Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 205

سورة البقرة

وَ اِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الۡاَرۡضِ لِیُفۡسِدَ فِیۡہَا وَ یُہۡلِکَ الۡحَرۡثَ وَ النَّسۡلَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الۡفَسَادَ ﴿۲۰۵﴾

And when he goes away, he strives throughout the land to cause corruption therein and destroy crops and animals. And Allah does not like corruption.

جب وہ لوٹ کر جاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی اور کھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالٰی فساد کو ناپسند کرتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيِهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ... And when he turns away (from you O Muhammad), he struggles in the land to make mischief therein and to destroy the crops and the cattle, This Ayah indicates that such persons are deviant in the tongue, evil in the deeds, their words are fabricated, their belief is wicked and their works are immoral. The Ayah used the (Arabic word) Sa`a (literally, `tries' or `intends'). This word was also used to describe Pharaoh: ثُمَّ أَدْبَرَ يَسْعَى فَحَشَرَ فَنَادَى فَقَالَ أَنَاْ رَبُّكُمُ الاٌّعْلَى فَأَخَذَهُ اللَّهُ نَكَالَ الاٌّخِرَةِ وَالاٍّوْلَى إِنَّ فِى ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَن يَخْشَى Then he turned his back, Yas`a (striving hard against Allah). Then he gathered (his people) and cried aloud saying, `I am your lord, most high.' So Allah, seized him with a punishing example for his last and first transgression. Verily, in this is an instructive admonition for whosoever fears Allah. (79:22-26) Sa`a was also used in the Ayah): يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِذَا نُودِىَ لِلصَّلَوةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْاْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ O you who believe (Muslims)! When the call is proclaimed for the Salah (prayer) on the day of Friday (Jumuah prayer), As`aw come to the remembrance of Allah. (62:9) This Ayah means, `(when the call to the Friday prayer is announced) intend and then proceed to attend the Friday prayer.' We should mention that hastening to the mosque is condemned by the Sunnah (as this is another meaning for the word Sa`a): إذَا أَتَيْتُمُ الصَّلَةَ فَلَ تَأْتُوهَا وَأَنْتُمْ تَسْعَوْنَ وَأْتُوهَا وَعَلَيْكُمُ السَّكِينَةُ والْوَقَار When you come to attend the prayer, do not come in a Sa`i (haste). Rather, come to it while walking at ease and in peace (or grace). The hypocrite has no motive in this life but to cause mischief and to destroy the crops and the offspring, including what the animals produce and what the people depend on for their livelihood. Mujahid said, "If the hypocrite strives for mischief in the land, Allah prevents the rain from falling and thus the crops and the offspring perish." The Ayah continues: ... وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ الفَسَادَ ...and Allah likes not mischief. that is, Allah does not like those who possess these characteristics, or those who act like this. Rejecting Advice is Characteristic of the Hypocrites Allah said:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧٣] اخنس بن شریق ایک منافق تھا جو فصیح وبلیغ اور شیریں کلام تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی چکنی چپڑی باتیں بھلی معلوم ہوتیں۔ وہ بات بات پر اللہ کی قسم کھاتا اور بار بار اللہ کو گواہ بنا کر کہتا کہ وہ سچا مسلمان ہے اور مسلمانوں کا دلی دوست ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحیح صورت حال سے مطلع کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی باتوں پر فریفتہ مت ہونا، کیونکہ یہ سخت جھگڑا لو قسم کا انسان ہے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا، وہ اسلام سے پھر کر مکہ واپس چلا گیا۔ راستہ میں مسلمانوں کے جو کھیت دیکھے انہیں جلا دیا اور جو جانور نظر آئے انہیں مار ڈالا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْہَا وَيُہْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ۝ ٠ ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ۝ ٢٠٥ سعی السَّعْيُ : المشي السّريع، وهو دون العدو، ويستعمل للجدّ في الأمر، خيرا کان أو شرّا، قال تعالی: وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة/ 114] ( س ع ی ) السعی تیز چلنے کو کہتے ہیں اور یہ عدو ( سرپٹ دوڑ ) سے کم درجہ ( کی رفتار ) ہے ( مجازا ) کسی اچھے یا برے کام کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة/ 114] اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو ۔ فسد الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] ، ( ف س د ) الفساد یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔ هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ حرث الحَرْث : إلقاء البذر في الأرض وتهيّؤها للزرع، ويسمّى المحروث حرثا، قال اللہ تعالی: أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم/ 22] ، وذلک علی سبیل التشبيه، فبالنساء زرع ما فيه بقاء نوع الإنسان، كما أنّ بالأرض زرع ما به بقاء أشخاصهم، وقوله عزّ وجل : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ، يتناول الحرثین . ( ح ر ث ) الحرث ( ن ) کے معنی زمین میں بیج ڈالنے اور اسے زراعت کے لئے تیار کرنے کے پاس اور کھیتی کو بھی حرث کہاجاتا ہے ۔ قرآں میں ہے ؛۔ أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم/ 22] کہ اگر تم کو کاٹنا ہے تو اپنی کھیتی پر سویری ہی جا پہنچو۔ اور کھیتی سے زمین کی آبادی ہوئی ہے اس لئے حرث بمعنی آبادی آجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو ( برباد ) اور انسانوں اور حیوانوں کی ) نسل کو قابو کردے ۔ دونوں قسم کی کھیتی کو شامل ہے۔ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (واللہ لایحب الفساد اور اللہ تعالیٰ پسند نہیں کتا اس کا ارادہ بھی نہیں کرتا اور جس چیز کا ارادہ نہیں کرتا اسے پسند بھی نہیں کرتا۔ اس فقرے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا ہے کہ وہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ یہ چیز اس بات کو واجب کردیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فساد کا کام نہ کرے کیونکہ اگر وہ ایسا کرے گا تو وہ فساد کا ارادہ کرنے والا اور اسے پسند کرنے والا قرار پائے گا اور اللہ کی ذات اس سے بہت بلند ہے کہ وہ ایسا کرے۔ اس کی مثال ایک اور قول باری میں موجود ہے۔ ارشاد ہوتا ہے (وما اللہ یرید ظلماً للعباد اور یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کا ارادہ کرتا ہو۔ اس بات پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ فعل کے ہونے کے متعلق اس کی پسندیدگی اس فعل کے لئے اس کا ارادہ ہوتی ہے کیونکہ یہ بات تو بالکل غلط ہے کہ وہ ایک فعل کے ہونے کو پسند کرے اور اس کے ہونے کا ارادہ نہ کرے بلکہ اس کا ہونا اسے ناپسند ہو اس سے تو تنا قض لازم آتا ہے۔ مثلاً کوئی یہ کہے کہ وہ ایک کام کا ارادہ رکھتا ہے لیکن اسے ناپسند بھی کرتا ہے، اس کا یہ کلام تناقض کا شکار ہوگا اور اس میں اختلال واقع ہوجائے گا۔ اس حقیقت پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین امنوا لھم عذاب الیم وہ لوگ جو یہ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان کے گروہ میں فحش پھیلے بلاشبہ ا ن کے لئے درد ناک عذاب ہے ) یہاں یحبون کے معنی یریدون (وہ چاہتے ہیں) ہیں۔ آیت سے اس بات پر دلالت ہو رہی ہے کہ پسند کرنا ہی ارادہ کرنا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (ان اللہ احب لکم ثلاثا وکرہ لکم ثلاثا۔ احب لکم القیل والقال وکثرۃ السئوال و اضاعۃ المال اللہ تعالیٰ نے تین باتوں کو تمہارے لئے پسند اور تین باتوں کو ناپسند کیا ہے۔ اس نے یہ پسند کیا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور سا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور یہ کہ تم اس شخص کے لئے خیر خواہانہ جذبات رکھو جسے وہ تم پر والی مقرر کرے۔ اس نے قلیل وقال (بلاوجہ اعتراضات کرنے) کثرت سوال اور مال کے ضیاع کو ناپسند کیا ہے) اس حدیث میں کراہت کو محبت کے مقابل ہمیں بیان کیا گیا ہے۔ اس سے یہ دلالت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ جس چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے پسند بھی کرتا ہے اور جس بات کو وہ ناپسند کرتا ہے اس کا ارادہ نہیں کرتا۔ کیونکہ کراہت ارادے کے بالمقابل ہے جس طرح کہ یہ محبت یعنی پسندیدگی کے بالمقابل ہوتی ہے۔ جب کراہت ارادے اور پسندیدگی کی نقیض ہے تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ ارادہ اور محبت دونوں ایک چیز ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠٥۔ ٢٠٦) اور جب غصہ میں آتا ہے تو ہر قسم کے گناہ کرتا ہے اور کھیتوں اور باغات کو برباد اور جانوروں کو قتل کرتا ہے، اللہ تعالیٰ ایسے فساد پھیلانے والے لوگوں کو پسند نہیں کرتے اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اپنے کاموں میں اللہ تعالیٰ سے ڈر تو اس میں تکبر اور حمیت جوش مارنے لگتی ہے، اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ برے لوگوں کا برترین ٹھکانا ہے۔ یہ آیت کریمہ اخنس بن شریق کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ وہ شیریں کلام تھا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی یہ بات پسند تھی کہ میں آپ سے محبت رکھتا ہوں اور خفیہ طریقے سے آپ کے ہاتھ پر بیت کرتا ہوں اور اس پر اللہ کی قسم بھی کھاتا تھا، مگر یہ پکا منافق تھا، لوگوں کا خیال ہے کہ اس نے ایک قوم کی کھیتی جلادی تھی اور اسی طرح ایک قوم کے گدھوں کو مار ڈالا تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠٥ (وَاِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الْاَرْضِ ) (لِیُفْسِدَ فِیْہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ط) یہ لوگ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے ہٹتے ہیں تو ان کی ساری بھاگ دوڑ اس لیے ہوتی ہے کہ زمین میں فساد مچائیں اور لوگوں کی کھیتیاں اور جانیں تباہ و برباد کریں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

225. The expression idha tawalla can be translated in two ways. First, in the manner of our translation of the text. It can also be translated to make the verse mean that when such people return from sweet and apparently genuine talk, they engage in arrogant and destructive action.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :225 ”اِذَا تَوَلّٰی“کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک وہ جو ہم نے متن میں اختیار کیا ہے اور دوسرا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ یہ مزے مزے کی دل لبھانے والی باتیں بنا کر”جب وہ پلٹتا ہے“ ، تو عملاً یہ کرتوت دکھاتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

بعض روایات میں ہے کہ اخنس بن شریق نامی ایک شخص مدینہ منورہ آیا تھا، اور اس نے آنحضرتﷺ کے پاس آکر بڑی چکنی چپڑی باتیں کیں، اور اللہ کو گواہ بناکر اپنے ایمان لانے کا اظہار کیا ؛ لیکن جب واپس گیا توراستے میں مسلمانوں کی کھیتیاں جلادیں اور ان کے مویشیوں کو ذبح کرڈالا، یہ آیات اس پس منظر میں نازل ہوئیں تھیں، البتہ ہر قسم کے منافقوں پر پوری اترتی ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:205) تولی۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ وہ لوٹا۔ وہ پھرا۔ اس نے منہ موڑا۔ اس نے پیٹھ پھیردی۔ سعی۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ سعی۔ مصدر (باب فتح) اس نے کوشش کی۔ اس نے جلدی کی اس نے قصد کیا۔ لیفسد۔ میں لام تعلیل کا ہے اور سعی سے متعلق ہے یعنی وہ زمین میں اس واسطے دوڑتا پھرتا ہے کہ فساد پھیلا دے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ کوئی شخص تھا اخنس بن شریق، بڑا فصیح وبلیغ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آکر قسمیں کھاکر جھوٹا دعو اسلام کا کیا کرتا تھا اور مجلس سے اٹھ کرجاتا تو فساد و شرارت وایذارسانی خلق میں لگ جاتا اس منافق کے باب میں یہ آیت فرمائی ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

نفس انسانی کے یہ عجیب خدوخال ، کسی ماہر فن عکاس کی قلم سے ہیں اور یہ اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ یہ کلام کسی انسان کا کلام نہیں ہے ۔ یہ تصویر کسی انسان کی بنائی ہوئی نہیں ہے ۔ اس کلام اور اس نفسیاتی عکاسی کا سرچشمہ انسانی دماغ ہرگز نہیں ہے ۔ کیونکہ کوئی انسان اس قدر مختصر الفاظ میں ، اتنی مختصر عکاسی کے ساتھ ، اس طرح انسانی نفسیات کی گہرائیوں تک نہیں پہنچ سکتا ۔ اور نفس انسانی کے ایسے گہرے خدوخال سامنے نہیں لاسکتا۔ جو اس قدر وسیع بھی ہوں اور اس قدر واضح بھی ۔ اس کلام کا ہر لفظ تصویر کی ایک لکیر ہے ، جو انسان کے کسی خدوخال ، کسی خصوصیت کا اظہار کرتی ہے ، جلد ہی یہ نقش ونگار چلتے پھرتے زندہ انسانوں کی صورت میں نظر آتے ہیں ۔ جس کی تصویر کھینچی گئی ہے ۔ وہ ایک الگ شخصیت بن جاتی ہے ، جس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیا جاسکتا ہے ۔ لاکھوں انسانوں میں سے ، اسے الگ کیا جاسکتا ہے ۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ شخص جس کی مصوری قرآن نے کی ہے ۔ الفاظ میں تصویر کشی بھی ایک قسم کی تخلیق ہے جس طرح زندہ چیزیں دست قدرت سے ، رات اور دن پیدا ہوتی رہتی ہیں ۔ اب یہ زندہ شخصیت ہے ۔ گویا بھی ہے اور چلتی پھرتی ہے ۔ اور اس کی ذات نیکی کا خلاصہ اور اخلاص کا پتلا ہے ۔ محبت ویکسوئی کا نمونہ اور بلند ہمت ہے ، بھلائی و نیکی اور طہارت و پاکیزگی کی ایک تڑپ ہے ۔ جو اس کے اندر پائی جاتی ہے ۔ اور یہ دوسری شخصیت جس کی باتیں بھلی معلوم ہوتی ہیں جو بہت زبان دراز ہے ۔ اس کی آواز کڑاکے دار ہے ، بات کرتا ہے تو بھلائی ، نیکی اور اصلاح کی بات کرتا ہے ۔ اپنی نیک نیتی پر اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہے تاکہ اس کی بات زیادہ موثر اور واضح ہو۔ اور اس کی یکسوئی اور خلوص میں شبہ نہ ہو ، اس سے بظاہر نیکی اور اللہ خوفی کا اظہار ہو ، حالانکہ یہ شخص فی الحقیقت اللہ کا بدترین دشمن ہے ۔ اس کا نفس کینے اور جھگڑے سے بھر پڑا ہے۔ اس میں محبت اور شرافت کا ہلکا سا پرتو بھی نہیں یہ محبت وبھلائی سے یکسر محروم ہے ۔ احسان وایثار اس میں نام کو نہیں ۔ اس شخص کا ظاہر اس کے باطن سے الٹ ہے ۔ اس کا عیاں اس کے نمایاں سے دور ہے ۔ وہ جھوٹ کو بڑی چابکدستی سے سچ کا رنگ دے سکتا ہے لیکن جب عمل کا میدان آتا ہے تو وہ یہاں عیاں ہوجاتا ہے۔ حقیقت پردے سے باہر آجاتی ہے اور اس کا شر و فساد ، اور اس کا فتنہ کھل کر سامنے آجاتا ہے اس کی دشمنی اور کینہ پروری عیاں ہوجاتے ہیں وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الأرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لا يُحِبُّ الْفَسَادَ ” جب اسے اقتدار حاصل ہوتا ہے تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اسی لئے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے ، کھیتوں کا غارت کرے ، اور نسل انسانی کو تباہ کرے ۔ حالانکہ اللہ فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ “ جب وہ کسی عملی کام کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کا رجحان شروفساد ، سنگدلی اور ظلم کی جانب ہوتا ہے ۔ ہر معاملے میں سخت جھگڑالو ۔ وہ کھیتوں کو غارت کرتا ہے ، کھیتوں کے پھل ، سبزیاں اور روئیدگی وسرسبزی چھین لیتا ہے اور نسل انسانی کو بھی برباد کردیتا ہے ۔ وہ ہر قسم کی بھلائی کا دشمن ہے ۔ کھیتوں کو غارت کردیتا ہے ۔ پھل اور سبزیاں اور غلے تباہ ہوجاتے ہیں ۔ سرسبزی اور شادابی کی جگہ خشکی وویرانی آبستی ہے ۔ اور اس کا غلبہ نسل انسانی کی ہلاکت کا باعث ہوتا ہے۔ زندگی کی ہلاکت سے مراد وہ کینہ وشر اور وہ غدروفساد ہے ، جو اس بداخلاق شخص کے وجود میں پرورش پارہی تھی لیکن یہ شخص اسے اپنی چرب زبانی اور شیریں کلامی ، نیکی کے مظاہرے اور اصلاح و شرافت اور بھلائی وتقویٰ کی نمائش کے ذریعے چھپائے رکھتا ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا اور ان مفسدین کو بھی پسند نہیں کرتا جو اس کائنات میں فساد پھیلانے کا موجب بنتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے اس قسم کے لوگ ہرگز پوشیدہ نہیں رہ سکتے ۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ طمع کاری اور یہ پالش کارگر نہیں ہوسکتی ، ہاں انسانوں میں کبھی کبھار یہ روغن سازی اور طمع کاری دھوکہ دے سکتی ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کو اس قسم کے بد اخلاق اور بدفطرت شخص کی ملمع سازی دھوکہ نہیں دے سکتی ۔ ہاں عوام الناس جن کے سامنے خفیہ راز نہیں ہوتے اور ظاہر داری انہیں دھوکہ دے سکتی ہے ۔ ان کی نظروں میں ضرور اس قسم کے لوگ کسی قدروقعت رکھتے ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

393 جب تک آپ کے پاس بیٹھے رہتے ہیں اس وقت تک تو چکنی چپڑی باتیں کرتے رہتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بڑے ہی مخصف ہیں لیکن جب آپ کے پاس سے اٹھ جاتے ہیں تو شر و فساد برپا کرنے کی سعی اور کوشش کرتے رہتے ہیں۔ شروفساد سے یا تو کھیتوں اور مویشیوں کی تباہی مراد ہے اور یا مراد یہ ہے کہ آپ کے پاس سے اٹھ کر مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کی بابت شبہات پیدا کرتا ہے اور کفر وشرک کی تائید میں عجیب و غریب حیلے نکالتا ہے۔ انہ کان بعد الانصراف من حضرۃ النبی (علیہ السلام) یشتغل بادخال الشبہ فی قلوب المسلمین وباستخراج الحیل فی تقویۃ الکفر (کبیر ص 280 ج 2) وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۔ جیسا کہ اخنس نے کیا تھا کہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھ کر اسلام سے محبت کا اظہار کرتا رہا جب آپ کے پاس سے اٹھ کر باہر نکلا تو مسلمانوں کے ایک کھیت کے پاس سے گذرا تو کھیت کو جلا دیا اور ان کے مویشی قتل کردئیے۔ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ۔ اللہ تعالیٰ شروفساد کو پسند نہیں کرتا۔ اس لیے فساد سے اجتناب کرو ورنہ اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi