Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 269

سورة البقرة

یُّؤۡتِی الۡحِکۡمَۃَ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃَ فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا ؕ وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ﴿۲۶۹﴾

He gives wisdom to whom He wills, and whoever has been given wisdom has certainly been given much good. And none will remember except those of understanding.

وہ جسے چاہے حکمت اور دانائی دیتا ہے اور جو شخص حکمت اور سمجھ دیا جائے وہ بہت ساری بھلائی دیا گیا اور نصیحت صرف عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يُوتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاء وَمَن يُوْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ... He grants Hikmah to whom He wills, and he, to whom Hikmah is granted, is indeed granted abundant good. يُوتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاء (He grants Hikmah to whom He wills), Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said, "That is knowledge of the Qur'an. For instance, the abrogating and the abrogated, what is plain and clear and what is not as plain and clear, what it allows, and what it does not allow, and its parables." Imam Ahmad recorded that Ibn Mas`ud said that he heard the Messenger of Allah saying, لاَا حَسَدَ إِلاَّ فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ اتَاهُ اللهُ مَالاًا فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ وَرَجُلٌ اتَاهُ اللهُ حِكْمَةً فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا There is no envy except in two instances: a person whom Allah has endowed with wealth and he spends it righteously, and a person whom Allah has given Hikmah and he judges by it and teaches it to others. This was also collected by Al-Bukhari, Muslim, An-Nasa'i, Ibn Majah. Allah's statement, ... وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الاَلْبَابِ But none remember (will receive admonition) except men of understanding. means, "Those who will benefit from the advice are those who have sound minds and good comprehension with which they understand the words (of advice and reminder) and their implications."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

269۔ 1 حکمۃ سے بعض کے نزدیک عقل وفہم، علم اور بعض کے نزدیک اصابت رائے، قرآن کے ناسخ و منسوخ کا علم وفہم، قوت فیصلہ اور بعض کے نزدیک صرف سنت یا کتاب وسنت کا علم وفہم ہے یا سارے ہی مفہوم اس کے مصداق میں شامل ہوسکتے ہیں صحیحین وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ دو شخصوں پر رشک کرنا جائز ہے ایک وہ شخص جس کو اللہ نے مال دیا اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہے دوسرا وہ جسے اللہ نے حکمت دی جس سے وہ فیصلہ کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے " (صحیح بخاری، کتاب العلم، باب الاغتباط فی العلم والحکمۃ۔ مسلم کتاب صلاۃ المسافرین، باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلمہ۔۔ )

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨٥] حکمت کی کئی تعریفیں کی جاسکتی ہیں اور وہ اپنے اپنے مقام پر سب ہی درست ہیں۔ مثلاً ارشاد نبوی ہے && رَاسُ الْحِکْمَۃ مَخَافَۃُ اللّٰہ && ِ یعنی سب سے بڑی حکمت تو اللہ کا خوف (تقویٰ ) ہے کیونکہ تقویٰ ہی وہ چیز ہے جو انسان کو بچتے بچاتے سیدھی راہ پر گامزن رکھنے والی ہے اور امام شافعی نے اپنی تصنیف الرسالہ میں بیشمار دلائل سے ثابت کیا ہے کہ جہاں بھی قرآن کریم میں کتاب و حکمت کے الفاظ اکٹھے آئے ہیں تو وہاں حکمت سے مراد سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے اور حکمت کا لغوی مفہوم کسی کام کو ٹھیک طور پر سر انجام دینے کا طریق کار ہے۔ یعنی کسی حکم کی تعمیل میں صحیح بصیرت اور درست قوت فیصلہ ہے۔ اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جس کے پاس حکمت کی دولت ہوگی وہ کبھی شیطانی راہ اختیار نہیں کرے گا اور شیطانی راہ یہ ہے کہ انسان اپنی دولت سنبھال سنبھال کر رکھے۔ اس میں سے کچھ خرچ نہ کرے بلکہ مزید دولت بڑھانے کی فکر میں لگا رہے۔ اس طرح شاید وہ دنیا میں تو خوشحال رہ سکے مگر آخرت بالکل برباد ہوگی۔ لہذا اصل دانشمندی یہ ہے کہ انسان جہاں تک ممکن ہو خرچ کرے۔ اس دنیا میں اللہ اسے اس کا نعم البدل عطا فرمائے گا اور آخرت میں بھی بہت بڑا اجر وثواب عطا فرمائے گا اور یہی سب سے بڑی دولت اور حکمت ہے۔ ایک دن حضرت معاویہ نے خطبہ کے دوران فرمایا کہ : آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا کردیتے ہیں۔ (بخاری، کتاب العلم، باب مَنْ یُرِدِ اللّٰہُ بِہِ خَیْرًا یُفَقِّھْہُ فَِیْ الدِّیْنِ ) اور میں بانٹنے والا ہوں اور دینے والا اللہ ہے اور یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی مخالف اسے نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آئے۔ && (مسلم، کتاب الامارہ، باب قولہ لایزال طائفہ من امتی ظاھرین علی الحق لایضرھم من خالفھم) اس آیت اور اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دین کی سمجھ آجانا ہی حکمت اور سب سے بڑی دولت ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يُّؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚ: یہاں ” الْحِكْمَةَ “ سے مراد دین کا صحیح فہم اور علم وفقہ میں صحیح بصیرت ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” رشک دو خوبیوں کے سوا کسی پر جائز نہیں، ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا، پھر اسے (راہ) حق میں خرچ کرنے کی مکمل قدرت ( توفیق) دی اور ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت عطا فرمائی، تو وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا اور دوسروں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔ “ [ بخاری، العلم، باب الاغتباط فی ۔۔ : ٧٣، عن ابن مسعود (رض) ] اُولُوا الْاَلْبَابِ :” اَلْبَابٌ“ جمع ہے ” لُبٌّ“ کی، جس کے معنی صاف ستھری اور پاکیزہ عقل کے ہیں، ہر عقل کو ” لُبٌّ“ نہیں کہتے۔ (راغب) ” اُولُوا الْاَلْبَابِ “ کا ترجمہ جمع ہونے کی وجہ سے ” جو عقلوں والے ہیں “ کیا گیا ہے۔ جبکہ عام تراجم میں ” عقل والے “ ترجمہ کیا گیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Al-Hikmah: Meaning and Explanation (3). Verse 269 يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ : |"He gives wisdom to whom He wills.|" The word, الْحِكْمَةَ (al-hikmah: wisdom) appears repeatedly in the Holy Qur&an, and at every place, its meaning has been explained differently. In Tafsir al-Bahr al-Muhit البحر المحیط ، all positions taken by commentators have been assembled at this point. These come to nearly thirty, however, towards the end it was said that all these positions are close together and there is no contradiction among them. The only difference is that of interpretations. The word, hikmah حِكْمَةَ is the verbal noun of &ihkam الاحکام (the first letter, hamzah ھمزہ with kasrah کسرہ ) which means &to complete what is said or done with all its properties and requisites.& This is why the verse وَآتَاهُ اللَّـهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ : &And Allah gave him the kingdom and the hikmah حکمہ & (2:251) which concerns Sayyidna Dawud (علیہ السلام) ، was explained in al-Bahr al-Muhit in the following manner: The real meaning of hikmah حکمہ is to place everything whereto it be-longs and this can only be accomplished ideally through prophethood. Therefore, hikmah حکمہ has been interpreted as prophethood here. Imam Raghib al-Isfahani has said in Mufradat al-Qur&an: مفردات القرآن |"When the word, hikmah حکمہ is used for Allah Almighty, it denotes the comprehensive knowledge and solid creative excellence of all things; and when attributed to the non-Divine, it means the rightly-guided knowledge of what exists, and the action which corresponds to it. This sense has been interpreted in different words. Somewhere it means, the Qur&an; elsewhere, the Hadith. Then at different places, it carries different meanings, such as |"the authentic knowledge|", |"the righteous deed|", |"the True Word|", |"the wisdom|", |"the understanding of religion|", |"correctness of opinion|" and |"the fear of Allah|". Incidentally, the last meaning appears in Hadith as well: راس الحکمہ خشیۃ اللہ that is, |"the real wisdom is the fear of Allah|". The word, hikmah in the verse يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ (teaches them the Book and the wisdom - 3:164) has been explained as |"Hadith and Sunnah|" by the Sahabah (رض) and the Tabi` in (the Companions and the Successors). Some commentators hold the opinion that hikmah in the verse یوتَ الحکمہ (whoever is given wisdom) under discussion covers all these things. This is the more evident view; more so, since the words of the Qur&an وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرً‌ا كَثِيرً‌ا |"And whoever is given wisdom is certainly given a lot of good|" do hint in that direction as they mean that the hikmah حِكْمَةَ covers a lot of good. Allah knows best.

حکمت کے معنے اور تفسیر : يُّؤ ْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَاۗءُ لفظ حکمت قرآن کریم میں بار بار آیا ہے اور ہر جگہ اس کی تفسیر میں مختلف معنی بیان کئے گئے ہیں، تفسیر بحر محیط میں اس جگہ تمام اقوال مفسرین کو جمع کیا ہے وہ تقریبا تیس ہیں مگر آخر میں فرمایا کہ درحقیقت یہ سب اقوال متقارب ہیں ان میں کوئی اختلاف نہیں صرف تعبیرات کا فرق ہے کیونکہ لفظ حکمت احکام بالکسر کا مصدر ہے جس کے معنی ہیں کسی عمل یا قول کو اس کے تمام اوصاف کے ساتھ مکمل کرنا۔ اسی لئے بحر محیط میں آیت بقرہ اٰتٰهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ (٢٥١: ٢) جو حضرت داؤد (علیہ السلام) کے متعلق ہے اس کی تفسیر میں فرمایا : والحکمۃ وضع الامور فی محلہا علی الصواب و کمال ذلک انما یحصل بالنبوۃ : حکمت کے اصلی معنی ہر شے کو اس کے محل میں رکھنے کے ہیں اور اس کا کمال صرف نبوت سے ہوسکتا ہے اس لئے یہاں حکمت کی تفسیر نبوت سے کی گئی ہے۔ امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں فرمایا کہ لفظ حکمت جب حق تعالیٰ کے لئے استعمال کیا جائے تو معنی تمام اشیاء کی پوری معرفت اور مستحکم ایجاد کے ہوتے ہیں اور جب غیر اللہ کی طرف اس کی نسبت کی جاتی ہے، موجودات کی صحیح معرفت اور اس کے مطابق عمل مراد ہوتا ہے۔ اسی مفہوم کی تعبیریں مختلف الفاظ میں کی گئی ہیں کسی جگہ اس سے مراد قرآن ہے کسی جگہ حدیث کسی جگہ علم صحیح کہیں عمل صالح کہیں قول صادق کہیں عقل سلیم، کہیں فقہ فی الدین، کہیں اصابت رائے اور کہیں خشیۃ اللہ اور آخری معنی تو خود حدیث میں بھی مذکور ہیں۔ رأس الحکمہ خشیۃ اللہ یعنی اصل حکمت خدا تعالیٰ سے ڈرنا ہے اور آیت وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ (٢: ٦٢) میں حکمت کی تفسیر صحابہ کرام (رض) اجمعین وتابعین سے حدیث وسنت منقول ہے اور بعض حضرات نے یہ فرمایا کہ آیت زیر نظر يُؤ ْتَ الْحِكْمَةَ میں یہ سب چیزیں مراد ہیں (بحر محیط، ص ٣٢٠، ج ٢) اور ظاہر یہی قول ہے اور ارشاد قرآنی وَمَنْ يُّؤ ْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا سے بھی اس کی طرف اشارہ نکلتا ہے کہ معنی اس کے یہ ہیں کہ جس شخص کو حکمت دے دیگئی اس کو خیر کثیر دے دیگئی واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يُؤْتِي الْحِكْمَۃَ مَنْ يَّشَاۗءُ۝ ٠ ۚ وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا۝ ٠ ۭ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝ ٢٦٩ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔ ذكر ( نصیحت) وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته . الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔ لب اللُّبُّ : العقل الخالص من الشّوائب، وسمّي بذلک لکونه خالص ما في الإنسان من معانيه، كَاللُّبَابِ واللُّبِّ من الشیء، وقیل : هو ما زكى من العقل، فكلّ لبّ عقل ولیس کلّ عقل لبّا . ولهذا علّق اللہ تعالیٰ الأحكام التي لا يدركها إلّا العقول الزّكيّة بأولي الْأَلْبَابِ نحو قوله : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة/ 269] ( ل ب ب ) اللب کے معنی عقل خالص کے ہیں جو آمیزش ( یعنی ظن دوہم اور جذبات ) سے پاک ہو اور عقل کو لب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ انسان کے معنوی قوی کا خلاصہ ہوتی ہے جیسا کہ کسی چیز کے خالص حصے کو اس کا لب اور لباب کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ لب کے معنی پاکیزہ اور ستھری عقل کے ہیں چناچہ ہر لب کو عقل کہہ سکتے ہیں لیکن ۔ ہر عقل لب ، ، نہیں ہوسکتی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام احکام کو جن کا ادراک عقول زکیہ ہی کرسکتی ہیں اولو الباب کے ساتھ مختض کیا ہے جیسے فرمایا : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة/ 269] اور جس کو دانائی ملی بیشک اس کو بڑی نعمت ملی اور نصیحت تو وہی لو گ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت سی آیات ہیں ؛

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦٩) اب اللہ تعالیٰ اپنی بخششوں کا ذکر فرماتے ہیں : کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت عطا فرمائی اور حکمت کی تفسیر معانی قرآن کے ساتھ بھی کی گئی ہے اور قول وفعل اور رائے کی درستگی بہت بڑی چیز ہے اور امثال قرآنی اور حکمت قرآنیہ سے نصیحت عقلمند انسان ہی حاصل کرسکتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦٩ (یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآءُ ج) ۔ یہ حکمت کی باتیں ہیں ‘ جن کا سمجھنا ہر کس و ناکس کے لیے ممکن نہیں۔ ایک چیزوں کا ظاہر ہے اور ایک باطن ہے ‘ جو حکمت سے نظر آتا ہے۔ ظاہر تو سب کو نظر آ رہا ہے ‘ لیکن کسی شے کی حقیقت کیا ہے ‘ یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے : ؂ اے اہل نظر ! ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا ؟ جس کسی پر یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے وہ حکیم ہے۔ اور حکمت اصل میں انسان کی عقل اور شعور کی پختگی کا نام ہے۔ استحکام اسی حکمت سے ہی بنا ہے۔ اللہ تعالیٰ عقل و فہم اور شعور کی یہ پختگی اور حقائق تک پہنچ جانے کی صلاحیت جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ (وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط) ۔ اس سے بڑا خیر کا خزانہ تو اور کوئی ہے ہی نہیں (وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ ) ان باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں جو اولو الالباب ہیں ‘ عقل مند ہیں۔ لیکن جو دنیا پر ریجھ گئے ہیں ‘ جن کا سارا دلی اطمینان اپنے مال و زر ‘ جائیداد ‘ اثاثہ جات اور بینک بیلنس پر ہے تو ظاہر بات ہے کہ وہ اولو الالباب (عقل مند) نہیں ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

309. 'Wisdom' signifies sound perception and sound judgement. The purpose of this statement is to point out that one who is possessed of wisdom will follow God's path rather than that of Satan. The followers of Satan believe that it is the height of wisdom and shrewdness to be constantly concerned with saving out of one's earnings, and to be perpetually on the look-out for higher income. But for those endowed with Divine perception such an attitude is sheer folly. True wisdom consists in using one's resource moderately to meet one's needs and in spending whatever is left for charitable purposes. It may be possible for a person who does not spend for charitable purposes to attain a much greater degree of worldy prosperity than others. The life of this world, however, is only a fraction of man's total life which is not limited to the confines of this world. One who risks the well-being of his eternal existence for the sake of highly transient well-beingin this world is indeed a fool. The truly wise person is he who makes full use of the tenure of this life and invests his resources in prosperity in this life that will never cease.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :309 حکمت سے مراد صحیح بصیرت اور صحیح قوت فیصلہ ہے ۔ یہاں اس ارشاد سے مقصود یہ بتانا ہے کہ جس شخص کے پاس حکمت کی دولت ہو گی ، وہ ہرگز شیطان کی بتائی ہوئی راہ پر نہ چلے گا ، بلکہ اس راہ کشادہ کو اختیار کرے گا جو اللہ نے دکھائی ہے ۔ شیطان کے تنگ نظر مریدوں کی نگاہ میں یہ بڑی ہوشیاری اور عقل مندی ہے کہ آدمی اپنی دولت کو سنبھال سنبھال کر رکھے اور ہر وقت مزید کمائی کی فکر ہی میں لگا رہے ۔ لیکن جن لوگوں نے اللہ سے بصیرت کا نور پایا ہے ، ان کی نظر میں یہ عین بے وقوفی ہے ۔ حکمت و دانائی ان کے نزدیک یہ ہے کہ آدمی جو کچھ کمائے ، اسے اپنی متوسط ضروریات پوری کرنے کے بعد دل کھول کر بھلائی کے کاموں میں خرچ کرے ۔ پہلا شخص ممکن ہے کہ دنیا کی اس چند روزہ زندگی میں دوسرے کی بہ نسبت بہت زیادہ خوشحال ہو ، لیکن انسان کے لیے یہ دنیا کی زندگی پوری زندگی نہیں ، بلکہ اصل زندگی کا ایک نہایت چھوٹا سا جز ہے ۔ اس چھوٹے سے جز کی خوش حالی کے لیے جو شخص بڑی اور بے پایاں زندگی کی بدحالی مول لیتا ہے ، وہ حقیقت میں سخت بے وقوف ہے ۔ عقل مند دراصل وہی ہے ، جس نے اس مختصر زندگی کی مہلت سے فائدہ اٹھا کر تھوڑے سرمایے ہی سے اس ہمیشگی کی زندگی میں اپنی خوشحالی کا بندوبست کر لیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:269) یؤتی الحکمۃ۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ ایتاء (افعال) مصدر۔ وہ دیتا ہے۔ الحکمۃ۔ عقل مندی، علم، تدبیر، عقل، دانش، سمجھ، علم و عقل کے ذریعے حق بات دریافت کرلینے کا نام حکمت ہے۔ جب حکمت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس سے اشیاء کی معرفت اور ان کا بہترین طریقہ پر ایجاد کرنا مراد ہے۔ اور جب بندہ کی طرف نسبت کی جائے تو اس سے موجودات کی معرفت اور نیک کاموں کا انجام دینا مقصود ہوتا ہے۔ قرآن مجید کو حکیم اس لحاظ سے کہا گیا ہے کہ اس میں حکمت کی باتیں ہیں۔ الحکمۃ۔ مفعول ہے یؤتی کا اور من یشاء جملہ مفعول ثانی ہے۔ سارا جملہ یؤتی الحکمۃ من یشاء صفت ہے علیم کی۔ یؤت۔ مضارع مجہول واحد مذکر غائب جو دیا جاتا ہے یعنی جس کو دیا جاتا ہے۔ اور اوتی ماضی مجہول واحد مذکر غائب اسے دیا گیا۔ اسے ملا۔ خیرا کثیرا موصوف و صفت۔ خیر کثیر۔ بہت بڑی بھلائی۔ تنوین عظمت خیر کو ظاہر کر رہی ہے۔ یعنی بہت ہی بڑی نعمت۔ جو چیز سب کو پسند ہو وہ خیر ہے اس کی ضد شر ہے۔ وما یذکر۔ مضارع منفی واحد مذکر غائب تذکر (تفعل) مصدر یذکر۔ اصل میں یتذکر تھا ت کود میں مدغم کیا گیا ہے۔ وہ نصیحت حاصل نہیں کرتا ہے۔ اولوا الاباب۔ اولوا۔ والے۔ (ال و حروف مادہ) جمع ہے اس کا واحد نہیں آتا۔ بعض ذو کو اس کا واحد بتاتے ہیں۔ بحالت رفع اولوا ہے اور بحالت نصب و جر اولی ہوگا۔ اولوا العزم ۔ صاحب عزم، اولی القوۃ اصحاب قوت۔ الباب۔ لب کی جمع ہے جس کے معنی اس عقل کے ہیں جو ہر آمیزش سے خالص ہو۔ اور عقل کو لب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ انسان کے معنوی قوی کا خلاصہ ہوتی ہے جیسا کہ کسی چیز کے خالص حصے کو اس کا لب اور لباب کہتے ہیں۔ بعض کے نزدیک لب کے معنی پاکیزہ اور ستھری عقل کے ہیں۔ چناچہ ہر لب کو عقل کہہ سکتے ہیں لیکن ہر عقل لب نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام احکام کو جن کا ادراک عقول زکیہ ہی کرسکتے ہیں اولو الالباب کے ساتھ مختص کیا ہے۔ مثلاً آیت ہذا من یأت الحکمۃ ۔۔ اولوا الالباب۔ جس کو دانائی دی گئی بیشک اس کو بڑی نعمت ملی اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقل پاکیزہ رکھتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یہاں الحکمہ سے مراد دین دین کا صحیح فہم۔ علم وفقہ میں صحیح بصیرت اور خشیت الہی سب چیزیں ہوسکتی ہیں۔ حدیث میں ہے راس الحکمتہ مخافتہ اللہ کہ اللہ تعالیٰ کا خوف حکمت کی جڑ ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے مرفو عا مروی ہے کہ جن دو آدمیوں پر رشک کرنا چاہیے ان میں سے ایک وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت دی اور وہ رات دن اس حکمت سے لوگوں کے فیصلے کرتا ہے۔ (ابن کثیر بحوالہ صحیحین)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سمجھنا اور اس کی راہ میں حلال و طیب مال خرچ کرنا عقل و دانش کا کام ہے۔ اہل علم نے حکمت کے بیشمار معانی بیان فرمائے ہیں لیکن حکمت کا سب سے جامع معنیٰ حدیث رسول ہے کیونکہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کا وہی مفہوم بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ کی منشا ہے۔ تفسیر بحر المحیط کے مصنف سورة البقرہ آیت ٢٥١ کی تفسیر میں حضرت داوٗد (علیہ السلام) کے حوالے سے لکھتے ہیں : (اَلْحِکْمَۃُ وَضْعِ الْاُمُوْرِ فِیْ مَحَلِّہَا عَلَی الصَّوَابِ وَکَمَالِ ذٰلِکَ اَنَّمَا یَحْصِلُ بالنَّبُوَّۃِ ) ” حکمت کا حقیقی معنی ہر چیز کو ٹھیک طور پر اس کے مقام پر رکھنا ہے۔ حکمت کی تکمیل نبوت کے ذریعے ہوا کرتی ہے لہذا حکمت وہ ہے جو اللہ کے رسول کا ارشاد ہے۔ “ [ بحوالہ معارف القرآن مفتی محمد شفیع ] امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں فرمایا کہ حکمت کا لفظ جب اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو تو اس کا معنٰی تمام چیزوں کی مکمل معرفت اور ان کی ٹھیک ٹھیک ایجاد ہے۔ اور جب اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف نسبت ہو تو اس سے مراد معرفت اور اس کے مطابق عمل کرنا ہے۔ حدیث کی مقدس دستاویزات میں لفظ حکمت کو کئی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے صدقات کے مسائل اور احکامات کے بیان کے بعد حکمت کو بہت بڑی خیر قرار دینے میں جو حکمت سجھائی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک دانا اور سمجھ دار آدمی یہ حرکت کبھی نہیں کرسکتا کہ وہ ایسا مال اللہ کے راستے میں خرچ کرے جسے وہ خود لینے کے لیے تیار نہ ہو اور نہ ہی کسی دانشور سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ آخرت کے بدلے دنیا کے مال کو ترجیح دے کر بخل کا مظاہرہ کرے یا نمود و نمائش کے لیے خرچ کرے۔ نصیحت تو اہل دانش ہی قبول کیا کرتے ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ حکمت و دانش بہت بڑا خزانہ ہے۔ ٢۔ عقلمند لوگ ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن انبیاء علم و حکمت کے داعی تھے : ١۔ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات حکمت پر مبنی ہیں ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا۔ (البقرۃ : ١٢٩) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) کو حکمت سے نوازا۔ (البقرۃ : ٢٥١) ٣۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کتاب و حکمت سکھانے کے لیے بھیجا گیا۔ (آل عمران : ١٦٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ................” جس کو چاہتا ہے ، حکمت عطا کرتا ہے اور جس کو حکمت ملی ، اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی ۔ “ اسے میانہ روی دی گئی اور اعتدال نصیب ہوا ، اس لئے وہ انتہاپسندی اور حد سے تجاوز سے محفوظ ہوگیا ۔ اسے تمام چیزوں کے اسباب ونتائج سمجھائے گئے۔ اس لئے وہ ان اشیاء کی قدروقیمت کے تعین میں غلطی نہیں کرتا ، اسے روشن بصیرت دی گئی ، اس لئے وہ حرکات و سکنات اور اعمال وافعال میں سے صالح اور صائب کا انتخاب کرتا ہے اور یہ ایک ایسی دولت ہے جو مختلف رنگوں میں ظاہر ہوتی ہے ۔ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلا أُولُو الألْبَابِ................ ” ان باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں جو دانشمند ہیں ۔ “ غرض وہی لوگ سبق لیتے ہیں صاحب بصیرت ہیں اور عقلمند ہیں ۔ ایسے لوگ سبق کو یاد بھی کرتے ہیں ، بھول بھی جاتے ہیں ۔ ایک دفعہ اگر متنبہ ہوجائیں تو پھر غفلت نہیں کرتے ۔ اگر کسی واقعہ سے عبرت پکڑیں تو پھر گمراہی کے راستے پر نہیں پڑتے ۔ یہ سب کام عقل کے فرائض میں شمار ہوتے ہیں ۔ عقل کا یہ فرض منصبی ہے کہ وہ راہ ہدایت اور اس کے نشانات کو پالے ۔ وہ معقول روش اختیار کرے اور لہو ولعب کی بےمقصد زندگی نہ گزارے ۔ یہ حکمت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے پسند کرتا ہے ، اسے عطا کردیتا ہے ، یہ حکمت و دانائی اللہ کی مشیئت پر موقوف ہے ۔ اسلامی تصور حیات کا یہ اصل الاصول ہے ۔ یہاں ہر چیز کا مرجع اللہ جل شانہ کی بااختیار مشیئت ہے ۔ ہاں اس کے ساتھ ساتھ قرآن کریم نے ایک دوسرا بھی اصول بیان کیا ہے ۔ وہ یہ کہ جو شخص بھی راہ ہدایت کی تلاش کا ارادہ کرے اور اس کے لئے پوری جدوجہد کرے تو اللہ کبھی بھی اسے راہ ہدایت سے محروم نہیں کرتا بلکہ وہ اس سلسلے میں اس متلاشی کی پوری پوری اعانت کرتا ہے۔ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ................ ” جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے ہم انہیں اپنے راستے دکھائیں گے ، اور یقینا ًاللہ نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ “ (٦٩ : ٢٩) اس لئے ہر وہ شخص جو راہ ہدایت اختیار کرنا چاہتا ہے ، پوری طرح مطمئن رہے کہ مشیئت ایزدی اس کا حصہ ضرور کرے گی اور اسے راہ ہدایت کے ساتھ ساتھ حکمت ودانشمندی بھی عطا ہوگی اور اسے اس کے ساتھ ساتھ خیر کثیر بھی عطاء ہوگی۔ ذرا رکئے ! اس سے قبل کہ ہم اس آیت پر غور وخوص ختم کردیں ۔ ایک دوسری اور اہم حقیقت کی طرف اشارہ ضروری ہے ۔ ذرا غو رکیجئے ، شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے ۔ اور شرمناک طرز عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے ، مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی امید دلاتا ہے ۔ اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے ۔ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے اور جس کو حکمت ملی ، اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی ۔ انسان کے سامنے صرف دو راستے ہیں ، کوئی تیسراراستہ نہیں ہے ۔ ایک اللہ کا راستہ ہے اور ایک شیطان کا راستہ ہے ۔ وہ یا تو اللہ کے وعدہ کی طرف کان لگائے اور یا شیطان کی پکار پر لبیک کہے گا ۔ اور یاد رکھو کہ جو شخص اللہ کی راہ پر گامزن نہیں اور اللہ کی پکار نہیں سن رہا ہے ، وہ شیطان کی راہ پر گامزن ہے اور اس کے ورغلانے میں آگیا ہے ۔ صرف ایک ہی طریق زندگی ہے ، یعنی حق کا راستہ ۔ وہ منہج ، وہ نظام جسے اللہ تعالیٰ نے وضع کیا۔ اس کے علاوہ جو بھی راستہ ہے وہ شیطان کا راستہ ہے اور اس کی انتہاء شیطان تک ہے ۔ وہ شیطان تک پہنچتا ہے۔ قرآن کریم اس حقیقت کو بار بار بیان کرتا ہے ۔ بار بار اس کی تاکید کرتا ہے ۔ اس لئے کہ جو شخص اسلامی طریقہ حیات کو ترک کرکے شیطانی نظام زندگی اختیار کرنا چاہتا ہے ، اس کے لئے کوئی ایسا دعویٰ کرنے کی گنجائش نہ رہے کہ وہ کسی طرح بھی راہ ہدایت پر ہے ۔ اس میں اب نہ کوئی شبہ کی گنجائش ہے اور نہ اس میں کوئی پوشیدگی ہے ۔ ایک جانب اللہ ہے اور دوسری طرف شیطان ہے ۔ ایک طرف خدائی طریق حیات ہے اور دوسری جانب شیطانی طریقہ کار ہے ۔ ایک طرف اللہ کی راہ ہے دوسری جانب شیطان کی راہ ہے ۔ جو چاہے جس راستے کا اختیار کرلے ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيَا مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ................ ” اور جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے ۔ “ (٤٢ : ٨) کوئی بات پوشیدہ نہ ہو ۔ کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہ ہو ۔ یا گمراہی ہے یا صراط مستقیم ہے ۔ یہ راہ راست ہی حق اور سچائی ہے اور یہی واحد راہ ہے ۔ اس راہ کے علاوہ جس قدر راہیں ہیں وہ سب باطل ہیں اور ضلالت کی راہیں ہیں ۔ اس اہم نکتے کے بعد ہم اصل بات کی طرف آتے ہیں ۔ یعنی صدقہ اور انفاق فی سبیل اللہ ۔ جو شخص بھی اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی خرچ کرے اللہ کو اس کا پوری طرح علم ہے ۔ وہ صدقہ ہو یا نذر ہو ۔ وہ خفیہ ہو یا اعلانیہ ہو ، وہ اللہ کے علم میں ہوتی ہے اور علم الٰہی کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ وہ اس فعل پر بھی اجر دیتا ہے اور اس فعل کے پس منظر میں جو نیت اور ارادہ پنہاں ہوتا ہے ، اس پر بھی اجر ملتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

529 حکمت سے مراد دین ودنیا کی صحیح سمجھ ہے جو ہر قول اور عمل میں انسان کی صحیح رہنمائی کرے۔ قال مجاھد الاصابة فی القول والفعل (قرطبی ص 330 ج 3) او عن مجاھد انھا الاصابة فی القول والعمل (روح ص 41 ج 3) دولت کو صحیح مصارف میں خرچ کرنے اور دیگر اعمال واقوال میں ہر لحاظ سے صحیح اور سیدھی راہ اختیار کرنے کی سجھ اور ملکہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے وہ جسے چاہتا ہے اس سے سرفراز فرماتا ہے۔ یہ ایک ایسی دولت ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان دینی اور دنیوی فوائد حاصل کرسکتا اور دونوں قسم کے نقصانات سے بچ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمت خیر کثیر فرمایا۔530 پند ونصیحت سن تو ہر کوئی لیتا ہے مگر اس سے فائدہ وہی لوگ اٹھاتے ہیں جن کو اللہ نے حکمت اور عقل دی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 شیطان تم کو مفلسی اور محتاجی سے ڈراتا ہے اور تم کو ناشائستہ اور بری باتوں کی ترغیب اور مشورہ دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنی طرف سے گناہ بخشنے اور زیادہ دینے کا وعدہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا صاحب وسعت بڑا فیاض اور ہر چیز کا جاننے والا ہے وہ جس کو چاہتا ہے صحیح فہم عطا فرما دیتا ہے اور یقین جانو کہ جس کو صحیح فہم دے دیا گیا اس کو بہت بڑی بھلائی اور خیر کثیر سے نوازا گیا اور نصیحت تو صرف وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو صحیح اور خالص عقل رکھتے ہیں۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ شیطان تم کو یہ کہہ کر ڈراتا ہے کہ دیکھو اگر خیرات کرو گے یا عمدہ اور نفیس چیزیں بانٹ کر بیٹھ جائو گے تو دیوالیہ نکل جائے گا۔ فقیر اور محتاج ہو جائو گے ایک طرف ڈراتا ہے دوسری طرف بری بات یعنی بخل کی ترغیب دیتا ہے اور خدا کی راہ میں خرچ نہ کرنے کا مشورہ دیتا ہے جب ایسا ہو تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ یاد کرو اس کا وعدہ یہ ہے کہ جب ہماری راہ میں خرچ کرو گے تو عام دستور کے مطابق ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے کیونکہ نیکی اور طاعت کفارئہ سیات کا موجب ہوتی ہے۔ ان الحسنات یذھبن السیات نیز یہ کہ ہم تم کو اپنا فضل عطا فرمائیں گے یعنی دنیا میں مال بڑھا دیں گے یا آخرت میں ثواب زیادہ دیں گے پھر فرمایا یہ بات بالکل صاف اور ظاہر ہے مگر وہی سمجھتا ہے جس کو صحیح فہم اور دین کی سمجھ عطا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ چونکہ ہر شخص کی حالت کو خوب جانتا ہے اس لئے جس کو چاہتا ہے دین کے فہم اور صحیح سمجھ سے بہرہ مند کر دیات ہے اور بات تو یہ ہے کہ جس کو دین کا فہم عطا کردیا گیا اس کو خیر کثیر کا مالک بنادیا گیا۔ حدیث میں آتا ہے ہر روز جب خدا تعالیٰ کے بندے صبح کرتے ہیں تو دو فرشتے آواز لگاتے ہیں ایک کہتا ہے یا اللہ ! خرچ کرنے والے کو عضو عطا فرما دے دوسرا کہتا ہے۔ یا اللہ ! روک کر رکھنے والے کا مال تلف کر دے۔ سورئہ سبا میں ارشاد ہے۔ وما انفقتم من شئی فھو یخلفہ تم جو کچھ خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کا عوض عطا فرما دیتا ہے وعید اور وعد میں فرق یہ ہے کہ وعید عام طور سے شرک کے لئے استعمال ہوتا ہے اور وعد شر اور خیر دونوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے یعنی ہوتے دونوں وعدے ہیں لیکن ایک ضرر اور نقصان کا وعدہ اور ایک نفع کا اور کبھی نقصان کا وعدہ اس لئے ہم نے یعدکم کا ترجمہ ڈرانے سے کیا ہے۔ شیطان کا ڈرانا یہی کہ مختلف قسم کے وسوسے ڈالتا ہے اور اوہام و تخیلات میں مبتلا کرت ا ہے۔ فحشا کا ترجمہ عام طور سے بےحیائی کیا جاتا ہے۔ صاحب کشاف نے کہا ہے کہ اہل عرب بخیل کو بھی فاحش کہتے ہیں اور یہی معنی یہں زیادہ مناسب ہیں کہ شیطان بخل کی ترغیب دیتا ہے اور سخی کو بخیل بنانے کی سعی کرتا ہے ۔ امر کے معنی حکم کرنے کے ہیں مطلب یہ ہے کہ جب شیطان کسی انسان پر قابو پا لیتا ہے تو تحکمانہ انداز میں مشورہ دیتا ہے بخشش سیئات کا مطلب یہ ہے کہ صدقہ دینے اور خیرات کرنے سے صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں فضل کے معنی زیادتی، بزرگی، بڑائی وغیرہ کے ہیں یہاں خیرات کرنے والوں کے مال کی یا ثواب کی افزوتی مراد ہے۔ حکمت کے مفسرین نے بہت معنی کئے ہیں لیکن تقریباً سب قریب المعنی ہیں یہاں دین کا صحیح فہم اور قرآن کی صحیح سمجھ مراد ہے۔ حضرت شاہ صاحب واسع علیم پر فرماتے ہیں یعنی جب دل میں خیال آوے کہ مال خیرات میں دے ڈالوں تو میں مفلس رہ جائوں اور ہمت آوے بےحیائی پر کہ اللہ تعالیٰ کی تاکید سن کر پھر بھی خرچ نہ کرے تو جان لیوے کہ یہ شیطان کی طرف سے آیا اور جب خیال آوے کہ خیرات سے گناہ بخشے جاویں گے اور لالہ کے یہاں کمی نہیں چاہے گا تو اور دے گا تو جان لیوے کہ یہ اللہ کی طرف سے آیا ۔ (موضح القرآن) فقیہ ابوللیث فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیاوی سامان کو متاع قلیل فرمایا ہے اور دین کے فہم کو خیر کثیر فرمایا ہے لہٰذا ایک عالم دین کو کسی دنیا دار کے سامنے اپنے آپ کو ذلیل نہیں کرنا چاہئے۔ بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ ایک طرف شیطان کے وسوسے اور تخیلات ہیں فقر و افلاس کے اندیشے ہیں بخل کی ترغیب و تحریص ہے اور دوسری طرف حصہ جل و علا جو بڑے فیاض اور صاحب وسعت ہیں ان کی مغفرت اور فضل کا وعدہ ہے مگر ان باتوں کا صحیح فیصلہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کو حضرت حق نے دین کا صحیح فہم عطا کیا ہے اور جو لوگ ارباب سلوک ہیں وہی شیطان کی تخویف اور خدا کے وعدوں کو صحیح طور پر سمجھتے ہیں اور یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ کون سی بات فع کرنے کے قابل ہے اور کون سی ایمان لانے اور قبول کرنے کے لائق ہے۔ حضرت شاہ صاحب نے خوب فرمایا ہے اور نہایت مناسب اور موزوں تقسیم کی ہے مگر جب تک کوئی شیخ کامل نہ ہو اور کسی مرشد کی صحبت میسر نہ ہو ان باتوں پر واقفیت حاصل نہیں ہوتی اور نہ ان خطرات کا صحیح احساس اور ادراک ہوتا ہے جو قلب پر دار ہوتے رہتے ہیں آیت کے آخر میں صحیح عقل والوں سے اپیل ہے کیونکہ جن کے پاس عقل سلیم ہے اور جو عقل خلاص کے مالک ہیں وہی قرآنی نصائح سے نصیحت پذیر ہوتے ہیں۔ (تسہیل)