Guidance and Success are awarded to the Believers
Allah said,
أُوْلَـيِكَ
...
They are,
refers to those who believe in the Unseen, establish the prayer, spend from what Allah has granted them, believe in what Allah has revealed to the Messenger and the Messengers before him, believe in the Hereafter with certainty, and prepare the necessary requirements for the Hereafter by performing good deeds and avoiding the prohibitions.
Allah then said,
...
عَلَى هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ
...
on guidance from their Lord,
meaning, they are (following) a light, guidance, and have insight from Allah,
...
وَأُوْلَـيِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
And they are the successful.
meaning, in this world and the Hereafter. They shall have what they seek and be saved from the evil that they tried to avoid. Therefore, they will have rewards, eternal life in Paradise, and safety from the torment that Allah has prepared for His enemies.
ہدایت یافتہ لوگ
یعنی وہ لوگ جن کے اوصاف پہلے بیان ہوئے مثلاً غیب پر ایمان لانا ، نماز قائم رکھنا ، اللہ کے دئیے ہوئے سے دینا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اترا اس پر ایمان لانا ، آپ سے پہلے جو کتابیں اتریں ان کو ماننا ، دار آخرت پر یقین رکھ کر وہاں کام آنے کے لئے نیک اعمال کرنا ۔ برائیوں اور حرام کاریوں سے بچنا ۔ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں جنہیں اللہ کی طرف سے نور ملا ، اور بیان و بصیرت حاصل ہوا اور انہی لوگوں کے لئے دنیا اور آخرت میں فلاح و نجات ہے ۔ ابن عباس نے ہدایت کی تفسیر نور اور استقامت سے کی ہے اور فلاح کی تفسیر اپنی چاہت کو پا لینے اور برائیوں سے بچ جانے کی ہے ۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے رب کی طرف سے نور ، دلیل ، ثابت قدمی ، سچائی اور توفیق میں حق پر ہیں اور یہی لوگ اپنے ان پاکیزہ اعمال کی وجہ سے نجات ، ثواب اور دائمی جنت پانے کے مستحق ہیں اور عذاب سے محفوظ ہیں ۔ ابن جریر یہ بھی فرماتے ہیں کہ دوسرے اولئک کا اشارہ اہل کتاب کی طرف ہے جن کی صفت اس سے پہلے بیان ہو چکی ہے جیسے پہلے گزر چکا ۔ اس اعتبار سے آیت ( والذین یومنون بما انزل الیک ) الخ پہلے کی آیت سے جدا ہو گا اور مبتدا بن کر مرفوع ہو گا اور اس کی خبر آیت ( اولئک ھم المفلحون ) ہو گی لیکن پسندیدہ قول یہی ہے کہ اس کا اشارہ پہلے کے سب اوصاف والوں کی طرف ہے اہل کتاب ہوں یا عرب ہوں ۔ حضرت ابن عباس ، حضرت ابن مسعود اور بعض صحابہ سے مروی ہے کہ آیت ( یومنون بالغیب ) سے مراد عرب ایمان دار ہیں اس کے بعد کے جملہ سے مراد اہل کتاب ایماندار ہیں ۔ پھر دونوں کے لئے یہ بشارت ہے کہ یہ لوگ ہدایت اور فلاح والے ہیں ۔ اور یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ آیتیں عام ہیں اور یہ اشارہ بھی عام ہے واللہ اعلم ۔ مجاہد ، ابو العالیہ ، ربیع بن انس ، اور قتادہ سے یہی مروی ہے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ حضور قرآن پاک کی بعض آیتیں تو ہمیں ڈھاریں دیتی ہیں اور امید قائم کرا دیتی ہیں اور بعض آیتیں کمر توڑ دیتی ہیں اور قریب ہوتا ہے کہ ہم نامید ہو جائیں ۔ آپ نے فرمایا لو میں تمہیں جنتی اور جہنمی کی پہچان صاف صاف بتا دوں ۔ پھر آپ نے الم سے مفلحون تک پڑھ کر فرمایا یہ تو جنتی ہیں صحابہ نے خوش ہو کر فرمایا الحمد للہ ہمیں امید ہے کہ ہم انہی میں سے ہوں پھر آیت ( ان الذین کفروا ) سے عظیم تک تلاوت کی اور فرمایا یہ جہنمی ہیں ۔ انہوں نے کہا ہم ایسے نہیں آپ نے فرمایا ہاں ۔ ( ابن ابی حاتم )