Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 214

سورة البقرة

اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَاۡتِکُمۡ مَّثَلُ الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِکُمۡ ؕ مَسَّتۡہُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلۡزِلُوۡا حَتّٰی یَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ ﴿۲۱۴﴾

Or do you think that you will enter Paradise while such [trial] has not yet come to you as came to those who passed on before you? They were touched by poverty and hardship and were shaken until [even their] messenger and those who believed with him said,"When is the help of Allah ?" Unquestionably, the help of Allah is near.

کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ کے ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سُن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Victory only comes after succeeding in the Trials Allah said: أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ ... Or think you that you will enter Paradise, before you are tested and tried just like the nations that came before you! This is why Allah said: ... وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاء وَالضَّرَّاء ... ...witho... ut such (trials) as came to those who passed away before you They were afflicted with severe poverty and ailments, meaning, illnesses, pain, disasters and hardships. Ibn Mas`ud, Ibn Abbas, Abu Al-Aliyah, Mujahid, Sa`id bin Jubayr, Murrah Al-Hamdani, Al-Hasan, Qatadah, Ad-Dahhak, Ar-Rabi, As-Suddi and Muqatil bin Hayyan said that; الْبَأْسَاء (Al-Ba'sa') means poverty. Ibn Abbas said that وَالضَّرَّاء (...and Ad-Darra') means ailments. ... وَزُلْزِلُواْ ... and were so shaken, for fear of the enemy, and were tested, and put to a tremendous trial. An authentic Hadith narrated that Khabbab bin Al-Aratt said, "We said, `O Messenger of Allah! Why do you not invoke Allah to support us Why do you not supplicate to Allah for us' He said: إِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانَ أَحَدُهُمْ يُوضَعُ الْمِنْشَارُ عَلى مَفْرَقِ رَأْسِهِ فَيَخْلُصُ إِلى قَدَمَيْهِ لاَ يَصْرِفُهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ وَيُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِيدِ مَا بَيْنَ لَحْمِهِ وَعَظْمِهِ لاَ يَصْرِفُهُ ذلِكَ عَنْ دِينِه The saw would be placed on the middle of the head of one of those who were before you (believers) and he would be sawn until his feet, and he would be combed with iron combs between his skin and bones, yet that would not make him change his religion. He then said: وَاللهِ لَيُتِمَّنَّ اللهُ هَذَا الاْاَمْرَ حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إلى حَضْرَمَوْتَ لاَا يَخَافُ إِلاَّ اللهَ وَالذِّيْبَ عَلى غَنَمِهِ وَلَكِنَّــكُمْ قَوْمٌ تَسْتَعْجِلُون By Allah! This matter (religion) will spread (or expand) by Allah until the traveler leaves San`a' to Hadramawt (both in Yemen, but at a great distance from each other) fearing only Allah and then the wolf for the sake of his sheep. You are just a hasty people. And Allah said: الم أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا امَنَّا وَهُمْ لاَ يُفْتَنُونَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ Alif-Lam-Mim. Do people think that they will be left alone because they say: "We believe," and will not be tested And We indeed tested those who were before them. And Allah will certainly make (it) known (the truth of) those who are true, and will certainly make (it) known (the falsehood of) those who are liars. (29:1-3) The Companions experienced tremendous trials during the battle of Al-Ahzab (the Confederates). Allah said: إِذْ جَأءُوكُمْ مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الاٌّبْصَـرُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَاْ هُنَالِكَ ابْتُلِىَ الْمُوْمِنُونَ وَزُلْزِلُواْ زِلْزَالاً شَدِيداً وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَـفِقُونَ وَالَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلاَّ غُرُوراً When they came upon you from above you and from below you, and when the eyes grew wild and the hearts reached to the throats, and you were harboring doubts about Allah. There, the believers were tried and shaken with a mighty shaking. And when the hypocrites and those in whose hearts is a disease (of doubts) said: "Allah and His Messenger promised us nothing but delusion!" (33:10-12) When Heraclius asked Abu Sufyan, "Did you fight him (Prophet Muhammad)?" He said, "Yes." Heraclius said, "What was the outcome of warfare between you?" Abu Sufyan said, "Sometimes we lose and sometimes he loses." He said, "Such is the case with Prophets, they are tested, but the final victory is theirs." Allah's statement: ... مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِكُم ... ...without (such) (trials) as came to those who passed away before you, meaning, their way of life. Similarly, Allah said: فَأَهْلَكْنَأ أَشَدَّ مِنْهُم بَطْشاً وَمَضَى مَثَلُ الاٌّوَّلِينَ Then We destroyed men stronger (in power) than these ـ and the example of the ancients has passed away (before them)) (43: 8) and, ... وَزُلْزِلُواْ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ امَنُواْ مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللّهِ ... ...were so shaken that even the Messenger and those who believed along with him said, "When (will come) the help of Allah." They pleaded (to Allah) for victory against their enemies and invoked Him for aid and deliverance from their hardships and trials. Allah said: ... أَلا إِنَّ نَصْرَ اللّهِ قَرِيبٌ Yes! Certainly, the help of Allah is near! Allah said: فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً Verily, along with every hardship is relief. Verily, along with every hardship is relief. (94:5-6) So just as there is hardship, its equal of relief will soon arrive. This is why Allah said: أَلا إِنَّ نَصْرَ اللّهِ قَرِيبٌ (Yes! Certainly, the help of Allah is near)!   Show more

ہم سب کو آزمائش سے گزرنا ہے مطلب یہ ہے کہ آزمائش اور امتحان سے پہلے جنت کی آرزوئیں ٹھیک نہیں اگلی امتوں کا بھی امتحان لیا گیا ، انہیں بھی بیماریاں مصیبتیں پہنچیں ، بأساء کے معنی فقیری وضراء کے معنی سخت بیماری بھی کیا گیا ہے ۔ ( زلزلوا ) ان پر دشمنوں کا خوف اس قدر طاری ہوا کہ کانپنے لگے ان ت... مام سخت امتحانوں میں وہ کامیاب ہوئے اور جنت کے وارث بنے ، صحیح حدیث میں ہے ایک مرتبہ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ہماری امداد کی دعا نہیں کرتے؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بس ابھی سے گھبرا اٹھے سنو تم سے اگلے موحدوں کو پکڑ کر ان کے سروں پر آرے رکھ دئیے جاتے تھے اور چیر کر ٹھیک دو ٹکڑے کر دئیے جاتے تھے لیکن تاہم وہ توحید وسنت سے نہ ہٹتے تھے ، لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت پوست نوچے جاتے تھے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے دین کو نہیں چھوڑتے تھے ، قسم اللہ کی اس میرے دین کو تو میرا رب اس قدر پورا کرے گا کہ بلا خوف وخطر صنعاء سے حضر موت تک سوار تنہا سفر کرنے لگے گا اسے سوائے اللہ کے کسی کا خوف نہ ہوگا ، البتہ دل میں یہ خیال ہونا اور بات ہے کہ کہیں میری بکریوں پر بھیڑیا نہ پڑے لیکن افسوس تم جلدی کرتے ہو ، قرآن میں ٹھیک یہی مضمون دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے ۔ آیت ( الۗمّۗ Ǻ۝ۚ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ Ą۝ ) 29 ۔ العنکبوت:1 ) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ محض ایمان کے اقرار سے ہی چھوڑ دئیے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی ہم نے تو اگلوں کی بھی آزمائش کی سچوں کو اور جھوٹوں کو یقینا ہم نکھار کر رہیں گے ، چنانچہ اسی طرح صحابہ کرام رضون اللہ علیہم اجمعین کی پوری آزمائش ہوئی یوم الاحزاب کو یعنی جنگ خندق میں ہوئی جیسے خود قرآن پاک نے اس کا نقشہ کھینچا ہے فرمان ہے آیت ( اِذْ جَاۗءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَـنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوْنَا ) 33 ۔ الاحزاب:10 ) یعنی جبکہ کافروں نے تمہیں اوپر نیچے سے گھیر لیا جبکہ آنکھیں پتھرا گئیں اور دل حلقوم تک آگئے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ گمان ہونے لگے اس جگہ مومنوں کی پوری آزمائش ہو گئی اور وہ خوب جھنجھوڑ دئیے گئے جبکہ منافق اور ڈھل مل یقین لوگ کہنے لگے کہ اللہ رسول کے وعدے تو غرور کے ہی تھے ہرقل نے جب ابو سفیان سے ان کے کفر کی حالت میں پوچھا تھا کہ تمہاری کوئی لڑائی بھی اس دعویدار نبوت سے ہوئی ہے ابو سفیان نے کہا ہاں پوچھا پھر کیا رنگ رہا کہا کبھی ہم غالب رہے کبھی وہ غالب رہے تو ہرقل نے کہا انبیاء کی آزمائش اسی طرح ہوتی رہتی ہے لیکن انجام کار کھلا غلبہ انہیں کا ہوتا ہے مثل کے معنی طریقہ کے ہیں جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَّمَضٰى مَثَلُ الْاَوَّلِيْنَ ) 43 ۔ الزخرف:8 ) ، اگلے مومنوں نے مع نبیوں کے ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کی اور سخت اور تنگی سے نجات چاہی جنہیں جواب ملا کہ اللہ تعالیٰ کی امداد بہت ہی نزدیک ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا Ĉ۝ۙ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا Č۝ۭ ) 94 ۔ الشرح:6-5 ) ، یقینا سختی کے ساتھ آسانی ہے برائی کے ساتھ بھلائی ہے ، ایک حدیث میں ہے کہ بندے جب ناامید ہونے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ تعجب کرتا ہے کہ میری فریاد رسی تو آپہنچنے کو ہے اور یہ ناامید ہوتا چلا جا رہا ہے پس اللہ تعالیٰ ان کی عجلت اور اپنی رحمت کے قرب پر ہنس دیتا ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

214۔ 1 ہجرت مدینہ کے بعد جب مسلمانوں کو یہودیوں، منافقوں اور مشرکین عرب سے مختلف قسم کی ایذائیں اور تکلیفیں پہنچیں تو بعض مسلمانوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کی جس پر مسلمانوں کی تسلی کے لئے یہ آیت بھی نازل ہوئی اور خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا تم سے پہلے لوگوں کو ... ان کے سر سے لے کر پیروں تک آرے سے چیرا گیا اور لوہے کی کنگھی سے ان کے گوشت پوست کو نوچا گیا لیکن یہ ظلم اور تشدد ان کو ان کے دین سے نہیں پھیر سکا پھر فرمایا اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ اس معاملے کو مکمل (یعنی) اسلام کو غا لب فرمائے گا۔ 214۔ 2 اس لیے (ہر آنے والی چیز قریب ہے) اور اہل ایمان کے لئے اللہ کی مدد یقینی ہے اس لئے وہ قریب ہی ہے۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٨٣] مکی دور میں حکومت اور امن کی بشارت :۔ پھر جب کوئی نیا نبی مبعوث ہوتا ہے تو اسے کئی فرقوں میں بٹی ہوئی امت کو پھر سے ایک طریقہ پر لانے اور ایک امت بنانے پر بہت محنت صرف کرنا پڑتی ہے اور بہت سے مصائب اور دشواریاں پیش آتی ہیں۔ انبیاء کو بھی اور ان لوگوں کو بھی جو ابتدء انبیاء کا ساتھ دیتے ہیں۔ ک... یونکہ باطل قوتیں جو مالی اور افرادی قوت کے لحاظ سے اس نئے نبی اور اس کے چند پیروؤں سے بہت زیادہ طاقتور ہوتی ہیں ان کے مقابلہ پر اتر آتی ہیں اور کچل دینے سے بھی دریغ نہیں کرتیں اور یہ مصائب اتنے شدید ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ انبیاء اور ان کے متبعین بہ تقاضائے بشریت پکار اٹھتے ہیں کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟ خباب بن ارت کا شکوہ : چناچہ ایک دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کی دیوار کے سایہ میں اپنی چادر کو تکیہ بنا کر بیٹھے تھے تو سیدنا خباب بن ارت نے عرض کیا |" آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اللہ تعالیٰ سے دعا کیوں نہیں کرتے ؟ یہ سنتے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تکیہ چھوڑ کر سیدھے بیٹھ گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم سے پہلے ایسے لوگ گزر چکے ہیں۔ جن کے گوشت اور پٹھوں میں ہڈیوں تک لوہے کی کنگھیاں چلائی جاتی تھیں مگر وہ اپنے سچے دین سے نہیں پھرتے تھے اور آرا ان کے سر کے درمیان رکھ کر چلایا جاتا اور دو ٹکڑے کردیے جاتے مگر وہ اپنے سچے دین سے نہیں پھرتے تھے اور اللہ اپنے اس کام کو ضرور پورا کر کے رہے گا۔ یہاں تک کہ ایک شخص صنعا سے سوار ہو کر حضرموت تک چلا جائے گا، اور اللہ کے سوا اس کو کسی کا ڈر نہ ہوگا۔ (بخاری۔ کتاب المناقب باب مالقی النبی واصحابہ من المشرکین بمکۃ) اور بخاری ہی کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں ” مگر تم لوگ تو جلدی مچاتے ہو۔ “ پرامن زندگی کی بشارت :۔ اس حدیث میں مسلمانوں کے لیے کئی بشارتیں ہیں۔ مثلاً یہ کہ کافروں کی ضرر رسانی اور ایذا دہی کا دور عنقریب ختم ہونے والا ہے۔ پھر تمہاری اپنی حکومت قائم ہوگی جس میں ہر ایک کو پرامن زندگی بسر کرنا میسر آئے گی۔ کسی چور، ڈاکو، لٹیرے کو یہ جرأت نہ ہوگی کہ وہ دوسرے کے مال کی طرف نظر بھر کر دیکھ بھی سکے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

الْبَاْسَاۗءُ “ سے مراد فقر و فاقہ اور ” وَالضَّرَّاۗءُ “ سے مراد بیماری اور جسمانی تکالیف اور ” زُلْزِلُوْا “ کا مطلب ہے سخت ہلائے گئے۔ مدینہ میں ہجرت کے بعد مسلمانوں کو جب مشرکین، منافقین اور یہود سے سخت تکالیف پہنچیں تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اس میں مسلمانوں کو تسلی دی گئی کہ دین کی راہ میں یہ مصیبت... یں اور تکلیفیں صرف تم پر نہیں آ رہیں، بلکہ تم سے پہلے لوگ تو فقر و فاقہ، جانی و مالی نقصان اور سخت قسم کے خوف و ہراس میں مبتلا کیے گئے، یہاں تک کہ اس زمانے کا رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے ” اللہ کی مدد کب ہوگی “ پکار اٹھے۔ پھر جس طرح ان پر اللہ کی طرف سے مدد نازل ہوئی تمہاری بھی مدد کی جائے گی۔ چناچہ جب غزوۂ احزاب میں یہ مرحلہ پیش آیا، جس کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے سورة احزاب (١٠، ١٢) میں کھینچا ہے تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ یاد رہے کہ ان کا ” اللہ کی مدد کب ہوگی “ کہنا اعتراض اور شکوہ کے طور پر نہ تھا، بلکہ بےبسی کے عالم میں اپنی عاجزی اور زاری کی حالت کا اظہار تھا۔ (رازی، ابن کثیر) خباب بن ارت (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا : ” یا رسول اللہ ! آپ ہمارے لیے نصرت کی درخواست نہیں کرتے، آپ ہمارے لیے اللہ سے دعا نہیں کرتے ؟ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پہلے لوگوں میں سے ایک کے سر کی مانگ پر آرا رکھ دیا جاتا اور وہ اس کے قدموں تک پہنچ جاتا، مگر یہ چیز اسے اس کے دین سے نہیں پھیرتی تھی اور لوہے کی کنگھیوں سے اس کے گوشت اور ہڈی کو الگ کردیا جاتا، یہ چیز اسے اس کے دین سے نہیں پھیرتی تھی۔ “ پھر آپ نے فرمایا : ” اللہ کی قسم ! یہ کام ضرور مکمل ہو کر رہے گا، یہاں تک کہ سوار صنعاء سے حضر موت تک چلے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہوگا یا اسے اپنی بکریوں سے متعلق بھیڑیے کا ( خوف ہوگا) ، لیکن تم ایسے لوگ ہو کہ بہت جلدی کرتے ہو۔ “ [ شعب الإیمان للبیہقی : ٢؍٢٤٠، ح : ١٦٣٣۔ بخاری : ٣٦١٢۔ ابن کثیر : ١؍٢٥١ ]  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The previous verse has said how hostile the disbelievers have been to prophets (علیہم السلام) and believers and, in a way, has comforted Muslims hurt by the mockery of disbelievers that there is nothing new about this antagonism. This has been there all the time. Further from this point, the present verse recounts the enormous amount of suffering faced by past prophets and believers at the hands o... f hostile disbelievers. This too is to console Muslims that they should be patient against the hostility of disbelievers as ideal happiness can only be achieved by getting ready and working hard for the Hereafter. Commentary There are two things worth serious attention in this verse: 1. Apparently, this verse seems to indicate that nobody shall enter Paradise unless he goes through hardships and sufferings, although, Qur&anic statements and sayings of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) prove that many sinners will enter Paradise simply because of the grace, mercy and forgiveness of Allah Almighty, and that they shall undergo no hardship either. This is because hardship and suffering have different levels. The lowest degree is to resist against one&s own desiring self and the Satan, or to strengthen the bases of one&s beliefs by countering the forces working against the true Faith. This degree of achievement is within the grasp of every Muslim. Further on, there are the middle and the higher levels. The degree of one&s strenuous effort shall be the degree of one&s entry in to Paradise. Thus, nobody remains untried by effort and struggle and the resulting hardship and suffering. In a hadith, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said: اشد الناس بلاء الانبیاء ثم الامثل فالامثل The hardships faced by the prophets are the hardest faced by men, after that, by those closer to them. 2. The second point one must note here concerns the prophets and their followers. That they reached a point of suffering when they cried out as to when will the help of Allah come, was not because of any doubt since that would be against the dignity of their station. In fact, the call was made in the background of Allah&s promised help for which the time and place was left undetermined. As such, using these words in a state of distress indicated the desire for early help. Making such a prayer is not against one&s trust in Allah (tawakkul تَوَکَّل) or against the station of prophet hood. On the contrary, the fact is that Allah Almighty favours the earnest supplication of his servants. Who else other than the prophets and the pious of the community would be more deserving of what Allah likes?  Show more

ربط آیات : اوپر کی آیت میں کفار کا ہمیشہ سے انبیاء ومؤ منین کے ساتھ اختلاف اور خلاف کرتے رہنا مذکور تھا جس میں ایک گونہ مسلمانوں کو اس طور پر تسلی دینا بھی مقصود تھا جن کو استہزاء کفار سے ایذاء ہوتی تھی کہ یہ خلاف تمہارے ساتھ نیا نہیں ہے ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے آگے ان کفار مخالفین سے انبیاء ومؤ منین ک... و انواع انواع کی ایذائیں اور شدائد پہنچنے کی حکایت بیان فرماتے ہیں اور اس سے بھی مسلمانوں کو تسلی دلاتے ہیں کہ تم کو بھی کفار سے جو ایذائیں پہنچتی ہیں ان پر صبر کرنا چاہئے کیونکہ کامل راحت تو آخرت کی محنت ہی اٹھانے سے ہے۔ خلاصہ تفسیر : (دوسری بات سنو) کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ جنت میں (بےمشقت) جا داخل ہوگے حالانکہ (ابھی کچھ مشقت تو اٹھائی ہی نہیں کیونکہ) تم کو ہنوز ان (مسلمان) لوگوں کا سا عجیب واقعہ پیش نہیں آیا جو تم سے پہلے ہو گذرے ہیں ان پر (مخالفین کے سبب) ایسی ایسی تنگی اور سختی واقع ہوئی اور (مصائب سے) ان کو یہاں تک جنبشیں ہوئیں کہ (اس زمانہ کے) پیغمبر تک اور جو ان کے ہمراہ اہل ایمان تھے (بےقرار ہوکر) بول اٹھے کہ اللہ تعالیٰ کی امداد (موعود) کب ہوگی (جس پر ان کو جواب سے تسلی کی گئی کہ) یاد رکھو بیشک اللہ تعالیٰ کی امداد (بہت) نزدیک (ہونے والی) ہے۔ معارف و مسائل : اس آیت میں چند باتیں قابل غور ہیں۔ اول یہ کہ اس آیت سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ بغیر مشقت و محنت کے اور بغیر مصائب وآفات میں مبتلا ہوئے کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا حالانکہ ارشادات قرآنی اور ارشادات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے کہ بہت سے گنہگار محض اللہ تعالیٰ کے لطف وکرم اور مغفرت سے جنت میں داخل ہوں گے ان پر کوئی مشقت بھی نہ ہوگی وجہ یہ ہے کہ مشقت و محنت کے درجات مختلف ہیں ادنی ٰدرجہ نفس و شیطان سے مزاحمت کرکے یا دین حق کے مخالفین کے ساتھ مخالفت کرکے اپنے عقائد کا درست کرنا ہے اور یہ ہر مومن کو حاصل ہے آگے اوسط اور اعلیٰ درجات ہیں جس درجہ کی محنت ومشقت ہوگی اسی درجہ کا دخول جنت ہوگا اس طرح محنت ومشقت سے خالی کوئی نہ رہا ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اشد الناس بلاء الانبیاء ثم الامثل فالامثل : سب سے زیادہ سخت بلائیں اور مصیبتیں انبیاء (علیہم السلام) کو پہنچتی ہیں ان کے بعد جو ان کے قریب تر ہیں۔ دوسری بات یہاں قابل نظر یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے ساتھیوں کا یہ عرض کرنا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کب آئے گی کسی شک وشبہ کی وجہ سے نہ تھا جو ان کی شان کے خلاف ہے بلکہ اس سوال کا منشاء یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اگرچہ مدد کا وعدہ فرمایا ہے مگر اس کا وقت اور مقام متعین نہیں فرمایا اس لئے حالت اضطرار میں ایسے الفاظ عرض کرنے کا مطلب یہ تھا کہ مدد جلد بھیجی جائے اور ایسی دعاء کرنا توکل یا منصب نبوت کے منافی نہیں بلکہ حق تعالیٰ اپنے بندوں کی الحاح وزاری کو پسند فرماتے ہیں اس لئے انبیاء اور صلحاء امت اس کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ۝ ٠ ۭ مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰى نَصْرُ اللہِ۝ ٠ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِيْبٌ۝ ٢١٤ أَمْ»حرف إذ... ا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔ حسب ( گمان) والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت/ 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] ( ح س ب ) الحساب اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ خلا الخلاء : المکان الذي لا ساتر فيه من بناء ومساکن وغیرهما، والخلوّ يستعمل في الزمان والمکان، لکن لما تصوّر في الزمان المضيّ فسّر أهل اللغة : خلا الزمان، بقولهم : مضی الزمان وذهب، قال تعالی: وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] ( خ ل و ) الخلاء ۔ خالی جگہ جہاں عمارت و مکان وغیرہ نہ ہو اور الخلو کا لفظ زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ زمانہ میں مضی ( گذرنا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے اہل لغت خلاالزفان کے معنی زمانہ گزر گیا کرلیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تو صرف ( خدا کے ) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوگزرے ہیں ۔ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی بؤس البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ : الشدة والمکروه، إلا أنّ البؤس في الفقر والحرب أكثر، والبأس والبأساء في النکاية، نحو : وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْساً وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا [ النساء/ 84] ، فَأَخَذْناهُمْ بِالْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ [ الأنعام/ 42] ، وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ [ البقرة/ 177] ، وقال تعالی: بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ، وقد بَؤُسَ يَبْؤُسُ ، وبِعَذابٍ بَئِيسٍ [ الأعراف/ 165] ، فعیل من البأس أو من البؤس، فَلا تَبْتَئِسْ [هود/ 36] ، أي : لا تلزم البؤس ولا تحزن، ( ب ء س) البؤس والباس البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ ۔ تینوں میں سختی اور ناگواری کے معنی پائے جاتے ہیں مگر بؤس کا لفظ زیادہ تر فقرو فاقہ اور لڑائی کی سختی پر بولاجاتا ہے اور الباس والباساء ۔ بمعنی نکایہ ( یعنی جسمانی زخم اور نقصان کیلئے آتا ہے قرآن میں ہے { وَاللهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا } ( سورة النساء 84) اور خدا لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے اور سزا کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے { فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ } ( سورة الأَنعام 42) پھر ( ان کی نافرمانیوں کے سبب ) ہم انہیوں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے { وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ } ( سورة البقرة 177) اور سختی اور تکلیف میں اور ( معرکہ ) کا رزا ر کے وقت ثابت قدم رہیں ۔۔ { بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ } ( سورة الحشر 14) ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ بؤس یبوس ( باشا) بہادر اور مضبوط ہونا ۔ اور آیت کریمہ ۔ { بِعَذَابٍ بَئِيسٍ } ( سورة الأَعراف 165) بروزن فعیل ہے اور یہ باس یابوس سے مشتق ہے یعنی سخت عذاب میں اور آیت کریمہ ؛۔ { فَلَا تَبْتَئِسْ } ( سورة هود 36) کے معنی یہ ہیں کہ غمگین اور رنجیدہ رہنے کے عادی نہ بن جاؤ۔ ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں زلزل : الاضطراب، وتكرير حروف لفظه تنبيه علی تكرير معنی الزّلل فيه، قال : إِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها[ الزلزلة/ 1] ، وقال : إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ [ الحج/ 1] ، وَزُلْزِلُوا زِلْزالًا شَدِيداً [ الأحزاب/ 11] ، أي : زعزعوا من الرّعب . التزلزل اس کے معنی اضطراب کے ہیں اور اس میں تکرار حروف تکرار معنی پر دال ہے قرآن میں ہے : ۔ إِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها[ الزلزلة/ 1] جب زمین بڑے زور سے ہلائی جائے گی ۔ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ [ الحج/ 1] بیشک قیامت کا زلزلہ بڑی ( سخت ) مصیبت ہوگی ۔ وَزُلْزِلُوا زِلْزالًا شَدِيداً [ الأحزاب/ 11] اور وہ ( دشمنوں کے رعب سے ) خوب ہی جھڑ جھڑائے گئے ۔ حَتَّى حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] . ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع، وفي كلّ واحد وجهان : فأحد وجهي النصب : إلى أن . والثاني : كي . وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي : مشیت فدخلت البصرة . والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي : «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس متی مَتَى: سؤال عن الوقت . قال تعالی: مَتى هذَا الْوَعْدُ [يونس/ 48] ، ( م ت ی ) متی ۔ یہ اسم استفہام ہے اور کسی کام کا وقت دریافت کرنے کے لئے بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ مَتى هذَا الْوَعْدُ [يونس/ 48] یہ وعدہ کب ( پورا ہوگا ) نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً [ النساء/ 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 116] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] ، ( ق ر ب ) القرب القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢١٤) اے مومنو ! کی جماعت کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ بغیر اس طرح امتحان وآزمائش کے جیسا کہ تم سے پہلے سابقہ مومنین کی آزمائش کی گئی ہے تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے، اس کو اس قدر پریشانیوں اور سختیوں اور بیماریوں اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ ان کے رسول اور وہ حضرات جو ان پر ایمان لائے تھے پکار اٹ... ھے، دشمنوں کے مقابلے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کب آئے گی، اللہ تعالیٰ نے اس نبی (علیہ السلام) یعنی ان کے نبی (علیہ السلام) سے فرمایا کہ دشمنوں سے تمہاری نجات کا وقت قریب ہے۔ شان نزول : (آیت) ” ام حسبتم ان “۔ (الخ) عبدالرزاق (رح) ، معمر (رح) ، قتادہ (رح) ، بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ غزوہ احزاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اس دن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت سختیوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ ) (وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ ط) (مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُوْا) (حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ط) (اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ ) یعنی ال... لہ تو اہل ایمان کو آزماتا ہے ‘ اسے کھوٹے اور کھرے کو الگ کرنا ہے۔ یہ وہی بات ہے جو اس سے پہلے انیسویں رکوع کے بالکل آغاز میں آچکی ہے : (وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط) (آیت ١٥٥) اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مال و جان اور ثمرات کے نقصان سے۔ یہ کوئی پھولوں بھرا راستہ نہیں ہے ‘ پھولوں کی سیج نہیں ہے ‘ حق کا راستہ کانٹوں بھرا راستہ ہے ‘ اس کے لیے ذہناً تیار ہوجاؤ۔ ؂ در رہ منزل لیلیٰ کہ خطرہاست بسے شرطِ اوّل قدم این است کہ مجنوں باشی ! اور : ؂ یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا ! اس راستے میں اللہ کی مدد ضرور آتی ہے ‘ لیکن آزمائشوں اور قربانیوں کے بعد۔ چناچہ صحابہ کرام (رض) کو پھر سورة الصف میں فتح و نصرت کی خوشخبری سنائی گئی ‘ جبکہ غزوۂ احزاب واقع ہوچکا تھا اورٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی اہل ایمان شدید ترین امتحان سے کامیابی کے ساتھ گزر چکے تھے۔ تب انہیں بایں الفاظ خوشخبری دی گئی : (وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَاط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط) (آیت ١٣) اور جو دوسری چیز تمہیں پسند ہے (وہ بھی تمہیں ملے گی) ‘ اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ (وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ) اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) اہل ایمان کو بشارت دے دیجیے ! اپنے اہل ایمان ساتھیوں کو بشارت دے دیجیے کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ اللہ کی نصرت کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

231. In between this verse and the one above comes a whole story which has been left untold, a story which is alluded to in the present verse and which is mentioned in some detail in the Makkan surahs of the Our'an (these were revealed earlier than the present surah) . The point emphasized here is that whenever the Prophets came into the world they, and their followers, were confronted with severe...  resistance from those in rebellion against God. At grave risk to themselves they strove to establish the hegemony of the true religion over the false ways of life. To follow this religion has, therefore, never been easy; it is not merely a matter of declaring one's faith and then sitting back in ease and comfort. On the contrary, the profession of faith has always demanded that one should strive to establish the religion, which one has adopted as one's faith, as a living reality and that one should spare no effort in undermining the power of the Devil who seeks to resist it.  Show more

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :231 اوپر کی آیت اور اس آیت کے درمیان ایک پوری داستان کی داستان ہے ، جسے ذکر کیے بغیر چھوڑ دیا گیا ہے ، کیونکہ یہ آیت خود اس کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور قرآن کی مکی سورتوں میں ( جو سورہ بقرہ سے پہلے نازل ہوئی تھیں ) یہ داستان تفصیل کے ساتھ بیان بھی ہو چکی ہے ۔ انبیا ... علیہم السلام جب کبھی دنیا میں آئے ، انہیں اور ان پر ایمان لانے والے لوگوں کو خدا کے باغی و سرکش بندوں سے سخت مقابلہ پیش آیا اور انھوں نے اپنی جانیں جوکھوں میں ڈال کر باطل طریقوں کے مقابلہ میں دین حق کو قائم کرنے کی جدوجہد کی ۔ اس دین کا راستہ کبھی پھولوں کی سیج نہیں رہا کہ اٰ مَنَّا کہا اور چین سے لیٹ گئے ۔ اس ”اٰ مَنَّا“ کا قدرتی تقاضا ہر زمانے میں یہ رہا ہے کہ آدمی جس دین پر ایمان لایا ہے ، اسے قائم کرنے کی کوشش کرے اور جو طاغوت اس کے راستے میں مزاحم ہو ، اس کا زور توڑنے میں اپنے جسم و جان کی ساری قوتیں صرف کر دے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

علماء مفسرین نے کہا ہے کہ جن احزاب کے دنوں میں جس کو جنگ خندق بھی کہتے ہیں۔ تین دن کے فاقوں کی تکلیف مہینہ بھر تک دشمنوں کی محاصرہ کی تکلیف سخت جاڑہ اور مہاوٹ کے موسم میں مہینہ بھر تک جنگل میں بلا سایہ پڑے رہنے کی تکلیف اس قسم کی تکلیفات سے جب مسلمان بہت ہراساں ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تسکین کے...  لئے یہ آیت نازل فرمائی اور فرمایا کہ تم پر انوکھی یہ مصیبتیں نہیں آئی ہیں بلکہ تم سے پہلے جو لوگ تھے وہ بھی اس قسم کی مصیبتیں جھیل چکے ہیں اور جنت کا عیش اٹھانے کے لئے کچھ مصیبت کا جھیلنا ضرور ہے تاکہ مصیبت کے بعد نعمت کی قدر ہو خندق کی لڑائی اس لڑائی کو اس لئے کہتے ہیں کہ لشکر اسلام کے گردا گرد اس لڑائی میں خندق کھودی گئی تھی اور جنگ احزاب اس لئے کہتے ہیں کہ چند گروہ مشرکوں کے چڑھ کر مدینہ میں اس لڑائی میں آئے تھے اس لڑائی کے قصے کا حاصل یہ ہے کہ بنی نضیر یہود کا ایک قبیلہ تھا جن کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بوجہ ان کی عہد شکنی کے جلا وطن کردیا تھا جس جلا وطنی کا ذکر سورة حشر میں آئے گا۔ اس قبیلہ کے لوگوں نے قریش اور مختلف قبائل سے اپنی عاجزی ظاہر کر کے مدد اور مدینے کی چڑہائی کی خواہش کی اور ان سب قبائل نے بنی نضیر کی خواہش کو مان لیا اور ٥ ؁ ہجری میں سب قبائل نے جمع ہو کر دس ہزار آدمیوں کی بھیڑ سے مدینہ پر چڑھائی کی۔ مسلمان چھ سات سو کے قریب تھے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کے آنے کی خبر سن کر مدینہ منورہ کے باہر پڑاؤ کیا۔ اور حضرت سلمان فارسی کے مشورہ اس پڑاؤ کے گرد خندق کھو دی۔ دس دس گز زمین لشکر اسلام کے ہر شخص کے حصے میں آپ نے بانٹ دی تھی۔ ہر شخص اس کو کھودتا تھا۔ اس خندق کے کھونے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دو معجزے بھی ظاہر ہوئے۔ ایک تو یہ کہ صحابہ کے خندق کھودنے میں ایک جگہ ایسی سخت زمین نکل آئی کہ پھاؤڑا وہاں بالکل کام نہیں دیتا تھا۔ ان صحابہ نے آ کر یہ ماجرا آپ کے روبرو بیان کیا آپ نے وہاں جا کر پھاؤڑا خود لیا اور پہلے حملے میں تیسرا حصہ اس کھنگر کا کاٹ ڈالا۔ اس کھنگر کے کٹتے وقت اس کے نیچے سے ایک جھلک دھوپ جیسی نکلی اس وقت آپ نے تکبیر زور سے کہی صحابہ نے بھی آپ کے ساتھ تکبیر کہی پھر آپ نے فرمایا اللہ اکبر شام کے ملک کے مکانات مجھ کو یہاں سے نظر آرہے ہیں اور اس ملک کی کنجیاں مجھ کو دے دی گئیں ہیں۔ دوسری دفعہ اسی طرح آپ نے کھنگر کا ٹکڑا پھاؤڑا سے توڑا اور ملک فارس کا اور تیسری دفعہ ملک یمن کا ذکر کیا دوسرا معجزہ یہ ہے کہ حضرت جابر (رض) کو دریافت سے معلوم ہوا کہ آپ کو تین روز کا فاقہ ہے اس حال کی تاب نہ لا کر حضرت جابر (رض) اپنے گھر گئے اور ایک بکری جو ان کے گھر میں تھی اس کو ذبح کیا اور تھوڑے سے جو تھے ان کا آٹا بھی اپنی بیوی کو پیسنے کو کہا اور خود پھر لشکر میں گئے اور خفیہ طور پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا کہ حضرت کچھ کھانا میں نے تیار کرایا ہے آپ نے یہ سن کر آٹھ سو کے قریب لشکر کے سب آدمیوں کو اذن عام حضرت جابر کے گھر پر کھانا کھانے کا دے دیا اور حضرت جابر (رض) سے فرمایا کہ جاؤ آٹا ویسا ہی گوندھا ہوا اور ہندیہ گوشت کی چولہ پر میرے وہاں آنے تک رہنے دینا۔ میں آتا ہوں۔ اس کے بعد حضرت جابر کہتے ہیں کہ آپ سب صحابہ (رض) کرام کو لائے اور سب نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور روٹی سالن بھر بچ رہا۔ ١۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:214) ام۔ ام منقطعہ ہے اور بمعنی بل (حرف اضراب آیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہمزہ مقدر ہے۔ لفظ بل کلام سابق سے اعراض کے لئے ہے ۔ یہاں یہود اور نصاری کے اختلاف اور ان کے متاع حیات دنیوی پر فخر بےجاہ اور پھر اس کے بل بوتے پر مومنوں سے تمسخر سے اعراض کرنے کے لئے آیا ہے اور ہمزہ استفہامیہ مؤمنین کے خیال کے ... انکار و استبعاد کے واسطے سے پہلے کے انبیاء اور مؤمنین کی طرح تمہیں بھی تنگی و سختی ۔ فقرو بیماری اور طرح طرح کی بلاؤں اور مصیبتوں کی آگ سے گزرنا پڑے گا۔ تب جاکر تم جنت کے مستحق بنوگے۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ فراء کا قول ہے کہ ام کے معنی احسبتم اور میم زائد ہے۔ (ام پر تفصیلی نوٹ 18:9 پر ملاحظہ ہو) حسبتم۔ ماضی جمع مذکر حاضر، حسبات (باب حسب یحسب) مصدر۔ تم سمجھ بیٹھے ہو۔ تم نے خیال کیا۔ یا گمان کیا۔ ان تدخلوا۔ ان مصدریہ ہے۔ تدخلوا۔ مضارع منصوب جمع مذکر حاضر۔ کہ تم داخل ہوگے۔ ولما یاتکم مثل الذین خلوا من قبلکم۔ جملہ حالیہ لما۔ ابھی تک نہیں ۔ ترجمہ آیت کا یوں ہوگا۔ کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ (یوں ہی) بہشت میں داخل ہوجاؤ گے۔ حالانکہ ابھی تک تم کو پہلے لوگوں کی سی (مشکلیں) تو پیش آئی ہی نہیں۔ مثل الذین۔ ای مثل مثلہم کلام میں مضاف محذوف ہے۔ الذین صفت ہے مؤمنین محذوف کی۔ من قبلکم متعلق ہے خلوا سے۔ مستہم الباساء والضراء بیان ہے مثل سے۔ الباسائ۔ سختی ، فقر، تنگی، اسم مؤنث ہے۔ بؤس سے مشتق ہے بعض کے نزدیک صفت ہے جو قائم مقام ہے موصوف کے۔ الضرائ۔ تکلیف۔ سختی، تنگی، مرض ، مصیبت اسم مؤنث ہے اور سرائ۔ نعماء کی ضد ہے۔ باساء و ضراء دونوں اسم مؤنث ہیں۔ ان کا مذکر نہیں آتا۔ ان کی جمع فراء کے نزدیک ابوس واضر بروزن نعماء انعم جائز ہے۔ وزلزلوا۔ واؤ عاطفہ ہے اور اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ زلزلوا ماضی مجہول کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ زلزلۃ۔ زلزال۔ مصدر وہ جھڑ جھڑائے گئے۔ وہ زلزلہ میں آگئے وہ ہلا ڈالے گئے۔ لما۔ حرف جازم ہے لم کی طرح فعل پر داخل ہوتا ہے اور اس کو جزم دیتا ہے ۔ اور مضارع کو ماضی منفی کے معنی میں کردیتا ہے۔ جیسے لما یدخل الایمان فی قلوبکم (49:14) لم اور لما کے درمیان بوجوہ ذیل فرق کیا جاسکتا ہے۔ (1) لم حرف شرط کے ساتھ آسکتا ہے جیسے فان لم تفعل لیکن لما نہیں آسکتا۔ (2) لما سے جس نفی کا حصول ہوتا ہے وہ زمانہ حال تک ممتد۔ مسلسل اور مستمر ہوتی ہے ۔ جیسے آیتہ ہذا ۔ یا ولما یدخل الایمان فی قلوبکم اور ایمان ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ شاش عبدی ممزق کا شعر ہے ؎ فان کنت ما کو لا فکن خیرا کل والا فادرکنی ولما امزق ترجمہ : اگر مجھے خوراک ہی بننا ہے تو تو ہی بہتر کھانے والا بن جا۔ ورنہ میری مدد کو پہنچ ابھی تک میں تکا بوٹی نہیں کیا گیا۔ لما سے جس نفی کا حصول ہوتا ہے اس کا تسلسل اور اتصال کبھی تو حال تک ہوتا ہے جیسے ولم اکن بدعائک رب شقیا (19:4) (اے میرے رب ابھی تک تجھے پکار کر میں نامراد نہیں رہا اور کبھی حال سے پہلے نفی کا انقطاع ہوجاتا ہے جیسے لم یکن شیئا مذکررا (76:1) پہلے وہ کوئی ناقابل ذکر چیز نہ تھا۔ یعنی پہلے وہ بالکل معدوم تھا اب موجود ہوگیا۔ (3) لما سے حاصل شدہ نفی ماضی قریب میں ہوتی ہے اور لم سے حاصل شدہ نفی ماضی مطلق میں خواہ قریب ہو یا بعد۔ اسی لئے لم یکن زید فی العام الماضی مقیما۔ (زید گذشتہ سال مقیم نہ تھا۔ ماضی بعید) صحیح ہے۔ لیکن لما کا استعمال اس جگہ صحیح نہیں کیونکہ سال گذشتہ ماضٰ بعید ہے ماضی قریب نہیں۔ (4) لما سے جس چیز کی نفی ہوتی ہے آئندہ اس کے ہونے کی توقع ہوتی ہے جیسے بل لما یذوقوا عذاب۔ بلکہ انہوں نے ابھی تک میرے عذاب کا مزہ نہیں چکھا۔ یعنی آئندہ چکھنے کی توقع ہے۔ لم میں یہ شرط نہیں ہے۔ (5) لما کا مدخول جائز الحذف ہے لیکن لم کا ایسا حال نہیں ہے۔ جیسے ؎ فجئت قبورھم بدعا ولما فنادیت القبور فکم یجبنہ (یعنی لما الن بدئ) میں ان کی قبروں پر سردار قوم کی حالت میں پہنچا اور اس سے پہلے میں سراد ہوا ہی نہیں تھا۔ میں نے قبروں کو پکارا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ لما (جب) حرف شرط ہے یا حرف وجود لوجود یا حرف و جوب لوجوب۔ ماضی کے دو جملوں پر آتا ہے شرط و جزا۔ ابن سراج۔ ابن جنی اور فارسی وغیرہ کا قول ہے کہ لما حرف شرط نہیں بلکہ اسم ظرف ہے حین کا ہم معنی۔ ابن مالک نے کہا ہے لما اذ کی طرح ہوتا ہے۔ اذ کا مدخول بھی جملہ ماضیہ ہوتا ہے اور لما کا بھی۔ لما کی جزاء کا فعل ماضی ہونا بالاتفاق صحیح ہے بلکہ جمہور کے نزدیک شرط ہے جیسے فلما نجکم الی البر اعرضتم (17:67) جب اس نے بچا کر تم کو خشکی تک پہنچا دیا تو تم نے روگردانی کی۔ ابن مالک کہتا ہے لما کی جزاء کے مقام میں کبھی ایسا جملہ اسمیہ واقع ہوتا ہے جس کا آغاز اذا مفاجاتیہ سے ہوتا ہے جیسے فلما الی البر اذاھم یشرکون ۔ (69:65) جب اس نے ان کو بچا کر خشکی تک پہنچا دیا تو ایک دم وہ شرک کرنے لگے۔ یا اس کے شروع میں فاء ہوتی ہے جیسے فلما انجھم الی البر فمنھم مقتصد (31:32) جب ان کو بچا کر خشکی تک پہنچا دیا۔ تو ان میں کچھ لوگ سیدھی چال پر رہے۔ ابن مصفور نے صراحت کی کہ لما کی جزا میں کبھی فعل مضارع آتا ہے جیسے فلما ذھب عن ابراہیم الروع وجاء تہ البشری یجاد لنا فی قوم لوط (11:74) جب ابراہیم (علیہ السلام) کے دل سے خوف جاتا رہا۔ اور خوشخبری پہنچ گئی تو ہمارے فرشتوں سے قوم لوط کے بارے میں جھگڑنے لگے۔ لما (مگر) استثنائیہ بھی آتا ہے الا کا ہم معنی۔ جیسے ان کل نفس لما علیہا حافظ (86:4) کوئی نفس ایسا نہیں کہ اس کے اعمال کا نگران (فرشتہ) نہ ہو۔ یہ ترجمہ لما نافیہ کا ہے جیسا کہ بعض لوگ اس جگہ قائل ہیں۔ محل استثناء کے لحاظ سے ترجمہ اس طرح ہوگا : کوئی نفس نہیں مگر اس پر نگران (فرشتہ) مامور ہے۔ (لغات القرآن از مولانا عبد الدائم الجلالی) الا۔ خبردار ہوجاؤ۔ جان لو، سن رکھو، خبردار۔ یہ حرف کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً (1) تنبیہ۔ جیسے الا انھم ھم السفھاء (2:13) سن لو کہ یہی بیوقوف ہیں (2) تو بیخ وا نکار جیسے الا زید قائم (3) تمنی جیسے الا تنزل عندی (4) عرض۔ یعنی کسی چیز کا نرمی سے مانگنا جیسے الا تحبون ان یغفر اللہ لکم (24:22) کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تم کو معاف کر دے۔ (5) تخصیص کے لئے۔ یعنی کسی چیز کے سختی کے ساتھ مطالبہ کے لئے جیسے الا تقاتلون قوما نکثوا ایمانھم وھموا باخراج الرسول وھم بدء وکم اول مرۃ (9:13) بھلا تم ایسے لوگوں سے کیوں نہ لڑو جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا اور پیغمبر خدا کے جلاوطن کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا اور انہوں نے تم سے (عہد شکنی کی) پہل کی۔ علامہ زمخشری (رح) قاضی بیضاوی (رح) اور علماء کی ایک جماعت کے خیال میں الا ہمزہ استفہام اور لام نافیہ سے مرکب ہے جو اپنے مابعد کے تحقیق و ثبوت پر دلالت کرتا ہے ۔ دلیل یہ ہے کہ جب استفہام نفی پر داخل ہوتا ہے تو اس سے مزید ثبوت مقصود ہوتا ہے چناچہ آیت الیس ذلک بقدر علی ان یحی الموتی (75:40) کیا اس (خدا) کو اس بات پر قدرت نہیں کہ مردوں کو زندہ کر دے۔ الا ان نصر اللہ قریب میں الا بطور حرف تنبیہ آیا ہے اور مابعد کی تحقیق پر دلالت کرتا ہے یعنی سن لو اللہ کی مدد آیا ہی چاہتی ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مدینہ میں ہجرت کے بعد جب مسلمانوں کو (مشرکین منافقین اور یہود سے سخت تکالیف پہنچیں تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (رازی) اور مسلمانوں کو تسلی دی گئی کہ دین کی راہ میں یہ مصائب وشدائد کچھ تم پر ہی نہیں آرہے ہیں بلکہ تم سے پہلے لوگ تو فقرفاقہ۔ جانی ومالی نقصان اور سخت قسم کے...  خوف وہراس میں مبتا کردیے گئے تھے حتی کہ الرسول یعنی اس زمانے کا پیغمبر) اور اس کے متبعین متی نصر اللہ) پکار اٹھے تھے پھر جیسے ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد نازل ہوئی تمہاری بھی مدد کی جائے گی۔ چناچہ غزؤہ احراب میں جب یہ مرحلہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ (دیکھئے سورت احرزاب آیت 10 تا 20) ان کا متی نصر اللہ " کہنا اعتراض و شکوہ کے طور پر نہ تھا بلکہ عالم اضطرار میں الحاح وزاری کی ایک کیفیت کا اظہار تھا اور نصر اللہ قریب فرماکر مومنوں کو بشارت دی ہے، (رازی، ابن کثیر) حضرت خباب بن ارت سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پہلے لوگوں کے سروں پر آرہ چلا کر ان کو چیر دیا گیا اور لوہے کی کنگھی سے ان کے گوشت اور پوست کر نوچا گیا مگر یہ چیز ان کو دین سے نہ پھیر سکی۔ (بخاری )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 214 ام حسبتم (کیا تم گما ن کر بیٹھے ) ۔ ان تدخلوا (یہ کہ تم داخل ہوجاؤ گے) ۔ لما یا تکم (نہیں آئیں تمہارے پاس) ۔ خلوا (جو گذر گئے ) ۔ مستھم (ان کو پہنچیں۔ (ان کو چھوا) ۔ زلزلوا (ہلا دئیے گئے، ہلا ڈالا گیا) ۔ متی نصر اللہ (اللہ کی مدد کب آئے گی) ۔ تشریح : آیت نمبر 214 امت مح... مدیہ کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ فرما کر یہ بتایا جا رہا ہے کہ اے مومنو ! منافقین اور کفار کی مخالفت، ایذارسانیوں اور مذاق اڑانے سے تم گھبرا مت جانا۔ ابھی تو راہ عشق میں تمہاری ابتداء ہے آگے اس سے کہیں زیادہ مشکل اور کٹھن مقامات آنے والے ہیں جن حالات سے تمہیں گزرنا ہے اور یہ بات رکھو کہ اس دنیا میں جو بھی حق وصداقت کے علم بردرا ہوتے ہیں انہیں ان حالات سے گزر کر ہی جنت کی ابدی راحتوں تک پہنچنا ہوتا ہے۔ تم سے پہلے بھی جن لوگوں نے اس راہ میں قدم رکھا ہے ان کو شدید حالات اور مصائب سے واسطہ پڑا ہے۔ وہ آزمائشوں ، بیماریوں اور تکلیفوں میں اس طرح مبتلا کئے گئے کہ ایمان و یقین کے پیکر رسول اور اس کے ماننے والے بھی چلا اٹھے کہ اے اللہ اب حالات سے مقابلہ کرنا ہمارے بس میں نہیں رہا۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان کے صبر و برداشت پر اپنی نصرت و مدد کا وعدہ پورا کیا اور وہ کامیاب و بامراد ہوئے۔ امت سے فرمایا گیا کہ آج جو مشکل حالات تمہارے سامنے ہیں وہ بہت جلد ٹل جائیں گے ہماری مدد تمہارے قدم چومے گی کیونکہ ہماری مدد کے مستحق وہی لوگ ہوتے ہیں جو مشکلات میں بھی حق وصداقت کی راہ کو نہیں چھوڑتے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ انبیاء اور مومنین کا اس طرح کہنا نعوذ باللہ شک کی وجہ سے نہ تھا بلکہ وجہ یہ تھی کہ وقت امداد اور غلبہ کا مقابلہ مخالفین میں ان حضرات کو نہ بتلایا گیا ابہام وقت سے ان کو جلدی ہونے کا انتظار رہتا تھا جب انتظار سے تھک جاتے تب اس طرح عرض معروض کرنے لگتے جس کا حاصل دعا ہے الحاح کے ساتھ اور الحاح خلاف ... رضاوتسلیم کے نہیں ہے بلکہ جب الحاح کا پسندیدہ ہونا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ثابت ہے توالھاح عین رضاء حق سے رضا ہے البتہ خلاف رضا اور وہ دعا ہے جس کے قبول نہ ہونے سے دعا کرنے والا ناخوش ہو سع معاز اللہ اس کا انبیاء اور مومنین کاملین میں ثبوت ہے نہ احتمال۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مومن دنیا کی لذات اور باہمی اختلافات سے بچنے کے لیے اکثر اوقات نقصان اٹھاتے ہیں۔ اس سے انہیں تسلی دی جارہی ہے کہ جنت کی بیش بہا نعمتوں کے لیے یہ نقصان اٹھانا ہی پڑے گا۔ اس کے لیے اپنے سے پہلے ایمان والوں کا کردار سامنے رکھو کہ انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا تب جا کر اللہ تعالیٰ کی ... مدد کے مستحق قرار پائے۔ مکہ میں مسلمانوں کا ہر طرف سے حلقۂ حیات تنگ کردیا گیا، معاشی بائیکاٹ اور کمزوروں کو ہر قسم کے مظالم کا تختۂ مشق بنایا گیا۔ یہاں تک کہ معصوم خواتین پر جور و استبداد سر عام ہورہا تھا۔ ان حالات میں مجبوروں اور مظلوموں کے دلوں کا غم سے چور چور ہونا اور ان کا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں فریاد کرنا ایک فطری عمل تھا۔ جب آپ کے حضور یہ رودادِ غم پیش کی جارہی تھی تو آپ بیت اللہ کے ساتھ ٹیک چھوڑ کر سیدھے بیٹھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے ساتھیو ! کیا تم ابھی سے حوصلہ پست کربیٹھے ہو ؟ جب کہ ہم سے پہلے ایمان داروں پر اس قدر ظلم کیے گئے کہ انہیں آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کردیا گیا اور لوہے کی کنگھیوں سے ان کے جسم تارتار کردیے گئے لیکن پھر بھی وہ دین حق پر قائم رہے۔ [ رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب مالقی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وأَصحابہ من المشرکین بمکۃ ] اس پس منظر کے ساتھ مسلمانوں کو سمجھایا جارہا ہے کہ کیا تم امتحانات سے گزرے اور آزمائشوں میں مبتلا ہوئے بغیر نعمتوں اور عزتوں سے بھر پور جنت میں داخل ہوجاؤ گے ؟ ایسا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جتنی منزل اہم اور مقصد عظیم ہوتا ہے اس کے لیے اتنی ہی جدوجہد اور قربانیاں دیناپڑتی ہیں۔ کیا تم نے پہلے لوگوں کی بےپناہ مشکلات اور لازوال جدوجہد پر غور نہیں کیا کہ جب ان کو جنگ وجدل ‘ غربت و افلاس اور امتحانات و مشکلات کے ساتھ اس قدر آزمایا گیا کہ ان کے عزم و استقلال سے بھر پور قدم بھی ڈگمگانے لگے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ وقت کا رسول اور اس کے عظیم ساتھی شدت غم سے بہ تقاضائے بشریت بےساختہ پکار اٹھے کہ اے اللہ تعالیٰ تیری مدد کب آئے گی ؟ جونہی وہ کربناک حالات میں سرخرو ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے دامن رحمت میں لیتے ہوئے تشفی دی کہ یقین رکھو ! گھبرانے نہ پاؤ میری رحمت تمہارے سروں پر سایہ فگن ہوچکی ہے۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے متّبعین کے لیے یہ پیغام تسلی ہے کہ اے نبی ! تم عظیم ترین انسان اور رسول ہو آپ کی امت بھی امتوں میں عظیم تر ہے۔ تمہیں اپنے قدموں میں کمزوری لانے کے بجائے مضبوط اور بھر پور طریقے کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ تمہاری بےمثال جدو جہد تمہارے رب کے سامنے ہے۔ وہ قادر مطلق تمہاری اس طرح مدد فرمائے گا کہ تمہارا نام اور کام ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ چناچہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ کی رحمت ونصرت اس طرح نازل ہوئی کہ مکہ اور جزیرہ نمائے عرب ہی نہیں بلکہ قیصرو کسریٰ بھی آپ کے سامنے سر نگوں ہوئے اور قرآن مجید میں بارہا یہ اعلان ہوا کہ اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہوا اور وہ اپنے رب پہ راضی ہوگئے۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَ ۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ : حُجِبَتِ النَّار بالشَّھَوَاتِ وَحُجِبَتِ الْجَنَّۃُ بالْمَکَارِہِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب حجبت النار بالشھوات ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جہنم کی آگ کو شہوات سے اور جنت کو مشکلات سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ اَوْفٰی (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ : وَاعْلَمُوْآ أَنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ ظِلَال السُّیُوْفِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد والسیر، باب الجنۃ تحت بارقۃ السیوف ] ” عبداللہ بن ابی اوفی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جان لو ! یقینًا جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔ “ مسائل ١۔ جنت آزمائشوں کے بغیر نہیں ملتی۔ ٢۔ حق پر قائم رہنے والے کی اللہ تعالیٰ ضرور مدد کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ بندے کے قریب ہوا کرتی ہے۔ تفسیر بالقرآن آزمائش شرط ہے : ١۔ جنت میں داخلہ کے لیے آزمائش شرط ہے۔ (العنکبوت : ٢) ٢۔ پہلے لوگوں کو بھی آزمایا گیا۔ (العنکبوت : ٣) ٣۔ ڈر سے آزمائش۔ (البقرۃ : ١٥٥) ٤۔ فاقوں سے آزمائش۔ (البقرۃ : ١٥٥) ٥۔ مال و جان کی کمی کے ساتھ آزمائش۔ (البقرۃ : ١٥٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ تھا اللہ تعالیٰ کا خطاب ، پہلی اسلامی جماعت سے ۔ فرماتے ہیں کہ میری ایک سنت ہے کہ میں اپنے بندوں میں سے جس کے ہاتھ میں اپنا علم پکڑاتا ہوں ۔ جنہیں میں اس دنیا میں اپنا امین بنالیتا ہوں ، جن کے ذریعے میں اسلامی نظام قائم کرتا ہوں ، اور شریعت نافذ کرتا ہوں انہیں پہلے مصائب کی بھٹی میں ڈال کر ان کی ... تربیت کرتا ہوں ، یہ میری تاریخی سنت ہے۔ ذرا انسانی تاریخ میں اسلامی تحریکات کا مطالعہ تو کرو ۔ یہ خطاب صرف مدینہ طیبہ کی پہلی تحریک اسلامی کے لئے مخصوص نہ تھا ، بلکہ یہ خطاب ہر اس تحریک کے لئے ہے جسے اللہ تعالیٰ اس کائنات میں یہ عظیم رول ادا کرنے کے لئے منتخب کرلیتا ہے جو اسلامی نظام کے داعی ہوں ، ان سے یہ خطاب ہے ۔ یہ ایک عظیم ، دور رس اور خوفناک تجربہ ہے ، رسولوں کا چیخ اٹھنا ، رسولوں کے ساتھ مومنین کا پکار اٹھنا ، سب کا بیک آواز پکار اٹھنا کہ کب آئے گی اللہ کی مدد ؟ “ اس سوال ہی سے مصائب وشدائد کا اندازہ کیا جاسکتا ہے جنہوں ان خدا رسیدہ لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا ، یقیناً وہ مصائب وشدائد ناقابل برداشت ہوں گے ، جنہوں نے ایمان سے بھرے ہوئے ان دلوں کو متاثر کرلیا اور ان کے منہ سے بھی یہ کربناک چیخ نکل ہی گئی ” کب آئے گی اللہ کی مدد ؟ “ اللہ کی سنت ہے کہ جب ایمان سے بھرے ہوئے یہ دل ان ہلامارنے والے مصائب کو برداشت کرلیتے ہیں تو پھر اللہ کی بات پوری ہوجاتی ہے اور اس کی مدد آپہنچتی ہےأَلا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ” ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔ “ ہاں اللہ کی نصرت محفوظ ہوتی ہے ، ان کے لئے جو اس کے مستحق ہوتے ہیں اور اس کے مستحق وہ لوگ ہوتے ہیں جو آخر وقت تک ثابت قدم رہتے ہیں ۔ جو تنگی اور مصیبت میں ثابت قدم رہتے ہیں جو لوگ مصائب کے مقابلے میں کھڑے رہتے ہیں ۔ شدائد کی آندھیوں کے آگے جھکتے نہیں ، جنہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ صرف اللہ ہی ہے جو امداد ونصرت دے سکتا ہے (اور جب اس کی مشیئت ہوگی وہ نصرت دے گا ) حالت یہ ہوجائے کہ مصائب انتہاء کو پہنچ جائیں اور اہل ایمان کا کوئی اور سہارا نہ رہے ۔ اللہ کے سوا کسی اور نصرت وامداد کا کوئی ذریعہ نہ رہے ۔ صرف اللہ ہی نصرت باقی رہ جائے اور اہل ایمان بھی صرف اللہ ہی کی طرف نظریں اٹھائے ہوئے ہیں ۔ یہ ہے وہ حالت جس کی بناپر اب تو مومنین داخلہ جنت کے مستحق ہوجاتے ہیں ۔ وہ جنت میں داخل ہوتے ہیں ، آزمائش وامتحان کے بعد ، صبرواثبات کے بعد ، صرف اللہ کی ہی طرف یکسو ہوجانے کے بعد صرف اللہ کے لیے اپنا شعور خالص کردینے کے بعد اور اللہ کے سوا ہر چیز اور ہر سبب بھول چکنے کے بعد ۔ اسلامی جدوجہد اور اس کے دوران میں مصائب وشدائد پر صبر کے نتیجے میں انسان کو ایک عظیم قوت عطا ہوجاتی ہے ۔ انسان کو اپنی ذات پر حاکمیت حاصل ہوجاتی ہے ۔ اذیت ومصیبت کی بھٹی میں نفس انسانی کے عناصر صاف و شفاف ہوجاتے ہیں ۔ اسلامی نظریہ حیات میں گہرائی ۔ زندگی اور قوت پیدا ہوجاتی ہے ۔ نہ نظریہ زندہ اور تابندہ ہوجاتا ہے ۔ یہاں تک کہ اس کے اس نظریہ کے اعداء کی آنکھیں بھی چکاچوند ہوجاتی ہیں اور یہ وہ مقام ہوتا ہے۔ جہاں پھر یہ دین کے ازلی دشمن بھی فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہونے لگتے ہیں ۔ ہر مسئلہ حق میں یہی کچھ ہوتا ہے ۔ آغاز سفر میں حاملین حق کو مشکلات پیش آتی ہیں ، لیکن جب وہ ثابت قدمی دکھائیں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے دشمن اور محارب بھی ان کی طرف جھکتے ہیں اور اس نظریہ حیات کے شدید ترین دشمن اور اس کے طاقتور مخالف بھی ہتھیار ڈالتے ہیں اور اس کی دعوت کی نصرت اور امداد کرنے لگتے ہیں لیکن اگر یہ نتیجہ نہ بھی نکلے ، تو بھی اس سے زیادہ عظیم نتائج نکلتے ہیں ۔ دعوت اسلامی کے حاملین کی روح تمام دنیاوی فتنوں ، تمام دنیاوی خرابیوں پر غالب آجاتی ہے ۔ یہ روح حرص و لالچ اور عیش و عشرت کی غلامی سے آزاد ہوجاتی ہے ۔ یہاں تک کہ آخر میں جاکر مرد مومن کو اپنی زندگی کالالچ بھی نہیں رہتا۔ جب نفس انسانی اس مقام تک پہنچ جائے تو وہ پوری کائنات کو جیت لیتا ہے ۔ ان تمام دلوں کو جیت لیتا ہے جو اس مقام تک مشکلات پر غالب ہو کر پہنچتے ہیں ۔ یہ وہ نفع ہے جو تمام مصائب تمام سختیوں پر بھاری ہے ۔ جو اہل ایمان اس مقام تک پہنچنے کے لئے برداشت کرتے ہیں ، یہ وہ اہل ایمان جو اللہ کے علم کے امین ہیں ۔ جو اللہ کے دین ، اس کی شریعت اور اس کی امانت کے اٹھانے والے ہیں ۔ یہ آزادی ہی اہل ایمان کو ، اس جہاں میں داخلہ جنت کے اہل بناتی ہے ۔ یہ ہے اصل راہ ۔ یہ وہ راہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے روز اول تحریک اسلامی کو دکھائی ۔ ہر دور میں اٹھنے والی ہر اسلامی تحریک کے لئے یہی راہ ہے ۔ یہی ہے راہ ایمان و جہاد کی راہ ، آزمائش وابتلا کی راہ ، صبر وثبات کی راہ ، صرف اللہ وحدہ لاشریک کی طرف رخ ۔ پھر دیکھئے کہ کس طرح مدد آتی ہے ، پھر دیکھئے کہ انعامات کی بارش کس طرح ہوتی ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مصائب میں مسلمانوں کو صبر کی تلقین اور امم سابقہ کے مسلمانوں سے عبرت حاصل کرنے کی تعلیم مسلمانوں کو مشرکین اور یہود و منافقین سے برابر تکلیفیں پہنچتی رہتی تھیں۔ مکہ معظمہ میں جب تک رہے مشرکین برابر تکلیفیں پہنچاتے رہے پھر جب مدینہ منورہ ہجرت کرکے آگئے تو یہودیوں سے اور منافقوں سے واسطہ پڑا اور مشرک... ین مکہ نے یہاں بھی چین سے نہ رہنے دیا۔ ان کی دشمنی کی وجہ سے بدر اور احد اور خندق کے غزوات پیش آئے۔ دشمنوں کی ایذار سانیوں کے علاوہ بھوک پیاس وغیرہ کی تکلیفیں بھی پہنچتی رہتی تھیں۔ اسباب النزول ص ٦٠ میں ہے کہ یہ آیت غزوۂ خندق کے موقعہ پر نازل ہوئی جبکہ مسلمانوں کو سخت تکلیف پہنچی، دشمنوں کا خوف بھی تھا، اور سردی بھی سخت تھی اور کھانے پینے کی چیزیں بھی مہیا نہ تھیں۔ اور کئی طرح سے تکالیف کا سامنا تھا جس کو اللہ جل شانہ نے سورة احزاب میں یوں بیان فرمایا ہے کہ : (بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ ) (اور کلیجے منہ کو آگئے تھے) نیز اللہ جل شانہ نے غزوہ احزاب کے بارے میں یہ بھی فرمایا کہ (ھُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ زُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًا) ” کہ اس موقعہ پر مسلمانوں کو آزمائش میں ڈالا گیا اور ان کو سختی کے ساتھ جھنجھوڑا گیا۔ “ منافقین اس حال کو دیکھ کر طرح طرح کی باتیں کرنے لگے حتیٰ کہ کفر یہ کلمات تک کہہ گئے۔ اللہ رب العزت تعالیٰ شانہ، نے آیت بالانازل فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ تم جنت کی آرزو لیے بیٹھے ہو حالانکہ جسے جنت میں جانے کا ارادہ ہو اسے آزمایا جاتا ہے۔ تکلیفوں میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ تم سے پہلے جو اہل ایمان تھے ان کو دکھ پہنچا، مصیبتوں نے گھیرا، تکلیفوں نے دبوچا، اور ان کو اس قدر سختی کے ساتھ جھنجھوڑا گیا کہ ان کے زمانہ کے رسول نے اور ان کے ساتھیوں نے مدد میں دیر محسوس کی تو یوں کہہ دیا کہ اللہ کی مدد کب ہوگی۔ جب وہ اس حال پر پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری دی گئی کہ خبر دار اللہ کی مدد قریب ہے۔ اس میں جہاں منافقین کو جواب دیا گیا (جنہوں نے غزوہ احد میں (مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا) وہاں مسلمانوں کو بھی تسلی دی کہ یہ مصائب اور تکالیف کوئی نئی نہیں ہیں۔ تمہارے ساتھ نیا معاملہ نہیں کیا جا رہا ہے تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں۔ ان کو بھی آزمایا گیا ہے۔ جب ان کو بہت زیادہ تکلیف پہنچی اور انہوں نے (مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ) (کب ہوگی اللہ کی مدد) کہا تو اللہ پاک کی طرف سے (اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ) کا اعلان کیا گیا اور جلد ہی مدد آگئی، تمہاری تکلیف بھی اس مرحلہ پر پہنچ چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد قریب ہے دنیا میں بھی مدد ہوگی اور جنت کا داخلہ بھی ہوگا۔ قال ابن کثیر ص ٢٥١ ج ١ قال اللّٰہ تعالیٰ الآ ان نصر اللّٰہ قریب کما قال فان مع العسر یسرا ان مع العسر یسرا و کما تکون الشدۃ ینزل من النصر مثلھا و لھذا قال تعالیٰ الا ان نصر اللّٰہ قریب ١ ھ۔ یہ آزمائش پہلے نبیوں پر اور ان کی امتوں پر آئی ہمارے رسول سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آئی آپ کے صحابہ (رض) پر آئی، تابعین پر آئی ان کے بعد مسلمانوں پر آتی رہی اور آتی رہے گی۔ سورة عنکبوت میں فرمایا : (اآمّ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ ) (کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ اتنا کہنے پر چھوٹ جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا اور بلاشبہ یہ حقیقت ہے کہ ہم نے ان لوگوں کو آزمایا جو ان سے پہلے تھے سو اللہ تعالیٰ ضرور ضرور جان لیگا ان لوگوں کو جو سچے ہیں اور اور ضرور جان لے گا جھوٹوں کو) حضرت خباب (رض) نے بیان فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان تکلیفوں کی شکایت کی جو مشرکین مکہ سے پہنچتی رہتی تھیں۔ اس وقت آپ کعبہ کے سایہ میں چادر سے تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما تھے۔ ہم نے عرض کیا کیا آپ اللہ سے دعا نہیں فرماتے ؟ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ تم سے پہلے جو مسلمان تھے ان میں سے بعض کو زمین میں گڑھا کھود کر کھڑا کردیا جاتا تھا پھر آرہ لا کر سر کے اوپر سے لیکر (نیچے تک) چیر دیا جاتا تھا جس سے دو ٹکڑے ہوجاتے تھے۔ یہ تکلیف بھی ان کو ان کے دین سے نہیں روکتی تھی اور ان کے سروں میں لوہے کی کنگھیاں کی جاتی تھیں جو گوشت سے گزر کر ہڈی اور پٹھے تک پہنچ جاتی تھیں اور یہ چیز انہیں ان کے دین سے نہیں روکتی تھی۔ (مشکوٰۃ عن البخاری ص ٥٢٥)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

410 مثل سے گذشتہ انبیاء کی امتوں کے سے شدائد اور مصائب مراد ہیں۔ ای حالھم التیھی مثل فی الشدۃ (مدارک ص 84 ج 1) اس میں خطاب صحابہ کرام سے ہے۔ اور یہ بھی ترغیب الی الجہاد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جنت کے جن بلند مقامات کے تم طالب ہو۔ کیا تمہارا خیال ہے کہ تم تکلیفوں اور آزمائشوں میں پڑے بغیر ہی وہاں تک پہنچ ج... اؤگے۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں۔ بلند درجات حاصل کرنے کے لیے تمہیں مال وجان کی قربانی دینی پڑے گی۔ تکلیفیں اور مصیبتیں برداشت کرنا پڑیں گی۔ مال وجان اور اولاد کے ذریعے جہاد کرنا پڑے گا۔ ٖ 411 یہ امم سابقہ کے حال کا بیان ہے۔ باساء سے مالی نقصان اور معاشی بدحالی مراد ہے۔ اور ضراء سے جانی نقصان اور جسمانی تکلیفیں اور بیماریاں مراد ہیں۔ الباساء والضراء السقم (ابن کثیر ص 251 ج 1) اور زلزلوا کے معنی ہیں۔ ازعجوا ازعاجا شدیدا بانواع البلایا (روح ص 104 ج 2) یعنی مصائب و تکالیف کی شدت اور کثرت سے ان کے دل دھل گئے۔ اور شدت و اضطراب اور بےچینی کی حالت میں پیغمبر اور مومنین طلب نصرت کے طور پر کہنے لگے۔ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی۔ اللہ تعالیٰ نے مصائب وشدائد میں ان سے مدد کا وعدہ کیا ہوا تھا۔ جب کفار اور مشرکین کے ہاتھوں ان کی مصیبتیں اور تکلیفیں انتہا کو پہنچ جاتیں تو انبیاء ومؤمنین یہ سمجھتے کہ اب تو تکلیفیں انتہا کو پہنچ چکی ہیں اب تو اللہ کی مدد ضرور آنی چاہئے۔ پھر شدت اضطراب اللہ کی مدد پہنچنے کی تمنا کرتے۔412 اس تمنا اور طلب کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوتا کہ ثابت قدم رہو۔ ہماری مدد اور نصرت پہنچنے ہی والی ہے۔ اس سے مسلمانوں کو متنبہ فرمایا۔ کہ تکلیفیں اور آزمائشیں ان پر بھی آئیں گی۔ لہذا انہیں ان کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 مسلمانو ! کیا تم نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجائو گے اور بدون کسی محنت و مشقت کو برداشت کئے تم بہشت میں چلے جائو گے حالانکہ ابھی تک تم کو اپنے سے پہلے مسلمانوں کی طرح کے حالات و واقعات سے سابقہ نہیں پڑا اور جو مسلمان تم سے پہلے ہو گزرے ہیں جیسے عجیب و غریب حالات ان کو پیش آئے تھے ... وہ ابھی تم کو پیش نہیں آئے ان پر ان کے مخالفین کی جانب سے بڑی سختی اور تکلیف واقع ہوئی اور مصائب و آلام سے وہ ہلا ہلا دئیے گئے یہاں تک کہ اس وقت کے پیغمبر اور اس کے ساتھی مسلمان بےچین و مضطرب ہوکر کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی اس پر ان کو تسلی دی گئی کہ آگاہ رہو اور سن لو ! اللہ تعالیٰ کی مدد بہت ہی قریب آنے والی ہے (تیسیر) بوس کے معنی ہیں فقر، سختی، مسکنت اور ضراء کے معنی ہیں۔ مرض، خوف اپاہج ہوجانا، زلزلہ کے معنی ہیں حرکت اور تحریک یعنی کسی چیز کو زور سے ہلانا اور حرکت دینا۔ مطلب یہ ہے کہ تم سے پہلے جو مسلمان گذر چکے ہیں ان پر بڑے مصائب و آلام واقع ہوئے ہیں کچھ تو عام طورپر سے نیک اور مخلص بندوں پر بلائیں نازل ہی ہوتی رہتی ہیں نیز اہل حق پر اہل باطل کی جانب سے بھی طرح طرح کے تشدد ہوتے ہیں وہ سب سے پہلے پیغمبروں پر اور پیغمبروں کے ساتھیوں پر ہوتے رہے فقر و فاقہ اور طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کئے گئے پھر مخالفوں کی جانب سے حملے اور لڑائیاں اس قدر شدید ہوئیں کہ اہل حق ہلاہلا دئیے گئے۔ زلزال یازلزلہ جنگ کے موقع پر بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ سورة احزاب میں ہے وزلزلوا زلزالا شدیدا ایک طرف تو یہ ہوا کہ ان پر اس قدر مظالم ہوئے کہ پیمانہ صبر لبریز ہوگیا۔ دوسری طرف پیغمبروں کی معرفت پر جو نصرت اور مدد کے وعدے ان سے کئے گئے تھے ان میں تاخیر ہوئی تو پیغمبر اور اس کے ساتھی مسلمان بےقرار ہوکر دعائیں کرنے لگے کہ جس مدد کا وعدہ کیا گیا ہے وہ مدد کب آئیگی۔ ارشاد ہوا تمہاری دعا قبول ہوئی میں ہی تمہارا حامی اور مدد گار ہوں اور میری مدد قریب ہی آنے والی ہے پس جب تم سے پہلے لوگوں کو اس قدر مصائب کا سامنا کرنا پڑا تو کیا تم یہ سمجھتے ہو اور تمہارا یہ خیال ہے کہ تم کو ان حالات و واقعات سے دوچار نہ ہونا پڑے گا اور تم جنت میں داخل ہو جائو گے ۔ حضرت خباب ابن ارت سے مروی ہے کہ ہم نے کفار کے مظالم سے پریشان ہوکر ایک دفعہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتے اور آپ ہمارے لئے مدد نہیں مانگتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جو لوگ تم سے پہلے تھے ان کو طرح طرح کی سزائیں دی جاتی تھیں کسی کے سَر پر آرہ رکھ کر اس کو چیرا جاتا تھا اور وہ اس پر بھی اپنے دین سے نہ پھرتا تھا اور لوہے کی کنگھیوں سے بعض لوگوں کے جسم کی کھال اتاری جاتی تھی مگر اس پر بھی وہ اپنے دین سے نہ پھرتا تھا آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے اس کام کو پورا کر کے رہے گا اور ایک دن ایسا ہوگا کہ ایک سوار حضر موت سے صفاء تک بےخوف و خطر چلا جائے گا اور اس کے دل میں سوائے خدا کے کسی کا ڈر نہ ہوگا مگر تم لوگ جلد بازی کرتے ہو یعنی تم پر تو وہ مصائب آئے بھی نہیں جو تم سے پہلوں پر آچکے ہیں اور یہ جو فرمایا کہ بدون سختیاں جھیلے اور مشقت اٹھائے۔ جنت میں چلے جائو گے اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی گناہ گار اللہ تعالیٰ کے فضل سے جنت میں نہ جائے گا بلکہ مطلب یہ ہے کہ مشقت کچھ نہ کچھ تو ہوتی ہی ہے لیکن جیسی مشقت ویسا مرتبہ چونکہ صحابہ کرام (رض) درجات عالیہ کے وارث ہوں گے اس لئے ان کا امتحان بھی ان کی شان کے موافق ہوگا۔ جتنا کسی کا مرتبہ زیادہ ہوتا ہے اسی قدر اس پر بلائیں واقع ہوتی ہیں اور انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اور مسلمانوں کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کب آئے گی اس کا بھی یہ مطلب نہیں کہ معاذ اللہ ان کو خدا کے وعدے میں کوئی شک تھا بلکہ وعدہ کا کوئی وقت مقرر نہ تھا اور مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے اہل باطل اور دین حق کے کے منکر چڑھے چلے آتے تھے ایسے موقعہ پر اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور تضرح کے ساتھ دعا کرتے تھے اور حضرت حق جل مجدہ سے دعا کرنا اور عاجزی کے ساتھ اسکی جناب میں گریہ وزاری کرکے مددطلب کرنا شیوئہ تسلیم و رضا کے منافی بھی نہیں۔ جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عام غزوات میں عموماً اور غزوئہ بدر میں خصوصاً فتح و نصرت کی دعائیں ثابت ہیں یہ ہوسکتا ہے کہ یہ آیت غزئوہ احد کے موقع پر نازل ہوئی یا غزوئہ احزاب کے سلسلے میں نازل ہوئی ہو۔ جیسا کہ مفسرین کا خیال ہے بہرحال آیت عام ہے اور ایک مخلص مسلمان کو امر حق کی تبلیغ میں جو مصیبت پیش ا ٓئے یا زمانہ کے حوادثات کی وجہ سے جو تکلیف پہنچے اس سب کو شامل ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے حفت الجنۃ بالمکارہ وحفت النار بالشھرات جنت کو مصائب و مکارہ سے ڈھانکا گیا ہے اور جن ہم کو نفسانی خواہشات سے ڈھانکا گیا ہے ابتلا اور افتنان اہل حق اور خدا تعالیٰ کے سچے اور مخلص بندوں کے ورثہ میں چلا آیا ہے اب آگے پھر احکام اور لفظ بر کی تفصیل شروع ہوتی ہے (تسہیل)  Show more