VerbPersonal Pronoun

تَقْرَبَا

[you two] approach

تم دونوں قریب جانا

Verb Form 1
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
قَرَّبَ
يُقَرِّبُ
قَرِّبْ
مُقَرِّب
مُقَرَّب
تَقْرِيْب
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْقُرْبُ وَالْبُعْدُ: یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں۔ محاورہ ہے۔ قَرُبْتُ مِنْہُ اَقْرُبُ وَقَرَبْتُہٗ اَقْرَبُہٗ قُرْبًا وَقُرْبَانًا: کسی کے قریب جانا اور مکان، زمان، نسبی تعلق، مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے چنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا: (وَ لَا تَقۡرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ) (۲:۳۵) لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤگے۔ (وَ لَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ ) (۶:۱۵۳) اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا۔ (وَ لَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰۤی) (۱۷:۳۲) اور زنا کے پاس بھی نہ جانا۔ (فَلَا یَقۡرَبُوا الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ بَعۡدَ عَامِہِمۡ ہٰذَا) (۹:۲۸) تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں۔ اور آیت کریمہ: (وَ لَا تَقۡرَبُوۡہُنَّ …) (۲:۲۲۲) ان سے مقاربت نہ کرو۔ میں جماع سے کنایہ ہے۔ (فَقَرَّبَہٗۤ اِلَیۡہِمۡ ) (۵۱:۲۷) اور (کھانے کے لیے) ان کے آگے رکھ دیا۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا: (اِقۡتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمۡ ) (۲۱:۱) لوگوں کے حساب (اعمال) کا وقت نزدیک پہنچا۔ (اِنۡ اَدۡرِیۡۤ اَقَرِیۡبٌ اَمۡ بَعِیۡدٌ مَّا تُوۡعَدُوۡنَ) (۲۱:۱۰۹) اور مجھے معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا: (وَ اِذَا حَضَرَ الۡقِسۡمَۃَ اُولُوا الۡقُرۡبٰی ) (۴:۸) اور جب میراث کی تقسیم کے وقت … غیروارث) رشتے دار آجائیں۔ (وَ لَوۡ کَانَ ذَا قُرۡبٰی) (۶:۱۵۲) گو وہ تمہارے رشتے دار ہی ہوں۔ (وَ لِذِی الۡقُرۡبٰی) (۸:۴۱) اور اہل قرابت کا۔ (وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی ) (۴:۳۶) اور رشتے دار ہمسایوں (یَّتِیۡمًا ذَا مَقۡرَبَۃٍ) (۹۰:۱۵) یتیم رشتے دار کو … اور قرب بمعنی رتبہ کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا کے متعلق فرمایا: (وَ لَا الۡمَلٰٓئِکَۃُ الۡمُقَرَّبُوۡنَ ) (۴:۱۷۲) اور نہ مقرب فرشتے (عار) رکھتے ہیں۔ اور عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا: (وَجِیۡہًا فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ وَ مِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ ) (۳:۴۵) (اور جو) دنیا اور آخرت میں آبرو والا اور (خدا کے) خاصوں میں سے ہوگا۔ (عَیۡنًا یَّشۡرَبُ بِہَا الۡمُقَرَّبُوۡنَ ) (۸۲:۲۸) وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے (خدا کے) مقرب پئیں گے۔ (فَاَمَّاۤ اِنۡ کَانَ مِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ ) (۵۶:۸۸) پھر اگر وہ خدا کے مقربوں میں سے ہے۔ (قَالَ نَعَمۡ وَ اِنَّکُمۡ لَمِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ) (۷:۱۱۴) (فرعون نے) کہا: ہاں (ضرور) اور اس کے علاوہ تم مقربوں میں داخل کرلیے جاؤگے۔ (وَ قَرَّبۡنٰہُ نَجِیًّا) (۱۹:۵۲) اور باتیں کرنے کے لیے نزدیک بلایا۔ اور اَلْقُرْبَۃُ کے معنی قرب حاصل کرنے کا ذریعہ کے بھی آتے ہیں جیسے فرمایا: (اَلَاۤ اِنَّہَا قُرۡبَۃٌ لَّہُمۡ ) (۹:۹۹) دیکھو وہ بے شبہ ان کے لیے (موجب) قربت ہے۔ (تُقَرِّبُکُمۡ عِنۡدَنَا زُلۡفٰۤی) (۳۴:۳۷) کہ تم کو ہمارا مقرب بنادیں۔ اور رعایت ونگہبانی کے متعلق فرمایا: (اِنَّ رَحۡمَتَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ مِّنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ) (۷:۵۶) کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔ (فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ) (۲:۱۸۶) میں تو تمہارے پاس ہوں۔ جب کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں اور قرب معنی قدرۃ فرمایا: (وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ) (۵۰:۱۶) اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ اور آیت کریمہ: (وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡکُمۡ) (۵۶:۸۵) اور ہم اس مرنے والے کے تم سے بھی زیادہ نزدیک ہوتے ہیں۔ میں بھی یہ ممکن ہے کہ قرب بلحاظ قدرت مراد ہو۔ اَلْقُرْبَانَ: (نیاز) ہر وہ چیز جس سے اﷲ کی قرب جوئی کی جائے اور عرف میں قربان بمعنی نَسِیْکَۃُ یعنی ذَبِیْحَۃٌ آتا ہے اس کی جمع قَرَابِیْنُ ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (اِذۡ قَرَّبَا قُرۡبَانًا) (۵:۲۷) جب ان دونوں نے خدا کی جناب میں کچھ نیازیں چڑھائیں۔ (حَتّٰی یَاۡتِیَنَا بِقُرۡبَانٍ ) (۳:۱۸۳) جب تک کوئی پیغمبر ہمارے پاس ایسی نیاز نہ لے کر آئے … اور آیت کریمہ: (قُرۡبَانًا اٰلِـہَۃً) (۴۶:۲۸) تقریب خدا کے سوا معبود (بنایا تھا) میں قُرْبَان کا لفظ قُرْبَانُ الْمَلِکِ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی بادشاہ کا ہم نشین اور ندیم خاص کے ہیں اور یہ واحد و جمع دونوں پر بولا جاتا ہے اور یہاں چونکہ جمع کے معنی میں ہے اس لیے اٰلِھَۃً بلفظ جمع لایا گیا ہے۔ اَلتَّقَرُّبُ: ایسی چیز کا قصد کرنا جس سے دوسرے کے ہاں قدرومنزلت حاصل ہو۔ اور اﷲ تعالیٰ کا کسی بندہ کے قریب ہوجانا باعتبار مکان کے نہیں ہوتا بلکہ اس پر فضل و کرم اور فیض (خاص) جاری کرنا مراد ہوتا ہے۔ اس لیے مروی ہے(۷۹) کہ موسیٰ علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ سے عرص کی کہ باری تعالیٰ! کیا تو قریب ہے کہ میں تجھ سے مناجات کروں یا دور ہے کہ میں تمہیں پکاروں؟ تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اگر میں تیرے لیے دوری معین کردوں تو وہاں تک پہنچ نہیں سکے گا اور اگر قرب معین کردوں تو تجھے اس پر قدرت نہیں ہوگی۔ چنانچہ فرمایا: (وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ) (۵۰:۱۶) اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ اور کسی بندہ کے مقرب الٰہی ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ بہت سی ایسی صفات اپنے اندر پیدا کرلے … جن کے ساتھ ذات الٰہی مصف ہوتی ہے گو وہ صفات انسان میں اس درجہ نہ پائی جائیں جس درجہ میں کہ ذات الٰہی میں وہ صفات متحقق ہوتی ہیں۔ مثلاً انسان، علم و حکمت حلم و رحمت اور بے نیازی جیسی صفات اپنے اندر پیدا کرلے اور یہ ان کے اضداد یعنی جہالت … طیش وغضب اور احتیاج نفسانی کی میل کچیل سے پاک ہونے کے بعد حاصل ہوتی ہیں اور یہ قرب جسمانی کے قبیل سے نہیں ہے بلکہ قرب روحانی ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا: (1)۔ (۸۰) (مَنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ ذِرَاعًا) کہ جو شخص بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک رذاع یعنی ہاتھ بھر اس کے قریب ہوجاتا ہوں اور نیز ایک روایت میں ہے کہ تقریب الٰہی حاصل کرنے کے لیے فرائض کی ادائیگی کے بعد نوافل کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں۔ … اور آیت کریمہ: (وَ لَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ) (۶:۱۵۲) اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا۔ میں لَاتَقْرَبُوْا کے لفظ میں جو بلاغت پائی جاتی ہے وہ تَنَاوَلُوْا کے لفظ سے پیدا نہیں ہوسکتی! کیونکہ کسی چیز کو لینے سے منع کرنے کی بنسبت اس کے قریب جانے سے منع کرنے میں زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے اسی لیے فرمایا (وَ لَا تَقۡرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ ) (۲:۳۵) لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا۔ اور آیت کریمہ: (وَ لَا تَقۡرَبُوۡہُنَّ حَتّٰی یَطۡہُرۡنَ ) (۲:۲۲۲) اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو۔ میں قرب جماع سے کنایہ ہے۔ نیز فرمایا: (وَ لَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰۤی) (۱۷:۳۲) اور زنا کے پاس بھی نہ جانا۔ اَلْقِرَابُ: (مصدر) بمعنی مقاربت ہے شاعر نے کہا ہے(2) الطّویل) (۳۵۳) فَانِنَّ قِرَابَ الْبَطْن یَکْفِیْکَ مِلْؤُہَ قَدَحٌ قَرْبَانُ: تقریبا بھرا ہوا پیالہ۔ اور قِرْبَانُ الْمَرْئَ ۃِ: عورت سے مجامعت کرنا۔ تَقْرِیْبُ الْفَرْسِ: گھوڑے کا دُنکی دوڑنا ایک رفتار جو دوڑ کے قریب ہوتی ہے)۔ اَلْقُرَاب: قریب۔ فَرَسٌ لَاحِقُ الْاَقْرَابِ: گھوڑا جس کی تہی گاہیں پچکی ہوئی ہوں۔ اَلْقِرَابُ: تلوار کی نیام بعض کا قول ہے کہ قِراب نیام کو نہیں کہتے بلکہ نیام کے اوپر کے چمڑے کو کہا جاتا ہے اس کی جمع قُرُبٌ ہے اور قَرَبْتُ السَّیْفَ وَاَقْرَبْتُہٗ کے معنی تلوار کو نیام کے اندر بند کرنے کے ہیں۔ رَجُلٌ قَارِبٌ: آدمی جو پانی کے قریب پہنچ جائے۔ لَیْلَۃُ الْقُرْبِ: عرب لوگ اونٹ چراتے چراتے پانی کی طرف چلے جاتے جب ان کے اور پانی کے درمیان ایک شب کا سفر باقی رہ جاتا تو عجلت سے سفر کرتے لہٰذا اس رات کو لَیْلَۃُ الْقُرْبِ کہتے چنانچہ اسی سے اَقْرَبُوْا اِبِلَھُمْ کا محاورہ ہے۔ جس کے معنی لَیْلَۃُ الْقُرْبِ میں اونٹوں کو پانی کی طرف ہنکانے کے ہیں۔ اَلْمُقْرِبُ: حاملہ عورت جو قریب الولادت ہو۔

Lemma/Derivative

11 Results
يَقْرَبُ
Surah:17
Verse:34
تم قریب جاؤ
come near