Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 232

سورة البقرة

وَ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا تَعۡضُلُوۡہُنَّ اَنۡ یَّنۡکِحۡنَ اَزۡوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوۡا بَیۡنَہُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ ذٰلِکَ یُوۡعَظُ بِہٖ مَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکُمۡ اَزۡکٰی لَکُمۡ وَ اَطۡہَرُ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۳۲﴾

And when you divorce women and they have fulfilled their term, do not prevent them from remarrying their [former] husbands if they agree among themselves on an acceptable basis. That is instructed to whoever of you believes in Allah and the Last Day. That is better for you and purer, and Allah knows and you know not.

اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدّت پوری کرلیں تو انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ آپس میں دستور کے مطابق رضامند ہوں ۔ یہ نصیحت انہیں کی جاتی ہے جنہیں تم میں سے اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر یقین و ایمان ہو اس میں تمہاری بہترین صفائی اور پاکیزگی ہے ۔ اللہ تعالٰی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Wali (Guardian) of the Divorced Woman should not prevent Her from going back to Her Husband Allah says; وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ... And when you have divorced women and they have fulfilled the term of their prescribed period, do not prevent them from marrying their (former) husbands, if they mutually agree on reasonable basis. Ali bin Abu Talhah reported that Ibn Abbas said, "This Ayah was revealed about the man who divorces his wife once or twice and her Iddah finishes. He later thinks about taking her back in marriage and the woman also wishes that, yet, her family prevents her from remarrying him. Hence, Allah prohibited her family from preventing her." Masruq, Ibrahim An-Nakhai, Az-Zuhri and Ad-Dahhak stated that this is the reason behind revealing the Ayah. These statements clearly conform to the apparent meaning of the Ayah. There is no Marriage without a Wali (for the Woman) The Ayah (2:232) also indicates that the woman is not permitted to give herself in marriage. Rather, she requires a Wali (guardian such as her father, brother, adult son, and so forth) to give her away in marriage, as Ibn Jarir and At-Tirmidhi have stated when they mentioned this Ayah. Also, a Hadith states that: لاَا تُزَوِّجُ الْمَرْأةُ الْمَرْأَةَ ولاَا تُزَوِّج الْمَرأةُ نَفْسَهَا فَإِنَّ الزَّانِيَةَ هِيَ الَّتِي تُزَوِّجُ نَفْسَهَا The woman does not give another woman away for marriage and the woman does not give herself away in marriage, for only the adulteress gives herself away for marriage. Another Hadith states: لاَا نِكَاحَ إلاَّ بِوَلِيَ مُرْشِدٍ وَشَاهِدَيْ عَدْل No marriage is valid except with the participation of a mature Wali and two trustworthy witnesses. The Reason behind revealing the Ayah (2:232) It was reported that; this Ayah was revealed about Ma`qil bin Yasar Al-Muzani and his sister. Al-Bukhari reported in his Sahih, when he mentioned the Tafsir of this Ayah (2:232), that the husband of the sister of Ma`qil bin Yasar divorced her. He waited until her Iddah finished and then asked to remarry her, but Ma`qil refused. Then, this Ayah was sent down: فَلَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ (...do not prevent them from marrying their (former) husbands). Abu Dawud, At-Tirmidhi, Ibn Abu Hatim, Ibn Jarir and Ibn Marduwyah and Al-Bayhaqi reported this Hadith from Al-Hasan from Ma`qil bin Yasar. At-Tirmidhi rendered this Hadith authentic and in his narration, Ma`qil bin Yasar gave his sister in marriage for a Muslim man during the time of Allah's Messenger. She remained with him for a while and he divorced her once and did not take her back until her Iddah finished. They then wanted to get back with each other and he came to ask her for marriage. Ma`qil said to him, "O ungrateful one! I honored you and married her to you but you divorced her. By Allah! She will never be returned to you." But Allah knew his need for his wife and her need for her husband and He revealed: وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ (And when you have divorced women and they have fulfilled the term of their prescribed period) until He said: وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (...and you know not). When Ma`qil heard the Ayah, he said, "I hear and obey my Lord." He then summoned the man and said, "I will honor you and let you remarry (my sister)." Ibn Marduwyah added (that Ma`qil said), "And will pay (the expiation) for breaking my vow." Allah said: ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ مِنكُمْ يُوْمِنُ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الاخِرِ This (instruction) is an admonition for him among you who believes in Allah and the Last Day. meaning, prohibiting you from preventing the women from marrying their ex-husbands, if they both agree to it. مَن كَانَ مِنكُمْ (among you), O people, يُوْمِنُ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الاخِرِ (who believes in Allah and the Last Day) meaning, believes in Allah's commandments and fears His warnings and the torment in the Hereafter. Allah said: ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ That is more virtuous and purer for you. meaning, obeying Allah's Law by returning the women to their ex-husbands, and abandoning your displeasure, is purer and cleaner for your hearts. وَاللّهُ يَعْلَمُ Allah knows, the benefits you gain from what He commands and what He forbids. وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ and you know not. the benefits in what you do or what you refrain from doing.

ورثاء کے لئے طلاق کی مزید آئینی وضاحت: اس آیت میں عورتوں کے ولی وارثوں کو ممانعت ہو رہی ہے کہ جب کسی عورت کو طلاق ہو جائے اور عدت بھی گزر جائے پھر میاں بیوی اپنی رضامندی سے نکاح کرنا چاہیں تو وہ انہیں نہ روکیں ۔ اس آیت میں اس امر کی بھی دلیل ہے کہ عورت خود اپنا نکاح نہیں کر سکتی اور نکاح بغیر ولی کے نہیں ہو سکتا چنانچہ ترمذی اور ابن جریر نے اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث وارد کی ہے کہ عورت عورت کا نکاح نہیں کر سکتی نہ عورت اپنا نکاح آپ کر سکتی ہے ۔ وہ عورتیں زنا کار ہیں جو اپنا نکاح آپ کرلیں ۔ دوسری حدیث میں ہے نکاح بغیر راہ یافتہ کے اور دو عادل گواہوں کے نہیں ، گو اس مسئلہ میں بھی اختلاف ہے لیکن اس کے بیان کی جگہ تفسیر نہیں ۔ ہم اس کا بیان کتاب الاحکام میں کر چکے ہیں فالحمداللہ ۔ یہ آیت حضرت معقل بن یسار اور ان کی ہمشیرہ صاحبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر کے بیان میں ہے کہ حضرت معقل بن یسار فرماتے ہیں میری بہن کا منگیتر میرے پاس آتا تھا ۔ میں نے نکاح کر دیا ۔ اس نے کچھ دِنوں بعد طلاق دے دی ۔ پھر عدت گزر جانے کے بعد نکاح کی درخواست کی ، میں نے انکار کر دیا ۔ اس پر یہ آیت اتری جسے سن کر حضرت معقل نے باوجود یہ کہ قسم کھا رکھی تھی کہ میں تیرے نکاح میں نہ دوں گا ، نکاح پر آمادہ ہو گئے اور کہنے لگے میں نے اللہ کا فرمان سنا اور میں نے مان لیا اور اپنے بہنوئی کو بلا کر دوبارہ نکاح کر دیا اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کیا ۔ ان کا نام جمیل بنت یسار تھا ۔ ان کے خاوند کا نام ابو البداح تھا ۔ بعض نے ان کا نام فاطمہ بن یسار بتایا ہے ۔ سدی فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضرت جابر بن عبداللہ اور ان کے چچا کی بیٹی کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن پہلی بات ہی زیادہ صحیح ہے ۔ پھر یہ فرمایا یہ نصیحت و وعظ کیلئے ہے جنہیں شریعت پر ایمان ہو ، اللہ کا ڈر ہو ، قیامت کا خوف ہو ، انہیں چاہئے کہ اپنی ولایت میں جو عورتیں ہوں انہیں ایسی حالت میں نکاح سے نہ روکیں ، شریعت کی اتباع کر کے ایسی عورتوں کو ان کے خاوندوں کے نکاح میں دے دینا اور اپنی حمیت و غیرت کو جو خلاف شرع ہو ، شریعت کے ماتحت کر دینا ہی تمہارے لئے بہتری اور پاکیزگی کا باعث ہے ۔ ان مصلحتوں کا علم جناب باری تعالیٰ کو ہی ہے ، تمہیں معلوم نہیں کہ کس کام کے کرنے میں بھلائی ہے اور کس کے چھوڑنے میں ۔ یہ علم حقیقت میں اللہ رب العزت ہی کو ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

232۔ 1 اس میں مطلقہ عورت کی بابت ایک تیسرا حکم دیا جا رہا ہے وہ یہ کہ عدت گزرنے کے بعد (پہلی یا دوسری طلاق کے بعد) اگر سابقہ خاوند بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو ان کو مت روکو۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک ایسا واقعہ ہوا تو عورت کے بھائی نے انکار کردیا جس پر یہ آیت اتری، اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ عورت اپنا نکاح نہیں کرسکتی، بلکہ اس کے نکاح کے لئے ولی کی اجازت اور رضامندی ضروری ہے۔ تب ہی تو اللہ تعالیٰ نے ولیوں کو اپنا حق ولایت غلط طریقے سے استعمال کرنے سے روکا ہے۔ اس کی مزید تائید حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہوتی ہے، جس عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا، پس اس کا نکاح باطل ہے، اسکا نکاح باطل ہے، اسکا نکاح باطل ہے۔ (حوالہ مذکور) ان احادیث کو علامہ انور شاہ کشمیری نے بھی دیگر محدثین کی طرح صحیح اور احسن تسلیم کیا ہے۔ فیض الباری ج 4 کتاب النکاح) دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ عورت کے ولیوں کو بھی عورت پر جبر کرنے کی اجازت نہیں بلکہ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ عورت کی رضامندی کو بھی ملحوظ رکھیں اگر ولی عورت کی رضامندی کو نظر انداز کر کے زبردستی نکاح کر دے تو شریعت نے عورت کو بذریعہ عدالت نکاح فسخ کرانے کا اختیار دیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ نکاح میں دونوں کی رضامندی حاصل کی جائے کوئی ایک فریق بھی من مانی نہ کرے گا اور لڑکی کے مفادات کے مقابلے میں اپنے مفادات کو ترجیح دے گا تو عدالت ایسے ولی کو حق ولایت سے محروم کر کے ولی ابعد کے ذریعے سے یا خود ولی بن کر اس عورت کے نکاح کا فریضہ انجام دے گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣١٥] حضرت معقل بن یسار (رض) کہتے ہیں کہ میری بہن (جمیلہ) کو اس کے خاوند (عاصم بن عدی) نے طلاق (رجعی) دی مگر رجوع نہ کیا تاآنکہ پوری عدت گزر گئی۔ پھر عدت گزر جانے کے بعد دوبارہ نکاح کے لیے مجھے پیغام بھیجا (جب کہ مجھے اور بھی پیغام آ چکے تھے) میں نے غیرت اور غصہ کی وجہ سے ہے اسے برا بھلا کہا اور انکار کردیا اور قسم کھالی کہ اب اس سے نکاح نہ ہونے دوں گا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور میں نے اس حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیا اور قسم کا کفارہ ادا کردیا۔ (بخاری، کتاب التفسیر، زیر آیت مذکورہ) اس حدیث سے ضمناً یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگرچہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا، جیسا کہ کئی احادیث صحیحہ سے بھی ثابت ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے عورت کی رضا کو ولی کی رضا پر مقدم رکھا ہے۔ یہاں صورت حال یہ تھی کہ جمیلہ کو نکاح کے کئی پیغام آئے اور اس کے سابق خاوند عاصم بن عدی کا پیغام بھی آیا۔ اب معقل وقتی غصہ اور غیرت کی بنا پر عاصم سے نکاح نہیں چاہتا تھا جبکہ جمیلہ عاصم ہی سے نکاح کرنے پر رضامند تھی جیسا کہ آیت کے الفاظ سے واضح ہے تو اللہ تعالیٰ نے معقل کے بجائے جمیلہ کی رضا کو مقدم رکھ کر اس کے مطابق حکم نازل فرمایا۔ نکاح کے سلسلہ میں اسلام نے عورت کی رضا کو ہی مقدم رکھا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ ١۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بیوہ یا مطلقہ عورت کا اس وقت تک نکاح نہ کیا جائے جب تک اس سے صاف صاف زبان سے اجازت نہ لی جائے، اسی طرح کنواری کا بھی نکاح نہ کیا جائے جب تک وہ اذن نہ دے۔ && صحابہ (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنواری اذن کیونکر دے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کا چپ رہنا ہی اس کا اذن ہے۔ (بخاری، کتاب النکاح۔ باب لاینکح الاب وغیرہ۔ البکروالثیب الا برضاھا) ٢۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے پوچھا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! && کنواری لڑکی تو شرم کرتی ہے۔ && آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کی رضامندی یہی ہے کہ وہ خاموش ہوجائے۔ && (حوالہ ایضاً ) ٣۔ خنساء بنت خذام انصاریہ (رض) کہتی ہیں کہ میرے باپ نے (اپنی مرضی سے) میرا نکاح کردیا جبکہ میں ثیبہ (شوہر دیدہ) تھی اور اس نکاح کو پسند نہیں کرتی تھی۔ آخر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی تو آپ نے میرے باپ کے کئے ہوئے نکاح کو فسخ کر ڈالا۔ (حوالہ ایضاً ) ٤۔ قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ جعفر بن ابی طالب کے خاندان کی ایک عورت کو یہ خطرہ پیدا ہوا کہ اس کا ولی کہیں جبراً اس کا نکاح نہ پڑھا دے اور وہ اس نکاح سے ناخوش تھی۔ آخر اس نے کسی شخص کو دو بوڑھے انصاریوں عبدالرحمن بن جاریہ اور مجمع بن جاریہ کے پاس یہ مسئلہ پوچھنے کے لیے بھیجا۔ انہوں نے کہلا بھیجا کہ تو کا ہے کو ڈرتی ہے۔ خنساء بنت خذام کا نکاح اس کے باپ نے جبراً کردیا تھا اور وہ اس نکاح کو پسند نہیں کرتی تھی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نکاح فسخ کردیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب الحیل۔ باب فی النکاح) ٥۔ ابو موسیٰ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ولی کے بغیر نکاح درست نہیں ہوتا۔ (ترمذی ابو اب النکاح، باب ماجاء لانکاح الا بولی) ترمذی کے علاوہ اسے ابو داؤد، ابن ماجہ اور دارمی نے بھی روایت کیا ہے۔ ٦۔ حضرت عائشہ ام المومنین (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے۔ پھر اگر خاوند نے اس سے صحبت کرلی تو اس کے عوض اسے پورا حق مہر ادا کرنا ہوگا۔ پھر اگر ان میں جھگڑا پیدا ہوجائے تو جس عورت کا کوئی ولی نہ ہو، بادشاہ اس کا ولی ہے۔ && (ترمذی حوالہ ایضاً ) اس حدیث کو ترمذی کے علاوہ احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ ٧۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک کنواری لڑکی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے باپ نے میرا نکاح جبراً کردیا ہے۔ میں راضی نہیں ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اختیار دے دیا۔ (ابو داؤد بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب النکاح۔ باب الولی فی النکاح و استیذان المراۃ تیسری فصل) ٨۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے۔ اور نہ عورت خود اپنا نکاح کرے اور جو عورت اپنا نکاح خود کرتی ہے وہ زانیہ ہے۔ (ابن ماجہ بحوالہ مشکوٰۃ حوالہ ایضاً ) ٩۔ ابو سعید اور ابن عباس (رض) دونوں نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس کے ہاں بچہ پیدا ہو وہ اس کا اچھا سا نام رکھے اور اچھا ادب سکھائے۔ پھر جب بالغ ہو تو اس کا نکاح کر دے۔ اگر اس کا نکاح بلوغت کے وقت نہ کیا اور وہ کسی گناہ کا مرتکب ہوا تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہوگا۔ (بیہقی شعب الایمان بحوالہ مشکوٰۃ۔ حوالہ ایضاً ) واضح رہے کہ مندرجہ بالا سب احادیث سے یہ بات واضح ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ البتہ ولی کی رضا پر عورت کی رضامقدم ہے۔ اور اس آیت کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو شخص اپنی عورت کو طلاق دے چکا ہو اور وہ مطلقہ عورت عدت گزار کر کسی دوسرے آدمی سے نکاح کرنا چاہتی ہو تو سابقہ شوہر کو کوئی ایسی کمینہ حرکت نہ کرنی چاہیے جو اس کے ہونے والے نکاح میں رکاوٹ پیدا کر دے جس سے عورت پر تنگی پیدا کرنا مقصود ہو۔ یہاں ایک اور مسئلہ پیدا ہوتا ہے جو موجودہ دور میں خاصی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اور وہ یہ ہے آیا ولی اپنے لڑکے یا لڑکی یا کسی دوسرے قریبی رشتہ دار کا بچپن میں نکاح کرنے کا مجاز ہے یا نہیں ؟ اور اسی مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آیا بلوغت سے پہلے یا بچپن کا نکاح درست ہے یا باطل ؟ اور یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر امت مسلمہ کے تمام فرقوں کا اتفاق ہے کہ بچپن کا نکاح درست ہوتا ہے اور ولی ایسا نکاح کرنے کا مجاز ہے۔ لیکن دور حاضر کے کچھ مجددین نے ایسے نکاح کو غلط اور باطل قرار دیا اور اسی طبقہ سے متاثر ہو کر حکومت پاکستان نے عائلی قوانین آرڈی نینس ١٩٦١ میں اس متن کا اندراج کیا کہ نکاح کے وقت لڑکے کی عمر کم از کم اٹھارہ سال اور لڑکی کی عمر کم از کم سولہ سال ہونی چاہیے۔ یہ شق چونکہ امت مسلمہ کے ایک متفق علیہ مسئلہ کے خلاف ہے لہذا ہم اس پر ذرا تفصیل سے گفتگو کریں گے۔ پہلے ہم اس متفق علیہ مسئلہ کے جواز پر دلائل پیش کرتے ہیں۔ بچپن کی شادی کے جواز پر دلائل ١۔ قرآن میں مختلف قسم کی عورتوں کی عدت کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : آیت ( وَاڿ يَىِٕسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ ۙ وَّاڿ لَمْ يَحِضْنَ ۭ وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۭ وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ اَمْرِهٖ يُسْرًا ۝) 65 ۔ الطلاق :4) اور تمہاری مطلقہ عورتیں جو حیض سے ناامید ہوچکی ہوں، اگر تمہیں ان کی عدت کے بارے میں شک ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنہیں ابھی حیض شروع ہی نہیں ہوا اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل تک ہے۔ اس آیت میں بوڑھی، جوان اور بچی سب طرح کی عورتوں کا ذکر ہے۔ بوڑھی اور بچی جنہیں حیض نہیں آتا ان کی عدت تین ماہ ہے اور جوان عورت کی عدت اگر اسے حمل ہے تو وضع حمل تک ہے (اور اگر حمل نہ ہو تو چار ماہ دس دن ہے جیسا کہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے) اور تو ظاہر ہے کہ عدت کا سوال یا تو خاوند کے طلاق دینے کے یا مرجانے کے بعد ہی پیدا ہوسکتا ہے۔ تو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بلوغت سے پہلے بھی لڑکی کا نکاح جائز ہے اور اس کا ولی اس بات کا مجاز ہے۔ ٢۔ ارشاد باری ہے : آیت (ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ 49؀) 33 ۔ الأحزاب :49) اور اگر تم اپنی ایسی بیوی کو طلاق دے دو جن سے تم نے صحبت نہ کی ہو اور حق مہر مقرر رقم کا نصب دینا ہوگا۔ ذرا سوچیئے نوجوان جوڑے کی شادی ہو۔ رخصتی بھی ساتھ ہی ہوچکی ہو تو کیا ایسی صورت ممکن ہے کہ شب زفاف میں صحبت نہ کریں ؟ اور صحبت سے پہلے ہی میاں صاحب اپنی بیگم کو طلاق دے دیں ؟ ہمارے خیال میں اس کی یہی صورت ممکن ہے جس کا عرب میں عام رواج تھا کہ بچپن میں نکاح ہوجاتا تھا۔ اور رخصتی کو بلوغت تک موخر کردیا جاتا تھا۔ دریں اثناء بعض خاندانی رقابتوں کی بنا پر یا مرد کی اپنی ناپسندیدگی کی وجہ سے ایسی صورت پیش آجاتی تھی۔ تو اس کا اللہ تعالیٰ نے حل بتلا دیا کہ ایسی صورت میں مقررہ رقم کا نصف ادا کردو۔ یہ نہیں فرمایا کہ بچپن میں نکاح کیا ہی نہ کرو۔ حالانکہ دور نبوی میں بچپن میں نکاح کا رواج عام تھا۔ ٣۔ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ (رض) سے نکاح اس وقت کیا جبکہ حضرت عائشہ (رض) کی عمر صرف ٧ سال تھی۔ جیسا کہ مسلم کی درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی نے ان سے نکاح اس وقت کیا جبکہ وہ سات سال کی تھیں اور جب حضرت کے گھر رخصتی ہوئی اس وقت نو برس کی تھیں اور ان کے کھیلنے کے کھلونے ان کے ساتھ تھے اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوئے اس وقت ان کی عمر اٹھارہ برس کی تھی۔ ٤۔ چوتھی دلیل اس پر تعامل امت اور امت مسلمہ کے تمام مذاہب کا اس مسئلہ کے جواز پر اتفاق ہے۔ اور اس میں اختلاف نہ ہونا بھی اس کے جواز پر ایک قوی دلیل ہے۔ اور جن حضرات نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے ان کے دلائل یہ ہیں :۔ ١۔ نکاح میاں بیوی کے درمیان ایک عہد وفاداری ہوتا ہے جسے قرآن نے (مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا 21؀) 4 ۔ النسآء :21) کہا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ عہد اسی صورت میں نبھایا جاسکتا ہے جب کہ مرد اور عورت دونوں اس عہد کو سمجھتے ہوں۔ لہذا ان دونوں کا عاقل اور بالغ ہونا ضروری ہے۔ ٢۔ قرآن نے یتیموں کے اموال کی حفاظت کے بارے میں فرمایا کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے اموال ان کو واپس کردو۔ اس سے معلوم ہوا کہ نکاح کی عمر اس وقت ہوتی ہے جب بچہ سمجھدار ہوجائے اور اپنے مال کی حفاظت کرسکے۔ ٣۔ قرآن میں ہے آیت ( نِسَاۗؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ ٢٢٣۔ ) 2 ۔ البقرة :223) یعنی عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔ اور عورت کھیتی تو اس وقت ہی ہوسکتی ہے جب وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل ہوجائے۔ اسی طرح جب تک لڑکا بھی اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہو اس کا نکاح نہیں ہوسکتا۔ یہ ہیں وہ دلائل جو نکاح نابالغان کے منکرین کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں۔ اور ہم اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ اگر نکاح کا مقصد صرف جنسی خواہشات کی تکمیل اور حصول اولاد ہو تو نکاح کے لیے بلوغت کی عمر ہی درست ہے۔ اختلاف اس بات میں ہے کہ آیا نکاح کا صرف یہی ایک مقصد ہے یا کچھ اور بھی ہوسکتے ہیں۔ ہمارے خیال میں نکاح کا ارفع و اعلیٰ مقصد جس کے لیے اسلام نے نکاح کا حکم دیا ہے وہ فحاشی، بےحیائی اور زنا سے اجتناب، مرد و عورت دونوں کی عفیف اور پاکیزہ زندگی اور اس طرح ایک پاک صاف اور ستھرے معاشرہ کا قیام ہے اور اس کی دلیل درج ذیل آیت ہے :۔ آیت ( وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَاۗىِٕكُمْ ۭ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ 32؀) 24 ۔ النور :32) && اور اپنی قوم کی بیواؤں کے نکاح کردیا کرو۔ اور اپنے غلاموں اور کنیزوں کے بھی جو نکاح کے قابل ہوں && اس آیت میں (ایامیٰ ) کا لفظ غور طلب ہے۔ ایامی ایم کی جمع ہے۔ بمعنی رنڈوا مرد بھی اور رنڈی (بیوہ) عورت بھی۔ دونوں کے لیے یہ یکساں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی بےشوہر عورت یا بےزن مرد اور اٰم یئیم أیما ًکے معنی مرد کا رنڈوا یا عورت کا رانڈ (بیوہ) ہوجانا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ رنڈا خواہ مرد ہو یا بیوہ عورت ہو عمومی صورت یہی ہوتی ہے کہ ان کے ہاں اولاد ہوتی ہے۔ پھر جب ان کے پاس اولاد پہلے ہی موجود ہو، جوانی سے ڈھل چکے ہوں۔ مزید اولاد کی خواہش بھی نہ ہو تو پھر ایسے مجرد قسم کی عورتوں یا مردوں کو نکاح کرنے کا حکم کیوں دیا جا رہا ہے ؟ کیا اس کا یہی مقصد باقی نہیں رہ جاتا کہ معاشرہ سے فحاشی کا کلی طور پر استحاصل ہوجائے ؟ نکاح کا ایک اور اہم مقصد رشتہ اخوت و مودت کو مزید پائیدار اور مستحکم بنانا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ٥١ سال کی عمر میں حضرت عائشہ (رض) سے نکاح کیا تو اس کا مقصد محض حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے رشتہ مودت کو مزید مستحکم بنانا تھا۔ اس وقت آپ صاحب اولاد تھے اگرچہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ (رض) فوت ہوچکی تھیں تاہم ان کی جگہ حضرت سودہ (رض) موجود تھیں۔ جنسی خواہشات بھی اتنی عمر میں ماند پڑجاتی ہیں۔ پھر تین سال نکاح کے بعد رخصتی نہیں ہوئی۔ تو کیا اس نکاح کا مقصد صرف وہی کچھ تھا جو یہ حضرات سمجھتے ہیں ؟ اور بعض دفعہ نکاح کے ذریعہ کئی قسم کے دینی و سیاسی معاشی اور معاشرتی فوائد حاصل ہوتے ہیں جو حصول اولاد سے بھی زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ آپ ذرا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی پر نظر ڈالیے کہ آپ نے کتنے نکاح کیے ؟ کس عمر میں کئے ؟ کس عمر کی عورتوں سے کئے اور کون کون سے مقاصد کے تحت کئے تھے ؟ اور ان سب نکاحوں سے کتنی اولاد ہوئی ؟ تو یہ حقیقت از خود منکشف ہوجائے گی کہ نکاح کا مقصد محض جنسی خواہشات کی تکمیل یا حصول اولاد ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے بلند تر مقاصد بھی ہوسکتے ہیں۔ رہی حصول اولاد کی بات تو یہ اصل مقصد نہیں بلکہ ایک اہم مقصد کا ثمرہ ہے جو کبھی حاصل ہوجاتا ہے کبھی نہیں ہوتا۔ انسان کے اپنے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک بالغ جوڑے کی شادی کردی جائے اور تازیست ان کے ہاں اولاد نہ ہو۔ ایسی صورت میں بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ نکاح بےمقصد رہا۔ اگرچہ ایسے واقعات کی تعداد ٥ فیصد سے زیادہ نہیں تاہم ان سے انکار بھی ممکن نہیں۔ پھر جب نکاح کے مقاصد میں ہی تنوع پیدا ہوگیا تو ضروری ہے کہ نکاح کی عمر، بلوغت میں بھی استثناء موجود ہو۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ اگرچہ نکاح کی عمر بلوغت ہے تاہم یہ ہر عمر میں جائز ہے۔ اس لحاظ سے اگر ایک طرف نابالغ بچی کا نکاح نابالغ لڑکے، جوان اور بوڑھے سے جائز ہوسکتا ہے تو دوسری طرف ایک لڑکے کا یا نوجوان کا اپنے سے بہت بڑی عمر کی عورت، مطلقہ بلکہ دو تین بار کی مطلقہ سے بھی جائز ہے۔ اب رہا عقد کا معاملہ جس کے لیے فریقین کا عاقل بالغ ہونا ضروری ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا عقد صرف نکاح کا ہی نہیں ہوتا بلکہ کئی قسم کے باہمی لین دین میں بھی ہوتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی فریق عاقل یا بالغ نہ ہو تو اس کے سب معاملات ٹھپ ہوجائیں گے ؟ یا اللہ تعالیٰ نے اس کا کوئی حل بتلایا ہے ؟ چناچہ سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢٨٢ میں جہاں لین دین کے معاہدات کی تحریر کا حکم دیا گیا وہاں ایسی صورت حال کا حل بھی بتلا دیا جو یہ ہے کہ : آیت (فَاِنْ كَانَ الَّذِيْ عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيْهًا اَوْ ضَعِيْفًا اَوْ لَا يَسْتَطِيْعُ اَنْ يُّمِلَّ ھُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهٗ بالْعَدْلِ ٢٨٢۔ ) 2 ۔ البقرة :282) && پھر اگر قرض لینے والا بےعقل ہو یا کمزور ہو یا مضمون دستاویز لکھوانے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کروا دے۔ && اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین صورتوں میں ولی کو معاہدہ کے فریق کا مختار بنادیا ہے (١) نادان ہو (٢) کمزور ہو اور (٣) املا کروانے کی اہلیت نہ رکھتا ہو اور یہ تینوں باتیں نابالغ میں پائی جاتی ہیں۔ چہ جائیکہ صرف ایک بات پر بھی ولی کو حق اختیار مل جاتا ہے اب اگر لین دین کے معاہدہ میں نادان یا نابالغ کا ولی مختار بن سکتا ہے تو نکاح کے معاہدہ میں کیوں نہیں بن سکتا ؟ واضح رہے کہ ولی کو یہ حق اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ ایسے معاہدات کی تکمیل میں ذمہ دارانہ حیثیت رکھتا ہے۔ ہمارے جو دوست نکاح کی عمر بلوغت پر زور دیتے اور اس سے پہلے کم سنی کے نکاح کو ناجائز قرار دیتے ہیں ان کا مقصد معاشرہ کی فحاشی سے پاکیزگی نہیں ہے بلکہ وہ دراصل تہذیب مغرب سے متاثر ہو کر ایسا پرچار کرتے ہیں۔ انگلستان کے مشہور معیشت دان && ہتھس && نے ملک کی خوشحالی کے لیے آبادی کی روک تھام کو لازمی قرار دیا تھا۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی یہ بھی تھی کہ مردوں اور عورتوں کی شادیاں دیر سے کی جائیں تاکہ بچے کم پیدا ہوں۔ اسی نظریہ سے متاثر ہو کر ہمارے پڑھے لکھے گھرانوں میں پچیس پچیس تیس تیس سال تک شادی نہیں ہوتی۔ حالانکہ اس سے معاشرہ میں کافی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ لوگ بلوغت کی عمر کے بعد بھی دس بارہ سال شادی نہ ہونے پر اس لیے خاموش رہتے ہیں کہ یہ تاخیر ان کے نظریہ && چھوٹا کنبہ خوشحال گھرانہ && کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے اور اسی لیے یہ بچپن کی شادی کی مخالفت بھی کرتے ہیں اور سہارا بھی قرآن کا لیتے ہیں۔ ورنہ اگر یہ لوگ قرآن مجید سے مخلص ہوتے تو جو لوگ بلوغت کے بعد بھی تادیر شادی نہیں کرتے ان کے خلاف بھی آواز اٹھاتے کیونکہ قرآن ایک صاف ستھرے معاشرے کے قیام کا حکم دیتا ہے && چھوٹا کنبہ خوشحال گھرانہ && کا پرچار نہیں کرتا۔ (مزید تفصیل کے لیے میری تصنیف ملاحظہ کیجئے، آئینہ پرویزیت حصہ سوم) [٣١٦] یعنی عورت کے نکاح ہوجانے میں جو معاشرتی پاکیزگی ہے۔ نکاح نہ ہونے میں نہیں اور جو معاشرتی پاکیزگی عورت کا نکاح اپنے سابقہ خاوند سے ہوجانے میں ہے وہ کسی دوسرے سے نکاح ہونے میں نہیں اور یہ ایسے امور ہیں جنہیں اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ تم نہیں جانتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ ) معقل بن یسار (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی بہن کا نکاح ایک شخص سے کیا، اس نے اسے طلاق دے دی، جب عدت گزر گئی تو وہ (دوبارہ) نکاح کا پیغام لے کر آیا۔ میں نے اس سے کہا، میں نے تمہارا نکاح کیا، اسے تمہاری بیوی بنایا اور تمہاری عزت افزائی کی، مگر تم نے اسے طلاق دے دی، اب تم پھر اس سے نکاح کا پیغام لے کر آگئے ہو، اللہ کی قسم ! وہ تمہارے پاس کبھی نہیں آسکتی۔ اس شخص میں کوئی برائی نہیں تھی اور میری بہن بھی اس کے پاس جانا چاہتی تھی (لیکن میں مانع تھا) تو اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ آیت نازل فرمائی : ( فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ ) ” تو انھیں اس سے نہ روکو کہ وہ اپنے خاوندوں سے نکاح کرلیں۔ “ تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسول ! اب میں نکاح کر دوں گا۔ الغرض ! انھوں نے اپنی بہن کا نکاح اس شخص سے کردیا۔ [ بخاری، النکاح، باب من قال لا نکاح إلا بولی ۔۔ : ٥١٣٠ ] اس آیت سے معلوم ہوا کہ عورت خود بخود اپنا نکاح نہیں کرسکتی، بلکہ ولی کی اجازت ضروری ہے۔ امام بخاری نے بھی اس آیت سے یہ استدلال فرمایا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ کوئی عورت اپنا نکاح خود کرے، کیونکہ وہ عورت زانیہ ہے جو اپنا نکاح خود کرتی ہے۔ “ [ ابن ماجہ، النکاح، باب لا نکاح إلا بولی : ١٨٨٢، عن عائشۃ (رض) ، و صححہ الألبانی ] اگر عورت خود اپنا نکاح کرسکتی ہوتی تو عورت کے اولیاء کو قرآن مخاطب نہ کرتا کہ ” تم ان کو مت روکو۔ “ اَزْوَاجَهُنَّ اس لفظ سے جس طرح وہ خاوند مراد ہیں جن سے پہلے نکاح ہوا تھا، اسی طرح عدت گزرنے کے بعد اگر وہ کسی اور شخص سے نکاح کرنا چاہیں تو اس ہونے والے خاوند سے نکاح کرنے سے روکنا بھی منع ہے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یہ حکم ہے عورتوں کے ولیوں کو کہ اس کے نکاح میں اس کی خوشی (کا خیال) رکھیں، جہاں وہ راضی ہوں وہاں کردیں، اگرچہ اپنی نظر میں اور جگہ بہتر معلوم ہو۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Rules of the remarriage of the divorced women The second verse stops the unjust treatment meted out to divorced women, that is, they are discouraged to marry again. In some cases the first husband generally opposes the idea of his divorced wife marrying someone else and considers this to be a violation of his honour. In some families, even guardians of the divorced woman stop her from marrying a second time -- some of them often do that out of greed hoping to let her marry only when there is some financial gain for them. There are times when the divorced woman agrees to remarry her former husband but the guardians and relatives develop a sort of hostility towards him after the incident of divorce. As such, they oppose their remarriage even after both of them agree to it. Stopping free women, without any valid reason admitted by Islamic law, from marrying at their choice, is a grave injustice whether it comes from the former husband or from the guardians of the woman. This injustice has been prevented through this verse. This verse was revealed in the background of an incident of this nature. It appears in Sahih al-Bukhari that Sayyidna Ma&qil ibn Yasar رضی اللہ تعالیٰ عنہ had given his sister in marriage to someone. He divorced her and the period of ` iddah expired as well. Following that, this man was sorry for what he did and wished to remarry her. His wife, that is, the sister of Ma&qil ibn Yasar (رض) also agreed to it. When this man talked to Ma&qil about it, he said, of course, in anger against the man&s act of divorce: &I did you an honour. I gave you the hand of my sister and you did this to me. You divorced her. Now you have come again to me so that I can let you marry her once again. By Allah, she will not go back in your nikah now.& There was another incident concerning a cousin of Sayyidna Jabir ibn ` Abdullah (رض) similar to the one above. Thereupon, this verse was revealed in which the approach of Ma&qil and Jabir (رض) was declared to be undesirable and impermissible. The noble Sahabah (Companions) were true lovers of Allah Almighty and His Messenger g . Such was the beneficence of the verse that Ma&qil ibn Yasar&s anger cooled down as he heard it. He himself went to his former brother-in-law and gave his sister in his marriage once again and then gave kaffarah کَفَّارہ (expiation) for his oath. Similarly, Jabir also carried out the instruction. Keeping in view the form of address used here, this verse includes husbands who have given a divorce as well as the guardians of the women. Both have been commanded: فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَ‌اضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُ‌وفِ is, &do not prevent them from marrying their husbands when they mutually agree with fairness.& They may even be their pre¬vious husbands who had divorced them or they may be others. But a condition has been imposed here which is: بِالْمَعْرُ‌وفِ تَرَ‌اضَوْا بَيْنَهُم ، that is, &when they mutually agree with fairness.& It means: When a man and woman agree to marry in accordance with the rules set by the Sha¬ri&ah, then, do not stop them from getting married. Here it was hinted that the absence of an agreement between the two, or compulsion from any quarter, is a valid reason for people around to stop them. Or, it may be that there is mutual agreement of the couple but it is not in ac¬cordance with the method prescribed by the Shari&ah. For instance, the couple may agree to live together without marrying; or may, in be-tween them, enter into a new nikah illegitimately after three talaqs. Still more, should there be an intention to marry another husband during the period of ` iddah, every Muslim, especially those closely relat¬ed to the man and woman concerned, have a right to stop them from doing so. In fact, it is wajib or obligatory to stop them within the limits of one&s ability. Similarly, if a girl wishes to marry outside her kaf (کفو : equal, like) without the permission of her guardians, or wishes to enter into nikah (marriage) on a dower which is less than her mahr al-mithl (a dower approximately similar to the one customary in her family) then this affects the family. Since she has no right to do this, her consent is also not in accordance with the method prescribed by the SharT&ah. In this situation, the guardians of the girl have a right to stop her from this marriage. However, the words :&When they mutually agree& do point out that a sane and pubert girl cannot be given in marriage without her consent or permission. Towards the end of verse 232 there are three sentences appearing one after the other. The first one is. يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ مِنكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌: It means: &These injunctions are for those who believe in Allah and the Last Day.& Here it was hinted that the necessary outcome of believing in Allah and the Last Day, (the Day of Judgment) is that man should observe, practice and be bound by these Divine injunctions in toto. Those who fall short in following these injunctions should realize that their ` Iman ایمان or belief is in disarray. In the second sentence, it was said: ذَٰلِكُمْ أَزْكَىٰ لَكُمْ وَأَطْهَرُ‌, that is, &adherence to these injunctions is for you a modality of purity and cleanliness.& It has been suggested here that the result of acting contrary to these injunctions is defilement with the pollution of sin, and involvement in discord and strife; for instance, if sane, pubert and young girls were categorically prevented from marriage, it would, on one hand, be an act of cruelty to them and a denial of their rights and on the other, this would put their modesty and chastity in danger. Thirdly, if God forbid, they get involved in sin, the resulting curse will also fall on those who prevented them from marrying. And it is quite possible that, much before the curse of the life to come (the akhirah), the misfortune of these helpless women may drive men to the outside limits of wars and murders, as is not uncommon even now. If that happens, much before the curse of the akhirah, their deeds will become a curse for them right here in this world. And if they were not, categorically at least, prevented from marriage, but were forced to enter into marriage with a person not of their choice and liking, that too will result in perpetual hostility, discord and strife, or talaq (divorce) and khul& خلع Divorce at the instance of wife against compensation). Its unpleasant effects are obvious. It was, therefore, said that in not preventing them from marrying the husbands of their choice there is for you easy access to purity and cleanliness. In the third sentence it was said: وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ , that is, &and Allah knows (that which is good for you) and you do not know&. The purpose of this statement is that people who prevent divorced women from marrying see some benefits coming to them according to their conjecture, for instance, the notion of retaining honour and prestige or the hope of extracting some money on the pretext of their marriage. In order to remove this Satanic deception and unjust expediency, it was said: Allah Almighty knows very well what is suitable or beneficial for you -- so, when injunctions are given, these considerations are already taken care of. Since you do not know the reality of things and the end of affairs, you go ahead with your imperfect thoughts and faulty opinions, taking such things to be suitable or beneficial at times, while in them there is nothing but ruin and destruction for you. The assumed honour and prestige that you uphold will be rolling in dust if divorced women were to go out of control. And when you think of illegitimate monetary gains, it is likely that these may get you involved in intrigues and conflicts which may become dangerous not only for your money but also for your life. The Qur&aniic strategy about the enforcement of a law At this point here, the Holy Qur&an presents a law to the effect that preventing divorced women from marrying as they choose is prohibited. Now, in order that acting in accordance with this law becomes easy, and that a climate of acceptance is generated in the public mind, these three sentences have followed after the initial declaration of the law. In the first sentence man is induced to be ready for action in accordance with this law by warning him against the accountability of the Day of Judgment and the subsequent punishment of crimes. In the second sentence, man is persuaded to abide by the law by telling him about evils caused by acting against it and many a harm that such contravention may bring to humanity. In the third sentence it was said that your own betterment lies in abiding by the law given by Allah Almighty. If, in acting against it, you have some expedient gain in mind, that then, is an outcome of your short-sightedness and insensitivity to consequences. This manner and style of the Holy Qur&an does not end here; in fact, it runs throughout all injunctions. When a law is identified, along with it comes the warning that Allah is Almighty and that there is accountability and punishment in the Hereafter. With the beginning and the end of each law there are affixes and suffixes like اتَّقُوا اللَّـهَ (Fearllah) and إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ‌ بِمَا تَعْمَلُونَ (Allah is All-Aware of what you do) and بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِي (Allah is watchful of what you do). The Qur&an is. For the whole world, and for the generations to come till the Day of Doom (Qiyamah), a complete code of life, and a law covering all aspects of living. Of course, it does describe restrictive ordinances and legal punishments, but the manner in which these are handled is unique, not to be found in the law books of the whole world. The diction it has is more sympathetic than authoritarian. In the description of each law, there is an objective approach that no man should, by disobeying it, become deserving of punishment. This is not something like the governments of the contemporary world which make a law, publish it and then anyone who acts against it is left out to go through his punishment. Moreover, a rather long-term benefit that comes out of this method of Qur&an and its special style, is that man, once he has sensed it, does not start abiding by the law simply because he knows that acting against it would bring some sort of punishment in the mortal world; much contrary to this, he starts worrying about the displeasure of Allah Almighty and the punishment that would come in the Hereafter (akhirah) and this very concern of his renders his outside and inside, his open and his secret, all even -- one and indivisible. He cannot act against the law even at a place where there are no chances at all of his being policed, openly or secretly, because he believes that Allah Almighty, great is His Majesty, is present everywhere, watching and knowing everything down to the minutest particle. This is the reason why every Muslim abided by the law considering it to be an ideal of his life as a result of the principles of clean social living taught by the Qur&an. Aside from identifying limits and restrictions of law, the distinction of a Qur&anic system of government is that by using the tools of persuasion and warning, it raises the standards of human morals and character to heights where legal limits and restrictions become second nature to him, before which he makes his personal desires and preferences take the back seat. A hard look into the history and governments of nations and the roster of crimes and punishments they offer would show that law alone has never reformed any nation or individual. The police and the army alone have never succeeded in rooting crimes out unless the fear of Allah Almighty and the realization of His supreme greatness is impinged on human hearts. That which helps prevent crimes is, in reality, the fear of Allah and the fear of accountability on the Day of Judgment. If this is not there, nobody can keep anybody away from crimes.

مطلقہ عورتوں کو اپنی مرضی کی شادی کرنے سے بلاوجہ شرعی روکنا حرام ہے : دوسری آیت میں اس ناروا ظالمانہ سلوک کا انسداد کیا گیا ہے جو عام طور پر مطلقہ عورتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے، کہ ان کو دوسری شادی کرنے سے روکا جاتا ہے پہلا شوہر بھی عموماً اپنی مطلقہ بیوی کو دوسرے شخص کے نکاح میں جانے سے روکتا اور اس کو اپنی عزت کے خلاف سمجھتا ہے اور بعض خاندانوں میں لڑکی کے اولیاء بھی اس کو دوسری شادی کرنے سے روکتے ہیں اور ان میں بعض اس طمع میں روکتے ہیں کہ اس کی شادی پر ہم کوئی رقم اپنے لئے حاصل کرلیں بعض اوقات مطلقہ عورت پھر اپنے سابق شوہر سے نکاح پر راضی ہوجاتی ہے مگر عورت کے اولیاء و اقرباء کو طلاق دینے کی وجہ سے ایک قسم کی عداوت اس سے ہوجاتی ہے وہ اب دونوں کے راضی ہونے کے بعد بھی ان کے باہمی نکاح سے مانع ہوتے ہیں، آزاد عورتوں کو اپنی مرضی کی شادی سے بلاعذر شرعی روکنا خواہ پہلے شوہر کی طرف سے ہو یا لڑکی کے اولیاء کی طرف سے بڑا ظلم ہے اس ظلم کا انسداد اس آیت میں فرمایا گیا ہے : اس آیت کا شان نزول بھی ایک ایسا ہی واقعہ ہے، صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت معقل بن یسار نے اپنی بہن کی شادی ایک شخص کے ساتھ کردی تھی اس نے طلاق دے دی اور عدت بھی گذر گئی اس کے بعد یہ شخص اپنے فعل پر پشیمان ہوا اور چاہا کہ دوبارہ نکاح کرلیں اس کی بیوی یعنی معقل بن یسار کی بہن بھی اس پر آمادہ ہوگئی لیکن جب اس شخص نے معقل سے اس کا ذکر کیا تو ان کو طلاق دینے پر غصہ تھا انہوں نے کہا کہ میں نے تمہارا اعزاز کیا اپنی بہن تمہارے نکاح میں دے دیتم نے اس کی یہ قدر کی کہ اس کو طلاق دے دیاب پھر تم میرے پاس آئے ہو کہ دوبارہ نکاح کروں خدا کی قسم اب وہ تمہارے نکاح میں نہ لوٹے گی۔ اسی طرح ایک واقعہ جابر بن عبداللہ کی چچازاد بہن کا پیش آیا تھا ان واقعات پر آیت مذکورہ نازل ہوئی جس میں معقل بن یسار اور جابر کے اس رویہ کو ناپسند و ناجائز قرار دیا گیا۔ صحابہ کرام (رض) اجمعین اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے سچے عاشق تھے آیت کریمہ کے سنتے ہی معقل بن یسار کا سارا غصہ ٹھنڈا ہوگیا اور خود جاکر اس شخص سے بہن کا دوبارہ نکاح کردیا اور قسم کا کفارہ ادا کیا اسی طرح جابر بن عبداللہ نے بھی تعمیل فرمائی۔ اس آیت کے خطاب میں وہ شوہر بھی داخل ہیں جنہوں نے طلاق دی ہے اور لڑکی کے اولیاء بھی، دونوں کو یہ حکم دیا گیا کہ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بالْمَعْرُوْفِ یعنی مت روکو مطلقہ عورتوں کو اس بات سے کہ وہ اپنے تجویز کئے ہوئے شوہروں سے نکاح کریں خواہ پہلے ہی شوہر ہوں جنہوں نے طلاق دی تھی یا دوسرے لوگ مگر اس کے ساتھ یہ شرط لگا دی گئی اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بالْمَعْرُوْفِ یعنی جب دونوں مرد و عورت شرعی قاعدہ کے مطابق رضامند ہوجائیں تو نکاح سے نہ روکو جس میں اشارہ فرمایا گیا کہ اگر ان دونوں کی رضامندی نہ ہو کوئی کسی پر زور زبردستی کرنا چاہے تو سب کو روکنے کا حق ہے یا رضامندی بھی ہو مگر شرعی قاعدہ کے موافق نہ مثلا بلا نکاح آپس میں میاں بیوی کی طرح رہنے پر رضامند ہوجائیں یا تین طلاقوں کے بعد ناجائز طور پر آپس میں نکاح کرلیں یا ایام عدت میں دوسرے شوہر سے نکاح کا ارادہ ہو تو ہر مسلمان کو بالخصوص ان لوگوں کو جن کا ان مرد و عورت کے ساتھ تعلق ہے روکنے کا حق حاصل ہے بلکہ بقدر اسطاعت روکنا واجب ہے۔ اسی طرح کوئی لڑکی بلا اجازت اپنے اولیاء کے اپنے کفو کے خلاف دوسرے کفو میں نکاح کرنا چاہے یا اپنے مہر مثل سے کم پر نکاح کرنا چاہے جس کا اثر خاندان پر پڑتا ہے جس کا اس کو حق نہیں تو یہ رضا مندی بھی قاعدہ شرعی کے مطابق نہیں اس صورت میں لڑکی کے اولیاء کو اس نکاح سے روکنے کا حق حاصل ہے اِذَا تَرَاضَوْا کے الفاظ سے اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ عاقلہ بالغہ لڑکی بغیر اس کی رضا اجازت کے نہیں ہوسکتا۔ آیت کے آخر میں تین جملے ارشاد فرمائے گئے ایک یہ کہ ذٰلِكَ يُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤ ْمِنُ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ یعنی یہ احکام ان لوگوں کے لئے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اس میں اشارہ فرما دیا گیا کہ اللہ پر اور روز قیامت پر ایمان رکھنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آدمی ان احکام الہیہ کا پورا پابند ہو اور جو لوگ ان احکام کے اتباع میں کوتاہی کرتے ہیں وہ سمجھ لیں کہ ان کے ایمان میں خلل ہے۔ دوسرا جملہ یہ ارشاد فرمایا کہ ذٰلِكُمْ اَزْكٰى لَكُمْ وَاَطْهَرُ یعنی ان احکام کی پابندی تمہارے لئے پاکی اور صفائی کا ذریعہ ہے اس میں اشارہ فرمایا گیا کہ ان کی خلاف ورزی کا نتیجہ گناہوں کی غلاظت میں آلودگی اور فتنہ و فساد ہے کیونکہ عاقلہ بالغہ جوان لڑکیوں کو مطلقاً نکاح سے روکا گیا تو ایک طرف ان پر ظلم اور ان کی حق تلفی ہے اور دوسری طرف ان کی عفت وعصمت کو خطرہ میں ڈالنا ہے تیسرے اگر خدانخواستہ وہ کسی گناہ میں مبتلا ہوں تو اس کا وبال ان لوگوں پر بھی عائد ہوگا جنہوں نے ان کو نکاح سے روکا اور وبال آخرت سے پہلے بہت ممکن ہے کہ ان مجبور عورتوں کا یہ ابتلاء خود مردوں میں جنگ وجدال اور قتل و قتال تک نوبت پہنچا دے جیسا کہ رات دن میں مشاہدہ میں آتا ہے اس صورت میں وبال آخرت سے پہلے ان کا عمل دنیا ہی میں وبال بن جائے گا اور اگر مطلقا نکاح سے تو نہ روکا مگر ان کی پسند کے خلاف دوسرے شخص سے نکاح پر مجبور کیا گیا تو اس کا نتیجہ بھی دائمی مخالف اور فتنہ و فساد یا طلاق وخلع ہوگا جس کے ناگوار اثرات ظاہر ہیں اس لئے فرمایا گیا کہ ان کو ان کے تجویز کئے ہوئے شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکنا ہی تمہارے لئے پاکی اور صفائی کا ذریعہ ہے۔ تیسرا جملہ یہ ارشاد فرمایا کہ واللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ یعنی تمہاری مصلحتوں کو اللہ تعالیٰ جانتے ہیں تم نہیں جانتے۔ اس ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ جو لوگ مطلقہ عورتوں کو نکاح سے روکتے ہیں وہ اپنے نزدیک اس میں کچھ مصالح اور فوائد سوچتے ہیں مثلاً اپنی عزت و غیرت کا تخیل یا یہ کہ ان کی شادی کے بدلے کچھ مالی منفعت حاصل کی جائے اس شیطانی تلبیس اور بےجا مصلحت اندیشی کے ازالہ کے لئے فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مصلحتوں اور فائدوں سے خوب واقف ہیں ان کی رعایت کرکے احکام دیتے ہیں اور تم چونکہ حقائق امور اور معاملات کے انجام سے بیخبر ہو اس لئے اپنے ناتمام غور وفکر اور ناقص رائے سے کبھی ایسی چیزوں کو مصلحت اور فائدہ سمجھ لیتے ہو جس میں تمہاری ہلاکت و بربادی ہے تم جس عزت و غیرت کو تھامتے پھرتے ہو اگر مطلقہ عورتیں بےقابو ہوگئیں تو سب عزت خاک میں مل جائے گی اور مال منافع کے ناجائز تصورات ممکن ہے کہ تمہیں ایسے فتنوں اور جھگڑوں میں مبتلا کردیں جن مال کے ساتھ جان کا بھی خطرہ ہوجائے۔ قانون سازی اور اس کی تنفیذ میں قرآن کریم کا بیظیر حکیمانہ اصول : قرآن کریم نے اس جگہ ایک قانون پیش فرمایا کہ مطلقہ عورتوں کو اپنی مرضی کے مطابق نکاح سے روکنا جرم ہے اس قانون کو بیان فرمانے کے بعد اس پر عمل کرنے کو سہل اور اس کے لئے عوام کے ذہنوں کو ہموار کرنے کے واسطے تین جملے ارشاد فرمائے جن میں سے پہلے جملے میں روز قیامت کے حساب اور جرائم کی سزا سے ڈرا کر انسان کو اس قانون پر عمل کرنے کے لئے آمادہ فرمایا دوسرے جملے میں اس قانون کی پابندی کی خلاف ورزی میں جو مفاسد اور انسانیت کے لئے مضرتیں ہیں ان کو بتلا کر قانون کی پابندی کے لئے تیار کیا۔ تیسرے جملے میں یہ ارشاد فرمایا کہ تمہاری اپنی مصلحت بھی اسی میں ہے کہ خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون کی پابندی کرو اس کے خلاف کرنے میں اگر تم کوئی مصلحت سوچتے ہو تو وہ تمہاری کوتاہ نظری اور عواقب سے بیخبر ی کا نتیجہ ہے۔ قرآن کریم کا یہ اسلوب اور طرز بیان صرف یہیں نہیں بلکہ تمام احکام میں جاری ہے کہ ایک قانون بتایا جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ اور آخرت کے حساب و عذاب سے ڈرایا جاتا ہے، ہر قانون کے آگے پیچھے اِتَّقُوا اللّٰهَ یا اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ، اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ وغیرہ جملے لگائے ہوئے ہیں قرآن ساری دنیا اور قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے ایک مکمل نظام حیات اور ہر شعبہ زندگی پر حاوی قانون ہے اس میں حدود وتعزیرات کا بھی بیان ہے لیکن اس کی ادا ساری دنیا کے قانون کی کتابوں سے نرالی ہے، اس کا طرز بیان حاکمانہ سے زیادہ مربیانہ ہے اس میں ہر قانون کے بیان کے ساتھ اس کی کوشش کی گئی کہ کوئی انسان اس قانون کی خلاف ورزی کرکے مستحق سزا نہ بنے، دنیا کی حکمتوں کی طرح نہیں کہ انہوں نے ایک قانون بنادیا اور شائع کردیا جو کوئی اس قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ اپنی سزا بھگتا ہے۔ اس کے علاوہ اس اسلوب قرآن اور اس کے مخصوص انداز بیان سے ایک دور رس بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کو دیکھنے سننے کے بعد انسان اس قانون کی پابندی صرف اس بناء پر نہیں کرتا کہ اگر خلاف کرے گا تو دنیا میں اس قانون کی پابندی صرف اس بناء پر نہیں کرتا کہ اگر خلاف کرے گا تو دنیا میں اس کو کوئی سزا مل جائے گی بلکہ دنیا کی سزا سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور آخرت کی سزا کی فکر ہوتی ہے اور اسی فکر کی بناء پر اس کا ظاہر و باطن خفیہ وعلانیہ برابر ہوجاتا ہے وہ کسی ایسی جگہ میں بھی قانون کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا جہاں کسی ظاہری یا خفیہ پولیس کی بھی رسائی نہ ہو کیونکہ اس کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ ہر جگہ حاضر وناظر اور ذرہ ذرہ سے باخبر ہیں یہی سبب ہے کہ قرآنی تعلیم نے جو اصول معاشرت تیار کئے تھے ہر مسلمان اس کی پابندی کو اپنا مقصد حیات تصور کرتا تھا۔ قرآنی نظام حکومت کا یہی امتیاز ہے کہ اس میں ایک طرف قانون کی حدود وقیود کا ذکر ہے تو دوسری طرف ترغیب وترہیب کے ذریعہ انسان کی اخلاق و کردار کو ایسا بلند کیا گیا ہے کہ قانون حدود وقیود اس کے لئے ایک طبعی چیز بن جاتی ہیں جس کے سامنے وہ اپنے جذبات اور تمام نفسانی خواہشات کو پس پشت ڈال دیتا ہے دنیا کی حکمتوں اور قوموں کی تاریخ اور ان میں جرم وسزا کے واقعات پر ذرا گہری نظر ڈالئے تو معلوم ہوگا کہ نرے قانون سے بھی کسی قوم یا فرد کی اصلاح نہیں ہوئی محض پولیس اور فوج سے کبھی جرائم کا انسداد نہیں ہوا جب تک قانون کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے خوف و عظمت کا سکہ اس کے قلب پر نہ بیٹھے جرائم سے روکنے والی چیز دراصل خوف خدا اور خوف حساب آخرت ہے یہ نہ ہو تو کوئی شخص کسی سے جرائم کو نہیں چھڑا سکتا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ يُوْعَظُ بِہٖ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝ ٠ ۭ ذٰلِكُمْ اَزْكٰى لَكُمْ وَاَطْہَرُ۝ ٠ ۭ وَاللہُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝ ٢٣٢ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) طلق أصل الطَّلَاقِ : التّخليةُ من الوثاق، يقال : أَطْلَقْتُ البعیرَ من عقاله، وطَلَّقْتُهُ ، وهو طَالِقٌ وطَلِقٌ بلا قيدٍ ، ومنه استعیر : طَلَّقْتُ المرأةَ ، نحو : خلّيتها فهي طَالِقٌ ، أي : مُخَلَّاةٌ عن حبالة النّكاح . قال تعالی: فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق/ 1] ( ط ل ق ) ا لطلاق دراصل اس کے معنی کسی بندھن سے آزاد کرنا کے ہیں ۔ محاورہ الطلقت البعر من عقالہ وطلقۃ میں نے اونٹ کا پائے بند کھول دیا طالق وطلق وہ اونٹ جو مقید نہ ہو اسی سے خلی تھا کی طرح طلقت المرءۃ کا محاورہ مستعار ہے یعنی میں نے اپنی عورت کو نکاح کے بندھن سے آزادکر دیا ایسی عورت کو طائق کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق/ 1] تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو ۔ نِّسَاءُ والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] النساء والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔ عضل العَضَلَة : كلّ لحم صلب في عصب، ورجل عَضِلٌ: مکتنز اللّحم، وعَضَلْتُهُ : شددته بالعضل المتناول من الحیوان، نحو : عصبته، وتجوّز به في كلّ منع شدید، قال : فَلا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْواجَهُنَ [ البقرة/ 232] ، قيل : خطاب للأزواج، وقیل للأولیاء، وعَضَّلَتِ الدّجاجةُ ببیضها، والمرأة بولدها : إذا تعسّر خروجهما تشبيها بها . قال الشاعر : تری الأرض منّا بالفضاء مریضة ... مُعَضَّلَة منّا بجمع عرمرم وداء عُضَال : صعب البرء، والعُضْلَة : الدّاهية المنکرة . ( ع ض ل ) العضلتہ پٹھا جس کے ساتھ سخت گوشت ہو رجل عضل وہ شخص جو گوشت سے گتھا ہوا ہو عضلتہ میں نے اسے عضل یعنی پٹھے کی تانت کے ساتھ باندھ دیا جیسا کہ عصبتہ اس کے بعد مجازا یہ لفظ سختی سے روک دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ فَلا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْواجَهُنَ [ البقرة/ 232] تو ان کو دوسرے شوہروں کے ساتھ نکاح کرنے سے مت روکو ۔ اس ایت تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ اسکے مخاطب ان کے پہلے خاوند ہیں اور بعض نے اولیاء یعنی سر پرست مراد لئے ہیں اور سختی میں عضلتہ کے ساتھ تشبیہ دے کر کہا جاتا ہے عضلت الدجاجتہ ببیضھا مرغی پر انڈہ دینا دشوار ہوگیا عضلت المرءۃ بولدھا ۔ عورت زچہ کی تکلیف میں مبتلاء ہوگئی ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطول ) ( 314 ) تری الارض منا بالفضاء مریضتہ معضلتہ منا ربجمع عر مرم زمین ہمارے لشکر جرار کی وجہ سے اس عورت کی طرح بےچین نظر آتی ہے جو زچگی کے مرض میں مبتلاء ہو ۔ داء عضال لاعلاج مرض جس سے شفایاب ہونا مشکل ہو العضلتہ بڑی مصیبت نكح أصل النِّكَاحُ للعَقْدِ ، ثم استُعِيرَ للجِماع، ومُحالٌ أن يكونَ في الأصلِ للجِمَاعِ ، ثمّ استعیر للعَقْد، لأَنَّ أسماءَ الجِمَاعِ كلَّهَا كِنَايَاتٌ لاسْتِقْبَاحِهِمْ ذكرَهُ كاسْتِقْبَاحِ تَعَاطِيهِ ، ومحال أن يَسْتَعِيرَ منَ لا يَقْصِدُ فحْشاً اسمَ ما يَسْتَفْظِعُونَهُ لما يَسْتَحْسِنُونَهُ. قال تعالی: وَأَنْكِحُوا الْأَيامی [ النور/ 32] ، إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب/ 49] ، فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء/ 25] إلى غير ذلک من الآیات . ( ن ک ح ) اصل میں نکاح بمعنی عقد آتا ہے اور بطور استعارہ جماع کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے یہ ناممکن ہے کہ یہ اصل میں بمعنی جماع ہو اور پھر عقد میں بطور استعارہ استعمال ہوا ہو کیوں کہ عربی زبان میں جماع کے معنی میں تمام الفاظ کنائی ہیں ۔ کیونکہ نفس فعل کی طرح صراحتا اس کا تذکرہ بھی مکروہ سمجھا جاتا ہے لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ زبان ذکر فحش سے اس قدر گریزا ہو وہ ایک مستحن امر کے لئے قبیح لفظ استعمال کرے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَنْكِحُوا الْأَيامی[ النور/ 32] اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو ۔ إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب/ 49] جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء/ 25] تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کرلو ۔ علٰی ہذا لقیاس متعد آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة . ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة/ 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔ رضي يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] ، والرِّضْوَانُ : الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ. ( ر ض و ) رضی ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ، معْرُوفُ : اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران/ 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ لقمان/ 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب/ 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء/ 6] المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران/ 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب/ 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء/ 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ وعظ الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل/ 90] ( و ع ظ ) الوعظ کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل/ 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ زكا ( تزكية) وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس/ 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ، أي : مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله : «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد . وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان : أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی/ 14] . والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه . اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم/ 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی/ 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔ طهر والطَّهَارَةُ ضربان : طَهَارَةُ جسمٍ ، وطَهَارَةُ نفسٍ ، وحمل عليهما عامّة الآیات . يقال : طَهَّرْتُهُ فَطَهُرَ ، وتَطَهَّرَ ، وَاطَّهَّرَ فهو طَاهِرٌ ومُتَطَهِّرٌ. قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة/ 6] ، أي : استعملوا الماء، أو ما يقوم مقامه، قال : وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة/ 222] ، ( ط ھ ر ) طھرت طہارت دو قسم پر ہے ۔ طہارت جسمانی اور طہارت قلبی اور قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے کہا جاتا ہے : ۔ طھرتہ فطھروتطھر واطھر فھو طاھر ومتطھر میں نے اسے پاک کیا چناچہ وہ پاک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة/ 6] اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو نہاکر پاک ہوجایا کرو ۔ یعنی یا جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس کے ذریعہ طہارت کرلیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة/ 222] اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

مطلقہ بیوی سے رجوع کرنے میں نقصان کا ارادہ نہ ہونا قول باری ہے (و اذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او سرحوھن بمعروف، اور جب تم عورتوں کو طلاق دو پھر وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو معروف طریقے سے روک لو یا معروف طریقے سے انہیں رخصت کر دو ) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (بلغن اجلھن) سے مراد حقیقت اجل نہیں جو عدت ہے بلکہ اس سے مراد اس کے خاتمے کے قریب پہنچ جانا ہے کیونکہ حقیقی معنی لینے کی صورت میں اجل کو پہنچ جانے کا مطلب عدت کا گزر جانا ہوگا جبکہ عدت کے گزر جانے کے بعد رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ عدت کو لفظ اجل سے متعدد مقامات پر تعبیر کیا گیا ہے۔ ان میں سے یہ قول باری (فاذا بلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او فارقوھن بمعروف) اس کا معنی بھی وہی ہے جو درج بالا آیت کا ہے۔ اسی طرح قول باری ہے (وا ولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن اور حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔ اسی طرح قول باری ہے (واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلا تعضلوھن اور جب عورتوں کو طلاق دے دو تو انہیں نہ روکو…) نیز فرمایا (ولا تعزموا عقدۃ النکاح حتیٰ یبلغ الکتاب اجلہ اور نکاح کی گرہ کو پختہ نہ کر وجب تک کہ عدت پوری نہ ہوجائے) ان تمام آیات میں جہاں جہاں لفظ اجل ذکر ہوا ہے اس سے مراد عدت ہے جب اللہ تعالیٰ نے اجل کا ذکر اپنے قول (فاذا بلغن اجلھن) میں بھی کیا ہے تو اس سے مراد اجل کا ختم ہوجانا نہیں بلکہ اس کا قرب الاختتام ہونا ہے۔ قرآن مجید اور محاورات میں اس کے بہت سے نظائر موجود ہیں چناچہ ارشاد باری ہے (اذا طلقتم النساء فطلقوھن بعدتھن) اس کا معنی ہے جب تم طلاق کا ارادہ کرو اور طلاق دینے کے قریب پہچ جائو تو عدت پر طلاق دو ۔ اسی طرح ارشاد باری ہے (فاذا اقرات القرآن فاستعذ باللہ جب تم قرآن کی تلاوت کرنے لگو تو استفادہ کرلو) اس کا معنی ہے کہ جب تم قرآن پڑھنے کا ارادہ کرو۔ اسی طرح قول باری ہے (واذا قلتم فاعدلوا۔ جب تم بات کرو تو انصاف کی بات کرو) اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ بات کرنے کے بعد عدل کرو بلکہ بات کرنے سے پہلے یہ عزم کرو کہ انصاف پر مبنی بات کے سوا اور کوئی بات نہیں کریں گے۔ اسی طرح زیر بحث آیت میں بلوغ اجل کا ذکر کر کے اس سے عدت کا قریب الاختتام ہونا مراد لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے معروف طریقے سے بیوی کو روکے رکھنے کا حکم دیتے وقت عدت کے قریب الاختتام ونے کا ذکر کیا ہے حالانکہ معروف طریقے سے بیوی کو روکے رکھنا نکاح کے بقاء کے تمام احوال میں شوہر پر لازم ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ معروف طریقے سے امساک کے ذکر کے ساتھ تسریح یعنی بھلے طریقے سے رخصل کردینے کا بھی ذکر کیا ہے جس کا مفہوم عدت کا اختتام ہے۔ اور پھر دونوں کو امر کے تحت جمع کردیا ہے اور چونکہ تسریح کی صرف ایک حالت ہوتی ہے جو زیادہ عرصے تک باقی نہیں رہتی اس لئے بلوغ اجل یعنی عدت کے قریب الاختتام ہونے والی حالت کو اس کے ساتھ خاص کردیا تاکہ معروف یعنی بھلے طریقے کا تعلق دونوں معاملوں (امساک اور تسریح) کے ساتھ ہوجائے۔ قول باری (فامسکوھن بمعروف) سے مراد عدت گزرنے سے پہلے رجوع کرلینا ہے۔ یہی قول حضرت ابن عباس (رض) ، حسن بصری، مجاہد اور قتادہ سے مروی ہے۔ اب رہا قول باری (او سرحومن بمعروف) تو اس کا معنی یہ ہے کہ طلاق دینے کے بعد اسے چھوڑے رکھے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے۔ اللہ تعالیٰ نے امساک بالمعروف کو مباح کردیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ شوہر اس کے ضروری حقوق ادا کرے جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا، نیز بھلے طریقے سے تسریح کو بھی مباح کردیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ رجوع کے ذریعے اس کی عدت کی مدت کو طویل تر کر کے اسے نقصان پہنچانے کا ارادہ نہ کرے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے (او سرحوھن) کے ذکر کے فوراً بعد (ولا تمسکوھن ضرارا) کے ذکر سے بیان فرمائی ہے۔ اس میں اس تاویل کی بھی گنجائش ہے کہ معروف طریقے سے رخصل کردینے کی شکل یہ ہو تو اسے متاع یعنی سامان وغیرہ دے کر رخصت کرے۔ اس آیت سے نیز قول باری (ذامساک بمعروف او تسریح باحسان) سے کسی نے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر شوہر اتنا مفلوک الحال ہو کہ بیوی کو نان و نفقہ دینے سے بھی عاجز ہو تو ایسی صورت میں ان دونوں کے درمیان علیحدگی واج بہو جاتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شوہر کو دو میں سے ایک بات کا اختیار دیا ہے یا تو معروف طریقے سے اسے اپنی بیوی بنائے رکھے یا پھر بھلے طریقے سے اسے رخصت کر دے اور ظاہر ہے کہ نان و نفقہ مہیا نہ کر سکنا معروف میں داخ ل نہیں ہے اس لئے جب شوہر اس سے عاجز ہوجائے گا تو دوسر یبات یعنی تسریح اس پر لازم آ جائے گی اور حاکم دونوں کو علیحدہ کر دے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جس کسی نے یہ بات کہی اور آیت سے اس پر استدل کیا ہے یہ اس کی جہالت ہے۔ اس لئے کہ ایسا شوہر جو اپنی بیوی کو نان و نفقہ دینے سے عاجز ہو وہ بھی اسے معروف طریقے سے اپنی بیوی بنائے رکھ سکتا ہے کیونکہ وہ اس حالت میں انفاق کا مکلف ہی نہیں ہوتا۔ قول باری ہے (ومن قدر علیہ رزقہ فلیتفق مما اتاہ اللہ لا یکلف اللہ تفسا الا ما اتاھا سیجعل اللہ بعد عسر یسرا۔ جسے اللہ تعالیٰ رزق میں تنگی دے دے تو وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کو مکلف نہیں بناتا مگر صرف اسی چیز کا جو اس نے اسے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ تنگدستی کے بعد فراخی دینے والا ہے ) اس بناء پر کہنا درست نہیں کہ تنگدست شوہر اپنی بیوی کو معروف طریقے سے نہیں سنبھالے ہوئے ہے کیونکہ دراصل معروف طریقے سے نہ رکھنا قابل مذمت ہے اور جو شخص تنگدست ہو اس کا انفاق نہ کرنا قابل مذمت نہیں ہے۔ اگر یہ صورت ہوتی تو پھر اصحاب صفہ اور فقراء صحابہ جو تنگدستی کی بناء پر اپنے اوپر خرچ کرنے سے عاجز تھے چہ جائیکہ اپنی بیویوں پر خرچ کریں سب کے سب معروف طریقے سے اپنی بیویوں کو نہ بسانے والے شمار ہوتے۔ نیز ہمیں یہ معلوم ہے کہ ایسا شوہر جو انفاق کی قدرت رکھتے ہوئے بھی انفاق کے لئے تیار نہ ہو، وہ معروف طریقے سے نہ بسانے والا شمار نہیں ہوتا اور یہ بھی متفقہ مسئلہ ہے کہ ایسی صورت میں بھی وہ بیوی سے علیحدہ کردیئے جانے کا مستحق نہیں ہوتا تو یہ کیسے جائز ہوسکتا کہ انفاق سے عاجز شوہر کی تفریق کے وجوب پر آیت سے استدلال کیا جائے، اور نفاق پر قادر کی تفریق پر استدلال نہ کیا جائے جبکہ عاجز حقیقت میں معروف طریقے سے بیوی کو بسانے والا ہوتا ہے اور قادر بسانے والا نہیں ہوتا۔ اس قول سے استدلال کرنے والے کے استدلال میں تخلف لازم آگیا جس کی وجہ سے اس کا استدلال ہی باطل ہوگا۔ قول باری ہے (ولا تمکوھن ضرارا لتعتدوا اور تم ان کو نقصان پہنچانے کی غرض سے نہ روکو کہ پھر ان پر زیادتی کے مرتکب ہو جائو) اس آیت کی تاویل میں مسروق، سن بصری مجاہد، قتادہ اور ابراہیم نخعی سے منقول ہے کہ اس سے مراد رجوع کے ذریعے اس کی عدت کی مدت کو طویل تو کردینا ہے۔ وہ اس طرح کہ جب اس کی عدت قریب الاختتام ہو تو رجوع کر کے پھر طلاق دے دے تاکہ وہ بےچاری نئے سرے سے عدت شروع کرے اور پھر جب عدت قریب الاختتام ہو تو رجوع کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا کہ بیو کو معروف طریقے سے عقد زوجیت میں رکھے اور عدت کی مدت کو طویل تر بنا کے اسے نقصان نہ پہنچائے۔ قول باری ہے (ومن یفعل ذلک فقد ظلم نفسہ، اور جو شخص ایسا کرے گا وہ اپنے نفس پر ظلم کرے گا) یہ فقرہ اس پر دلالت کر رہا ہے کہ خواہ وہ نقصان پہنچانے کی نیت سے رجوع کرے اس کا رجوع درست ہوجائے گا کیونکہ اگر یہ مفہوم نہ ہوتا تو وہ ظالم قرار نہ دیا جاتا کیونکہ اس صورت میں رجوع کا حکم ثابت نہ ہوتا اور اس کا یہ فعل بیکار جاتا۔ قول باری ہے (ولا تتخذوا آیات اللہ ھزوا اور اللہ کی آیات کو مذاق نہ بنائو) حضرت عمر (رض) اور حضرت ابوالدرداء سے بروایت حسن بصری یہ منقول ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا اور پھر رجوع کرلیتا اور کہتا کہ میں نے مذاق کیا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ اعلان فرما دیا کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی یا غلام آزاد کردیا یا کسی سے نکاح کرلیا اور پھر یہ کہہ دیا کہ میں نے تو مذاق کیا تھا تو اس کے اس عمل کو مذاق پر نہیں بلکہ سنجیدگی اور قصد پر محمول کیا جائے گا۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں (من طلق او حررا و نکح فقال کنت لا عما فھو جاد) ۔ حضرت ابوالدرداء (رض) نے یہ خبر دی کہ آیت کی تاویل یہ ہے اور آیت اس بارے میں نازل ہوئی۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ مذاق اور سنجیدگی دونوں صورتوں میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ یہی حکم رجوع کرنے کا بھی ہے کیونکہ اس کا ذکر امساک یا تسریح کے ذکر کے بعد ہوا ہے اس لئے یہ ان دونوں کی طرف راجع ہوگا نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول سے اس کی تاکید بھی کردی ہے۔ عبدالرحمن بن حبیب نے عطاء بن ابی رباح سے، انہوں نے ابن مالک سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ثلاث جدھن جدوھلن جد الطلاق والنکاح والرجعۃ۔ طلاق، نکاح اور رجعت ایسی تین باتیں ہیں کہ اگر یہ سنجیدگی سے کی جائیں تو ان کا وہی حکم ہے جو اگر مذاق کے طور پر کی جائیں، یعنی دونوں صورتوں میں یہ واقع ہوجاتی ہیں۔ سعید بن المسیب نے حضرت عمر (رض) سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ چار باتیں ایسی ہیں جو اگر کوئی شخص اپنی زبان سے کہہ بیٹھے تو وہ اس پر لازم ہوجاتی ہیں۔ غلام آزاد کرنا، طلاق دینا، نکاح کرنا اور نذر مان لینا۔ جابر نے عبداللہ بن لحی سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے یہ قول نقل کیا ہے کہ ’ دتین باتیں ایسی ہیں کہ ان میں مذاق کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ نکاح، طلاق اور صدقہ۔ “ قاسم بن عبدالرحمن نے حضرت عبداللہ سے روایت کی ہے کہ جب تم کسی سے نکاح کرنے کی بات اپنے منہ سے نکال دو تو پھر خواہ تم نے مذاق سے یہ بات کہی ہے یا سنجیدگی سے دونوں کا حکم یکساں ہوگا یعنی دونوں صورتوں میں اس کا نفاذ ہوجائے گا۔ یہی بات تابعین کی ایک جماعت سے مروی ہے اور ہمیں اس بارے میں فقاء امصار کے کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔ زبردستی کی طلاق یہ بات مکرہ (وہ شخص جسے مجبور کیا جائے) کی دی ہوئی طلاق کے واقع ہوجانے میں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے کہ طلاق کے معاملے میں سنجیدہ اور مذاق کرنے والے دونوں کا حکم یکساں ہے۔ باوجودیکہ دونوں قصد اور ارادے سے یہ بات زبان پر لاتے ہیں دونوں میں صرف اس لحاظ سے فرق ہے کہ ایک کا ارادہ زبان پر لائے ہوئے لفظ کے حکم کو وقاع کرنے کا ہوتا ہے اور دوسرے کا یہ ارادہ نہیں ہوتا تو اس سے معلوم ہوا کہ اس حکم کو دور کرنے میں نیت کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اب مکرہ ایک طرف تو ارادے اور قصد سے طلاق کا لفظ زبان پر لاتا ہے لیکن اس کے حکم کا اسے ارادہ نہیں ہوتا تو اس کی نیت کا فقدان طلاق کے حکم کو دور کرنے میں کوئی اثر نہیں دکھائے گا۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ طلاق واقع ہونے کی شرط یہ کہ مکلف ایسے الفاظ اپنی زبان پر لائے جن سے طلاق واقع ہوجائے۔ واللہ اعلم !

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٣٢) اور جب تم عورتوں کو ایک طلاق یا دو طلاقیں دے دو اور پھر ان کی عدت پوری ہوجائے اور وہ اپنے پہلے شوہروں کے پاس حق مہر اور نئے نکاح کے ساتھ جانا چاہیں تو ان کو اپنے پہلے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو اور (آیت) ” تعضلوھن “۔ ضاد کے کسرہ کے ساتھ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو مت روکو، جب کہ وہ آپس میں مہر اور نکاح کے لیے ساتھ اتفاق کرلیں ان مذکورہ باتوں سے نصیحت کی جاتی ہے اور یہ باتیں تمہارے لیے درستگی کا ذریعہ ہیں اور تمہارے اور ان عورتوں کے دلوں کو بدگمانی اور عدوات سے پاک کرنے والی ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ عورت کو خاوند سے کس قدرت محبت ہے جبکہ تم یہ نہیں جانتے۔ یہ آیت مبارکہ معقل بن یسار مزنی (رض) کے بارے میں اتری ہے انہوں نے اپنی بہن جمیلہ کو ان کے پہلے خاوند عبداللہ بن عاصم (رض) کے پاس حق مہر اور نئے نکاح کے ساتھ جانے سے روکا تھا، اللہ تعالیٰ نے انہیں اس چیز سے روک دیا۔ شان نزول : (آیت ) ” واذا طلقتم النساء “۔ (الخ) امام بخاری (رح) ، ابوداؤد (رح) ترمذی (رح) وغیرہ نے حضرت معقل بن یسار (رض) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے اپنی بہن کی مسلمانوں میں سے ایک شخص کے ساتھ شادی کردی، ان کی بہن اس کے پاس تھیں، اس نے اس کو ایک طلاق رجعی دے دی اور پھر رجوع نہ کیا، تاآنکہ عدت گزر گئی، اس کے بعد ان کی بہن کی چاہت اسی کی طرف ہوئی اور اس کی چاہت ان کی بہن کی طرف ہوئی، غرض کہ اس نے پھر اس سے نکاح کرنے کا پیغام بھیجوا دیا، حضرت معقل (رض) نے غیرت کے جوش میں کہا کہ میں نے اولا تمہیں اس کے ساتھ عزت دی اور پھر اس سے تمہاری شادی کردی مگر تم نے اس کو طلاق دی (اور پھر رجوع نہ کیا) اللہ کی قسم وہ اب تمہارے نکاح میں ہرگز نہیں جاسکتی، اللہ تعالیٰ نے ان دونوں میاں بیوی کی آپس کی خواہش اور حاجت کو پہچان لیا اس نے فورا یہ آیت کریمہ (آیت) ” واذا طلقتم النساء “۔ سے ” لاتعلمون “۔ تک نازل فرمائی، جب حضرت معقل (رض) نے یہ آیت سنی تو فرمایا کہ میرے پروردگار نے اس کی خواہش کو سن لیا، اس کے بعد ان کو بلایا اور فرمایا کہ میں پھر اپنی بہن کو تمہارے نکاح میں دے کر تمہیں عزت دیتا ہوں۔ ابن مردویہ (رض) نے بہت سے طریقوں سے اس روایت کو نقل کیا ہے پھر بعد میں سدی (رح) کے ذریعہ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق نازل ہوئی ہے، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کی چچا زاد بہن تھیں، ان کے خاوند نے ان کو طلاق دے دی، اور ان کی عدت بھی پوری ہوگئی، اس کے بعد ان سے پھر شادی کرنے کا ارادہ کیا، حضرت جابر (رض) نے انکار کیا کہ اولا میری چچا زاد بہن کو طلاق دے دی، اور اب پھر اس سے دوسرا نکاح کرنا چاہتا ہے اور ان کی بہن بھی اسی خاوند سے دوبارہ نکاح کرنا چاہتی تھیں، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣٢ (وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بالْمَعْرُوْفِ ط) جو عورت طلاق پا کر اپنی عدت پوری کرچکی ہو وہ آزاد ہے کہ جہاں چاہے اپنی پسند سے نکاح کرلے۔ اس کے اس ارادے میں طلاق دینے والے شوہر یا اس کے خاندان والوں کو کوئی رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق دی اور عدت کے دوران رجوع نہیں کیا تو اب عدت کے بعد عورت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ چاہے تو اسی شوہر سے نکاح ثانی کرسکتی ہے۔ آیت ٢٢٨ کے ذیل میں یہ بات وضاحت کے ساتھ بیان ہوچکی ہے کہ ایک یا دو طلاق کی صورت میں شوہر کو عدت کے دوران رجوع کا حق حاصل ہے۔ لیکن اگر عدت پوری ہوگئی تو اب یہ طلاق رجعی نہیں رہی ‘ طلاق بائن ہوگئی۔ اب شوہر اور بیوی کا جو رشتہ تھا وہ ٹوٹ گیا۔ اب اگر یہ رشتہ پھر سے جوڑنا ہے تو دوبارہ نکاح کرنا ہوگا اور اس میں عورت کی مرضی کو دخل ہے۔ عدت کے اندر اندر رجوع کی صورت میں عورت کی مرضی کو دخل نہیں ہے۔ لیکن عدت کے بعد اب عورت کو اختیار ہے ‘ وہ چاہے تو اسی سابق شوہر سے نکاح ثانی کرلے اور چاہے تو اپنی مرضی سے کسی اور شخص سے نکاح کرلے۔ البتہ طلاق مغلظّ (تیسری طلاق) کے بعد جب تک اس عورت کا نکاح کسی اور مرد سے نہ ہوجائے اور وہ بھی اسے طلاق نہ دے دے ‘ سابق شوہر کے ساتھ اس کا نکاح نہیں ہوسکتا۔ اس آیت میں یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ طلاق بائن کے بعد اگر وہی عورت اور وہی مرد پھر سے نکاح کرنا چاہیں تو اب کسی کو اس میں آڑے نہیں آنا چاہیے۔ عام طور پر عورت کے قریبی رشتے دار اس میں رکاوٹ بنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس شخص نے پہلے بھی تمہیں ستایا تھا ‘ اب تم پھر اسی سے نکاح کرنا چاہتی ہو ‘ ہم تمہیں ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ (ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط) جن کے اندر ایمان ہی نہیں ہے ان کے لیے تو یہ ساری نصیحت گویا بھینس کے آگے بین بجانا ہے جس سے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ (ذٰلِکُمْ اَزْکٰی لَکُمْ وَاَطْہَرُ ط) (وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ) لہٰذا تم اپنی عقل کو مقدم نہ رکھو ‘ بلکہ اللہ کے احکام کو مقدم رکھو۔ مرد اور عورت دونوں کا خالق وہی ہے ‘ اسے مرد بھی عزیز ہے اور عورت بھی عزیز ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اَلْخَلْقُ عَیَال اللّٰہِ ) (٢٩) یعنی تمام مخلوق اللہ کے کنبے کی مانند ہے۔ لہٰذا اللہ کو تو ہر انسان محبوب ہے ‘ خواہ مرد ہو یا عورت ہو۔ انسان اس کی تخلیق کا شاہکار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا علم بھی کامل ہے ‘ وہ جانتا ہے کہ عورت کے کیا حقوق ہونے چاہئیں اور مرد کے کیا ہونے چاہئیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

256. This is a directive to the relatives of the divorced woman. When a woman is divorced by her husband and he fails to revoke the divorce before the expiry of the waiting period, the relatives of the woman should not try to prevent the couple from re-marrying if they agree to do so. This verse may also be interpreted to mean that if a divorced woman wants to contract marriage with someone other than her former husband after the expiry of the waiting period, the former husband should not obstruct this marriage by making malicious propaganda against the woman he has forsaken. That is an admonition to every one of you who believes in Allah and the Last Day; that is a cleaner and purer way for you. For Allah knows whereas you do not know.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :256 یعنی اگر کسی عورت کو اس کے شوہر نے طلاق دے دی ہو اور زمانہ عدت کے اندر اس سے رجوع نہ کیا ہو ، پھر عدت گزر جانے کے بعد وہ دونوں آپس میں دوبارہ نکاح پر راضی ہوں ، تو عورت کے رشتے داروں کو اس میں مانع نہ ہونا چاہیے ۔ نیز اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو طلاق دے چکا ہو اور عورت عدت کے بعد اس سے آزاد ہو کر کہیں دوسری جگہ اپنا نکاح کرنا چاہتی ہو تو اس سابق شوہر کو ایسی کمینہ حرکت نہ کرنی چاہیے کہ اس کے نکاح میں مانع ہو اور یہ کوشش کرتا پھرے کہ جس عورت کو اس نے چھوڑا ہے ، اسے کوئی نکاح میں لانا قبول نہ کرے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

153: بعض مرتبہ طلاق اور اس کی عدت گذرنے کے بعد میاں بیوی کو سبق مل جاتا اور وہ از سر نو نئی زندگی شروع کرنے کے لیے آپس میں دوبارہ نکاح کرنا چاہتے تھے، چونکہ طلاقیں تین نہیں ہوئی ہوتی تھیں، اس لیے شرعاً نیا نکاح جائز بھی تھا اور عورت بھی اس پر راضی ہوتی تھی، لیکن عورت کے میکے والے خود ساختہ غیرت کی بنا پر اسے اپنے پہلے شوہر سے نکاح کرنے سے روکتے تھے۔ یہ آیت اس غلط رسم کو ناجائز قرار دے رہی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

بخاری ‘ داؤد ‘ ابن ماجہ اور ترمذی میں معقل بن یسار (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بہن کا ایک شخص سے نکاح کردیا کچھ دنوں تو وہ میاں بی بی اچھی طرح سے ساتھ رہے پھر وہ کہتے ہیں کہ اس شخص نے میری بہن کو طلاق دے دی اور عدت کے اندر اس نے رجوع بھی نہیں کیا جب عدت گذرچ کی تو کئی اور جگہ سے بھی اس کے نکاح کا پیام آیا اور اس میرے بہنوئی نے بھی پھر پیام نکاح کا بھیجا میں نے اس اپنے بہنوئی کو برا بھلا کہا اور یہ قسم کھالی کہ اب میں دوبارہ اس سے اپنی بہن کا نکاح ہرگز نہیں کروں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ٣۔ بعض مفسروں نے یہ جو کہا ہے کہ جابر بن عبد اللہ انصاری (رض) کے چچا کی بیٹی بہن کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ہے شاید ان کا مطلب یہ ہے کہ اس معاملہ پر بھی اس آیت کا مضمون صادق آتا ہے ورنہ پہلے شان نزول کی روایت بہت صحیح ہے ترمذی نے اس حدیث کی صحت کی ہے۔ آیت میں عورت کے رشتہ داروں کو اس بات سے روکا گیا ہے کہ طلاق کی عدت گذر جانے کے بعد وہ عورت کو پہلے خاوند سے نکاح کرنے سے منع کرتے تھے اس سے معلوم ہوا کہ عورت اپنا نکاح خود نہیں کرسکتی جو عورت اپنا نکاح کر لیوے اس کو آپ نے بدکار فرمایا ہے اس باب میں چند روایتیں ہیں جس کے سبب سے ایک روایت سے دوسری کو تقویت ہوجاتی ہے ١۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:232) واذا طلقتم ۔۔ بالمعروف میں واذا ۔۔ اجلھن۔ جملہ شرطیہ ہے اور فلا تعضلوھن ۔۔ ازواجھن۔ جواب شرط ۔ اذا تراضوا میں اذا ظرف زمان ہے۔ بمعنی جب کہ۔ لا یعضلوھن۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر۔ عضل (باب نصر) مصدر سے۔ جس کے معنی عضلہ (پٹھا) پکڑ کر باندھ دینا۔ یا دوسرے الفاظ میں سختی سے روک دینا۔ ضمیر فاعل جمع مذکر حاضر یا تو پہلے خاوندوں کے لئے ہے یا عورتوں کے سرپرستوں کے لئے۔ ھن ضمیر مفعول جمع مؤنث غائب۔ جس کا مرجع وہ عورتیں جن کو دوبارہ طالق دی جا چکی ہو۔ یعنی وہ عورتیں جن کو دوبارہ طلاق دی جاچکی ہو ان کو اپنے خاوندوں سے (اس سے مراد ان کے پہلے خاوند ہیں یا نئے خاوند ہیں جن سے وہ نکاح کرنا چاہیں) نکاح کرنے سے مت روکو۔ ان ینکحن۔ میں ان مصدریہ ہے ینکحن مضارع جمع مؤنث غائب نکاح مصدر کہ وہ عورتیں نکاح کریں یا نکاح کرلیں۔ تراضوا۔ ماضی جمع مذکر غائب تراضی (تفاعل) مصدر۔ وہ آپس میں راضی ہوئے یعنی وہ مطلقہ عورتیں اور ان کے خاوند پہلے یا نئے جن سے وہ نکاح کرنے پر باہمی رضا مند ہوں۔ بالمعروف۔ معروف کے معانی ہیں۔ جانی پہچانی چیز۔ قانون۔ قاعدہ ، دستور ، حسن معاملہ، حسن معاشرت اچھا طریق۔ ذلک۔ یہ ۔ اشارہ اس طرف ہے جو عورتوں کو روکنے سے پرہیز کرنا۔ اور باہم رضا مندی کا خیال رکھنا۔ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ یوعظ بہ۔ یؤعظ۔ مجارع مجہول واحد مذکر غائب۔ وعظ (باب ضرب) مصدر سے وہ نصیحت کیا جاتا ہے۔ بہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب ذلک کی طرف راجع ہے۔ من کان منکم یؤمن باللہ والیوم الاخر۔ یہ جملہ اپنی تمام تاویلات صرفی و نحوی کے یوعظ کا مفعول مالم یسم فاعلہ ہے۔ تم میں سے وہ شخص جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔ ذلکم۔ یہ۔ یہی۔ ذا۔ اسم اشارہ بعید کے لئے آتا ہے۔ کم حرف خطان ہے اور اسی لئے مخاطب کے حالات کے اعتبار سے تذکیر۔ تانیث۔ تثنیہ۔ جمع میں بدلتا رہتا ہے۔ ازکی۔ افعل التفضیل کا صیغہ ہے زیادہ پاک و پاکیزہ۔ اعظم برکۃ ونفعا۔ برکت اور نفع میں بڑھ کر۔ اطھر۔ افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ زیادہ پاک۔ زیادہ پاکیزہ۔ بھارۃ (باب نصر) مصدر۔ پاک ہونا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 232 235 اسرارو معارف واذطلقتم النسائ…………ان اللہ غفور رحیم مطلقہ عورتوں کے ساتھ بعد از طلاق کیا سلوک کیا جائے ؟ تو ارشاد ہوتا ہے کہ نہ تو عورت طلاق ہوجانے کے بعد اس قدر مجبور وبیکس ہوتی ہے کہ اس کی رائے کی کوئی اہمیت نہ دی جائے اور نہ اس کے ساتھ کوئی ایسی نحوست وابستہ ہوتی ہے ، جسے اہل خاندان بوجھ خیال کریں بلکہ وہ بحیثیت انسان وہی پہلے والا انسان ہے اس کی اپنی عزت نفس ہے اگر کسی سے مزاج نہ مل سکا اور طلاق ہوگئی تو صرف اس وجہ سے اس کی عزت نفس ضائع نہیں ہوجاتی۔ بلکہ بعد از طلاق جب عدت پوری کرچکے تو نہ پہلے شوہر کو حق ہے کہ اسے نکاح ثانی سے روکے اور نہ ورثاء کو۔ اگر پہلے ہی شوہر سے دوبارہ نکاح کرنا ہے تو ورثاء محض ناراضگی کی وجہ سے درمیان میں رکاوٹ نہ بنیں۔ ہاں ! دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے ایک تو دونوں کی باہمی رضامندی اور دوسرے شرعی جواز۔ اذاتراضوا بینھم بالمعروف۔ بالمعروف سے یہی مراد ہے کہ کسی فریق پر زبردستی نہ کی جائے نہ مجبور کیا جائے اور نہ عورت پر کوئی دبائو ڈالا جائے۔ وہ اپن رض اور غبت سے آمادہ ہوں پھر ان کی رضامندی کا شرعی طور پر جائز ہونا بھی ضروری ہے مثلاً پہلے خاوند سے ہی اگر نکاح کرنا چاہے تو طلاق رجعی ہوئی ہو۔ ورنہ تین طلاقوں کے بعد وہ آپس میں نکاح نہیں کرسکتے یا کسی دوسرے مرد کے ساتھ اگر راضی ہو تو شرعی قاعدے کے مطابق مثلاً جیسا آج یورپ کا رواج ہے کہ اگر کوئی بغیر نکاح ہی رہنا چاہے کہ نکاح تو پہلے کرکے دیکھ لیا۔ اب ایسے ہی مل کر رہیں گے جب تک طبیعت نے چاہا مل کر رہیں گے ورنہ نہیں ، تو پھر روکنا واجب ہوجائے گا۔ یا عدت پوری ہونے سے پہلے نکاح کرنا چاہے مگر شرعاً جائز نہ ہو تو پھر روکنا ضروری ہے۔ بالعموم تمام مسلمانوں کو اور خصوصاً ورثاء کو بقدر استطاعت روکنا واجب ہے۔ ہاں ! محض اپنی فرض کردہ عزت یا غیرت کے خلاف جان کر روکنا یا کسی لالچ وغیرہ کی وجہ سے کہ کہیں سے روپے مل جائیں گے تو وہاں نکاح کردیں گے یا اسی طرح کی نامناسب باتیں سوچ کر اسے شرعی حق سے محروم کرنا مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ مومن کی نگاہ اس دارفانی کی جھوٹی روایات سے بہت بلند ہوتی ہے۔ اسی لئے ارشاد ہے کہ اللہ یہ نصیحت ان کے لئے ارشاد فرمارہا ہے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں جن کے نزدیک حق وہ ہے جو اللہ نے مقرر کردیا اور عزت وہ ہے جو میدان حشر میں بھی معزز کردے۔ یہ تو وہ جذبہ ایمانی ہے جو خلاف حق روکنے کی ہمت دلاتا ہے اور کسی کا حق غصب نہ کرنے کی ترغیب بھی کہ بغیر کسی خارجی دبائو کے انسان اپنی پسند سے اور اللہ کی رضا کے حصول کی خاطر نیکی کو اپناتا چلا جائے تو اس کا اثر دونوں جہانوں کی بہتری کا باعث ہوگا اور یقینا ہوگا۔ اگر محض دنیوی مصالح پر نظر کی جائے تو ذالک اذ کی لکم واطھر۔ تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ راہ ہے۔ مثلاً اگر کوئی اپنی کسی مطلقہ یا بیوہ (اگرچہ یہاں ذکر نہیں لیکن بعد عدت اسے بھی تویہی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ اس لئے میں نے ذکر کردیا کہ اختیام عدت کی علت تو مشترک ہے) کے نکاح ثانی کو اپنی شان کے خلاف سمجھ کر رکاوٹ بنے تو ہوسکتا ہے کہ وہ عورت کوئی ایسی غلطی کر بیٹھے جس سے نہ صرف عزت تباہ ہو بلکہ خاندان کی تباہی اور فتنہ و فساد کا سبب بن جائے۔ اسی طرح مال کے لالچ میں روکے اور ممکن ہے مال حاصل کرتے کرتے جان بھی ضائع کر بیٹھے کہ خلاف فطرت جس بات پر بھی کسی کو مجبور کرو گے ، اس کا نتیجہ اچھا نہیں پاسکوں گے اور اللہ کا قانن ہی عین فطرت ہے۔ ایک بات تو اللہ کی عظمت اور سرخروئی ہوئی اس کے ساتھ دنیا کے نظام کا احسن طریق پر چلانے کے لئے بھی اللہ کے قانون کی پابندی ضروری ہے کہ اللہ جانتا ہے اس کا علم کامل ہے ہر چیز کے حقائق سے وہ باخبر ہے اور ہر شے کی فطرت اور ہر شخص کے فطری تقاضوں سے آگاہ ہے۔ رہے تم ، تو تمہارا علم ناقص ہے ، اندازے ہیں جو کبھی درست اور اکثر غلط ہوتے ہیں تم نہیں جانتے۔ رضاعت کا عرصہ : مرد وعورت کے تعلقات میں اولاد کا ذکر نہ کرنا گویا ان تعلقات کو ادھورا بیان کرنا ہے چناچہ اللہ کریم اولاد کے لئے بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ اصولاً ماں کے ذمہ ہے کہ اولاد کو دو سال تک دودھ پلائے بغیر عذر شرعی کے۔ محض شوہر سے ناچاقی یا ناراضگی کے دودھ نہ پلائے تو گناہگار ہوگی۔ یہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ دودھ پلانے کی مدت دو سال ہے۔ ہاں ! احکام رضاعت ثابت کرنے کے لئے امام اعظم (رح) کے نزدیک دوسری آیہ کریمہ وحملہ وفصالہ ثلثون شھرا۔ دلیل ہے کہ اگر اڑھائی سال دودھ پلادیا تو یہ ثابت ہوجائے گا اور اسی بناء پر علما نے فرمایا ہے کہ اگر بچے کی کمزوری وغیرہ کے عذر سے اڑھائی سال بھی پلادیا تو جائز ہے مگر اس کے بعد ماں کا دودھ پلانا باتفاق حرام ہے۔ نیز مدت رضاعت میں دودھ پلانا ماں کا اپنا فرض ہے اس لئے شوہر سے اس کی اجرت طلب نہیں کرسکتی۔ مگر ساتھ ہی ارشاد ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق عورت یعنی ماں کا نان نفقہ کھانا اور لباس بچے کے باپ کے ذمے ہے جیسے راضی خوشی ہنستے بستے گھر میں ہوتا ہے۔ اگر ناچاقی اور طلاق بھی ہوجائے تو مدت رضاعت میں بچہ کو متاثر نہ ہونے دیا جائے ، ماں برضا ورغبت دودھ پلائے اور باپ پوری دیانت داری سے اس کی کفالت کرے کہ بعد اگر عورت باقاعدہ معاوضہ طلب کرے تو جائز ہے مگر شرط یہ ہے کہ اتنا ہی مانگے جتنا کوئی دوسری عورت لے گی۔ ورنہ پھر باپ کو حق ہوگا کہ بچہ لے کر اسے دوسری عورت سے دودھ پلوانے کا اہتمام کرے اور اس میں دونوں طرف کے حقوق کی نگہداشت ضروری ہے مثلاً بلا عذر اگر ماں کا انکار کرنا مناسب نہیں تو کسی عذر کی وجہ سے اگر وہ دودھ نہ پلاسکے تو باپ یا مرد کو بھی حق حاصل نہیں کہ اسے مجبور کرے۔ یعنی ایک حسن معاشرت ہے کہ بچہ ، ماں اور باپ تین فریق متاثر ہیں۔ تینوں کی بہتری کو مدنظر رکھا جائے۔ وعلی الوارث مثل ذالک یعنی اگر باپ فوت ہوجائے تو جن کی وراثت پہنچتی ہے وہ لوگ اپنی حیثیت کے مطابق بقدر میراث اس اہتمام کے ذمہ دار ہوں گے۔ امام صاحب (رح) نے یہیں سے ثابت فرمایا ہے کہ جب دودھ پلانے کا اہتمام ان کے ذمہ تو دودھ چھڑانے کے بعد بچے کا خرچہ بلوغت تک وارثوں کے ذمہ ہے کہ محض دودھ پلانا مقصد نہیں مقصد بچے کا گزارہ ہے۔ مثلاً یتیم کا دادا اور اس کی ماں زندہ ہیں تو یہ وارث ہیں۔ ایک تہائی کی ماں اور دو تہائی کا دادا۔ تو اسی نسبت سے بچے کا نفقہ بھی ان کے ذمہ ہے اور ان پر واجب ہے۔ اسی طرح دادا کو حق حاصل ہے کہ یتیم پوتے کے لئے اپنی میراث میں وصیت کر جائے خواہ بیٹوں کے حصہ سے بھی زیادہ کردے۔ کہ اصول وراثت کی رو سے تو وہ میراث نہ پاسکے گا کہ بیٹوں کے ہوتے ہوئے پوتا وارث نہیں ہوسکتا کہ قریب تر کے ہوتے ہوئے بعید وارث نہیں ہوسکتا تو اس طرح اصول وراثت بھی مجروح نہ ہوا اور پوتا بھی محروم نہ ہوا۔ اب دوسری صورت کہ اگر میاں بیوی آپس میں رضامندی سے دو سال سے پہلے دودھ چھڑانا چاہیں ، خواہ ماں کی بیماری یا بچے کی صحت وغیرہ کسی بھی وجہ سے تو جائز ہے اور اگر ورہ چاہیں کہ بچے کو کسی دایہ کا دودھ پلوائیں تو کوئی حرج نہیں مگر شرط یہ ہے کہ دودھ پلانے والی سے اجرت طے کرلی جائے اور بروقت پوری پوری ادا کردی جائے۔ یہ باہمی رضامندی کی شرط غالباً اس لئے ہے کہ بچے کی بہتری پیش نظر رہے اور والدین کے ذمہ ہے کہ اس کی بہتر پرورش کریں۔ واتقو اللہ یعنی ایک معصوم جان سے کھیلنے کی جرات نہ کرو کہ عورت مرد کو تنگ کرنے کے لئے اور مرد عورت کو پریشان کرنے کے لئے بچے کو نشانہ نہ بنائے کہ عورت بلا عذر دودھ پلانے سے انکار کردے یا مرد بلاوجہ بچہ چھین لے یا اور کوئی اس طرح کی حرکت جو ان کی باہمی چپقلش کی وجہ سے بچے کو متاثر کرے تو ان سب امور میں اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کی اطاعت کرتے ہوئے معاملہ احسن طریق پر کرو ، اور یہ یادرکھو کہ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ اب اسی معاملہ کی ایک اور صورت کہ اگر خاوند مرجائے تو عورت کو چار مہینے اور دس دن عدت کے گزارنے ہوں گے دوران عدت عورت کو خوشبو لگانا ، سنگار کرنا ، سرمہ ، تیل یا مہندی وغیرہ یارنگین لباس استعمال کرنا وغیرہ درست نہیں۔ اسی طرح اس کو جائز نہیں کہ رات کو دوسرے گھر میں رہے اور یہی حال اس عورت کا ہے جس پر طلاق بائن واقع ہوئی ہو بلکہ اپنے گھر سے بدن سخت مجبوری کے دن کو بھی نکلنا درست نہیں اور نہ ہی دوران عدت نکاح ثانی کی بات کرے۔ ہاں بعد عدت اگر نکاح کرنا چاہیں تو شریعت کے مطابق ہونا چاہیے۔ اگر شرعاً جائز ہے تو خواہ مخواہ رکاوٹ نہ بنو اور نہ خلاف شریعت کرنے کی اجازت ہی دو ۔ اسی طرح دوران عدت نکاح کا پیغام نہ دو اور نہ وعدہ وعید ہی کرو۔ ہاں ! اگر قاعدے کے مطابق کوئی ایسی بات کہہ دو کہ جس سے یہ ظاہر ہو کہ بعد عدت اگر عورت نے پسند کیا تو میں اس سے شادی کرلوں گا تو جائز ہے مگر وہ بھی کناہتہً اور یہ تو ہرگز نہ کرو کہ خفیہ پیغام دے کر یا ملاقاتیں کرکے شادی کے وعدے کرو۔ دوران عدت یہ سب حرام ہیں۔ ہاں ! بعد عدت شرعی قاعدے کے مطابق کرو اور یادرکھو کہ انسانوں سے تو ممکن ہے تم چھپ کے کرلو۔ اللہ سے نہیں چھپ سکتے وہ تو تمہارے دل کے اندر کی باتوں کو جانتا ہے۔ سو ہر وقت اس سے ڈرتے رہو اور بخشش کی امید رکھو ، اگر کوئی غلطی ہوجائے تو فوراً توبہ کرو کہ وہ غفور ہے اور اگر فوری گرفت نہ ہو تو بےفکر نہ ہوجائو کہ وہ حلیم بھی ہے۔ ہر حال میں اللہ کی اطاعت کو پیش نظر رکھو۔ اسلام کا یہی قاعدہ سب سے زیادہ موثر ہے کہ جہاں حاکم کو نفاذ قانون کا حکم دیتا ہے جہاں تمام مسلمانوں کو قانون سازی کے احترام کے لئے حسب طاقت کوشاں رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ ہاں ہر فرد کو اس کے اور اللہ کے درمیان تعلقات کو بھی یاد دلاتا چلا جاتا ہے کہ حکومت سے آدمی چھپ بھی سکتا ہے معاشرے کی آنکھوں میں دھول جھونک سکتا ہے مگر اللہ سے تو نہ چھپ سکتا ہے اور نہ اپنے ارادوں کو چھپا سکتا ہے پھر صرف دنیا میں اپنا بھرم نہیں رکھنا ، بلکہ میدان حشر میں اپنا حساب بھی پیش کرنا ہے۔ ان سب امور کو مدنظر رکھ کر معاملات کر سرانجام دو !

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 232 لا تعضلوا (تم منع مت کرو) ۔ ان ینکحن (یہ کہ وہ نکاح کریں) ۔ تراضوا (آپس میں رضا مند ہوگئے) ۔ ازکی ( بہت پاکیزگی ہے) ۔ اطھر (زیادہ ستھرائی، صفائی ہے) ۔ تشریح : آیت نمبر 232 جو عورت طلاق پانے کے بعد اپنی عدت پوری کرچکی ہو وہ آزاد ہے۔ دستور اور شریعت کے مطابق وہ جہاں چاہے اپنی پسند اور مرضی سے شادی کرسکتی ہے۔ اس کے اس ارادے میں طلاق دینے والے شوہر یا اس کے خاندان والوں کو کسی طرح کی رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔ عرب میں یہ جہالت عام تھی کہ عورت کو طلاق دینے اور عدت گزر جانے کے بعد بھی طرح طرح سے تنگ کیا جاتا تھا وہ اس بات کو اپنی توہین اور ذلت سمجھتے تھے کہ جو عورت ہمارے خاندان کی بہو بن کر رہ چکی ہے وہ ہم سے جدا ہو کر کسی دوسرے گھر میں کیوں جائے، اس کے لئے وہ طرح طرح کی سازشیں اور رکاوٹیں پیدا کرتے تھے۔ قرآن کریم میں اہل ایمان کو حکم دیا جا رہا ہے کہ جب ایک عورت کو طلاق ہوچکی اور وہ اپنی عدت بھی مکمل کرچکی ہے اب اگر وہ شریعت کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کسی دوسرے نکاح کرنا چاہتی ہے تو اس میں تم رکاوٹ نہ بنو بلکہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے کا تقاضا یہ ہے کہ تم اس عورت کے معاون و مدد گار بن جاؤ جو پاکیزہ زندگی گزارنے کی خواہش مند ہے۔ اسی میں معاشرہ کی پاکیزگی ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اس آیت میں روکنے کی سب صورتیں داخل ہیں اور ہر صورت میں روکنے کو منع فرمایا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اس سے پہلے طلاق رجعی کا بیان جاری ہے کہ جس عورت کو طلاق رجعی دی جائے اور وہ اپنی عدت گزارلے تو کسی دوسرے کے ساتھ نکاح کرنے میں سابقہ خاوند رکاوٹ نہ بنے۔ یہاں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ طلاق رجعی کی صورت میں اگر مطلقہ عورت کی عدت گزرجائے اب میاں بیوی آپس میں اچھے انداز میں رہنے کا عزم کرتے ہوئے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو ولی کو بھی اس نکاح میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے شخص کے لیے نصیحت ہے جو حقیقتاً دل کی گہرائیوں سے اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہے۔ فرمایا یہی صورت تمہارے لیے مناسب اور بہتر ہے۔ کیونکہ انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا بھالا ہوا ہے اور وہ ایک عرصہ اکٹھے رہے ہیں اور اولاد ہونے کی صورت میں تو نہایت ہی مستحسن فیصلہ ہوگا۔ خاص کر جب انہوں نے ماضی کی تلافی اور آئندہ اچھے انداز سے رہنے کا عہد کرلیا ہو تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ کوئی دوسرا راستہ تلاش کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے جب کہ لوگوں کو حالات کا کماحقہ علم نہیں ہوتا۔ لہٰذا ایسی عورتوں کو اپنے خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے ہرگز نہیں روکنا چاہیے۔ جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں اس قسم کا واقعہ پیش آیا : (عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ (رض) أَنَّہٗ زَوَّجَ أُخْتَہٗ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَکَانَتْ عِنْدَہٗ مَاکَانَتْ ثُمَّ طَلَّقَھَا تَطْلِیْقَۃًلَمْ یُرَاجِعْھَا حَتَّی انْقَضَّتِ الْعِدَّۃُ فَھَوِیَھَا وَھَوِیَتْہُ ثُمَّ خَطَبَھَا مََعَ الْخُطَّابِ فَقَالَ لَہٗ یَا لُکَعْ أَکْرَمْتُکَ بِھَا وَزَوَّجْتُکَھَا فَطَلَّقْتَھَا وَاللّٰہِ لَاتُرَاجِعُ إِلَیْکَ أَبَدًا آخِرُ مَا عَلَیْکَ قَالَ فَعَلِمَ اللّٰہُ حَاجَتَہٗ إِلَیْھَا وَحَاجَتَھَا إِلٰی بَعْلِھَا فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی (وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَھُنَّ ) إِلٰی قَوْلِہٖ (وَأَنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ ) فَلَمَّا سَمِعَھَا مَعْقِلٌ قَالَ سَمْعًا لِّرَبِّیْ وَطَاعَۃً ثُمَّ دَعَاہُ فَقَالَ أُزَوِّجُکَ وَأُکْرِمُکَ ) [ رواہ الترمذی : کتاب التفسیر، باب ومن سورة البقرۃ ] ” حضرت معقل بن یسار (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں مسلمانوں کے ایک آدمی سے اپنی بہن کی شادی کردی وہ اس کے پاس کچھ عرصہ رہی پھر اس کے خاوندنے اسے ایک طلاق دی اور عدت بھی گزر گئی لیکن رجوع نہ کیا۔ پھر میاں بیوی ایک دوسرے کو چاہنے لگے اس آدمی نے نکاح کے لیے آدمی بھیجا تو معقل بن یسار (رض) نے کہا ‘ کمینے ! میں نے تیری عزت کرتے ہوئے اس کے ساتھ شادی کی اور تو نے اسے طلاق دے دی اللہ کی قسم ! اب کبھی بھی یہ تیرے پاس نہیں لوٹے گی یہ آخری باری تھی۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں میاں بیوی کی خواہش کے پیش نظر یہ آیت نازل فرمائی (وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَھُنَّ ) جب معقل بن یسار (رض) نے یہ آیت سنی تو فرمایا کہ میں نے اپنے رب کی بات کو سنا اور مان لیا۔ پھر انہوں نے اس آدمی کو بلایا اور کہا میں تیرا نکاح بھی کرتا ہوں اور عزت بھی۔ “ تاہم عقد ثانی کی صورت میں اگر عورت چاہے تو وہ نیا حق مہر اور شرائط مقرر کرسکتی ہے کیونکہ پہلا نکاح ختم ہوجانے کی وجہ سے دوسرے نکاح کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مسائل ١۔ عدّت پوری ہونے کے بعد عورتیں اپنے خاوندوں سے نکاح کرنا چاہیں تو انھیں روکنا نہیں چاہیے۔ ٢۔ نصیحت اس شخص پر اثر انداز ہوتی ہے جو اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے جبکہ لوگ بہت کمعلم رکھتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ ١۔ اللہ دلوں کے راز جانتا ہے۔ (ہود : ٥) ٢۔ جوا للہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ (البقرہ : ٢١٦) ٣۔ اللہ کا علم فرشتے بھی نہیں جانتے۔ (البقرہ : ٣٠) ٤۔ ہر گرنے والا پتا اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ (الانعام : ٥٩) ٥۔ اللہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے۔ (المومن : ١٩) ٦۔ اللہ خشکی اور تری کی پوشیدہ چیزوں سے واقف ہے۔ (الانعام : ٥٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

پھر مزید یہ کہ اگر ایک بیچاری کو تم نے طلاق دے دی ہے ، اپنی رفاقت کے لائق نہیں سمجھا تو اسے پابند نہ بناؤ ۔ اگر وہ عدت پوری کردیتی ہے تو اب اسے ہر طرح سے ، ہر طرف سے آزاد چھوڑ دو ۔ اگر وہ اس سابق خاوند کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا چاہتی ہے اور دونوں اس پر راضی ہوگئے ہیں تو تم اسے اپنی عزت کا مسئلہ نہ بناؤ اور اسے ایسا کرنے دو وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ” اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں ، تو پھر اس میں مانع نہ ہو ، کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کرلیں ، جبکہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں۔ “ ترمذی میں معقل بن یسار سے روایت ہے کہ اس نے اپنی بہن کا نکاح مسلمانوں میں سے کسی سے کرادیا تھا۔ وہ اس کے پاس کچھ عرصہ رہی پھر اس نے اسے ایک طلاق دے دی لیکن رجوع نہ کیا اور عدت ختم ہوگئی ۔ اس کے بعد وہ اسے چاہنے لگا اور عورت اسے چاہنے لگی ۔ اب دوسرے پیغام دینے والوں کے ساتھ اس نے بھی دوبارہ اس کا پیغام دیا ۔ اس پر معقل نے اسے کہا : اے ذلیل بن ذلیل ، میں نے تجھے اپنی بہن دے کر تمہیں اعزاز بخشا ، تجھے نکاح کرکے دے دی لیکن تو نے اسے ناحق طلاق دے دی ۔ اللہ کی قسم ! اب وہ کبھی تمہارے پاس نہ لوٹے گی۔ اور قیامت تک ، معقل کہتا ہے : اللہ کو اس بات کا علم تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں اس لئے یہ آیات نازل ہوئیں وَإِذَا طَلَّقْتُمُ................ لا تَعْلَمُونَجب معقل نے سنا کہ یہ آیات نازل ہوگئی ہیں تو اس نے کہا : میرا رب سنتا ہے ۔ میں مطیع فرمان ہو۔ اس کے بعد اس نے اس شخص کو بلایا اور کہا کہ میں تمہیں اپنی بہن نکاح کرکے دیتا ہوں اور میں تمہارا احترام کرتا ہوں۔ اللہ نے جان لیا کہ میاں بیوی دونوں صدق دل سے ازدواجی زندگی کا آغاز کرنا چاہتے ہیں ۔ اور ایک دوسرے کی طرف مائل ہیں ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فوراً ہمدردانہ انداز میں ان کی خواہش کو قبول کرلیا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں پر کس قدر شفقت و رحمت ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں کے ساتھ کس نرمی چاہتا ہے ۔ جماعت مسلمہ کو کس قدر تربیت دی جارہی ہے ۔ اسلامی نظام زندگی کے زیر سایہ وہ مہذب انسان بن رہے ہیں اور اسلامی نظام کے زیر سایہ ان پر ربانی عنایات کی بارش ہورہی ہے ۔ زندگی کے پر موڑ پر ان کی بہترین راہنمائی کی جارہی ہے ۔ اس ممانعت اور تنبیہ کے بعد اب مسلمانوں کے ضمیر اور ان کے وجدان کو جگایا جارہا ہے ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ ” تمہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگز نہ کرنا ، اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان لانے والے ہو ، تمہارے لئے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ “ اللہ و رسول پر ایمان ہی وہ عامل ہے جس کی وجہ سے یہ نصیحت دلوں کی تہوں تک پہنچ جاتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب یہ دل اس دنیا سے زیادہ تر وسیع دنیا یعنی دار آخرت سے معلق ہوں۔ جب دلوں کی پسند وناپسند اللہ کی رضا کے تابع ہوجاتی ہے ۔ جب دلوں میں یہ شعور پیدا ہوجاتا ہے کہ اللہ ، جو طرزعمل اختیار کرنے کی ہدایت کرتا ہے ، وہی اعلیٰ ہوتا ہے ، وہی شائستہ ہوتا ہے اور وہی پاکیزہ ہوتا ہے لہٰذا اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ اسے اپنائیں اور پاکیزگی اور شائستگی اختیار کریں ، اپنے لئے بھی اور اپنے پورے معاشرے کے لئے بھی ۔ آخر میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جو ذات تمہارے لئے لائحہ عمل کا انتخاب کرتی ہے ، وہ ذات وہ ہے ، جو سب کچھ جانتی ہے لہٰذا تمہارا فرض ہے کہ تسلیم ورضا کی حالت میں اس کی ہر بات پر لبیک کہو۔ یو اللہ تعالیٰ عائلی زندگی کے ان چھوٹے چھوٹے معاملات کو بلند کرکے عبادت کے مقام تک پہنچادیتے ہیں ۔ ان معاملات کا تعلق بھی اللہ کی رسی سے ہوجاتا ہے۔ ان کو زمین کی آلودگیوں سے پاک کردیا جاتا ہے ۔ زندگی کی گندگیوں سے صاف کردیا جاتا ہے اور یہ معاملات اب محض دنیاوی کھینچاتانی یا محض خاندانی اور معاشرتی کشمکش نہیں رہتے جو بالعموم طلاق کے وقت ایک فضابن جاتی ہے ، بلکہ ان کو پاک کرکے خدائی تعلیم کے ساتھ وابستہ کردیا جاتا ہے۔ اگلا حکم طلاق کے بعد ، بچے کی پرورش اور دودھ پلانے کے بارے میں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اکثر اوقات محض تکمیل طلاق سے میاں بیوی کے باہمی معاملات ختم نہیں ہوجاتے ۔ اکثر اوقات بچے رہ جاتے ہیں جن کی پرورش میں دونوں نے حصہ لیا ہوتا ہے ۔ جواب بھی دونوں کے لئے باہمی رابطے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ اگر والدین کی باہم نہیں نبھتی تو چھوٹے لوگوں کا قصور کیا ہے ؟ ان کے لئے تو مناسب اور تفصیلی گارنٹی ہونی چاہئے تاکہ وہ عملی زندگی میں قدم رکھنے کے قابل بن سکیں ، ایسی گارنٹی جو سب حالات میں ان کے لئے مفید ہو :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مطلقہ عورتیں سابقہ شوہروں سے نکاح کرنا چاہیں تو اس میں رکاوٹ نہ ڈالیں اس آیت میں عورتوں کے اولیاء اوراقرباء کو ایک خاص نصیحت کی گئی اور وہ یہ کہ جب طلاق کے بعد عورت کی عدت گزر جائے اور وہ اپنے اسی شوہر کے نکاح میں پھرجانا چاہے جس نے طلاق دی تھی تو اس میں رکاوٹ نہ ڈالو، طلاق رجعی کے بعد جب عدت گزر جائے تو یہ طلاق بائن ہوجاتی ہے اور طلاق بائن ہوجانے پر میاں بیوی کی رضا مندی سے آپس میں دو بارہ نکاح ہوسکتا ہے۔ جب دونوں یہ محسوس کریں کہ ہمیں پھر سے زن و شوہر کی طرح رہنا چاہئے اور پھر سے نکاح کرلینے میں مصلحت محسوس کریں تو عورت کے اولیاء و اقرباء رکاوٹ نہ ڈالیں ان کا نکاح آپس میں ہونے دیں۔ البتہ ان دونوں میں آپس میں خیر و خوبی سے اور عمدہ طریقہ پر نباہ کرنے کے جذبات ہونے چاہئیں۔ بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ وقتی جوش میں مرد طلاق دے بیٹھتا ہے اور عورت بھی کبھی غصہ میں طلاق طلب کرلیتی ہے جس سے شوہر کے منہ سے طلاق کے کلمات نکل جاتے ہیں۔ پھر آپس میں پشیمان ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پھر مل بیٹھیں، یعنی دو بارہ نکاح کرلیں۔ جب ایسی صورت حال بن جاتی ہے تو عورت کا باپ یا بھائی یا خاندان کے دوسرے لوگ رکاوٹ ڈالتے ہیں اور اس کو اپنی ہتک عزت سمجھتے ہیں۔ اور بعض مرتبہ رشوت لینے کے پھیر میں ہوتے ہیں اس کے شوہر کو دباتے ہیں تاکہ کچھ مال دینے پر مجبور ہوجائے، ان سب باتوں سے آیت بالا میں منع فرمایا ہے۔ حضرت معقل بن یسار (رض) نے بیان فرمایا کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی۔ میں نے اپنی ایک بہن کا ایک شخص سے نکاح کردیا تھا پھر اس نے اس کو طلاق دے دی۔ جب عدت گزر گئی تو پھر وہ اس سے نکاح کرنے کے لیے پیغام لے کر آگیا میں نے کہا کہ میں نے تجھ سے اس کا نکاح کردیا اور اس کو تیرے ساتھ بھیج دیا اور تیرا اکرام کیا پھر تو نے طلاق دے دی اب تو دو بارہ نکاح کا پیغام لے کر آیا ہے اللہ کی قسم کبھی بھی تیرے پاس نہ جائے گی۔ یہ آدمی مناسب تھا اور عورت چاہتی تھی کہ واپس چلی جائے۔ اللہ جل شانہ نے یہ آیت نازل فرمائی آیت سن کر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اب تو میں ضرور وہی کروں گا جس کا حکم ہوا ہے۔ لہٰذا اپنی قسم کا کفارہ دے دیا اور اسی شخص سے اس کا نکاح کردیا، بعض روایات میں ہے کہ جب آیت سنی تو حضرت معقل بن یسار نے کہا (سَمْعًا لِرَبِّیْ وَطَاعَۃً ) (میں نے اپنے رب کا فرمان سنا اور میں فرمانبر داری کے لیے حاضر ہوں) ۔ (تفسیر درمنثور ص ٢٨٧ ج ١ عن البخاری وابی داؤدو الترمذی والحاکم وغیر ہم) بعض مفسرین نے فرمایا کہ اَزْوَاجَھُنَّ سے پہلے شوہروں کے علاوہ وہ لوگ بھی مراد ہوسکتے ہیں جو پہلے شوہر نہ تھے لیکن طلاق و عدت کے بعد مطلقہ عورتیں بعض مرتبہ بعض مردوں سے رشتہ طے کرلیتی ہیں اور آپس میں دونوں شریعت کے قاعدہ کے مطابق نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوجائے تو عورت کے اولیاء و اقرباء آڑے نہ آئیں اور نہ طلاق دینے والا پہلا شوہر رکاوٹ ڈالے۔ بالمعروف میں یہ بتادیا کہ وہ شرعی قاعدے کے مطابق نکاح کرنا چاہیں تو ان کو نکاح کرنے دیں، البتہ خلاف شرع کوئی بات ہو تو اس سے روکنا واجب ہے۔ عورت کو بھی چاہئے کہ اپنے برابر اور میل کے آدمی سے نکاح کرے اور مہر مثل پر نکاح کرے تاکہ اولیاء کو خفت محسوس نہ ہو اور کسی طرح اعتراض کا موقعہ نہ ملے پھر فرمایا اس میں ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ فرمایا کہ اس حکم کے ماننے میں تمہاری بہت بڑی صفائی اور پاکیز گی ہے کیونکہ اس کی خلاف ورزی میں فتنہ فساد اور گناہوں میں مبتلا ہونے کے مواقع نکل سکتے ہیں اور مرد و عورت کی عفت بھی خطرہ میں پڑ سکتی ہے۔ آخر میں فرمایا (وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ) (کہ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے) بعض لوگ اپنے خیال سے کچھ مصلحتیں سوچتے ہیں لیکن فکر میں خطاء کرتے ہیں غلط بھی سوچتے ہیں۔ دنیا داری کے جذبات سے سوچتے ہیں مرد و عورت کی مصلحتوں پر نظر نہیں رکھتے، اپنے غور و فکر کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابندی کریں، اس نے جو قانون بتایا ہے اس پر چلنے میں خیر ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

مسنگ

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2۔ اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت کے وقت پر پہنچ جائیں یعنی عدت کی معیاد پوری کرلیں تو تم ان کو اس امر سے نہ روکو کہ وہ اپنے تجویز کردہ خاوندوں سے نکاح کرلیں جب کہ وہ عورتیں اور وہ ہونے والے شوہر سب آپس میں شرعی دستور کے موافق رضا مند ہوں اور حکم مذکور کے ذریعہ تم میں سے ہر اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخر ت پر یقین رکھتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی توحید کا اور وقوع قیامت کا معتقد ہو ۔ اس نصیحت پر عمل کرنا اور اس نصیحت کو قبول کرنا بڑی صفائی اور بہت زیادہ پاکیزگی کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے احکام کی مصالح کو جانتا ہے اور تم نہیں جانتے اس لئے اللہ تعالیٰ کے احکام کے مقابلے میں اپنی رائے اور اپنی مصلحت کو ترجیح نہ دیا کرو بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کے حکم پر عمل کیا کرو اور اس کی نصیحت کو قبول کیا کرو۔ ( تیسیر) اس آیت کے نزول کا تعلق بھی اسی قسم کے ایک واقعہ کے ساتھ ہے ۔ معقل بن لیسار کی ہمشیرہ جن کا نام جمیلہ ہے۔ عاصم بن عدی کے نکاح میں تھی ۔ سوئے اتفاق سے ان کے خاوند نے طلاق دے دی ۔ طلاق یا تو بائنہ ہوگی یا رجعی ہوگی تو عدت پوری ہوچکی ہوگی ۔ بہر حال عاصم نے چاہا کہ پھر جمیلہ سے نکاح کرے اس پر معقل بن یسار (رض) نے جمیلہ کو ایسا کرنے سے روگا ۔ اس پر حضرت حق کی جانب سے ایک خاص ضابطہ اور قانون نافذ کیا گیا ۔ نیز زمانہ جاہلیت میں اس قسم کا ایک لغو دستور تھا کہ جب عورت عدت پوری کرنے کے بعد کسی شخص سے نکاح کرنا چاہتی تو عورت کا پہلا شوہر محض عصبیت کی بنا پر مزاحمت کرتا اور عورت کو نکاح نہ کرنے دیتا یا کبھی ایسا ہوتا کہ طلاق بائنہ کے بعد اگر عورت اپنے پہلے ہی خاوند سے نکاح کرنا چاہتی تو عورت کے اولیاء مانع ہوتے کہ ہم پہلے شوہر سے نکاح نہ کرنے دیں گے۔ جیسے معقل بن یسار نے اپنی بہن جمیلہ کو روکا کہ پہلے خاوند سے نکاح نہ کر۔ اسی طرح عورت کی آزادی اور اس کے حق خود ارادیت میں مداخلت ہوتی تھی ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا اس تمہید کی روشنی میں جو ہم نے عرض کی ہے آیت کا مطلب سمجھئے جو حسب ذیل ہے۔ 1۔ تم نے عورت کو طلاق دے دی اور وہ اپنی عدت بھی پوری کرچکی تو اب اسکو اختیار ہے کہ وہ جس شوہر سے چاہے اپنا نکاح کرلے اگر پہلے نے تین طلاقیں دے دی ہوں تو پہلے سے نہیں بلکہ کسی دوسرے سے نکاح کرنا چاہے تو کرلے اور جس سے وہ نکاح کرنا چاہتی ہے وہ عورت اور یہ ہونے والا شوہر باہر قاعدہ شرعیہ کے موافق رضا مند بھی ہوں یعنی عقد صحیح کرنا چاہتے ہوں ۔ مہر بھی مناسب مقرر ہو اور گواہوں کے سامنے نکاح ہو اور حقوق زوجیت کے پورا کرنے کا التزام بھی ہو اور باہم حسن سلوک کے ارادے ۔۔۔ سے نکاح کرتے ہوں تو ایسی حالت میں نہ تو پہلے خاوند کو مزاحمت کا حق ہے کہ وہ یہ کہہ کر عورت کو روکے کہ میں کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرنے دوں گا اور نہ عورت کے اولیاء کو یہ حق ہے کہ وہ مزاحمت کریں گے اور یہ کہہ کر روکیں کہ ہم تو پہلے خاوند سے نکاح نہ کرنے دیں گے۔ 2۔ عضل کے معنی ہیں معنی کرنا ، روکنا ، تنگ کرنا ، یہاں مراد ہے عورتوں کو نکاح سے روکنا۔ 3۔ بعض لوگوں نے طقتم میں مخاطب ازدواج کو ٹھہرایا ہے اور تعضلوہن میں مخاطب اولیاء کو قراردیا ہے، حالانکہ اقعات و حالات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مزاحمت خاوندوں کی جانب سے بھی ہوتی تھی اور اولیاء کی جانب سے بھی ہوتی تھی اور آیت کے عموم کا مقتضا بھی یہی ہے کہ یہ تمام صورتوں کو شامل ہونا چاہئے۔ نیز اس طرح کہ ایک جگہ خطاب خاوندوں کو ہو اور دوسری جگہ خطاب عورت کے اولیاء کو ہو انتشار ضمائر لازم آتا ہے اس لئے مناسب یہ ہے کہ خطاب کو دونوں جگہ عام رکھا جائے جیسا کہ بعض مفسرین نے اس کی تصریح کی ہے اور جیسا ہم نے ترجمہ اور تیسیر میں ا س کا لحاظ رکھا ہے ورنہ تعضلوہن میں خطاب عام رکھنا چاہئے تا کہ ہر مزاحمت کرنے والے کو ممانعت شامل ہو سکے۔ 4۔ البتہ اگر عورت غیر کفو میں نکاح کرے یا عدت پوری ہونے سے قبل کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے یا تین طلاقوں کے بعد پہلے خاوند سے نکاح کرے یا مہر مثل سے کم مہر مقرر کرے تو دلی کو روکنے کا حق ہے اور اگر عورت اپنی ناسمجھی سے ایسا کرے تو ولی کو یہ بھی حق ہے کہ وہ کسی مسلمان حاکم اور قاضی سے نکاح فسخ کرا دے۔ 5۔ اس لئے حضرت حق جل مجدہ ٗ نے تراضوا بینھم کے ساتھ معروف کی قید بیان فرمائی ہے ، تا کہ جو صورتیں معروف کے خلاف ہوں اس میں روکنے کا حق اولیاء کو ہر مسلمان کو باقی رہے گا ۔ مثلاً کوئی عورت بغیر گواہوں کے نکاح کرنے لگے یا کسی ذی رحم محرم سے نکاح کرنے پر آمادہ ہوجائے یا نا بالغہ بدون ولی کی اجازت کے نکاح کرنے لگے تو ایسے نکاح شرعا ً باطل ہیں اور ان کو روکنے کا ہر مسلمان کو حق ہے، خواہ وہ ولی ہو یا غیر ولی ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ نکاح میں کوئی شرعی نقص نہ ہو اور جانبین کی باہمی رغبت ہو اور لڑکی اور لڑکا رضا مند ہوں تو اس میں مزاحمت کرنا اور روکنا موجب فتنہ اور موجب خطرات ہے اسی لئے فرمایا اس سے باز رہو یہ بات تمہارے لئے بہت صفائی اور پاکیزگی کی بات ہے اور کسی معصیت میں مبتلا ہونے سے حفاظت ہے یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں ۔ عام طور پر مسلمان ان تمام نزاکتوں کو سمجھتے ہیں جن کی طر قرآن کریم نے اپنے خاص انداز میں ارشاد فرمایا اور سبحان اللہ کیا خوب ارشاد فرمایا ہے۔ ہم نے ازکی کا ترجمہ صفائی کیا ہے۔ بعض حضرات نے اس کا ترجمہ زیادہ نافع کیا ہے جب کھیتی بڑھتی ہے اور اس میں نموہوتا ہے تو عرب کہتے ہیں ز کا الزاع ۔ اس محاورے سے یہ معنی کئے گئے ہیں ۔ بہر حال صفائی کیا جائے یا نافع کیا جائے مطلب میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اور یہ جو فرمایا کہ جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے ہی لوگ نصیحت کرنے کے اہل ہیں اور ان ہی سے توقع ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نصائح کو قبول کریں گے اور ان سے فائدہ اٹھائیں گے ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ حکم ہے عورتوں کے والیوں کو کہ اسکے نکاح میں اسی کی خوشی رکھیں جہاں وہ راضی ہو وہاں کردیں اگرچہ اپنی نظر میں اور جگہ بہترمعلوم ہو۔ ( موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) نے نہایت اختصار کے ساتھ چند الفاظ فرمائے ہیں اور جو کچھ فرمایا ہے خوب فرمایا ہے عوام کے لئے اتنی ہی ضرورت تھی۔ ( تسہیل)