Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
فَرَضَ |
يَفْرِضُ |
اِفْرِضْ |
فَارِضْ |
مَفْرُوْض |
فَرْض |
اَلْفَرْضُ: (ض) کے معنی سخت چیز کو کاٹنے اور اس میں نشان ڈالنے کے ہیں۔ مثلاً فَرْضُ الْحَدِیْدِ: لوہے کو کاٹنا فَرْضُ الْقَوْسِ: کمان کا چلہ فَرْضُ الزَّنَدِ: چقماق کا ٹکڑا اور فُرْضَۃُ الْمَائِ کے معنی دریا کا دھانہ کے ہیں اور آیت کریمہ: (لَاَتَّخِذَنَّ مِنۡ عِبَادِکَ نَصِیۡبًا مَّفۡرُوۡضًا) (۴:۱۱۸) میں تیرے بندوں سے (غیر خدا کی نذر دلوا کر) مال کا ایک مقرر حصہ لے لیا کروں گا۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں مفروض کے معنی معین کے ہیں اور بعض نے کاٹ کر الگ کیا ہوا مراد لیا ہے۔ اور فَرَضَ بمعنی ایجاب (واجب کرنا) آتا ہے مگر واجب کے معنی کسی چیز کے بلحاظ وقوع اور ثبات کے قطعی ہونے کے ہیں اور فرض کے معنی بلحاظ حکم کے قطعی ہونے کے۔ قرآن پاک میں ہے: (سُوۡرَۃٌ اَنۡزَلۡنٰہَا وَ فَرَضۡنٰہَا) (۲۴:۱) (یہ ایک) سورۃ ہے جس کو ہم نے نازل کیا اور اس (کے احکام) کو فرض کردیا ہے۔ یعنی اس پر عمل کرنا فرض کردیا۔(1) نیز فرمایا: (اِنَّ الَّذِیۡ فَرَضَ عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ ) (۲۸:۸۵) (اے پیغمبر) جس نے تم پر قرآن (کے احکام) کو فرص کیا ہے۔ یعنی اس پر عمل کرنا تجھ پر واجب کیا ہے اور اسی سے جو نفقہ وغیرہ، حاکم کسی کے لیے مقرر کردیتا ہے اسے بھی فرض کہا جاتا ہے اور ہر وہ مقام جہاں قرآن پاک میں فَرَضَ عَلٰی (علٰی) کے ساتھ آیا ہے۔ اس کے معنی کسی چیز کے واجب اور ضروری قرار دینے کے ہیں اور جہاں۔ فَرَضَ اﷲُ لَہٗ (لام کے ساتھ) آیا ہے تو اس کے معنی کسی چیز سے بندش کو دور کرنے اور اسے مباح کردینے کے ہیں۔ چنانچہ فرمایا: (مَا کَانَ عَلَی النَّبِیِّ مِنۡ حَرَجٍ فِیۡمَا فَرَضَ اللّٰہُ لَہٗ) (۳۳:۳۸) پیغمبر پر اس کام میں کچھ تنگی نہیں جو خدا نے ان کے لیے مقرر کردیا۔ (قَدۡ فَرَضَ اللّٰہُ لَکُمۡ تَحِلَّۃَ اَیۡمَانِکُمۡ) (۶۶:۲) خدا نے تم لوگوں کے لیے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کردیا ہے۔ او رآیت کریمہ: (وَ قَدۡ فَرَضۡتُمۡ لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً ) (۲:۲۳۷) لیکن مہر مقرر کرچکے ہو۔ کے معنی یہ ہیں چونکہ تم ان کے لیے مہر مقرر اور اپنے اوپر لازم کرچکے ہو او ریہی معنی فَرَضَ لَہٗ فِیْ الْعَطَائِ کے ہیں (یعنی کسی کے لیے عطا سے حصہ مقرر کدینا) اسی بنا پر عطیہ اور قرص کو بھی فرض کہا جاتا ہے اور فَرَائِضُ اﷲِ سے مراد وہ احکام ہیں جن کے متعلق قطعی حکمد یا گیا ہے اور جو شخص علم فرائض کا ماہر ہو اسے فَارِضٌ وَفَرَضَیٌّ کہا جاتا یہ۔ قرآن پاک میں ہے: (فَمَنۡ فَرَضَ فِیۡہِنَّ الۡحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوۡقَ ۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الۡحَجِّ) (۲:۱۹۷) تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرے تو حج (کے دنوں) میں نہ عورتوں سے اختلاط رکھے نہ کوئی برا کام کرے اور کسی سے جھگڑے۔ یعنی جس نے فریضہ حج کو اپنے اوپر لازم کرلیا ہو اور اس کی پختہ نیت کرلی ہو۔ یہاں پر فرض کی نسبت انسان کی طرف کرنے میں اس بات پر دلیل ہے کہ اس وقت مقرر کرنا انسان کا کام ہے (کہ میں امسال حج کروں گا یا آئندہ سال) اور زکوٰۃ میں جو چیز وصول کی جاتی ہے اس پر بھی فریضہ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡعٰمِلِیۡنَ عَلَیۡہَا وَ الۡمُؤَلَّفَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الۡغٰرِمِیۡنَ وَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللّٰہِ) (۹:۶۰) صدقات (یعنی زکوٰۃ و خیرات) تو مفلسوں … کا حق ہے (یہ) خدا کی طرف سے مقرر کردئیے گئے ہیں۔ اسی بنا پر مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اپنے ایک عامل کی طرف خط لکھا اور اس میں ارقام فرمایا (2) (۶۷) (ھٰذِہٖ فَرِیْضَۃٌ الصَّدَقَۃِ الَّتِیْ فَرَضَھَا رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ) کہ یہ یعنی جو مقادیر لکھی جارہی ہیں فریضہ زکوٰۃ ہے۔ جو رسول اﷲ ﷺ نے مسلمانوں پر فرض کیا ہے۔ اَلْفَارِضُ: عمررسیدہ گائے یا بیل۔ قرآن پاک میں ہے: (لَّا فَارِضٌ وَّ لَا بِکۡرٌ) (۲:۶۸) نہ بوڑھا ہو اور نہ بچھڑا۔ بعض نے کہا ہے کہ بیل کو فارض اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کو پھاڑتا یعنی جوتنا ہے اور یا اس لیے کہ اس پر سخت کاموں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے اور یا اس لیے کہ گائے کی زکوٰۃ میں تبیع اور مُسِنَّۃ لیا جاتا ہے اور تبیع کا لینا تو بعض حالتوں میں جائز ہوتا ہے اور بعض احوال میں ناجائز لیکن مُسِنَّۃ کی ادائیگی ہرحال میں ضروری ہوتی ہے اس لیے مُسِنَّۃ کو فَارِضَۃٌ کہا گیا ہے اس توجیہ کی بنا پر فَارِضٌ کا لفظ مصطلحات اسلامیہ سے ہوگا۔
Surah:2Verse:68 |
بوڑھی
old
|