Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 191

سورة البقرة

وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡہُمۡ وَ اَخۡرِجُوۡہُمۡ مِّنۡ حَیۡثُ اَخۡرَجُوۡکُمۡ وَ الۡفِتۡنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الۡقَتۡلِ ۚ وَ لَا تُقٰتِلُوۡہُمۡ عِنۡدَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوۡکُمۡ فِیۡہِ ۚ فَاِنۡ قٰتَلُوۡکُمۡ فَاقۡتُلُوۡہُمۡ ؕ کَذٰلِکَ جَزَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۱۹۱﴾

And kill them wherever you overtake them and expel them from wherever they have expelled you, and fitnah is worse than killing. And do not fight them at al-Masjid al- Haram until they fight you there. But if they fight you, then kill them. Such is the recompense of the disbelievers.

انہیں مارو جہاں بھی پاؤ اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے اور ( سنو ) فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے اور مسجد حرام کے پاس ان سے لڑائی نہ کرو جب تک کہ یہ خود تم سے نہ لڑیں ، اگر یہ تم سے لڑیں تو تم بھی انہیں مارو کا فروں کا بدلہ یہی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ... And kill them wherever you find them, and turn them out from where they have turned you out. And Al-Fitnah is worse than killing. Since Jihad involves killing and shedding the blood of men, Allah indicated that these men are committing disbelief in Allah, associating with Him (in the worship) and hindering from His path, and this is a much greater evil and more disastrous than killing. Abu Malik commented about what Allah said: وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ (And Al-Fitnah is worse than killing), "meaning what you (disbelievers) are committing is much worse than killing." Abu Al-Aliyah, Mujahid, Sa`id bin Jubayr, Ikrimah, Al-Hasan, Qatadah, Ad-Dahhak and Ar-Rabi bin Anas said that what Allah said: وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ (And Al-Fitnah is worse than killing), "Shirk (polytheism) is worse than killing." Fighting in the Sacred Area is prohibited, except in Self-Defense Allah said: ... وَلاَ تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ... And fight not with them at Al-Masjid Al-Haram (the sanctuary at Makkah). It is reported in the Two Sahihs that the Prophet said: إنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّموَاتِ وَالاَْرْضَ فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللهِ إِلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ Allah has made this city a sanctuary since the day He created the heavens and the earth. So, it is a sanctuary by Allah's decree till the Day of Resurrection. وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلاَّ سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ وَإِنَّهَا سَاعَتِي هذِهِ حَرامٌ بحُرْمَةِ اللهِ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ Fighting in it was made legal for me only for an hour in the daytime. So, it (i.e., Makkah) is a sanctuary, by Allah's decree, from now on until the Day of Resurrection. لاا يُعْضَدُ شَجَرُهُ وَلاَ يُخْتَلىَ خَلَهُ Its trees should not be cut, and its grass should not be uprooted. فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ بِقِتَالِ رَسُولِ اللهِصلى الله عليه وسلّم فَقُولُوا إنَّ اللهَ أَذِنَ لِرَسُولِهِ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُم If anyone mentions the fighting in it that occurred by Allah's Messenger, then say that Allah allowed His Messenger, but did not allow you. In this Hadith, Allah's Messenger mentions fighting the people of Makkah when he conquered it by force, leading to some deaths among the polytheists in the area of the Khandamah. This occurred after the Prophet proclaimed: مَنْ أَغْلَقَ بَابَهُ فهُوَ امِنٌ وَمَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَهُو امِنٌ ومَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ امِن Whoever closed his door is safe. Whoever entered the (Sacred) Mosque is safe. Whoever entered the house of Abu Sufyan is also safe. Allah said: ... حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ كَذَلِكَ جَزَاء الْكَافِرِينَ ...unless they (first) fight you there. But if they attack you, then kill them. Such is the recompense of the disbelievers. Allah states: `Do not fight them in the area of the Sacred Mosque unless they start fighting you in it. In this case, you are allowed to fight them and kill them to stop their aggression.' Hence, Allah's Messenger took the pledge from his Companions under the tree (in the area of Al-Hudaybiyyah) to fight (the polytheists), after the tribes of Quraysh and their allies, Thaqif and other groups, collaborated against the Muslims (to stop them from entering Makkah to visit the Sacred House). Then, Allah stopped the fighting before it started between them and said: وَهُوَ الَّذِى كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ And He it is Who has withheld their hands from you and your hands from them in the midst of Makkah, after He had made you victors over them. (48:24) and, وَلَوْلاَ رِجَالٌ مُّوْمِنُونَ وَنِسَأءٌ مُّوْمِنَـتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَيُوهُمْ فَتُصِيبَكمْ مِّنْهُمْ مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ لِّيُدْخِلَ اللَّهُ فِى رَحْمَتِهِ مَن يَشَأءُ لَوْ تَزَيَّلُواْ لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْهُمْ عَذَاباً أَلِيماً Had there not been believing men and believing women whom you did not know, that you may kill them and on whose account a sin would have been committed by you without (your) knowledge, that Allah might bring into His mercy whom He wills ـ if they (the believers and the disbelievers) had been apart, We verily, would have punished those of them who disbelieved with painful torment. (48:25) Allah's statement: فَإِنِ انتَهَوْاْ فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

191۔ 1 مکہ میں مسلمان چونکہ کمزور اور منتشر تھے اس لئے کفار سے قتال ممنوع تھا ہجرت کے بعد مسلمانوں کی ساری قوت مدینہ میں جمع ہوگئی تو پھر ان کو جہاد کی اجازت دے دی گئی۔ ابتداء میں آپ صرف انہی سے لڑتے جو مسلمانوں سے لڑنے میں پہل کرتے اس کے بعد اس میں مزید توسیع کردی گئی اور مسلمانوں نے حسب ضرورت کفار کے علاقوں میں بھی جا کر جہاد کیا قرآن کریم نے (اَعْندَا) زیادتی کرنے سے منع فرمایا اس لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے لشکر کو تاکید فرماتے کہ خیانت، بد عہدی اور مثلہ نہ کرنا نہ بچوں اور عورتوں اور گرجوں میں مصروف عبادت کرنے والوں کو قتل کرنا۔ اسی طرح درختوں کو جلانے اور حیوانات کو بغیر کسی مصلحت کے مارنے سے بھی منع فرمایا (ابن کثیر) ۔ جس طرح کفار نے تمہیں مکہ سے نکالا تھا اسی طرح تم بھی ان کو مکہ سے نکال باہر کرو۔ چناچہ فتح مکہ کے بعد جو لوگ مسلمان نہیں ہوئے انہیں مدت معاہدہ ختم ہونے کے بعد وہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا۔ فتنہ سے مراد کفر و شرک ہے یہ قتل سے بھی زیادہ سخت ہے اس لیے اس کو ختم کرنے کے لیے جہاد سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ 191۔ 2 حدود حرم میں قتال منع ہے لیکن اگر کفار اس کی حرمت کو ملحوظ نہ رکھیں اور تم سے لڑیں تو تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥٢] اب جہاں بھی موقع پیش آئے تم ان سے لڑائی کرو اور تمہارا مطمح نظر یہ ہونا چاہیے کہ جیسے انہوں نے اسلام لانے کی وجہ سے تمہیں مکہ سے نکالا تھا۔ تم بھی ان کو ان کے مشرک ہونے اور مشرک رہنے کی وجہ سے مکہ سے نکال کے دم لو، اور یہ ادلے کا بدلہ ہے۔ [٢٥٣] فتنہ کا لفظ عربی زبان میں بڑے وسیع مفہوم اور کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً مشرکین مکہ کا بیت اللہ کا متولی ہونا اور بیت اللہ میں بت رکھنا، مسلمانوں کو بیت اللہ میں نماز ادا کرنے، حتیٰ کہ داخل ہونے سے روکنا یہ سب فتنہ کے کام ہیں گویا یہاں فتنہ سے مراد مشرکین مکہ کی ہر وہ حرکت ہے جو انہوں نے دین اسلام کو روکنے کی خاطر کی تھی۔ مثلاً مسلمانوں پر ظلم و ستم اور جبر و استبداد، انہیں دوبارہ کفر پر مجبور کرنا، اگر وہ ہجرت کر جائیں تو ان کا پیچھا نہ چھوڑنا اور بعد میں ان کے اموال و جائیداد کو غصب کرلینا وغیرہ وغیرہ یہی سب باتیں فتنہ میں شامل ہیں۔ ایسی تمام باتوں کے سدباب کے لیے جہاد کرنا ضروری قرار دیا گیا۔ [٢٥٤] یعنی مکہ جائے امن ضرور ہے لیکن اگر وہ یہاں تم سے لڑائی کریں تو جوابی کاروائی کے طور پر تم بھی کرسکتے ہو۔ ازخود لڑائی کی ابتداء مکہ میں تمہاری طرف سے نہ ہونا چاہیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ فتح کیا اور ٩ ہجری میں ابوبکر صدیق (رض) کو امیر حج بنا کر بھیجا اور انھیں سورة توبہ میں مذکور اعلان کرنے کا حکم دیا جس کے مطابق مشرکین کو چار ماہ تک مکہ میں اور سرزمین عرب میں چلنے پھرنے کی اجازت دی گئی، اس کے بعد مسلمان نہ ہونے کی صورت میں وہ جہاں ملیں انھیں قتل کرنے کا حکم دے کر جزیرۂ عرب سے نکال دیا گیا۔ دیکھیے سورة توبہ کی پہلی پانچ آیات۔ پھر یہود کو بھی پہلے مدینہ سے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصیت کے مطابق عمر (رض) کے زمانے میں سر زمین عرب سے نکال دیا گیا۔ یہ سب اسی ” اَخْرِجُوْھُمْ “ کے حکم کی تعمیل تھی۔ الْفِتْنَةُ اس کا اصل معنی آزمائش میں ڈالنا ہے، مفسرین سلف نے اس کا معنی شرک کیا ہے اور (وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ ) کی تفسیر دو طرح سے کی ہے، ایک تو یہ کہ بیشک مشرکین کو قتل کرنے کا حکم بڑی سخت بات ہے، مگر وہ جس طرح شرک پر اڑے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کر کے انھیں دوبارہ مشرک بنانے کے لیے ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہے ہیں، ان کا یہ شرک کرنا اور مسلمانوں کو اس پر مجبور کرنا اس سے بھی سخت جرم ہے۔ لہٰذا اس جرم کی پاداش میں کسی اندیشے اور سوچ بچار کے بغیر انھیں بےدریغ قتل کرو، یہاں تک کہ اللہ کا دین اتنا غالب ہوجائے کہ کسی کو مسلمان ہونے والے شخص پر ظلم و ستم کرکے اسے دین سے برگشتہ کرنے کی جرأت باقی نہ رہے۔ دوسرا معنی امام طبری (رض) نے یہ کیا ہے کہ کسی مومن کو اسلام قبول کرنے پر آزمائش میں ڈالنا، یہاں تک کہ وہ اسلام سے برگشتہ ہو کر دوبارہ مشرک بن جائے، اس مومن کے لیے اس سے زیادہ تکلیف دہ اور نقصان دہ ہے کہ وہ اسلام پر قائم رہتا اور اسی پر قتل ہوجاتا (کیونکہ قتل تو ایک ہی دفعہ ہوجاتا ہے، جب کہ کفار کی طرف سے سزا اور عذاب کا سلسلہ جاری رہتا ہے) ۔ ( طبری) مجاہد (رح) کے الفاظ یہ ہیں کہ مومن کا بت پرستی کی طرف لوٹ جانا اس پر قتل ہونے سے بھی زیادہ سخت ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ بیشک ان کفار کو قتل کرنا بڑی سخت بات ہے، مگر جو معاملہ وہ مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں وہ ان کے لیے قتل ہوجانے سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے، تو مسلمانوں کو قتل ہوجانے سے بھی بڑی تکلیف اور آزمائش میں مبتلا کرنے کے مقابلے میں مسلمانوں کا انھیں قتل کرنا کم سخت ہے۔ (وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ ) کے الفاظ میں دونوں معنی موجود ہیں اور یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے۔ (وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ ) یعنی سرزمین مکہ حرم ہے، اس میں قتل و قتال منع ہے، مگر کفار اس میں لڑنے کی ابتدا کریں تو تمہارے لیے بھی لڑنا جائز ہے، پھر اگر وہ لڑائی کریں تو پھر تم صرف قتال (لڑائی) ہی نہیں بلکہ انھیں قتل کرو، ایسے کافروں کی یہی جزا ہے۔ ” الْكٰفِرِيْنَ “ میں الف لام عہد کا ہے، اس لیے ترجمہ ” ایسے کافروں “ کیا گیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

As already explained briefly in the opening remarks, the verse 191, that is, وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِ‌جُوهُم (And kill them; wherever you find them and drive them out from where they drove you out...), was revealed after the happening at Hudaybiyyah حُدیبیہ at a time when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) decided, in accordance with the condition agreed upon in the Peace Treaty of Hudaybiyyah حُدیبیہ ، to embark on a journey to Makkah to perform the qada& قضاء of ` Umrah along with his Companions, something he was stopped from doing a year before by the disbelievers of Makkah. The noble Companions (رض) ، on the eve of this projected journey, had started to worry about the disbelievers who could not be trusted upon in a peace treaty. If they chose to be aggressive, as they did a year before, what option are they going to take? Thereupon, the words used in the present verse gave them the permission to meet the challenge of their aggression and kill them where they find them. And if they could, it was permissible for them to drive the disbelievers out from where they had driven the believers out. Since Muslims, during their entire Makkan period, were made to stay away from fighting against the disbelievers and were repeatedly asked to forego and forgive, so much so, that the noble Companions were, before the revelation of this verse, under the impression that killing disbelievers was bad, and prohibited. It was to remove this misconception that it was said: وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ |"And Fitnah فِتْنَہ is more severe than to kill,|" that is, it is true that to kill someone is a terribly evil act, but more terrible and severe is what the disbelievers of Makkah have done by insisting on their kufr and shirk شرک (infidelity and the associating of others with Allah) and by stopping Muslims from fulfilling their religious obligations, and from performing Hajj and ` Umrah. It is to avoid this greater evil that killing them has been permitted. The word, Fitnah فِتْنَہ in the verse (not translated for want of a perfect equivalent in English) inescapably means kufr کفر and shirk شرک and to prevent Muslims from fulfilling their religious obligations of ` ibadah.(Jassas, Qurtubi and others) Since the generality of the words &kill them wherever you find them& might lead to the misconception that killing the disbelievers is allowed even in the precincts of Haram, this generality has been particularized in the next sentence of the verse by saying: وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ And do not fight them near Al-Masjid al-Haram unless they fight you there. That is, &you should not fight them close to Al-Masjid al-Haram, which includes all its environs in Makkah, unless they themselves start fighting you there.& Rulings 1. In the Haram حرم (the sacred precincts) of Makkah, it is just not permissible to kill even a bird or animal, let alone the human beings. However, this same verse tells us that in the event someone starts killing somebody else within the sacred precincts, then, that other person is permitted to fight back in defence. There is a consensus of the jurists on this point. 2. It also comes out from this verse that the prohibition of initiating Jihad جھاد or Qital قتال is restricted to Al-Masjid al-Haram المسجد الحرام and its environs to which the sacred precincts extend in Makkah. At other places, just as the defensive Jihad جھاد is necessary, the initiating of Jihad جھاد and Qital قتال is also valid.

وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ خلاصہ تفسیر میں بیان ہوچکا ہے کہ آیت واقعہ حدیبیہ کے بعد اس وقت نازل ہوئی ہے جب صلح حدیبیہ کی شرط کے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کے ساتھ اس عمرہ کی قضاء کے لئے سفر کا ارادہ کیا جس سے اس سے پہلے سال میں کفار مکہ نے روک دیا تھا صحابہ کرام (رض) اجمعین کو اس سفر کے وقت یہ خیال ہو رہا تھا کہ کفار کی صلح اور معاہدہ کا کچھ بھروسہ نہیں اگر وہ لوگ اس سال بھی آمادہ پیکار ہوگئے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے اس پر آیت مذکورہ کے الفاظ نے ان کو اجازت دے دی کہ اگر وہ قتال کرنے لگیں تو تمہیں بھی اجازت ہے کہ جہاں پاؤ ان کو قتل کرو اور اگر قدرت میں ہو تو جس طرح انہوں نے مسلمانوں کو مکہ مکرمہ سے نکال دیا تھا تم بھی ان کو مکہ سے نکال دو ۔ اور پوری مکی زندگی میں جو مسلمانوں کو کفار کے ساتھ مقاتلہ سے روکا ہوا تھا اور ہمیشہ عفو و درگذر کی تلقین ہوتی رہی تھی اس لئے صحابہ کرام کو اس آیت کے نازل ہونے سے یہی خیال تھا کہ کسی کافر کو قتل کرنا برا اور ممنوع ہے اس خیال کے ازالہ کے لئے فرمایا والْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ یعنی یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ کسی کو قتل کرنا سخت برا کام ہے مگر کفار مکہ کا اپنے کفر و شرک پر جما رہنا اور مسلمانوں کو ادائے عبادت حج وعمرہ سے روکنا اس سے زیادہ سخت وشدید ہے اس سے بچنے کے لئے ان کو قتل کرنے کی اجازت دے دیگئی ہے آیت میں لفظ فتنہ سے کفر و شرک اور مسلمانوں کو ادائے عبادت سے روکنا ہی مراد ہے (جصاص، قرطبی وغیرہ) البتہ اس آیت کے عموم سے جو یہ سمجھا جاسکتا تھا کہ کفار جہاں کہیں ہوں ان کا قتل کرنا جائز ہے اس عموم کی ایک تخصیص آیت کے اگلے جملے میں اس طرح کردی گئی وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ یعنی مسجد حرام کے آس پاس جس سے مراد پورا حرم مکہ ہے اس میں تم ان لوگوں سے اس وقت تک قتال نہ کرو جب تک وہ خود قتال کی ابتداء نہ کریں۔ مسئلہ : حرم مکہ میں انسان کیا کسی شکاری جانور کو بھی قتل کرنا جائز نہیں لیکن اسی آیت سے معلوم ہوا کہ اگر حرم محترم میں کوئی آدمی دوسرے کو قتل کرنے لگے تو اس کو بھی مدافعت میں قتال کرنا جائز ہے اس پر جمہور فقہاء کا اتفاق ہے۔ مسئلہ : اسی آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ابتداء جہاد و قتال کی ممانعت صرف مسجدِحرام کی آس پاس حرم مکہ کے ساتھ مخصوص ہے دوسرے مقامات میں جیسے دفاعی جہاد ضروری ہے اسی طرح ابتدائی جہاد و قتال بھی درست ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۝ ٠ ۚ وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْہِ۝ ٠ ۚ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ۝ ١٩١ حيث حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة/ 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة/ 149] . ( ح ی ث ) حیث ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة/ 144] اور تم جہاں ہوا کرو ثقف الثَّقْفُ : الحذق في إدراک الشیء وفعله، ومنه قيل : رجل ثَقِفٌ ، أي : حاذق في إدراک الشیء وفعله، ومنه استعیر : المُثَاقَفَة ورمح مُثَقَّف، أي : مقوّم، وما يُثَقَّفُ به : الثِّقَاف، ويقال : ثَقِفْتُ كذا : إذا أدركته ببصرک لحذق في النظر، ثم يتجوّز به فيستعمل في الإدراک وإن لم تکن معه ثِقَافَة . قال اللہ تعالی: وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ [ البقرة/ 191] ، وقال عزّ وجل : فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ [ الأنفال/ 57] ، وقال عزّ وجل : مَلْعُونِينَ أَيْنَما ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا [ الأحزاب/ 61] . ( ث ق ف ) الثقف ( س ک ) کے معنی ہیں کسی چیز کے پالینے یا کسی کام کے کرنے میں حذا وقت اور مہارت سی کام لینا ۔ اسی سے المثاقفۃ کا لفظ مستعار ہے ( جس کے معنی ہتھیاروں کے ساتھ باہم کھیلنے کے ہیں اور سیدھے نیزے کو رمح مثقف کہا جاتا ہو ۔ اور الثقاف اس آلہ کو کہتے ہیں جس سے نیزوں کو سیدھا کیا جاتا ہے ثقفت کذا کے اصل معنی مہارت نظر سے کسی چیز کا نگاہ سے اور اک کرلینا کے ہیں ۔ پھر مجاذا محض کسی چیز کے پالینے پر بولا جاتا ہے خواہ اسکے ساتھ نگاہ کی مہارت شامل ہو یا نہ ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ [ البقرة/ 191] اور ان کو جہان پاؤ قتل کردو ۔ فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ [ الأنفال/ 57] اگر تم ان کو لڑائی میں پاؤ ۔ مَلْعُونِينَ أَيْنَما ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا [ الأحزاب/ 61] . پھٹکارے ہوئے جہاں پائے گئے پکڑے گئے ۔ اور جان سے مار ڈالے گئے ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ شد الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء : قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] ، ( ش دد ) الشد یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ مَسْجِدُ : موضع الصلاة اعتبارا بالسجود، وقوله : وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن/ 18] ، قيل : عني به الأرض، إذ قد جعلت الأرض کلّها مسجدا وطهورا کما روي في الخبر وقیل : الْمَسَاجِدَ : مواضع السّجود : الجبهة والأنف والیدان والرّکبتان والرّجلان، وقوله : أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل/ 25] أي : يا قوم اسجدوا، وقوله : وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف/ 100] ، أي : متذلّلين، وقیل : کان السّجود علی سبیل الخدمة في ذلک الوقت سائغا، وقول الشاعر : وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِعنی بها دراهم عليها صورة ملک سجدوا له . المسجد ( ظرف ) کے معنی جائے نماز کے ہیں اور آیت وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن/ 18] اور مسجدیں تو خدا ہی ( کی عبادت کے لئے ہیں ) میں بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے روئے زمین مراد ہے کیونکہ آنحضرت کے لئے تمام زمین کو مسجد اور طھور بنایا گیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں مروی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے اعضاء سجود یعنی پیشانی ناک دونوں ہاتھ دونوں زانوں اور دونوں پاؤں مراد ہیں اور آیت : ۔ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل/ 25]( اور نہیں سمجھتے ) کہ اللہ کو ۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ کیوں نہ کریں ۔ میں لا زائدہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ میری قوم اللہ ہی کو سجدہ کرو ۔ اور آیت : ۔ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف/ 100] اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے ۔ میں اظہار عاجزی مراد ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ مراد سجدہ خدمت ہے جو اس وقت جائز تھا اور شعر ( الکامل ) وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِمیں شاعر نے وہ دراھم مراد لئے ہیں جن پر بادشاہ کی تصویر ہوتی تھی اور لوگ ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے ۔ حَتَّى حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] . ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع، وفي كلّ واحد وجهان : فأحد وجهي النصب : إلى أن . والثاني : كي . وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي : مشیت فدخلت البصرة . والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي : «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

ارشاد باری (واقتلوھم حیث تقفتموھم واخرجوھم من حیث اخرجو کم) میں ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ مشرکین جہاں کہیں بھی قابو میں آ جائیں انہیں نہ چھوڑو بلکہ ا ن کی گردنیں اڑا دو یہ حکم تمام مشرکین سے جنگ کرنے کے متعلق عام ہے۔ خواہ وہ ہم سے برسر پیکار ہوں یا نہ ہوں البتہ وہ جنگ میں حصہ لینے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ اس لئے کہ عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت ایک متفقہ مسئلہ ہے نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گرجا گھروں کے باسیوں کو بھی قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اگر ارشاد باری (وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم) سے مراد ہم سے جنگ کرنے والوں سے جنگ کرنا ہے اور جو جنگ کے قابل نہیں ان سے ہاتھ روکنا ہے اور قول باری (ولا تعتدوا ان اللہ لایحب المعتدین ) میں ان لوگوں سے جنگ کرنے کی ممانعت ہے جو ہم سے جنگ نہیں کرتے تو لامحالہ اس آیت کو قول باری (واقتلوھم حیث ثقفتموھم) کی وجہ سے منسوخ ماننا پڑے گا اس لئے کہ اس آیت میں ان لوگوں کو قتل کرنے کا حکم ہے جن کے قتل کی پہلی آیت میں ممانعت تھی اور (ولا تعبدوا) میں اعتداد کا اس جگہ مفہوم جنگ نہ کرنے والوں سے جنگ کرنا ہوگا اور قول باری (اخرجوھم من حیث اخرجوکم) کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تمہارے لئے ممکن ہو تو ان مشرکین کو مکہ سے نکال دو ۔ اس لئے کہ ان مشرکین نے مسلمانوں کو مکہ میں اس قدر تکلیفیں دیں کہ انہیں وہاں سے نکلنے پر مجبور ک ردیا۔ اس طرح یہ مشرکین مسلمانوں کو نکالنے والے بن گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (واذیمکربک الذین کفروا لیتبتوک اویقتلوک او یخرجوک ) اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ منکرین حق آپ کے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کردیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کردیں) پھر جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر قتال فرض کردیا تو انہیں یہ حکم دیا کہ ان منکرین حق کو طاقت کے ذریعے مکہ سے نکال دیں ۔ کیونکہ مسلمانوں کو مکہ کے اندر جنگ سے منع کردیا گیا تھا۔ الا یہ کہ مشرکین مکہ میں بھی جنگ پر کمر بستہ ہوجائیں۔ اس صورت میں قول باری (واقتلوھم حیث ثقفتموھم) تمام مشرکین کے متعلق ایک عام حکم ہوگا۔ البتہ اس حکم سے وہ مشرکین مستثنیٰ ہوں گے جو مکہ میں رہتے ہوں۔ ان کو مکہ سے نکال دینے کا حکم دیا گیا تھا۔ ان میں سے صرف ان لوگوں کے خلاف جنگ کی اجازت تھی جو جنگ پر کمربستہ ہوجاتے۔ اس کی دلیل خطاب کے تسلسل میں وہ ارشاد باری ہے جس میں فرمایا گیا کہ (ولا تقاتلوھم عند المسجد الحرام حتی یقاتلو کم فیہ) اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ قول باری (واقتلوھم حیث ثقفتموھم) ان مشرکین کے متعلق ہے جو مکہ کے سوا دوسری جگہوں پر رہنے والے تھے۔ ارشاد باری ہے (وائفتنہ اشد من القتل۔ قتل اگرچہ برا ہے لیکن فتنہ اس سے بھی زیادہ برا ہے) سلف کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ فتنہ سے مراد کفر ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ مشرکین مسلمانوں کو اذیتیں دے دے کر آزمائشوں میں مبتلا کرتے اور انہیں کفر پر مجبور کرتے تھے اور جب ایک صحابی حضرت واقد بن عبداللہ نے ماہ حرام یعنی رجب میں ایک مشرک عمرو بن الحضرمی کو قتل کردیا تھا تو مشرکین مسلمانوں کو طعنے دیتے تھے کہ محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نے ماہ حرام میں قتال کو حلال کردیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (والفتنۃ اشد من القتل) یعنی ان مشرکین کا کفر اور بلد حرام مکہ کے اندر اور ماہ حرام کے دوران مسلمانوں کو اذیتیں دینا ماہ حرام میں کسی کو قتل کردینے سے بڑھ کر گناہ اور سنگین جرم ہے۔ قول باری (ولاتقاتلوھم عند المسجد الحرام حتی یقاتلوکم فیہ) میں (حتی یقاتلوا کم فیہ) سے مراد یہ ہے کہ ان کے ہاتھوں سے تم میں سے کسی کا خون بہہ جائے جس طرح کہ قول باری (ولا تلمزوا انفسکم) میں مراد یہ ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی عیب جئوی نہ کرو۔ کیونکہ یہ کسی طرح بھی درست نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مشرکین کے قتل کا حکم دے جبکہ تمام مسلمان پہلے ان کے ہاتھوں قتل ہوجائیں۔ آیت سے یہ مفہوم مستفاد ہوتا ہے کہ مکہ میں ایسے شخص کے قتل پر پابندی ہے جس نے وہاں کسی کو قتل نہیں کیا۔ اس سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی مشرک حربی مکہ میں پناہ لے لے اور سا نے جنگ میں بھی شرکت نہ کی ہو تو اسے وہاں قتل نہیں کیا جاسکتا۔ آیت کے عموم سے یہ بھی استدلال کیا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو قتل کر کے مکہ میں پناہ لے لے تو اسے وہاں اس جرم میں قتل نہیں کیا جائے کیونکہ ہر قسم کے انسان کے قتل کی ممانعت کے حکم میں یہ فرق نہیں کیا گیا کہ کون وہاں کسی کو قتل کرنے کے بعد آگیا ہے اور کون اس کے بغیر آیا ہے۔ آیت کے مضمون سے یہ بات لازم ہوگئی کہ حرم میں ہم کسی کو بھی قتل نہیں کریں گے خواہ وہ حرم سے باہر سکی کو قتل کرنے کے بعد وہاں آگیا ہو یا اس کے بغیر وہاں داخل ہوگیا ہو۔ البتہ جس شخص نے حرم کے اندر کسی کا خون بہایا ہو اسے قصاص میں حرم کے اندر قتل کردیا جائے گا۔ کیونکہ قول باری ہے (فان قاتلوکم فاقتلوھم) اگر یہ کہا جائے کہ درج بالا آیت قول باری صوقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ ویکون الدین للہ، اور تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لئے ہوجائے) سے منسوخ ہوگئی ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب دونوں آیتوں پر عمل ممکن ہو تو نسخ ثابت نہیں ہوگا۔ خاص کر جب کہ اہل علم کے درمیان اس کے نسخ کے بارے میں اختلاف ہو۔ اس صورت مں (وقاتلوھم حتی لاتکو نفتنۃ) کا حکم غیر حرم کے لئے ہوگا، حرم میں پناہ لینے والے انسان خواہ وہ مجرم ہی کیوں نہ ہوں، کے قتل کی ممانعت کے سلسلے میں اس آیت کی نظیر قول باری ومن دخلہ کان امناً جو شخص بھی اللہ کے گھر میں داخل ہوگا وہ مامون ہوجائے گا) ہے یہ فقرہ قتل ہوجانے کے خوف سے امن کے معنی پر بھی حاوی ہے۔ اس لئے آیت سے مراد یہ ہوئی کہ جو شخص قتل کئے جانے کا مستحق تھا جب حرم میں داخل ہوگا تو داخل ہوتے ہی مامون ہوجائے گا۔ اسی طرح قول باری (واذ جعلنا لابیت مثابۃ للناس وامناً اور یاد کرو جبکہ ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا) بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ قتل کا مستحق شخص جب حرم میں پناہ لے لے گا تو وہ مامون ہوجائے گا اور وہاں پہنچتے ہی اس سے قتل کا حکم ٹل جائے گا۔ علاوہ ازیں اگر (وقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ ویکون الدین للہ) کا نزول سلسلہ خطاب کی ابتداء میں (ولاتقاتلوھم عند المسجد الحرام) کے ساتھ ہوتا تو بھی یہ درست نہ ہوتا کہ یہ موخر الذکر آیت کے لئے ناسخ بن جائے، اس لئے کہ نسخ اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک سابقہ حکم پر عمل کرنے کا موقعہ اور قدرت حاصل نہ ہوجائے۔ اس لئے ناسخ اور منسوخ دونوں کا ایک ہی سلسلہ خطاب میں پایا جانا درست نہیں ہے۔ اب جبکہ دونوں حسب تقاضائے سلسلہ تلاوت اور نظام تنزیل ایک ہی سلسلہ خطاب میں جمع ہوگئے ہیں تو اب کسی کے لئے یہ جائز نہ ہوگا کہ ان دونوں آیتوں کے نزول کی تاریخوں اور ان میں فاصلہ، زمانی کا نقل صحیح کے بغیر ثبوت پیش کرے جبکہ کسی کے لئے اس سلسلے میں سکی صحیح روایت کا دعویٰ کرنا ممکن ہی نہیں۔ صرف ربیع بن انس سے ایک قول منقول ہے کہ یہ آیت قول باری (وقاتلوھم حتی لاتکو نفتنۃ) سے منسوخ ہوگئی ہے۔ قتادہ کا قول ہے کہ یہ (فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم) سے مسنوخ ہوگئی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ قتادہ کی یہ اپنی رائے اور ایک تاویل ہو۔ اس لئے کہ قول باری (فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم) لامحالہ سورة بقرہ کے بعد نازل ہوا ہے۔ اس کے متعلق اہل نقل میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو نسخ پر دلالت کرتی ہو اس لئے کہ ان دونوں پر عمل ممکن ہے۔ وہ اس طرح کہ (فاقتلوا المشرکین) کو قول باری (ولا تقاتلوا ھم عند المسجد الحرام) پر مترب سمجھا جائے تو اس صورت میں معنی کے لحاظ سے فقرہ یوں بنے گاے ”(اقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم الاعنہ المسجد الحرام الا ان یقاتلوکم فیہ فان قاتلوکم فاقتلوھم “ (مشرکین کو جہاں کہیں بھی پائو قتل کرو ، مسجد حرام کے سوا) الایہ کہ وہ تم سے وہاں جنگ کریں۔ اگر وہ وہاں ایسا کریں پھر تم انہیں وہاں بھی قتل کرو۔ ) اس مفہوم پر حضرت ابن عباس ، حضرت ابو شریح خزاعی اور حضرت ابوہریرہ کی روایت کردہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا (ایھا الناس ان اللہ تعالیٰ حرم مکۃ یوم خلق السماوات والارض لم تحل لاحد قبلی ولا تحل لاحد بعدی وانما احلت لی ساعۃ من نھارثم عادت حراماً الی یوم القیامۃ اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے مکہ کو اس دن ہی حرمت کی جگہ بنادیا تھا جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کی تھی پھر اس کی حرمت نہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے اٹھائی گئی اور نہ میرے بعد کسی کے لئے اٹھائی جائے گی اور میرے لئے بھی ایک گھڑی بھر کے لئے اس کی حرمت اٹھائی گئی تھی اور پھر قیامت تک کے لئے اس کی حرمت لوٹ آئی ہے۔ بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ہیں (فان ترخم مترخص بقتال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فانما اھلت لی ساعۃ من نھار، اگر کوئی شخص اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جنگ کو دیکھتے ہوئے اس کی حرمت کے اٹھائے جانے کی گنجائش کا طلبگار ہو تو وہ سن لے کہ میرے لئے بھی اس کی حرمت گھڑی بھر کے لئے اٹھائی گئی تھی۔ ) اس حدیث کے ذریعے حرم میں قتال کی ممانعت ثابت ہوگئی۔ صرف اس صورت میں اس کا جواز رہ گیا کہ مشرکین مسلمانوں سے حرم میں ہی برسر پیکار ہوجائیں۔ عبداللہ بن ادریس نے محمد بن اسحق سے ، انہیں سعید بن ابی سعید المقبری نے ابوشریح خزاعی سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ اس میں یہ الفاظ آئے ہیں (وانما احل لی القتال بھا ساعۃ من نھار، میرے لئے بھی یہاں قتال دن کی ایک گھڑی کے لئے حلال کردیا گیا تھا) اس مفہوم پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ایک دوسری روایت بھی دلالت کرتی ہے کہ آپ نے اس دن خطبہ دیتے ہوئے جبکہ آپ کو اطلاع ملی کہ قبیلہ خزاعہ کے ایک شخص نے قبیلہ بذیل کے ایک شخص کو قتل کردیا ہے۔ فرمایا (ان اعت یالنسا علی اللہ ثلالۃ رجل قتل غیر فاتلہ و رجل قتل فی الحرم و رجل قتل بذحل الجاھلیۃ اللہ کے ہاں تین قسم کے لوگ سب سے زیادہ سرکش شمار ہوتے ہیں، پہلا وہ شخص جو اس شخص کو قتل کر ڈالے جو اس کا قاتل نہ ہو یعنی اس کے دل میں اسے قتل کرنے کی نیت نہ ہو محض شک کی بنا پر وہ اس پر ہاتھ اٹھالے دوسرا وہ جو حرم میں قتل کرے اور تیسرا وہ جو زمانہ جاہلیت کی دشمنی یا خون کے بدلے کی بنا پر زمانہ اسلام میں کسی کو قتل کرے۔ ) یہ حدیث حرم میں اس شخص کے قتل کی حرمت پر جس نے وہاں کوئی جرم قتل نہیں کیا دو طریقوں سے دلالت کرتی ہے ۔ اول یہ کہ حرم میں قتل کرنے والے کی عمومی انداز میں مذمت کی گئی ہے۔ دوم یہ کہ اس کے ساتھ اس شخص کے قتل کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو قتل کا مستحق نہیں تھا تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اس سے مراد اس شخص کا قتل ہے جو قتل کا مستحق ہوگیا لیکن حرم میں پناہ حاصل کرلی اور اس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتادیا کہ حرم میں جو شخص بھی آ کر پناہ لے لے اس کے قتل پر پابندی ہے ۔ ہم نے حرم میں پناہ لینے والے کے قتل کی ممانتع کے سلسلے میں جن آیات کی تلاوت کی ہے ان کی دلالت صرف قتل کی ممانتع تک محدود ہے۔ ان میں جان لینے سے کم کے جرم سے متعلق حکم پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے کہ قول باری (ولاتقتلوھم عند المسجد الحرام) صرف حکم قتلم پر مشتمل ہے۔ اسی طرح قول باری (ومن دخلہ کان امنا) اور قول باری (مثابۃ للناس و امناً ) کا ظاہری مفہوم قتل سے مامون ہونا ہے اور قتل کے سوا دوسری سزائوں سے امن کے حکم کا اس میں دخول کسی دلیل کی بنا پر ہوگا اس لئے کہ قول باری (ومن دخلہ) اور انسان کے لئے اسم ہے اور (کان امناً ) بھی اسی کی طرف راجع ہے۔ اس بنا پر آیت کا مقتضی یہ ہے کہ امن کا حکم انسا ن کے لئے ہے نہ کہ اس کے اعضاء کے لئے۔ اس کے باوجود اگر لفظ میں جا ناو جان سے کم یعنی اعضاء کے مفہوم کی گنجائش ہو تو ہم نے ان سے کم کی تخصیص دلیل کی بنا پر کی ہے اور جان کے متعلق لفظ کا حکم بحالہ باقی ہے۔ اب چونکہ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کسی شخص کے ذمے قرض کی رقمیں ہوں اور وہ بھاگ کر حرم میں چلا جائے تو اسے حرم میں قید کیا جاسکتا ہے اور حرم میں داخلے کی وجہ سے وہ قید سے بچ نہیں سکتا۔ اس پر قیاس کرتے ہوئے کوئی شخص اگر کسی کا کوئی ایسا حق لے کر جو جان سے کم ہو حرم میں داخل ہوجائے تو حرم کی وجہ سے وہ اس حق کے سلسلے میں سزا سے بچ نہیں سکتا۔ ارشاد باری (فان انتھوا فان اللہ غفور رحیم اگر یہ باز آ جائیں تو اللہ غفور رحیم ہے ) یعنی اگر یہ کفر سے باز آ جائیں تو ان کی اللہ تعالیٰ بخشش کر دے گا اس لئے کہ لفظ (فان انتھوا) شرط ہے جو اب شرط کا متقاضای ہے۔ آیت کی اس پر دلالت ہو رہی ہے کہ اگر کسی شخص نے قتل عمد کا ارتکاب کیا ہو تو اس کے لئے بھی توبہ کی گنجاش ہے کیونکہ کفر قتل سے زیادہ سنگین گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا ہے کہ وہ کفر سے توبہ کو قبول کرتا اور اس کا گناہ بھی معاف کردیتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩١۔ ١٩٢) اور اگر مشرکین قتال کی پہل کریں سو وہ جس مقام پر بھی ہوں ان کو قتل کردو اور مکہ مکرمہ سے ان کو نکال دو جس طرح کہ انہوں نے تمہیں نکالا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا اور بتوں کی پوجا کرنا، یہ تمام چیزیں حرم میں لڑائی کرنے سے زیادہ بدتر ہیں۔ اور حرم میں جب تک کہ کفار لڑائی کی پہل نہ کریں تم ان سے لڑائی نہ کرو اور اگر یہ پہل کریں تو تم بھی ایسا ہی کرسکتے ہو، قتل ہی ان کی سزا ہے لیکن اگر یہ کفر وشرک سے رک جائیں (یعنی ایمان اختیار کرکے مسلمان جماعت میں داخل ہوجائیں) اور توبہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ توبہ کو قبول فرمانے والا اور جو توبہ کی حالت پر انتقال کرجائے اس پر رحمت فرمانے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩١ (وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْہُمْ ) (وَاَخْرِجُوْہُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْکُمْ ) مہاجرین مکہ مکرمہ سے نکالے گئے تھے ‘ وہاں پرٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی اہل ایمان پر قافیہ حیات تنگ کردیا گیا تھا۔ تبھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت کی۔ اب حکم دیا جا رہا ہے کہ نکالو انہیں وہاں سے جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے۔ (وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ج ) ۔ کفار و مشرکین سے قتال کے ضمن میں کہیں یہ خیال نہ آئے کہ قتل اور خونریزی بری بات ہے۔ یاد رکھو کہ فتنہ اس سے بھی زیادہ بری بات ہے۔ فتنہ کیا ہے ؟ ایسے حالات جن میں انسان خدائے واحد کی بندگی نہ کرسکے ‘ اسے غلط کاموں پر مجبور کیا جائے ‘ وہ حرام خوری پر مجبور ہوگیا ہو ‘ یہ سارے حالات فتنہ ہیں۔ تو واضح رہے کہ قتل اور خونریزی اتنی بری شے نہیں ہے جتنی فتنہ ہے۔ (وَلاَ تُقٰتِلُوْہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوْکُمْ فِیْہِ ج) (فَاِنْ قٰتَلُوْکُمْ فَاقْتُلُوْہُمْ ط) پھر اگر وہ تم سے جنگ کریں تو ان کو قتل کرو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

202. Here the word fitnah is used in the sense of 'persecution'. It refers to a situation whereby either a person or a group is subjected to harassment and intimidation for having accepted, as true, a set of ideas contrary to those currently held, and for striving to effect reforms in the existing order of society by preaching what is good and condemning what is wrong. Such a situation must be changed, if need be, by the force of arms. Bloodshed is bad, but when one group of people imposes its ideology and forcibly prevents others from accepting the truth, then it becomes guilty of an even more serious crime. In such circumstances, it is perfectly legitimate to remove that oppressive group by the force of arms.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :202 یہاں فتنے کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے ، جس میں انگریزی کا لفظ ( Persecution ) استعمال ہوتا ہے ، یعنی کسی گروہ یا شخص کو محض اس بنا پر ظلم و ستم کا نشانہ بنانا کہ اس نے رائج الوقت خیالات و نظریات کی جگہ کچھ دوسرے خیالات و نظریات کو حق پا کر قبول کر لیاہے اور وہ تنقید و تبلیغ کے ذریعے سے سوسائٹی کے موجود الوقت نظام میں اصلاح کی کوشش کرتا ہے ۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ بلا شبہہ انسانی خون بہانا بہت برا فعل ہے ، لیکن جب کوئی انسانی گروہ زبردستی اپنا فکری استبداد دوسروں پر مسلط کرے اور لوگوں کو قبول حق سے بجبر رو کے اور اصلاح و تغیر کی جائز و معقول کوششوں کا مقابلہ دلائل سے کرنے کے بجائے حیوانی طاقت سے کرنے لگے ، تو وہ قتل کی بہ نسبت زیادہ سخت برائی کا ارتکاب کرتا ہے اور ایسے گروہ کو بزور شمشیر ہٹا دینا بالکل جائز ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

122: لفظ‘‘ فتنہ ’’ قرآن کریم میں مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے جن میں سے ایک معنی ظلم اور تشدد کے بھی ہیں اور شاید یہاں یہی معنی مراد ہوں، مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو اپنے دین پر عمل سے روکنے کے لئے بدترین تشدد روا رکھا ہوا تھا، لہذا بظاہر یہاں مقصد یہ ہے کہ اگرچہ کسی کو قتل کرنا اپنی ذات میں کوئی اچھی بات نہیں ہے لیکن فتنہ اس کے مقابلے میں زیادہ سخت برائی ہے اور جہاں فتنے کا سد باب قتل کے بغیر ممکن نہ ہو وہاں قتل کے سوا چارہ نہیں ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(191 ۔ 193) ۔ ہجرت سے پہلے جب تک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تھے تو بہت اسلام نہ ہونے سے اور مسلمانوں کی جماعت تھوڑی ہونے سے جہاد کا حکم نہ تھا۔ ہجرت کے بعد جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے اور انصار لوگوں کے سبب سے مسلمانوں کی جماعت کو غلبہ ہوگیا تو اس آیت میں جہاد کا حکم اترا۔ اور مکہ میں درگذر کرنے کی جتنی آیتیں تھیں وہ سب اس حکم سے منسوخ ہوگئیں۔ اس آیت میں یہ جو ارشاد فرمایا کہ ” جو تم سے لڑیں ان سے لڑو۔ “ علماء مفسرین کے نزدیک اس کے دو معنے ہیں ایک تو یہ کہ عورتیں بچے بوڑھے جو تم سے لڑنے کے قابل نہیں ان سے مت لڑوں اور ان کو مت مارو۔ اس صورت میں یہ آیت کسی دوسری آیت سے منسوخ نہیں ہے۔ دوسرے معنی یہ کہ عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں کے سوا بھی جو جوان مرد تم سے لڑیں اور مقابلہ کریں ان سے ہی لڑو۔ بلا مقابلہ کرنے والے سے مت لڑو اس صورت میں یہ آیت آگے کی اس آیت سے کہ ” لڑو ان سے یہاں تک کہ نہ رہے کفر “ منسوخ ہے اور مسجد حرام کے نزدیک لڑائی کرنے میں بھی بعض علماء مفسرین نے اس شرط کو کہ فقط مقابلہ کرنے والے سے ہی حرم کی حد میں رفع شر کی غرض سے لڑو، منسوخ کہا ہے اور ان کے نزدیک حرم کی حد میں بھی مشرکین سے محض ان کے شرک کی وجہ سے لڑائی جائز ہے خواہ مشرک لوگ مقابلہ کریں یا نہ کریں۔ لیکن صحیحین کی اس حدیث کی بنا پر جس میں آپ نے فرمادیا ہے کہ حرم شریف کی حد کے اندر قیامت تک لڑائی حرام ہے۔ فتح مکہ کے دن فقط اپنے رسول کو اللہ تعالیٰ نے ایک گھڑی بھر کے واسطے حرم کی حد میں لڑائی جائز فرمائی تھی ١۔ یہ مذہب قابل تردد ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:191) واقتلوھم۔ واؤ عاطفہ۔ اقتلوا فعل امر جمع مذکر حاضر۔ ھم ضمیر مفعول ۔ جمع مذکر غائب۔ اس کا مرجع وہ لوگ ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا۔ ای الذین یقاتلونکم وہ لوگ جو تم سے لڑائی لڑیں۔ حیث۔ ظرف مکان ہے مبتی برضمہ۔ مکان مہم کے لئے آتا ہے جس کی جملہ مابعد سے تشریح ہوتی ہے۔ جہاں ۔ جس جگہ۔ ثقفتموھم۔ ثقفتموا۔ ماضی جمع مذکر حاضر۔ اصل میں ثقفتم تھا ۔ واؤ اشباع کا ہے ثقف (باب سمع) مصدر سے جس کے معنی پالینے کے ہیں۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ الفتنۃ۔ کے لغوی معنی امتحان اور آزمائش کے ہیں۔ اسی لئے نعمت اور مصیبت کو بھی فتنہ کہتے ہیں۔ فتن کے اصل معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا معلوم ہوجائے۔ قرآن مجید میں فتنہ اور اس کے مشتقات کو مختلف معنی کے لئے استعمال کیا گیا ہے مثلاً بمعنی آزمائش ۔ انما نحن فتنۃ فلا تکفر (2:102) ہم تو ذریعہ آزمائش ہیں ۔ تم کفر میں نہ پڑو۔ بمعنی آفت۔ مصیبت۔ وحسبوا ان لا تکون فتنۃ (5:71) اور یہ خیال کرتے تھے کہ (اس سے ان پر) کوئی آفت نہیں آنے کی۔ بمعنی عذاب ۔ انا جعلنا فتنۃ للظالمین ۔ (37:62) اور ہم نے اس کو ظالموں کے لئے عذاب بنا رکھا ہے۔ اور آیت ہذا میں فتنہ سے مراد کفار کا خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنا اور مسلمانوں کو مسجد حرام سے روکنا ہے (مظہری) ۔ وقیل معناہ شرکہم باللہ فی الحرم وصدھم ایاکم عنہ (بیضاوی) ان شرکہم باللہ اشدوا عظم من قتلکم ایاھم فی الحرم (خازن) اور ان کا اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنا تمہارے ان کو مسجد حرام میں قتل کرنے سے بہت برا ہے۔ اشد۔ افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ سخت تر۔ بدتر۔ نہایت سخت۔ شدۃ سے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب مکہ فتح کیا تو اس آیت آیت کے تحت حرم سے ہر شخص کا نکال دیا جو اسلام نہ لایا تھا اور پھر حرم مدینہ سے بھی یہود کو جلا وطن کردیا اور فرمایا : ییتقع دینان فی جز یرہ العرب۔ کہ اب عرب میں دودین اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ (شوکانی۔ کبیر)8 یعنی مکہ کے حرم یا ماہ حرام میں مقابلہ بیشک جرم ہے مگر الفتنہ یعنی شرک اور دین سے بر گشتہ کرنے کے لیے مسلمانوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنانا اس مقابلہ سے بھی جرم ہے لہذا کسی اند یشہ کے بغیر مشرکین کو قتل کرو گو یا اس آیت میں بھی حرم مکہ یا شہر حرم میں مقاتلہ کی مشروط اجازت دی ہے۔ کبیر۔ فتح القدیر) 1 یعنی سرزمین مکہ نے شک حرم یعنی جائے امن ہے اس میں قتل و قتال ممنوع ہے مگر جب ظلم وتشدد کی ابتدا ان (کفار) کی طرف سے ہوئی ہے تو اب لڑائی جائز ہے۔ پھر بھی فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ اسی کو قتل کرو جو ہتھیار اٹھائے اور باقی سب کے لیے امن عام کا اعلان فرمادیا۔ ابن کثیر۔ بخاری وغیرہ )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حرمت کے مہینوں کا تعلق بھی چاند سے ہے۔ اس لیے حرمت کے مہینوں کے بیان میں ان سے متعلقہ مسائل کا بیان ضروری سمجھا گیا۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو کفار کے ظلم وستم سہتے ہوئے اٹھارہ سال گزر چکے تھے۔ اس دوران مسلمانوں پر یکے بعد دیگرے بدر، احد اور خندق کی جنگیں بھی مسلط کی گئیں۔ لیکن آپ اور مسلمانوں نے ہمت نہیں ہاری۔ نبوت کے اٹھارہویں سال ایک غیبی اشارے کی بنیاد پر عمرہ کی نیت سے آپ عازم مکہ ہوئے۔ لیکن اہل مکہ نے قومی اخلاق اور حرم کی دینی اقدار کی پرواہ کیے بغیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عمرہ کرنے سے روک دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ عمرہ کی نیت سے مکہ کی طرف چلے تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں اہل مکہ کے لیے یہ پیغام تھا کہ مسلمان اخلاقی اور عسکری لحاظ سے اس قابل ہوچکے ہیں کہ وہ جب چاہیں مرکز ملت بیت اللہ کو کفار سے واگزار کرواسکتے ہیں۔ اہل مکہ نے اس حقیقت کو محسوس کرتے ہوئے اس شرط پر خصوصی طور پر اصرار کیا کہ اس سال تو بہر حال تمہیں واپس ہی جانا پڑے گا۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حرم کی تولیّت ہمارا قومی اور دینی حق ہے اگر ہم نے اس حال میں مسلمانوں کو مکہ میں داخلہ کی اجازت دے دی تو ہمارے قومی اور ملی وقار کو شدید دھچکا لگے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تصادم سے بچنے کے لیے اپنا ارادہ ملتوی فرمایا اور اگلے سال آنے کی شرط قبول فرمائی۔ جب اگلے سال مسلمان مکہ جانے لگے تو ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہونا فطری امر تھا کہ اگر اس سال بھی ہم روک دیے گئے تو کیا ہوگا ؟ اس کے جواب میں جہاد کا حکم دیتے ہوئے بارہ ہدایات جاری فرمائی گئی ہیں : ١۔ لڑائی کرنے والوں سے جنگ کرو۔ ٢۔ زیادتی نہ کرو۔ ٣۔ زیادتی کرنے والوں کو جہاں پاؤ قتل کردو۔ ٤۔ جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا وہاں سے انہیں بھی نکال دو ۔ ٥۔ فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے۔ ٦۔ مسجد حرام کے نزدیک جب تک وہ نہ لڑیں تم بھی نہ لڑو۔ ٧۔ اگر وہ تم سے مسجد حرام میں قتال کریں تو تم بھی مسجد حرام میں قتال کرو۔ ٨۔ اگر باز آجائیں تو اللہ معاف کرنے والا ہے۔ ٩۔ فتنہ ختم ہونے تک قتال کرو۔ ١٠۔ حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے میں ہیں۔ ١١۔ حرمت میں قصاص ہے۔ ١٢۔ جتنی وہ زیادتی کریں تم بھی اتنی ہی کرو۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃ َ أَنَّ خُزَاعَۃَ قَتَلُوا رَجُلاً مِنْ بَنِی لَیْثٍ عَامَ فَتْحِ مَکَّۃَ بِقَتِیلٍ مِنْہُمْ قَتَلُوہُ ، فَأُخْبِرَ بِذَلِکَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَرَکِبَ رَاحِلَتَہُ ، فَخَطَبَ فَقَالَ إِنَّ اللَّہَ حَبَسَ عَنْ مَکَّۃَ الْقَتْلَ أَوِ الْفِیلَ شَکَّ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ وَسَلَّطَ عَلَیْہِمْ رَسُول اللَّہِ وَالْمُؤْمِنِینَ ، أَلاَ وَإِنَّہَا لَمْ تَحِلَّ لأَحَدٍ قَبْلِی، وَلاَ تَحِلُّ لأَحَدٍ بَعْدِی أَلاَ وَإِنَّہَا حَلَّتْ لِی سَاعَۃً مِنْ نَہَارَ.........) ٍ [ رواہ البخاری : باب کِتَابَۃِ الْعِلْمِ ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بیشک خزاعہ قبیلے کے لوگوں نے فتح مکہ والے سال بنی لیث کا ایک آدمی قتل کردیا۔ اس واقعہ کی اطلاع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی گئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سواری پر سوار ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا یقینا اللہ نے مکہ میں قتل و غارت کو ممنوع قرار دیا ہے۔ یا آپ نے فیل کے لفظ استعمال فرمائے راوی کو شک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار پر اپنے رسول اور مومنوں کو مسلط فرمایا خبردار میرے سے پہلے بھی کسی کے لیے مکہ کی حرمت کو پامال کرنا جائز تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے جائز ہوگا۔ اور میرے لیے کچھ وقت کے لیے اس میں لڑائی کو حلال قرار دیا گیا تھا۔ “ مسائل ١۔ مسلمانوں کے خلاف لڑنے والوں کے ساتھ جہاد کرنا چاہیے۔ ٢۔ کسی پر زیادتی کرنا جائز نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ٣۔ کفار حدود حرم میں مسلمانوں پر حملہ آور ہوں تو حرم میں ان کے ساتھ لڑنا جائز ہے۔ ٤۔ مسلمانوں کے ساتھ لڑنے والے کفار کی سزا یہ ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے۔ ٥۔ اگر کافر لڑنے سے اجتناب کریں تو مسلمانوں کو بھی اجتناب کرنا چاہیے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ ہر حال میں معاف کرنے والا ‘ مہربان ہے۔ ٧۔ غلبہ دین ہونے تک کفار کے ساتھ لڑنا چاہیے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

مسلمانوں کو صرف ان لوگوں کے ساتھ جنگ کی تاکید کی جاتی ہے ، جنہوں نے ان کے ساتھ جنگ کی ۔ محض دینی نظریات کی وجہ سے ان پر تشدد کیا ۔ انہیں ان کے گھروں سے نکالا۔ حکم دیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ وہ جس حال میں بھی ہوں ، مارے جائیں ، جہاں بھی ہوں مارے جائیں ۔ ماسوائے مسجد حرام کے ، ہاں اگر مسجد حرام میں بھی کفار جنگ کا آغاز کردیں تو پھر مسلمانوں کے لئے بھی جائز ہوگا ، سوائے اس کے کہ وہ حلقہ بگوش اسلام ہوجائیں ۔ اس صورت میں چاہے انہوں نے مسلمانوں کو قتل کیا ہو۔ چاہے ان پر ظلم کیا اور تشدد کا ارتکاب کیا ہو ، مسلمانوں کو یہ حکم ہے وہ ہاتھ روک لیں : وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلا تُقَاتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ كَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ (١٩١) فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ” اور ان سے لڑو جہاں بھی ان سے تمہارا مقابلہ پیش آئے اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے ، اس لئے کہ قتل اگرچہ برا ہے مگر فتنہ اس سے بھی زیادہ برا ہے اور مسجد حرام کے قریب جب تک وہ تم سے نہ لڑیں ، تم بھی نہ لڑو۔ مگر جب وہ وہاں لڑنے سے نہ چوکیں ، تو تم بھی بےتکلف انہیں مارو کہ ایسے کافروں کی یہی سزا ہے ۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو جان لو کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ “ محض دین ، مذہب یا نظریہ کے اختلاف کی وجہ سے تشدد کرنا دراصل ، حیات انسانی کی مقدس قدر (Value) پر دست درازی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اسے قتل سے بھی زیادہ برا قرار دیا ہے ۔ اسے جان لینے اور زندگی ختم کردینے سے بھی زیادہ گھناؤنا جرم قرار دیا ہے ۔ یہ فتنہ جو قتل سے بھی شدید تر ہے کیا ہے ؟ محض ہراساں کرنا بھی اس میں آتا ہے ۔ عملاً تشدد بھی اس میں شامل ہے ۔ ایسے حالات پیدا کردینا بھی فتنہ ہے ، جن میں لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہو ، انہیں اللہ کے مقرر کردہ نظام زندگی سے دور کرنا بھی فتنہ ہے ۔ مسلمانوں کے لئے کفر کو مرغوب بنانا اور اسلام سے انہیں دور کرنا ، ان کے اخلاق کو خراب کرنا یہ سب فتنے کی تعریف میں داخل ہیں ۔ اس فتنے کی واضح ترین مثال اشتراکی نظام ہے ۔ جہاں دینی تعلیم ممنوع اور الحاد کی تعلیم لازمی ہوتی ہے ۔ ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں جو زنا ، شراب جیسے محرمات کو جائز قرار دیتے ہیں اور نشر و اشاعت کے مختلف ذرائع سے ان چیزوں کو انسانوں کے لئے مرغوب بناتے ہیں ۔ جب کہ اسلامی نظام زندگی کی ہر بات میں کیڑے نکالتے ہیں ۔ اسے مسخ کرتے ہیں اور جو اجتماعی حالات میں یہ نظام پیدا کردیتا ہے ان کا اتباع وہاں کے عوام الناس کے لئے ایک حتمی فریضہ قرار پاتا ہے۔ آزادی رائے کے بارے میں یہ نقطہ نظر انسانی زندگی میں آزادی رائے کا یہ مقام بلند اسی نظام کے عین مطابق ہے ۔ وجود کائنات کی جو غرض وغایت اسلام نے پیش کی ہے ۔ نہ نقطہ نظر اس کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے ۔ اسلام کے مطابق تخلیق کائنات کی غرض وغایت بندگی ہے ۔ بندگی ہر اس اچھے کا کو کہا جاتا ہے جس میں کرنے والے کے پیش نظر اللہ کی رضامندی ہو ، اور اللہ کی بندگی تب ہی ممکن ہے جب انسان تمام دوسری بندگیوں سے آزاد ہو ، یہی وجہ ہے کہ انسان کی بلند ترین قدر (Value) اس کی آزادی ہے ۔ بالخصوص آزادی رائے ۔ اب جو شخص کسی کی آزادی چھین لیتا ہے ، محض نظریہ کی وجہ سے تشدد کرتا ہے ، براہ راست یا بالواسطہ ، وہ شخص اس شخص کے قتل سے بھی اس پر زیادہ ظلم کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے افراد کے مقابلہ میں مدافعت ہر طرح جائز ہے ، اگرچہ اس کے لئے جنگ کرنی پڑے ۔ قرآن کریم نے (فاقتلوھم) جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ (واقتلوھم) انہیں قتل کردینے کا حکم دیا ہے۔ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ ” اور جہاں بھی ایسے لوگ پائے جائیں انہیں قتل کردینے کا حکم دیا ہے۔ جہاں بھی پائے جائیں ۔ جس حال میں بھی وہ ہوں ۔ جس ذریعے سے بھی تم نے ایسے لوگوں کو مار سکو ، ہاں اس سلسلے میں تم صرف اسلامی آداب جنگ کا لحاظ رکھنا ہوگا ، کسی کو مثلہ نہ کرنا کسی کو آگ میں جلانا ۔ مسجد حرام دارالامن ہے ۔ اس لئے اس کے قریب نہ لڑو ۔ اس کے بارے میں اللہ نے اپنے دوست ابراہیم کی دعا قبول کی تھی ۔ اسے مرکز عوام قرار دیا گیا تھا۔ اسے دارالامان گردانا گیا تھا ۔ لہٰذا حکم ہوا مسجد حرام کے قریب کسی کے ساتھ نہ لڑو ، الا یہ کہ کفار کا کوئی گروہ یہاں تمہارے ساتھ لڑنے لگے ، لیکن جنگ کا آغاز تم نہ کرو۔ اگر وہ آغاز کردیں اور مسجد حرام کا پاس نہ رکھیں تو پھر تمہارے ہاتھ بھی بندھے ہوئے نہیں ہیں ۔ یہ لوگ عوام کو ان کے دین کی وجہ سے ستاتے ہیں ۔ مسجد حرام کا احترام نہیں ، لہٰذا یہی ان کے لئے مناسب سزا ہے ۔ ارشاد ہوا ! فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ” پھر اگر وہ باز آجائیں تو جان لو کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔ “ صرف باز آنا ہی کافی نہیں ۔ مسلمانوں پر تشدد سے باز آجائیں ۔ جنگ سے باز آجائیں ، کفر سے بھی باز آجائیں تب وہ معافی اور مہربانی کے مستحق ہوں گے ۔ صرف جنگ سے باز آنے کے لئے تو یہ کیا جاسکتا ہے کہ مسلمان حالت امن کا اعلان کردیں۔ مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ کفار اللہ کی مغفرت اور رحمت کے بھی مستحق ہوجائیں ۔ ہاں یہاں مغفرت اور رحمت کی طرف اشارے سے مراد یہ ہے کہ کفار کو ایمان کی ترغیب دی جائے تاکہ کفر اور تشدد کے چھوڑ دینے کے بعد وہ اللہ کی مغفرت اور اس کی رحمت کے مستحق بھی ہوجائیں۔ اسلام کی شان عظمت اور شان کریمی تو دیکھئے ۔ کفار اور ظالموں کو بھی اشارہ کیا جاتا ہے ، کہ آؤ مغفرت و رحمت کی بارش ہورہی ہے ۔ آؤ تمہارے سابقہ گناہ معاف ، تشدد اور ظلم کا قصاص معاف ، دیت معاف ، اسلامی صفوں میں مؤمنانہ شان سے داخل ہوجاؤ ، تو سب کچھ معاف۔ تم نے قتل کیا تم نے تشدد کیا ، تم نے کیا کچھ نہ کیا ، مگر سب معاف اور مغفرت و رحمت کی بارش ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ اقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ ) (کہ ان کو قتل کرو جہاں بھی پاؤ) (وَ اَخْرِجُوْھُمْ مِنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْکُمْ ) (اور ان کو نکال دو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا) یعنی تمہیں مکہ معظمہ چھوڑ کر ہجرت پر مجبور کیا۔ فتنہ گری قتل سے زیادہ سخت ہے : اور فرمایا (وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ) (اور فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے) فتنہ سے مراد شرک ہے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں ج ١ صفحہ ٧٥ کہ صحابہ کے دلوں میں جو بات آرہی تھی کہ حرم میں ان کو کس طرح قتل کریں گے۔ جبکہ حرم کا احترام ضروری ہے۔ ان کے اس وسوسہ کا جواب دیا گیا کہ جس کام میں یہ لوگ خود لگے ہوئے ہیں یعنی شرک باللہ اور وہ بھی حرم میں وہ قتل کرنے سے بہت زیادہ سخت ہے۔ لہٰذا تم اس کی پرواہ نہ کرو کہ حرم میں قتل و قتال واقع ہوجائے گا۔ دفاع کے لیے قتال کرنا : پھر فرمایا : (وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوْکُمْ فِیْہِ فَاِنْ قٰتَلُوْکُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ کَذٰلِکَ جَزَآءُ الْکٰفِرِیْنَ ) (اور ان سے جنگ مت کرو مسجد حرام کے پاس جب تک کہ وہ تم سے اس میں خود نہ لڑیں۔ سو اگر وہ تم سے جنگ کریں تو تم ان کو قتل کر دو ، ایسی ہی جزا ہے کافروں کی) اس میں مسلمانوں کو ابتداء بالقتال کی ممانعت فرمائی کہ مسجد حرام کے قریب خود سے قتل و قتال کی ابتداء نہ کرنا جب تک کہ وہی تم سے قتال شروع نہ کریں اگر وہ حرم کی حرمت کی پاسداری ترک کردیں تو تم بھی ان کو قتل کر دو ۔ قال صاحب الروح ج ٢ صفحہ ٧٥ نفی للحرج عَن القتال فی الحرم الذی خاف منہ المسلمون وکرھوہ ای ان قاتلوکم ھناک فلاتبالوا بقتالھم لانھم الذین ھتکو الحرمۃ و أنتم فی قتالھم دافعون القتل عن انفسکم۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

364 ھُمْ کی ضمیر اَلَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ کی طرف راجع ہے۔ ضمیر المفعول عائد علی الذین یقاتلونکم وھذا امر بقتلھم وحید عم عام فی کل مکان حلال او حرام الخ۔ (بحر ص 66 ج 2) یعنی جو مشرکین تمہارے ساتھ برسرپیکار ہیں جب وہ تم سے لڑنے کے لیے نکل پڑیں تو جہاں کہیں بھی تمہاری ان سے مڈ بھیڑ ہوجائے تم ان سے لڑو اور قتل کرو خواہ حرم ہی میں مقابلہ کیوں نہ ہوجائے۔ وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ ۔ حیث یہاں تعلیلیہ ہے یعنی ان کو مکہ سے نکالو کیونکہ انہوں نے تم کو نکالا ہے یا ظرفیہ یعنی جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے۔ وہاں سے تم ان کو نکالو۔ یعنی مکہ مکرمہ سے یا حیث تشبیہ کے لیے ہے۔ یعنی جس طرح انہوں نے تم کو سرزمین مکہ سے نکالا ہے اسی طرح تم ان کو وہاں سے نکال دو ۔ مطلب یہ ہے کہ مشرکین کے قتل واخراج میں سے جو ممکن ہو اس پر عمل کرو۔ والمراد افعلوا کل مایتیسر لکم من ھذین الامرین فی حق المشرکین (روح 75 ج 2) 365 یہ اقتلوہم کی علت ہے اور فتنہ سے مراد شرک ہے۔ مشرکین نے مسلمانوں پر طنز کیا تھا کہ انہوں نے حرم کعبہ کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی اور اس میں جنگ و قتال شروع کردیا ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم نے جو بیت اللہ کو شرک وبت پرستی کا مرکز بنا دیا ہے۔ ای شرکھم باللہ اشد حراماً من القتل الذی عیروکم بہ فی شان ابن الحضرمی (بحر ص 66 ج 2) وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۔ اس آیت میں مسلمانوں کو ہدایت فرمادی کہ وہ حدود حرم میں مشرکین سے لڑنے میں پہل نہ کریں۔ ہاں اگر مشرکین حدود حرم میں داخل ہو کر مسلمانوں سے لڑنے لگیں تو اب مسلمانوں کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے بچاؤ کے لیے ان سے لڑیں۔ كَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ ۔ ایسے ضدی اور معاند کفار کی یہی سزا ہے کہ جب وہ حرم کعبہ میں بھی شر و فساد اور قتل و خونریزی سے باز نہ آئیں تو وہیں ان کا خاتمہ کردیا جائے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور اگر یہ نوبت آجائے کہ وہ نقص عہد کرکے تم سے لڑیں اور تم ان پر جہاں قابو پائو ان کو قتل کرو اور ان کو وہاں سے نکال دو جہاں سے انہوں نے تم کو پریشان اور تنگ کرکے نکالا ہے اور جو فتنہ شرک و کفرکا وہ برپا کرتے رہے ہیں اور مسلمانوں کو مسجد حرام سے روکتے رہے ہیں وہ فتنہ اور شرارت قتل سے کہیں زیادہ سخت ہے۔ ہاں اتنا خیال رہے کہ مسجد حرام کے آس پاس جہاں تک حرم کی حد ہے وہاں ان کو اس وقت تک قتل نہ کرنا جب تک وہ تم کو وہاں قتل کرنے کا ارادہ نہ کریں پھر اگر وہ وہاں بھی تم سے لڑنے پر آمادہ ہوجائیں اور لڑنے کا سامان کرنے لگیں تو پھر تم ان کو بےکھٹکے قتل کرو ایسے کافروں کی جو حرم کا احترام نہ کریں اور حرم میں لڑنے کو تیار ہوئیں ایسی ہی سزا ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ جب ان سے عہد شکنی کا وقوع ہوجائے اور تم کو لڑنا ہی پڑے۔ تو پھر کمی نہ کرنا جہاں کہیں موقع ملے ان کو ق تل کرنا اور نکالنے کا موقع ملے تو ان کو جبراً وہاں سے نکال باہر کرنا جہاں سے انہوں نے تم کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا تھا اور تم کو تنگ کرکے نکالا تھا اور تم اس قتل کی سز اکو سخت نہ سمجھنا کیونکہ جو فتنہ انہوں نے برپا کر رکھا ہے خواہ وہ شرک و کفر ہو خواہ تم کو مکہ سے نکالنا ہو اور مسلمانوں کو پریشان کرنا ہو۔ بہر حال ان کا یہ فتنہ ان کے قتل کرنے سے بدرجہا زیادہ سخت ہے اور ان کی عہد شکنی اور ان کا کفر اگرچہ اس کا متقضی ہے کہ ان کی کسی جگہ رعایت نہ کی جائے لیکن پھر بھی مسلمانو ! حرم کا احترام قائم رکھنا اور تم حدود حرم میں قتل کرنے کی پہل نہ کرنا لیکن جب دیکھو کہ وہ حدود حرم میں بھی برسر پیکار نظرآتے ہیں تو پھر تم کو بھی اجازت ہے کہ تم ان کو بےتکلف حرم میں بھی قتل کرو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی مکہ جائے اما ن ہے لیکن جب انہوں نے ابتداء کی اور تم پر ظلم کیا اور ایمان لانے پر ستانے لگے کہ یہ مار ڈالنے سے زیادہ ہے۔ اب ان کو امان نہ رہی جہاں پائو۔ مارو۔ آخر جب مکہ فتح ہوا تو حضرت نے بھی حکم دیا کہ جو ہتھیار سامنے کرے اسی کو مارو باقی سب کو امن دیا۔ (موضح القرآن) ( تسہیل )