Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 247

سورة البقرة

وَ قَالَ لَہُمۡ نَبِیُّہُمۡ اِنَّ اللّٰہَ قَدۡ بَعَثَ لَکُمۡ طَالُوۡتَ مَلِکًا ؕ قَالُوۡۤا اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہُ الۡمُلۡکُ عَلَیۡنَا وَ نَحۡنُ اَحَقُّ بِالۡمُلۡکِ مِنۡہُ وَ لَمۡ یُؤۡتَ سَعَۃً مِّنَ الۡمَالِ ؕ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰىہُ عَلَیۡکُمۡ وَ زَادَہٗ بَسۡطَۃً فِی الۡعِلۡمِ وَ الۡجِسۡمِ ؕ وَ اللّٰہُ یُؤۡتِیۡ مُلۡکَہٗ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۴۷﴾

And their prophet said to them, "Indeed, Allah has sent to you Saul as a king." They said, "How can he have kingship over us while we are more worthy of kingship than him and he has not been given any measure of wealth?" He said, "Indeed, Allah has chosen him over you and has increased him abundantly in knowledge and stature. And Allah gives His sovereignty to whom He wills. And Allah is all-Encompassing [in favor] and Knowing."

اور انہیں ان کے نبی نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا دیا ہے تو کہنے لگے بھلا اس کی ہم پر حکومت کیسے ہوسکتی ہے؟ اس سے تو بہت زیادہ حقدار بادشاہت کے ہم ہیں ، اس کو تو مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی ۔ نبی نے فرمایا سنو ، اللہ تعالٰی نے اسی کو تم پر برگزیدہ کیا ہے اور اسے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے بات یہ ہے اللہ جسے چاہے اپنا ملک دے ، اللہ تعالٰی کشادگی والا اور علم والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells; وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ... And their Prophet said to them, "Indeed Allah has appointed Talut (Saul) as a king over you." When the Israelites asked their Prophet to appoint a king over them, he appointed Talut (Saul), who was then a soldier. But, Talut was not a descendant of the house of kings among them, which was exclusively in the offspring of Yahudha (Judah). This is why; ... قَالُوَاْ أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا ... They said, "How can he be a king over us, meaning, how can he be the king for us! ... وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُوْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ... when we are fitter than him for the kingdom, and he has not been given enough wealth, They said that Talut was also poor and did not have the wealth that justifies him being king. Some people stated that Talut used to bring water to the people, while others stated that his profession was dyeing skins. The Jews, thus, disputed with their Prophet while they were supposed to obey him and to say good words to him. ... قَالَ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ ... He (their Prophet) said: "Verily, Allah has chosen him above you. meaning, `Allah chose Talut from amongst you while having better knowledge about him.' Their Prophet stated, "I did not choose Talut to be your king on my own. Rather, Allah has commanded that upon your request." Further: ... وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ... ...and has increased him abundantly in knowledge and stature. meaning, `Talut is more knowledgeable and honorable than you, and stronger and more patient during combat, and has more knowledge of warfare. In short, he has more knowledge and is stronger than you are. The king should have sufficient knowledge, be fair looking and should have a strong soul and body.' He then said: ... وَاللّهُ يُوْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاء ... And Allah grants His kingdom to whom He wills. meaning, Allah Alone is the Supreme Authority Who does what He wills and no one can ask Him about His actions, while they will be asked (about their actions by Him). This is because Allah has perfect knowledge, wisdom and kindness with His creation. Allah said: ... وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ And Allah is All-Sufficient for His creatures' needs, All-Knower. meaning, His favor is encompassing and He grants His mercy to whom He wills. He also knows those who deserve to be kings and those who do not deserve it.

خوئے بدرا بہانہ بسیار مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے کسی کو اپنا بادشاہ بنا دینے کی خواہش اپنے پیغمبر سے کی تو پیغمبر نے بحکم الہ حضرت طالوت کو پیش کیا جو شاہی خاندان سے نہ تھے ، ایک لشکری تھے ، شاہی خاندان یہود کی اولاد تھی اور یہ ان میں سے نہ تھے تو قوم نے اعتراض کیا کہ حقدار بادشاہت کے تو اس سے بہت زیادہ ہم ہیں پھر دوسری بات یہ کہ اس کے پاس مال بھی نہیں ، مفلس شخص ہے ، بعض کہتے ہیں یہ سقے تھے کسی نے کہا یہ دباغ تھے ، پس پہلی سرکشی تو اعتراض کی صورت میں احکام نبوی کے سامنے ان سے یہ ہوئی ، پیغمبر نے انہیں جواب دیا کہ یہ تعین میری رائے سے نہیں جس میں میں دوبارہ غور کر سکوں ، یہ تو اللہ جل شانہ کا حکم ہے جس کی بجا آوری ضروری ہے ، پھر ظاہراً بھی وہ تم میں بڑے عالم ہیں اور قومی اور طاقتور شکیل و جمیل شجاع و بہادر اور لڑائی کے فنون سے پورے واقف کار ہیں ۔ یہاں سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بادشاہ ذی علم شکیل قوی طاقتور بڑے دِل و دماغ والا ہونا چاہئے ۔ پھر فرمایا کہ اصلی اور حقیقی حاکم اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ ملک کا مالک فی الواقع وہی ہے جسے چاہے ملک دے وہ علم و حکمت والا رافت و رحمت والا ہے ۔ اس سے کس کی مجال کہ سوال کرے؟ جو چاہے کرے سب سے سوال کرنے والا کوئی نہ کوئی ہے لیکن پروردگار اس سے مستثنیٰ ہے ، وہ وسیع فضل والا اپنی نعمتوں سے جسے چاہے مخصوص کرے ، وہ علم والا خوب جانتا ہے کون کس چیز کا مستحق ہے اور کسے کس چیز کا استحقاق نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

247۔ 1 حضرت طالوت اس نسل سے نہیں تھے جس سے بنی اسرائیل کے باشاہوں کا سلسلہ چلا آرہا تھا یہ غریب اور ایک عام فوجی تھے جس پر انہوں نے اعتراض کیا پیغمبر نے کہا یہ میرا انتخاب نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں مقرر کیا ہے علاوہ ازیں قیادت کے لئے مال سے زیادہ عقل وعلم اور جسمانی قوت و طاقت کی ضرورت ہے اور طالوت اس میں تم سب میں ممتاز ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں اس منصب کے لئے چن لیا ہے چناچہ اگلی آیت میں ایک اور نشانی کا بیان ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٤٥] چناچہ بنی اسرائیل کے مطالبہ پر اللہ تعالیٰ نے طالوت کو ان کا بادشاہ مقرر کیا جو ایک تیس سالہ جوان، خوبصورت اور قد آور شخص تھا۔ اس پر کئی لوگوں نے یہ اعتراض جڑ دیا کہ && طالوت کے پاس نہ مال و دولت اور نہ شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، بھلا یہ ہمارا بادشاہ کیسے بن سکتا ہے ؟ اس سے تو ہم ہی اچھے اور بادشاہت کے زیادہ حقدار ہیں۔ && اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ قیادت کے لیے مال و دولت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ طالوت میں موجود ہیں اور تم سے بہت زیادہ ہیں۔ لہذا تمہیں فضول قسم کی کٹ حجتیوں سے باز آنا چاہیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ اللّٰهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًا ۭ: ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر فرمایا ہے۔ یہاں غور کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں طالوت کا نام بتادیا، آگے چل کر داؤد (علیہ السلام) کا نام اور دشمنوں کے سردار جالوت کا نام بھی بتادیا، مگر اس نبی کا نام نہیں بتایا۔ یقیناً اس میں کوئی حکمت ہے، جو بظاہر یہ ہے کہ نبی کوئی بھی ہو واجب الاطاعت ہوتا ہے، اس کا نام مشہور ہو یا نہ ہو۔ اس لیے سلامتی اسی میں ہے کہ ہم اس نبی کے نام کی تعیین کا تکلف نہ کریں۔ قَالُوْٓا اَنّٰى يَكُوْنُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا : طالوت کو بادشاہ مقرر کرنے پر سرداروں نے دو اعتراض کیے، ایک تو یہ کہ بادشاہ بننے کا حق ہم اس سے زیادہ رکھتے ہیں، کیونکہ خاندانی طور پر سرداری ہم میں چلی آرہی ہے۔ دوسرا یہ کہ طالوت کوئی سرمایہ دار شخص نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو اب بھی دنیا میں سربراہ بننے کے لیے یہی دو پیمانے جاری ہیں، یا تو وہ کسی سربراہ خاندان سے ہو، یا سرمایہ دار ہو۔ نبی نے دونوں چیزوں کی نفی کرکے انھیں بتایا کہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ طالوت کو اللہ تعالیٰ نے تم پر برتری عطا فرما کر چن لیا ہے، اب اللہ کے انتخاب پر اعتراض کا تمہیں کوئی حق نہیں۔ دوسری یہ کہ حکومت کے لیے خاندان یا سرمایہ کے بجائے علم اور جسمانی قوت کا ہونا ضروری ہے اور یہ دونوں چیزیں طالوت میں تم سب سے زیادہ ہیں۔ تیسری یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی کو بادشاہت عطا کرنے میں کسی کی مرضی کا پابند نہیں، وہ جسے چاہتا ہے سلطنت عطا کردیتا ہے۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ملوکیت فی نفسہٖ کوئی بری چیز نہیں، اگر کوئی بادشاہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر چلے تو صرف بادشاہ ہونے کی بنا پر قابل رد نہیں۔ آپ اسے خلیفہ بھی کہہ سکتے ہیں، جیسا کہ داؤد (علیہ السلام) کے متعلق خلیفہ کا لفظ بھی آیا ہے، فرمایا : (اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ ) [ ص : ٢٦ ] ” بیشک ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔ “ اور یہ بھی کہ (وَاٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ ) [ البقرۃ : ٢٥١ ] ” اور اللہ نے اسے بادشاہی عطا کی۔ “ اس لحاظ سے وہ طالوت کے بعد مَلِک (بادشاہ) بھی تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ لَہُمْ نَبِيُّہُمْ اِنَّ اللہَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًا۝ ٠ ۭ قَالُوْٓا اَنّٰى يَكُوْنُ لَہُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْہُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ۝ ٠ ۭ قَالَ اِنَّ اللہَ اصْطَفٰىہُ عَلَيْكُمْ وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ۝ ٠ ۭ وَاللہُ يُؤْتِيْ مُلْكَہٗ مَنْ يَّشَاۗءُ۝ ٠ ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۝ ٢٤٧ طلت طَالُوتٌ اسمٌ أعجميٌّ. أنى أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران/ 37] ، أي : من أين، وكيف . ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ { أَنَّى لَكِ هَذَا } ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ وُسْعُ : الجدةُ والطّاقةُ ، ويقال : ينفق علی قدر وُسْعِهِ. وأَوْسَعَ فلانٌ: إذا کان له الغنی، وصار ذا سَعَةٍ وسع الشئی اتسع کے معنی کسی چیز کے فراخ ہونا کے ہیں اور لواسع کے معنی تو نگر ی اور طاقت کے بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ مشہور ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرتا ہے ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ اصْطِفَاءُ : تناولُ صَفْوِ الشیءِ ، كما أنّ الاختیار : تناول خيره، والاجتباء : تناول جبایته . واصْطِفَاءُ اللهِ بعضَ عباده قد يكون بإيجاده تعالیٰ إيّاه صَافِياً عن الشّوب الموجود في غيره، وقد يكون باختیاره وبحکمه وإن لم يتعرّ ذلک من الأوّل، قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ [ الحج/ 75] الاصطفا ء کے معنی صاف اور خالص چیز لے لینا کے ہیں جیسا کہ اختیار کے معنی بہتر چیز لے لینا آتے ہیں اور الا جتباء کے معنی جبایتہ یعنی عمدہ چیا منتخب کرلینا آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو چن لینا کبھی بطور ایجاد کے ہوتا ہے یعنی اسے ان اندرونی کثافتوں سے پاک وصاف پیدا کرتا ہے جو دوسروں میں پائی جاتی ہیں اور کبھی بطریق اختیار اور حکم کے ہوتا ہے گو یہ قسم پہلے معنی کے بغیر نہیں پائی جاتی ۔ قرآن میں ہے : اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ [ الحج/ 75] خدا فرشتوں اور انسانوں میں رسول منتخب کرلیتا ہے ۔ زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ بسط بَسْطُ الشیء : نشره وتوسیعه، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] والبِسَاط : الأرض المتسعة وبَسِيط الأرض : مبسوطه، واستعار قوم البسط لکل شيء لا يتصوّر فيه تركيب وتأليف ونظم، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] ، ( ب س ط ) بسط الشئ کے معنی کسی چیز کو پھیلانے اور توسیع کرنے کے ہیں ۔ پھر استعمال میں کبھی دونوں معنی ملحوظ ہوتے ہیں اور کبھی ایک معنی متصور ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے بسط لثوب ( اس نے کپڑا پھیلایا ) اسی سے البساط ہے جو ہر پھیلائی ہوئی چیز پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] اور خدا ہی نے زمین کو تمہارے لئے فراش بنایا ۔ اور بساط کے معنی وسیع زمین کے ہیں اور بسیط الارض کے معنی ہیں کھلی اور کشادہ زمین ۔ ایک گروہ کے نزدیک بسیط کا لفظ بطور استعارہ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جس میں ترکیب و تالیف اور نظم متصور نہ ہوسکے ۔ اور بسط کبھی بمقابلہ قبض آتا ہے ۔ جیسے وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] خدا ہی روزی کو تنگ کرتا ہے اور ( وہی اسے ) کشادہ کرتا ہے ۔ جسم الجسم : ما له طول وعرض وعمق، ولا تخرج أجزاء الجسم عن کو نها أجساما وإن قطع ما قطع، وجزّئ ما قد جزئ . قال اللہ تعالی: وَزادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ [ البقرة/ 247] ، وَإِذا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسامُهُمْ [ المنافقون/ 4] ، تنبيها أن لا وراء الأشباح معنی معتدّ به، والجُسْمَان قيل : هو الشخص، والشخص قد يخرج من کو نه شخصا بتقطیعه وتجزئته بخلاف الجسم . ( ج س م ) الجسم وہ ہے جس میں طول ، عرض اور عمق پا یا جائے اور اجزء جسم خواہ کہتے ہی لطیف کیون نہ ہو اجسام ہی کہلاتے ہیں قرآن میں ہے زادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ [ البقرة/ 247] اس نے اسے علم بھی بہت سا بخشا ہے اور تن و توش بھی ( برا عطا کیا ہے ) اور آیت کریمہ ؛ وَإِذا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسامُهُمْ [ المنافقون/ 4] اور جب تم ان ( کے تناسب اعضاء) کو دیکھتے ہو تو ان کے جسم تمہیں ( کیا ہی ) اچھے معلوم ہوتے ہیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کہ گئی ہے ک بظاہر ان کی شکل و صورت اگرچہ جاذب نظر آتی ہے لیکن ان کے اندر کسی قسم کی صلاحیت نہیں ہے ۔ الجسمان بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی کسی چیز کا شخص کے ہیں لیکن کسی شخص کے اجزاء ضروری نہیں کہ تقطیع اور تجزیہ کے بعد بھی ان کو شخص ہی کہا جائے مگر جسم کے اجزا کو خواہ کتناہی باریک کیون نہ کردیا جائے وہ جسمیں سے خارج نہیں ہوتے ۔ ملك) بادشاه) المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور وَالمِلْكُ ضربان : مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے . اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔ دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (ان اللہ قد بعث لکم طالوت ملکا قالوا انی یکون لہ الملک علینا، (a) بیشک اللہ تعالیٰ نے تم پر طالوت کو بادشاہ بناکر بھیجا ہے۔ کہنے لگے کہ ہم پر اسے کس طرح حکومت حاصل ہوسکتی ہے) آیت اس پر دلالت کررہی ہے کہ امامت میں وراثت نہیں ہے کیونکہ جب یہود نے اپنے اوپر ایسے شخص کو بادشاہ بنائے جانے کو ناپسند کیا جو اہل نبوت اور سلطنت میں سے نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ طالوت علم اور قوت کی بنا پر اس اعزاز کے مستحق ٹھہرے ہیں نسب کی بنا پر نہیں۔ نیز آیت کی اس پر بھی دلالت ہورہی ہے کہ علم اور ذاتی فضائل کے مقابلے میں نسب کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور یہ خوبیاں نسب پر مقدم ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اس نے طالوت کا انتخاب ان کے علم اور قوت کی بنا پر کیا ہے اگرچہ دوسرے یہود ان سے نسب کے لحاظ سے افضل تھے۔ یہاں جسم کا ذکر دراصل طالوت کی جسمانی قوت اور طاقت کی زیادتی سے عبارت ہے کیونکہ عادۃً جس شخص کے جسم میں پھیلائو زیادہ ہوتا ہے اس کی طاقت و قوت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں موٹاپا مراد نہیں کہ جس میں قوت و طاقت کا فقدان ہو اس لئے کہ جنگ کے اندر ایسے جسم کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہوتی بلکہ یہوبال جان ہوتا ہے جبکہ یہ اعلیٰ قوت کا مالک نہ ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٤٧) اور شموئیل (علیہ السلام) نے ان کا کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر طالوت کو بادشاہ بنایا ہے، وہ کہنے لگے ان کو ہم پر حق حکمرانی کیسے حاصل ہوسکتا ہے، وہ شاہی خاندان سے نہیں ہے، اس کی نسبت ہم حکمرانی کے زیادہ مستحق ہیں کیوں کہ ہم شاہی خاندان سے ہیں اور وہ اتنا سرمایہ دار بھی نہیں ہے کہ وہ فوج پر خرچ کرسکے، شموئیل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بادشاہت کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کا انتخاب کیا ہے ان کو جنگ وسیاست میں بڑائی حاصل ہے اور جسمانی طور پر بھی قوت میں وہ تم سے زیادہ ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ اپنی بادشاہت دنیا میں جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے اگر وہ شاہی خاندان سے نہ ہو اور اللہ تعالیٰ وسعت دینے والا ہے اور یہ بات بھی جانتے ہیں کہ کون وسعت اور فراخی کا حقدار ہے، وہ کہنے لگے اس کی بادشاہت اللہ کی جانب سے نہیں بلکہ آپ نے ہم پر اسے بادشاہ متعین کیا ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤٧ (وَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ اِنَّ اللّٰہَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوْتَ مَلِکًا ط) ۔ ان کا نام تورات میں ساؤل (Saul) آیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اصل نام ساؤل ہو ‘ لیکن چونکہ وہ بہت قد آور تھے اس لیے ان کا ایک صفاتی نام یا لقب طالوت ہو۔ طالوت کے معنی لمبے تڑنگے کے ہیں۔ (قَالُوْٓا اَنّٰی یَکُوْنُ لَہُ الْمُلْکُ عَلَیْنَا) (وَنَحْنُ اَحَقُّ بالْمُلْکِ مِنْہُ ) (وَلَمْ یُؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ ط) ۔ وہ تو مفلس ہے ‘ اسے تو اللہ تعالیٰ نے زیادہ دولت بھی نہیں دی ہے۔ کیونکہ ان کے معیارات یہی تھے کہ جو دولت مند ہے وہی صاحب عزت ہے۔ (قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰٹہُ عَلَیْکُمْ ) ۔ یہ فیصلہ ہوچکا ہے۔ یہ اللہ کا فیصلہ ‘ (Divine Decision) ہے ‘ جسے کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ اللہ نے اسی کو تمہاری سرداری کے لیے چنا ہے ۔ (وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ط) ۔ وہ نہ صرف قد آور اور طاقت ور ہے بلکہ اللہ نے اسے علم اور فہم بھی وافر عطا فرمایا ہے ‘ اسے امور جنگ سے بھی واقفیت ہے۔ تمہارے نزدیک عزت اور سرداری کا معیار دولت ہے ‘ مگر اللہ نے اسے ان دو چیزوں کی بنا پر چنا ہے۔ ایک تو وہ جسمانی طور پر مضبوط اور طاقتور ہے۔ اس دور میں ظاہر بات ہے اس کی بہت ضرورت تھی۔ اور دوسرے یہ کہ اسے علم ‘ فہم ‘ سمجھ اور دانش دی ہے۔ (وَاللّٰہُ یُؤْتِیْ مُلْکَہٗ مَنْ یَّشَآءُ ط) ۔ اللہ کو اختیار ہے کہ اپنا ملک جس کو چاہے دے ‘ وہ جسے چاہے اپنی طرف سے اقتداربخشے۔ (وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ) ۔ اس کی وسعت اتھاہ ہے ‘ کوئی اس کا اندازہ نہیں کرسکتا ‘ اور وہ بڑا علم رکھنے والا ہے ‘ سب کچھ جاننے والا ہے۔ وہ جس کو جو کچھ دیتا ہے بربنائے علم دیتا ہے کہ کون اس کا مستحق ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

269. In the Bible he is called Saul. He was a thirty-year-old Benjaminite youth. 'There was not a man among the people of Israel more handsome than he; from his shoulders upward he was taller than any of the people' (1 Samuel 9: 2) . He went out in search of the lost asses of his father. During this search, he passed through the house of Samuel and God informed Samuel that this was the person who had been chosen to govern the people of Israel. Samuel brought Saul to his house, took a vial of oil, poured it on his head,. kissed him and said: 'Has not the Lord anointed you to be the prince over His people of Israel? ' (1 Samuel 10: 1) . Samuel later called the people of Israel together and proclaimed Saul to be their king (1 Samuel 10: 17) . This was the second Israelite to be anointed by God's command to a position of leadership. Earlier, Aaron had been anointed as the chief priest. The third case of anointment was that of David, and the fourth that of Jesus. There is no clear statement in the Qur'an regarding the designation of Talut (the Saul of the Bible) to prophethood. The mere fact of his being appointed a ruler does not necessarily warrant considering him a Prophet as well.

سورة الْبَقَرَ حاشیہ نمبر :269 بائیبل میں اس کا نام ساؤل لکھا ہے ۔ یہ قبیلہ بن یمین کا ایک تیس سالہ نوجوان تھا ۔ ”بنی اسرائیل میں اس سے خوبصورت کوئی شخص نہ تھا اور ایسا قد آور تھا کہ لوگ اس کے کندھے تک آتے تھے ۔ “ اپنے باپ کے گمشدہ گدھے ڈھونڈنے نکلا تھا ۔ راستے میں جب سموئیل نبی کی قیام گاہ کے قریب پہنچا ، تو اللہ تعالیٰ نے نبی کو اشارہ کیا کہ یہی شخص ہے جس کو ہم نے بنی اسرائیل کی بادشاہی کے لیے منتخب کیا ہے ۔ چنانچہ سموئیل نبی اسے اپنے گھر لائے ، تیل کی کپی لے کر اس کے سر پر انڈیلی اور اسے چوما اور کہا کہ ” خداوند نے تجھے مسح کیا تاکہ تو اس کی میراث کا پیشوا ہو ۔ “ اس کے بعد انہوں نے بنی اسرائیل کا اجتماع عام کر کے اس کی بادشاہی کا اعلان کیا ( ۱- سموئیل ، باب ۹ و ۱۰ ) یہ بنی اسرائیل کا دوسرا شخص تھا جس کو خدا کے حکم سے ”مسح“ کر کے پیشوائی کے منصب پر مقرر کیا گیا ۔ اس سے پہلے حضرت ہارون سردار کاہن ( Chief Priest ) کی حیثیت سے مسح کیے گئے تھے ، اس کے بعد تیسرے ممسوح یا مسیح حضرت داؤد علیہ السلام ہوئے ، اور چوتھے مسیح حضرت عیسیٰ علیہ السلام ۔ لیکن طالوت کے متعلق ایسی کوئی تصریح قرآن یا حدیث میں نہیں ہے کہ وہ نبوت کے منصب پر بھی سرفراز ہوا تھا ۔ محض بادشاہی کے لیے نامزد کیا جانا اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ اسے نبی تسلیم کیا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

بنی اسرائیل کی بادشاہی سبط یہود میں چلی آتی تھی طالوت اس خاندان میں کا نہیں تھا ایک فوجی سبط بن یامین کا تھا اور کچھ مال دار بھی نہ تھا اس لئے جب حضرت شمویل نے بادشاہی کے لئے طالوت کا نام لیا تو بنی اسرائیل نے اس پر اعتراض کیا اور اپنے آپ کو ہر ایک خاندان کے لوگوں نے بادشاہی کا مستحق بتلایا کس لئے کہ طالوت بن یامین کے خاندان میں سے تھا یہ اور یہ خاندان بنی اسرائیل کے سب خاندانوں میں گھٹیا کہلاتا تھا۔ حضرت شمویل نے ان کے اعتراض کا جواب دیا کہ بادشاہی کے لئے طالوت کا انتخاب میں نے اپنی طرف سے نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ انتخاب ہوا ہے اس لئے کہ طالوت بہ نسبت تم لوگوں کے عقل اور قدو قامت میں بڑھ کر ہے نبی نے یہ اس سبب سے کہا کہ فوجی آدمی ہونے کے باعث سے طالوت جنگ آزمودہ تھا جس سے لڑائی کے انتظام کی عقل و تدبیر اس کی بڑھی ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے قدو قامت کا ایک پیمانہ اپنے نبی کو بتلایا تھا جو طالوت کے قد کی برابر نکلاآخر کو اللہ کے نبی نے قطع حجت کے لئے یہ بھی فرمایا دیا کہ بادشاہی اللہ کے ملک کی ایک حکومت اللہ کی طرف سے ہے وہ جس کو چاہے دیوے۔ اس میں بحث کی گنجائش نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:247) وقال لہم نبی ہم۔ یعنی جب بنی اسرائیل کی اس استدعا ” ابعث لنا ملکا نقاتل فی سبیل اللہ “ (آپ ہمارے لئے ایک سردار مقرر کردیں تاکہ ہم خدا کی راہ میں جماد کریں) پر حضرت سموئیل نے اللہ سے دعا کی اور دعا کی قبولیت پر اللہ تعالیٰ نے طالوت کو ان کا سردار مقرر فرمایا تو حضرت سموئیل نے ان سے کہا وقال لہم ۔۔ قد بعث لکم۔ قد ماضی پر داخل ہوکر ماضی قریب کے معنی دیتا ہے (اللہ تعالیٰ نے) مقرر کیا ہے۔ طالوت۔ بوجہ معرفہ و عجمیت کے غیر منصرف ہے اور مثل داؤد۔ و۔ جالوت کے ہے۔ اور بعض کے نزدیک یہ الطول سے عربی لفظ ہے اور اس کی اصل طولوت مثل رھبوت ورحموت ہے۔ واؤ کو الف سے بدلا۔ اس کا غیر منصرف ہونا بوجہ علمیت و شبہ العجمہ کے ہے۔ ملکا۔ حال ہے طالوت سے۔ انی۔ بمعنی من ابن۔ کیف۔ اسے ہم پر سرداری کہاں سے آگئی۔ یا کیونکر آگئی۔ یا حاصل ہوگئی ۔ نیز ملاحظہ ہو (2:223) الملک۔ اسم مصدر۔ سرداری ۔ امارت۔ بادشاہت۔ سلطنت ونحن احق بالملک منہ۔ واؤ حالیہ ہے۔ جملہ حالیہ ہے۔ احق اسم تفضیل اور فاعل دونوں کے لئے آتا ہے۔ بڑا حق دار۔ زیادہ حق دار۔ حالانکہ سلطنت یا سرداری کے تو ہم اس سے زیادہ مستحق ہیں ۔ فائدہ : حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ بیٹوں کی نسل سے یہودیوں کے جو بارہ خاندان ہوئے وہ بنی اسرائیل کہلاتے ہیں۔ ان میں سے لاوہ بن یعقوب (علیہ السلام) کا قبیلہ وہ تھا جس میں بنی اسرائیل کے تمام پیغمبر ہوئے ہیں۔ حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) اسی قبیلہ سے تھے۔ یہود ابن یعقوب (علیہ السلام) کا قبیلہ حکومت و سلطنت کے لئے مخصوص تھا۔ اور حضرت داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) اسی قبیلہ میں سے تھے۔ سب سے چھوٹا قبیلہ بنی یامین کا تھا جس میں سے طالوت تھے۔ یہ قبیلہ مالی طور پر بھی چنداں حیثیت نہ رکھتا تھا۔ خود طالوت سقایت (پانی بھرنا) یا دباغت (چمڑہ رنگنا) کا کام کیا کرتے تھے ان مابہ الامتیاز اسباب کی وجہ سے لادی بن یعقوب اور یہود ابن یعقوب کے قبیلے کے لوگ مستعجب ہوئے کہ ان کو چھوڑ کر یہ سرداری قبیلہ یامین کے پاس کیسے چلی گئی۔ ولم یؤت سعۃ من المال۔ واؤ عاطفہ ہے جو دونوں جملوں کو ملاتی ہے۔ اور یہ کیونکہ ہم پر سرداری کا مستحق ہوا۔ حالانکہ اس کے پاس دولت کی فروانی بھی تو نہیں ہے۔ لم یؤت۔ مضارع مجہول نفی جحد بلم۔ واحد مذکر غائب ایتاء (افعال) مصدر، وہ نہیں دیا گیا۔ سعد اسم ومصدر بمعنی کشائش ، فراخی، وسعت، طاقت، پہنچ۔ یہ وسع یسع (سمع) کا مصدر ہے جس کے معنی فراخ ہونے کے ہیں۔ اس کی ۃ واؤ کے بدلہ میں ہے جیسے وعد یعد عدۃ (باب ضرب) اور وزن۔ یزن۔ زنۃ (باب ضرب) واؤ کو حذف کرکے اس کے عوض ۃ لے آئے ۔ اصطفہ۔ اصطفی۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ اصطفاء (افتعال) مصدر۔ اس نے پسند فرمایا اس نے چن لیا۔ ص ف ی مادہ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر گا ئب اس نے اس کو پسند فرمایا۔ یا چن لیا اصطفی میں ط۔ ت کی جگہ لایا گیا۔ علیکم تمہارے مقابلہ میں۔ وزادہ بسطۃ فی العلم والجسم واؤ عاطفہ ہے زاد ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب زیادۃ (باب ضرب) مصدر۔ زیادہ دینا۔ بڑھانا۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب۔ بسطۃ۔ کشادگی۔ کشائش ۔ وسعت۔ فضیلت۔ اور زیادہ بخشی اس نے (اللہ نے) اس کو (طالوت کو) علم و جسم میں کشادگی۔ اور وسعت و فضیلت۔ (کہتے تھے کہ حضرت طالوت اپنے وقت میں فنون حرب اور دیانات (یعنی علم دین میں سب سے زیادہ علم رکھتے تھے) ۔ اور جہاں تک تندرستی و توانائی کا تعلق ہے بنی اسرائیل میں سے کوئی شخص خوبصورتی ۔ وجاہت۔ قدوقامت میں ان کی برابری نہیں کرسکتا تھا۔ یہ ساری قوم میں کاندھے سے لے کر اوپر تک ہر ایک سے اونچے نظر آتے تھے۔ واللہ یؤتی ملکہ من یشائ۔ واؤ عاطفہ ہے اس کا عطف محذوف پر ہے گویا عبارت یوں ہے : الملک للہ واللہ یؤتی ملکہ من یشائ۔ ملکہ۔ مضاف مضاف الیہ ۔ اس کا ملک۔ اس کی بادشاہی۔ واسع۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ سعد مصدر (باب سمع) وسیع فضل والا۔ کشادہ بخشش والا۔ وسعت دینے والا۔ یعنی فقیر کو وسعت دے کر امیر کرنے والا۔ علیہم۔ علم سے فعیل کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ خوب جاننے والا۔ (کہ کون کس کام کے لائق ہے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 بایئبل میں اس نبی کا نام سموئیل (شموئیل) لکھا ہے جن کا زمانہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے تقریبا ایک ہزار سال بیشتر کا ہے۔ قدیم مفسرین نے اس واقعہ کی تفصیل میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کچھ عرصہ تو بنی اسرائیل کا کام ٹھیک چلتا رہا پھر ان میں بدعات نے راہ پالی حتی کہ بعض لوگ بتوں کی پوجا کرنے لگے تب اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے دشمنوں کو مسلط کردیا۔ جنہوں نے جالوگ بادشاہ کی سردکردگی میں ان کے بہت سے علاقے چھین لیے اور لاتعداد افراد کو غلام بنا لیا وہ لوگ بھاگ کر بیت المقد میں جمع ہوئے اور اپنے نبی حضرت شمو ئیل (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کردیجئے تاکہ اس کے زیر کمان ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرسکیں۔ شمو ئیل (علیہ السلام) نے انہیں اس بےجا مطالبہ سے باز رکھنے کی کوشش کی مگر وہ اس پر سختی سے مصر رہے چناچہ حضرت شموئیل (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے طالوت کا انتخاب کردیا مگر وہ لوگ اس پر اعتراض کرنے لگے۔ (ابن کثیر۔ اقرطبی)2 اس لیے کہ بنی اسرائیل میں نبوت تولادی کی نسل میں چلی آرہی تھی اور بادشاہی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بڑے بیٹے یہودا کی نسل میں اور طالوت اس نسل سے نہ تھے بلکہ وہ ایک معمولی قسم کے فوجی تھے۔ اس پر بنی اسرائیل کے سرداروں نے اعتراض کیا۔ بائیبل نے طالوت کا نام ساؤل مذکور ہے اور لکھا ہے کہ وہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے سب سے چھوٹے بیٹے بن یامین کی نسل سے تھے اور بنی اسرائیل میں ان جیسا خوبصورت اور قد آور کوئی شخص نہ تھا۔3 یعنی طالوت کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے۔ یہ علمی قابلیت اور جسمانی صلاحتیں کی وجہ سے تم پر فائق ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو موروثی طوپر بادشاہی کا حق نہیں ہے اور یہ کہ خلیفہ کا مالدار گھرانے سے ہونا بھی شرط نہیں ہے ہاں علم و فضل کے علاوہ فوجی صلاحتیوں کا مالک ہونا ضروری ہے تاکہ ملک کا دفاع کرسکے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ بادشاہ ہونے کے لیے اس علم کی ضرورت زیادہ ہے تاکہ ملکی انتظام پر قادر ہو اور جسامت بھی بایں معنی مناسب ہے کہ موافق و مخالف کے قلب میں وقعت وہیبت پیدا ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ وہی ہوا جس کا پیغمبر نے خدشہ ظاہر کیا تھا۔ جب سرداران قوم کے مطالبہ پر جناب طالوت کو ان کا بادشاہ مقرر کردیا گیا تو بنی اسرائیل حسب عادت بہانے تراشتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ ہمارا بادشاہ بن جائے ؟ جب کہ اس کے پاس مال واسباب کی فراوانی نہیں۔ پیغمبر نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جسمانی اور علمی صلاحیتوں سے تم پر برتری عطا فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے حکومت سے سرفراز کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انہیں اطمینان نہ ہوا انہوں نے یہ مطالبہ کرڈالا کہ اس کے سربراہ ہونے کی کوئی نشانی ہونی چاہیے۔ حضرت شمویل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس کے بادشاہ ہونے کی نشانی یہ ہے کہ وہ صندوق جو تم سے چھن چکا ہے اسے فرشتے اٹھائے ہوئے تمہارے پاس لائیں گے جس میں تمہارے رب کی طرف سے سامان اطمینان ‘ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے تبرکات اور وہ عصا بھی اس میں موجود ہوگا جسے موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حکم سے پھینکتے تو اژدہا بن جاتا۔ اس کے ذریعے پانی جاری ہوتا اور کبھی اس سے دریا کی لہریں اس طرح تھم گئیں کہ درمیان میں خشک اور ہموار راستے بن گئے۔ اگر تم تسلیم کرنے والے ہو تو طالوت کی تائید میں یہ بہت بڑے دلائل وبراہین ہیں۔ بالآخر انہوں نے جناب طالوت کی سر کردگی کو قبول کرلیا۔ اس واقعہ سے دنیا پرست مال داروں کی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ قیادت بھی سرمایہ کی بنیاد پر ان کا حق بنتا ہے۔ حالانکہ قائد میں علم و فراست اور جسمانی قوت و صلاحیت کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ اس کی دیانت وامانت بھی مسلّمہ ہونی چاہیے۔ یہاں تک کہ اس میں منصب کی خواہش بھی نہیں ہونا چاہیے۔ (عَنْ أَبِيْ مُوْسٰی (رض) قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَرَجُلَانِ مِنْ قَوْمِيْ فَقَالَ أَحَدُ الرَّجُلَیْنِ أَمِّرْنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَقَالَ الْآخَرُ مِثْلَہٗ فَقَالَ إِنَّا لَانُوَلِّيْ ھٰذَا مَنْ سَأَلَہٗ وَلَا مَنْ حَرَصَ عَلَیْہِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الأحکام، باب مایکرہ من الحرص علی الإمارۃ ] ” حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے قبیلے کے دو آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ دونوں میں سے ایک نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے عہدہ دیجیے اور دوسرے نے بھی ایسا ہی مطالبہ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یقینًا ہم ایسے شخص کو عہدہ نہیں دیتے جو عہدہ طلب کرے اور نہ ہی ایسے شخص کو عہدہ دیتے ہیں جو عہدے کا حریص ہو۔ “ حکمران کے اوصاف (1) مسلمان ہو : قرآن کریم میں اولوالامر کا مسلمان ہونا شرط قرار دیا گیا ہے۔[ النساء : ٥٩] لہٰذا امیر کا مسلمان ہونا بدرجۂ اولیٰ ضروری ہے۔ کیونکہ غیر مسلموں کو اپنے معاملات میں دخیل اور شریک کرنا جائز نہیں ہے۔ [ آل عمران : ١١٨، التوبۃ : ١٦] (2) مرد ہو : مرد عورتوں پر حاکم ہیں۔[ النساء : ٣٤] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جس نے عورت کو اپنا حاکم بنا لیاہو۔[ رواہ البخاری : کتاب الفتن، باب الفتنۃ التی تموج کموج البحر ] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ بھی ارشاد ہے کہ جب تمہارے معاملات عورتوں کے حوالے کردیے جائیں تو تمہارے لیے پھر موت ہی بہتر ہے۔[ رواہ الترمذی ] فقہائے اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورت خلیفہ اور سربراہ حکومت نہیں بن سکتی۔ (3) عادل اور صالح ہو : قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ ظالم لوگ مسلمانوں کی امامت اور قیادت کے مستحق نہیں ہیں۔[ البقرۃ : ١٢٤] غافل اور مسرفین ومفسدین کی اطاعت جائز نہیں ہے۔[ الکہف : ٢٨، الشعراء : ١٥١، ١٥٢] اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محترم وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو۔[ الحجرات : ١٣] (4) صاحب علم ہو : قرآن کریم میں اولوا لامر کے لیے استنباط اور اجتہادی بصیرت کا حامل ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ [ النساء : ٨٣] قیادت کے لیے علمی اور جسمانی صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے۔[ البقرۃ : ٢٤٧] عالم اور غیر عالم برابر نہیں ہیں۔[ الزمر : ٩] (5) آزاد ہو : یعنی کسی کا غلام، ہمہ وقتی ملازم اور قیدی نہ ہو اور فرائض کی ادائیگی کے لیے فارغ ہو۔ (6) بالغ ہو : نابالغ بچہ اس بوجھ کو جسمانی اور ذہنی کمزوری کی وجہ سے نہیں اٹھاسکتا۔ اس لیے نادان اور نابالغ بچوں کو اپنے مال میں تصرف کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔[ النساء : ٥] (7) عاقل ہو : دماغی طور پر مریض نہ ہو۔ (8) سلیم الاعضاء ہو : جسمانی طور پر ناکارہ شخص یہ عظیم خدمت انجام نہیں دے سکتا۔ (9) دلیر اور شجاع ہو : بزدل شخص نہ ملک کا دفاع کرسکتا ہے اور نہ امن قائم کرسکتا ہے۔ (10) معاملہ فہم ہو : حالات سے باخبر اور معاملہ فہم ہو۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس بحث و تکرار اور سوال و جواب سے بنی اسرائیل کی ایک اور خصوصیت کا اظہار ہوتا ہے ، جس کا تذکرہ اس سورت میں بارہا ہوا ہے ۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ ان کے لئے ایک بادشاہ مقرر ہو ، جس کی قیادت میں رہ کر ، وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کریں ، لیکن بادشاہ کے تقرر کا اعلان ہوتے ہی انہوں نے سرجھکالئے ، گردنیں پھیرلیں اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے بادشاہ کی تقرری اور نبی کی جانب سے اس کی اطلاع پر اس معاملے میں بحث و تکرار میں مشغول ہوگئے ۔ طالوت کی بادشاہت پر ناک بھنویں چڑھانے لگے ۔ یہ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ طالوت کے مقابلے میں اپنے آپ کو موروثی طور پر زیادہ مستحق رکھتے ہیں ۔ طالوت ایک تو شاہی خاندان سے نہ تھا ، دوسرے یہ کہ وہ کوئی دولت مند آدمی نہ تھا کہ دولت کی بناپر وراثت کے استحقاق کو نظر انداز کردیاجائے ۔ غرض یہ تاریک خیالی اور یہ لجاجت بنی اسرائیل کی مستقل خصوصیت ہے ۔ نبی وقت نے بتایا کہ وہ ذاتی خصوصیات کی وجہ سے زیادہ مستحق ہے اور یہ کہ اس کے انتخاب میں حکمت کارفرما ہے : قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ” اللہ نے تمہارے مقابلے میں اس کو منتخب کیا ہے اور اس کو دماغی اور جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں اور اللہ کو اختیار ہے کہ اپنا ملک جسے چاہے دے ، اللہ بڑی وسعت رکھتا ہے اور سب کچھ اس کے علم میں ہے۔ “ وہ ایسا شخص ہے جسے اللہ نے چنا ہے ۔ یہ تو اس کی صفت ہے ۔ اس کو دماغی اور جسمانی قابلیتیں دی ہیں ۔ یہ اس کی دوسری ترجیح ہے اور پھر اللہ جسے چاہے اپنا ملک عطا کردے ۔ وہ اس کا ملک ہے ۔ دنیا اس کی ہے ۔ وہ متصرف ومختار ہے ۔ اپنے بندوں میں سے جس کو چن لے ۔ وہ بڑی وسعت والا ہے ۔ بڑے علم والا ہے ۔ اس کے فضل وکرم پر کوئی خازن مقرر نہیں ۔ اس کی دادوہش کے لئے کوئی حد وقید نہیں ہے ۔ وہی جانتا ہے کہ بھلائی کس میں ہے ۔ وہی جانتا ہے کہ کس موقع پر کیا فیصلہ بہتر ہے ؟ یہ ایسے معاملات ہیں جن کے بارے میں ایک مسلمان کا نقطہ نظر درست ہونا چاہئے ۔ اور اس کا ذہن کدورت سے صاف ہونا چاہئے ۔ لیکن کیا کیا جائے معاملہ بنی اسرائیل سے آپڑا ہے ۔ ان کے نبی اس بات سے خوب واقف ہیں ۔ نبی وقت جانتا ہے کہ نبی اسرائیل کا مزاج ان بلند حقائق کا متحمل ہی نہیں ہے ۔ حالات ایسے ہیں کہ فہمائش کے لئے وقت نہیں ہے ۔ معرکہ حق و باطل سرپر ہے۔ اس لئے مناسب یہی ہے کہ وقت کی کمی کے باعث ان کے سامنے ایک ایسا معجزہ ظاہر کردیا جائے جس سے ان کے دل نرم ہوجائیں ۔ وہ بےحد متاثر ہوں اور انہیں اس قیادت پر اطمینان ہوجائے اور وہ یقین کرلیں :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بنی اسرائیل کا ایک واقعہ اور طالوت کی بادشاہت کا ذکر ان آیات کریمہ میں بنی اسرائیل کا ایک واقعہ بیان فرمایا ہے۔ پورا واقعہ پارہ کے ختم کے قریب تک بیان ہوا ہے۔ اس واقعہ میں بنی اسرائیل کے لیے جہاں تذکیر نعمت ہے وہاں امت محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والتحیۃ کے لیے بھی بہت سی عبرتیں ہیں، حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے بعدانہی کی قوم میں سے انبیاء (علیہ السلام) مبعوث ہوئے جو یکے بعد دیگرے آتے رہے، حضرت یوشع، حضرت شمعون، شمویل اور حضرت کالب بن یوقنا اور حضرت حزقیل ( علیہ السلام) کے اسماء گرامی لکھے ہیں۔ یہ حضرات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت کی تبلیغ اور توریت کے مضامین بیان فرماتے تھے۔ بنی اسرائیل میں شدہ شدہ بےدینی بلکہ بد دینی تک آگئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط فرما دیا۔ جو جالوت کی قوم میں سے اور عمالقہ میں سے تھے اور بحر روم کے ساحل پر مصر و فلسطین کے درمیان رہتے تھے۔ یہ لوگ بنی اسرائیل پر غالب ہوگئے۔ ان کی زمین چھین لی اور ان کی اولاد کو جن میں ان کے بادشاہوں کی نسل کے لوگ بھی تھے قید کرلیا اور ان پر جزیہ لگا دیا، بنی اسرائیل اس موقعہ پر بہت ہی زیادہ مصیبت اور سختی میں مبتلا رہے کوئی ایسا نہ رہا جو ان کا قائد اور مدبر ہوتا۔ جب بہت زیادہ دکھ اور تکلیف میں مبتلا ہوئے تو اس زمانہ میں جو ان کے نبی تھے۔ (اور اسی مصیبت کے زمانہ میں وہ پیدا ہوئے اور بڑے ہو کر نبوت سے سر فراز ہوئے) ان کی خدمت میں بنی اسرائیل نے عرض کیا کہ اللہ پاک کی طرف سے آپ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کرا دیں تاکہ ہم ان کے ساتھ مل کر دشمنوں سے جہاد کریں اور ان کو اپنے علاقوں سے نکال دیں (چونکہ بنی اسرائیل کو سیاسی حالات میں بادشاہوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی عادت تھی اس لیے انہوں نے ایسا سوال کیا) جب ان لوگوں نے کسی کو بادشاہ بنانے کا سوال کیا اور دشمنوں سے جہاد کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو ان کے نبی نے جو ان کے حال اور قال کو جانتے تھے خطرہ ظاہر کیا اور فرمایا کہ تم سے تو یہ امید ہے کہ قتال فرض ہوگیا تو جنگ سے دور بھاگو گے اور لڑائی سے جان چھڑاؤ گے اس پر وہ کہنے لگے بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ نہ کریں۔ جنگ نہ لڑنے کا کوئی سبب نہیں بلکہ لڑنے کا سبب موجود ہے اور وہ یہ کہ دشمن نے ہم پر تسلط کر رکھا ہے اس کی وجہ سے ہم اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے ہیں اور اپنی اولادوں سے دور کر دئیے گئے ہیں۔ باتیں تو بڑھ چڑھ کر کر رہے تھے لیکن جب قتال فرض ہوگیا تو وہ خطرہ سامنے آگیا جو ان کے نبی کو تھا اور تھوڑے لوگوں کے علاوہ باقی سب ارادوں اور وعدوں سے پھرگئے اور جنگ کرنے سے منہ موڑ لیا۔ اللہ جل شانہ نے ان کی درخواست پر حضرت طالوت کو بادشاہ بنا دیا اور ان کے نبی نے اس کا اعلان کردیا، عمل اور کار گزاری حضرت طالوت کی تھی اور مشورہ اور رہبری ان کے نبی کی تھی۔ بعض مفسرین نے فرمایا یہ نبی جن سے مذ کو رہ بالا درخواست کی تھی شمعون (علیہ السلام) تھے۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی درخواست پر حضرت طالوت کو بادشاہ مقرر کردیا گیا تو اپنی روائتی کجروی کے باعث اسی طرح کی الٹی باتیں کیں جیسا کہ ان کا مزاج تھا اور پرانا طریقہ کار تھا۔ ان کی اس طرح کی باتیں ذبح بقرہ کے واقعہ کے سلسلہ میں گزر چکی ہیں۔ حضرت طالوت کی بادشاہت کا اعلان سننے کے بعد کہنے لگے کہ یہ شخص ہمارا بادشاہ کیسے ہوسکتا ہے اس کے پاس پیسہ ہے نہ کوڑی، اس سے زیادہ تو ہم بادشاہ بننے کے مستحق ہیں اپنی جہالت سے وہ اللہ تعالیٰ شانہ کو بھی رائے دینے لگے کہ اس کے بجائے ہم میں سے کوئی پیسہ والا بادشاہ ہونا چاہئے، اور یہ انسان کا عجیب مزاج ہے کہ وہ پیسے والے کو بڑا آدمی سمجھتا ہے خواہ کیسا ہی بےعلم اور ناسمجھ اور بخیل ہو۔ ان کے نبی نے ان کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو منتخب فرما لیا ہے تم پر ان کو ترجیح دے دی اور حکومت کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے وہ اس میں پوری طرح موجود ہے حکومت کے لیے علم ہونا چاہئے جس کے ذریعہ وہ تدبیر امور کرسکے اور دشمنوں سے نمٹ سکے اور ساتھ ہی جسمانی قوت بھی ہونی چاہئے علم کی تدبیر اور جسم کی قوت سے ہمت ہوتی ہے اور حوصلہ بلند ہوتا ہے اور دشمنوں پر غلبہ پانے کے لیے انہی چیزوں کی ضرورت ہے۔ اور یوں بھی اللہ کو اختیار ہے وہ جس کو چاہے حکومت اور مملکت عطا فرمائے، تمہیں اعتراض کا کیا حق ہے اور اللہ کے فیصلہ کے خلاف تم رائے دینے والے کون ہو اسے معلوم ہے کہ حکومت ملنے پر کوئی کیا کرے گا اور کیسا ثابت ہوگا۔ (وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ) ایک نبی کا فرمانا بات ماننے کے لیے اور حضرت طالوت کو بادشاہ تسلیم کرنے کے لیے کافی تھا۔ لیکن ان کے نبی نے حضرت طالوت کی بادشاہت کا ثبوت دینے کے لیے ایک نشانی بھی بیان فرمائی اور وہ یہ کہ تمہارے پاس وہ تابوت آئے گا جو تمہارے لیے باعث اطمینان و سکون ہوگا۔ اس تابوت میں ان چیزوں کا بقیہ ہوگا جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) نے چھوڑی تھیں چناچہ وہ تابوت ان لوگوں کے پاس آگیا جسے فرشتے اٹھائے ہوئے تھے، دشمنوں نے ان سے چھین لیا تھا جب یہ تابوت ان کے پاس تھا تو دشمنوں سے جنگ کرتے وقت اس کو سامنے رکھا کرتے تھے اور اس کے ذریعہ دشمن پر فتح یابی حاصل کرلیتے تھے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) نے جو چیزیں چھوڑیں تھیں ان کا بقیہ کیا تھا جو اس تابوت میں تھا۔ ان کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ توراۃ شریف کی دو تختیاں تھیں اور ان تختیوں کا کچھ چورا تھا جو ٹوٹ گئی تھیں۔ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا تھا اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کی پگڑی تھی، اور کچھ من بھی تھا جو سلویٰ کے ساتھ بنی اسرائیل پر نازل ہوا کرتا تھا، اس تابوت کا ان کے پاس فرشتوں کا لیکر آنا اور دو بارہ واپس مل جانا اس بات کی صریح دلیل تھی کہ حضرت طالوت کو واقعی اللہ تعالیٰ نے بادشاہ بنایا ہے۔ فرشتے یہ تابوت لائے اور حضرت طالوت کے سامنے رکھ دیا لیکن بنی اسرائیل سے پھر بھی یہ بعید نہ تھا کہ انکار کربیٹھیں اس لیے ان کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰ یَۃً لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ) (تمہارے لیے اس میں نشانی ہے اگر تم مومن ہو) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

482 ۔ یہ ماقبل کی تفصیل ہے۔ یہاں سے اس واقعہ کی تفصیل شروع ہوتی ہے کہ کس طرح انہوں نے اس حکم سے روگردانی کی۔ حضرت شموئیل (علیہ السلام) نے خدا کے حکم سے بنی اسرائیل کے سامنے اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو تمہارا امیر لشکر مقرر کیا ہے لہذا تم اس کی اطاعت کرو اور متحد ہو کر اس کی کمان میں جہاد کرو۔483 حضرت شموئیل (علیہ السلام) کا یہ اعلان سنتے ہی دولت مند اسرائیلی بول اٹھے اور تعجب اور حیرت سے کہنے لگے کہ طالوت جو ایک غریب اور مفلس آدمی ہے اسے ہم پر امارت اور ریاست کا کس طرح حق حاصل ہوسکتا ہے جبکہ ہم میں دولت مند اور اہل ثروت قوم میں موجود ہیں۔ نیز طالوت نہ تو سبط نبوت یعنی لاوی بن یعقوب کی اولاد میں سے ہے اور نہ سبط مملکت یعنی یہودا کی اولاد سے کیونکہ طالوت حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے سب سے چھوٹے بیٹے بنیامین کی اولاد سے تھا۔ اس لیے اس کے مقابلہ میں ہم امیر بننے کے زیادہ مستحق ہیں۔ یہ استفہام اظہار تعجب اور حیرت کے لیے ہے۔ اس سے ان کا مقصد پیغمبر کی تکذیب وتردید نہیں تھی۔ بلکہ اس انتخاب پر حیرت وتعجب مقصود تھا۔ والاستفھام حقیقی او للتعجب لا لتکذیب نبیھم والانکار علیہ فی رای (روح ص 166 ج 2 ۔484 اللہ کے پیغمبر نے ان کے شبہ کے تین طرح کے جواب دئیے (1) یہ انتخاب انسانی نہیں بلکہ خدائی ہے۔ اس لیے جو حکمتیں اور مصلحتیں اس میں پوشیدہ ہیں وہاں تک تمہارے سطحی ذہنوں کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ تمہارا فرض یہ ہے کہ اسے بلا چون وچرا مان لو۔ (2) تم نے جو امارت وسیادت کا معیار مقرر کیا ہوا ہے کہ امیر وہی ہوسکتا ہے جو دولت مند ہو اور خاندان امارت سے تعلق رکھتا ہو تو دراصل یہ کوئی معیار نہیں۔ ان دو صفتوں کی جگہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو دو ایسی خوبیاں عطا فرمائی ہیں جن کا امیر میں ہونا نہایت ضروری ہے اور جو ان پہلی دو صفتوں سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔ ایک علم علم دوسری جسمانی طاقت۔ یہ دونوں خوبیاں تم سب سے بڑھ کر طالوت میں موجود ہیں۔ (3) حکومت اور امارت خدا کے اختیار میں ہے اور تمام بندے بھی اسی کے مخلوق ومملوک ہیں۔ اس لیے وہ جسے چاہتا ہے امارت وسیادت سے سرفراز فرماتا ہے اس پر کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اور ان لوگوں سے جو بادشاہ کا مطالبہ کر رہے تھے ان کے پیغمبر حضرت شمویل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر طالوت (علیہ السلام) کو بادشاہ مقرر فرمایا ہے اس پر وہ کہنے لگے کہ طالوت کو ہم پر حکومت اور حکمرانی کا حق کیسے مل سکتا ہے حالانکہ اس کے مقابلہ میں ہم حکومت و حکمرانی کے زیادہ مستحق اور حق دار ہیں اور اس کو تو کچھ مال کی وسعت بھی نہیں دی گئی۔ یہ سن کر ان کے پیغمبر نے جواب دیا کہ اول تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے مقابلے میں اس کو پسند اور منتخب فرمایا ہے اور پھر اس کی سیاسی امور اور جنگی فنون کا علم وسیع پیمانے پر دیا اور اس کے ظاہری جسم اور قدر و قامت کے پھیلائو میں اس کو زیادتی دی یعنی علم اور جسم دونوں باتیں اس کے مناسب اس کو زیادہ کردیں ، اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنا ملک اور اپنی بادشاہ عطا فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ صاحب وسعت و کشائش اور بڑا جاننے والا ہے۔ ( تیسیر) مطلب یہ ہے کہ پیغمبر نے ان کے اعتراضات اور شبہے کے کئی جواب دیئے۔ 1۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کو انتخاب اور برگزیدگی کا حق حاصل ہے اس نے اس کو چن لیا اور پسند فرمایا ۔ 2۔ پھر میدان جہاد میں سیاسی علم اور فن حرب کی ضرورت ہوتی ہے وہ علم اللہ تعالیٰ نے اس کو خوب شرح و بسط کے ساتھ دیا ہے۔ 3۔ بادشاہ کو ظاہری وجاہت اور رعب و دبدبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لئے خدا تعالیٰ نے اس کو جسم کا پھیلائو کافی دیا ہے کہ تم سب میں وہ بلند قامت ہے اور ہر شخص کے دل میں اس کو دیکھنے سے ہیبت پیدا ہوتی ہے۔ 4۔ یہ کہ اللہ تعالیٰ مالک الموت ہے سلطنت اور بادشاہت سب اسی کی ہے وہ جس کو چاہے دے دے تم کون اس پر اعتراض کرنے والے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ صاحب وسعت و کشائش ہے اس کو یہ کیا مشکل ہے کہ وہ کسی کو مال بھی دیدے یہی تمہارا بڑا اعتراض اور شبہ تھا اور جب سلطنت دے دی تو مال کا شبہ ہی ختم ہوگیا ۔ 6۔ وہ بڑا علیم اور جاننے والا ہے وہی خوب جانتا ہے کہ کون بادشاہت کا اہل ہے اور کس میں بادشاہت کی صلاحیت ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں طالوت کی قوم میں آگے سلطنت نہ تھی اور کسب کرتا تھا ان کی نظر میں حقیر لگا نبی (علیہ السلام) نے فرمایا کہ سلطنت حق کسی کا نہیں اور بڑی لیاقت ہے۔ عقل اور بدن کی کشائش یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان پیغمبر کو ایک عصا بتایا کہ جس کا قد اس کے برابر ہو سلطنت اس کو ہے اس کے برابر قد اسی کا آیا۔ ( موضح القرآن) اور شاید انہوں نے طالوت کی بادشاہت پر کوئی اور ایسی دلیل اور نشانی طلب کی ہوگی جس کا وہ خود بھی مشاہدہ کرنا چاہتے ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے منجانب اللہ بادشاہ مقرر ہونے کی ایک اور دلیل فرمائی تا کہ بنی اسرائیل کو طالوت کے بادشاہ ہونے کی اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کے تقریر پر کوئی شبہ نہ رہے اس آیت سے علماء اہل سنت نے امامت کی مورثیت کے ابطال پر استدلال کیا ہے۔ بسطۃ کے معنی فضلیت اور وسعت کے ساتھ کئے گئے ہم نے تیسیر میں دونوں کی رعایت رکھی ہے۔ (تسہیل)