Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 211

سورة البقرة

سَلۡ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ کَمۡ اٰتَیۡنٰہُمۡ مِّنۡ اٰیَۃٍۭ بَیِّنَۃٍ ؕ وَ مَنۡ یُّبَدِّلۡ نِعۡمَۃَ اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُ فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿۲۱۱﴾

Ask the Children of Israel how many a sign of evidence We have given them. And whoever exchanges the favor of Allah [for disbelief] after it has come to him - then indeed, Allah is severe in penalty.

بنی اسرائیل سے پوچھو تو کہ ہم نے انہیں کس قدر روشن نشانیاں عطا فرمائیں اور جو شخص اللہ تعالٰی کی نعمتوں کو اپنے پاس پہنچ جانے کے بعد بدل ڈالے ( وہ جان لے ) کہ اللہ تعالٰی بھی سخت عذابوں والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Punishment for changing Allah's Favor and mocking the Believers Allah says; سَلْ بَنِي إِسْرَايِيلَ كَمْ اتَيْنَاهُم مِّنْ ايَةٍ بَيِّنَةٍ ... Ask the Children of Israel how many clear Ayat (proofs, evidences, verses, lessons, signs, revelations, etc.) We gave them. Allah mentioned that the Children of Israel, were witnesses to many clear signs that attest to the truth of Moses regarding what he was sent with for them. They witnessed; his hand (when it became lit with light), his parting the sea, his striking the rock (and water flowed from the rock), the clouds that shaded them during the intense heat, the manna and the quails, and so forth. These signs attested to the existence of the Creator and the truth of Moses by whose hand these signs appeared. Yet, so many among them changed Allah's favor, by preferring disbelief to faith and by ignoring Allah's favors, ... وَمَن يُبَدِّلْ نِعْمَةَ اللّهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءتْهُ فَإِنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ And whoever changes Allah's favor after it had come to him, then surely, Allah is severe in punishment. Similarly, Allah said about the disbelievers of Quraysh: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُواْ نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا وَبِيْسَ الْقَرَارُ Have you not seen those who have changed the blessings of Allah into disbelief, and caused their people to dwell in the house of destruction Hell, in which they will burn, ـ and what an evil place to settle in! (14:28-29) Then Allah said;

احسان فراموش اسرائیل اور ترغیب صدقات اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ دیکھو بنی اسرائیل کو میں نے بہت سے معجزات دکھلا دئیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کہ ہاتھوں لکڑی ان کے ہاتھ کی روشنی ان کے لئے دریا کو چیر دینا ان پر سخت گرمیوں میں ابر کا سایہ کرنا من وسلویٰ اتارنا وغیرہ وغیرہ جن سے میراخود مختار فاعل کل ہونا صاف ظاہر تھا اور میرے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی کھلی تصدیق تھی لیکن تاہم ان لوگوں نے میری ان نعمتوں کا کفر کیا اور بجائے ایمان کے کفر پر آرے رہے اور میری نعمتوں پر بجائے شکر کے ناشکری کی پھر بھلا میرے سخت عذاب سے یہ کیسے بچ سکتے؟ یہی خبر کفار وقریش کے بارے میں بھی بیان فرمائی ارشاد ہے آیت ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ ) 14 ۔ ابرہیم:28 ) کیا تو نے ان لوگوں کو دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر یعنی جہنم جیسی بدترین قرار گاہ میں پہنچا دیا ۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ یہ کفار صرف دنیا کی زندگی پر دیوانے ہوئے ہیں مال جمع کرنا اور اللہ کی راہ کے خرچ میں بخل کرنا یہی ان کا رنگ ڈھنگ ہے ، بلکہ ایمان دار اس دنیائے فانی سے سیر چشم ہیں اور پروردگار کی رضامندی میں اپنے مال لٹاتے رہتے ہیں یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں ، حالانکہ حقیق نصیب والے یہی لوگ ہیں قیامت کے دن ان کے مرتبے دیکھ کر ان کافروں کی آنکھیں کھل جائیں گی اس وقت اپنی بدتری اور ان کی برتری دیکھ کر معاملہ اونچ نیچ سمجھ میں آجائے گی ۔ دنیا کی روزی جسے اللہ جتنی چاہے دے دے جسے چاہے بےحساب دے بلکہ جسے چاہے یہاں بھی دے اور پھر وہاں بھی دے حدیث شریف میں ہے اے ابن آدم تو میری راہ میں خرچ کر میں تجھے دیتا چلا جاؤں گا ، آپ نے حضرت بلال سے فرمایا راہ اللہ میں دئیے جاؤ اور عرش والے سے تنگی کا خوف نہ کرو ، قرآن میں ہے آیت ( وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٗ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ ) 34 ۔ سبأ:39 ) تم جو کچھ خرچ کرو اللہ اس کا بدلہ دے گا ، صحیح حدیث میں ہے ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ایک دعا کرتا ہے اے اللہ تیری راہ میں خرچ کرنے والے کو عزت فرما دوسرا کہتا ہے بخیل کے مال کو تباہ وبرباد کر ۔ ایک اور حدیث میں ہے انسان کہتا رہتا میرا مال میرا مال حالانکہ تیرا مال وہ ہے جسے تو نے کھایا وہ تو فنا ہو چکا اور جسے پہن لیا وہ بوسیدہ ہو گیا ہاں جو تو نے صدقہ میں دیا اسے تو نے باقی رکھ لیا اس کے سوا جو کچھ اسے تو تو دوسروں کے لئے چھوڑ کر یہاں سے چل دے گا ، مسند احمد کی حدیث میں ہے دنیا اس کا گھر ہے جس کا گھر نہ ہو ، دنیا اس کا مال ہے جس کا مال نہ ہو دنیا کے لئے جمع وہ کرتا ہے جسے عقل نہ ہو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

211۔ 1 مثلاً عصائے موسیٰ جس کے ذریعے سے ہم نے جادوگروں کا توڑ کیا سمندر سے راستہ بنایا پتھر سے بارہ چشمے جاری کیے، بادلوں کا سایہ، من و سلوا کا نزول وغیرہ جو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی دلیل تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے احکام الٰہی سے انکار کیا۔ 211۔ 2 نعمت کے بدلنے کا مطلب یہی ہے کہ ایمان کے بدلے انہوں نے کفر کا راستہ اپنایا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧٩] اور اگر واضح دلائل اور نشانیوں ہی کی بات ہے تو بنی اسرائیل سے پوچھ لیجئے کیا ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تھوڑے معجزات عطا کئے تھے ؟ تو پھر کیا یہ سب کے سب لوگ ایمان لے آئے تھے ؟ اور اگر لائے بھی تو کیا پورا ایمان لائے ؟ اور کب تک اس پر قائم رہے ؟ پھر جب ان لوگوں نے اللہ کے انعامات کی قدر نہ کی تو اللہ نے انہیں بری طرح سزا دی۔ بنی اسرائیل سے پوچھنے کو اس لیے کہا کہ یہ امت مسلمانوں کے قریب زمانہ میں موجود تھی اور اب بھی موجود ہے اگر اے مسلمانو ! تم نے بھی اللہ کے انعامات کی قدر نہ کی تو تمہارا بھی حشر یہی ہوسکتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اللہ تعالیٰ نے پہلی امتوں کے مطالبے پر یا مطالبے کے بغیر انبیاء کو کئی معجزے عطا فرمائے، مگر جب وہ معجزے دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے تو ان پر مختلف عذاب آئے، جیسے قوم ثمود و قوم فرعون اور بنی اسرائیل، اب جب اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کے اترنے کا مطالبہ حد سے زیادہ ہونے لگا تو کفار عرب سے کہا جا رہا ہے کہ بنی اسرائیل سے پوچھ لو، ہم نے انھیں کتنے واضح معجزات دکھائے، یعنی عصائے موسیٰ ، ید بیضا، طوفان، ٹڈیاں، سمندر کا پھٹنا، صحرا میں بادل کا سایہ، بارہ چشموں کا پھوٹنا، من وسلویٰ کا نزول وغیرہ، تو انھوں نے ان نعمتوں سے کوئی فائدہ اٹھایا جو تم اٹھاؤ گے ؟ پھر نعمتوں کی ناشکری کا نتیجہ تو عذاب ہی ہے، فرمایا : (وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بالْاٰيٰتِ اِلَّآ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ ) [ بنی إسرائیل : ٥٩ ] ” اور ہمیں کسی چیز نے نہیں روکا کہ ہم نشانیاں دے کر بھیجیں مگر اس بات نے کہ پہلے لوگوں نے انھیں جھٹلا دیا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Immediately earlier, it was said that opposing truth after clear signs have come, deserves punishment. The first verse here (211) cites the case of the elders of Bani Isra&il who were punished for their hostility to truth despite clear signs given to them. Rather than follow the blessed guidance given to them, they chose to stray away from it and, as a result, underwent punishments, for instance, they received the Torah which deserved being accepted but they denied it, consequent to which, they were threatened with Mount Sinai coming down upon them. Again, they heard the Word of Allah which they should have loved and respected but they tinkered with doubts in it and consequently, were struck dead by lightening. Then, again, they were delivered from the Pharaoh through a passage-way made by parting the river, but they showed no gratitude, instead, took to the calf for which they were killed. Further again, they should have been grateful when Mann مَنّ and Salwa سلوا was sent for them but they disobeyed and spoilage set in. When they showed their distaste for it, it stopped coming, throwing them into the toil of growing their own food. Lastly, the chain of prophets that appeared among them from time to time should have been a matter of great satisfaction for them, yet they started killing them for which they were punished, having been deprived of power. In the wake of such misdeeds, some of which find mention in the earlier part of Sarah al-Baqarah, the divine law is that one who changes the blessings or clear signs of Allah, especially after it has come to him when he should have followed its guidance rather than turn back and go astray, then, the ultimate must come to pass, that is, Allah Almighty punishes such a deviant severely. In the second verse (212), the real cause of the opposition to truth has been identified as the love of dunya دنیا (the worldly life) and its material gains. One of the effects of this attitude shows up in the derogatory stance taken against those who love their faith. The reason is simple. When materialism overpowers, the urge for faith evaporates. In fact, people would go to the limit of abandoning their faith when it happens to be against their worldly interests and would even have the audacity to laugh at those who love and practice it. So, it should not be strange that many chiefs among the Israelites and the ignorant among polytheists would make fun of poor Muslims. It is in this context that the Holy Qur&an says: &Adorned is the present life for those who disbelieve& because of which &they laugh at those who believe&, although, these Muslims who have said no to kufr کفر and shirk shall be in a state better than that of the disbelievers on the day of Qiyamah (Doomsday), for the disbelievers will be in Jahannam جَھَنَّم (Hell) and the believers, in Jannah جَنَّت (Paradise). The last sentence carries a warning for those who pride on their brute economic strength because it is Allah who &gives, to whom He wills, without measure&. So, all this depends on divinely-ordained destiny and not on personal excellence or influence. As such, it is not necessary that one who is respected for personal possessions happens to be a recipient of honour with Allah as well. The truth is that real honour cannot be anything other than what turns out to be valid in the sight of Allah. That being that, would it not be a plain &absence of sense& if one stands on the crutches of worldly riches and claims honour for himself and looks down upon the less fortunate as mean? The real consequence of such attitude shall be unravelled on the Last Day. It has been reported that Sayyidna ` Ali (رض) said: &Anyone who takes a Muslim man or woman low in status because of his or her hunger, Allah Almighty will put him to disgrace before a gathering of all, from the first to the last. And anyone who falsely accuses a Muslim man or woman of a weakness, Allah Almighty would put him on a high mound until he falsifies himself.& (a1-Qurtubi)

ربط آیات : اوپر فرمایا تھا کہ بعد دلائل واضحہ آجانے کے حق کی مخالفت کرنا موجب سزا پہلی آیت میں اس کی دلیل بیان فرماتے ہیں کہ جیسے بنی اسرائیل کو ایسی ہی مخالفت پر سزادی گئی : خلاصہ تفسیر : آپ (علماء) بنی اسرائیل سے (ذرا) پوچھئے (تو سہی) ہم نے ان کو (یعنی ان کے بزرگوں کو) کتنی واضح دلیلیں دی تھیں (مگر ان لوگوں نے بجائے اس کے کہ اس سے ہدایت حاصل کرتے اور الٹی گمراہی پر کمر باندھی پھر دیکھو سزائیں بھی بھگتیں مثلا توراۃ ملی، چاہئے تو یہ تھا کہ اس کو قبول کرتے مگر انکار کیا آخر کوہ طور گرانے کی ان کو دھمکی دی گئی اور مثلا حق تعالیٰ کا کلام سنا چاہئے تھا سر آنکھوں پر رکھتے مگر شبہات نکالے آخر بجلی سے ہلاک ہوئے اور مثلا دریا میں شگاف کرکے فرعون سے نجات دی گئی احسان مانتے مگر گوسالہ پرستی شروع کی جس پر سزائے قتل دی گئی اور مثلا من وسلویٰ نازل ہوا شکر کرنا چاہئے تھا نافرمانی کی وہ سڑنے لگا اور اس سے نفرت ظاہر کی تو وہ موقوف ہوگیا، اور کھیتی کی مصیبت سر پر پڑی اور مثلا انبیاء (علیہم السلام) کا سلسلہ ان میں جاری رہا غنیمت سمجھتے ان کو قتل کرنا شروع کردیا جس پر یہ سزا دی گئی کہ ان سے حکومت و سلطنت چھین لی گئی وعلیٰ ھذاٰ بہت سے معاملات اسی سورة بقرہ کے شروع میں بھی مذکور ہوچکے ہیں) اور (ہمارا قانون ہی یہ ہے کہ) جو شخص اللہ تعالیٰ کی (ایسی بڑی) نعمت (دلائل واضحہ) کو بدلتا ہے اس کے پاس پہنچنے کے بعد (یعنی بجائے اس کے کہ اس سے ہدایت حاصل کرے اور الٹا گمراہ بنتا ہے) تو یقینا حق تعالیٰ (ایسے شخص کو) سخت سزا دیتے ہیں۔ (دوسری آیت میں مخالفت حق کی اصلی علت اکثر یہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ دنیا کی محبت ہے جس کے آثار میں سے اہل دین کو حقیر سمجھنا بھی ہے کیونکہ جب دنیا کا غلبہ ہوتا ہے دین کی طلب نہیں رہتی بلکہ دین کو اپنی دنیوی اغراض کے خلاف دیکھ کر ترک کر بیٹھتا ہے اور دوسرے طالبان دین پر ہنستا ہے چناچہ بعض رؤ سائے بنی اسرائیل اور جہلائے مشرکین غریب مسلمانوں کے ساتھ باستہزا پیش آیا کرتے تھے ان لوگوں کا بیان فرماتے ہیں) کہ دنیوی معاش کفار کو آراستہ پیراستہ معلوم ہوتی ہے اور (اسی وجہ سے) ان مسلمانوں سے تمسخر کرتے ہیں حالانکہ یہ (مسلمان) جو کفر و شرک سے بچتے ہیں ان کافروں سے اعلیٰ درجہ (کی حالت) میں ہوں گے قیامت کے روز (کیونکہ کفار جہنم میں ہوں گے اور مسلمان جنت میں) اور (آدمی کو محض معاشی وسعت پر مغرور نہ ہونا چاہئے کیونکہ) روزی تو اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں بےانداز (یعنی بکثرت) دیدیتے ہیں (پس اس کا مدار قسمت پر ہے نہ کہ کمال اور مقبولیت پر سو یہ ضرور نہیں کہ جو روزی میں بڑا ہو وہ اللہ کے نزدیک بھی معزز ہو اور بڑی عزت وہی ہے جو اللہ کے نزدیک معتبر ہو پھر محض اس کے اوپر اپنے کو معزز اور دوسرے کو ذلیل سمجھنا بیوقوفی ہے) معارف و مسائل : دنیا کے مال و دولت اور عزت وجاہ پر مغرور ہونے اور غریب لوگوں کا استہزاء کرنے کی حقیقت قیامت کے روز آنکھوں کے سامنے آجائے گی۔ حضرت علی مرتضیٰ (رض) سے روایت ہے کہ جو شخص کسی مومن مرد یا عورت کو اس کے فقر وفاقہ کی وجہ سے ذلیل و حقیر سمجھتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کو اولین وآخرین کے مجمع میں رسوا اور ذلیل کریں گے اور جو شخص کسی مسلمان مرد یا عورت پر بہتان باندھتا ہے اور کوئی ایسا عیب اس کی طرف منسوب کرتا ہے جو اس میں نہیں ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کو آگ کے ایک اونچے ٹیلہ پر کھڑا کریں گے جب تک کہ وہ خود اپنی تکذیب نہ کرے، (ذکرالحدیث القرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 10 سَلْ بَـنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ كَمْ اٰتَيْنٰھُمْ مِّنْ اٰيَۃٍؚ بَيِّنَۃٍ۝ ٠ ۭ وَمَنْ يُّبَدِّلْ نِعْمَۃَ اللہِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْہُ فَاِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝ ٢١١ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ اِسْرَاۗءِيْلَ ( بني) ، جمع ابن، والألف في ابن عوض من لام الکلمة المحذوفة فأصلها بنو . (إسرائيل) ، علم أعجمي، وقد يلفظ بتخفیف الهمزة إسراييل، وقد تبقی الهمزة وتحذف الیاء أي إسرائل، وقد تحذف الهمزة والیاء معا أي : إسرال . كم كَمْ : عبارة عن العدد، ويستعمل في باب الاستفهام، وينصب بعده الاسم الذي يميّز به نحو : كَمْ رجلا ضربت ؟ ويستعمل في باب الخبر، ويجرّ بعده الاسم الذي يميّز به . نحو : كَمْ رجلٍ. ويقتضي معنی الکثرة، وقد يدخل «من» في الاسم الذي يميّز بعده . نحو : وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف/ 4] ، وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء/ 11] ، والکُمُّ : ما يغطّي الید من القمیص، والْكِمُّ ما يغطّي الثّمرةَ ، وجمعه : أَكْمَامٌ. قال : وَالنَّخْلُ ذاتُ الْأَكْمامِ [ الرحمن/ 11] . والْكُمَّةُ : ما يغطّي الرأس کالقلنسوة . کم یہ عدد سے کنایہ کے لئے آتا ہے اور یہ دو قسم پر ہے ۔ استفہامیہ اور خبریہ ۔ استفہامیہ ہوتا اس کا مابعد اسم تمیزبن کر منصوب ہوتا ( اور اس کے معنی کتنی تعداد یا مقدار کے ہوتے ہیں ۔ جیسے کم رجلا ضربت اور جب خبریہ ہو تو اپنی تمیز کی طرف مضاف ہوکر اسے مجرور کردیتا ہے اور کثرت کے معنی دیتا ہے یعنی کتنے ہی جیسے کم رجل ضربت میں نے کتنے ہی مردوں کو پیٹا اور اس صورت میں کبھی اس کی تمیز پر من جارہ داخل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف/ 4] اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے تباہ کروالیں ۔ وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء/ 11] اور ہم نے بہت سے بستیوں کو جو ستم گار تھیں ہلاک کر ڈالا ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ بَيِّنَة والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . ( ب ی ن ) البَيِّنَة کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ بدل الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ شدید والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، ( ش دد ) الشد اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں عُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب والعُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب يختصّ بالعذاب، قال : فَحَقَّ عِقابِ [ ص/ 14] ، شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر/ 4] ، وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل/ 126] ، وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج/ 60] . اور عقاب عقوبتہ اور معاقبتہ عذاب کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَحَقَّ عِقابِ [ ص/ 14] تو میرا عذاب ان پر واقع ہوا ۔ شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر/ 4] سخت عذاب کر نیوالا ۔ وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل/ 126] اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی ہے ۔ وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج/ 60] جو شخص کسی کو اتنی ہی سزا کہ اس کو دی گئی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢١١۔ ٢١٢) آپ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد سے پوچھیے کہ کتنی مرتبہ ہم نے ان سے اوامرو نواہی کے ساتھ کلام کیا ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں ہم نے ان کو دین کے ساتھ عزت عطا فرمائی مگر انہوں نے دین کو کفر کے ساتھ تبدیل کردیا اور جو شخص رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کی کتاب کو کفر کے ساتھ بدلے تو اللہ تعالیٰ کافر کو شدید ترین عذاب دینے والا ہے، ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کے لیے دنیاوی زندگی فراخی اور خوشحالی کے ساتھ سجائی گئی ہے مگر یہ لوگ حضرت سلمان (رض) اور صہیب (رض) ، حضرت بلال (رض) اور ان کے ساتھیوں کی معاشی تنگی پر ان کا مذاق اڑاتے ہیں مگر جو حضرات کفر وشرک سے بچے ہوئے ہیں یعنی حضرت سلمان (رض) اور ان کے ساتھی وہ دنیا میں ان کافروں سے حجت اور دلیل اور جنت میں قدر ومنزلت میں بڑھے ہوئے ہیں اور بغیر کسی محنت ومشقت کے جس پر اللہ تعالیٰ چاہتا ہے، مال کی فراخی کردیتا ہے اور یہ بھی تفسیر کی گئی ہے کہ جنت میں اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بغیر کسی حساب و کتاب کے داخل کردیتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١١ (سَلْ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ ‘ یْلَ کَمْ اٰتَیْنٰہُمْ مِّنْ اٰیَۃٍم بَیِّنَۃٍ ط) یعنی اے مسلمانو ! دیکھو کہیں تم بھی ان ہی کے راستے پر نہ چلنا۔ جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آگاہ فرمایا تھا : (لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ ‘ حَتّٰی لَوْ سَلَکُوْا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَکْتُمُوْہُ ) قُلْنَا : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی ؟ قَالَ : (فَمَنْ ؟ ) (٢٦) تم لازماً اپنے سے پہلوں کے طور طریقوں کی پیروی کرو گے ‘ بالشت کے مقابلے میں بالشت اور ہاتھ کے مقابلے میں ہاتھ۔ یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھسے ہوں گے تو تم بھی گھس کر رہو گے۔ ہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہود و نصاریٰ کی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو اور کس کی ؟ (وَمَنْ یُّبَدِّلْ نِعْمَۃَ اللّٰہِ مِنْم بَعْدِ مَا جَآءَ ‘ تْہُ فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ) ۔ جو کوئی اللہ کی نعمت کو پانے کے بعد اس میں تبدیلی کرتا ہے ‘ یا اس میں تحریف کرتا ہے یا خود غلط روش اختیار کرتا ہے تو اس کو جان لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس طرز عمل پر بہت سخت سزا دیتا ہے۔ بنی اسرائیل ہی کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے کہ قرآن حکیم میں ان سے دو مرتبہ فرمایا گیا : (یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَ نِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ) (البقرۃ) اے بنی اسرائیل ! یاد کرو میرے اس انعام کو جو میں نے تم پر کیا اور یہ کہ میں نے تمہیں فضیلت عطا کی تمام اہل عالم پر۔ لیکن پھر ان ہی کے بارے میں فرمایا گیا : (وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُق وَبَآءُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ط) (البقرۃ : ٦١) اور ان پرّ ذلت و خواری اور محتاجی و کم ہمتی تھوپ دی گئی اور وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے۔ اور یہ مضمون بھی سورة آل عمران میں دوبارہ آئے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

229. There are two reasons why this query is addressed to the Children of Israel. In the first place, a group of living human beings provide a better source of instruction and admonition than mute archaeological findings. In the second place, the Israelites were a people who, having been endowed with Scripture and prophethood, were entrusted with the leadership of the world. By falling prey to worldliness, hypocrisy and other errors of belief and conduct they subsequently lost God's favour. A people entrusted with the task of universal leadership could derive no better lesson from another people than this one.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :229 اس سوال کے لیے بنی اسرائیل کا انتخاب دو وجوہ سے کیا گیا ہے ۔ ایک یہ کہ آثار قدیمہ کے بے زبان کھنڈروں کی بہ نسبت ایک جیتی جاگتی قوم زیادہ بہتر سامان عبرت و بصیرت ہے ۔ دوسرے یہ کہ بنی اسرائیل وہ قوم ہے ، جس کو کتاب اور نبوت کی مشعل دے کر دنیا کی رہنمائی کے منصب پر مامور کیا گیا تھا ، اور پھر اس نے دنیا پرستی ، نفاق اور علم و عمل کی ضلالتوں میں مبتلا ہو کر اس نعمت سے اپنے آپ کو محروم کرلیا ۔ لہٰذا جو گروہ اس قوم کے بعد امامت کے منصب پر مامور ہوا ہے ، اس کو سب سے بہتر سبق اگر کسی کے انجام سے مل سکتا ہے ، تو وہ یہی قوم ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اوپر یہ تو گذر چکا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیدائش اور نبوت سے پہلے یہود لوگ آپ کو اچھی طرح آپ کے اوصاف سے جانتے تھے اور لڑائیوں میں آپ کے نام سے فتح کی دعائیں مانگا کرتے تھے اب جب آپ کے تشریف لانے کے بعد وہ آپ کی نبوت کے منکر ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مخاطب ٹھہرا کر یہ آیت نازل فرمائی اور فرمایا کہ آپ قائل کرنے کے طور پر ان سے ذرا پوچھئے تو سہی کہ سلف سے لے کر اللہ تعالیٰ نے ان کو کیا کچھ اپنی قدرت کی نشانیاں دکھلائیں جن میں کی ہر ایک نشانی خود ایک نعمت ہے یا کسی بڑی نعت کا سبب ہے مثلاً من وسلویٰ کا آسمان سے اترنا نشان قدرت الٰہی بھی ہے ور خود نعمت بھی ہے اور ہلاکت فرعون ایسی نشانی ہے جو ان کو نعمت اور بادشاہت ملنے کا سبب ہے اور ان نعمتوں کا پوچھنا ان سے اس غرض سے ہے کہ ان کی پچھلی نعمتوں کے یاد کرنے سے بھی ان کو یہ بھی یاد آجائے کہ نبی آخرالزمان پیدا ہونا بھی ایک ایسی نعمت ہے جس کی پہلے ان کو خود آرزو تھی اور اس نعمت کے طفیل سے اپنے دشمنوں پر فتح کی دعائیں مانگتے تھے اگر اس یاد دہی کا بھی ان پر کچھ اثر نہ ہوگا۔ اور اللہ کی اس نعمت کی قدر نہ کریں گے تو یہ یاد رکھیں کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:211) کم۔ استفہام کے لئے آئے تو اس کی تمیز مفرد منصوب ہوتی ہے جیسے کہ درھما عندک تیرے پاس کتنے درہم ہیں۔ اور اگر خبر یہ ہو اور مقدار کی بیشی اور تعداد کی کثرت کو ظاہر کرے تو تمیز مفرد مجرور ہوتی ہے جیسے وکم قریۃ اہلکناھا۔ ہم نے بہت سی بستیوں کو ہلاک کردیا۔ کبھی تمیز سے پہلے من آتا ہے جیسے کم من قریۃ اہلکناھا (7:4) یا آیت ہذا میں : کم من ایۃ بینۃ کتنی ہی کھلی نشانیاں اتینھم ہم نے ان کو دیں۔ من شرطیہ ہے اور ومن یبدل ۔۔ ماجاء تہ۔ جملہ شرطیہ ہے اور فان اللہ شدید العقاب جواب شرط ہے۔ یبدل مضارع مجزوم (بوجہ شرط) واحد مذکر غائب تبدیل (تفعیل) مصدر (جو) بدل ڈالے۔ یعنی بجائے شکر کے کفر کرے۔ نعمۃ اللہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ اللہ کی نعمت۔ نعمت سے مراد وہ معجزے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس پر انعام کئے۔ نعمت ان کو اس لئے اس لئے کہا گیا کہ وہ ہدایت کا سبب ہیں۔ یا اس سے مراد اللہ کی کتاب ہے۔ اور تبدیل سے مراد یہ ہے کہ اس پر عمل نہ کیا۔ شدید العقاب سخت عذاب دینے والا۔ (ملاحظہ ہو 2:196)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یہ سوال بطور زجر توبخ ہے اور توجہ دلائی ہے کہ مسلمانوں کا چاہیے کہ بنی اسرائیل کی تاریخ سے عبرت حاصل کریں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اودوسرے انبیاء کے ذریعہ ان کے پاس کس قدر دلائل بھیجے گئے لیکن وہ ان دلائل وآیات سے ہدایت اور راہ نجات حاصل کرنے کی بجائے ان میں تحریف و تاویل کر کے ضلالت و ہلاکت میں پڑگئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں دنیا میں بھی سزا ملی اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہ بچ سکے گے۔ (رازی۔ ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 211 216 اسرارو معارف سل بنی اسرائیل………………وانتم لا تعلمون۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنی اسرائیل سے پوچھئے ان کی تاریخ دیکھئے کہ اللہ نے انہیں کس قدر واضح دلائل عطا فرمائے اور اللہ کے نبی ان کے پاس کتنی دلیلیں لائے جن سے ان کی اصلاح مقصود تھی مگر جب انہوں نے سرکشی کی اور ان دلائل کو پس پشت ڈالا تو ان پر کیسے کیسے عذاب نازل ہوئے اور یہ تو قاعدہ ہے کہ جب کوئی شخص اللہ کی نعمت کو ٹھکراتا ہے یعنی ایسے دائل جو اسے راہ ہدایت سمجھانے کے لئے اللہ کی طرف سے اس کے پاس پہنچے ان کی پرواہ نہیں کرتا تو اس کا یقینی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ رحمت باری سے محروم ہو کر اللہ کے غضب کا نشانہ بنتا ہے اور خدا کے عذاب بہت سخت ہیں جس طرح اس کی رحمت حدود سے بالاتر ہے اسی طرح اس کے عذابوں کی سختی بھی عقل انسانی کی دسترس سے باہر ہے اللہ ان سے بچائے ، آمین۔ جب کوئی شخص اللہ کے ارساں کردہ دلائل کی پرواہ نہیں کرتا تو خود بخود اس کی پسند کا معیار بدل جاتا ہے اور محض دنیا کی لذات پہ فریفتہ ہو کر رہ جاتا ہے پھر اس کی ساری کوشش حصول لذات تک ہی محدود ہوجاتی ہے اور اس شے کو مستحسن جاننے لگتا ہے۔ گمراہی نگاہوں کو بدل دیتی ہے اور بھلے برے کی تمیز نہیں رہتی : اور نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ جو لوگ ان عارضی اور مادی لذات کو ابدی راحت اور اخروی زندگی کے لئے قربان کرتے ہیں وہ انہیں ناسمجھ جانتا ہے اور ان کا تمسخر اڑاتا ہے کہ کیسے بےعقل ہیں خواہ مخواہ اپنے آپ کو ضابطوں میں جکڑ رکھا ہے اور عیش و عشرت نہیں کرتے لیکن یہ ان کی جہالت ہے۔ یہ زندگی عارضی ہے اور اخروی زندگی دائمی۔ اگرچہ راحت یہاں بھی مومن کے لئے ہی ہے۔ کہ عین فطری زندگی بسر کرتا ہے اور کفار کی زندگی غیر فطری ضابطوں میں جکڑی ہوتی ہے۔ مگر اس قدر باریک نگاہ نہیں رکھتے۔ ان کے ہاں معیار دولت اور صرف خوبصورت مکان ، لباس یا اچھی قسم کا کھانا ہوتا ہے۔ آخرت میں یہ بھی دیکھ لیں گے کہ مومنین باعتبار رزق کے بھی ان سے بہت اعلیٰ ہوں گے کہ کفار جب چاہے جتنا چاہے کسی کو بخش دے۔ انسان اپنی آفرنیش کے اعتبار سے تو بالکل ایک ہی جماعت تھے ان کا ایک ہی عقیدہ ، نظریہ بھی تھا ، مگر جب ضروریات بڑھیں تو اختلاف اغراض نے نظریات بھی مختلف بخشے ، اپنے اپنے مزاج نے بھی رنگ دکھایا اور مختلف آراء سامنے آئیں ایک شور مچا جس میں ہر کوئی اپنی رائے کو حق ثابت کرنے پر مصر تھا۔ رحمت باری نے دستگیری فرمائی اور انبیاء (علیہ السلام) کو بھیجا کہ انہوں نے حق کو باطل سے علیحدہ علیحدہ کردیا اور جہاں اہل حق کو بشارت دی وہاں دوسرے گروہ کو اللہ کے غضب سے ڈرایا کہ باطل کی پیروی نہ کریں۔ اللہ نے انبیاء کو اپنی کتابیں دیں ان پر اپنا کلام نازل فرمایا کہ حق کے ساتھ لوگوں میں فیصلہ کریں اور اختلاف دور فرمائیں مگر کتب سماوی اور واضح احکام کے بعد بھی لوگوں نے محض ضد کی وجہ سے انبیائ (علیہ السلام) کی پیروی نہ کی اور محروم رہے مگر جن لوگوں نے سر تسلیم خم کیا۔ اللہ نے ان کی الجھنیں بھی سلجھا دیں اور اپنی رحمت سے انہیں اختلافات کی دلدل سے نکال کر سیدھی راہ نصیب فرمائی۔ وہ جسے چاہے سیدھے راستے پہ چلنے کی توفیق ارزاں کردے۔ باعتبار عقیدہ دنیا میں صرف دو قومیں ہیں : یہاں انسانوں کو ملجاظ عقیدہ ونظریہ تقسیم فرمایا ہے اور صرف دو قومیں ارشاد فرمائی ہیں کہ جب تک خیالات اور عقائد متحد تھے نوع انسانی کی قوم بھی ایک ہی تھی یہاں امہ سے مراد وحدت عقائد ہے اگر چہ لغت میں کسی بھی سبب سے ایک وحدت وجود میں آئے تو امہ کہلاتی ہے وہ وجہ ایک زمانہ یا ایک خطہ یا ملک ہی کیوں نہ ہو۔ مگر یہاں جس اختلاف کا ذکر ہے وہ ملکی یا زمانی نہیں بلکہ نظریاتی ہے۔ تو امہ سے بھی نظریاتی وحدت ہی مراد ہوگی۔ رہی یہ بات کہ کس دور میں تھی ؟ تو بعض حضرات نے اسے آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد گردانا ہے بعض نے طوفان نوح کے بعد بچ رہنے والوں کے حق میں لکھا ہے۔ یہ باتیں اپنی جگہ درست ہیں مگر اسلوب بیان سے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ نوع انسانی اپنے ساتھ اختلاف نہیں لائی بلکہ دنیا میں رہنے بسنے کے ساتھ مختلف چیزیں سامنے آئیں اور اپنی پسند کے حصول کے مختلف ذرائع اپنائے گئے اور پھر ہر شخص نے اپنی رائے ہی کو درست جانا جو ایک فطری امر تھا۔ مگر انبیاء کرام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آکر حق و باطل کو واضح کردیا۔ سو اس سے محروم صرف وہ لوگ رہے جو قبول حق کی استعداد ہی کھو چکے تھے اور محض ضد اور اکڑ میں اپنے آپ کو برباد کر بیٹھے۔ اس کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ مزاج کو قوت حق کی استعداد سے عاری کردیتا ہے اور ایسے لوگ کبھی مان کر نہیں دیتے۔ اظہار حق کرنے والوں کو اس سے بددل نہ ہونا چاہیے بلکہ اپنا کام پورے خلوص سے کرتے رہنا ہی ضروری ہے کہ کہ تم تو اللہ کی رضا کے طالب ہو تو جنت کا داخلہ چاہتے ہو جو رضائے الٰہی کا مظہر ہے تو اتنی عظیم طلب کے لئے بہت بڑی قربانی بھی تو چاہیے کوئی ایسا کام بھی تو دکھائو جو تمہیں یہ انعام دلوانے کا باعث ہو ۔ کہ سنت اللہ یہی ہے کہ ہر کام کسی سبب کا نتیجہ ہوتا ہے نیز اپنے سے پہلے گزرنے والوں (مومنین) کو دیکھو۔ ان پر بھی تو کس قدر امتحان آئے کہ انہیں ہلا کر رکھ دیا۔ بعض اوقات نہ صرف مومنین بلکہ ان کے ساتھ انبیا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی پکار اٹھے ۔ ھتی نصر اللہ کہ اے اللہ ! تیری مدد جس کا تو نے اپنے بندوں سے وعدہ فرمایا ہے کب آئے گی۔ یعنی اے اللہ ! جلدی مدد فرما اور خوب جان لو کہ اللہ کی مدد قریب ہے۔ ثمرات کے لئے مجاہدہ ضروری ہے : یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ مجاہدہ شرط ہے۔ یہی اللہ کا نظام ہے اور یہ ضروری نہیں کہ مجاہدہ اختیاری ہی ہو بلکہ اضطراری بھی نافع ہے سب سے بڑی بات جو مجاہدے پر مرتب ہوتی ہے وہ قرب الٰہی اور ماسوا اللہ سے بیزاری ونامیدی ہے کہ آدمی ہر طرف سے کٹ کر صرف اللہ کو پکاراٹھے اگر کوئی شخص محض شہرت یا کوئی کمال حاصل کرنے کے لئے تکلیفیں اٹھاتا ہے تو وہ مجاہدہ نہیں جس پر یہ اجر مرتب ہو بلکہ سخت گناہ ہے نیز مصیبت وابتلاء جو اللہ کے بندوں کو پیش آئے وہ محض صورتاً مصیبت ہوا کرتی ہے حقیقتاً اللہ کا انعام اور ترقی درجات کا وسیلہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : اشد الناس بلاء الانبیاء ثم الامثل۔ وقت مصیبت اللہ سے دعا کرنا تو کل کے منافی نہیں بلکہ خوب الحاح وزاری سے اللہ کو پکارنا ہی حاصل مجاہدہ ہے اور قرب الٰہی کی دلیل ہے۔ مجاہدہ اختیاری میں شرائط مجاہدہ کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے مثلاً اللہ کی رضا کے لئے مال کا خرچ کرنا ایک مجاہدہ ہے لیکن مال کا محض ضیاع مجاہدہ نہیں بلکہ پہلے تو وہ مال خیر ہو حلال اور جائز کمائی ہو۔ پھر اس میں جتنا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہو اس کا مصرف یہ ہے کہ سب سے پہلے والدین کا حق ہے پھر قرابتداروں کا اور پھر یتیموں ، مساکین اور مسافروں کا۔ یاد رہے یہاں صدقات نافلہ کی بابت ارشاد ہورہا ہے اور ان کا بھی محل ہے یہ نہ ہو کہ والدین بھوک سے تڑپ رہے ہوں یا علاج کو ترس رہے ہو اور نامور بیٹا مہاجرین میں کھانا یا دوائیں بانٹنے کی تصاویر کھنچوارہا ہو۔ اسی طرح جو مال خرچ کیا جائے وہ اپنا بھی ہو ، یہ نہ ہو کہ قرض خواہ پریشان پھریں اور بجائے انہیں واپس کرنے کے صدقات بانٹے جا رہے ہوں یعنی مال اپنا ہو ، جائز اور حلال ہو اور پھر درست جگہ پر خرچ کیا جائے اور خالص اللہ کی رضا مقصود ہو تب بات بنے گی مقاصدکو حاصل کرنے کے لئے اور انہیں درجات کو پانے کے لئے تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے۔ جہاد میں مجاہدہ اختیاری بھی ہے اور اضطراری بھی۔ گو بظاہر اور طبعاً تمہیں ناگوار بھی ہو ، عین ممکن ہے کہ ایک شے تمہیں بھلی معلوم نہ ہو مگر وہ تمہارے لئے بہت سود مند ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تمہیں کوئی چیز بہت پسند آئے مگر حقیقت کے اعتبار سے تمہارے لئے بہت نقصان دہ ہو کہ اشیاء کے حقائق سے واقف ہونا تمہارے بس کی بات نہیں۔ یہ تو اللہ ہی کو سزاوار ہے اور اسی کی شان علم ہے کہ وہ عواقب ونتائج سے باخبر ہے سبحان اللہ ! یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ اللہ کی طرف سے جو کچھ آتا ہے مومن کے لئے ہمیشہ انعام ہی ہوتا ہے اور اس میں اس کی بھلائی ہوتی ہے۔ خواہ صورتاً کس قدر شدید اور سخت بھی ہو۔ کافر کو جو کچھ ملتا ہے وہ حقیقت کے اعتبار سے عذاب ہی ہوتا ہے خواہ وہ صورتاً دولت دنیا یا جاہ ومنصب ہی کیوں نہ ہو۔ جہاد فرض ہے مگر فرض کفایہ کہ ایک جماعت اس فریضہ کو ادا کرتی رہے تو سب کی طرف سے کفایت کرے لیکن اگر ان سے بات بڑھ جائے تو پھر پاس والوں پر فرض عین۔ اسی طرح اگر ان سے نہ ہوسکے تو بڑھتا ہوا ساری دنیا کے مسلمانوں پر فرض عین ہوجاتا ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 211 تا 212 سل (پوچھئے، سوال کیجئے) ۔ کم اتینا (کتنی ہم نے دیں) ۔ زین (خوبصورت بنا دیا گیا) ۔ یسخرون ( وہ مذاق اڑاتے ہیں (وہ مذاق کرتے ہیں) ۔ یرزق (وہ روزی دیتا ہے) ۔ بغیر حساب (حساب) ۔ تشریح : آیت نمبر 211 تا 212 بنی اسرائیل وہ قوم ہے جس کو کتاب و نبوت کی روشنی دے کر دنیا کی رہنمائی کے ایک بڑے مقام پر کھڑا کیا گیا تھا ان پر اللہ تعالیٰ نے ہزاروں انعامات کئے تھے مگر انہوں نے ناشکری کے راستے پر چل کر اپنے آپ کو اللہ کی رحمتوں سے محروم کرلیا تھا اور انہوں نے اللہ کے غضب کو دعوت دی تھی۔ فرمایا جارہا ہے کہ اے مسلمانو ! آج تمہیں جس عظیم منصب پر فائز کیا جا رہا ہے تمہیں اس بات کو یاد رکھنا چاہئے اور بنی اسرائیل سے پوچھنا چاہئے کہ وہ کون سے انعامات تھے جو اللہ نے ان پر نہیں کئے تھے ؟ مگر انہوں نے ہمیشہ اللہ کی نعمتوں کی قدر کرنے کے بجائے ان کو اپنی محنتوں کا ثمر قرار دیا ۔ فرمایا گیا ہے کہ اے مومنو ! اللہ کو کسی قوم کی بھی نافرمانی پسند نہیں ہے اس کا قانون ایک ہی ہے اس میں کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہے کہ بد عمل قوم کو اللہ برباد کردیتا ہے اور اچھے اعمال اور بہتر کردار کے مالک لوگوں کو پروان چڑھاتا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو عظمتیں دی تھیں تا کہ وہ نیکیوں پر قائم رہیں لیکن اب ان کا یہ عالم ہے کہ خود تو نیکی سے محروم ہیں جو لوگ نیک اور پرہیز گار ہیں ان کا مذاق اڑاتے ہیں ان کے ایثار کو حماقت قرار دیتے ہیں فرمایا گیا کہ وہ لوگ جو تقویٰ اختیار کرنے و الے ہیں وہ بیشک اپنے ایثار و قربانی کی وجہ سے آج تنگ دست اور غریب ہیں لیکن قیامت کے دن یہ سر بلند ہوں گے اور جہاں تک غربت و تنگ حالی کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کا یہ نظام ہے کہ وہ جب بھی چاہتا ہے اپنے نیک اور متقی بندوں پر اپنی رحمتوں کے دروازوں کو کھول دیتا ہے۔ مشکلات، مصائب اور پریشانیاں بھی ان کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ مثلا تورات ملی، چاہیے تھا کہ اس کو قبول کرتے مگر انکار کیا آخر طور گرانے کی دھمکی دی گئی اور مثلا حق تعالیٰ کا کلام سنا چاہیے تھا کہ سرآنکھوں پر رکھتے مگر شبہات نکالے آخر بجلی سے ہلاک ہوئے اور مثلا دریا کو شگافتہ کرکے فرعون سے نجات دی گئی احسان مانتے مگر گوالہ پرستی شروع کردی سزائے قتل دی گئی اور مثلا من وسلوی نازل ہواشکر کرنا چاہیے تھا بےحکمی کی وہ سڑنے لگا اور اس سے نفرت ظاہر کی تو وہ موقوف ہوگیا اور کھیتی کی مصیبت سر پر پڑی اور مثلا انبیاء کا سلسلہ ان میں جاری رہا غنیمت سمجھتے ان کو قتل کرنا شروع کردیا انتزاع سلطنت کی سزا دی گئی۔ وعلی ھذا بہت سے معاملات اس سورة بقرہ کے شروع میں بھی مذکور ہوچکے ہیں۔ 4۔ یہ سزا کبھی دنیا میں بھی ہوجاتی ہے اور کبھی آخرت میں بھی ہوگی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کے مطالبات کے بعد ان سے سوال کیا گیا کہ تم مزید معجزات اور دلائل کا مطالبہ کرتے ہو یہ بتاؤ کہ تم نے پہلے دلائل اور معجزات کا کیا مثبت جواب دیا ہے ؟ دراصل تم دنیا پر فریفتہ ہونے کی وجہ سے حق سے جی چراتے ہو دنیا تو عارضی ہے جب کہ آخرت ہمیشہ کے لیے ہے۔ مکہ والوں کے سامنے بیشمار حقائق اور دلائل واضح ہوچکے تھے لیکن اس کے باوجودوہ مزید براہین کا مطالبہ کرتے رہتے تھے۔ ان کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ اگر انہیں مزید دلائل کی ضرورت ہے تو بنی اسرائیل کے منصف مزاج لوگوں کو خاص کر ان میں جو مسلمان ہوچکے ہیں ان سے پوچھیں کہ جب ان کے آباء و اجداد کو لاتعداد نعمتوں سے نوازا گیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یکے بعد دیگرے ایک سے بڑھ کر ایک معجزات پیش کیے تو کیا اس کے بعد انہوں نے حق قبول کرلیا تھا ؟ نہیں ! بلکہ انہوں نے حق قبول کرنے کے بجائے نعمتوں کی ناقدری اور دین کو تبدیل کرنے کی مذموم کوششیں کیں ‘ انہیں فرعون کے مظالم سے نجات ملی تو برسر اقتدار آکر وہی ظلم روا رکھے ‘ فرعون کے غرق ہونے کے بعد دریا عبور کرکے ابھی راستے ہی میں تھے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بتوں کے سامنے اعتکاف کرنے اور ان کی عبادت کی اجازت مانگنے لگے۔ جناب موسیٰ (علیہ السلام) طور پر گئے تو بچھڑے کو معبود بنالیا، بیت المقدس میں فتح کی ضمانت ملنے کے باوجود داخلے سے انکار کردیا، وادئ تیہ میں چالیس سال کی سزا بھگتنے کے بعد جب بیت المقدس میں داخل ہوئے تو عاجزی اور استغفار کرنے کے بجائے حِطَّۃٌ کو حِنْطَۃٌ میں تبدیل کرکے اللہ سے بخشش مانگنے کے بجائے گندم کا مطالبہ شروع کردیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے حکم اور دین کی شکل بگاڑنے کی کوششیں کی۔ یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کا حوالہ دے کر منافقوں ‘ مشرکوں اور اہل کتاب کو سمجھایا جارہا ہے کہ جو بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناقدری اور اس کو تبدیل کرے گا ‘ دنیا میں رسوائی اور آخرت میں اس کے لیے بربادی ہوگی۔ یہاں نعمت سے مراد دین حق کی نعمت ہے۔ دین حق کی بےحرمتی اور ناقدری کے بنیادی اسباب میں سب سے بڑا سبب دنیا کی زیب وزینت پر منکرین آخرت کا فریفتہ ہونا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا سب کے لیے حسین اور پر کشش ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ مومن نعمتوں کو اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بناتا ہے اور بےدین انسان اسی پر قانع ہو کر اپنی آخرت تباہ کرلیتا ہے۔ مومن ایمان کی دولت کے بدلے دنیا کی دولت کو ترجیح نہیں دیتا ‘ چاہے دنیا کی نظر میں اسے کروڑوں کا نقصان برداشت کرنا پڑے اور اپنے ہم عصروں اور برادری سے کتنا ہی پیچھے رہنا پڑے۔ جب کہ کافر دنیا کی زیب وزینت پر نظر جمائے ہوتا ہے۔ وہ چند دمڑیوں کی خاطر ایمان اور جاہ و حشمت کے لیے اپنی غیرت وضمیر کا سودا کرنے سے باز نہیں آتا۔ ایسے دنیا پرست کی نظر میں مومن کا کردار کس طرح معیاری اور قابل رشک ہوسکتا ہے ؟ اسی بنا پر وہ مومنوں کو بےوقوفی اور تمسخر کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ان احمقوں اور رذیلوں کی پیروی کریں ؟ کیا یہی لوگ انقلاب برپا کریں گے ؟ اس فرمان میں واضح کیا جا رہا ہے کہ ایمان کے بغیر دنیا کی نعمتوں اور برتری میں اللہ تعالیٰ کی رضا نہیں ہے۔ وہاں تو ایمان کی نعمت اور خوفِ الٰہی کی دولت ہی کام آئے گی۔ اسی کی بدولت مومن آخرت میں کفار سے ممتاز اور بلند وبالا ہوں گے۔ دنیا میں مومن پر حرام کمانے اور کھانے کی پابندی تھی۔ جس کی وجہ سے کفار اور حرام خور لوگ مومنوں سے دنیاوی ترقی میں آگے نکل گئے لیکن قیامت میں مومنوں کو بےانتہا رفعت و عظمت اور بےحساب رزق سے نواز اجائے گا اور منکرین کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مسائل ١۔ دین کو تبدیل کرنے والا سخت عذاب کا مستحق ہوگا۔ ٢۔ کفار کے لیے دنیا دلفریب بنادی گئی ہے۔ ٣۔ صاحب تقو ٰی ایمان دار قیامت کے دن کافروں سے بلند ہوں گے۔ ٤۔ رزق اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے جتنا اور جسے چاہے عطا فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی نعمت کو بدلنے کی سزا : ١۔ نعمت تبدیل کرنے والے کو سخت ترین عذاب ہوگا۔ (البقرۃ : ٢١١) ٢۔ نعمت تبدیل کرنے والا دنیا وآخرت میں ذلیل ہوگا۔ (البقرۃ : ٦١) ٣۔ دین اسلام کے سوا دوسرا دین تلاش کرنے والے سے دوسرا دین قبول نہ ہوگا۔ (آل عمران : ٨٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بات پھر بنی اسرائیل کی طرف پلٹتی ہے اور یہ ایک قدرتی امر ہے ۔ ڈرایا جاتا ہے کہ بنی اسرائیل جیسا موقف اختیار نہ کرو ، اس میں تو ہلاکت ہے۔ جو تردد اور انکار حق کا موقف ہے ۔ بغاوت اور سلامتی سے دور بھاگنے کا موقف ہے ۔ ہٹ دھرمی اور بار بار طلب معجزات کا موقف اور معجزات دیکھ کر بھی بغض وعناد رکھتے اور انکار کرتے چلے جانے کا موقف ۔ یہ ہیں وہ مقامات جہاں یہ قدم ڈگمگاسکتے ہیں ، پائے استقامت پھسل سکتا ہے ، اس لئے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو پہلے سے خبردار کردیتا ہے ، تاکہ مسلمان بنی اسرائیل کی طرح تلخ انجام تک نہ پہنچ جائیں۔ سَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَمْ آتَيْنَاهُمْ مِنْ آيَةٍ بَيِّنَةٍ ” بنی اسرائیل سے پوچھو کیسی کھلی کھلی نشانیاں ہم نے انہیں دکھائی ہیں (اور پھر یہ بھی انہی سے پوچھ لو کہ) اللہ کی نعمت پانے کے بعد جو قوم اس کو شقاوت سے بدلتی ہے اسے کیسی سخت سزا دیتا ہے۔ “ سوال سے مراد یہ نہیں ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جائیں اور بنی اسرائیل سے سوال کریں اور وہ پھر کوئی جواب دیں۔ یہ تو اسالیب قرآن میں سے ایک اسلوب ہے ۔ مقصد یہ یاد دلانا ہے کہ بنی اسرائیل کے سامنے بکثرت معجزات پیش کئے گئے ۔ بیشمار کھلی نشانیاں ان کے سامنے آتی رہیں ۔ بعض نشانیاں تو ان کی ضد اور مطالبے پر دکھائی گئیں اور بعض معجزات اللہ تعالیٰ نے از خود اس وقت کی کسی مصلحت کی خاطر صادر فرمائے ، لیکن کثرت معجزات کے باوجود ان کا طرز عمل کیا تھا ، تردد اور وعدہ خلافی ، ہٹ دھرمی اور پش وپیش کرنا لیکن مسلسل یہ لوگ امن وسلامتی کے اس سایہ سے دور رہے جو صرف حظیرہ ایمان پر سایہ فگن ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر ایک عام تعقیب آتی ہے وَمَنْ يُبَدِّلْ نِعْمَةَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ” اللہ کی نعمت پالینے کے بعد جو قوم اسے شقاوت سے بدلتی ہے ، اسے اللہ سخت سزا دیتا ہے۔ “ یہاں جس نصیحت کا ذکر ہورہا ہے وہ نصیحت اسلام ہے یا اس سے مراد ایمان کی نعمت ہے ۔ دونوں تقریباً مترادف ہیں ۔ اللہ کی نعمت کو شقاوت سے بدل دینے کی اعلیٰ مثال تاریخ بنی اسرائیل میں ملے گی ۔ جب انہوں نے نعمت کو شقاوت سے بدلا تو اطمینان اور سکون وقرار سے محروم ہوگئے ۔ انہوں نے تسلیم ورضا سے انکار کردیا ۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے آگے سرتسلیم خم نہ کیا۔ انہوں نے ہمیشہ شک اور تردد کا رویہ اپنایا ۔ قدم قدم پر معجزات طلب کرتے رہے ۔ ہر مرحلے پر دلائل پوچھتے رہے لیکن نہ معجزات سے انہیں اطمینان ہوا نہ دلائل بینات سے وہ قائل ہوئے ۔ نہ انہوں نے اللہ کے نور اور ہدایت سے استفادہ حاصل کیا ۔ اور ” اللہ کے عذاب شدید سے ڈرو “ اس کی اعلیٰ ترین مثال بھی تاریخ بنی اسرائیل ہے ۔ اور اس کے انجام بد کا انتظار وہ سب لوگ ، ہر دور میں اور ہر جگہ کرتے ہیں جو نعمت اسلام کے مقابلے میں شقاوت اور بدبختی کو اختیار کرتے ہیں اور پھر وہ اس پر فخر کرتے ہیں (تاریخ شاہد ہے کہ ایسے لوگ ایسے ہی انجام سے دوچار ہوئے جس طرح بنی اسرائیل) انسانیت نے جب بھی اس نعمت عظمیٰ کو بیچ کر شقاوت اور بدبختی حاصل کی ، اسے آخرت سے بھی پہلے اس کی اس دنیاوی زندگی میں سخت سے سخت سزادی گئی۔ ذرا کرہ ارض پر پھیلی ہوئی اس بدبخت انسانیت کی حالت زار پر نگاہ تو ڈالئے ! کیا وہ ایک شدید عذاب میں مبتلا نہیں ہے ؟ دیکھتے نہیں کہ وہ ہر جگہ کس بدبختی اور تلخی ہی پاتی ہے ۔ ہر جگہ حیرت و اضطراب کا شکا رہے ۔ انسان ، انسان کو کھائے جارہا ہے بلکہ انسان خود اپنی جان اور اپنے اعصاب کو کھائے جارہا ہے ۔ فرد انسانیت کی تلاش میں دوڑتا ہے۔ اور انسانیت فرد کی متلاشی ہے۔ لیکن دونوں خالی سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔ غرض عالم انسانیت میں اس وقت ایک مہلک خلا ہے ۔ اس خلاکو بعض نام نہاد تہذیب مغرب کے فرزند بھرنے کی کوشش کرتے ہیں ، مگر کبھی مسکرات کے استعمال سے اور کبھی منشیات کے کثرت استعمال سے ۔ بعض اوقات ان لوگوں سے ایسی حرکات ہوجاتی ہیں کہ انسان حیران ہوجاتا ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ وہ بھاگ رہے ہیں اور کوئی خوفناک غول ان کے تعاقب میں ہے ۔ فرزندان تہذیب مغرب کی صرف شکل و صورت ہی کا مطالعہ کیجئے ۔ یہ عجیب عجیب شکلیں بناتے ہیں ، اور پھر ان کی نمائش کرتے ہیں ۔ کوئی عورت سرجھکائے ہوئے ہے ۔ کسی نے سینہ بالکل ننگا کررکھا ہے ، کوئی منی اسکرٹ پہنے ہوئے ہے ، کسی نے ایسا ٹوپ بنایا ہے جیسے کوئی حیوان سر پر رکھا ہوا ہے۔ بعض نے ایسی ٹائیاں باندھ رکھی ہیں ، جن پر ہاتھی کی تصویر ہے ، ایسی قمیصیں پہنی ہیں جن پر شیر یا ریچھ کی تصویر ہے ۔ دراصل ایک نظر دیکھئے ! ان کے مجنونانہ رقص ، ہیجان انگیز گانے ، متکلفانہ طرز زندگی ، تقریبات اور مجالس میں شوخ لباس ، انوکھی اور جاذب نظر شکلیں بناکر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا ، اور عجیب و غریب طرح اپنے آپ کو ممتاز کرکے جذبات کی تسکین کرنا ہے۔ ایک نظر ان لوگوں کی بدلتی ہوئی خواہشات پر بھی نظر ڈالئے ۔ خواہشات بدل جاتی ہیں ، خاوند بدل جاتے ہیں ، دوست بدل جاتے ہیں ، لباس بدل جاتے ہیں ، ہر موسم میں ، بلکہ ہر صبح وشام میں ۔ یہ سب چیزیں ظاہر کرتی ہیں کہ یہ معاشرہ قلق اور بےچینی اور حیرت و اضطراب میں مبتلا ہے ۔ جس میں کوئی اطمینان نہیں ہے ۔ جس میں کوئی امن نہیں ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان اقوام کی حالت خوفناک حد تک گرگئی ہے ۔ چناچہ یہ لوگ اپنے معاشرے اور اپنی تہذیب سے فرار اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ لیکن افسوس کہ وہ کوئی راہ نہیں پاتے ۔ یوں لگتا ہے جیسے فرزندان تہذیب کی روح خالی ہے ۔ خود اپنے سایے سے بھاگ رہے ہیں ، گویا کہ جنات اور بھوت ان کا پیچھا کررہے ہیں۔ کیا یہ عذاب الٰہی نہیں ہے ۔ یقیناً یہ عذاب ہے اور ہر اس شخص کے لئے جو اسلامی نظام زندگی اختیار نہیں کرتا ۔ جو اللہ کی یہ پکار نہیں سنتا يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً ” اے ایمان لانے والو ! امن وسلامتی میں داخل ہوجاؤ پورے کے پورے ۔ “ غرض اللہ کے انعامات پر پختہ یقین کسی چیز سے بھی نہیں بدلتا الّا یہ کہ کسی کو خداوند کریم کا یہ عذاب گھیر لے تو یقیناً پختہ ایمان ختم ہوجاتا ہے ۔ العیاذباللہ۔ اس سے پہلے بیان ہوا کہ جو لوگ دعوت اسلامی قبول کرنے میں پس وپیش کررہے ہیں اور نعمت کے مقابلے میں شقاوت اور بدبختی لے رہے ہیں ، ایک سخت عذاب ان کے انتظار میں ہے ۔ اب یہاں بتایا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی جنت کیا ہے اور ان کا انجام کیا ہوگا اور کافروں کا کیا حال ہے اور ان کا انجام کیا ہوگا ؟ بتایا جاتا ہے کہ اشخاص کی قدر و قیمت معلوم کرنے اور احوال اور اقدار حیات کے ناپ تول کے لئے مسلمانوں کا ترازو کیا ہے ؟ اور کافروں کا ترازو کیا ہے ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بنی اسرائیل کی ناشکری اور اس پر عذاب بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی واضح دلیلیں عنایت فرمائی تھیں۔ وہ ان دلائل سے کام لیتے اور حق پر جمتے تو ان کے حق میں اچھا تھا۔ لیکن انہوں نے الٹی ہی چال چلی ہدایت کے بجائے گمراہیوں کو پسند کیا، اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو نقمت سے بدل دیا۔ جس کی وجہ سے دنیا و آخرت میں مستحق عذاب و عقاب ہوئے۔ بنی اسرائیل کو جو دلائل واضحہ دیئے گئے تھے ان کے بارے میں صاحب معالم التنزیل ص ١٨٤ ج ١ لکھتے ہیں کہ اس سے وہ دلائل مراد ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کے بارے میں عطا کئے گئے تھے۔ مثلاً عصا موسوی اور ید بیضاء اور سمندر کو پھاڑ کر بنی اسرائیل کو پار کرنا وغیر ذلک، اور ایک قول یہ بھی لکھا ہے کہ اس سے وہ صاف اور واضح بیانات مراد ہیں جو تورات و انجیل میں سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے بارے میں تھے، یہودیوں نے جو ان آیات سے انحراف کیا اور حق واضح ہوجانے کے باوجود گمراہی کا راستہ اختیار کیا اس کے بیان کرنے کے لیے ایک ایسا اسلوب اختیار فرمایا جس سے ہر نعمت کے بدلنے کی شناعت اور قباحت معلوم ہوجائے اور عمومی طور پر یہ بھی معلوم ہوجائے کہ جو بھی کوئی شخص اللہ کی کسی بھی نعمت کو بدلے گا وہ مستحق عذاب و عقاب ہوگا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

399 یہ نافرمانی کے انجام اور تخویف دنیوی کا ایک نمونہ بیان فرمایا ہے۔ یعنی اللہ کی طرف حق واضح ہوجانے کے بعد جو لوگ نہیں مانتے ان کا کیا حشر ہوتا ہے۔ بنی اسرائیل سے پوچھو ہم نے انہیں حق سمجھانے کے لیے کس قدر واضح نشانیاں دیں۔ تورات نازل کی پیغمبروں کے معجزے ان کو دکھلائے مگر انہوں نے جد وعناد سے ان کا انکار کیا پھر ان کو کیسے کیسے عذابوں میں مبتلا کیا گیا۔ 400 نعمت سے مراد اللہ تعالیٰ کی آیتیں اور وہ دلائل ہیں جو رشد وہدایت کا سبب تھے کیونکہ ہدایت اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اور تبدیل نعمت سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے ان اسباب ہدایت سے کام نہ لیا اور جو ہدایت ان سے حاصل کرنی چاہئے تھی اسے حاصل نہ کیا اور انہی اسباب کے ذریعے کفر اور گمراہی خریدی مثلاً تورات میں تحریف کر کے، اس کے احکام کو ٹھکرا کر اور معجزات کا انکار کر کے۔ المراد آیاتہ ودلائلہ وھی من اجل اقسام نعم اللہ لانھا اسباب الھدی والنجاۃ من الضلالۃ۔ المراد بتبدیلھا ان اللہ تعالیٰ اظہرھا لتکون اسباب ھدٰھم فجعلوھا اسباب ضلالتھم (کبیر ص 297 ج 2) یعنی جو شخص رشد وہدایت کے اسباب وذرائع کو غلط استعمال کر کے ان سے گمراہی اور فسق وفجور کا کام لے اسے خدا کی گرفت سے غافل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس کی گرفت سخت اور اس کا عذاب عبرت ناک ہے۔ یہ بھی ترک جہاد پر تخوف ہے۔ اس واقعہ سے مسلمانوں کی تنبیہ مقصود ہے کہ دیکھو اللہ کی نافرمانی کا یہ انجام ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ بنی اسرائیل کے علماء سے دریافت تو کیجئے کہ ہم نے ان بنی اسرائیل کو کتنے واضح دلائل عطا کئے تھے اور عام قاعدہ ہمارا یہی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نعمت کو بعد اس کے کہ وہ نعمت اس شخص کے پاس پہنچ چکی ہو بدلتا ہے تو یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے ناسپاس اور نافرمان کو سخت سزا دینے والا ہے (تیسیر) نعمت یہاں سے مراد اللہ تعالیٰ کے وہ انعامات ہیں جو دقتاً فوقتاً بنی اسرائیل کے بزرگوں پر ہوتے رہے مثلاً ًتوریت کا ملنا انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا پے درپے آتے رہنا دریا کو پھاڑنا من اور سلویٰ کا نازل فرمانا وغیرہ وغیرہ تبدیل نعمت کا مطلب یہ ہے کہ واضح دلیلیں عطا ہوئیں تھیں ۔ اس لئے کہ ہدایت اختیار کرتے مگر انہوں نے ان کو ذریعہ گمراہی بنایا توریت سے ہدایت قبول کرنے کی بجائے اس کو اپنی ضلالت اور گمراہی کے لئے استعمال کیا انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے کی بجائے ان کو قتل کردیا۔ دریا کو پار کرنے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بت بنانے کی خواہش کی۔ من اور سلویٰ کو ذخیرہ بنانے لگے نعمت کے پہنچ جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا علم حاصل ہوجائے یا وہ نعمت بےتکلف حاصل ہوسکے۔ سخت سزا کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں بھی ان کو مختلف سزائیں دی جائیں اور آخرت میں بھی وہ عذاب میں مبتلا کئے جائیں۔ خلاصہ یہ کہ خدا کی نعمت کے جواب میں ناسپاسی کی روش اختیار کی اور ناشکری کا طریقہ استعمال کیا لہٰذا اسی تبدیل نعمت کی پاداش ان کو بھگتنی پڑی چونکہ یہ معلومات عام طور سے علماء کو ہوتی ہے۔ اس لئے علماء بنی اسرائیل سے دریافت کیجئے تاکہ آپ کے زمانے کے بنی اسرائیل کو ب ھی ان سزائوں کا حال معلوم ہوجائے جو ان کے بزرگوں پر نازل ہوتی رہیں شاید ان کو سن کر قرآن اور نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسی عظیم الشان نعمت کی قدر کریں اور ناسپاسی سے باز آئیں۔ اب آگے اس قسم کی ناسپاسی اور اس مرض کی اصلی وجہ بیان فرماتے ہیں تاکہ بیماری کی اصل علت معلوم ہوجائے۔ (تسہیل)