Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 202

سورة البقرة

اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ نَصِیۡبٌ مِّمَّا کَسَبُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ ﴿۲۰۲﴾

Those will have a share of what they have earned, and Allah is swift in account.

یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے ان کے اعمال کا حصہ ہے اور اللہ تعالٰی جلد حساب لینے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

For them there will be allotted a share for what they have earned. And Allah is swift at reckoning. Hence, Allah praised those who ask for the affairs of both this life and the Hereafter. He said: وِمِنْهُم مَّن يَقُولُ رَبَّنَا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الاخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ And of them there are some who say: "Our Lord! Give us in this world that which is good and in the Hereafter that which is good, and save us from the torment of the Fire!" The supplication mentioned and praised in the Ayah includes all good aspects of this life and seeks refuge from all types of evil. The good of this life concerns every material request of well-being, spacious dwelling, pleasing mates, sufficient provision, beneficial knowledge, good profession or deeds, comfortable means of transportation and good praise, all of which the scholars of Tafsir have mentioned regarding this subject. All of these are but a part of the good that is sought in this life. As for the good of the Hereafter, the best of this includes acquiring Paradise, which also means acquiring safety from the greatest horror at the gathering place. It also refers to being questioned lightly and the other favors in the Hereafter. As for acquiring safety from the Fire, it includes being directed to what leads to this good end in this world, such as avoiding the prohibitions, sins of all kinds and doubtful matters. Al-Qasim bin Abdur-Rahman said, "Whoever is gifted with a grateful heart, a remembering tongue and a patient body, will have been endowed with a good deed in this life, a good deed in the Hereafter and saved from the torment of the Fire." This is why the Sunnah encourages reciting this Du`a (i.e., in the Ayah about gaining a good deed in this life and the Hereafter). Al-Bukhari reported that Anas bin Malik narrated that the Prophet used to say: اللَّهُمَّ رَبَّنَا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الاخِرَةِ حَسَنَــةً وَقِنَا عَذَابَ النَّار O Allah, our Lord! Give us that which is good in this life, that which is good in the Hereafter and save us from the torment of the Fire. Imam Ahmad reported that Anas said, "Allah's Messenger visited a Muslim man who had become as weak as a sick small bird. Allah's Messenger said to him, `Were you asking or supplicating to Allah about something?' He said, `Yes. I used to say: O Allah! Whatever punishment you saved for me in the Hereafter, give it to me in this life.' Allah's Messenger said: سُبْحَانَ اللهِ لاَ تُطِيقُهُ أَوْ لاَ تَسْتَطِيعُهُ فَهَلَّ قُلْتَ All praise is due to Allah! You cannot bear it -or stand it-. You should have said: رَبَّنَا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الاخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ Our Lord! Give us in this world that which is good and in the Hereafter that which is good, and save us from the torment of the Fire! The man began reciting this Du`a and he was cured." Muslim also recorded it. Al-Hakim reported that Sa`id bin Jubayr said, "A man came to Ibn Abbas and said, `I worked for some people and settled for a part of my compensation in return for their taking me to perform Hajj with them. Is this acceptable?' Ibn Abbas said, `You are among those whom Allah described: أُولَـيِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُواْ وَاللّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ For them there will be allotted a share for what they have earned. And Allah is swift at reckoning. Al-Hakim then commented; "This Hadith is authentic according to the criteria of the Two Sheikhs (Al-Bukhari and Muslim) although they did not record it."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ نَصِيْبٌ مِّمَّا كَسَبُوْا۝ ٠ ۭ وَاللہُ سَرِيْعُ الْحِسَابِ۝ ٢٠٢ نَّصِيبُ : الحَظُّ المَنْصُوبُ. أي : المُعَيَّنُ. قال تعالی: أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء/ 53] ( ن ص ب ) نصیب و النصیب کے معنی معین حصہ کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء/ 53] کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے ۔ كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ سرع السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو : أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] ( س ر ع ) السرعۃ اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ حسب الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] ، وقیل : لا يعلم حسبانه إلا الله، ( ح س ب ) الحساب کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠٢) اور بعض حضرات علم و عبادت گناہوں سے حفاظت، شہادت اور غنیمت وغیرہ اور جنت اور اس کی نعمتوں کے لیے دعا مانگتے ہیں اور درخواست گزار ہیں کہ قبر اور دوزخ کے عذاب کو ہم سے دور کردے ان خوبیوں والوں کے لیے جنت میں ان کے حج کا پورا پورا حصہ ہے اور اللہ تعالیٰ جب حساب فرمانے کا ارادہ فرمائیں تو اس کا حساب بہت جلدی ہوجاتا ہے اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ اس کی حفاظت بہت جلدی ہوتی ہے اور یہ معنی بھی بیان کیے گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ریاکاروں سے بہت زبردست بدلہ لینے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠٢ (اُولٰٓءِکَ لَہُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْا ط) ۔ یہ الفاظ بہت اہم ہیں۔ محض دعا کافی نہیں ہوجائے گی ‘ بلکہ اپنا عمل بھی ضروری ہے۔ یہاں پر یہ جو فرمایا کہ ان کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو انہوں نے کمایا اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں سے کیوں ؟ وہ تو سارا ملنا چاہیے ! لیکن نہیں ‘ بندے کو اپنے اعمال پر غرّہ نہیں ہونا چاہیے ‘ اسے ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں کسی مسئلے میں میری نیت میں فساد نہ آگیا ہو ‘ ممکن ہے میرے کسی عمل کے اندر کوئی کمی یا کوتاہی ہوگئی ہو۔ اس لیے یہ نہ سمجھ لیں کہ جو کچھ بھی کیا ہے اس کا اجر لازماً ملے گا۔ جو کچھ انہوں نے کمایا ہے اس میں اگر خلوص ہے ‘ ریاکاری نہیں ہے ‘ اس کے تمام آداب اور شرائط ملحوظ رکھے گئے ہیں تو ان کو ان کا حصہ ملے گا۔ (وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ) ۔ اللہ تعالیٰ کو حساب چکانے میں دیر نہیں لگتی ‘ وہ بہت جلدی حساب کرلے گا۔ اب تو ہمارے لیے یہ سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں رہا ‘ ہمارے ہاں کمپیوٹرز پر کتنی جلدی حساب ہوجاتا ہے ‘ اللہ کے ہاں تو پتا نہیں کیسا سپر کمپیوٹر ہوگا کہ اسے حساب نکالنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگے گی !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:202) اولئک۔ اسم اشارہ جمع مذکر۔ وہ سب۔ اس میں مشار الیہم وہ مؤمنین ہیں جو دنیا اور آخرت دونوں میں حسنۃ کی دعا کرتے ہیں۔ نصیب۔ حسہ۔ خواہ ثواب کا ہو۔ میراث کا ہو۔ یا حکومت کا ہو۔ کسبوا۔ ماضی جمع مذکر غائب انہوں نے کمایا۔ کسب۔ کمائی کرنا۔ نفع کے لئے کوئی کام کرنا۔ خواہ نتیجہ اچھا نکلے یا برا۔ قرآن مجید میں کسب کا استعمال اس طرح کیا گیا ہے۔ (1) قلبی ارادہ اور نیت کی پختگی جیسے ولکن یؤاخذکم بما کسبت قلوبکم (2:225) لیکن جو قسمیں قصد دل سے کھاؤ گے ان پر مواخذہ کرے گا۔ (2) اچھا برا قول یا فعل ۔ جیسے : ثم توفی کل نفس ما کسبت (3:161) پھر ہر شخص کو اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ (3) نیک کام کرنا۔ جیسے لہا ما کسبت (3:161) اچھا کام کرے گا تو اس کو اس کا فائدہ ملے گا ۔ (4) برے کام کرنا۔ جیسے ولا تکسب کل نفس الا علیہا (6:65) اور جو (کوئی برا کام کرتا ہے تو اس کا ضرر اسی کو ہوتا ہے۔ (5) مال کمانا۔ جیسے انفقوا من طیبت ما کسبتم (2:267) پاکیزہ اور عمدہ مال جو تم کماتے ہو۔ اس میں سے (خدا کی راہ میں) خرچ کرو واللہ سریع الحساب۔ واؤ عاطفہ۔ سریع۔ جلدی کرنے والا۔ سرعۃ (باب فتح) سے جس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں۔ بروزن فعیل بمعنی فاعل صفت مشبہ کا صیغہ ہے سریع الحساب ترکیب اضافی ہے سریع مضاف الحساب مضاف الیہ۔ جلدی حساب کرنے والا۔ مضاف مضاف الیہ مل کر اللہ مبتدا کی خبر ہے۔ اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 (یعنی بہت جلد اور لامحاسبہ ہونے ولا ہے) ذکر الی کا حکم دینے کے بعد دعا کی کیفیت بیان فرمائی اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے والے دو طرح کے لوگ ہوتے ایک وہ صرف دنیا کے طالب ہوتے ہیں ایسے لوگ آخروی نعمتوں سے یکسر محروم رہیں گے۔ (دیکھئے الشوری آیت 20) اور دوسرے وہ جو دنیا وآخرت دونوں کی بھلائی طلب کرتے ہیں۔ اصل کامیابی انہی لوگوں کی ہے۔ (رازی۔ شوکانی) دنیا کی بھلائی (حسنہ) میں صحت، دسعت رزق، علم دین اور عبادت الہی کی توفیق۔ الغرض سب نیک اعمال شام ہیں اور آخرت کی بھلائی میں دوزخ سے نجات جنت اور رضا الہی کا حصول حساب میں آسانی وغیرہ داخل ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز اور عام اوقات میں بھی یہ دعا بکثرت فرمایا کرتے تھے۔ فر الجملہ یہ ایک نہایت جامع دعا ہے متعدد احادیث میں اس کی ترغیب آئی ہے۔ طواف کے وقت رکن یمانی اور حجر اسود کے مابین یہ دعا مسنون ہے (ابن کثیر۔ روح المعانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ حاصل یہ ہے کہ دنیا ظرف طلب ہے خود مطلوب نہیں بلکہ مطلوب حسنہ ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 پھر جب تم اپنے حج کے افعال سے فارغ ہوجائو اور اعمال حج کو پورا کرچکو تو اللہ تعالیٰ کا خوب ذکر کیا کرو یہ ذکر اسی طرح ہو جس طرح تم حج سے فارغ ہوکر اپنے آبائو اجداد کا ذکر کیا کرتے ہو بلکہ یہ ذکر ان کے ذکر سے بھی بڑھ کر ہونا چاہئے پھر ان لوگوں میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو یوں کہتے ہیں اور ان الفاظ کے ساتھ دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار جو کچھ تم تجھے دینا ہے ہم کو تو دنیا ہی میں دیدیے اور ایسے لوگوں کے لئے جو قیامت اور آخرت کے منکر ہیں آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے اور یہ وہاں کی ہر نعمت سے محروم ہیں اور لوگوں میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو یوں دعا مانگتے ہیں اور دعا میں یوں کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ! ہم کو دنیا میں بھی بہتری اور بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی ہم کو خوبی اور بھلائی مرحمت فرما اور ہم کو آگ کے عذاب یعنی دوزخ کے عذاب سے بچالے۔ سو یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے ان کے اعمال و افعال کے باعث دونوں جہاں میں بڑا حصہ ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی جلدی حساب لینے والا ہے۔ (تیسیر) مناسک سے مراد حج کے اعمال و افعال ہیں جیسا پہلے پارے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ذکر میں گذرا ہے وارنا مناسکنا حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمعۃ الوداع میں فرمایا تھا خذدا عنی مناسککم یعنی مجھ سے اپنے حج کے اعمال سیکھ لو۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ موسم حج میں عرب کا دستور تھا کہ حج سے فارغ ہوکر منا میں بازار لگاتے اور اپنے باپ دادوں کی بڑائیاں بیان کیا کرتے کوئی کہتا میرا باپ کھانا بہت کھلاتا تھا کوئی کہتا میرا باپ لوگوں کا بار اٹھا لیا کرتا تھا۔ لوگوں کا خوں بہا ادا کردیا کرتا تھا۔ سوائے اپنے آبائو اجداد کے ذکر کے ان کا اور کوئی کام نہ ہوتا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل کیا کہ منا میں جب تک ٹھہرو خدا کا ذکر کیا کرو اور اپنے باپ داد کے ذکر کو ترک کردو۔ بہرحال اس تاریخ کو جمرئہ عقبیٰ کی رمی اور سر منڈوانے قربانی سے فارغ ہونے کے بعد طواف زیارت اور صفا و مرہ کی سعی سے فارغ ہو کر جتنے دن منا میں گذارو اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو جیسا کہ تفصیل آگے کی آیت میں آتی ہے اور یہ جو فرمایا کہ بعض لوگ دنیا ہی میں سب کچھ چھاتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض کافر ذکر تو اللہ تعالیٰ کا کیا کرتے تھے لیکن آخرت پر ایمان نہ رکھتے تھے۔ اس لئے ان کا ذکر اور ان کی دعائیں صرف دنیا کے لئے ہوتی تھیں۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو بتادیا کہ جن لوگوں کا نصب العین دنیا ہی دنیا ہے اور آخرت کے منکر ہیں وہ قیامت میں ہر نعمت سے محروم ہوں گے اور ان کا وہاں کوئی حصہ نہ ہوگا۔ دوسری آیت میں اچھے بندوں کی دعا فرمائی کہ وہ دنیا میں بھی حسنہ مانگتے ہیں اور آخرت میں بھی حسنہ طلب کرتے ہیں۔ حضرت انس (رض) کی روایت میں ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مسلمان کی عیادت کو تشریف لے گئے جو سوکھ کر کانٹا ہوگیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو نے کچھ اللہ تعالیٰ سے مانگا ہے یا تو کچھ مانگا کرتا ہے۔ اس نے عرض کیا ہاں رسول اللہ ؐ میں یہ دعا کیا کرتا ہوں۔ اللھم ما کنت معاقبی بہ فی الاخرۃ فعجلہ فی الدنیا یعنی یا اللہ جو سزا تو نے میرے لئے آخرت میں تجویز کی ہے وہ مجھ کو دنیا ہی میں دے دے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سبحان اللہ مجھ کو اس سزا کی اور اس عقاب کی طاقت اور استطاعت کہاں ہے تو نے اللہ تعالیٰ سے یوں دعا کیوں نہیں مانگی۔ ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں اس نے یہ دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس کو شفا عنایت فرمائی۔ ابن م اجہ نے ابوہریرہ (رض) سے اور امام شافعی (رح) نے ابن ابی السائب سے نقل کیا ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو رکنوں کے درمیان گذرتے تھے تو یہی دعا پڑھتے تھے۔ ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ میں کسی رکن پر نہیں گذرا مگر میں نے وہاں ایک فرشتے کو دیکھا جو لوگوں کی دعا پر آمین کہتا ہے سو تم لوگ جب دونوں رکنوں کے درمیان گذرا کرو تو یہدعا کیا کرو۔ ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔ دنیا میں حسنۃ سے مراد بہت سی باتیں ہوسکتی ہیں یہ لفظ بہت ہی جامع ہے ہر قسم کی خیر کو شامل ہے۔ اکثر مفسرین نے اعمال خیر کی توفیق کہا ہے اور بعض حضرات نے یوں تفسیر کی ہے کہ وہ حالت جو تیرے نزدیک بہتر اور مستحسن ہو اور جس حالت کو تو پسند کرتا ہو اے پروردگار ! وہ عنایت کردے۔ اگرچہ لفظ حسنہ سے دنیوی نعمتیں اور دنیوی منافع بھی مراد لئے جاسکتے ہیں لیکن وہ مقصود بالذات نہیں ہیں اور نہ ان کو مطلوب بالذات سمجھناچاہئے اور آخرت میں حسنہ سے مراد ثواب اور رحمت ہے۔ اولک لھم نصیب مما کسبوا کے بھی دو طرح معنی کئے گئے ہیں ہم نے من کو سبیبہ قرار دے کر معنی کئے ہیں دوسری تقدیر پر معنی یوں ہوں گے یہی وہ لوگ ہیں جن کو اپنی کمائی میں سے حصہ ملنے والا ہے اسی طرح سریع الحساب کے بھی دو مفہوم ہیں ایک یہ کہ عنقریب ہی حساب لینے والا ہے یعنی اگرچہ حساب قیامت میں ہوگا لیکن قیامت قریب ہی ہے اس لئے حساب جلدی ہونے والا ہے اور ایک مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو حساب لینے اور حساب کرنے میں دیر نہیں لگتی۔ ادھر شروع کیا اور ادھر ختم۔ واللہ اعلم (تسہیل)