نہیں ہے تو پھر اس صورت میں یہ نماز نفل بن جائے گی اور نمازی کے لیے اسے قطع کرنا درست ہوجائے گا اور اس پر قضا بھی واجب نہیں ہوگی ۔ جبکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ ایک رکعت نماز بالکل جائز نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ارشاد باری فاقروا ما تیسر من القرآن تمہیں جہاں سے آسان ہو قرآن کی تلاوت کرو کی ایک رکعت پر اقتصار کے جواز پر دلالت ہوتی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ارشاد باری میں قرأت کے متعلق تخیر ہے نہ کہ نماز کی رکعتوں کے متعلق اور قرأت میں تخیر سے ، نماز کے تمام ارکان میں تخییر لازم نہیں آتی ۔ اس لیے آیت مبارکہ میں رکعتوں کے حکم پر کوئی دلالت نہیں ہو رہی ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر کسی شخص نے قربانی کے لیے حاصل کیے ہوئے جانور کو ذبح کرلیا تو اس پر اس کا بدل لازم ہوجائے گا ، یہی حکم تمام عبادات کا ہے۔ قول باری ہے ثم اتموا الصیام الی اللیل کی جن احکام پر دلالت ہو رہی ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ جو شخص صبح کے وقت حالت اقامت میں ہو اور اس کا روزہ بھی ہو پھر سفر پر روانہ ہوجائے اس کے لیے اس دن روزہ توڑ دینا جائز نہیں ہوگا ۔ ظاہر آیت اس پر دلالت کر رہی ہے اور اس میں روزہ رکھنے کے بعد سفر پر چلے جانے والے اور مقیم رہنے والے کے درمیان کوئی امتیاز قائم نہیں کیا گیا ۔ آیت میں اس پر بھی دلالت موجود ہے کہ جو شخص یہ خیال کرتے ہوئے کہ ابھی رات ہے طلوع فجر کے بعد کھالے یا یہ خیال کرتے ہوئے کہ سورج غروب ہوچکا ہے ، غروب شمس سے پہلے روزہ کھول لے تو ان دونوں صورتوں میں اس پر قضا واجب ہوگی کیونکہ ارشاد خداوندی ہے کہ تم اتموا الصیام الی اللیل اور اس شخص نے روزے کا اتمام نہیں کیا کیونکہ روزہ نام ہے کھانے پینے اور جماع سے باز رہنے کا اور چونکہ باز نہیں رہا اس لیے یہ صائم نہیں ہے۔ اس مسئلے میں سلف کا اختلاف ہے۔ مجاہد ، جابر بن زید اور الحکم کا قول ہے کہ ایسے شخص کا روزہ مکمل ہوجائے گا اور اس پر قضا لازم نہیں آئے گی ۔ یہ مسئلہ اس صورت میں ہے جبکہ سحری کرنے والا یہ سمجھتے ہوئے کہ ابھی رات ہے طلوع فجر کے بعد سحری کرے۔ مجاہد کا قول ہے کہ اگر کسی نے یہ خیال کر کے سورج غروب ہوچکا ہے روزہ کھول لیا پھر معلوم ہوا کہ سورج غروب نہیں ہوا تھا تو وہ یہ روزہ قضا نہیں کرے گا ۔ اسی طرح مجاہد کے قول میں دونوں صورتوں کے درمیان فر ق رکھا گیا ہے اس لیے کہ قول باری ہے حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجراب جب کہ اس شخص کے لیے اس کا تبین نہیں ہوا یعنی اس کے متعلق قطعی علم نہ ہوسکا تو اس کے لیے کھاتا مباح ہوگا اور اگر طلوع فجر کے یقینی علم سے پہلے اس نے کھا پی لیا ہو تو ایسی صورت میں اس پر قضا بھی لازم نہیں آئے گی ۔ لیکن اگر کسی نے غروب شمس کے خیال سے روزہ کھول لیا جبکہ ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا تو چونکہ اس کا روزہ یقین تھا اس لیے اسے جائز نہ تھا کہ غروب شمس کے متعلق یقین حاصل کرنے سے پہلے روزہ کھول لے۔ ابن سیرین ، سعید بن جبیر اور ہمارے اصحاب ، امام مالک ، سفیان ثوری اور امام شافعی کا قول یہ ہے کہ دونوں حالتوں میں قضا کرے گا ۔ البتہ امام مالک نے یہ فرمایا ہے کہ نفلی روزے کی صورت میں روزہ جاری رکھے گا اور فرض روزے کی صورت میں قضا کرے گا ۔ اعمش نے زید بن وہب سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) اور دوسرے لوگوں نے ایک بادل والے دن میں روزہ کھو ل لیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا کہ نجدا ہم نے گناہ کی طرف جھکائوظاہر نہیں کیا ، ہم اب اس کی قضا نہیں کریں گے۔ آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا یہ معاملہ کوئی سنگین نہیں ہے۔ ہم ایک دن کی قضا کرلیں گے۔ ظاہر آیت ثم اتموا الصیام الی اللیل کا اقتضا یہ ہے کہ عدم اتمام کی صورت میں اس کا روزہ باطل ہوجائے ۔ آیت میں وقت کی عدم معرفت کی بنا پر کھا لینے والے اور اس کا علم رکھتے ہوئے کھا لینے والے کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ قول باری وکلوا وشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر اب اگر کسی کو اس کاتبین یعنی یقینی علم نہیں ہوتا تو اس کے لیے کھانا پینا مباح ہوگا اسکے جواب میں کہا جائے گا کہ اس قسم کے کھانے پینے میں دو میں سے ایک صورت ضرور ہوگی ۔ اول یہ کہ کھانے والے کے لیے طلوع فجر کے متعلق یقین حاصل کرنا ممکن ہو ۔ اس کی صورت یہ ہوگی کہ وہ طلوع فجر سے روشناس ہو اور درمیان میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو ، اس کے بعد بھی اگر وہ طلوع فجرکا یقین حاصل نہیں کرتا تو یہ اس کی کوتاہی شمار ہوگی اور یہ کہا جائے گا کہ اس نے طلوع فجر معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی اور اس کا لحاظ نہیں رکھا ۔ ایسی صورت حال میں اس کے لیے کھانے کا اقدام درست نہیں ہوگا اور اگر وہ یہ اقدام کر بیٹھے گا تو وہ ایسے فعل کا مرتکب ہوگا جو اسے کرنا نہیں چاہیے تھا۔ اس کے لیے کہ طلوع فجر کے متعلق یقین کرنا اور اس کا علم حاصل کرنا اس کے امکان میں تھا اور یہ چیز اس کے بس سے باہر نہیں تھی ۔ اس نے ایسا نہ کر کے کوتاہی کی اس لیے اس کی کوتاہی اس سے روزے کی فرضیت ساقط نہیں کرسکی ۔ دوم یہ کہ کھانے والے کے لیے طلوع فجر کے متعلق یقین حاصل کرنا ممکن نہ ہومثلاً وہ طلوع فجر کے مفہوم سے نا آشنا ہو یا اس کی درمیان کوئی رکاو ٹ حائل ہوگئی ہو یا چاندنی رات ہو یا اس کی بینائی کمزور ہو یا کوئی اور صورت ہو تو ایسی حالت میں اس کے لیے ظن اور گمان پر عمل کرنا جائز نہیں ہوگا بلکہ یقین تک پہنچنا اس کی ذمہ داری ہوگی اور شک کی حالت میں اس کے کھانے کا عمل درست نہیں ہوگا ۔ جب یہ بات طے ہوگئی تو پھر روزے کے متعلق ترک احتیاط کی وجہ سے اس سے قضا ساقط نہیں ہوگی ۔ اس طرح اگر کسی نے بادلوالے دن چھپنے کے گمان پر روزہ کھول لیا تو ظاہر آیت ثم اتموا الصیام الی اللیل کے مقتضی کے مطابق اس کی بھی حیثیت پہلے شخص کی سی ہوگی۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بندہ طلوع فجر کے متعلق یقین حاصل کرنے کے مکلف نہیں ہے جس کا علم اللہ کو ہے ۔ بندہ تو اس چیز کا مکلف ہے جس ا علم اسے حاصل ہو ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بندے کے لیے جب طلوع فجر کی معرفت تک جس کا علم اللہ کو ہے پہنچنا ممکن ہو تو پھر اس پر اس کی رعایت لازم ہوتی ہے۔ جس وقت درمیان میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو تو اس وقت اسکا علم نہ ہونا ایک محال سی بات معلوم ہوتی ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ غافل ہو تو غفلت کی حالت میں کھا پی لینا اس کے لیے مباح ہے لیکن کھا پی لینے کی اباحت اس سے قضا کو ساقط نہیں کرسکتی ۔ جس طرح کہ مریض اور مسافر کی کیفیت ہے اور جو اس مسئلے میں اصل کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے کہ انہیں بھی سفر اور بیماری کی معذوری لاحق ہوتی ہے۔ اس لیے جس شخص کو طلوع فجر کے متعلق اشتباہ ہوجائے یا اس کا خیال ہو کہ طلوع فجر نہیں ہوچکا ہے تو وہ کھا پی لینے میں معذور سمجھا جائے گا لیکن ہماری درج بالا وضاحت کی روشنی میں اس کی معذوری اس سے قضا کو ساقط نہیں کرسکتی ۔ ہمارے اس دعوے پر تمام لوگوں کا یہ اتفاق بھی دلالت کرتا ہے کہ اگر لوگوں کو رمضان کی پہلی رات کا چاند بادل وغیرہ کی وجہ سے نظر نہ آئے اور وہ اگلی صبح روزہ نہ رکھیں بعد میں انہیں پتہ لگے کہ آج رمضان کی پہلی تاریخ ہے تو ان پر قضا لازم ہوگی ۔ یہی حکم اس شخص کا بھی ہونا چاہیے جس کا تذکرہ درج بالا سطور میں گزر چکا ہے نیز یہی حکم اس شخص کا بھی ہے جو دارالحراب میں قید ہو اور رمضان گزر جانے کے بعد اسے اس کا علم ہو تو اس پر رمضان کی قضا لازم ہوگی۔ ایسا شخص روزہ نہ رکھنے کی صورت میں مکلف ہی نہیں تھا اور رمضان کے متعلق علم ہوجانے پر مکلف ہوا لیکن وقت کے متعلق اس کی ناواقفیت اس سے قضا ساقط نہیں کرتی ۔ اسی طرح اس شخص سے بھی ساقط نہیں ہوگی جس سے طلوع اور غروب شمس مخفی رہا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ طلوع و غروب شمس کے متعلق یقین حاصل نہ کرنے والے کو روزے کے دوران بھول کر کھا لینے والے کی طرح کیوں نہیں سمجھاجاتا اور اس سے قضا کیوں نہیں ساقط کردی جاتی جس طرح بھول کر کھا لینے سے قضا ساقط ہوجاتی ہے کیونکہ کھانے کے دوران روزے کے وجوب کا علم ہی نہیں ہوتا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ درج بالاشخص کو بھول جانے والے شخص کی طرح قرار دینا ایک فاسد تعلیل ہے۔ اس لیے کہ ایسا شخص ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں بادل وغیرہ کی وجہ سے چاند نظر نہیں آتا اور ایسے لوگوں کے متعلق سب کا اتفاق ہے کہ ان پر قضا واجب ہوجاتی ہے جب انہیں یہ علم ہوجاتا ہے کہ آج رمضان کی پہلی تاریخ ہے ۔ یہی کیفیت دارالحرب میں قید ہوجانے والے کی ہوتی ہے جب اسے رمضان کی آمد کا علم نہ ہو اور رمضان گزر بھی جائے تو سب کے نزدیک اس پر اس کی قضا واجب ہوتی ہے باوجودیکہ اسے اپنے اوپر روزے کے وجوب کا علم نہیں ہوتا۔ رہ گئی بھول کر کھا لینے والے کی بات تو اس کے متعلق ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ قیاس کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس پر قضا واجب ہو لیکن انہوں نے حدیث کی بنا پر قیاس کو ترک کردیا اگرچہ ظاہر آیت بھی اس کے روزے کی صحت کی نفی کرتا ہے کیونکہ اس نے روزے کو اتمام تک نہیں پہنچایاجب کہ قول باری ہے ثم اتموا الصیام الی للیل پھر تم رات تک روزے کو پورا کرو اور روزہ نام ہے کھانے پینے اور جماع سے بازرہنے کا جو اس میں پایا نہیں گیا ، آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ایسا شخص سے روزہ رکھنا ہی بھول جاتا تو اس پر سب کے نزدیک اسکی قضا ہوتی اور اس کا نسیان اس سے قضا کو ساقط نہیں کرسکتا۔ ایک روایت ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں ہارون بن عبد اللہ اور محمد بن العلاء المعنی ، ان دونوں کو ابو اسامہ نے ، انہیں ہشام بن عروہ نے فاطمہ بن المنذر سے اور انہوں نے حضرت اسماء بنت ابی بکر سے روایت کی ۔ وہ کہتی ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک روز ہم نے بادل والے دن روزہ کھول دیا پھر سورج نکل آیا ۔ ابو اسامہ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام سے پوچھا آیا انہیں قضا کرنے کا حکم دیا گیا گیا تھا تو ہشام نے جواب دیا کہ یہ ضروری تھا۔ قوم باری ثم اتموا الصیام الی اللیل اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ اگر کسی شخص کا روزہ زبردستی کھلادیا جائے تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا کیونکہ اس نے اپنا روزہ مکمل نہیں کیا جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں ۔ اسی طرح وہ شخص جو دیوانہ ہوگیا اور دیوانگی کے عالم میں کھا پی گیا ہو ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے روزے کی صحت کا حکم دیا ہے جو اسے رات تک پورا کرے اس بنا پر جس شخص سے روزے کی ممنوعات میں سے کوئی فعل سر زد ہوجائے وہ روزہ رات تک مکمل کرنے والا نہیں کہلائے گا اس لیے اس پر قضا لازم ہوگی۔ رہ گیا وہ وقت جبروزے کی انتہا ہوتی ہے اور فطار کرنا واجب ہوتا ہے اس کے متعلق ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں مسدد نے ، انہیں عبد اللہ بن دائود نے ہشام بن عرو ہ سے ، انہوں نے اپنے والد عروہ سے ، انہوں نے عاصم بن عمر سے اور انہوں نے اپنے والد حضرت عمر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمای اذا جاء اللیل من ھھنا وفھب النھار من ھھنا وغامبت الشمس فقد افطر الصائم جب رات اس جگہ یعنی مشرق سے آ جائے اور دن یہاں سے گزر جائے اور سورج غروب ہوجائے تو روزہ دار کا روزہ کھل جاتا ہے۔ اس روایت محمد بن بکر نے ہمیں سنائی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں مسدد نے ، انہیں عبد الواجد نے انہیں سلیمان الشیبانی نے یہ بتایا کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اذا اریتم اللیل قد اقبل من ھھنا فقد افطرالصائم جب تم دیکھو کہ رات اس طرف سے، یہ کہتے ہوئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرق کی طرف اشارہ کیا ، آ گئی ہے تو سمجھ لو کہ روزہ دار کا روزہ کھل گیا ۔ حضرت ابوسعید خدری (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا اذا سقط القوص افطر جب سورج کی ٹکیہ گرجائے یعنی ڈوب جائے تو روزہ کھول لو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جب سورج غروب ہوجائے تو روزے کا وقت ختم ہوجاتا ہے اور روزے کی تمام پابندیاں ختم ہوکر اس کے لیے کھانا اور ہم بستری کرنا جائز ہوجاتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد اذا غابت الشمس فقد افطرالصائم یہ واجب کرتا ہے کہ غروب آفتاب کے ساتھ ہی روزہ کھل جائے خواہ روزہ دار کچھ کھائے یا نہ کھائے کیونکہ روزہ رات کے وقت نہیں ہوتا ۔ اس لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صوم و صال سے منع فرمایا ہے اس لیے کہ اس صورت میں وہ روزہ نہ ہونے کے باوجود کھانے پینے سے پرہیز کرتا ہے۔ صوم وصال کا مفہوم یہ ہے کہ دو یا تین دن لگاتار کچھ نہ کھائے پئے ۔ اگر کسی وقت بھی اس نے کچھ کھا پی لیا تو وہ وصال سے خارج ہوجائے گا ۔ ابن الہاد نے عبد اللہ بن جناب سے اور انہوں نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صوم وصال سے منع فرما دیا، لوگوں نے عرض کیا کہ آپ تو ایسے روزے خود رکھتے ہیں۔ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انکم لستم کھیتی انیابیت لی مطعم یطعمنی و ساق یسقینی ذالکم واصل فمن السحو الی السحرتم میری طرح نہیں ہو مجھے تو رات کے وقت ایک کھلانے پلانے والا کھلاتا پلاتا ہے یعنی اللہ کی ذات ، اس لیے تم میں سے جو مواصلت کرنا چاہے تو بس سحر سے سحر تک کرے ۔ اس طرح آپ نے یہ ارشاد فرما دیا کہ جو شخص سحری کھالے گا وہ صوم وصال کا مرتکب نہیں ہوگا۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی بتادیا کہ آپ صوم وصال نہیں رکھتے تھے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کھلاتا پلاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں ہے کہ جب آپ سے پوچھا گیا کہ آپ صوم وصال رکھتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ رات کے وقت میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تخصیص کے طور پر صوم و وصال کی اجازت تھی امت کو اس کی اجازت نہیں تھی حالانکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتادیا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کھلاتا پلاتا ہے اور ظاہر ہے کہ جس شخص کی یہ کیفیت ہو اس کے متعلق نہیں کہا جاسکتا کہ وہ صوم و صال رکھتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اعتکاف کا بیان ارشاد باری ہے ولا تبا شروھن وانتم عاکفون فی المساجد اور تم مساجد میں اعتکاف کے دوران اپنی بیویوں کے ساتھ مباشرت نہ کرو لغت میں اعتکاف کے معنی ہیں لبث یعنی ٹھہرے رہنا ۔ قول باری ہے ما ھذہ التماثیل التی انتم لھا عاکفون یہ مجسمے یا بت کیسے ہیں جن کے قدموں سے تم چمٹے بیٹھے ہو اسی طرح ارشاد باری ہے فنظل لھا عاکفین ہم تو ان سے چمٹے ہی رہیں گے طرماح کا ایک شعر ہے۔ ؎ فباتت بنات اللیل حولی عکفا عکوف البوا کی بینھن صریع بنات اللیل یعنی ستارے میرے ارد گرد رات بھر اس طرح جمے بیٹھے رہے ہیں جس طرح کسی منقول آنسو بہانے والی عورتیں اس کے گرد جم کر بیٹھی رہتی ہیں یعنی رات کٹتی نظر نہیں آرہی تھی ۔ پھر لبث کے معنی کے ساتھ ساتھ یہ لفظ شریعت میں کچھ اور معافی کی طرف منتقل ہوگیا جو اس لفظ کے لغوی مدلول نہیں تھے۔ ان میں سے ایک معنی مسجد میں ہونا ، دوسرا معنی روزہ دار ہونا ، تیسرا ہم بستری سے مکمل طور پر پرہیز کرنا اور تقرب الٰہی کی نیت کرنا ۔ جب تک اس لفظ کے تحت یہ تمام معانی نہیں پائے جائیں گے اس وقت تک اس فعل کا کرنے والا متعکف نہیں کہلا سکتا ۔ بالکل ایسی ہی بات ہم روزہ کے سلسلے میں کہہ آئے ہیں کہ لغت میں امساک کو صوم کہتے ہیں ۔ پھر اس میں چند اور معانی کا اضافہ کردیا گیا اور اب ان معافی کے بغیر امساک شرعی روزہ نہیں کہلا سکتا ۔ جہاں تک مسجد میں ٹھہرنے کا تعلق ہے تو یہ صرف مردوں کے لیے شرط ہے ۔ عورتوں کے لیے یہ شرط نہیں ہے۔ مسجد میں اعتکاف کرنے کی اصل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے ولا تباشروھن وانتم عاکفون فی المساجد اس آیت میں مسجد میں ہونے کا اعتکاف کی شرط قرار دے دیا گیا ۔ سلف کا اس مسجد کے متعلق اختلاف رائے ہے جس میں اعتکاف درست ہوتا ہے۔ ابو وائل کے واسطے سے حضرت حذیفہ (رض) سے یہ مروی ہے کہ آپ نے حضرت عبد اللہ (رض) سے کہا کہ تم دیکھتے ہو کہ لوگوں نے تمہارے گھر اور دار اشعری کے درمیان اعتکاف کر رکھا ہے۔ کیا اس سے تمہیں غصہ نہیں آتا جبکہ تمہیں معلوم ہے کہ اعتکاف صرف تین مسجدوں یا مسجد حرام میں ہوسکتا ہے۔ اس پر حضرت عبد اللہ (رض) نے حضرت حذیفہ (رض) سے فرمایا کہ شاید لوگوں نے ٹھیک کیا ہے اور تمہیں غلطی لگ گئی ہے اور لوگوں نے بات یاد رکھی ہے اور تم بھول گئے ہو ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ حضرت حذیفہ (رض) کہا کرتے تھے کہ اعتکاف صرف تین مسجدوں میں ہوتا ہے ۔ یعنی مسجد حرام ، مسجد اقصیٰ اور مسجد نبوی ۔ قتادہ کے واسطے سے سعید بن المسیب سے مروی ہے کہ اعتکاف صرف مسجد نبوی میں ہوتا ہے یہ بات حضرت حذیفہ (رض) کے مسلک کے مطابق ہے کیونکہ یہ تینوں مسجدیں انبیاء (علیہم السلام) کی مسجدیں ہیں ۔ ایک قول اور بھی ہے کہ جس کی روایت اسرائیل نے ابو اسحاق سے اور انہوں نے الحرث سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے کی ہے کہ مسجد حرام یا مسجد نبوی کے سوا اور کہیں اعتکاف درست نہیں ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) ، حضرت عائشہ (رض) ، ابراہیم نخعی، سعید بن جبیر ، ابو جعفر اور عروہ بن الزبیر سے مروی ہے کہ اعتکاف صرف اسی مسجد میں ہوسکتا ہے جہاں با جماعت نماز ادا ہوتی ہے۔ اس طرح تمام سلف کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ اعتکاف کی ایک شرط مسجد میں ہونا ہے اگرچہ ان کے درمیان عموم و خصوص مساجد کے متعلق اختلاف رائے ہے جس کا ذکر ہم سطور بالا میں کر آئے ہیں ۔ فقہاء امصار کا اس پر اتفاق ہے۔ اعتکاف ایسی تمام مساجد میں درست ہے جہاں با جماعت نمازیں ہوتی ہوں ۔ البتہ امام مالک سے ایک روایت ہے جس کا ابن الحکم نے ذکر کیا ہے کہ کوئی شخص ایسی مسجد کے سوا اور کہیں اعتکاف نہ کرے جہاں جمعہ کی نماز ہوتی ہو یا مساجد کے صحنوں میں جہاں نماز پڑھنا جائز ہو ظاہر آیت وانتم عاکفون فی المساجد تمام مساجد میں اعتکاف کو مباح قرار دیتا ہے اس لیے کہ لفظ المساجد میں عموم ہے اور جو شخص اسے بعض مساجد کے ساتھ خاص کرے گا اسے اس پر دلیل قائم کرنا ہوگا ۔ اسی طرح اسے ایسی مساجد کے ساتھ مخصوص کرنے کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے جہاں با جماعت نماز ہوتی ہو جس طرح اسے مساجد انبیاء کے ساتھ خاص کرنا بےدلیل بات ہے اور عدم دلیل کی بنا پر اس قول کا اعتبار بھی ساقط ہوجاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا قول ہے لا بشد الرحال الا الی ثلاثۃ مساجد المسجد الحرام و مسجد بیت المقدس و مسجدی ھذا کجاوے صرف تین مسجدوں کی طرف سفر کے لئے کسے جائیں ، مسجد حرام ، مسجد بیت المقدس اور میری اس مسجد کی طرف ان تین مساجد کی تخصیص پر دلالت کرتا ہے۔ اسی طرح آپ کا قول صلاۃ فی مسجدی ھذا افضل من الف صلاۃ فی غیرہ الاالمسجد الحرام میری اس مسجد میں ایک نماز دوسری کسی مسجد میں ، مسجد حرام کے سوا ، ہزار نمازوں سے بہتر ہے ۔ ان دو مساجد کی فضلیت کے اختصاص پر دلالت کرتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بخدا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تین مساجد کی ایک صفت اور دو مساجد کی ایک صفت کے متعلق یہ قول تمام دوسری مساجد پر ان کی افضلیت پر دلالت کرتا ہے اور ان کے متعلق ہمارا بھی وہی قول ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے۔ البتہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو دوسری مسجدوں میں اعتکاف کی نفی پر دلالت کرتی ہو ۔ جس طرح کہ دوسری مسجدوں میں جمعہ اور جماعت کے جواز کی نفی پر اس میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے اس بنا پر عموم آیت کی ایسی چیز کے ساتھ تخصیص درست نہیں ہے جس کے لیے آیت میں کوئی دلالت موجو د نہیں ہے۔ امام مالک سے وہ روایت بےمعنی ہے جس میں اعتکاف کے لیے صرف جمعہ والی مسجدوں کو خاص کردیا گیا ہے اور جماعت والی مسجدوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ جس طرح جمعہ کی نماز تمام مسجدوں میں درست ہوسکتی ہے اور اس میں کوئی امتناع نہیں اسی طرح ان مساجد میں اعتکاف میں بھی کوئی امتناع نہیں ہے تو پھر اعتکاف کو جماعت والی مسجدوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف جمعہ والی مسجدوں کے ساتھ کیسے مخصوص کیا جاسکتا ہے۔ عورتوں کے اعتکاف کی جگہ کہاں ہو ؟ عورتوں کے اعتکاف کی جگہ کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے ۔ امام ابوحنیفہ ، ابو یوسف محمد اور امام ظفر کا قول ہے کہ عورت صرف اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کرے گی اور جماعت والی مسجد میں اعتکاف نہیں کرے گی ۔ امام مالک کا قول ہے کہ عورت مسجد جماعت میں اعتکاف کرسکتی ہے۔ آپ کو عورت کا اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کرنا اچھا نہیں لگتا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ غلام ، عورت اور مساجد جس جگہ چاہیں اعتکاف کرسکتے ہیں ۔ اس لئے کہ ان پر جمعہ فرض نہیں ہوتا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا لا تمنعوا ماء اللہ مساجد اللہ وبیوتھن خیر لھن اللہ کی لونڈیوں کو اللہ کی مسجدوں میں جانے سے نہ روکو اور ان کا گھران کے لیے سب سے بہتر ہے آپ نے یہ بتادیا کہ عورتوں کا گھر ان کے لیے سب سے بہتر ہے۔ آپ نے اعتکاف اور نماز کے درمیان ان کے حکم میں کوئی فرق نہیں رکھا۔ جب باتفاق فقہاء عورت کے لیے اعتکاف جائز ہوگیا تو یہ واجب ہوگیا کہ اس کا اعتکاف اس کے گھر میں ہو ۔ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول ہے کہ وبیوتھن خیر لھن ان کا گھر ان کے لیے سب سے بہتر ہے اگر عورت ان میں سے ہوتی جن کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنا مباح ہے تو مسجد میں اس کا اعتکاف افضل ہوتا اور ان کے گھر ان کے لیے سب سے بہتر نہ ہوتا ۔ اس لیے کہ مسجد میں اعتکاف کرنا ان لوگوں کے لیے شرط ہے جن کے لیے وہاں اعتکاف کرنا مباح ہے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے کہ صلاۃ المراۃ فی دار ھا افضل من صلا تھا فی مسجد ھا وصلا تھا فی بیتھا افضل من معلا تھا فی دارھا وصلا تھا فی مخدعھا افضل من ضلا تھا فی بیتھا عورت کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں جا کر نماز پڑھنے سے افضل ہے اور اس کا اپنے کمرے میں نماز پڑھنا گھر میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور اس کا اپنے کمرے کے اندر بنی ہوئی کوٹھڑی میں نماز پڑھنا کمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ جب اپنے کمرے میں اس کی نماز مسجد کی نماز سے افضل ہے تو اس کے اعتکاف کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ عورتوں کے لیے مسجد میں جا کر اعتکاف کرنے کی کراہت پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں عثمان بن ابی شیبہ نے، انہیں ابو معاویہ اور یعلی بن عبید نے یحییٰ بن سعید سے ، انہوں نے عمرہ سے عمرہ نے حضرت عائشہ (رض) سے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعتکاف کرنے کا ارادہ فرماتے تو فجر کی نماز پڑھنے کے بعد اعتکاف کی جگہ میں داخل ہوجاتے۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ نے ایک دفعہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنے کا ارادہ کیا آپ نے اس کے لیے مسجد میں جھولداری کھڑی کرنے کا حکم دیا چناچہ جھولداری کھڑی کردی گئی یہ دیکھ کر میں نے اور دوسری ازواج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اپنے لیے الگ الگ جھولداریاں بنوا لیں۔ جب آپ نے صبح کی نماز ادا کی تو آپ کی نظر ان جھولداریوں پر پڑی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” یہ جھولداریاں کیسی ہیں ، کیا تم نے ان کے ذریعے نیکی کا ارادہ کیا ہے ؟ “ اس کے بعد آپ نے اپنی جھولداری گرانے کا حکم دیا اور ازواج مطہرات کو بھی اپنی اپنی جھولداریاں اکھڑ وا دینے کا حکم دیا ۔ پھر آپ نے یہ اعتکاف شوال کے پہلے عشرے تک موخر کردیا ۔ یہ روایت مسجد میں عورتوں کے اعتکاف کی کراہت پر دلالت کرتی ہے ۔ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازواج مطہرات کی جھولداریاں مسجد میں لگی ہوئی دیکھ کر فرمایا تھا آلبرتردن کیا تم نے اس سے نیکی کا ارادہ کیا ہے۔ اس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ یہ کوئی نیکی کی بات نہیں ہے۔ اس چیز کی کراہت کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے اس ماہ اعتکاف ہی نہیں کیا اور اپنی جھولداری گرا دی تا کہ ازواج مطہرات بھی اپنی اپنی جھولداریاں گرا دیں ۔ اگر آپ کے نزدیک ان کا اعتکاف پسندیدہ ہوتا تو آپ ہرگز پختہ عزم کرلینے کے بعد اعتکاف ترک نہ فرماتے اور نہ ہی ازواج مطہرات کے لیے اسے ترک کردینا جائز ٹھہراتے جبکہ اعتکاف تقرب الٰہی کا ایک ذریعہ ہے۔ اس واقعہ میں یہ دلالت موجود ہے کہ آپ نے مسجد میں عورتوں کے اعتکاف کو ناپسند فرمایا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس حدیث کی روایت سفیان بن عینیہ نے یحییٰ بن سعید سے کی ہے ، انہوں نے عمرہ سے اور عمرہ نے حضرت عائشہ (رض) سے ، اس میں حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اعتکاف کرنے کی اجازت مانگی ، آپ نے مجھے اجازت دے دی ، پھر زینب نے اجازت مانگی آپ نے انہیں بھی اجازت دے دی ۔ جب آپ نے فجر کی نماز پڑھی تو مسجد میں چار جھولداریاں دیکھیں ۔ استفسار کرنے پر آپ کو بتایا گیا کہ ان میں سے تین زینب ، حفصہ اور عائشہ کی ہیں یہ سن کر آپ نے فرمای آلبرتردن اور پھر آپ نے اعتکاف نہیں کیا ۔ اس روایت میں حضرت عائشہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اجازت کی خبر دی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس روایت میں انہیں مسجد میں اعتکاف کی اجازت کی کوئی بات نہیں ہے بلکہ اس میں یہ احتمال ہے کہ آپ کی طرف سے اجازت کا مقصد یہ تھا کہ یہ ازواج مطہرات اپنے اپنے گھروں میں اعتکاف کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ نے مسجد میں ان کی جھولداریاں لگی ہوئی دیکھیں تو آپ نے اعتکاف کا ارادہ ہی ترک کردیا تا کہ وہ بھی اپنا اپنا ارادہ ترک کردیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی طرف سے ابتدا میں اجازت کا تعلق مسجد میں اعتکاف کا اجازت سے نہیں تھا نیز اگر ابتدا میں اجازت کا تعلق مسجد میں اعتکاف کے جواز سے ہوتا تو آپ کی طرف سے نا پسندیدگی کا اظہار اس اجازت کے منسوخ ہونے پر دلالت کرتا اور اس طرح آپ کا آخری حکم سابقہ حکم سے اولیٰ قرار پاتا ۔ اگر اس استدلال پر یہ اعتراض کیا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ناپسندیدگی آپ کی طرف سے دی ہوئی اجازت کے لیے ناسخ نہیں بن سکتی اس لیے کہ احناف کا یہ کلیہ ہے کہ جب تک کسی فعل پر مکلف کو قدرت حاصل نہ ہوجائے اس فعل پر نسخ وارد نہیں ہوسکتا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ازواج مطہرات کو کم سے کم اعتکاف پر تمکن یعنی قدرت حاصل ہوگئی تھی ۔ اس لیے کہ یہ اعتکاف اس دن طلوع فجر سے شروع ہوگیا تھا۔ یہاں تک کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فجر کی نماز پڑھ لی اور پھر آپ نے ازواج مطہرات کے اس فعل پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا ۔ اس طرح اس مدت میں اگرچہ وہ قلیل ہی سہی ، ازواج مطہرات کو اعتکاف کرنے کی قدرت حاصل ہوگئی تھی ۔ اس لیے اب اس پر نسخ کا ورد و درست ہوگیا ۔ امام شافعی کا یہ قول بےمعنی ہے کہ جس شخص پر جمعہ واجب نہیں وہ جس جگہ چاہے اعتکاف کرسکتا ہے اس لیے کہ اعتکاف کا جمعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ امام شافعی کے ساتھ ہمارا اس امرپر اتفاق ہے کہ جن لوگوں پر جمعہ واجب ہے اور جن پر جمعہ واجب نہیں ہے ان کے لیے تمام مساجد میں اعتکاف جائز ہے ۔ اعتکاف کی جگہ کے لحاظ سے ان دو گروہوں کا حکم یکساں ہے ۔ البتہ عورت کے لیے مسجد میں اعتکاف کو مکروہ سمجھا گیا ہے کیونکہ ایسی صورت میں اسے مسجد میں مردوں کے ساتھ ٹھہرنا پڑے گا اور یہ چیز اس کے لیے مکروہ خواہ وہ حالت اعتکاف میں ہو یا نہ ہو ۔ عورت کے سوا دوسروں کے لیے اعتکاف کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہے اس لیے کہ قول باری وانتم عاکفون فی المساجد آیت میں یہ تخصیص نہیں ہے کہ جس پر جمعہ واجب ہو وہی اعتکاف کرے دوسرا نہ کرے۔ اس لیے جس پر جمعہ واجب ہے اور جس پر واجب نہیں ہے۔ دونوں کے لیے اعتکاف کا حکم یکساں ہے کیونکہ اعتکاف ایک نفلی عبادت ہے ، یہ کسی پر فرض نہیں ہے۔ مدت اعتکاف کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ ، ابو یوسف ، محمد ، ظفر اور امام شافعی کا قول ہے کہ اعتکاف کرنے والے کو اجازت ہے کہ وہ ایک دن یا جتنے دن چاہے اعتکاف کرسکتا ہے ۔ ہمارے اصحاب سے اس شخص کے متعلق روایت میں اختلاف ہے جو زبان سے ایجاب کئے بغیر اعتکاف میں داخل ہوجائے۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ جب تک مسجد میں رہے گا اعتکاف کی حالت میں رہے گا ۔ پھر اسے اجازت ہوگی کہ جب چاہے مسجد میں باہر چلا جائے البتہ جب تک رہے روزہ دار کی طرح رہے یعنی کھانے پینے سے پرہیز کرے۔ دوسری روایت جو حنیفہ کی کتب اصول کی روایت کے علاوہ ہے، یہ ہے کہ وہ ایک دن مکمل کرے۔ ابن وہب نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا میں نے کسی کے متعلق یہ نہیں سنا کہ اس نے دس دنوں سے کم کا اعتکاف کیا ہو ۔ اگر کوئی ایسا کرلیتا ہے تو میرے نزدیک اس پر کوئی چیز عائد نہیں ہوگی ۔ ابن القاسم نے اما م مالک سے یہ نقل کیا ہے کہ آپ فرمایا کرتے ۔ اعتکاف ایک دن ایک رات کا ہوتا ہے ۔ پھر آپ نے اس قول سے رجوع کرلیا اور فرمایا کہ دس دنوں سے کم کا اعتکاف نہیں ہوتا ۔ عبید اللہ بن الحسن کا قول ہے کہ مجھے دس دن سے کم کا اعتکا ف پسند نہیں ۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ اعتکاف کی مدت کی تحدید یا تو شریعت کی طرف سے اس کے متعلق رہنمائی کی بنیاد پر درست ہوسکتی ہے یا پھر اتفا ق امت کی بنیاد پر اور یہاں یہ دونوں باتیں معدوم ہیں ۔ اس لیے جو شخص اس کی تحدید کو واجب کرتا ہے وہ کسی دلیل کے بغیر اپنی رائے سے فیصلہ کرتا ہے اگر یہ کہا جائے کہ دس دنوں کی تحدید اس لیے ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا تھا ، نیز یہ روایت بھی ہے کہ آپ نے شوال کے پہلے عشرہ میں اعتکاف فرمایا تھا، آپ سے کوئی ایسی روایت موجود نہیں ہے جو اس سے کم مدت کے اعتکاف کی نشاندہی کرتی ہو ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ فقہاء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعتکاف کا یہ فعل وجوب کی بنا پر نہیں تھا اور اس فعل سے کسی پر اعتکاف کا وجوب نہیں ہوتا اب جبکہ آپ کے اعتکاف کا یہ فعل وجوب کی بنا پر نہیں تھا تو آپ کے اس فعل سے دس دنوں کی تحدید نہ کرنا اولیٰ ہے۔ اس کے باوجود آپ نے دس دنوں کے علاوہ کم و بیش دنوں کی نفی نہیں کی ۔ اس لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ دس دنوں کا اعتکاف جائز ہے اور اس سے کم دنوں کے اعتکاف کی نفی کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو اعتکاف کو مطلق رکھا ہے۔ قول باری ہے ولا تبا شو وھن وانتم عاکفون فی المساجد اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اعتکاف کو نہ تو کسی وقت کے ساتھ محدود کیا ہے اور نہ ہی کسی مدت کے ساتھ مخصوص کیا ہے ۔ اس لیے اعتکاف وقت اور مدت سے آزاد ہے اور بغیر کسی دلالت کے اس کی تخصیص جائز نہیں ۔ واللہ اعلم۔ کیا رو زے کے بغیر اعتکاف درست ہوتا ہے ؟ فرمان الٰہی ہے ولا تباشروھن وانتم عاکفون فی المساجد ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ اعتکاف ایک شرعی نام ہے اور جو اسم اس قسم کا ہو اس کی حیثیت اس مجمل کی طرح ہوتی ہے جس کی تفصیل اور بیان کی ضرورت ہوتی ہے اس مسئلے میں سلف کا اختلاف ہے۔ عطاء نے حضرت ابن عمر (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت عائشہ (رض) سے یہ روایت کی ہے کہ اعتکاف کرنے والے پر روزہ لازم ہے۔ سعید بن المسیب نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ معتکف کے لیے روزہ رکھنا سنت ہے حاتم بن اسماعیل نے جعفر بن محمد سے اور انہوں نے اپنے والد محمد سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ روے کے بغیر کوئی اعتکاف درست نہیں ہوتا ۔ شعبی ، ابراہیم نخعی اور مجاہد کا یہی قول ہے۔ دوسرے حضرات کا یہی قول ہے کہ روزے کے بغیر بھی اعتکاف درست ہے۔ الحکم نے حضرت علی (رض) اور حضرت عبد اللہ (رض) سے قتادہ نے حسن اور سعید سے اور ابو معشر نے ابراہیم سے یہ روایت کی ہے کہ معتکف اگر چاہے تو روزہ رکھ لے اور اگر چاہے تو نہ رکھے ۔ طائوس نے حضرت ابن عباس (رض) سے بھی اس قسم کی روایت کی ہے۔ اس مسئلے میں فقہاء امصار کا بھی اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ ، ابو یوسف ، محمد ، زفر ، امام مالک اور سفیان ثوری نیز حسن بن صالح کا قول ہے کہ روزے کے بغیر اعتکاف درست نہیں ہوتا ۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ اعتکاف تو رمضان میں ہوتا ہے اور غیر رمضان میں جوار ہوتا ہے یعنی اللہ کے گھر میں اللہ کا پڑوس حاصل ہوجاتا ہے۔ تا ہم جو شخص جوار حاصل کرے اس پر وہی باتیں لازم ہیں جو معتکف پر لازم ہیں یعنی روزہ وغیرہ ۔ امام شافعی کا قول ہے کہ روزے کے بغیر بھی اعتکاف درست ہے ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں اعتکاف ایک مجمل لفظ ہے جس کی تفصیل اور بیان کی ضرورت ہے اس لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اعتکاف کے دوران جو افعال کئے وہ سب کے سب اس شرعی اعتکاف کا بیان ہیں اور ان پر عمل پیرا ہونا واجب ہے اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی فعل اگر مورد بیان آ جائے تو اسکا حکم وجوب کا ہوتا ہے۔ البتہ اگر اس کے خلاف کوئی دلیل قائم ہوجائے تو وہ دوسری بات ہے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روزے کے بغیر کسی اعتکاف کا ثبوت نہیں تو یہ ضروری ہوگیا کہ روزہ اس کی وہ شرط بن جائے جس کے بغیر وہ درست نہ ہو جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افعال صلاۃ مثلاً تعداد رکعات قیام ، رکوع ، سجود جب مورد بیان میں آ گئے تو وہ واجب ہوگئے۔ سنت کی جہت سے اس سلسلے میں ایک روایت ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے سنائی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں احمد بن ابراہیم نے ، انہیں عبد اللہ بن بدیل بن ورقاء لیثی نے عمرو بن دینار سے انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہ حضرت عمر (رض) نے زمانہ جاہلیت میں اپنے اوپر کعبہ کے نزدیک ایک دن یا ایک رات کا اعتکاف لازم کرلیا تھا۔ حضرت عمر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ روزے کے ساتھ اعتکاف کرلو ۔ ایک اور طریق سے یہ روایت جو ہمیں محمد بن بکر نے سنائی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں عبد اللہ بن عمر (رض) ، بن محمد ابان بن صالح قرشی نے ، انہیں عمرو بن محمد نے عبد اللہ بن بدیل سے اپنی سند کے ساتھ اسی طرح کی حدیث سنائی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم چونکہ وجوب کی حیثیت رکھتا ہے۔ سنت کی جہت سے اس سلسلے میں ایک روایت ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے سنائی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں احمد بن ابراہیم نے ، انہیں عبد اللہ بن بدیل بن ورقاء لیثی نے عمرو بن دینار سے انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہ حضرت عمر (رض) نے زمانہ جاہلیت میں اپنے اوپر کعبہ کے نزدیک ایک دن یا ایک رات کا اعتکاف لازم کرلیا تھا۔ حضرت عمر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ روزے کے ساتھ اعتکاف کرلو ۔ ایک اور طریق سے یہ روایت جو ہمیں محمد بن بکر نے سنائی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں عبد اللہ بن عمر (رض) بن محمد ابان بن صالح قرشی نے ، انہیں عمرو بن محمد نے عبد اللہ بن بدیل سے اپنی سند کے ساتھ اسی طرح کی حدیث سنائی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم چونکہ وجوب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ روزہ اعتکاف کی شرط ہے ۔ اس پر حضرت عائشہ (رض) کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے کہ معتکف کے لیے روزہ رکھنا سنت ہے۔ عقلی جہت سے بھی اسکی دلیل یہ ہے کہ تمام لوگوں کا اس پر اتفاق ہے کہ نذر کے اعتکاف میں روزہ لازما ہوتا ہے۔ اس لیے اگر روزہ اعتکاف کے مفہوم میں داخل نہ ہوتا تو نذر کی صورت میں یہ لازم نہ ہوتا ۔ اس لیے کہ قاعدہ یہ ہے کہ جس چیز میں اصل کے لحاظ سے وجوب نہیں ہوتا وہ چیزنذر کی وجہ سے لازم نہیں ہوتی اور واجب نہیں بنتی ۔ جس طرح کہ ایک چیز میں اگر اصل کے لحاظ سے تقرب الٰہی کا مفہوم نہ ہو وہ قربت یعنی عبادت نہیں بنتی ۔ چاہے کوئی اسے تقرب کا ذریعہ ہی کیوں نہ بنا لے۔ اس کی ایک اور دلیل بھی ہے وہ یہ کہ اعتکاف کا مفہوم ہے ایک جگہ ٹھہرے رہنا ۔ اس لیے یہ وقوف عرفات اور منیٰ میں ٹھہرنے کے مشابہ ہوگیا ۔ اب اگر یہ دونوں باتیں ایک جگہ ٹھہرے رہنے کے مفہوم میں داخل ہیں لیکن یہ اس وقت تک تقرب الٰہی کا ذریعہ نہیں بنیں گی جب تک کہ اس میں ایک اور معنی شامل نہ ہوجائے جو فی نفسہٖ ایک قربت یعنی عبادت ہے ۔ یعنی وقوف عرفات کے ساتھ احرام اور منیٰ میں قیا م کے ساتھ رمی جمار کا ہونا ۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اگر اعتکاف کے لیے روزہ شرط ہوتا تو پھر اعتکاف رات کے وقت درست نہ ہوتا کیونکہ رات کے وقت روزہ نہیں ہوتا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اعتکاف کی ایک شرط مسجد میں ٹھہرنا ہے اگر معتکف انسانی ضرورت کے تحت یا جمعہ پڑھنے کے لیے مسجد سے نکلے تو اس سے اس کے اعتکاف پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور یہ بات مسجد میں ٹھہرنے کی شرط پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ یہی بات اعتکاف کو روزے کے ساتھ مشروط کرنے میں بھی پائی جاتی ہے کہ رات کے وقت روزے کا نہ ہونا اعتکاف کے لیے روزے کی شرط پر کوئی اثر نہیں ڈالتا ۔ اسی طرح منیٰ میں قیام رمی جمار کی وجہ سے عبادت ہے اور اگلے دن کی رمی کے لیے منیٰ میں رات کا قیام بھی عبادت ہے۔ ٹھیک اسی طرح اگلے دن کے روزے کی وجہ سے رات کے وقت کا اعتکاف روزے کے بغیر بھی درست ہے۔ واللہ اعلم۔ معتکف کے لیے کون کون سے کام جائز ہیں ؟ قول باری ہے ولا تبا شروھن وانتم عاکفون فی المساجد اس میں یہ احتمال ہے کہ مباشرت کے حقیقی معنی مراد ہوں یعنی جلد کے اوپر والے حصے کو دوسرے کی جلد کے اوپر والے حصے سے چپکایا لگا دینا خواہ یہ عمل جسم کے کسی بھی حصے میں کیوں نہ ہو۔ نیز یہ بھی احتمال ہے کہ لفظ المسیس کی طرح یہ جماع کے مفہوم کے لیے کنایہ ہو ، جبکہ المسیس کے حقیقی معنی ہاتھ اور دوسرے تمام اعضا کے ذریعے مس کرنا ہیں اور جیسا کہ قول باری ہے فالان باشروھن وابتغوا ما کتب اللہ لکم اب تم ان کے ساتھ ہم بستری کرو ۔ اور جو چیز اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اسے تلاش کرو یہاں مباشرت سے مراد ہم بستری ہے جب سب اس کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ اس آیت نے معتکف کے لیے جماع کی ممانعت کردی ہے اور یہاں مباشرت سے مراد جماع ہے تو اب یہ ضروری ہو یا کہ اس سے ارادہ مباشرت کے معنی منتفی ہوجائیں ۔ اس لیے کہ مباشرت اس کے حقیقی معنی اور جماع اس کے مجازی معنی ہیں اور ایک لفظ سے بیک وقت اس کے حقیقی اور مجازی معنی مراد لینا درست نہیں ہے۔ تا ہم فقہاء کا اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر مباشرت شہوت کے تحت نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ معتکف کو اپنے اوپر پورا قابو ہوتا ہم اس کے لیے یہ مناسب نہیں کہ رات یا دن کسی وقت بھی شہوت کے ساتھ مباشرت یعنی ہم آغوشی وغیرہ کرے اگر اس مباشرت کے دوران انزال ہوگیا تو اس کا اعتکاف فاسد ہوجائے گا اور انزال نہ ہوا تو فاسد نہیں ہوگا ۔ تا ہم یہ عمل برا عمل کہلائے گا ۔ ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ اگر معتکف نے بوسہ لے لیا تو اس کا اعتکاف فاسد ہوجائے گا ۔ المزنی نے امام شافعی سے یہ نقل کیا ہے کہ اگر معتکف نے مباشرت کی تو اس کا اعتکاف فاسد ہوجائے گا ۔ ایک دوسری جگہ امام شافعی ہے کہ ایسی ہم بستری سے اعتکاف فاسد نہیں ہوتا جس سے حد واجب ہوتی ہو یعنی اپنی بیوی یا لونڈی سے ہم بستری کی صورت میں اعتکاف فاسد نہیں ہوگا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت میں مباشرت سے مراد اس کے مجازی معنی یعنی ہم بستری ہیں ۔ ہاتھ سے لمس یا بوسہ وغیرہ مراد نہیں ہے۔ اسی طرح امام ابو یوسف کا قول ہے کہ قول باری ولا تباشروھن وانتم عاکفون فی المساجد میں مباشرت جماع پر محمول ہے۔ جن بصری سے مروی ہے کہ مباشرت سے مراد نکاح یعنی جماع ہے ۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ جب معتکف جماع کرلے گا تو اس کا اعتکاف فاسد ہوجائے گا ۔ ضحاک کا قول ہے کہ لوگ اعتکاف کی حالت میں بھی بیویوں سے ہم بستری کرلیتے تھے حتیٰ کہ آیت نازل ہوئی ولا تباشروھن وانتم عاکفون فی المساجد قتادہ کہتے ہیں کہ لوگ جب اعتکاف کرتے تو کوئی نہ کوئی آدمی مسجد سے نکل کر گھر پہنچ جاتا اور ہم بستری سے فارغ ہوکر واپس مسجد آ جاتا ۔ اللہ تعالیٰ نے درج بالا آیت کے ذریعے لوگوں کو اس سے منع فرمایا۔ درج بالا اقوال کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ سلف نے آت سے معنی مراد جماع ہی سمجھا ہے۔ لمس یا مباشرت بالیدد نہیں سمجھا بغیر شہوت کے مباشرت کی اباحت پر زہری کی حدیث دلالت کرتی ہے جو انہوں نے عروہ کے واسطے سے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعتکاف میں ہوتے تو آپ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بالوں میں کنگھی کردیتیں کنگھی کرنے کی صورت میں لا محالہ حضرت عائشہ (رض) کا ہاتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جسم مبارک کو لگتا ہوگا ۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ شہوت کے بغیر مباشرت معتکف کے لیے ممنوع نہیں ہے۔ نیز جب یہ ثابت ہوگیا کہ جماع کی ممانعت کے لحاظ سے اعتکاف روزے کے معنی میں ہے اور چونکہ روزے میں شہوت کے بغیر لمس بالید اور بوس و کنار کی اجازت ہے بشرطیکہ اپنے جذبات پر قابو ہو اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت سی روایات کے ذریعے اس کا ثبوت ہے تو یہ روری ہوگیا کہ معتکف کے لیے بھی شہوت کے بغیر بوس و کنار کی اجازت ہو اور چونکہ روزے کی حالت میں شہوت کے تحت بوس و کنار اور ہم آغوشی کی ممانعت ہے اس لیے اعتکاف کی صورت میں بھی ان دونوں کا یہی حکم ہونا چاہیے۔ اسی طرح چونکہ روزے کی صورت میں مباشرت کی وجہ سے شہوت کے تحت انزال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اس لیے اعتکاف کی صورت میں شہوت کے تحت انزال کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ روزہ اور اعتکاف دونوں کا اس لحاظ سے یکساں درجہ ہے کہ دونوں میں جماع پر پابندی ہے لیکن جماع کے دواعی یا آمادہ کرنے والی باتوں مثلاً خوشبو اور لباس وغیرہ پر پابندی نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ محرم اگر بوسہ لے لے تو اس پر دم یعنی قربانی واجب ہوجاتی ہے خواہ اسے انزال نہ بھی ہو تو یہی رویہ معتکف کے لیے کیوں نہیں اپنایا گیا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ احرام اعتکاف کے لیے اصل نہیں ہے ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ احرام میں جماع اور اس کے دواعی مثلاً خوشبو وغیرہ ممنوع ہیں ۔ اس طرح سلے ہوئے کپڑے ، سر ڈھانپنا اور شکار کرنا سب ممنوع ہیں ، لیکن جماع کے سوا باقی باتیں اعتکاف کی حالت میں ممنوع نہیں ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ احرام اعتکاف کے لیے اصل نہیں ہے اور جہاں تک احکام کا تعلق ہے احرام میں ممانعت کے احکام زیادہ ہیں ۔ چونکہ محرم کے لیے بیوی کے ساتھ اختلاط اور ہم آغوشی کی ممانعت تھی اور اس نے مباشرت کے ذریعے اس کا ارتکاب کرلیا اس لیے اس پر طریقے سے استمتاع کیا یعنی حظ جنسی اٹھایا اس لیے یہ خوشبو اور لباس سے لطف اندوز ہونے کے مشابہ ہوگیا اس بنا پر اس پر دم کا وجوب ہوگیا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ پھر مباشرت کی بنا پر خواہ انزال ہوجائے اس کا اعتکاف فاسد نہیں ہونا چاہیے جس طرح احرام فاسد نہیں ہوتا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے جو کچھ کہا اسے ہم نے اعتکاف کے فاسد ہونے کی علت قرار نہیں دی کہ ہم پر اس کی علت کا لزوم ہوجائے اور جہاں یہ علت پائی جائے وہ حکم بھی ضرور پایا جائے ہم نے تو معتکف کے اعتکاف کو مباشرت کی وجہ سے انزال کی بنا پر فاسد قرار دیا جس طرح کہ ایسی صورت میں ہم اس کے روزے کو بھی فاسد قرار دیتے ہیں ۔ جہاں تک احرام کے فاسد ہوجانے کا تعلق ہے تو اس کی صورت صرف یہ ہے کہ عورت کے اندام نہانی میں جنسی عمل کیا جائے اس کے سوا احرام کے باقی تمام ممنوعہ افعال کے ارتکاب سے احرام فاسد نہیں ہوتا ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ لباس ، خوشبو اور شکار یہ تمام باتیں احرام میں ممنوع نہیں لیکن اگر ان کا ارتکاب ہوجائے تو اس سے احرام فاسد نہیں ہوتا ۔ اس بنا پر احرام اس لحاظ سے اعتکاف اور روزے سے بڑھ کر ہے کہ اس میں ممانعات کی موجودگی میں باقی رہنے کے مواقع زیادہ ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بع چیزیں جو روزے میں ممنوع ہیں وہ روزے کو فاسد بھی کردیتی ہیں مثلاً اکل و شرب وغیر اسی طرح اعتکاف کے بعض محظورات اسے فاسد کردیتی ہیں ۔ اس بنا پر ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ اعتکاف کی حالت میں مباشرت کی وجہ سے انزال ہو یا تو روزے کی طرح اعتکاف بھی فاسد ہوجائے گا اور اگر مباشرت سے انزال نہ ہو تو ایسی مباشرت کا اعتکاف کو فاسد کرنے میں کوئی دخل نہیں ہوگا جس طرح روزہ فاسد کرنے میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ فقہائے امصار کا معتکف کے متعلق بہت سے مسائل میں اختلاف ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اعتکاف واجب کی صورت میں معتکف رات اور دن کسی وقت بھی حاجات ضروریہ مثلاً بول و براز اور جمعہ کی نماز وغیرہ کے سوا مسجد سے باہر نہیں جائے گا ۔ مریض کی عیادت یا جنازہ میں شمولیت کے لیے بھی نہیں جائے گا ۔ ان کا قول ہے کہ خریدو فروخت ، گفتگو اور ایسے مشاغل میں کوئی حرج نہیں جو گناہ کے نہ ہوں ۔ اسی طرح وہ شادی بھی کرسکتا ہے ، گفتگو سے پرہیز کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرلینا ضروری نہیں ہے ، یہی امام شافعی کا بھی قول ہے۔ ابن وہب نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ معتکف تجارت وغیرہ نہیں کرے گا بلکہ اپنے اعتکاف میں مشغول رہے گا ۔ البتہ اس میں کوئی حرج نہیں اگر وہ اپنے پیشے ، اپنے خاندان والوں کی فلاح و بہبود ، اپنے مال کی فروخت وغیر ہ کے متعلق ہدایات دے ، یا خفیف طور پر مشغول کردینے والا کوئی کام کرلے۔ امام مالک نے فرمایا کہ کوئی شخص اس وقت تک معتکف نہیں کہلائے گا جب تک وہ ان امور سے اجتناب نہ کرے جن سے ایک معتکف کو اجتناب کرنا چاہیے ، اگر معتکف حالت اعتکاف میں شادی کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں البتہ ہم بستری نہیں کرسکتا ۔ ابن القاسم نے اما م مالک سے یہ نقل کیا ہے کہ معتکف کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کے لیے نہیں کھڑا ہوگا اور مسجد میں ہونے والی شادی کی محفل میں شریک نہیں ہوگا ۔ لیکن اگر شادی کی محفل اس کے اعتکاف کے لیے مخصوص جگہ منعقد ہو تو مجھے اس میں کوئی حرج نظر نہیں آتا ۔ البتہ وہ شادی کرنے والے کو مبارک باد دینے کے لیے کھڑا نہیں ہوگا ۔ اسی طرح علمی مجلس میں شرکت کی مشغولیت اختیار نہیں کرے گا اور نہ ہی علمی مجلس میں کسی علم کو ضبط کتابت میں لائے گا ۔ آپ نے اسے مکروہ سمجھا ہے ۔ خفیف انداز میں خرید و فروخت کرسکے گا ۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ معتکف مریض کی عیادت کرے گا ، جمعہ کی نماز کے لیے جائے گا اور ایسے کام جنہیں مسجد میں سر انجام دینا اچھا نہیں لگتا وہ اپنے گھر جا کر سر انجام دے گا ۔ وہ کسی چھت کے نیچے نہیں جائے گا یعنی کسی گھر میں داخل نہیں ہوگا الایہ کہ اس کی گزر گاہ چھت کے نیچے سے ہو ، گھرجا کر اہل خانہ کے ساتھ نہیں بیٹھے گا بلکہ کھڑے کھڑے یا چلتے پھرتے انہیں ان کی ضروریات کے متعلق ہدایات دے گا۔ خرید و فروخت نہیں کرے گا ، اگر کسی چھت کے نیچے چلا گیا تو اس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا ۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر معتکف کسی ایسے گھر میں داخل ہوگیا جو اس کی گزر گاہ نہ ہو یا جماع کرلیا تو اس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا ۔ وہ جنازہ میں شامل ہوسکتا ہے ۔ مریض کی عبادت کرسکتا ہے اور جمعہ کی نماز کے لیے جاسکتا ہے ۔ وضو کرنے کے لیے بھی مسجد سے باہر جاسکتا ہے اور مریض کے گھر میں بھی داخل ہوسکتا ہے البتہ خرید و فروخت مکروہ ہوگی۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ زہری نے سعید بن المسیب اور عروہ بن الزبیر کے واسطے سے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ معتکف کے لیے یہ سنت ہے کہ وہ صرف انسانی ضرورت کے لیے مسجد سے باہر نکلے ۔ وہ جنازہ میں شریک نہیں ہوگا نہ ہی مریض کی عیادت کرے گا اور نہ ہی عورت کو ہاتھ لگائے گا یا مباشرت یعنی ہم آغوشی اختیار کرے گا ۔ سعید بن المسیب اور مجاہد سے منقول ہے کہ معتکف مریض کی عیادت نہیں کرے گا ، کسی دعوت میں نہیں جائے گا اور جنازے میں شریک نہیں ہوگا ۔ مجاہد نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ معتکف کے لیے مریض کی عیادت اور جنازے میں شرکت رضروری نہیں ہے۔ یہ وہ روایتیں ہے جو معتکف کے متعلق سلف اور تابعین سے منقول ہیں ۔ ان حضرات کے سوا دوسرے حضرات سے ان کے برعکس روایتیں منقول ہیں ۔ ابو اسحاق نے عاصم بن ضمرہ کے واسطے سے حضرت علی (رض) سے یہ روایت نقل کی ہے کہ معتکف جمعہ کی نماز، مریض کی عیادت اور جنازے میں شرکت کے لیے جاسکتا ہے ۔ اسی قسم کی روایت حسن ، عامر اور سعید بن جبیر سے بھی منقول ہے۔ سفیان بن عینیہ نے عمار بن عبد اللہ بن یسار سے ، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ معتکف کے باہر جانے اور خرید و فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ ایک روایت ہے جو ہمیں بکر بن بکر نے سنائی ہے ، انہیں ابو دائود نے انہیں القعنبی نے مالک نے ، انہوں نے ابن شہاب سے ، انہوں نے عروہ بن الزبیر سے ، انہوں نے عمرہ بنت عبد الرحمن سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اعتکاف کرتے تو میری طرف سرکر دیتے اور میں آپ کے بالوں میں کنگھی کردیتی ۔ آپ گھر میں قضائے حاجت کے سواداخل نہیں ہوتے تھے۔ یہ حدیث اس بات کی مقتضی ہے کہ معتکف کو انسانی حاجت کے سوا باہر نکلنے کی ممانعت ہے ۔ جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعتکاف اور اعتکاف کے افعال مورد بیان میں وارد ہوئے ہیں اور آپ کا جو فعل مورد بیان میں وارد ہو وہ وجوب کے طور پر ہوتا ہے ۔ ہم نے یہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو فعل بیان کیا ہے وہ معتکف کو باہر نکلنے کی ممانعت کرتا ہے الایہ کہ انسانی حاجت لاحق ہوجائے جس سے مراد بول و براز کی حاجت ہے۔ اب جبکہ اعتکاف کی شرط مسجد میں قیام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اعتکاف کے ذکر کے ساتھ اپنے اس قول میں مقرون کردیا ہے کہ ولا تبا شروھن وانتم عاکفون فی المساجد تو اب یہ واجب ہوگیا کہ وہ حاجت انسانی مثلاً بول وبراز کی ضرورت اور فرض جمعہ کی ادائیگی کے سوا اور کسی کام کے لیے مسجد سے باہر نہ نکلے اور یہ بات تو واضح ہے کہ اس نے اپنے اوپر اعتکاف کی نفلی عبادت لازم کرکے ترک جمعہ کا ارادہ کیا ہو جو کہ اس پر فر ض ہے اس لیے شہود جمعہ اس کے اعتکاف سے مستثنیٰ سمجھا جائے گا ۔ اگر یہ کہاجائے کہ قول باری وانتم عاکفون فی المساجد میں اس پر دلالت نہیں ہو رہی ہے کہ اعتکاف کی شرط میں مستقل قیام ہے ۔ اس لیے کہ آیت صرف اس حالت کا ذکر ہے جس میں اعتکاف کرنے والوں کو ہونا چاہیے اور اسی حیثیت کے ساتھ جماع کی ممانعت کو متعلق کردیا گیا ہے لیکن آیت میں حالت اعتکاف میں مسجد سے باہر جانے کی ممانعت پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ استدلال دو وجوہ سے درست نہیں ہے۔ اول یہ کہ یہ بات واضح ہے کہ معتکف کے لیے جماع کی ممانعت کا تعلق اس کے مسجد میں ہونے کے ساتھ نہیں ہے۔ اس لیے کہ اہل علم کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اعتکاف کی حالت میں کوئی شخص گھر پر بھی اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری نہیں کرسکتا ۔ ہم نے سلف سے یہ بات نقل کی ہے کہ آیت کا نزول ان لوگوں کے متعلق ہوا تھا جو اعتکاف کی حالت میں مسجد سے نکل کر گھرچلے جاتے اور بیویوں کے ساتھ ہم بستری کرلیتے۔ جب یہ بات معلوم ہوگئی تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اس مقام پر مسجد کا ذکر جماع کی ممانعت کے سلسلے میں نہیں ہوا بلکہ یہ بیان کرنے کے لیے ہوا کہ یہ اعتکاف کی شرط ہے اور اس کا ایک وصف ہے جس کے بغیراعتکاف درست نہیں ہوتا ۔ دوم یہ کہ لغت میں اعتکاف کے معنی کسی جگہ ٹھہرے رہنے کے ہیں پھر اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا۔ اس بنا پر لبث یعنی ٹھہرے رہنا لا محالہ اس کے مفہوم میں داخل ہے اگرچہ اس کے ساتھ اور معانی کا بھی اضافہ کردیا گیا جن کے لیے یہ لفظ لغت میں بطور اسم استعمال نہیں ہوتا تھا جس طرح کہ صوم ہے جس کا لغوی معنی امساک ہے پھر اس لفظ کو شریعت میں دوسرے معانی کی طرف منتقل کردیا گیا جس سے یہ بات ختم نہیں ہوئی کہ امساک صوم کی ایک شرط نہ ہو اور اس کی ایک وصف نہ ہو جسکے بغیر روزہ درست نہیں ہوتا ۔ درج بالا بیان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اعتکاف مسجد میں ٹھہرنے کا نام ہے جس کی بنا پر یہ واجب ہوگیا کہ معتکف قضائے حاجت یا شہود جمعہ کے سوا اور کسی کام کے لیے مسجد سے باہرنہ جائے چونکہ جمعہ فرض ہے اس لیے وہ اس کی خاطر نظر سکتا ہے اس استدلال کی توثیق سنت سے بھی ہوتی ہے جو ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں ۔ رہ گئی بیمار کی عیادت یا جنازے میں شمولیت تو چونکہ ان دونوں کی فرضیت متعین نہیں ہے اس لیے معتکف کے لیے ان کی خاطر مسجد سے باہر جانا جائز نہیں ہے۔ عبد الرحمن بن القاسم نے اپنے والد کے واسطے سے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حالت اعتکاف میں مریض کے پاس سے گزر جاتے لیکن اس کی طرف مڑ کر نہیں ٹھہرتے بلکہ چلتے چلتے اس کا حال پوچھ لیتے۔ زہری نے عمرہ کے واسطے سے حضرت عائشہ (رض) سے بھی ان کے اسی قسم کے طریق کار کی روایت کی ہے۔ ہم نے جن حضرات کے اقوال نقل کئے ہیں ان سب کا جب اس پر اتفاق ہے کہ معتکف کے لیے مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے کہ باہر نکل کر وہ نیکی کے کاموں مثلاً دوسروں کی ضروریات پوری کرنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے تگ و دو کرنے میں جو کہ خود ایک نیکی ہے۔ مصروف ہوجائے تو اس سے یہ واجب ہوگیا کہ مری کی عیادت کا بھی یہی حکم ہو۔ نیز جس طرح اسے دعوت میں شرکت نہیں کرنا چاہیے اسی طرح اسے مریض کی عیادت بھی نہیں کرنی چاہیے اس لیے کہ باہمی حقوق کے لحاظ سے ان دونوں باتوں کو یکساں حیثیت حاصل ہے آخری پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کتاب اللہ ، سنت رسول اور عقلی استدلال سے ہماری بات کی تائید ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص اس روایت سے استدلال کرے جو الھیاج خراسانی نے بیان کی ہے، انہیں عنسبہ بن عبد الرحمن نے عبد الخالق سے اور انہوں نے حضرت انس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا المعتکف یتبع الجنازۃ ویعود المریض واذا خرج من المسجد قنع راسہ حتی یعود الیہ معتکف جنازے کے ساتھ چلے گا اور مریض کی عیادت کرے گا اور جب مسجد سے باہر نکلے گا تو واپس مسجد آنے تک اپنا سر ڈھانپے رکھے گا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس روایت کی سند مجہول ہے اور یہ روایت زہری کے بوابطہ عمرہ حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی معارض قرار نہیں دی جاسکتی جن لوگوں کا یہ قول ہے کہ معتکف اگر چھت کے نیچے جائے گا یعنی کسی مکان میں داخل ہوگا تو اس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا تو اس قول میں چھت کی تخصیص ایسی بات ہے جس کی تائید میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ چھت اور کھلی جگہ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ جس طرح معتکف کا کھلی جگہ اور صحرا میں ہونا اس کے اعتکاف کو باطل نہیں کرتا اسی طرح چھت کے نیچے ہونا بھی اس کے اعتکاف کو باطل نہیں کرتا ، اگر ترازو اور اشیائے فروخت اپنے پاس منگوائے بغیر خرید و فروخت کرے تو اس میں فقہاء کے نزدیک کوئی حرج نہیں ہے۔ دراصل فقہاء کی اس اجازت کا مقصد زبانی طور پر خرید و فروخت ہے نہ کہ اشیائے فروخت اور نقدی وغیرہ اپنے پاس لا کر رکھ لینا ہے۔ زبانی خرید و فروخت کا جواز اس لیے ہے کہ یہ مباح ہے اور دوسرے مباح امور میں گفتگو اور کلام کی طرح ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے پورے دن سے رات تک خاموشی اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اب جب خاموشی ممنوع ہے تو وہ لا محالہ گفتگو کرنے پر مامورہو گا ۔ اس لیے اس لفظ کے تحت وہ تمام جائز گفتگو آ جائے گی جو خاموشی کو توڑ نے والی ہو۔ ہمیں ایک روایت محمد بن بکر نے بیان کی ، انہیں ابودائود نے ، انہیں احمد بن محمد المروزی نے ، انہیں عبد الرزاق نے ، انہیں معمر نے زہری سے ، انہوں نے علی (رض) بن الحسین (رض) سے اور انہوں نے حضرت صفیہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعتکاف میں تھے ، میں رات کے وقت آپ سے ملاقات کے لیے آئی۔ میں نے آپ سے باتیں کیں اور پھر کھڑی ہوگئی اور جانے کے لیے واپس مڑی ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی مجھے رخصت کرنے کے لیے میرے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ حضرت صفیہ (رض) کا گھر اسامہ بن زید کے احاطے میں تھا۔ اسی دوران دو انصاری آپ کے پاس سے گزرے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں دیکھ کر رکنے کے لیے کہا اور فرمایا کہ یہ خاتون صفیہ بنت حییی ہے۔ یہ سن کر دونوں بول اٹھے اللہ کے رسول ، سبحان اللہ یعنی آپ کو اس وضاحت کی کیا ضرورت تھی ؟ کیا نعوذ باللہ ہمارے دل میں آپ کے متعلق کوئی خیال گزر بھی سکتا تھا ! یہ سنکر آپ نے ان دونوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا : اصل بات یہ ہے کہ تمہارے دل و دماغ میں شیطان کا گزر اس طرح ہوتا ہے جیسے دوران خون کا ، اس لیے مجھے یہ خدشہ پیداہو گیا کہ کہیں شیطان تم دونوں کے دلوں میں کوئی وہم یا شر نہ پیدا کر دے۔ ( اسی لیے میں نے یہ وضاحت کی) معتکف دوسروں سے گفتگو کرسکتا ہے اس حدیث کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوئی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعتکاف کے دوران حضرت صفیہ (رض) سے گفتگو میں مشغول رہے۔ پھر مسجد کے دروازے تک ان کے ساتھ تشریف لے گئے۔ یہ چیز ان لوگوں کے قول کو باطل کردیتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ معتکف دوسروں کے ساتھ گفتگو میں مشغول نہیں ہوگا اور نہ ہی اپنی جگہ سے اٹھ کر مسجد میں منعقد ہونے والی شادی کی محفل میں شریک ہوگا ۔ ایک روایت ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے سنائی، انہیں ابو دائود نے ، انہیں سلیمان بن حرب اور مسدد نے ، انہیں حماد بن زید نے ہشام بن عرو ہ سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں معتکف ہوئے ، پھر حجرے کے درمیان سے اپنا سرمجھے پکڑا دیتے اور میں آپ کا سر اور پیر دھو دیتی جبکہ میں خود حیض کی حالت میں ہوتی ۔ (آیت 187 کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں)

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨٩) چاند میں کمی اور زیادتی کس وجہ سے ہوتی ہے، اس کے متعلق لوگ پوچھتے ہیں تو اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرما دیجیے کہ یہ لوگوں کے لیے علامتیں ہیں تاکہ ان کے حساب سے اپنے قرضوں کو ادا کریں اور اپنی عورتوں کی عدت کا حساب رکھیں اور روزے رکھنے اور کھولنے کا حساب لگائیں، اور حج کا وقت معلوم کریں یہ آیت کریمہ حضرت معاذ بن جبل (رض) کے متعلق نازل ہوئی، جس وقت انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس چیز کے بارے میں پوچھا تھا۔ احرام کی حالت میں مکانوں کے اندر پیچھے کی طرف سے آنے میں کوئی تقوی اور نیکی نہیں، احرام میں نیکی تو شکار اور دیگر ممنوع چیزوں سے بچنا ہے، اپنے گھروں میں ان ہی دروازوں سے آؤ جن سے تم ہمیشہ نکلتے اور داخل ہوتے رہتے ہو اور احرام کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو تاکہ اللہ تعالیٰ کے غصہ اور عذاب سے نجات پاسکو، ہو یہ آیت کریمہ کنانہ اور خزاعہ میں سے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق نازل ہوئی ہے کہ وہ احرام کی حالت میں اپنے گھروں میں جیسا کہ جاہلیت کے زمانہ میں کیا کرتے تھے، پچھلی طرف سے یا ان کی چھتوں پر سے داخل ہوتے تھے۔ شان نزول : (آیت) ” یسئلونک عن الاھلۃ “ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) نے عکرمہ (رح) کے واسطہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چاند کے بارے میں معلوم کیا اس پر یہ آیت اتری اور ابن ابی حاتم (رح) نے ابوالعالیہ (رح) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اللہ تعالیٰ نے چاند کو کیوں پیدا کیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ ابونعیم (رح) اور ابن عساکر (رح) نے تاریخ دمشق میں سدی صیغر (رح) ، کلبی (رح) ، ابوصالح (رح) کے حوالہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ معاذ بن جبل (رض) اور ثعلبۃ بن غنمہ نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کیا بات ہے کہ شروع میں چاند باریک دیکھائی دیتا ہے پھر بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ مکمل ہوجاتا ہے اور رکتا ہے اور گھومتا ہے، اور پھر کم اور باریک ہوتا رہتا ہے، حتی کہ پھر پہلی حالت پر آجاتا ہے، اور ایک حالت پر باقی نہیں رہتا اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ آپ سے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ فرمان الہی : (آیت) ” ولیس البر “۔ (الخ) امام بخاری (رح) نے حضرت براء (رح) سے روایت کیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جب لوگ احرام باندھتے تو اپنے گھروں میں پشت کی طرف سے داخل ہوتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی کہ اس میں کوئی بڑائی اور فضیلت نہیں کہ اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف سے داخل ہوجاؤ۔ اور ابن ابی حاتم (رح) اور امام حاکم (رح) نے حضرت جابر (رض) سے یہ روایت کی ہے کہ قریش حمس کے ساتھ پکارے جاتے تھے اور وہ احرام کی حالت میں دروازوں سے اندر جاتے تھے اور انصار اور تمام عرب حالت احرام میں دروازہ سے نہیں جاتے تھے، ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک باغ میں تشریف رکھتے تھے، اچانک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس باغ کے دروازے سے نکلے اور آپ (رض) کے ساتھ قطبۃ بن عامر انصاری (رض) بھی نکلے صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قطبۃ بن عامر ایک تاجر آدمی ہے اور یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ باغ کے درازہ سے نکلا ہے، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا کہ تو نے ویسا کام کیوں کیا جو میں نے کیا ہے ؟ وہ کہنے لگا کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو کرتے دیکھا وہی کیا، آپ نے فرمایا کہ میں تو احمس شخص ہوں اس نے عرض کیا کہ میرا دین وہی ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دین ہے اس پر حق تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ (آیت) لیس البر (الخ) اتاری۔ اور ابن جریر (رح) نے عوفی (رح) کے حوالہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے ، اور ابوداؤد طیالسی (رح) نے اپنی مسند میں براء (رح) سے روایت کیا ہے کہ انصار جب سفر سے واپس ہوتے تو ان میں سے کوئی بھی اپنے گھر کے دروازہ سے داخل نہ ہوتا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ اتاری اور عبد بن حمید نے قیس بن حبشہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لوگ جب احرام باندھتے تو اپنے گھر میں دروازہ کی طرف سے داخل نہ ہوتے تھے اور حمس والے ایسا نہیں کرتے تھے، چناچہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک باغ میں گئے ہوئے تھے، اور پھر اس باغ کے دروازہ سے باہر نکلے تو آپ کے ساتھ ایک آدمی ہوگیا جس کو رفاعہ بن تابوت کہا جاتا تھا اور وہ قبیلہ حمس میں سے نہیں تھا صحابہ کر امرضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ رفاعہ منافق ہوگیا۔ آپ نے رفاعہ سے فرمایا کہ تو نے ایسا کیوں کیا تو وہ کہنے لگا کہ میں نے آپ کی اتباع کی، آپ نے فرمایا کہ میں تو قبیلہ حمس میں سے ہوں تو ہم سب کا دین تو ایک ہی ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت ) ” ولیس البر “ (الخ) واحدی (رح) نے کلبی (رح) اور ابوصالح (رح) کے حوالہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت صلح حدیبیہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کا واقعہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیت اللہ میں جانے سے روک دیا گیا تھا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین مکہ سے اس بات پر صلح کرلی کہ اگلے سال آکر عمرہ قضا کرلیں گے، جب آئندہ سال ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور آپ کے صحابہ کرام (رض) نے عمرہ قضا کی تیاری کی اور اس بات کا خوف پیدا ہوا کہ کہیں کفار وعدہ خلافی نہ کریں اور پھر مسجد حرام میں داخل ہونے سے روک دیں اور جنگ کریں اور صحابہ کرام (رض) کو حج کے مہینوں میں قتال پسند نہیں تھا۔ (یعنی دین اسلام میں اس کی اجازت نہ تھی) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور ابن جریر (رح) نے قتادہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام (رض) ذی قعدہ کے مہینے میں عمرے کا احرام باندھ کر اور قربانی کا جانور اپنے ساتھ لے کر روانہ ہوئے، جب مقام حدیبیہ پر پہنچے تو مشرکین نے آپ کو آگے جانے سے روک لیا، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین مکہ سے اس بات پر صلح کرلی کہ اس سال ہم واپس چلے جاتے ہیں اور اگلے سال عمرہ قضا کرلیں گے جب آئندہ سال ہوا تو ذی قعدہ کے مہینے میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) عمرے کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ روانہ ہوئے اور تین راتوں تک وہاں ٹھہرے اور مشرکین کو اس بات پر فخر تھا کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو واپس کردیا اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ سارا واقعہ بیان کیا اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ مکرمہ میں اسی مہینے کے اندر داخل فرما دیا جس مہینے میں کفار نے آپ کو واپس کیا تھا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا (آیت) ” الشھرالحرام بالشھرالحرام (الخ) یعنی حرمت والا مہینہ ہے بعوض حرمت والے مہینہ کے اور یہ حرمتیں تو عوض ومعاوضہ کی چیزیں ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨٩ (یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْاَہِلَّۃِ ط) (قُلْ ہِیَ مَوَاقِیْتُ للنَّاسِ وَالْحَجِّ ط) یہ اللہ تعالیٰ نے ایک کیلنڈر لٹکا دیا ہے۔ ہلال کو دیکھ کر معلوم ہوگیا کہ چاند کی پہلی تاریخ ہوگئی۔ کچھ دنوں کے بعد نصف چاند دیکھ کر پتا چل گیا کہ اب ایک ہفتہ گزر گیا ہے۔ دو ہفتے ہوگئے تو پورا چاند ہوگیا۔ اب اس نے گھٹنا شروع کیا۔ تو یہ نظام گویا لوگوں کے لیے اوقات کار کی تعیین کے لیے ہے اور اس ضمن میں خاص طور پر سب سے اہم معاملہ حج کا ہے۔ یہ نوٹ کیجیے کہ صوم کے بعد حج اور حج کے ساتھ ہی قتال کا ذکر آ رہا ہے۔ اس لیے کہ حج وہ عبادت ہے جو ایک خاص جگہ پر ہوسکتی ہے۔ نماز اور روزہ ہر جگہ ہوسکتے ہیں ‘ زکوٰۃ ہر جگہ دی جاسکتی ہے ‘ لیکن حجتو مکہ مکرمہ ہی میں ہوگا ‘ اور وہ مشرکین کے زیر تسلط تھا اور اسے مشرکین کے تسلطّ سے نکالنے کے لیے قتال لازم تھا۔ قتال کے لیے پہلے صبر کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ چناچہ پہلے روزے کا حکم دیا گیا کہ جیسے اپنے گھوڑوں کو روزہ رکھواتے تھے ایسے ہی خود روزہ رکھو۔ سورة البقرۃ میں صوم ‘ حج اور قتال کے احکام کے درمیان یہ ترتیب اور ربط ہے۔ (وَلَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُہُوْرِہَا وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی ج) ۔ اہل عرب ایام جاہلیت میں بھی حج تو کر رہے تھے ‘ مناسک حج کی کچھ بگڑی ہوئی شکلیں بھی موجود تھیں ‘ اور اس کے ساتھ انہوں نے کچھ بدعات و رسوم کا اضافہ بھی کرلیا تھا۔ ان میں سے ایک بدعت یہ تھی کہ جب وہ احرام باندھ کر گھر سے نکل پڑتے تو اس کے بعد اگر انہیں گھروں میں داخل ہونے کی ضرورت پیش آتی تو گھروں کے دروازوں سے داخل نہ ہوتے بلکہ پچھواڑے سے دیوار پھلاند کر آتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ بڑا تقویٰ ہے۔ فرمایا یہ سرے َ سے کوئی نیکی کی بات نہیں ہے کہ تم گھروں میں ان کے پچھواڑوں سے داخل ہو ‘ بلکہ اصل نیکی تو اس کی نیکی ہے جو تقویٰ کی روش اختیار کرے اور حدود الٰہی کا احترام ملحوظ رکھے۔ یہاں پوری آیت البر کو ذہن میں رکھ لیجیے جس کے آخر میں الفاظ آئے تھے : (وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ ) چناچہ آیت زیر مطالعہ میں (وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی ج) کے الفاظ میں نیکی کا وہ پورا تصور مضمر ہے جو آیت البر میں بیان ہوچکا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

198. The waxing and waning of the moon has attracted men's attentions throughout the ages and all kinds of fanciful ideas, superstitions and rituals have been, and are still today, associated with it. The moon was considered the basis of good and bad omens. Certain dates were considered auspicious and others inauspicious for starting journeys, for beginning new tasks, for weddings and so on on the ground that the rising and setting of the moon, its waxing and waning and its eclipse affect human destiny. The Arabs too had their share of such superstitions. It was therefore natural that enquiries regarding such matters should be addressed to the Prophet. In response, God says that the waxing and waning of the moon is nothing more than a physical phenomenon. By its appearance in the firmament the moon enables man to divide his year and it can thus be considered nature's own calendar. Particular reference is made to Hajj because it occupied the position of highest importance in the religious, cultural and economic life of the Arabs. Four months of the year were specified since they were the months of major and minor Pilgrimage (Hajj and 'Umrah) . During these months there was to be no warfare and the routes were completely safe for travelling. Thanks to the peace and tranquillity thus established, trade and commerce prospered. 199. One superstitious custom of the Arabs was that once they entered the state of consecration for Pilgrimage they did not enter their houses by the door. Instead, they either leapt over the walls from the rear or climbed through windows which they had specially erected for that purpose. On returning from journeys, too, they entered their houses from the rear. In this verse this superstitious custom is denounced, as are all superstitious customs; it is pointed out that the essence of moral excellence consists of fearing God and abstaining from disobeying His commands. Those meaningless customs by which people felt bound, out of blind adherence to the traditions of their forefathers, and which had no effect at all on man's ultimate destiny, had nothing to do with moral excellence.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :198 چاند کا گھٹنا بڑھنا ایک ایسا منظر ہے ، جس نے ہر زمانے میں انسان کی توجہ کو اپنی طرف کھینچا ہے اور اس کے متعلق طرح طرح کے اوہام و تخیلات اور رسوم دنیا کی قوموں میں رائج رہے ہیں اور اب تک رائج ہیں ۔ اہل عرب میں بھی اس قسم کے اوہام موجود تھے ۔ چاند سے اچھے یا برے شگون لینا ، بعض تاریخوں کو سعد اور بعض کو نحس سمجھنا ، کسی تاریخ کو سفر کے لیے اور کسی کو ابتدائے کار کے لیے اور کسی کو شادی بیاہ کے لیے منحوس یا مسعود خیال کرنا اور یہ سمجھنا کہ چاند کے طلوع و غروب اور اس کی کمی بیشی اور اس کی حرکت اور اس کے گہن کا کوئی اثر انسانی قسمتوں پر پڑتا ہے ، یہ سب باتیں دوسری جاہل قوموں کی طرح اہل عرب میں بھی پائی جاتی تھیں اور اس سلسلے میں مختلف توہم پرستانہ رسمیں ان میں رائج تھیں ۔ انہی چیزوں کی حقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کی گئی ۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ گھٹتا بڑھتا چاند تمہارے لیے اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک قدرتی جنتری ہے ، جو آسمان پر نمودار ہو کر دنیا بھر کے لوگوں کو بیک وقت ان کی تاریخوں کا حساب بتاتی رہتی ہے ۔ حج کا ذکر خاص طور پر اس لیے فرما یا کہ عرب کی مذہبی ، تمدنی اور معاشی زندگی میں اس کی اہمیت سب سے بڑھ کر تھی ۔ سال کے چار مہینے حج اور عمرے سے وابستہ تھے ۔ ان مہینوں میں لڑائیاں بند رہتیں ، راستے محفوظ ہوتے اور امن کی وجہ سے کاروبار فروغ پاتے تھے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :199 منجملہ ان توہم پرستانہ رسموں کے ، جو عرب میں رائج تھیں ، ایک یہ بھی تھی کہ جب حج کے لیے احرام باندھ لیتے تو اپنے گھروں میں دروازے سے داخل نہ ہوتے تھے ، بلکہ پیچھے سے دیوار کود کر یا دیوار میں کھڑکی سی بنا کر داخلل ہوتے تھے ۔ نیز سفر سے واپس آکر بھی گھروں میں پیچھے سے داخل ہوا کرتے تھے ۔ اس آیت میں نہ صرف اس رسم کی تردید کی گئی ہے ، بلکہ تمام اوہام پر یہ کہہ کر ضرب لگائی گئی ہے کہ نیکی دراصل اللہ سے ڈرنے اور اس کے احکام کی خلاف ورزی سے بچنے کا نام ہے ۔ ان بے معنی رسموں کو نیکی سے کوئی واسطہ نہیں ، جو محض باپ دادا کی اندھی تقلید میں برتی جا رہی ہیں اور جن کا انسان کی سعادت و شقاوت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

120: بعض اہل عرب کا یہ معمول تھا کہ اگر حج کا احرام باندھنے کے بعد انہیں کسی ضرورت سے گھر واپس جانا پڑتا تو وہ گھر کے عام دروازے سے داخل ہونے کو ناجائز سمجھتے تھے اور ایسی صورت میں گھر کے پچھلے حصے سے داخل ہوتے تھے خواہ اس کے لئے انہیں گھر میں نقیب ہی کیوں نہ لگانی پڑے، یہ آیت اس فضول رسم کو بے بنیاد قرار دے رہی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

بعض صحابہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا کہ حضرت چاند کا یہ کیا حال کہ شروع مہینے میں بالکل پتلا ہوتا ہے اور پھر بڑھتا جاتا ہے پھر گھٹنا شروع ہوجاتا ہے پھر آخر مہینہ میں کبھی ایک رات کبھی دو راتیں بالکل نکلنا ہی نہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ حاصل آیت کا یہ ہے کہ چاند کی اس حالت میں بڑی حکمت ہے اٹھائیس منزلیں اور بارہ ١٢ برج جن کے علیحدہ نام چاند کے لئے مقرر کئے گئے ہیں جن کی تفصیل سورة یونس اور یسین میں آئے گی۔ ان میں سے چاند ایک منزل جب طے کرتا ہے تو ایک رات ہوتی ہے اور دو منزلیں ایک ایک منزل کا تیسرا حصہ جب طے کرتا ہے تو ایک شبانہ روز ہوتا ہے۔ اور پوری منزلیں اور برج طے کرتا ہے تو ایک مہینہ ہوتا ہے اور سب برجوں کے باراں پھرے جب کرتا ہے تو ایک سال ہوتا ہے۔ اس مہینہ اور سال پر لوگوں کے ہزارہا دین دنیا کے کام مثلاً لین دین۔ تجارت کے وعدے۔ عمر۔ حیض وعدت کا حساب۔ موسم حج منحصر ہیں۔ حج کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے دو وجہ بیان فرمائی ایک تو یہ کہ اہل مکہ نے چاند کا یہ حساب چھوڑ کر حج کے لئے ایک اپنا فرضی حساب نکال رکھا تھا۔ اس حساب سے کبھی سوائے ذوالجحہ کے اور مہینے میں حج کا موسم ٹھہرا لیتے تھے جس کا ذکر سورة توبہ میں آئے گا۔ چاند کا حساب بتلا کر اللہ تعالیٰٓ نے اس فرضی حساب کو باطل کردیا۔ دوسرے اہل مدینہ میں یہ دستور تھا کہ احرام باندہنے کے بعد حالت احرام میں گھر کے دروازہ سے گھر میں نہیں آتے تھے۔ بلکہ یا دیوار پر سے سیڑھی لگا کر یا گھر کی پچھلی دیوار میں نقب لگا کر آیا کرتے تھے اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا دیا کہ یہ کوئی شرعی بات اور نیک بات نہیں اس سے معلوم ہوا کہ دین میں جب تک کوئی بات کسی دلیل شرعی سے نہ ثابت ہو وہ نیک بات نہیں قرار پا سکتی اور اللہ اس کو پسند نہیں فرماتا۔ بلکہ وہ بدعت ہے۔ اور ہر مسلمان پر اس کا چھوڑ دینا لازم ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:189) الاہلۃ مہینے کی پہلی اور دوسری تاریخ کے چاند کو الاہلۃ کہتے ہیں پھر اس کے بعد اسے قمر کہا جاتا ہے یسئلونک عن الاہلۃ۔ لوگ تجھ سے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں ( کہ یہ گھٹنا بڑھتا کیوں ہے) اہلۃ ھلال کی جمع ہے اھالیل بھی اس کی جمع ہے۔ قل ہی مواقیت للناس والحج کہہ دو کہ وہ لوگوں کے (کاموں کی) میعادیں اور حج کے وقت معلوم ہونے کا ذریعہ ہے۔ ہی ای اہلال۔ مواقیت جمع ہے میقات کی۔ اسم آلہ، وقت کی شناخت کے ذرائع۔ یہ وقت مادہ سے مشتق ہے۔ وقت یوقت توقیت (تفعیل) وقت ظاہر کرنا ۔ میقات اور مؤنث کسی کام کو شروع کرنے کی جگہ ۔ جیسے میقات حج، میقات احرام۔ ظھورھا۔ مضاف مضاف الیہ ان کی پشتوں ( کی جانب) سے ظھر واحد۔ ولکن البر من اتقی۔ البر ای ذوالبترا والبار بمعنی نیکوکار۔ نیکی کرنے والا۔ ابرار جمع۔ بلکہ نیکوکار وہ ہے جو پرہیزگار ہو۔ (نیز ملاحظہ 2:177) ۔ اتقی۔ اتقاء (افتعال) مصدر سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ وہ ڈرا۔ اس نے پرہیزگاری اختیار کی۔ فائدہ : عرب کے لوگوں کا دستور تھا کہ جب احرام باندھ لیا کرتے اور انہیں گھر میں داخل ہونے کی ضرورت پڑتی تو دروازہ سے داخل نہ ہوتے بلکہ پیچھے سے دیوار میں سوراخ کرکے داخ (رح) ہوتے اور اس کو بڑی نیکی سمجھتے۔ تفلحون۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ افلاح (افعال) مصدر تم فلاح پاؤ۔ فلاح پانا بمعنی بھلائی۔ کامیابی کا حاصل کرنا اور مقصد روری ہے۔ لا تعتدوا۔ فعل نہی۔ جمع مذکر حاضر ۔ اعتداء (افتعال) مصدر بمعنی حد سے گزرنا۔ تم حد سے مت گزرو، تم زیادتی مت کرو۔ المعتد۔ اسم فاعل واحد مذکر، زیادتی کرنے والا۔ حد سے گزرنے والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 اھلتہ یہ جمع ہلال کی ہے اور چاند کے پورا ہونے سے پہلے اسے ہلال کہا جاتا ہے۔ لوگوں نے اس کی کمی بیشی کا سبب دریافت کیا اللہ تعالیٰ نے مواقیت للناس فرما حکیمانہ انداز میں اس کے فوائد کی طرف اشارہ فرمادیا ہے چاند کے بڑھنے گھٹنے کے فائدے یہ ہیں کہ عبادات اور معاملات جیسے طلاق کی عدت حج، عید الفطر وغیرہ اس کے ساتھ معلق ہیں ان کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے۔ (شوکانی)5 اس کا تعلق بھی چونکہ حج سے ہے اس لیے یہاں بیان فرمادیا جاہلیت میں توہم پرستی کا غلبہ تھا ان کے ہاں یہ رسم تھی کہ وہ حج کے لیے احرام باندھ لیتے اور پھر گھر میں آنے کی ضرورت پڑتی تو دروازے کی بجائے پیچھے سے چھت پر چڑھ کر آتے۔ کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ احرام باندھ لینے والے کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس کے اور آسمان کے درمیان کوئی چیز حائل ہو۔ اس آیت میں ان کی غلط رسم کی تردید فرمائی ہے۔ (شوکانی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 189 196 اسرارو معارف یسئلونک عن الاھلۃ……………کذالک جزاء الکفرین۔ یہ باب البر چل رہا ہے۔ آخر سورة تک مختلف احکام بیان ہو رہے ہیں ، جیسے قصاص ، دیت ، وصیت ، صوم اور اس کے متعلقہ مسائل اعتکاف ، مال کا حلال و حرام پہچاننا۔ عبادات میں قمری مہینوں کا اعتبار ہوگا : اب جہاد اور حج کے بارے ارشاد ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چان کے گھٹنے اور بڑھنے کے بارے میں پوچھتے ہیں تو فرمائیے کہ چاند کے اس گھٹنے بڑھنے میں سہولت یہ ہے کہ یہ ایک قدرتی نظام ہے وقت کو شمار کرنے کا۔ خواہ معاملات اختیاری ہوں جیسے مطالبہ حقوق وغیرہ اور خواہ خیر اختیاری ، جیسے عبادات مثل حج روزہ زکوٰۃ وغیرہ۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ عبادات میں قمری مہینوں کا اعتبار ہوگا۔ اگرچہ شمسی نظام سے بھی سال اور مہینوں کا حساب لگایا جاسکتا ہے مگر اس کے لئے آلات رصد اور قواعد ریاضی کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس چاند کے طلوع سے خاتمہ تک مہینہ شمار کرنے کے لئے کسی آدمی کو تکلیف نہیں ہوتی۔ خواہ کسی دور دراز جنگل میں کیوں نہ بستا ہو۔ اسی لئے شریعت اسلامیہ نے تمام عبادات میں قمری مہینوں کو اور اس کے حساب کو فرض قرار دیا ہے اور عام معاملات میں بھی اسی کو پسند فرمایا ہے۔ چاند کے گھٹنے بڑھنے سے مراد انسان کے لئے وقت کی پیمائش کا ایک قدرتی آلہ مہیا کرنا ہے۔ اگر سوال یہی تھا تو جواب ہوگیا۔ لیکن اگر سائل کی مراد گھٹنے بڑھنے کی حقیقت جاننا تھا تو اس جواب سے واضح ہوا کہ اس سے انسان کے لئے کوئی صالح وابستہ نہیں۔ اس لئے اسلوب بیان ایسا اختیار فرمایا جس سے ظاہر ہے کہ انسان کو اس حد تک تحقیق کرنا چاہیے جہاں تک انسانی مصالح وابستہ ہوں فضول جستجو میں وقت ، محنت اور دولت کو ضائع نہ کیا جائے۔ اجرام سماوی کی حقیقت اول تو انسانی علم کی زد سے باہر ہے ، دوسرے اس کے جاننے یا نہ جاننے سے اس کی عملی زندگی کا کوئی تعلق نہیں۔ اس لئے یہ ساری کاوش فضول ہے ورنہ چاند کے طلوع غروب سے بیشمار قدرتی اثرات بھی وابستہ ہیں ، جیسے پھلوں میں مٹھاس وغیرہ۔ مگر چونکہ انسان نہ اس کو طلوع کرنے پر قادر ہے نہ غروب ، نہ اس کی روشنی کو کم یا زیادہ کرنے پر۔ اور نہ اس کے اثرات گھٹا بڑھا سکتا ہے۔ اس کے لئے اتنا کافی ہے کہ اس سے ماہ وسال شمار کرے خصوصاً مسلمان اوقات عبادات کے مہ وسال اسی سے شمار کرے۔ یہ چان پر جابسنے کے خیال کچھ دولت اور وقت کا ضیاع ہے یہی کروڑوں ڈالرزمین پر انسانی سہولت کے لئے خرچ ہوتے تو دوسرے کروں پر بھاگنے کی ضرورت نہ رہتی اور اگر کوئی دوسرے کروں پر چلا بھی گیا تو اصلاح کے لئے وہاں بھی ایٹم بم ہی لے جائے گا پھر فائدہ ؟ اور پھر یہ نیکی نہیں ہے کہ تم عبادات کے لئے رواج کی پیروی کرو۔ جیسے حج کے زمانے میں مشرکین گھروں میں دروازے سے داخل نہیں ہوتے مگر جانا بھی ضروری ہے تو پیچھے سے دیوار پھاند کر اندر جاتے ہیں ، یہ کوئی تک نہیں بلکہ نیکی یہ ہے کہ انسان اپنے مالک حقیقی سے حیا کرے اور اس کی فرمانبرداری میں لگا رہے۔ اس کے حکم کے مقابلے میں کسی رواج کی کوئی حیثیت نہیں کسی فعل کو نیک ثابت کرنے کے لئے اسے سنت سے ثابت کرنا ہوگا۔ چونکہ یہ اقدام سنت میں نہیں لہٰذا یہ کوئی نیکی نہیں۔ دراصل کتاب اللہ کے احکام بھی ثابت سنت خیرالانام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی سے ہوں گے۔ ورنہ یار لوگ مختلف لغات کا سہارا لے کر بات کو کہیں سے کہیں لے جائیں گے۔ اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کی ناراضگی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرو کہ تمہاری بھلائی اسی میں ہے اور نہ صرف دین کے مقابل رواج رپ عمل ہی چھوڑ دو بلکہ جو لوگ تم سے جنگ کرتے ہیں اور دین کی جگہ اپنا رواج جاری کرنا چاہتے ہیں ان سے جنگ کرو اللہ کے لئے ، اس کی رضا کے لئے کرو۔ کسی انتقامی جذبے سے یا ذاتی غرض سے نہ سوچو۔ چونکہ وہ بھی اللہ ہی کی مخلوق ہے ان سے بھی زیادتی نہ کرو۔ یہ بات خوب یادرکھو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اسی لئے جنگ لو جہاد کا نام دیا گیا ہے کہ اس میں مقابل کی بھلائی بھی پیش نظر ہوتی ہے اور اس کی اصلاح احوال بھی مقصود یہی وجہ ہے کہ جہاں مسلمان بحیثیت فاتح داخل ہو ، مقابل کے دل بھی فتح کرلئے اور جو جگہ کفار کے قبضہ میں آئی وہاں کی زمین بھی ان کے ظلم سے تھرا اٹھی تہذیب مغرب کے دلدادہ بیت المقدس پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے قبضہ کے حالات پڑھ کر اندازہ کرسکتے ہیں۔ گر کافر تم پر زیادتی کرنا چاہیں تو بھی بےجگری سے لڑو اور ہوسکے تو جس طرح انہوں نے تم سے شہر خالی کرالیا تھا تم بھی انہیں نکال باہر کرو کہ فتنہ یعنی شرانگیزی اور دین کی مخالفت کرکے فساد مچانا یا اس کی کوش کرنا قتل سے زیادہ سخت جرم ہے جس کے مرتکب ہو رہے ہیں نیز اس سارے قتال میں بھی اللہ کی عظمت پیش نظر رکھو اور حدود حرم میں لڑائی سے پرہیزکرو۔ ہاں ! اگر وہ لوگ وہاں تم سے لڑنا شروع کردیں تو پھر تمہیں اجازت ہے دفاعی جنگ ضرور لڑو اور ایسی جم کر لڑو کہ ان کے پرخچے اڑادو ” فاقتلوھم “ اور کافر اسی سلوک کا مستحق ہے کہ جب وہ مسلمانوں سے زیادتی کرے تو اسے منہ توڑ جواب دیا جائے۔ یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیبیہ کے بعد اگلے سال عمرہ کے لئے تشریف لے گئے تو اگرچہ مشرکین کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ معاہدہ تھا مگر صحابہ کرام (رض) کو اعتبار نہ تھا۔ اس دور میں چار مہینے حرمت کے مقرر تھے ذیقعد ، ذی الحجہ ، محرم تین ماہ مسلسل اور چوتھا رجب۔ اسلام نے بھی ان کی حرمت باقی رکھی جو بعض حضرات کا خیال میں 7 ہجری میں منسوخ ہوگئی مگر بایں ہمہ اب بھی ان کا وہی احترام باقی ہے اور باجماع ان میں صرف دفاعی جنگ لڑنے کی اجازت ہے۔ (معارف) اس وقت بھی ان میں کوئی کسی سے زیادتی نہ کرتا تھا اور لوگ بےخوف سفر کرتے تھے پھر حرم کی حرمت بھی تھی جو ابھی تک ہے اور قیامت تک رہے گی کہ حرم میں شکار بھی نہ مارا جائے حتیٰ کہ سبز گھاس تک نہ کاٹی جائے تو چونکہ مسلمان تو حرم کی عزت کریں گے لیکن مشرکین اگر معاہدہ توڑ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نقصان پہنچانا چاہیں تو ؟ اللہ کریم نے یہ آیات نازل فرما کر ضابطہ مقرر کردیا کہ حرم کی حرمت کا خیال رکھو لیکن اگر کافر ناجائز فائدہ اٹھانا چاہیں تو ایسا مت ہونے دو ۔ اسی صورت میں فقہاء فرماتے ہیں کہ حد حرم میں اگر کوئی کسی کو قتل کرنا چاہے تو اپنا دفاع کرنے کی اجازت ہے ۔ سو اگر ایسی صورت ہو تو انہیں بےدریغ قتل کرو۔ خواہ وہ کہیں ہوں ، حرم میں یا بیت اللہ کے پردوں میں چھپنے کی کوشش کریں۔ مگر ہاں زیادتی نہ کرو یعنی جو نہ لڑے یا لڑنے کے قابل ہی نہ ہو۔ بچہ ، بوڑھا ، عورت وغیرہ انہیں مت چھیڑو زیادتی اللہ کو پسند نہیں اور ان سب زیادتیوں کے بعد بھی اگر کافر باز آجائیں تو اللہ بہت بڑا معاف کرنے والا ، اور رحم کرنے والا ہے۔ سبحان اللہ ! دوستاں راکجا کنی محروم تو کہ بادشمناں نظرداری لیکن اگر باز نہ آئیں تو ان سے جنگ کرو۔ اور اس وقت تک ہتھیار نہ رکھو۔ جب تک فساد کی کوئی چنگاری باقی ہے حتیٰ کہ فساد مٹ جائے اور اللہ کی حکومت قائم ہو۔ اللہ کی مخلوق پر اللہ کا قانون نافذ ہو اور انسانی خواہشات کے پلندے کو قانون کا نام دے کر کسی پر نہ ٹھونسا جائے ہر انسان خواہ مسلم ہو یا کافر اللہ کی مقرر کردہ حدود میں اپنا مقام اور حق حاصل کرسکے۔ اور اگر کفار سرکشی سے باز آجائیں تو سوائے ان لوگوں کے جن کے ذمے جرائم ہوں سب کو معاف کردو۔ یعنی محض اسلام دشمنی کی سزا نہ دو کہ اس سے تو وہ باز آچکے۔ ہاں ! کسی نہ کسی پر زیادتی کی ہو تو اس سے اس کا حق دلوایا جائے۔ یہی حال شہر حرام کا ہے کہ اگر وہ اس کا خیال رکھیں تو پھر درست لیکن اگر وہی پرواہ نہ کریں تو دفاعی جنگ سے مت ہٹو کہ یہ حرمت تو بدلے کی چیز ہے۔ اگر وہ کریں گے تو پائیں گے بھی۔ ورنہ سارا وبال ان کی گردن پر اور جو بھی تم سے زیادتی کرے ویسا ہی اسے جواب بھی دو ۔ اور یادرکھو کہ یہ زیادتی تم پر کیوں کرتا ہے تمہارا جرم کیا ہے کہ تم نے دین حق قبول کیا۔ تو تم جواب دیتے وقت حق کو سامنے رکھو اور دفاع کرو ، کبھی زیادتی کرنے والے نہ بن جائو۔ کہ تائید باری ہمیشہ متقی یعنی اللہ سے حیاء کرنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ انفاق اگرچہ عموماً دولت خرچ کرنے کے معنوں میں آتا ہے لیکن یہاں اس کا بہتر ترجمہ اپنی ساری توانائی کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے کہ جہاں دولت کی ضرورت ہو وہاں دولت ، جہاں تعاون کی ضرورت ہو وہاں تعاون ، جہاں زبان وقلم سے کام چلے وہاں زبان وقلم اور جہاں جان کا نذرانہ درکار ہو وہاں جان دے۔ یعنی یہ چندروزہ زندگی اور عارضی اقتدار اور وقتی دولت یہ سب کچھ اللہ کے لئے خرچ کرو تاکہ تم اس کا اعلیٰ بدلہ پائو نہ یہ کہ ان پر نثار ہوتے رہو۔ اور اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کے اسباب کر بیٹھو۔ ولا تلقوا بایدکم الی التھلکۃ۔ یعنی اپنی تباہی کے باعث نہ بنو کہ آج تم ان چیزوں کو محبوب رکھو اور مقصد حیات بنالو تو کل یہ تو چھن ہی جائیں گی اور اللہ کی راہ میں محنت نہ کرنے سے آخرت بھی گئی۔ سو ہمیشہ نیکی کے کاموں میں سبقت کرو۔ بھلائی کرو کہ اللہ اچھائی کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔ اچھائی نام ہے سنت خیرالانام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا۔ جو کام بھی سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدود کے اندر ہو ، اچھائی ہے اور اس کا کرنے والا اللہ کا محبوب۔ فقہاء کی رائے میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی بعض مصارف ایسے ہیں جن کو پورا کرنا تمام مسلمانوں پر فرض ہے جیسے جہاد کے اخراجات ، اور اگر ضرورت پیش نہ ہوگی تو فرض بھی نہ ہوں گی۔ ترج جہاد ہی اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ حضرت ابوایوب انصاری (رض) کے مطابق اس آیت کا شان نزول ہی یہ ہے کہ غلبہ اسلام کے وقت لوگوں میں گفتگو ہوئی کہ اب جہاد کی ضرورت اتنی نہیں رہی اب کھیتوں وغیرہ میں زیادہ محنت کرنی چاہیے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اور بعض کے نزدیک ایسی حالت میں کہ سوائے اس کے کہ مسلمانوں کو شہید کروایا جائے دشمن کا کچھ بگاڑ نہ سکیں گے۔ لڑنا بھی اپنے کو ہلاکت میں ڈالنا ہے ۔ مگر یہ معنی بہت بعید ہیں اور اگرچہ اس آیت سے مستفاد ہوتے ہیں مگر ان چیزوں کا مدار خلوص نیت پر ہے۔ اسی لئے ارشاد ہے واحسنوا کہ ہر کام خلوص نیت اور صمیم قلب سے کرو کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احسان کی تفسیر حدیث جبریل میں یہ ارشاد فرمائی ہے کہ عبادت اس طرح کرو ، جیسے تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اور اگر یہ درجہ حاصل نہ ہو تو کم از کم یہ اعتقاد لازم ہے کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ حج : باب البر میں گیارہواں حکم حج کا ہے جو مذکورہ آیت سے لے کر 203 نمبر آیات تک مسلسل بیان ہورہا ہے۔ حج باجماع امت ارکان اسلام میں سے ہے اور ایک اہم فرض ہے جس کی تاکید واہمیت کتاب وسنت میں بکثرت وارد ہے بحوالہ ابن کثیر جمہور کے قول کے مطابق ہجرت کے تیسرے سال آل عمران کی آیت واللہ علی الناس حج البیت……میں اس کی شرائط کا بیان ہے اور باوجود طاقت رکھنے کے حج نہ کرنے پر سخت وعید ہے۔ مگر یہ آیت قصہ حدیبیہ میں نازل ہوئی جو 6 ہجری کا واقعہ ہے اس لئے فرضیت حج کا ذکر نہیں بلکہ حج وعمرہ کے ارکان کا بیان ہے کہ عمرہ کا بیان سورة آل عمران کی آیات میں نہیں۔ تو یہاں یہ مذکور ہے کہ حج وعمرہ بذریعہ احرام شروع کردینے سے واجب ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ عمرہ واجب نہیں بلکہ سنت ہے اور یہی ائمہ کے اقوال سے ثابت ہے۔ یہاں جس طرح پہلی آیات میں احسان کا ذکر ہورہا ہے اسی کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہوا کہ حج وعمرہ بھی صرف اور صرف اللہ کے لئے ادا کرو اس سے غرض ا صلی اللہ کی رضا کا حصول ہو ، نہ محض سیروتفریح مراد ہو ، نہ تجارت اور نہ ہی شہرت کی غرض ہو ۔ اگرچہ یہ سب چیزیں بھی حاصل ہوجاتی ہیں سیریں بھی ہوتی ہیں اور کچھ نہ کچھ خریدوفروخت بھی۔ لوگ ” حاجی صاحب “ بھی کہتے ہیں مگر اس کا حصول مراد نہ ہو۔ اس کی جانچ اس طرح ہوسکتی ہے کہ اگر سفر میں ہم ارکان حج کی ادائیگی میں متفکر ہیں تو یقینا نیت درست ہے پھر تو آدمی ایک ایک رکن کو پوچھ پوچھ کر اور پوری محنت سے ادا کرے گا اور اگر ہم نے ارکان تو بجائے خود نمازوں تک کی ادائیگی میں کوتاہی برتی تو پھر اپنے دل کو ٹٹولنا چاہیے کہ اس تمام سفر کا آخر مقصد کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرمایا اللہ سے ڈرتے رہو۔ ان اللہ شدید العقاب کہ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔ ہمارے زمانے کے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ سفر ہر حال میں مبارک ہے ، حالانکہ ایسا نہیں ہے اگر سفر حج میں بھی اور ارکان حج کی ادائیگی میں بھی لاپرواہی اور کوتاہی کو اختیار کیا تویہی بات غضب الٰہی کو دعوت دینے کا سبب بن گئی۔ جہاں ایک نماز ایک لاکھ کا ثواب پاتی ہے وہاں کی نماز کو چھوڑ دینا بھی گویا ایک لاکھ کو ضائع کرنا ہے۔ اب احکام کو لیجئے ! تو پہلا حکم یہی ارشاد ہوا کہ اگر احرام باندھنے کے بعد تمہیں کوئی عمرہ ادا کرنے سے روک دے جیسے اس واقعہ میں مشرکین نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جماعت کو روک دیا تھا تو قربانی دے کر احرام کھول لے۔ جس کی شکل بال منڈوانا یا کٹوانا ہے اور قربانی بکرے ، گائے یا اونٹ جو میسر ہودے سکتا ہے نیز قربانی حد حرم میں ذبح کی جائے۔ امام اعظم (رح) کے نزدیک اگر خود نہ پہنچ سکتا ہو تو کسی دوسرے کے ہاتھ روانہ کردے۔ اسی سے ثابت ہے کہ احرام کی صورت میں بال کٹوانا منع ہے اگرچہ یہ حکم دشمن کے روکنے کی صورت میں ہے مگر ائمہ نے باشتراک علت بیماری وغیرہ کی مجبوری کو اس میں داخل کیا ہے۔ نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل سے ثابت ہے کہ اگر مجبوری کی شکل میں قربانی دے کر احرام کھول دے مگر جب یہ مجبوری ہٹ جائے تو قضا کرے کہ اس کی قضا واجب ہے۔ چونکہ سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا ہی احرام کھولنے کی علامت ہے لیکن اگر کوئی شخص بیماری یا مجبوری کی وجہ سے سر یا بدن کے کسی دوسرے حصے کے بال کٹانے پر مجبور ہو تو بقدر ضرورت بال تو کٹوالے مگر اس کا فدیہ ہے کہ روزے رکھے صدقہ دے یا قربانی دے۔ قربانی تو حد حرم میں کرے روزے یا صدقہ جہاں بھی ادا کرے سنت ہے ، نیز قرآن میں تو کوئی عدد یامقدار مذکور نہیں مگر حدیث سے ثابت ہے کہ تین روزے یا چھ مسکینوں کو آدھا صاع گندم بطور صدقہ دے (بخاری) آدھا صاع تقریباً پونے دو سیر کا ہوتا ہے یا اس کی قیمت ادا کردے۔ قبل از سلام کے رواجات میں یہ بھی تھا کہ جب حج کہ مہینے شروع ہوجائیں یعنی ماہ شوال سے حج وعمرہ کو جمع کرنا گناہ ہے تو یہاں اس کی اصلاح کردی گئی ہے کہ جو لوگ حدود میقات کے اندر رہتے ہیں وہ تو حج اور عمرہ جمع نہ کریں کہ ان کو عمرہ کی غرض سے سفر کرنا دشوار نہیں ، مگر باہر سے آنے والوں کو حج کے ساتھ عمرہ جمع کرنے کی اجازت ہے۔ میقات وہ مقامات ہیں جو اطراف عالم سے آنے والے حجاج کے لئے ہر راستہ پر متعین ہیں اور حج یا عمرہ کا احرام باندھے بغیر وہاں سے آگے بڑھنا گناہ ہے۔ البتہ جو لوگ حج وعمرہ کو جمع کریں ان پر شکرواجب ہے جس کی صورت یہ ہے کہ ایک قربانی دے گائے یا اونٹ۔ لیکن اگر اس کی ہمت نہ رکھتا ہو تو پھر اس پر دس روزے واجب ہیں جن میں سے تین ایام حج میں رکھے یعنی نویں ذوالحج تک پورے کردے اور سات حج سے فارغ ہو کر جہاں چاہے اور جب چاہے رکھے اگر تین روزے ایام حج میں نہ رکھ سکے تو پھر اکابر اور امام صاحب (رح) کے نزدیک اس کے لئے قربانی ضروری ہے جب قدرت ہو حرم میں قربانی کرادے۔ حج اور عمرہ کو جمع کرنے کی دو صورتیں ہیں تمتع اور قرآن۔ ایک یہ کہ میقات سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھے۔ یہ احرام حج کے احرام کے ساتھ کھولے گا اسے قرآن کہا گیا ہے اور دوسرا یہ کہ میقات سے صرف عمرہ کا احرام باندھے جو مکہ مکرمہ پہنچ کر عمرہ ادا کرکے کھول دے اور پھر آٹھویں ذوالحج کو منی جانے کے لئے حج کا احرام باندھے ، یہ تمتع ہے۔ ان سب امور میں خوف خدا کو پیش نظر رکھے ، اور کسی طرح کی کوتاہی یا سستی کو درمیان میں نہ آنے دے کہ اللہ کے عذاب بہت سخت ہیں آج کل تو اکثر لوگ پرواہ نہیں کرتے غلط کار معلموں کے ہتھے چڑھ کر ساری محنت ضائع کرتے ہیں یا دوستوں کی محافل میں بےپروائی سے وقت ضائع کرکے چلے آتے ہیں اور بہت سے لوگ تو فرائض کی پرواہ نہیں کرتے سنن وآداب کی تو بات ہی کیا۔ للہ ہم سب کو اصلاح احوال کی طاقت بخشے ! آمین۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشریح : آیت نمبر 189 حضرت معاذ ابن جبل (رض) اور ثعلبہ ابن عتمہ جو دونوں انصاری صحابی ہیں ایک دن انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول یہ کیا بات ہے چاند کبھی تو باریک دھاگے کی طرح نظر آتا ہے، پھر بڑھتے بڑھتے پورا چاند بن جاتا ہے۔ پھر اسی طرح گھٹتے گھٹتے دھاگے کی طرح باریک ہوجاتا ہے ان کے سوال کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ چاند تمہارے فائدوں اور مصلحتوں کے لئے بنایا گیا ہے جس سے تم اپنے معاملات اور معاہدوں کی تاریخوں کے علاوہ حج جیسی عظیم عبادت کے دنوں کو بھی متعین کرتے ہو۔ یعنی چاند انسانی فائدوں کے لئے بنایا گیا ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت کم سوال کرتے تھے قرآن کریم میں ان سے کل چودہ سوالات نقل کئے گئے ہیں۔ ایک سوال تو وہ ہے جو واذا سالک میں گزرا ہے دوسرا یہ سوال ہے۔ اس کے علاوہ سورة بقرہ میں چھ سوالات اور بھی ہیں۔ باقی سوالات قرآن کریم کی دوسری سورتوں میں آئے ہیں۔ سوالات کم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام عملی انسان تھے اور قاعدے کی بات یہ ہے کہ جو لوگ کام کرتے ہیں ان کو بےت کے سوالات کرنے کی فرصت ہی کہاں ہوتی ہے دوسرے یہ کہ ان کے سامنے بنی اسرائیل کی بےعملی کی بہت سی مثالیں موجود تھیں۔ انہوں نے اپنے نبی سے اس قدر بےت کے سوالات کئے تھے جن سے وہ خود ہی طرح طرح کی آفتوں میں مبتلا ہوگئے تھے تیسرے یہ کہ صحابہ کرام نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بےانتہا ادب و احترام کرتے تھے اور اس کے منتظر رہتے تھے کہ جو بات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرمائیں اس پر احسن طریقہ سے عمل کر کے دنیا و آخرت کو بہتر بنا لیں صحابہ کرام کی زندگی کا یہ پہلو ہم سب کے لئے ایک بہترین نمونہ ہے۔ بہرحال صحابہ کرام (رض) نے چاند کے بارے میں سوال کیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس کے جواب میں یہ آیت نازل کی گئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ چاند کا گھٹنا بڑھنا تمہارے فائدوں کے لئے ہے تا کہ اس کے ذریعہ تمہیں معاملات اور معاہدوں کی میعاد مقرر کرنے اور حج اور دوسری عبادات کے دن مقرر کرنے میں سہولت ہوجائے سورة یونس میں ارشاد فرمایا گیا ہے “ وقدرہ منازل لتعلموا عدد السنین والحساب ” کہ اللہ نے چاند کی مختلف منزلوں اور مختلف حالات سے گزارنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سال، مہینوں اور تاریخوں کا حساب معلوم کیا جاسکے۔ شریعت اسلامیہ میں چاند کے حساب سے اپنے سال اور مہینوں کا حساب رکھنا افضل بھی ہے اور اسلامی شعار ہونے کی وجہ سے قومی اور ملی غیرت کا تقاضا بھی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اگر سورج سے سال اور مہینوں کا حساب رکھا جائے تو وہ ناجائز نہیں ہے لیکن قرآن کریم کی آیات سے یہ بات صاف طور پر واضح ہے کہ اسلام کے نزدیک چاند کے حساب سے تاریخوں کا تعین کرنا زیادہ افضل و بہتر ہے۔ اس آیت میں دوسری بات کفار مکہ کے متعلق یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ وہ حج کے دنوں میں احرام باندھ لینے کے بعد اگر کسی کام سے اپنے گھروں میں واپس آتے تو اپنے گھر کے دروازوں کے بجائے پشت کی طرف سے آنے کو عبادت اور نیکی سمجھتے تھے۔ فرمایا گیا کہ یہ محض ایک رسم ہے جس کی شریعت اسلامیہ میں کوئی اہمیت نہیں ہے آدمی سیدھے طریقے سے اپنے گھروں کے دروازوں سے آئے اور جائے اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ شریعت نے بالاصالہ قمری حساب پر احکام و عبادات کا مدار رکھا ہے کہ سب کا اجتماع و اتفاق ان امور میں سہولت سے ممکن ہو پھر بعض احکام میں تو اس حساب پر لازم کردیا ہے کہ ان میں دوسرے حساب پر مدار رکھناجائز ہی نہیں جیسے حج ورزہ رمضان، وعیدین وزکوة وعدت طلاق وامثالہا اور بعض میں گو اختیار دیا ہے جیسے کوئی چیز خریدی اور وعدہ ٹھہرا کہ اس وقت سے ایک سال شمسی گزرنے پر زر ثمن بےباق کریں گے اس میں شرع نے مجبور نہیں کیا کہ سال قمری ہی پر مطالبہ کا حق ہوجاوے گا لیکن اس میں شک نہیں کہ اگر ابتداء قمری پر مدار رکھاجاوے تو عام طور پر سہولت اس میں ہے۔ 6۔ بعض لوگ قبل اسلام کے حالت احرام میں حج میں اگر کسی ضرورت سے گھر جانا چاہتے تو دروازے سے جانا ممنوع سمجھتے اس لیے پشت کی دیوار میں نقب دے کر اس میں سے اندر جاتے تھے اور اس عمل کو فضیلت سمجھتے تھے اللہ تعالیٰ اس کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی فضیلت نہیں کہ گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آیا کرو اس سے ایک بڑے کام کی بات معلوم ہوئی کہ جو شے شرعا مباح ہو اس کو طاعت و عبادت اعتقاد کرلینا اور اسی طرح اس کو معصیت اور محل ملامت اعتقاد کرلینا شرعا مذموم ہے اور بدعت میں داخل ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : روزے کا چاند سے تعلق ہے لہٰذا ضمناً چاند کے بارے میں ایک سوال کا جواب عنایت فرما دیا گیا ہے۔ کارخانۂ کائنات میں چاند مظاہر فطرت وقدرت میں سے ایک ہے جس کا انسانی زندگی اور ذہن پر خاص اثر پڑتا ہے۔ چاند کا جمال و کمال انسان کے لیے ہمیشہ سے دلربا رہا ہے۔ ماں کی مامتا بےساختگی کے عالم میں اپنے لخت جگر کو چاند کہہ کر پکارتی ہے ‘ شاعروں نے اسے اپنے کلام کا موضوع بنایا اور غلط ذہن لوگ اپنے محبوب کو چاند سے تشبیہ دیتے آئے ہیں چاند کی حسن صورت کو دیکھ کر انسان اس کے سامنے سرنگوں ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قبیلہ اور قوم چاند کو اپنا معبود تصور کرنے لگی۔ اسی لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی تبلیغ کے دوران چاند، سورج اور ستارہ پرستوں کو خطاب کرتے ہوئے سمجھایا تھا کہ غائب اور غروب ہونے والے کبھی مشکل کشا اور خدا نہیں ہوسکتے ” الانعام : ٧٧ اور حٰم السجدۃ : آیت ٣٧“ میں فرمایا گیا کہ کائنات کی بڑی سے بڑی اور خوب تر سے خوب صورت ترین چیز بھی سجدہ کے لائق نہیں ہوسکتی۔ یہ تو تمہارے خدمت گار اور تابع دار کردیے گئے ہیں۔ قرآن مجید نے اپنے مخصوص اسلوب بیان کے پیش نظر چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کے عوامل کا ذکر نہیں کیا بلکہ سوال کا رخ موڑتے ہوئے یہ بتلایا ہے کہ چاند کا گھٹنا اور بڑھنا ‘ اس کا طلوع اور غروب ہونا تمہارے لیے کھلے کیلنڈر کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس سے تم اپنی زندگی کے ادوار، عبادت کے اوقات اور حج کے ایّام معلوم کرسکتے ہو۔ مسلمانوں کے لیے حج، روزہ، عید اور دیگر عبادات کا شمار شمسی حساب کے بجائے قمری حساب پر رکھا گیا ہے۔ قمری مہینے کی تاریخ طلوع چاند کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے قمری مہینہ انتیس یا تیس دن کا قرار پاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں شمسی مہینوں میں فرق زیادہ ہے۔ حتی کہ کچھ سالوں کے بعد ایک سال کو لیپ کا سال قرار دینا پڑتا ہے۔ شمسی حساب کا آغاز دن کی ابتداء کے بجائے رات 12 بجے شروع کیا جاتا ہے جو بذات خود عجیب محسوس ہوتا ہے۔ لیکن افسوس ! ملت کو اس کا احساس بھی جاتا رہا اور آج مسلمانوں کی غالب اکثریت کو قمری مہینوں کے نام تک یاد نہیں۔ چاند کے فوائد کا ذکر کرنے کے ساتھ ہی عربوں کی خود ساختہ رسم کی نفی کی گئی ہے کہ ضرورت کے وقت حج کے دوران اپنے گھروں میں آنا پڑے تو ان کے پچھواڑے سے دیواریں پھلانگ کر آنے کے بجائے دروازوں کے راستے آیا جایا کرو۔ کیونکہ تمہارا رب تمہاری خود ساختہ عبادات اور رسومات پر راضی نہیں ہوتا ‘ نہ ہی دین کی بنیاد رسومات اور توہّمات پر رکھی گئی ہے۔ اس کی بنیاد تو حقیقی خوفِ الٰہی پر رکھی گئی ہے۔ یہی کامیابی کا زینہ اور وسیلہ ہے۔ لہٰذا تم ہر حال میں اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے احکام کا خوف واحترام قائم رکھو، تاکہ تم دنیا وآخرت میں کامیاب ہوجاؤ۔ چاند کے بارے میں جدید تحقیق بُعد قمر : (١) زمین سے چاند کا بعد اوسط 240000 میل ہے، قطر 2160 میل ‘ اس کا حجم زمین کے حجم کا ٤٩/١ حصہ ہے اور وزن زمین کے وزن کا ٨١/١ حصہ ‘ اس کی سطحی کشش زمین کی سطحی کشش کا تقریبًا ٦/١ حصہ ہے۔ لہٰذا جس چیز کا وزن سطح زمین پر ٦ پونڈ ہے سطح قمر پر اس کا وزن ایک پونڈ ہوگا۔ (٢) چاند زمین کے ارد گرد 27 دن 7 گھنٹے 34 منٹ میں دورہ پورا کرتا ہے۔ (٣) البتہ زمین کی سالانہ حرکت کے سبب ایک نئے چاند سے دوسرے نئے چاند تک ساڑھے انتیس دن لگتے ہیں۔ ٹھیک ٹھیک حساب کریں تو یہ مدت 29 دن 12 گھنٹے 14 منٹ اور 2.8 سیکنڈ میں ختم ہوتی ہے۔ اس مدت کو ایک قمری مہینہ کہتے ہیں۔ مظاہر قمر : (١) چاند روشن کرہ نہیں بلکہ اس کی روشنی سورج کی روشنی کے انعکاس کا نتیجہ ہے۔ اس کا نصف حصہ سورج کے سامنے ہونے کی وجہ سے ہمیشہ منوّر ہوتا ہے لیکن ہمیں اس کے مختلف مظاہر نظر آتے ہیں۔ (٢) 28، 29 تاریخ کو روشن حصہ آفتاب کی طرف اور تاریک پہلو زمین کی جانب ہوتا ہے اور وہ بالکل نظر سے غائب ہوجاتا ہے۔ اس حالت کو محاق کہتے ہیں۔ حالت محاق میں شمس وقمر ایک سمت میں ہوتے ہیں۔ (٣) پھر چاند آہستہ آہستہ سورج سے مشرق کی جانب ہوتا جاتا ہے۔ یکم کو اس کے چمکتے ہوئے چہرے کا صرف ایک باریک کنارہ ہمیں نظر آتا ہے۔ یہ ہلال کہلاتا ہے۔ (ماخوذ از فلکیات جدیدہ) مسائل ١۔ چاند کے ذریعے لوگوں کو حج اور دوسرے معاملات طے کرنے کے لیے اوقات معلوم ہوتے ہیں۔ ٢۔ ہر دم اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ ٣۔ گناہوں سے بچنے اور تقو ٰی اختیار کرنے والے ہی کامیاب ہوں گے۔ ٤۔ رسومات سے بچنا کامیابی کی ضمانت ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس ١٢ ایک نظر میں سابقہ اسباق کی طرح اس سبق میں امت کو بعض فرائض کی تعلیم دی گئی ہے ۔ اسلامی نظام زندگی کے بعض قومی اور بعض بین الاقوامی معاملات پر قانون سازی کی گئی ہے ۔ اس سبق میں چاند کی بڑھتی گھٹتی صورتوں کا بیان ہے ۔ گھروں میں پیچھے کی طرف سے داخل ہونے کا بیان ہے ، جاہلیت میں بعض اوقات لوگ اس رسم کی پابندی کرتے تھے ۔ احکام قتال ، حرام مہینوں میں مسجد حرام کے پاس جنگ اور حج وعمرہ کے اصلاح شدہ احکام ہیں ۔ ترتیب کے ساتھ اور مناسب ترامیم کے ساتھ ۔ ان تمام معاملات سے وہ اجزاء نکال دیئے گئے ہیں جن کا ربط دور جاہلیت سے تھا۔ سابقہ درس کی طرح اس میں بھی بعض احکام ، عقائد ونظریات سے متعلق ہیں اور بعض کا تعلق رسومات و عبادات سے ہے جبکہ بعض احکام کا تعلق جنگ سے ہے ۔ ان سب کو ایک ہی نظم میں پرودیا گیا ہے ۔ یعنی اللہ کا ذکر اور اس کا ڈر یعنی تقویٰ ۔ جہاں حکم دیا جاتا ہے کہ تم گھروں میں پیچھے کی طرف سے نہ داخل ہو ، سیدھے آؤ۔ اس کے ساتھ ہی نیکی کے مفہوم اور تصور کو درست کردیا جاتا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ حرکات و سکنات کی ظاہری اشکال کا نام نیکی نہیں ہے ۔ بلکہ بر خدا خوفی کا نام ہے۔ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (١٨٩) ” یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں میں پیچھے سے داخل ہوتے ہو۔ نیکی تو اصل یہ ہے کہ آدمی اللہ کی ناراضی سے بچے ۔ لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے سے آیا کرو ۔ البتہ اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے۔ “ حکم دیا جاتا ہے کہ دوران جنگ ظلم اور زیادتی سے بچو۔ لیکن اس سے بچنے کا محرک بھی اللہ سے لگاؤ اور اس کا خوف ہونا چاہئے ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَاللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ مسجد حرام کے قریب جنگ کے حکم میں بھی کہا جاتا ہے۔ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ ” اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ انہی لوگوں کے ساتھ ہے جو اس کی حدود توڑنے سے پرہیز کرتے ہیں ۔ “ اب مواقیت حج کا بیان شروع ہوتا ہے ۔ اس کے دوران میں شہوانی افعال ، بدفعلی اور لڑائی جھگڑے کی ممانعت ہوتی ہے اور نتیجہ وہی تقویٰ ہے ۔ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الألْبَابِ ” سفر حج کے لئے زاد راہ ساتھ لے جاؤ اور سب سے بہتر زاد راہ پرہیز گاری ہے ۔ پس اے ہوشمندو ! میری نافرمانی سے پرہیز کرو ۔ “ انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا جاتا ہے اور اس میں آخری نتیجہ تقویٰ اور احسان ہے ۔ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ” اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ “ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ” اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے ۔ “ حج کے بعد لوگوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اللہ کی یاد میں مشغول ہوجاؤ ۔ لیکن آخری نصیحت پھر تقویٰوَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ” اللہ کی نافرمانی سے بچو اور خوب جان رکھو کہ ایک روز اس کے حضور میں تمہاری پیشی ہونے والی ہے۔ “ صاف نظر آجاتا ہے کہ یہ تمام اور مختلف النوع احکام ایک مضبوط رسی میں نہایت مضبوطی سے باندھے ہوئے ہیں ۔ یہ رسی اور یہ رابطہ اس دین کے مجموعی مزاج سے وجود میں آتا ہے۔ اس دین کا مزاج یہ ہے کہ اس میں عبادات شعور سے جدا نہیں ہوتیں اور عبادات سے قوانین عامہ اور دنیاوی قواعد و ضوابط جدا نہیں ہوتے ۔ یہ دین اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک دنیاوی امور اور آخرت کے امور کو ساتھ نہ بٹھایا جائے ۔ نظریہ حیات اور قلب ونظر کی دنیا کے ساتھ قومی اور بین الاقوامی معاملات کو وابستہ نہ کردیا جائے اور جب تک اس دین کو انسان کی پوری زندگی میں جاری وساری اور غالب نہ کردیا جائے اور حالت یہ نہ ہوجائے کہ پوری زندگی مکمل طور پر تصور وحدت کے مطابق چل رہی ہے ، ایک ہی ہم آہنگ نظام اس پر حاوی ہے ایک ہی اور کامل نظام ہے جو اس میں نافذ ہے اور یہ ایسا نظام ہے جو اللہ کی شریعت پر قائم ہے ۔ ایک اکائی ہے اور زندگی کے پورے معاملات کو اپنی حدود میں لئے ہوئے ہے ۔ سورت کے اس حصے کے آغاز ہی میں ہمارے سامنے ایک منظر آتا ہے ۔ اس منظر میں مسلمان زندگی کے مختلف شکلوں کے بارے میں اپنے پیارے نبی کے اسوہ حسنہ کی طرف نظر کرتے ہیں ۔ ایسے حالات کے بارے میں پوچھتے ہیں جو آئے دن زندگی میں انہیں پیش آتے رہتے ہیں ۔ وہ یہ جاننے کے لئے بےتاب نظر آتے ہیں کہ وہ ان معاملات میں ، اپنے جدید تصور حیات کے مطابق کیا طرزعمل اختیار کریں ۔ جوان کے جدید نظام زندگی کے مطابق ہو۔ وہ سب سے پہلے جس چیز کی طرف توجہ مبذول کرتے ہیں وہ مظاہر فطرت ہیں وہ چاند کے بارے میں غور کرتے ہیں کہ اس کی کیا حقیقت ہے ؟ وہ ہلال نظر آتا ہے ۔ پھر وہ بتدریج مکمل ہوجاتا ہے اور پھر گھٹنے لگتا ہے ۔ پھر ہلال ہوجاتا ہے یہاں تک کہ غائب ہوجاتا ہے اور پھر نئے سرے سے ہلال ہوکر نکلتا ہے۔ پھر وہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا خرچ کریں ؟ مال کی کون سی قسم خرچ کریں ؟ وہ کس قدر خرچ کریں ؟ خرچ کس نسبت سے ہو ؟ پھر وہ سوچتے ہیں کہ مسجد حرام کے نزدیک جنگ کرنا کیسا ہے ؟ پھر حرام مہینوں میں جنگ کرنے کا کیا حکم ہے ؟ پھر وہ جوئے اور قمار بازی کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ نئے نظام میں کیا حکم ہے ؟ کچھ ہی عرصہ تو پہلے وہ تو سب شراب خور تھے اور جوئے بازی کے سوا ان کا اور کوئی کام ہی نہ تھا۔ پھر اچانک عورتوں کے ایام کے سلسلے میں پوچھتے ہیں کیا ان ایام میں تعلقات زن وشوئی جائز ہیں ؟ پھر وہ اپنی بیویوں کے خصوصی تعلقات کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور بعض اوقات تو ایسے سوالات خود بیویوں نے بھی کئے ۔ غرض پورے نظام زندگی کے بارے میں نہ صرف ان کی سوچ بدل جاتی ہے بلکہ طرز عمل بھی بدل جاتا ہے ۔ وہ طہارت اور پاکیزگی میں معراج کمال پر نظر آتے ہیں ۔ یہ سوالات نہایت اہمیت کے حامل ہیں اور ان سے بیشمار حقائق کا اظہار ہوتا ہے مثلاً : اولاً یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت اجتماعی زندگی کی جو اشکال تھیں اور ان کے درمیان جو ربط ضبط تھا وہ زندہ ، ترقی پذیر اور وسعت پذیر تھا ۔ اسلامی معاشرے کی تشکیل جدید ہورہی تھی ، تشخص قائم ہورہا تھا اور نئی نئی صورتیں پیش کی جارہی تھیں ۔ افراد معاشرہ اپنی اجتماعی زندگی پر پختہ یقین رکھتے تھے ۔ وہ اب بکھرے ہوئے افراد اور متفرق قبائل نہ تھے ۔ اب وہ ایک امت بن چکے تھے ، جس کا الگ وجود تھا ۔ اپنا نظام تھا ۔ اس کی اپنی وضع قطع تھی اور سب افراد اس نظام کے ساتھ پختہ طور پر وابستہ تھے ۔ ہر فرد کے لئے یہ بات اہم تھی کہ وہ زندگی کے پاکیزہ خطوط سے پوری طرح باخبر ہو ، باہمی تعلقات ورابطہ کی نوعیت کے بارے میں خبردار ہو۔ یہ نئی صورت حال دراصل نئے نظریہ حیات ، نئے نظام زندگی اور نئی قیادت کے نتیجے میں پیداہوئی تھی ۔ اور ان کی انسانیت ، ان کا شعور اور ان کی فکر غرض پوری سوسائٹی ہمہ جہت ترقی کررہی تھی۔ اس ہمہ جہت تجسس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی دینی حس کس قدر تیز تھی ۔ اسلامی نظریہ حیات ان کے دلوں میں کس قدر اتر چکا تھا۔ یہ نظریہ ان کی زندگیوں پر یوں چھا گیا تھا کہ وہ روز مرہ کا کوئی کام بھی اس وقت تک نہ کرتے جب تک اس جدید نظریہ حیات کی روشنی میں یہ یقین نہ کرلیتے کہ وہ درست ہے ۔ اس لئے کہ ان سابقہ زندگی کی کوئی بات برقرار نہ تھی ۔ انہوں نے دور جاہلیت کی تمام رسموں اور عادتوں کا جوأ گردن سے اتار پھینکا تھا ۔ اب انہیں قدیم رسومات پر کوئی اعتماد نہ تھا اور زندگی کے ہر کام اور ہر موڑ پر ایک جدید تعلیم کے منتظر تھے ۔ وہ ہر وقت بیدار اور باشعور رہتے تھے اور ان کی یہ شعوری ھالت سچائی پر پختہ عقیدے کی وجہ سے تھی ۔ ان کے نفوس تمام جاہلی عادات اور طور طریقوں سے پاک ہوگئے تھے ۔ وہ جاہلیت کی ہر بات کا بڑی احتیاط سے جائزہ لیتے تھے اور اسے ترک کردیتے تھے ۔ جدید نظریہ حیات سے ہدایات لینے کے لئے وہ ہر وقت تیار رہتے تھے ۔ وہ اپنی نئی زندگی کو خالصتاً اس نئے نظریہ حیات کے مطابق جلد ازجلد استوار کرنے کا عزم کرچکے تھے۔ یہ جدید نظریہ حیات ان کی زندگی کو نئے سانچوں میں ڈھال رہا تھا ۔ قدیم عہد کی جن باتوں کو بدرجہ مجبوری باقی رکھا گیا تھا انہیں بھی وہ جدید رنگ اور تربیت کے ساتھ لیتے تھے ۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر آنے والا نظام قدیم نظام کی جزئیات تک کو ترک کردے ۔ اصل بات یہ ہوتی ہے کہ جدید نظام کی بعض مصالح جزئیات کو منتخب کرکے انہیں جدید نظام میں سمو دیتا ہے ۔ وہ اس جدید نظام کا جزو ہوجاتی ہیں ۔ مثلاً حج کے اکثرمناسک ایسے ہیں جنہیں اسلام نے باقی رکھا ہے ۔ اور وہ یوں ہوگئے کہ گویا وہ اسلامی نظام زندگی کے سرچشمے سے پھوٹے ہیں۔ تیسری بات اس دور کی تاریخ سے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس دور میں مشرکین مکہ اور یہود مدینہ بار بار ، اسلامی اقدار کے سلسلے میں ، مسلمانوں کے دلوں میں شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ اسلام نے جاہلیت کے رسوم عبادت میں جو ترمیمات کی تھیں یا اس دور میں جو واقعات پیش آئے تھے ان کی وجہ سے یہ عناصر کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے اور اسلام کے خلاف ہر وقت گمراہ کن پروپیگنڈے میں لگے رہتے تھے ۔ مثلاً مشرکین عبداللہ بن حجش کے سریہ کے سلسلے میں سخت اعتراض کرتے تھے ۔ انہوں نے حرام مہینوں میں مشرکین پر حملہ کردیا تھا ۔ اور اس کی وجہ سے بیشمار سوالات پیدا ہوگئے تھے جن کا جواب ضروری تھا۔ اندرونی طور پر قرآن کریم جاہلی تصورات ، جاہلی رسومات اور جاہلی نظام کا ابطال کررہا تھا تو ظاہری طور پر اسلام اور مسلمانوں کے ان دشمنوں کے خلاف اس نے اعلان جنگ کردیا تھا۔ یہ اندرونی اور بیرونی جنگ مسلمانوں کے لئے اب بھی بپا ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ انسانی نفس اور انسانی ذہن میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ، اسلام کے وہی دشمن آج بھی تیغ بکف ہیں اور قرآن کریم اس وقت جو جواب دے رہا تھا آج بھی وہی جواب دے رہا ہے اور یہ امت آج بھی ، اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں کرسکتی جب تک حق و باطل کی اس جنگ میں قرآن عظیم کو اپنا رہنما نہیں بناتی ۔ یقیناً قرآن کریم آج بھی وہ کارہائے نمایاں دکھائے گا جو اس نے سینکڑوں سال پہلے دکھائے تھے ۔ جب تک مسلمان اس حقیقت کا یقین اور تسلیم نہ کریں گے اور اس پر عمل نہ کریں گے ، ان کے لئے کوئی نجات نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس دنیا میں کامیابی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔ اس حقیقت پر غور کرنے کا ادنیٰ نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ انسان اس تصور اور ادراک کے ساتھ ، اس کتاب کو قبول کرے۔ وہ اس کی طرف اس طرح متوجہ ہو کہ اس کی تعلیمات متحرک صورت میں نظر آئیں ، وہ میدان عمل میں ہو اور ذہن کو ایک جدید تصور حیات دے رہا ہو ۔ جاہلیت کے تصورات کا مقابلہ کررہا ہو ، اس امت کو لغزشوں سے بچارہا ہو اور اس کی مدافعت کررہاہو ، اس حال میں متوجہ نہ ہو ، جس طرح آج ہم اس کی طرف رخ کرتے ہیں ۔ میٹھے نغمے کی طرح ایک اچھے کلام کی صورت میں جو ترتیل سے پڑھا جارہا ہے اور بس ........ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے تو قرآن مجید کو ذہنی آسودگی حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ ایک عظیمم مقصد کے لئے اتارا تھا ۔ اسے اس لئے اتارا تھا کہ وہ اس کرہ ارض پر ایک پاکیزہ اور مکمل زندگی تخلیق کرے ۔ اسے حرکت دے ۔ راستے کی مصیبتوں ، لغزشوں اور کانتوں کے درمیان سے انسان کی راہنمائی کرکے اسے پرامن منزل تک پہنچائے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کیا گیا تھا ، جیسا کہ ہم پہلے کہہ آئے ہیں ، یعنی چاند کا ظہور اس کا گھٹنا بڑھنا کیونکر ہوتا ہے ؟ بعض روایات میں آتا ہے کہ سوال اس طرح تھا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاند کیوں پیدا کیا گیا ہے ؟ سوال کا یہ انداز جواب سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے ۔ اس لئے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا کہ اے نبی تم یہ جواب دو : قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ” یہ لوگوں کے لئے تاریخوں کے تعین اور حج کی علامتیں ہیں ۔ “ یعنی حج کا احرام باندھنے کا وقت ، حج سے باہر آنے کا وقت ، روزہ بند کرنے کا وقت ، روزہ کھولنے کا وقت۔ نکاح ، طلاق اور عدت کا وقت ۔ معاملات تجارت اور قرضوں کی ادائیگی کے اوقات وغیرہ ۔ تمام دینی امور میں اور تمام دنیاوی امور میں وقت کا حساب ضروری ہے اور اس لئے چاند کا حساب رکھنا تمام امور میں لابدی ٹھہرا۔ چاہے یہ پہلے سوال کا جواب ہو یا دوسرے کا ، تعلق اس کا بہرحال مسلمانوں کی عملی زندگی کے ایک حقیقی مسئلے سے ہے ۔ محض سائنسی اور علمی مسئلے کا حل یہاں مقصود نہیں ہے۔ قرآن کریم نے بھی انہیں چاند کے دوفائدے گنوادئیے جو ان کی عملی زندگی میں رات دن انہیں نظر بھی آتے تھے لیکن قرآن نے انہیں زمین کی گردش یا چاند کی گردش کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ، حالانکہ سوال کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل تھی کہ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ سوال یہ تھا : چاند ہلال بند جاتا ہے کیسے ؟ پھر اسی طرح قرآن کریم نے انہیں یہ بھی نہیں بتایا کہ نظام شمسی میں چاندکاکام (Function) کیا ہے یا اجرام سماوی کی گردش میں چاند کا مدار کیا ہے ؟ یہ بات بھی یقینا ً سائل کے سوال میں شامل تھی ۔ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو عملی جواب دیا تھا اس کا راز کیا ہے ۔ قرآن کریم نے سائنسی معلومات کے بجائے محض عملی فوائد کیوں گنوائے ؟ دراصل قرآن کریم کا مقصد نزول یہ تھا کہ انسان کو ایک خاص نظریہ حیات دے ۔ ایک خاص مقام زندگی عطا کرے ۔ اس کے نتیجے میں ایک مخصوص معاشرہ وجود میں آئے۔ قرآن کریم کے پیش نظر اس کرہ ارض پر ایک امت کی تشکیل تھا ، جس نے زمین پر پوری انسانیت کی قیادت کا اہم فریضہ ادا کرنا تھا۔ اس کو تاریخ انسانیت کے اندر ایک ایسے معاشرے کی تخلیق کرنی تھی جو تمام گزشتہ انسانی معاشروں میں سبب سے زیادہ بلند ہو ۔ اس کو انسانی زندگی کا ایک ایسا نمونہ پیش کرنا تھا جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہ ہو۔ اس کو طرز زندگی کے بنیادی اصول وضع کرنا تھے اور لوگوں کو ان کی طرف دعوت دینی تھی ۔ قرآن کی زبان میں کیا اللہ تعالیٰ اس سوال کا علمی جواب دیتے ہیں ۔ ظاہر ہے قرآن ان احکام کا مجموعہ ہے جو انسانی زندگی کو پاکیزہ بنانے اور اللہ پرستی تک لے جانے والے ہیں ۔ یہ علم فلکیات کی کتاب نہیں ہے ۔ اس لئے کوئی علمی جواب تلاش کرنا قرآن کے مزاج اور موضوع سے بیخبر ی کی دلیل ہوگا۔ یو بھی یہ علوم ایک نہج پر نہیں ۔ نظریات بدلتے رہتے ہیں ۔ ان نظریات کو انسانی فہم وادراک تک لانے کے لئے بیشمار معلومات ونظریات کی ضرورت ہوتی رہی ہے ۔ اور اس وقت پوری انسانیت کو جو منبع علم تھا اس کے مطابق یہ علمی جواب ایک معمہ ہی نظرآتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے علمی جواب کو چھوڑدیا ۔ قرآن کریم اپنے مقصد نزول کو اولیت دیتا ہے اور اس فہم میں علم فلکیات کے انداز میں جواب موزوں ہی نہ ہوتا اور اگر یہ علمی جواب ضروری بھی ہوتا تو بھی قرآن کریم جیسی کتاب اس کے لئے موزوں نہ تھی جس کا موضوع سائنس نہیں ہے کیونکہ قرآن بلند تر مقاصد کے لئے نازل ہوا ہے ۔ قرآن مجید کے بعض نادان دوست اس میں علوم جدیدہ تلاش کرتے ہیں جو قرآن کا موضوع ہی نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں کینہ پرور دشمنوں کا خیال یہ ہے کہ قرآن مجید طبیعی علوم کا مخالف ہے ۔ یہ بھی خام خیالی ہے ۔ گوقرآن موضوع مادی علوم نہیں ، لیکن اس کا اعجاز یہ بھی ہے کہ ان علوم کے سرچشمے اس میں تلاش کئے جاسکتے ہیں ۔ یہ دونوں طرف کے خیالات اس لئے پیدا ہوئے ہیں کہ ان کے حامل حضرات نے اس کتاب مقدس کے مزاج کو نہیں سمجھا ۔ اس کے مقاصد اور اس کے دائرہ کار ہی کو یہ حضرات متعین نہیں کرسکے ۔ قرآن کا دائرہ کار بالیقین نفس انسانی اور حیات انسانی کا تزکیہ ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس کائنات اور ان موجودات کے سلسلے میں انسان کو ایک ایسا تصور دیا جائے جس کے ذریعے یہ اپنے خالق سے پیوستہ ہوجائیں اور پھر اس تصور کی اساس پر زندگی کا ایک پورانظام تعمیر کیا جائے جس میں انسان آزادی کے ساتھ اپنی پوری قوتوں کو کام میں لائے ۔ ظاہر ہے کہ انسانی قوتوں میں ، ایک قوت ، قوت عقل وادراک بھی ہے اور یہ قوت صحیح طرح کام تب ہی کرسکتی ہے جب اس کرہ ارض پر ایک صالح نظام قائم ہوجائے اور وقت عقلی کو آزادانہ طور پر تحقیقات علمیہ کا موقع دیا جائے اور علمی وسائنسی نتائج اخذ کرنے میں آزادانہ طور ترقی و کمال کے جس مقام تک پہنچنا چاہے پہنچ جائے ۔ لیکن انسان اپنی اس محدود قوت ادراک کے ذریعے میں جس مقام پر بھی پہنچے وہ آخری مقام نہ ہوگا جیسا کہ تجربات سے ظاہر ہے۔ قرآن کا موضوع ” انسان “ ہے۔ انسان کا تصور ونظریہ ، اس کا فہم اور شعور ، اس کا طرز عمل اور کردار ، اس کے تعلقات وباہمی روابط ہے ۔ رہے طبیعی علوم ، انواع و اقسام کی مادی ایجادات ، تو وہ قرآن کے موضوع بحث نہیں ۔ بلکہ یہ عقل انسانی کے لئے موضوع بحث اور مرکز عمل ہیں ۔ یہ عقل انسانی کا کام ہے کہ وہ اس میدان میں نظریات قائم کرے اور نئے نئے انکشافات کرے ۔ کیونکہ عقل انسانی کا فہم و ادراک ہی وہ امتیاز ہے جس کی وجہ سے خلیفۃ اللہ فی الارض کا مقام حاصل ہوا ہے ۔ اور یہ خصوصیت انسان کو اس کی تخلیق کے وقت سے دی گئی ہے ۔ رہا قرآن مجید تو وہ صرف فطرت انسانی کا رہنما ونگہبان ہے ۔ وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ انسان کی فطرت میں فساد واقعہ نہ ہو ، اس نظم میں خلل نہ پڑے جس کے مطابق زندگی بسر کرکے یہ اپنی فطری طاقتوں کو کام میں لائے گا۔ قرآن کریم انسان کو اس کائنات کے بارے میں ایک جامع علم دیتا ہے ۔ یہ بتاتا ہے کہ اس کائنات کا تعلق اس کے خالق کے ساتھ کیا ہے ؟ اس کے مختلف اجزاء کا (جن میں سے ایک خود انسان بھی ہے ) باہمی تعلق کیا ہے ؟ اس کے بعد قرآن نے انسان کو آزاد چھوڑدیا ہے کہ وہ جزئیات کا ادراک خود کرے اور اپنے منصب خلافت کی کارکردگی میں ان صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائے جو اللہ تعالیٰ نے اسے دی ہیں ۔ قرآن کریم ان جزئیات کی تفصیل مہیا نہیں کرتا تو یہ انسان کے فرائض منصبی میں شامل ہے ۔ مجھے تو قرآن مجید میں ان نام نہاد حامیوں کی سادہ لوحی پر بےاختیار ہنسی آتی ہے ، جو قرآن مجید کی طرف ایسی چیزوں کی نسبت کرتے ہیں جو اس کا حصہ نہیں اور نہ وہ اس کے مقاصد میں شامل ہیں ۔ یہ لوگ قرآن مجید سے علم طب ، علم کیمیا اور علم فلکیات کی جزئیات ثابت کرتے ہیں ۔ کیا ان لوگوں کے نزدیک قرآن مجید کی عظمت ثابت کرنے کے لئے یہی بات رہ گئی ہے ؟ اپنے موضوع کے اعتبار سے بالیقین قرآن کریم ایک عظیم وکامل کتاب ہے اور ان تمام علوم کے مقابلے میں قرآن کا موضوع ایک عظیم الشان موضوع ہے ۔ کیونکہ اس کا موضوع خود انسان ہے ۔ ادراک (جس سے یہ علوم عبارت ہیں ) کا سرچشمہ انسان کی قوت مدرکہ ہے جو انکشافات کرتی ہے اور دنیا میں انسان ان سے جو فائدہ اٹھاتا ہے ۔ تحقیقات وتجربات اور ان سے نتائج کا اخذ کرنا عقل کے خواص ہیں اور عقل خود انسان کا ایک جزء ہے اس کے مقابلے میں قرآن مجید کا موضوع خود انسان کی تشکیل وتکوین ہے ۔ اس کی شخصیت کی تعمیر ، اس کے ضمیر ، اس کی عقل اور اس کی فکر کی تعمیر ہے۔ اس کے بعد قرآن مجید ایک صالح انسانی معاشرہ کی تعمیر سے بحث کرتا ہے جس میں انسان ان قوتوں کو کام میں لائے جو اللہ تعالیٰ نے نفس انسان میں ودیعت کی ہیں ۔ جب ایک سلیم الطبع انسان صحیح تصور حیات ، صحیح فکر ، پختہ شعور پالیتا ہے اور ایک ایسا اسلامی معاشرہ اسے مل جاتا ہے جس میں وہ آزادی سے کام کرتا ہے تو پھر قرآن مجید اسے آزاد چھوڑ دیتا ہے تاکہ سائنس اور دوسرے علوم کے میدان میں وہ تحقیقات اور تجربے کرے ۔ قرآن صرف صحیح فکر ، صحیح شعور اور صحیح تصور حیات کے معیار مقرر کردیتا ہے اور بس۔ قرآن کریم بعض اوقات اس کا ئنات کے وجود کے بارے میں اور اس کے اجرام کے باہمی ربط اور پھر کائنات اور اس کے خالق کے درمیان ربط کے بارے میں صحیح فکر دینے کے لئے کچھ آخری حقائق بیان کرتا ہے ۔ یہ وہ حقائق ہوتے ہیں جن پر علم طبیعات جاکر ختم ہوجاتا ہے ، لہٰذا ان حقائق کے ساتھ ہمیں عقل انسانی کے ان مفروضات کو نہیں ملانا چاہئے جو انسانی نظریات ہیں اور جنہیں عوام سائنسی حقائق کہتے ہیں ۔ اور جن تک انسان ان تجربات کے نتیجے میں پہنچا ہے اور جنہیں وہ قطعی اور آخری حقائق سمجھتا ہے ، اس لئے قرآن کریم جن حقائق کا ذکر کرتا ہے وہ قطعی اور انتہائی ہیں ۔ لیکن وہ حقائق جن تک انسان بذریعہ عقل و تجربہ پہنچتا ہے ۔ وہ آخری اور قطعی ہرگز نہیں ہوتے ۔ وہ انسان کے تجربات ، میسر آلات کے ذریعہ سے حاصل ہوتے ہیں اور آلات کی قوت کی بھی ایک حد ہوتی ہے ، لہٰذا یہ حقائق فہم انسانی اور اس کو میسر آلات کی قوت کی حد تک ہی ہوسکتے ہیں ۔ خود انسانی تحقیقات اور تجربات کے جو مسلم اصول ہیں ان کے مطابق بھی ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کے انسان کی دریافت کردہ حقائق ، قرآن کریم کے بیان کردہ حقائق کے مقابلے میں معیار صحت ہوسکتے ہیں ، کیونکہ یہ حقائق علم بشری کے حدود تک ہیں ۔ (اور قرآنی حقائق علم بشری سے ماوریٰ ہیں) یہ تو تھی بات سائنسی تجربات کی ۔ رہے وہ نظریات یا مفروضات جنہیں سائنسی اور علمی کہا جاتا ہے ۔ مثلاً فلکیات کے بارے میں نظریات ، انسان کی تخلیق اور ترقی کے بارے میں نظریات ، انسان کی نفسیات اور اس کے طرز عمل کے بارے میں نظریات ، انسانی معاشرے اور اس کی ترقی کے بارے میں نظریات ، یہ سب نظریات معروضی ہیں اور انسانی قیاس اور گمان پر مبنی ہیں ۔ انہیں کسی مفہوم میں بھی سائنسی حقائق نہیں کہا جاسکتا ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ نظریات ، اس کائنات کے مظاہر ، انسانی زندگی ، انسانی نفسیات اور انسانی معاشرے کی تفسیر وتشریح ہیں اور ان کی اصلیت یہ ہے کہ ایک نظریے کی جگہ دوسرا نظریہ لیتا چلا آرہا ہے ۔ ان کا اعتبار اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک دوسرا نظریہ اس کی جگہ نہیں لے لیتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مفروضات اور یہ نظریات ہمیشہ تغیر اور تبدل کے قابل ہوتے ہیں اور ان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے ۔ بعض اوقات تو وہ یکلخت الٹ ہوجاتے ہیں ، اس لئے کہ بعض اوقات انسان تجربات اور ملاحظہ کا کوئی جدید اور زیادہ طاقتور آلہ دریافت کرلیتا ہے ۔ یا بعض اوقات جب انسان ان تمام مشاہدات کو اکٹھا کرتا ہے اور ان پر مجموعی حیثیت سے غور کرتا ہے تو وہ ایک جدید نظریہ اور مفروضہ قائم کرلیتا ہے ۔ وہ کوشش اور تفسیر ، جو ان عام قرآنی اشارات کو سائنس کے متغیر ومعتبدل نظریات سے وابستہ کرتی ہے ، یا ان سائنسی حقائق سے وابستہ کرتی ہے جو بذات خود آخری اور قطعی نہیں ہیں تو ایسا نتیجہ مرتب نہیں ہوتا جسے قطعی کہا جاسکے ۔ یہ کوشش ایک تو خود سائنس کے منہاج بحث وتحقیق کے خلاف ہے ۔ دوسرے یہ کہ ایسی کسی کوشش کے فوائد ومقاصد صرف تین ہوسکتے ہیں اور تینوں ایسے ہیں جو قرآن مجید کے شان جلالت اور علو مرتبت کے منافی ہیں ۔ ١۔ یہ ایک قسم کی اندرونی اور ذہنی شکست خوردگی ہے جو لوگ اس ذہنی مرعوبیت کا شکار ہوتے ہیں وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید سائنس قرآن مجید پر غالب ہے اور اس سے برتر درجہ رکھتی ہے ۔ یہ قرآن مجید کی تفسیر وتشریح میں سائنس کے اکتشافات بیان کرتے ہیں ۔ حالانکہ قرآن مجید خود اپنے موضوع پر ایک مکمل کتاب ہے ۔ اور اس نے جو حقائق بیان کئے ہیں وہ آخری حقائق ہیں ، جبکہ سائنس کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے موضوع کے ہر دائرے میں ناقص ہے ۔ وہ آج جس حقیقت کو ثابت کررہی ہے ، کل خود اس کی تردید کردیتی ہے ۔ سائنس کی رسائی جہاں تک بھی ہو ، وہ آخری اور مطلق نہیں کہلاسکتی ۔ سائنس کی ہر دریافت ، انسانی قوات ، اس کے عقلی ادراکات اور اس کے آلات معاونہ کے حدود وقیود کے ساتھ مقید ہوتی ہے اور یہ سب ادوات وآلات ایسے ہیں جو اپنے مزاج وساخت کے اعتبار سے کوئی ایک آخری اور مطلق حقیقت کو گرفت میں نہیں لاسکتے ۔ ٢۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ ایسے حضرات نے سرے سے قرآن مجید کے مزاج اور اس کے مقاصد ہی کو نہیں سمجھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید آخری اور مطلق حقائق کا مجموعہ ہے اور وہ انسان کی تعمیر وتربیت بعینہ ایسے انداز میں کرنا چاہتا ہے جو نوامیس فطرت اور اس کائنات کے مزاج کے خلاف نہ ہو اور جہاں تک انسانی مزاج اس کا متحمل ہو۔ یہ اس لئے کہ انسان اور اس کے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کے درمیان کوئی تصادم نہ ہو ، بلکہ انسان اس کائنات کے راز معلوم کرے ، قوانین فطرت دریافت کرے اور انہیں اپنے منصب خلافت فی الارض کے فرائض سر انجام دینے میں استعمال کرے ۔ ان قوانین فطرت کو جو مکمل فکر ونظر ، تحقیق وتطبیق اور عمل و تجربہ کے نتیجے میں خود اس نے حاصل کئے ہوں ۔ یہ نہ ہو کہ اسے کوئی تیار علوم دے دے اور وہ انہیں من وعن تسلیم کرلے۔ ٣۔ تیسری قباحت یہ ہے کہ ان حضرات کو بڑے ہی تکلف اور چالاکی کے ساتھ ، آیات قرآنی میں مسلسل تاویل کرنی پڑتی ہے۔ اور یہ حضرات ان آیات کو اٹھائے ہوئے ، بےآبروئی کے ساتھ ان سائنسی نظریات اور مفروضات کے پیچھے بھاگتے پھرتے ہیں ، جنہیں کوئی ثبات وقرار حاصل نہیں ہے ۔ ان نظریات کے شب وروز میں تو ہر شب تاریک تر ہوتی جارہی ہے اور ہر دن ایک نیا نظریہ لے کر آتا ہے جو سابق نظریہ کو باطل کردیتا ہے ۔ کیا ہم بھی سابق تفاسیر کو باطل کرتے چلے جائیں ؟ جیسا کہ ہم اوپر کہہ آئے ہیں ، یہ انداز فکر ، نہ صرف یہ ہے کہ قرآن عظیم کی شان و عظمت و جلالت کے خلاف ہے ، بلکہ خود سائنس کے منہاج تحقیق و تجربہ کے بھی خلاف ہے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ سائنس نے اس کائنات ، نسل انسانی اور زندگی کے بارے میں جو حقائق ونطریات پیش کئے ہیں یا مسلسل دریافت ہورہے ہیں ، ہم قرآن مجید کے فہم وادراک میں ان سے کام نہ لیں اور انہیں بالکل نظر انداز کردیں ۔ ہرگز نہیں ۔ ہماری مراد یہ نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں خود فرماتے ہیں : سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ(٥٣) ” عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی ، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔ “ اس آیت کا مقتضا یہ ہے کہ ہم نفس انسانی اور آفاق کے متعلق سائنس کی فراہم کردہ تازہ بتازہ معلومات پر مسلسل غور وفکر کرتے رہیں اور اپنی اس محدود قوت مدرکہ اور دائرہ تصور میں ، قرآنی مدلولات ومفاہیم کا دائرہ وسیع کرتے چلے جائیں۔ یہ کیسے ؟ اور پھر بغء یر اس قباحت کے قرآن مجید کے مطلق اور آخری مطالب کو ان سائنسی اکتشافات سے وابستہ بھی نہ کریں جو آخری نہیں ہیں جو مطلق نہیں ہیں ، اضافی ہیں ۔ یہاں ایک مثال مفید طلب ہے : قرآن کریم میں ہے وَخَلَقَ کُلَّ شَئٍ فَقَدَّرَہُ تَقدِیرًا ” اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ، پورے پورے اندازے سے ۔ “ جب سائنس نے ترقی کی تو معلوم ہوا کہ اس کرہ ارض پر بعض نہایت ہی پنہاں سہولتیں ہیں ، بعض نہایت ہی دقیق ہم آہنگیاں ہیں ۔ یہ کرہ ارض ، اپنی اس مخصوص ہیئت کے ساتھ ، سورج سے اس مخصوص فاصلے پر ، چاند سے ایک متعین بعد پر ، سورج اور چاند کے مقابلے میں ایک حساس حجم لئے ہوئے ، اس قدر تیزی سے رواں دواں ، اپنے محور کے گرد ایک خاص انداز میں جھکا ہوا ، اس موجودہ پانی اور سطح کے ساتھ اور ان کے علاوہ اپنی ہزاروں دوسری خصوصیات کے ساتھ ، صرف یہ کرہ ارض ہی اس قابل ہے کہ یہاں زندگی اور زندگی کے دوسرے ملحقات قائم رہ سکتے ہیں ۔ ان حقائق میں سے کوئی بھی عارضی انتظام نہیں ہے ۔ نہ ہی یہ کام بغیر کسی منصوبے کے یوں اتفاقاً ہورہا ہے ۔ ان حقائق کا سائنٹیفک مطالعہ قرآن مجید کی اس آیت میں کس قدر وسعت پیدا کردیتا ہے : وَخَلَقَ کُلَّ شَئٍ فَقَدَّرَہُ تَقدِیرًا ذرا سوچئے اکتشافات جدیدہ نے اس آیت کے مفہوم کو کیا وسعت دے دی ہے ۔ پوری سائنس آیت کی تفسیر ہوگئی ، لہٰذا قدرت کی مزید کاریگری معلوم کیجئے اور یوں آیت کے مفہوم کو وسیع سے وسیع تر کرتے چلے جائیے۔ قرآن کریم میں ہے خَلَقَ الاِنسَانَ مِن سُلٰلَةٍ مِّن طِینٍ ” اس نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا ۔ “ صدیوں بعد والاس اور ڈارون نظریہ ارتقا پیش کرتے ہیں ۔ وہ فرض کرتے ہیں کہ زندگی کا آغاز ایک خلیہ سے ہوا ۔ اس خلیہ نے پانی میں نشوونما پائی ۔ وہ خلیہ ارتقا کی منزلیں طے کرتے کرتے موجودہ انسان پر منتج ہوا۔ ضرورت تھی کہ اس نظریئے کو علمی معیار پر پرکھا جاتا ، لیکن ہم دوڑے قرآن مجید کو اٹھاتے ہوئے ، نہایت بےآبروئی کے ساتھ اس نظریہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا بلکہ اسے قرآن کی تفسیر بنادیا۔ اول تو یہ نظریہ کوئی آخری نظریہ نہیں ہے ۔ ابھی ایک صدی بھی نہیں گزری کہ اس میں بیشمار رتبدیلیاں رونما ہوگئیں ۔ قریب ہے کہ سرے سے پورا نظریہ ہی ختم ہوجائے ۔ کیونکہ یہ ناقص معلومات پر مبنی تھا اور اس کی کمزوریاں ظاہر بھی ہوچکی ہیں ۔ مثلاً حیوانات کے ہر نوع کے کچھ موروثی خصائص ہوتے ہیں اور ہر نوع کی مروثی اکائیان ان کا تحفظ کرتی ہیں ۔ یہ ایک نوع کو دوسرے نوع کی طرف منتقل ہونے ہی نہیں دیتیں ۔ یہ ایک ایسا نقص ہے جس کے ذریعہ سرے سے یہ نظریہ ہی ختم ہوسکتا ہے اور آج نہیں تو کل یہ نظریہ ختم ہوگا۔ جبکہ قرآن مجید آخری حقائق پر مشتمل ہے ۔ یہ ضروری نہیں کہ قرآن مجید کا مفہوم یہی ہو جو نظریہ ارتقاء نے پیش کیا ۔ قرآن نے تو صرف انسانی کی اصلی تخلیق کا تذکرہ کیا ہے ، انسان کی نشوونما کی تفصیلات کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اصل تحقیق ایک آخری حقیقت ہے ۔ وہ آخری نقطہ جہاں سے وجود انسان کا آغاز ہوا بس یہی آیت کا مفہوم ہے ۔ اس کی مزید تفصیلات کیا تھیں ان کا ذکر یہاں نہیں ہے ۔ قرآن مجید نے کہا وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا (یٰس : ٣٨) ” اور سورج ، وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جارہا ہے ۔ “ اس آیت میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ سورج چلتا ہے ۔ سائنس کی دریافت ہے کہ سورج اپنے اردگرد کے تاروں کی نسبت سے تو ١٢ میل کی سیکنڈ کی رفتار سے چلتا ہے ۔ لیکن وہ اپنی کہکشاں کو لئے ہوئے ، جس کا وہ خود بھی ایک ستارہ ہے ، ١٧٠ میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلا جارہا ہے ، لیکن سائنس کی یہ معلومات بھی قرآن مجید کی اس کا آیت عین مدلول نہیں ہیں ۔ کیونکہ سائنس نے ابھی تک جو کچھ دریافت کیا ہے وہ نسبتی ہے ۔ آخری علم یا حقیقت نہیں ۔ اس میں تبدیلی ہوسکتی ہے ۔ رہی آیت تو اس میں اس آخری حقیقت کا اظہار ہوا ہے کہ سورج چلا جارہا ہے۔ بس ہم اس رفتار کو کسی سائنسی رفتار سے وابستہ نہیں کرسکتے جو بذات خود متبدل ہے ۔ ایک دوسری جگہ قرآن مجید میں ہے : اَوَلَم یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضِ کَانَتَا رَتقًا فَفَتَقنَاھُمَا ” کیا وہ لوگ جنہوں نے (نبی کی بات ماننے سے ) انکار کردیا غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان و زمین باہم ملے ہوئے تھے ، پھر ہم نے انہیں جدا کیا۔ “ سائنس ایک نظریہ پیش کرتی ہے ۔” یہ کہ کرہ ٔ ارض سورج کا ایک حصہ تھا ، جو اس سے جدا ہو “ اور ہم بھاگے ، سانس پھولا ہوا ، زبان نکلی ہوئی ۔ ہم نے کوشش کی کہ اس نظریہ کو اٹھالیں اور قرآن مجید کی آیت کو لے جاکر اس سے ملادیا ۔ اور کہنے لگے بس یہی تو ہے جس کا قرآن مجید نے ذکر کیا ہے ۔ ہرگز نہیں ، یہ ہمارا مقصد کبھی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ سائنس کا یہ تو کوئی آخری نظریہ نہیں ہے ۔ زمین کی طبیعاتی تشکیل کے لئے کئی سائنسی نظریات موجود ہیں ۔ کئی ہوسکتے ہیں رہا قرآن مجید تو اس نے فقط یہ کہا ہے اور جو آخری حقیقت ہے کہ زمین آسمان سے جدا ہوئی ہے اور بس ۔ وہ کیسے جدا ہوئی ؟ آسمانوں کے کس حصے سے جدا ہوئی ؟ ان تفصیلات کا ذکر آیت نے نہیں کیا ہے ، لہٰذا اس موضوع پر سائنس جو نظریہ پیش کرے ، جس مفروضے پر چاہے بحث کرے ، ہم یہ نہیں کرسکتے کہ آیت کا مفہوم سائنس کے موجودہ نظریئے کے مطابق ہے اور یہی آخری ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس آیت کی مناسبت سے یہاں یہ تفصیل کافی ہے ۔ یہاں ہمارا مقصد صرف یہ تھا کہ سائنس کے انکشافات کو آیت کے فہم اور آیات کے مفہوم میں وسعت اور عمق پیدا کرنے کے لئے کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے ؟ بغیر اس قباحت کے کہ ہم کس آیت کو سائنس کے کسی نظریہ کے ساتھ وابستہ کردیں اور وہ بھی اس طرح کہ دونوں کو ایک سمجھ لیا جائے ، دونوں کو ایک دوسرے کا مصداق گردانا جائے ۔ ہمارا مقصد صرف یہ تھا کہ ان دونوں صورتوں میں فرق کرلیا جائے۔ اب ہم قرآن کی اصل عبارت کی طرف لوٹتے ہیں : وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ” نیز ان سے کہو ! یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف سے داخل ہو۔ نیکی تو دراصل یہ ہے کہ آدمی اللہ کی ناراضگی سے بچے ۔ لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے ہی سے آیا کرو۔ البتہ اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے۔ “ آیت کے دونوں حصوں کے درمیان ربط یہ ہے کہ پہلے حصے میں بیان کیا گیا کہ چاند کی بڑھتی گھٹتی شکلیں اوقات مناسک حج کے تعین کی خاطر ہیں اور دوسرے حصے میں دو رجاہلیت کی اس رسم کی اصلاح کردی گئی جو ایام حج سے وابستہ تھی ۔ (بخاری ومسلم میں حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں : انصار کا رواج یہ تھا کہ جب وہ حج کرنے جاتے تو واپسی کے وقت گھروں میں دروازوں کی جانب سے داخل نہ ہوتے ۔ ایک بار ان کا ایک آدمی آیا وہ سیدھا دروازے کی طرف سے داخل ہوگیا ۔ لوگوں نے اسے ملامت کی ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ،” یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف سے داخل ہو ، نیکی تو دراصل یہ ہے کہ آدمی ، اللہ کی ناراضی سے بچے لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے میں سے آیا کرو۔ “ ابوداؤد نے شعبہ بن اسحاق (رض) اور براء بن عازب (رض) کی روایت سے نقل کیا ہے کہ :” انصار جب کسی بھی سفر سے لوٹتے تو دروازے کی جانب سے داخل نہ ہوتے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ “ یہ رسم چاہے ہر سفر کے موقع پر ہو یا صرف حج میں ہو (سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حج میں تھی) بہرحال ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ نیکی کا کوئی کام ہے ۔ ایمان کا جزء ہے ۔ قرآن کریم نے اس باطل تصور کو ختم کردیا کیونکہ یہ ایک فضول حرکت تھی ۔ اس کی کوئی شرعی حیثیت نہ تھی ۔ نہ اس میں کوئی دنیاوی فائدہ تھا ۔ قرآن کریم نے نیکی کا صحیح تصور دے دیا کہ نیکی خدا خوفی کا نام ہے ۔ ظاہر و باطن میں اللہ کی نگرانی اور اس کے وجود کا پختہ شعور ہی نیکی ہے ۔ وہ کسی ایسی ظاہری شکل کا نام نہیں ہے ، جس کے پس منظر میں کوئی ایمانی شعور کارفرما نہ ہو ، بلکہ محض ایک رسم جاہلیت ہی ہو۔ حکم دیا گیا کہ دور جہالت کی رسم و رواج ترک کرکے گھروں میں دروازے سے داخل ہوا کرو اور پھر اشارہ کیا کہ تقویٰ ہی راہ نجات ہے ۔ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ” لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے ہی سے آیا کرو ۔ البتہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے۔ “ یوں دلوں کو اصلی ایمانی حقیقت سے مربوط کردیا گیا ۔ یعنی تقویٰ کو ، دنیا وآخرت کی فلاح و بہبود سے جوڑا گیا۔ اور جاہلیت کی اس رسم کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا جس کے پس منظر میں کوئی ایمانی جذبہ نہ تھا اور مومنین کو متوجہ کردیا گیا کہ اللہ کی اس نعمت کو سمجھنے کی کوشش کریں جو اللہ نے چاند کی شکل میں ، ان کے اوقات اور مناسک حج کے تعین کے لئے فراہم کی گئی ہے ۔ یوں اللہ تعالیٰ نے صرف ایک آیت میں ایسے اہم مضامین بیان فرمادیئے۔ اب جنگ کی عمومی بحث شروع ہوجاتی ہے ۔ پھر مخصوص طور پر مسجد حرام کے ساتھ ، ، حرم اور ممنوعہ مہینوں میں جنگ کے بارے میں احکام آتے ہیں ۔ انفاق فی سبیل اللہ کی دعوت بھی دی جاتی ہے جو جہاد و قتال کے ساتھ گہرا ربط رکھتا ہے ۔ فرمایا :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

چاند میں کمی بیشی کیوں ہوتی ہے تفسیر درمنثور ج ١ صفحہ ٢٠٣ میں ہے کہ حضرت معاذ بن جبل اور ثعلبہ بن عنمہ نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ چاند چھوٹا بڑا کیسے ہوجاتا ہے۔ اول باریک دھاگہ کی طرح ظاہر ہوتا ہے۔ پھر بڑھتے بڑھتے بڑا ہوجاتا ہے۔ اور گول ہوجاتا ہے۔ پھر گھٹتے گھٹتے باریک ہوجاتا ہے۔ اور شروع میں جیسا تھا ویسا ہی آخر میں ہوجاتا ہے۔ ان کے سوال پر آیت بالا نازل ہوئی اور ان کو جواب دیا گیا کہ یہ چاند لوگوں کے لیے اوقات مقررہ بتانے والے ہیں اور حج کا وقت بھی ان کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ روزے کب رکھنا شروع کریں گے۔ عورتوں کے عدت کے اوقات ان کے ذریعے معلوم ہوتے ہیں۔ اور خریدو فروخت کے معاملات میں جو کوئی اجل اور میعاد مقرر ہوتی ہے چاندوں کے ذریعہ ان کے ختم ہونے کا علم بھی ہوتا ہے۔ شریعت اسلامیہ میں قمری مہینوں کا اعتبار ہے : شریعت اسلامیہ میں چاند کے مہینوں کا اعتبار کیا گیا ہے صاحب نصاب پر چاند کے اعتبار سے بارہ مہینے گزر جانے پر زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہوتی ہے (اگر کوئی شخص شمسی مہینوں کے اعتبار سے سال گزر جانے پر زکوٰۃ ادا کرتا رہے گا تو چھتیس سال کے بعد ایک سال کی زکوٰۃ کی ادائیگی میں کمی رہ جائے گی۔ کیونکہ شمسی سال قمری سال سے دس گیارہ دن بڑا ہوتا ہے) جس عورت کا شوہر وفات پا جائے اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے اور جس عورت کو اب تک حیض نہیں آیا اس کو طلاق ہوجائے تو اس کی عدت تین مہینہ ہے۔ یہ مہینے قمری مہینوں کے اعتبار سے معتبر ہوں گے۔ اور رمضان کے روزے بھی چاند ہی کے حساب سے رکھے جاتے ہیں کیونکہ رمضان چاند کے بارہ مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے پھر عید بھی چاند دیکھ کر کی جاتی ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ چاند دیکھ کر (رمضان کے) روزے رکھنا شروع کرو، اور چاند دیکھ کر رمضان کے روزے رکھنا ختم کر دو ۔ اگر چاند نظر نہ آئے تو تیس (روزوں کی) گنتی پوری کرلو۔ (صحیح مسلم ج ١ صفحہ ٣٤٧، صفحہ ٣٤٨) حج بھی ذوالحجہ کی نویں تاریخ کو ہوتا ہے اور قربانیاں ذوالحجہ کی دس۔ گیا رہ۔ بارہ کی تاریخوں میں ہوتی ہیں۔ ان سب احکام میں چونکہ چاند ہی کا مہینہ معتبر ہے اور چاند ہی کے حساب سے مہینوں کی ابتداء اور انتہا ہوتی ہے اس لیے چاند کے مہینوں کا محفوظ رکھنا اور ان کی ابتداء اور انتہا جاننا فرض کفایہ ہے۔ دینی امور کو قمری مہینوں سے متعلق کرنے میں آسانی ہے : چاند کے مہینوں سے دینی امور کو متعلق کرنے میں عوام اور خواص کے لیے اور پورے عالم کے انسانوں کے لیے آسانی بھی ہے۔ چاند شروع میں مغرب کی طرف چھوٹا سا نظر آتا ہے۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اب مہینہ شروع ہے پھر چند دن کے بعد پوری رات روشن رہتا ہے۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ ایام بیض کا زمانہ ہے پھر اخیر میں مشرق کی طرف چھوٹا ہو کر نظر آنے لگتا ہے اور ایک دو دن بالکل ہی نظر نہیں آتا، اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اب مہینہ کا آخر ہو رہا ہے۔ اگر شمسی مہینوں سے عبادات کا تعلق ہوتا تو اسے صرف حساب دان ہی سمجھ سکتے تھے اور ہر شخص کے پاس کیلنڈر اور جنتری ہونا ضروری تھا اور یہ یاد رکھنا ضروری تھا کہ کونسا مہینہ کتنے دن کا ہوتا ہے یہ سب باتیں عوام کے لیے سمجھنا اور یاد رکھنا مشکل تھا پھر کیلنڈر وغیرہ اب ترقی یافتہ دنیا میں چھپنے لگے وہ بھی ہر بستی اور ہر گھر میں نہیں ہوتے۔ اور احکام اسلام چودہ سو سال سے نافذ ہیں پھر کیلنڈر اور جنتریوں پر عبادات کیسے موقوف رکھی جاسکتی ہے۔ عوام اور خواص کے لیے یہ آسانی ہے کہ چاند دیکھا اور مہینے کی ابتداء اور انتہا سمجھ لی۔ سورج روزانہ ایک ہی طرح نکلتا اور چھپتا ہے۔ سردی گرمی میں اس کا طلوع غروب ایک ہی طرح ہے۔ اسے دیکھ کر مہینوں کی ابتداء اور انتہا سمجھنے کا کوئی راستہ نہیں۔ صاحب روح المعانی ج ٢ صفحہ ٧١ لکھتے ہیں کہ حضرات صحابہ نے جو سوال کیا تھا وہ یہودیوں کے سوال کرنے پر تھا۔ یہودیوں نے حضرات صحابہ (رض) سے چاند کے بارے میں سوال کیا تو ان حضرات نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کرلیا۔ الفاظ سوال میں احتمال ہے کہ انہوں نے چاند کے گھٹنے بڑھنے کی حکمت معلوم کی ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس کے گھٹنے بڑھنے کی علت اور سبب معلوم کیا ہو۔ اگر چاند کے گھٹنے بڑھنے کی حکمت معلوم کی تھی تب تو جواب سوال کے مطابق ہوگیا کہ چاند کے گھٹنے بڑھنے میں عبادات کے اوقات اور معاملات کی میعادیں معلوم کرنے کا فائدہ ہے۔ اگر چاند آفتاب کی طرح ایک ہی حالت پر ہوتا تو اوقات کا سمجھنا اور معلوم کرنا مشکل ہوجاتا۔ اور اگر حضرات صحابہ کا سوال چاند کے گھٹنے بڑھنے کی علت جاننے کے متعلق تھا تو جواب من قبیل اسلوب الحکیم ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں وہ معلوم کرنا چاہئے جس کی تمہیں ضرورت ہے۔ چاند کے گھٹنے بڑھنے کے اسباب تکوینیہ جاننے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں، تمہیں ضرورت ہے چاند کے گھٹنے بڑھنے میں حکومت کیا ہے اور اس کا فائدہ کیا ہے چناچہ ان کو اسی سوال کا جواب دے دیا گیا جو سوال انہیں کرنا چاہئے تھا۔ چاند کا گھٹنا بڑھنا یعنی چھوٹا بڑا نظر آنا اس کے اسباب تکوینیہ ریاضی کی کتابوں میں لکھے ہیں کچھ پرانے فلاسفہ کے تخیلات ہیں اور کچھ نئے سائنس کے تصورات ہیں ان میں سے کسی بھی چیز کی قرآن و حدیث سے تصدیق نہیں ہوتی اور نہ کوئی دینی مسئلہ ان کے جاننے پر موقوف ہے۔ بہت سے لوگ فلکیات اور اجرام سماویہ کے احوال جدید آلات کے ذریعہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور مروجہ علوم میں ماہر بھی ہوجاتے ہیں۔ اور اپنے کو بڑا عالم بھی سمجھتے ہیں دنیا کے ادارے اور ملکوں کے سربراہ ان کو اعزازی ڈگریاں بھی دیتے ہیں۔ لیکن یہ سب ان چیزوں کے خالق ومالک کی نہ صرف عبادت کرنے سے اور اس کی معرفت سے محروم ہیں بلکہ اس ذات پاک پر ایمان بھی نہیں لاتے جس نے یہ چیزیں پیدا فرمائیں۔ قرآن مجید کے طرز جواب میں ان لوگوں کو بھی تنبیہ ہے کہ چاند کے گھٹنے بڑھنے کے اسباب تکوینیہ کے جاننے میں لگے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان پر سب سے زیادہ خالق جل جلالہ کے احکام کی طرف متوجہ ہونا فرض ہے۔ گھروں میں دروازوں سے آنے کا حکم : چاندوں کے متعلق سوال کا جواب دینے کے بعد جاہلیت کی ایک رسم کی تردید فرمائی۔ صحیح بخاری ج ٢ صفحہ ٢٤٨ میں حضرت براء بن عازب (رض) سے مروی ہے کہ جاہلیت میں عرب کے لوگ جب احرام باندھ لیتے تھے تو (احرام کے زمانہ میں) گھر کی پشت سے داخل ہوتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (لَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُھُوْرِھَا) اور صحیح بخاری ابواب العمرہ ج ١ صفحہ ٢٤٢ میں یوں نقل کیا ہے کہ انصار (اوس اور خزرج کے قبیلے) جب حج کرکے واپس ہوتے تھے تو اپنے گھروں میں دروازوں سے نہیں بلکہ پچھواڑوں کی طرف سے داخل ہوتے تھے ایک انصاری جو حج کرکے آئے تو وہ گھر کے دروازہ سے داخل ہوئے (ان کو عار دلائی گئی) گویا انہوں نے کوئی برا کام کیا ہے اس پر آیت بالانازل ہوگئی۔ اپنی طرف سے کسی کام میں ثواب یا گناہ سمجھ لینا بدعت ہے : گھروں کے پچھواڑوں سے داخل ہونے کو وہ لوگ ثواب سمجھتے تھے اور اس کو نیک کام جاننے تھے۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے ان کی تردید فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ یہ نیکی نہیں ہے کہ اپنے گھروں میں ان کی پشتوں کی طرف سے آؤ۔ نیکی اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں سے منع فرمایا ان سے پرہیز کیا جائے۔ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی ہوتی رہے اور اپنی طرف سے تراشے ہوئے احکام اور اعمال کی پابندی کی جائے اور اس میں ثواب سمجھا جائے یہ گمراہی کی بات ہے۔ جس چیز کو شریعت نے ضروری نہیں قرار دیا یا ثواب کا کام نہیں بتایا اس کو اپنی طرف سے ضروری قرار دے دینا یا ثواب کا کام سمجھ لینا بدعت ہے اور گناہ ہے جیسا کہ جو چیز شرعاً جائز ہو اسے گناہ سمجھنا گناہ ہے، گھروں کے دروازوں سے داخل ہونا شرعاً جائز تھا اس کو گناہ قراردیا اور مکان کی پشتوں کو توڑ کر داخل ہونے کو ضروری سمجھا اور ثواب کا کام جانا اس لیے ان کے عقیدہ اور عمل کی تردید فرمائی اور آخر میں فرمایا (وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) کہ تم اللہ سے ڈرو تاکہ کامیاب ہوجاؤ۔ اس کے احکام پر عمل پیرا ہو اور اس کے احکام میں تغیر و تبدل نہ کرو۔ علامہ جصاص کا ایک استنباط : علامہ جصاص احکام القرآن ج ١ صفحہ ٢٥٦ میں تحریر فرماتے ہیں کہ اس آیت سے یہ قانون معلوم ہوا کہ جس عمل کو اللہ تعالیٰ نے ثواب کا کام نہیں بتایا اور جس کی ترغیب نہیں دی وہ کسی شخص کے ثواب بنا لینے سے ثواب کی چیز نہ بنے گا۔ نہ دین کا جزو ہوگا۔ اس کو تقرب الی اللہ کا ذریعہ نہ سمجھ لیا جائے۔ اور یہ عقیدہ نہ رکھا جائے کہ وہ دین ہے پھر لکھتے ہیں کہ اس کی نظیریہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دن بھر خاموش رہنے سے منع فرمایا، (چونکہ شریعت محمدیہ میں خاموش رہنے کا روزہ نہیں ہے) ۔ اور ایک شخص کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کہ وہ دھوپ میں کھڑا ہے آپ نے فرمایا اس کو کیا ہوا ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ اس نے دھوپ میں کھڑے ہونے کی نذر مانی ہے۔ آپ نے اس کو حکم دیا کہ سایہ میں چلا جا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

358 الْاَهِلَّةِھلال کی جمع ہے جس کے معنی نئے چاند کے ہیں۔ بعض لوگوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چاند کے بارے میں سوال کیا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ چاند سورج کی طرح ایک حال پر نہیں رہتا ہر ماہ کا چاند پہلے باریک سا ہوتا ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے چودھویں تاریخ کو پورا ہوجاتا ہے اور پھر گھٹنا شروع ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ دوبارہ پہلے کی طرح باریک رہ جاتا ہے۔ ذکر ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سئل عن زیادۃ الاھلة ونقصانھا فی اختلاف احوالھا (ابن جریر ص 104 ج 2)359 یہ اس سوال کا جواب ہے۔ یعنی یہ چاند لوگوں کے لیے اپنے معاملات میں تعیین اوقات کا ذریعہ ہے۔ نیز ان کے سب سے بڑے مذہبی اور سماجی اجتماع حج کی تعیین بھی اسی کے ذریعہ ہوتی ہے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ چاند کے گھٹنے بڑھنے کے متعلق چونکہ سوال نامناسب اور موقع اور محل کے مطابق نہیں تھا اس لیے ان کے سوال کے مطابق جواب نہیں دیا گیا بلکہ جواب میں چاند کی کمی بیشی کی حکمت بیان کر کے اشارہ فرمایا ہے کہ ایسے بیکار اور بےفائدہ سوالوں اور کاموں اجتناب چاہئے۔ چناچہ مثال کے طور پر ان کی ایک فضول رسم آگے بیان کر کے ارشاد فرمایا کہ ایسے فضول کام نیکی میں داخل نہیں ہیں لیکن حضرت شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے یہ پوچھا تھا کہ حج کیلئے اشہر حج کی تعیین ضروری ہے یا حج دوسرے مہینوں میں بھی کیا جاسکتا ہے تو اس کا جواب دیا گیا کہ اشہر حج کی تعیین ضروری ہے۔ مگر اس طرح بھی آیت کا ماقبل سے کوئی ربط ظاہر نہیں ہوتا اس لیے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سوال یہ تھا کہ روزہ بذات خود قرب خداوندی کا ذریعہ ہے اس کے لیے ماہ رمضان کا چاند دیکھنے کی تخصیص کیا ضروری ہے چاند دیکھے بغیر کوئی سے تیس دنوں کے روزے رکھ لیے جائیں تو کیا حرج ہے تو جواب دیا گیا کہ رمضان کی تخصیص ضروری ہے۔ اور اسی لیے چاند کی کمی بیشی سے بارہ ماہ معین کیے گئے ہیں تاکہ ہر شخص آسانی سے ایک ماہ کا اختتام اور دوسرے ماہ کی ابتداء سمجھ سکے۔ 360 زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ حج کے احرام کی حالت میں اپنے گھروں میں دروازوں سے داخل نہیں ہوتے تھے بلکہ مکان کی پچھلی دیوار توڑ کر یا اسے پھاند کر گھر میں آتے تھے اور اس کو وہ بہت بڑی عبادت سمجھتے تھے اسلام کے بعد نو مسلموں نے بھی اپنی عادت قدیمہ کے مطابق ایسا ہی کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس غلط روش سے منع فرمایا اور ان پر واضح فرمادیا کہ یہ غیر معقول حرکت نیکی اور ثواب کا کام نہیں۔ ان ناسا من العرب کانوا اذا حجوا لم یدخلوا بیوتھم من ابوابھا کانوا ینقبون فی ادبارھا الخ (ابن جریر ص 105 ج 2) 361 یعنی نیکی یہ نہیں کہ تم اس قسم کی جہلانہ رسموں کی پابندی کرو بلکہ نیکی حقیقت تو تقوی ہے اس لیے تم تقویٰ اختیار کرو یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لاؤ۔ اور جن کاموں سے اس نے روکا ہے ان سے بچو۔ یہ ماقبل کے لیے ایک تمثیل تھی۔ یعنی چاند کے بارے میں سوال کرنا بالکل بےمعنی اور الٹا سا سوال ہے بلکہ اسی طرح جیسا کہ حج کے موقع پر گھروں میں پچھلی طرف سے داخل ہونا ایک الٹا کام ہے۔ 362 دنیا اور آخرت میں فلاح اور کامیابی کا راز خوف خدا ہی میں مضمر ہے خدا سے ڈر کر اس کے مقرر کیے ہوئے آئینِ حیات کے اتباع ہی سے دین ودنیا میں کامیابی اور کامرانی حاصل ہوسکتی ہے۔ يَااَيُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ سے لے کر یہاں تک تین امور انتظامیہ قصاص، وصیت، مال غیر سے اجتناب او ایک امر مصلح یعنی روزہ کا بیان تھا اب آگے جہاد کا حکم ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ سے کچھ لوگ ہر مہینے چاند کے نکلنے اور اس کے گھٹنے بڑھنے کا حال دریافت کرتے ہیں آپ فرما دیجئے وہ چاند اپنے گھٹنے بڑھنے کے اعتبار سے اوقات کی پہچان کا ذریعہ ہیں کہ ان سے مقررہ اوقات معلوم ہوتے رہتے ہیں اور اس بات میں کہ تم احرام باندھنے کے بعد اپنے گھروں میں دروازے کو چھوڑ کر ان کی پشت اور ان کے پیچھے کی جانب سے آیا کرو کوئی نیکی اور فضیلت نہیں ہے لیکن نیکی تو اس شخص کی ہے جو شخص نیکی اور تقویٰ اختیار کرے اور معصیت سے بچے اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو توقع ہے کہ تم دونوں جہان میں کامیاب ہوگے اور فلاح پائو گے۔ (تیسیر) اوپر کی آیتوں میں روزے کا ذکر تھا جس میں صرف صبح سے شام تک کھانا پینا وغیرہ حرام ہوتا ہے پھر دائماً ناجائز مال کے کھانے کی مخالفت تھی آگے حج کا بیان آنے والا ہے جس کی طرف اس آیت میں بھی اشارہ ہے اور رمضان کو رویت ہلال سے اور حج کو شوال اور ذیقعدہ اور ذی الحجہ کے چاندوں سے ظاہری مناسبت ہے اس لئے اس آیت میں ہلال کا ذکر فرمایا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ابن عساکر نے نقل کیا ہے کہ حضرت معاذ بن جبل اور ثعلبہ بن عتمہ جو دونوں انصاری ہیں انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوکر دریافت کیا یا رسول اللہ ؐ! یہ کیا بات ہے کہ چاند جس دن دکھائی دیتا ہے تو ایک دھاگے کی طرح باریک ہوتا ہے پھر بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ پورا ہوکر اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے اس کے بعد پھر گھٹنے لگتا ہے یہاں تک کہ ایسا ہی ہوجاتا ہے جیسا پہلے تھا آخر یہ چاند ایک حالت پر کیوں نہیں رہتا اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ سوالک کرنے والوں سے کہہ دیجیے کہ یہ لوگوں کے لئے اوقات کے معلوم کرنے کا ذریعہ ہیں اور فریضہ حج کے لئے بھی کیونکہ رمضان کے روزوں کی قصا تو دوسرے دنوں میں ہوسکتی ہے لیکن حج کے دن تو مقرر اور اس کا وقت معین ہے اگر وقت میں غلطی ہوجائے تو پھر دوسرے ہی سال حج کے ارکان ادا ہوسکتے ہیں اس لئے حج کا ذکر خصوصیت سے فرمایا۔ لوگوں کے لئے اوقات کا مطلب یہ ہے کہ خواہ معاملات ہوں یا عبادات جن چیزوں کا وقت مقرر ہے یا لوگ اس کا وقت مقرر کرتے ہیں مثلاً اجارہ، قرض، بیع و شرا، ثمن کی ادائیگی یا بیع کا سپرد کرنا یا روزہ اور زکوۃ عید کی نماز، عدت حمل کی مدت اور رضاعت وغیرہ ان میں بعض چیزیں وہ ہیں جن کی فوقیت اختیاری ہے بعض وہ ہیں جن کی فوقیت شارع (علیہ السلام) کی جانب سے ہوچکی ہے اور اب اس میں تغیر و تبدل کا کسی کو حق نہیں تو اس قسم کے معاملات اور عبادات کے اوقات کی شناخت ہوجاتی ہے اس چاند کی تغیر و تبدیل میں یہ مصلت ہے کیوں کہ سورج تو ایک حالت پر رہتا ہے گھٹتا بھڑتا نہیں اگرچہ اس کے طلوع و غروب میں تبدیلی ضرور ہوتی ہے اور وہ ایک نئی مشرق سے نکلتا اور نئی مغرب میں ڈوبتا ہے لیکن اس کا احساس بہت کم ہوتا ہے اور تاخیر سے ہوتا ہے اور چاند چونکہ ہر مہینے گھٹتا بڑھتا ہے اور پھر اس کی تبدیلی اور کمی بیشی بھی ایک ضابطہ کے ماتحت ہے اس لئے اس کی طرف ذہن بہت جلد متوجہ ہوجاتا ہے حالانکہ یہ ایک ایسا حساب ہے کہ اس میں کسی کو دقت اور دشواری نہیں لوگ قمری حساب سے برسوں کا حساب کرلیتے ہیں بلکہ چاند کو دیکھ کر بتا دیتے ہیں آج فلاں تاریخ ہے اور چونکہ قمری حساب نہایت سہل اور آسان ہے بلکہ یوں سمجھو کہ فطری اور طبعی حساب ہے جس کو ہر پڑھا لکھا اور بےپڑھا لکھا سمجھ سکتا ہے۔ اس لئے صاحب شریعت نے اس کو ہی اختیار فرمایا اور عبادت میں ضروری طورپر اسی کو مقرر فرمایا رہے معاملات تو اگرچہ اس میں رخصت ہے اگر شمسی حساب سے کوئی شخص وقت مقرر کرے تب بھی جائز ہے لیکن معاملات میں بھی اگر قمری حساب اختیار کیا جائے تو آسان اور بہتر یہی ہے اور چونکہ شریعت نے اپنے تمام کاموں کے لئے اسی کو اختیار کیا ہے اس لئے قمری حساب کے راجح اور بہتر ہونے میں تو کسی کو انکار ہی نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کسی مسلمان کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ راحج کو چھوڑ کر مرجوح کو اختیار کرے۔ حضرت حق تعالیٰ نے چاند کی منازل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے لتعلموا عدد السنین والحساب۔ اب زیر بحث لوگوں کے سوال کا مطلب اگر یہی تھا کہ وہ ہلال نور کی غرض اور اس کے گھٹنے بڑھنے کا مقصد دریافت کرنا چاہتے تھے تب تو جواب سوال کے مطابق ہے اور اگر ان کا منشا یہ تھا کہ وہ کوئی ریاضی اور ہئیت کا مسئلہ حل کرنا چاہتے تھے اور یہ پوچھناچاہتے تھے کہ یہ کیونکر اور کس طرح ہوتا ہے تب جواب اسلوب حکیم پر ہوگا۔ جیسا کہ عام مفسرین کا رجحان یہی ہے۔ ( واللہ اعلم) اسلوب حکیم کا مفاد یہ ہے کہ سائل کو اس کی توقع کے صاف جواب دیاجائے اور یہ غیر متوقع جواب اس کو تنبیہہ کرنے کی غرض سے دیا جائے کہ یہ جواب تیرے لئے اولیٰ اور قریب تر ہے اب یہ مطلب ہوگا کہ ان کو ان کے سوال کے جواب میں چاند کی کمی بیشی اور گھٹنے بڑھنے کی وہ حکمت بتائی گئی جو ان کے لئے مفید تھی اور اس بات پر تنبیہہ کی گئی کہ جو بات سائل کو معلوم کرنی چاہئے تھی اور جس سے آگاہ اور با خبر ہونا اس کے لئے ضروری تھا اس کو وہ بات دریافت کرنی چاہئے تھی اگر ریاضی اور ہئیت کا کوئی مسئلہ معلوم بھی ہوگیا اور اس کمی بیشی کی حکمت اور مصلحت معلوم نہیں ہوئی تو کیا فائدہ ہوگا۔ گھروں کی پشت سے آنے کا واقعہ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ایک دستور تھا کہ جب احرام باندھ کر حج کے لئے گھر سے نکل جاتے اور پھر کسی ضرورت سے قبل از حج گھر میں واپس آتے تو دروازے سے آنے کو ناجائز سمجھتے تھے بلکہ گھر کے پیچھے سے دیوار پر چڑھ کر گھر میں آتے یا پچھیت کی دیوار میں نقب لگا کر اندر آتے اس کو منع فرمایا اور دروازے سے داخل ہونے کا حکم دیا اور ان دو جملوں میں ایک بہت بڑے شرعی اصو ل کو بھی ظاہر کردیا کہ کسی امر مباح کو لازم اور اطاعت و عبادت سمجھ لینا یا کسی امر مباح کو معصیت اور حرام سمجھ لینا یہ دونوں باتیں شرعاً مذموم اور قابل ملامت اور بدعت میں داخل ہیں۔ دیکھو ! گھروں میں دروازوں سے آا یہ امر مباح تھا اس کو تو انہوں نے مصیت اور حرام سمجھ لیا تھا اور اسی طرح گھروں میں ان کے پیچھے سے داخل ہونا بھی فی حد ذاتہ مباح تھا اس کو انہوں نے طاعت اور عبادت قرار دے لیا تھا اللہ تعالیٰ نے دونوں کو رد فرمایا کہ ایک امر مباح کو طاعت اور عبادت سمجھنا بھی شرعاً خلاف ہے اور ایک امر مباح کو ناجائز اور معصیت سمجھنا بھی شرعاً قابل مذمت اور خلاف ہے اس کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیجئے بڑے کام کی بات ہے۔ آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اس لغو اور بےاصل رسومات کو چھوڑو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ہم تکو توقع دلاتے ہیں کہ تم فلاح دارین حاصل کرنے میں کامیاب ہوگے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں لوگوں نے حضرت سے پوچھا کہ کیا سبب ہے کہ چاند ایک حالت پر نہیں رہتا۔ اللہ صاحب نے جواب فرمایا کہ اس پر حال بدلتے رکھے ہیں تا مہینے کی حد ٹھہرے پھر مہینوں سے برس ٹھہرے اس پر خلق کی معاملت اور اللہ کی عبادت کو وقت مقرر ہو عبادت جو برس پر مقرر ہے ایک روزہ ہے جس کا حکم مذکور ہوا دوسرے اس کا حکم آگے شروع ہوتا ہے کفر کی غلطیں میں ایک یہ تھی کہ جب گھر سے نکل کر احرام باندھا حج کا پھر کچھ ضرورت ہوئی کہ گھر میں جائے تو دروازے سے نہ جاتے چھت پر چڑھ کر آتے اللہ تعالیٰ نے اس کو غلط کیا۔ (موضح القرآن) آگے چند جہاد کے مسائل اور حرم کعبہ کا احترام اور اشہر حرم کی حقیقت کا بیان ہے۔ زمانہ جاہلیت میں ان کفار کا ایک اور طریقہ تھا کہ اشہر حرام جو ذیقعدہ ، ذوالحجہ، محرم اور رجب کے مہینے ہیں اس میں قتال بند رہتا تھا لیکن یہ لوگ کسی مصلحت سے لڑناچاہتے تھے تو ان مہینوں کو بدل دیا کرتے تھے اور یوں کہہ دیا کرتے تھے کہ اس سال رجب محرم کے بعد آئے گا کبھی کہہ دیتے کہ اب کہ ذیقعد صفر میں آئے گا۔ عرض اسی طرح اپنے مطلب کے لئے مہینوں کو آگے پیچھے کرتے رہتے تھے پوری تفصیل تو سورة برأت میں آئے گی مگر یہاں بھی ان کا ذکر ہے ۔ ( تسہیل )