Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 267

سورة البقرة

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبۡتُمۡ وَ مِمَّاۤ اَخۡرَجۡنَا لَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ ۪ وَ لَا تَیَمَّمُوا الۡخَبِیۡثَ مِنۡہُ تُنۡفِقُوۡنَ وَ لَسۡتُمۡ بِاٰخِذِیۡہِ اِلَّاۤ اَنۡ تُغۡمِضُوۡا فِیۡہِ ؕ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ ﴿۲۶۷﴾

O you who have believed, spend from the good things which you have earned and from that which We have produced for you from the earth. And do not aim toward the defective therefrom, spending [from that] while you would not take it [yourself] except with closed eyes. And know that Allah is Free of need and Praiseworthy.

اے ایمان والو !اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لئے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو ، ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرنا جسے تم خود لینے والے نہیں ہو ، ہاں اگر آنکھیں بند کر لو تو ، اور جان لو کہ اللہ تعالٰی بے پرواہ اور خوبیوں والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Encouragement to Spend Honest Money for Allah's Sake Allah says; يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الاَرْضِ وَلاَ تَيَمَّمُواْ الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِأخِذِيهِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِ ... O you who believe! Spend of the good things which you have (legally) earned, and of that which We have produced from the earth for you, and do not aim at that which is bad to spend from it, (though) you would not accept it save if you close your eyes and tolerate therein. Allah commands His believing servants to spend in charity, as Ibn Abbas stated, from the pure, honest money that they earned and from the fruits and vegetables that He has grown for them in the land. Ibn Abbas said, "Allah commanded them to spend from the purest, finest and best types of their money and prohibited spending from evil and dishonest money, because Allah is pure and good and only accepts that which is pure and good." This is why Allah said, وَلاَ تَيَمَّمُواْ الْخَبِيثَ (and do not aim at that which is bad) meaning, filthy (impure) money, مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِأخِذِيهِ (to spend from it, (though) you would not accept it) meaning, "If you were given this type, you would not take it, except if you tolerate the deficiency in it. Verily, Allah is far Richer than you, He is in no need of this money, so do not give, for His sake, what you would dislike for yourselves." It was reported that, وَلاَ تَيَمَّمُواْ الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ (and do not aim at that which is bad to spend from it) means, "Do not spend from the dishonest, impure money instead of the honest, pure money." Ibn Jarir recorded that Al-Bara bin Azib commented on Allah's statement, يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الاَرْضِ وَلاَ تَيَمَّمُواْ الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ (O you who believe! Spend of the good things which you have (legally) earned, and of that which We have produced from the earth for you, and do not aim at that which is bad to spend from it), that it was revealed about the Ansar. When the season for harvesting date-trees would start, the Ansar would collect ripe-date branches from their gardens and hang them on a rope erected between two pillars in the Masjid of the Messenger of Allah. The poor emigrant Companions would eat from these dates. However, some of them (Ansar) would also add lesser type of dates in between ripe-date branches, thinking they are allowed to do so. Allah revealed this Ayah about those who did this, وَلاَ تَيَمَّمُواْ الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ (and do not aim at that which is bad to spend from it). Ali bin Abi Talhah said that Ibn Abbas commented on the Ayah, وَلَسْتُم بِأخِذِيهِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِ (you would not accept it save if you close your eyes and tolerate therein) means, "If you had a right on someone who would pay you less than what you gave them, you would not agree until you require more from them to make up the difference. This is why Allah said, وَلَسْتُم بِأخِذِيهِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِ (save if you close your eyes and tolerate therein) meaning, `How do you agree for Me what you do not agree for yourselves, while I have a right to the best and most precious of your possessions!"' Ibn Abi Hatim and Ibn Jarir recorded this Hadith and Ibn Jarir added, "And this is the meaning of Allah's statement, لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ By no means shall you attain Al-Birr, unless you spend of that which you love." (4:92) Allah said next, ... وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ And know that Allah is Rich (free of all needs), and worthy of all praise. meaning, "Although Allah commanded you to give away the purest of your money in charity, He is far Richer from needing your charity, but the purpose is that the distance between the rich and the poor becomes less." Similarly, Allah said, لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلاَ دِمَأوُهَا وَلَـكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ It is neither their meat nor their blood that reaches Allah, but it is piety from you that reaches Him. (22:37) Allah is Rich and free of needing anything from any of His creatures, while all of His creatures stand in need of Him. Allah's bounty encompassing, and what He has never ends. Therefore, whoever gives away good and pure things in charity, let him know that Allah is the Most Rich, His favor is enormous and He is Most Generous, Most Compassionate; and He shall reward him for his charity and multiply it many times. So who would lend to He Who is neither poor nor unjust, Who is worthy of all praise in all His actions, statements, and decisions, of Whom there is neither a deity worthy of worship except Him, nor a Lord other than Him. Satanic Doubts Concerning Spending in Charity Allah said,

خراب اور حرام مال کی خیرات مسترد اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو صدقہ کرنے کا حکم دیتا ہے کہ مال تجارت جو اللہ جل شانہ نے تمہیں دیا ہے سونا چاندی اور پھل اناج وغیرہ جو اس نے تمہیں زمین سے نکال کر دئیے ہیں ، اس میں سے بہترین مرغوب طبع اور پسند خاطر عمدہ عمدہ چیزیں اللہ کی راہ میں دو ۔ ردی ، واہیات ، سڑی گلی ، گری پڑی ، بےکار ، فضول اور خراب چیزیں راہِ اللہ نہ دو ، اللہ خود طیب ہے وہ خبیث کو قبول نہیں کرتا ، ہم اس کے نام پر یعنی گویا اسے وہ خراب چیز دینا چاہتے ہو جسے اگر تمہیں دی جاتی تو نہ قبول کرتے پھر اللہ کیسے لے لے گا ؟ ہاں مال جاتا دیکھ کر اپنے حق کے بدلے کوئی گری پڑی چیز بھی مجبور ہو کر لے لو تو اور کوئی بات ہے لیکن اللہ ایسا مجبور بھی نہیں وہ کسی حالت میں ایسی چیز کو قبول نہیں فرماتا ، یہ بھی مطلب ہے کہ حلال چیز کو چھوڑ حرام چیز یا حرام مال سے خیرات نہ کرو ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جس طرح تمہاری روزیاں تم میں تقسیم کی ہیں تمہارے اخلاق بھی تم میں بانٹ دئیے ہیں ، دنیا تو اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو بھی دیتا ہے دشمنوں کو بھی ، ہاں دین صرف دوستوں کو ہی عطا فرماتا ہے اور جسے دین مل جائے وہ اللہ کا محبوب ہے ۔ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی بندہ مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دِل اس کی زبان مسلمان نہ ہو جائے ، کوئی بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں سے بےخوف نہ ہو جائیں ، لوگوں کے سوال پر آپ نے فرمایا ایذاء سے مراد دھوکہ بازی اور ظلم و ستم ہے ، جو شخص حرام وجہ سے مال حاصل کرے اس میں اللہ برکت نہیں دیتا نہ اس کے صدقہ خیرات کو قبول فرماتا ہے اور جو چھوڑ کر جاتا ہے وہ سب اس کیلئے آگ میں جانے کا توشہ اور سبب بنتا ہے ، اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو اچھائی سے دفع کرتا ہے ، خباثت خباثت سے نہیں مٹتی ، پس دو قول ہوئے ۔ ایک تو رَدی چیزیں دوسرا حرام مال ۔ اس آیت میں پہلا قول مراد لیناہی اچھا معلوم ہوتا ہے ، حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کھجوروں کے موسم میں انصار اپنی اپنی وسعت کے مطابق کھجوروں کے خوشے لا کر دوستوں کے درمیان ایک رسی کے ساتھ لٹکا دیتے ، جسے اصحاب صفہ اور مسکین مہاجر بھوک کے وقت کھا لیتے ، کسی نے جسے صدقہ کی رغبت کم تھی اس میں ردی کھجور کا ایک خوشہ لٹکا دیا ، جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر تمہیں ایسی ہی چیزیں ہدیہ میں دی جائیں تو ہرگز نہ لو گے ۔ ہاں اگر شرم و لحاظ سے بادل ناخواستہ لے لو تو اور بات ہے ، اس کے نازل ہونے کے بعد ہم میں کا ہر شخص بہتر ہے بہتر چیز لاتا تھا ( ابن جریر ) ابن ابی حاتم میں ہے کہ ہلکی قسم کی کھجوریں اور واہی پھل لوگ خیرات میں نکالتے جس پر یہ آیت اتری اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں سے صدقہ دینا منع فرمایا ، حضرت عبداللہ بن مغفل فرماتے ہیں مومن کی کمائی کبھی خبیث نہیں ہوتی ، مراد یہ ہے کہ بیکار چیز صدقہ میں نہ دو ، مسند میں حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گوہ کا گوشت لایا گیا ، آپ نے نہ کھایا نہ کسی کو کھانے سے منع فرمایا تو حضرت عائشہ نے کہا کسی مسکین کو دے دیں؟ آپ نے فرمایا جو تمہیں پسند نہیں اور جسے تم کھانا پسند نہیں کرتیں اسے کسی اور کو کیا دو گی؟ حضرت براء فرماتے ہیں جب تمہارا حق کسی پر ہو اور وہ تمہیں وہ چیز دے جو بےقدر و قیمت ہو تو تم اسے نہ لو گے مگر اس وقت جب تمہیں اپنے حق کی بربادی دکھائی دیتی ہو تو تم چشم پوشی کرکے اسی کو لو گے ، ابن عباس فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تم نے کسی کو اچھا مال دیا اور ادائیگی کے وقت وہ ناقص مال لے کر آیا تو تم ہرگز نہ لوگے اور اگر لو گے بھی تو اس کی قیمت گھٹا کر ، تو تم جس چیز کو اپنے حق میں لینا پسند نہیں کرتے اسے اللہ کے حق کے عوض کیوں دیتے ہو؟ پس بہترین اور مرغوب مال اس کی راہ میں خرچ کرو اور یہی معنی ہیں آیت ( لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ) 3 ۔ آل عمران:92 ) کے بھی ۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا اور عمدہ چیز دینے کا ۔ کہیں اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ وہ محتاج ہے ، نہیں نہیں وہ تو بےنیاز ہے اور تم سب اس کے محتاج ہو ، یہ حکم صرف اس لئے ہے کہ غرباء بھی دنیا کی نعمتوں سے محروم نہ رہیں گے ، جیسے اور جگہ قربانی کے حکم کے بعد فرمایا آیت ( لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاۗؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ ) 22 ۔ الحج:37 ) اللہ تعالیٰ نہ اس کا خون لے نہ گوشت ، وہ تو تمہارے تقوے کی آزمائش کرتا ہے ۔ وہ کشادہ فضل والا ہے ، اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ، صدقہ اپنے چہیتے حلال مال سے نکال کر اللہ کے فضل اس کے بخشش اس کے کرم اور اس کی سخاوت پر نظریں رکھو ، وہ اس کا بدلہ اس سے بہت بڑھ چڑھ کر تمہیں عطا فرمائے گا وہ مفلس نہیں وہ ظالم نہیں ، وہ حمید ہے تمام اقوال افعال تقدیر شریعت سب میں اس کی تعریفیں ہی کی جاتی ہیں ، اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں ، وہی تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ، اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں ، وہ ہی تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ، اس کے سوا کوئی کسی کی پرورش نہیں کرتا ۔ حدیث میں ہے کہ ایک چوکا شیطان مارتا ہے اور ایک توفیق کی رہبری فرشتہ کرتا ہے ۔ شیطان تو شرارت پر آمادہ کرتا ہے اور حق کے جھٹلانے پر اور فرشتہ نیکی پر اور حق کی تصدیق پر جس کے دِل میں یہ خیال آئے وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور جان لے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور جس کے دِل میں وہ وسوسہ پیدا ہو وہ آعوذ پڑھے ، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ( آیت الشیطان الخ ) کی تلاوت فرمائی ( ترمذی ) یہ حدیث عبداللہ بن مسعود سے موقوف بھی مروی ہے ، مطلب آیت شریفہ کا یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے شیطان روکتا ہے اور دِل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ اس طرح ہم فقیر ہو جائیں گے ، اس نیک کام سے روک کر پھر بےحیائیوں اور بدکاریوں کی رغبت دلاتا ہے ، گناہوں پر نافرمانیوں پر حرام کاریوں پر اور مخالفت پر اکساتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے برخلاف حکم دیتا ہے کہ خرچ فی سبیل اللہ کے ہاتھ نہ روکو اور شیطان کی دھمکی کے خلاف وہ فرماتا ہے کہ اس صدمہ کے باعث میں تمہاری خطاؤں کو بھی معاف کر دوں گا اور وہ جو تمہیں فقیری سے ڈراتا ہے میں اس کے مقابلہ میں تمہیں اپنے فضل کا یقین دلاتا ہوں ، مجھ سے بڑھ کر رحم و کرم ، فضل و لطف کس کا زیادہ وسیع ہوگا ؟ اور انجام کار کا علم بھی مجھ سے زیادہ اچھا کسے حاصل ہو سکتا ہے؟ حکمت سے مراد یہاں پر قرآن کریم اور حدیث شریف کی پوری مہارت ہے جس سے ناسخ منسوخ محکم متشابہ مقدم موخر حلال حرام کی اور مثالوں کی معرفت حاصل ہو جائے ، پڑھنے کو تو اسے ہر برا بھلا پڑھتا ہے لیکن اس کی تفسیر اور اس کی سمجھ وہ حکمت ہے جسے اللہ چاہے عنایت فرماتا ہے کہ وہ اصل مطلب کو پالے اور بات کی تہہ تک پہنچ جائے اور زبان سے اس کے صحیح مطلب ادا ہوں ، سچا علم صحیح سمجھ اسے عطا ہو ، اللہ کا ڈر اس کے دِل میں ہو ، چنانچہ ایک مرفوع حدیث بھی ہے کہ حکمت کا راز اللہ کا ڈر ہے ، ایسے لوگ بھی دنیا میں ہیں جو دنیا کے علم کے بڑے ماہر ہیں ، ہر امر دنیوی کو عقلمندی سمجھ لیتے ہیں لیکن دین میں بالکل اندھے ہیں ، اور ایسے لوگ بھی ہیں کہ دنیوی علم میں کمزور ہوں لیکن علوم شرعی میں بڑے ماہر ہیں ۔ پس یہ ہے وہ حکمت جسے اللہ نے اسے دی اور اسے اس سے محروم رکھا ، سدی کہتے ہیں یہاں حکمت سے مراد نبوۃ ہے ، لیکن صحیح یہ ہے کہ حکمت کا لفظ ان تمام چیزوں پر مشتمل ہے اور نبوۃ بھی اس کا اعلیٰ اور بہترین حصہ ہے اور اس سے بالکل خاص چیز ہے جو انبیاء کے سوا اور کسی کو حاصل نہیں ، ان کے تابع فرمان لوگوں کو اللہ کی طرف سے محرومی نہیں ، سچی اور اچھی سمجھ کی دولت یہ بھی مالا مال ہوتے ہیں ، بعض احادیث میں ہے جس نے قرآن کریم کو حفظ کر لیا اس کے دونوں بازوؤں کے درمیان نبوت چڑھ گئی ، وہ صاحب وحی نہیں ، لیکن دوسرے طریق سے کہ وہ ضعیف ہے منقول ہے کہ یہ حضرت عبداللہ بن عمرو کا اپنا قول ہے مسند کی حدیث میں ہے کہ قابلِ رشک صرف دو شخص ہیں جسے اللہ نے مال دیا اور اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق بھی دی اور جسے اللہ نے حکمت دی اور ساتھ ہی اس کے فیصلے کرنے اور اس کی تعلیم دینے کی توفیق بھی عطا فرمائی ۔ وعظ و نصیحت اسی کو نفع پہنچاتی ہے جو عقل سے کام لے ، سمجھ رکھتا ہو ، بات کو یاد رکھے اور مطلب پر نظریں رکھے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

267۔ 1 صدقے کی قبولیت کے لئے جس طرح ضروری ہے کہ ریاکاری سے پاک ہو جیسا کہ گزشتہ آیات میں بتایا گیا ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ کمائی سے ہو چاہے وہ کاروبار (تجارت و صنعت) کے ذریعے سے ہو یا فصل اور باغات کی پیداوار سے اور یہ فرمایا کہ خبیث چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا قصد مت کرو خبیث سے ایک تو وہ چیزیں مراد ہیں جو غلط کمائی سے ہوں اللہ تعالیٰ اسے قبول نہیں فرماتا حدیث میں ہے ان اللہ طیب لا یقبل الا طیبا (اللہ تعالیٰ پاک ہے پاک حلال چیز ہی قبول فرماتا ہے) دوسرے خبیث کے معنی ردی اور نکمی چیز کے ہیں ردی چیزیں بھی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کی جائیں جیسا کہ آیت (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ) 003:092 کا بھی مفاد ہے۔ اس کے شان نزول کی روایت میں بتلایا گیا ہے کہ بعض انصار مدینہ کی خراب اور نکمی کھجوریں بطور صدقہ مسجد میں دے جاتے جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر۔ بحوالہ ترمذی وابن ماجہ وغیرہ) ۔ 267۔ 2 یعنی جس طرح تم خود ردی چیزیں لینا پسند نہیں کرتے اسی طرح اللہ کی راہ میں بھی ردی چیزیں خرچ نہ کرو بلکہ اچھی چیزیں خرچ کرو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨٣] براء بن عازب کہتے ہیں کہ یہ آیت ہم گروہ انصار کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ ہم کھجوروں والے تھے۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنی قلت و کثرت کے موافق کھجوریں لے کر آتا، کوئی ایک خوشہ، کوئی دو خوشے اور انہیں مسجد میں لٹکا دیتا۔ اہل صفہ کا یہ حال تھا کہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہوتا تھا۔ ان میں سے جب کوئی آتا تو عصا سے خوشہ کو ضرب لگاتا تو اس سے تر اور خشک کھجوریں گر پڑتیں جنہیں وہ کھا لیتا اور جنہیں نیکی کی رغبت نہ ہوتی تھی وہ ایسے خوشے لاتے جن میں ناقص اور ردی کھجوریں ہوتیں اور ٹوٹے پھوٹے خوشے لے کر آتے تب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ براء کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہر شخص اچھی کھجوریں لاتا۔ & (ترمذی، ابو اب التفسیر) اس آیت سے معلوم ہوا کہ جیسے زمین کی پیداوار میں زکوٰۃ فرض ہے ویسے ہی اموال صنعت و تجارت میں بھی فرض ہے۔ نیز یہ بھی کہ خرچ اچھا اور ستھرا مال ہی کرنا چاہیے۔ ناقص اور ردی مال صدقہ نہیں کرنا چاہیے۔ اموال تجارت و صنعت کی زکوٰۃ کے سلسلہ میں درج ذیل احادیث و احکام ملاحظہ فرمائیے۔ دور نبوی میں گو تجارت ہی قریش مکہ کا شغل تھا لیکن ان کا انداز بالکل الگ تھا۔ سال بھر میں دو دفعہ تجارتی قافلے سامان لے کر شام کی طرف نکل جاتے، پھر ادھر سے سامان لا کر مکہ میں فروخت کرتے، پھر دوسرے سفر کی تیاری شروع کردیتے۔ لہذا مستقل دکانوں کا وجود کم ہی نظر آتا تھا۔ اسی طرح صنعت کا کام بھی نہایت محدود طور پر اور انفرادی سطح پر ہوا کرتا تھا۔ لہذا اموال تجارت و صنعت کے احکام اس طرح تفصیل سے احادیث میں مذکور نہیں جس طرح دوسری محل زکوٰۃ اشیاء کی تفصیل مذکور ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ اموال تجارت و صنعت کی زکوٰۃ ادا کرنے سے قاصر ہی رہتے ہیں اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ لوگ اس قسم کی زکوٰۃ کے وجوب کو جانتے ہی نہ ہوں یا اس کے قائل ہی نہ ہو۔ لہذا اس موضوع پر تفصیلی کلام کی ضرورت ہے۔ اموال و صنعت و تجارت پر سب سے بڑی دلیل یہی آیت ہے۔ کیونکہ تجارت اور صنعت بھی انسان کا کسب ہے اور اس کی تائید درج ذیل احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ ١۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔ لوگوں نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جس کے پاس مال نہ ہو (وہ کیا کرے ؟ ) آپ نے فرمایا : وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرے، خود بھی فائدہ اٹھائے اور صدقہ بھی کرے۔ لوگوں نے کہا : اگر یہ بھی نہ ہو سکے آپ نے کہا : تو پھر اچھی بات پر عمل کرے اور بری بات سے پرہیز کرے، یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب علی کل مسلم صدقہ) ٢۔ حضرت سمرہ بن جندب (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں ان تمام اشیاء سے زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیتے تھے جنہیں ہم خریدو فروخت کے لیے تیار کرتے تھے۔ (ابو داؤد، دار قطنی، بحوالہ منذری فی مختصر سنن ج ٢ ص ١١٥) اس حدیث سے ایک تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہر فروختنی چیز پر زکوٰۃ ہے خواہ اس کا ذریعہ حصول تجارت ہو یا صنعت ہو اور دوسرے یہ کہ جو چیز فروختنی نہ ہو اس پر زکوٰۃ نہیں، مثلاً دکان کا فرنیچر اور باردانہ یا فیکٹری کی مشینری یا آلات کشا ورزی اور ہل چلانے والے بیل وغیرہ۔ یعنی ہر وہ چیز جو پیداوار کا ذریعہ بن رہی ہو اس پر زکوٰۃ نہیں اور اس اصل کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی ہوجاتی ہے جو یہ ہے : لیس فی العوامل صدقہ وفی الابل، ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب فی زکوٰۃ السائمہ) ٣۔ حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اونٹوں میں زکوٰۃ ہے۔ بکریوں میں زکوٰۃ ہے، گائے میں زکوٰۃ ہے اور تجارتی کپڑے میں زکوٰۃ ہے۔ (دار قطنی، کتاب الزکوٰۃ، باب لیس فی الخضروات صدقہ) اس حدیث میں تجارتی کپڑے کے لیے بز کا لفظ استعمال ہوا ہے اور بزاز کپڑا فروش کو کہتے ہیں۔ اس حدیث سے باقی تجارتی اموال پر بھی زکوٰۃ کی فرضیت ثابت ہوتی ہے۔ ٤۔ حضرت عمرو بن حماس چمڑے کے ترکش اور تیر بنایا کرتے تھے۔ یعنی یہ ان کا پیشہ تھا۔ حضرت عمر (رض) ان کے پاس سے گزرے تو فرمایا & ان کی زکوٰۃ ادا کرو۔ & ابو عمرو کہنے لگے۔ میرے پاس ان تیروں اور چمڑے کے ترکشوں کے سوا ہے کیا ؟ حضرت عمر (رض) نے فرمایا انہی کا حساب لگاؤ اور ان کی زکوٰۃ ادا کرو۔ (احمد، ابن ابی شیبہ عبدالرزاق، دار قطنی بحوالہ الام للشافعی ج ٢ ص ٣٨ مطبعہ المنیریہ قاہرہ) حضرت عمر (رض) کے اس حکم سے بھی صنعتی پیداوار پر زکوٰۃ کا واجب ہونا ثابت ہوجاتا ہے۔ ٥۔ اور حضرت عمر (رض) کا عمل یہ تھا کہ وہ اپنے دور خلافت میں تاجروں کا مال اکٹھا کرتے۔ پھر ان اموال موجود اور غیر موجود سب کا حساب لگاتے پھر اس تمام مال پر زکوٰۃ وصول کیا کرتے تھے۔ (المحلیٰ ج ٦ ص ٣٤ مطبعہ المنیریہ قاہرہ) اب مفسرین کی طرف آئیے وہ (اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ ٢٦٧۔ ) 2 ۔ البقرة :267) کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں۔ زکوامن طیبات ماکسبتم بتصرفکم اما التجارۃ واما الصناعہ ( یعنی جو کچھ تم نے اپنے تصرف یا محنت سے کمایا ہو اس سے زکوٰۃ ادا کرو۔ خواہ یہ تجارت کے ذریعہ کمایا ہو یا صنعت کے ذریعہ سے (تفسیر طبری ج ٢ ص ٨٠ طبع ١٣٧٢ ھ/١٩٥٤ ء تفسیر ابن کثیر ج ١ ص ٤٠ تفسیر قرطبی ج ٢ ص ٣٢٠، طبع ١٩٣٦ ء، تفسیر قاسمی (ج ٢ ص ٦٨٣ طبع ١٣٧٦ ھ/ ١٩٥٧ ئ) علاوہ ازیں عقلی طور پر بھی یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ ایک غریب کسان تو اپنی پیداوار کا دسواں یا بیسواں حصہ زکوٰۃ ادا کرے اور وہ سیٹھ جو کسان سے بہت کم محنت کر کے کروڑوں روپے کما رہا ہے اس پر زکوٰۃ عائد ہی نہ ہو، یہ حد درجہ کی ناانصافی ہے۔ تجارتی اموال پر زکوٰۃ کی تشخیص کے اصول ١۔ اموال زکوٰۃ کی تشخیص موقع پر ہوگی یعنی اسی جگہ جہاں یہ مال موجود ہو۔ (ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ باب این تصدق الاموال) ٢۔ زکوٰۃ اسی مال سے لینا بہتر ہے جس کی زکوٰۃ ادا کرنا مقصود ہو۔ مثلاً کپڑے کی دکان ہے تو کپڑا ہی زکوٰۃ میں عامل کو لینا چاہیے یا اگر زکوٰۃ دینے والا چاہے تو کپڑے کی زکوٰۃ کپڑے سے ہی دے سکتا ہے۔ اسی طرح کتابوں کی زکوٰۃ کتابوں سے، بکریوں کی بکریوں سے اور یہ زکوٰۃ کا عام اصول ہے جس میں زکوٰۃ دہندہ کی سہولت کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ ہاں اگر زکوٰۃ دینے والا خود ہی نقدی کی صورت میں ادا کرنا چاہے تو ایسا کرسکتا ہے اور اس میں بھی زکوٰۃ دینے والے کی سہولت کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ مثلاً یہ ضروری نہیں کہ سونے یا چاندی کے زیور کی زکوٰۃ سونے، چاندی کی شکل میں ہی دی جائے۔ بلکہ اس کی موجودہ قیمت لگا کر چالیسواں حصہ زکوٰۃ ادا کی جاسکتی ہے۔ ٣۔ زکوٰۃ میں نہ عمدہ عمدہ مال لیا جائے اور نہ ناقص۔ بلکہ اوسط درجہ کا حساب رکھا جائے گا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو زکوٰۃ کی وصولی کے متعلق جو ہدایات دیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ایاک و کرائم اموال الناس (بخاری، کتاب الزکوٰۃ باب اخذا الصدقہ من الاغنیاء و ترد فی الفقراء حیث کانوا) یعنی لوگوں کے عمدہ عمدہ مال لینے سے پرہیز کرنا۔ مثلاً اگر کتابوں کی دکان سے زکوٰۃ وصول کرنا ہو تو یہ نہ کیا جائے کہ کسی بہترین مصنف کی کتب منتخب کرلی جائیں جن کی مارکیٹ میں مانگ زیادہ ہو، بلکہ زکوٰۃ میں ملا جلا یا درمیانی قسم کا مال لینا چاہیے۔ اسی طرح اگر زکوٰۃ ادا کرنے والا خود زکوٰۃ نکالنا چاہے تو یہ نہ کرے کہ جو مال فروخت نہ ہو رہا ہو اسے زکوٰۃ میں دے دے، بلکہ یا تو ہر طرح کا مال دے یا پھر صرف درمیانہ درجہ کا۔ ٤۔ مال کی تشخیص بحساب لاگت ہوگی، یعنی چیز کی قیمت خرید بمعہ خرچہ نقل و حمل وغیرہ قیمت فروخت پر نہ ہوگی۔ ٥۔ فرنیچر اور باردانہ وغیرہ زکوٰۃ کے مال میں محسوب نہ ہوں گے، جیسا کہ اوپر تفصیل گزر چکی ہے۔ ٦۔ زکوٰۃ سال بھر کا عرصہ گزرنے کے بعد نکالی جائے گی اور یہ سال قمری سال شمار کرنا ہوگا، شمسی نہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ماہ رجب میں عاملین کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا کرتے تھے، مگر یہ ضروری نہیں۔ آج کل لوگ اکثر رمضان میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ یہ اس لحاظ سے بہتر بھی ہے کہ رمضان میں ثواب زیادہ ہوتا ہے۔ تاہم زکوٰۃ پوری یا اس کا کچھ حصہ سال پورا ہونے سے پہلے بھی دی جاسکتی ہے حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عباس (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی سوال کیا تو آپ نے اس کی اجازت دے دی (ترمذی، ابو اب الزکوٰۃ، باب فی تعجیل الزکوٰۃ) ٧۔ تجارتی اموال پر شرح زکوٰۃ بچت کی زکوٰۃ والی شرح ہی ہے یعنی چالیسواں حصہ۔ کیونکہ تجارت میں لگایا ہوا سرمایہ سب بچت ہی ہوتا ہے۔ ٨۔ زکوٰۃ موجودہ مال پر عائد ہوگی۔ مثلاً زید نے دس ہزار سے کام شروع کیا۔ جو سال بعد بارہ ہزار کی مالیت کا ہوگیا تو زکوٰۃ دس ہزار پر نہیں بلکہ بارہ ہزار پر شمار ہوگی۔ اسی طرح اگر اسے نقصان ہوگیا یا گھر کے اخراجات زیادہ تھے، جو نفع سے پورے نہ ہو سکے اور مالیت صرف آٹھ ہزار رہ گئی تو زکوٰۃ آٹھ ہزار پر محسوب ہوگی۔ ٩۔ جو مال ادھار پر فروخت ہوا ہے تو وہ ادھار رقم بھی سرمایہ میں شمار ہوگی۔ الا یہ کہ وہ ایسا ادھار ہو جس کے ملنے کی توقع ہی نہ ہو۔ ایسا ادھار محسوب نہ ہوگا۔ ایسے ادھار کے متعلق حکم یہ ہے کہ جب بھی ایسا ادھار وصول ہوجائے تو اس کی صرف ایک بار زکوٰۃ ادا کر دے۔ تجارتی قرضوں کے علاوہ عام قرضوں کی بھی یہی صورت ہے۔ ١٠۔ اگر دکاندار نے کسی سے رقم ادھار لے کر اپنے سرمایہ میں لگا رکھی ہے تو یا تو وہ زکوٰۃ ادا کرنے سے پہلے وہ ادھار واپس کر دے ورنہ وہ اس کے سرمایہ میں محسوب ہوگا۔ ١١۔ مال مستفاد کی آمیزش۔ مثلاً زید نے کاروبار دس ہزار سے شروع کیا۔ چند ماہ بعد اسے پانچ ہزار کی رقم کسی سے مل گئی اور وہ بھی اس نے کاروبار میں شامل کردی۔ اب اگر وہ چاہے تو سال بعد اس بعدوالی رقم کا حساب الگ رکھ سکتا ہے۔ لیکن بہتر یہی ہے کہ ساتھ ہی ساتھ اس مال کی بھی زکوٰۃ نکال دی جائے، تاکہ آئندہ حساب کتاب کی پیچیدگیوں سے نجات حاصل ہوجائے۔ پھر اگر مال زکوٰۃ کچھ زیادہ بھی نکل گیا تو اللہ اس کا بہت بہتر اجر دینے والا ہے۔ ١٢۔ بعض دکانیں ایسی ہوتی ہیں جن کا اچھا خاصا کاروبار ہوتا ہے۔ مگر دکان میں مال یا تو برائے نام ہوتا ہے یا ہوتا ہی نہیں۔ مثلاً سبزی فروش، پھل فروش، شیر فروش، قصاب، ہوٹل، اخباروں کے دفاتر یا پراپرٹی ڈیلروں کے دفاتر وغیرہ، ایسی دکانوں یا کاروباری اداروں میں موجود مال کے حد نصاب کو پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کے سالانہ منافع جات پر تجارتی زکوٰۃ عائد ہوگی اڑھائی فیصد کی شرح سے یا چالیسواں حصہ۔ ١٣۔ گوالے یا گوجر حضرات کی دکان سرے سے ہوتی نہیں، بس ایک لکڑی کا تختہ یا تخت ہی ان کی دکان ہوتی ہے۔ یہ لوگ کافی تعداد میں گائے بھینسیں رکھتے ہیں۔ ان پر مویشی کی زکوٰۃ عائد نہیں ہوتی کیونکہ وہ عامل پیداوار ہے۔ ان کے سالانہ منافع جات پر تجارتی زکوٰۃ عائد ہوگی یہی صورت ڈیری فارم، پولٹری اور مچھلی فارم وغیرہ کی بھی ہے۔ ١٤۔ گائے بھینسیں اگر افزائش نسل کی خاطر رکھی جائیں تو ان پر گائے کی زکوٰۃ کی صورت میں زکوٰۃ لگے لگی، اور کوئی صاحب مویشیوں کی خریدو فروخت کا کاروبار کرتے ہوں تو سالانہ منافع پر تجارتی زکوٰۃ ہوگی اور ڈیری فارم یا گوالوں کے پاس ہو تو یہ عامل پیداوار ہیں۔ ان کی زکوٰۃ بھی سالانہ منافع پر ہوگی۔ ١٥۔ دکانوں اور مکانوں کے کرایہ یا کرایہ پر دی ہوئی ٹیکسیاں اور گاڑیاں وغیرہ ایسی چیزوں یعنی دکانوں، مکانوں یا ٹیکسیوں کی مالیت پر زکوٰۃ نہیں ہوتی بلکہ وصول شدہ کرائے کی کل رقم پر ہوگی اور سال بعد یہ حساب ہوگا۔ مثلاً ایک دکان کا کرایہ دو ہزار ہے تو سال بعد ٢٤ ہزار پر زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔ خواہ یہ رقم ساتھ ساتھ خرچ ہوجائے۔ امام احمد بن حنبل (رح) اپنی کرایہ کی دکانوں کی زکوٰۃ ایسے ہی ادا کیا کرتے تھے۔ البتہ اس رقم سے پراپرٹی ٹیکس یا دوسرے سرکاری واجبات کی رقم مستثنی کی جاسکتی ہے۔ ١٦۔ جائیداد کی خریدو فروخت کا کاروبار : جو لوگ اپنے زائد سرمایہ سے زمینوں کے پلاٹ اور مکان وغیرہ کی تجارتی نظریہ سے خریدو فروخت کرتے رہتے ہیں۔ ان کی فروخت کے متعلق کچھ علم نہیں ہوتا۔ خواہ تین ماہ بعد بک جائیں، خواہ دو سال تک بھی نہ بکیں۔ ایسی جائیداد جب بھی بک جائے اس وقت ہی اس کی زکوٰۃ نکال دینا چاہیے اور یہ زکوٰۃ قیمت فروخت پر ہوگی اور تجارتی زکوٰۃ ہوگی۔ البتہ اگر کوئی شخص اپنی ذاتی ضرورت کے لیے کوئی دکان، مکان، پلاٹ یا گاڑی وغیرہ خریدتا ہے تو اس پر زکوٰۃ نہیں۔ ١٧۔ مشترکہ کاروبار یا سرمائے کی کمپنیوں میں لگے ہوئے سرمایہ کے متعلق یہ تسلی کر لینی چاہیے کہ آیا کمپنی اس مجموعی سرمایہ کی زکوٰۃ ادا کرتی ہے یا نہیں۔ اگر کمپنی نے زکوٰۃ ادا نہ کی ہو تو ہر حصہ دار کو اپنے اپنے حصہ کی زکوٰۃ خود ادا کردینا چاہیے۔ صنعتی پیداوار کی زکوٰۃ : صنعتی پیداوار کی دو باتوں میں زرعی پیداوار سے مماثلت پائی جاتی ہے۔ مثلاً :۔ ١۔ زمین کی اپنی قیمت اس کی پیداوار کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہوتی ہے اور زکوٰۃ پیداوار پر لگتی ہے زمین کی قیمت پر نہیں۔ اسی طرح فیکٹریوں اور ملوں کی قیمت اس پیداوار کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہوتی ہے جو وہ پیدا کرتی ہیں۔ لہٰذا زکوٰۃ پیداوار پر ہونی چاہیے۔ ٢۔ جس طرح بعض زمینیں سال میں ایک فصل دیتی ہیں۔ بعض دو اور بعض اس سے زیادہ اسی طرح بعض کارخانے سال میں ایک دفعہ پیداوار دیتے ہیں۔ مثلاً برف اور برقی پنکھوں کے کارخانے وغیرہ بعض دو دفعہ جیسے اینٹوں کے بھٹے اور بعض سال بھر چلتے رہتے ہیں۔ اور ایک بات میں صنعتی پیداوار کی مماثلت تجارتی اموال سے ہے جس طرح تجارتی اموال پر لاگت کے مقابلہ میں منافع کم ہوتا ہے اسی طرح صنعتی اموال کا بھی حال ہے۔ جبکہ زرعی پیدوار میں لاگت کم اور پیداوار کی قیمت اس کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ان سب باتوں کو ملحوظ رکھ کر دیانتداری کے ساتھ جو اصل مستنبط ہوسکتی ہے وہ یہ ہے کہ صنعتی پیداوار پر زکوٰۃ پیداوار کے منافع پر ہونی چاہیے اور یہ پانچ فیصد یعنی نصف عشر ہونا چاہیے۔ خواہ یہ پیداوار سال میں ایک دفعہ ہو یا دو دفعہ کارخانے سارا سال کام کرتے ہیں ان پر زکوٰۃ تو سال بعد ہوگی مگر اس کی صورت وہی ہوگی یعنی زکوٰۃ پیداوار پر نہیں بلکہ منافع پر ہوگی اور یہ پانچ فیصد ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ ۔۔ : اوپر کی آیات میں بتایا ہے کہ صدقہ و خیرات اور انفاق فی سبیل اللہ کی قبولیت کے لیے شرط یہ ہے کہ اخلاص و ایمان ہو اور یہ بھی بتایا ہے کہ ریا کاری، احسان جتلانے اور تکلیف دینے سے صدقہ ضائع ہوجاتا ہے اور پھر مثالوں سے وضاحت کرکے سمجھایا ہے۔ اب اس آیت میں قبولیت صدقہ کے لیے ایک اور شرط بیان کی ہے کہ صدقہ میں دی جانے والی چیز کا عمدہ اور طیب ہونا ضروری ہے، اگر کوئی شخص ردی چیز دے گا تو وہ اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوگی۔ براء بن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہم انصار کے بارے میں اتری، ہم کھجوروں والے تھے تو ہر آدمی اپنے درختوں میں سے زیادہ یا کم درختوں کے مطابق لے کر آتا تھا، کوئی آدمی ایک خوشہ اور کوئی دو خوشے لا کر مسجد میں لٹکا دیتا۔ اہل صفہ کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہوتا تھا تو ان میں سے جب کسی کو بھوک لگتی تو وہ خوشے کے پاس آ کر اپنے عصا سے ضرب لگاتا تو اس میں سے نیم پختہ اور پختہ کھجوریں گر پڑتیں اور وہ کھا لیتا۔ کچھ لوگ جنھیں نیکی میں رغبت نہ تھی، وہ نکمّے اور ردی خوشے لے آتے اور ایسے خوشے بھی جو ٹوٹے ہوئے ہوتے اور انھیں لٹکا دیتے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ ۔۔ ) مطلب یہ کہ اگر تم میں سے کسی کو اس جیسا تحفہ دیا جائے جو اس نے دیا ہے تو وہ اسے کسی صورت نہ لے، مگر چشم پوشی اور حیا کی وجہ سے۔ براء (رض) فرماتے ہیں، اس کے بعد ہم میں سے ہر ایک اپنی سب سے عمدہ چیز لے کر آتا۔ [ ترمذی، التفسیر، باب ومن سورة البقرۃ : ٢٩٨٧ و صححہ الألبانی ] گو شان نزول میں نفل صدقے کا ذکر ہے مگر یہ حکم فرض زکوٰۃ اور نفل صدقے دونوں کو شامل ہے۔ سہل (رض) فرماتے ہیں : ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقے میں ” جُعُرُور “ اور ” لَون الحُبَیْق “ (دو ردی قسم کی کھجوریں) وصول کرنے سے منع فرمایا۔ “ [ أبوداوٗد، الزکوٰۃ، باب ما لا یجوز من الثمرۃ ۔۔ : ١٦٠٧، و صححہ الألبانی ] وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِيْهِ “ میں ” َلَسْتُمْ “ نفی کی تاکید ” بِاٰخِذِيْهِ “ کی باء کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ترجمہ ” تم اسے کسی صورت لینے والے نہیں “ کیا گیا ہے۔ اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ ۔۔ : لفظ طیب جس طرح عمدہ مال کے معنی میں آتا ہے اسی طرح اس میں وہ مال بھی آجاتا ہے جو حلال طریقے سے کمایا ہوا ہو، پس معنی یہ ہوں گے کہ اللہ کی راہ میں پاکیزہ اور حلال طریقے سے کمایا ہوا مال خرچ کرو، خبیث یعنی حرام مال سے صدقہ قبول نہیں ہوتا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بیشک اللہ تعالیٰ پاک ہے، وہ قبول نہیں کرتا مگر پاک کو۔ “ [ مسلم، الزکٰوۃ، باب قبول الصدقۃ ۔۔ : ١٠١٥، عن أبی ہریرۃ (رض) ] مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ۠: انسانی کمائی کے بڑے ذرائع چار ہیں، زراعت، صنعت، تجارت اور ملازمت۔ کمائی جس طریقے سے بھی ہو اگر نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے تو چالیسواں حصہ یعنی اڑھائی فیصد زکوٰۃ دینا پڑے گی۔ بعض لوگ کہتے ہیں مال تجارت میں زکوٰۃ نہیں، امام بخاری (رض) نے اس آیت سے استدلال کر کے ان کا رد فرمایا ہے۔ [ بخاری، الزکوٰۃ، باب صدقۃ الکسب والتجارۃ، قبل ح : ١٤٤٥] البتہ زمین سے حاصل ہونے والی فصل کا عشر فصل اٹھاتے ہی ادا کرنا ہوگا، اگر نصاب کو پہنچ جائے، جو 600 کلو گرام ہے۔ اس آیت میں ( وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ۠) سے مراد فصل پر عشر یا نصف عشر ہے۔ اگر پانی زمین سے کھینچ کر لگایا جائے تو 5 فیصد، اگر بارانی یا نہری ہو تو 10 فیصد۔ تفصیل کے لیے دیکھیے میرا رسالہ ” احکام زکوٰۃ و عشر۔ “ غَنِىٌّ حَمِيْدٌ : یعنی اللہ تعالیٰ کو تمہارے مال کی ضرورت نہیں، وہ تو سب سے زیادہ بےپروا اور ہر تعریف کے لائق ہے، یہ سب تمہارے ہی فائدے کے لیے حکم دیا جا رہا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The preceding section dealt with spending in the way of Allah. Now further details related to this appear in the seven verses of the present section. These are as follows: (1) Verse 267 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا (الٰی قولہ) غَنِيٌّ حَمِيدٌ:O those who believe, spend ... Allah is A11-Independent, Ever-Praised.& On the basis of the circumstances in which this verse was revealed, the word: (tayyib: plural, tayyibat طَيِّبَاتِ ) has been interpreted to mean &good& since some people used to bring things which were bad and that was why this verse was revealed. Some commentators have interpreted the word, tayyib طَيِّبَ (good) to mean حلال halal (lawful) relying on the generality of the word since something is perfectly good only when it is حلال halal (lawful) as well. So, according to this interpretation, the verse emphasizes that the thing given in charity must be from one&s lawful income. However, according to the first interpretation, the stress on this condition will have to be proved by other sources. Let us remember that this is for a person who has something good yet elects to spend something not good as ما کسبتم (you have earned) and اخرجنا (We have brought forth) do indicate that good things are available with the person making charity, while the sentence لَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ (and do not opt for a bad thing spending only from there) proves the spending of something not good deliberately. As for the one who just does not possess anything good, he shall be exempted from this prohibition. His giving, even if it be bad, shall be accepted. Some scholars have deduced from the expression, ما کسبتم (what you have earned), the ruling that it is permissible for the father to eat out of the earnings of his son. This is based on a hadith: اولادکم من طیب اسابکم فکلوا اموال اولادکم ھنیاً Your children are a good part of your earnings, so eat out of the income of your children cheerfully. (Qurtubi) Injunctions relating to the lands of &Ushr The word اخرجنا (akhrajna: We have brought forth) in مِمَّا أَخْرَ‌جْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْ‌ضِ (What We have brought forth for you from the earth) hints that ` ushr عُشر is obligatory on &ushri عُشری lands. Based on the generality of this verse, Imam Abu Hanifah (رح) has deduced that &ushr is wajib واجب or obligatory on every produce, big or small, yielded by &ushri land. The verse وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ (And pay the due thereof on the day of its harvest; 6:141) in Surah AI-An&am is open and clear in support of the obligatory nature of &ushr. &Ushr (عُشر : the tenth or twentieth part) and Kharaj خراج : land tax) are two technical terms used in Islamic Shari&ah. There is a common factor between these two. Both have an aspect of tax in them when levied on lands by an Islamic state. However, there is a difference. &Ushr is not just a tax. On the contrary, its real nature is more of an act of monetary &Ibadah (worship) than tax. This is similar to زکاۃ Zakah, for which reason, it is also called (zakah al-ard زکاۃ الارض : the زکاۃ Zakah of the land). Kharaj خراج is straight tax which carries no aspect of &Ibadah. Since Muslims are capable of&ibadah and are obligated to do that, the part of land-produce taken from them is known as &Ushr. Since non-Muslims are not obligated with &Ibadah, that which is levied on their lands is named Kharaj. There is another practical difference between زکاۃ Zakah and &Ushr -- زکاۃ Zakah becomes due on gold, silver and goods of commercial value after the passage of one year while &Ushr becomes obligatory immediately after the produce is harvested from the land. There is yet another difference -- &Ushr is dropped if the land produces nothing, but زکاۃ Zakah remains obligatory at the end of the year on gold, silver and goods of commercial value even if there is no profit at all. This is not the place to discuss details relating to the problems of &Ushr and Kharaj خراج . These can be seen in books of Fiqh. Incidentally, this humble writer has discussed this subject in some details in his book, Nizam al-Ara-di نظام الاراضی which also contains special injunctions concerning lands in Pakistan and India.

خلاصہ تفسیر : اے ایمان والو (نیک کام میں) خرچ کرو عمدہ چیز کو اپنی کمائی میں سے اور (عمدہ چیز کو) اس میں سے جو کہ ہم نے تمہارے (کام میں لانے کے) لئے زمین سے پیدا کیا اور ردی (ناکارہ) چیز کی طرف نیت مت لے جایا کرو کہ اس میں سے خرچ کردو حالانکہ (ویسی ہی چیز اگر کوئی تم کو تمہارے حق واجب کے عوض یا سوغات میں دینے لگے تو) تم کبھی اس کے لینے والے نہیں ہاں مگر چشم پوشی (اور رعایت) کرجاؤ (تو اور بات ہے) اور یہ یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی کے محتاج نہیں (جو ایسی ناکارہ چیزوں سے خوش ہوں) تعریف کے لائق ہیں (یعنی ذات وصفات میں کامل ہیں تو ان کے دربار میں چیز بھی کامل تعریف کے لائق ہی پیش کرنا چاہئے) شیطان تم کو محتاجی سے ڈراتا ہے (کہ اگر خرچ کرو گے یا اچھا مال خرچ کرو گے تو محتاج ہوجاؤ گے) اور تم کو بری بات (یعنی بخل) کا مشورہ دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ تم سے وعدہ کرتا ہے (خرچ کرنے پر اور اچھی چیز خرچ کرنے پر) اپنی طرف سے گناہ معاف کردینے کا اور زیادہ دینے کا (یعنی چونکہ نیک جگہ خرچ کرنا اطاعت ہے، اور اطاعت سے معصیت کا کفارہ ہوجاتا ہے لہذا اس سے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں اور حق تعالیٰ کسی کو دنیا میں بھی اور آخرت میں تو سبھی کو خرچ کا عوض بھی زیادہ کرکے دیتے ہیں) اور اللہ تعالیٰ وسعت والے ہیں (وہ سب کچھ دے سکتے ہیں) خوب جاننے والے ہیں (نیت کے موافق ثمرہ دیتے ہیں اور یہ سب مضامین بہت ظاہر ہیں لیکن ان کو وہی سمجھتا ہے جس کو دین کا فہم ہو اور اللہ تعالیٰ ) دین کا فہم جس کو چاہتے ہیں دیدیتے ہیں اور (سچ تو یہ ہے کہ) جس کو دین کا فہم مل جاوے اس کو بڑی خیر کی چیز مل گئی (کیونکہ دنیا کی کوئی نعمت اس کے برابر نافع نہیں) اور نصیحت وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں (یعنی جو عقل صحیح رکھتے ہیں) اور تم لوگ جو کسی قسم کا خرچ کرتے ہو یا کسی طرح کی نذر مانتے ہو سو حق تعالیٰ کو سب کی یقینا اطلاع ہے اور بےجا کام کرنے والوں کا (قیامت میں) کوئی ہمراہی (حمایتی) نہ ہوگا اگر تم ظاہر کرکے دو صدقات کو تب بھی اچھی بات ہے اور اگر ان کا اخفاء کرو اور (اخفاء کے ساتھ) فقیروں کو دو تب اخفاء تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ (اس کی برکت سے) تمہارے گناہ بھی دور کردیں گے اور اللہ تعالیٰ تمہارے کئے ہوئے کاموں کی خوب خبر رکھتے ہیں (چونکہ بہت سے صحابہ کفار کو بایں مصلحت خیرات نہ دیتے تھے کہ شاید اسی تدبیر سے کچھ لوگ مسلمان ہوجاویں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی یہی رائے دی تھی اس لئے اس آیت میں دونوں طرح کے خطاب کرکے ارشاد فرماتے ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان (کافروں) کو ہدایت پر لے آنا کچھ آپ کے ذمہ (فرض واجب) نہیں (جس کے لئے اتنی دور دراز اہتمام کئے جاویں) لیکن (یہ تو) خدا تعالیٰ (کا کام ہے) جس کو چاہیں ہدایت پر لے آویں (آپ کا کام صرف ہدایت کا پہنچا دینا ہے خواہ کوئی ہدایت پر آوے یا نہ آوے اور ہدایت کا پہنچا دینا کچھ اس ممانعت پر موقوف نہیں) اور (اے مسلمانو) جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اپنے فائدہ کی غرض سے کرتے ہو اور (اس فائدہ کا بیان یہ ہے کہ) تم اور کسی غرض سے خرچ نہیں کرتے بجز رضاجوئی ذات پاک حق تعالیٰ کے (ثواب اس کے لوازم سے ہے اور یہ ہر جاجت مند کی رفع حاجت کرنے سے حاصل ہوتی ہے پھر مسلمان فقیر کی تخصیص کیوں کی جاوے) اور (نیز) جو کچھ مال خرچ کر رہے ہو یہ سب (یعنی اس کا عوض اور ثواب) پورا پورا تم (ہی) کو (آخرت میں) مل جاوے گا اور تمہارے لئے اس میں ذرا کمی نہ کی جاوے گی (سو تم کو اپنے عوض سے مطلب رکھنا چاہئے اور عوض ہر حال میں ملے گا پھر تم کو اس سے کیا بحث کہ ہمارا صدقہ مسلمان ہی کو ملے کافر کو نہ ملے صدقات) اصل حق ان حاجت مندوں کا ہے جو مقید ہوگئے ہوں اللہ کی راہ میں (یعنی دین کی خدمت) میں اور اسی خدمت دین میں مقید اور مشغول رہنے سے) وہ لوگ (طلب معاش کے لئے) کہیں ملک میں چلنے پھرنے کا (عادۃ) امکان نہیں رکھتے (اور) ناواقف ان کو مالدار خیال کرتا ہے ان کے سوال سے بچنے کے سبب سے (البتہ) تم ان لوگوں کو ان کے طرز (ہئیت) سے پہچان سکتے ہو (کیونکہ فقروفاقہ سے چہرے اور بدن میں ایک گونہ اضمحلال ضرور آجاتا ہے اور یوں) وہ لوگوں سے لپٹ کر مانگتے نہیں پھرتے (جس سے کوئی ان کو حاجت مند سمجھے یعنی مانگتے ہی نہیں کیونکہ اکژ جو لوگ مانگنے کے عادی ہیں وہ لپٹ کر ہی مانگتے ہیں) اور (ان لوگوں کی خدمت کرنے کو) جو مال خرچ کرو گے بیشک حق تعالیٰ کو اس کی خوب اطلاع ہے (اور لوگوں کو دینے سے ان کی خدمت کا فی نفسہ زیادہ ثواب دیں گے) جو لوگ خرچ کرتے ہیں اپنے مالوں کو رات میں اور دن میں (یعنی بلا تخصیص اوقات) پوشیدہ اور آشکارا (یعنی بلا تخصیص حالات) سو ان لوگوں کو ان کا ثواب ملے گا (قیامت کے روز) ان کے رب کے پاس (جاکر) اور نہ (اس روز) ان پر کوئی خطرہ (واقع ہونے والا ہی ہے اور نہ وہ مغموم ہوں گے۔ معارف و مسائل : اس سے قبل کے رکوع میں اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کرنے کا بیان تھا اب اسی سے متعلقہ امور کا مزید بیان اس رکوع کی سات آیات میں کیا گیا ہے جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا (الیٰ قولہ) غَنِىٌّ حَمِيْدٌ شان نزول سے طیب کے معنے عمدہ کے کئے گئے ہیں کیونکہ بعض لوگ خراب چیزیں لے آتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی تھی اور بعض نے عموم لفظ سے طیب کی تفسیر حلال سے کی ہے کیونکہ پوری عمدہ جب ہی ہوتی ہے جب حلال بھی ہو، پس اس بناء پر آیت میں اس کی بھی تاکید ہوگئی اور پہلی تفسیر پر دوسرے دلائل سے اس تاکید کو ثابت کیا جاوے گا اور یاد رکھو کہ یہ اس شخص کے لئے ہے جس کے پاس عمدہ چیز ہو اور پھر وہ بری نکمی چیز خرچ کرے جیسا کہ لفظ كَسَبْتُمْ اور اَخْرَجْنَا اس کے موجود ہونے پر اور وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ عمدا نکمی چیز کے خرچ کرنے پر دلالت کر رہا ہے اور جس کے پاس اچھی چیز ہو ہی نہیں وہ اس ممانعت سے بری ہے اور اس کی وہ بری چیز بھی مقبول ہے لفظ مَا كَسَبْتُمْ سے بعض علماء نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ والد کا اپنے بیٹے کی کمائی سے کھانا جائز ہے لقولہ علیہ السلام۔ اولادکم من طیب اکسابکم فکلوا من اموال اولادکم ھنئا (قرطبی) تمہاری اولاد تمہاری کمائی کا ایک پاکیزہ حصہ ہے پس تم اپنی اولاد کی کمائی سے مزے سے کھاؤ۔ عشر اراضی کے احکام : وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ میں لفظ اَخْرَجْنَا سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ عشری زمین میں عشر واجب ہے، اس آیت کے عموم سے امام اعظم ابوحنیفہ نے استدلال کیا ہے کہ عشری زمین کی ہر قلیل و کثیر پیداوار پر عشر واجب ہے، سورة انعام کی آیت اٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ (١٤١: ٦) وجوب عشر میں بالکل صریح اور واضح ہے عشر و خراج شریعت اسلامی کے دو اصلاحی لفظ ہیں ان دونوں میں ایک بات مشترک ہے کہ اسلامی حکومت کی طرف سے زمینوں پر عائد کردہ ٹیکس کی ایک حیثیت ان دونوں میں ہے فرق یہ ہے کہ عشر فقط ٹیکس نہیں بلکہ اس میں ٹیکس سے زیادہ اصلی حیثیت عبادت مال کی ہے مثل زکوٰۃ کے اسی اس کو زکوٰۃ الارض بھی کہا جاتا ہے اور خراج خالص ٹیکس ہے جس میں عبادت کی کوئی حیثیت نہیں مسلمان چونکہ عبادت کے اہل اور پابند ہیں ان سے جو زمین کی پیداوار کا حصہ لیا جاتا ہے اس کو عشر کہتے ہیں اور غیرمسلم چونکہ عبادت کے اہل نہیں ان کی زمینوں پر جو کچھ عائد کیا جاتا ہے اس کا نام خراج ہے عملی طور پر زکوٰۃ اور عشر میں یہ بھی فرق ہے کہ سونا چاندی اور تجارت کے مال پر زکوٰۃ سال بھر گذرنے کے بعد عائد ہوتی ہے اور عشر زمین سے پیداوار حاصل ہوتے ہی واجب ہوجاتا ہے۔ دوسرا فرق یہ بھی ہے کہ اگر زمین سے کوئی پیداوار نہ ہو تو عشر ساقط ہوجاتا ہے لیکن اموال تجارت اور سونے چاندی پر اگر کوئی نفع بھی نہ ہو تب بھی سال پورا ہونے پر ان پر زکوٰۃ فرض ہوگی عشر و خراج کے مسائل کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، کتب فقہ میں مذکور ہے اور احقر نے اپنی کتاب نظام الارضی میں بھی تفصیل سے لکھ دیا ہے جس میں پاکستان ہندوستان کی زمینوں کے خصوصی احکام بھی لکھے گئے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ۝ ٠ ۠ وَلَا تَـيَمَّمُوا الْخَبِيْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِيْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِيْہِ۝ ٠ ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ غَنِىٌّ حَمِيْدٌ۝ ٢٦٧ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔ طيب يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] ( ط ی ب ) طاب ( ض ) الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔ كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ يم اليَمُّ : البحر . قال تعالی: فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ [ القصص/ 7] ويَمَّمْتُ كذا، وتَيَمَّمْتُهُ : قصدته، قال تعالی: فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً [ النساء/ 43] وتَيَمَّمْتُهُ برمحي : قصدته دون غيره . واليَمَامُ : طيرٌ أصغرُ من الورشان، ويَمَامَةُ : اسمُ امرأةٍ ، وبها سمّيت مدینةُ اليَمَامَةِ. ( ی م م ) الیم کے معنی در یا اور سمندر کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ [ القصص/ 7] تو اسے در یا میں ڈال دینا یممت کذا وتیممت قصد کرنا قرآن پاک میں ہے ۔ فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً [ النساء/ 43] تو پاک مٹی لو ۔ یممتہ بر محی میں نے اسے نیزے نشان نہ بنایا ۔ الیامم جنگلی کبوتر کو کہتے ہیں اور یمامۃ ایک عورت کا نام تھا جس کے نام پر ( صوبہ یمن کے ایک شہر کا نام الیمامہ رکھا گیا تھا ۔ خبث الخُبْثُ والخَبِيثُ : ما يكره رداءة وخساسة، محسوسا کان أو معقولا، وأصله الرّديء الدّخلة الجاري مجری خَبَثِ الحدید، وذلک يتناول الباطل في الاعتقاد، والکذب في المقال، والقبیح في الفعال، قال عزّ وجلّ : وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف/ 157] ، أي : ما لا يوافق النّفس من المحظورات، وقوله تعالی: وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم/ 26] ، فإشارة إلى كلّ كلمة قبیحة من کفر وکذب ونمیمة وغیر ذلك، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «المؤمن أطيب من عمله، والکافر أخبث من عمله» «1» ويقال : خبیث مُخْبِث، أي : فاعل الخبث . ( خ ب ث ) المخبث والخبیث ۔ ہر وہ چیز جو دری اور خسیں ہونے کی وجہ سے بری معلوم ہو خواہ وہ چیز محسوسات سے ہو یا معقولات ( یعنی عقائد و خیالات ) سے تعلق رکھتی ہو اصل میں خبیث روی اور ناکارہ چیز کو کہتے ہیں جو بمنزلہ لو ہے کی میل کے ہو ۔ اس اعتبار سے یہ اعتقاد باطل کذب اور فعل قبیح سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف/ 157] اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں ۔ یعنی محظورات جو طبیعت کے ناموافق ہیں ۔ آیت :۔ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم/ 26] اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے ۔ میں کفر ، جھوٹ ، چغلی ہر قسم کی قبیح باتیں داخل ہیں حدیث میں ہے :۔ المومن اطیب من عملہ والکافر اخبث من عملہ ۔ کہ مومن اپنے عمل سے پاک اور کافر اپنے عمل سے ناپاک ہے ۔ اور خبیث ومخبث خبث کے مرتکب کو بھی کہا جاتا ہے ۔ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ غمض الغَمْضُ : النّوم العارض، تقول : ما ذقت غَمْضاً ولا غِمَاضاً ، وباعتباره قيل : أرض غَامِضَةٌ ، وغَمْضَةٌ ، ودار غَامِضَةٌ ، وغَمَضَ عينه وأَغْمَضَهَا : وضع إحدی جفنتيه علی الأخری ثمّ يستعار للتّغافل والتّساهل، قال : وَلَسْتُمْ بِآخِذِيهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ [ البقرة/ 267] . ( غ م ض ) الغمض ( ض ) کے اصل معنی نیند کے جھونکا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ ماذقت غمضا و لا غماضا ( یعنی چشم من یکدم نخفتہ ) اسی مناسبت سے نرم اور نشینی زمین کو غامضۃ وغمضۃ کہا جاتا ہے اور دار غامضۃ اس سرائے کو کہتے میں جو شارع عام پر نہ ہو ۔ غمض عینہ واغمضھا کے معنی آنکھ کو بند کرلینے کے ہیں اور بطور استعارہ تغافل اور تو تساہل برتنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَسْتُمْ بِآخِذِيهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ [ البقرة/ 267] تو بجز اس کے کہ لیتے وقت آنکھیں بند کر ان کو کو کبھی نہ لو ۔ غنی الغِنَى يقال علی ضروب : أحدها : عدم الحاجات، ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] ، الثاني : قلّة الحاجات، وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس» والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ 2 قدرے محتاج ہونا اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ حمید إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، ( ح م د ) حمید اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

کمائی کرنے کا بیان قول باری ہے (یآ ایھا الذین امنوا انفقوا من طیبات ما کسبتم ومما اخرجنا لکم من الارض ۔ (a) اے ایمان والو ! جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ تم نے زمین سے تمہارے لئے نکالا ہے اس میں سے بہتر حصہ راہ خدا میں خرچ کرو) ۔ اس آیت میں کمائی کی صورتوں کی اباحت کا ذکر ہے اور یہ بیان ہے کہ کمائیوں میں پاکیزہ صورتیں بھی موجود ہیں۔ کمائی دو طرح سے ہوتی ہے۔ اموال اور ان کے منافع کی ادلا بدلی کے ذریعے اور چیزوں سے حاصل شدہ فوائد کی ادلا بدلی کے ذریعے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی صورت کی اباحت کا کئی مواقع پر صراحتہً ذکر فرمادیا ہے۔ ارشاد ہے (واحل اللہ البیع، (a) اللہ نے بیع یعنی خریدو فروخت کو حلال کردیا) اسی طرح ارشاد ہے (واٰخرون یضربون فی الارض یبتغون من فضل اللہ واٰخرون یقاتلون فی سبیل اللہ، (a) کچھ لوگ ہیں جو زمین میں چل پھر کر اللہ کا فضل تلاش کررہے ہیں اور کچھ دوسرے ہیں جو اللہ کی راہ میں لڑ رہے ہیں) ۔ اسی طرح ارشاد ہے (لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلاً من ربکم، (a) تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو) یعنی ۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔ جو شخص تجارت کرے یا اپنی چی کرایہ پردے دے اور اس کے ساتھ حج بھی کرلے تو اس کے لئے یہ کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ چیزوں سے حاصل ہونے والے فوائد کی ادلا بدلی کے متعلق قول باری ہے (فان ارضعنا لکم فآتوھن اجورھن ، (a) اگر وہ تمہارے لئے تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تو انہیں ان کی اجرت دے دو ) ۔ اسی طرح حضرت شعیب (علیہ السلام) کا قول قرآن کے الفاظ میں ہے (انی ارید ان انکحک احدبنتی ھا تین علی ان تاجرنی ثمانی حجج، (a) میں چاہتا ہوں کہ ان دونوں میں سے ایک بیٹی تم سے اس شرط پر بیاہ دوں کہ تم آٹھ برسوں تک میرا کام کروگے) ۔ مزدور کی مزدوری پہلے طے کرلی جائے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (من استاجرا جیرا فلیعلمہ اجرہ، (a) جو شخص کسی کو مزدوری پر رکھے اسے اس کی مزدوری بتادے۔ آپ کا یہ ارشاد بھی ہے (لان یاخذ احدکم جلاً فیحتطب خیرلہ من ان یسال الناس اعطوہ اومنعوہ۔ (a) تم میں سے کوئی شخص ایک رسی لے کر جنگل میں چلا جائے اور وہاں سے لکڑیاں سمیٹ کرلے آئے یہ اس سے بہتر ہے کہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتا پھرے پھر لوگ چاہیں تو اس کی جھولی میں کچھ ڈال دیں اور چاہیں تو اسے کچھ نہ دیں) ۔ اعمش نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے اسود سے ، انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ان اطیب ما اکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ، (a) انسان کے لئے پاکیزہ ترین غذا وہ ہے جو اس کی اپنی کمائی ہو اور اس کا بیٹا بھی اس کی کمائی ہے) سلف کی ایک جماعت سے قول باری (انفقوا من طیبات ما کسبتم) (a) کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے مراد تجارت کی مختلف صورتیں ہیں ۔ ان حضرات میں حسن بصری اور مجاہد بھی شامل ہیں۔ اس آیت کا عمول تمام اموال میں صدقہ واجب کرتا ہے۔ اس لئے کہ قول باری (ماکسبتم) (a) تمام اموال پر مشتمل ہے اگرچہ یہ بیان اموال میں واجب صدقہ کی مقدار کی وضاحت کے لئے کافی نہیں ہے تاہم یہ اموال کے جملہ اصناف کو شامل ہے اور مقدار واجب کے بیان میں مجمل ہے۔ جسے بیان اور وضاحت کی ضرورت تھی۔ پھر جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے اس اجمال کی تفصیل اموات میں صدقات کی واجب مقادیر کی شکل میں آگئی تو اب آیت کے علوم سے ہر اس مال میں صدقہ کے وجوب پر استدلال کرنا درست ہوگیا جس میں ایجاب صدقہ کے متعلق اختلاف رائے ہے مثلاً اموال تجارت وغیرہ۔ جو لوگ عروض یعنی مال اسباب پر زکوٰۃ کی نفی کرتے ہیں۔ ظاہر آیت سے ان کے خلاف استدلال کیا جاسکتا ہے نیز گھوڑوں پر زکوٰۃ کے وجوب کے سلسلے میں بھی آیت سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ہر وہ مال جس میں وجوب زکوٰۃ کے متعلق اختلاف رائے ہو آیت سے وجوب کے حق میں استدلال ہوسکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ قول باری (انفقوا) (a) سے مراد صدقہ یعنی زکوٰۃ ہے۔ اس کی دلیل قول باری (ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون، (a) اور ایسا نہ ہو کہ تم اس کی راہ میں دینے کے لئے بری سے بری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو) یعنی یہ بری سے بری چیز اللہ کی راہ میں صدقہ کرو۔ سلف اور خلف میں اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد صدقہ ہے یعنی زکوٰۃ ہے۔ بعض اہل علم کا قول ہے ک اس سے مراد نفلی صدقہ ہے کیونکہ جب زکوٰۃ یعنی فرض صدقہ میں ردی مال ادا کیا جائے گا تو زائد حصہ ادا کرنے والے کے ذمے باقی رہے گا۔ ہمارے نزدیک اس تاویل سے لفظ کو وجوب سے نفل کی طرف کئی وجوہ سے منتقل کرنا لازم آئے گا۔ اول یہ کہ لفظ (انفقوا) (a) امر کا صیغہ ہے۔ اور ہمارے نزدیک امر وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ البتہ اگر کوئی ایسی دلالت قائم ہوجائے تو ندب یعنی استحباب وغیرہ کی نشاندہی کرتی ہو تو اس صورت میں امر وجوب کے لئے نہیں ہوگا۔ قول باری (ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون) (a) میں کوئی ایسی دلالت موجود نہیں جو ندب یعنی غیر وجوب اور استحباب کی نشاندہی کرتی ہو۔ کیونکہ یہ بات نہیں ہے کہ راہ خدا میں ردی مال دینے کی نہی صرف نفلی صدقے کے ساتھ خاص فرض کے ساتھ نہیں ہے اور یہ کہ ردی یعنی گھٹیا اور عمدہ مال کے درمیان فرق کی بنا پر جو زائد مال ہوگا اس کا ادا کرنا بھی واجب ہے۔ اس لئے کہ آیت میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ البتہ یہ بات کسی اور دلالت سے معلوم کی جاسکتی ہے۔ اس لئے یہ بات ایجاب صدقہ میں آیت کے مقتضیٰ کی راہ میں یہ حائل نہیں ہوسکتی۔ تاہم اگر آیت کی اس پر دلالت بھی ہوتی کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے کے ذمے اس گھٹیا مال کے سوا جس کی وہ ادائیگی کرچکا ہے اور کو یء ادائیگی نہیں ہے پھر بھی یہ بات آیت کے حکم کو وجوب سے ندب یعنی استحباب کی طرف موڑ دینا لازم قرار نہیں دیتی کیونکہ یہ صورت جائز ہے کہ خطاب کی ابتداء ایجاب کے ساتھ ہو پھر اس پر ایسے حکم کو عطف کیا جائے جو ایجاب کے عموم کے بعض مقتضیات کے ساتھ خاص ہو لیکن اس بات سے یہ چیز لازم نہیں آتی کہ ابتدائے خطاب کے حکم کو عموم کے مفہوم سے ہٹاکر خصوص کے مفہوم میں منحصر کردیا جائے۔ اس کے بہت سے نظائر ہے جن کا ہم نے متعدد مواقع پر ذکر کیا ہے۔ قول باری (ومما اخرجنا لکم من الارض) (a) میں زمین کی قلیل اور کثیر ہر صنف اور ہر قسم کی پیداوار میں ایجاب حق یعنی وجوب زکوٰۃ کے لئے عموم ہے۔ اس آیت سے امام ابوحنیفہ نے اس پر استدلال کیا ہے کہ زمین میں جن فصلوں اور چیزوں کی بالارادہ کاشت لی جاتی ہے ان کی قلیل اور کثیر ہر صنف اور ہر قسم کی پیداوار میں عشر یعنی دسواں حصہ بطور زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے۔ سلسلہ تلاوت میں آیت کا اگلہ حصہ (ولستم باخذیہ الا ان نغمضوا فیہ، (a) اور تم خود بھی اسے لینے والے ہیں ہو الا یہ کہ چشم پوشی کرجائو) پوری ایت کے مفہوم کے تناظر میں اس پر دلالت کرتا ہے کہ صدقات سے مراد صدقات واجبہ یعنی زکوٰۃ و عشر وغیرہ ہیں۔ کیونکہ اغماض کی صورت دیون میں ہوتی ہے کہ جب صاحب دین اپنے دین کی ادائیگی کا مطالبہ کرے گا تو اسے عمدہ مال کی بجائے گھٹیا مال نہیں دیا جائے گا الا یہ کہ وہ خود چشم پوشی کرلے اور تساہل برت جائے۔ یہ اس پر دال ہے کہ یہاں صدقہ سے مراد صدقہ واجبہ ہے کیونکہ ۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔ دیون کی ادائیگی کا جب تقاضا کیا جائے گا تو اس صورت میں اغماض کی شکل پیدا ہوگی اگر اس سے مراد نفلی صدقہ ہوتا تو اس میں اغماض کی ضرورت ہی پیش نہ آتی کیونکہ نفلی صدقہ کرنے والے کو اختیار ہوتا ہے کہ قلیل یا کثیر مال کا صدقہ کرے اسے یہ بھی اختیار ہوتا ہے کہ سرے سے صدقہ ہی نہ کرے۔ اسی بیان میں یہ دلیل پوشیدہ ہے کہ اس سے مراد صدقہ واجبہ ہے۔ قول باری (ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون) (a) کے سلسلے میں زہری نے ابو امامہ بن سہل بن حنیف سے ، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ میں دو قسم کے کھجور دینے سے منع فرمادیا ہے ۔ ایک جعرور اور دوسرا لون جیق زہری کہتے ہیں کہ لوگ بدترین قسم کے کھجور صدقہ میں نکالتے تھے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ولا تیممو الخبیث منہ تنفقون) (a) حضرت براہ بن عازب (رض) سے اسی طرح کی روایت ہے۔ آپ نے قول باری (ولستم باخذیہ الا ان تغمضوا فیہ) (a) کی تفسیر میں فرمایا : ” اگر تم میں سے کسی کی طرف وہی چیز بطور ہدیہ بھیج دی جائے جو اس نے خود صدقے کے سلسلے میں کسی کو دیا ہو تو وہ اسے ہرگز قبول نہ کرے۔ البتہ چشم پوسی اور شرما شرمی میں وہ اسے قبول کرے گا۔ “ عبیدہ کا قول ہے کہ یہ بات زکوٰۃ میں ہوتی ہے۔ لیکن ایک کھوٹا درہم مجھے کھجور سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ابن معقل سے اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں مروی ہے کہ لوگوں کے مال مویشیوں میں خبیث یعنی گھٹیا مال نہیں ہوتا، خبیث کا تعلق سکوں یعنی کھوٹے سکوں اور ردی دراہم ودنانیر سے ہے۔ آپ نے (ولستم بخذیہ) (a) کے سلسلے میں کہا ہے کہ اگر کسی شخص پر قرض وغیرہ کی صورت میں تمہارا حق ہو تو تم کھوٹے اور ردی درہم نہیں لوگے اور اگر کھجور لینے کی صورت ہو تو صرف عمدہ کھجور قبول کروگے۔ الا (a) یہ کہ تم اغماض برتو یعنی اسے برداشت کرجائو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ آپ نے مویشیوں کی زکوٰۃ کے متعلق تحریری طور پر جو ہدایت دی تھی اس میں یہ الفاظ تھے (ولا توخذ ھرمۃ ولا ذات عوار، (a) اور نہ ہی صدقہ میں بوڑھا جانور لیا جائے گا اور نہ ہی عیب دار جانور) ۔ یہاں جانور سے مراد بھیڑ بکریاں ہیں۔ اس کی روایت زہری نے سالم سے اور انہوں نے اپنے والد سے کی ہے۔ قول باری (الا ان تغمضوا فیہ) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ الا (a) یہ کہ تم اس کی قیمت میں کمی کردو۔ “ حسن بصری اور قتادہ سے بھی اسی قسم کی تفسیر مروی ہے۔ حضرت براء بن عازب (رض) نے فرمایا : ” الا (a) یہ کہ تم تساہل برتو۔ “ ایک قول ہے کہ تم خود اسے لینے والے نہیں مگر کم قیمت پر تو پھر اسے قدصہ میں کس طرح دے سکتے ہو۔ اس میں درج بالا تمام معانی کا احتمال موجود ہے اور یہ جائز ہے کہ یہ تمام احتمالات اللہ کی مراد بھی ہوں اور اس کا مفہوم یہ ہوجائے کہ لوگ اللہ کے راستے میں جو گھٹیا مال دیتے ہیں اور اگر وہی مال ہدیہ کے طور پر دیا جائے تو اسے شرما شرمی قبول کریں گے۔ اگر خود وصول کرنا ہو تو عمدہ مال کے مقابلے میں اسے چشم پوشی اور نیم دلی سے وصول کریں گے اور اگر اس مال کے بدلے کوئی چیز فروخت کریں گے تو قیمت گھٹا کر اور تھوڑی قیمت پر ایسا کریں گے۔ اگر کسی شخص پر مکیل یا موزون کی جنس سے کوئی چیز واجب ہو اور وہ واجب شدہ عمدہ جنس سے کم تر ردی اور گھٹیا جن ادا کردے تو فقہاء کے درمیان اس میں اختلاف ہے کہ آیا اس پر زائد کی ادائیگی ضروری ہوگی یا نہیں۔ امام ابوحنیفہ اور امام یوسف کا قول ہے کہ واجب نہیں ہوگی اور امام محمد کا قول ہے کہ گھٹیا اور بڑھیا کے درمیان فرق کی بنا پر جو زائد جنس لازم ہوگی اس پر اس کی ادائیگی واجب ہوگی۔ تاہم بھیڑ بکریوں، گایوں، بیلوں اور مکیل و موزون کے تحت نہ آنے والی تمام اجناس کی زکوٰۃ کے متعلق تینوں حضرات کا یہ قول ہے کہ بڑھیا اور گھٹیا مال کے درمیان فرق کی وجہ سے جو زائد مال نکلے گا۔ اس پر اس کی ادائیگی واجب ہوگی۔ اس بنا پر امام محمد کے قول کے لئے اس آیت سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔ قول باری (ولاتیمموا الخبیث منہ تنفقون) (a) میں خبیث سے مراد روی اور گھٹیا چیز ہے۔ اور قول باری (ولستم باخذیہ الا ان تغمضوا فیہ) (a) سے اس بات کا جواز ثابت ہوتا ہے کہ حق والے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا حق وصول کرنے میں چشم پوشی نہ کرے اور نہ ہی تساہل کرے بلکہ عمدہ مال میں سے اپنا حق مانگے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ حق ادا کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ بڑھیا اور گھٹیا کے فرق کی بنا پر پیدا ہونے والے زائد مال کی ادائیگی کردے تاکہ چشم پوشی کا وقوع نہ ہو۔ کیونکہ اس سلسلے میں اصل حق تو اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے اور اللہ نے صدقہ میں اغماض کی یوں نفی کردی ہے کہ ردی مال دینے سے روک دیا ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام یوسف کا استدلال یہ ہے کہ ہر ایسی چیز جس میں تفاضل یعنی کمی بیشی جائز نہیں تو تفاضل کی ممانعت کے لحاظ سے اس میں بڑھیا اور گھٹیا دونوں کا حکم یکساں ہوتا ہے اور اس کے جنس میں سے اس کی قیمت اس کے مثل کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کسی نے قرض کی وصولی کرلی اور یہ سمجھتا رہا کہ واپس لی ہوئی رقم بڑھیا سکون میں لوٹائی گئی ہے پھر اس نے یہ صرف کرلی اور اس کے بعد پتہ چلا کہ سکے گھٹیا تھے تو اب وہ زائد رقم کی ادائیگی اس پر لازم نہیں ہوگی۔ امام ابو یوسف یہ ضرور کہتے ہیں کہ اس صورت میں قرض خواہ وصول کردہ رقم کی مثل اپنے قرض دار کو واپس کرکے پھر اس سے اپنے قرض کی وصول کے لئے رجوع کرے گا۔ لیکن یہ بات صدقہ کی صورت میں ممکن نہیں ہے۔ اس لئے کہ فقیر کے ذمے کسی رقم کی واپسی لازم نہیں ہوتی اور اگر فقیر اس رقم کا تاوان بھر بھی دے گا۔ یعنی صدقہ کرنے والے کو وہ رقم واپس بھی کردے گا پھر بھی اسے یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ صدقہ کرنے والے سے یہ مطالبہ کرے کہ اسے عمدہ سکوں میں یہ رقم لوٹا دے گا۔ اس بنا پر اس پر زائد رقم دینا واجب نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے تو صدقہ کرنے والے کو گھٹیا مال صدقہ یعنی زکوٰۃ میں دینے سے روک دیا اور اس پر عمدہ مال واجب تھا۔ یہ حضرات بھی اسی کے قائل ہیں کہ اسے گھٹیا مال صدقہ میں دینے سے روک دیا گیا ہے۔ یلکن درج بالا سطور میں ہماری وضاحت کی روشنی میں اس نے صدقہ میں جو دیا ہے اس کا حکم وہی ہوجائے گا جو عمدہ مال کا ہوتا ہے۔ اس لئے اس کا دیا ہوا مال ہی کافی ہوجائے گا اور زائد مال دینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ لیکن ایسا مال جس میں تفاضل جائز ہے۔ اس مال میں زکوٰۃ کے اندر گھٹیا مال ادا کرنے کی صورت میں اس پر واجب ہوگا کہ وہ گھٹیا اور بڑھیا کے فرق کی وجہ سے لازم ہونے والا زائد مال ادا کرے۔ کیونکہ اس میں امکان ہے کہ اس کے مال کی جنس میں سے اس کی قیمت اداکئے ہوئے مال سے زائد ہو اور دوسری طرف اس مال میں تفاصل یعنی کمی بیشی کی صورت میں بیع بھی جائز ہے۔ امام محمد عمدہ مال میں سے گھٹیا مال بطور صدقہ نکالنا جائز قرار نہیں دیتے اور اگر کوئی ایسا کرے تو اس کی ادائیگی عمدہ مال کی قیمت کے حساب سے ہوگی اور اس طرح ادائیگی میں جو کمی رہ جائے گی اس پر اس کی ادائیگی لازم ہوگی۔ اس لئے کہ غلام اور اس کے آقا کے درمیان کوئی ربوا نہیں ہوتا۔ آیت زیر بحث میں اس بات پر دلالت موجود ہے کہ دیون کی تمام صورتوں میں عمدہ سکوں کی جگہ گھٹیا سکے وصول کرلینا جائز ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (الا ان تغمضوا فیہ) (a) میں دیون کی وصولی کے سلسلے میں اغماض کی اجازت دے دی ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔ اس لئے اس کی معانی پر دلالت ہورہی ہے۔ ایک تو یہ کہ بیع سلم کے راس المال اور سونے چاندی کی بیع کے ثمن جن میں ان کی جگہ کوئی اور چیز لینا درست نہیں ہے۔ ان دونوں میں عمدہ سکوں کی جگہ گھٹیا سکے، جن کا ادنیٰ درجہ کھوٹے سکے اور اعلیٰ درجہ چاندی کے سکے ہیں۔ طلب کرنا اور وصول کرلینا جائز ہے۔ اور یہ اس پر دال ہے کہ اس معاملے میں ردی سکے کا حکم وہی ہے جو عمدہ سکے کا ہے۔ یہ بات اس پر بھی دلالت کررہی ہے کہ ردی چاندی کے بدلے عمدہ چاندی کی بیع جائز ہے بشرطیکہ دونوں کا وزن یکساں ہو۔ کیونکہ جس مال میں اس کے عمدہ صفت کے حامل حصے کی بجائے گھٹیا صفت کے حامل حصے کی وصولی درست ہو تو اس میں گھٹیا صفت والے حصے کے بدلے اعلیٰ صفت والے حصے کی بیع بھی درست ہوگی۔ اس کی اس پر بھی دلالت ہورہی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول (الذھب الذھب مثلا بمثل، (a) سونے کے بدلے سونا برابر برابر) میں مماثلت سے مراد وزن میں مماثلث ہے نہ کہ صفت میں، یہی حکم ان تمام چیزوں کا ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث میں سونے کے ساتھ مذکور ہیں نیز اس پر دلالت ہورہی ہے کہ ردی کے بدلے جید یعنی عمدہ سکے یا مال وصول کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ قرض دار اس پر رضامند ہو۔ جس طرح کہ عمدہ سکے یا مال کے بدلے ردی اور گھٹیا سکے یا مال وصول کرلینا درست ہے۔ کیونکہ ان دونوں سکوں یا مال کا صفت کے اندر اختلاف کوئی حکم نہیں رکھتا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ (خیرکم احسنکم قضلو، (a) تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو ادائیگی میں سب سے اچھا ہے) حضرت جابر بن عبد (رض) اللہ کا قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا قرض ادا کیا اور ساتھ کچھ زائد بھی دے دیا۔ حضرت ابن عمر (رض) ، حسن بصری، سعید بن المسیب، ابراہیم نخعی اور شعبی سے مروی ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ایک شخص کسی کو سیاہ دراہم بطور قرض دے اور اپنا قرض سعید دراہم کی شکل میں واپس لے لے بشرطیکہ وہ قرض دیتے وقت اس کی شرط عائد نہ کرے۔ سلیمان التمیمی نے ابو عثمان النہدی سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ کو یہ بات ناپسند تھی کہ کوئی شخص کسی کو دراہم کی صورت میں قرض دے کر اس سے بہتر دراہم کی شکل میں اپنا قرض واپس لے لے ۔ لیکن حضرت ابن مسعود (رض) سے اس روایت میں ایسی کوئی دلالت نہیں ہے کہ آپ کو یہ بات ناپسند تھی جبکہ قرض لینے والا اس پر رضامند ہو۔ عدم جواز کی صورت تو صرف وہ ہے جبکہ قرض خواہ قرضدار کی رضامندی کے بغیر دراہم وصول کرے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦٧) سونا اور چاندی اور زمین سے جو مختلف اقسام کے غلے اور پھل پیدا کیے ہیں، ان میں سے عمدہ اور حلال چیز کو خرچ کرو اور اپنے اموال میں سے ردی چیز کے خرچ کرنے کا ارادہ بھی نہ کیا کرو، حالاں کہ اگر ایسی ردی چیز تمہیں کوئی تمہارے حق میں واجب کے عوض میں دے تو تم کبھی بھی اسے قبول نہ کرو مگر یہ کہ چشم پوشی کرجاؤ اور اپنے بعض حق کو چھوڑ دو (تو اور بات ہے) ایس طرح اللہ تعالیٰ تم سے ایسی بیکار اور ردی چیز کو قبول نہیں فرماتے اور اللہ تعالیٰ تمہارے خرچ کا محتاج نہیں اور وہ اپنے تمام امور میں قابل ستائش ہیں۔ اور ایک یہ بھی تفسیر کی گئی ہے کہ وہ تھوڑی چیز کو قبول کرتا ہے اور ثواب بہت زیادہ دیتا ہے، یہ آیت کریمہ اہل مدینہ میں سے ایک شخص کے متعلق نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦٧ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ ) اللہ کے دین کے لیے خرچ کرنا ہے ‘ اللہ کے نام پر دینا ہے تو جو کچھ تم نے کمایا ہے اس میں سے اچھی چیز ‘ پاکیزہ چیز ‘ بہتر چیز نکالو۔ (وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ) ظاہر بات ہے کہ زمین سے جو بھی نباتات باہر آرہی ہیں ان کا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔ چاہے کوئی چراگاہ ہے تو اس کے اندر جو ہریاول ہے وہ اللہ ہی نے پیدا کی ہے۔ کھیت کے اندر آپ نے محنت کی ہے ‘ ہل چلایا ہے ‘ بیج ڈالے ہیں ‘ لیکن فصل کا اگانا تو آپ کے اختیار میں نہیں ہے ‘ یہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ع پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون ؟ چناچہ فرمایا کہ جو کچھ ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرو ! (وَلاَ تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ ) ایسا نہ ہو کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے ردّی اور ناکارہ مال چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو۔ مثلاً بھیڑ بکریوں کا گلہ ہے ‘ اس میں سے تمہیں زکوٰۃ کے لیے بھیڑیں اور بکریاں نکالنی ہیں تو ایسا ہرگز نہ ہو کہ جو کمزور ہیں ‘ ذرا لاغر ہیں ‘ بیمار ہیں ‘ نقص والی ہیں انہیں نکال کر گنتی پوری کر دو ۔ اسی طرح عشر نکالنا ہے تو ایسا نہ کرو کہ گندم کے جس حصے پر بارش پڑگئی تھی وہ نکال دو ۔ تیمم کے معنی قصد اور ارادہ کرنے کے ہیں۔ (وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ ط) ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ تم محتاج ہوجاؤ اور تمہیں ضرورت پڑجائے ‘ پھر اگر تمہیں کوئی ایسی چیز دے گا تو تم قبول نہیں کرو گے ‘ اِلاّ یہ کہ چشم پوشی کرنے پر مجبور ہوجاؤ۔ احتیاج اس درجے کی ہو کہ نفیس یا خبیث جو شے بھی مل جائے چشم پوشی کرتے ہوئے اسے قبول کرلو۔ ورنہ آدمی اپنے طیب خاطر کے ساتھ ردّی شے قبول نہیں کرسکتا۔ (وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ ) یہاں غنی کا لفظ دوبارہ آیا ہے۔ یہ نہ سمجھو کہ تم کسی محتاج اور ضرورت مند کو دے رہے ہو ‘ بلکہ یوں سمجھو کہ اللہ کو دے رہے ہو ‘ جو غنی ہے ‘ سب کی ضرورتیں پوری کرنے والا ہے اور حمید ہے ‘ یعنی اپنی ذات میں خود محمود ہے۔ ایک تو کسی شے کی اچھائی یا حسن یا کمال ایسا ہوتا ہے کہ جسے ظاہر کیا جائے کہ بھئی دیکھو اس میں یہ خوبصورتی ہے۔ اور ایک وہ خوبصورتی ہوتی ہے جو ازخود ظاہر ہو۔ ع حاجت مشاطہّ نیست روئے دل آرام را ! تو اللہ تعالیٰ اتنا ستودہ صفات ہے کہ وہ اپنی ذات میں از خود محمود ہے ‘ اسے کسی حمد کی حاجت نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

308. It is obvious that He Who is invested with the best attributes cannot be appreciative of those possessed of low and evil qualities. God is, for instance, Generous and Beneficent, and constantly showers His favours and bounties on His creatures. How is it possible for Him, then, to love those who are mean, niggardly and vicious?

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :308 ظاہر ہے کہ جو خود اعلیٰ درجہ کی صفات سے متصف ہو ، وہ برے اوصاف رکھنے والوں کو پسند نہیں کر سکتا ۔ اللہ تعالیٰ خود فیاض ہے اور اپنی مخلوق پر ہر آن بخشش وعطا کے دریا بہا رہا ہے ۔ کس طرح ممکن ہے کہ وہ تنگ نظر ، کم حوصلہ اور پست اخلاق لوگوں سے محبت کرے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(267 ۔ 271) ۔ حاکم ‘ ترمذی ابن ماجہ ابو داؤد اور نسائی میں معتبر سند سے چند صحابیوں کی روایتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ لوگ صدقہ دینے میں کچھ تو تنگی کرتے تھے اور کچھ بیکار اور بری چیز صدقہ میں دیتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور جتلا دیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات غنی ہے ١۔ اس کو تمہارے صدقہ اور تمہاری خیرات کی کچھ پرواہ نہیں ہے صرف تمہارے بھلے کے لئے تم کو خیرات کا حکم دیا ہے تاکہ خالص دل سے تم ایک پیسہ یا ایک پیسہ کی چیز خیرات کرو تو جس قدر تمہارا خلوص ہوا اس کی موافق ایک کے بدلے دس سے سات سو تک تم کو دنیا میں اور بیشمار عقبیٰ میں اجر عنایت فرمائے گا اس طرح کی دل سے اتری ہوئی چیزیں جن کو کوئی تمہیں دے تو تم خود لینا پسند نہ کرو اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں ہرگز قبول ہونے والی نہیں صحیح مسلم میں حضرت جابر (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ شیطان اپنے شیاطینوں کو بھیج کر لوگوں کو ہر طرح سے بہکاتا ہے ٢۔ اسی کو اس آیت میں فرمایا کہ شیطان صدقہ خیرات کے وقت محتاج ہوجانے سے ڈرتا ہے اورو طرح طرح کی بری باتیں سکھاتا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ یہ ہے کہ صدقہ خیرات سبب مغفرت کا ہے پھر یہ بھی فرمایا کہ تم از خود نذر مان کر جو صدقہ خیرات کرو گے اللہ کو سب معلوم ہے وہ ایک دن تم کو اس کا بدلے دے گا نیت خیر ہو تو علانیہ اور چھپا کر دونوں طرح صدقہ جائز ہے مگر صحیحین میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی جو روایت ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ کا چھپانہ کردینا افضل ہے ٣۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

انفقوا۔ فعل امر جمع مذکر حاضر۔ انفاق (افعال) مصدر تم خرچ کرو۔ طیبت۔ طیبۃ۔ کی جمع ہے مؤنث کا صیغہ ہے۔ اس کا مذکر طیب ہے جو طاب بطیب (باب ضرب) طیب مصدر سے صفت مشبہ کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ اس کے معنی ہیں پاک ۔ پاکیزہ۔ ستھرا۔ حلال ۔ طیبت ستھری چیزیں۔ نفیس اشیائ۔ پاکیزہ چیزیں ۔ عمدہ چیزیں۔ من طیبت ما کسبتم۔ من حرف جار طیبت مضاف ما موصولہ کسبتم اس کا صلہ موصول و صلہ مل کر مضاف الیہ۔ مضاف و مضاف الیہ مل کر مجرور۔ وہ جو تم نے کمایا اس میں سے پاکیزہ عمدہ چیزیں (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو۔ من تبعیضیہ ہے۔ ومما ۔۔ الخ واؤ عاطفہ۔ مما مرکب ہے من تبعیضیہ اور ما موصولہ سے۔ اور نیز وہ چیزیں خرچ کرو جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے اگائی ہیں۔ ولا تیموا۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر۔ تیمم (تفعل) مصدر جس کے معنی لغت میں مطلق قصد کرنے کے ہیں۔ اور شریعت کی اصطلاح میں پاک مٹی یا اس چیز کا جو پاک مٹی کے قائم مقام ہو (جیسے پتھر چونہ وغیرہ) قصہ کرنا۔ اور طہارت کی نیت سے دونوں ہاتھ مٹی پر مار کر چہرہ اور دونوں ہاتھوں پر مسح کرنا مراد ہے۔ آیر ہذا میں اول الذکر معنی مراد ہیں۔ دوسرے معانی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے اولستم النساء فلم تجدوا ماء فتیمموا صعیداً طیبا فامسحوا بوجوھکم وایدیکم (4:43) ۔۔ یا تم عورتوں سے ہمبستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے۔ تو پاک مٹی لو اور منہ اور ہاتھوں کا مسح کرلو ۔۔ الخبیث۔ خبت اور خباثۃ سے بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ منہ تنفقون۔ اصل میں تنفقون منہ ہے۔ تقدیم تخصیص کے لئے ہے یہ جملہ تنفقون منہ حال ہے الخبیث سے منہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب ما کسبتم کی طرف راجع ہے ۔ اور اپنی کمائی سے خرچ کرتے ہوئے خبیث چیز کا ارادہ مت کرو۔ الخبیث۔ بمعنی خبیث۔ گندی چیز۔ ناپاک۔ پلید۔ ہر وہ شے جو ردی اور خسیس ہونے کے سبب بری معلوم ہو خبیث کہلاتی ہے۔ منصوب بوجہ مفعول ہے۔ ولستم باخذیہ الا ان تغمضوا فیہ۔ جملہ حال ہے فاعل تنفقون سے۔ لستم لیس سے جمع مذکر حاضر کا صیغہ ہے۔ تم نہیں ہو۔ لیس فعل ناقص ہے ماضی کے معنی رکھتا ہے۔ ماضی کی پوری گردان بھی آتی ہے۔ لیکن مضارع ۔ امر، اسم فاعل ، اسم مفعول اس سے مشتق نہیں ہوتے۔ اصل میں لیس تھا تخفیفاً لیس کردیا گیا۔ اخذیہ۔ اسکے لینے والے۔ اس میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب الخبیث کی طرف راجع ہے ۔ اخذی اصل میں اخذین تھا ۔ نون بوجہ اضافت گرگیا۔ اخذی مضاف اور ہ مضاف الیہ۔ اخذ بمعنی لینے والا۔ پکڑنے والا۔ یہاں اول الذکر معنی مراد ہیں۔ ان مصدریہ ہے تغمضوا۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ اغماض (افعال) مصدر جس کے معنی ایک پلک کے دوسری پلک پر رکھنے کے ہیں اور بطور استعارہ تغافل، تساہل اور چشم پوشی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ تغمضوا۔ تم چشم پوشی کرو۔ تم آنکھیں بند کرو۔ تم غفلت کرو۔ ترجمہ ہوگا : حالانکہ (اگر تم کو کوئی ایسی ردی چیز دے تو) تم اسے نہ لو بجز اس کے کہ اس میں تم چشم پوشی کرلو۔ (یعنی دینے والے کا دل رکھنے کے لئے ناگواری کی صورت میں بھی اسے لے لو) ۔ غنی حمید۔ غنی۔ غناء سے صفت مشبہ کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ بےنیاز ، بےپرواہ، غیر محتاج۔ حمید ۔ حمد سے صفت مشبہ کا صیغہ واحد مذکر۔ حمد کیا ہوا۔ تعریف کیا ہوا۔ ستودہ صفت کیا ہوا۔ دونوں اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 اوپر کی آیات میں بتایا ہے کہ صدق ہ و خیرات اور انفاق فی سبیل اللہ کی قبولیت کے لیے شرط یہ ہے کہ اخلاص و ایمان ہو اور یہ بھی بتایا ہے کہ ریاری احسان جتلانے اور تکلیف دینے سے صدقہ ضائع ہوجاتا ہے اور پھر مثالوں سے وضاحت کر کے سمجھا یا ہے۔ (کبیر) اب اس آیت میں قبولیت صدقہ کے لیے ایک اور شرط بیان کی ہے کہ صدقہ میں دی جانے والی چیز کا عمدہ اور طیب ہونا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ردی چیز دے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہ ہوگی حضرت برابن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے جب کھجور کا موسم آجاتا تو کچھلوگ کھجوروں کی ڈالیا لا کر مسجد نبوی کے ستونوں پر لٹکا جاتے۔ اصحاب صفہ میں سے کسی کو بھوک لگتی تو وہ اس میں حسب ضرورت کھجوریں تو ڑکر کھالیتا بعض لوگ نکمی اور سڑی ہوئی ڈالیاں لٹکا نے لگے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) گو شان نزول میں نفلی صدقہ کا ذکر ہے مگر یہ حکم فرض زکوہ اور نفلی صدقہ دونوں کو شامل ہے۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو قسم کی ردی کھجوروں (الجعرور، ابن ابی الحبیق) کو صدقہ میں قبول کرنے سے منبع فرمایا اور لفظ طیب جس طرح عمدہ مال کے معنی میں آتا ہے اسی طرح اس میں وہ مال بھی آجاتا ہے جو حلا طریقے سے کمایا ہوا ہو۔ پس معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں پاکیزہ اور حلال کے طریقے سے کما یا ہوا مال خرچ کرو۔ خبیث یعنی حرام مال سے صدقہ قبول نہیں ہوتا۔ حدیث میں ہے لا یکسب عبد مالا مرید حرام فینفق منہ فیبارک لہ ولا یتصدق منہ فیقبل منہ۔ کہ جو شخص حرام مال میں سے خرچ کراتا ہے اس میں برکت نہیں ہوتی اور اگر اس سے صدقہ کرے تو اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوتا۔ (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 267 273 اسرارو معارف یایھا الذین امنوا انفقوا ھن طیبت……………واعلموا ان اللہ غنی حمید۔ اے ایمان والو ! اپنی کمائی سے صاف ستھری چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنی کمائی سے خرچ کرو ، ظاہر ہے کہ کمائی تو حلال ہی ہوگی ورنہ ناجائز ذرائع سے دولت پیدا کرنے کو کسب نہیں کہا جاتا۔ بلکہ ایسے لوگ خود اپنے ناجائز ذرائع کو لوگوں کی نظروں سے بچا کر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، پھر اس میں سے جو راہ خدا میں دے وہ کھری اور اچھی چیز ہونی چاہیے اگر غلہ یا پھل یا کوئی اور جنس اللہ کی راہ میں دے ، اور اگر حرام مال سے دے گا توہ عنداللہ مقبول ہی نہیں ہوگا۔ کہ ایک حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ برے کو بھلے سے مٹا سکتا ہے ناپاک سے ناپاکی دور نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کسی کے پاس مال ہی ایسا ہو سب ناقص قسم کا ہے تو اسی میں سے دے گا یا کچھ اچھا اور کسی قدر ناقص ہے تو دونوں میں سے بھی دے سکتا ہے اس میں صدقات مراد لئے جاسکتے ہیں ، نافلہ ہو یا واجبہ۔ ومما اخرجنا لکم من الارض سے مراد زمین کی زکوٰۃ جسے اصطلاح شریعت میں عشر کہا گیا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک زمین کی ہر قلیل وکثیر مقدار پر عشرواجب ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد گرامی کا مفہوم اس طرح ہے کہ بارش سے سیراب ہونے والی فضل پر دسواں حصہ اور جس کی سنچائی آبپاشی سے کی گئی ہو اس کا بیسواں حصہ لازم ہے ایسے ہی سورة انعام کی آیت واتوحقہ یوم حصادہ ۔ وجوب عشر میں بالکل صریح ہے حکومت اسلامی جو ٹیکس زمین پر بناتی ہے اس کے لئے دو اصطلاحی لفظ ہیں۔ عشر اور خراج۔ ان میں فرق یہ ہے کہ عشر محض ٹیکس نہیں اس کی اصلی حیثیت عبادت مالی ہے اور مسلمان چونکہ عبادت کا اہل ہے اور پابند ہے اس لئے زمین کی آمدن سے عشر ادا کرتا ہے اور کافر عبادت کا اہل نہیں ہے لیکن ریاست میں رہتے ہوئے ریاست کو جو ٹیکس زمین کی آمدن پر ادا کرتا ہے اس کا نام خراج ہے اور یہ محض ٹیکس ہوتا ہے عشر بھی زکوٰۃ کی مانند ہے ۔ فرق یہ ہے کہ زکوٰۃ خواہ مال پر کوئی نفع نہ ہو تو بھی ساقط نہیں ہوتی یہ مسلمانوں سے ہی وصول کی جاتی ہے اور ان کا خرچ بھی غیر مسلم پر جائز نہیں۔ تفصیل کے لئے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع (رح) کی کتاب ” نظام الاراضی “ کی طرف رجوع کریں۔ فرمایا کہ خراب مال کو اللہ کی راہ میں دینے کا ارادہ نہ کرو۔ ایسا کہ اگر تمہیں اس طرح کا مال دیا جائے تو لینا پسند نہ کرو ، سوائے اس کے تمہیں مال وصول کرنا ہو تو سارا جاتا دیکھ کر چشم پوشی کر جائو کہ چلو کچھ تو وصول ہورہا ہے مگر اللہ تو محتاج نہیں کہ ایسی ویسی اشیاء قبول فرمائے۔ اچھی طرح جان لو ! کہ اللہ غنی اور بہت خوبیوں والا ہے یعنی اس کے تمام افعال مستوجب حمد ہیں۔ الشیطان یعدکم الفقر…………واللہ واسع علیم۔ ایسا نہ سوچو کہ صدقات ادا کرنے میں مفلس ہوجائوں گا۔ یہ وسواس شیطانی ہیں۔ ان میں پڑ کر خیرات سے ہاتھ نہ کھینچنا چاہیے بلکہ یہ تو بےحیائی کا مشورہ دیتا ہے اگر تم اس کے کہنے میں آگئے تو پھر صرف خیرات سے روکنے پر اکتفا کرے گا بلکہ عیاشی میں مبتلا کردے گا۔ اور یوں سمجھ آتی ہے کہ آجکل کے نوجوانوں کے بگڑنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جو مال ان تک پہنچتا ہے اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی گئی ہوتی نتیجتاً وہ بےحیائی اور فحاشی پر خرچ ہوتا ہے۔ یہ حال ان لوگوں کا ہوتا ہے جو حلال کماتے ہیں مگر اس پر نہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں نہ خیرات۔ جو جمع ہی حرام اور ناجائز ذرائع سے کرتے ہیں ، ان کا پھر کیا پوچھنا۔ اللہ کریم تو تمہیں خیرات پر مغفرت اور بخشش کی نوید سناتے ہیں کہ تمہارا خیرات کرنا تمہارے گناہوں کی بخشش کا سبب بن جائے گا اور وہ اپنے فضل کا وعدہ فرماتا ہے جس سے اجر آخرت میں زیادتی بھی مراد ہوسکتی ہے اور خیرات کے بدلے میں رزق کی زیادتی بھی۔ اس طرح اللہ کی راہ میں خرچ کرکے تم کئی گنا منافع دونوں عالم میں کماتے ہو اور اللہ کی خوشنودی اس کے سوا ہے اور اللہ تو اپنی کرم فرمائیوں کو وسیع کرنے والا ہے اور ہر بات کو جانتا ہے کہ کس نے کس لئے دیا ؟ اور کب دیا ؟ سب باتوں سے آگاہ ہے۔ یوتی الحکمۃ ھن یسائ……………اولوالباب۔ حکمت کے معنی کسی قول یا عمل کو اس کے تمام اوصاف کے ساتھ مکمل کرنا ہے۔ قرآن کریم میں اس کا استعمال بار بار ہوا ہے اور مختلف تفسیریں کی گئی ہیں مگر سب کا مفہوم یہی ہے۔ صاحب تفسیر مظہری فرماتے ہیں کہ حکمت سے مراد مفید ، صحیح علم اور اس کے مطابق عمل جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہو ظاہراً یہ علم انبیاء (علیہم السلام) کا ہے تو سارا عالم حصول حکمت میں انبیاء سے رجوع کرے گا اور اس سے مراد دین کی سمجھ لیا جائے۔ ارشاد ہے کہ احکام دین کو سمجھنا اور ان کے فضائل وفوائد سے آگاہ ہونا ہی اصل عبادت ہے جو دونوں جہانوں کی بھلائی کا سبب ہے اور اللہ جسے چاہے عطا کردے اور جسے اللہ نے حکمت عطا فرمائی اسے بہت بڑی بھلائی خیر کثیر عطا فرمائی۔ اس سے سمجھ آتی ہے کہ اللہ جس پر انعام فرمائے اسے علوم انبیاء (علیہ السلام) کی سمجھ عطا فرماتا ہے اور تب ہی اس کے دل میں دین کی عظمت جاگزیں ہوتی ہے۔ ایک حدیث پاک کا مضمون ہے کہ دنیا کا مال تو اللہ اپنے دشمن کو بھی دیتا ہے اور دوست کو بھی ۔ مگر دین صرف اپنے مقبول بندوں کو عطا فرماتا ہے اور نصیحت پذیر تو وہی ہوتے ہیں جو دانشمند ہوں یعنی خدا داد علوم پر وہی لوگ غور کرتے ہیں جن کا فہم شیطانی خیالات سے پاک ہو اور ایسا تفکر تب ہی ممکن ہے جس نفس امارہ مغلوب ہوجائے۔ نفس امارہ کو مغلوب کرنے کا نام تصوف ہے : اور اسی کا نام تصوف ہے اور ساری محنت اس شے کے حصول کے لئے کی جاتی ہے اس لئے اہل اللہ سے اخذ فیض کرنا ضروری ہے اور ایسے مجاہدات جن سے نفس مغلوب رہے۔ وما انفقتم ھن نفقۃ اونذرتم ھن ندر………………وما لظلمین من انصار۔ اور جس طرح کا خرچ بھی تم کرتے ہو ، اطاعت میں یا معصیت میں ، جائز ہو یا ناروا ، مخلصانہ ہو یا ریاکارانہ ، اچھا اور عمدہ ہو یا ناقص ، یا کوئی نذر جو تم مانتے ہو۔ عبادت بدنی ہو مالی میں سے ہو درست اور صحیح ہو یا ناجائز کہ نذر کے لئے ضروری ہے کہ از قسم فرض ہو اور فرض نہ ہو اور صرف اللہ کے لئے مانی جائے۔ جیسے نماز فرض ہے مگر یہ نذر نہ ہوگی کہ کوئی فجر یا کسی اور وقت کے فرائض کی نذر مانے بلکہ کئی رکعت نفل مانے گا۔ ایسے نفلی صدقات یا نفلی روزے اور حج۔ پھر اگر غلط نذرمانی اور پھر ایفا کیا یا نہ کیا۔ سب باتیں اللہ پر عیاں ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے سب کا اجر عطا فرمائے گا اور جو حدود و شرائط کی پرواہ نہیں کرتے غرض جو بھی بےقاعدگی اور نافرمانی کرتے ہیں ان کا کوئی مددگار نہیں کہ انہیں اللہ کی گرفت سے بچا سکے۔ ان تبدو الصدقات فنعما ھی……………وانتم لا تظلمون۔ اگر تم علی الاعلان خیرات کرو تو بہت اچھی بات ہے بڑی اچھی مثال ہے مگر مشکل کام ہے اور کچھ نہ ہو تو کوئی نہ کوئی شمہ ریاء کا اس میں داخل ہو ہی جاتا ہے۔ بعض اوقات تکبر پیدا ہوجاتا ہے۔ اس میں اس طرح کی بہت سی مشکلات ہیں۔ آسان راستہ یہی ہے کہ صدقہ چپکے سے اور پوشیدہ طور پر کرو کہ لینے والے کا بھرم بھی رہ جائے اور تمہاری ذات بھی مشکلات میں نہ پھنسے پھر دنیوی فائدہ بھی ہے کہ مال کی مقدار عام آدمی پر ظاہر نہ ہو اس میں اگر کوئی ظاہری فائدہ نظر نہ آئے تو کیا حرج ہے۔ ہم اسے تمہارے گناہوں کی بخشش کا سبب بنادیں گے۔ تمہارے گناہ معاف ہوں گے درجات بڑھیں گے۔ یہ کفارہ سیات پوشیدہ صدقہ کے ساتھ مختص نہیں ہے ظاہراً صدقہ دیا جائے تو بھی حاصل ہوتا ہے مگر یہاں ارشاد ہے کہ مقصد اصلی تو یہی ہے کہ گناہ معاف ہوں ، اللہ کا قرب حاصل ہو ، سو ہوگا۔ کیونکہ اللہ تمہارے ہر عمل سے باخبر ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے کہ چھپا کر خیرات کرنا رب کے غضب کو بجھا دیتا ہے اور عزیزوں سے اچھا سلوک کرنا عمر بڑھا دیتا ہے اوکما قال۔ مفسرین کرام نے اس ضمن میں بہت احادیث جمع فرمائی ہیں۔ صدقہ نافلہ مومن وکافر سب کو دیا جاسکتا ہے اب اگر کوئی عزیز کافر ہے تو اس خیال میں نہ ہو کہ مسلمان ہوگا تو صدقہ دیں گے ورنہ نہیں کہ ہدایت اللہ کی عطا ہے جو شخص اپنا رخ اللہ کی طرف پھیرے گا ، ہدایت پالے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذمہ نہیں ہے لیکن مربوب تو سب اسی کے ہیں روزی تو سب کو وہی دیتا ہے۔ سو صدقات نافلہ کو کافروں سے بھی نہ روکو کہ تم تو اپنی بھلائی کی خاطر خرچ کرتے ہو یعنی اس کا اجر تو تم ہی لو گے ، اب فقیر مومن ہے یا کافر ، کھاتا اللہ کے نام کا ہے اور سجدہ کسی اور کا کرتا ہے اس سے تمہیں کوئی سروکار نہیں ، یہ اللہ کا اور اس کا معاملہ ہے نہ یہ تمہارا فقیر پہ کوئی احسان ہے کہ تم اس کی خاطر تو صدقہ نہیں کر رہے اپنی بہتری اور دونوں عالم کی بھلائی کے خواہاں ہو اور اللہ کی رضا کے طالب ہو تم اللہ کے جمال کے متلاشی ہو ، ، تمہاری تمنا بہت بلند ہے اور تمہاری آرزو لائق صدآفرین۔ پھر اتنی بلندی کے لئے جو سیڑھی بنائے جائے اس میں کیا ناقص مال لگانا چاہیے یا اسے کمزور سہاروں پر قائم کرنا چاہیے ؟ ہرگز نہیں ! مال بھی اچھا دو اور صرف اللہ پر اعتماد رکھو ، کہ جو شے بھی تم نیکی پہ خرچ کرو گے اس کا بدلہ تمہیں پورا پورا دیا جائے گا بلکہ کئی گناہ بڑھا کردیا جائے گا اور قطعاً تمہاری حق تلفی نہ کی جائے گی۔ یاد رہے صدقہ نافلہ غیر مسلم کو بھی دینا جائز ہے۔ فرض صدقات مثلاً زکوٰۃ عشروغیرہ جو وصول صرف مسلمانوں سے کئے جائیں گے وہ صرف مسلمانوں کو دیئے جائیں گے غیر مسلم کو دینا جائز بھی نہیں اور فرض بھی ادا نہ ہوگا۔ یہ فرض صدقات وہ ہیں جو اللہ نے مسلمانوں پر فرض کئے عہد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بھی وصول کئے گئے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سفر آخرت کی خبر پاکر جن لوگوں نے زکوٰۃ کا انکار کیا ان کے ساتھ جہاد کیا گیا بالکل اسی طرح جیسے کفار کے ساتھ یا جھوٹے مدعیان نبوت کے ساتھ اور ان منکرین کے ساتھ تین شبانہ روز کی جنگ کے سالار خود خلیفہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیدناابوبکر صدیق (رض) تھے۔ اور امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ ، الکریم بنفس نفیس مجاہدین میں۔ پھر عہد فاروقی ، عثمانی اور علوی (رض) میں بدستور اسی پر حمل رہا۔ معاذ اللہ ! جو زکوٰۃ وعشر حضرت علی (رض) خود ادا کرتے رہے بحیثیت امیر سب مسلمانوں سے وصول کرکے صحیح مصرف پہ خرچ کرتے رہے ، اسے ساڑھے تین سو سال بعد سے شروع ہو کر بننے والے فقہ جعفریہ نے کیسے باطل کردیا ؟ ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے ! للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللہ…………فان اللہ بہ علیم۔ خیرات ان فقیروں کے لئے ہے جو دینی امور کی وجہ سے یعنی حصول علم یا جہاد کی مصروفیت کی وجہ سے کہیں آجا نہیں سکتے کہ اپنی روزی کا اہتمام کریں اور ایسے باہمت لوگ ہیں کہ قناعت کی وجہ سے سوال تک نہیں کرتے جس کے باعث ناسمجھ لوگ انہیں مالدار سمجھتے ہیں مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو انہیں ان کے چہروں سے پہچان سکتے ہیں۔ ان کے لباسوں کو بوسیدگی اور ان کے چہروں کی زردی ان کے حال کی غماض ہے ، اگرچہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے۔ یعنی جو لوگ گداگری کو خلاف شان سمجھتے ہیں اور دینی امور میں منہمک ہیں کہ دنیاوی کاموں کے لئے وقت نہیں نکال سکتے۔ فاقہ زدہ چہرے اور بوسیدہ کپڑے ان کے پائے اثبات کو نہیں ہلا سکتے۔ ان پر صدقات کو صرف کرنا سب سے افضل ترین ہے اور جو بھی مناسب چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ اس سے آگاہ ہے خوب علم رکھتا ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 267 تا 270 طیبت (طیبۃ، پاکیزہ) لا تیمموا (تم نیت نہ کرو، تم نہ چھانٹو) ۔ الخبیث (گندی چیز) ۔ لستم (تم نہ ہوں) ۔ باخذیہ (اس کو لینے والے (ب، اخذین ، ہ) ۔ ان تغمضوا (یہ کہ تم آنکھیں بند کرلو) ۔ یعد (وعدہ کرتا ہے) ۔ الفقر (تنگی، محتاجی) ۔ الحکمۃ (عقل و دانائی اور سمجھ کی بات) ۔ یؤت (دیا گیا) ۔ نذرتم (تم نے منت مانی) ۔ انصار (مددگار) ۔ تشریح : آیت نمبر 267 تا 270 ان آیتوں کو سمجھنے سے پہلے خراج اور عشر کو سمجھ لینا چاہئے۔ کیونکہ پہلی ہی آیت میں زمین سے پیداوار پر اس میں سے خرچ کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے ۔ غیر مسلموں کی زمین سے پیدا وار پر جو حصہ لیا جاتا ہے اس کو خراج کہتے ہیں اور مسلمانوں کی زمین کی پیداوار پر جو دسواں حصہ لیا جاتا ہے اس کو عشر کہتے ہیں۔ عشر ٹیکس نہیں ہے بلکہ زکوٰۃ کی طرح ایک مالی عبادت ہے اسی لئے اس کو زکوٰۃ الارض کہتے ہیں۔ زکوٰۃ اور عشر میں فرق یہ ہے کہ سونا، چاندی اور مال تجارت پر نفع ہو یا نہ ہو ایک سال گزرنے پر جو ڈھائی فیصد لیا جاتا ہے اس کو زکوٰۃ کہتے ہیں اس کے برخلاف عشری زمین سے پیداوار ہونے پر جو کچھ لیا جاتا ہے اس کو عشر کہتے ہیں ۔ اس میں سال گزرنا شرط نہیں ہے اگر پیداوار نہیں ہوگی تو عشر بھی نہیں لیا جائے گا علماء مفسرین کے نزدیک اس آیت میں اخرجنا سے مراد یہ ہے کہ عشری زمین پر عشر ہے ۔ یعنی مسلمانوں پر زکوٰۃ کی طرح پیداوار پر عشر نکالنا بھی واجب ہے۔ چونکہ یہ غریبوں اور مجبوروں کا حق ہے اس لئے فرمایا کہ تم چھانٹ چھانٹ کر گندی اور خراب چیزیں نہ دو ۔ اس کا خوبصورت معیار یہ قرار دیا ہے کہ اگر یہی چیز تمہیں دی جاتی تو تمہیں ناگوار تو نہ گزرتی ؟ فرمایا کہ ہماری راہ میں گندی اور خراب چیزیں دوگے تو اس کو یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ چیزوں کا محتاج نہیں ہے وہ بڑا بےنیاز اور تمام تعریفوں اور خوبیوں کا مالک ہے۔ فرمایا شیطان تمہارا ازلی دشمن ہے وہ تمہیں بہکاتا ہے کہ اگر اللہ کی راہ میں خرچ کیا گیا تو تم غربت و افلاس میں مبتلا ہوجاؤ گے لیکن بےہودہ اور بےشرمی کے کاموں کی طرف تمہیں آمادہ کرتا ہے ۔ تمہیں اس اللہ کی طرف دوڑنا چاہئے جو تم سے اپنے فضل و کرم اور مغفرت کا وعدہ کرتا ہے۔ فرمایا کہ ان تمام معاملات زندگی میں اللہ نے جس کو بھی حکمت یعنی عقل سلیم عطا فرما دی تو گویا اس کو سارے خیر اور بھلائی کے خزانے عطا کر دئیے۔ آخر میں فرمایا کہ تم جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو یا کوئی منت مانتے ہو اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے تم اس میں حد سے بڑھ کر بدعات میں مبتلا نہ ہوجانا کیونکہ یہ ظلم ہے اور ظالموں کا مددگار کوئی بھی نہیں ہوا کرتا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یہ اس شخص کے لیے جس کے پاس عمدہ چیز ہو اور پھر وہ بری اور نکمی چیز خرچ کرے اور جس کے پاس اچھی چیز ہو ہی نہیں وہ اس ممانعت سے بری ہے اور اس کی وہ بری مقبول ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے مومنوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ جو تم کمائی کرتے ہو یا جو کچھ ہم تمہارے لیے زمین سے نکالتے ہیں اس میں سے پاک اور طیّب مال اللہ تعالیٰ کے راستے میں صدقہ کیا کرو۔ یہاں طیّب سے مراد حلال، پاک اور نفیس مال ہے کیونکہ ایسا مال خرچ کرنے سے منع کیا گیا ہے جو آدمی کسی سے خود لینے کے لیے تیار نہ ہو۔ اس حرکت سے نفرت دلانے کے لیے ایسے صدقے اور مال کو خبیث کہا گیا ہے جس میں وہ تمام نقائص شامل ہوجائیں جو ایک شریف آدمی کے لیے نہایت ہی ناگوار ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ تم ایسے مال کو کسی مجبوری یا چشم پوشی کے سوا قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو اللہ تعالیٰ کے بارے میں کس طرح تصور کرتے ہو کہ وہ تمہارا مسترد اور ناپسندیدہ مال پسندیدگی کے ساتھ قبول فرمائے گا ؟ ایسے صدقے سے نہ تو دل بخل سے پاک ہوتا ہے اور نہ ہی لینے والے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا شخص اجرو ثواب سے بھی محروم رہے گا۔ لہٰذا بطور انتباہ فرمایا جارہا ہے کہ یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ کو ایسے صدقہ کی ضرورت نہیں وہ ہر چیز سے بےنیاز اور ہر حال میں لائقِ تعریف ہے۔ صدقہ کرتے ہوئے ناقص مال دینا یا حرام مال اللہ کے راستے میں خرچ کرکے اجر کی توقع رکھنا یہ شیطان کی طرف سے جھوٹی امید کا نتیجہ ہے۔ شیطان تمہیں غریب ہوجانے کا خوف دلاتا ہے۔ ناقص اور حرام مال خرچ کرنے کی ترغیب دے کر حقیقتاً شیطان تمہیں بےحیائی کا حکم دیتا ہے۔ یہ عقل مند مسلمان کے سچے جذبات کے منافی ہے کہ صدقے کے نام پر حرام مال خرچ کرے جس کے لینے سے ہی اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ گویا کہ انتہاء درجے کی بےحیائی اور ڈھٹائی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حرام سے منع کرے اور تم اس کے نام حرامچیز دو اور پھر اس میں ثواب کی امید بھی رکھو۔ یہ سراسر شیطانی عمل ہے جب کہ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے کے بدلے تمہارے گناہ معاف کرنے اور مزید عطا کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّھَاالنَّاسُ إِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَایَقْبَلُ إِلَّا طَیِّبًا وَإِنَّ اللّٰہَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا أَمَرَ بِہِ الْمُرْسَلِیْنَ فَقَالَ (یَاأَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْامِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا إِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ) وَقَالَ (یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنٰکُمْ ) [ رواہ مسلم : کتاب الزکوٰۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگو ! اللہ پاک ہے ا ورپاک چیز ہی قبول کرتا ہے۔ اللہ نے مومنوں کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے رسولو ! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو جو کچھ تم کرتے ہو میں اسے جانتا ہوں اور فرمایا : اے مومنو ! ہم نے جو تمہیں دیا ہے اس میں سے حلال کھاؤ۔ “ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَانَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِّنْ مَّالٍ وَّمَازَاد اللّٰہُ عَبْدًابِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَّمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰہِ إِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ ) [ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور کسی بھائی کو معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے کو مزید عزت بخشتا ہے۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے سر بلندفرماتا ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ کی راہ میں پاک مال دینا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ بےنیاز اور حمد و ستائش کے لائق ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے، شیطان غربت اور بےحیائی کا وعدہ کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن شیطان کے وعدے تباہی کا پیش خیمہ ہیں : ١۔ شیطان بےحیائی کا حکم دیتا ہے۔ (البقرۃ : ١٦٩) ٢۔ شیطان مفلسی سے ڈراتا اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٦٨) ٣۔ شیطان کا وعدہ فریب ہے۔ (بنی اسرائیل : ٦٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انفاق فی سبیل اللہ کے آداب اور نتائج کے بیان کے بعد اب یہاں سیاق کلام ، انفاق فی سبیل اللہ کے دستور کو لے کر اب مزید آگے بڑھتا ہے ۔ انفاق کی حقیقت ، انفاق کا طریقہ کار اور لوازمات کو بیان کیا جاتا ہے۔ اس آیت سے پہلی آیات میں انفاق فی سبیل اللہ کے لئے جو قواعد اور اساسات متعین کئے گئے تھے اور جن پر اس کی عمارت اٹھانے کا حکم دیا تھا ، ان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں بہترین مال خرچ کیا جائے ۔ اللہ کی راہ میں ردی اور گھٹیا اشیاء خرچ کرنے کا ارادہ ہی نہ کیا جائے جن میں خود مالک کی کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ ایسی اشیاء اگر خود ایسے شخص کو کسی سودے یا بیوپار میں دی جائیں تو وہ ان کے دعوض حقیر قیمت دینے کے لئے بمشکل تیار ہو۔ اللہ غنی بادشاہ ہے ۔ اسے ضرورت نہیں ہے کہ ایسی ردی اشیاء قبول کرے ۔ اللہ کی یہ پکار تمام مسلمانوں کے لئے ہے ۔ وہ جب کبھی ہوئے ہوں اور جہاں کہیں بھی ہوں اور یہ حکم تمام اموال کے لئے ہے جو ان کے ہاتھ آجائیں ۔ وہ تمام اموال جو انہوں نے حلال اور پاکیزہ طریقے سے کمائے ہوں یا وہ اموال ہوں جو ان کے لئے زمین سے پیدا کئے گئے ہوں۔ زرعی اجناس ہوں معدنیات ہوں مثلاپٹرول وغیرہ ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت میں عمومی الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔ یعنی وہ اموال جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت موجود تھے یا وہ جو بعد میں پیدا ہوئے ۔ اس لئے آیت کے الفاظ عام ہیں ۔ ان کا اطلاق ان اموال پر بھی ہوتا ہے جو بعد میں پیدا ہوں ۔ ان تمام پر زکوٰۃ واجب ہوگی ۔ ہاں نصاب زکوٰۃ کا تعین سنت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کردیا ہے۔ لہٰذا ہر قسم کی پیداوار کو ان اموال پر قیاس کرلیا جائے ۔ جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت موجود تھے ۔ ہر نئی پیداوار کو ان اجناس پر قیاس کرلیا جائے جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت موجود تھیں ، اپنی اپنی نوعیت کے مطابق ۔ بعض روایات میں ، اس آیت کا شان نزول بھی بیان ہوا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں یہاں ان کا تذکرہ غیر موزوں نہ ہوگا ۔ کیونکہ ان روایات کے ذریعہ وہ حالاتدوبارہ سامنے آجاتے ہیں ، جن میں ان آیات کا نزول ہوا ۔ ان روایات سے وہ پست معاشرتی صورتحال بھی مستحضر ہوجاتی ہے جس کی اصلاح قرآن کے پیش نظر تھی اور جس کے معیار کی بلندی کے لئے قرآن کریم جدوجہد کررہا تھا۔ ابن جریر نے حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے ، فرماتے ہیں ” یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی ، جب کھجوریں توڑنے کا وقت قریب آتا تو وہ اپنے باغوں سے کھجوروں کے ایسے کو شے توڑ لاتے جن کے رنگ پیلے ہوجاتے تھے ، لیکن ابھی پکے نہ ہوتے تھے اور وہ انہیں مسجد نبوی کے دوستونوں کے درمیان لٹکادیتے تھے ، تو فقراء مہاجرین ان سے کھاتے تھے ۔ بعض لوگ ردی قسم کی کھجوریں بھی لاکر ان میں لٹکا دیتے ۔ وہ یہ سمجھتے کہ یہ جائز ہے ۔ جو لوگ یہ کام کرتے تھے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی وَلا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ ................ ” اور خبیث کا ارادہ نہ کرو کہ اس میں سے تم خرچ کرو۔ “ اس حدیث کو براء سے حاکم نے بھی روایت کیا ہے ۔ اور یہ کہا ہے کہ یہ حدیث اگرچہ بخاری اور مسلم کی شرائط کی صحت کے مطابق ہے ۔ لیکن بخاری ومسلم نے اسے روایت نہیں کیا ۔ ابن ابی حاتم نے اپنی سند کے ساتھ ایک دوسری سند کے ساتھ حضرت براء (رض) سے روایت کی ہے ۔ کہتے ہیں یہ ہمارے متعلق نازل ہوئی ہے ۔ ہم کھجوروں کے مالک تھے تو ہر شخص تھوڑی بہت کھجوریں لایا کرتا تھا ، بعض لوگ ناپختہ لاتے تھے اور مسجد میں لٹکاتے تھے ۔ اہل صفہ کے طعام و قیام کا بندوبست کوئی نہ تھا ۔ ان میں سے جو بھی بھوکا ہوجاتا ، وہ آتا اور اپنی لاٹھی کو ان لٹکی ہوئی کھجوروں پر مارتا اور نیم پختہ اور پوری پختہ کھجوروں میں سے جو کچھ گرتا ، وہ کھالیتا۔ لوگوں میں سے بعض ایسے بھی تھے جو مائل بخیر نہ تھے ، وہ ناپختہ اور ردی قسم کی کھجوریں لے آتے ۔ وہ خصوصاً ایساخوشہ لاتے جو ٹوٹ چکا ہوتا تھا اور جس کے دانے ناپختہ ہوتے تھے ، اسے لٹکادیتے تو یہ آیت نازل ہوئی وَلا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِيهِ إِلا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ................ ” ایسانہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لئے بری سی بری چیز چھاٹنے کی کوشش کرنے لگو ، حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے تو تم ہرگز اسے لینا گوارا نہ کروگے ۔ الا یہ کہ اسے قبول کرنے میں تم اغماض برت جاؤ۔ “ فرمایا : کہ اگر تم میں سے کسی کو ایسی ہر چیز ہدایہ دے جو وہ خود دے رہا ہے ، تو وہ اسے ہرگز نہ لے ۔ الا یہ کہ اغماض برتے یا حیاچشمی سے کام لے ۔ چناچہ اس کے بعد ہم سے ہر شخص کے بعد جو کچھ ہوتا ، اس میں سے اچھی چیز لاتا۔ دونوں روایات قریب المفہوم ہیں ۔ دونوں مدینہ طیبہ میں فی الواقع موجود صورتحال کا نقشہ کھینچ رہی ہیں ۔ یہ دونوں احادیث تاریخ کے ایک ورق کے بالمقابل ایک دوسرا ورق دکھاتی ہیں ، جس کے اوپر انصار مدینہ فیاضانہ دادوہش کے انمٹ نشان چھوڑدیتے ہیں ۔ نیز یہ احادیث بتاتی ہیں کہ ایک ہی جماعت کے اندر بعض افراد نہایت ہی عجیب اور بلند مقام کے حامل ہوتے ہیں اور بعض دوسرے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی تربیت اور تہذیب کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ انہیں درجہ بلند کے راستے پر ڈالا جائے ، جس طرح بعض انصار کے معاملے میں یہ ضرورت پیش آئی ، انہیں اللہ کے راستے میں ردی اموال کو خرچ کرنے سے منع کیا جائے ۔ ایسے اموال کہ خود اگر انہیں پیش کئے جائیں تو وہ انہیں قبول نہ کریں ۔ الا یہ کہ رد کرنے میں حیا مانع ہو اور اگر کوئی لین دین ہو تو اس میں وہ اغماض برت جائیں ۔ یعنی قیمت میں کمی کرنے کے معاملے میں ۔ حالانکہ وہ جس ذات باری کے سامنے ہدیہ پیش کررہے ہیں وہ باری تعالیٰ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کا خاتمہ اس فقرے پر ہوتا ہے ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ................ ” تمہیں جان لینا چاہئے کہ اللہ بےنیاز ہے اور بہترین اوصاف سے متصف ہے ۔ “ یعنی وہ اس بات سے مطلقاً بےنیاز ہے کہ اس کی راہ میں کوئی دیتا ہے یا نہیں دیتا۔ اگر کوئی اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو خود اپنے مفاد کے لئے کرتا ہے ۔ تو بس اس کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ بہترین چیز خرچ کرے اور بطیب خاطر کرے نیز وہ حمید ہے ۔ وہ پاکیزہ چیزیں قبول کرتا ہے اور ان کی تعریف کرتا ہے ۔ ان پر جزا دیتا ہے اور اچھی جزا۔ غرض اس مقام پر یہ ان دونوں صفات کے ذکر سے انسانی دل اس طرح دہل جاتے ہیں ، جس طرح انصار کے دل دہل گئے تھے جن کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں۔” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ، جو مال تم نے کمائے ہیں ، ان میں سے بہترین حصہ راہ اللہ میں خرچ کرو ۔ “ ورنہ اللہ کو اس ردی چیز کی ضرورت نہیں جس کو تم چھانٹ کر بطور صدقہ خرچ کرتے ہو ، حالانکہ اللہ وہ ذات ہے جو تمہاری تعریف اس صورت میں کرتا ہے کہ تم اس کی راہ میں پاکیزہ چیزیں خرچ کرو اور اس رضامندی کی وجہ سے وہ پھر تمہیں اچھی جزا بھی دیتا ہے ۔ درآں حالیکہ یہ مال اسی نے تمہیں دیا ہے ۔ اصل داتا تو وہی ہے وہ تو بطور اعزاز تمہیں اس فیاضی پر جزا دیتا ہے ، اس لئے کہ تم جو کچھ دیتے ہو وہ اسی نے تو تمہیں عطا کیا ہے ۔ کس قدر شاندار تفہیم ہے یہ ! کیا عجب انداز ترغیب ہے ! یہ ایک عجیب اسلوب تربیت ہے جو قرآن کریم نے اختیار کیا ہے ۔ حقیقت یہ تھی اور ہے کہ اللہ کی راہ میں انفاق نہ کرنا ، یا ردی اور بےکار چیز بارگاہ الٰہی میں پیش کرنا ، اپنے اندر بعض برے تصورات لئے ہوتے ہیں ۔ ایسے شخص کو دراصل ان اعمال پر اللہ تعالیٰ کے ہاں جو اجر مقرر ہے اس پر پورا یقین نہیں ہوتا یا ایسے شخص کو تنگ دستی کا خوف لاحق ہوتا ہے ، جو کبھی بھی ان لوگوں کو لاحق نہیں ہوتا جن کا رابطہ اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے ، جن کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر پورا بھروسہ ہوتا ہے ۔ انہیں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ ہر چیز کا انجام آخرکار اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان کے مقابلے میں ان تصورات کی حقیقت کھول کر رکھ دی ، یہ بات عیاں کردی اور اچھی طرح سمجھادیا کہ نفس انسانی کے اندر یہ تصورات کہاں سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اور انسانی دلوں میں ان کو بار بار جگانے والی وہ قوت کون سی ہے ؟ چناچہ بتایا جاتا ہے کہ وہ قوت شیطانی قوت ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ کی رضا کے لیے عمدہ مال خرچ کرنے کا حکم گزشتہ آیات میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کا ثواب ذکر فرمایا ہے اور خرچ کرنے کے آداب بتائے ہیں اس آیت میں اپنے کمائے ہوئے مالوں میں سے طیب عمدہ حلال اور اچھی چیزیں خرچ کرنے کا حکم فرمایا، حرام کمانا تو حرام ہے جو حلال مال ہے اس میں سے بھی عمدہ چیز کو اللہ کی راہ میں دینا چاہئے۔ اسباب النزول صفحہ ٨٢ میں اس آیت کا سبب نزول بتاتے ہوئے حضرت براء بن عازب (رض) سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی، جب فصل پر کھجوروں کے پھل کاٹتے تھے تو کھجوروں کے خوشے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد میں ستونوں کے درمیان بندھی ہوئی رسی پر لا کر ٹانگ دیتے تھے جس میں سے فقراء مہاجرین کھالیتے تھے ان میں سوکھے ہوئے خوشے بھی ہوتے تھے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا : (وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ ) (کہ تم ردی چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا ارادہ نہ کرو۔ ) لباب النقول میں بحوالہ حاکم حضرت جابر (رض) سے نقل کیا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقۃ الفطر ادا فرمانے کا حکم فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ کھجور کا ایک صاع صدقہ میں دیا جائے اس پر ایک شخص رد ی کھجوریں لے آیا لہٰذا آیت کریمہ (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ ) نازل ہوئی۔ یہ جو فرمایا (وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ ) اس میں تنبیہ فرمائی کہ تم اللہ کی راہ میں گھٹیا مال خرچ کرنے کو تیار ہو لیکن ویسا ہی گھٹیا مال تمہیں کوئی دے تو تم خود اسے لینے کو تیار نہ ہو گے۔ تمہارا کسی پر قرضہ ہے قرضہ کی ادائیگی کے سلسلہ میں تمہیں کوئی خراب کھجوریں یا دوسرا کوئی گھٹیا مال دینے لگے تو تم اسے قبول نہ کرو گے ہاں یہ اور بات ہے کہ موقع دیکھ کر آنکھیں میچ لو اور یہ سمجھ کر رکھ لو کہ اس آدمی سے عمدہ مال کبھی بھی نہیں ملے گا چلو جو ہاتھ آتا ہے یہ ہی سہی، یہ مسامحت والی بات دوسری ہے رضا اور رغبت اور دل کی خوشی کے ساتھ تم ردی چیز قبول نہیں کرسکتے۔ عمومی طور پر مال طیب اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ : (وَ مِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ) (کہ ہم نے زمین سے جو کچھ تمہارے لیے نکالا ہے اس میں سے خرچ کرو۔ حضرات فقہاء کرام نے اس سے یہ ثابت کیا ہے کہ زمین کی پیداوار پر بھی زکوٰۃ ہے اور احادیث شریفہ میں بھی پیداوار کی زکوٰۃ ثابت ہے۔ فقہاء کی اصطلاح میں اس کو عشر کہا جاتا ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) نے آیت کے عموم سے استدلال کیا ہے کہ زمین سے جو بھی کچھ پیدا ہو (غلہ ہو یا سبزیاں، ترکاریاں ہوں یا پھل) سب کی زکوٰۃ نکالنا فرض ہے۔ البتہ گھاس اور لکڑی ان کے نزدیک اس سے مستثنیٰ ہے۔ پیداوار کی زکوٰۃ کا اصول یہ ہے کہ جو زمین ایسے پانی سے سیراب کی جائے جس کی قیمت ادا کرنی نہ پڑے مثلاً بارش کے پانی سے سیراب کی جائے یا ندی یا دریا کے کنارے پر ترائی میں کوئی چیز پانی دئیے بغیر بو نے سے پیدا ہوجائے تو اس کی کل پیداوار سے دسواں حصہ مستحقین زکوٰۃ کو دینا فرض ہے اور یہ بھی زکوٰۃ ہی ہے مثلاً دس کیلو پیداوار میں سے ایک کیلو دیدے اور اسی طرح باغ میں جو پھل پیدا ہوں ان کا بھی دسواں حصہ زکوٰۃ میں ادا کرے۔ اور اگر پانی کی قیمت دے کر زمین کو سیراب کیا گیا ہے تو ایسی زمین کی پیداوار پر نصف العشر یعنی دسویں کا آدھا زکوٰۃ میں دینا فرض ہوتا ہے جس کو بیسواں حصہ کہا جاتا ہے یعنی دس کیلو پیداوار میں سے آدھا کیلو زکوٰۃ میں دیدے۔ مسئلہ : یہ دسواں یا بیسواں حصہ جو زکوٰۃ میں ادا کرنا فرض ہے۔ اس میں کوئی نصاب نہیں ہے یعنی جس قدر بھی پیداوار ہو اس کا دسواں یا بیسواں حسب تفصیل بالا ادا کرے۔ مسئلہ : کھیتی پر جو مال خرچ ہوا مثلاً بیج ڈالا، مزدوروں سے زمین کھود وائی بیل خریدے، ٹریکٹر چلوایا، کام کرنے والوں کو مزدوری دی، یہ سب اخراجات منہا نہیں ہوں گے جو کچھ بھی پیداوار ہو اس کی زکوٰۃ کا دسواں (١٠) یا بیسواں (٢٠) حصہ (حسب تفصیل بالا) زکوٰۃ میں ادا کرنا لازم ہے۔ فائدہ : زمینوں کے عشری اور خراجی ہونے میں کچھ تفصیل ہے۔ مختصراً اتنا سمجھ لیا جائے کہ جو کوئی علاقہ کافروں کے قبضہ میں تھا پھر مسلمانوں نے حملہ کرکے وہ علاقہ ان سے چھین لیا اور امیر المومنین نے اس علاقہ کی زمین مسلمانوں میں تقسیم کردی تو یہ زمین عشری ہے اسی طرح سے اگر کسی شہر کے رہنے والے مسلمان ہوجائیں تو ان کی زمین بھی عشری ہوجائے گی۔ آیت کے ختم پر فرمایا : (وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ) کہ (اللہ تعالیٰ غنی ہے مستحق حمد ہے) اسے تمہارے صدقات کی حاجت نہیں جو کچھ خرچ کرتے ہو آپس میں خود ہی منتفع ہوتے ہو اس نے جو کچھ عطا فرمایا ہے اس کے عطاء فرمانے پر وہ مستحق حمد ہے۔ مستحق شکر ہے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ حمید بمعنی حامد بھی ہوسکتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ عمدہ چیز قبول فرماتا ہے یعنی خرچ کرنے والے کو ثواب دیتا ہے اور یہ قبول کرنا اور ثواب دینا اس کی طرف سے بندوں کی تعریف ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

526 یہاں یہ حکم دیا گیا ہے کہ کہ اللہ کی راہ میں حلال وطیب اور عمدہ چیزیں خرچ کرو۔ مال حرام اور بےکار چیزیں خدا کی راہ میں نہ دو ۔ یہاں امر وجوب کے لیے ہے اور اس سے مراد زکوۃ مفروضہ ہے۔ جیسا کہ حضرت علی (رض)، عبدیہ سلمانی اور ابن سیرین سے منقول ہے۔ عن عبیدة السمانی قال سالت علیا کرم اللہ تعالیٰ وجھہ عن ھذہ الایة فقال نزلت فی الزکاة المفروضة (روح ص 39 ج 3) فقال علی بن ابی طالب عبیدة السلمانی وابن سیرینھی الزکاةا لمفروضة (قرطبی ص 320 ج 3) مَا كَسَبْتُمْ ۔ سے مال تجارت اور وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ۠۔ سے زمین کی پیداوار مثلاً غلہ اور مع دنیا وغیرہ تو اس سے معلوم ہوا کہ زکوۃ جس طرح مال تجارت میں فرض ہے۔ اسی طرح زمین کی پیداوار میں بھی فرض ہے۔ والتفصیل فی کتب الفقہ۔527 ۔ وَلَا تَيَمَّمُوا۔ تیمم سے ہے۔ جس کے معنی قصد اور ارادہ کرنے کے ہیں یہ اصل میں لاتتیمموا تھا۔ ایک تاء بطور تخفیف حذف کردی گئی ہے۔ منہ، تنفقون کے متعلق ہے اور یہ تیمموا کے فاعل سے حال مقدر ہے۔ ای لاتقصدوا الخبیث فاعلین الانفاق منہ اور وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِيْهِ ، تنفقون کی ضمیر سے حال ہے اور الخبیث سے بیکار اور روی چیز مراد ہے۔ الخبیث ای الردی (روح ص 39 ج 3) یعنی ردی اور گھٹیا چیزیں خدا کی راہ میں دنے کا ارادہ تک مت کرو۔ اپنا حال ہی دیکھ لو اگر تمہیں تمہارے حقوق کی ادائیگی کے سلسلے میں کوئی ردی چیز دے دی جائے تو تم اسے لینے کے لیے تیار نہیں ہو اور بطیب خاطر اسے قبول نہیں کرتے ہو۔ تو پھر خدا کی راہ میں ایسی ناپسندیدہ چیزیں کیوں دیتے ہو۔ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ حَمِيْدٌ۔ اس بات کا یقین رکھو کہ اللہ کو تمہارے صدقات کی ضرورت نہیں وہ ان سے بےنیاز ہے یہ احکام محض تمہاری بھلائی اور بہبود کے لیے نازل کرتا ہے۔ اور وہ صفات کمال سے متصف ہے۔ اس لیے اس کامل کے نام پر عمدہ سے عمدہ اور پاکیزہ تر چیزیں قربان کرو۔ نہ کہ گھٹیا اور بےکار چیزیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اے ایمان والو ! تم اپنی کمائی میں سے اور ان چیزوں میں سے جو ہم نے تمہارے بھلے کے لئے زمین سے نکالی اور پیدا کی ہیں اچھی عمدہ اور حلال چیزیں خدا کی راہ میں خرچ کیا کرو اور ناکارہ اور نکمی چیزوں کا قصد اور ارادہ نہ کیا کرو کہ ان میں سے خدا کی راہ میں خرچ کرو حالانکہ تم خود کبھی اس خراب اور ناکارہ چیز کو لینے پر آمادہ نہیں ہوتے مگر ہاں اس کے لینے میں چشم پوشی اور رعایت سے کام لو تو یہ دوسری بات ہے اور اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری خیرات سے مستغنی ہے وہ تمہاری خیرات کا محتاج نہیں ہے اور وہ جملہ صفات کمالیہ سے متصف اور سزا وار حمد و ثنا ہے۔ (تیسیر) یہاں طیب کو خبیث کے مقابلہ میں ذکر کیا ہے اسی مناسبت سے ہر لفظ کے تین تین معنی ہوسکتے ہیں۔ طیب حلال خبیث حرام طیب طاہر اور پاک خبیث نجس اور گندہ طیب جس کو دل پسند کرے اور طبیعت کو مرغوب ہو خبیث دل سے اتری ہوئی اور ناپسندیدہ چیز ان ہی معنی کی رعایت سے لوگوں نے ترجمہ کیا ہے۔ اغماض، چشم پوشی کرنا، غنی بےپرواہ ، مستغنی، احتیاج سے پاک حمد، مستحق حمد اور سزا وار ثناء مطلب یہ ہے کہ جب مسلمان خدا کی راہ میں خرچ کریں تو اچھی عمدہ حلال اور پسندیدہ چیز خرچ کیا کریں حرام، ناپاک اور دل سے اتری ہوئی چیز خیرات نہ کیا کریں جو چیز اللہ کے لئے خرچ کریں خواہ وہ ان کی اپنی کمائی ہو اور خواہ زمین کی پیداوار ہو کمائی سے مراد تجارت بھی ہوسکتی ہے مواشی بھی ہوسکتے ہیں۔ حضرت مقدام نے مرفوعاً نقل کیا ہے فرمایا رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ کسی شخص نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کھانا نہیں کھایا یعنی ہر شخص کی بہترین خوراک وہی ہے جو اس کی اپنے ہاتھ کی کمائی ہو۔ مما اخرجنا لکم من الارض سے زراعت اور کھیتی باڑی اور پھول پھل حتی کہ چاندی سونے اور لوہے کی کانیں بھی مراد ہوسکتی ہیں جیسا کہ فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ عشری زمین میں جو کچھ پیدا ہو۔ اس میں عشر واجب ہوتا ہے بشرطیکہ بارش وغیرہ کا پانی دیا جائے اور اگر پانی کنویں سے کھینچ کردیا جائے تو عرش کا نصف واجب ہوتا ہے۔ معاون اور رکاز کے احکام بھی کتب فقہ میں تفصیلاً درج ہیں۔ اسی طرح مالی تجارت میں بھی زکوۃ واجب ہے ۔ آیت مذکورہ میں جس انفاق کا ذکر ہے اس سے عام طور پر مفسرین نے صدقات واجبہ مراد لئے ہیں۔ اگرچہ نفی صدقات بھی مراد لئے جاسکتے ہیں اور اس کی بھی گنجائش ہے کہ دونوں مراد ہوں۔ بہرحال خدا کی راہ میں جو چیز دی جائے وہ عمدہ اور نفیس ہو پھر فرمایا ایسیچیز کے دینے کی نیت بھی نہ کیا کرو جو دل سے اتری ہوئی اور خراب ہو کیونکہ طبعاً آدمی اچھی چیز کو پسند کرتا ہے اور ناکارہ چیز کو پسند نہیں کرتا۔ اسی لئے فرمایا کہ خراب چیز اگر تم کو کوئی دے تو تم بھی اس کو نہیں لیتے۔ خواہ کوئی بطور ہدیہ تم کو پیش کرے یا تمہارے حق کے طور پر تم کو دے تو تم اس کو لینا گوارہ نہیں کرتے اور اگر کسی وقت چشم پوشی سے کام لو اور رعایت سے رکھ لو تو وہ دوسری بات ہے۔ اس لینے کو لینا نہیں کہتے لینا اور قبول کرنا تو وہی ہے جو نشاط اور قلب کی خوشی کیساتھ قبول کیا جائے پھر جب تم خود نکمی اور خراب چیز لینا گوارہ نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں بری اور دل سے اتری ہوئی چیز کیوں دیتے ہو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری خیرات اور تمہارے صدقات کا محتاج نہیں وہ تو جملہ صفات سے متصف اور سب خوبیوں کا مالک ہے۔ شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب بعض سستی چیزیں بازار سے خریدنے تھے اور خیرات کردیا کرتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ براء سن عازب فرماتے ہیں کہ انصار اپنے باغوں میں سے کھجور کے خوشہ لا کر اصحاب صفہ کے لئے مسجد میں لٹکا دیا کرتے تھے۔ اصحاب صفہ بھوک کے وقت ان خوشوں میں سے کھجوریں جھاڑ کر کھالیا کرتے تھے۔ بعض حضرات نے ایسے خوشے لا کر لٹکا دیئے جس میں ناقص اور ردی کھجوریں تھیں۔ اس پر حضرت حق تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی کہ دل سے اتری ہوئی چیز خیرات نہ کیا کرو۔ بلکہ جید اور عمدہ چیز خدا کی راہ میں دیا کرو، با سی روٹی، کھوٹا روپیہ سڑا ہوا سالن گلی ہوئی ترکاری، گھن کھایا اناج، کھوٹی چاندی، کھوٹا سونا وغیرہ سب اسی قسم کی چیزیں ہیں جن کی ممانعت کی گئی۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہ حکم ان کے لئے ہے جن کو اللہ نے مقدرت دی ہے اور جن کے پاس خود ہی اچھی چیز نہ ہو اور ان کا خود گذار نکمی اور خراب چیزوں پر ہو وہ مستثنا ہیں ان کو جو کچھ ہو وہ اسی میں سے دے دیں۔ لینفق ذوسعتہ من سعتہ ومن قدر علیہ رزقہ فلینفق مما اتاہ اللہ۔ چونکہ اعمال کے لئے شرائط اور قیود کی پابندی ضروری ہے اور شیطان اس پابندی میں خلل انداز ہوتا ہے۔ کبھی وضو خراب کرا دیتا ہے کبھی نماز میں وسوسہ انداز ہوتا ہے، کبھی زکوۃ میں رکاوٹ پیدا کردیتا ہے۔ کبھی شرائط کی خلاف ورزی پر آمادہ کرتا ہے۔ کبھی حرص اور لالچ دلا کر بری اور نکمی چیز خیرات کر ادیتا ہے اور کبھی خیرات ہی کرنے سے مانع ہوتا ہے اس لئے آگے کی آیت میں اس کے مکائد اور وساوس سے ہوشیار کرتے ہیں اور شیطان کی مذمت فرماتے ہیں اور اپنی مغفرت اور فضل کی جانب توجہ دلاتے ہیں تاکہ مرض کے ساتھ پرہیز کی طرف بھی اشارہ ہوجائے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی خیرات قبول ہونے کی یہ شرط بھی ہے کہ مال حلال کمایا ہو، حرام نہ ہو اور بہتر چیز اللہ کی راہ میں دیوے یہ نہیں کہ بری چیز خیرات میں لگا دے کہ لینے دینے میں آپ ویسی چیز قبول نہ کرے مگر ناچار ہو کر کیونکہ اللہ بےپروا ہے محتاج نہیں اور خوبیوں والا ہے خوب سے خوب پسند کرتا ہے۔ (موضح القرآن) (تسہیل)