Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 283

سورة البقرة

وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ عَلٰی سَفَرٍ وَّ لَمۡ تَجِدُوۡا کَاتِبًا فَرِہٰنٌ مَّقۡبُوۡضَۃٌ ؕ فَاِنۡ اَمِنَ بَعۡضُکُمۡ بَعۡضًا فَلۡیُؤَدِّ الَّذِی اؤۡتُمِنَ اَمَانَتَہٗ وَ لۡیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ ؕ وَ لَا تَکۡتُمُوا الشَّہَادَۃَ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡتُمۡہَا فَاِنَّہٗۤ اٰثِمٌ قَلۡبُہٗ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ عَلِیۡمٌ ﴿۲۸۳﴾٪  7

And if you are on a journey and cannot find a scribe, then a security deposit [should be] taken. And if one of you entrusts another, then let him who is entrusted discharge his trust [faithfully] and let him fear Allah , his Lord. And do not conceal testimony, for whoever conceals it - his heart is indeed sinful, and Allah is Knowing of what you do.

اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو ، ہاں اگر آپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہو تو جسے امانت دی گئی ہے وہ اسے ادا کر دے اور اللہ تعالٰی سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے ۔ اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو اسے چھپالے وہ گناہ گار دل والا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

What is the `Mortgaging' Mentioned in the Ayah Allah said, وَإِن كُنتُمْ عَلَى سَفَرٍ ... And if you are on a journey, meaning, traveling and some of you borrowed some money to be paid at a later date. ... وَلَمْ تَجِدُواْ كَاتِبًا ... and cannot find a scribe, who would record the debt for you. Ibn Abbas said, "And even if they find a scribe, but did not find paper, ink or pen." Then, ... فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ ... let there be a pledge taken (mortgaging), given to the creditor in lieu of writing the transaction. The Two Sahihs recorded that; Anas said that the Messenger of Allah died while his shield was mortgaged with a Jew in return for thirty Wasq (approximately 180 kg) of barley, which the Prophet bought on credit as provisions for his household. In another narration, the Hadith stated that this Jew was among the Jews of Al-Madinah. Allah said, ... فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُوَدِّ الَّذِي اوْتُمِنَ أَمَانَتَهُ ... then if one of you entrusts the other, let the one who is entrusted discharge his trust (faithfully). Ibn Abi Hatim recorded, with a sound chain of narration, that Abu Sa`id Al-Khudri said, "This Ayah abrogated what came before it (i.e. that which required recording the transaction and having witnesses present)." Ash-Sha`bi said, "If you trust each other, then there is no harm if you do not write the loan or have witnesses present." Allah's statement, ... وَلْيَتَّقِ اللّهَ رَبَّهُ ... And let him have Taqwa of Allah, means, the debtor. Imam Ahmad and the Sunan recorded that Qatadah said that Al-Hasan said that Samurah said that the Messenger of Allah said, عَلَى الْيَدِ مَا أَخَذَتْ حَتَّى تُوَدِّيَه The hand (of the debtor) will carry the burden of what it took until it gives it back. Allah's statement, ... وَلاَ تَكْتُمُواْ الشَّهَادَةَ ... And conceal not the evidence, means, do not hide it or refuse to announce it. Ibn Abbas and other scholars said, "False testimony is one of the worst of the major sins, and such is the case with hiding the true testimony. This is why Allah said, ... وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ اثِمٌ قَلْبُهُ ... For he who hides it, surely, his heart is sinful. As-Suddi commented, "Meaning he is a sinner in his heart." This is similar to Allah's statement, وَلاَ نَكْتُمُ شَهَـدَةَ اللَّهِ إِنَّأ إِذَاً لَّمِنَ الاٌّثِمِينَ We shall not hide testimony of Allah, for then indeed we should be of the sinful. (5:106) Allah said, يَـأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءِ للَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَلِدَيْنِ وَالاٌّقْرَبِينَ إِن يَكُنْ غَنِيّاً أَوْ فَقَيراً فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلَ تَتَّبِعُواْ الْهَوَى أَن تَعْدِلُواْ وَإِن تَلْوُواْ أَوْ تُعْرِضُواْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيراً O you who believe! Stand out firmly for justice, as witnesses to Allah, even though it be against yourselves, or your parents, or your kin, be he rich or poor, Allah is a better Protector to both (than you). So follow not the lusts (of your hearts), lest you avoid justice; and if you distort your witness or refuse to give it, verily, Allah is Ever Well-Acquainted with what you do. (4:135) and in this Ayah (2:283) He said, ... وَلاَ تَكْتُمُواْ الشَّهَادَةَ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ اثِمٌ قَلْبُهُ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ And conceal not the evidence, for he who hides it, surely, his heart is sinful. And Allah is All-Knower of what you do.

مسئلہ رہن ، تحریر اور گواہی یعنی بحالت سفر اگر ادھار کا لین دین ہو اور کوئی لکھنے والا نہ ملے یا ملے مگر قلم و دوات یا کاغذ نہ ہو تو رہن رکھ لیا کرو اور جس چیز کو رہن رکھنا ہو اسے حقدار کے قبضے میں دے دو ۔ مقبوضہ کے لفظ سے استدلال کیا گیا ہے کہ رہن جب تک قبضہ میں نہ آ جائے لازم نہیں ہوتا ، جیسا کہ امام شافعی اور جمہور کا مذہب ہے اور دوسری جماعت نے استدلال کیا ہے کہ رہن کا مرتہن کے ہاتھ میں مقبوض ہونا ضروری ہے ۔ امام احمد اور ایک دوسری جماعت میں یہی منقول ہے ، ایک اور جماعت کا قول ہے کہ رہن صرف میں ہی مشروع ہے ، جیسے حضرت مجاہد وغیرہ لیکن صحیح بخاری صحیح مسلم شافعی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت فوت ہوئے اس وقت آپ کی زرہ مدینے کے ایک یہودی ابو الشحم کے پاس تیس وسق جو کے بدلے گروی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کے کھانے کیلئے لئے تھے ۔ ان مسائل کے بسط و تفصیل کی جگہ تفسیر نہیں بلکہ احکام کی بڑی بڑی کتابیں وللہ الحمد والمنتہ و بہ المستعان اس سے بعد کے جملے ( آیت فان امن ) سے حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ اس کے پہلے کا حکم منسوخ ہو گیا ہے ، شعبی فرماتے ہیں جب نہ دینے کا خوف ہو تو نہ لکھنے اور نہ گواہ رکھنے کی کوئی حرج نہیں ۔ جسے امانت دی جائے اسے خود اللہ رکھنا چاہئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ادا کرنے کی ذمہ داری اس ہاتھ پر ہے جس نے کچھ لیا ۔ ارشاد ہے شہادت کو نہ چھپاؤ نہ اس میں خیانت کرو نہ اس کے اظہار کرنے سے رکو ، ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں جھوٹی شہادت دینی یا شہادت کو چھپانا گناہِ کبیرہ ہے ، یہاں بھی فرمایا اس کا چھپانے والا خطا کار دِل والا ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ ۙاللّٰهِ اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِيْنَ ) 5 ۔ المائدہ:106 ) یعنی ہم اللہ کی شہادت کو نہیں چھپاتے ، اگر ہم ایسا کریں گے تو یقینا ہم گنہگاروں میں سے ہیں ، اور جگہ فرمایا ایمان والو عدل و انصاف کے ساتھ اللہ کے حکم کی تعمیل یعنی گواہیوں پر ثابت قدم رہو ، گو اس کی برائی خود تمہیں پہنچے یا تمہارے ماں باپ کو یا رشتے کنبے والوں کو اگر وہ مالدار ہو تو اور فقیر ہو تو اللہ تعالیٰ ان دونوں سے اولیٰ ہے ، خواہشوں کے پیچھے پڑ کر عدل سے نہ ہٹو اور اگر تم زبان دباؤ گے یا پہلو تہی کرو گے تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے اعمال سے خبردار ہے ، اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ گواہی کو نہ چھپاؤ اس کا چھپانے والا گنہگار دِل والا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

283۔ 1 اگر سفر میں قرض کا معاملہ کرنے کی ضرورت پیش آئے وہاں لکھنے والا یا کاغذ پنسل نہ ملے تو اس کی متبادل صورت بتلائی جارہی ہے کہ قرض لینے والا کوئی چیز قرض دینے والے کے پاس گروی رکھ دے اس سے گروی کی مشروعیت اور اس کا جواز ثابت ہوتا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس گروی رکھی تھی اگر گروی رکھی ہوئی چیز ایسی ہے جس سے نفع موصول ہوتا ہے تو اس نفع کا حقدار مالک ہوگا اور گروی رکھی ہوئی چیز پر کچھ خرچ ہوتا ہے تو اس سے وہ اپنا خرچ وصول کرسکتا ہے باقی نفع مالک کو ادا کرنا ضروری ہے۔ 283۔ 2 یعنی اگر ایک دوسرے پر اعتماد ہو تو بغیر گروی رکھے بھی ادھار کا معاملہ کرسکتے ہو امانت سے مراد یہاں قرض ہے اللہ سے ڈرتے ہوئے اسے صحیح طریقے سے ادا کرے۔ 283۔ 3 گواہی کا چھپانا کبیرہ گناہ ہے اس لئے اس پر سخت (وعید) سزا یہاں قرآن اور احادیث میں بیان کی گئی ہے اسی لئے گواہی دینے کی فضیلت بھی بڑی ہے صحیح مسلم کی حدیث ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ سب سے بہتر گواہ ہے جو گواہی طلب کرنے سے قبل ہی از خود گواہی کے لئے پیش ہوجائے۔ الا اخبرکم بخیر الشھداء ؟ الذی یاتی بشھادتہ قبل ان یسئالھا (صحیح مسلم کتاب الاقضیۃ، باب بیان خیر الشھود) ایک دوسری روایت میں بدترین گواہ کی نشان دہی بھی فرما دی گئی ہے۔ " الا اخبرکم بشر الشھداء ؟ الذین عشھون قبل ان یستشھدوا " (صحیح بخاری، کتاب الرقاق۔ مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ) " کیا میں تمہیں وہ گواہ نہ بتلاؤں جو بدترین گواہ ہے ؟ یہ وہ لوگ ہیں جو گواہی طلب کرنے سے قبل ہی گواہی دیتے ہیں " مطلب ہے یعنی جھوٹی گواہی دے کر گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہں۔ نیز آیت میں دل کا خاص ذکر کیا گیا ہے اس لیے کہ کتمان دل کا فعل ہے علاوہ ازیں دل تمام اعضا کا سردار ہے اور یہ ایسا مضغہ گوشت ہے کہ اگر یہ صحیح رہے تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر اس میں فساد آجائے تو سارا جسم فساد کا شکار ہوجاتا ہے۔ " الا وان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ، واذا فسدت فسد الجسد کلہ، الا ! وھی القلب " (صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب فضل من استبرأالدینہ) ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤١٠] رہن کے مطالبہ کی چار ممکنہ صورتیں ہیں مثلاً سفر ہو یا حضر ہو اور کاتب نہ مل رہا ہو، دو تو یہ ہوئیں اور دو یہ ہیں کہ سفر یا حضر دونوں جگہ کاتب مل سکتا ہے مگر قرض دینے والا محض تحریر پر اعتماد نہیں کرتا اور اپنے قرضہ کی واپسی کی ضمانت کے طور پر رہن کا بھی مطالبہ کرتا ہے اور یہ کہ رہن خواہ تحریر کے ساتھ ہو یا تحریر کے بغیر صرف رہن ہو۔ جیسا کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک یہودی (ابوشحم) سے ادھار اناج خریدا (تیس صاع جو، اپنی خانگی ضرورت کے لئے) اور آپ نے اپنی زرہ بطور رہن اس کے پاس رکھی تھی (بخاری۔ کتاب الرہن، باب فی الرہن فی الحضر) اور یہ رہن حضر میں تھا اور بلا تحریر تھا۔ چناچہ ان چاروں صورتوں میں رہن جائز ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو ان میں سے صرف ایک صورت کا ذکر فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام اپنے پیروؤں کو فیاضی کی تعلیم دینا چاہتا ہے اور یہ بات بلند اخلاق سے فروتر ہے کہ ایک آدمی مال رکھتا ہو اور وہ دوسرے ضرورت مند کی کوئی چیز رہن رکھے بغیر اسے قرض نہ دے۔ رہن سے متعلق درج ذیل مسائل سمجھ لیجئے : ١۔ مرہونہ چیز کے نفع و نقصان کا ذمہ دار راہن (اصل مالک) ہی ہوتا ہے اور مرتہن (جس کے پاس رہن رکھی گئی ہو) کے پاس وہ چیز بطور امانت ہوتی ہے مثلاً زید نے بکر کے پاس گائے رہن رکھی تھی۔ وہ گائے مرگئی یا چوری ہوگئی تو یہ نقصان زید کا ہوگا بکر کا نہیں۔ اسی طرح اگر گائے نے بچہ جنا تو گائے اور بچہ دونوں زید کے ہوں گے بکر کے نہ ہوں گے۔ چناچہ سعید بن المسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : & گرو رکھنا کسی مرہونہ چیز کو اس کے اصل مالک سے نہیں روک سکتا۔ اس کا فائدہ بھی اسی کے لئے ہے اور اس کا نقصان بھی اسی پر ہے & (مشکوٰۃ۔ کتاب البیوع۔ باب المسلم والرہن۔ فصل ثانی) ٢۔ چونکہ مرہونہ چیز مرتہن کے پاس بطور امانت ہوتی ہے۔ اس لئے وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ مثلاً مکان ہے تو اس میں رہ نہیں سکتا نہ کرایہ پردے سکتا ہے، زمین ہے تو اس میں کاشت نہیں کرسکتا وغیرہ وغیرہ۔ کیونکہ یہ سود ہوگا۔ الا یہ کہ وہ ایسا فائدہ راہن کے حوالہ کردے یا اصل قرضہ کی رقم سے وضع کرتا جائے۔ ٣۔ مگر جن چیزوں پر مرتہن کو کچھ خرچ بھی کرنا پڑے تو ان سے فائدہ اٹھانے کا بھی حقدار ہوگا۔ مثلاً مرہونہ چیز گائے ہے تو اسے چارہ وغیرہ ڈالنے کے عوض اس کا دودھ بھی استعمال کرسکتا ہے۔ چناچہ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : & مرہونہ جانور کی پیٹھ سواری کے لئے شیردار مرہونہ جانور کا دودھ پینے کے لئے اس کے اخراجات کے عوض جائز ہے۔ اور جو شخص سواری کرتا یا دودھ پیتا ہے تو اسی کے ذمہ اس کا خرچہ ہے & (بخاری : کتاب الرہن۔ باب الرہن مرکوب و محلوب) [٤١١] یعنی قرض خواہ کا قرضہ یا جو چیز اس نے لی ہو۔ [٤١٢] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا : سن لو ! & بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ایسا ہے کہ جب وہ درست ہو تو سارا جسم ہی درست ہوتا ہے اور وہ بگڑ جائے تو سارا جسم ہی بگڑ جاتا ہے۔ یاد رکھو ! وہ ٹکڑا (انسان کا) دل ہے & (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب فضل من استبرء لدینہ) اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جب انسان کوئی گناہ کا کام کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے پھر اگر انسان توبہ کرلے تو وہ نقطہ دھل جاتا ہے اور اگر توبہ نہ کرے بلکہ مزید گناہ کئے جائے تو وہ نقطہ بڑھتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ اس کے سارے دل کو گھیر لیتا ہے اور اسے سیاہ کردیتا ہے۔ (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب رفع الامانۃ والایمان من بعض الذنوب۔۔ ) گویا پہلے گناہ دل پر اثر انداز ہوتے ہیں اور نیت میں فتور آتا ہے پھر وہ گناہ کا کام صادر ہوتا ہے۔ پھر ایک ایسا وقت آتا ہے جب انسان کا دل پوری طرح سیاہ ہوجاتا ہے اس وقت انسان کا دل اس کی سوچ اور فکر پر اثرانداز ہوتا ہے پھر وہ جو بات بھی سوچے گا غلط اور معصیت کی بات ہی سوچے گا۔ دل کی ایسی حالت کو اللہ تعالیٰ نے آثم قلبہ سے تعبیر کیا ہے اور شہادت کو چھپانے والے ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ كُنْتُمْ عَلٰي سَفَرٍ وَّلَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا ۔۔ : یہ بیع اور قرض کی ایک دوسری شکل ہے، یعنی اگر تم سفر میں قرض کا معاملہ کرو اور تمہیں لکھنے والا نہ مل سکے، یا لکھنے کے لیے قلم دوات وغیرہ میسر نہ ہوں تو مقروض کو چاہیے کہ قرض دینے والے کے پاس کوئی چیز رہن (گروی) رکھ دے۔ سفر کا ذکر اس لیے کیا کہ یہ معاملہ زیادہ تر سفر میں پیش آتا ہے، ورنہ رہن (گروی ) رکھنا حضر میں بھی جائز ہے۔ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس گروی رکھ کر عملاً اس کی وضاحت کردی۔ [ بخاری، البیوع، باب شراء الإمام الحوائج بنفسہ : ٢٠٩٦۔ مسلم : ١٦٠٣ ] چناچہ سفر میں رہن نص قرآنی سے ثابت ہے اور حضر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فعل سے۔ (شوکانی ) جو چیز رہن رکھی جائے اگر دودھ والا جانور ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے چارا ڈالنے کے بدلے اس کا دودھ پینے کی اجازت دی، اسی طرح گھوڑے، اونٹ، گدھے یا خچر وغیرہ پر اس کے چارے کے بدلے سواری کی اجازت دی۔ [ بخاری، فی الرھن فی الحضر، باب الرھن مرکوب : ٢٥١١ عن أبی ہریرہ (رض) ] ان کے علاوہ گروی رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانا منع ہے، یہ سود کے زمرے میں آتا ہے، مثلاً قرض پر رقم لے کر زمین رہن رکھ دی جائے تو گروی لینے والا اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا بلکہ اگر کاشت کرے تو اس کا ٹھیکہ وغیرہ قرض میں وضع کرنا ہوگا۔ فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ اَمَانَتَهٗ : مطلب یہ کہ اگر کوئی شخص قرض لینے والے کا اعتبار کرے اور اس کی کوئی چیز رہن رکھے بغیر اسے قرض دے دے تو اسے بھی چاہیے کہ اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کا قرض ادا کر دے۔ فَاِنَّهٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُهٗ : اس میں ” ٗٓ اٰثِمٌ“ (گناہ) کی نسبت دل کی طرف کی ہے، اس لیے کہ چھپانا دل کا فعل ہے اور سب سے پہلے اس کا خیال دل ہی میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ وعید ہے کہ شہادت چھپانا اتنا سنگین گناہ ہے کہ اس سے دل گناہ گار ہوجاتا ہے۔ [ نَعُوْذُ باللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ ] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَکْبَرُ الْکَبَاءِرِ ، اَلْاِشْرَاکَُ باللّٰہِ وَ قَتْلُ النَّفْسِ وَ عُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ وَ قَوْلُ الزُّوْرِ أَوْ قَالَ وَ شَہَادَۃُ الزُّوْرِ ) ” کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ اللہ کے ساتھ شریک بنانا، کسی شخص کو قتل کرنا، والدین کی نافرمانی اور جھوٹی بات، یا فرمایا، جھوٹی گواہی ہیں۔ “ [ بخاری، الدیات، باب : ( و من أحیاھا ) : ٦٨٧١، عن أنس ] ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” گواہی چھپانا بھی اکبر الکبائر میں سے ہے۔ “ (طبری)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ كُنْتُمْ عَلٰي سَفَرٍ وَّلَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا فَرِھٰنٌ مَّقْبُوْضَۃٌ۝ ٠ ۭ فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ اَمَانَــتَہٗ وَلْيَتَّقِ اللہَ رَبَّہٗ۝ ٠ ۭ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّہَادَۃَ۝ ٠ ۭ وَمَنْ يَّكْتُمْہَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ۝ ٠ ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ۝ ٢٨٣ ۧ سفر السَّفْرُ : كشف الغطاء، ويختصّ ذلک بالأعيان، نحو : سَفَرَ العمامة عن الرّأس، والخمار عن الوجه، وسَفْرُ البیتِ : كَنْسُهُ بِالْمِسْفَرِ ، أي : المکنس، وذلک إزالة السَّفِيرِ عنه، وهو التّراب الذي يكنس منه، والإِسْفارُ يختصّ باللّون، نحو : وَالصُّبْحِ إِذا أَسْفَرَ [ المدثر/ 34] ، أي : أشرق لونه، قال تعالی: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ [ عبس/ 38] ، و «أَسْفِرُوا بالصّبح تؤجروا» »من قولهم : أَسْفَرْتُ ، أي : دخلت فيه، نحو : أصبحت، وسَفَرَ الرّجل فهو سَافِرٌ ، والجمع السَّفْرُ ، نحو : ركب . وسَافَرَ خصّ بالمفاعلة اعتبارا بأنّ الإنسان قد سَفَرَ عن المکان، والمکان سفر عنه، ومن لفظ السَّفْرِ اشتقّ السُّفْرَةُ لطعام السَّفَرِ ، ولما يوضع فيه . قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضى أَوْ عَلى سَفَرٍ [ النساء/ 43] ( س ف ر ) السفر اصل میں اس کے معنی کشف غطاء یعنی پردہ اٹھانے کے ہیں اور یہ اعیان کے ساتھ مخصوص ہے جیسے سفر العمامۃ عن الراس اس نے سر سے عمامہ اتارا دیا ۔ سعر عن الوجہ چہرہ کھولا اور سفر البیت کے معنی گھر میں جھاڑو دینے اور کوڑا کرکٹ صاف کرنے کے ہیں اور جھاڑو کو مسفرۃ اور اس گرد و غبار کو سفیر کہا جاتا ہے جو جھاڑو دے کر دور کی جاتی ہے ۔ الاسفار ( افعال ) یہ الوان کے ساتھ مختص ہے یعنی کسی رنگ کے ظاہر ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالصُّبْحِ إِذا أَسْفَرَ [ المدثر/ 34] اور قسم ہے صبح کی جب روشن ہو ۔ اور فرمایا : ۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ [ عبس/ 38] کتنے منہ اس روز چمک رہے ہوں گے ۔ اور حدیث «أَسْفِرُوا بالصّبح تؤجروا» صبح خوب روشن ہونے کے بعد نماز پڑھا کرو تو زیادہ ثواب ملے گا ۔ میں اسفروا اسفرت کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی روشنی میں داخل ہونے کے ہیں جیسے اصبحت ( میں صبح میں داخل ہوا ) سفر الرجل اس نے سفر کیا اور سافر ( مسافر ) کی جمع سفر آتی ہے جیسے راکب کی جمع رکب رد علی ہذا القیاس ) اور سافر کے معنی ہیں اس نے سفر کیا یہ خاص کر باب مفاعلۃ سے آتا ہے گویا اس میں جانبین یعنی وطن اور آدمی کے ایک دوسرے سے دور ہونے کے معنی کا لحاظ کیا گیا ہے ۔ اور سفر سے ہی سفرۃ کا لفظ مشتق ہے جس کے معنی طعام سفر یا توشہ دان ہیں جس میں سفری کھانا رکھا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضى أَوْ عَلى سَفَرٍ [ النساء/ 43] اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ رَهِينٌ الرَّهْنُ : ما يوضع وثیقة للدّين، والرِّهَانُ مثله، لکن يختصّ بما يوضع في الخطاروأصلهما مصدر، يقال : رَهَنْتُ الرَّهْنَ ورَاهَنْتُهُ رِهَاناً ، فهو رَهِينٌ ومَرْهُونٌ. ويقال في جمع الرَّهْنِ : رِهَانٌ ورُهُنٌ ورُهُونٌ ، وقرئ : فَرُهُنٌ مقبوضة وفَرِهانٌ وقیل في قوله : كُلُّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ رَهِينَةٌ [ المدثر/ 38] ، إنه فعیل بمعنی فاعل، أي : ثابتة مقیمة . وقیل : بمعنی مفعول، أي : كلّ نفس مقامة في جزاء ما قدّم من عمله . ولمّا کان الرّهن يتصوّر منه حبسه استعیر ذلک للمحتبس أيّ شيء کان، قال : بِما كَسَبَتْ رَهِينَةٌ [ المدثر/ 38] ، ورَهَنْتُ فلانا، ورَهَنْتُ عنده، وارْتَهَنْتُ : أخذت الرّهن، وأَرْهَنْتُ في السِّلْعة، قيل : غالیت بها، وحقیقة ذلك : أن يدفع سلعة تقدمة في ثمنه، فتجعلها رهينة لإتمام ثمنها . ( ر ھ ن ) الرھن ( گروی رکھی ہوئی چیز ) اصل میں اس چیز کو کہتے ہیں جو قرض میں بطور ضمانت رکھ لی جائے اور یہی معنی رھان کے ہیں لیکن رھان خاص کر اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی مقابلہ میں شرط کے طور پر رکھ لی جائے اصل میں یہ دونوں لفظ مصدر ہیں جیسے رھنت الرھن وراھنتہ رھانا اور رھین اور مرھون : صیغہ صفت ہیں اور رھن کی جمع رھان رھن اور رھون آتی ہے اور آیت : ۔ فرھن مقبوضۃ : تو کچھ رہن قبضہ میں رکھ لو ۔ میں ایک قراءت فَرُهُنٌ مقبوضة بھی ہے اور آیت كُلُّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ رَهِينَةٌ [ المدثر/ 38] ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ رھینۃ فعیل بمعنی فاعل سے ہے اور اس کے معنی ثابت اور قائم رہنے والی کے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ فعیل بمعنی مفعول سے ہے اور اس کے معنی ہیں کہ ہر شخص اپنے گزشتہ اعمال کی پاداش میں رکا رہے گا ۔ پھر رھن میں چونکہ حبس ( روکنے ) کے معنی پائے جاتے ہیں اس لئے کبھی مجازا رھن یعنی مطلق کسی چیز کو روکنے کے آجاتا ہے ۔ جیسا کہ آیت مذکورہ میں ہے ۔ رھنت فلانا رھنت عنده کے معنی کسی کے پاس گروی رکھنے کے ہیں اور ارتھنت ( افتعال ) کے معنی گروی لینے کے ۔ اور ارھنت ( افعال ) فی السلعۃ کے معنی بعض نے سامان تجارت کو گراں فروخت کرنا کئے ہیں اصل میں اس کے معنی بیعانہ کے طور پر کچھ سامان دے دینے کے ہیں ۔ جو قیمت ادا کرنے تک بطور ضمانت بائع کے پاس رہتا ہے ۔ قبض القَبْضُ : تناول الشیء بجمیع الکفّ. نحو : قَبَضَ السّيفَ وغیرَهُ. قال تعالی: فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه/ 96] ، فَقَبْضُ الید علی الشیء جمعها بعد تناوله، وقَبْضُهَا عن الشیء جمعها قبل تناوله، وذلک إمساک عنه، ومنه قيل لإمساک الید عن البذل : قَبْضٌ. قال : يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ [ التوبة/ 67] ، أي : يمتنعون من الإنفاق، ويستعار الْقَبْضُ لتحصیل الشیء وإن لم يكن فيه مراعاة الكفّ ، ( ق ب ض ) القبض ( ض ) کے معنی چٹکی سے کوئی چیز لینے کے ہیں اور جو چیز چٹکی سے لی گئی ہو اسے قبض وقبیصۃ کہا جاتا ہے اس لئے قمیص حقیر چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور آیت : ۔ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه/ 96] تو میں نے ایک مٹھی بھر لی ۔ میں ایک قرات فقبضت قبصۃ ( صاد مہلہ ) کے ساتھ بھی ہے ۔ قبوص سبک رفتار اور چست گھوڑا جو دوڑتے وقت صرف سم ہی زمین پر لگائے ۔ اور تیز رفتار گھوڑے پر اس کا اطلاق مجازی سرعت رفتاری کے لئے قبض کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ ( ق ب ض ) القبض کے معنی کسی چیز کو پورے پنجے کے ساتھ پکڑنے کے ہیں جیسے قبض السیف وغیرہ تلوار کو پکڑنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه/ 96] تو میں نے فرشتے کے نقش پا سے مٹی کی ایک مٹھی میں لے لینے کے ہیں اور قبضھا عن الشئی کے منعی کسی چیز کو پکڑنے سے ہاتھ سکیڑ لینے کے ہیں اسی مفہوم کے لحاظ سے مال خرچ کرنے سے ہاتھ روک لینے کو بھی قبض کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ [ التوبة/ 67] اور خرچ کرنے سے ہاتھ بند کئے رہتے ہیں ۔ یعنی خرچ نہیں کرتے ۔ اور استعارہ کے طور پر کیس چیز کے حاصل کرلینے کو بھی قبض کہا جاتا ہے اگر چہ اسے ہاتھ سے نہ پکڑا جائے بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ أدى الأداء : دفع الحق دفعةً وتوفیته، كأداء الخراج والجزية وأداء الأمانة، قال اللہ تعالی: فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمانَتَهُ [ البقرة/ 283] ، إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَماناتِ إِلى أَهْلِها [ النساء/ 58] ، وقال : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، وأصل ذلک من الأداة، تقول : أدوت بفعل کذا، أي : احتلت، وأصله : تناولت الأداة التي بها يتوصل إليه، واستأديت علی فلان نحو : استعدیت ( ا د ی ) الاداء کے معنی ہیں یکبارگی اور پورا پورا حق دے دینا ۔ چناچہ خراج اور جزیہ کے دے دینے اور امانت کے واپس کردینے کو اداء کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ (1{ فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ }( سورة البقرة 283) تو امانت دار کو چاہیے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کرے ۔ (1{ إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا } ( سورة النساء 58) خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے حوالہ کردیا کرو ۔ (1{ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ }( سورة البقرة 178) اور پسندیدہ طریق سے خون بہا اسے پورا پورا ادا کرنا ۔ اصل میں یہ اداۃ سے ہے محاورہ ہے ادوت تفعل کذا ۔ کسی کام کے لئے حیلہ اور تدبیر کرنا اصل میں اس کے معنی اداۃ ( کسی چیز ) کو پکڑنے کے ہیں جس کے ذریعہ دوسری چیز تک پہنچا جاسکے ۔ أمانت أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، ( ا م ن ) امانت ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ } ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ كتم الْكِتْمَانُ : ستر الحدیث، يقال : كَتَمْتُهُ كَتْماً وكِتْمَاناً. قال تعالی: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة/ 140] ، ( ک ت م ) کتمہ ( ن ) کتما وکتما نا کے معنی کوئی بات چھپانا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة/ 140] اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا کی شہادت کو جو اس کے پاس کتاب اللہ میں موجود ہے چھپائے إثم الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة/ 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ { فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ } ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) غلاموں کی گواہی کے مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ قتادہ نے حسن بصری سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے یہ روایت کی ہے کہ بچے پر بچے کی اور غلام پر غلام کی گواہی جائز ہے ۔ ہمیں عبدالرحمن بن سیما نے روایت بیان کی ، انہیں عبداللہ بن احمد نے، انہیں ان کے والد نے، انہیں عبدالرحمن بن ہمام نے کہ میں نے قتادہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا تھا کہ حضرت علی (رض) گواہی کے سلسلے میں بچوں سے پوچھتے اور ان سے معلومات حاصل کرتے تھے ( یعنی ان سے گواہی نہیں لیتے تھے ) یہ روایت پہلی روایت کو کمزور کردیتی ہے۔ حسن بن غیاث نے مختار بن فلفل سے اور انہوں نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : مجھے نہیں معلوم کہ کسی نے غلام کی گواہی مسترد کردی ہو، “ عثمان البتی کا قول ہے کہ غلام کی اپنے آقا کے حق میں گواہی جائز نہیں البتہ دوسروں کے حق میں درست ہے۔ ابن شرمہ کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ ایسی گواہی جائز سمجھتے تھے اور قراضی شریح سے اس کا جواز نقل کرتے تھے ۔ ابن ابی لیلیٰ غلاموں کی گواہی قبول نہیں کرتے تھے۔۔ جن دنوں یہ کوفہ کے قاضی تھے، وہاں خوارج کا تسلط ہوگیا، انہوں نے ان سے غلاموں کی گواہی قبول کرنے نیز بہت سے ایسے مسائل تسلیم کرنے کا حکم دیا جن کے خوارج قائل تھے اور قاضی صاحب مخالف تھے، قاضی صاحب نے ان کے اس حکم کے سامنے سر جھکا دیا اور انہوں نے قاضی صاحب کو ان کے عہدے پر برقرار رکھا لیکن جب رات ہوئی تو قاضی صاحب چپکے سے اپنی سواری پر سوار ہوکر مکہ مکرمہ پہنچے۔ جب عباسیوں کا دور آیا تو انہوں نے قاضی صاحب کو پھر سے کوفہ کا قاضی مقرر کردیا۔ زہری نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ حضرت عثمان (رض) نے غلام کے آزاد ہوجانے پر اس کی گواہی کے جواز کا فیصلہ دیا تھا بشرطیکہ اس سے پہلے اس کی گواہی روز نہ کی گئی ہو۔ شعبہ نے مغیرہ سے روایت کی ہے کہ ابراہیم نخعی معمولی معاملے میں غلام کی گواہی کو جائز قرار دیتے تھے، شعبہ نے یونس سے اور انہوں نے حسن بصری سے بھی اس طرح کی روایت کی ہے۔ حسن بصری سے یہ بھی روایت ہے کہ غلام کی گواہی جائز نہیں ہے۔ حفص نے حجاج سے، انہوں نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ غلام کی گواہی جائز نہیں ہے امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، زفر، ابن شبرمہ ( ایک روایت کے مطابق) امام مالک، حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ غلام کی گراہی کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے۔ ابو بکر حصاص کہتے ہیں کہ ہم نے آیت میں پائی جانے والی دلالت کا ذکر کیا ہے کہ اس میں جس گواہی کا ذکر ہے وہ آزاد مردوں کے ساتھ خاص ہے۔ غلاموں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ان کی گواہی کی نفی پر قول باری ( ولا یأب الشھداء اذا مادعوا۔ جب گواہوں کو گواہی دینے کے لیے بلایاجائے تو وہ انکار نہ کریں) دلالت کرتا ہے۔ بعض سے اس کی تفسیر یوں منقول ہے کہ جب گواہ کو بلایاجائے تو اسے گواہی دے دینی چاہیے، بعض کا قول ہے کہ جب کسی کو گواہ بنالیا گیا ہو اور پھر اسے گواہی کے لیے طلب کیا جائے تو وہ انکار نہ کرے۔ بعضوں نے یہ کہا ہے کہ دونوں صورتوں میں گواہ پر گواہی دینا واجب ہے اور ظاہر ہے کہ غلام پر اس کے آقا کا حق ہوتا ہے اور وہ اس کی خدمت میں مصروف رہتا ہے اس لیے اسے آقا کی خدمت چھوڑ کر گواہی کے لیے جانے کا حق نہیں ہے بلکہ اسے اس سے روک دیا گیا ہے جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ وہ گواہی دینے پر مامور نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اس کے لیے اس بات کی بھی گنجائش نہیں ہے کہ آقا کی خدمت چھوڑ کر خط پڑھنے یا خط لکھوانے یا گواہ بننے میں مصروف ہوجائے۔ اس پر اس کے آقا کا اتنا حق ہے کہ حج اور جمعہ کے متعلق خطاب الٰہی میں وہ شامل نہیں ہے اس لیے گواہی کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے کیونکہ گواہی کا معاملہ حج اور جمعہ کے معاملہ سے بھی کم درجے کا ہے۔ گواہی فرض کفایہ ہے جس کی بنا پر گواہوں پر اس کا تعین نہیں ہے جبکہ جمعہ اور حج انفرادی طورپر ہر ایک کے لیے متعین فرض ہے جب آقا کے حق کی بنا پر حج اور جمعہ کی فرضیت اس پر لازم نہیں ہے تو آقا ہی کے حق کی بنا پر گواہی کا لزوم بطریق اولیٰ نہیں ہونا چاہیے۔ غلام کی گواہی کے ناقابل قبول ہونے پر درج ذیل آیات دلالت کرتی ہے۔ ارشاد باری ہے ( واقیمو الشھادۃ للہ اور اللہ کے لیے گواہی قائم کرو) نیز ( کو نو اقوامین بالقسط شھداء للہ تم انصاف کے علمبردار بن جائو اور اللہ کے لیے گواہی دو ) تاقول باری ( ولا تتبعو الھویٰ ان تعدلوا ۔ اور خواہشات کی پیروی میں انصاف کے راستے سے نہ ہٹ جائو) اللہ تعالیٰ نے حاکم وقت کو اللہ کے لیے گواہی دینے والا قرار دیا جس طرح کہ تمام لوگوں کو بھی یہی خطاب دیا گیا۔ اب جبکہ غلام حاکم نہیں بن سکتا تو اس کا گواہ بننا بھی درست نہیں ہوگا کیونکہ حاکم اور گواہ کے ذریعے ہی حکم کا ثبوت اور اس کا نفاذ ہوتا ہے۔ غلام کی گواہی کے بطلان پر اللہ تعالیٰ کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے۔ ارشاد ہوا ( ضرب اللہ مثلاً عبدا مملو کاً لا یقدر علی شئی۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان کی کہ ایک غلام ہے جو کسی کی ملکیت میں ہے اور جسے کسی چیز کی قدرت حاصل نہیں ہیض اب یہ بات تو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے قدرت کی نفی مراد نہیں لی ہے اس لیے کہ آزادی اور غلامی کے لحاظ سے طاقت اور قدرت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اس لیے آیت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ یہاں اس کے اقوال، اس کے عقود، اس کے تصرفات اور اس کی ملکیت کی نفی مراد ہے۔ ذرا غور کرنے سے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ آیت میں غلام کو ان بتوں کے لیے مثال قرار دیا گیا ہے جن کی عرب کے لوگ پوجا کرتے تھے۔ اس مثال کا مقصد زور دے کر یہ بیان کرنا ہے کہ غلام کسی چیز یا تصرف کا مالک نہیں اور حق العباد سے متعلق اس کے اقوال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے احکام باطل ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ آپ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ غلام اپنی بیوی کو طلاق دینے کا بھی مالک نہیں ہے۔ اگر آیت کے الفاظ میں اس معنی کا احتمال نہ ہوتا تو حضرت ابن عباس (رض) اس سے یہ مفہوم اخذ نہ کرتے۔ اس لیے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ غلام کی گواہی، کسی گواہی کے نہ ہونے کی طرح ہے جس طرح کہ اس کا لین دین، اس کا اقرار اور اس کے تمام قولی تصرفات کا حکم ہے۔ اب چونکہ غلام کی گواہی اس کا ایک قولی تصرف ہے تو یہ ضروری ہے کہ ظاہر آیت سے اس کا حکم کا وجوب منتفی ہوجائے۔ غلام کی گواہی کے بطلان پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ گواہی جہاد کی طرح فرض کفایہ ہے جہاد کے لیے خطاب باری میں غلام شامل نہیں ہے اور اگر وہ جہاد میں شامل ہوکر جنگ بھی کرتے تو مال غنیمت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اس لیے یہ ضروری ہوگیا کہ گواہی کے لیے خطاب باری میں بھی اس کی شمولیت نہ ہو اور اگر وہ گواہی دے بھی دے تو وہ قبول نہ ہوگی اور جس طرح اس کے لیے جنگ میں شمولیت کا کوئی حکم ثابت نہیں ہے اسی طرح گواہی کا بھی کوئی حکم ثابت نہیں ہونا چاہیے اور جس طرح اگر وہ جنگ میں شامل بھی ہوجائے تو مال غنیمت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا اسی طرح اگر وہ گواہی دے بھی دے تو اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ اس پر ایک اور پہلو سے بھی دلالت ہورہی ہے۔ وہ یہ کہ اگر غلام گواہی دینے کا اہل ہوتا اور اس کی گواہی کی بنا پر کسی مقدمے کا فیصلہ کردیاجاتا پھر وہ اپنی گواہی سے رجوع کرلیتا تو اس صورت میں اس کی گواہی کی روشنی میں دینے والے فیصلے کے نتیجے میں پہنچنے والے نقصان کا اس پر تاوان لازم آتا اس لیے کہ یہ چیز گواہی کا اسی طرح لازمی حصہ ہے جس طرح حکم کا نفاذ جو حاکم کے ہاتھوں ہوتا ہے اس کا لازمی حصہ ہے۔ اب جب کہ گواہی سے پھرجانے کی بنا پر غلام کے ذمہ کوئی تاوان نہیں لگتا تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ یہ گواہی کا اہل ہی نہیں ہے اور اس کی گواہی کی بنا پر جاری کی جانے والا حکم بھی ناجائز ہوتا ہے۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھیے ہمیں معلوم ہے کہ مونث کی میراث مذکر کی میراث کے مقابلے میں نصف ہے اور دو عورتوں کی گواہی کو ایک مرد کی گواہی کے مماثل قراردیا گیا اس طرح عورت کی گواہی بھی مرد کی گواہی کے مقابلے میں نصف ہے اور اس کی میراث بھی مرد کی میراث کے مقابلے میں نصف ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ غلام جو سرے سے میراث کا اہل نہیں ہے۔ گواہی کا بھی اہل نہ ہو اس لیے کہ ہم نے دیکھ لیا ہے کہ میراث میں کمی کا گواہی کی کمی پر اثر ہوتا ہے اس لیے یہ واجب ہے کہ میراث کی نفی گواہی کی نفی کی بھی موجب بن جائے۔ حضرت علی (رض) سے غلام کی گواہی کے جواز میں جو روایت ہے وہ روایت کے معیار کے مطابق درست نہیں۔ اگر یہ روایت درست مان بھی لی جائے تو اسے غلام کی اس گواہی پر محمول کریں گے جو وہ کسی غلام کے متعلق دے۔ ہمیں آزاد مردوں اور غلاموں کی گواہی کے جواز اور عدم جواز کی صورتوں کے متعلق فقہاء کے مابین کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔ اگر اس استدلال پر یہ اعتراض کیا جائے کہ اگر غلام حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی حدیث روایت کرتا ہے تو اس کی یہ روایت قبول کرلی جاتی ہے اور اس کی غلامی قبولیت کی راہ میں حائل نہیں ہوتی۔ اسی طرح اس کی غلامی اس کی گواہی کی راہ میں بھی حائل نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ روایت حدیث کو گواہی کے مسئلے کے لیے بنیاد نہیں بنایا جاسکتا۔ اس لیے گواہی کو اس پر قیاس نہیں کیا جائے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ روایت حدیث کے سلسلے میں اگر راوی صرف ایک ہو تو اس کی روایت قبول کرلی جائے گی لیکن صرف ایک گواہی کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح روایت میں ” فلان عن فلان عن فلان ( فلاں نے فلاں سے روایت کی، اس نے فلاں سے روایت کی) کا طریقہ قابل قبول ہے اور اس عنعنہ کے تحت ہونے والی روایت کو قبول کرلیا جاتا ہے لیکن گواہی کے سلسلے میں یہ طریقہ قابل قبول نہیں ہے۔ البتہ گواہی پر گواہی کے طورپر یہ قابل قبول ہوگا۔ اسی طرح راوی یہ کہہ دے کہ ” قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ (حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا) تو اس کی روایت کردہ حدیث قبول کرلی جائے گی لیکن گواہ جب تک گواہی کا لفظ اپنی زبان پر نہیں لائے گا نیز آنکھوں سے دیکھنے اور کانوں سے سننے کا اقرار نہیں کرے گا اس وقت تک واقعہ کے متعلق اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہوگی۔ عورت اور مرد کا حکم روایت حدیث کے سلسلے میں یکساں ہے اور گواہی کے معاملے میں مختلف اس لیے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے مقابلے میں رکھی گئی ہے جبکہ عورت اور مرد کی روایت کا درجہ یکساں ہے۔ اس بنا پر غلام کی روایت کی صحت اور قبولیت سے اس کی گواہی کی قبولیت پر استدلال کرنا درست نہیں ہوگا۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ امام محمد بن الحسن الشیبانی کا قول ہے کہ اگر کوئی حاکم غلام کی گواہی کی بنیاد پر کوئی فیصلہ صادر کردے اور پھرے میرے پاس اس فیصلے کے خلاف اپیل آئے تو میں اس کے فیصلے کو باطل اور کالعدم قرار دوں گا کیونکہ اس کے بطلان پر تمام فقہاء کا اجماع ہے۔ بچوں کی گواہی بچوں کی گواہی کے متعلق فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف امام محمد اور زفر کا قول ہے کہ بچوں کی گواہی کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ یہی ابن شبرمہ، سفیان ثوری اور امام شافعی کا قول ہے ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ بچوں کی بچوں پر گواہی جائز ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ زخموں کے سلسلے میں بچوں کی آپس میں ایک دوسرے پر گواہی جائز ہے ( شاید صورت یہ ہو کہ بچے اکٹھے ہوں پھر وہ جھگڑ پڑیں اور مار پیٹ کی نوبت آ جائے جس کے نتیجے میں انہیں زخم آئیں) دوسرے بچوں پر جو اس جگہ موجود نہ ہوں ان کی گواہی جائز نہیں ہوگی۔ آپس میں ایک دوسرے پر ان کی یہ گواہی صرف زخموں کے متعلق جائز ہوگی بشرطیکہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے اور جوش میں آنے نیز سکھائے پڑھانے جانے سے پہلے پہلے وہ یہ گواہی دے دیں۔ اگر علیحدہ ہونے کے بعد گواہی دیں تو یہ گواہی معتبر نہیں ہوگی۔ ہاں اگر علیحدہ ہونے سے قبل انہوں نے اپنی دی ہوئی گواہی پر اور گواہ بنا لیے ہوں تو بعد میں بھی ان کی یہ گواہی معتبر ہوگی۔ صرف آزاد بچوں کی گواہی جائز ہوگی آزاد بچیوں کی گواہی جائز نہیں ہوگی۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت عثمان (رض) اور حضرت عبداللہ بن الزبیر (رض) سے بچوں کی گواہی کا بطلان منقول ہے۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ بچوں کی ایک دوسرے کے بارے میں گواہی باطل ہے۔ عطاء بن ابی رباح سے اسی قسمکا قول منقول ہے۔ عبداللہ بن حبیب بن ابی ثابت کا قول ہے کہ شعبی سے یہ کہا گیا کہ ایاس بن معاویہ بچوں کی گواہی میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ شعبی نے یہ سن کر کہا کہ مجھے مسروق نے بتایا ہے کہ وہ ایک دن حضرت علی (رض) کے پاس تھے آپ کے پاس پانچ لڑکے آئے اور کہنے لگے کہ ہم چھ لڑکے پانی میں غوطے لگا رہے تھے کہ ایک لڑکا ڈوب گیا۔ تین لڑکوں نے دو لڑکوں کے خلاف گواہی دی کہ ان دونوں نے اسے ڈبویا ہے اور ان دو نے ان تین کے خلاف گواہی دی کہ انہوں نے اسے ڈبویا ہے۔ حضرت علی (رض) نے ڈوب جانے والے لڑکے کی دیت کے پانچ حصے کرکے دو لڑکوں کے ذمے تین حصے اور تین لڑکوں کے ذمے دو حصے عائد کردئیے۔ یہ باتی یاد رہے کہ عبداللہ بن حبیب کی روایتیں اہل علم کے ہاں غیر مقبول ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ہے کہ اس روایت کی تاویل و تشریح بہت مشکل ہے۔ حضرت علی (رض) سے اس قسم کے فیصلے کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے کہ غرق ہوجانے والے لڑکے کے رشتہ دار اگر لڑکوں کے ان دونوں گروہوں میں سے ایک پر دعویٰ کرتے تو اس صورت میں وہ دوسرے فریق کے خلاف ان کی دی ہوئی گواہی کو جھوٹ قرار دیتے اور اگر وہ تمام لڑکوں پر دعویٰ کرتے تو اس صورت میں وہ دونوں ف ریقوں کو جھوٹا قرار دیتے۔ دونوں صورتوں میں حضرت علی (رض) کے فیصلے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ہے اس لیے یہی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت علی (رض) سے یہ روایت ہی درست نہیں ہے۔ بچوں کی گواہی کے بطلان پر قول باری (یآیھا الذین اٰمنوا اذا تداینتم بدین الی اجل مسمیً ) دلالت کرتا ہے وہ اس طرح کہ آیت میں بالغ مرد ون کو خطاب ہے اس لیے کہ بچے ادھار لین دین کے اہل نہیں ہوتے۔ اسی طرح قول باری (ولیملل الذی علیہ الحق) میں بچہ داخل نہیں اس لیے کہ اس کا اقرار جائز نہیں ہوتا۔ اسی طرح قول باری ( ولیتق اللہ ربہ ولا یبخس منہ شیئاً ) کسی بچے کے لیے خطاب نہیں بن سکتا اس لیے کہ بچے کا شمار مکلفین میں نہیں ہوتا کہ جس کی بنا پر وہوعید کا مستحق ہوجائے۔ پھر قول باری ( واستشھدوا شھدین من رجالکم) کی رو سے بچے کو خطاب نہیں ہوسکتا کیونکہ بچہ ہمارے مردوں میں سے نہیں ہے۔ جب خطاب کی ابتدا بالغوں کے ذکر کے ساتھ ہوئی تھی تو قول باری ( من رجالکم) بھی بالغوں کی طرف راجع ہوگا۔ پھر قول باری (ممن ترضون من الشھداء) بھی بچے کی گواہی کے جواز کو مانع ہے اسی طرح قول باری ( ولا یاب الشھداء اذا مادعوا) میں گواہی سے پہلو تہی کرنے کی نہی ہے جبکہ بچے کے لیے گواہی قائم کرنے سے انکار کی گنجائش ہے اور مدعی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ بچے کو گواہی کے لیے حاضر کرے۔ پھر قول باری (ولا تکتمو ا الشھادۃ ومن یکتمھا فانہ اثم قلبہ) کا بچوں کے لیے خطاب بننا درست نہیں ہے اس لیے گواہی چھپانے پر انہیں گناہ لاحق نہیں ہوگا۔ اسی طرح بچہ اگر گواہی سے رجوع کرلے تو اس پر تاوان لازم نہیں ہوتا ہے اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بچہ گواہی کا اہل ہی نہیں اس لیے کہ جو شخص گواہی کا اہل ہوتا ہے اگر وہ پھر جائے تو اس پر تاوان لازم ہوجاتا ہے۔ امام مالک کی طرف سے صرف زخموں کے متعلق بچوں کی گواہی کا جواز اور یہ شرط کہ وہ یہ گواہی علیحدہ ہونے اور جوش میں آنے سے پہلے دیں تو یہ دراصل دلیل کے بغیر حکم عائد کرنے کے مترادف ہے اور جن کے متعلق روایات میں اور نہ قیاس میں کوئی فرق روا رکھا گیا ہے ان میں فرق کرنے کی ایک کوشش ہے اس لیے کہ اصولی طورپر یہ بات مسلم ہے کہ جس شخص کی گواہی زخموں کے متعلق جائز ہوسکتی ہے اس کی گواہی دوسری باتوں کے متعلق بھی درست ہوسکتی ہے۔ پھر ان بچوں کی اس حالت کا اعتبار کرنا جو ان کی علیحدگی اور جوش میں آنے سے قبل کی ہو تو یہ ایک بےمعنی بات ہے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ جو بچے گواہ بنے ہوں وہ خود مجرم ہوں اور پکڑے جانے کے خوف سے وہ گواہی دینے پر مجبور ہوگئے ہوں اس لیے کہ بچوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جو سب کو معلوم ہے کہ اگر ایک بچہ کوئی جرم کرتا ہے تو پکڑے جانے اور سزا پانے کے خوف سے وہ اس جرم کی ذمہ داری دوسرے پر ڈال دیتا ہے تاکہ خود بچ رہے۔ اس میں ایک اور پہلو بھی ہے اللہ تعالیٰ نے گواہی میں عدالت یعنی دیانتداری اور سیرت و کردار کی اچھائی کی شرط لگائی ہے اور جھوٹی گواہی دینے والے کو سخت انداز میں دھمکی دی ہے نیز فاسف و فاجر افراد اور جھوٹ سے پرہیز نہ کرنے والوں کی گواہی قبول کرنے سے منع فرما دیا ہے تاکہ گواہی کے معاملے میں پوری احتیاط برتی جاسکے۔ دریں صورت ایسے شخص کی گواہی کیسے جائز ہوسکتی ہے جس پر جھوٹ کی وجہ سے کوئی گرفت نہ ہوسکتی ہو اور نہ ہی جس کی دروغ گواہی کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل ہو اور نہ ہی باز رکھنے والی حیا ہو نہ مروت۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ بچوں کے جھوٹ کو ضرب المثل کے طورپر بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ” فلاں شخص تو بچے سے بھی بڑھ کر جھوٹا ہے “ اس لیے اس شخص کی گواہی کیسے قابل قبول ہوگی جس کی یہ حالت ہو۔ اگر امام مالک نے گوہی کے جواز کے لیے ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے اور سکھائے پڑھائے جانے سے قبل کی حالت کا اعتبار کیا ہے کہ بچے کو جب تک کوئی دوسرا سکھائے پڑھائے گا نہیں اس وقت تک وہ جھوٹ بولنے پر آمادہ نہیں ہوگا، تو ان کا یہ خیال درست نہیں ہے اس لیے کہ بچے بھی جان بوجھ کر جھوٹ بول دیتے ہیں اور ان کے لیے اس میں رکاوٹ نہیں ہوتی ہے۔ اگر وہ اس عمر کو پہنچ چکے ہیں ہوں جہاں وہ گواہی کا مفہوم سمجھنے کے قابل ہوچکے ہوں اور اپنی چشم دید کو اپنے الفاظ میں بیان کرسکتے ہوں تو ایسی صورت میں وہ جھوٹ سے اسی طرح واقف ہوجاتے ہیں جس طرح سچ سے۔ پھر وہ مختلف اسباب کی بنا پر جان بوجھ کر بھی جھوٹ بول دیتے ہیں۔ ایک سبب تو یہ ہے کہ انہیں یہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں اس جرم کی نسبت ان کی طرف نہ کردی جائے یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ جھوٹی گواہی کے ذریعے اس بچے کو نقصان پہنچانا چاہتے ہوں جس کے خلاف وہ گواہی دے رہے ہوں۔ اسی طرح کے اور اسباب ہوسکتے ہیں جو بچوں کی نفسیات اور ان کی عمر کے تقاضوں کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں اس لیے کوئی شخص حتمی طورپر یہ حکم نہیں لگا سکتا کہ اگر وہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے سے قبل گواہی دے دیں تو ان کی گواہی سچی ہوگی جس طرح یہ حکم نہیں لگایا جاسکتا کہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجانے کے بعد ان کی دی ہوئی گواہی درست ہوگی۔ اگر ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ ہمیں یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ بچے جھوٹ نہیں بولتے اور نہ ہی جان بوجھ کر جھوٹی گواہی دیتے ہیں تو اس صورت میں پھر یہ چاہیے کہ بچوں کی گواہی کی طرح بچیوں کی گواہی بھی قبول کرلی جائے نیز ایک بچے یا بچی کی گواہی بھی اسی طرح قابل قبول ہو جس طرح بچوں یا بچیوں کے ایک گروہ کی۔ اب اگر اس کی گواہی میں بھی تعداد کا اعتبار کیا گیا ہے اور زخموں کی گواہی کو بچوں کے ساتھ خاص کردیا گیا ہے۔ بچیوں کا اعتبار نہیں کیا گیا ہے تو یہ ضروری ہے کہ گواہی کی باقی تمام شرطوں کا بھی اعتبار کیا جائے مثلاً بلوغت اور عدالت وغیرہ۔ اور جس بنا پر امام مالک اور ان کے ہمنوائوں نے بچوں کی بچوں پر گواہی کو جائز قرار دیا ہے اس بنا پر یہ ضروری ہے کہ مردوں پر بھی ان کی گواہی کو جائز قرار دیاجائے اس لیے کہ بچوں کی بچوں پر گواہی مردوں پر ان کی گواہی سے بڑھ کر موکر نہیں ہے کیونکہ اس قول کے قائلین کے نزدیک یہ سب مسلمان ہیں۔ نابینا کی گواہی نابینا کی گواہی کے بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام محمد کا قول ہے کہ نابینا کی گواہی کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔ حضرت علی (رض) سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ عمرو بن عبید نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ نابینا کی گواہی کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے ، اشعث سے اسی قسم کی روایت منقول ہے تاہم اشعث نے اس کے متعلق یہ بھی کہا ہے کہ بینائی ختم ہونے سے پہلے دیکھی ہوئی چیز کے متعلق اگر گواہی دے تو وہ قابل قبول ہوگی۔ ابن الہیعہ نے ابو طعمہ سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے کہ نابینا کی گواہی جائز نہیں ہے۔ ہمیں عبدالرحمن بن سیما نے روایت کی ہے، انہیں عبداللہ بن احمد نے، انہیں ان کے والد نے، انہیں حجاج بن جبیر بن حازم نے قتادہ سے کہ ایک نابینا نے ایاس بن معاویہ کے سامنے گواہی پر گواہی دی۔ ایاس نے اس سے کہا کہ ہم تمہاری گواہی رد کردیتے اگر تمہارے اندر عدالت کی صفت نہ پائی جاتی لیکن تمہارے اندر ایک اور رکاوٹ ہے کہ تم نابینا ہو دیکھ نہیں سکتے۔ یہ کہہ کر انہوں نے اس کی گواہی قبول نہیں کی۔ امام ابو یوسف، ابن ابی لیلیٰ اور امام شافعی کا قول ہے کہ بینائی جانے سے قبل جس بات کا اسے علم ہوا ہو اس کے متعلق اس کی گواہی درست ہوگی اور جس بات کا علم اندھے پن کے دوران ہوا ہو اس کے متعلق اس کی گواہی درست نہیں ہوگی۔ قای شریح اور شعبی کا قول ہے کہ نابینا کی گواہی جائز ہے۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا ق ول ہے کہ نابینا کی گواہی جائز ہے خواہ اسے اس بات کا علم اندھے پن کے دوران ہوا ہو بشرطیکہ وہ طلاق اور اقرار وغیرہ کی صورت میں آواز کی شناخت کرسکتا ہو لیکن اگر زنا کاری یا حدقذف کے متعلق وہ گواہی دے تو اس کی یہ گواہی قبول نہیں ہوگی۔ اندھے کی گواہی کے بطلان کی دلیل وہ حدیث ہے جسے عبدالباقی بن قانع نے ہم سے بیان کی، انہیں عبداللہ بن محمد بن میمون بلخی حافظ نے، انہیں یحییٰ بن موسیٰ نے جو بخت کے لقب سے مشہور تھے۔ انہیں محمد بن سلیمان بن مسمول نے، انہیں عبداللہ بن سلمہ بن وہرام نے اپنے والد سے، انہوں نے طائوس سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گواہی کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا ( تری ھذہ الشمس فاشھدوا ولا فدع تم اس سور ج کو دیکھ رہے ہو تو گواہی دو ورنہ چھوڑ دو ) آپ نے گواہی کی صحت کی شرط معائنہ یعنی چشم دید مقرر کردی یعنی گواہ جس چیز کی گواہی دے رہا ہے اسے اس نے بچشم خود دیکھا ہے۔ جبکہ نابینا اس چیز کو جس کی گواہی وہ دے رہا ہے دیکھنے سے معذور ہے اس لیے اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہوگی۔ اس کے بطلان کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ وہ یہ کہ نابینا استدلال کی بنا پر گواہی دے گا اس لیے اس کی گواہی درست نہیں ہوگی۔ آپ ن ہیں دیکھتے کہ ایک آواز دوسری آواز کے مشابہ ہوتی ہے اور بولنے والا کسی دوسرے کی آواز کی نقل بھی اتار سکتا ہے۔ اسی طرح وہ دوسرے کے سر اور لہجے کی بھی اسی طرح نقل کرسکتا ہے کہ نقل ہوبہو اصل ہوجاتی ہے اور سننے والے اور بولنے والے کے درمیان اگر حجاب ہو تو سننے والے کو شک بھی نہیں ہوسکتا کہ اس کی آواز کی نقل اتاری جارہی ہے اس لیے آواز کی بنا پر اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہوسکتی کیونکہ اس سے یقین حاصل نہیں ہوسکتا۔ آواز کے معاملے کی بنیاد صرف ظن غالب پر ہوتی ہے۔ نیز گواہ اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ گواہی دیتے ہوئے شہادت یعنی گواہی کا لفظ استعمال کرے اور یوں کہے : اشھد ( میں گواہی دیتا ہوں) اگر وہ اپنی گواہی شہادت کے لفظ کے بغیر کسی اور لفظ سے دیتا ہے مثلاً یوں کہتا ہے :” اعلم یا ایقین “ ( مجھے علم ہے یا مجھے یقیں ہے) تو اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ گواہی اس لفظ شہادت کے ساتھ مخصوص ہے اور یہ لفظ اس بات کا متقاضی ہے کہ جس چیز کے متعلق گواہی دی جارہی ہے اس کا مشاہدہ بھی ہوچکا ہو اور وہ گواہ کے لیے چشم دید ہو تو اس صورت میں ایسے شخص کی گواہی جائز نہیں ہوسکتی جو مشاہدہ کے دائرے سے خارج ہو اور آنکھوں دیکھے بغیر گواہی دے رہا ہو۔ گر کوئی یہ کہے کہ نابینا جب اپنی بیوی کی آواز پہچان لے تو اس کے ساتھ وطی کے لیے اس کا اقدام درست ہوتا ہے جس سے یہ ہمیں معلوم ہوا کہ آواز کی پہچان یقین کا فائدہ دیتی ہے ہے اور اس میں ش کی کی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ شک کی بنا پر کسی کے لیے وطی کا اقدام جائز نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ نابینا کے لیے غالب ظن کی بنا پر وطی کا اقدام درست ہوتا ہے وہ اس طرح کہ اس کی بیوی کو اس کے پاس پہنچا دیا جائے اور اس سے کہا جائے کہ ” لو یہ تمہاری بیوی آگئی “ اس صورت میں اگر وہ اپنی بیوی کو جانتا نہ بھی ہو پھر بھی اس کے لیے وطی کرنا حلال ہوجائے گا۔ اسی طرح قاصد کے قول کی بنا پر اس کے لیے لونڈی کا تحفہ قبول کرنا جائز ہے اور پھر اس لونڈی کے ساتھ وطی کا اقدام بھی جائز ہوگا۔ لیکن اگر کسی نے اسے کسی زید کی طرف سے اقرار یا بیع یا قذف کی اطلاع دی ہو تو اس کے لیے مخبر عنہ یعنی زید پر گواہی قائم کرنا جائز نہیں ہوگا اس لیے کہ گواہی کا ذریعہ یقینی اور مشاہدہ ہوتا ہے جب کہ سوال میں مذکورہ باتوں میں ظن غالب کے استعمال اور ایک شخص کے قول کو قبول کرلینے کی گنجائش ہے۔ اس لیے یہ باتیں گواہی کی بنیاد نہیں بن سکتی ہیں۔ اگر اسے بینائی کی حالت میں کسی بات پر گواہ بنا لیا گیا ہو اور اس کے بعد ا س کی بینائی جاتی رہی ہو تو ہم اس کی گواہی اس بنا پر قبول نہیں کریں گے کہ ہمیں اس بات کا علم ہوچکا ہے کہ تحمل شادت کی حالت کے مقابلے میں ادائے شہادت کی حالت زیادہ کمزور ہے۔ اس پر اس بات سے دلالت ہوتی ہے کہ ایک شخص کفر یا غلامی یا بچپن کی حالت میں تحمل شہادت کرلیتا یعنی کسی واقعہ کا چشم دید گواہ بن جاتا ہے اور پھر مسلمان ہوکر یا آزاد ہوکر یا بالغ ہوکر وہ یہ گواہی عدالت یا قاضی کے سامنے دے دیتا ہے تو اس کی یہ گواہی قابل قبول ہوگی لیکن اگر پہلی حالت میں وہ یہ گواہی دے گا تو اس کی یہ گواہی قابل قبول نہ ہوگی۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ گواہی دینے کی حالت گواہ بننے کی حالت سے لازمی طورپر بہتر ہونی چاہیے۔ اب جبکہ نابینا کا تحمل شہادت درست نہیں ہوتا اور اس میں اس کی بینائی کا نہ ہونا رکاوٹ بنتا ہے تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ اس کا گواہی دینا بھی درست نہ ہو۔ نیز اگر اسے ایسی حالت میں گواہ بنایاجاتا کہ اس کے اور اس منظر کے درمیان جس کا وہ گواہ بنایا جارہا ہے کوئی رکاوٹ حائل ہوتی تو اس کی گواہی درست نہ ہوتی۔ اسی طرح اگر گواہی دیتے وقت کوئی رکاوٹ حائل ہو تو اس کی گواہی جائز نہیں ہونی چاہیے اور ظاہر ہے کہ اندھا پن اس کے اور اس بات کے درمیان حائل ہونے والی رکاوٹ ہے جس کا اسے گواہ بنایا جارہا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ایسی گواہی جائز نہ ہو۔ امام ابو یوسف نے دونوں حالتوں کے درمیانف رق کیا ہے اور وجہ یہ بیان کی ہے کہ یہ بات جائز ہوتی ہے کہ ایک آدمی کسی واقعہ کا چشم دید گواہ ہوتا ہے پھر اس پر اس کی غیر حاضری یا موت کی صورت میں اور گواہی قائم کرلی جاتی ہے تو اس کی یہ گواہی قابل قبول ہے۔ بعینہٖ گواہ کی بصارت کا ختم ہوجانا مذکورہ بالا مثال میں اصل گواہ کی موت یا اس کی غیر حاضری کی طرح ہے۔ اس لیے ایسے نابینا کی گواہی کے جواز کی ممانعت نہیں ہونی چاہیے اور اس کی گواہی قبول کرلینی چاہیے۔ اس استدلال کا جواب یہ ہے کہ گواہ کا اعتبار اس کی اپنی ذاتی حیثیت میں کرنا واجب ہے اگر وہ گواہی دینے کا اہل ہوگا تو ہم اس کی گواہی قبول کرلیں گے اور اگر دوسری بات ہوگی تو اس کی گواہی قبول نہیں کریں گے۔ نابینا عدم بصارت کی بنا پر اس اہلیت کے دائرے سے ہی خارج ہے۔ اس بنا پر اسے کسی اور پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ رہ گیا اصل گواہ جو موجود نہ ہو یا وفات پاچکا ہو تو اس کی گواہی پر کسی کا گواہ بن جانا درست ہے کیونکہ اصل گواہ کو کوئی ایسی صورت پیش نہیں آئی جو اسے گواہ بننے کی اہلیت کے دائرے سے خارج کردینے والی ہو۔ اس شخص کی غیر حاضری یا موت جس پر کسی اور کو گواہ بنایا گیا ہو اس کی گواہی پر اثر انداز نہیں ہوتی اس لیے اس کی گواہی جائز ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم میت یا غائب کی گواہی پر گواہی کو اس وقت جائز قرار دیتے ہیں جبکہ اس کی طرف سے کوئی شخص فریق بن کر عدالتم میں حاضر ہو، اس صورت میں اس پر یہ گواہی ہوگی اور اس طرح اس کی موجودگی میت یا غائب کی موجودگی کے قائم مقام ہوجائے گی جبکہ نابینا اس معنی میں حاضر ہوتا ہے کہ وہ کسی ایسے شخص پر گواہی دے رہا ہے جو خصم یعنی فریق نہیں ہوتا۔ اس بنا پر اس کی گواہی جائز نہیں ہوگی۔ نابینا کی گواہی کی صحت کو تسلیم کرنے والے درج ذیل آیات سے استدلال کرتے ہیں جن کا ظاہر اس کی گواہی کی قبولیت کا متقضی ہے ، آیات یہ ہیں ( اذا تداینتم بدین ) تا قول باری ( فاستشھدوا شھدین من رجالکم) نیز آیت ( ممن ترضون من الشھداء) اور ظاہر ہے کہ بعض صورتوں میں نابینا شخص پسندیدہ ہوتا ہے اور اسکا شمار ہمارے آزاد مردوں میں ہوتا ہے۔ اس لیے آیت کے ظاہر کے تقاضے کی روشنی میں اس کی گوہی قابل قبول ہونی چاہیے۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ ظاہر آیت نابینا کی گواہی کی عدم قبولیت پر دلالت کرتی ہے۔ اس لیے کہ قول باری ہے ( فاستشھدوا) جبکہ نابینا کی گواہی بنانا ہی درست نہیں ہے اس لیے کہ استشہاد کا معنی یہ ہے کہ جس چیز یا واقعہ یا شخص کے متعلق گواہ بنایاجارہا ہے اس کی موجودگی ہو اور گواہ بننے والا شخص اسے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ اب ظاہر ہے کہ اندھے پن کی وجہ سے ایک نابینا نہ اس چیز کو دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی اسکا مشاہدہ کرسکتا ہے جو اس کے سامنے موجود ہوتی ہے جس طرح کہ کوئی دیوار بیچ میں حائل ہوجائے اور گواہ کے لیے اپنی آنکھوں سے مشہود علیہ ( جس کے متعلق گواہ قائم کی جارہی ہو) کے مشاہدے میں مانع بن جائے۔ نیز شہادت یعنی گواہی کا مفہوم مشہود علیہ کے مشاہدے اور اسے اپنی آنکھوں سے اس حالت میں دیکھنے کے مفہوم سے ماخو ذ ہے جس میں گواہ کی گواہی اس پر اثبات حق کی متقاضی ہو اور یہ صورت ایک نابینا شخص کی ذات میں معدوم ہوتی ہے اس لیے اس کی گواہی کا بطلان واجب ہے۔ اس لیے زیر بحث آیات نابینا شخص کی گواہی کے جواز سے بڑھ کر اس کے بطلان پر دلالت کررہی ہے۔ امام زفر کا قول ہے کہ نابینا کی گواہی جائز نہیں ہے خواہ وہ بصارت کے زائل ہونے سے قبل اس کا گواہ بنا ہو یا بعد میں، البتہ صرف نسب کے معاملے میں اس کی اتنی گواہی درست ہے کہ فلاں فلاں کا بیٹا ہے۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام زفر نے یہ مسلک اس بنا پر اختیار کیا ہے کہ نسب پر گواہی خبر مستفیض ( ایسی خبر جسے نقل کرنے والوں کی اچھی خاصی تعداد ہو) کی صورت میں درست ہوتی ہے اگرچہ گواہ نے اس کا خود مشاہدہ نہ کیا ہو اس لیے ئہ جائز ہے کہنابینا کو تواتر کے ساتھ یہ خبر ملتی رہے کہ فلاں فلاں کا بیٹا ہے اور پھر حاکم کے ہاں جاکر اس کی گواہی دے دے ایسی صورت میں اس کی گواہی قبول کرلی جائے گی۔ اس کی صحت پر یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تواتر کے ساتھ منقول ہونے والی باتوں میں نابینا اور بینا دونوں کا حکم یکساں ہے۔ اگرچہ خبر دینے والوں نے بچشم خود ان باتوں کا مشاہدہ نہیں کیا بلکہ صرف ان کے متعلق سنا تھا۔ اس طرح یہ جائز ہے کہ نابینا شخص کے نزدیک متواتر خبروں کی بنا پر کسی کے نسب کی صحت ثابت ہوجائے اگرچہ خبر دینے والوں نے خود اس کا مشاہدہ نہ کیا ہو اس صورت میں اس پر نابینا کی گواہی قائم کرنا درست ہوگا اور پھر اس سلسے میں اس کی گواہی قابل قبول ہوگی کیونکہ اس قسم کی گواہی کے لیے مشہود علیہ کو بچشم خود دیکھنا شرط نہیں ہے۔ اگر کوئی بدوی یعنی دیہاتی کسی قروی یعنی شہری کے متعلق گواہی دے تو آیا اس کی گواہی درست ہوگی یا نہیں۔ اس کے متعلق اہل علم میں اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف امام محمد، زفر، لیث سعد، اوزاعی اور امام شافعی کے نزدیک ایسی گواہی جائز ہے بشرطیکہ گواہی دینے والا عادل ہو یعنی صفت عدالت سے متصف ہو۔ زہری سے بھی اسی طرح کی روایت ہے۔ ابن وہب نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ زخموں کے سوا اور کسی چیز کے متعلق اس قسم کی گواہی جائز نہیں ہے۔ ابن القاسم نے امام مالک سے یہ روایت کی ہے کہ حضر یعنی حالت اقامت میں اس قسم کی گواہی جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی شہری سفر میں ہو اور وہ کوئی وصیت کرے تو دیہاتی اس کا گواہ بن سکتا ہے یا بیع کی کوئی صورت ہو تو بھی ایسی گواہی جائز ہوگی بشرطیکہ گواہ عادل ہوں۔ ابو بکر حصاص کہتے ہیں کہ سابقہ سطور میں آزاد بالغ مردوں کی گواہی کی قبولیت پر آیات قرآنی کی دلالت کا ہم نے جو ذکر کیا ہے وہ شہری اور دیہاتی کی گواہی کی یکسانیت اور مساوت کو واجب کرتی ہے اس لیے کہ ایمان کے ذکر کے ساتھ جس خطاب کی ابتدا کی گئی ہے اس کا رخ ان سب کی طرف ہے۔ چنانچہ قول باری ہے ( یآیھا الذین اٰمنو ا اذا تداینتم بدین) ظاہر ہے کہ دیہاتی اور شہری سب کا شمار اہل ایمان میں ہوتا ہے۔ پھر ارشاد باری ہے ( واستشھدوا شھدین من رجالکم) یعنی اہل ایمان کے آزاد مردوں میں سے اور یہ صفت ان تمام لوگوں کے اندر پائی جاتی ہے پھر فرمایا ( ممن ترضون من الشھداء) جب ایسے لوگ صفت عدالت سے متصف ہوں گے تو وہ ” مرضیون “ یعنی پسندیدہ ہوں گے۔ اسی طرح شوہر کے بیوی سے رجوع کرنے اور علیحدگی اختیار کرنے کے سلسلے میں فرمایا ( و استشھدوا ذوی عدل منکم اپنوں میں سے دو عادل مردوں کو گواہ بنالو) یہ صفت تمام لوگوں کو شامل ہے بشرطیکہ وہ عادل ہوں ۔ اب اس صفت کے ساتھ شہری کو خاص کرلینا اور دیہاتی کو نظر انداز کردینا دراصل دلالت کے بغیر آیت کے عموم کو ترک کردینے کے مترادف ہے۔ جبکہ تمام اہل علم اس پر متفق ہیں کہ قول باری ( واستشھدوا شھدین من رجالکم) اور قول باری ( ممن ترضون من الشھداء) میں دیہاتی بھی مراد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کی بیان کردہ شرط کی بنیاد پر دیہاتی کی دیہاتی پر گواہی کے جاز کے سب قائل ہیں۔ جب آیت میں دیہاتی بھی مراد ہیں تو پھر آیت شہری پر دیہاتی کی گواہی کے جواز کی اس طرح متقضی ہے جس طرح دیہاتوں کی ایک دوسرے پر گواہی کے جواز کی اور جس طرح دیہاتیوں کی ایک دوسرے پر گواہی کے جواز کی اور جس طرح شہری کی دیہاتی پر گواہی کے جواز کی۔ اگر یہ لوگ اس حدیث سے استدلال کریں جس کی ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں حسین بن اسحاق تستری نے، انہیں حرملہ بن یحییٰ نے، انہیں ابن وہب نے، انہیں نافع بن یزید بن الہاد نے محمد بن عمرو سے، انہوں نے عطاء بن یسار سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ آپ نے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہفرماتے ہوئے سنا تھا کہ ( لا تجوز شھادۃ بدی علی صاحب قریہ کسی بدو یعنی دیہاتی کی کسی صاحب قریہ یعنی شہری پر گواہی جائز نہیں ہے) تو اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ اس جیسی روایت کے ذریعہ ظاہر قرآن پر اعتراض کرنا بجا نہیں ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ اس میں زخموں اور زخموں کے علاوہ دوسری باتوں کے سلسلے میں دی جانیوالی گواہیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ نیز شہری کے سفر یا حضر کی حالت میں ہونے کے درمیان بھی کوئی فرق نہیں ہے۔ اس لیے جو شخص اس روایت سے اپنے مسلک کے حق میں استدلال کرے گا وہ خود اس کے عموم کی خلاف ورزی کا مرتکب قرارپائے گا۔ سماک بن حرب نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک اعرابی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آکر رویت ہلال کے متعلق گواہی دی۔ آپ نے حضرت بلال (رض) کو حکم دیا کہ لوگوں میں کل کے روزے کے اعلان کردیں، اس طرح آپ نے اسی بدو کی گواہی قبول کرتے ہوئے لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دے دیا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک بدو نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر گواہی دی لیکن آپ کو اس کی گواہی کے خلاف حقیقت حال کا علم ہوگیا جس سے اس کی یہ گواہی باطل ہوگئی چناچہ آپ نے اس کی اطلاع دے دی۔ اس روایت سے یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدو کی گواہی کو مطلقاً باطل قرار دیا تھا بلکہ اس خاص واقعہ میں اسے رد کردینے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو اس کے غلط ہونے کا علم ہوگیا تھا تاہم جب راوی نے یہ روایت نقل کی تو اس نے گواہی رد کرنے کے سبب کو بیان نہیں کیا۔ اس میں یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے اس زمانے میں یہ گواہی ردکردی ہو جب بدووں پر شرک اور نفاق کا غلبہ تھا جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے۔ چناچہ ارشاد ہے ( ومن الاعراب من یتخذما ینفق مغرماً و یتربص بکم الدوا ئر۔ ان بدوی عربوں میں ایسے ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو راہ خدا میں کچھ خرچ کرتے ہیں اور اسے اپنے اوپر زبردستی کی چٹی سمجھتے ہیں اور تمہارے حق میں زمانہ کی گردشوں کا انتظار کررہے ہیں) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے بدوئوں کی گواہی قبول کرنے سے منع فرمادیا۔ اللہ تعالیٰ نے بدوئوں کے ایک اور گروہ کا بھی ذکر کیا ہے اور ان کی تعریف بھی کی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری (ومن الاعراب من یومن باللہ والیوم الاخرۃ ویتخذما ینفق قربات عند اللہ وصلوت الرسول اور انہیں بدوئوں میں سے ایسے بھی ہے جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے ہاں تقرب کا اور رسول کی طرف سے رحمت کی دعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں) جس بدو کی یہ صفت ہو وہ اللہ اور مسلمان کے نزدیک پسندیدہ ہے اور اس کی گواہی بھی قابل قبول ہوگی۔ اگر ایک دیہاتی کی شہری پر گواہی قابل قبول نہیں ہوگی تو اس کی وجہ یا تو یہ ہوگی کہ اس کی دینداری مطعون و مشرک ہے یا وہ شہادات کے احکامات سے بہرہ اور درست اور غلط گواہیوں سے ناواقف ہے۔ اگر پہلی صورت ہے تو اس کی گواہی کے بطلان کے متعلق کسی کو اختلاف نہیں بلکہ اس بارے میں شہری اور دیہاتی کے حکم میں کوئی فرق نہیں اور اگر دوسری صورت ہے تو پھر یہ واجب ہے کہ ایسے دیہاتی کی دیہاتی پر بھی گواہی قابل قبول نہ ہو۔ نیز زخموں کے متعلق اور سفر کی حالت میں شہری پر بھی اس کی گواہی قبول نہ کی جائے جس طرح کہ اس قسم کے شہری کی گواہی بھی ناقابل ہوتی ہے۔ نیز اس سے یہ لازم آتا ہے کہ دیہاتی جب عادل اور گواہی کے احکام سے واقف ہو شہری اور غیر شہری پر اس کی گواہی قبول کرلی جائے اس لیے کہ اس صورت میں اس سے وہ خرابی زائل ہوچکی ہوتی ہے جس کی بنا پر اس کی گواہی کی قبولیت ممتنع ہوگئی تھی۔ نیز اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ اس کی بدویت اور بددیت کی طرف اس کی نسبت کو اس کی گواہی کے رد کرنے کی علت قرار نہ دی جائے جس طرح شہریت کی طرف نسبت کسی شہری کی گواہی کے جواز کی علت قرار نہیں دی جاتی جبکہ اس میں وہ صفات نہ پائی جاتی ہوں جو گواہی کے جواز کے لیے شرط ہیں۔ قول یاری ہے ( فان یکونا رجلین فرجل وامراتان اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوجائیں) ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنیادی طور پر دو گواہوں کے گواہ بنائے جانے کو واجب کردیا۔ یاد رہے کہ آیت میں وارد لفظ ( شھیدین) کے معنی ” الشا ھدان “ یعنی دو گواہ ہیں۔ اس لیے کہ لفظ شہید اور شاہد دونوں ہم معنی ہیں۔ جس طرح عالم اور علیم نیز قادر اور قدیر ہم معنی ہیں۔ پھر اس پر ( فان لم یکونا رجلین فرجل وامر اتان) کو عطف کردیا یعنی اگر دو مرد گواہ نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بن جائیں۔ یہاں قول باری ( فان لم یکونا رجلین) سے یا تو یہ مراد ہے کہ اگر دو مرد نہ ملیں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوجائیں جیسا کہ اس قول باری ( فان لو تجدوا ماء فتیمموا صعیداً اگر تمہیں پانی نہ ملے تو پھر مٹی کا قصد کرو یعنی تیمم کرو) کا مفہوم ہے یا جس طرح یہ قول باری ہے۔ ( ف تحریر رقبۃ من قبل ان یتماسا۔ ایک غلام آزاد کریں قبل اس کے کہ وہ ایک دوسرے کو مس کریں) پھر فرمایا (فمن لم یجد فصیام شھرین جسے یہ میسر نہ ہتو اس پر دو ماہ کے روزے ہیں) تا قول باری ( فمن لم یستطیع فاطعام ستین مسکیناً جسے اس کی استطاعت نہ ہو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے ) یا اسی طرح کی اور آیتیں جن میں بدل کو اصل فرض کے قائم مقام بنادیا گیا ہے جبکہ اصل فرض معدوم یا میسر نہ ہو۔ یا قول باری ( فان لم یکونا رجلین) سے یہ مراد ہے کہ اگر دونوں گواہ مرد نہ ہوں تو پھر یہ دونوں ایک مرد اور دو عورتیں ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ نے آیت کے ذریعے ہمیں ایک مرد اور دو عورتوں پر شاہدین کے اسم کے اطلاق واثبات کے متعلق آگاہ کردیا تاکہ تمام حقوق کے سلسلے میں اس اسم کے موم کے تحت ایک مرد کے ساتھ دو عورتوں کی گواہی کے جواز کا اعتبار کیا جائے۔ البتہ ایسے حقوق میں ان کی گواہی کا اعتبار نہیں کیا جائے گا جن کے متعلق دوسرے شرعی دلائل موجود ہوں جو عورتوں کی گواہی کے لیے مانع ہوں۔ جب تمام اہل اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ دو مردوں کی عدم موجودگی کی صورت میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کا دو مردوں کی گواہی کے قائم مقام ہوناجائز ہے تو اس سے دوسری صورت کا ثبوت ہوگیا۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ ایک مرد اور دو عورتوں کو دو گواہوں کے نام سے موسوم کیا جائے۔ اس طرح یہ ایک شرعی نام بن گیا جس کا ان تمام صورتوں میں اعتبار کرنا واجب ہے جہاں ہمیں دو گواہوں کی گواہی کا حکم دیا گیا ہے۔ البتہ اس میں وہ صورت شامل نہیں ہوگی جہاں اس کے خلاف دلیل قائم ہوچکی ہو۔ اس لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول ( لا نکاح الا بولی وشاھدین کوئی نکاح ولی اور دو گواہوں کے بغیر منعقد نہیں ہوتا) میں اس کے عموم سے استدلال کرنا صحیح ہوگا اور ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کی بنا پر نکاح اور اس کا حکم ثابت کرنا درست ہوگا کیونکہ ایک مرد اور دو عورتوں کو دو گواہوں کا اسم لاحق ہوچکا ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو گواہوں کی گواہی کی بنیادپر نکاح کو جائز کردیا ہے۔ مالی معاملات کے علاو ہ عورتوں کی گواہی مالی معاملات کے علاوہ دوسرے معاملات کے سلسلے میں مردوں کے ساتھ عورتوں کی گواہی کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد ، زفر اور عثمان البتی کا قول ہے کہ مردوں کے ساتھ عورتوں کی گواہی نہ تو حدود میں قبول کی جائے گی اور نہ ہی قصاص میں ۔ ان کے علاوہ بقیہ تمام حقوق میں قبول کی جائے گی۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں بشر بن موسیٰ نے، انہیں یحییٰ بن عباد نے، انہیں شعبہ نے حجاج ارطاۃ سے، انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے کہ حضرت عمر (رض) نے ایک نکاح کے سلسلے میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کو جائز قرار دیا تھا۔ اسرائیل نے عبد الاعلیٰ سے، انہوں نے محمد بن الحقیقہ سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا : عقد میں عورتوں کی گواہی جائز ہے۔ جریر بن حازم نے زبیر بن الحریث سے، انہوں نے ابو لبید سے روایت کی کہ حضرت عمر (رض) نے ایک طلاق کے سلسلے میں عورتوں کی گواہی کو جائز قرار دیا ۔ حجاج نے عطاء سے روایت کی کہ حضرت ابن عمر (رض) نکاح کے انعقاد کے سلسلے میں ایک مرد کے ساتھ عورتوں کی گواہی کو جائز قرار دیتے تھے۔ عطاء سے مروی ہے کہ وہ طلاق کے سلسلے میں عورتوں کی گواہی کو جائز سمجھتے تھے۔ عون سے مروی ہے کہ انہوں نے شعبی سے اور شعبی نے قاضی شریح سے روایت کی ہے کہ قاضی صاحب عتیق یعنی غلام آزاد کرنے کے سلسلے میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کو قابل قبول سمجھتے تھے۔ طلاق کے سلسلے میں شعبی کا بھی یہی قول ہے۔ حسن بصری اور ضحاک سے مروی ہے کہ دین اور ولد کے علاوہ کسی چیز میں بھی عورتوں کی گواہی قابل قبول نہیں ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ مردوں کے ساتھ عورتوں کی گواہی نہ تو حدود میں قابل قبول ہے نہ قصاص میں، نہ نکاح میں، نہ طلاق میں، نہ نسب میں نہ ولاء میں اور نہ ہی احصان میں۔ البتہ وکالت اور وصیت کے سلسلے میں ان کی گواہی قابل قبول ہے بشرطیکہ وصیت میں غلام آزاد کرنے کی کوئی بات نہ ہو۔ سفیان ثوری سے مروی ہے کہ حدود کے سوا بقیہ تمام معاملات میں ان کی گواہی جائز ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ قصاص میں بھی جائز نہیں ہے۔ حسن بن حی کا قول ہے کہ حدود میں عورتوں کی گواہی جائز نہیں ہے۔ اوزاعی کا قول ہے کہ نکاح کے انعقاد میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی جائز نہیں ہے۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ وصیت اور عتق میں عورتوں کی گواہی درست ہے لیکن نکاح، طلاق، حدود اور قتل عمد میں جس کے اندر بدلہ لیا جاتا ہو اس کی گواہی درست نہیں ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ مالی معاملات کے سوا مردوں کے ساتھ عورتوں کی گواہی جائز نہیں ہے۔ وصیت میں صرف مرد کی گواہی جائز ہیالبتہ مال کی وصیت کی صورت میں عورتوں کی گواہی بھی درست ہے۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت ادھار لین دین کے تمام عقود میں مردوں کے ساتھ عورتوں کی گواہی کے جواز کا متقاضی ہے عقد مدانیت یعنی ادھار لین دین ہر اس عقد کو کہتے ہیں جس کا انعقاد ادھار پر ہو خواہ اس کا بدل مال ہو یا سامان یا منفعت یا دم عمد کیونکہ دم عقد بھی ایسا عقد ہے جس میں دین یا ادھار ہوتا ہے۔ یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ قول باری ( اذا تداینتم بدین الی اجل مسمیً ) میں آیت کی مراد یہ نہیں ہے کہ جن دو بدل ( مبیع اور ثمن) پر سودا کیا گیا ہے وہ دونوں کے دونوں دین یعنی ادھار ہوں۔ اس لیے کہ ایک متعین مدت تک اس قسم کے سودے کا جواز ممتنع ہے۔ اس بنا پر یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایک بدل یعنی مبیع یا ثمن دین کی صورت میں ہو۔ خواہ وہ دین کسی بھی قسم کا کیوں نہ ہو۔ یہ چیز مہر موجل والے عقد نکاح میں ایک مرد کے ساتھ دو عورتوں کی گواہی کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ یہ عقد مدانیت کی ایک صورت ہے اسی طرح قتل عمد میں صلح، مال پر خلع اور اجارہ کی صورتوں کی کیفیت ہے کہ یہ سب عقد مدانیت کی مختلف شکلیں ہیں ۔ اس لیے جو شخص یہ دعویٰ کرے گا کہ ان عقود میں سے کوئی سا بھی عقد ظاہر آیت کے دائرے سے باہر ہے اس کا یہ دعویٰ دلیل کے بغیر تسلیم نہیں کیا جائے گا اس لیے کہ آیت کا عموم ان تمام صورتوں میں اس کے جواز کا متقضی ہے۔ مالی معاملات کے علاوہ دوسرے معاملات میں بھی عورتوں کی گواہی کے جواز پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جس کی عبدالباقی بن قانع نے ہم سے روایت کی، انہیں احمد بن القاسم جوہری نے، انہیں محمد بن ابراہیم نے جو ابو معمر کے بھائی تھے، انہیں محمد بن الحسن بن ابی یزید نے اعمش سے، انہوں نے ابو وائل سے، انہوں نے حضرت حذیفہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دائی کی گواہی کو جائز قرار دیا۔ یہ بات تو ظاہر ہے کہ ولادت مال نہیں ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس معاملے میں عورت کی گواہی کو جائز قرار دیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں کی گواہی صرف مالی معاملات تک محدود نہیں ہے۔ ولادت یعنی بچے کی پیدائش اور ا س سے متعلقہ امور میں عورتوں کی گواہی کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اختلاف صرف تعداد میں ہے۔ نیز جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ ” شھدین “ ( دوگواہ) کے اسم کا شرعی لحاظ سے ایک مرد اور دو عورتوں پر اطلاق ہوتا ہے اور یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ البینۃ ( ثبوت، گواہی وغیرہ) کا اسم بھی دوگواہوں کو شامل ہے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول ( البینۃ علی المدعی والیمین علی المدعیٰ علیہ ثبوت اور گواہی پیش کرنے کی ذمہ داری مدعی پر ہے اور قسم کھانے کی ذمہ داری مدعی علیہ پر ہے) کے عموم سے یہ بات ضروری ہوجاتی ہے کہ قسم کے دعوے میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کی بنیاد پر مقدمے کا فیصلہ کردیاجائے کیونکہ البینۃ کا اسم ان سب کو شامل ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ مالی معاملات میں یہ گواہی بینۃ یعنی ثبوت کا درجہ رکھتی ہے جب اس قسم کی گواہی پر البینۃ کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے تو اس کے موم کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر مدعی کے لیے اسے قبول کرلینا واجب ہے۔ ہاں اگر کوئی ایسی دلالت قائم ہوجائے جو بعض صورتوں کی تخصیص کا تقاضا کرے تو اور بات ہے۔ ہم نے حدود اور قصاص کی تخصیص زہری کی اس روایت کی بنا پر کی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ : حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے بعد پہلے دوخلفاء راشدین کی یہی سنت اور یہی طریق کا رہا ہے کہ حدود اور قصا ص میں عورتوں کی گواہی جائز نہیں ہے۔ نیز جب دیون میں ایک مرد کے ساتھ عورتوں کی گواہی قبول کرلینے پر سب کا اتفاق ہے تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ اس قسم کی گواہی پر اس حق کے بارے میں قبول کرلی جائے جو شبہ کی بنا پر ساقط نہیں ہوتا کیونکہ دین ایسا حق ہے جو شبہ کی بنا پر ساقط نہیں ہوتا۔ غیر مالی معاملات میں عورتوں کی گواہی کے جواز پر آیت قرآنی کی بھی دلالت ہورہی ہے وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے مدت کے معاملے میں اس گواہی کو جائز قرار دیا ہے۔ چناچہ ارشاد باری ہے ( اذا تداینتم بدین الی اجل مسمیً فاکتبوہ) پھر ارشاد ہوا ( فان یکونا رجلین فرجل وامراتان) اس طرح مدت کے معاملے میں ایک مرد کے ساتھ عورت کی گواہی کو جائز قرار دیا حالانکہ مدت مال نہیں ہے لیکن مال کے معاملے کی طرح مدت کے معاملے میں بھی عورت کی گواہی جائز قرار دی گئی۔ اگر یہ کہاجائے کہ مدت تو مال میں ہی واجب ہوتی ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ بات غلط ہے کیونکہ مدت بھی جان کی کفالت اور آزاد مردوں سے منافع حاصل کرنے کے اندر بھی واقع ہوتی ہے جواز قسم مال نہیں ہوتے۔ بعض دفعہ قتل کے مقدمے میں حاکم مدعی کو قتل کا نیز اولیاء مقتول کی طرف سے قاتل کو معاف کردینے کے دعوعے کا ثبوت پیش کرنے کے لیے اتنی مدت کی مہلت دے دیتا ہے جس میں پیش قدمی ممکن ہوسکے۔ اس لیے معترض کا یہ کہنا کہ مدت صرف مال کے اندر ہوتی ہے درست نہیں ہے۔ اس کے باوجود ہم یہ کہتے ہیں کہ ملک بضع یعنی عورت کے ساتھ نکاح کی بنیاد پر جنسی تعلق قائم کرنے اور اسکی شرمگاہ کو اپنے لیے حلال کرنے کا عمل بھی مال کے بدلے میں ہوتا ہے اور نکاح کا انعقاد بھی مال کے ذریعے ہوتا ہے اس لیے ان میں عورتوں کی گواہی کا جواز ہونا چاہیے۔ قول باری ( ممن ترضون من الشھداء ان گواہوں میں سے جن سے تم راضی ہو) اس پر وال ہے کہ گواہوں کی تعدیل کا کام یعنی چھان بین کے ذریعے ان کی امانت و دیانت معلوم کرنا اور انہیں عادل قرار دینا ہماری رائے کے اجتہاد کے سپرد کردیا گیا ہے۔ نیز ان کی عدالت اور سلامت روی کا معاملہ بھی ہمارے ظن غالب کے حوالے کردیا گیا ہے۔ اس لیے اس بات کی گنجائش پیدا ہوگئی ہے کہ ایک گواہ کی عدالت اور دیانت بعض لوگوں کے ہاں ان کے ظن غالب کی بنا پر پسندیدہ نہ ہو اور وہ ان کے نزدیک پسندیدہ ہو جبکہ بعض دوسروں کے نزدیک ان کے ظن غالب کی بنا پر پسندیدہ نہ ہو اس لیے قول باری ( ممن ترضون من الشھداء) ظن غالب اور رائے کے جھکائو پر مبنی ہے تاہم گواہی کا معاملہ جن امور پر مبنی ہے وہ تین ہیں اول عدالت دوم نفی تہمت خواہ عادل ہی کیوں نہ ہو اور سوم بیدار مغزی، قوت حافظہ اور قلت غفلت۔ عدالت کی بنیاد ایمان، کبائر سے اجتناب، واجبات و مسنونات ہیں اللہ کے حقوق کی نگہداشت، صدق لسان، امانت و دیانت ہے نیز اسے کسی پر زنا کی جھوٹی تہمت لگانے کی بنا پر حد قذف نہ لگی ہو۔ نفی تہمت کا مفہوم یہ ہے کہ وہ جس کے متعلق گواہی دے رہا ہے وہ نہ اس کا باپ ہو، نہ بیٹا، نہ شوہر اور نہ بیوی، نیز یہ کہ اس نے کبھی اس قسم کی گواہی نہ دی ہو کہ اس کی یہ گواہی کسی تہمت کی بنا پر رد کردی گئی ہو۔ ان مذکورہ بالا لوگوں کے حق میں گواہی قابل قبول نہیں ہوگی۔ خواہ گواہ عادل اور پسندیدہ ہی کیوں نہ ہوں۔ تیسری چیز یعنی بیدار مغزی، قوت حافظہ اور قلت غفلت تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ غفلت کا مارا نہ ہو کہ صورت حال کا پتہ ہی نہ رکھتا ہو اور اسے معاملات کی نا تجربہ کاری کی بنا پر آسانی سے پٹی پڑھائی جاسکتی ہو اس لیے کہ ایسے لوگوں کو بعض دفعہ ایک گھڑی گھڑائی رٹا دی جاتی ہے اور پھر وہ اسے عدالت کے سامنے دہرا دیتے ہیں۔ ابن رستم نے امام محمد بن الحسن سے روایت کی ہے کہ آپ نے ایک عجمی شخص کے متعلق جو بڑا ہی نمازی اور بہت زیادہ روزے رکھتا تھا لیکن بنیادی طور پر بڑا ہی بیخبر اور سادہ لوح تھا اور خطرہ یہ رہتا کہ اسے آسانی سے پٹی پڑھائی جاسکتی ہے، نیز فرمایا کہ گواہی کے معاملے میں یہ فاسق سے بھی بدتر ہے۔ ہمیں بعدالرحمن بن سیما المبحر نے روایت بیان کی، انہیں عبداللہ بن احمد نے، انہیں ان کے والد نے، انہیں اسود بن عامرنے، انہیں ابن ہلال نے اشعث حدانی سے کہ ایک شخص نے حسن بصری سے شکایت کی کہ قاضی شہر ایاس نے میری گواہی رد کردی۔ حسن بصری اس شخص کے ساتھ اٹھ کر قاضی صاحب کے پاس چلے گئے اور ان سے گواہی قبول نہ کرنے کی وجہ پوچھی اور ساتھ ہی یہ حدیث سنائی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ( من استقبل قبلتنا واکل من ذبیحتنا فذلک المسلم الذی لہ ذمۃ اللہ فدمۃ رسولہ جس نے ہمارے قبلے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی اور ہمارے ذبح کیے ہوئے جانور کا گوشت کھالیا تو وہ مسلمان ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اس کی ذمہ داری لی گئی ہے۔ یہ سن کر ایاس نے کہا، بزرگو، آپ نے یہ آیت نہیں سنی ( ممن ترضون من الشھداء) اور آپ کا رفیق ہماری نظروں میں پسندیدہ نہیں ہے “ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی، انہیں ابوبکر محمد بن عبدالوہاب نے اور انہیں السری بن عاصم نے اپنی سند سے کہ انہوں نے ایاس بن معاویہ کے پاس حسن بصری کے شناسائوں میں سے ایک شخص کو دیکھا تھا جس کی گواہی ایاس نے رد کردی۔ یہ خبر حسن کو پہنچی تو انہیں بڑا غصہ آیا اور اپنے رفقاء کو لے کر ایاس کے پاس پہنچ گئے اور غضبناک ہو کر ان سے گویا ہوئے کہ تم نے ایک مسلمان کی گواہی رد کردی انہوں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے ان کی توج آیت ( ممن ترضون من الشھداء) کی طرف دلائی اور کہا کہ میری نظروں میں یہ پسندیدگی کی ایک شرط یہ ہے کہ گواہ بیدار مغز ہو، جو کچھ سنے اسے اپنے حافظہ میں محفوظ کرلے اور پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ گوہی دے۔ بشرین الولید نے امام ابو یوسف سے عدل کی توضیح میں بہت سے باتیں نقل کی ہیں۔ ایک یہ کہ عدالت کی صفت اس شخص میں پائی جائے گی جوان گناہوں سے بچتا ہو جن میں حدود لازم ہوجاتی ہیں اور اس قسم کے دوسرے گناہوں سے بھی پرہیز کرتا ہو جو کبائر کہلاتے ہیں۔ فرائض کی ادائیگی کرتا ہو اور اس کی ذات میں نیکی کی باتیں چھوٹے چھوٹے معاصی سے بڑھ کر ہوں۔ امام ابو یوسف نے فرمایا کہ ایسے شخص کی گواہی ہم قبول کرلیں گے۔ اس لیے کہ کوئی شخص گناہوں سے بچ نہیں سکتا، اگر اس کے اندر گناہ کی باتیں نیکی کی باتوں سے بڑھ کر ہوں گی تو اس کی گواہی رد کردیں گے۔ ہم اس شخص کی گواہی قبول نہیں کریں جو شطرنج کھیلتا اور اس پر جوئے کی بازی لگاتا ہو، نہ ہی اس شخص کی جو کبوتر باز ی کا شوقین ہو اور کبوتر بازی کا مشغلہ اپنائے ہوئے ہو نہ اس شخص کی جو بہت زیادہ جھوٹی قسمیں کھاتا ہو۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے نماز با جماعت ترک کردی اور اس کی وجہ جماعت کی اہمیت کو نظرانداز کرنا یا فسق و فجور یا ٹھٹھا مخمول ہو تو ایسے شخص کی گواہی جائز نہیں ہوگی۔ اگر وہ کسی تاویل کی بنا پر نماز با جماعت کا تارک ہوگیا اور بقیہ باتوں میں وہ صفت عدل سے متصف ہو تو اس کی گواہی قبول کرلی جائے گی۔ اگر وہ مسلسل صبح کی نماز با جماعت ترک کرے تو اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح اگر کسی شخص کی دروغ گوئی معروف و مشہور ہو تو ہم اس کی گواہی رد کردیں گے اگر وہ اس میں مشہور نہ ہو بلکہ کبھی کبھار وہ اس کا ارتکاب کرتا ہو لیکن اس کی ذات میں خیر کا پہلو شر کے پہلو سے بڑھ کر ہو تو اس کی گواہی قابل قبول ہوگی۔ اس لیے کوئی شخص گناہوں سے بچ نہیں سکتا بشرین الولید نے مزید کہا کہ امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف اور ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ اہل ہوا و ہوس یعنی بندگان نفس اگر صفت عدل سے متصف ہوں تو ان کی گوہی قابل قبول نہ ہوگی۔ البتہ راففیوں یعنی شعیوں کا ایک گروہ جو خطابیہ کے نام سے مشہور ہے۔ مجھے ان کے متعلق اطلاع ملی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے حلف اٹھا لیتے ہیں، گواہی دے دیتے ہیں نیز ایک دوسرے کی تصدیق بھی کردیتے ہیں۔ اسی بنا پر میں نے ان کی گواہی کو باطل قرار دے دیا ہے۔ امام ابو یوسف نے مزید فرمایا کہ جو شخص اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف بد زبانی کرے گا اس کی گواہی بھی ناقابل قبول ہوگی اس لیے کہ اگر کوئی شخص عام لوگوں اور پڑوسیوں سے بدکلامی اور بد زبانی کرتا ہے تو میں اس کی گواہی رد کردیتا ہوں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو بہر حال عام لوگوں سے درجے میں بلند اور مرتبے میں بڑھ کر ہیں۔ امام ابو یوسف نے مزید فرمایا کہ آپ نہیں دیکھتے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اگرچہ آپس میں لڑائیاں بھی ہوتی رہیں، گردنیں بھی اترتی رہیں لیکن دونوں فریقوں کی گواہی قابل قبول رہی اس لیے کہ یہ جنگ وجدل تاویل (یعنی وجہ شرعی جیسے ہر فریق نے اپنے خیال کے مطابق درست سمجھ رکھا تھا) کی بنا پر ہوئی تھی۔ یہی مسئلہ ان بندگان نفس کا ہے جو اپنے لیے کوئی نہ کوئی وجہ نکال لیتے ہیں جس شخص کے متعلق لوگوں سے دریافت کرنے پر یہ جواب ملے کہ ہم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سب و شتم میں ملوث پاتے ہیں تو میں ان کی یہ بات اس وقت تک تسلیم نہیں کروں گا جب تک کہ وہ یہ نہ کہہ دیں کہ ہم نے اپنے کانوں سے اب سب وشتم کرتے ہوئے سنا ہے اگر لوگ کسی کے متعلق یہ کہیں کہ ہم اس پر فسق و فجور کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ہمارا خیال یہ ہے اگرچہ ہم نے اس کا فسق و فجور دیکھا نہیں ہے تو میں ان کی بات قبول کرتے ہوئے اس شخص کی گواہی کو جائز قرار نہیں دوں گا۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ اگر لوگ کسی شخص کے متعلق یہ کہیں کہ ہم اس پر سب وشتم کا الزام عائد نہیں کرتے تو وہ کہہ کر اس کے لیے صلاح اور نیکی کا اثبات کرتے ہیں اور جس کے متعلق یہ کہیں کہ ہم اس پر سب وشتم کا الزام عائد کرتے ہیں تو ان کی یہ بات سماع کے بغیر قبول نہیں کی جائے گی اور جس کے متعلق یہ کہیں کہ ہم اس پر فسق و فجور کا الزام دھرتے ہیں اور اس کے بارے میں ہمارا یہ خیال ہے اگرچہ ہم نے اس میں فسق و فجور کی کوئی بات نہیں دیکھی ہے تو میں ان کی یہ بات قبول کرلوں گا اور اس کی گواہی کو جائز قرار نہیں دوں گا ۔ اگرچہ لوگ اس کی عدالت اور نیکی کا ثبوت بھی پیش کردیں۔ ابن رستم نے امام محمد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ میں خوراج کی گواہی قبول نہیں کروں گا کیونکہ انہوں نے بغاوت کر کے مسلمانوں سے قتال کیا تھا۔ ابن رستم کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد سے دریافت کیا کہ آپ ان کے ایک حووریہ کی گواہی کو جائز قرار دیتے ہیں ان کی گواہی کیوں جائز قرار نہیں دیتے ۔ جواب میں اما م محمد نے فرمایا ۔ جب تک انہوں نے خروج نہیں کیا اس وقت تک یہ ہمارے اموال کو اپنے لیے حلال نہیں سمجھتے تھے لیکن جب انہوں نے خروج کیا تو ہمارے اموال کو اپنے لیے جائز سمجھنے لگے ۔ اسی لیے جب تک انہوں نے خروج نہیں کیا تھا ان کی گواہی جائز تھی۔ ہمیں ابوبکر مکروم بن احمد نے روایت بیان کی اور انہیں احمد بن عطیہ الکوفی نے کہ میں نے محمد بن سماعہ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ میں نے امام ابو یوسف سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے امام ابوحنیفہ سے یہ سنا ہے کہ حاکم وقت پر بخیل کی گواہی قبول کرلینا واجب نہیں ہے اس لیے کہ اس کے بخل کی شدت اسے بال کی کھال نکالنے پر مجبور کرتی ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ نقصان اٹھانے کے خوف سے اپنے حق سے زیادہ لے لیتا ہے ، اس لیے جس شخص کی یہ کیفیت ہوگی وہ عادل نہیں ہوسکتا۔ میں نے حماد بن ابی سلیمان سے سنا ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے ابراہیم نخعی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضر ت علی (رض) نے فرمایا : لوگو ! میانہ روی اختیار کرو نہ تو بخیل بنو اور نہ ہی کمینے ، بخیل اور کمینے لوگوں پر جب کسی کا حق ہوتا ہے وہ اسے ادا نہیں کرتے اور اگر کسی سے حق لینا ہو تو پورا پورا وصولی کرتے ہیں ۔ مومن کی فطرت میں یہ بات نہیں ہوتی ۔ شریف اور اعلیٰ اخلاق کا مالک انسان کبھی سر چڑھ کر اپناحق وصول نہیں کرتا ۔ قول باری ہے عرف بعضہ و اعرض عن بعض اس کا کچھ حصہ بتلا دیا اور کچھ کو ٹال گئے ہمیں مکرم بن احمد نے روایت بیان کی ، انہیں احمد بن حمد بن المغلس نے ، انہوں نے الجمانی سے سنا، انہوں نے عبد اللہ بن المبارک کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے امام ابوحنیفہ کو سنا کہ انہوں نے فرمایا جس شخص کے اندر بخل ہوا س کی گواہی جائز نہیں ۔ اس کا بخل اسے تقصی یعنی چھان بین کرنے اور بال کی کھال اتارنے پر مجبور کرتا ہے اور وہ اس عادت کی بنا پر ڈرتا رہتا ہے کہ نقصان نہ ہوجائے جس کے تحت وہ اپنے حق سے زیادہ لے لیتا ہے ۔ ایسا آدمی عادل نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح کی ایک روایت یا اس بن معاویہ سے بھی منقول ہ۔ ابن لہینہ نے ابو الاسود محمد بن عبد الرحمن سے یہ نقل کیا ہے کہ میں نے ایا س بن معاویہ سے پوچھا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ عراق کے اشراف کی گواہی کو جائز قرار نہیں دینے ، نیز بخیلوں اور سمندر کے راستے تجارت کرنے والوں کی گواہی کو بھی قبول نہیں کرتے۔ انہوں نے جواب میں اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ ہندوستان کی طرف بغرض تجارت بحری سفر کرتے ہیں وہ دنیا کی لالچ اور طمع میں آ کر اپنے دین کو خطرے میں ڈالتے اور اپنے دشمنوں میں اضافہ کرتے ہیں ۔ مجھے اس چیز کا علم ہے کہ ان لوگوں کی نفسیات یہ بن چکی ہیں کہ اگر ان میں سے کسی کو دو درہم دے کر گواہی دینے کے لیے کہا جائے تو وہ اس کے لیے تیار ہوجائے گا اور اسے گناہ تصور نہیں کرے گا اور نہ ہی اسے اپنے دین کو خطرے میں ڈالنے کی بات خیال کرے گا جو لوگ فارس کے دیہاتوں میں چل پھر کر تجارت کرتے ہیں وہ وہاں کے لوگوں کو سود کھلاتے ہیں جبکہ انہیں اس کا علم بھی ہ۔ اس لیے میں نے سود خو وروں کی گواہی کو جائز قرار دینے سے انکار کردیا۔ عراق کے اشراف کا یہ حال ہے کہ جب ان میں سے کسی پر یہ مصیبت آتی ہے تو وہ اپنی قوم کے سردار کے پاس آ جاتا ہے۔ وہاں اس کے حق میں گواہیاں دی جاتی ہیں اور اس کی سفارش کی جاتی ہے۔ اس لیے میں نے عید الاعلیٰ بن عبد اللہ بن عامر کو یہ پیغام بھیج دیا تھا کہ وہ میرے پاس کوئی گواہی لے کر نہ آئے۔ سلف سے ایسے لوگوں کی گواہی رد کردینے کی روایت منقول ہے جن سے ایسی حرکات کا ظہور ہو جن کے مرتکب لوگوں کے متعلق قطعی طور پر فاسق و فاجر ہونے کا حکم تو نہ لگایا جاسکتا ہو لیکن ان کی یہ حرکتیں کم عقلی یا بےحیائی پر دلالت کرتی ہوں ۔ سلف نے ایسے کی گواہی رد کردینے کا مسلک اختیار کیا ۔ ڈاڑھی کے بال اکھاڑ دینے والے کی گواہی اس سلسلے میں ایک روایت عبد الرحمن بن سیما نے بیان کی ، انہیں عبد اللہ بن احمد نے ، انہیں محمود بن خداش نے ، انہیں زید بن الحباب نے ، انہیں دائود بن حاتم البصری نے بتایا کہ حاکم بصرہ بلال بن ابی بردہ ایسے شخص کی گواہی کو جائز قرار نہیں دیتے تھے جو مٹی کھاتا ہو یا اپنی ڈاڑھی کے بال اکھیڑتا ہو۔ ہمیں عبد الباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں حماد بن محمد نے ، انہیں شریح نے ، انہیں یحییٰ بن سلیمان نے ابن جریج سے کہ مکہ مکرمہ کے ایک شخص نے حضرت عمرو بن عبد العزیز کے پاس کسی بات کی گواہی دی ۔ یہ شخص اپنی ڈاڑھی کے بال اکھیڑ دیتا اور اپنی ڈاڑھی اور مونچھوں کے ارد گرد کے حصوں کو مونڈ دیتا تھا۔ حضرت عمربن عبدالعزیز نے اس سے اس کا نام پوچھا جب اس نے اپنا نام بتایا تو آپ نے فرمایا کہ تیرا نام یہ نہیں ہے بلکہ یہ نہیں ہے بلکہ تیرا نام ناتف بال اکھیڑنے والا ہے یہ کہہ کر آپ نے اس کی گواہی رد کردی ۔ ہمیں عبد الباقی نے یہ روایت بیان کی ، انہیں عبد اللہ بن احمد سعد نے ، انہیں اسحاق بن ابراہیم نے ، انہیں عبد الرحمن بن محمد نے جعد بن ذاکوان سے کہ ایک شخص نے قاضی شریح کی عدالت میں اپنے ایک گواہ کا نام لے کر پکارا ، گواہ کا نام ربیعہ تھا لیکن گواہ نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ اس نے اسے اے کا قرریعیہ کہہ کر آواز دی تو وہ بول پڑا ۔ اس پر قاضی شریح نے اس سے کہا کہ جب تمہارا نام لے کر تمہیں پکارا گیا تو تم نے جواب نہیں دیا ۔ جب کفر کے نام سے تمہیں پکارا گیا تو تم بول اٹھے۔ یہ سن کر اس شخص نے قاضی صاحب سے عرض کیا کہ اللہ آپ کا بھلاکرے یہ تو میرا لقب ہے، قاضی صاحب نے یہ سن کر اسے وہاں سے چلے جانے کا حکم دیا اور اس شخص سے کوئی اور گواہ لانے کے لیے کہا ۔ ہمیں عبد الباقی نے روایت بیان کی ، انہیں عبد اللہ بن احمد نے انہیں ان کے والدنے ، انہیں اسماعیل بن ابراہیم نے ، انہیں سعید بن ابی عروبہ نے قتادہ سے ، انہوں نے جابر بن زید سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ اقلف جس کا غتنہ نہ ہوا ہو اس کی گواہی جائز نہیں ۔ حماد بن ابی سلمہ نے ابو المہزم سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ نخاسین یعنی گدھوں کی تجارت کرنے والوں کی گواہی جائز نہیں ہے۔ غلاموں اور جانوروں کے تاجروں کو نخا سین کہا جاتا ہے۔ کبوتر باز کی گواہی قاضی شریح سے منقول ہے کہ وہ کبوتر باز اور کبوتروں کی گواہی کو جائز قرار نہیں دیتے تھے مسعر کی روایت ہے کہ ایک شخص نے قای شریح کی عدالت میں گواہی دی ۔ اس کی قبا کی آستین تنگ تھی ۔ انہوں نے یہ کہہ کر اس کی گواہی رد کردی کہ یہ اس حالت میں وضو کیسے کرتا ہوگا۔ ہمیں عبد الباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں معاذ بن المنتنیٰ نے ، انہیں سلیمان بن حرب نے ، انہیں جریر بن حازم نے اعمش سے ، انہوں نے تمیم بن سلمہ سے کہ ایک شخص نے قاضی شریح کے پاس ان الفاظ میں گواہی دی کہ میں اللہ کی گواہی کے ذریعے گواہی دیتا ہوں ۔ یہ سن کر قاضی صاحب نے فرمایا تو نے اللہ کی گواہی کے ذریعے گواہی دی اس لیے آج میں تیری کسی گواہی کو جائز قرار نہیں دوں گا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب قاضی شریح نے یہ دیکھا کہ یہ شخص گواہی دینے میں خواہ مخواہ ایسا انداز اختیار کررہا ہے جو اس پر لازم نہیں تو انہوں نے اسے اس کا اہل ہی نہیں سمجھا کہ اس کی گواہی قبول کرلی جائے۔ مذکورہ بالا امور ایسے ہیں جن کی وجہ سے سلف نے لوگوں کی گواہیاں رد کردی تھیں لیکن یہ امور ایسے نہیں ہیں کہ ان کے مرتکبین کے متعلق قطعیت کے ساتھ فسق و فجور اور صفت عدالت کے سقوط کا حکم لگا دیا جائے ۔ البتہ ان امور کا ظاہر ان کے مرتکبین کی بےحیائی اور کم عقلی پر دلالت کرتا ہے جس کی وجہ سے سلف نے ان کی گواہیاں ردکر دیں ۔ در حقیقت سلف میں سے ہر ایک نے اپنے اجتہاد اور سمجھ کی روشنی میں قول باری ممن ترضون من الشھد کے ظاہر کی موافقت کی کوشش کی ۔ اس لیے جس کا ظن غالب یہ ہوا کہ فلاں گواہ کے اندر بےحیائی یا کم عقلی یا دین کے معاملے میں استہزاء اور تضحیک کا رویہ ہے اس کی گواہی ساقط کردی ۔ امام محمد کتاب ادب القاضی میں بیان کیا ہے کہ جس شخص کے رویے سے بےحیائی ظاہر ہو میں اس کی گواہی قبول نہیں کروں گا یہ بھی لکھا ہے کہ مخنث کی گواہی جائز نہیں اور نہ ہی کبوتر باز کی ، سفیان بن عینیہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے قاضی ابن ابی لیلیٰ کی عدالت میں گواہی دی ۔ انہوں نے اس کی گواہی رد کردی ۔ میں نے ان سے کہا کہ اس جیسے شخص کی گواہی آپ نے رد کردی جبکہ یہ خود بھی اچھا ہے اور اس کے بیٹے کا حال بھی اچھا ہے ، قاضی صاحب کہنے لگے تمہارے ذہن سے یہ بات کیوں نکل گئی کہ یہ فقیر ہے اور مفلس ہے۔ اس طرح ان کے نزدیک افلاس اور فقر گواہی کے مانع تھا کیونکہ ایسے شخص کے متعلق یہ اطمینان نہیں ہوتا کہ کہیں فقر و تنگدستی اسے مال کی طرف راغب کر کے غلط قسم کی گواہی پر آمادہ نہ کردے۔ اما م مالک کا قول ہے کہ بہت زیادہ چیزیں مانگنے والوں کی گواہی جائز نہیں ۔ البتہ چھوٹی موٹی چیزیں مانگ لینے والوں کی گواہی جائز ہوگی بشرطیکہ وہ عادل ہیں ۔ اس طرح امام مالک نے فقر کے ساتھ سوال کرنے اور مانگنے کی شرط بھی لگا دی اور بہت زیادہ چیزیں مانگنے والوں کی گواہی تہمت کی بنا پر قبول نہیں کی ۔ چھوٹی موٹی چیزیں مانگنے والوں کی گواہی قبول کرلی کیونکہ اس صورت میں تہمت کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ مزنی اور ربیع نے امام شافعی سے یہ نقل کیا ہے کہ اگر کسی شخص کی سیرت و کردار میں طاعت اور مروت کا غلبہ ہوا ور یہ دونوں باتیں اس کی ذات میں واضح ہوں تو اس کی گواہی قبول کرلی جائے گی لیکن اگر اس پر معصیت اور عد م مروت کا غلبہ ہوگا تو اس کی گواہی رد کردی جائے گی۔ محمد بن عبد اللہ عبد الحکم نے امام شافعی سے یہ نقل کی ہے کہ جب کسی شخص کی شب و روز کی زندگی میں طاعت غالب ہوگی اور وہ کبیرہ گناہوں کی طرف نہ بڑھاتا ہوگا تو ایسا شخص صف عدالت سے متصف ہوگا ۔ جہاں تک مروت کی شرط کا تعلق ہے تو اگر اس سے مراد اپنے آپ کو عیب کی باتوں سے بچانا ، سنجیدہ خاموشی ، عزت نفس کی حفاظت اور بے حیائی اور کم عقلی سے پرہیز ہے تو امام شافعی کا قول درست ہے لیکن اگر اس سے ان کی مراد لباس کی نظامت ، اچھی سواری ، عمدہ سازو سامان اور خوب صورت ہیئت کذائی ہے تو ان کی بات درست نہیں بلکہ یہ ایک ناحق بات ہے کیونکہ کسی کے ہاں بھی یہ باتیں گواہی کی شرائط میں داخل نہیں ہیں۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ پچھلی سطور میں ہم نے گواہی کے متعلق سلف اور فقہاء امصار کے جن اقوال کا ذکر کیا ہے اور اس سلسلے میں ہر ایک کے نقطہ نظر کی جو نز جمانی کی ہے وہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے قبول شہادت کی بنیاد اس بات پر رکھی ہے جو اس معاملے میں اس کے اجتہاد پر غالب اور اس کی سوچ و مستولی رہی کہ فلاں گواہی پسندیدہ اور قابل اعتماد ہے۔ البتہ سلف اور فقہاء امصار کا اس بارے میں اختلاف ہے اگر ایک شخص کی سیرتو کردار میں شک و شبہ کی کوئی بات نہیں پائی جاتی تو آیا گواہی دیتے وقت حاکم اس کے متعلق لوگوں سے معلومات حاصل کرے گا یا نہیں ۔ حضرت عمر (رض) بن خطاب سے مروی ہے کہ آپ نے حضرت ابو موسیٰ (علیہ السلام) کو قضا یعنی مقدمات کے فیصلوں کے متعلق تحریر ی ہدایات کے طور پر جو سرکاری خط لکھا تھا اس میں تحریر تھا۔ تمام مسلما ن ایک دوسرے کے معاملات کے لحاظ سے عادل ہیں یعنی صفت عدالت سے متصف ہیں۔ البتہ وہ شخص ان میں شامل نہیں جسے کسی حد میں کوڑے لگے ہوں ، یا جھوٹی گواہی دینے میں آزمودہ ہو یا ولاء اور رشتہ داری کے لحاظ سے مشکوک ہو ۔ منصور کا قول ہے کہ میں نے ابراہیم سے پوچھا کہ مسلمانوں میں صفت عدالت کا کیا مطلب ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جس شخص کی سیرت و کردار میں شک و شبہ میں ڈالنے والی کوئی بات نہ ہو وہ صفت عدالت سے متصف ہوتا ہے ۔ حسن بصری اور شعبی سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ معمر نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ جب حسن منصب قضا پر فائز ہوئے تو وہ مسلمانوں کی گواہیوں کو جائز قراردیتے تھے۔ البتہ اگر فریق مخالف گواہ پر اعتراضات کرتا تو پھر اس کی گواہی قبول نہ کرتے۔ ہشیم نے ذکر کیا ہے کہ ابن شبرمہ کو میں نے یہ کہتے سنا تھا کہ تین کام ایسے ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نے نہیں کیے اور میرے بعد کوئی بھی انہیں ترک نہیں کرے گا ۔ اول گواہوں کے متعلق چھان بین ، دوم فریقین کے دلائل کا اثبات یعنی ثبوت طلب کرنا ، سوم گواہوں سے سوال کرنے میں شریں زبانی۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا میں گواہوں کے متعلق پوچھ گچھ نہیں کرتا ، البتہ اگر وہ فریق جس کے خلاف گواہی دی جا رہی ہو گواہوں پر اعتراضات کرے تو پھر میں کھلے بندوں اور خفیہ طور پر گواہوں کے متعلق چھان بین کروں گا اور کھلے بندوں ان کا تزکیہ کروں گا ۔ یعنی ان کی سلامت روزی اور پاکبازی کی توثیق کر ائوں گا ۔ البتہ اگر حدود اور قصاص کے گوا ہ ہوں گے تو خفیہ طور پر ان کے متعلق لوگوں سے پوچھوں گا اور علانیہ ان کا تزکیہ کروں گا۔ گواہ معیاری ہوں امام محمد کا قول ہے کہ گواہوں کے متعلق چھان بین کی جائے گی خواہ کسی نے ان پر اعتراضات نہ بھی کیے ہوں ۔ یوسف بن موسیٰ قطان نے علی بن عاصم سے ، انہوں نے ابن شبرمہ سے نقل کیا ہے کہ میں پہلا شخص ہوں جس نے خفیہ طور پر گواہوں کے متعلق چھان بین کی ہوتا یہ ہے کہ جب کسی گواہ سے کہا جاتا کہ ایسے آدمی لے آئو جو تمہاری سلامت روی اور نیکی و پاکبازی کی توثیق کردیں تو وہ شخص اپنے لوگوں کو لے آتا اور کہتا کہ یہ میری قوم میری متعلق توثیق کرے گی۔ اس کے آدمی یہ سن کر شرما جاتے اور اس کی توثیق کردیتے ۔ جب میں نے یہ صورت حال دیکھی تو میں نے خفیہ طور پر چھان بین شروع کی ۔ جب وہ گواہی کے معیار پر پورا اترتا تو میں اس سے کہتا کہ ایسے آدمی لائو جو علانیہ تمہاری توثیق کردیں۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ گواہوں کے متعلق علانیہ اور خفیہ طور پر چھان بین کی جائے گی اور علانیہ طور پر ان کے متعلق توثیق کرائی جائے گی ۔ خواہ فریق مخالف نے ان پر اعتراضات نہ بھی کیے ہوں ۔ امام مالک کا قول ہے کہ گواہوں کی گواہی پر اس مدت تک فیصلہ نہیں کیا جائے گا جب تک خفیہ طور پر ان کے متعلق معلومات حاصل نہیں کرلی جائیں گی۔ لیث بن سعد کا قول ہے ۔ میں نے اپنے زمانہ کے لوگوں کو اس حال میں پایا کہ کسی مقدمے میں دونوں گواہوں سے تزکیہ یعنی اپنے بارے میں نیک چلتی اور پاکبازی کی توثیق کرانے کا مطالبہ نہیں کیا جاتا۔ والی یا حاکم وقت فریق مخالف سے صرف اتنا کہتا کہ اگر کسی کو ان کی گواہی پر کوئی اعتراض ہے تو اسے پیش کرو ورنہ تمہارے خلاف ان کی گواہی کو میں جائز قرار دے دوں گا ۔ امام شافعی کا قول ہے کہ گواہوں کے متعلق خفیہ طور پر لوگوں سے پوچھا جائے گا۔ جب اس کی عدالت کی توثیق ہوجائے گی تو علانیہ طور پر اس کی صفت عدالت سے متصف ہونے کے متعلق پوچھا جائے گا تا کہ یہ معلوم ہوجائے کہ خفیہ طور پر جس شخص کی تعدیل کی گئی تھی یہ وہی شخص ہے تا کہ نام نام کے ساتھ اور شجرۂ نسب شجرۂ نسب کے ساتھ خلط ملط نہ ہوجائے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں سلف میں جن لوگوں کا یہ قول ہے کہ جس شخص کا اسلام ظاہر ہوجائے وہ عادل ہے یعنی صفت عدالت سے متصف ہے تو ان حضرات کے اس قول کی بنیادیہ ہے کہ اس زمانے میں عامۃ الناس کے اندر عدالت کا وصف پایا جاتا تھا اور فسق و فجور کے مرتکبین کی تعداد بہت تھوڑی تھی ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرن اول ، قرن ثانی اور قرن ثالث کو متعلق خیر و صلاح کی خود گواہی دی تھی ۔ ہمیں عبد الرحمن بن سیما نے روایت بیان کی ، انہیں عبد اللہ بن احمد نے انہیں ان کے والد نے ، انہیں عبد الرحمن بن مہدی نے ، انہیں سفیان نے منصور سے ، انہوں نے ابراہیم سے ، انہوں نے عبید ہ سے ، انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ ؐ نے فرمایا خیر الناس قولی ثم الذین یلونھم ثلاث اواریع ثم یجی قوم تسبق شھادۃ احدھم یمینہ ویمینہ شھادتہ میرے زمانے کے لوگ سب سے بہتر ہیں پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آنے والے ہیں یہ فقرہ آپ نے تین یا چار بار فرمایا پھر ایسے لوگ آئیں گے جن میں کوئی ایسا بھی ہوگا جس کی گواہی اس کے قسم سے سبقت کر جائے گی اور اس کی قسم اس کی گواہی سے سبق لے جائے گی۔ راوی کہتے ہیں کہ جب ہم بچے تھے تو اس وقت گواہی اور عہد کے معاملے میں ہمارے بڑے ہماری پٹائی کردیا کرتے تھے ۔ سلف اور فقہا امصار نے گواہ کی عدالت اور گواہی کے جواز کے متعلق جو رائے قائم کی تو اس کی وجہ وہی ہے جو اس زمانے کے مسلمانوں کے احوال کے بارے میں ہم بیان کر آئے ہیں یعنی سلف اور فقہاء امصار کے زمانے کے مسلمان عام طور پر صفت عدالت سے متصف ہوتے تھے اور اگر ان میں سے کوئی بےراہر اور فسق و فجور کا دلدادہ ہوتا تو اس پر تنقید ہوتی اور نا پسندیدگی کا اظہار کیا جاتا اس طرح اس کے متعلق صورت حال سے ہر شخص واقف ہوجاتا ۔ امام ابوحنیفہ قرن ثالث میں گزرے ہیں جس کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیر و صلاح کی گواہی دی ہے جس کا ذکر ما قبل کی حدیث میں گزر چکا ہے ۔ اس لیے امام صاحب نے اس زمانے کے لوگوں کے عام دینی اور اخلاقی حالات کو دیکھتے ہوئے گواہوں کے متعلق اپنا موقف اختیار کیا ۔ جس کا تذکرہ پہلے گزر گیا ہے۔ اگر امام صاحب بعد کے پیدا شدہ حالات کو دیکھ لیتے تو یقینا گواہوں کے متعلق وہی موقف اختیار کرتے جو اس بارے میں دوسرے اہل علم کا ہے اور پھر چھان بین سے قبل کسی گواہ کی عدالت کا حکم نہ لگاتے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے اس بدو سے جس نے رویت ہلال رمضان کی گواہی دی تھی یہ پوچھا تھا کہ تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں بدو نے اثبات میں جواب دیا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دے دیا اور اس بدو کے ظہور اسلام کے بعد اس کی عدالت کے متعلق کسی سے کچھ نہیں پوچھا۔ اس کی وجہ وہی ہے جو ابھی بیان کر آئے ہیں۔ ہمارے اس پورے بیان سے یہ بات ثابت ہوگئی ۔ تعدیل کا معاملہ اور گواہوں کا تزکیہ نیز ان کا پسندیدہ ہونا ان تمام باتوں کی بنا اجتہاد رائے اور ظن غالب پر رکھ دی گئی ہے۔ اس لیے کہ یہ بات خارج ازامکان ہے کہ ہمارا محدود علم لوگوں کے تمام پوشیدہ احوال کا احاطہ کرلے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے انسان کی ظاہری حالت سے دھوکہ کھا جانے اور نیکی اور دیانت داری کے متعلق اس کے زبانی دعوے کے پھندے میں آ کر اس کی طرف جھک جانے سے ہمیں خبردار کردیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے ومن الناس من یعجبک قولہ فی الحیوۃ الدنیا اور لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں کہ دنیاوی زندگی میں جن کی باتیں تمہیں بہت بھلی لگیں گئی پھر آگے چل کر ایسے شخص کی حقیقت حال اور پوشیدہ صورت کے متعلق خبر دیتے ہوئے فرمایا واذا تولی سعی فی الارض لیفسد فیھا ویھلک الحرث والنسل ۔ اور جب اسے اقتدا ر مل جاتا ہے تو زمین میں فسادمچانے اور کھیتی باڑی اور نسل انسانی کو ہلاک کرنے کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔ ان دونوں آیتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے انسان کا پول کھول دیا جس کی ظاہری باتیں بڑی بھلی معلوم ہوتی ہیں ۔ اسی طرح ایک اور گروہ کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا واذا رایتھم تعجبک اجسامھم اور جب تم انہیں دیکھو گے تو تمہیں ان کے جسم بڑے بھلے لگیں گے تا آخر آیت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انسان کی ظاہری حالت سے دھوکہ کھا جانے سے خبردار کیا اور ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا واتبعوہ اور ان کی پیروی کرو نیز فرمایا لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ یقینا تمہارے لیے اللہ کے رسول کی ذات میں اچھا نمونہ موجود ہے۔ جب لوگوں کی دینی اور اخلاقی حالت گری ہوئی ہو جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں تو پھر یہ بات جائز نہیں ہے کہ کسی انسان کی گواہی کے متعلق چھان بین اور اس کی اصلی حالت کے بارے میں پوچھ گچھ کے بغیر اس کی ظاہری حالت کی بنا پر اس کی طرف جھکائو ظاہر کردیا جائے ۔ جھکائو یا میلان کا اظہار اس وقت کرنا چاہتے جب چھان بین کے نتیجے گواہی سے قبل ہی اس کی عدالت اور دیانت کا معاملہ واضح ہوجائے گا ۔ (آیت 282 کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں)

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٨٣) اور اگر سفر کی حالت میں لکھنے وغیرہ کی کوئی چیز نہ ہو تو اس میں قرض دینے والا اپنے قرض کے عوض قرض دار سے کوئی چیز اپنے پاس رہن رکھ لے، اور اگر بغیر رہن رکھے ہوئے اطمینان کی وجہ سے قرض دے دیا تو قرضدار کو چاہیے کہ وہ اپنے ساتھی کا پورا پورا حق ادا کرے، اور قرض کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے، اور فیصلہ کرنے والوں کے سامنے شہادت کو نہ چھپاؤ، جو اس کو چھپائے گا تو اس کو دل گناہ گار ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ شہادت کے چھپانے اور اس کے بیان کردینے کو خوب جانتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨٣ (وَاِنْ کُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّلَمْ تَجِدُوْا کَاتِبًا) اگر دوران سفر کوئی لین دین کا یا قرض کا معاملہ ہوجائے اور کوئی کاتب نہ مل سکے ۔ (فَرِہٰنٌ مَّقْبُوْضَۃٌ ط) قرض لینے والا اپنی کوئی شے قرض دینے والے کے حوالے کر دے کہ میری یہ شے آپ کے قبضے میں رہے گی ‘ آپ اتنے پیسے مجھے دے دیجیے ‘ میں جب یہ واپس کر دوں گا آپ میری چیز مجھے لوٹا دیجیے گا۔ یہ رہن بالقبضہ ہے۔ لیکن رہن (گروی) رکھی ہوئی چیز سے کوئی فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں ہے ‘ وہ سود ہوجائے گا۔ مثلاً اگر مکان رہن رکھا گیا ہے تو اس پر قبضہ تو قرض دینے والا کا ہوگا ‘ لیکن وہ اس سے استفادہ نہیں کرسکتا ‘ اس کا کرایہ نہیں لے سکتا ‘ کرایہ مالک کو جائے گا۔ (فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُکُمْ بَعْضًا) یعنی ایک شخص دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے بغیر رہن کے اسے قرض دے دیتا ہے۔ ( فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَہٗ ) ایک شخص کے پاس رہن دینے کو کچھ نہیں تھا یا یہ کہ دوسرے بھائی نے اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس سے کوئی شے رہن نہیں لی اور اس کو قرض دے دیا تو یہ مال جو اس نے قرض لیا ہے یہ اس کے پاس قرض دینے والے کی امانت ہے ‘ جس کا واپس لوٹانا اس کے ذمے فرض ہے۔ ّ (وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ ط) (وَلاَ تَکْتُمُوا الشَّہَادَۃَ ط) (وَمَنْ یَّکْتُمْہَا فَاِنَّہٗ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ ط) بعض گناہوں کا اثر انسان کے ظاہری اعضاء تک محدود ہوتا ہے ‘ جبکہ بعض کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ شہادت کا چھپانا بھی اسی نوعیت کا گناہ ہے۔ اور اگر کسی کا دل داغ دار ہوگیا تو باقی کیا رہ گیا ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

331. This does not mean that pledge transactions are confined to journeys alone. These transactions have been specially mentioned in the context of journeys because during journeys people often have to resort to pledge transactions. Moreover, it has not been laid down that pledge transactions may be entered into only when a scribe is not available to write down the transaction. It is also permissible, if the lender is not satisfied merely with the written promise of the repayment of the loan, for the borrower to seek a loan by pledging some property to the lender. But since the Qur'an urges its followers to be generous in their dealings, and since it is inconsistent with high standards of moral excellence not to make loans to needy persons without keeping some property in custody, the Qur'an has abstained from mentioning this form of dealing even though it is permissible. It should also be noted that the purpose of taking a pledge is merely to assure the lender the return of his loan. He has no right at all to benefit from the pledged property. If a person lives, say, either in the building which has been pledged, or pockets its rent, he is guilty of taking interest. There is no essential difference between charging interest directly and using the pledged property. If, however, either cattle or beasts of burden have been pledged, they can be milked and used for transport in lieu of the fodder that one provides them during the period of custody. 332. Concealing true evidence applies both to a person not appearing to give evidence and to his avoidance of stating facts.

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

جب آدمی سفر میں ہوتا ہے تو بالکل اجنبی ہوتا ہے کسی سے جان پہچان کم ہوتی ہے اس سفر کی حالت میں اگر کچھ قرض لینے کی ضرورت ہو تو بغیر کسی چیز کے گروی رکھنے کے نہ کوئی اعتبار کرتا ہے نہ کچھ قرض مل سکتا ہے اس واسطے سفر کا ذکر خاص طور پر فرما کر اللہ تعالیٰ نے گروی کو اس آیت میں جائز فرمادیا۔ اگرچہ بعض علماء کا مذہب یہ ہے کہ اس آیت میں جب سفر کا ذکر ہے تو حالت سفر میں ہی گروی جائز ہے۔ حالت مقام میں گروی رکھوا کر حدیث فعلی سے اس آیت کی تفسیر فرما دی ہے کہ گروی حالت سفر میں اور حالت مقام دونوں حالتوں میں جائز ہے یہ آپ کی ذرع یہودی کے پاس گروی ہونے کی حدیث صحیحین میں ہے جس کی روایت حضرت انس (رض) سے ہے ٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:283) وان کنتم علی سفر ولم تجدوا کاتبا۔ ان شرطیہ ہے ان کنتم علی سفر۔ جملہ شرط ہے۔ واؤ عاطفہ اور جملہ لم تجدوا کاتبا معطوف ہے جس کا عطف فعل شرط پر ہے (اور اگر تم سفر میں ہو اور تمہیں کوئی لکھنے والا نہ ملے) فرھن مقبوضۃ۔ موصوف و صفت مل کر مفعول مالم یسم فاعلہ، فعل محذوف کا ای فلیوخذ دھن مقبوضۃ (تو گروی کے طور پر کوئی چیز قبضہ میں لی جائے یعنی قرض لینے والا قرض دینے والے کو کوئی بطور رہن دیوے) یہ جملہ جواب شرط ہے۔ فان امن بعضکم بعضا۔ جملہ شرط ہے امن ماضی ۔ واحد مذکر غائب امن امانۃ۔ امان مصدر ہیں اور ان سب کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے۔ قرآن مجید میں ہے وتخونوا اماناتکم (8:27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو۔ امن یامن (باب سمع) امن وامانۃ کسی کو امین بنانا (امانت دار بنانا) کسی پر اعتبار کرنا ۔ ترجمہ : اگر تم میں سے کوئی کسی دوسرے کو امانت دار بنائے یعنی اس کے پاس کوئی چیز بطور امانت رکھے۔ فلیئود الذی۔ ف جواب شرط کے لئے۔ لیؤد فعل امر واحد مذکر غائب تادیۃ (تفعیل) مصدر۔ پس چاہیے کہ وہ ادا کرے۔ ادی یادی (باب ضرب) ادی اور اسی یؤدی تادیۃ (تفعیل) ادا کرنا۔ ادی مادہ۔ اؤتمن۔ ماضی مجہول واحد مذکر غائب استمان (افتعال) مصدر جس پر اعتبار کیا گیا ہو۔ جس کو امانت دار بنایا گیا ہو۔ جس کو امین بنایا گیا ہو۔ امانتہ جو چیز اس کی امانت میں رکھی گئی ہو ۔ فلیؤد الذی اؤتمن امانتہ۔ جواب شرط۔ ولیتق اللہ ربہ۔ واؤ عاطفہ لیتق۔ امر کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ لام لام امر۔ یتق اصل میں یتقی تھا۔ بوجہ لام امر ی کو ساقط کردیا گیا ۔ اتقاء (افتعال) و ق ی مادہ۔ اور چاہیے کہ وہ ڈرتا رہے اللہ سے جو اس کا رب ہے۔ لاتکتموا۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر۔ کتم وکتمان۔ مصدر (باب نصر) بمعنی چھپایا۔ پوشیدہ رکھنا۔ تم مت چھپاؤ۔ ومن یکتمھا۔ من شرطیہ۔ یکتم مضارع مجزوم واحد مذکر غائب۔ کتم (باب نصر) مصدر ۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب جس کا مرجع الشھادۃ ہے اور جو شخص اسے چھپائے گا جملہ شرط ہے۔ فانہ اثم قلبہ۔ فانہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع من ہے اثم اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ اثم (باب سمع) مصدر سے۔ گناہ کرنے والا۔ گنہگار۔ قلبہ مضاف مضاف الیہ۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب من کے لئے ہے۔ اثم خبر مقدم اور قلبہ مبتدا مؤخر ہے اور پورا جملہ ان کی خبر ہے۔ فانہ اثم قلبہ۔ جملہ جواب شرط ہے ۔ ترجمہ : اور جو شخص اس کو (یعنی شہادت کو) چھپاتا ہے تو اس کا دل یقینا گنہگار ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یہ بیع کی ایک دوسرے شکل ہے۔ یعنی اگر تم سفر میں قرض کا معاملہ کرو اور تمہیں لکھنے ولا یا ادوات تحریر میسر نہ ہوں تو تحریر کی بجائے مدیون کو چاہیے کہ صاحب دین کے پاس کوئی چیز رہن کرھ دے۔ سفر کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ یہ چیز زیادہ ترسفر میں پیش آسکتی ہے ورنہ رہن حضرت میں بھی جائز ہے۔ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زرہ ایک یہو دی کے پاس گروی رکھ کر عملا اس کی وضاحت کردو، ) صحیحین) پس سفر میں تورہن کی نص قرآن سے ثابت ہے اور حضر میں آنحضرت کے فعل سے۔ (شوکانی) یعنی قرضدار لینے والے کا اعتبار کرے اور اس کی کوئی چیز رہن رکھے بغیر اسے قرض دے دے تو سے بھی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کا قرض ادا کردے۔ حدیث میں ہے : علی الید ما اخذت حتی تؤ دیہ۔ کہ ہاتھ نے جو کچھ لیا ہے اس کے ذمہ ہے جب تک کہ ادا نے کردے۔ (ابن کثیر)3 اس میں اثم (گناہ) کی نسبت دل کی طرف کی ہے اس لیے کہ کتمان دل کا فعل ہے اور اسکے دواعی اولادل ہی ہوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ وعید ہے کہ کتمان شہادت اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس سے دل مسخ ہوجاتا ہے۔ نعوذباللہ من ذلک (شوکانی) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جھوٹی گواہی دینا اور اسی طرح گواہی کو چھپانا کبیرہ گناہ ہے۔ (ابن کثیر) سعیش بن مسیب اور ابن شہاب کا قول ہے کہ آیت ریا اور آیت دین سب سے آخر میں نازل ہوئی ہیں۔ (شوکانی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 283 لم تجدوا (تم نے نہیں پایا) ۔ ائوتمن (اعتبار کیا گیا ہے) ۔ رھن (گروی رکھنا، رہن رکھنا) ۔ ولیتق اللہ ( اور اللہ سے ڈرنا چاہئے) ۔ مقبوضۃ (قبضہ کی ہوئی (یعنی جس پر اسی وقت قبضہ کرسکتا ہو) ۔ من یک تمھا (جو اس کو چھپائے گا) ۔ فلیئود (پھر ادا کرنا چاہئے) ۔ تشریح : آیت نمبر 283 اس آیت میں دو باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں کہ ادھار کے معاملے میں اگر تم سفر میں ہو اور کوئی لکھنے والا اس وقت موجود نہیں ہے تو کوئی ایسی چیز گروی رکھ دی جائے جو اس کے قبضے میں رہے جب قرض واپس کردیا جائے تو اس کی وہ چیز جو گروی رکھی گئی ہے اس کو اسی طرح واپس کردی جائے اس میں قرض دینے والے کو تصرف کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص سفر میں نہ ہو تو وہ گروی رکھ کر قرض نہیں لے سکتا بلکہ یہ ایک اصولی بتا دیا گیا ہے کہ قرض لینے والا اگر کوئی چیز گروی رکھ دے تو اس کے بدلے قرض دیا جاسکتا ہے خواہ وہ سفر میں ہو یا حضر میں چونکہ حالت سفر کے ساتھ اس کا ذکر کردیا۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی کہ انسان کو جس چیز کا علم ہو تو اس کو گواہی دینے میں کنجوسی ، سستی یا مصلحت سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ اس کے پاس جو بھی گواہی کی چیز ہو اس کو شہادت میں پیش کردے۔ اگر وہ شہادت و گواہی کو چھپائے گا تو یقیناً وہ سخت گنہگار ہوگا۔ اور اس کا قلب مجرم شمار کیا جائے گا جو ضمیر کی ایک خلش بن جائے گی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ رہن جس طرح سفر میں جائز ہے حضر میں بھی جائز ہے یہاں ذکر میں تخصیص سفر کی اس وجہ سے ہے کہ سفر میں اس کی ضرورت بہ نسبت حضر کے زیادہ پڑے گی۔ مسئلہ۔ جو چیز رہن رکھی جائے اس پر جب تک مرتہن کا قبضہ نہ ہوجائے وہ رہن نہیں ہوتا۔ 3۔ شہادت کا اخفاء دو طرح سے ہے ایک یہ کہ بالکل بیان نہ کرے دوسرے یہ کہ غلط بیان کرے دونوں میں اصل واقعہ مخفی ہوگیا اور دونوں صورتیں حرام ہیں۔ جب کسی حق دار کا حق بدون اس کی شہادت کے ضائع ہونے لگے اور وہ درخواست بھی کرے تو اس وقت ادائے شہادت سے انکار حرام ہے چونکہ ادائے شہادت واجب ہے لہذا اس پر اجرت لینا جائز نہیں البتہ آمد ورفت کا خرچ اور خوراک بقدر حاجت صاحب معاملہ کے ذمہ ہے اگر زیادہ آجائے تو بقیہ واپس کردے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ ہدایات۔ اگر سفر کے دوران ادھارلینے کی نوبت پیش آئے تو کاتب کی عدم موجودگی اور باہمی اعتماد نہ ہونے کی صورت میں قرض لینے والے کی کوئی چیز گروی رکھی جاسکتی ہے۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتِ اشْتَرٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ یَھُوْدِيٍّ طَعَامًا بِنَسِیْءَۃٍ وَرَھَنَہٗ دِرْعَہٗ ) [ رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب شراء الإمام الحوائج بنفسھا ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک یہودی سے کچھ مدت کے لیے غلہ حاصل کیا اور اپنی لوہے کی زرہ اس کے پاس بطور رہن رکھی۔ “ یاد رکھیں کہ ( آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کسی سے اپنی ذات کیلیے قرض لینا ثابت نہیں۔ بیت المال کمزور ہونے کی وجہ سے آپ غریب مسلمانوں کے لیے قرض لیتے تھے) ۔ “ جو چیز کسی کے ہاں گروی رکھی جائے اس کا عارضی مالک اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اگر یہ فائدہ اٹھائے گا تو وہ بھی سود کے زمرے میں سمجھا جائے گا۔ سوائے اس کے کہ اگر کوئی جانور وغیرہ ہو تو اس کا دودھ پینا یا اس پر سواری کرنا اس کے لیے جائز ہے۔ کیونکہ یہ اس جانور کے چارے کا انتظام کرتا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَلرَّھْنُ یُرْکَبُ بِنَفَقَتِہٖ إِذَا کَانَ مَرْھُوْنًا وَلَبَنُ الدَّرِّ یُشْرَبُ بِنَفَقَتِہٖ إِذَا کَانَ مَرْھُوْنًا وَعَلَی الَّذِیْ یَرْکَبُ وَیَشْرَبُ النَّفَقَۃُ ) [ رواہ البخاری : کتاب الرھن، باب الرھن مرکوب ومحلوب ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے گروی چیز پر خرچ کرنے کی وجہ سے سواری کی جاسکتی ہے جب اسے گروی رکھا جائے اور دودھ والے جانور کا دودھ جانور کو چارہ کھلانے کی وجہ سے پیا جاسکتا ہے۔ جب اس قسم کا جانور گروی رکھاجائے تو سواری کرنے یا دودھ پینے والے پر اسے چارہ کھلانا ہے۔ “ سفر سیگھر پہنچنے اور معاملے کی میعاد پوری ہوجانے کے بعد یہ گروی شدہ چیز مالک کو صحیح سالم واپس لوٹانا ہوگی۔ آخر میں پھر حکم دیا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو وہی تمہارا پالنہار اور مالک ہے۔ لہٰذا گواہی کو ہرگز نہ چھپایا جائے۔ جو شخص شہادت کو چھپائے گا یقینًا اس کا دل گناہ سے آلودہ ہوچکا ہے۔ گویا کہ وہ گندے دل کا مالک ہے اور ایسے دل والے سے ہر گناہ کی توقع کی جاسکتی ہے۔ گواہی چھپانے والے کے لیے اس لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے کہ اس کے شہادت چھپانے کی وجہ سے حق دار کی حق تلفی کا خطرہ اور نظام عدالت کے ناکام ہوجانے کا انتہائی اندیشہ ہے کیونکہ عدالت شرعی ہو یا غیر شرعی اس کا دارو مدار بالآخر شہادت پر ہی قائم ہے۔ شہادت چھپانے والے نے گویا کہ نظام عدل کی بنیاد ہی اکھاڑ ڈالی ہے لہٰذا ایسے لوگوں کو ادراک ہونا چاہیے کہ جو بھی وہ حرکت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے بخوبی واقف ہے۔ مسائل ١۔ حالت سفر میں کاتب نہ ملنے کی صورت میں کوئی چیز گروی رکھی جاسکتی ہے۔ ٢۔ مدّت مکمل ہونے کے بعد امانت واپس لوٹانا لازم ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے کو شہادت نہیں چھپانی چاہیے۔ ٤۔ شہادت چھپانے والے کا دل گنہگار ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن سچی گواہی : ١۔ سچی گواہی دینے کا حکم۔ (المائدۃ : ٨) ٢۔ سچی گواہی چھپانے کا گناہ۔ (البقرۃ : ٢٨٣) ٣۔ گواہی چھپانے والے ظالم ہیں۔ (البقرۃ : ١٤٠) ٤۔ جھوٹی گواہی سے بچنے والوں کی تعریف۔ (الفرقان : ٧٢) ٥۔ گواہی پر قائم رہنے والوں کی جنت میں تکریم ہوگی۔ (المعارج : ٣٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لیکن اس ظاہری ضمانت کے ساتھ شارع اہل ایمان کے ضمیر کے اندر اللہ خوفی کا جذبہ پیدا کرکے انہیں آمادہ کرتا ہے کہ وہ امانت دار بنیں ، اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ، اس لئے کہ ظاہری ضمانت کے مقابلے میں اللہ خوفی وہ آخری ضمانت ہے جو کسی معاملے میں کارگر ثابت ہوسکتی ہے ۔ اور جس کی اساس پر کسی قانون پر صحیح طرح عمل کیا جاسکتا ہے۔ اور جس کی وجہ سے کسی حق دار تک اس کا حق اچھی طرح پہنچ سکتا ہے ۔ اور سب کے حقوق محفوظ ہوسکتے ہیں۔ مدیون پر بھروسہ کیا جاتا ہے کہ وہ قرضہ پوری طرح ادا کرے گا اور مقروض پر یہ اعتماد کیا گیا ہے کہ وہ مرہون چیز کو اپنی اصلی حالت میں واپس کرے گا ۔ دونوں کو یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ خدا خوفی کا رویہ اختیار کرکے اپنے اپنے فرائض سر انجام دیں ۔ اس لئے کہ اللہ ہی ہے جو ان دونوں کا رب ہے ۔ وہی دونوں کا نگہبان ، مربی ، سربراہ ، حکم اور قاضی ہے ۔ یہ تمام تصورات ، معاملات اور فرائض وذمہ داریوں کی ادائیگی کے معاملے میں بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ بعض مفسرین نے یہ کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس نے امانتداری کے معاملے میں آیت کتابت کو مسنوخ کردیا ہے ۔ لیکن یہ رائے درست نہیں ہے ۔ اس لئے کہ صرف حالت سفر میں معاملات کے اندر تحریر نہ کرنے کی رخصت ہے اور یہ امانت داری اور قرض مکفول کا تعلق بھی سفر کی حالت سے ہے اور سفر میں قرض خواہ اور قرض دار دونوں ہی ایک دوسرے پر بھروسہ کرکے معاملہ کرتے ہیں ۔ غرض تقویٰ و طہارت پر ابھارتے ہوئے یہاں شہادت کے سلسلے میں بات اختتام تک پہنچتی ہے ۔ اور یہاں شہادت سے مراد وہ شہادت نہیں ہے جو بوقت کتابت کسی تحریر پر ڈالی جاتی ہے بلکہ اس سے مراد ہو شہادت ہے جو عدالت میں دی جاتی ہے ۔ اس لئے کہ یہ شہادت گواہ کے پاس ایک قسم کی امانت ہوتی ہے ۔ یہاں بات کی نسبت قلب مومن کی طرف کی جاتی ہے ۔ اور گناہ کا استناد قلب مؤمن کی طرف کیا جاتا ہے ۔ یوں شہادت کا چھپانا دراصل اپنے ضمیر میں گناہ کا چھپانا ہے ۔ دونوں باتوں کا تعلق دل و دماغ کی گہرائیوں سے ہے۔ چناچہ خاتمہ کلام ایک دہمکی آمیز فقرے سے کیا جاتا ہے۔ جس میں یہ توجہ دلائی جاتی ہے کہ اور وہ اپنے علم کے مطابق پوشیدہ قلبی اعمال پر بھی جزاء وسزادے گا۔ “ انہی ہدایات کی مزید تاکید اگلی آیت میں بھی جاری ہے ۔ مالک ارض وسماوات کے خوف پر دلوں کو ابھارا جاتا ہے ۔ جو اس کائنات کی تمام چیزوں کا مالک حقیقی ہے ۔ جو تمام دلی بھیدوں کا بھی جاننے والا ہے اور تمام ظاہری باتوں سے بھی خبردار ہے ۔ اور وہ تمام اعمال پر سزا اور جزاء بھی دینے والا ہے ۔ وہی ہے جو تمام بندوں کے معاملات پر فیصلے کرتا ہے۔ کسی اس کی رحمت نازل ہوتی ہے اور کوئی اس کے عذاب میں گرفتار ہوتا ہے۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے اور ہر چیز اس کی مشیئت کے تابع ہے ۔ اور اللہ کی مشیئت بےقید ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رہن کا حکم اور گواہی چھپانے کی مذمت اس آیت کریمہ میں اول تو رہن کا قانون مشروع فرمایا، اور فرمایا کہ تم اگر کہیں سفر میں ہو اور کوئی کاتب معاملہ لکھنے والا نہ ملے تو جس کے ذمہ قرض ہو وہ دوسرے فریق کو اطمینان دلانے کے لیے بطور رہن کے کوئی چیز دے دے جس پر وہ قبضہ کرلے اور اسے اطمینان ہوجائے کہ میرا حق واجب مارا نہیں جائے گا۔ سفر کی قید احترازی نہیں ہے اور رہن رکھنے کو بھی کوئی چیز نہیں اور اس سب کے باوجود جس کا حق ہے وہ اس شخص پر بھروسہ کرتا ہے جس کے ذمہ قرض ہے اور ادھار دے دیتا ہے تو جس پر بھروسہ کیا گیا ہے اس پر لازم ہے کہ امانت کو پوری طرح صحیح طریقہ پر مدت مقررہ کے مطابق ادا کر دے نفس یا شیطان کے سمجھانے سے حق مارنے کا ارادہ نہ کرلے اور یہ نہ سوچے کہ نہ تحریر ہے نہ گواہ ہیں نہ میں نے کوئی چیز رہن رکھی ہے اگر میں مکر ہی جاؤں تو یہ کیا کرے گا ؟ یوں تو سب کے حقوق مالیہ ادا کرنا فرض ہے لیکن جس نے اطمینان کیا اور بھروسہ کیا اس کے حق کی ادائیگی کا فکر کرنا تو اور زیادہ لازم ہے، اور شرافت کا یہ ہی تقاضا ہے۔ اگر کوئی گواہ یا تحریری سند نہ ہونے کی وجہ سے دنیا والے صاحب حق کا حق نہ دلا سکیں تو اس سے چھٹکارہ نہیں ہوسکتا۔ سامنے آخرت ہے یوم الحساب ہے اس دن سب کے حقوق ادا کرنے ہوں گے۔ قاضی روز جزا جل مجدہ حساب لے گا، اور ذرہ ذرہ کا محاسبہ ہوگا اور اموال کی جگہ اعمال صالحہ دینے ہوں گے اعمال صالحہ نہ ہوئے تو حقوق والوں کے گناہ سر ڈال دیے جائیں گے۔ دنیاوی حکام کچھ نہیں کرسکتے تو احکم الحاکمین کو تو سب کچھ معلوم ہے جب وہاں پیشی ہوگی تو چھٹکارے کا کوئی راستہ نہ ہوگا اسی کو ارشاد فرمایا (وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ ) کہ اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے۔ پھر فرمایا : (وَ لَا تَکْتُمُوا الشَّھَادَۃَ وَ مَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌقَلْبُہٗ ) ” یعنی گواہی کو مت چھپاؤ اور جو شخص گواہی کو چھپائے گا تو اس کا دل گنہگار ہے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ گواہی کا چھپانا حرام ہے جب کسی کا کوئی حق مارا جا رہا ہو اور ایک شخص کو معلوم ہے کہ واقعی اس کا حق فلاں شخص پر ہے تو اس کے لیے حرام ہے کہ گواہی کو چھپائے۔ بشرطیکہ صاحب حق اس سے درخواست کرے کہ تم چل کر گواہی دے دو اگر وہ درخواست نہ کرے تو گواہی کے لیے جانا واجب نہیں۔ گواہی چھپانے والے کے بارے میں فرمایا کہ اس کا دل گنہگار ہے اس میں یہ بتایا کہ گواہی کے لیے نہ جانا صرف اعضاء ظاہرہ ہی کا گناہ نہیں دل کا گناہ بھی ہے۔ مسئلہ : شہادت پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ البتہ گواہ آمد و رفت کا کرایہ لے سکتا ہے جیسا کہ پہلے مذکور ہوا۔ آخر میں فرمایا (وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ) کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے سب اعمال کی خبر ہے حق نہ دینے والا اور گواہی کو چھپانے والا اور ہر شخص اس بات کا یقین کرے کہ اللہ تعالیٰ کو سب کچھ معلوم ہے اور اس کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

557 یعنی اگر حالت سفر میں تم کسی سے معاملہ بالدین کرو (ادھار خرید وفروخت کرو) اور دستاویز لکھنے والا نہ مل سکے تو پھر جس کے ذمہ حق ہے اس سے کوئی چیز مثلاً زیور وغیرہ رہن رکھ لو تاکہ تمہیں اطمینان ہوجائے اور حق کے ضائع ہونے کا اندیشہ باقی نہ رہے۔ رِھٰنٌ کے بعد تناسب ذالک محذوف ہے یہاں سفر کی قید اتفاقی ہے احترازی نہیں ہے۔ کیونکہ سفر میں یہ احتمال قوی ہے کہ کاتب میسر نہ آسکے اس لیے رہن رکھنا حالت سفر سے مخصوص نہیں بلکہ حالت حضر میں بھی جائز ہے۔ اسی طرح اگر لکھنے والا بھی مل جائے تو بھی رہن رکھنا اور لینا جائز ہے۔ اتفقت الفقھاء الیوم علی ان الرھن فی السفر والحضر سواء وفی مال وجود الکاتب وعدمہ (کبیر ص 558 ج 2) ۔558 امانت سے یہاں وہ حق مراد ہے جو مدیون کے ذمہ واجب الادا ہے یعنی اگر ایک شخص دوسرے کو امین سمجھ کر اس سے ادھار خرید وفروخت کرتا ہے اور اس سے کسی قسم کی دستاویز نہیں لیتا۔ نہ کسی کو گواہ بناتا ہے اور نہ ہی کوئی چیز بطور رہن اس سے لیتا ہے اپنے پاس بلکہ اس کی امات ودیانت پر اعتماد کرتے ہوئے معاملہ کرے تو دوسرے شخص پر لازم ہے کہ وہ اس کا حق ادا کرے اور خدا سے ڈرے نہ اس کے حق میں کمی کرے اور نہ ادا کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے۔ الَّذِی ائْتُمِنَ ، فَلْیُؤِدِّ کا فاعل اور اَمَانَتُہٗ اس کا مفعول ہے۔559 یہ گواہوں کیلئے ہدایت ہے کہ جب وہ کسی معاملہ میں گواہ بن جائیں تو ان پر لازم ہے کہ وہ صحیح صحیح گواہی دیں اور اس کا کوئی حصہ چھپا کر یا اس میں ترمیم کر کے کسی کو نقصان نہ پہنچائیں۔ جو شخص ایسا کرتا ہے وہ کوئی معمولی گناہ نہیں کرتا بلکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس شخص کا دل مجرم ہے کیونکہ جبتک دل میں کسی فعل کا ارادہ پیدا نہ ہو اس وقت تک اعضاء سے کوئی فعل سرزد نہیں ہوسکتا اور دل چونکہ تمام بدن کا مدبر اور بادشاہ ہے اس لیے اس کا جرم بھی بہت بڑا ہوگا۔ لانہ اشرف الاجزاء ورئیسھا وفعلہ اعظم من افعال سائر الجوارح فیکون فی الکلام تنبیہ علی ان الکتمان من اعظم الذنوب (روح ص 63 ج 3) اللہ تعالیٰ تمہارے ہر فعل سے باخبر اور واقف ہے وہ تمہارے ارادے کو بھی جانتا ہے اس لیے وہ ضرور تمہارے اعمال کی تمہیں جزا دیگا۔ یہاں پر امور انتظامیہ کا بیان ختم ہوگیا اب آگے توحید پر چوتھی دلیل عقلی پیش کی گئی ہے۔ توحید پر چوتھی عقلی دلیل اس سے پہلے سورت کے مختلف حصوں میں تین دفعہ دعویٰ توحید مذکور ہوچکا ہے اور ہر جگہ اسے عقلی دلائل سے مدلل کیا گیا ہے دعویٰ توحید کو بار بار دہرانے کی وجہ بھی مذکور ہوچکی ہے یہاں سورت کے آخری رکوع کی ابتداء میں دعویٰ توحید پر عقلی دلیل پیش کی گئی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1۔ اور اگر تم دین کا معاملہ کرتے وقت کہیں سفر میں ہو اور دستاویز لکھنے کو کاتب نہ پائو یعنی دستاویز کی تکمیل دشوار اور ناممکن ہو تو ایسی حالت میں رہن رکھنے کی کوئی چیز ہو جو مدیون دائن کے قبضہ میں دے دے تا کہ اس سے لین دار کو اطمینان حاصل ہوجائے اور اگر ایسے موقع پر تم آپس میں ایک دوسرے کا اعتبار کرو اور رہن کی ضرورت نہ سمجھو تو جس شخص کا اعتبار کیا گیا ہے یعنی مدیون اس کو چاہئے کہ جس شخص نے اعتبار کیا ہے یعنی دائن اس کا حق پورا پورا ادا کردے اور اللہ تعالیٰ سے جو اس کا پروردگار ہے ڈرے اور شہادت کو چھپایا نہ کرو اور جو شخص شہادت کا اخفا کرے گا اور گواہی کو چھپائے گا تو اس کا قلب مجرم و گناہگارہو گا ۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سب سے واقف ہے۔ ( تیسیر) رھن کے معنی ہیں کسی شے کو روک لینا شریعت میں اس چیز کا نام ہے جو کسی ایسے حق کے بدلے میں روکی جائے جس حق کا اس سے پورا وصول کرنا مقصود ہو اس لئے فقہانے کہا ہے۔ رہن ایک ایسا عقد لازم ہے جس کا استرداد رہن کو مرتہن سے اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک مرتہن کا ایک درہم بھی باقی ہے۔ جو شخص کوئی چیز رہن رکھے اس کو راہن اور جس کے پاس رکھی جائے اس کو مرتہن ۔۔۔۔ اور جو شے رکھی جائے اس کو مرہون کہتے ہیں۔ رہن کے عقد میں بھی ایجاب اور قبول ضروری ہے اور دین کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب مرتہن شے مرہون پر قبضہ کرلے جب تک مرتہن کا مرہون پر قبضہ نہ ہوجائے رہن کا عقد صحیح نہ ہوگا چونکہ عام طور پر سفر میں لکھنے پڑھنے اور گواہوں کے ملنے میں دشواری ہوتی ہے اس لئے رہن کے معاملہ کو سفر کے ساتھ مقید فرمایا ورنہ یہاں حقیقی شرط مراد نہیں ہے۔ لہٰذا جس طرح سفر میں رہن کا معاملہ جائز ہے اسی طرح حضر میں جائز ہے اور جس طرح کاتب میسر نہ آنے کی صورت میں جائز ہے ۔ اسی طرح کاتب کی موجودگی میں بھی رہن کا معاملہ جائز اور درست ہے۔ جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زرہ کا واقعہ مشہور ہے جو ایک یہودی کے پاس رہن تھی ۔ یہودی کا نام ابوالشحم تھا ۔ سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیس صاع جو کے بدلے میں اپنی زرہ رہن رکھی تھی اور اپنے اہل و عیال کے لئے اس سے جو حاصل کئے تھے اور جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو آپ ؐ کی زرہ مرہون تھی اور ظاہر ہے کہ یہ معاملہ مدینہ منورہ میں ہوا تھا جو حضر بھی تھا اور وہاں کاتب کا میسر آنا بھی دشوار نہ تھا۔ ولم تجدوا کاتبا ً کا مطلب یہ ہے کہ دستاویز کی ترتیب دشوار اور ناممکن ہو مثلاً کاتب موجود ہے مگر قلم اور دوات موجود نہیں یا قلم دوات بھی ہے لیکن کاغذ نہ ملے یا کاتب موجود ہے لیکن وہ اچھی طرح کتابت نہیں کرسکتا یہ سب صورتیں ولم تجدوا کاتبا ً کو شامل ہیں۔ فرھن مقبوضہ کے معنی بھی کئی طرح ہوسکتے ہیں یعنی سفر ہو اور کتابت کی دشواری ہو تو جس چیز پر اعتماد اور اعتبار کیا جائے وہ رہن با قبضہ ہے یا یوں ترجمہ کیا جائے تو پھر وہ شخص صاحب حق ہو وہ کوئی چیز رہن رکھ لے یا یوں ترجمہ کیا جائے کہ اگر سفر ہو اور لکھنے کی دشواری ہو تو تم لوگ باہمی اطمینان کے لئے رہن رکھنے کی چیزوں میں سے کوئی چیز صاحب حق کے پاس رہن رکھ دو ۔ ہم نے ترجمہ اور تیسیر میں تینوں معنی کی رعایت رکھی ہے اگرچہ مطلب سب کا یکساں ہے رہن کی تجویز کے بعد پھر ارشاد فرمایا کہ یہ شکل اطمینان کی غرض سے ہے ورنہ اگر باہم تم ایک دوسرے پر بلا دستاویز اور گواہ اور بلا رہن کے اعتبار کرلو تو پھر نہ دستاویز اور گواہ بنانے کی ضرورت ہے اور نہ کسی چیز کو گرو رکھنے کی ضرورت ہے البتہ ایسی صورت میں اس امر کا خیال رکھنا چاہئے کہ صاحب حق جس نے مدیون کا اعتبار کیا ہے اس کا حق ٹھیک ٹھیک اسی طرح ادا کیا جائے جس طرح کسی کی امانت ادا کی جاتی ہے۔ دین کو امامت محض ایک خاص نسبت کی وجہ سے فرما دیا ، یعنی جس طرح امانت امین پر لازم ہوتی ہے ۔ اسی طر ح دین بھی مدیون پر لازم ہوتا ہے ورنہ دین اور امانت میں جو فرق ہے وہ ظاہر ہے۔ اپنے بعض اکابر نے امانتہ کی ضمیر کا مرجع مدیون کو قراردے کر یوں ترجمہ کیا ہے کہ پھر وہ شخص جس کا اعتبار کیا گیا ہے اپنے اعتبار کو پورا کرے یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے۔ بہر حال مطلب یہ ہے کہ ایسی حالت میں جبکہ محض اعتبار اور شخص بھروسہ پر کوئی معاملہ کیا جائے تو اس کی ادائیگی میں نہ سمجھ کر کوتاہی نہ کی جائے کہ نہ دستاویز اور گواہی ہیں نہ کوئی چیز رہن ہے تو ہم سے کوئی کیا لے لے گا ۔ حالانکہ زبان کا پاس اور صاحب حق کا اعتبار دستاویز اور رہن وغیرہ سے کہیں بڑھ کر ہے اور یہ جو فرمایا شہادت کا اخفا نہ کیا کرو اس کا مطلب یہ ہے کہ شہادت غلط دے دو یا بالکل ہی شہادت نہ دو ۔ اسی طرح اصل معاملہ مخفی ہوجائے گا اور ایسا کرنے والا کتمان شہادت کا مجرم ہوگا اگر گواہ کو گواہی کے لئے طلب کیا جائے ۔ اور یہ جانتا ہو کہ میری گواہی نہ ہونے سے کسی حق دار کا حق ضائع ہوجائے گا تو اس کو گواہی دینا فرض ہے ۔ جیسا کہ ہم ولا یاب الشھداء میں اشارہ کرچکے ہیں اور اگر کسی صاحب حق کو یہ معلوم نہ ہو کہ فلاں شخص کو میرا معاملہ معلوم ہے تو وہ شخص جس کو معاملہ معلوم ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اگر میں شہادت نہ دوں گا تو صاحب حق کا حق مارا جائے گا خود جا کر صاحب حق کو بتادے کہ مجھے آپ کے حق کا علم ہے اگر آپ چاہیں تو مجھ کو شہادت کے لئے طلب کرسکتے ہیں اس کہنے کے بعد اگر صاحب حق اس کو گواہی میں طلب نہ کرے تو پھر اس گواہ پر یہ واجب نہیں کہ خود قاضی کی عدالت میں جا کر شہادت دے اور چونکہ ادائے شہادت واجب ہے اس لئے اس پر کوئی اجرت حاصل کرنا بھی ناجائز ہے ۔ البتہ سواری کا کرایہ یا ریل کا خرچ لیا جاسکتا ہے نفس شہادت کی کوئی اجرت نہیں لی جاسکتی۔ فانہ اثم قلبہ یہ اس لئے کہ قلب اعضائے انسانی میں رئیس الاعضا ہے اس لئے گناہ کی نسبت اس کی طرف کی تا کہ گناہ کی اہمیت معلوم ہو نیز اس لئے کہ قلب ارادہ نہ کرتا تو زبان کیوں جھوٹ بولتی اور کسی چیز کا اخفا اور چھپا لینا یہ کام ہے بھی قلب کا اور اس لئے بھی کہ یہ نہ سمجھاجائے کہ جھوٹی گواہی سے صرف زبان ہی گناہ گارہوتی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں بنی آدم کے جسم میں ایک لوتھڑا اور مضغہ ہے اگر وہ درست ہے تو تمام جسم صحیح اور درست رہتا ہے اگر وہ خراب ہوجائے تو پھر تمام جسم خراب ہوجاتا ہے سن لو ! وہ لوتھڑا قلب ہے اس روایت کو صحین نے نقل کیا ہے۔ قلب کی اہمیت جسمانی اطباء کے نزدیک بھی مسلم ہے اس لئے وہ عام طور سے قلب کی اصلاح کے درپے رہتے ہیں اور روحانی اطباء کو بھی قلب کی فکر رہتی ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں روحانیت اور مادیت دونوں کی تقسیم صاف سمجھ میں آجاتی ہے انبیاء علہیم السلام اور علمائے کرام اور مشائخ عظام بھی قلب سے بحث کرتے ہیں اور ڈاکٹر اور طبیب وغیرہ بھی قلب سے بحث کرتے ہیں لیکن ایک کا مقصد قلب کی اصلاح سے روحانی اصلاح مراد ہوتی ہے اور دوسرے فریق کا مقصد قلب کی اصلاح اور تقویت سے جسم کی اصلاح مقصودہوتی ہے حالانکہ جسم فانی ہے اور نہ روح باقی ہے آج کل ہماری توجہ ان اطباء کی طرف زیادہ ہے جو فانی چیز کو کچھ دنوں کے لئے سنبھالتے اور درست رکھتے ہیں او جن کا علاج بھی عارضی او اس سے حاصل شدہ صحت بھی عارضی اور ان اطباء کی طرف ہماری توجہ کم ہے جو روح کے معالج ہیں اور جن کی اصلاح اور سنبھال دائمی زندگی بخشنے والی ہے۔ بہر حال اس تفصیل اور تقسیم کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے ، یہ بات آپ کو تمام قرآن کی تفسیر میں روشنی دے گی اور قرآن کا سمجھنا آپ کے لئے سہل ہوگا ، انشاء اللہ تعالیٰ ۔ تفسیر مظہری نے بعض حضرات سے نقل کیا ہے کہ قلب کے گناہ گار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قلب مسخ ہوجاتا ہے اور یہ ہوسکتا ہے کیونکہ ہر گناہ قلب کی روحانیت کو ضرر پہنچاتا ہے قلب سے نیکی کی توفیق کا سلب ہوجانا اس کا مسخ ہوجانا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں ۔ اکبر الکبائر یعنی بڑے گناہوں میں سب سے بڑے گناہ ایک تو اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے ۔ دوسرے جھوٹی شہادت دینا ہے ۔ تیسرے شہادت کو چھپانا ہے ، آیت کا آخری جملہ واللہ بما تعلمون علیم اگرچہ عا م ہے لیکن اس میں خاص اشارہ بھی ہے کہ ہم تمام اعمال کو جانتے ہیں خواہ وہ تمہارے جوارح اور اعضا ظاہری سے متعلق ہوں اور خواہ ان اعمال کا تعلق تمہارے قلوب سے ہم ہم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے اب آگے کی آیت میں ان ہی اعمال کی مزید تحقیق ارشاد فرماتے ہیں تا کہ یہ معلوم ہوجائے کہ قلب کے افعال و اعمال میں سے وہ کون سی چیزیں ہیں جو اللہ کے نزدیک قابل مواخذہ ہیں اور وہ کون سی چیزیں ہیں ۔۔ جو قابل در گزر ہیں ۔ سورة بقرہ میں جس کثرت کے ساتھ عقائد و اعمال کا ذکر آیا ہے اور ذات وصفات پر جو دلیلیں بیان کی گئی ہیں اور احکام کا فلسفہ جس خوبی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور تمثیلات اور امم سابقہ کے حالات و واقعات کو جس طرح ظاہر کیا گیا ہے ان سب کو لحاظ رکھتے ہوئے سورة بقرہ کا اتمام بھی ایسی جامع آیات کے ساتھ فرمایا ہے جن کی خوبیاں بیان کرنے سے ہماری یہ تفسیر عاجز اور قاصر ہیں۔ ( تسہیل)