Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 193

سورة البقرة

وَ قٰتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ لِلّٰہِ ؕ فَاِنِ انۡتَہَوۡا فَلَا عُدۡوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۱۹۳﴾

Fight them until there is no [more] fitnah and [until] worship is [acknowledged to be] for Allah . But if they cease, then there is to be no aggression except against the oppressors.

ان سے لڑو جب تک کہ فتنہ نہ مٹ جائے اور اللہ تعالٰی کا دین غالب نہ آجائے اگر یہ رک جائیں ( تو تم بھی رک جاؤ ) زیادتی تو صرف ظالموں پر ہی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ ... And fight them until there is no more Fitnah, meaning, Shirk. This is the opinion of Ibn Abbas, Abu Al-Aliyah, Mujahid, Al-Hasan, Qatadah, Ar-Rabi, Muqatil bin Hayyan, As-Suddi and Zayd bin Aslam. Allah's statement: ... وَيَكُونَ الدِّينُ لِلّهِ ... ...and the religion (all and every kind of worship) is for Allah (... Alone). means, `So that the religion of Allah becomes dominant above all other religions.' It is reported in the Two Sahihs that Abu Musa Al-Ashari said: "The Prophet was asked, `O Allah's Messenger! A man fights out of bravery, and another fights to show off, which of them fights in the cause of Allah?' The Prophet said: مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيا فَهُوَ فِي سَبِيلِ الله He who fights so that Allah's Word is superior, then he fights in Allah's cause. In addition, it is reported in the Two Sahihs: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لاَ إِلهَ إلاَّ اللهُ فَإِذَا قَالُوهَا عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُم وَأَمْوَالَهُمْ إلاَّ بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ عَلَى الله I have been ordered (by Allah) to fight the people until they proclaim, `None has the right to be worshipped but Allah'. Whoever said it, then he will save his life and property from me, except for cases of the law, and their account will be with Allah. Allah's statement: ... فَإِنِ انتَهَواْ فَلَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَى الظَّالِمِينَ But if they cease, let there be no transgression except against the wrongdoers. indicates that, `If they stop their Shirk and fighting the believers, then cease warfare against them. Whoever fights them afterwards will be committing an injustice. Verily aggression can only be started against the unjust.' This is the meaning of Mujahid's statement that only combatants should be fought. Or, the meaning of the Ayah indicates that, `If they abandon their injustice, which is Shirk in this case, then do not start aggression against them afterwards.' The aggression here means retaliating and fighting them, just as Allah said: فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ Then whoever transgresses against you, you transgress likewise against him. (2:194) Similarly, Allah said: وَجَزَاءُ سَيِّيَةٍ سَيِّيَةٌ مِّثْلُهَا The recompense for an evil is an evil like thereof. (42:40) and, وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُواْ بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ And if you punish them, then punish them with the like of that with which you were afflicted. (16:126) Ikrimah and Qatadah stated, "The unjust person is he who refuses to proclaim, `There is no God worthy of worship except Allah'." Under Allah's statement: وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ (And fight them until there is no more Fitnah, Al-Bukhari recorded that Nafi said that; two men came to Ibn Umar during the conflict of Ibn Az-Zubayr and said to him, "The people have fallen into shortcomings and you are the son of Umar and the Prophet's Companion. Hence, what prevents you from going out?" He said, "What prevents me is that Allah has for bidden shedding the blood of my (Muslim) brother." They said, "Did not Allah say: وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ (And fight them until there is no more Fitnah (disbelief and worshipping of others along with Allah)!" He said, "We did fight until there was no more Fitnah and the religion became for Allah Alone. You want to fight until there is Fitnah and the religion becomes for other than Allah!" Uthman bin Salih added that; a man came to Ibn Umar and asked him, "O Abu Abdur-Rahman! What made you perform Hajj one year and Umrah another year and abandon Jihad in the cause of Allah, although you know how much He has encouraged performing it!" He said, "O my nephew! Islam is built on five (pillars): believing in Allah and His Messenger, the five daily prayers, fasting Ramadan, paying the Zakah and performing Hajj (pilgrimage) to the House." They said, "O Abu Abdur-Rahman! Did you not hear what Allah said in His Book: وَإِن طَأيِفَتَانِ مِنَ الْمُوْمِنِينَ اقْتَتَلُواْ فَأَصْلِحُواْ بَيْنَهُمَا فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الاُخْرَى فَقَـتِلُواْ الَّتِى تَبْغِى حَتَّى تَفِىءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ And if two parties (or groups) among the believers fall to fighting, then make peace between them both. But if one of them outrages against the other, then fight you (all) against the one that which outrages till it complies with the command of Allah. (49:9) and, وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ (And fight them until there is no more Fitnah (disbelief). He said, "That we did during the time of Allah's Messenger when Islam was still weak and (the Muslim) man used to face trials in his religion, such as killing or torture. When Islam became stronger (and apparent), there was no more Fitnah." He asked, "What do you say about Ali and Uthman?" He said, "As for Uthman, Allah has forgiven him. However, you hated the fact that Allah had forgiven him! As for Ali, he is the cousin of Allah's Messenger and his son-in-law." He then pointed with his hand, saying, "This is where his house is located (meaning, `so close to the Prophet's house just as Ali was so close to the Prophet himself'."   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥٥] فتنہ سے مراد ہر وہ مزاحمت اور قوت ہے جو تبلیغ و اشاعت اسلام کی راہ میں آڑے آئے جس سے اللہ کے دین کے مطابق زندگی بسر کرنا ممکن نہ رہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اسلام صرف مدافعانہ جنگ کا قائل نہیں۔ بلکہ اسلام کی اشاعت میں جو قوت رکاوٹ بنے اس سے جارحانہ جنگ کرنا ضروری ہے۔ تاآنکہ ایسی رکاوٹیں ختم ہ... وجائیں اور اللہ کا دین غالب ہو۔ البتہ جو لوگ اپنی شرارتوں سے باز آجائیں اور جزیہ دینا قبول کرلیں۔ ان پر تمہیں ہاتھ نہ اٹھانا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنے عقاید یا دین یا مذہب سے مجبور ہو کر اسلام قبول کرلیں کیونکہ اسلام قبول کرنے کے لیے کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اس آیت اور اس سے پہلی آیت کی بنا پر مخالفین اسلام کی طرف سے اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس نے جہاد کو فرض قرار دے کر ایک مستقل جنگ کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ لہذا اسے ایک امن پسند مذہب نہیں کہا جاسکتا۔ عرب قبائل ہمیشہ آپس میں برسرپیکار رہتے تھے۔ اسلام نے آ کر صرف یہ تبدیلی پیدا کی کہ ان کا رخ باہمی خانہ جنگیوں سے ہٹا کر بیرونی دنیا کی طرف موڑ دیا۔ لیکن ان کی جنگ جوئی میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہوئی۔ اسلام نے یہ کیا کہ پوری دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ ایک دارالاسلام جہاں اسلامی حکومت قائم ہو اور دوسرا دارالحرب جہاں غیر مسلم حکومت ہو۔ بالفاظ دیگر ایک حصہ عالم اسلام ہے اور دوسرا عالم جنگ۔ دارالاسلام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دارالحرب یا غیر مسلموں سے برسرپیکار رہ کر انہیں دارالاسلام میں شامل کرتا چلا جائے۔ تاآنکہ وہ ساری دنیا کو اپنے دائرہ اقتدار میں لے لے۔ یہ ہے ان عقلی و نقلی دلائل کا خلاصہ جن سے یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کوئی امن پسند یا صلح جو مذہب نہیں۔ بلکہ اپنے مزاج کے لحاظ سے ہر وقت برسرپیکار رہنا چاہتا ہے۔ پیشتر اس کے کہ اس اعتراض کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جائے۔ دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ اسلام سب غیر مسلموں سے ایک جیسا سلوک روا نہیں رکھتا بلکہ اس نے مشرکین اور اہل کتاب میں فرق کیا ہے۔ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال، ان کا کھانا جائز اور کتابیہ عورت سے نکاح جائز ہے۔ جبکہ مشرکوں کی کوئی چیز جائز نہیں۔ اہل کتاب پر جنگ سے بیشتر تین شرائط پیش کی جاتی ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ اسلام قبول کرلیں اور اگر یہ منظور نہ ہو تو پھر دارالاسلام میں اطاعت گزار بن کر رہیں انہیں مذہبی آزادی حاصل ہوگی اور دفاعی اخراجات کے طور پر جزیہ دینا یا اس کی متبادل صورت اختیار کرنا ہوگی اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو پھر تیسری شرط یہ ہے کہ جنگ کے لیے تیار ہوجائیں۔ لیکن مشرکین کے لیے اطاعت گزار بن کر رہنے کی کم از کم حجاز میں گنجائش نہیں۔ ان پر بھی تین شرائط پیش کی جاتی ہیں۔ جیسا کہ سورة توبہ کے آغاز میں مذکور ہے یعنی (١) اسلام قبول کرلیں، اگر یہ منظور نہ ہو تو (٢) دارالاسلام کو چھوڑ کر چلے جائیں اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو پھر (٣) جنگ کے لیے تیار ہوجائیں۔ گویا ان کے لیے شرط نمبر ٢ اطاعت گزار بن کر رہنے کی بجائے حجاز کو چھوڑ کر چلے جانے کی ہے۔ مشرک کی عام تعریف یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ کسی کتاب کا قائل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے متعلق کوئی واضح عقیدہ نہ رکھتا ہو اور اس کی صفات میں دوسری چیزوں کو بھی شریک بناتا ہو مندرجہ بالا شرائط سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کی نظر میں سب غیر مسلم یکساں نہیں۔ وہ اہل کتاب سے نسبتاً نرم رویہ اختیار کرتا ہے اور مشرکین کے معاملہ میں سخت ہے اور مندرجہ بالا دونوں آیات جن سے یہ اعتراض اخذ کیا گیا ہے۔ مشرکین کے معاملہ میں مشرکین سے تعلق رکھتی ہیں نہ کہ اہل کتاب سے اور مشرکین پر سختی کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک تحریک ہے جو فتنہ کو ختم کرنا چاہتا ہے اور اس کی نگاہوں میں چونکہ سب سے بڑا فتنہ شرک ہے۔ لہذا شرک کو ختم کرنا اس کا اولین مقصد ہے۔ دوسری قابل وضاحت بات یہ ہے کہ بلحاظ اقامت پذیری دارالاسلام کی تین اقسام ہیں۔ ١۔ حرمین یعنی حرم مکہ اور مدینہ ان مقامات میں صرف مسلمان ہی رہ سکتے ہیں، مشرک ہوں یا اہل کتاب یہاں اقامت اختیار نہیں کرسکتے۔ ٢۔ جزیرہ العرب یا حجاز، اس میں اہل کتاب معاہد کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں۔ جب تک کہ وہ اپنے عہد پر قائم رہیں۔ اور اگر بغاوت وغیرہ کریں تو انہیں دارالاسلام کے کسی دوسرے علاقہ میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن مشرکین کو اس خطہ میں برداشت نہیں کیا گیا۔ ٣۔ باقی دارالاسلام میں اہل کتاب تو اطاعت گزار بن کر پوری آزادی سے رہ سکتے ہیں۔ لیکن مشرکین کو گوارا ہونے کی حد تک برداشت کیا گیا ہے۔ (اسلام کے قانون جنگ و صلح ص ١٤٨) ان تصریحات کے بعد اب ہم اصل اعتراض کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ یہ اعتراض دو وجوہ سے غلط ہے :۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ بلاشبہ عرب کے اکثر قبائل جنگ جو واقع ہوئے تھے۔ لیکن ان کے سب افراد جنگ جو نہیں تھے۔ بلکہ ان میں کثیر طبقہ ایسا بھی تھا جو اس قتل و غارت کا ہدف بنے ہوئے تھے۔ وہ کمزور تھے، مظلوم تھے۔ نہتے تھے اور فطرتاً بھی قتل و غارت اور ظلم و فساد سے نفرت کرتے تھے۔ پھر اشراف میں بھی ایک ایسا طبقہ موجود تھا جو صلح پسند اور امن پسند تھا اور قتل و غارت اور ظلم و جور سے نفرت کرتا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے حلف الفضول کا واقعہ اس بات کی تاریخی شہادت موجود ہے۔ ایسے ہی لوگ ابتداًء اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ جس کی شہادت درج ذیل آیات ہیں۔ ١۔ آیت ( كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۚ وَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَھُوْا شَـيْـــًٔـا وَّھُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ٢١٦؀ ) 2 ۔ البقرة :216) تم پر جنگ فرض کی گئی ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے۔ ٢۔ آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِيْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ ۭ اَرَضِيْتُمْ بالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا مِنَ الْاٰخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِيْلٌ 38؀) 9 ۔ التوبہ :38) اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) نکلو تو تم زمین سے چمٹے جاتے ہو۔ دور نبوی کی سب سے پہلی جنگ بدر میں مسلمانوں کی && جنگ جوئی && کی کیفیت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ ٣۔ آیت ( كَمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَيْتِكَ بالْحَقِّ ۠ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِهُوْنَ ۝ ۙ ) 8 ۔ الانفال :5) جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پروردگار نے آپ کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر سے نکالا اور بلاشبہ مومنوں کا ایک گروہ اس (جنگ) کو ناپسند کر رہا تھا۔ وہ لوگ حق بات ظاہر ہوجانے کے بعد آپ سے جھگڑنے لگے۔ گویا وہ موت کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں اور وہ موت کو سامنے دیکھ رہے ہیں۔ ٤۔ اسی بنا پر آپ کو حکم ہوتا ہے کہ : آیت ( يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ ۭاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ 65؀) 8 ۔ الانفال :65) اے نبی ! مومنوں کو جنگ کرنے کے لیے رغبت دلاؤ۔ غور فرمائیے کہ اگر مسلمان پہلے ہی جنگ جو تھے تو ان آیات اور احکامات کی کیا ضرورت تھی ؟ اور یہی لوگ اسلام کا ابتدائی اور قیمتی سرمایہ تھے۔ اصل بات یہی تھی کہ اسلام کے یہ ابتدائی جانثار صلح جو اور امن پسند تھے۔ پھر جب ظلم و فساد کے خاتمہ کے لیے ان پر جنگ فرض کی گئی تو انہوں نے اسے ناگوار سمجھنے کے باوجود اللہ کا حکم سمجھ کر سر انجام دیا۔ البتہ نوجوان اور جرات مند طبقہ مکی دور میں بھی لڑائی کی اجازت مانگتا رہا مگر انہیں صبر ہی کی تلقین کی جاتی رہی۔ اس اعتراض کے غلط ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جنگ جو وہی لوگ کہلائے جاسکتے ہیں جو جارحانہ اقدامات کریں۔ اس معیار پر غور کرنے کے لیے دور نبوی کی جنگوں کے اسباب پر سرسری نظر ڈالنا ہوگی۔ ١۔ غزوہ بدر، احد اور خندق خالصتاً مدافعانہ جنگیں تھیں جو طوعاً و کرہاً مسلمانوں کو لڑنا پڑیں۔ ٢۔ غزوہ بنو قینقاع، بنو نضیر، بنو قریظہ اور خیبر سب یہودیوں کی بد عہدیوں اور فتنہ انگیزیوں کی بنا پر لڑی گئیں۔ اگر یہ لوگ اپنے عہد پر قائم رہتے تو کبھی بپا نہ ہوتیں۔ ٣۔ غزوہ مکہ کا سبب قریش کی طرف سے معاہدہ حدیبیہ کی عہد شکنی تھی۔ ٤۔ سریہ مؤتہ اور غزوہ تبوک، سفیر کے قتل اور سرحد کی حفاظت کے لیے پیش آئیں اور وہ کون سی حکومت ہے جو اپنے سفیر کے قتل پر خاموش رہ سکتی ہے۔ یا اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے لشکر روانہ نہیں کرتی۔ ٥۔ غزوہ حنین، اوطاس اور طائف میں دشمن نے خود مسلمانوں کو جنگ کے لیے للکارا تھا اور آپ نے پردیس میں کافروں سے نقد رقم اور اسلحہ بطور ادھار اور عاریتاً لے کر ان جنگوں کو نبھایا تھا۔ (موطا، ابو داؤد، باب الضمانہ) غور فرما لیجئے کہ ان میں کونسی جنگ کو جارحانہ یا ظالمانہ جنگ کا نام دیا جاسکتا ہے ؟ اب رہا دارالاسلام اور دارالحرب کا مسئلہ، بلاشبہ یہ اصطلاحیں فقہائے اسلام نے وضع کی ہیں لیکن انہیں عام اسلام اور عام جنگ کے معنوں میں پیش کرنے میں کئی ایک مغالطے ہیں جو درج ذیل ہیں۔ ١۔ جو غیر مسلم حکومتیں غیر جانبدر رہنا چاہیں اور مسلمانوں کو نہ خود چھیڑیں اور نہ مسلمانوں کے خلاف حمایت کریں۔ خواہ وہ حکومت اہل کتاب کی ہو یا مشرکین کی اسلام ان سے لڑنے کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ اس کے برعکس اس سے بہتر سلوک کی تائید کرتا ہے۔ چناچہ ارشاد باری ہے : آیت ( لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ ۝) 60 ۔ الممتحنة :8) && اللہ تمہیں ان لوگوں سے بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے منع نہیں کرتا جو دین کے سلسلہ میں تم سے نہیں لڑتے اور نہ ہی انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا۔ بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ && گویا دارالحرب بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ ایک غیر جانبدار علاقہ جو فی الحقیقت دارالحرب نہیں ہے اور امن پسند ممالک عموماً غیر جانبدار ہی رہتے ہیں۔ لہذا دارالحرب آدھے سے بھی کم رہ گیا۔ ٢۔ باقی حربی علاقہ میں ایسے ممالک بھی ہوسکتے ہیں جن سے صلح کے معاملات طے پائے ہوں اور ان کی مدت صلح عموماً دس سال ہوتی ہے۔ جب تک ایسے ممالک بدعہدی نہ کریں۔ ان سے جنگ کی قطعاً اجازت نہیں۔ ٣۔ اس کے بعد جو ممالک بچ جائیں وہ فی الواقعہ && دارالحرب && ہیں اور وہ وہی ممالک ہوسکتے ہیں جو مسلمانوں کے مخالف ہوں یا مخالفوں کا ساتھ دیتے ہوں، اور وہ صلح پر بھی آمادہ نہ ہوں اور ظاہر ہے کہ ایسے ممالک تھوڑے ہی رہ جاتے ہیں۔ لیکن ایسے ممالک پر بھی && حالات جنگ && کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ حالات جنگ اور چیز ہے اور خطرہ جنگ اور چیز۔ اس کی قریب ترین مثال پاکستان اور بھارت کی ہے۔ پاکستان دو قومی نظریہ کا علمبردار ہے اور بھارت ایک قومی نظریہ کا حامی ہے۔ نظریہ کے اس تضاد نے ہر وقت جنگ کا خطرہ تو پیدا کردیا ہے۔ لیکن حالات جنگ مدتوں بعد پیدا ہوتے ہیں اور یہ اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب کوئی ملک اپنے حقوق سے تجاوز کرجاتا ہے۔ آج کی مہذب اقوام کے نزدیک طاقت کے ذریعہ اپنے مفادات کی حفاظت ہی سب سے بڑا حق ہے۔ مثلاً پچھلے دنوں روس نے یہ سمجھا کہ گرم پانی کی بندرگاہ تک پہنچنا اس کا حق ہے۔ لہذا افغانستان، ایران اور پاکستان پر اس کا تسلط ہونا چاہیے۔ مگر متعلقہ ممالک یا حریف ممالک نے اس کے اس حق کو ناجائز سمجھا اور تسلیم نہ کیا۔ افغانستان میں جنگ چھڑ گئی اور پاکستان اور ایران کے لیے حالات جنگ پیدا ہوگئے۔ لیکن اسلام ایسے دنیوی اور ذاتی مفادات کے لیے بھی جنگ کرنے کا قطعاً روادار نہیں، اس کے نزدیک جنگ درج ذیل وجوہ کی بنا پر لڑی جاسکتی ہے : (١) اپنے جان و مال کی حفاظت کے لیے مدافعانہ جنگ جس میں سرحدوں کی حفاظت بھی شامل ہے۔ (٢) کسی علاقہ کے مظلوم مسلمان جب امداد کے لیے پکاریں اور انہیں احکام شرعیہ کی تعمیل میں رکاوٹیں پیش آرہی ہوں۔ (٣) معاہدہ کی خلاف ورزی، عہد شکنی یا سفیر کے قتل کی بنا پر اور یہ سب باتیں دراصل جنگ کا الٹی میٹم ہوتی ہیں۔ انہی مقاصد کے لیے دور نبوی میں جنگیں لڑی گئی تھیں اور یہ سب && فتنہ && ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ ان میں سے ایک بھی شق ایسی نہیں جسے ہم کسی دنیوی مفاد کی جنگ کہہ سکیں۔ گویا اسلام میں لڑائی کے جواز کا عام قانون ظلم اور فتنہ کا استیصال ہے۔ اسلام نے جنگ کرنے کے بھی اصول بتلا دیئے ہیں اور جنگ سے رک جانے یا عدم جواز کے بھی اور مسلمانوں کو بہرحال ان پر ہی کاربند رہنا لازم ہے۔ پھر جن صورتوں میں اسلام نے جنگ کرنے کی اجازت یا حکم دیا ہے وہاں بھی یہ حکم نہیں دیا کہ جاتے ہی جنگ شروع کردو۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ دشمن پر تین شرطیں پیش کرو۔ پہلی شرط یہ ہے کہ تم مسلمان بن جاؤ اور ہمارے بھائی بند بن کر اپنا علاقہ اور اپنی حکومت اپنے پاس رکھو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اسلام دشمنی چھوڑ دو اور اپنی مذہبی آزادی بحال رکھو اور اطاعت گزاری کی علامت اور دفاعی اخراجات کے طور پر جزیہ ادا کرو اور اگر یہ بھی منظور نہیں تو پھر تیسری اور آخری صورت جنگ ہے۔ ان حدود وقیود کے بعد بھی کیا یہ شبہ باقی رہ جاتا ہے کہ اسلام ایک جنگ جو مذہب ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود کی پے در پے عہد شکنیوں کی بنا پر خیبر پر چڑھائی کی تو حضرت علی (رض) کو جھنڈا دے کر فرمایا کہ && اگر تمہاری تبلیغ سے ایک آدمی بھی اسلام لے آئے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ && (بخاری، کتاب الجہاد۔ باب الدعاء للمشرکین بالھدی لیتا لفھم) اس حدیث سے درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں۔ ١۔ یہ جنگ ناگزیر حالات میں کی گئی۔ جن کی بنیاد یہود کی پے در پے عہد شکنیاں تھیں۔ ٢۔ مسلمانوں کا جنگ سے مقصد نہ کشور کشائی ہے اور نہ لوٹ مار۔ ٣۔ مسلمانوں کے ہاں محبوب ترین مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنی رضا ورغبت سے اسلام لے آئیں۔ اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو پھر کم از کم اسلام دشمنی چھوڑ دیں۔ اور اگر یہ بھی نہیں کرسکتے تو آخری چارہ کار کے طور پر جنگ کی اجازت دی گئی ہے اور ایسے بدعہد اور ہٹ دھرم قسم کے لوگوں سے جنگ کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ [٢٥٦] ایسی رکاوٹیں ختم ہونے یا ان پر غلبہ پانے کے بعد بھی صرف ایسے آدمیوں کو سزا دینے کی اجازت ہے جو مسلمانوں پر جبر و تشدد کرنے اور انہیں ختم کردینے میں حد درجہ آگے بڑھے ہوئے یا سازشیں کرتے رہے تھے۔ جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ بدر کے قیدیوں میں سے عقبہ بن ابی معیط اور نضر بن حارث کو قتل کروا دیا اور باقی قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جیسے فتح مکہ کے موقع پر عفو عام کے باوجود آپ نے چار آدمیوں کو قتل کردینے کا حکم دیا تھا، یہ چاروں اشتہاری مجرم تھے۔ ان میں سے ایک عبداللہ بن خطل تھا جو تین ایسے جرائم میں ملوث تھا جن کی سزا اسلام میں قتل ہے اور وہ تین جرائم یہ تھے (١) وہ اسلام سے پھر گیا تھا (٢) اس نے خون ناحق کیا تھا اور (٣) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجو کرتا تھا۔ یعنی توہین رسالت کا مجرم تھا۔ چناچہ انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سر پر خود پہنے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے۔ جب آپ نے خود اتارا تو ایک شخص کہنے لگا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! عبداللہ بن خطل کعبہ کا پردہ پکڑے ہوئے لٹک رہا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا && اسے قتل کردو۔ && (بخاری، کتاب المغازی، باب این رکز النبی الرایہ یوم الفتح) ایسے اشتہاری مجرموں کی مکہ بلکہ کعبہ میں قتل کی دو ہی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ شاید یہ وہی ساعت ہو جس کے متعلق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا۔ مکہ میرے لیے حلال کیا گیا ہے وہ بھی صرف چند ساعت کے لیے، وہ پہلے بھی ارض حرم تھا اور بعد میں تاقیامت ارض حرم ہی رہے گا اور دوسری یہ کہ ایسے اشتہاری مجرم کو کعبہ کی حرمت بھی پنا نہیں دے سکتی۔ واللہ اعلم بالصواب۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یعنی ان سے اس وقت تک لڑتے رہو جب تک فتنہ (شرک اور اس پر مجبور کرنے کے لیے ظلم و ستم) کا ہر طرح سے قلع قمع نہیں ہوتا اور اللہ کا دین ہر طرح سے غالب نہیں آجاتا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمام لوگوں سے جنگ کروں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ الل... ہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، پھر جب وہ یہ کام کرلیں تو انھوں نے اپنے خون اور اپنے اموال مجھ سے محفوظ کرلیے مگر اسلام کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ “ [ بخاری، الإیمان، باب ( فإن تابوا وأقاموا۔۔ ) : ٢٥ ] اِلَّا عَلَي الظّٰلِمِيْنَ ) یعنی اگر یہ شرک سے یا مسلمانوں کے ساتھ لڑائی سے باز آجائیں تو اس کے بعد جو شخص ان سے جنگ کرے گا وہ ظالم ہے اور اسے اس زیادتی کی سزا ملے گی۔ یہاں ” عُدْوَانَ “ کا لفظ ایسی ہی سزا کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ( ابن کثیر) دوسرا معنی یہ ہے کہ اگر وہ ظلم یعنی شرک سے باز آجائیں تو اب ان پر زیادتی جائز نہیں، کیونکہ اب وہ ظالم نہیں۔ عدوان سے مراد وہ زیادتی ہے جو مقابلے میں ہوتی ہے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے : (فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ ۠) [ البقرۃ : ١٩٤] ” پس جو تم پر زیادتی کرے سو تم اس پر زیادتی کرو، اس کی مثل جو اس نے تم پر زیادتی کی ہے۔ “ (ابن کثیر)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلہِ۝ ٠ ۭ فَاِنِ انْتَہَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَي الظّٰلِـمِيْنَ۝ ١٩٣ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ما... تَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ عُدْوَانِ ومن العُدْوَانِ المحظور ابتداء قوله : وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ المائدة/ 2] ، ومن العُدْوَانِ الذي هو علی سبیل المجازاة، ويصحّ أن يتعاطی مع من ابتدأ قوله : فَلا عُدْوانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 193] اور عدوان یعنی زیادتی کا بدلہ لینے کو بھی قرآن نے عدوان کہا ہے حالانکہ یہ جائز ہے جیسے فرمایا : ۔ فَلا عُدْوانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 193] تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں کرنی چاہئے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری (وقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ ویکون الدین للہ) کافروں سے قتال کی فرضیت کو ضروری قرار دیتا ہے حتیٰ کہ وہ کفر سے باز آ جائیں ۔ حضرت ابن عباس، قتادہ، مجاہد اور ربیع بن انس کا قول ہے کہ یہاں فتنہ سے مراد شرک ہے۔ ایک قول ہے کہ کفر کو اس لئے فتنہ کہا گیا ہے کہ یہ انسان کو ہلاکت تک لے جاتا ہے جس طرح ف... تنہ انسان کو ہلاکت کی راہ دکھاتا ہے۔ ایک قلو یہ بھی ہے کہ فتنہ سے مراد آزمائش ہے اور کفر سے مراد آزمائش کی گھڑی میں اظہار فساد ہے۔ دین کے معنی طاعات کے ذریعے اللہ کے سامنے جھک جانے اور فرماں برداری بجا لانے کے ہیں۔ لغت میں دین کا مفہوم دو معنوں میں منقسم ہے۔ اول انقیاد یعنی فرماں برداری۔ اعشیٰ کا شعر ہے۔ ھودان الدباب اذکر ھوالدب ن درا کا بغروۃ وصیال ثم دانت بعد الرباب وکانت کعذاب عقوبۃ الاقوال جب لوگوں نے جنگوں اور حملوں کے لگاتار سلسلے کے سامنے خود سپردگی کو ناپسند کیا تو اس نے اپنی محبوبہ رباب کی فرماں برداری اختیار کرلی اس کے بعد رباب نے اس کی فرما برداری اختیار کی لیکن وہ منہ سے نکالے ہوئے الفاظ کے نتیجے میں ملنے والی سزائوں والی عذاب بن گئیے۔ دوم۔ عادت ۔ شاعر کا شعر ہے تقول و قدد رأت لھا وضینی اھذا دینہ ابداً و دینی میں نے اپنا بالوں سے بنا ہوا نمدہ یا بسترہٹا لیا تو وہ کہنے لگی کیا ہمیشہ اس کی یہی عادت رہی ہے اور میری بھی۔ شریعت میں دین کا مفہوم اللہ کی دائمی طور پر فرماں برداری اور اسکے لئے خود سپردگی کی عادت ہے یہ آیت خاص طور پر مشرکین کے بارے میں ہے۔ اہل کتاب اس میں داخل نہیں ہیں۔ اس لئے کہ خطاب کی ابتداء ان مشرکین کے ذکر سے ہوئی ہے چناچہ فرمایا گیا (واقتلوھم حیث تقفتموھم واخرجوھم من حیث اخرجوکم) یہ کیفیت مشرکین مکہ کی تھی جنہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام کو مکہ سے نکالا تھا اس لئے اہل کتاب اس حکم میں داخل نہیں ہیں۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ مشرکین عرب سے اسلام یا تلوار کے سوا کوئی تیسری چیز قبول نہیں کی جائے گی کیونکہ قول باری ہے (وقاتلوھم حتی لاتکون فتنہ) عینی کفر باقی نہ رہے۔ اور (ویکون الدین للہ) اللہ کا دین اسلام ہے۔ قول باری ہے (ان الدین عند اللہ الاسلام ) دین اللہ کے ہاں اسلام ہے۔ اور قول باری (فان انتھوا فلاعدوان الا علی الظالمین، اگر یہ باز آ جائیں تو ظالموں کے سوا کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی) معنی یہ ہے کہ ان کے باز آ جانے کی صورت میں ظالموں کے سوا اور کسی کو قتل کی سزا نہیں ملے گی۔ اس سے مراد … واللہ اعلم … وہ قتل ہے جس کی ابتداء کا ذکر صوقاتلوھم) کے قول سے ہوا تھا۔ کفر کی وجہ سے مشرکین جس قتل کے سزا وار ٹھہر ی تھے اسے عدوان کا نام دیا گیا کیونکہ یہ ان کے ظلم کی سزا تھی۔ سزا کے لئے اصل جرم کا نام تجویز کیا گیا جس طرح کہ قول باری (وجزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا، اور بدی کا بدلہ اس جیسی بدی ہے۔ ) اسی طرح (فمن اعتدیٰ علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم جو شخص تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس کے ساتھ اسی طرح زیادتی سے پیش آئو جس طرح وہ تمہارے ساتھ پیش آیا ہے) حالانکہ بدی اور زیادتی کا بدلہ نہ بدی ہے اور نہ زیادتی ۔ ارشاد باری ہے (الشھر الحرام باشھر الحرام و الحرمات قصاص، ماہ حرام کا بدلہ ماہ حرام ہی ہے اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا) حسن سے مروی ہے کہ مشرکین عرب نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ آیا آپ کو ماہ حرام میں ہمارے ساتھ جنگ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اثبات میں جوا بدیا۔ مشرکین نے موقعہ غنیمت جان کر ماہ حرام میں مسلمانوں پر حملہ کرنے اور ان سے برسر پیکار ہونے کا ارادہ کرلیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ مقصد یہ ہے کہ اگر مشرکین نے ماہ حرام میں جنگ وجدل کا دروازہ کھول دیا تو تم بھی اسی طرح ان کے مقابلے میں جنگ وجدل کا راستہ اختیار کرو۔ حضرت ابن عباس، ربیع بن انس، قتادہ اور ضحاک سے مروی ہے کہ قریش نے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ذی قعدہ کے مہینے میں جو ماہ حرام تھا، حدیبیہ کے دن حالت احرام میں ہونے کے باوجود بلد حرام مکہ سے واپس کردیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے اسی ماہ ذی القعدہ میں مکہ میں داخل ہونے کی راہ ہموار کردی۔ آپ نے عمرہ ادا کیا اور حدیبیہ کے دن آپ کے اور مکہ کے درمیان جو رکاوٹ کھڑی کردی گئی تھی اس کا بدلہ لے لیا۔ اب یہاں آیت سے دونوں معنی مراد لینا ممتنع ہے۔ اس صورت میں ایک معنی کے لحاظ سے اس جملے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دی گئی ہے کہ مشرکین نے ماہ حرام میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلا حرام میں داخل ہونے سے روکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اگلے سال ماہ حرام میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلا حرام میں لے جا کر اس کا بدلہ چکا دیا۔ اس کے ساتھ ہی آیت میں ماہ حرام کے اندر قتال کی اباحت کا مضمون بھی موجود ہے بشرطیکہ مشرکین مسلمانوں کے خلاف ایسا قدم اٹھا لیں۔ بیک وقت دونوں معنی مراد لینا اس لئے ممتنع ہے کہ ایک ہی لفظ بیک وقت امر اور خبر نہیں بن سکتا اور جب ایک معنی مراد ہ گا دوسرے معنی کی خود بخود نفی ہوجائے گی۔ البتہ اس کی گنجائش ہے کہ ماہ حرام میں کفار کی رکاوٹ کی وجہ سے فوت شدہ عمرے کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اگلے سال ماہ حرام میں جو عمرہ کرا دیا تھا آیت میں اس کی خبر دی جا رہی ہے اور بدلے میں آنے والے ماہ حرام کی حرمت اسی طرح ہے جس طرح فوت شدہ ماہ حرام کی حرمت تھی۔ اسی واسطے فرمایا (والحرمات قصاص) اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا۔ اور اس کے بعد ہی فرمایا (فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم) لہٰذا جو تم پر دست درازی کرے تم بھی اسی طرح اس پر دست درازی کرو) اللہ نے یہ بتادیا کہ اگر مشرکین ماہ حرام میں جنگ کا دروازہ کھولیں تو مسلمان بھی ایسا ہی کریں اگرچہ مسلمانوں کو اس کی ابتداء کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ آیت میں بدلے کا نام بھی اعتداء رکھا گیا اس لئے اعتداء کا بدلہ اپنے جنس اور اس مقدار کے لحاظ سے جس کا وہ سزا وار ہوتا ہے ، اعتداء کی طرح ہوتا ہے۔ اس بنا پر مجازی طور پر بدلہ کو اعتداء کا نام دے دیا گیا اس لئے کہ زیادتی کرنے والا حقیقت میں ظالم ہوتا ہے اس بنا پر یہاں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مسلمانوں کو ظلم کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ آیت میں اس بارے میں عموم ہے کہ جو شخص کسی دوسرے کا مال استعمال میں لا کر ختم کر دے تو اس پر اس کا مثل واجب ہوگا۔ پھر اس مثل کی دو صورتیں ہیں۔ جنس میں مثل ہونا اور یہ بات ان چیزوں میں ہوتی ہے جو ناپ، تول اور گنتی کے ضمن میں آتی ہوں اور قیمت میں مثل ہوں اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک غلام کے جھگڑے میں جو دو شخصوں کی ملکیت میں تھا پھر ایک نے جو خوشحال تھا اسے آزاد کردیا۔ “ یہ فیصلہ دیا کہ آزاد کرنے والا تاوان کے طور پر دوسرے کو غلام کی نصف قیمت ادا کرے۔ آپ نے اعتداء یعنی زیادتی کی وجہ سے لازم ہونے والے مثل کو قیمت کی شکل دی۔ اس لئے اس باب میں اس کی حیثیت اصل کی ہوگی۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ مثل کا اطلاق قیمت پر بھی ہوتا ہے اور یہ اس کے لئے اسم بنتا ہے۔ نیز اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ مثل کا اطلاق کبھی اس چیز کے لئے اسم کے طور پر بھی ہوتا ہے جو اس کے جنس سے نہیں ہوتی بشرطیکہ وہ چیز اس مثل کا بدل اور مقدار میں اس کی نظیر بن سکتی ہو۔ اس کے لئے یہ صورت پیش کی جاسکتی ہے کہ جس شخص نے دوسرے کے ساتھ اس پر زنا کی تہمت لگا کر زیادتی کی تو اس صورت میں اس کے مثل یہ سزا نہیں ہ گی کہ اس پر بھی اسی قسم کی تہمت لگا دی جائے۔ بلکہ وہ جس مثل ک امستحق ہوگا وہ اسی کوڑے ہوں گے جو اسے لگائے جائیں گے۔ اسی طرح وہ اگر کسی کو ایسی گالی دے جو تہمت سے کم ہو تو اسے تعزیری سزا دی جائے گی۔ یہ تعزیری سزا اس کے جرم کا مثل ہوگی۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مثل کے اسم کا اطلاق کبھی ایسی چیز پر بھی ہوتا ہے جو اس کے جنس میں سے نہیں ہوتی لیکن اس کا بدل اور عائد ہونے والی سزا کی مقدار میں اس کی نظیر بن سکتی ہو۔ اس سے اس مسئلے میں بھی استدلال کیا جاسکتا ہے جس میں کوئی شخص کسی کی ساگوان کی لکڑی غصب کر کے اپنی عمارت میں لگا دے تو اس پر اس لکڑی کی قیمت عائد ہوگی اس لئے کہ قیمت پر مثل کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے چونکہ غاصب نے یہ لکڑی غصب کر کے زیادتی کی ہے اس لئے اس پر عموم حق کی وجہ سے اس کا مثل عائد ہوگا یعنی اسے لکڑی کی قیمت دینی پڑے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہم اس شخص کا مکان گرا کر اگر غصب شدہ لکڑی نکال لیں تو ایسی صورت میں ہماری طر سے اس پر اتنی ہی زیادتی ہوگی جتنی اس نے ہم پر کی تھی اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ غاصب سے اپنی مملوکہ چیز بعینہ واپس لے لینا اس کے ساتھ زیادتی نہیں ہے جس طرح کہ ایک شخص کے پاس رکھی ہوئی امانت کی واپسی اس شخص کے ساتھ زیادتی نہیں کہلاتی۔ زیادتی تو اس صورت میں ہوگی جبکہ وہ چیز غاصب کی ملکیت سے اسی طرح نکال لی جائے جس طرح اس نے نکالی تھی یا اس چیز پر اس کا قبضہ اسی طرح ختم کر ا دیا جائے جس طرح اس نے اصل مالک کا قبضہ ختم کرا دیا تھا۔ لیکن اگر مالک اپنی مملوکہ چیز بعینہ واپس حاصل کرلیتا ہے تو وہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرتا اور نہ ہی اس میں مثل واپس ہوتا ہے۔ اس سے اس مسئلے میں بھی استدلال کیا جاسکتا ہے کہ قصاص کی جن صورتوں میں مماثلت اور مساوات ممکن ہو ان میں پورا پورا قصاص واجب ہوتا ہے اور ان صورتوں میں نہیں ہوتا جہاں مماثلت ممکن نہیں ہوتی مثلاً نصف باز و قطع کردینے یا پیٹ اور سر پر زخم لگانے کے جرم میں قصاص ساقط ہوجاتا ہے اس لئے کہ ان صورتوں میں مماثلت متعذر ہوتی ہے اور ان کے مثل کی پوری وصول محال ہوتی ہے۔ امام ابوحنیفہ نے اسی اصول کی بنا پر یہ استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کا ہاتھ کاٹ دے اور پھر اسے قتل کر دے تو مقتول کے ولی کو یہ حق پہنچنا ہے کہ وہ قاتل کو بھی اسی طریقے سے قتل کر دے کیونکہ قول باری ہے (فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم) آیت کا مقتضی یہ ہے کہ قاتل کے ساتھ بھی وہی سلوک ہونا چاہیے جو اس نے مقتول کے ساتھ کیا تھا۔ ارشاد باری ہے (وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلفوا بایدیکم الی التھلکۃ، اللہ کے راستے میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس آیت کی تفسیر میں بہت سے اقوال ہیں۔ ایک وہ ہے جس کی روایت ہمیں محمد بن بکر نے کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں احمد بن عمرو بن السرح نے ، انہیں ابن وہب نے حیوۃ بن شریح سے اور ابن لھیعہ نییزید بن ابی حبیب سے ان دونوں نے اسلم ابو عمران سے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا، عبدالرحمٰن بن ولید ہمارے سالار تھے ادھر رومی ہمارے مقابلے پر اس طرح آئے کہ انہوں نے اپنی پشت کو شہر کی دیوار سے چپکائے رکھا تھا ہمارے ایک آدمی نے دشمن پر حملہ کردیا، لوگوں نے اس سے رک جانے کے لئے کہا کہ یہ تو اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے۔ لوگوں کا اشارہ آیت (ولا تلقوا بایدفکم الی التھلکۃ) کی طرف تھا، حضرت ابو ایوب انصاری نے یہ سن کر فوراً محسوس کیا کہ لوگوں نے آیت کو بےمحل استعمال کیا ہے۔ اس لئے آپ نے ان کی تصحیح کرتے ہوئے فرمایا کہ اس آیت کا نزول ہم انصار مدینہ کے سلسلے میں ہوا تھا بات یہ ہوئی کہ جب اللہ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت فرمائی اور اپنے دین اسلام کو غلبہ عطا کیا تو ہم نے کہا کہ اب اسلام کے لئے زیادہ جدوجہد کی ضرورت نہیں ہے کیوں نہ ہم اپنے مال و اسباب میں مصروف ہو کر ان کی دیکھ بھال کریں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدکم الی التھلکۃ) اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے کاروبار اور مال و اسباب میں مصروف ہو کر ان کی فکر میں لگ جائیں اور جہاد چھوڑ بیٹھیں۔ ابو عمران کہتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب انصاری مسسلل جہاد کرتے رہے حتیٰ کہ آپ کا وہیں انتقال ہوگیا اور قسطنطنیہ میں مدفون ہوئے حضرت ابو ایوب انصاری نے یہ بتایا کہ ہلاکت میں ڈالنے کا مطلب ترک جہاد ہے اور آیت کا نزول اسی سلسلے میں ہوا تھا۔ حضرت ابن عباس، حضرت عذیفہ، حسن بصری، قتادہ، مجاہد اور ضحاک سے بھی سی طرح کی روایت ہے۔ حضرت براء بن عاذب اور عبیدہ سلمانی سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ ہلاکت میں ڈالنے کا مطلب معاصی کے ارتکاب پر بخشش سے مایوسی ہے۔ ایک روایت ہے کہ اس کا مطلب خرچ میں اسراف ہے۔ یہاں تک کہ اس کے پاس کھانے پینے کی کوئی چیز باقی نہ رہ جائے اور فاقہ کشی میں اپنی جان گنوا بیٹھے ۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد دشمنوں کی صفوں میں اندھا دھند گھس پڑنا کہ جس سے دشمن کا کوئی نقصان تو نہ ہو لیکن اپنی جان چلی جائے۔ آیت کی یہ تاویل ان لوگوں نے کی تھی جنہیں حضرت ایوب انصاری نے ان کی غلطی سے آگاہ کر کے اصل شان نزول کی خبر دی تھی۔ اگر آیت سے درج بالا تمام معانی مراد لئے جائیں تو اس میں قباحت نہیں ہے کیونکہ آیت کے الفاظ میں ان سب کا احتمال موجود ہے اور چونکہ ان معانی کا آپس میں کوئی تضادیا منافاقت نہیں ہے اس لئے ان سب کا بیک وقت اجتماع جائز ہے۔ امام محمد بن الحسن شیبانی نے سیر کبیر میں بیان کیا ہے کہ اگر ایک مسلمان تن تنہا دشمن کے ایک ہزار افراد پر حملہ آور ہو جائیتو اس پر کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس مجاہد کے دل میں بذریعہ شہادت اپنی نجات یا بذریعہ شجاعت دشمن کو نقصان پہنچانے کا جذبہ موج زن ہو۔ اگر ان میں سے کوئی جذبہ بھی کار فرما نہ ہو تو میرے نزدیک اس کا یہ اقدام مکروہ ہوگا اس لئے کہ وہ اپنی جان ہلاکت میں ڈالے گا اور اس سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ایک انسان کو یہ قدم اسی وقت اٹھانا چاہیے جبکہ اسے اپنی نجات یا مسلمانوں کی منفعت مقصود ہو۔ اگر اسے نہ تو نجات کا طمع ہو نہ ہی دشمن کو نقصان پہنچانے کا جذبہ بلکہ وہ یہ قدم محض مسلمانوں میں حوصلہ اور جرأت پیدا کرنے کے لئے اٹھا رہا ہو تاکہ اس کی دیکھا دیکھی دوسرے مسلمان بی ایسا ہی قدم اٹھائیں اور یا تو دشمنوں کو نقصان پہنچائیں یا خود جام شہادت نوش کرلیں، تو ایسی صورت میں انشاء اللہ کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ اگر اسے صرف دشمن کے ہاتھوں نقصان پہنچانے کا جذبہ یہ اس اقدام پر ابھارت ا اور اپنی نجات کا اسے کوئی خیال نہ ہوتا تو بھی اس کا دشمن پر حملہ کرنا میرے نزدیک کوئی غلط بات نہ ہوتی۔ ٹھیک اسی طرح اگر وہ دشمن کی صفوں میں گھس کر دوسروں کو نقصان پہنچانے کا جذبہ لے کر حملہ آور ہوتا ہے تو میرے نزدیک اس کا بھی یہی حکم ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ اجر کا مستحق ہوگا مگر وہ صورت وہ ہوگی جبکہ اس کے اس اقدام میں منفعت کی کوئی بھ صورت نہ پائی جائے۔ اگر سا کے دل میں صرف دشمنوں کو مرعوب کرنے کا جذبہ ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ دشمن کو نقصان پہنچانے کی بہترین شکل ہے اور اس میں مسلمانوں کے لئے منفعت کا پہلو بھی موجود ہے۔ امام محمد نے فرد واحد کے حملے کی جتنی صورتیں بتائی ہیں وہی صورتیں درست ہیں۔ ان کے علاوہ اور کوئی صورت درست نہیں ہے اور ان ہی صورتوں پر ا نلوگوں کی تاویل کو محمول کیا جائے گا جن ہوں نے حضرت ابو ایوب انصاری کی حدیث میں اس شخص پر اس آیت کے مفہوم کو چسپاں کیا تھا جو تن تنہا دشمنوں پر حملہ کرنے کی نیت سے نکل کھڑا ہوا تھا۔ کیونکہ ان کے نزدیک اس شخص کے اس اقدام کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اس لئے ایسی صورت میں اسے اپنی جان تلف نہیں کرنی چاہیے تھی اس سے نہ دین کو کوئی فائدہ پہنچتا نہ مسلمانوں کو۔ اگر اس کی جان جانے کی صورت میں دین کو کوئی نفع ہوتا تو یہ تو ایسا مرتبہ و مقام ہے جس کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی متعدد بار تعریف فرمائی۔ ارشاد باری ہے (ان اللہ اشتری من المئومنین انفسھم واموالھم بان لھوا الجنۃ یقاتلون فی سبیل اللہ فیقتلون ویقتلون) اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جان و مال کی خرید داری کرلی ہے کہ انہیں اس کے بدلے میں جنت ملے گی وہ اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں اور پھر دشمنوں کو قتل بھی کرتے ہیں اور ان کے ہاتھوں قتل بھی ہوتے ہیں۔ ) اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہے (ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتاً بل احیاء عند ربھم یرزقون اور تم ان لوگوں کو ہرگز مردہ مت سمجھو جو اللہ کے راستے میں قتل ہوئے بلکہ وہ زندہ ہیں اور انہیں اپنے رب کی طرف سے رزق مل رہا ہے۔ ) ایک اور جگہ ارشاد ہے (ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو اللہ کی رضا کے حصول کی خواہش میں اپنی جان کا سودا کر لیت یہیں) ان آیات اور ان جیسی دوسری آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مدح کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی جان دے دیتے ہیں۔ ام بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم بھ یہی ہونا چاہیے کہ اگر کسی کو اس کام سے دین کو فائدہ پہنچنے کی امید ہو اور پھر وہ اس کام پر اپنی جان لگائے یہاں تک کہ اپنی زندگی بھی اس پر قربان کر دے تو وہ شہادت کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہوجائے گا۔ قول باری ہے (وامر بالمعروف وانہ عن المنکر واصبر علی ما اصابک ان ذلک من عزم الامور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں اور اس س لسلے میں پہنچنے والی تکلیفوں کو صبر کے سات ھ برداشت کریں۔ بیشک یہ بڑے پختہ ارادے اور حوصلے کا کام ہے۔ عکرمہ کے واسطے سے حضرت ابن عباس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ حدیث مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (افضل الشھداء حمزۃ بن عبدالمطلب ورجل تکلم بکلمۃ حق عند سلطان جائز فقتلہ، تمام شہیدوں میں سب سے افضل حمزہ بن عبدالمطلب ہیں نیز وہ شخص بھی ہے جس نے کسی ظالم سلطان کے سامنے حق بات کہہ دی اور اس وجہ سے سلطان نے اس کی گردن اڑا دی) حضرت ابو سعید خدری (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (افضل الجھاد کلمۃ حق عند سلطان جائز، ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا بہترین جہاد ہے) محمد بن بکر نے ہمیں روایت کی، انہیں ابو دائود نے ، انہیں عبداللہ بن الجراح نے عبداللہ بنیزید سے، انہوں نے موسیٰ بن علی بن رباح سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے عبدالعزیز بن مروان سے کہ میں نے حضرت ابوہریرہ کو یہ فرمایت ہوئے سنا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ (شوما فی الرجل شح ھالع و جین خالع، ایک انسان میں بدترین چیز غم اگنیز شدت بخل اور قدم اکھاڑ دینے الی بزدلی ہے۔ ) بزدل کی مذمت سے بہادری اور جان بازی کے اقدام کی تعریف کا پہلو نکلتا ہے۔ ایسی بہادری اور جان بازی جس سے دین کو فائدہ پہنچنے اگرچہ خود اسے اپنی ہلاکت کا یقین ہو۔ واللہ اعلم بالصواب  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩٣) اور جب ان کی طرف سے قتل کی پہل ہو تو پھر حرم میں ان کے ساتھ اس قدر قتال کرو کہ حرم کے اندر شرک کا نام ونشان مٹ جائے اور اسلام اور اظہار بندگی اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہوجائے۔ اور اگر یہ کفار حرم میں لڑائی کرنے سے باز آجائیں تو پھر قتل کرنے کی کوئی اجازت نہیں مگر صرف وہ لوگ جو خود سے لڑائی کی پہل...  کریں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩٣ (وَقٰتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ ط) ( فَاِنِ انْتَہَوْا فَلاَ عُدْوَان الاَّ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ ) دعوت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ضمن میں اب یہ جنگ کا مرحلہ شروع ہوگیا ہے۔ مسلمانو جان لو ‘ ایک دوروہ تھا کہ بارہ تیرہ برس تک تمہیں حکم تھا (... کُفُّوْا اَیْدِیَکُمْ ) اپنے ہاتھ باندھے رکھو ! ماریں کھاؤ لیکن ہاتھ مت اٹھانا۔ اب تمہاری دعوت اور تحریک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ اب جب تمہاری تلواریں نیام سے باہر آگئی ہیں تو یہ نیام میں نہ جائیں جب تک کہ فتنہ بالکل ختم نہ ہوجائے اور دین اللہ ہی کے لیے ہوجائے ‘ اللہ کا دین قائم ہوجائے ‘ پوری زندگی میں اس کے احکام کی تنفیذ ہو رہی ہو۔ یہ آیت دوبارہ سورة الانفال میں زیادہ نکھری ہوئی شان کے ساتھ آئی ہے : (وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ج) (آیت ٣٩) اور جنگ کرو ان سے یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین کل کا کُل اللہ کے لیے ہوجائے۔ دین کی بالادستی جزوی طور پر نہیں بلکہ کلی طور پر پوری انسانی زندگی پر قائم ہوجائے ‘ انفرادی زندگی پر بھی اور اجتماعی زندگی پر بھی۔ اور اجتماعی زندگی کے بھی سارے پہلو ‘ (Politico- Socio- Economic System) کلیُ طور پر اللہ کے احکام کے تابع ہوں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

204. Here the term fitnah is used in a different sense from the one in which it was used above (see verse 191) . It is evident from the context that fitnah refers here to the state of affairs wherein the object of obedience is someone other than God. Hence the purpose of a believer's fighting is that this fitnah should cease and obedience should be consecrated to God alone. An investigation of th... e usages of the word din (which occurs in this verse) reveals that the core of its meaning is obedience. In its technical usage, the word refers to that systern of life which arises as a result of a person recognizing someone as his Lord and Sovereign and committing himself to following his commands and ordinances. This explanation of the word din makes it quite clear that when some human beings establish their godhead and absolute dominance over others, this state of affairs is one of fitnah. Islam seeks to put an end to this and replace it by a state of affairs in which people live in obedience to the laws of God alone. 205. What is meant here by 'desisting' is not the abandonment of unbelief and polytheism on the part of the unbelievers but rather their desistance from active hostility to the religion enjoined by God. The unbeliever, the polytheist, the atheist, has each been, empowered to hold on to his beliefs and to woorship who and whatever he wishes. In order to deliver these people from their error, Muslims are required to counsel them and tell them where their good lies. But Muslims ought not to try to achieve this purpose by resorting to force. At the same time, these misguided people have no right to either enforce the false laws of their own contriving instead of the laws of God or to drive the people of God to bondage of others than God. In order to put an end to this fitnah, both persuasion and force be used, whenever and to the extent to which each of the two is needed, and a true believer will not rest until the unbelievers give up this fitnah. The statement that hostility is meant only against wrong-doers seems to imply that when the true system of life replaces the false one, ordinary people should be granted a general amnesty. At the same time, however, it would be justifiable to punish those who exceeded all limits in their hostility to the Truth, at the time when they held the reins of power. Yet in dealing with such people, it becomes the true believers, after they have one final victory, to adopt a general attitude of forgiveness and tolerance towards the vanquished rather than subject them to revenge for the wrongs they committed in the past. Those criminals whose records were exceptionally bad could, however, be punished. The Prophet (peace be on him) , availed himself of this permission in respect of some notorious enemies whose hostility had exceeded all limits, even though pardon and forgiveness behoved none more than him. Thus 'Uqbah ibn Abi Mu'avt and Nadr b. Harith from among the captives of the Battle of Badr were put to death and when a general amnesty, was proclaimed after the conquest of Makka four out of seventeen persons were executed. (See Ibn Hisham, vol. 1, p. 644 and vol. 2, pp. 409 ff. - Ed.) These acts were based on the permission to put to the sword those who have been conspicuously ruthless in their hostility to Islam and the Muslims.  Show more

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :204 یہاں فتنہ کا لفظ اوپر کے معنی سے ذرا مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ سیاق و سباق سے صاف ظاہر ہے کہ اس مقام پر ” فتنے“ سے مراد وہ حالت ہے جس میں دین اللہ کے بجائے کسی اور کے لیے ہو ، اور لڑائی کا مقصد یہ ہے کہ یہ فتنہ ختم ہو جائے اور دین صرف اللہ کے لیے ہو ۔ پھر ج... ب ہم لفظ”دین“ کی تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان میں دین کے معنی” اطاعت“ کے ہیں اور اصطلاحاً اس سے مراد وہ نظام زندگی ہے جو کسی کو بالا تر مان کر اس کے احکام و قوانین کی پیروی میں اختیار کیا جائے ۔ پس دین کی اس تشریح سے یہ بات خود واضح ہو جاتی ہے کہ سوسائٹی کی وہ حالت ، جس میں بندوں پر بندوں کی خدائی و فرماں روائی قائم ہو ، اور جس میں اللہ کے قانون کے مطابق زندگی بسر کرنا ممکن نہ رہے ، فتنے کی حالت ہے اور اسلامی جنگ کا مطمح نظریہ ہے کہ اس فتنے کی جگہ ایسی حالت قائم ہو ، جس میں بندے صرف قانون الہٰی کے مطیع بن کر رہیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :205 باز آجانے سے مراد کافروں کا اپنے کفر و شرک سے باز آجانا نہیں ، بلکہ فتنہ سے باز آجانا ہے ۔ کافر ، مشرک ، دہریے ، ہر ایک کو اختیار ہے کہ اپنا جو عقیدہ رکھتا ہے ، رکھے اور جس کی چاہے عبادت کرے یا کسی کی نہ کرے ۔ اس گمراہی سے اس کو نکالنے کے لیے ہم اسے فہمائش اور نصیحت کریں گے مگر اس سے لڑیں گے نہیں ۔ لیکن اسے یہ حق ہرگز نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کے قانون کے بجائے اپنے باطل قوانین جاری کرے اور خدا کے بندوں کو غیر از خدا کسی کا بندہ بنائے ۔ اس فتنے کو دفع کرنے کے لیے حسب موقع اور حسب امکان ، تبلیغ اور شمشیر ، دونوں سے کام لیا جائے گا اور مومن اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے گا ، جب تک کفار اپنے اس فتنے سے باز نہ آجائیں ۔ اور یہ جو فرمایا کہ اگر وہ باز آجائیں ، تو ”ظالموں کے سوا کسی پر دست درازی نہ کرو“ ، تو اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ جب نظام باطل کی جگہ نظام حق قائم ہو جائے ، تو عام لوگوں کو تو معاف کر دیا جائے گا ، لیکن ایسے لوگوں کو سزا دینے میں اہل حق بالکل حق بجانب ہوں گے ، جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں نظام حق کا راستہ روکنے کے لیے ظلم و ستم کی حد کر دی ہو ، اگرچہ اس معاملے میں بھی مومنین صالحین کو زیب یہی دیتا ہے کہ عفو و درگزر سے کام لیں اور فتحیاب ہو کر ظالموں سے انتقام نہ لیں ۔ مگر جن کے جرائم کی فہرست بہت ہی زیادہ سیاہ ہو ان کو سزا دینا بالکل جائز ہے اور اس اجازت سے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فائدہ اٹھایا ہے ، جن سے بڑھ کر عفو و درگزر کسی کے شایان شان نہ تھا ۔ چنانچہ جنگ بدر کے قیدیوں میں سے ععقبہ بن ابی معیط اور نضر بن حارث کا قتل اور فتح مکہ کے بعد آپ کا ۱۷ آدمیوں کو عفو عام سے مستثنیٰ فرمانا اور پھر ان میں سے چار کو سزائے موت دینا اسی اجازت پر مبنی تھا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

123: یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جہاد کا اصل مقصد کسی کو اسلام پر مجبور کرنا نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ عام حالات میں کوئی شخص کفر پر اصرار کرے تب بھی جزیہ کے ذریعے اسلامی حکومت کے قوانین کی اطاعت کرکے اپنے مذہب پر قائم رہ سکتا ہے، لیکن جزیرۂ عرب کا حکم مختلف ہے، یہ وہ ملک ہے جہاں رسول کریمﷺ کو براہ راس... ت بھیجا گیا اور جہاں کے لوگوں نے آنحضرتﷺ کے معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور آپﷺ کی تعلیمات براہ راست سنیں، ایسے لوگ اگر ایمان نہ لائیں تو پچھلے انبیاء علیہم السلام کے زمانوں میں انہیں عذاب عام کے ذریعے ہلاک کیا گیا، آنحضرتﷺ کے زمانے میں عذاب عام موقوف فرما دیا گیا، لیکن یہ حکم دیا گیا کہ جزیرۂ عرب میں کوئی کافر مستقل شہری کی حیثیت میں نہیں رہ سکتا، یہاں اس کے لئے تین ہی راستے ہیں یا اسلام لائے یا جزیرۂ عرب سے باہر چلاجائے یا جنگ میں قتل ہوجائے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:193) فلا عدوان۔ ف جواب شرط کے لئے ہے۔ جملہ جزائیہ ہے ۔ (فان انتھوا اس سے قبل کا جملہ شرطیہ ہے) عدوان یہ عدا یعدوا (باب نصر) کا مصدر ہے۔ زیادتی ، ظلم، ستم، تعدی، بہت بری طرح حد سے بڑھ جانا۔ ترجمہ : تو کسی پر زیادتی نہیں سوائے ۔۔ الخ الظلمین۔ ظلم کرنے والے۔ اسم فاعل۔ جمع مذکر۔ مجرور ۔ یہاں ظالمین س... ے مراد وہ لوگ ہیں جو شرک اور حرب میں باقی ہیں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی ان سے اس وقت تک بر سر پیکار ہو جب تک کہ فتنہ شرک اور ظلم وستم) کا ہر طرح سے قلع قمع ہوجاتا اور اللہ تعالیٰ کا دین ہر طرح سے غالب نہیں آجاتا۔ ایک حدیث میں ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، مجھے اس وقت تک لڑنے کا حکم ملا ہے جب تک وہ الا لہ الا اللہ کے قائل نہیں ہوجاتے جب وہ اس کے...  قائل ہوجا " ئیں گے تو ان کے جان ومال محفوظ ہیں۔ الایہ کہ ان پر اسلام کی رو سے کوئی حق عائد ہو تو اسے پورا کیا جائے گا۔ (ابن کثیر، بحوالہ صحیحین)3 یعنی اگر یہ شرک اور مسلمانوں کے ساتھ مقاتلہ سے باز جائیں تو اس کے بعد جو شخص ان سے جنگ کرے گا وہ ظالم ہے اور اسے اس زیادتی کی سزا ملے گی یہاں عدوان کا لفظ ایسی ہی سزا کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ابن کثیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اسلام میں جنگ کی غرض وغایت ہی یہ ہے کہ لوگوں کے تشدد کے ذریعے ، دین اسلام سے نہ روکا جائے ۔ قوت کے ذریعے ، یا قوت سے بھی زیادہ مؤثر ہتھیار یعنی معاشرتی حالات کے ذریعے عوام کو اسلام سے نہ پھیرا جائے ۔ ان کے اخلاق کو خراب کرنے والے ، انہیں گمراہ کرنے والے اور انہیں فریب دینے والے ذرائع استعمال نہ کئے ... جائیں ۔ نیز یہ کہ اسلامی نظام کو وقعت حاصل ہوا اور اس کا پلڑا بھاری ہو ، اس کے دشمن ہیبت زدہ ہوں ۔ ان کو یہ جراءت نہ ہو کہ وہ اہل ایمان پر تشدد کریں یا انہیں اذیت دیں ۔ نیز عام لوگوں کے لئے اب کوئی خوف محسوس نہ ہو کہ اگر انہوں نے اسلام قبول کیا تو ان پر تشدد ہوگا یا انہیں کوئی اذیت دی جائے گی ۔ ایک اسلامی جماعت کا یہ مستقل فریضہ ہے کہ وہ اس وقت تک برسرپیکار ہے جب تک ظالمانہ اور جابرانہ قوتیں ختم نہیں ہوجاتیں ۔ اور جب تک وقار اور غلبہ صرف اسلام کو حاصل نہیں ہوجاتا۔ اور کوئی فتنہ باقی نہ رہے ۔ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلا عُدْوَانَ إِلا عَلَى الظَّالِمِينَ ” تم ان سے لڑتے رہو ، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لئے ہوجائے ۔ پھر اگر وہ باز آجائیں ، تو پھر سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی جائز نہیں ہے۔ “ ایک وقت تھا ، جب یہ آیت نازل ہوئی تھی تو روئے سخن جزیرۃ العرب میں مشرکین مکہ کی طرف تھا ، کیونکہ اس وقت مشرکین مکہ ہی تشدد پر اترے ہوئے تھے ۔ جو یہ نہ مانتے تھے کہ نظام زندگی کا سرچشمہ صرف اللہ ہی ہے ۔ آیت کا مفہوم عام ہے ۔ ہر وقت نافذ ہے اور ہامرے لئے بھی راہ ہدایت ہے ، اس لئے کہ جہاد امت مسلمہ کے لئے قیامت تک ایک فریضہ رہے گا ، کیونکہ ہر دور میں ایسی قوتیں موجود رہتی ہیں جو لوگوں کو دین سے روکتی ہیں ۔ وہ ان کے کانوں تک دعوت اسلامی کی پہنچنے کے تمام ذرائع مسدود کرتی ہیں اور پھر بھی اگر کوئی کسی طرح دعوت اسلامی پر مطمئن ہوجائے تو یہ قوتیں عوام کو روکتی ہیں کہ وہ اسلام کو قبول کریں اور اسلام پر امن وامان کی حالت میں عمل پیرا ہوں چناچہ ہر وقت اسلامی جماعت کا یہ مستقل فریضہ ہے کہ وہ ایسی طاقتوں کو پاش پاش کردے اور لوگوں کو ان کے جبروتشدد سے آزاد کرائے ۔ وہ آزادی سے سنیں چاہے قبول کریں یا نہ کریں ۔ تشدد اور فتنے کو قتل سے بھی برا قرار دینے کے بعد ، بار بار اس کا تکرار بھی خالی از حکمت نہیں ہے۔ یہ تکرار اس لئے جاری ہے کہ اس معاملے کو اسلام میں بہت بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ یہاں اسلام ایک عظیم اصول کی بنیاد رکھ رہا ہے ، انسان بدل رہا ہے۔ یہ انسان کے لئے درحقیقت ایک نیاجنم ہے ۔ یہ نئی زندگی انسان کو اسلامی نظام سے مل رہی ہے ۔ اب انسان کی قدر و قیمت اس کی حیوانیت اور اس کی جسمانی زندگی سے نہیں ۔ بلکہ اس کی قدروقیمت کا تعین اس کے عقیدے اور نظریہ سے ہورہا ہے ۔ ایک طرف انسان کی زندگی ہے ، دوسری طرف انسان کا نظریہ اور اس کا عقیدہ ہے ۔ عقیدے کا پلڑا بھاری قرار دیا جارہا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ انسانیت کے دشمن صرف وہ لوگ ہیں جو دوسرے انسانوں پر محض اختلاف عقیدہ ، اختلاف نظریہ کی وجہ سے ظلم و تشدد کریں ۔ وہ لوگ جو ایک مسلمان پر محض اس لئے ظلم کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہے ۔ وہ اسے تشدد کے ذریعہ اسلام سے ، پھیرنا چاہتے ہیں ۔ یہ لوگ انسانیت کو ایک ایسے تصور سے محروم کرتے ہیں جو خیر ہی خیر ہے ۔ وہ لوگوں کو اللہ کے عطاکردہ نظام زندگی کی طرف آنے نہیں دیتے ۔ اس لئے ان کے ساتھ جنگ کرتے رہنا اسلامی جماعت کا فرض اولین ہے ۔ اس کا فرض ہے کہ ایسے لوگ جہان بھی ملیں انہیں ختم کردے تاکہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لئے ہوجائے۔ یہ عظیم اصول ، جسے اسلام نے اپنے ابتدائی ایام میں وضع کیا تھا۔ اب بھی اپنی جگہ پر قائم ہے ۔ اب اسلامی نظریہ حیات اور اس کے حاملین پر قسم قسم کے تشدد ہورہے ہیں ۔ حاملین اسلام کو ، فرداً فرداً بھی اور بحیثیت جماعت بھی ظلم اور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ اور جو لوگ بھی ظلم وتشدد کا محض اس لئے شکار بنائے جارہے ہیں کہ انہوں نے ایک نظریہ حیات کو اپنالیا ہے یا انہوں نے ایک پسندیدہ نظام زندگی کو اپنا رکاے ہے ، چاہے جس قسم کا تشدد بھی ہو ، ان لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ایسے ظالموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ، ان کے ساتھ لڑیں ۔ ماریں یا مارے جائیں اور ہر حال میں اس علم کو بلند رکھیں ۔ آزادی رائے کے علم کو جسے سب سے پہلے اسلام نے بلند کیا جس کے ذریعے بالکل ایک نیا اور آزاد انسان وجود میں آیا۔ جب بھی ظالم اپنے ظلم سے باز آجائیں ۔ وہ انسان اور اس کے خدا کے درمیان مداخلت چھوڑ دیں تو ان پر کوئی زیادتی یعنی ان کے خلاف کوئی مدافعت نہ ہوگی ۔ کیونکہ جہاد ہمیشہ صرف ظلم اور ظالم کے خلاف ہوتا ہے ۔ ارشاد ہوا پھر اگر وہ باز آجائیں تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا کسی اور کے خلاف کوئی مدافعت نہ ہوگی۔ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلا عُدْوَانَ إِلا عَلَى الظَّالِمِينَ یہاں ظالموں کے خلاف مدافعت اور ان کے مقابلے کی تعبیر لفظ عدوان سے کی گئی ہے ۔ محض لفظی مشکلات کی بناپر ورنہ ظالموں کے خلاف جو کاروائی ہے ، وہ عدل ہے ۔ انصاف ہے اور مظلوموں کو ظلم سے بچانا ہے ، ظلم کو روکنا ہے ، کوئی زیادتی نہیں ہے ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قتال کب تک ہونا چاہئے : پھر فرمایا (وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ ) (یعنی کافروں سے یہاں تک جنگ کرو کہ فتنہ باقی نہ رہے اور سارا دین اللہ ہی کے لیے ہوجائے) اس میں قتال کی ضرورت اور غرض وغایت بیان فرمائی ہے شرک اور کفر بد ترین گناہ ہے۔ خالق ومالک کی بغاوت...  ہے۔ دنیا میں اس کو مٹانے کے لیے کافروں اور مشرکوں سے جنگ کرتے رہیں اور یہاں تک جنگ کریں کہ سارا دین اللہ ہی کے لیے ہوجائے۔ صحیح بخاری ج ١ صفحہ ٨ میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مجھے یہ حکم ہوا کہ لوگوں سے اس وقت تک قتال کرتا رہوں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللّٰہ کو نہ مانیں۔ جب انہوں نے اس کو کہہ لیا تو وہ مجھ سے اپنے خونوں اور مالوں کو بچا لیں گے۔ ہاں اگر اسلام کا قانون ان کے خونوں اور مالوں کے بارے میں جاری کرنا ضروری ہوا تو وہ اور بات ہے اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ (یعنی کوئی شخص اگر ظاہراً اسلام قبول کرے گا تو ہم اس کو قتل نہ کریں گے۔ آگے اس کا حساب اللہ کے سپرد ہے دل سے اسلام قبول نہ کیا ہوگا تو آخرت کے دائمی عذاب میں مبتلا ہوگا۔ دلوں کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ ہم ظاہر کے پابند ہیں) ۔ قتال کرنے میں کیا نیت ہو ؟ آیت سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ قتال کی ضرورت کفر اور شرک کو مٹانے کے لیے ہے وہاں قتال کرنے والوں کو یہ بھی بتادیا کہ قتال اور جہاد میں یہ نیت رکھیں کہ اللہ کا بول بالا ہو اس کا دین بلند ہو۔ دنیا سے اس کے باغی ختم ہوں، اور حقیقتاً اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا وہی ہے جو اللہ کی بات بلند کرنے کے لیے قتال کرے ایک آدمی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے سوال کیا کہ ایک آدمی مال غنیمت کے لیے قتال کرتا ہے۔ ایک شہرت کے لیے لڑتا ہے اور ایک اس لیے لڑتا ہے کہ لوگ اس کی بہادری کے قائل ہوجائیں سو ان میں فی سبیل اللہ لڑنے والا کون ہے ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو شخص اس لیے لڑتا ہے کہ اللہ کی بات اونچی ہو تو وہ فی سبیل اللہ لڑنے والا ہے۔ (صحیح بخاری ج ١ صفحہ ٣٩٤) فائدہ : عرب کے مشرکوں کے لیے یہی قانون ہے کہ یا تو اسلام قبول کریں یا قتل کردیئے جائیں ان کے علاوہ دوسرے انسانوں کے لیے جان و مال محفوظ کرنے کا یہ بھی طریقہ ہے کہ وہ جزیہ دینا منظور کرلیں وہ مسلمانوں کے ملک میں مغلوب ہو کر رہیں اور اصول شریعت کے مطابق ان سے جزیہ وصول کیا جاتا رہے۔ سورة برأت میں ادائے جزیہ کی صورت میں جنگ بند کرلینے کا ذکر ہے۔ یہاں چونکہ مشرکین عرب کا ذکر ہے اس لیے جزیہ کا ذکر نہیں فرمایا اور یہ بھی ممکن ہے کہ جزیہ کا قانون بعد میں نازل ہوا ہو۔ فتنوں کو دبانے کے لیے جنگ کرنا : یہ جو فرمایا (وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ ) اس میں واضح طور پر فرما دیا کہ قتال فتنہ ختم کرنے کے لیے ہے۔ لفظ فتنہ عام ہے ...... سب سے بڑا فتنہ کفر اور شرک ہے اور اس کے علاوہ فسق و فجور کے فتنے بھی اٹھتے رہتے ہیں کبھی مسلمان بھی آپس میں لڑتے ہیں اس میں بہت سی مرتبہ واضح طور پر کسی جماعت کے بارے میں حق اور ناحق کا فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور بعض مرتبہ جنگ میں شریک ہونے پر موجود فتنہ میں اضافہ ہوجاتا ہے اس لیے دین دارسمجھ دار آخرت کے فکرمند حضرات اس میں حصہ نہیں لیتے۔ صحیح بخاری ج ٢ صفحہ ٦٤٨ میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی خدمت میں دو آدمی آئے۔ یہ حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) سے جنگ وجدال کرنے کا زمانہ تھا۔ ان دونوں نے عرض کیا کہ لوگ ضائع ہو رہے ہیں اور آپ حضرت عمر کے بیٹے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی ہیں۔ آپ جنگ میں حصہ کیوں نہیں لیتے ؟ ...... حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے ان دونوں سے کہا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے (مسلمان) بھائی کا قتل کرنا حرام قرار دیا ہے (پھر میں کیسے شرکت کروں ؟ ممکن ہے مجھ سے کوئی ناحق قتل ہوجائے) ان دونوں نے کہا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ۔۔ (کہ ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے) حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ ہم نے دشمنان دین سے یہاں تک جنگ کی کہ فتنہ باقی نہ رہا اور دین اللہ ہی کے لیے ہوگیا اور تم چاہتے ہو کہ یہاں تک جنگ کروں کہ فتنہ وجود میں آجائے اور دین غیر اللہ کے لیے ہوجائے (لہٰذا تمہاری جنگ اللہ کے لیے نہیں ہے میں اس میں کیسے شرکت کروں ؟ ) آج کل قتل و قتال کی کثرت ہے اسلام کا دعوی کرنے والے افراد اور جماعتیں طرح طرح کی عصبیتوں کی وجہ سے اور دشمنان دین کے ابھارنے کے باعث آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں کو مسلمان بےتحاشہ قتل کر ڈالتے ہیں اول تو قتل مسلم حرام ہے اور بہت بڑا گناہ ہے جس کی سزا آخرت میں بہت سخت ہے پھر اس سے کفر اور اہل کفر کی تقویت ہوتی ہے اور دشمن کے مقابلہ میں مسلمانوں میں کمزوری آتی ہے۔ یہ وہی فتنہ ہے جس کے پیش نظر حضرت ابن عمر (رض) قتال میں حصہ لینے سے باز رہے اور فرمایا کہ قرآن نے تو یہ فرمایا ہے کہ یہاں تک جنگ کرو کہ فتنہ نہ رہے اور تم اس لیے لڑتے ہو کہ فتنہ ہو۔ تمام مسلمان حضرت ابن عمر (رض) کی بات کو سمجھیں اور باہمی قتل و قتال کرکے دنیا و آخرت کے عذاب اور و بال کے مستحق نہ بنیں۔ جو مشرک اسلام قبول کرلیں ان کو قتل کرنا جائز نہیں : یہ جو فرمایا (فَاِنِ انْتَھَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیْنَ ) اس میں یہ بتایا کہ کافر اور مشرک اگر اسلام قبول کرلیں تو پھر ان کا قتل کرنا جائز نہیں۔ اگر اسلام قبول کرنے کے بعد تم نے ان کو قتل کیا تو تم ظالم ہوجاؤ گے اور پھر تم گرفت اور سزا کے مستحق ہو گے کیونکہ ظالم ہی گرفت کے مستحق ہوتے ہیں اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جب انہوں نے اسلام قبول کرلیا تو ان پر سختی کرنے کا موقعہ نہ رہا۔ سختی تو ظالموں پر ہوتی ہے جو لوگ کفر و شرک پر مصر ہیں ان پر سختی کرنا درست ہے۔ مفسر بیضاوی ص ١٣٤ پر لکھتے ہیں : ای فلا تعتدوا علی المنتھین أذ لا یحسن أن یظلم الا من ظلم أو أنکم ان تعرضتم للمنتھین صرتم ظالمین و ینعکس الأمر علیکم اور معالم التنزیل ج ١ صفحہ ١٦٣ میں ہے : أی فان اسلموا فلا نھب ولا أسر ولا قتل الاّ علی الظالمین الذین بقوا علی الشرک۔ لفظ عدو ان کا ترجمہ زیادتی کیا گیا ہے۔ جو اس کا لفظی ترجمہ ہے تعدی اور اعتداء کا مادہ بھی یہی ہے جو لوگ اسلام قبول نہ کریں ان سے قتال کرنے کو عدو ان سے جو تعبیر فرمایا ہے یہ مشاکلۃً ہے یعنی انہوں نے جو کفر پر کمرباندھ رکھی ہے اور اس طرح سے زیادتی کر رکھی ہے تم ان کو اس زیادتی کی سزا دے سکتے ہو ...... انہوں نے زیادتی کی ہے تو تم بھی زیادتی کرسکتے ہو یعنی ان کی زیادتی پر ان کو قتل کرسکتے ہو۔ مسلمانوں کی طرف سے جو ان پر قتل اور غارت گری کی صورت میں سزا ہوگی اسے عدوان فرمایا۔ جیسے محاورات میں کہہ دیتے ہیں کہ فلاں زیادتی کرے تو تم بھی زیادتی کرو حالانکہ زیادتی کا جواب زیادتی نہیں ہوتا۔ و فی التنزیل العزیز وَ جَزَآءُ سَیّْءَۃٌ مِّثْلُھَا۔ (من البغوی البیضاوی)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

367: اگر وہ کفر وشرک سے باز آجائیں اور تم سے لڑائی بند کردیں اور دین اسلام اور توحید کو قبول کرلیں تو پھر ان پر کسی قسم کی زیادتی نہ کی جائے۔ البتہ ان میں سے جو ظالم ہوں یعنی کفر وشرک پر قائم ہوں اور تم سے برسر پیکار ہوں ان سے بیشک لڑو۔ اور انہیں قتل کرو۔ فان انتھوا عن قتالکم ودخلوا فی ملتکم واقروا ... بما الز مکم اللہ من فرائضہ وترکوا ماھم علیہ من عبادۃ الاوثان (ابن جریر ص 109 ج 2) اور عدوان سے یہاں جنگ اور سزائے قتل مراد ہے۔ والمراد بالعدوان ھھنا المعاقبۃ والمقاتلۃ (ابن کثیر ص 227 ج 1) (ابن کثیر ص 227 ج 1)  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اور ان کفار عرب سے اس وقت تک جنگ جاری رکھو جب تک کہ فتنہ کا بالکل سد باب ہوجائے اور دین خالص اللہ تعالیٰ ہی کا ہوجائے پھر اگر یہ کفار عرب اپنے کفر سے باز آجائیں اور مشرکانہ روش سے توبہ کرکے مسلمان ہوجائیں تو یہ بات یاد رکھو کہ دست درازی اور سزا کی سختی کی اجازت سوائے ظالموں کے اور کسی پر نہیں ہے... ۔ (تیسیر) یعنی ہرچند کہ عام کفار کے ساتھ جنگکا قاعدہ یہ ہے کہ خواہ وہ جارحانہ ہو یا مدافعانہ کہ ان سے کوئی معاہدہ ہوجائے یا وہ جزیہ یعنی حفاظتی ٹیکس اداکرنا قبول کرلیں تو جنگ ختم کردی جائے لیکن عرب کے بت پرستوں کے ساتھ جنگ کا یہ قاعدہ نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ وہ ہیں جن میں پیغمبر اسلام پیدا ہوئے ان کے سامنے قرآن نازل ہوا ان کے سامنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ساری زندگی گزری اور باوجود ان تمام باتوں کو دیکھنے کے انہوں نے جو سلوک اسلام اور پیغمبراسلام اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کیا وہ نہایت معاندانہ تھا اس لئے ان کو جزیرہ العرب سے یا تو بالکل باہر کر دیاجائے اور نکال دیاجائے یا ان کو قتل کردیاجائے یا یہ لوگ شرک چھوڑ کر اسلام کے حلقہ بگوش ہوجائیں۔ اس لئے فرمایا کہ ان سے جنگ برابر جاری رکھو یہاں تک کہ ان کا فتنہ باقی نہ رہے اور بت برستی بالکل ختم ہوجائے اور مرکز اسلام ان سے پاک ہوجائے اور عرب میں کوئی مشرک باقی نہ رہے اور دین خالص اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہوجائے دین کے معنی جز اور طاعت کے ہیں اگرچہ شریعت کے معنی بھی استعمال ہوتا ہے مطلب یہ ہے کہ اس مقدس سرزمین پر اللہ تعالیٰ ہی کا قانون جاری ہو اسی کی فرمانبرداری ہو اور اسی کا بھیجا ہوا دین رائج ہو اور اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو ہاں اگر یہ لوگ توبہ کرکے اسلام قبول کرلیں اور کفرو شرک سے باز آجائیں تو قانون میں سوائے ظالموں کے کسی دوسرے پر تعدی دست درازی زیادتی اور سزا میں سختی کی اجازت نہیں ہے۔ ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اسکی وضع کے خلاف استعمال کرنا اور غیر ماوضع لہ میں استعمال کرنا مثلاً کوئی ٹوپی کو جوتی کی جگہ اور جوتی کو ٹوپی کی جگہ استعمال کرے یا کرتے کو پاجامہ کی جگہ اور پاجامہ کو کرتے کی جگہ استعمال کرے تو لغت کے اعتبار سے اس کو ظالم کہا جاسکتا ہے اس معنی کی رعایت سے مشرک کو ظالم کہا جاتا ہے کہ وہ اس عبادت کو جو اللہ تعالیٰ کے لئے مقرر کر رکھی تھی ۔ بتوں کے لئے اور غیر اللہ کیلئے استعمال کرتا ہے لہٰذا سب سے بڑے ظالم وہ لوگ ہیں جو مشرک ہیں لیکن جب یہ توبہ کرکے مسلمان ہوجائیں تو ظالم نہ رہیں گے اور سزا کی سختی ہے صرف ظالموں کے لئے لہٰذا ان پر کسی سختی کی اجازت نہ ہوگی کیونکہ اب یہ ظالم اور ناانصاف نہیں رہے۔ عدد ان کے معنی تو دراصل زیادتی اور تجاوز کے ہیں اور ظاہر یہ ہے کہ کفار کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے اور جو سزا ان کو ان کے کردار کے بدلے میں دی جاتی ہے وہ ظلم اور عددان نہیں ہے بلکہ وہ حق اور انصاف ہے کیونکہ وہ تو بغاوت اور شرارت کی سزا ہے لیکن قرآن نے مماثلت اور مشارکت کی وجہ سے ظلم کی جزاء کو عددان فرما دیا۔ جیسا کہ سورة شوریٰ میں ارشاد ہے وجزائو سئیۃ سئیۃ مثلہ حالانکہ ہم قصا ص کی بحث میں بتا چکے ہیں کہ یہ تعزیر میں مثلیت کا نفاذ ناممکن ہے مثلاً گالی کی سزا گالی نہیں ہوسکتی۔ اور زنا بالجبر کی سزا زنا بالجبر نہیں ہوسکتا۔ وقس علی ہذا اس لئے یہ صرف لفظی مماثلت ہے ورنہ ہر جرم کی سزا میں حقیقی مماثلت نہیں ہے اسی طرح یہاں بھی عدوان کے لفظ کا استعمال فرمایا ہے۔ بہرحال یہاں تک مسلمانوں کے ان شکوک کا جواب ہوگیا جو عمرے کی قصا کے وقت ان کو پیش آرہے تھے اور کفار عرب کیلئے ایک مستقل قانون بھی بتادیا اب صرف ایک شبہ باقی رہ گیا وہ یہ ہے کہ عمرے کی قصا ذی قعدہ میں ادا کرنے جائیں گے اور یہ مہینہ اشہر حرام میں سے ہے اس میں جنگ کرنا ممنوع ہے اور کفار لڑنے پر تل گئے تو ہم کیا کریں گے اس کا جواب آگے کی آیت میں آتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی لڑائی کافروں سے اسی واسطے ہے کہ ظلم موقوف ہو اور دین سے گمراہ نہ کرسکیں اور حکم اللہ کا جاری رہے اگر تابع ہوکر رہیں تو لڑائی کی حاجت نہیں اور ایمان تو دل پر موقوف ہے زور سے مسلمان کرنا کیا حاصل۔ (موضح القرآن) سبحان اللہ شاہ صاحب (رح) نے چند سطروں میں کیا خوب بات فرمائی اور جہا د کا فلسفہ کس خوبی سے بیان فرمایا چند لفظوں میں وہ بات سمجھا دی جو آج کل لوگوں کی سمجھ میں بڑی مشکل سے آتی ہے یعنی جہاد کا مقصد کسی شخص کے ضمیر کی آزادی کو سلب کرنا نہیں اور نہ جہاد اس غرض سے کیا جاتا ہے کہ کسی کو زبردستی مسلمان بنایاجائے بلکہ جہاد تو محض اس لئے کیا جاتا ہے کہ شرارت پسندوں کی شرارت اور فساد سے لوگوں کی آزادی کو محفوظ رکھاجائے اور اسلامی پروگرام کی ترویح میں جو لوگ رکاوٹ پیدا کریں ان کو سزا دی جائے اور ان سے لڑ کر ان کو شکست دی جائے اور ان کو محکوم کیا جائے اور خدا تعالیٰ کے دین پر عمل کرنے میں کسی شخص کو رخنہ اندازی اور مفاد مت کرنے کا موقع نہ دیاجائے اس سے زیاہ جہاد کا کوئی اور مقصد نہیں ہے اسلامی قانون جنگ پر احقر کا ایک مقالہ بھی ہے جو ریڈیو کی تقریروں میں شائع ہوچکا ہے اور سید ابو الاعلی مودودی کی ایک مستقل کتاب بھی ہے اور اس میں سید صاحب نے اس مسئلہ پر سیرحاصل بحث کی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ خو بحث کی ہے اور وہ کتاب ہر تعلیم یافتہ آدمی کو مطالبہ میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ سید ابو الا علی مودودی کی کتاب کا نام بھی غالباً اسلام کا قانون جنگ ہی ہے (نسہیل)  Show more