Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 5

سورة البقرة

اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ٭ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۵﴾

Those are upon [right] guidance from their Lord, and it is those who are the successful.

یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Guidance and Success are awarded to the Believers Allah said, أُوْلَـيِكَ ... They are, refers to those who believe in the Unseen, establish the prayer, spend from what Allah has granted them, believe in what Allah has revealed to the Messenger and the Messengers before him, believe in the Hereafter with certainty, and prepare the necessary requirements for the Hereafter by performing good deeds and avoiding the prohibitions. Allah then said, ... عَلَى هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ... on guidance from their Lord, meaning, they are (following) a light, guidance, and have insight from Allah, ... وَأُوْلَـيِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ And they are the successful. meaning, in this world and the Hereafter. They shall have what they seek and be saved from the evil that they tried to avoid. Therefore, they will have rewards, eternal life in Paradise, and safety from the torment that Allah has prepared for His enemies.

ہدایت یافتہ لوگ یعنی وہ لوگ جن کے اوصاف پہلے بیان ہوئے مثلاً غیب پر ایمان لانا ، نماز قائم رکھنا ، اللہ کے دئیے ہوئے سے دینا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اترا اس پر ایمان لانا ، آپ سے پہلے جو کتابیں اتریں ان کو ماننا ، دار آخرت پر یقین رکھ کر وہاں کام آنے کے لئے نیک اعمال کرنا ۔ برائیوں اور حرام کاریوں سے بچنا ۔ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں جنہیں اللہ کی طرف سے نور ملا ، اور بیان و بصیرت حاصل ہوا اور انہی لوگوں کے لئے دنیا اور آخرت میں فلاح و نجات ہے ۔ ابن عباس نے ہدایت کی تفسیر نور اور استقامت سے کی ہے اور فلاح کی تفسیر اپنی چاہت کو پا لینے اور برائیوں سے بچ جانے کی ہے ۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے رب کی طرف سے نور ، دلیل ، ثابت قدمی ، سچائی اور توفیق میں حق پر ہیں اور یہی لوگ اپنے ان پاکیزہ اعمال کی وجہ سے نجات ، ثواب اور دائمی جنت پانے کے مستحق ہیں اور عذاب سے محفوظ ہیں ۔ ابن جریر یہ بھی فرماتے ہیں کہ دوسرے اولئک کا اشارہ اہل کتاب کی طرف ہے جن کی صفت اس سے پہلے بیان ہو چکی ہے جیسے پہلے گزر چکا ۔ اس اعتبار سے آیت ( والذین یومنون بما انزل الیک ) الخ پہلے کی آیت سے جدا ہو گا اور مبتدا بن کر مرفوع ہو گا اور اس کی خبر آیت ( اولئک ھم المفلحون ) ہو گی لیکن پسندیدہ قول یہی ہے کہ اس کا اشارہ پہلے کے سب اوصاف والوں کی طرف ہے اہل کتاب ہوں یا عرب ہوں ۔ حضرت ابن عباس ، حضرت ابن مسعود اور بعض صحابہ سے مروی ہے کہ آیت ( یومنون بالغیب ) سے مراد عرب ایمان دار ہیں اس کے بعد کے جملہ سے مراد اہل کتاب ایماندار ہیں ۔ پھر دونوں کے لئے یہ بشارت ہے کہ یہ لوگ ہدایت اور فلاح والے ہیں ۔ اور یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ آیتیں عام ہیں اور یہ اشارہ بھی عام ہے واللہ اعلم ۔ مجاہد ، ابو العالیہ ، ربیع بن انس ، اور قتادہ سے یہی مروی ہے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ حضور قرآن پاک کی بعض آیتیں تو ہمیں ڈھاریں دیتی ہیں اور امید قائم کرا دیتی ہیں اور بعض آیتیں کمر توڑ دیتی ہیں اور قریب ہوتا ہے کہ ہم نامید ہو جائیں ۔ آپ نے فرمایا لو میں تمہیں جنتی اور جہنمی کی پہچان صاف صاف بتا دوں ۔ پھر آپ نے الم سے مفلحون تک پڑھ کر فرمایا یہ تو جنتی ہیں صحابہ نے خوش ہو کر فرمایا الحمد للہ ہمیں امید ہے کہ ہم انہی میں سے ہوں پھر آیت ( ان الذین کفروا ) سے عظیم تک تلاوت کی اور فرمایا یہ جہنمی ہیں ۔ انہوں نے کہا ہم ایسے نہیں آپ نے فرمایا ہاں ۔ ( ابن ابی حاتم )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

ف 1 یہ ان اہل ایمان کا انجام بیان کیا گیا ہے جو ایمان لانے کے بعد تقویٰ و عمل اور عقیدہ صحیحہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ محض زبان سے اظہار ایمان کو کافی نہیں سمجھتے۔ کامیابی سے مراد آخرت میں رضائے الٰہی اور اس کی رحمت و مغفرت کا حصول ہے۔ اس کے ساتھ دنیا میں بھی خوش حالی اور سعادت و کامرانی مل جائے تو سبحان اللہ۔ ورنہ اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ دوسرے گروہ کا تذکرہ فرما رہا ہے جو صرف کافر ہی نہیں بلکہ اس کا کفر وعناد اس انتہا تک پہنچا ہوا ہے جس کے بعد اس سے خیر اور قبول اسلام کی توقع ہی نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] دیکھئے یہاں اسلام کے تین اہم بنیادی ارکان کا اجمالاً ذکر کردیا گیا ہے اور اجمال ہی کی وجہ سے روزہ اور حج کا ذکر نہیں کیا گیا۔ کیونکہ جن لوگوں میں مندرجہ بالا پانچ صفات پیدا ہوجائیں گی، وہ صرف روزہ اور حج ہی نہیں دوسرے تمام شرعی اوامرو نواہی پر عمل کرنے کے لیے از خود مستعد ہوجائیں گے اور درج ذیل حدیث میں نماز روزہ اور زکوٰۃ کا ذکر آیا ہے۔ حج چونکہ زندگی میں صرف ایک بار اور وہ بھی صاحب استطاعت پر فرض ہے لہذا اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ ارکان اسلام کی اہمیت اور ترتیب :۔ طلحہ بن عبید اللہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ اس کی بات سمجھ میں نہ آتی تھی اور ہم بھن بھن کی طرح اس کی آواز سنتے رہے، وہ نزدیک آیا تو معلوم ہوا کہ وہ اسلام کی بابت پوچھ رہا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے فرمایا && اسلام، دن رات میں پانچ نمازیں ادا کرنا۔ اس نے کہا : اس کے علاوہ تو میرے ذمے کچھ نہیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں && الا یہ کہ تو نفل (یا کوئی نفلی نماز) پڑھے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : && اور رمضان کے روزے رکھنا۔ && اس نے پوچھا : اس کے علاوہ اور تو کوئی روزہ میرے ذمے نہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں الا یہ کہ تو کوئی نفلی روزہ رکھے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے زکوٰۃ کے متعلق بتایا تو کہنے لگا : && بس۔ اور تو کوئی صدقہ میرے ذمہ نہیں ؟ && آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :: نہیں۔ الا یہ کہ تو نفلی صدقہ کرے۔ & & پھر وہ پیٹھ موڑ کر چلا تو یہ کہتا جاتا تھا : اللہ کی قسم ! میں نہ اس سے بڑھاؤں گا نہ گھٹاؤں گا۔ && آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر یہ سچا ہے تو اپنی مراد کو پہنچ گیا (کامیاب ہوگیا && ) (بخاری، کتاب الایمان، باب الزکوٰۃ من الاسلام) [١٠] فلاح سے مراد عذاب دوزخ سے نجات اور جنت میں داخلہ ہے۔ جیسا کہ سورة آل عمران کی آیت ١٨٥ میں یہ صراحت موجود ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) الف لام کی وجہ سے ’ پورے کامیاب ‘ ترجمہ کیا گیا ہے، یعنی وہی متقی جن میں یہ اوصاف ہوں گے رب تعالیٰ کی طرف سے سیدھے راستے پر قائم رہیں گے اور وہی مکمل کامیابی سے سرفراز ہوں گے۔ ایمان اور عمل صالح کرنے والوں کے ساتھ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انھیں ہدایت دے گا اور جنت بھی۔ ( دیکھیے یونس : ٩)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّہِمْ ٠ ۤوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝ ٥ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] . وعلی هذا قوله تعالی: وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران/ 80] أي : آلهة، وتزعمون أنهم الباري مسبّب الأسباب، والمتولّي لمصالح العباد، وبالإضافة يقال له ولغیره، نحو قوله : رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ، ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات/ 126] ، ويقال : رَبُّ الدّار، ورَبُّ الفرس لصاحبهما، وعلی ذلک قول اللہ تعالی: اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف/ 42] ، وقوله تعالی: ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف/ 50] ، وقوله : قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف/ 23] ، قيل : عنی به اللہ تعالی، وقیل : عنی به الملک الذي ربّاه والأوّل أليق بقوله . والرَّبَّانِيُّ قيل : منسوب إلى الرّبّان، ولفظ فعلان من : فعل يبنی نحو : عطشان وسکران، وقلّما يبنی من فعل، وقد جاء نعسان . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ الذي هو المصدر، وهو الذي يربّ العلم کالحکيم، وقیل : منسوب إليه، ومعناه، يربّ نفسه بالعلم، وکلاهما في التحقیق متلازمان، لأنّ من ربّ نفسه بالعلم فقد ربّ العلم، ومن ربّ العلم فقد ربّ نفسه به . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ ، أي : اللہ تعالی، فالرّبّانيّ کقولهم : إلهيّ ، وزیادة النون فيه كزيادته في قولهم : لحیانيّ ، وجسمانيّ قال عليّ رضي اللہ عنه : (أنا ربّانيّ هذه الأمّة) والجمع ربّانيّون . قال تعالی: لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة/ 63] ، كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران/ 79] ، وقیل : ربّانيّ لفظ في الأصل سریانيّ ، وأخلق بذلک فقلّما يوجد في کلامهم، وقوله تعالی: رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران/ 146] ، فالرِّبِّيُّ کالرّبّانيّ. والرّبوبيّة مصدر، يقال في اللہ عزّ وجلّ ، والرِّبَابَة تقال في غيره، وجمع الرّبّ أرْبابٌ ، قال تعالی: أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف/ 39] ، ولم يكن من حقّ الرّبّ أن يجمع إذ کان إطلاقه لا يتناول إلّا اللہ تعالی، لکن أتى بلفظ الجمع فيه علی حسب اعتقاداتهم، لا علی ما عليه ذات الشیء في نفسه، والرّبّ لا يقال في التّعارف إلّا في الله، وجمعه أربّة، وربوب، قال الشاعر کانت أربّتهم بهز وغرّهم ... عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا وقال آخر : وكنت امرأ أفضت إليك ربابتي ... وقبلک ربّتني فضعت ربوب ويقال للعقد في موالاة الغیر : الرِّبَابَةُ ، ولما يجمع فيه القدح ربابة، واختصّ الرّابّ والرّابّة بأحد الزّوجین إذا تولّى تربية الولد من زوج کان قبله، والرّبيب والرّبيبة بذلک الولد، قال تعالی: وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء/ 23] ، وربّبت الأديم بالسّمن، والدّواء بالعسل، وسقاء مربوب، قال الشاعر : فکوني له کالسّمن ربّت بالأدم والرَّبَابُ : السّحاب، سمّي بذلک لأنّه يربّ النبات، وبهذا النّظر سمّي المطر درّا، وشبّه السّحاب باللّقوح . وأَرَبَّتِ السّحابة : دامت، وحقیقته أنها صارت ذات تربية، وتصوّر فيه معنی الإقامة فقیل : أَرَبَّ فلانٌ بمکان کذا تشبيها بإقامة الرّباب، وَ «رُبَّ» لاستقلال الشیء، ولما يكون وقتا بعد وقت، نحو : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الحجر/ 2] . ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کمال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ ورببہ تینوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گناہ بخشنے والا پروردگار ،۔ نیز فرمایا :۔ وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران/ 80] اور وہ تم سے ( کبھی بھی ) یہ نہیں کہے گا کہ فرشتوں اور انبیاء کرام کو خدا مانو ( یعنی انہیں معبود بناؤ ) اور مسبب الاسباب اور مصالح عباد کو کفیل سمجھو ۔ اور اضافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور دوسروں پر بھی ۔ چناچہ فرمایا :۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ہر طرح کی حمد خدا ہی کو ( سزا وار ) ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات/ 126] یعنی اللہ کو جو تمہارا ( بھی ) پروردگار ( ہے ) اور تمہارے پہلے آباؤ اجداد کا ( بھی ) رب الدار گھر کا مالک ۔ رب الفرس گھوڑے کا مالک اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا :۔ اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف/ 42] اپنے آقا سے میرا بھی تذکرہ کرنا ۔ سو شیطان نے اس کو اپنے آقا سے تذکرہ کرنا بھلا دیا ۔ ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف/ 50] اپنے سردار کے پاس لوٹ جاؤ ۔ اور آیت :۔ قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف/ 23] ( یوسف نے کہا ) معاذاللہ وہ تمہارا شوہر میرا آقا ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ ربی سے مراد اللہ تعالیٰ ہے اور بعض نے عزیز مصر مراد لیا ہے ۔ لیکن پہلا قول انسب معلوم ہوتا ہے ۔ ربانی بقول بعض یہ ربان ( صیغہ صفت ) کی طرف منسوب ہے ۔ لیکن عام طور پر فعلان ( صفت ) فعل سے آتا ہے ۔ جیسے عطشان سکران اور فعل ۔ ( فتحہ عین سے بہت کم آتا ہے ) جیسے نعسان ( من نعس ) بعض نے کہا ہے کہ یہ رب ( مصدر ) کی طرف منسوب ہے اور ربانی وہ ہے جو علم کی پرورش کرے جیسے حکیم ( یعنی جو حکمت کو فروغ دے ۔ ) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رب مصدر کی طرف ہی منسوب ہے اور ربانی وہ ہے ۔ جو علم سے اپنی پرورش کرے ۔ درحقیقت یہ دونوں معنی باہم متلازم ہیں کیونکہ جس نے علم کی پرورش کی تو اس نے علم کے ذریعہ اپنی ذات کی بھی تربیت کی اور جو شخص اس کے ذریعہ اپنی ذات کی تربیت کریگا وہ علم کو بھی فروغ بخشے گا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ رب بمعنی اللہ کی طرف منسوب ہے اور ربانی بمعنی الھی ہے ( یعنی اللہ والا ) اور اس میں الف نون زائدتان ہیں جیسا کہ جسم ولحی کی نسبت میں جسمانی ولحیانی کہا جاتا ہے ۔ حضرت علی کا قول ہے : انا ربانی ھذہ الامۃ میں اس امت کا عالم ربانی ہوں اس کی جمع ربانیون ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة/ 63] انہیں ان کے ربی ( یعنی مشائخ ) کیوں منع نہیں کرتے ۔ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران/ 79]( بلکہ دوسروں سے کہیگا ) کہ تم خدا پرست ہو کر رہو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ ربانی اصل میں سریانی لفظ ہے اور یہی قول انسب معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ عربی زبان میں یہ لفظ بہت کم پایا جاتا ہے اور آیت :۔ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران/ 146] بہت سے اللہ والوں نے ۔ میں ربی بمعنی ربانی ہے ۔ یہ دونوں مصدر ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے ربوبیۃ اور دوسروں کے لئے ربابیۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ الرب ( صیغہ صفت ) جمع ارباب ۔ قرآن میں ہے : أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف/ 39] بھلا ( دیکھو تو سہی کہ ) جدا جدا معبود اچھے یا خدائے یگانہ اور زبردست ۔ اصل تو یہ تھا کہ رب کی جمع نہ آتی ۔ کیونکہ قرآن پاک میں یہ لفظ خاص کر ذات باری تعالیٰ کیلئے استعمال ہوا ہے لیکن عقیدہ کفار کے مطابق بصیغہ جمع استعمال ہوا ہے اور ارباب کے علاوہ اس کی جمع اربۃ وربوب بھی آتی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( بسیط) کانت اربتھم بھز وغرھم عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا ان کے ہم عہد بنی بہز تھے جنہیں عقد جوار نے مغرور کردیا اور درحقیقت وہ غدار لوگ ہیں ۔ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 129) وکنت امرءا افضت الیک ربابتی وقبلک ربنی فضعت ربوب تم آدمی ہو جس تک میری سر پرستی پہنچتی ہے تم سے پہلے بہت سے میرے سرپرست بن چکے ہیں مگر میں ضائع ہوگیا ہوں ۔ ربابۃ : عہد و پیمان یا اس چیز کو کہتے ہیں جس میں قمار بازی کے تیر لپیٹ کر رکھے جاتے ہیں ۔ رابۃ وہ بیوی جو پہلے شوہر سے اپنی اولاد کی تربیت کررہی ہو ۔ اس کا مذکر راب ہے ۔ لیکن وہ اولاد جو پہلے شوہر سے ہو اور دوسرے شوہر کی زیر تربیت ہو یا پہلی بیوی سے ہو اور دوسری بیوی کی آغوش میں پرورش پا رہی ہو ۔ اسے ربیب یا ربیبۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع ربائب آتی ہے قرآن میں ہے : وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء/ 23] اور تمہاری بیویوں کی ( پچھلی ) اولاد جو تمہاری گودوں میں ( پرورش پاتی ) ہے ۔ ربیت الادیم بالسمن میں نے چمڑے کو گھی لگا کر نرم کیا ۔ ربیت الدواء بالعسل میں نے شہد سے دوا کی اصلاح کی سقاء مربوب پانی مشک جسے تیل لگا کر نرم کیا گیا ہو ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 170) فکونی لہ کالسمن ربت لہ الادم اس کے لئے ایسی ہوجاؤ جیسے رب لگا ہوا چمڑا گھی کے لئے ہوتا ہے ۔ الرباب : بادل کو کہتے ہیں کیونکہ وہ نباتات کی پرورش کرتا اور اسے بڑھاتا ہے اسی معنی کے اعتبار سے مطر کو در ( دودھ ) اور بادل کو تشبیہا لقوح ( یعنی دودھیلی اونٹنی ) کہا جاتا ہے محاورہ ہے ۔ اربت السحابۃ بدلی متواتر برستی رہی اور اسکے اصل معنی ہیں بدلی صاحب تربیت ہوگئی اس کے بعد اس سے ٹھہرنے کا معنی لے کر یہ لفظ کسی جگہ پر مقیم ہونے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے ارب فلان بمکان کذا اس نے فلان جگہ پر اقامت اختیار کی ۔ رب تقلیل کے لئے آتا ہے اور کبھی تکثیر کے معنی بھی دیتا ہے ۔ جیسے فرمایا : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کافر بہترے ہی ارمان کریں گے ( کہ ) اے کاش ( ہم بھی ) مسلمان ہوئے ہوتے ۔ فلح الفَلْحُ : الشّقّ ، وقیل : الحدید بالحدید يُفْلَحُ أي : يشقّ. والفَلَّاحُ : الأكّار لذلک، والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ المجادلة/ 22] ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی/ 14] ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] ، قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ [ المؤمنون/ 1] ، لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ البقرة/ 189] ، إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكافِرُونَ [ المؤمنون/ 117] ، فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ الحشر/ 9] ، وقوله : وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلى [ طه/ 64] ، فيصحّ أنهم قصدوا به الفلاح الدّنيويّ ، وهو الأقرب، وسمّي السّحور الفَلَاحَ ، ويقال : إنه سمّي بذلک لقولهم عنده : حيّ علی الفلاح، وقولهم في الأذان : ( حي علی الفَلَاحِ ) أي : علی الظّفر الذي جعله اللہ لنا بالصلاة، وعلی هذا قوله ( حتّى خفنا أن يفوتنا الفلاح) أي : الظّفر الذي جعل لنا بصلاة العتمة . ( ف ل ح ) الفلاح الفلح کے معنی پھاڑنا کے ہیں مثل مشہور ہے الحدید بالحدید یفلح لوہا لوہے کو کاٹتا ہے اس لئے فلاح کسان کو کہتے ہیں ۔ ( کیونکہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے ) اور فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہوکا کھا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ المجادلة/ 22] ( اور ) سن رکھو کہ خدا ہی کا لشکر مراد حاصل کرنے والا ہے ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی/ 14] بیشک وہ مراد کو پہنچ گیا جو پاک ہوا ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] جس نے اپنے نفس یعنی روح کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچ گیا ۔ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ [ المؤمنون/ 1] بیشک ایمان والے رستگار ہوئے ۔ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ البقرة/ 189] تاکہ تم فلاح پاؤ ۔ إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكافِرُونَ [ المؤمنون/ 117] کچھ شک نہیں کہ کافر رستگاری نہیں پائیں گے ۔ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ الحشر/ 9] وہ تو نجات پانے والے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلى [ طه/ 64] اور آج جو غالب رہا وہ کامیاب ہوا ۔ میں یہ بھی صحیح ہے کہ انہوں نے فلاح دنیوی مراد لی ہو بلکہ یہی معنی ( بلحاظ قرآن ) اقرب الی الصحت معلوم ہوتے ہیں ۔ اور سحور یعنی طعام سحر کو بھی فلاح کہا گیا ہے کیونکہ اس وقت حی علی الفلاح کی آواز بلند کی جاتی ہے اور اذان میں حی علی الفلاح کے معنی یہ ہیں کہ اس کامیابی کیطرف آؤ جو نما زکی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر کر رکھی ہے ۔ اور حدیث (76) حتی خفنا ان یفوتنا الفلاح ( حتی کہ فلاح کے فوت ہوجانے کا ہمیں اندیشہ ہوا ) میں بھی فلاح سے مراد وہ کامیابی ہے جو صلاۃ عشا ادا کرنے کی وجہ سے ہمارے لئے مقدر کی گئی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥ (اُولٰٓءِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْق) وہ ابتدائی ہدایت بھی ان کے پاس تھی اور اس تکمیلی ہدایت یعنی قرآن پر بھی ان کا پورا یقین ہے ‘ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع بھی وہ کر رہے ہیں۔ّ (وَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) ” فلاح “ کا لفظ بھی قرآن مجید کی بہت اہم اصطلاح ہے۔ اس کا معنی ہے منزل مراد کو پہنچ جانا ‘ کسی باطنی حقیقت کا عیاں ہوجانا۔ اس پر ان شاء اللہ سورة المؤمنون کے شروع میں گفتگو ہوگی۔ یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ فلاح پانے والے ‘ کامیاب ہونے والے ‘ منزل مراد کو پہنچنے والے اصل میں یہی لوگ ہیں۔ تاویل خاص کے اعتبار سے یہ صحابہ کرام (رض) کی طرف اشارہ ہوگیا ‘ جبکہ تاویل عام کے اعتبار سے ہر شخص کو بتادیا گیا کہ اگر قرآن کی ہدایت سے مستفید ہونا ہے تو یہ اوصاف اپنے اندرپیدا کرو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:5) اولئک اسم اشارہ بعید جمع مذکر۔ وہ سب، یعنی وہ مومن اور متقی لوگ جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ علی ھدی من ربھم ۔ کلمہ علی متقی لوگوں کے ہدایت خدوندی پر متمکن و مستقر ہونے پر دلالت کرتا ہے ای تابتوں علی الھدی ہدایت پر ثابت قدم رہنے والے۔ ھدی کو نکرہ تعظیم کے لئے لایا گیا ہے اور اس ہدایت کا من ربھم ہونا تعظیم کی مزید تاکید ہے۔ والئک ھم المفلحون : واؤ عطف کی ہے۔ اولئک مبتداء ھم مبتداء المفلحون : خبر، دونوں مل کر اولئک کی خبر ہوئے۔ یہ مبتداء اپنی خبر سے مل کر جملہ اسمیہ ہوکر جملہ سابقہ کا معطوف ہوا۔ ھم ضمیر مقدم برائے حصر لائی گئیے۔ یعنی فلاح بھی انہی کا حصہ ہے جو مذکورہ بالا اوصاف سے متصف ہیں ۔ المفلحون۔ اسم فاعل جمع مذکر مرفوع المفلح واحد افلاح (افعال) مصدر ، فلاح پانے والے، مراد پانیوالے، کامیابی حاصل کرنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی اہل تقوی جو مذ کو رہ صفات سے متصف ہوتے ہیں وہی کامل فلا سے سرفراز ہوں گے ( قرطبی) ابن عمر (رض) سے مرفو عا مروی ہے کہ آلم سے المفلحون تک اہل جنت کا ذکر ہے۔ اور پھر عظیم تک اہل دوزخ کا۔ (سلفیہ )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

اولئک علی ھدی من ربھم واولئک ھم المفلحون ، یہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے بتائے ہوئے راستے گر گامزن ہیں جو اس نے اپنی شان ربوبیت سے بتایا ہے کہ اس کی شان ربوبیت کا تقاضا تھا جس طرح بدن کی ضرورتوں کا احساس اور تکمیل کا طریقے ہر ذی روح کو فرمائے اسی طرح روح انسانی کی زندگی اور آرام کے لئے بھی طرق ارشاد فرمادیئے جن لوگوں نے اسے اختیار فرمایا وہی لوگ ہیں جو حقیقی کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ دنیا کا ہر انسان ہر کام میں فلاح اور کامیابی کے لئے کوشاں ہے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ کامیاب ہو مگر لوگوں نے کامیابی وناکامی کے معیار اپنی طرف سے مقرر کر رکھے ہیں۔ جو کسی طور درست قرار نہیں دیئے جاسکتے حقیقی معیار وہ ہے جو اس کائنات کے خالق نے ارشاد فرمایا ہے اور جس کی تعلیم حضرت آدم (علیہ السلام) سے شروع ہو کر ہر دور میں انسانی معاشرے کی راہنمائی کرتی رہی اور بالآخر حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ سلسلہ تمام ہو۔ اگر آپ کی بعثت کے بعد بھی کسی کو ایمان نصیب نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ قبول ایمان کی استعداد ہی نہیں رکھتا اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے ضائع کرچکا ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

ف۔ 1۔ یعنی ایسے لوگوں کو دنیا میں نعمت ملی، کہ راہ حق نصیب ہوتی اور آخرت میں یہ دولت نصیب ہوگی کہ ہر طرح کی کامیابی ان کے لیے ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ایمان کے چھ اوصاف اپنانے اور ان کے تقاضے پورے کرنے والوں کو کامیابی کا مژدہ سنایا جاتا ہے۔ کتاب مبین کے الفاظ اور اس کی ہدایت پر کسی شک وتردد کے بغیر یقین کرنا، قرآن مجید کے بتلائے ہوئے ان دیکھے حقائق پر ایمان لانا، نماز کی شرائط کے مطابق اس کی ادائیگی اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا انفاق، قرآن و حدیث کی صورت میں جو کچھ جناب محمد کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے اسے اعتقاداً ، قولًا اور عملًاتسلیم کرنا، انبیاء کرام (علیہ السلام) اور پہلی کتب آسمانی کی تصدیق کرتے ہوئے آخرت کی جواب دہی پر یقین کامل رکھنے والوں کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ یہی وہ خوش نصیب ہیں جو اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور یہی فلاح و کامیابی سے سر فراز ہونے والے ہیں۔ فلاح کسی ادھوری اور جزوی کامیابی کو نہیں کہتے بلکہ فلاح اس مکمل کامیابی کو کہا جاتا ہے جس کے دامن میں دنیا و آخرت کی سعادتیں اور برکتیں سمٹ آئی ہوں۔ ” لیس فی کلام العرب کلہ اجمع من لفظۃ الفلاح لخیری الدنیا و الاخرۃ کما قالہ ائمۃ اللغۃ .“ [ تاج العروس ] ” ائمہ لغت نے تصریح کی ہے کہ عربی زبان میں فلاح کے لفظ سے زیادہ اور کوئی جامع لفظ نہیں جو دنیا وآخرت دونوں کی خیرات و برکات پر دلالت کرتا ہو۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اور غائب پر ایمان لانا، نماز قائم کرنا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے رزق سے خرچ کرنا۔ ٣۔ قرآن مجید، پہلی کتابوں اور انبیاء کرام پر ایمان لانا۔ ٤۔ آخرت کو یقینی جاننا ایمان کے بنیادی ارکان ہیں۔ تفسیر بالقرآن کامیاب کون ؟ ١۔ ایمان کے تقاضے پورے کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ ( الاعراف : ١٥٧) ٢۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عزت و تکریم کرنے والے کامیاب ہوں گے (الاعراف : ١٥٧) ٣۔ اللہ کے راستے میں مال و جان کے ساتھ جہاد کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (التوبۃ : ٨٨) ٤۔ غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (الروم : ٣٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اُولٰٓءِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ ) (آخر تک) اس آیت میں ان لوگوں کے لیے ہدایت پر ہونے اور کامیاب ہونے کا اعلان فرمایا ہے۔ جن کی صفات پہلے بیان ہوئیں۔ ان کو اس بات کی سند دی گئی کہ یہ ہدایت پر ہیں اور حقیقی اور واقعی کامیابی انہی کو حاصل ہونے والی ہے جو آخرت میں اللہ کی رضا اور دخول جنت کی صورت میں حاصل ہوگی۔ اللہ کی رضا سے بڑھ کر کوئی کامیابی نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

9 ۔ دونوں جگہوں میں اُولٰۗىِٕكَ کا اشارہ مذکورہ بالا صفات کے حاملیں کی طرف ہے۔ ای المتصفون بما تقدم من الایمان بالغیب واقام الصلوۃ والانفاق من الذی رزقہم الخ (تفسیر ابن کثیر ص 44 ج 1) ای الذین ھذہ صفتہم (تفسیر خازن ص 26 ج 1) ای اھل ھذہ الصفۃ (معالم ص 26 ج 1) یعنی جو لوگ مذکورہ صفات سے متصف ہیں دنیا میں وہ سیدھی راہ پر ہیں اور آخرت میں بھی انہیں خاطر خواہ کامیابی ہوگی۔ فان الہدی فی الدنیا والفلاح فی الاخرۃ (روح المعانی ص 125 ج 1) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مفلحون کا تعلق دنیا اور آخرت دونوں سے ہو (تفسیر ابن کثیر ص 44 ج 1) یعنی سیدھی راہ پر چلنے اور کتاب ہدایت پر عمل کرنے کی وجہ سے وہ دنیا میں بھی کامیاب ہوں گے اور آخرت میں بھی وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْن َمیں ھُمُ ضمیر فصل ہے جو حصر اور تخصیص کے معنی پیدا کرتی ہے۔ (تفسیر بیضاوی ص 8 تفسیر مظہری ص 22 ج 1) معتزلہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ مرتکب کبیرہ مخلد فی النار ہے اور اس کے لیے نجات نہیں کیونکہ اس آیت نے فلاح کو مذکورہ صفات والے مومنوں میں محصور کردیا ہے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ جن میں یہ صفات نہ ہوں وہ فلاح سے محروم رہیں گے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں حصر مطلق فلاح کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ فلاح کامل کے اعتبار سے ہے۔ یعنی فلاح کامل تو صرف انہی لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو مذکورہ صفات سے متصف ہوں گے۔ البتہ مطلق فلاح ان کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ جن لوگوں میں بعض عملی خامیاں ہونگی نجات و فلاح تو آخر ان کو بھی حاصل ہوجائے گی۔ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۔ یدل علی انہم الکاملون فی الفلاح فیلزم ان یکون صاحب الکبیرۃ غیر کامل فی الفلاح (تفسیر کبیر ص 257: ج۔۔۔ ) المراد المفلحون الکاملون فی الفلاح ویلزم منہ عدم کمال فلاح من لیس منھم لا عدم الفلاح مطلقاً (تفسیر مظہری ص 22 ج 1 تفسیر بیضاوی ص 8) یہاں تک تو ان لوگوں کا ذکر تھا جنہوں نے کتاب ہدایت کو دل وجان سے مانا اور اسے اپنی زندگی کا دستور العمل بنایا۔ اب آگے دوسری جماعت کا ذکر ہے۔ دوسری جماعت (کفار) یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دعوت حق کو ظاہراً و باطناً ٹھکرا دیا، نہ دل سے مانا نہ زبان سے، بلکہ اپنی پوری طاقت سے اس کی مخالفت کی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1۔ یہی مذکورہ حضرات وہ لوگ ہیں جو اس ہدایت پر قائم ہیں جو ان کے رب کی جانب سے ان کو عطاہوئی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقی مراد اور فلاح پانے والے ہیں۔ ( تیسیر) مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کا اوپر ذکر ہوا ہے خواہ وہ کفار مکہ میں سے ایمان لائے ہوئے یا اہل کتاب میں سے مسلمان ہوئے ہوں بہر حال وہ صفات مذکورہ سے متصف ہوں تو ان کو یہ بشارت ہے کہ وہ دنیا میں بھی ہر قسم کی ہدایت سے بہرہ مند ہیں اور آخرت میں بھی وہ پورے پورے کامیاب ہونیوالے ہیں ۔ فلاح کے معنی کسی چیز کو پھاڑنا یا توڑنا ، اور کھولنا وغیرہ ہے۔ یہاں مراد یہ ہے کہ ایسے لوگوں پر کامیابی کے دروازے کھل جاتے ہیں اور یہ لوگ اپنے مقصد میں کامیاب اور فائز المرام ہونے والے ہیں۔ یعنی جہنم سے بچ کر جنت میں داخل ہونیوالے ہیں ۔ ھدی للمتقین سے لیکر یہاں تک ایمانداروں کا ذکر تھا آگے دو آیتوں میں کافروں کا ذکر ہے۔ ( تسہیل)