Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 265

سورة البقرة

وَ مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ وَ تَثۡبِیۡتًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ کَمَثَلِ جَنَّۃٍۭ بِرَبۡوَۃٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَاٰتَتۡ اُکُلَہَا ضِعۡفَیۡنِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یُصِبۡہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۲۶۵﴾

And the example of those who spend their wealth seeking means to the approval of Allah and assuring [reward for] themselves is like a garden on high ground which is hit by a downpour - so it yields its fruits in double. And [even] if it is not hit by a downpour, then a drizzle [is sufficient]. And Allah , of what you do, is Seeing.

ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالٰی کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو اور زوردار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دوگنا لاوے اور اگر اس پر بارش نہ بھی پڑے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says; وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ ... And the parable of those who spend their wealth seeking Allah's pleasure while they in their own selves are sure and certain that Allah will reward them (for their spending in His cause), This is the example of the believers who give away charity seeking only Allah's pleasure, وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ (while they in their own selves are sure and certain) meaning, they are certain that Allah shall reward them for these righteous acts with the best rewards. Similarly, in a Hadith collected by Al-Bukhari and Muslim, the Messenger of Allah said, مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا Whoever fasts Ramadan with faith and expectation... meaning, believing that Allah commanded the fast, all the while awaiting His reward for fasting it. Allah's statement, ... كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ ... is that of a garden on a Rabwah, means, the example of a garden on `a height above the ground', as the majority of scholars have stated. Ibn Abbas and Ad-Dahhak added that it also has flowing rivers. Allah's statement, ... أَصَابَهَا وَابِلٌ ... Wabil falls on it, means, heavy rain as we stated, So it produces its, and it doubles its yield of harvest. And if it does not receive heavy rain, light rain suffices it. ... فَأتَتْ أُكُلَهَا ... its yield of harvest, meaning, fruits or produce, ... ضِعْفَيْنِ ... doubles, as compared to other gardens. ... فَإِن لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ... And if it does not receive Wabil, a Tall suffices it. Ad-Dahhak said that; the `Tall' is light rain. The Ayah indicates that the garden on the Rabwah is always fertile, for if heavy rain does not fall on it, light rain will suffice for it. Such is the case regarding the believer's good deeds, for they never become barren. Rather, Allah accepts the believer's righteous deeds and increases them, each according to his deeds. This is why Allah said next, ... وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ And Allah is All-Seer of what you do. meaning, none of His servants' deeds ever escapes His perfect watch.

سدابہار عمل یہ مثال مومنوں کے صدقات کی دی جن کی نیتیں اللہ کو خوش کرنے کی ہوتی ہیں اور جزائے خیر ملنے کا بھی پورا یقین ہوتا ہے ، جیسے حدیث میں ہے جس شخص نے رمضان کے روزے ایمانداری کے ساتھ ثواب ملنے کے یقین پر رکھے ۔ ۔ ربوہ کہتے ہیں اونچی زمین کو جہاں نہریں چلتی ہیں اس لفظ کو بربوۃ اور بربوۃ بھی پڑھا گیا ہے ۔ وابل کے معنی سخت بارش کے ہیں ، وہ دگنا پھل لاتی ہے یعنی بہ نسبت دوسرے باغوں کی زمین کے ، یہ باغ ایسا ہے اور ایسی جگہ واقع ہے کہ بالفرض بارش نہ بھی ہو تاہم صرف شبنم سے ہی پھلتا پھولتا ہے یہ ناممکن ہے کہ موسم خالی جائے ، اسی طرح ایمانداروں کے اعمال کبھی بھی بے اجر نہیں رہتے ۔ وہ ضرور بدلہ دلواتے ہیں ، ہاں اس جزا میں فرق ہوتا ہے جو ہر ایماندار کے خلوص اور اخلاص اور نیک کام کی اہمیت کے اعتبار سے بڑھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ پر اپنے بندوں میں سے کسی بندے کا کوئی عمل مخفی اور پوشیدہ نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

265۔ 1 یہ ان اہل ایمان کی مثال ہے جو اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتے ہیں ان کا خرچ کیا ہوا مال اس باغ کی مانند ہے جو پر فضا اور بلند چوٹی پر ہو کہ اگر زوردار بارش ہو تو اپنا پھل دوگنا دے ورنہ ہلکی سی پھوار اور شبنم بھی اسکو کافی ہوجاتی ہے اس طرح ان کے نفقات بھی چاہے کم ہو یا زیادہ عند اللہ کئی کئی گنا اجر وثواب کے باعث ہونگے۔ جَنْۃُ اس زمین کو کہتے ہیں جس میں اتنی کثرت سے درخت ہوں جو زمین کو ڈھانک لیں یا وہ باغ جس کے چاروں طرف باڑ ہو اور باڑ کی وجہ سے باغ نظروں سے پوشیدہ ہو۔ یہ جن سے ماخوذ ہے جن اس مخلوق کا نام ہے جو نظر نہیں آتی پیٹ کے بچے کو جنین کہا جاتا ہے کہ وہ بھی نظر نہیں آتا دیوانگی کو جنون سے تعبیر کرتے ہیں کہ اس میں بھی عقل پر پردہ پڑجاتا ہے اور جنت کو اس لئے جنت کہتے ہیں کہ وہ نظروں سے مستور ہے۔ رَبْوَۃَ اونچی زمین کو کہتے ہیں۔ وَابِلُ تیز بارش۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨١] ربوۃ ربو سے مشتق ہے جس کا معنی بڑھنا اور پھلنا پھولنا ہے اور ربوۃ سے مراد ایسی زمین ہے جس کی سطح عام زمین سے قدرے بلند ہو اور قدرے نرم ہو۔ ایسی زمین عموماً سرسبز اور شاداب ہوتی ہے۔ پنجابی زبان میں اسے میرا زمین کہتے ہیں اور وابل یا زور دار بارش سے مراد انتہائی خلوص نیت سے اللہ کی رضا کے لیے اور اپنے دل کی پوری پوری خوشی سے مال خرچ کرنا ہے اور پھوار سے مراد ایسی خیرات ہے جس میں یہ دونوں باتیں موجود تو ہوں، مگر اتنے اعلیٰ درجہ کی نہ ہوں۔ دونوں صورتوں میں اجر وثواب تو ضرور ملے گا۔ مگر پہلی صورت میں جو اجر وثواب ملے گا وہ پچھلی صورت سے بہرحال کئی گنا زیادہ ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ابْتِغَاۗءَ مَرْضَات اللّٰهِ : یہ ریا کاروں کے مقابلے میں مخلص مومنوں کی مثال ہے، یعنی جو لوگ محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے خرچ کرتے ہیں اور دل کے اس اطمینان کے ساتھ خرچ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انھیں اس کا وافر اجر عطا فرمائے گا اور ان کا عمل ضائع نہیں ہوگا۔ دل کو ثابت رکھتے ہوئے خرچ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ نہ انھیں خرچ کرتے ہوئے کوئی تردد یا پریشانی ہوتی ہے نہ بعد میں کوئی پشیمانی۔ ان کے خرچ کرنے کی مثال اس باغ کی سی ہے جو کسی پر فضا اور بلند مقام پر ہو، اگر اس پر زور کی بارش ہو تو دوسرے باغوں سے دگنا پھل دے اور اگر زور کی بارش نہ بھی ہو تو ہلکی بارش ہی کافی رہے۔ یہی حالت مومن کے عمل کی ہے، وہ کسی صورت میں ضائع نہیں ہوگا، بلکہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے گا اور ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزا دے گا۔ (ابن کثیر) شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” زور کے مینہ سے مراد زیادہ مال خرچ کرنا ہے اور ” طَلٌّ“ (کچھ شبنم) سے مراد تھوڑا مال۔ (” طَلٌّ“ پر تنوین تقلیل کی وجہ سے کچھ شبنم ترجمہ کیا ہے) سو اگر نیت درست ہے تو زیادہ خرچ کرنا زیادہ ثواب کا باعث ہے اور تھوڑا بھی کام آتا ہے، جیسے خالص زمین پر باغ ہے، جتنا مینہ برسے گا اس کا فائدہ ہے، بلکہ اوس بھی کافی ہے اور نیت درست نہیں تو جس قدر زیادہ خرچ کرے ضائع ہے، کیونکہ زیادہ مال دینے میں دکھاوا بھی زیادہ ہے، جیسے پتھر پر دانہ کہ جتنا زور کا مینہ برسے زیادہ نقصان پہنچائے کہ مٹی دھوئی جائے۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 265, the fifth under discussion, the acts of charity which are acceptable in the sight of Allah Almighty as valid spendings, have been illustrated with an example. It is said that those who spend in the way of Allah, solely and sincerely, to seek nothing but His pleasure, and thus fortify their selves with steadfastness, are in a situation where there is a fruit farm located on some mound, then it is hit by heavy rains, then it brings forth double of its usual yield. And should it be that the rain is not that heavy, a light drizzle would become sufficient for it and Allah Almighty sees and knows what you do. Here the merits of spending in the way of Allah, surely with sincerity of intention, and obedience to conditions set, has been made clear through this similitude. The message is: Spending with good intention and sincerity, even if it be just a little, becomes enough and helps one receive the gains of the Hereafter.

پانچویں آیت میں صدقہ مقبولہ اور انفاق مقبول کی ایک مثال بیان فرمائی ہے کہ جو لوگ اپنے مال خالص اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کی نیت سے خرچ کرتے ہیں کہ اپنے نفسوں میں پختگی پیدا کریں ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی باغ ہو کسی ٹیلے پر اور اس پر زور کی بارش پڑی ہو پھر وہ اپنا پھل لایا ہو دو چند اور اگر ایسے زور کی بارش بھی نہ پڑے تو ہلکی پھوار بھی اس کے لئے کافی ہے، اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو خوب دیکھتے جانتے ہیں۔ اس میں اخلاص نیت اور رعایت شرائط مذکورہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی بڑی فضیلت اس مثال سے واضح کردی گئی کہ نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ تھوڑا بھی خرچ کیا جائے تو وہ کافی اور موجب ثمرات آخرت ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمُ ابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللہِ وَتَثْبِيْتًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ كَمَثَلِ جَنَّۃٍؚبِرَبْوَۃٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُكُلَہَا ضِعْفَيْنِ۝ ٠ ۚ فَاِنْ لَّمْ يُصِبْہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ۝ ٠ ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝ ٢٦٥ وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ( ب غ ی ) البغی الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ رضي يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] ، والرِّضْوَانُ : الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ. ( ر ض و ) رضی ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ، ثبت الثَّبَات ضدّ الزوال، يقال : ثَبَتَ يَثْبُتُ ثَبَاتاً ، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] ( ث ب ت ) الثبات یہ زوال کی ضد ہے اور ثبت ( ن ) ثباتا کے معنی ایک حالت پر جمے رہنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] مومنو جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ رَبَا : إذا زاد وعلا، قال تعالی: فَإِذا أَنْزَلْنا عَلَيْهَا الْماءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ [ الحج/ 5] ، أي : زادت زيادة المتربّي، فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد/ 17] ، فَأَخَذَهُمْ أَخْذَةً رابِيَةً [ الحاقة/ 10] ، وأربی عليه : أشرف عليه، ورَبَيْتُ الولد فَرَبَا من هذا، وقیل : أصله من المضاعف فقلب تخفیفا، نحو : تظنّيت في تظنّنت . اور اسی سے ربا ہے جس کے معنی بڑھنے اور بلند ہونے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِذا أَنْزَلْنا عَلَيْهَا الْماءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ [ الحج/ 5] پھر جب ہم اس پر پانی بر سادیتے ہیں تو وہ لہلانے اور ابھرنے لگتی ہے ۔ فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد/ 17] پھر نالے پر پھولا ہوا اجھاگ آگیا ۔ فَأَخَذَهُمْ أَخْذَةً رابِيَةً [ الحاقة/ 10] تو خدا نے بھی انہیں بڑا سخت پکڑا ۔ اربی علیہ کسی پر بلند ہونا یا کسی کی نگرانی کرنا ۔ ربیت الوالد فربا میں نے بچے کی تربیت کی چناچہ وہ بڑھ گیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ربیت ہے تخفیف کے لئے ایک باء حذف کردی گئی ہے ۔ جیسا کہ تظنیت کہ اصل میں تظننت ہے تحقیقا ایک نون کو یاء سے تبدیل کردیا ہے ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ ضعف ( دوگنا) ضِّعْفُ هو من الألفاظ المتضایفة التي يقتضي وجود أحدهما وجود الآخر، کالنّصف والزّوج، وهو تركّب قدرین متساويين، ويختصّ بالعدد، فإذا قيل : أَضْعَفْتُ الشیءَ ، وضَعَّفْتُهُ ، وضَاعَفْتُهُ : ضممت إليه مثله فصاعدا . قال بعضهم : ضَاعَفْتُ أبلغ من ضَعَّفْتُ ولهذا قرأ أكثرهم : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب/ 30] ، وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء/ 40] ( ض ع ف ) الضعف الضعف ۔ یہ اسمائے متضایقہ سے ہے یعنی وہ الفاظ جو اپنے مفہوم ومعنی کے تحقیق میں ایک دوسرے پر موقوف ہوتے ہیں جیسے نصف وزوج اور ضعف ( دوگنا) کے معنی ہیں ایک چیز کے ساتھ اس کے مثل کامل جانا اور یہ اسم عدد کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور اضعفت الشئی وضعتہ وضاعفتہ کے معنی ہیں کسی چیز کو دو چند کردینا بعض نے کہا ہے کہ ضاعفت ( مفاعلۃ ) میں ضعفت ( تفعیل ) سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب/ 30] ان کو دگنی سزادی جائے گی ۔ اور آیت : ۔ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء/ 40] اور اگر نیکی ( رکی ) ہوگی تو اس کو دو چند کر دیگا ۔ میں یضاعف ( مفاعلۃ پڑھا ہے اور کہا ہے کہ اس سے نیکیوں کے دس گناہ ہونے کی طرف اشارہ ہے طلل الطَّلُّ : أضعف المطر، وهو ماله أثر قلیل . قال تعالی: فَإِنْ لَمْ يُصِبْها وابِلٌ فَطَلٌ [ البقرة/ 265] ، وطَلَّ الأرضَ ، فهي مَطْلُولَةٌ ، ومنه : طُلَّ دمُ فلانٍ : إذا قلّ الاعتداد به، ويصير أثره كأنّه طَلٌّ ، ولما بينهما من المناسبة قيل لأثر الدّار : طَلَلٌ ، ولشخص الرّجل المترائي : طَلَلٌ ، وأَطَلَّ فلانٌ: أشرف طَلَلُهُ ( ط ل ل ) الطل کے معنی بہت ہلکی سی بارش کے ہیں جس کا معمولی سا اثر ہو قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يُصِبْها وابِلٌ فَطَلٌ [ البقرة/ 265] اگر مینہ نہ بھی پڑے تو خیر پھوہار ہی سہی ۔ اور طل الارض فھی مطلوبۃ کے معنی زمین پر اوس پڑنے کے ہیں اسی سے جس خون کی پر واہ نہ کی جائے اور اسے اوس کی طرح معمولی سمجھا جائے اس کے متعلق کہا جاتا ہے ۔ طل دم فلان یعنی فلاں کا خون باطل کردیا گیا اور شبنم کا چونکہ ہلکا سا اثر ہوتا ہے اس مناسبت سے گھروں کے باقی ماندہ نشانات کو طلل کہدیتے ہیں اطل فلانا جھانکنا دور سے نظر آتا ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦٥) اور ان لوگوں کے اموال کی مثال جو خالص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اپنے نفوس کو سچائی کے لیے ثواب ملنے کا یقین کامل رکھتے ہوئے خرچ کرتے ہیں، ایک باغ کی طرح ہے جو کسی صاف بلند مقام پر ہو اور اس پر خوب زور کی بارش ہو، جس کی وجہ سے باغوں میں دو چند وہ پھل لایا اور اگر ایسی زور کی بارش نہ ہو تو ہلکی سی پھوار کی طرح بارش بھی اس کے لیے کافی ہے۔ یعنی مومن کی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی مثال ہے، خواہ وہ کم خرچ کرے یا زیادہ، جب کہ اخلاص اور خشیت خداوندی کے ساتھ ہو اللہ تعالیٰ اس ثواب کو دوگنا فرماتا ہے، جیسا کہ ایسے باغ کے پھلوں کو زیادہ کرتا ہے اور جو تم خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے اچھی طرح دیکھتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦٥ (وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَات اللّٰہِ ) (وَتَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ ) (کَمَثَلِ جَنَّۃٍم بِرَبْوَۃٍ ) جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں کہ قدرتی باغ کا یہی تصور ہوتا تھا کہ ذرا اونچائی پر واقع ہے ‘ اس کے دامن میں کوئی ندی بہہ رہی ہے جس سے خود بخود آب پاشی ہو رہی ہے اور وہ سیراب ہو رہا ہے۔ [ قادیانیوں نے اسی لفظ ربوہ کے نام پر پاکستان میں اپنا شہر بنایا۔ ] (اَصَابَہَا وَابِلٌ) (فَاٰتَتْ اُکُلَہَا ضِعْفَیْنِ ج ) (فَاِنْ لَّمْ یُصِبْہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ط) (وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ) لہٰذا تم دروں بینی (intro spection) کرتے رہا کرو کہ تم جو یہ مال خرچ کر رہے ہو واقعتا خلوص دل اور اخلاص نیت کے ساتھ اللہ ہی کے لیے کر رہے ہو۔ کہیں غیر شعوری طور پر تمہارا کوئی اور جذبہ اس میں شامل نہ ہوجائے۔ چناچہ اپنے گریبانوں میں جھانکتے رہو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

306. 'Heavy rain' signifies here charity motivated by a high degree of benevolence and sincerity. 'Light shower' refers to charity deficient in sincerity and goodness, though not altogether devoid of them.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :306 ”زور کی بارش“ سے مراد وہ خیرات ہے ، جو انتہائی جذبہ خیر اور کمال درجے کی نیک نیتی کے ساتھ کی جائے ۔ اور ایک ہلکی پھوار سے مراد ایسی خیرات ہے ، جس کے اندر جذبہ خیر کی شدت نہ ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(265 ۔ 266) ۔ دنیا کے ہر ایک باغ کے جس طرح دو موسم ہوتے ہیں ایک پھل کھانے کی نیت سے باغ میں ہر طرح کے پودے لگانے کا موسم اور پھر ان پودوں کے لگ جانے اور بڑھ جانے اور ان میں پھل آجانے پر ان کے پھل کھانے کا موسم اسی طرح انسان کے عملوں کے دو زمانہ ہیں ایک دنیا میں نیک عملوں کا اجر پانے کا جس کو باغ کے پھل کھانے کے موسم کے ساتھ پوری مشابہت ہے۔ ان ہی مشابتو وں کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں لوگوں کے نیک و بد عملوں کی مثال دو باغوں کا ذکر فرما کر لوگوں کو سمجھائی ہے ایک باغ تو وہ ہے جو اونچی جگہ پر ہر طرح کی پامالی سے بچا ہوا ہے۔ مینہ۔ اوس۔ سب کچھ اس کی ترقی کا سبب ہے۔ اس لئے امید سے زیادہ اس کے پیڑوں میں پھل آیا یہ ان لوگوں کے عمل کی مثال ہے جو خالص عقبیٰ کے اجر کے ارادہ سے عمل کرتے ہیں آخر مثال { وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرَ } کا یہ مطلب ہے کہ ہر ایک کے دلی ارادہ کا حال اللہ تعالیٰ ہی کو خوب معلوم ہے۔ دوسرا باغ بھی اچھا تھا۔ مگر عین بہار کے وقت اس باغ کے حق میں ایسی مخالفت ہواچلی کہ تمام باغ جل کر خاک سیاہ ہوگیا۔ اور ایسے وقت پر جلا کہ بڑھاپے کے سبب سے باغ والا اور چھوٹی عمر ہونے کے سبب سے اس کی اولاد دوسرا باغ لگانے سے سب عاجز ہیں یہ ان لوگوں کے علم کی مثال ہے کہ دیکھنے میں وہ روزہ نماز، خیر خیرات سب کچھ کرتے ہیں مگر یہ سب کچھ دنیا کی کسی غرض سے عقبیٰ کی نیت سے کچھ بھی نہیں اس لئے قیامت کے دن اس بڈھے باغ والے کی طرح ایسے لوگ اپنے عملوں کے اجر سے بالکل ہاتھ دھو بیٹھیں گے آخر مثال پر { کذلک یبین اللہ لکم الآیات لعلکم تتفکرون } کا یہ مطلب ہے کہ آیت کے نازل ہونے کے وقت تک جو لوگ دنیا میں زندہ وحیات ہیں ان کو اپنے عملوں کی اصطلاح میں غور و فکر کرنے کا موقع حاصل ہے یہ وقت ہاتھد سے نکل گیا تو عین وقت پر اس بڈھے باغ والے کی طرح پھر کچھ نہیں ہوسکنے کا صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن صحابہ سے پوچھا کہ مفلس کو نسا آدمی کہلاتا ہے۔ صحابہ نے جواب دیا کہ حضرت مفلس وہی شخص ہے جسے پاس روپیہ پیسہ نہ ہو آپ نے فرمایا نہیں اصل مفلس وہ آدمی ہے جس کے نامہ اعمال میں نیک عمل جنت کے جانے کے قابل ہوں گے۔ لیکن ساتھ ہی اس کے اس نے لوگوں پر ظلم اس قدر کئے ہوں گے کہ ان ظلموں کے بدلے میں اس شخص کے سب نیک عمل مظلوں کو بٹ جائیں گے اور آخر رو وہ شخص دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ١۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن بعض لوگ ایسے بھی ہوں گے کہ ان کے علموں میں کچھ خرابی نہ ہوگی۔ مگر ظلم و زیادتی کے سبب سے ان لوگوں کے نیک عمل ان کے کچھ کام نہ آئیں گے اس لئے انسان کو لازم ہے کہ اپنے عملوں کی اصطلاح کے ساتھ ظلم و زیادتی سے بچنے کا بھی پورا خیال رکھے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:265) ابتغاء مرضات اللہ۔ مرضات اللہ مضاف مضاف الیہ مل کر مضاف الیہ ۔ ابتغائ۔ مضاف۔ ابتغاء منصوب بوجہ مفعول لہ ینفقون کا۔ جو اپنا مال خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ ابتغاء بروزن (افتعال) مصدر ہے بمعنی چاہنا ۔ تلاش کرنا۔ مرضات مصدر میمی واسم مصدر۔ پسند کرنا۔ رضا مند ہونا۔ پسندیدگی۔ خوشنودی۔ رضا مندی۔ اسی سے ہے راضی اسم فاعل رضوان خوب رضا مندی۔ وتثبیتا من انفسھم۔ واؤ عاطفہ ہے تثبیتا بھی منصوب بوجہ مفعول لہ ہے ای ولتثبت (ایمان و اعتقاد کے استحکام کے واسطے ) تثبیت (باب تفعیل) مصدر ہے بمعنی ثابت قدم کرنا۔ ثابت رکھنا۔ مستحکم کرنا۔ مضبوطی ۔ تاکید۔ اپنے نفسوں کے (ایمان و اعتقاد میں ) استحکام کے لئے۔ ” اور اسلام کو مضبوط بنانے۔ اور اللہ کے وعدہ جزاء کی تصدیق کرنے اور ثواب کی امید رکھنے کی غرض اے اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں “ (تفسیر مظہری) ” اپنے دلی اعتقاد سے خرچ کرتے ہیں “۔ (تفسیر حقانی) ” اور اپنے نفس میں پختگی (پیدا کرنے کی غرض سے) “۔ (تفسیر ماجدی) ” اور خلوص نیت سے اپنا مال خرچ کرتے ہیں “۔ ترجمہ مولانا فتح محمد جالندھری۔ کمثل جنۃ۔ ک تشبیہ کا ہے۔ مثل جنۃ۔ مضاف مضاف الیہ ۔ (ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ کی خوشنودی اور اپنے نفس کی پختگی کے لئے خرچ کرتے ہیں) ایک (ایسے) باغ کی سی ہے۔ بربوۃ۔ ب حرف جار بمعنی علی۔ ربوۃ۔ مجرور۔ اسم ہے اس کی جمع ربی وربی بمعنی ٹیلہ ، بلندی، بلند جگہ۔ ربا یربو۔ رباء (باب نصر) ٹیلہ پر چڑھنا۔ ربا فلان۔ فلاں اونچی جگہ پر چلا گیا۔ یا چڑھ گیا۔ آیت ہذا میں اونچی جگہ کے معنوں میں مستعمل ہے۔ ربا۔ یربو۔ ربی (باب نصر) بمعنی (گھوڑے کا) پھولنا ۔ چونکہ پھولنے میں بلندی اور ابھرنے کے معنی متضمن ہیں اس لئے ایسی زمین جو اپنی زرخیزی کی وجہ سے یا کھاد وغیرہ سے پھولے اور ابھرے اسے بھی ربوہ کہتے ہیں۔ ان معنی میں قرآن مجید میں ہے فاذا انزلنا علیہا الماء اھتزت وربت (22:5) پھر جب ہم اس پر مینہ برساتے ہیں تو وہ شاداب ہوجاتی ہے اور ابھرنے لگتی ہے۔ بربوۃ صفت ہے جنۃ کی جملہ اصابھا وابل بھی جنۃ کی صفت ہے۔ فاتت۔ ف سببیہ ہے اتت ماضی واحد مؤنث غائب ایتاء (افعال) مصدر۔ وہ لائی ۔ اکلہا۔ مضاف مضاف الیہ۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع جنۃ ہے۔ اس باغ کا میوہ اس کا پھل۔ الا کل پھل۔ خوراک ضعفین۔ دو چند، دو گنا، تو وہ دو گنا پھل لاتا ہے۔ فان لم یصبھا۔ ف عاطفہ ان شرطیہ لم یصب مضارع نفی حجد بلم۔ صیغہ واحد مذکر غائب۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب۔ پھر اگر وہ نہ برسے اس پر۔ جملہ شرطیہ ہے۔ فطل۔ ف جواب شرط کے لئے ہے۔ طل ہلکی بارش۔ پھوار۔ اوس۔ شبنم۔ اس کی جمع طلال وطلل ہے یہ مبتداء ہے اس کی خبر محذوف ہے۔ ای فطل یکفیہا۔ تو اس کے لئے پھوار ہی کافی ہے۔ بصیر۔ فعیل کے وزن پر بمعنی فاعل ہے دیکھنے والا۔ جاننے والا۔ فائدہ : مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنا مال اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کا عمل اس باغ کی طرح ہے جو ایک اونچے ٹیلہ پر زرخیز زمین پر واقع ہوکر اگر ذرا سی بارش اس پر پڑے تو اس کو پھل دوگنا آئے اور اگر زور کی بارش نہ ہو اور صرف پھوار ہی پڑجائے تو بھی کافی ہے باغ پھر بھی پھل لے آئے گا۔ گو وہ چند ہی سہی۔ یعنی ایسے لوگوں نے اگر اپنی خیرات کے ساتھ ثواب کو دوگنا کردینے والے اعمال بھی کئے ہیں تو ثواب چند درچند حسب مشیت خداوندی ہوجاتا ہے۔ اور اگر بالفرض ایسے اعمال انہوں نے نہ بھی کئے ہوں تو بہرحال پھر بھی ان کو اپنے اصل عمل کا ثواب لازمی ملے گا وہ ہرگز رائیگاں نہیں جائے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یہ ریاکاروں کے مقابلہ میں مخلص مومنوں کی دوسری مثال ہے یعنی جو لوگ محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے خرچ کرتے ہیں اور دل کے اس اطمینان کے ساتھ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس کا وافر اجر عطا فرمائے گا اور ان کا عمل ضائع نہیں ہوگا۔ (کبیر) ان کے خرچ کرنے کی مثال اس باغ کی ہے جو کسی پر فضا اور بلند مقام پر ہو اگر اس پر زور کی بارش ہو تو وہ دوسرے باغوں سے دگنا پھل دے اور اگر زور کی بارش ہو تو ہلکی بارش ہی کا فی رہے۔ یہی حالت مومن کے عمل کی ہے وہ کسی صورت بھی ضائع نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے گا اور ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزادے گا۔ (ابن کثیر) شاہ صاحب لکھتے ہیں : زور کے مینہ سے مراد زیادہ مال خرچ کرنا ہے اور طل (اوس) سے مراد تھوڑا مال۔ سو اگر نیت درست ہے تو بہت خرچ کرنا بہت ثواب اور تھوڑا بھی کام آتا ہے جیسے خالص زمین پر باغ ہے جتنا مینہ برسے گا اس کا فائدہ ہے بلکہ اوس بھی کافی ہے۔ اور نیت درست نہیں تو جس قدر زیادہ خرچ کرے ضائع ہے کیونکہ زیادہ مال دینے میں دکھا وابھی زیادہ ہے جیسے پتھر پر دانہ، جتنا زور کا مینہ برسے اور ضرر دے کہ مٹی دو ھوئی جائے (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ریا کاری ‘ احسان جتلانے اور تکلیف والے صدقہ کے مقابلہ میں لِوَجْہِ اللّٰہِ کیے گئے صدقہ کے ثمرات و انجام۔ یہاں دو مثالوں کے ذریعے دو قسم کا کردار واضح کیا جارہا ہے۔ پہلی مثال میں ایسے سخی کی بات تھی جو کسی کو صدقہ دینے کے بعد احسان جتلاتا اور اذیّت دے کر اپنے صدقے کو اس طرح ضائع کر بیٹھتا ہے جیسے نمود و نمائش کرنے والے کا اللہ تعالیٰ اور آخرت پر یقین نہیں ہوتا جس وجہ سے اس کا اجر ضائع ہوجاتا ہے۔ اس صدقے کی مثال ایک چٹان اور اس پر پڑی ہوئی مٹی سے دی گئی تھی جو بارش کے چند قطروں سے صاف ہوجائے۔ گویا کہ ریا کار اور اس قسم کے آدمی کے صدقے کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ حالانکہ پتھر پر مٹی کے ذرات ہوں تو بارش کے بعد اس پر کچھ نہ کچھ ضرور اگتا ہے۔ ایسے ہی اگر اخلاص کے ساتھ صدقہ کیا جائے تو اس کے مخیّر کے دل اور معاشرہ پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن جس طرح چٹان پر بارش کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ایسے ہی ریا کار کو صدقہ کرنے کا کوئی اجر وثواب حاصل نہیں ہوگا۔ اس کے بعد اس صاحب دل اور خوش قسمت انسان کی مثال دی جارہی ہے جو اپنے دل کے اطمینان، روح کی خوشی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے صدقہ کرتا ہے۔ اس کی مثال اس باغ جیسی ہے جو بلند اور ہموار زمین پر ہو جس پر بارش نہ بھی ہو تو اسے شبنم ہی کفایت کرتی ہے۔ اخلاص نیت کے ساتھ کیے جانے والے صدقہ میں اگر کوئی کمی و کمزوری رہ جائے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی تلافی فرما دے گا۔ کیونکہ صدقہ کرنے والا اس نیت کے ساتھ کر رہا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ہی مال تھا جو میں نے اس کے کمزور بندوں پر خرچ کیا ہے اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ ایسا شخص نمود و نمائش، احسان جتلانے اور تکلیف دینے سے اجتناب کرتا ہے۔ دوسری مثال میں مخیر حضرات کی توجہ اس جانب دلائی جارہی ہے کہ کیا تم میں کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس کھجوروں اور انگوروں پر مشتمل ایک بہترین باغ ہو اور اس میں آب پاشی کا خود کار نظام ہو ‘ اس باغ کا مالک بوڑھا اور اس کی چھوٹی چھوٹی اولاد ہو اور وہ باغ بھر پور طریقے سے پھل دے رہا ہو۔ اچانک اس باغ کو آگ کا بگولہ خاکستر کر دے۔ بتائیے کہ ایسے سانحہ فاجعہ پر اس بوڑھے مالک کی کیا حالت ہوگی ؟ جو لوگ خرچ کرنے کے بعد شہرت کے طالب اور مسکین کو اذیت پہنچاتے ہیں۔ قیامت کے دن ان کا معاملہ باغ کے بوڑھے مالک کی طرح ہوگا جسے بڑھاپے میں ایک ایک پائی کی ضرورت تھی اور بچے کمزور اور کمانے کے لائق نہیں تھے جو بچے اس سانحہ کے وقت بچے اپنے باپ کی کوئی مدد نہ کرسکے جب کہ بوڑھے باپ اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے سامنے باغ جل رہا تھا۔ بوڑھا اسے بچانے کی کوشش کے باوجود نہ بچا سکا۔ نمود و نمائش اور صدقہ کرنے کے بعد احسان جتلانے اور تکلیف دینے والے کو قیامت کے دن ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے کمینے پن کی وجہ سے آج اس کے سامنے اس کی امیدیں ختم ہورہی ہیں۔ جب اسے جہنم کی طرف دھکیلا جارہا ہوگا تو اولاد سمیت کوئی بھی اس کی مدد نہیں کرسکے گا۔ اس نازک ترین صورت حال کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا کوئی دنیا میں ایسا شخص ہوسکتا ہے جو اپنے اور اپنی اولاد کے لیے ایسا حادثہ پسند کرتا ہو ؟ ظاہر ہے کوئی پسند نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنے احکامات اس لیے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم اپنے فکر و عمل پر غور کرو۔ مسائل ١۔ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والا خسارہ نہیں اٹھاتا۔ ٢۔ ریا کاری اور احسان جتلانے سے اعمال غارت ہوجاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن لوجہ اللہ خرچ کرنے کا ثواب : ١۔ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والے کو پورا پورا اجر ملے گا۔ (البقرۃ : ٢٧٢) ٢۔ اللہ کی رضا کے لیے کیے گئے کام کا بڑا اجر ہے۔ (النساء : ١١٤) ٣۔ اللہ کی رضا کے متلاشیوں کا انجام بہترین ہوگا۔ (الرعد : ٢٢) ٤۔ مخلص، مخیرحضرات لوگوں کے شکریہ اور جزا سے بےنیاز ہوتے ہیں۔ (الدھر : ٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس منظر کے بالمقابل ایک دوسرا منظر ہے ، جو اس کے بالکل متضاد ہے ۔ ایک دل ہے جو ایمان سے بھرا ہوا ہے ۔ وہ ایمان کی تروتازگی سے سرشار ہے ۔ وہ اپنے مال کو محض رضائے الٰہی کی خاطر خرچ کرتا ہے ۔ اسے پورا پورا یقین ہے کہ وہ جو کچھ خرچ کررہا ہے اس کا وہ اجر ضرور پائے گا۔ اور یہ خرچ وہ محض اپنے ایمان اور نظریہ کے تقاضے کے طور پر کرتا ہے ۔ یہ نظریہ اس کے دل کی گہرائیوں میں رچا بسا ہے ۔ ایک طرف یہاں ریاکار دل ہے ، اس کو ایک ایسے پتھر کے ساتھ مشابہت دی گئی ہے جس پر مٹی کا ایک خفیف سا پردہ ہے۔ اور دوسری جانب ایک ایسا دل ہے جو ایمان سے بھرپور ہے اور اسے ایک سرسبز باغ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس کی زمین زرخیز ہے اور مٹی گہری ہے جبکہ پتھر پر مٹی کا ایک خفیف سا پردہ تھا ۔ باغ ایک اونچے مقام پر ہے اور مذکورہ چٹان ایک گہرے گڑھے میں ہے ۔ تاکہ یہ دونوں مناظر متناسب اور ہم شکل ہوجائیں ۔ اب اگر اس باغ پر موسلادھار بارش برس جاتی ہے تو اس سے اس کی تروتازگی ختم نہیں ہوتی ۔ جس طرح چٹان پر سے مٹی کی خفیف تہہ بہہ نکلتی ہے ۔ بلکہ بارش اس باغ کو زیادہ سرسبز اور شاداب کردیتی ہے ۔ اسے نئی زندگی عطا کرتی ہے اور اس کی نشوونما ہوتی ہے ۔ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ ................ ” اور اس پر زور کی بارش ہوجائے تو دگنا پھل لائے۔ “ یہ بارش اس باغ کو زندہ اور سرسبز کردیتی ہے ۔ جس طرح صدقہ ایک مومن کے دل کو پاک وصاف کردیتا ہے اور اس کی وجہ سے ایک مومن کا تعلق باللہ مضبوط ہوجاتا ہے۔ دل مومن کی طرح ایک مومن کا مال بھی صاف ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالتے ہیں اور اسی طرح انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعہ جماعت مسلمہ کی اجتماعی زندگی میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے اور اس سے اجتماعی روابط بڑھتے ہیں ۔ اور اگر وہ بارش نہ بھی ہو تو ایک ہلکی پھوار ہی اس کے لئے کافی ہوجاتی ہے جبکہ مٹی میں پہلے سے نم موجود ہو تو ہلکی بارچ بھی کافی ہوتی ہے۔ یہ ہے ایک مکمل نظارہ ، جس کے مناظر ایک دوسرے کے بالمقابل صاف نظر آتے ہیں جس کی جزئیات باہم متناسب ہیں اور جسے ایک معجزانہ پیرایہ اظہار میں پیش کیا گیا ہے۔ طرز ادا میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور اس کے مناظر تمام دلی خلجانات اور تمام غلط تصورات کے علاج کے لئے بالکل واضح ہیں ۔ یہ منظر انسانی وجدان اور انسانی شعور کے سامنے ایک صاف تصویر پیش کرتا ہے ۔ تمام حالات اور تمام محسوسات کو بڑے امتیاز کے ساتھ پیش کرتا ہے ۔ جو انسان کے قلب پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ اور انسان بڑی آسانی سے راہ ہدایت پالیتا ہے ۔ اس منظر کا تعلق چونکہ فکر ونظر سے تھا ۔ اور اس سے اصل غرض وغایت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی جائے اور اس ظاہری دنیا سے آگے اس کے کرشمہ ہائے قدرت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جائے ۔ اس لئے اس کے آخر میں یہ نتیجہ نکالا گیا وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ................ ” رہا دوسرا منظر تو احسان جتلانے اور اذیت دینے کی انتہائی تمثیل ہے ۔ اس میں باری تعالیٰ بتاتے ہیں کہ اس قسم کے صدقے اور احسان کو اللہ تعالیٰ کس طرح تباہ وبرباد کردیتے ہیں ، جبکہ صاحب صدقہ اور صاحب احسان اس وقت اس صدقے اور احسان کے فائدے کا زیادہ محتاج ہوتا ہے۔ وہ ضعیف ہوجاتا ہے ۔ جسمانی قوتیں ختم ہوتی ہیں لیکن وہ اس بربادی کا کوئی علاج نہیں کرسکتا ۔ یہ انجام بد کی ایک انتہائی قسم کی بری منظر کشی ہے ۔ اور نہایت ہی موثر اور سبق آموز۔ اس منظر میں امن اور خوشحالی کے بعد مکمل تباہی اور ویرانی ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنیوالوں کی مثال اس آیت شریفہ میں مؤمنین صالحین مخلصین کے مال خرچ کرنے کی ایک مثال بتائی ہے اور اس مثال میں ان کے ثواب کی کثرت اور عنداللہ مقبولیت ظاہر فرمائی ہے، ارشاد فرمایا کہ جو لوگ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں اور اس خرچ کرنے میں ان کی یہ بھی نیت ہے کہ ان کے نفس اس نیکی کرنے میں پختہ ہوجائیں تاکہ نفس خرچ کرنے کے خوگر رہیں اور کنجوسی کو پاس نہ آنے دیں تو ایسے لوگوں کے خرچ کرنے کی ثواب کے اعتبار سے ایسی مثال ہے جیسے کسی ٹیلے پر ایک باغیچہ ہو (ٹیلوں کی آب و ہوا باغوں کے لیے نہایت مناسب ہوتی ہے) پھر اوپر سے زور داربارش بھی ہوجائے تو زمین کو اور زیادہ قوت و طاقت پہنچ جائے جس کی وجہ سے دو گنے پھل آجائیں چونکہ یہ باغیچہ اونچے ٹیلہ پر ہے اس لیے زور دار بارش نہ ہو تو تھوڑا بہت چھینٹا بھی اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے جس طرح اس باغیچہ میں پھل خوب کثیر مقدار میں آئیں گے اہل ایمان اخلاص کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے جو مال خرچ کریں گے اسی طرح ان کے خرچ کرنے کا ثواب بھی بہت زیادہ ملے گا۔ آخر میں فرمایا (وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ) یعنی جو بھی کوئی کسی طرح کا عمل کرتا ہے اچھا ہو یا برا، اللہ تعالیٰ سب کو دیکھتا ہے ہر عمل کا بدلہ اللہ کے یہاں سے ملے گا۔ ریا کار کو بھی اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور مخلص کو بھی، اپنے عمل کی ہر ایک کو نگرانی کرنا لازم ہے کہ اخلاص ہے یا نہیں صاحب بیان القرآن لکھتے ہیں کہ اس تشبیہ میں جو دو (٢) طرح کی بارش فرض کی گئی ہے اس سے مقصود تفاوت مراتب اخلاص کا بیان کرنا ہے کہ چونکہ انفاق ایمان کے ساتھ مقرون ہے مَنّ و أذیٰ ورِیَا اس میں مفقود ہے اخلاص اس میں موجود ہے تو ضروری ہے مقبول ہو کر موجب تضاعف اجر وثواب ہوجاتا ہے۔ خواہ اخلاص اعلی درجہ کا ہو یا اوسط یا ادنی کا ہو، نفس قبول و تضاعف کے لیے ہر حال میں کافی ہے گوتفاوت مراتب اخلاص سے مراتب قبول و تضاعف میں بھی تفاوت ہوجائے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

524 ریاکاروں اور منافقوں کی مثال بیان کرنے کے بعد ان مومنین کے صدقات کی مثال بیان فرمائی جو محض اللہ کی رضا جوئی اور تزکیہ نفوس حاصل کرنے کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ ابتغاء مفعول لہ ہے۔ تثبیتاً اس پر معطوف ہے۔ من انفسہم میں من ابتدائیہ ہے۔ یعنی وہ اللہ کی رضاجوئی اور دل کے کامل یقین اور ایمان کی وجہ سے خرچ کرتے ہیں۔ وقال الشعبی والسدی وقاتادة ایضا وابن زید وابو صالح وغیرھم تثبیتا معناہ وتیقنا ای ان نفوسھم بھا بصائر فھی تثبتھم علی الانفاق فی طاعة اللہ تعالیٰ تثبیتا (قرطبی ص 314 ج 3) ربوة کے معنی ہیں۔ ٹیلہ یعنی وہ جگہ جو دوسری زمین کی نسبت کچھ اونچی ہو۔ اور طل سے یہاں شبنم مراد نہیں۔ بلکہ ہلکی اور خفیف بارش مراد ہے۔ والطل المطر الضعیف المستدق من القطر الخفیف قالہ ابن عباس وغیرہ (قرطبی ص 317 ج 3) تمثیل کا ماحصل یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی رضا کے لیے اور پورے ایمان واخلاص کے ساتھ مال خرچ کرتے ہیں۔ ان کے صداقات اس طرح پھولتے پھلتے اور بار آور ہوتے ہیں جس طرح ٹیلے پر ایک باغ ہو اور اس پر موسلا دھار بارش برسے تو اس باغ کافی پھل دیتا ہے۔ اسی طرح اخلاص نیت سے کیے ہوئے صدقات کا اجر خدا کے یہاں کئی گنا ملتا ہے اگر اخلاص اعلی درجہ کا نہ بھی ہو تو مطلق ایمان اور نیت کی درستی بھی صدقات کا ثواب بڑھانے کے لیے کافی ہے۔ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۔ اس لیے وہ مخلص اور ریاکار کو خوب جانتا ہے اور ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزا دے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور خوشنودی کی جستجو کرنے کی غرض سے اور اپنے دلوں کو مضبوط کرنے اور تقویت پہنچانے کے لئے اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کئے ہئے مالوں کی حالت ایسی ہے ۔ جیسے ایک باغ کی حالت کہ وہ باغ کسی بلند مقام پر اور ٹیلے پر واقع ہو پھر اس پر زور کی بارش ہو اجئے اور اس پر خوب مبینہ پڑجائے تو وہ دگنا اور چوگنا پھل لائے اور اگر اس پر زور کی بارش نہ بھی بر سے تو معمولی سی پھوار اور ہلکی سی بارش بھی اس کے لئے کافی ہے اور تمہارے تمام اعمال کو جو تم کرتے رہتے ہو اللہ تعالیٰ خوب دیکھتا ہے۔ اوپر کی آیت میں ان لوگوں کا ذکر تھا جن کا صدقہ اجر کے اعتبار سے ایسا تھا جیسے دھلا ہوا پتھر یعنی جو مٹی پڑی تھی یا اس مٹی میں کوئی دانہ جما تھا وہ سب بہہ گیا خواہ وہ احسان رکھنے اور ایذا پہنچانے کی وجہ سے ہو، خواہ ریا اور دکھاوے کی وج ہ سے ہو اور خواہ مشبہ اور مشبہ بہ دونوں مسلمان ہوں اور خواہ مشبہ مسلمان ہو اور مشبہ بہ حقیقی کافر اور منافق ہو اس لئے ہم نے اوپر کی آیت میں کافرین کا ترجمہ منکر اور ناسپاس کیا تھا اب مخلصین کا ذکر ہے اور چونکہ مخلصین کا ہر کار خیر محض اس غرض سے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور خوشنودی حاصل ہوجائے اور وہ اسی تلاش میں رہتے ہیں تو زکوۃ و خیرات میں بھی ان مخلصین کی یہی نیت ہوتی ہے۔ اس لئے ارشاد فرمایا۔ ابتغاء مرضات اللہ نیز اس قسم کے حضرات کی یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ طاعت اور کار خیر کے بجا لانے میں جو مشقت ہوتی ہے اور مشقت سے نفس گھبراتا ہے اس لئے کسی طرح نفس کو خوگر بنایا جائے چناچہ وہ بار بار کار خیر کو بجا لاتے ہیں اور مجاہدہ کرتے ہیں تاکہ ان کا نفس طاعت و عبادت کا خوگر ہوجائے تو گویا خیرات کرنے سے ان کا دوسرا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اپنے نفس کو طاعات الٰہی پر آمادہ کیا جائے اور اپنے نفوس کو مضبوط اور اپنے قلوب کو تقویت پہنچائی جائے تاکہ احکام الٰہی کی تعمیل میں کوئی قوت مزاحم نہ کرسکے۔ اسی کو حق تعالیٰ نے وتثبتا من انفسم سے تعبیر فرمایا ہے اور ہوسکتا ہے کہ تثبیت کے معنی تصدیق کے ہوں جیسا کہ قتادہ ابو صالح کا قول ہے اور اسی کو ابن جریر نے اختیار کیا ہے اور پھر ہوسکتا ہے کہ مطلب یہ ہو کہ ثواب کی امید رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے اجر کی توقع رکھتے ہیں اس قول کو ابن کثیر نے اختیار کیا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سچے اور پکے دل سے خیرات کرتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان مخلصین کو ایک خاص بصیرت حاصل ہے جو ان کو طاعت الٰہی میں ثابت قدم رکھتی ہے یہ سب اقوال سلف سے منقول ہیں اور ا نسب کی گنجائش ہے اور باظہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اوپر کی آیت میں خیرات و صدقات کے بطلان کی دو صورتیں فرمائی تھیں، ایک من و اذی اور دوسری ریا اور دکھاوا اور چونکہ ریا کاری کا اصل منشا اور جڑ اللہ پر اور قیامت کے دن پر صحیح ایمان کا نہ ہونا ہے۔ اس لئے ولا یئومن باللہ والیوم الاخر بھی فرمایا تھا اگر یہ ایمان بالکل نہ ہو تو کافر یا منافق ہوگا اور اگر ایمان تو ہو مگر پختہ نہ ہو تو کچا مسلمان ہوگا یہی دو قول اوپر کی آیت کے متعلق مفسرین سے منقول ہیں اور ان ہی کی طرف ہم نے تسہیل میں اشارہ بھی کردیا ہے۔ بہر حال ریا کار خواہ منافق ہو اور کافر ہو، خواہ وہ مسلمان ہو جس کا عقیدہ کچا اور حام ہو ، دو ہی صورتیں ثواب کو ضائع کرنے والی تھیں ایک ثواب کی زیادتی کو برباد کرنے والی تھی اور ایک بالکل ثواب کو باطل کرنے والی تھی اور وہ دونوں چیزیں جس سے اجر وثواب میں نقصان اور بطلان ہوتا تھا ان دونوں کو اوپر کی آیت میں ذکر فرمایا تھا تو اب اس آیت میں ان دونوں کے مقابلہ میں ایسی دو چیزیں ذکر فرمائیں جو ثواب کو بڑھانے والی اور دگنا چوگنا کرنے والی ہیں پہلی آیت میں احسان جتانے اور تکلیف پہنچانے کو بطلان یا نقصان کا سبب قرار دیا تھا اس آیت میں اس کے مقابلہ کے لئے ابتغا مرضات اللہ فرمایا یعنی وہ لوگ تو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے اپنے مال خرچ کرتے ہیں اور جس شخص کا منتہائے نظر خدا تعالیٰ کی رضا مندی ہوگا وہ کسی پر نہ اپنی خیرات کا احسان جتائے گا اور نہ سائل کو تکلیف دے گا بلکہ وہ تو سائل کا ممنون ہوگا اور یہ سمجھے گا کہ سائل تو حضرت حق کی رضا مندی کا سبب اور ذریعہ ہے اور کوئی بھی ایسا بیوقوف ہوسکتا ہے کہ جو شخص اس کے حصول مقصد میں اس کی مدد کرے اس کو برا بھلا کہے یا اس پر کسی قسم کا احسان جتائے۔ اسی طرح اوپر کی آیت میں ریا کاری اور دکھاوے کو بطلان صدقہ کا موجب بتایا تھا اس کے مقابلہ میں وتثبیتا من انفسھم فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی خیرات … ریا کاری سے بھی پاک ہوتی ہے کیونکہ ان کا اعتقاد خام نہیں ہوتا بلکہ ان کے قلوب اس بارے میں پختہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کا صدقہ قبول فرمائے گا اور ان کو اپنی مہربانی اور فضل سے ثواب عطا کرے گا اور چونکہ ان حضرات کو ثبات نفس کی دولت اور مرتبہ نصیب سے اس لئے ان کو کبھی ریا اور دکھاوے کا خیال بھی نہیں گذرتا۔ اب خلاصہ یہ ہوا کہ یہ لوگ چونکہ رضائے الٰہی کی جویاں ہیں اس لئے ان کا صدقہ من و اذی سے پاک ہوتا ہے اور چونکہ ان کا مقصد ثبات نفس ہوتا ہے اور پختہ اعتقاد کے ساتھ خیرات کرتے ہیں اس لئے ان کا صدقہ ریا اور دکھاوے سے بھی پاک ہوتا ہے۔ لہٰذا اس قسم کے مخلصین کی صدقات و خیرات کی یہ مثال اور یہ حالت ہے کہ جیسے کوئی باغ کسی بلند مقام پر یا کسی اچھی زمین پر واقع ہو پھر اگر اس پر زور کا مینہ برس جائے تو وہ دوسرے باغوں کے مقابلہ میں دگنا پھل لائے یا خود اپنی پہلی فصل کے مقابلہ میں دگنا چوگنا پھل لائے اور اگر زور کی بارش نہ بھی ہو تو معمولی اور خفیف سی بارش بھی اس کو کافی ہوجائے۔ یہ دو باتیں اس لئے فرمائیں کہ سب مخلصین بھی ایک حالت پر نہیں ہوتے اخلاص میں بھی کمی بیشی ہوتی ہے اور نسبتاً فرق ہوتا ہے اس لئے بارش کی کمی بیشی سے پھلوں کی کمی اور زیادتی میں بھی نسبتاً فرق ہوگا اگرچہ دونوں حالتوں میں صدقہ کا قبول ہونا اور ثواب میں بڑھوتری یقینی ہے لیکن باہم نسبتاً فرق اور تفاوت ہوسکتا ہے اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ بجائے اخلاص کی کمی بیشی کے مال کی کمی بیشی مراد ہو یعنی جو بہت مال خرچ کرے گا اس کو بہت ثواب ملے گا اور جو تھوڑا مال خرچ کرے گا اس کو تھوڑا اجر ملے گا۔ ہاں نیت کا درست ہونا اور شرائط وقیود کی پابندی کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ ربوۃ اس عمدہ اور اچھی زمین کو کہتے ہیں جو کسی بلند مقام پر واقع ہو بعض لوگوں نے کہا ہے بلند مقام پر ہونا ضروری نہیں صرف عمدہ اور اچھی ہو اور پیداوار کے اعتبار سے بہترین ہو۔ ہم نے تسہیل میں دونوں معنوں کی رعایت رکھی ہے ۔ ضعف کے معنی میں اگر صرف زیادتی کا لحاظ رکھا جائے تو ضعفین کے معنی دگنا ہوں گے اور اگر ضعف میں دگنے کا لحاظ رکھا جائے تو ضعفین کے معنی چوگنے ہوں گے۔ ہم نے تیسیر میں دونوں معنی کی رعایت رکھتے ہوئے دگنا چوگنا ترجمہ کیا ہیا ور مخلص بندوں کی خیرات اور حضرت حق کے فضل و احسان کے اعتبار سے چوگنا زیادہ مناسب ہے ۔ (واللہ اعلم) طل ۔ اس بارش کو کہتے ہیں جو طش سے قدرے زائد اور نضح سے کم ہو جیسا کہ اوپر کی آیت میں معلوم ہوچکا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں۔ قیامت کے دن تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ نہ تاطف و مہربانی کے ساتھ بات کرے گا نہ رحمت کے ساتھ ان کو دیکھے گا اور نہ ان کو اپنے قرب سے نوازے گا اور ان کو درد ناک عذاب ہوگا ایک تو وہ جو صدقہ دے کر احسان جتاتا ہے دوسرا وہ جو ماں باپ کا نافرمان ہے تیسرا وہ جو شراب پینے کا عادی ہے۔ (نسائی) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں مینہ سے مراد بہت مال خرچ کرنا اور اوس سے مراد تھوڑا مال سو اگر نیت درست ہے تو بہت خرچ کرنا بہت ثواب اور تھوڑا بھی کام آتا ہے۔ جیسے خالص زمین پر باغ ہے جتنا مینہ پر اس کو فائدہ ہے بلکہ اوس بھی کافی ہے اور نیت درست نہیں تو جس قدر زیادہ خرچ کرے ضائع ہے کیونکہ زیادہ مال دینے میں دکھاوا بھی زیادہ ہے جیسے پتھر پروانہ جتنا زور کا مینہ برسے اور ضرر کرے کہ مٹی دھوئی جائے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں اگر اخلاص نہ ہوا اور نیت خراب ہو اور مقصد ریا کاری ہو تو نقصان ہی نقصان ہے خواہ تھوڑا خرچ کردیا بہت اور اگر اخلاص ہو۔ نیت صحیح ہو۔ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور نفس کی اصلاح مقصود ہو تو فائدہ ہی فائدہ ہے خواہ بہت مال خرچ کردیا تھوڑا۔ اب آگے ایک لطیف اور عبرت انگیز عنوان کے ساتھ ان لوگوں کی حالت بیان کرتے ہیں جن کے صدقات و طاعات بعض کوتاہیوں کی وجہ سے اور شرائط وقیود کی پابندی نہ کرنے کے باعث فاسد و بیکار ہوجائیں۔ (تسہیل)