Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 190

سورة البقرة

وَ قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ وَ لَا تَعۡتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ ﴿۱۹۰﴾

Fight in the way of Allah those who fight you but do not transgress. Indeed. Allah does not like transgressors.

لڑو اللہ کی راہ میں اُن سے جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی نہ کرو ، اللہ تعالٰی زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to fight Those Who fight Muslims and killing Them wherever They are found Allah command's; وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبِّ الْمُعْتَدِينَ And fight in the way of Allah those who fight you, but transgress not the limits. Truly, Allah likes not the transgressors. Abu Jafar Ar-Razi said that Ar-Rabi bin Anas said that Abu Al-Aliyah commented on what Allah said: وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ (And fight in the way of Allah those who fight you), "This was the first Ayah about fighting that was revealed in Al-Madinah. Ever since it was revealed, Allah's Messenger used to fight only those who fought him and avoid non-combatants. Later, Surah Bara'h was revealed." Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said similarly, then he said that; this was later abrogated by the Ayah: فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ (then kill them wherever you find them), (9:5). However, this statement is not plausible, because Allah's statement: الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ (...those who fight you) applies only to fighting the enemies who are engaged in fighting Islam and its people. So the Ayah means, `Fight those who fight you', just as Allah said in another Ayah: وَقَاتِلُواْ الْمُشْرِكِينَ كَأفَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَأفَّةً (...and fight against the Mushrikin collectively as they fight against you collectively), (9:36). This is why Allah said later in the Ayah: وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ (And kill them wherever you find them, and turn them out from where they have turned you out), meaning, `Your energy should be spent on fighting them, just as their energy is spent on fighting you, and on expelling them from the areas from which they have expelled you, as a law of equality in punishment.' The Prohibition of mutilating the Dead and stealing from the captured Goods Allah said: ... وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبِّ الْمُعْتَدِينَ but transgress not the limits. Truly, Allah likes not the transgressors. This Ayah means, `Fight for the sake of Allah and do not be transgressors,' such as, by committing prohibitions. Al-Hasan Al-Basri stated that transgression (indicated by the Ayah), "includes mutilating the dead, theft (from the captured goods), killing women, children and old people who do not participate in warfare, killing priests and residents of houses of worship, burning down trees and killing animals without real benefit." This is also the opinion of Ibn Abbas, Umar bin Abdul-Aziz, Muqatil bin Hayyan and others. Muslim recorded in his Sahih that Buraydah narrated that Allah's Messenger said: اغْزُوا فِي سَبِيلِ اللهِ قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللهِ اغْزُوا وَلاَ تَغُلُّوا وَلاَ تَغْدِرُوا وَلاَ تَمْثُلُوا وَلاَ تَقْتُلُوا وَلِيدًا وَلاَ أَصْحَابَ الصَّوَامِع Fight for the sake of Allah and fight those who disbelieve in Allah. Fight, but do not steal (from the captured goods), commit treachery, mutilate (the dead), or kill a child, or those who reside in houses of worship. It is reported in the Two Sahihs that Ibn Umar said, "A woman was found dead during one of the Prophet's battles and the Prophet then forbade killing women and children." There are many other Hadiths on this subject. Shirk is worse than Killing Allah says;

حکم جہاد اور شرائط حضرت ابو العالیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مدینہ شریف میں جہاد کا پہلا حکم یہی نازل ہوا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس آیت کے حکم کی رو سے صرف ان لوگوں سے ہی لڑتے تھے جو آپ سے لڑیں جو آپ سے نہ لڑیں خود ان سے لڑائی نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ سورۃ برأت نازل ہوئی ، بلکہ عبدالرحمن بن زید بن سلام رحمۃ اللہ علیہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ ہے اور ناسخ آیت ( فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ) 9 ۔ التوبہ:5 ) ہے یعنی جہاں کہیں مشرکین کو پاؤ انہیں قتل کرو ، لیکن اس بارہ میں اختلاف ہے اس لئے کہ اس سے تو مسلمانوں کو رغبت دلانا اور انہیں آمادہ کرنا ہے کہ اپنے ایسے دشمنوں سے کیوں جہاد نہ کروں جو تمہارے اور تمہارے دین کے کھلے دشمن ہیں ، جیسے وہ تم سے لڑتے ہیں تم بھی ان سے لڑو جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَاۗفَّةً ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ ) 9 ۔ التوبہ:36 ) یعنی مل جل کر مشرکوں سے جہاد کرو جس طرح وہ تم سے سب کے سب مل کر لڑائی کرتے ہیں چنانچہ اس آیت میں بھی فرمایا انہیں قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں وہاں سے نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے مطلب یہ ہے کہ جس طرح ان کا قصد تمہارے قتل کا اور تمہیں جلا وطن کرنے کا ہے تمہارا بھی اس کے بدلے میں یہی قصد رہنا چاہئے ۔ پھر فرمایا تجاوز کرنے والے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا ، یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرو ناک کان وغیرہ نہ کاٹو ، خیانت اور چوری نہ کرو ، عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کرو ، ان بوڑھے بڑے لوگوں کو بھی نہ مارو جو نہ لڑنے کے لائق ہیں نہ لڑائی میں دخل دیتے ہیں درویشوں اور تارک دنیا لوگوں کو بھی قتل نہ کرو بلکہ بلا مصلحت جنگی نہ درخت کاٹو نہ حیوانوں کو ضائع کرو ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت عمر بن عبدالعزیز حضرت مقاتل بن حیان وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں یہی فرمایا ہے ، صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجاہدین کو فرمان دیا کرتے تھے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرو خیانت نہ کرو ، بدعہدی سے بچو ، ناک کان وگیرہ اعضاء نہ کاٹو ، بچوں کو اور زاہد لوگوں کو جو عبادت خانوں میں پڑے رہتے ہیں قتل نہ کرو ۔ مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے اللہ کا نام لے کر نکلو اللہ کی راہ میں جہاد کرو کفار سے لڑو ظلم وزیادتی نہ کرو دھوکہ بازی نہ کرو ۔ دشمن کے اعضاء بدن نہ کاٹو درویشوں کو قتل نہ کرو ، بخاری ومسلم میں ہے کہ ایک مرتبہ ایک غزوے میں ایک عورت قتل کی ہوئی پائی گئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بہت برا مانا اور عورتوں اور بچوں کے قتل کو منع فرما دیا ، مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ، تین ، پانچ ، سات ، نو ، گیارہ مثالیں دیں ایک تو ظاہر کر دی باقی چھوڑ دیں فرمایا کہ کچھ لوگ کمزور اور مسکین تھے کہ ان پر زور آور مالدار دشمن چڑھ آیا اللہ تعالیٰ نے ضعیفوں کی مدد کی اور ان طاقتوروں پر انہیں غالب کر دیا اب ان لوگوں نے ان پر ظلم وزیادتی شروع کر دی جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے ان ضعیفوں کی مدد کی اور ان طاقتوروں پر انہیں غالب کر دیا اب ان لوگوں نے ان پر ظلم وزیادتی شروع کر دی جس کے باعث اللہ تعالیٰ ان پر قیامت تک کے لئے ناراض ہو گیا ۔ یہ حدیث اسناداً صحیح ہے ، مطلب یہ ہے کہ جب یہ کمزور قوم غالب آگئی تو انہوں نے ظلم وزیادتی شروع کر دی فرمان باری تعالیٰ کا کوئی لحاظ نہ کیا اس کے باعث پروردگار عالم ان سے ناراض ہو گیا ، اس بارے میں احادیث اور آثار بکثرت ہیں جن سے صاف ظاہر ہے کہ ظلم وزیادتی اللہ کو ناپسند ہے اور ایسے لوگوں سے اللہ ناخوش رہتا ہے ، چونکہ جہاد کے احکام میں بظاہر قتل وخون ہوتا ہے اس لئے یہ بھی فرما دیا کہ ادھر اگر قتل وخون ہے تو ادھر اللہ کے ساتھ کفر وشرک ہے اور اس مالک کی راہ سے اس کی مخلوق کو روکنا ہے اور یہ فتنہ قتل سے بہت زیادہ سخت ہے ، ابو مالک فرماتے ہیں تمہاری یہ خطا کاریاں اور بدکاریاں قتل سے زیادہ زبوں تر ہیں ۔ پھر فرمان جاری ہوتا ہے کہ بیت اللہ میں ان سے لڑائی نہ کرو جیسے بخاری ومسلم میں ہے کہ یہ شہر حرمت والا ہے آسمان وزمین کی پیدائش کے زمانے سے لے کر قیامت تک باحرمت ہی ہے صرف تھوڑے سے وقت کے لئے اللہ تعالیٰ نے میرے لئے اسے حلال کر دیا تھا لیکن وہ آج اس وقت بھی حرمت والا ہے اور قیامت تک اس کا یہ احترام اور بزرگی باقی رہے گی اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کے کانٹے نہ اکھیڑے جائیں اگر کوئی شخص اس میں لڑائی کو جائز کہے اور میری جنگ کو دلیل میں لائے تو تم کہہ دینا اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تھوڑے سے وقت کے لیے اجازت دی تھی لیکن تمہیں کوئی اجازت نہیں ۔ آپ کے اس فرمان سے مراد فتح مکہ کا دن ہے جس دن آپ نے مکہ والوں سے جہاد کیا تھا اور مکہ کو فتح کیا تھا چند مشرکین بھی مارے گئے تھے ۔ گو بعض علماء کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ مکہ صلح سے فتح ہوا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صاف ارشاد فرما دیا تھا کہ جو شخص اپنا دروازہ بند کرلے وہ امن میں ہے جو مسجد میں چلا جائے امن میں ہے جو ابو سفیان کے گھر میں چلا جائے وہ بھی امن ہے ۔ پھر فرمایا کہ ہاں اگر وہ تم سے یہاں لڑائی شروع کر دیں تو تمہیں اجازت ہے کہ تم بھی یہیں ان سے لڑو تاکہ یہ ظلم دفع ہو سکے ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ والے دن اپنے اصحاب سے لڑائی کی بیعت لی جب قریشیوں نے اپنے ساتھیوں سے مل کر یورش کی تھی تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درخت تلے اپنے اصحاب سے بیعت لی ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس لڑائی کو دفع کر دیا چنانچہ اس نعمت کا بیان اس آیت میں ہے کہ وہ آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ) 48 ۔ الفتح:24 ) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر یہ کفار حرم میں لڑائی بند کر دیں اور اس سے باز آجائیں اور اسلام قبول کرلیں تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف فرما دے گا گو انہوں نے مسلمانوں کو حرم میں قتل کیا ہو باری تعالیٰ ایسے بڑے گناہ کو بھی معاف فرما دے گا ۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ ان مشرکین سے جہاد جاری رکھو تا کہ یہ شرک کا فتنہ مٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب اور بلند ہو جائے اور تمام دین پر ظاہر ہو جائے ، جیسے بخاری ومسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ایک شخص اپنی بہادری جتانے کے لئے لڑتا ہے ایک شخص حمیت وغیرت قومی سے لڑتا ہے ، ایک شخص ریاکاری اور دکھاوے کے طور پر لڑتا ہے تو فرمائیے کہ ان میں سے کون شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا وہی ہے جو صرف اس کے لئے لڑے کہ اللہ تعالیٰ کی بات بلند ہو اس کے دین کا بول بالا ہو ، بخاری ومسلم کی ایک اور حدیث میں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں ان کی جان ومال کا تحفظ میرے ذمہ ہوگا مگر اسلامی احکام اور ان کے باطنی حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے ۔ پھر فرمایا کہ اگر یہ کفار شرک و کفر سے اور تمہیں قتل کرنے سے باز آجائیں تو تم بھی ان سے رک جاؤ اس کے بعد جو قتال کرے گا وہ ظالم ہوگا اور ظالموں کو ظلم کا بدلہ دینا ضروری ہے یہی معنی ہیں ۔ حضرت مجاہد کے اس قول کے کہ جو لڑیں ان سے ہی لڑا جائے ، یا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ان حرکات سے رک جائیں تو وہ ظلم یعنی شرک سے ہٹ گئے پھر کوئی وجہ نہیں کہ ان سے جنگ وجدال ہو ، یہاں لفظ عدوان جو کہ زیاتی کے معنی میں ہے وہ زیادتی کے مقابلہ میں زیادتی کے بدلے کے لئے ہے حقیقتا وہ زیادتی نہیں جیسے فرمایا آیت ( فمن اعتدی علیکم فاعتدو علیہ بمثل ما اعتدی علیکم ) یعنی تم پر جو زیادتی کرے تم بھی اس پر اس جیسی زیادتی کر لو اور جگہ ہے آیت ( جَزَاۗءُ سَـيِّئَةٍۢ بِمِثْلِهَا ۙ وَتَرْهَقُھُمْ ذِلَّةٌ ) 10 ۔ یونس:27 ) یعنی برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جگہ فرمان ہے آیت ( وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ) 16 ۔ النحل:126 ) یعنی اگر تم سزا اور عذاب کرو تو اسی مثل سزا کرو جو تم کئے گئے ہو ، پاس ان تینوں جگہوں میں زیادتی برائی اور سزا بدلے کے طور پر کہا گیا ہے ورنہ فی الواقع وہ زیادتی برائی اور سزا وعذاب نہیں ، حضرت عکرمہ اور حضرت قتادہ کا فرمان ہے اصلی ظالم وہی ہے جو لا الہ الا اللہ کو تسلیم کرنے سے انکار کرے ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گھیر کر کہا کہ لوگ تو مر کٹ رہے ہیں آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی ہیں کیوں اس لڑائی میں شامل نہیں ہوتے؟آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا سنو اللہ تعالیٰ نے مسلمان بھائی کا خون حرام کر دیا ہے ، انہوں نے کہا کیا جناب باری کا یہ فرمان نہیں کہ ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے آپ نے جواب دیا کہ ہم تو لڑتے رہے یہاں تک کہ فتنہ دب گیا اور اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین غالب آگیا لیکن اب تم چاہتے ہو کہ تم لڑو تاکہ فتنہ پیدا ہو اور دوسرے مذاہب ابھر آئیں ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ کسی نے آپ سے پوچھا کہ اے ابو عبدالرحمن آپ نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا کیوں چھوڑ رکھا ہے اور یہ کیا اختیار کر رکھا ہے کہ حج پر حج کر رہے ہو ہر دوسرے سال حج کو جایا کرتے ہو حالانکہ جہاد کے فضائل آپ سے مخفی نہیں آپ نے فرمایا بھتیجے سنو! اسلام کی بنائیں پانچ ہیں ۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ، پانچوں وقتوں کی نماز ادا کرنا ، رمضان کے روزے رکھنا ، زکوٰۃ دینا ، بیت اللہ شریف کا حج کرنا ، اس نے کہا کیا قرآن پاک کا یہ حکم آپ نے نہیں سنا کہ ایمان والوں کی دو جماعتیں اگر آپس میں جھگڑیں تو تم ان میں صلح کرا دو اگر پھر بھی ایک گروہ دوسرے پر بغاوت کرے تو باغی گروہ سے لڑو یہاں تک کہ وہ پھر سے اللہ کا فرمانبردار بن جائے ، اور جگہ ارشاد ہے ان سے لڑو تاوقتیکہ فتنہ مٹ جائے آپ نے فرمایا ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اس کی تعمیل کر لی جبکہ اسلام کمزور تھا اور مسلمان تھوڑے تھے جو اسلام قبول کرتا تھا اس پر فتنہ آ پڑتا تھا یا تو قتل کر دیا جاتا یا سخت عذاب میں پھنس جاتا یہاں تک کہ یہ پاک دین پھیل گیا اور اس کے حلقہ بگوش بہ کثرت ہو گئے اور فتنہ برباد ہو گیا اس نے کہا اچھا تو پھر فرمائیے کہ حضرت علی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے فرمایا عثمان رضی اللہ عنہ کو تو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا گو تم اس معافی سے برا مناؤ اور علی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور آپ کے داماد تھے اور یہ دیکھو ان کا مکان یہ رہا جو تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

190۔ 1 اس آیت میں پہلی مرتبہ ان لوگوں سے لڑنے کی اجازت دی گئی جو مسلمانوں سے آمادہ قتل رکھتے تھے۔ تاہم زیادتی سے منع فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرو جن کا جنگ میں حصہ نہ ہو اسی طرح درخت وغیرہ جلا دینا یا جانوروں کو بغیر مصلحت کے مار ڈالنا بھی زیادتی ہے جس سے بچا جائے (ابن کثیر) ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥٠] مکہ میں مسلمانوں کو مخالفین کے ظلم و ستم پر صبر کرنے کی ہی ہدایت کی جاتی رہی۔ مدینہ آ کر جب مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی ریاست قائم ہوگئی تو مسلمانوں کو لڑائی کی اجازت مل گئی اور اس سلسلہ میں پہلی آیت جو نازل ہوئی وہ سورة حج کی یہ آیت تھی۔ ( اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُۨ 39؀ۙ ) 22 ۔ الحج :39) && جن لوگوں سے لڑائی کی جاتی رہی اب انہیں (بھی لڑنے کی) اجازت دی جاتی ہے۔ کیونکہ ان پر ظلم ہوتا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ && مگر ساتھ ہی یہ تاکید کی گئی کہ صرف انہیں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کریں۔ کیونکہ جنگ سے تمہاری کوئی مادی غرض وابستہ نہیں اور اس آیت سے مدافعانہ جنگ کی اجازت ملی۔ [٢٥١] یعنی نہ تو ان لوگوں سے جنگ کرو جو دین حق کی راہ میں مزاحم نہیں ہوتے اور نہ لڑائی میں جاہلی طریقے استعمال کرو، یعنی عورتوں، بوڑھوں، بچوں اور زخمیوں پر دست درازی نہ کرو۔ دشمن کی لاشوں کا مثلہ نہ کرو اور خواہ مخواہ کھیتوں اور مویشیوں کو برباد نہ کرو وغیرہ وغیرہ جن کی احادیث میں ممانعت آئی ہے۔ یعنی قوت وہاں استعمال کرو جہاں ضرورت ہو اور اتنی ہی کرو جتنی ضرورت ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مسلمان عمرہ کے لیے آئے تو کفار لڑائی پر آمادہ ہوگئے۔ حج کے بیان کے ساتھ لڑائی کے حکم کی مناسبت یہ ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت میں صرف ان کفار سے لڑنے کا حکم ہے جو خود لڑنے میں پہل کریں ” وَلَا تَعْتَدُوْا ۭ“ (زیادتی نہ کرو) کا معنی انھوں نے یہ کیا کہ تم لڑائی میں پہل نہ کرو، پھر ان مفسرین نے اسے ان آیات کے ساتھ منسوخ قرار دیا جن میں تمام کفار سے لڑنے کا حکم ہے، وہ پہل کریں یا نہ کریں، مثلاً : (وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً ) [ التوبۃ : ٣٦ ] ” اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو۔ “ اور فرمایا : (قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ ) [ التوبۃ : ١٣٣ ]” ان لوگوں سے لڑو جو کافروں میں سے تمہارے قریب ہیں۔ “ اور فرمایا : (قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَلَا بالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ) [ التوبۃ : ٢٩ ] ” لڑو ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخر پر۔ “ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ آیت نہ دوسری آیات کے خلاف ہے، نہ منسوخ ہے اور نہ ” وَلَا تَعْتَدُوْا “ کا معنی یہ ہے کہ لڑنے میں پہل نہ کرو، بلکہ اس میں مسلمانوں کو ابھارا گیا ہے کہ جب وہ لڑنے سے دریغ نہیں کرتے تو تم بھی ان سے لڑو اور جن جن جگہوں سے انھوں نے تمہیں نکالا ہے تم بھی انھیں وہاں سے نکالو۔ (ابن کثیر) اور ” وَلَا تَعْتَدُوْا “ کا معنی ابن عباس (رض) اور عمر بن عبد العزیز (رح) نے یہ بیان فرمایا کہ بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرو، نہ بوڑھوں کو اور نہ اس کو جو صلح کی پیش کش کرتا ہے اور لڑنے سے ہاتھ روک لیتا ہے، اگر تم نے ایسا کیا تو زیادتی کرو گے۔ (ابن کثیر) بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی شخص کو کسی لشکر کا امیر مقرر فرماتے تو اسے اور باقی مومنوں کو نصیحت فرماتے : ” اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اللہ کے راستے میں جہاد کرو، جو اللہ کا منکر ہے اس سے لڑو۔ جنگ کرو، خیانت نہ کرو، نہ عہد شکنی کرو، نہ مثلہ کرو، نہ بچوں کو قتل کرو اور نہ درویشوں، راہبوں کو۔ “ [ مسلم، الجہاد، باب تأمیر الإمام الأمراء علی البعوث۔۔ : ١٧٣١ ] امام طبری نے فرمایا : ” یہی معنی درست ہے، کیونکہ نسخ کا دعویٰ کرنے والوں کے پاس کوئی دلیل نہیں اور دلیل کے بغیر دعویٰ تو ہر شخص کرسکتا ہے۔ “ ظاہر ہے کہ اس پیشکش کے بعد کہ ” مسلمان ہوجاؤ یا جزیہ دو یا لڑنے کے لیے تیار ہوجاؤ “ اگر کوئی شخص نہیں لڑتا، بلکہ مسلمان ہوجاتا ہے، یا جزیہ دینے پر آمادہ ہوجاتا ہے تو اس سے لڑنا زیادتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو زیادتی کرنے والے پسند نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Jihad: To fight in the way of Allah That Jihad and Qital or fighting against disbelievers was prohibited prior to the emigration to Madinah is a fact the entire Muslim community agrees upon. All verses revealed during that time advised Muslims to be patient against pains inflicted on them by disbelievers, even to ignore and forgive when they can. It was after the emigration to Madinah that the first command to fight against them came through this verse (as said by al-Rabi& ibn Anas and others). Another narration from Sayyidna Abu Bakr al-Siddiq (رض) says that the first verse relating to this subject is: أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا Leave is& given to those who are fought against because they were wronged|", but according to a majority of the blessed Companions and their successors, the first verse commanding to fight the disbelievers is this very verse from Surah al-Baqarah while the verse which has been identified as the first verse on this subject by Sayyidna Abu Bakr al-Siddiq (رض) ، that too being among the very initial verses revealed, could be called the first. The command in this verse is that Muslims should fight only those disbelievers who come to fight against them. It means that there are other people too who do not take part in fighting, such as, the women, the children, the very old, the priests and monks and others devoting themselves to quiet religious pursuits, and the physically handi¬capped, and those casual labourers who work for disbelievers and do not go to fight along with them; it is not permissible to kill such people in a Jihad. The reason is that the command in the verse is restricted to fighting those who come to fight Muslims. The kind of people men¬tioned above are not all fighters. That is why Muslim Jurists رحمۃ اللہ علیہم have also ruled that should a woman, an old man or, religious person take part in actual fighting along with disbelievers or be helping them in any manner in their fight against the Muslims, then, killing them is permissible because they come under the purview of الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ those who fight you&. (Mazhari, Qurtubi and Jassas) The battle orders of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) given to the mujahidin of Islam at the time of Jihad carry a good explanation of this injunction. In a hadith from al-Bukhari and Muslim, as narrated by the blessed Companion ` Abdullah ibn ` Umar (رض) ، it is said: نھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عن قتل النساء والصبیان The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has prohibited the killing of women and children.& The following instructions from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) given to the Companions going on Jihad have been narrated in a hadith from Sayyidna Anas (رض) which appears in Abu Dawud: &Go for Jihad in the name of Allah adhering to the community of the Messenger of Allah. Do not kill anyone old and weak, any young child or any woman.& (Mazhari) When Sayyidna Abu Bakr al-Siddiq (رض) sent Yazid ibn Abi Sufyan (رض) to Syria, he gave him the same instructions. Also added there is the prohibition of killing the religiously-devoted, the monks and priests, and the labourers employed by disbelievers, especially when they do not take part in fighting (Qurtubi).

حکم نہم جہاد و قتال : اس پر ساری امت کا اتفاق ہے کہ ہجرت مدینہ سے پہلے کفار کے ساتھ جہاد و قتال ممنوع تھا اس وقت کی تمام آیات قرآنی میں مسلمانوں کو کفار کی ایذاؤں پر صبر اور عفو و درگذر کی ہی تلقین تھی ہجرت مدینہ کے بعد سب سے پہلے اس آیت میں قتال کفار کا حکم آیا (قالہ الربیع بن انس وغیرہ) اور صدیق اکبر سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ قتال کفار کے متعلق پہلی آیت یہ ہے، اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا مگر اکثر حضرات صحابہ کرام (رض) اجمعین وتابعین کے نزدیک پہلی آیت سورة بقرہ کی آیت مذکورہ ہی ہے اور صدیق اکبر نے جس کو پہلی فرمایا ہے وہ بھی ابتدائی آیتوں میں ہونے کے سبب پہلی کہی جاسکتی ہے، اس آیت میں حکم یہ ہے کہ مسلمان صرف ان کافروں سے قتال کریں جو ان کے مقابلہ پر قتال کے لئے آویں اس سے مراد یہ ہے کہ عورتیں، بچے، بہت بوڑھے اور اپنے مذہبی شغل میں دنیا سے یکسو ہو کر لگے ہوئے عبادت گذار راہب، پادری وغیرہ اور ایسے ہی اپاہج ومعذور لوگ یا وہ لوگ جو کافروں کے یہاں محنت مزدوری کا کام کرتے ہیں ان کے ساتھ جنگ میں شریک نہیں ہوتے ایسے لوگوں کو جہاد میں قتل کرنا جائز نہیں کیونکہ حکم آیت کا صرف ان لوگوں سے قتال کرنے کا ہے جو مسلمانوں کے مقابلہ میں قتال کریں اور مذکورہ قسم کے سب افراد قتال کرنے والے نہیں اسی لئے فقہاء رحمہم اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر کوئی عورت یا بوڑھا یا مذہبی آدمی وغیرہ کفار کی طرف سے قتال میں شریک ہوں یا مسلمانوں کے بالمقابل جنگ میں ان کی مدد کسی طرح سے کررہے ہوں ان کا قتل جائز ہے کیونکہ وہ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ میں داخل ہیں (مظہری قرطبی، جصاص) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایات جو مجاہدین اسلام کو بوقت جہاد دی جاتی تھیں ان میں اس حکم کی واضح تشریحات مذکور ہیں صحیح بخاری ومسلم میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمر ایک حدیث میں ہے، نھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عن قتل النسآء والصبیان، یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا ہے۔ ابوداؤد میں بروایت انس جہاد پر جانے والے صحابہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ ہدایات منقول ہیں تم اللہ کے نام پر اور رسول اللہ کی ملت پر جہاد کے لئے جاؤ کسی بوڑھے ضعیف کو اور چھوٹے بچے کو یا کسی عورت کو قتل نہ کرو (مظہری) حضرت صدیق اکبر نے جب یزید بن ابی سفیان کو ملک شام بھیجا تو ان کو یہی ہدایت دی اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ عبادت گذار اور راہبوں کو اور کافروں کی مزدوری کرنے والوں کو بھی قتل نہ کریں جبکہ وہ قتال میں حصہ نہ لیں (قرطبی) آیت کے آخر میں وَلَا تَعْتَدُوْا کا بھی جمہور مفسرین کے نزدیک یہی مطلب ہے کہ قتال میں حد سے تجاوز نہ کرو کہ عورتوں بچوں وغیرہ کو قتل کرنے لگو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۝ ١٩٠ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ عد ( اعداد) والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة/ 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه . ( ع د د ) العدد الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

(آیت 187 کی بقہ تفسیر) یہ حدیث اس مسئلے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ جو شخص مسجد کے اندر ہو اور وہ اپنا سر باہر نکال کر کسی سے دھلوائے تو وہ شخص مسجد کے اندر سر دھونے والا خیال کیا جائے گا ۔ اس مسئلے کا عملی طور پر اثر اس صورت میں پڑے گا جبکہ کوئی شخص یہ قسم اٹھالے کہ وہ فلاں شخص کا سر مسجد میں نہیں دھوئے گا ، پھر اگر وہ اس کا مسجد سے باہر نکال کر دھو لے جبکہ دھونے والا مسجد سے باہر ہو تو ایسی صورت میں سر دھونے والا حانث ہوجائے گا ۔ دراصل اس قسیمہ فقرے میں مغسول یعنی جس کا سردھویا گیا اس کی جگہ کا اعتبار کیا گیا ہے۔ سردھونے والے کی جگہ اور مقام کا اعتبار نہیں کیا گیا ۔ اس لیے دھونے کا عمل اس وقت مکمل ہوگا جب مغسول کا وجود ہوگا ۔ اسی بناء پر فقہاء کا قول ہے کہ اگر کسی نے قسم کھالی کہ میں فلاں شحص کو مسجد میں نہیں ماروں گا تو اس قسمیہ فقرے میں مضروب کے وجود کا مسجد میں پایا جانا ضروری ہے۔ ضارب کے وجود کا نہیں۔ یہ حدیث حائضہ کے ہاتھ اور اس کے جو ٹھے کی طہارت پر دلالت کرتی ہے۔ اس کا حیض اس کے جسمانی طہارت کے لیے مانع نہیں ہوسکتا۔ یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول کی طرح ہے جس میں آپ نے فرمایا لیس حیضک فی یدک تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ واللہ اعلم ! آیت 187 کی تفسیر ختم ہوئی) ۔۔۔۔ تفسیر آیت 188 حاکم کے حکم سے حلال ہونے اور نہ ہونے والے امور ارشاد باری ہے ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل وتدلوا بھا الی الحکام لتا کلوا فریقا ً من اموال الناس بالباطل اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کا مال ناروا طریقے سے کھائو اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے بیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے کمال کا کوئی حصہ قصدا ً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے ۔ اس سے مراد ۔۔۔۔ واللہ اعلم ۔۔۔ یہ ہے کہ تم میں سے بع بعض کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھائے جیسا کہ ارشاد باری ہے ولا تقتلوا انفسکم آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کرو ولا تلمزوا انفسکم سے مرادآپس میں بعض بعض کو یا جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول ہے اموالکم واعراضکم علیکم حرام تمہارا مال اور تمہاری عزت و آبرو تم پر حرام ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ تم میں سے ایک دوسرے کا مال اور ایک دوسرے کی عزت و آبرو تمہارے لیے حرمت کی چیزیں ہیں ۔ ناجائز طریقے سے مال کھانے کی دو صورتیں ہیں اول یہ کہ ظلم و جبر کے ذریعے یا چوری ، خیانت اور غضب کے ذریعے یا اسی قسم کے کسی اور ہتھکنڈے کے ذریعے کسی کا مال ہتھیا لینا ۔ دوم یہ کہ ممنوعہ طریقوں مثلاً قمار بازی ، گانے بجانے یا کھیل تماشوں یا نوحہ خوانی کی اجرت کے طور پر یا شراب سور اور آزاد شخص کی قیمت کے طور پر حاصل کیا جائے یا ایسی چیز کی ملکیت حاصل کرلی جائے جس کا جواز نہ ہو اگرچہ مالک اس چیز کو برض اورغبت اس کی ملکیت میں دے دے۔ آیت میں ان تمام صورتوں میں حاصل شدہ مال کے اکل پر پابندی لگا دی گئی ہے اور اسے ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ ارشاد باری وتدلوا بھا الی الحکام کا تعلق ان صورتوں میں سے ہے جنہیں حاکم کے سامنے پیش کیا جائے اور پھر حاکم ان کے متعلق ظاہری طور پر فیصلہ کر دے تا کہ یہ حلال ہوجائیں جبکہ وہ فریق جس کے حق میں فیصلہ ہوا ہو اسے معلوم ہو کہ وہ اس مال کا حق دار نہیں ہے اور فیصلہ غلط ہوا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں واضح فرما دیا کہ حاکم کے فیصلے سے ایسے مال کو اپنے قبضے میں کرلینا مباح نہیں ہوگا ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے کھانے سے ڈانٹ کر روک دیا ۔ پھر ہمیں یہ بتادیا کہ اگر حاکم کے فیصلے کے نتیجے میں اس قسم کا مال کسی کے قبضے میں آ جائے تو وہ بھی ناجائز اور باطل مال کے زمرے میں آئے گا اور جس کا لینا ممنوع ہوگا ۔ ایک دوسری آیت میں ارشاد فرمایا یایھا الذین امنوا لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ ً عن تراض منکم اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کا مال نا جائزطریقے سے نہ کھائو ، البتہ باہمی رضا مندی سے لین دین ہونا چاہیے۔ ما قبل کی صورتوں سے اس صورت کو مستثنیٰ قراردیا جو باہمی رضا مندی سے تجارت یعنی لین دین کی شکل میں ہو ۔ اس صورت کو باطل قرار نہیں دیا ۔ یہ جائز تجارت کی صورت ہے ممنوع تجارت کی نہیں ، جن آیتوں کی ہم نے تلاوت کی ہے وہ اس مسئلے کی اصل ہیں کہ اگر حاکم کسی شخص کے حق میں کسی ایسے مال کا فیصلہ دے دے جو حقیقت میں اس کا نہ ہو تو حاکم کے اس فیصلے سے اس شخص کو وہ مال اپنے قبضے میں لے لینا درست نہیں ہوگا ۔ اس سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے احادیث مروی ہیں اور یہ چیز سنت سے ثابت ہے۔ ہمیں عبد الباقی بن قانع نے ، انہیں بشر بن موسیٰ نے ، انہیں حمیدی نے ، انہیں عبد العزیز بن ابی حازم نے حضرت اسامہ بن زید (رض) سے ، انہوں نے حضر ت عبد اللہ بن رافع (رض) سے اور انہوں نے حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت کی ۔ آپ فرماتی ہیں کہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھی ۔ دو شخص میراث اور ختم شدہ چیزوں کی ملکیت کا جھگڑا لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے۔ آپ نے دونوں سے فرمایا انما اقضی بینکما برأی فیما لم ینتزل علی فیہ ۔ فمن قضیت لہ لحجۃ اراھا فافتطع بھا قطعۃ ظلما فانما یقتطع قطعہ من النار یاتی بھا اسطاما ً یوم القیمۃ فی عنقہ میں تم دونوں کے درمیان اپنی رائے سے ان باتوں کے متعلق فیصلہ کر دوں گا جن کے بارے میں مجھ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی ، اب میں جس شخص کی دلیل سے متاثر ہو کر اس کے حق میں فیصلہ کروں گا اور ازروئے ظلم اس کا ایک ٹکڑا اس کے حوالے کردوں گا تو در حقیقت وہ جہنم کی آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ کرلے لے گا جسے وہ قیامت کے دن اپنے گلے میں آگ ہلانے کی کر ینی کی شکل میں ڈال کر آئے گا ۔ یہ سن کر دونوں رونے لگے اور ہر ایک نے یہ کہا کہ اے اللہ کے رسول ! میرا حق اسے مل جائے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر فرمایا لا ولکن اذھبا ، فتوخیا للحق ثم استھما ولحلل کل واحد منکما صاحبہ نہیں بات اس طرح نہیں بنے گی ، تم جائو اور حق کی تلاش کرو اور پھر قرعہ اندازی کے ذریعے اسے آپس میں تقسیم کرلو اور تم دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کو بری الذمہ قرار دے دے۔ اس حدیث کا مفہوم قرآن مجید کے نص کے مفہوم کے مطابق ہے کہ کسی شخص کے حق میں کسی مال کی ملکیت کے حاکم کا فیصلہ اس پر اس کے قبضہ کو مباح نہیں کرتا اگر حقیقت میں وہ اس کا مال نہ ہو۔ یہ حدیث کئی دوسرے معانی پر بھی مشتمل ہے ۔ ایک یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسے امور میں اپنی رائے اور اجتہاد سے فیصلے کرتے تھے ۔ جن کے متعلق وحی نازل نہ ہوتی ۔ اس لیے کہ اس حدیث میں آپ نے یہ فرمایا اقصی بینکما برای فیما لم ینزل علی فیہ میں تمہارے درمیان اس معاملے میں جس کے متعلق وحی نازل نہیں ہوئی اپنی رائے سے فیصلہ کروں گا ۔ دوسری بات یہ کہ حاکم فیصلہ کرنے میں صرف ظاہری حالت پر سوچ بچار کا مکلف ہوتا ہے۔ پوشیدہ باتوں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کا مکلف نہیں ہوتا جنکا علم اللہ کو ہوتا ہے۔ اس حدیث میں اس پر بھی دلالت موجود ہے کہ جن امور میں اجتہاد جائز ہے ، ان میں ہر مجتہد مصیب یعنی درست رائے والا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہ صرف اسی حکم یا رائے کا مکلف ہوتا ہے جس پر وہ اپنے اجتہاد کے نتیجے میں پہنچا ہو۔ آپ ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں شخصوں کو یہ بتادیا کہ ظاہری طور پر آپ کا فیصلہ درست ہے اگرچہ حقیقی طور پر معاملہ اس کے برعکس ہی کیوں نہ ہو۔ ساتھ ہی ساتھ آپ نے اس شخص کو جس کے حق میں فیصلہ ہوا تھا یہ اجازت نہیں دی کہ وہ مال پر قبضہ کرلے اس حدیث میں اس پر بھی دلالت ہے کہ حاکم کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کسی انسان کو کوئی مال دینے کا حکم دے دے اگرچہ اس انسان کے لیے اس مال کا لے لینا جائز نہیں ہوگا جبکہ اسے یہ علم ہو کہ وہ اس کا حق دار نہیں ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اقرار کے بغیر بھی فریقین میں صلح ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ان دونوں میں سے کسی نے دوسرے کے حق کا اقرار نہیں کیا تھا۔ صرف اپنے ساتھی کے حق میں مال سے دست برداری کا اظہار کیا تھا۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح کرنے اور مال کو آپس میں تقسیم کرلینے کا حکم دیا تھا۔ حدیث میں لفظ استہام آیا ہے جس کے معنی قرعہ اندازی کے ذریعے آپس میں تقسیم کرلینے کے ہیں ۔ حدیث کی اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ اگر زمین وغیرہ دو شخصوں کے قبضے میں ہو اور ان میں سے ایک اس کا تقسیم کا مطالبہ کرے تو تقسیم واجب ہوجاتی ہے نیز حاکم اس کی تقسیم کا صادر کرے گا ۔ حدیث سے یہ بات تھی معلوم ہوئی کہ مجاہیل یعنی نامعلوم اشیاء کے حق سے بری الذمہ قرار دینا جائز ہے ۔ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسی مجہول اور نامعلوم مواریث کے متعلق خبر دی گئی تھی جس کا نشان بھی باقی نہیں تھا لیکن اس کے باوجود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ ایک دوسرے کو بری الذمہ قرار دیں۔ اگر حدیث میں ذکر نہ بھی ہوتا کہ یہ ایسی مجہول اور نامعلوم مواریث ہیں جنکا نشان مٹ چکا ہے پھر بھی آپ کا قول ولیحلل کل واحد منکما صاحبہ تم دونوں میں سے ہر شخص دوسرے کو بری الذمہ قراردے دے مجاہیل کے حق سے بری الذمہ قرار دینے کے جواز کا تقاضا کرتا ہے ۔ ا س لیے کہ لفظ میں عموم ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ آپ نے ان مواریث میں معلوم اور نامعلوم کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ۔ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حاکم کے حکم کے بغیر بھی دونوں شریک تقسیم پر رضا مند ہوسکتے ہیں۔ ایک اور دلالت بھی موجود ہے کہ اگر کسی شخص کا کسی پر کوئی حق ہو اور وہ اپنا حق اسے ہبہ کر دے یعنی اسے نجش دے لیکن دوسرا شخص اسے قبول نہ کرے تو یہ ہبہ درست نہیں ہوگا اور اس حق کی ملکیت ہبہ کرنے والے کو لوٹ آئے گی ۔ اس لیے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کے کیے ہوئے ہبہ کو رد کردیا تھا اور اپنا حق دوسرے کو دے دیا تھا اور چونکہ اس بارے میں اعیان موجود اشیاء اور دیون قرض کی رقموں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا اس لیے ضروری ہے کہ برأت ذمہ اور ہبہ کے رد ہوجانے کی صورت میں ان دونوں کو کالعدم قراردیئے جانے میں اعیان اور دیون سب کا حکم یکساں ہو۔ حدیث میں اس پر دلالت ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ” میرے مال میں سے فلاں کے لیے ہزار درہم ہیں “ تو اس کا یہ قول ہبہ ہوگا اپنے اوپر کسی کے حق کا اقرار نہیں ہوگا ، اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں میں سے کسی ایک کے اس قول کو کہ ” جو میرا حق ہے وہ اس کا ہے “ اقرار قرار نہیں دیا کیونکہ اگر اسے اقرار قرار دیا جاتا تو یہ اس کے ذمہ آ جاتا اور پھر اس کے بعد انہیں صلح کرنے اور ایک دوسرے کو بری الذمہ ٹھہرانے نیز تقسیم کی ضرورت پیش نہ آتی ۔ ہمارے اصحاب کا اس شخص کے متعلق یہی قول ہے جو یہ کہے کہ ” میرے مال میں سے فلاں کے لیے ہزار درہم ہیں “ حدیث میں اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ حق کی موافقت کے لیے تحری جستجو اور سوچ بچار اور اجتہاد جائز ہے اگرچہ وہ یقینی نہ بھی ہو کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا وتوخیا للحق حق کی جستجو اور تلاش کرو یعنی تم دونوں جستجو اور کوشش کرو۔ یہ دلالت بھی موجود ہے کہ حاکم کو اگر مصلحت نظر آئے تومقدمہ کے فریقین کو صلح کے لیے واپس کرسکتا ہے ، اور یہ کہ فریقین کو وہ فیصلہ حاصل کرنے پر مجبور نہ کرے۔ اسی بنا پر حضرت عمر (رض) کا قول ہے مقدمہ کے فریقین کو واپس کرو تا کہ یہ صلح کرالیں۔ ہمیں محمد بن بکر نے ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں محمد بن کثیر نے ، انہیں سفیان نے ہشام بن عروہ سے ، انہوں نے اپنے والد عروہ سے ، انہوں نے زینب بنت ام سلمہ (رض) سے اور انہوں نے حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت کی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انما انا بشر وانکم تخصمون الی و لعل بعضکم ان یکون الحسن بجتہ من صاحبہ ناقضی لہ علی نحومما اسمع منہ فمن قضیت لہ من حق اخیہ بشی فلا یا خذمنہ شیئا ً فانما اقطع لہ قطعہ من النار میں بھی ایک انسان ہوں تم میرے سامنے اپنے جھگڑے پیش کرتے ہو ۔ ہوسکتا ہے کہ تم میں سے بعض اپنی دلیل زیادہ بہتر طریقے سے پیش کرے اور میں اس کی بات سننے کے بعد اس کے حق میں اسی کے مطابق فیصلہ دے دوں ، سنو ، میں جس شخص کو اس کے بھائی کا حق دے دوں تو وہ ہرگز اسے نہ لے ایسی صورت میں میں نے اسے جہنم کی آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ کردیا ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں ابربیع بن نافع نے، انہیں ابن المبارک نے حضرت اسامہ بن زید (رض) سے، انہوں نے حضرت ام سلمہ (رض) کے آزاد کردہ غلام عبد اللہ بن رافع سے اور انہوں نے حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت کی ہے کہ دو شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وراثت کا جھگڑا لے کر آئے ان دونوں کے پاس اپنے دعوئوں کے سوا کوئی گواہی اور دلیل نہیں تھی۔ اس کے بعد انہوں نے سابقہ حدیث کے الفاظ بیان کئے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں سن کر وہ دونوں رونے لگے اور دونوں میں سے ہر ایک نے کہا کہ ” میرا حق اسے مل جائے “ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ما اذ فعلتما ما فعلتما فاقتسما وتوخیا الحق ثم استھما ثم تحالااچھا جو کچھ تم دونوں نے کرلیا سو کرلیا ، اب اسے آپس میں تقسیم کرلو ، حق کی جستجو کرو پھر قرعہ اندازی کے ذریعے آپس میں تقسیم کرنے کے بعد ایک دوسرے کو بری الذمہ قرار دے دو ۔ یہ دو نوں حدیثیں وہی مفہوم بیان کر رہی ہیں جو ان سے پہلے حدیث کا ہے یعنی اگر حاکم کسی چیز کے متعلق کسی شخص کے حق میں فیصلہ دے بھی دے تو اس شخص کو اس چیز کے لینے کی ممانعت ہے جبکہ اسے یہ معلوم ہو کہ اس پر میرا حق نہیں ہے۔ ان دونوں حدیثوں کے کچھ اور فوائد ہیں ۔ حدیث زینب بنت ام سلمہ (رض) میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول ہے ( اقضی لہ علی نحومما اسمع ) میں اس کی بات سن کر اسی کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ دے دوں ۔ آپ کا یہ قول اقرار کرنے والے کے اس اقرار کے جواز پر دلالت کرتا ہے جو اپنی ذات پر کرے ۔ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں بتادیا تھا کہ آپ ان سے سنی ہوئی بات کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ اسی طرح یہ حدیث اس کا تقاضا کرتی ہے کہ حاکم گواہوں سے جو گواہی سنے اس کے مقتضی کی روشنی میں فیصلہ کرے اور اپنے فیصلے اور اپنے حکم کے نفاذ میں گواہیوں کے ظاہری الفاظ کا اعتبار کرے۔ حدیث عبد اللہ بن رافع میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے اقتسما د توخیا الحق ثم استھما اس استہام سے مراد وہ قرعہ اندازی ہے جو مال و ترکہ وغیرہ کی تقسیم کے وقت کی جاتی ہے اس لیے اس حدیث سے تقسیم کے وقت قرعہ اندازی کے جواز پر بھی دلالت ہوگئی۔ اس باب کی ابتداء میں مذکورہ آیت کی رو سے اگر حاکم اپنے غلط فیصلے کے ذریعے کسی کو کوئی مال یا حق دلوا دے تو آیت میں اس شخص کو اس مال پر حق کے لینے کی ممانعت ہے جبکہ اسے خود معلوم ہو کہ یہ اس کا حق یا مال نہیں ہے۔ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے پر اپنے حق کا دعویٰ کرے اور اس کی تائید میں ثبوت وغیرہ پیش کر کے اپنے حق میں فیصلہ کرا لے تو اسے یہ حق لینا جائز نہیں ہوگا اور چیز اس کے لیے پہلے ممنوع تھی اب حاکم کے فیصلے کی وجہ سے وہ اس کے لیے مباح قرار نہیں پائے گی ۔ البتہ فقہاء کا اس میں اختلاف ہے کہ اگر حاکم گواہوں کی گواہی کی بنیاد پر کسی عقد مثلا ً عقد نکاح ، عقد بیع ، عقد ہبہ وغیرہ یا فسخ عقد کا فیصلہ دے دے اور جس کے حق میں فیصلہ ہوا ہو اسے معلوم ہو کہ گواہ جھوٹے ہیں تو ایسی صور ت میں اس کے فیصلے کا کیا بنے گا ؟ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ ثبوت کی بنیاد پر اگر حاکم کسی عقد یا فسخ عقد کا فیصلہ دے دے بشرطیکہ اس عقد کی ابتداء درست ہو ، تو یہ فیصلہ نا فذ العمل ہوگا اور اس کی حیثیت اس عقد کی طرح ہوگی جسے فریقین نے باہمی رضا مندی سے طے کر کے ناقد کرلیا ہو ، خواہ اس مقدمے میں حاکم کے سامنے پیش ہونے والے گواہ جھوٹے ہی کیوں نہ ہوں ۔ امام ابو یوسف ، امام محمد اور امام شافعی کا قول ہے کہ حاکم کا حکم ظاہر میں بھی اسی طرح ہے جس طرح کہ باطن میں ۔ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ اگر حاکم میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ دے دے تو بیوی کے لیے نکاح کرنا درست نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کا شوہر اس سے قربت کرسکے گا ۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے قول کی طرح حضرت علی (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) اور شعبی سے بھی اقوال منقول ہیں ۔ امام ابو یوسف نے عمرو بن المقدام کے واسطے سے المقدام سے روایت کی ہے کہ قبیلے کے ایک شخص نے اپنے سے برتر حسب والی عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا ۔ عورت نے نکاح کرنے سے انکار کردیا اس شخص نے یہ دعویٰ کیا کہ اس عورت سے اس کا نکاح ہوچکا ہے اور حضرت علی (رض) کے پاس مقدمہ پیش کر کے دو گوہ بھی لے آیا۔ عورت کہنے لگی کہ میں نے اس سے نکاح نہیں کیا ہے۔ حضرت علی (رض) نے جواب میں فرمایا کہ ان دو گواہوں نے تمہارا نکاح کرا دیا ہے۔ اس لیے آپ نے اس نکاح کی درستی کا فیصلے دے دیا ۔ امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ مجھے شعبہ بن الحجاج نے زید سے ایک واقع کی روایت تحریر کی کہ دو شخصوں نے ایک شخص کے خلاف جھوٹی گواہی دی کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاع دے دی ہے۔ قاضی نے دونوں میں علیحدگی کرا دی اور اس کے بعد ایک گواہ نے اس سے نکاح کرلیا ۔ شعبی نے کہا کہ یہ صورت جائز ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) نے ایک غلام یہ کہہ کر فروخت کیا کہ اس میں کسی قسم کی کوئی بیماری نہیں ہے ۔ خریدار یہ مقدمہ حضرت عثمان (رض) کے پاس لے گیا ۔ حضرت عثمان (رض) نے حضرت ابن عمر (رض) سے فرمایا کہ کیا تم قسم کھا سکتے ہو کہ تم نے یہ اس حالت میں فروخت نہیں کیا تھا کہ اس میں کوئی بیماری تھی جو تم نے خریدار سے چھپائی تھی ؟ حضرت ابن عمر (رض) نے قسم کھانے سے انکار کردیا ۔ حضرت عثمان (رض) نے یہ بیع منسوخ کردی ، حضرت ابن عمر (رض) نے یہ غلام ایک اور شخص کے ہاتھ زیادہ قیمت پر فروخت کردیا ۔ اس واقعے میں حضرت ابن عمر (رض) نے غلام کی فروخت کو جائز قرار دیا حالانکہ انہیں علم تھا کہ اس فیصلے کا باطن یعنی اصل حقیقت اس کے ظاہر کے خلاف ہے اور اگر حضرت عثمان (رض) کو بھی اس کے متعلق اسی طرح علم ہوتا جس طرح حضرت ابن عمر (رض) کو تھا تو آپ کبھی اس بیع کو نہ کرتے۔ اس سے یہ ثابت ہوگئی ۔ حضرت ابن عمر (رض) کا مسلک یہ تھا کہ اگر حاکم کسی عقد کو فسخ کر دے تو یہ واجب ہوجاتا ہے کہ چیز اصل مالک یعنی فروخت کنندہ کی ملکیت میں واپس آ جائے۔ اگرچہ حقیقت یعنی باطن کے لحاظ سے معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے قول کی صحت پر حضرت ابن عباس (رض) کی روایت دلالت کرتی ہے جو حضرت ہلال بن امیہ اور ان کی بیوی کے درمیان تنازعہ سے تعلق رکھتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کے درمیان لعان کرا کے فرمایا تھا کہ اگر اس کی بیوں کے ہاں بچہ فلاں فلاں شکل و صورت اور چہرے مہرے کا پیدا ہوگا تو وہ ہلال بن امیہ کا ہوگا اور اگر اس کی شکل و صورت کسی اور ڈھب کی ہوگی تو وہ شریک بن سمحاء کے نفطے سے ہوگا جس کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھنے کا اس عورت پر الزام لگایا گیا تھا۔ جب بچہ ناپسندیدہ صفت لے کر پیدا ہوا یعنی شکل و صورت سے وہ شریک کا بیٹا نظر آتا تھا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر لعان کے سلسلے میں قسمیں نہ کھائی گئی ہوتیں تو پھر میں اس عورت سے نمٹ لیتا ۔ آپ نے لعان کی بنا پر ان دونوں کے درمیان علیحدگی کو باطل نہیں کیا حالانکہ آپ کو علم ہوگیا تھا کہ عورت جھوٹی ہے اور مرد سچا ہے۔ یہ حدیث اس صورت کی بنیاد ہے کہ عقود اور فسخ عقود میں حاکم کا فیصلہ نافذ العمل ہوگا اگرچہ ان کی ابتداء بھی حاکم کے حکم کے ذریعے کیوں نہ ہوئی ہو۔ ایک اور پہلو سے بھی امام ابوحنیفہ کے قول کی صحت پر دلالت ہو رہی ہے وہ یہ کہ حاکم گواہوں کی گواہی کی بنیاد پر کسی عقد یا فسخ عقد کے اپنے فیصلے کو نافذ کرنے کا پابند ہے۔ بشرطیکہ گواہ ظاہری طور پر عادل ہوں یعنی بےراہ روی اور فسق و فجور کی وجہ سے بد نام نہ ہوں ۔ اگر حاکم گواہوں کی گواہی کے بعد اپنا فیصلہ نافذ کرنے میں توقف کرے گا تو وہ گناہ گار ہوگا اور اللہ کے حکم کا تارک قرار پائے گا ۔ اس لیے کہ وہ صرف ظاہرکا مکلف ہے اور علم باطن کا جو اللہ کے ہاں پوشیدہ ہے، مکلف نہیں ہے۔ اس لیے جب کسی عقد کے حق میں اس کا فیصلہ نافذ ہوجائے گا تو اس کی حیثیت اس عقد کی طرح ہوگی جس کی فریقین نے اپنے درمیان خود ابتداء کی ہوگی ۔ اسی طرح جب وہ کسی عقد کے فسخ ہونے کا فیصلہ صادر کرے گا تو اس کی حیثیت اس فسخ کی طرح ہوگی جو فریقین نے از خود اپنے درمیان کرلی ہوگی جب فریقین از خود کوی عقد یا فسخ عقد کرلیں تو ان کا نفاذ اللہ کے حکم پر دونوں کی رضا مندی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یہی حیثیت حاکم کے حکم کی بھی ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حاکم اگر غلاموں کی گواہی کی بنا پر کوئی فیصلہ دے گا تو گواہوں کی غلامی کا علم ہوجانے پر اس کا فیصلہ نافذ العمل نہیں ہوگا حالانکہ وہ اپنا فیصلہ نافذ کرانے کا پابند ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ غلاموں کی گواہی کی صورت میں حاکم کا فصلہ اس لئے نافذ العمل نہیں ہوتا کہ غلامی ایک ایسی صفت ہے جس کی صحت کا ثبوت عدالتی فیصلے کے ذریعے ہوتا ہے یہی حاحل شرک اور حد قذف کا بھی ہے۔ اس بنا پر غلامی کی وجہ سے حاکم کے حکم کا فسخ ہونا درست ہوگیا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ غلامی کے متعلق ثبوت مہیا کرنا اور عدالت میں مقدمہ لے جانا درست ہوتا ہے۔ اسی لئے ان اوصاف کے وجود کی بنا پر جن کا اثبات عدالتی فیصلے کی بنیاد پر درست ہوتا ہے۔ یہ جائز ہے کہ ان اوصاف کے مالک اشخاص کی گواہی پر حاکم کا حکم نافذ نہ ہو۔ لیکن فسق اور گواہ جھوٹے وہنے کی بنا پر گواہی کا ناقص ہوجانا تو یہ ایسے اوصاف نہیں ہیں جن کا اثبات عدالتی فیصلے کے ذریعے درست ہوتا ہے۔ نیز ان کے متعلق عدالتی چارہ جوئی بھی قابل قبول نہیں ہوتی اس لئے ان اوصاف کی بنا پر حاکم کے فیصلے کا نفاذ فسخ نہیں ہوتا۔ عقد اور فسخ عقد کے بارے میں عدالتی فیصلے کے نفاذ کے متعلق ہماری جو رائے ہے اس کی بنا پر ملک مطلق کے متعلق عدالتی فیصلے میں بھی وہی رائے ہونی چاہیے جبکہ اسے لے لینا ہم مباح نہیں سمجھتے اور ملک مطلق کے بارے میں عدالتی فیصلے کی بنا پر اسے لے لینا حلال نہیں سمجھتے تو یہ اعتراض ہم پر لازم نہیں آئے گا اس لئے کہ اگر وہ ملکیت کا فیصلہ کرے گا تو پھر گواہوں کی گواہی میں ملکیت کی وجہ بیان کرنا بھی ضروری ہوگا۔ اب جبکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ملکیت کی وجہ بیان کئے بغیر بھی گواہوں کی گواہی قابل قبول ہوگی۔ تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ حاکم جس بات کا فیصلہ کرے گا وہ تسلیم یعنی حوالگی اور سپرداری ہے اور حوالگی کا فیصلہ ملکیت کی منتقلی کا سبب نہیں بن سکتا اسی بن اپر وہ چیز مالک کی ملکیت میں باقی رہے گی۔ قول باری (لتا کلوا فریقاً من اموال الناس بالاثم وانتم تعلمون) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ حکم اس شخص کے متعلق ہے جسے یہ علم ہو کہ جو چیز حاکم کے فیصلے کے نتیجے میں اسے مل رہی ہے اس پر اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ لیکن جسے اس کا علم ن ہہو تو اس کے لئے حاکم کے فیصلے کے نتیجے میں مال لے لینا جائز ہوگا جبکہ اس کا ثبوت مل جائے۔ یہ چیز اس بات پر دلالت کتری ہے کہ اگر گواہی وغیرہ کی صورت بینہ قائم ہوجائے یعنی ثبوت مل جائے کہ فلاں کے مرحوم باپ کے اس فلاں شخص کے ذمے ایک ہزار درہم ہیں یا یہ کہ فلاں گھر ترکے میں چھوڑ گیا ہے تو وارث کے لئے دعویٰ دائر کرنا جائز ہوگا اور حاکم کے فیصلے کے نتیجے میں اسے لے لینا جائز ہوگا۔ اگرچہ اسے اس کی صحت کے متعلق کوئی علم نہ ہو۔ اس لئے کہ اسے اس بات کا علم نہیں ہے کہ وہ باطل طریقے سے ایک چیز لے رہا اور اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی مذمت کی ہے جو یہ جانتا ہو کہ وہ باطل طریقے سے ایک چیز لے رہا ہے کیونکہ قول باری ہے (لتاکلوا فریقاً من اموال الناس بالباطل وانتم تعلمون) عقود اور فسخ عقود میں حاکم کے حکم کے نفاذ پر ایک یہ چیز بھی دلالت کرتی ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر حاکم کسی ایسے مسئلے میں جس کے متعلق فقہاء کی آراء مختلف ہوں کسی ایک فقیہ کی رائے کے مطابق فیصلہ کر دے گا تو اس کا فیصلہ نافذ العمل ہوجائے گا اور اسے رد کرنے کے لئے اجتہاد کی ہر گنجائش ختم ہوجائے گی۔ نیز جس فریق کے حق میں فیصلہ ہوا ہے اسے اس مال کو لے لینے کی اجازت ہوگی اور جس فریق کے خلاف فیصلہ ہوا ہے اسے اس مال کو لے لینے کی اجازت ہوگی اور جس فرق کے خلاف فیصلہ ہوا ہے اسے اس چیز کی گنجائش نہیں ہوگی کہ وہ دوسرے فریق کو ایسا کرنے سے روک دے اگرچہ دونوں فریق کا مسلک اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ مثلاً پڑوس کی بنا پر حق شفعہ یا ولیکے بغیر نکاح کا جواز وغیرہ مسائل جن میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ۔۔۔۔ تفسیر آیت 189 ۔ قو ل باری ہے (یسئلونک عن الاھلۃ قلھی موافیت للناس والحج، آپ سے چاند کے گھٹنے بڑھنے کے بارے میں پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجیے کہ یہ لوگوں کے لئے تاریخوں کی تعیین اور حج کی علامتیں ہیں) پہلی تاریخ اور اس سے قریب کی تاریخوں کے چاند کو ہلال کہنے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ کچھ عرصے تک مخفی رہنے کے بعد اس وقت اس کا ظہور ہوتا ہے۔ اسی سے ابلال بالحج کا محاورہ ہے جس کے معنی اظہار تلبیہ کے ہیں اسی طرح استہلال الصبی، ہے جس کا مطلب آواز یا حرکت کے ذریعے بچے کی زندگی کے آثار کا ظہور ہے۔ بعض لوگوں کا یہ قول ہے کہ ’ اہلال ‘ کا مطلب آواز بلند کرنا ہے اور ’ اھلال الھلال ‘ اسی سے بنا ہے کیونکہ جب چاند نظر آ جاتا ہے تو دیکھنے والوں کی آواز بلند ہوتی ہے لیکن پہلی بات زیادہ واضح اور ظاہر ہے۔ آپ دیکھتے نہیں کہ عرب کہتے ہیں ” تھلل وجھہ “ (اس کا چہرہ دمک اٹھا) یہ فقرہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کہ اس شخص کے چہرے پر خوشی اور مسرت کے آثار ہویدا ہوتے ہیں۔ اس محاورے میں ’ بلند آواز ‘ کا کوئی مفہوم موجود نہیں ہے۔ تابط شراً کا ایک شعر ہے۔ واذا نظرت الی اسوۃ وجھہ بوقت کسبرق العارض المتھلل جب تم اس کے چہرے کی لکیروں پر نظر ڈالو گے تو تمہیں وہ اس طرح چمکتی ہوئی نظر آئیں گی جس طرح پر مسرت رخسار یا بجلیوں والے بادل کی چمک ہوتی ہے۔ یہاں المتہلل کے معنی کھلے ہوئے اور روشن کے ہیں۔ اہل لغت کا اس وقت کے بارے میں اختلاف ہے جو ہلال کہلاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ مہینے کی پہلی اور دوسری رات کا چاند ہلال ہوتا ہے۔ بعض کا قول ہے کہ پہلی تین راتوں کا چاند ہلال کہلاتا ہے اس کے بعد قمر کہلاتا ہے۔ اصمعی کا کہنا ہے کہ چاند جب تک ایک باریک لکیر کے ذریعے گول نظر نہ آئے اس وقت تک ہلال ہوتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ چاند کی روشنی جب تک رات کی تاریکی پر غالب نہ آ جائے اس وقت تک ہلال ہوتا ہے۔ اس کے بعد قمر کہلاتا ہے۔ چاند کی یہ صورت ساتویں رات میں ہوتی ہے۔ زجاج کا قول ہے کہ اکثر لوگ پہلی دو راتوں کے چاند کو ہلال کہتے ہیں۔ آیت میں چاند کے متعلق لوگوں کے سوال کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کے ذریعے چاند کے گھٹنے بڑھنے کی حکمت دریافت کی گئی تھی، اللہ تعالیٰ نے انہیں جواب دیا کہ اس کے گھٹنے بڑھنے کی صورتیں وہ پیمانے ہیں جن کی ضرورت لوگوں کو اپنے روزوں اور حج کی تعیین نیز قرضوں کی ادائیگی کے اوقات اور اسی طرح کے دوسرے امور کے سلسلے میں پیش آتی ہے گویا ان کا تعلق تمام لوگوں کے عام منافع سے ہے۔ ان کے ذریعے لوگ مہینوں اور سالوں کی پہچان رکھتے ہیں اور ان میں ان کے لئے لاتعداد دیگر منافع اور مصالح پوشیدہ ہیں۔ یہ تمام چیزیں اللہ کی ذات کی معرفت کے علاوہ ہیں۔ آیت میں اس بات کی دلالت موجود ہے کہ حج کے لئے پورے سال میں کسی بھی وقت احرام باندھا جاسکتا ہے اس لئے کہ تمام سال کے ہلالوں کے متعلق لفظ کے عموم کے ذریعے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ہلال حج کی تاریخوں کی تعیین کے لئے ہیں۔ اور ظاہر ہے ان سے مراد افعال حج نہیں ہیں اس لئے ان سے احرام مراد لینا ضروری ہوگیا۔ قول باری (الحج اشھر معلومات، حج کے معلوم مہینے ہیں) ہمارے قول کی نفی نہیں کرتا۔ اس لئے کہ اس قول باری میں ایک پوشیدہ لفظ موجود ہے جس سے یہ فقرہ کسی طرح خلای نہیں رکھا جاسکتا، اس کی دلیل یہ ہے کہ لفظ حج کا اطلاق، اشہر، یعنی مہینوں پر کرنا محال ہے۔ اس لئے کہ حج نام ہے حاجی کے فعل کا نہ کہ مہینوں کا۔ مہینے تو مردر اوقات کا نام ہے اور مردر اوقات اللہ کا فعل ہے نہ کہ حاجی کا جب کہ حج حاجی کا فعل ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ فقرے میں ایک پوشیدہ لفظ موجود ہے جس سے فقرے کو الگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پھر یہ پوشیدہ لفظ، فعل الحج ہوگا، یا احرام بالحج ہوگا۔ اب کوئی شخص دلیل کے بغیر ان میں سے کوئی ایک معنی لے نہیں سکتا۔ جب لفظ میں یہ احتمال موجود ہے تو قول باری (قل ھی مواقیت للناس والحج) کو اس کے ساتھ خاص کرنا جائز نہیں ہوگا اس لئے کہ احتمال کے ذریعے عموم کی تخصیص جائز نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر اس سے مراد حج کا احرام ہے تو اس سے دیگر مہینوں میں احرام کی صحت کی نفی نہیں ہوتی، اس سے تو صرف ان مہینوں میں احرام کا اثبات ہو رہا ہے ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اس آیت سے ان مہینوں میں احرام جائز ہے اور ایک دوسری آیت سے دیگر مہینوں میں احرام کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ اس لئے کہ ان دونوں آیتوں میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس کے ذریعے دوسری آیت کی تخصیص ہوجائے۔ ظاہر لفظ جس بات کا متقاضی ہے وہ یہ ہے کہ اس سے مراد حج کے افعال ہیں نہ کہ حج کا احرام۔ البتہ اس میں ایک حرف ظرف (فی) پوشیدہ ہے۔ اس وقت معنی یہ ہوں گے کہ ” حج معلوم مہینوں میں ہوتا ہے۔ “ اور سا کے ذریعے افعال حج کو ان ہی مہینوں میں خاص کردیا گیا ہے۔ دیگر مہینوں میں افعال حج نہیں ہوسکتے۔ ہمارے اصحاب کا اس شخص کے متعلق یہی قول ہے جس نے اشہر حج سے پہلے حج کا احرام باندھ لیا ہو اور پھر طواف اور سعی سے بھی فارغ ہوگیا ہو۔ اس کی یہ سعی اس کے لئے کافی نہیں ہوگی اور اس کا اعادہ اس پر لازم ہوگا اس لئے کہ حج کے افعال اشہر حج سے پہلے نہیں کئے جاسکتے۔ اس بنا پر قول باری (الحج اشھر معلومات) کے معنی یہ ہوں گے کہ حج کے افعال حج کے معلوم مہینوں میں ہوتے ہیں اور قول باری (یسئلونک عن الاھلۃ قلھی مراقیت للناس والحج) میں حج کے احرام کے لئے عموم ہے نہ کہ افعال حج کے لئے۔ اسی طرح یہ درست نہیں ہے کہ قول باری (ھی مراقیت للنسا والحج) سے وہ ہلال مراد ہوں جو حج کے مہینوں کے ساتھ خاص ہیں جس طرح یہ بھی درست نہیں کہ آیت میں مذکور اھلہ ، جو لوگوں کے لئے اوقات کی تعیین، ان کے قرضوں کی مدت کی تحدید اور ان کے روزہ رکھنے اور روزہ چھوڑنے کے لئے علامات میں، صرف اشہر حج کے ساتھ مخصوص ہوں اور دوسرے مہینوں سے ان کا تعلق نہ ہو۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ لفظ اھلہ، لوگوں کے لئے تاریخوں کی تعیین کا مفہوم ادا کر رہا ہے اور یہ مفہوم تمام اھلہ، کے لئے عام ہے اس بنا پر حج کے سلسلے میں بھی اس کا یہی حکم ہونا چاہیے۔ اس لئے کہ لوگوں کے لئے تاریخوں کی تعیین یعنی مواقیت کے لئے جن اھلہ کا ذکر ہوا ہے بعینہ حج کے لئے بھی ان ہی اھلہ کا ذکر ہوا ہے کیونکہ ارشاد باری ہے (قل ھی مواقیت للناس والحج) اس بنا پر اگر ہم آیت کو افعال حج پر محمول کریں گے اور قول باری (الحج اشھر معلومات) میں مذکور معنی پر اس کے مفہوم کو محدود کردیں گے تو اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوگا کہ آیت (قل ھی مراقیت للناس والحج) کا فائدہ ساقط ہوجائے گا، اس کے حکم کا انعدام ہوگا اور بغیر کسی دلیل کے اس کے لفظ کی تخصیص ہوجائے گی اور اس کا مفہوم قول باری (الحج اشھر معلومات) کے مفہوم میں محدود ہوجائے گا۔ لیکن قاعدے کی رو سے جب ہر لفظ کو حکم اور فائدے کے لحاظ سے اس کا پورا پورا ح قدینا واجب ہے تو یہ ضرو ریہو گیا کہ آیت میں مذکور اھلہ کو سال کے تمام ہلالوں پر محمول کیا جائے اور انہیں حج کے احرام کے لئے مواقیت شمار کیا جائے۔ ہم انشاء اللہ اس مسئلے پر اس کے مقام میں پہنچ کر مزید روشنی ڈالیں گے۔ قول باری (قل ھی مواقیت للناس) سے اس فقہی مسئلے پر روشنی پڑتی ہے کہ اگر کسی عورت پر ایک مرد کی طرف سے دو عدتیں واجب ہوجائیں تو اس کے لئے ایک عدت گذار دینا دونوں کی طرف سے کافی ہوجائے گا اور وہ حیض اور مہینوں کے حساب سے نئے سرے سے دوسری عدت شروع نہیں کرے گی۔ پہلی مدت کی عدت ہی کافی ہوگی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جب تمام اہلہ کو سب لوگوں کے لئے وقت کی تعیین کا ذریعہ قرار دیا تو اس نے ان میں کسی عدت کو وقت کے کسی ایک حصے کے ساتھ مخصوص نہیں کیا اور عدت کی مدت کا گذر جانا ان دونوں میں سے ہر عدت کے لئے وقت ہے کیونکہ ارشاد باری ہے (فما لکم علیھن من عدۃ تعتدونھا ، تمہارے لئے ان عورتوں پر کوئی عدت نہیں جسے تم شمار کرنے لگو۔ ) آیت میں عدت کو شوہر کا حق قرار دیا۔ پھر جب عدت مرور اوقات کا نام ہے اور اللہ تعالیٰ نے اھلہ کو تمام لوگوں کے لئے وقت قرار دیا ہے تو یہ ضروری ہوگیا کہ دونوں عدتوں کے لئے ایک ہی مدت کے گذرنے کو کافی سمجھا جائے۔ ذرا قول باری (قل ھی مواقیت للناس) پر غور کیجیے اس کے خطاب کے مفہوم سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے، اھلہ تمام لوگوں کے اجارہ (مکان یا دکان وغیرہ کرایہ پر دینا) کی مدتوں اور ان کے تمام قرضوں وغیرہ کی ادائیگی کے اوقات کی علامتیں ہیں اور ان میں سے کسی شخص کو بھی اس کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات کے لئے بعض اہلہ کو خاص کرے اور دوسرے اہلہ کو نظر انداز کر دے۔ ٹھیک اسی طرح عدت کے متعلق آیت کا مفہوم دو مردوں کے لئے ایک مدت کے گذر جانے کا تقاضا کرتا ہے۔ اسی طرح قول باری (قل ھی مواقیت للناس) اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ اگر عدت کی ابتدا چاند کے حساب سے ہو اور مدت کا حساب مہینوں کے لحاظ سے ہو تو اس مدت کی تکمیل بھی چاند کے تین مہینوں کے حساب سے واجب ہوگی اگر عدت کی مدت تین ماہ ہو یا عدت وفات کی صورت میں چاند کے حساب سے چار مہینے پورے کرنے ہوں گے۔ دنوں کی تعداد کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ آیت کی اس پر بھی دلالت ہوتی ہے روزے کے مہینے کی ابتدا اور انتہا دونوں کا اعتبار چاند کے ذریعے ہوگا اور تعداد کی ضرورت رویت ہلال نہ ہونے کی صورت میں پیش آئے گی۔ آیت کی دلالت اس فقہی مسئل یپر بھی ہو رہی ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی سے مہینے کی ابتدا میں ایلاء کیا تو طلاق واقع ہونے کے لئے چار ماہ کی مدت کا حساب چاند کے ذریعے ہوگا۔ تیس دنوں کا اعتبار نہیں ہوگا۔ یہ مسئلہ اجارے کی تمام صورتوں، قسموں اور قرضوں کی مدت کی تحدید وغیرہ کے لئے ہے کہ جب ان کی ابتداء ہلال یعنی چاند کی پہلی تاریخ سے ہوگی تو پھر ان کا حساب چاند کے مہینوں کے لحاظ سے ہوگا اور تیس دنوں کی گنتی کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ اس چیز کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے فرمان (صوموالرویتہ وافطروالردیتہ فان غم علیکم فعدواثلاثین) میں حکم دیا ہے کہ رویت ہلال نہ ہونے کی صورت میں تیس کی گنتی پوری کرنے کی طرف رجوع کیا جائے۔ قول باری ہے (ولیس البریات تاتوا البیوت من ظھورھا یہ نیکی نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں میں پچھواڑے سے آئو۔ ) اس کی تفسیر میں جو کہا گیا ہے۔ اس کی روایت ہمیں عبداللہ بن اسحاق مروزی نے ، انہیں الحسن بن ربیع جرجانی نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے زہری سے کی ہے۔ زہری کہتے ہیں کہ انصار میں سے کچھ لوگ ایسے تھے کہ جب عمر کا تلبیہ کہتے تو اپنے اور آسمان کے درمیان حائل نہ ہونے دیت یاور اسے گناہ کی بات سمجھتے پھر کبھی ایسا ہوتا کہ کوئی شخص عمرے کا تلبیہ کہتے ہوئے اپنے گھر سے نکلتا۔ اتفاقاً اسے کوئی ضرورت پیش آ جاتی تو واپس ہو کر دروازے سے گھر میں داخل نہ ہوتا تاکہ کمرے کی چھت اس کے اور آسمان کے درمیان حائل نہ ہوجائے۔ اس لئے وہ گھر کے پچھواڑے سے دیوار پھاڑ کر اندر داخل ہوتا اور کمرے کے دروازے پر کھڑا ہو کر اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے الہ خانہ کو ہدایات دیتا اور واپس ہوجاتا۔ ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیبیہ کے مقام پر عمرے کا احرام باندھ کر تلبیہ کہا پھر اپنے حجرے میں داخل ہوگئے اور آپ کے پیچھے پیچھے انصار قبیلہ بنی سلمہ کا ایک شخص بھی کمرے میں داخل ہوگیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا کہ میں احمس ہوں۔ یعنی دین کے معاملے میں بڑا دلیر اور جو شیلا ہوں۔ زہری کہتے ہیں کہ جو لوگ اپنے آپ کو پرجوش دیندار کہلاتے تھے وہ تلبیہ کے بعد چھت کے نیچے جانے کی پروا نہیں کرتے تھے۔ یہ سن کر اس انصاری نے بھی کہا کہ میں بھی احمس ہوں یعنی میں بھی آپ کے دین پر ہوں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ولیس البربان تاتوا البیوت من ظھورھا) حضرت ابن عباس ، حضرت براء بن عازب، قتادہ اور عطاء بن ابی رباح نے روایت کی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ایک گروہ ایسا تھا جو احرام باندھ کر گھر کی پچھلی دیوار میں بڑا سا سوراخ کر کے اس کے ذریعے آنا جانا کرتا۔ ان لوگوں کو اس قسم کی دینداری سے منع کردیا گیا۔ اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ایک مثال ہے جو اللہ نے بیان کی ہے کہ نیکی کو اس کے درست طریقے سے سر انجام دو ، درست طریقہ ہی ہے جس کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ تاہم اسی میں کوئی امتناع نہیں کہ آیت میں یہ تمام باتیں اللہ کی مراد ہوں۔ اس طرح اس میں یہ بیان بھی ہے کہ گھر کے پچھواڑے سے گھر میں آنا تقرب الٰہی کا ذریعہ نہیں، نہ ہی یہ اللہ کی شریعت کا جز ہے اور نہ ہی اس کی ترغیب دی گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ مثال بھی بن سکتی ہے جو اللہ نے لوگوں کے سامنے بیان کی ہے کہ تمام امور سای ڈھنگ سے سرانجام دینے چاہئیں جس کا اللہ نے حکم دیا اور جس کی ترغیب دی ہے۔ اس میں یہ بھی بیان ہے کہ جو بات اللہ کی شریعت کا جز نہیں اور نہ ہی اللہ نے اس کی ترغیب دی ہے وہ نہ تو تقرب الٰہی کا ذریعہ بن سکتی ہے اور نہ ہی دینداری میں شمار ہوسکتی ہے کہ کوئی تقرب حاصل کرنے والا اسے قربت یعنی عبادت سمجھ بیٹھے یا اس کے متعلق اس کا عقیدہ یہ ہوجائے کہ یہ دین ہے۔ سنت میں اس کی نظیروہ حدیث ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے جس میں آپ نے دن بھر کی صحت یعنی چپ کے روزے، سے منع فرمایا ہے جو رات تک ممتد ہو۔ اسی طرح آپ نے ایک شخص کو دھوپ میں کھڑا دیکھا۔ استفسار کرنے پر پتہ چلا کہ اس نے دھوپ میں کھڑے ہونے کی نذر مانی ہے۔ آپ نے اسے سائے میں چلے جانے کا حکم دیا۔ اسی طرح آپ نے صوم و صال سے منع فرمایا۔ اس لئے کہ رات کو تو روزہ نہیں ہوتا۔ اس لئے آپ نے یہ عقیدہ رکھنے سے روک دیا کہ رات کے وقت کا روزہ اور کھانے پینے سے پرہیز بھی کوئی قربت یعنی عبادت ہے۔ یہ تمام صورتیں اس اصول کی بنیاد ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی ایسی چیز کی نذر مان لے جو قربت نہ ہو تو نذر کی بنا پر وہ چیز اس پر لازم نہیں آئے گی اور اسے اپنے اوپر واجب کرلینے سے یہ قربت نہیں بنے گی۔ اسی طرح اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ جس چیز کی اصلیت کی بنا وجوب پر نہ ہو تو وہ چیز نذر کی وجہ سے واجب نہیں ہوتی خواہ وہ قربت ہی کیوں نہ ہو۔ مثلاً مریض کی عیادت، کھانے کی دعوت میں شرکت ، مسجد کی طرف پیدل جانا اور مسجد میں دیر تک بیٹھے رہنا وغیرہ۔ واللہ اعلم جہاد کی فرضیت ارشاد باری ہے (وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا ان اللہ لایحب المعتدین) اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ امت میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ہجرت سے پہلے قتال یعنی جنگ کی ممانعت تھی۔ ارشاد باری ہے (ادفع بالتیھی احسن فا ذا الذی بین کو بینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم وما یلقھا الا الذین صبروا وما یلقھا الا ذو حظ عظیم) آپ نیکی سے بدی کو ٹال دیا کیجیے تو پھر یہ ہوگا کہ جس شخص میں اور آپ میں عداوت ہے وہ ایسا ہوجائے گا جیسا کوئی دلی دوست ہوتا ہے اور یہ بات انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کرتے رہتے ہیں اور اسی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑا صاحب نصیب ہوتا ہے۔ ) اسی طرح قول باری ہے (فان تولوا فانما علیک البلغ وعلینا الحساب) اگر یہ منہ موڑیں تو تمہارے ذمہ صرف ہمارا پیغام پہنچا دینا ہے اور ان سے حساب کتاب لینا ہمارے ذمہ ہے) اسی طرح ارشاد باری ہے (واذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلاماً ) اور جب جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں تم کو سلام) عمرو بن دینار نے عکرمہ کے واسطے سے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور ان کے چند دوستوں کا مال و متاع مکہ میں تھا۔ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہم جب تک مشرک تھے ہمارا دبدبدہ تھا جب ہم مسلمان ہوگئے تو ہم پر ذلت اور پستی طاری ہوگئی اور ہم کمزور ہوگئے۔ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (امرت بالعفو، فلاتقا تلوا القوم، مجھے درگذر کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس لئے تم ان سے جنگ نہ کرو) پھر جب اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ چلے جانے کا حکم دے دیا تو مسلمان کو جنگ کرنے کا حکم ملا لیکن اس وقت ان لوگوں نے اپنے ہاتھ روک لئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (الم ترا لی الذین قیل لھو کفوا ایدیکم و اقیموا الصلوۃ و اتوا الزکوۃ فلما کتب علیھم القتال اذا فریق منھم یخشون الناس ) کیا تم ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھتے جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکواۃ ادا کرو۔ پھر جب ان پر قتال فرض کردیا گیا تو ان میں سے ایک گروہ لوگوں سے ڈرنے لگا۔ ) ہمیں جعفر بن محمد واسطی نے روایت کی، انہیں ابو الفضل جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبد نے ، انہیں عبداللہ بن صالح نے علی بن ابی طلحہ سے انہوں نے حضرت ابن عباس سے اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات (لست علیھم بمصیطر، آپ ان پر مسلط تو نہیں ہیں) اور (وما انت علیھم بجبار، آپ ان پر جبر کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے۔ ) نیز (فاعف عنھم واصفح، انہیں معاف کردیجیے اور ان سے در گذر کیجیے) نیز (قل للذین امنوا یغفروا للذین لایرجون ایام اللہ جو لوگ ایمان لے آئے ہیں آپ ان سے کہہ دیجیے ان لوگوں سے درگذر کریں جو اللہ کے معاملات کا یقین نہیں رکھتے ) کی تفسیر میں بیان کیا کہ ان تمام آیات کو قول باری (اقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم تم مشرکین کو جہاں کہیں بھی پائو قتل کر دو ) نے منسوخ کردیا۔ اسی طرح یہ آیات قول باری (قاتلوا الذین لایومنون باللہ ولاب الیوم الاخر ولا یحرمون ماحرم اللہ ور سولہ ولا یدینون دین الحق من الذین اوتوا الکتاب حتی یعطوا الجزیۃ عن یدوھم صاغرون، اہل کتاب میں سے ان سے لڑو جو نہ تو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ روز آخرت پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے اور نہ سچے دین کو قبول کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ رعیت ہو کر اور اپنی پستی کا احساس کر کے جزیہ ادا کریں۔ کفار سے قتال کرنے کا حکم لے کر کون سی آیت پہلے نازل ہوئی اس کے متعلق سلف میں اختلاف رائے ہے۔ ربیع بن انس وغیرہ سے مروی ہے کہ (وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی آیت ہے۔ ایک دوسرے گروہ سے جس میں حضرت ابوبکر صدیق، زہری اور سعید بن جبیر شامل ہیں یہ مروی ہے کہ قتال کے متعلق پہلی آیت (اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا، اب لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے انہیں جن سے لڑائی کی جاتی ہے اس لئے کہ ان پر بہت ظلم ہوچکا) یہاں یہ گنجائش ہے کہ (وقاتلوا فی سبیل اللہ) پہلی آیت ہو جس میں ان لوگوں سے لڑنے کی اجازت دی گئی تھی جو مسلمانوں سے لڑتے تھے ، اور دوسری آیت میں جنگ کا اذن عام ہو یعنی جو لوگ مسلمانوں سے جنگ کرتے تھے اور جو نہیں کرتے تھے سب کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اجازت دی گئی تھی۔ ۔۔۔۔ تفسیر آیت 190 قول باری (وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم) کے معنی میں اختلاف منقول ہوا ہے۔ ربیع بن انس کا قول ہے کہ یہ پہلی آیت ہے جو مدینہ منورہ میں قتال کے بارے میں نازل ہوئی۔ اس کے نزول کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف ان مشرکین سے جنگ کرتے جو آپ کے مقابلے پر آتے اور جو جنگ نہ کرتے ان سے اپنے ہاتھ روکے رکھتے یہاں تک کہ وہ آیت نازل ہوئی جس میں تمام مخالفین اسلام سے جنگ کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں درج بالا آیت کی ربیع بن انس کے نزدیک وہی حیثیت ہے جو اس آیت کی ہے (فمن اعتدیٰ علیکم فاعتدوا علیہ بمثل مااعتدی علیکم جو شخص تمہارے ساتھ زیادتی کرے تو تم بھی اس کے ساتھ اتنی ہی زیادتی کرو جتنی اس نے تمہارے ساتھ کی ہے محمد بن جعفر بن الزبیر کا قول ہے کہ حضرت ابوبکر نے شمامسہ (عیسائیوں کا ایک فرقہ سے قتال کا حکم دیا۔ کیونکہ یہ لوگ جنگ میں شریک ہوتے تھے اگرچہ ان کے پادریوں کی رائے یہ ہوتی تھی کہ وہ جنگ میں شریک نہ ہوں۔ یہ جان کر حضرت ابوبکر نے ان سے جنگ نہ کرنے کا حکم جاری کردیا۔ کیونکہ قول باری ہے (وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم) محمد بن جعفر کی اس تاویل کی بنیاد پر یہ آیت منسوخ ہوئی بلکہ اس کا حکم اب بھی قائم ہے اور ربیع بن انس کے قول کے مطابق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو اس آیت کے نزول کے بعد صرف مقابلہ پر آنے والوں کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت تھی اور جو لوگ جنگ میں حصہ نہ لیتے ان کے خلاف جنگ کارروائی کرنے کی اجازت نہیں تھی خواہ ان لوگوں کا تعلق ایسے گروہ سے ہو جو جنگ میں حصہ لینا دینداری کے خلاف سمجھتے تھے یا ایسے گروہ سے جن کا یہ عقیدہ نہیں تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز سے درج بالا آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ اس سے مراد عورتیں بچے اور ایسے لوگ ہیں جو مسلمانوں کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کے قابل ہی نہ تھے مثلاً بوڑھے اور بیمار وغیرہ گویا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی رائے یہ تھی کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنی کمزوری اور عجز کی بنا پر اغلب حالات میں جنگ کرنے کے قابل ہی نہیں تھے اس لئے کہ عورتوں اور بچوں کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت سی روایتیں منقول ہیں جن میں عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اسی طرح گرجا گھروں میں بھی عبادت کرنے والوں کو قتل کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس حدیث کی روایت دائود بن الحصین نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے اور آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی ہے۔ اگر آیت کا مفہوم وہ ہے جو ربیع بن انس نے بیان کیا ہے۔ کہ آپ کو صرف مقابلہ پر آنے والے لوگوں سے جنگ کا حکم دیا گیا تھا اور مقابلہ پر نہ آنے والوں سے ہاتھ روک لینے کا تو اس صورت میں آیت (قاتلوا الذین یلونکم من الکفار، وہ کافر جو تمہارے پڑوس میں ہیں ان سے جنگ کرو۔ ) اس میں قتال کا حکم پہلی آیت کے حکم کے مقابلے میں زیادہ عام تھا۔ کیونکہ پہلی آیت میں صرف اپنے پڑوس کے مشرکین اور کفار سے جنگ کا حکم تھا اور پڑوس میں جو نہ تھے ان سے جنگ کا حکم نہیں تھا۔ تاہم اس آیت میں تخیص کا ایک پہلو تھا کہ مسجد حرام کے آس پاس جنگ کی ممانعت تھی۔ الا یہ کہ مشرکین جنگ پر اتر آئیں تو ایسی صورت میں مسجد حرام کے آس پاس بھی جنگ کرنے کی اجازت تھی۔ ارشاد باری ہے (ولا تقاتلوا ھم عند المسجد الحرام حتی یقاتلوکم فیہ فان قاتلوکم فاقتلوھم مسجد حرام کے آس پاس ان سے جنگ نہ کرو جب تک یہ تم سے وہاں جنگ نہ کریں۔ اگر یہ وہاں بھی تم سے جنگ کرنے سے باز نہ رہیں تو پھر انہیں تہہ تیغ کرو۔ ) پھر اللہ تعالیٰ نے تمام مشرکین سے قتال کی فرضیت نازل فرمائی۔ ارشاد باری ہے (وقاتلوا المشرکین کافۃ کما یقاتلونکم کافۃ اور تم تمام مشرکین سے قتال کرو جس طرح یہ تم سب سے قتال کرتے ہیں۔ نیز قول باری ہے (کتب علیکم القتال ونعرکرہ لکم، تم پر قتال فرض کردیا گیا حالانکہ وہ تمہیں پسند نہیں ہے) نیز قول باری ہے (فاذا نسلخ الاشھر الحرم فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم جب حرمت کے مہینے گذر جائیں تو پھر تمہیں جہاں کہیں بھی مشرک نظر آئیں ان کی گردنیں اڑا دو ۔ ) کچھ لوگوں کا یہ قول ہے کہ آیت (ولا تقاتلوھم عند المسجد احلرام) آیت (اقتلوا المشرکین حیث وجد تموھم) کی بنا پر منسوخ ہوگئی ہے۔ بعض کا قول ہے کہ اس آیت کا حکم ثابت ہے کہ حرم میں صرف ان لوگوں سے قتال کیا جائے گا جو جنگ پر اتر آئیں گے۔ اس بات کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو فتح مکہ کے دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے آپ نے اس موقع پر فرمایا (ان مکۃ حرام حرمھا اللہ یوم خلق السماوات والارض) بیشک مکہ حرمت کی جگہ ہے جس کی حرمت اللہ تعالیٰ نے اس دن قائم کردی تھی جس دن اس نے زمین و آسمان کی تخلیق کی تھی) پھر فرمایا (فان ترخص مترخص یقتال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فاتما احلت کی ساعۃ من نھار، اگر کوئی شخص اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جنگ کو دیکھ کر اس کی حرمت کے اٹھائے جانے کی گنجائش کا طلبگار ہو تو وہ سن لے کہ میرے لئے بھی اس کی حرمت گھڑی بھر کے لئے اٹھائی گئی تھی) پھر اس کی حرمت تا قیام قیامت لوٹ آئی۔ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ درج بالا آیت کا حکم منسوخ نہیں ہوا بلکہ باقی ہے۔ ہمارے لئے یہ حلال نہیں کہ ہم حرم میں ان لوگوں کے خلاف جنگ کی ابتدا کریں جو جنگ کرنا نہیں چاہتے۔ ارشاد باری (یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ قل قتال فیہ کبیر، لوگ آپ سے حرمت کے مہینے میں جنگ کے متعلق پوچھتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ حرمت کے مہینے میں جنگ کرنا بڑے گناہ کی بات ہے ) میں ماہ حرام یعنی رجب میں جنگ کی ممانعت تھی پھر (فاذ انسلح الاشھر الحرم فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم) سے یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ حکم منسوخ نہیں ہوا اور ممانعت بحالہ باقی ہے ۔۔۔۔۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩٠) جب کوئی تم سے قتال کی پہل کرے تو تم جوابا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہوئے مسجد حرام میں قتال کرسکتے ہو باقی خود سے پہل مت کرو کیوں کہ حالت احرام اور حرم میں قتال کی پہل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩٠ (وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ ) لیجیے قتال کا حکم آگیا۔ سورة البقرۃ کے نصف ثانی کے مضامین کی جو چار لڑیاں میں نے گنوائی تھیں یعنی عبادات ‘ معاملات ‘ انفاق اور قتال یہ ان میں سے چوتھی لڑی ہے۔ فرمایا کہ اللہ کی راہ میں ان سے قتال کرو جو تم سے قتال کر رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

200. The believers are asked to fight those who hindered their efforts in the cause of God, and acted with hostility towards them merely because they sought to fashion human life according to the revealed guidance of God. Earlier, when they were weak and scattered, the Muslims were asked merely to preach and be patient with the wrongful repression meted out to them by their opponents. However, now that a small city state had been established in Madina they were commanded for the first time to unsheathe their swords against those who had resorted to armed hostility against their movement of reform. It was some time after this injunction that the Battle of Badr took place, to be followed by several other battles. 201. The believers are told that material interests should not be the motivation for their fighting, that they should not take up arms against those who were not in opposition to the true faith, that they should not resort to unscrupulous methods or to the indiscriminate killing and pillage which characterized the wars of the pre-Islamic era, the Age of Ignorance. The excesses alluded to in this verse are acts such as taking up arms against women and children, the old and the injured, mutilation of the dead bodies of the enemy, uncalled-for devastation through the destruction of fields and livestock, and other similar acts of injustice and brutality. In the Hadith all these acts have been prohibited. The real intent of the verse is to stress that force should be used only when its use is unavoidable, and only to the extent that is absolutely necessary.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :200 یعنی جو لوگ خدا کے کام میں تمہارا راستہ روکتے ہیں ، اور اس بنا پر تمہارے دشمن بن گئے ہیں کہ تم خدا کی ہدایت کے مطابق نظام زندگی کی اصلاح کرنا چاہتے ہو ، اور اس اصلاحی کام کی مزاحمت میں جبر و ظلم کی طاقتیں استعمال کر رہے ہیں ، ان سے جنگ کرو ۔ اس سے پہلے جب تک مسلمان کمزور اور منتشر تھے ، ان کو صرف تبلیغ کا حکم تھا اور مخالفین کے ظلم و ستم پر صبر کرنے کی ہدایت کی جاتی تھی ۔ اب مدینے میں ان کی چھوٹی سی شہری ریاست بن جانے کے بعد پہلی مرتبہ حکم دیا جا رہا ہے کہ جو لوگ اس دعوت اصلاح کی راہ میں مسلح مزاحمت کرتے ہیں ، ان کو تلوار کا جواب تلوار سے دو ۔ اس کے بعد ہی جنگ بدر پیش آئی اور لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :201 یعنی تمہاری جنگ نہ تو اپنی مادی اغراض کے لیے ہو ، نہ ان لوگوں پر ہاتھ اٹھاؤ ، جو دین حق کی راہ میں مزاحمت نہیں کرتے ، اور نہ لڑائی میں جاہلیت کے طریقے استعمال کرو ۔ عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں اور زخمیوں پر دست درازی کرنا ، دشمن کے مقتولوں کا مثلہ کرنا ، کھیتوں اور مویشیوں کو خواہ مخواہ برباد کرنا اور دوسرے تمام وحشیانہ اور ظالمانہ افعال ” حد سے گزرنے“ کی تعریف میں آتے ہیں اور حدیث میں ان سب کی ممانعت وارد ہے ۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ قوت کا استعمال وہیں کیا جائے ، جہاں وہ ناگزیر ہو ، اور اسی حد تک کیا جائے ، جتنی اس کی ضرورت ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

121: یہ آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں جب مکہ کے مشرکین نے آنحضرتﷺ اور آپ کے صحابہ کو صلح حدیبیہ کے موقع پر عمرہ ادا کرنے سے روک دیا تھا اور یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ اگلے سال آکر عمرہ کریں گے، جب اگلے سال عمرہ کا ارادہ کیا گیا تو کچھ صحابہ کو یہ خطرہ ہوا کہ کہیں مشرکین مکہ عہد شکنی کرکے ہم سے لڑائی شروع نہ کردیں اگر ایسا ہوا تو مسلمانوں کو یہ مشکل پیش آئے گی کے حدود حرم میں اور خاص طور پر ذیقعدہ کے مہینے میں لڑائی کیسے کریں جبکہ اس مہینے میں جنگ ناجائز ہے، ان آیات نے وضاحت فرمائی کہ اپنی طرف سے تو جنگ نہ کی جائے، البتہ اگر کفار معاہدہ توڑ کر جنگ شروع کردیں توایسی صورت میں مسلمانوں کے لئے جنگ جائز ہے اور اگر وہ حدود حرم اور محترم مہینے کی حرمت کا لحاظ کئے بغیر حملہ آور ہوجائیں تو مسلمانوں کے لئے بھی ان کی زیادتی کا بدلہ لینا درست ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

الذین یقاتلونکم۔ جملہ مفعول ہے فعل قاتلوا کا۔؎ المعتدین۔ اسم فاعل۔ جمع مذکر منصوب۔ حد سے بڑھ جانیوالا۔ الذین یقاتلونکم۔ جملہ مفعول ہے فعل قاتلوا کا۔ المعتدین۔ اسم فاعل ۔ جمع مذکر منصوب۔ حد سے بڑھ جانیوالا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 اوپر کی آیت میں دو حکم مذ کور ہیں۔ (شو کانی) معرفت الہی میں استقامت جس کا تعلق علم سے ہے اور طاعت میں تقوی کے راہ اختیار کرنا جو عمل کے متعقل ہے۔ اس آیت میں جہاد کا حکم ہے جو عملا تقوی کی مشکل تریں صورت ہے۔ (کبیر) جملہ اہل علم اس امر پر متفق ہیں کہ ہجرت سے قبل قتال ممنوع تھا۔ مدینہ میں ہجرت کے بعد یہ پہلا حکم ہے جو قتال کی اجازت میں نازل ہوا۔ اس آیت کے تحت جب تک کہ عام اجازت نازل نہیں ہوئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیے لڑتے جو پہل کرتے اس کے بعد عام اجازت ہوگئی۔ اس آیت میں اعتدا۔ یعنی ہر قسم کے ظلم و زیادتی سے منع فرمادیا ہے۔ چناچہ حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (جب کوئی لشکر روانہ فرماتے تو) تو حکمدیتے جاؤ اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو اللہ تعالیٰ کے منکر ہیں لڑو مگر خیانت بدعہدی اور مثلہ نہ کرو۔۔ بچوں، عورتوں اور دوریشوں (راہبوں) کو قتل نہ کرو۔ (صحیح مسلم) معلوم ہوا کہ یہ جملہ امور اعتدا میں داخل ہیں جس سے منع فرمایا ہے۔ ، (ابن کثیر، کبیر) بعض نے اس آیت کو بلا وجہ منسوخ قراردیدیا ہے۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 190 تا 195 قاتلوا (لڑو (جہاد کرو) ۔ یقاتلون (جو لڑتے ہیں) ۔ لا یحب (پسند نہیں کرتا) ۔ المعتدین (حد سے بڑھنے والے) ۔ ثقفتموھم (تم ان کو پاؤ (ثقفتم، و ، ھم ) ۔ اخرجوا (نکالو) ۔ اشد (بڑھ کر ، شدید، زیادہ) ۔ انتھوا (وہ رک گئے) ۔ لا تکون (نہ رہے) ۔ لا عدوان (زیادتی نہ ہو) ۔ الشھرالحرام (عزت والے مہینے (رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم ان ) چار مہینوں میں اسلام سے پہلے بھی جنگ کو حرام سمجھا جاتا تھا اور مشرکین مکہ بھی اس کے پابند تھے نیز ابتداء اسلام میں بھی 7 ھ تک یہی قانون نافذ تھا) ۔ الحرمات (عزت کرنے میں) ۔ القصاص (برابری ہے (وہ احترام کرتے ہیں تو تم بھی احترام کرو) ۔ بمثل (اس جیسی) ۔ اعتدی (زیادتی کی ) ۔ انفقوا (خرچ کرو ) ۔ لا تلقوا (تم نہ ڈالو) ۔ التھلکۃ (ہلاکت، بربادی) ۔ احسنوا (نیکی کرو) ۔ تشریح : آیت نمبر 190 تا 195 مکہ کی تیرہ سالہ زندگی میں مسلمانوں کو عفو درگزر، برداشت اور صبر کی تلقین کی جاتی رہی۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب اگلے سا ل نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت وعمرہ کا ارادہ کیا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو اس کا شدید اندیشہ تھا کہ کفار مکہ کب اپنا وعدہ اور معاہدہ توڑ کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں اور ان کو نقصان پہنچا دیں۔ یہ اندیشے سب ہی کے دلوں میں تھے اس پر تین آیتیں نازل ہوئیں جن میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کو جہاد و قتال کی اجازت دے کر چند اصولی اور بنیادی باتیں بتائی گئی ہیں۔ فرمایا گیا کہ اے مومنو ! چونکہ یہ جہاد اللہ کی راہ میں ہے انتقام کی آگ بجھانے یا ملک گیری کی ہوس میں نہیں ہے اس لئے تم ان ہی سے جہاد و قتال کرو جوا للہ کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اگر وہ تم سے بیت اللہ میں لڑتے ہیں تو تم ان سے بیت اللہ میں لڑو۔ اگر وہ اشہرا لحرم یعنی حرمت والے مہینوں کا احترام نہیں کرتے تو تم بھی نہ کرو۔ اور اگر وہ جنگ کرتے ہیں تو تم بھی ان مہینوں میں ان سے جنگ کرو۔ اگر تمہاری طاقت و ہمت ہو تو تم بھی ان کو وہاں سے نکال باہر کرو جہاں سے انہوں نے تمہیں ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا لیکن ان تمام باتوں میں جس کا خاص طور پر خیال رکھنا ہے وہ یہ ہے کہ تم کسی پر زیادتی نہ کرنا، عورتوں، بچوں ، بیماروں، بوڑھوں، کمزوروں ، پر امن شہریوں، مذہبی پیشواؤں کو قتل نہ کرنا نہ ان کی کھیتیاں اجاڑنا نہ کسی کے گھر بار کو آگ لگانا۔ دوسرے یہ کہ جو مزاحمت کا راستہ چھوڑ دیں تم ان کو معاف کردینا۔ اصل چیز شرک اور کفر کا فتنہ ہے جس کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ پھینکنا تمہاری ذمہ داری ہے۔ اس فتنہ کو مٹانے کے لئے طاقت کا معمولی استعمال کوئی گناہ یا زیادتی نہیں ہے تمہاری جدو جہد اس وقت تک جاری رہنی چاہئے جب تک یہ فتنہ مٹ کر اسلام کے ابدی نظام کو قائم کرنے کی راہیں صاف اور واضح نہ ہوجائیں ۔ یہ آیتیں ہیں جن میں طاقت کا جواب طاقت سے دینے کی اجازت دی گئی ہے ۔ مگر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خلفاء راشدین اور صحابہ کرام (رض) کا دور اس بات پر گواہ ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ جہاد فی سبیل اللہ کیا ہے اور ان کی تلواریں ظالموں کی گردنیں کاٹنے اور مظلوموں کو ان کے بنیادی حقوق دلوانے کے لئے اٹھی ہیں۔ انہوں نے قرآن کریم کے ایک ایک اصول کی پوری طرح پابندی کر کے بتا دیا کہ دین اسلام ہی وہ دین ہے جس کی برکت سے انسانیت سکھ کا سانس لے سکتی ہے۔ آخر میں مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں یعنی جہاد میں خرچ کرنے سے مسلمانوں کو زندگی کی سچائیاں نصیب ہوں گی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بعض روایات میں آتا ہے کہ قانون جنگ کے سلسلے میں قرآن کریم کا یہ پہلا حکم ہے ۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ان مومنین کو جن کے ساتھ کفار برسر پیکار تھے صرف جنگ کی اجازت دی تھی ۔ اس لئے کہ وہ مظلوم ہیں ۔ مسلمانوں نے محسوس کرلیا تھا کہ یہ اذن فرضیت جہاد کے لئے ایک تمہید ہے اور اللہ تعالیٰ اب اس زمین پر مسلمانوں کو تمکنت عطا کرنے والا ہے ، چناچہ سورة حج میں فرمایا : أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ (٣٩) الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (٤٠) الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الأرْضِ أَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الأمُورِ (٤١) ” اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے ۔ صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے ” ہمارا رب اللہ ہے “ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور مندر اور مسجدیں ، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے ، سب مسمار کر ڈالی جائیں ۔ اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے ۔ اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوٰۃ دیں گے ، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے ۔ اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ “ وہ اس اذن کے معنی خود سمجھ گئے کیونکہ ان پر ظلم ہورہا ہے ، لہٰذا وہ ظلم کا بدلہ لے سکتے ہیں ۔ مکہ مکرمہ میں ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور وہ ظلم کی مدافعت بھی نہ کرسکتے تھے ۔ وہاں انہیں حکم دیا گیا تھا : کُفُّوا اَیدِیکُم وَاَقِیمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوالزَّکٰوۃَ ” ہاتھ روکے رکھو ، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو ۔ “ مکہ میں ہاتھ اٹھانے کی ممانعت بھی ایک خاص حکمت پر مبنی تھی ۔ اس حکمت کے بعض اہم پہلو ہم یہاں بیان کرتے ہیں : ١۔ جنگ اور مدافعت سے روکنے کا پہلا سبب یہ تھا کہ عرب مسلمانوں کے اندر ڈسپلن پیدا کرنے کی ضرورت تھی تاکہ وہ اطاعت امیر کے عادی ہوجائیں ، اپنی قیادت کے مطیع وفرماں ہو اور مدافعت اور قتال کے حکم کا انتظار کریں ۔ جاہلیت میں تو وہ سخت جنگجو تھے ۔ پہلی آواز پر آپے سے باہر ہوجاتے تھے اور کسی خوشگوار بات کو دیکھ کر ان میں صبر کرنے کا مادہ تو تھا ہی نہیں ۔ انسانی تاریخ میں امت مسلمہ نے جو کردار ادا کرنا تھا اس کا تقاضا یہ تھا کہ اس امت کی ایسی تربیت ہو اور اس کی سیرت کی تعمیر ایسی ہو کہ اس کی یہ تمام کمزوریاں ضبط ونظم میں ڈھل جائیں ، وہ ایک مقتدر ومدبر قیادت کے تابع فرمان بن جائیں ۔ اس حد تک تابع کہ وہ دور جاہلیت کی تمام عصبیتوں اور ناجائز عصبیتوں اور ناجائز طرفداروں کو چھوڑدیں ، جن کی حمایت میں وہ جنگ وجدل کے لئے کسی پکارنے والے کی پہلی پکار پر اٹھ کھڑے ہوجاتے تھے ۔ یہی تعمیر سیرت تھی جس کی وجہ سے حضرت عمر بن الخطاب (رض) جیسے پرجوش شخص اور حضرت حمزہ بن عبدالمطلب (رض) اور ان جیسے نڈر اشخاص امت مسلمہ کو سخت مصائب و شدائد میں دیکھتے اور اف تک نہ کرتے ۔ اس لئے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایت کے مطابق اپنے آپ کو پوری طرح کنٹرول میں رکھیں ۔ اپنی ہائی کمان کی پوری اطاعت کریں اور قیادت عالیہ کا حکم تھا ۔ کُفُّوا اَیدِیکُم وَاَقِیمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوالزَّکٰوۃَ ” ہاتھ روکے رکھو ، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو ۔ “ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اندر پائی جانے والی تیزی سے کود پڑنے اور سوچنے سمجھنے ، جلد بازی اور تدبر اور حمیت اور اطاعت امر جیسی متضاد صفات کے درمیان توازن قائم ہوگیا اور پھر عرب جیسی بےحد ، پرجوش اور جنگجو قوم میں ۔ حقیقت یہ ہے کہ عربوں میں اس قسم کی تربیت کا کامیاب ہونا اور ان کے اندر ڈسپلن کا پیدا ہونا ہی ایک معجزہ معلوم ہوتا ہے۔ ٢۔ دوسرا اہم سبب جس کی وجہ سے مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کو قتال سے روکا گیا تھا وہ یہ تھی کہ عرب معاشرہ ایک بہادر اور شریف معاشرہ تھا۔ لوگ خود دار اور عزت نفس کے مالک تھے ۔ مسلمانوں میں بعض ایسے لوگ بھی تھے جو اینٹ کا جواب پتھر سے دے سکتے تھے لیکن اس کے باوجود جب وہ مظالم پر صبر کرتے ، کئی شرفاء کی عزت نفس اور شرافت میں جوش آجاتا اور ان کے دل اسلام کی طرف مائل ہوجاتے ۔ اس کا اظہار عملاً اس وقت ہوا جب قریش نے بنی ہاشم کے ساتھ بائیکاٹ کیا اور وہ شعب ابی طالب میں محصور ہوگئے ۔ قریش کا مطالبہ یہ تھا کہ بنی ہاشم حمایت رسول سے دستبردار ہوجائیں ۔ جب بنی ہاشم پر مصائب ناقابل برداشت ہوگئے تو بعض غیور اور شرفاء کی بہادری اور غیرت جوش میں آگئی ۔ انہوں نے اس دستاویز کو پھاڑ ڈالا ، جس کے مطابق انہوں نے بائیکاٹ کا معاہدہ کیا تھا۔ اور محض اس جذبہ شرافت کی وجہ سے یہ محاصرہ ختم ہوگیا ۔ جنگ اور مدافعت سے ہاتھ روکنے کی مکی پالیسی میں رسول برحق (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عربوں کے ان جذبات کو پیش نظر رکھا تھا۔ اگر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کا مطالعہ بحیثیت قائد تحریک کیا جائے تب ان حکمتوں کا اظہار ہر جگہ ہوتا ہے۔ داعی اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ منشاء ہی نہ تھا کہ اسلام کی وجہ سے گھر گھر میں خونریزی شروع ہوجائے کیونکہ ہر خاندان میں سے کوئی نہ کوئی مسلمان تھا اور مسلمانوں کو ایذا رسانی میں ، اور انہیں دین اسلام سے روکنے میں ، خود مسلمانوں کے اپنے خاندان پیش پیش تھے ۔ وہاں کوئی منظم حکومت نہ تھی جو مسلمانوں پر تشدد کررہی تھی ۔ اگر اس مرحلے میں مسلمانوں کو یہ اجازت دے دی جاتی کہ وہ اپنی مدافعت میں جنگ کریں تو نتیجہ یہ ہوتا کہ گھر گھر میں فساد رونما ہوتا اور خاندان سے خاندان ٹکراتا اور خانہ جنگی شروع ہوجاتی ۔ ایسی صورت رونما ہوتی تو لازمی طور پر یہ تاثر قائم ہوجاتا کہ اسلام نے گھر گھر اور خاندان میں فتنہ و فساد کے شعلے بھڑکادئیے ہیں۔ ہجرت کے بعد صورتحال بالکل جدا ہوگئی ، اب جماعت اسلامی مدینہ طیبہ میں ایک مستقل اور منظم وحدت تھی اور اس کا مقابلہ مکہ مکرمہ کی ایک منظم برادری سے تھا جس میں افواج کی تنظیم ہورہی تھی اور وہ فوج تحریک اسلامی کے خلاف حملہ آور ہورہی تھی ۔ یہ صورتحال مکہ مکرمہ کی صورتحال سے بالکل مختلف تھی ۔ گویا واضح طور پر اپنی حفاظت کا مسئلہ سامنے تھا اور یہ حفاظت افراد کے بجائے پوری ملت تھی ۔ یہ ہیں وہ اسباب جو ایک انسان اپنے محدود ذہن کے ساتھ ، اس بارے میں سوچ سکتا ہے کہ مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کو تشدد وبربریت کا جواب دینے سے کیوں روکا گیا تھا۔ ان اسباب کے علاوہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت مسلمان تعداد کے اعتبار سے بہت ہی کم تھے ، پھر وہ مکہ مکرمہ میں محصور تھے ، اگر وہ مقابلہ شروع کردیتے تو ان کے خلاف فوراً مقاتلہ شروع ہوجاتا اور ان کا مقاتلہ ایسے لوگوں سے ہوتا جو ہر لحاظ سے ان کے مقابلے میں طاقتور اور بارسوخ تھے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیئت یہ تھی کہ مسلمانوں کی تعداد میں اجافہ ہوجائے اور وہ اپنے مستقل دارالحکومت میں علیحدہ ہوکر مجتمع ہوجائیں ۔ جب یہ کام ہوگئے تو انہیں جہاد و قتال کی اجازت دے دی گئی۔ بہرحال اس کے بعد ، تدریج کے ساتھ ، جزیرۃ العرب اور عرب سے باہر کے علاقوں میں ، حسب ضرورت مسلمانوں کو جنگ کے احکام دئیے جاتے رہے ۔ زیر بحث آیات اس سلسلے کی ابتدائی آیات ہیں اور ان میں قتال کے بعض ایسے احکام دئیے گئے ہیں جو اس وقت کے بنیادی متحارب کیمپوں میں ، اسلامی کیمپ اور مشرکین کے کیمپ کے درمیان محاذ آرائی کے لئے مناسب اور ضروری تھے ۔ جبکہ بعض احکام ایسے بھی ہیں جو اصولی حیثیت رکھتے ہیں اور ہر جنگ میں عموماً ایسے حالات پیش آسکتے ہیں ۔ ان احکام میں معمولی رد وبدل سورت براءت کے احکام کے ذریعہ ہوا ہے۔ یہاں ، تفسیر آیات قتال سے پہلے ، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جہاد کے موضوع پر ایک مختصر نوٹ دے دیا جائے تاکہ آیات قتال اور دوسری آیات کی تفسیر کے لئے اساس کا کام دے ۔ اسلامی نظریہ ٔ حیات اپنی آخری شکل و صورت میں یعنی دین اسلام کی صورت میں رونما ہوا ۔ مقصد یہ تھا کہ اب سے یہ تمام انسانیت کی زندگی کا اصول بن جائے ۔ تمام انسانیت کا نظام زندگی قرار پائے اس نظام اور اس منہاج کو لے کر امت مسلمہ اٹھے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے پوری انسانیت کی قیادت کرے۔ یہ نظام زندگی ایک ایسا نظام ہے کہ یہ اس کائنات کے وسیع تر تصور پر مبنی ہے ۔ وجود انسانی کے اصل اور حقیقی مقاصد کی اساس پر تعمیر شدہ ہے اور اس کی توضیح وتشریح ایک کتاب میں کردی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ خالق کائنات کی جانب سے اتاری گئی ہے۔ نیز اس امت نے راہنمائی بھی ایک خالص بھلائی اور خیر محض کی طرف کرنی ہے ، جو کسی دوسرے جاہلی نظام میں نہیں ہے اور انسانیت کو ایک ایسے مقام بلند تک پہنچایا جہاں تک وہ اسلامی نظام زندگی کے سوا ، کسی اور نظام کے ذریعے نہیں سکتی ۔ اسے ایسی نعمت سے سرفراز کرنا ہے جس کے مقابلے میں کوئی نعمت نہیں ہے ۔ اسلام یقیناً وہ نظام زندگی ہے کہ اگر اس سے انسانیت محروم ہوجائے تو پھر اس کے لئے نجات و فلاح نہیں ہے۔ اگر انسانیت کو اس نیکی سے محروم کردیا جائے اور اللہ تعالیٰ اسے جس بلندی ، جس پاکیزگی اور جس سعادت و کمال تک پہنچانا چاہتا ہے ، اسے اس سے روک دیا جائے تو انسانیت کے ساتھ اس سے بڑا ظلم اور اس سے بری زیادتی کا تصور بھی ممکن نہیں ہے ۔ یوں انسانیت کا یہ حق ہوجاتا ہے کہ اسلام کے اس مکمل نظام زندگی کی دعوت پوری انسانیت تک آزادی کے ساتھ پہنچ سکے ۔ اور اس کی راہ میں یعنی دعوت اسلامی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ، اور کوئی حکومت بھی کسی صورت میں سدراہ نہ بن سکے ۔ ادھر انسانیت پر یہ لازم تھا کہ جب لوگوں تک دعوت اسلامی پہنچے تو وہ اس کے رد و قبول میں بالکل آزاد ہوں ۔ دین قبول کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ۔ کوئی حکومت سد راہ بنی ہوئی نہ ہو ۔ اگر کوئی شخص اسلامی نظام کو قبول کرتا ہے تو حکومت رکاوٹ نہ ڈالے ، نیز اسے اختیار نہ ہو کہ دعوت اسلامی کو اپنی منزل تک بڑھنے سے روکے ۔ علاوہ ازیں انسانیت کا یہ بھی فرض تھا کہ اسلام قبول کرنے والوں کو اطمینان اور آزادی کی ضمانت دے اور تبلیغ دین کے سلسلے میں تحریک اسلامی کی راہ میں جو مشکلات درپیش آرہی ہیں وہ انہیں دور کردے ۔ اس سلسلے میں کارکنان دعوت اسلامی پر کوئی زیادتی نہ ہونے پائے ۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو ہدایت نصیب فرمائے اور وہ دعوت اسلامی کو قبول کرلیں تو ان کا یہ بنیادی حق ہے کہ ان پر کسی قسم کا ظلم اور زیادتی نہ ہو ۔ ان پر تشدد نہ ہو اور ان کے خلاف اشتعال نہ ہو ۔ ان کی راہ میں اس قسم کی رکاوٹیں نہ کھڑی کی جائیں جن کا مقصد لوگوں کو اسلامی نظام سے روکنے کے سوا اور کچھ نہ ہو۔ تحریک اسلامی کے کارکنان کے فرائض میں یہ بات داخل تھی کہ وہ قوت کے ساتھ تشدد اور اشتعال کا مقابلہ کریں تاکہ دنیا میں آزادی رائے جیسے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جاسکے اور وہ لوگ امن وامان کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں جنہوں نے اس دین کو اپنانا ہے تاکہ زندگی میں اسلامی نظام رائج ہو اور انسانیت اس بھلائی اور نیکی سے محروم نہ ہو۔ ان بنیادی حقوق کے قیام کے نتیجے میں جماعت مسلمہ پر ایک اور ذمہ داری یہ عائد ہوجاتی ہے کہ وہ ہر اس قوت کو پاش پاش کردے جو دعوت اسلامی اور اس کی تبلیغ کے آڑے آئے ۔ یا وہ حق آزادی رائے کو چیلنج کرے یا وہ ایسے لوگوں پر تشدد کرے جنہوں نے دین ونظریہ کے معاملے میں آزادی سے کوئی نظریہ قبول کرلیا ہے ۔ امت مسلمہ کا یہ فرض اس وقت تک ہے جب تک اسلامی نظام قبول کرنے والوں کے لئے کوئی تشدد باقی رہتا ہے اور نظام زندگی صرف اللہ ہی کا رائج نہیں ہوجاتا۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ جہاد اس وقت تک جاری رہے گا جب تک لوگوں کو اسلامی نظام زندگی اختیار کرنے پر مجبور نہیں کردیا جاتا۔ مقصد صرف یہ ہے کہ اس کرہ ارض پر اسلامی نظام غالب ہونا چاہئے یوں کہ جو شخص بھی دین اسلام میں داخل ہونا چاہے اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہ ہو ، دنیا میں کوئی ایسی قوت نہ ہو جو کسی کو دین اسلام قبول کرنے سے روکے ، یا اس کی تبلیغ کرنے سے روکے ، یا اس دین پر قائم رہنے سے روکے ۔ دنیا میں کوئی ایسانظام نہ ہو جو اللہ کی ہدایت اور اس روشنی کو چھپا رہا ہو اور اس کے تحت رہنے والوں تک یہ ہدایت و روشنی پہنچنے میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہو ، یا عوام کو اللہ کے اس راہ سے گمراہ کیا جارہا ہو ، چاہے اس رکاوٹ کی نوعیت جو بھی ہو ۔ یہ تھے وہ بنیادی مقاصد جن کے لئے اسلام نے جہاد فی سبیل اللہ کو فرض کیا ہے ۔ یہ جہاد صرف انہی مقاصد عالیہ کے لئے تھا ، ان کے علاوہ اسلام کے پیش نظر اور کچھ نہ تھا ۔ نہ کوئی اور مقصد نہ کوئی اور رنگ ۔ یہ جہاد اسلامی نظریہ حیات کے لئے تھا ، کافرانہ نطریاتی پھیلاؤ کا محاصرہ توڑنے کے لئے تھا ، نظریہ ٔ تشدد کے خلاف تھا ، اور زندگی میں اسلامی نظام کے بچاؤ اور اسلامی شریعت کے قیام کے لئے تھا ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ کرہ ارض پر اسلامی جھنڈے بلند کردئیے جائیں ، اس طرح کہ اسلامی نطریہ حیات کے مخالفین دشہت زدہ ہوجائیں اور ہر وہ شخص جو اسلامی نظام زندگی میں دلچسپی رکھتا ہے ، وہ اس میں داخل ہوجائے اور اسے دنیا کی کسی قوت کی جانب سے یہ خوف نہ ہو کہ اسے روکا جائے گا ۔ اس پر تشدد ہوگا۔ یہ ہے اور صرف یہی ہے وہ جہاد جس کا اسلام نے حکم دیا تھا اور یہ ابھی تک برقرار ہے اور اسلامی نظام اس پر قائم ہے جو لوگ اس میں کام آئیں اسلام کی نظر میں شہید ہوتے ہیں اور جو لوگ جہاد کے مصائب برداشت کرتے ہیں وہ غازی اور اولیاء اللہ کہلاتے ہیں ۔ یہ تھی وہ صورتحال جس سے مدینہ طیبہ میں جماعت مسلمہ دوچار تھی اور جس کے بارے میں سورة بقرہ کے اس سبق کی یہ آیات نازل ہوئیں ، مشرکین قریش نے مسلمانوں کو ان کے گھروں سے ناحق نکال دیا تھا ۔ انہیں محض اس لئے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا کہ وہ حلقہ بگوش اسلام ہوچکے ہیں ۔ ان کو صرف یہ اعتراض تھا کہ انہوں نے آزادانہ طور پر کیوں ایک نظریہ حیات قبول کرلیا ہے ۔ ان حالات میں خصوصی ہدایت کے ساتھ ساتھ یہ آیات اسلام کے نظریہ کے لئے قاعدہ کلیہ بھی بیان کردیتی ہیں جو یوں ہے کہ مسلمانو ! تم ان لوگوں سے جنگ کرو جنہوں نے تم سے ناحق جنگ کی اور ابھی تک برسر جنگ ہیں اور آئندہ بھی تمہارے لئے یہی ہدایت ہے کہ جو تم سے لڑے اس سے لڑو ۔ مگر زیادتی نہ کرو۔ ارشاد ہوا ! وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ” اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں ، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ “ آیات قتال میں سے یہ پہلی آیت ہے اور پہلی آیت ہی میں قتال کے مقاصد کے بارے میں قطعی فیصلہ کردیا گیا اور واضح طور پر بتادیا گیا کہ وہ کون سا علم ہے جس کے تحت مسلمانوں کو معرکہ جہاد سر کرنا ہے۔ وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ ” اور اللہ کی راہ میں ، ان لوگوں سے لڑو ، جو تم سے لڑتے ہیں۔ “ یہ جہاد ، یہ قتال صرف اللہ کے لئے ہے اور انسان نے طویل انسانی تاریخ میں ، جن معروف مقاصد کے لئے زبردست جنگیں لڑیں ان میں سے کوئی مقصد بھی اسلامی جہاد کو مطلوب نہیں ہے۔ نہ خاندانی شرف کے لئے ، نہ علو فی الارض اور برتری کے لئے ، نہ دولت وغنیمت کے لئے ، منڈیوں اور خام اشیاء پر قبضے کے لئے ، نہ کسی طبقے پر دوسرے کی سیادت کے قیام کے لئے اور نہ کسی نسل پر کسی نسل کی حکومت کے لئے ۔ اسلامی جہاد صرف ان مقاصد کے لئے ہے جن کی تحدید اسلام نے کردی ہے ۔ دنیا میں اسلام کا کلمہ بلند کرنے کے لئے ، اسلامی نظام زندگی کے نفاذ کے لئے ، مسلمانوں کو ظلم وتشدد سے بچانے کے لئے ، مسلمانوں کو گمراہی اور ضلالت سے بچانے کے لئے ۔ غرض یہ ہیں اسلامی مقاصد ، ان کے علاوہ دوسرے مقاصد کے لئے جو جنگیں لڑی جائیں وہ اسلامی جہاد کہلانے کی مستحق نہیں ہیں اور جو شخص بھی ایسی جنگوں میں حصہ لے گا اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ کسی اجر کا مستحق نہیں ہے ۔ نہ ہی اللہ کے ہاں اس کا کوئی مقام ہے ۔ جنگ کے مقاصد کے تعین کے ساتھ ساتھ ، اس کی مقدار اور حد بھی مقرر کردی گئی : وَلا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ” مگر زیادتی نہ کرو ، اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ “ زیادتی یوں ہوگی کہ جنگ لڑنے والے سپاہیوں کے علاوہ پرامن شہریوں کو بھی تکلیف دی جائے ، جو دعوت اسلامی کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہیں ، نہ ہی ان سے اسلامی جماعت کو کوئی خطرہ ہے ۔ مثلاً عورتیں ، بچے ، بوڑھے اور جو لوگ اللہ کی عبادت کے لئے الگ ہوگئے ہیں خواہ وہ کسی بھی مذہب وملت سے متعلق ہوں حکم دیا گیا کہ جنگ میں ان حدود وقیود کو پامال نہ کیا جائے ، جو اسلام نے جنگ کے لئے مقرر کئے ہیں ۔۔ اسلام نے سب سے پہلے ، ان قباحتوں پر پابندی عائد کی جو جاہلیت میں عام طور پر معروف تھیں ۔ خواہ یہ جاہلیت قدیم ہو یا جدید ۔ یہ قباحتیں ہیں جن سے اسلامی نظام متصادم ہے ۔ جن سے اسلام کی روح ابا کرتی ہے ۔ اس سلسلے میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چند احادیث کا مطالعہ کیجئے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں کی ہدایات پڑھیے ، ان سے ان آداب کا مزاج آپ پالیں گے۔ یہ وہ آداب جنگ ہیں ، جن سے انسانیت کا تعارف سب سے پہلے اسلام کے نظام جنگ کے مطالعہ کے بعد ہوا : ١۔ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں :” رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مغازی میں سے ایک موقعہ پر ایک عورت پائی گئی جسے قتل کردیا گیا تھا ، اس پر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں اور بچوں کو قتل سے منع فرمایا۔ “ (مالک ، شیخین ، ابوداؤد اور ترمذی) ٢۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے ۔ فرماتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا !” جب تم جنگ کررہے ہو ، تو اس وقت چہرے پر مارنے سے اجتناب کرو۔ “ ٣۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے ۔ فرماتے ہیں !” ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ کے لئے بھیجا ۔ اس موقع پر فرمایا :” اگر تم فلاں فلاں (قریش کے دو افراد) کو پاؤ تو انہیں آگ میں جلاؤ۔ “ جب ہم تیار ہوکر نکلنے لگے تو آپ نے فرمایا !” میں نے تمہیں حکم دیا تھا کہ فلاں فلاں کو آگ میں ڈالو ! لیکن آگ کے ساتھ اذیت دینا ، صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے ، لہٰذا حکم یہ ہے کہ اگر تم انہیں پاؤ تو دونوں کو قتل کردو۔ “ (بخاری ، ابوداؤد اور ترمذی) ٤۔ حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا !” جنگ میں سب سے زیادہ عفو و درگزر کرنے والے صرف اہل ایمان ہیں۔ “ (ابوداؤد) ٥۔ عبدبن یزید انصاری سے روایت ہے ۔ فرماتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال غنیمت میں چوری اور قتل میں مثلہ کرنے سے منع فرمایا۔ ٦۔ حضرت ابویعلیٰ (رض) سے روایت ہے ۔ فرماتے ہیں ہم عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید کی قیادت میں شریک جنگ ہوئے۔ دشمن کے چار آدمی لائے گئے ۔ حکم دیا گیا کہ انہیں نیزے کے چپٹے حصے کی طرف سے قتل کیا جائے اور انہیں اس طرح قتل کیا گیا ۔ اس کی اطلاع حضرت ابویوب انصاری (رض) کو ہوئی تو انہوں نے فرمایا : میں نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت دے کر قتل کرنے سے منع کرتے ہوئے سنا ۔ اللہ کی قسم اگر مرغی ہوتی تو بھی میں اسے اذیت دے کر قتل نہ کرتا۔ جب اس کا علم عبدالرحمٰن (رض) کو ہوا تو انہوں نے چار غلام آزاد کئے ۔ (ابوداؤد) ٧۔ حارث نے مسلم ابن حارث (رض) سے روایت کی ہے۔ فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا ۔ جب ہم حملہ کی جگہ پہنچے تو میں نے گھوڑی کو ایڑ دی ۔ وہ میرے ساتھیوں سے آگے جانکلی ۔ میں نے دیکھا کہ آبادی کے لوگ (خوف کے مارے) چیخ و پکار کررہے تھے ۔ میں نے ان سے کہا جلدی سے کلمہ طیبہ لاالٰہ الا اللہ کا اقرار کرلو اور اپنے آپ کو بچالو ، انہوں نے کلمہ پڑھ لیا ۔ میرے ساتھیوں نے مجھے سخت ملامت کی اور کہنے لگے ، تم نے ہمیں مال غنیمت سے محروم کردیا ۔ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واپس آئے ۔ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میری حرکت سے آگاہ کیا ۔ آپ نے میری تعریف کی ۔ اس کے بعد مجھ سے کہا :” اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے ہر آدمی کے بدلے تمہارے لئے یہ یہ اجر لکھ دیا ہے۔ “ (ابوداؤد) ٨۔ حضرت بریدہ (رض) سے روایت ہے ، فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی کسی کو مجاہدوں کے دستے کا سردار مقرر کرتے یا کوئی سریہ بھیجتے تو انہیں سب سے پہلے خدا خوفی کی وصیت فرماتے ۔ پھر فرماتے کہ اپنے ساتھیوں سے حسن سلوک رکھو اور پھر فرماتے ” اللہ کے نام کے ساتھ لڑو ، اللہ کی راہ میں ، ان لوگوں سے لڑو جنہوں نے کفر اختیار کیا ۔ لڑو لیکن غداری نہ کرو۔ مقتول کا مثلہ نہ کرو اور بچے کو نہ قتل کرو۔ “ (مسلم ، ابوداؤد اور ترمذی) ٩۔ مالک نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے روایت کی ہے کہ انہوں نے اپنی فوج کو وصیت کرتے ہوئے منجملہ اور باتوں کے یہ فرمایا ” تمہیں ایسے لوگ بھی ملیں گے جنہوں نے بزعم خود اپنے آپ کو اللہ کا کردیا انہیں ان کی حالت عزلت ہی میں چھوڑ دو ۔ عورت کو قتل نہ کرنا۔ بچے اور بہت زیادہ بوڑھے کو بھی قتل نہ کرنا۔ “ یہ ہے وہ جنگ جو اسلام فرض کرتا ہے اور یہ ہیں اسلام کے آداب جنگ ۔ وہ مقاصد جن کے لئے اسلام معرکہ جنگ برپا کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اور ان سب کا منبع قرآن مجید کا یہ حکم ہے ” اور اللہ کے راستے میں ان لوگوں سے لڑو ، جو تمہارے ساتھ لڑیں اور زیادتی نہ کرو۔ بیشک اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ “ قرون اول کے مسلمان اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ محض اپنی تعداد کے بل بوتے پر فتح حاصل نہیں کرسکتے ۔ ان کی تعداد تو بہت قلیل ہے ۔ وہ اپنی تعداد اور سازوسامان کی بدولت فتح مند نہیں ہوسکتے ۔ کیونکہ ان کا سازوسامان دشمن کے مقابلے میں بہت ہی قلیل ہے ۔ وہ جانتے تھے کہ فتح صرف ایمان ، بندگی اور اللہ کی نصرت کے نتیجے میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایات کو ترک کیا تو وہ فتح ونصرت سے محروم ہوجائیں گے جو ان کا اصل سہارا ہے ۔ اس لئے وہ اپنی جنگوں میں ان آداب جنگ کو سختی سے ملحوظ رکھتے تھے ۔۔ یہاں تک کہ یہ آداب انہوں نے اپنے ان ازلی دشمنوں کے ساتھ بھی ملحوظ رکھے جنہوں نے انہیں سخت سے سخت اذیتیں دی تھیں ۔ اور ان کے شہداء کی لاشوں کا مثلہ کیا تھا۔ ایک موقعہ پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غضب جوش میں تھا ، آپ نے بعض لوگوں کے جلادینے کے احکامات صادر فرمادیئے ، لیکن تھوڑی دیر بعد ہی آپ نے اپنے احکامات واپس لے لئے اور جلانے سے منع فرمایا۔ اس لئے کہ آگ کے ساتھ سزا صرف خاصہ خدا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ کی راہ میں قتال کرنے کا حکم اور ظلم و زیادتی سے پرہیز کرنے کی تاکید حضرت سید المرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کے چھٹے سال اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ کرنے کے لیے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے جب مکہ معظمہ قریب آیا تو مقام حدیبیہ پر مشرکین مکہ نے آپ کو روک دیا۔ اور مکہ معظمہ میں داخل نہ ہونے دیا۔ بڑی رد وکد کے بعد انہوں نے دس سال کے لیے چند شرطوں پر صلح کرلی ان میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ اس سال عمرہ نہیں کرسکتے آئندہ سال عمرہ کے لیے تشریف لائیں۔ اور اس وقت مکہ معظمہ میں تین دن سے زیادہ نہیں ٹھہریں گے۔ یہ ہی ذی قعدہ کا مہینہ تھا۔ پھر آپ آئندہ سال ماہ ذی قعدہ ہی میں عمرہ کی قضاء کے لیے تشریف لائے اس زمانے میں چار مہینوں میں قتال اور جنگ کرنا ممنوع تھا۔ ان چار مہینوں میں ذی قعدہ کا مہینہ بھی شامل تھا۔ لباب النقول میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے منقول ہے کہ مذکورہ بالا آیت اس موقع پر نازل ہوئی جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمرۃ القضاء کے لیے اپنے صحابہ کے ساتھ ٧ ھ میں تشریف لے گئے تھے حضرات صحابہ کو یہ اندیشہ ہوا کہ ممکن ہے کہ قریش مکہ صلح کی شرطوں کی خلاف ورزی کربیٹھیں اور اس مرتبہ بھی مسجد حرام تک نہ پہنچے دیں اور جنگ پر آمادہ ہوجائیں۔ اگر ایسا ہوا تو ہمیں بھی جنگ کا اقدام کرنا پڑے گا اور یہ بھی اس مہینہ میں ہوگا جس میں جنگ کرنا حرام ہے اور ہم جوابی کارروائی نہ کریں تو مغلوب ہوں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی اور قتال کرنے کی اجازت دے دی۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ تم سے قتال کرتے ہیں ان سے قتال کرو اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ زیادتی مت کرو۔ بیشک اللہ تعالیٰ زیادتی کرنیوالوں کو پسند نہیں فرماتا۔ شریعت اسلامیہ میں ہر چیز کی حدود ہیں۔ اصول ہیں، آداب ہیں اور اخلاق عالیہ ہیں۔ قتل اور قتال کے بھی کچھ اصول ہیں۔ حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ لاَ تَعْتَدُوْا کے عموم ہیں وہ سب باتیں داخل ہوگئیں جو جنگ کے موقعہ پر ممنوع ہیں مثلاً مثلہ کرنا (کسی مقتول کے ناک کان کاٹ دینا صورت بگاڑ دینا) مال غنیمت میں خیانت کرنا، عورت، بچوں، اور بوڑھوں کو قتل کرنا جو نہ جنگ کرتے ہوں نہ جنگ کے معاملات میں کوئی رائے یا مشورہ دیتے ہوں اور مثلاً راہبوں کو قتل کرنا اور بغیر کسی مصلحت کے درختوں کو جلانا اور حیوانات کو قتل کرنا (تفسیر ابن کثیر ج ١ صفحہ ٢٦٦) صحیح مسلم ج ٢ صفحہ ٨٢ میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی لشکریا کسی فوجی دستہ کا کسی کو امیر بنا کر بھیجتے تو خاص کر اس کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی اور جو مسلمان اس کے ساتھ جا رہے ہوں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی وصیت فرماتے تھے۔ پھر فرماتے تھے کہ اللہ کا نام لے کر اللہ کی راہ میں جہاد کرو جو شخص اللہ کو نہ مانتا ہو اس سے جنگ کرنا مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا اور غدر نہ کرنا اور کسی کا مثلہ نہ کرنا اور کسی بچہ کو قتل نہ کرنا۔ بعض روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ جہاد کے موقعہ پر ایک عورت مقتولہ پائی گئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا علم ہوا، آپ نے عورتوں اور بچوں کے قتل کرنے کی ممانعت فرمائی۔ (صحیح مسلم ج ٢ صفحہ ٨٤)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

363 ربط۔ دوسرے حصہ میں پہلے تین امور انتظامیہ بیان فرمائے کیونکہ نظم ونسق اور اتحاد باہمی کے بغیر جہاد ناممکن ہے۔ پھر ایک اور امر مصلح بیان فرمایا کہ باطن کی صفائی ہو اور امور انتظامیہ پر بخوشی عمل کیا جاسکے اب آگے اصل مضمون کا ذکر ہے یعنی امر قتال اور یہ قتال محض اللہ کی توحید کو بلند کرنے کے لیے ہے۔ مسلمانوں نے مکہ میں پورے تیرہ برس انتہائی مظلومیت کی حالت میں گذارے۔ مشرکین کی طرف سے ہر قسم کی ایذائیں اور تکلیفیں برداشت کیں۔ آخر مدینہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے مگر دشمنوں نے وہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بھی اپنی مدافعت کے لیے جنگ کرنے کی اجازت دیدی۔ لیکن ساتھ ہی تین شرطیں بھی عائد فرما دیں۔ اول یہ کہ لڑائی میں پہل نہ کریں اور صرف اس صورت میں لڑیں جبکہ کفار خود لڑائی کا آغاز کریں۔ ظاھرہ من یناجزکم القتال ابتداء او دفعاً عن الحق (بحر ص 65 ج 2) دوم لڑائی صرف انہیں سے کی جائے جو میدان جنگ میں تم سے لڑ رہے ہیں یا دشمن کو کمک پہنچا رہے ہیں یا انہیں جنگ کی تدبیریں بتا رہے ہیں۔ اور جو لوگ لڑائی میں کسی قسم کا حصہ نہیں لے رہے ان سے تعرض نہ کیا جائے یہ دونوں شرطیں۔ الذین یقاتلونک سے مفہوم ہیں تیسری شرط ولا تعتدوا کہ حد سے تجاوز نہ کرو۔ اس کے متعلق حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کا قول ہے۔ لا تقال من لا یقاتلک یعنی النساء والصبیان والرھبان (ابن جریر ص 107 ج 2) یعنی جو لوگ لڑنے کے قابل نہیں یا لڑائی میں شریک نہیں ہیں مثلاً عورتیں، بچے اور ان کے مذہبی رہنما وغیرہ انہیں مت قتل کرو۔ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۔ (اللہ کی راہ میں) یہاں سبیل سے مراد اللہ کا دین اور اس کی توحید ہے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے دین کو عزت حاصل ہو اور کلمۂ توحید سربلند ہو۔ ای جاھدوالاعزاز الدین واعلاء کلمته (روح ص 74 ج 2) اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ ۔ یہ حکم ماقبل کی علت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ مقررہ حدود سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اور تم بھی اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو نقص عہد اور عہد شکنی کے مرتکب ہوتے ہوئے تم سے لڑیں اور دیکھو حد سے تجاوز نہ کرنا کہ کہیں ان کے نقص عہد کے بغیر ان سے لڑنے لگو کیونکہ اللہ تعالیٰ حد سے شرح سے تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا اور پسند نہیں کرتا۔ (تیسیر) بعض لوگوں نے اس کو جہاد کی پہلی آیت قرار دیا ہے لیکن اس میں اقدام کی شرط ہے پھر آگے کی آیت سے جو مطلقاً قتال کا حکم دیتی ہے اس کو منسوخ ٹھہرایا ہے لیکن فقیر کے نزدیک محقق قول یوں ہے کہ ان آیتوں میں ایک مخصوص واقعہ کی طرف اشارہ ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ 6؁ھ کے ذیقعدہ میں جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرے کا ارادہ کیا اور مکہ تک پہنچ گئے تو کفار مکہ نے آپکو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا اور لڑنے پر آمادہ ہوگئے۔ چنانچہ وہاں ایک صلح نامہ لکھا گیا جس کا نام صلح حدیبیہ ہے اس صلح نامہ میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ اس سال مسلمان بغیر عمرہ کئے واپس چلے جائیں اور آئندہ سال آئیں تو ہم ان کو عمرہ ادا کرنے دیں گے۔ چنانچہ اس معاہدہ کے بعد مسلمان واپس چلے گئے معاہدہ کی تفصیل تو انشاء اللہ سورة فتح میں آئے گی اور احصار کے چند مسائل ابھی چند آیتوں کے بعد آتے ہیں اس سال واپس ہونے کے بعد جب آئندہ مسلمانوں نے عمرہ کی قضا کا ارادہ کیا تو کفا رکی شرارت سے یہ خیال داسن گیر ہوا کہ کہیں امسال پھر انہوں نے روکا اور لڑنے پر آمادہ ہوگئے تو ہماری کیا حیثیت ہوگی۔ حرم میں قتال کا حکم نہیں اسی طرح اشہر حرم ذیقعدہ ، ذی الحجہ، محرم اور رجب ان چار مہینوں میں بھی لڑنے کا حکم نہیں تو ان حالات میں ہم کو کیا کرنا ہوگا اس پر یہ احکام نازل کئے گئے یہ ہوسکتا ہے کہ جنگ کرنے کی یہ پہلی اجازت ہو اور ہوسکتا ہے کہ جنگ کرنے کی اجازت اور جہاد کے حکم کی پہلی آیت سورة حج کی ـاٰیت اذن للذین یقتلون ہو جو شان نزول ہم نے عرض کیا ہے اس کی روشنی میں آ یتوں کے ترجمہ کو پڑھناچاہئے کہ اس وقت کفار مکہ ایک معاہد قوم ہیں مسلمان معاہدے کی رو سے عمرے کی قضا کرنے کو جاناچاہتے ہیں خطرہ یہ ہے کہ کفار عہد کی خلاف ورزی کریں تو کیا ہو۔ ادھر حرم کعبہ کا احترام ، پھر اشہر حرم کی حرمت، پھر معاہدہ ان سب باتوں کے پیش نظر ان آیتوں کو سمجھا جائے تو انشاء اللہ کوئی دشواری نہ ہوگی فی سبیل اللہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد اور اس کے کلمہ کی بلندی اور اس کی رضا جوئی مقصود ہو۔ جیسا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) کی روایت میں ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا یا رسول اللہ ! ایک شخص اپنی شجاعت اور بہادری کی وجہ سے لڑتا ہے ایک شخص اپنی حمیت اور اپنی بات کی پچ پر لڑتا ہے ایک آدمی لوگوں کے دکھانے کو لڑتا ہے ان میں کون سی لڑائی فی سبیل اللہ ہوگی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا من قاتل لتکون کلمۃ اللہھی العلیا کہ ان لڑائیوں میں تو کوئی بھی فی سبیل اللہ نہیں ہے فی سبیل اللہ تو صرف اس شخص کی جنگ ہے جو صرف اس غرض کے لئے جنگ کرے کہ اللہ تعالیٰ کی بات اور اس کا دین اونچا ہوجائے اور یہ جو فرمایا جو تم سے لڑیں یہ اس بنا پر کہ ابھی کفار عرب کے عام قتل کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، یہ احکام بعد میں نازل ہوئے کہ جزیرۃ العرب میں ان کفار کو بسنے ہی نہ دو ۔ جیسا کہ آگے آتا ہے یا یہ لوگ اسلام قبول کرلیں یا قتل کردئیے جائیں ان کفار عرب سے جزیہ بھی نہ قبول کیا جائے غرض ان کو یہاں جب تک یہ اسلام قبول نہ کریں رہنے ہی نہ دیا جائے حد سے تجاوز نہ کرنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ ان کی عہد شکنی کے بدول ان سے قتال نہ کرو جو لوگ آیت کو ابتدائی جہاد کی فرضیت کے لئے قرار دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ تم سے نہ لڑیں مثلاً بڈھے، بیمار، بچے عورتیں، دیوانے اور وہ جو تم کو امن کا پیغام دے دیں اور وہ فقیر فقراء جو راہب خانوں میں رہتے ہوں اور اپاہج لوگ یہ مستثنیٰ ہیں ان کو قتل نہ کیا جائے کیونکہ یہ لڑنے والے نہیں ہیں اگر کوئی ان کو قتل کرے گا تو وہ حد سے تجاوز کرنے والا ہوگا اور احضر نے جو محققین کا قول نقل کیا ہے اس تقدیر پر ولا تعتدوا کا مطلب یہ ہے کہ تم خود اپنی طرف سے عہد شکنی کرکے ان کے قتل میں پہل نہ کرنا کیونکہ یہ اعتدا ہے مگر ہاں جب وہ عہد شکنی کرکے تم سے لڑنے پر آمادہ ہوجائیں تو پھر تم کوتاہی نہ کرنا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حج کے ساتھ یہ مذکور بھی ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت شہر مکہ جائے امن تھا اگر یہاں دشمن کو دشمن پا تو بھی کچھ نہ کہتا اور حج کے اول و آخر میں تین مہینے ذیقعد، ذی الحجہ، محرم اور چوتھا رجب کہ وہ بھی وقت زیارت تھا یہ چار مہینے وقت امان تھے کہ تمام ملک عرب میں راہیں ج اری ہوتیں اور لڑائی موقوف رہتی۔ اللہ تعالیٰ ان کا حکم فرماتا ہے ان بیچ میں اور بھی لڑائی کے حکم اور جہاد کے آداب فرماتا ہے یہ جو فرمایا کہ زیادتی نہ کرو اس کے معنی یہ کہل ڑائی میں لڑکے اور عورتیں اور بوڑھے قصداً نہ مارئیے لڑنے والوں کو مارئیے۔ (موضح القرآن) ہم نے اوپر خلاصہ عرض کردیا ہے شاہ صاحب (رح) کے حاشیہ پر کچھ عر ض کرنے کی ضرورت نہیں مزید تفصیل مطلوب ہو تو روح البیان اور روح المعانی ملاحظہ کیجئے۔ ( تسہیل )